پوسٹ تلاش کریں

مشرف کیساتھ ڈیل کی طرح نواز شریف عدالتی فیصلے پر خوش اور شرمندہ ہیں، اشرف میمن

panama-leaks-pakistan-pervez-musharraf-hudaibiya-paper-mill-hazrat-umar-hazrat-abubakar-syed-atiq-ur-rehman-gilani

نوشتۂ دیوار کے پبلشراشرف میمن نے کہا کہ جمہوری نظام شخصیت پرستی نہیں مشاورت سے امور طے کرنے کا نام ہے۔ نوازشریف کے جو مالی سکینڈل میڈیا پرآئے۔کچھ اخلاقی قدریں ہوتیں تو شریف فیملی کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہ تھی، اقامہ کی ملازمت ہم جیسا بھی وقار کیخلاف سمجھے ۔بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ لینے کی بات بھی بے شرمی ہے۔ مغربی جمہوریت سے بڑھ کر ہمارا اسلامی نظام ہے۔ شکست میں صحابہؓ کے پیر اکھڑ گئے، فرمایا: ومامحمد الا رسول قد خلت من قبلہ رسل فان مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم ’’اورمحمد کیا ہیں؟۔مگرایک رسول ، آپ سے پہلے بھی رسول گزر چکے ، اگر آپ فوت ہوں یا قتل کیا جائے تو کیا تم الٹے پاؤں پھروگے‘‘۔ حضرت عمرؓ نے تلوار اٹھائی جوکہے کہ آپﷺ کا وصال ہوا تو اسکی گردن اڑادوں گا، حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ جو محمد ﷺ کی عبادت کرتا تھا تو آپﷺ فوت ہوچکے، جو اللہ کو پوجتا ہے تو وہ زندہ اورپر موت طاری نہیں ہوتی۔ صحابہؓ کی حددرجہ عقیدت اور نظریاتی پختگی نے دنیا میں عرو ج پر پہنچادیا۔ کوئی نااہل وزیراعظم سے پوچھتا، پارلیمنٹ میں کہاکہ سعودیہ کی فیکٹری بیچ کرلندن فلیٹ خریدلئے جسکے تمام ثبوت موجود ہیں۔ اگر عدالت میں پیش نہ کرسکے تو کارکنوں کو بتادو۔ بیٹے سے تنخواہ نہ لینا ثبوت ہے کہ باپ بیٹے میں مالی تفریق نہیں۔ اقامہ نہ کاروبار بلکہ کالا دھن سفید کرنیکا دھندہ تھا۔ ٹرائل میں تیرا کیا بنے گا؟، کالیا!۔ میڈیا اپنے پیسے سے تجھے ماردیگی ۔
بقیہ نمبر1 : نوازشریف کا کردار: اشرف میمندانیال ، طلال ، گلوبٹ، مولانا فضل الرحمن، میر شکیل الرحمن کو نوازشریف سے کیا عقیدت ہے؟۔ روزروزپارٹی ،موقف اورقبلے بدلنے والوں سے توقعات وابستہ رکھی جاسکتی ہیں؟۔
جمہوریت کیلئے مغرب کی طرف نہ دیکھو۔ اسلام جمہوری عمل کا بڑابنیادی ڈھانچہ ہے۔ نبیﷺ چچازاد و داماد حضرت علیؓ کو اپنا جانشین مقرر کرنا چاہتے تھے۔ خفیہ نہیں کھلم کھلا اعلان کردیا :من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ ’’جس کا میں مولا ہوں یہ علی اسکا مولیٰ ہے‘‘۔
شیعہ سمجھتے ہیں کہ رسول ﷺ پر یہ وحی تھی ۔ وماینطق عن الھوی الا وحی یوحیٰ ’’آپ اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کرتے مگر جو وحی کی جاتی ہے‘‘۔ شیعہ نے مغالطہ کھایا ہے۔ اللہ کاحکم تھا کہ وشاور ھم فی الامر ’’ان سے خاص امر میں مشاورت کریں‘‘۔
علیؓ کامولیٰ ہونا وحی نہیں ۔ آپﷺ کی یہ خواہش ضرور تھی جس کا برملا اعلان کردیا۔ پھر نبیﷺ نے قلم اور کاغذ منگواکر فرمایا کہ ’’ میں ایسی وصیت لکھ دیتا ہوں کہ میرے بعد گمراہ نہ ہوگے‘‘۔ حضرت عمرؓ نے کہاکہ ’’ ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے‘‘۔ علاوہ ازیں نبیﷺ نے فرمایا: میں تمہارے اندر دو بھاری چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جب تک ان کو مضبوطی سے تھاموگے کبھی گمراہ نہ ہوگے، ایک قرآن اور دوسرے میرے اہلبیت‘‘(مسلم، ترمذی)
رسول اللہﷺ کے وصال پر قریب تھا کہ انصار وقریش میں خلافت پر جھگڑا ہوجاتا۔ حضرت ابوبکرؓ ہنگامی بنیاد پر منتخب ہوئے۔ آپؓ نے حضرت عمرؓ کواپنے بعد نامزد کردیا۔ شوریٰ نے حضرت عثمانؓ کو نامزد کردیاتھا اور حضرت علیؓ کے وقت حالت بہت بگڑچکی تھی۔ حضرت حسنؓ دستبرداراور حضرت حسینؓ نے کربلا میں شہادت پائی۔ حضرت علیؓ کی سخت اپوزیشن اُمّ المؤمنین حضرت عائشہؓ نے کی۔ حضرت امام حسنؓ نے خود مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کو اکٹھا کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ یہ اسلامی جمہوری معاشرے کی بنیاد تھی کہ عوام کا دل رسول اللہﷺ کی عقیدت سے لبریزتھا مگر خلافت راشدہ کااقتدار متفرق شخصیات اور مختلف قبائل سے تعلق رکھنے والے حضرات کے ہاتھ میں رہا۔ جوں جوں اسلام کی روح اُمت کی اجتماعیت سے نکلتی چلی گئی توں توں آمر کے خانوادے بنو امیہ، بنو عباس اور عثمانی خلافت کی شکل میں آگئے۔ علماء ومشائخ نے بھی اسلام سے دور ہوکر نالائق نا خلف اولاد کو اپنا جانشین بنانا شروع کردیا۔نبیﷺ نے علم کی میراث چھوڑی، مدینہ العلم کا باب بہترین قاضی کاخانوادہ بھی مسند سے محروم رہاتھا۔
مسجد،مدرسہ، خانقاہ ،مذہبی، سیاسی اور سماجی تنظیمیں اور جماعتیں شخصی ملکیت نہیں خاندانی تسلط کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ سید ابوالاعلی مودودیؒ نے جماعت اسلامی کو موروثی رنگ نہیں دیا۔ دارالعلوم دیوبند میں بھی موروثی نظام نہیں۔ قاری طیبؒ نے بیٹے مولانا سالم قاسمی کو مہتمم نامزدکیا تومزاحمت ہوئی پھردارالعلوم دیوبند بٹ گیا۔ تبلیغی جماعت مولانا الیاسؒ کے بعد مولانا یوسفؒ نہیں مولانا احتشام الحسنؒ ؒ کوامیر بنادیتی تو تبلیغی جماعت انقلاب لاچکی ہوتی۔ اب حاجی عبد الوہاب کا مولانا الیاسؒ کے پوتے یا پڑپوتے سے جھگڑابھی چل رہاہے۔
مذہبی وسیاسی جماعتوں ، مدارس، مساجد، خانقاہوں ، سماجی تنظیموں میں خلافتِ راشدہ کے طرز پر تبدیلی آجائے تو بہتری آسکتی ہے۔ رسول ﷺکے اہلبیت سے بہتر خانوادہ تھا؟، مگر حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کا تعلق بنی ہاشم سے نہیں تھااور مشکل صورتحال میں حضرت علیؓ ، حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ نے کردار ادا کیا۔پاکستان میں مذہبی وسیاسی جماعتوں اور اداروں کا رول ماڈل اسلام ہو۔
شریف خاندان کو مشکل کا سامنا تھا تو جاوید ہاشمی نے قربانی دی۔ نواز شریف نظریاتی ہے تو سیدیوسف رضا گیلانی کیخلاف کیوں گیا تھا ؟ اب کیا اسٹیبلشمنٹ کی خواہش پر شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم بنایا گیا یا یہ بھائیوں کا جھگڑا ہے۔ فوج کے ترجمان آئی ایس پی آر کو باقاعدہ وضاحت کرنا چاہیے کہ سیاست ن لیگ یا ش لیگ کا داخلی معاملہ ہے۔مشہور ہے کہ خوشحال خٹک سے اسکی ماں نے کہا تھا کہ بیٹا تیری زبردست شخصیت ہے لیکن اگر قد تھوڑا سا لمبا ہوتا۔ خوشحال نے اس کا یہ جواب دیا کہ ماں جی! میرا قد بالشت بھر مزید چھوٹا ہوتا لیکن کسی خٹک سے مجھے نہ جنا ہوتا۔کیا خواجہ آصف بھی کہے گا کہ’’ جتنی بھی پاک فوج کی مخالفت میں سر پھوڑی کروں مگر بات نہیں بنتی اسلئے کہ ماں نے اس باپ سے جننا، جو جنرل ضیاء کے شوریٰ کا چیئرمین تھا۔ میراقائد نوازشریف ہے جس کی ہڈیوں کا گودا بھی مارشل لائی ہے ، چوہدری نثار کا دوست شہبازشریف مسلط کردیا ۔ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔ جیو اور چاپلوس صحافی ہمیں کتنا دھکیل دیں، عاصمہ جہانگیر کم بخت مرتی بھی نہیں، انوشہ اور تہمینہ کی چوڑیاں نواز اور شہباز کو پہنادو مگر سچ نہ بولیں گے ۔ معاہدہ کرکے سعودیہ جانے پر خوش اور شرمندہ تھے تو اب بھی وہی تاریخ دہرائی جارہی ہے‘‘۔
خواجہ آصف منہ پھٹ قائد کو کھری کھری سنائے تو تاریخ بدل سکتی ہے۔ ایمان ،اسلام ، پاکستان اور سیاستدان کا یہی تقاضہ ہے۔

ترجمان اسلام میں سیٹھو سے رقم لیکر حلالہ کرنیوالے مولویوں کے نام شائع ہوئے. قاری گل رحمان

qari-gul-rahman-maulana-ghulam-ghaus-bakhsh-hazarvi-molana-diesel-jamiat-ulema-e-islam-tarjuman-e-islam
کراچی (عبد الکریم ، محمد منیر) قاری گل رحمان ، سابق ایم این اے متحدہ مجلس عمل نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ آپ کا رسالہ ’’تین طلاق سے رجوع کا خوشگوار حل‘‘ اور اخبار نوشتۂ دیوار پڑھ کر دل صاف ہوتا ہے اور دماغ خوشگوار ہوتا ہے۔ میں کوئی عالم تو نہیں ہوں مگر علماء کی خدمت میں رہا ہوں۔ علماء بڑے لوگوں کیلئے اسپیڈ بریکر ہیں جسے چاہتے ہیں ٹھوکر مار دیتے ہیں۔ علامہ غلام غوث ہزاروی صاحبؒ فرمایا کرتے تھے اور کراچی کے بڑے بڑے مولویوں کے نام بتایا کرتے تھے کہ وہ بڑے سیٹھوں سے رقم وصول کرکے ان کی بیویوں سے خود حلالہ کرتے تھے۔
اور دو دو تین تین دن اپنے پاس رکھ کر اچھی خاصی رقم بٹورتے تھے۔ ہفت روزہ ’’ترجمان اسلام‘‘ کے پرانے رسالوں میں ان مولوی حضرات کے نام بھی انہوں نے شائع کئے ہیں جو کہ جمعیت علماء اسلام کا رسالہ ہے۔ حلالے کی رقم وصول کرنا مولویوں کا ایک زبرست ٹوٹکا ہے۔ شاہ صاحب اور آپ لوگ میدان میں آئے ہیں جس سے دل بہت خوش ہوتا ہے۔ آج کل کے مولوی مہینے کے مہینے تنخواہ لیتے ہیں ان کو پڑھنے پڑھانے سے کوئی غرض نہیں اور جو مولوی پڑھاتے ہیں وہ کسی حد تک علم سیکھنے سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ حلالہ پیسے والے لوگ اور پیسے والے مولویوں کا کھیل ہے۔ درمیانہ اور غریب طبقے کا آدمی حلالہ کرانے پر کبھی راضی نہیں ہوتا۔ آپ کے اخبار جو کہ ماہوار ہیں اسے ہفت روزہ ہونا چاہیے۔ جس میں زیادہ لمبی چوڑی تفصیلات لکھنے سے گریز کرتے ہوئے مختصر اور جامع طریقے سے بات سمجھانے کی کوشش ہو تو بہتر ہوگا۔ میں نے آپ کے اخبار اور رسالے کے ذریعے سے کافی گھروں کو طلاق کی صورت میں جدا ہونے سے بچایا ہے۔

طلاق سے رجوع کیسے ہوسکتاہے؟،مفتی صاحب!

mufti-taqi-ruju-fatwa-hazrat-umer-hazrat-ali-imam-abu-hanifa-halala-teen-talaq-triple-talaq-quran-syed-atiq-ur-rehman-gailani
اس بات کی وضاحت کردیتا ہوں کہ شوہر نے اگر اکٹھی تین طلاق دیں تو میرا یہی فتویٰ ہوگا کہ طلاق واقع ہوچکی اور شوہر کو یکطرفہ رجوع کا حق نہیں، اسکے برعکس فتویٰ دینا بالکل 100فیصدغلط ہوگا کہ شوہر رجوع کرسکتا ہے اسلئے کہ قرآن وسنت ، خلفاء راشدینؓ، صحابہ کرامؓ، ائمہ مجتہدینؒ اورعلماءِ حق کا یہ متفقہ فیصلہ بھی ہے اور فتویٰ بھی ہے کہ شوہریکطرفہ رجوع کا حق کھودیتاہے۔
مگر کیا ایک ساتھ تین طلاق کے بعد حلالہ کی شرط پر رجوع ہوسکتا ہے؟۔ اگر قرآن وسنت اور خلفاء رشدینؓ، صحابہؓ و ائمہ مجتہدینؒ کی طرف سے کوئی ہلکا سااشارہ بھی کوئی بتادے تو میں اس کاقائل ہوجاؤں گا۔کسی آیت میں نہیں کہ ایک ساتھ تین طلاقیں دیدیں تو عدت تک انتظار کرنا پڑے گا اور پھر حلالہ کی خدمات کیلئے فتویٰ اور اس لعنت میں منہ کالا کرنے کی ضرورت پڑے گی۔
بلکہ اسکے بالکل برعکس اللہ تعالیٰ نے ڈھیر ساری آیات میں وضاحت کردی ہے کہ عدت میں باہمی صلح کی شرط اور معروف طریقے سے رجوع ہے۔ ایک طرف قرآن میں بار بار وضاحت ہو کہ صلح کی شرط پر عدت میں رجوع ہوسکتا ہے ، عدت کی تکمیل پر معروف طریقے سے رجوع ہوسکتا ہے، معروف طریقے سے رجوع کرو، معروف طریقے سے رجوع کرسکتے ہو اور معروف طریقے سے رجوع کرسکتے ہو لیکن دوسری طرف قرآن کی ڈھیر ساری آیات کے واضح مطلب کو چھوڑ کر کسی کی منکوحہ کو مفتی اپنے فتویٰ کے ذریعے شکار کرنا چاہتا ہو۔ حنفی مسلک کے اندر عدت میں نکاح باقی رہتاہے لیکن حنفی مسلک کے مفاد پرست علماء ومفتیان قرآن کے برعکس فتویٰ دیں کہ صلح اور معروف طریقے سے بھی رجوع نہیں ہوسکتاہے تو یہ قرآن سے بہت بڑی اور کھلی بغاوت ہے ۔
جہاں تک احادیث صحیحہ کا تعلق ہے تو احادیث کے ذخیرے میں کوئی ایک بھی ایسی حدیث نہیں کہ جس میں یہ فتویٰ دیا گیا ہو کہ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد حلالہ کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا۔ کوئی حدیث قرآن کیخلاف کیوں ہوتی؟ اور اگر بالفرض ہوتو بھی قرآن کے مقابلہ میں ناقابلِ عمل ۔ یہی تو درسِ نظامی کی تعلیم ہے۔ جب ذخیرۂ احادیث میں ایسی حدیث نہیں کہ جس میں ایک ساتھ کی تین طلاق کو ناقابلِ رجوع قرار دیا گیا ہو یا حلالہ کے ذریعے رجوع کا حکم ہو تو پھر کتنا بڑا ظلم ہے کہ اسکے برعکس فتویٰ دیاجائے کہ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد حدیث کی رو سے حلالہ کرنا لازم ہے؟۔
اصولِ فقہ کی تعلیم کا بنیادی تقاضہ ہے کہ فتویٰ قرآن وحدیث کے مطابق دیا جائے۔ صحابہؓ نے قرآن وسنت کو اپنی پہلی ترجیح بنالیا تواللہ نے چند سوسال تک مسلمانوں کو دنیا کے اقتدار کے قابل بنادیا۔ بنی امیہ و بنی عباس کے بعد خلافت عثمانیہ بڑے عرصہ تک چلی۔1924ء میں خلافت کا خاتمہ کرکے کمال اتاترک نے نئی ریاست کی بنیاد رکھ دی۔بنی امیہ، بنی عباس اور خلافت عثمانیہ کے علاوہ مغلیہ سلطنت ، عرب بادشاہت اور جمہوری ادوار میں کبھی کوئی عالم ومفتی حکمران نہ بن سکا ، اس کی بنیادی وجہ مُلاؤں کی قرآن وسنت کے احکام سے روگردانی ہے۔علماء درباری بن کر قرآن وسنت کا حلیہ نہ بگاڑتے تو مسلم اُمہ کبھی زوال کا ایسا شکار نہ بنتی۔ دوبارہ عالمی خلافت قائم ہوگی ۔قرآن وسنت کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ اگر علماء ومفتیان جانے بوجھے بھی قرآن وسنت کیخلاف فتوے دینگے اور لوگوں کی عزتوں سے کھیلیں گے تو خود بھی ذلت سے دوچار ہونگے اور امت مسلمہ کو بھی دوچار کردیں گے۔ اللہ نے استدراج کا ذکر بھی فرمایا، اپنی ظاہری ترقی کو انعام نہ سمجھیں۔ مفتی تقی عثمانی کے گھر کی خواتین کو بھی سکون نہیں ملا ہے۔وممن خلقنا اُمۃ یھدون بالحق وبہ یعدلونOوالذین کذبوا باٰ ےٰتنا سنستدرجھم من حیث لایعلمونOواُملی لھم ان کیدی متینOاولم یتفکروا مابصاحبہم من جِنۃ ان ھو الا نذیر مبینO اولم ینظروا فی ملکوت السمٰوٰت والارض وماخلق اللہ من شئی وان عسٰی ان یکون قد اقترب اجلھم فبای حدیث بعد یؤمنونOمن یضلل اللہ فلا ھادی لہ ویذرھم فی طغانھم یعمھونO ’’اورجن کو ہم نے پیدا کیا ،ان میں ایک جماعت حق سے ہدایت لیتے ہیں اور اسی سے فیصلہ کرتے ہیں اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا، ہم بتدریج لے جائیں گے کہ ان کو خبر بھی نہیں ہوگی۔ اور میں ان کو ڈھیل دوں گا اور میرا داؤ مضبوط ہے۔ کیا وہ غور نہیں کرتے کہ ان کے صاحب (ﷺ) کو کچھ جنون نہیں مگر وہ کھلا ڈرانے والاہے۔کیا وہ نہیں دیکھتے کہ زمیں و آسمان کی بادشاہی اور جو اللہ نے پیدا کیا ہے اس میں کوئی چیز؟۔ اور شاید قریب آگیا ہے ان کے وعدے کاو قت۔ پھر اس کے بعد وہ کس حدیث(بات) پر ایمان لائیں گے؟۔ جس کو اللہ گمراہ کردے، تو اس کیلئے ہدایت دینے والا کوئی نہیں ہے۔ اللہ نے چھوڑ رکھا ہے، کہ وہ اپنی سرکشی کے اندھے پن میں ہچکولے کھائیں‘‘۔
جب مشرکینِ مکہ نے اپنی جہالت کا تسلسل کیساتھ مظاہرہ کیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈھیل کا وقت ختم ہوگیا اور فتح مکہ کے بعد خلافت راشدہؓ اور اسکے بعد آج تک انکا نام ونشان بھی مٹ گیا۔ صحابہ کرامؓ اور خلفاء راشدینؓ نے حق اور ہدایت کی رہنمائی سے دنیا کو فتح کرلیا۔ اسلام سے پہلے عورت غلامی سے بھی بدتر زندگی گزارتی تھی۔ قرآن وسنت میں بیوی کو خلع کا حق دیا گیا، طلاق کے بعد بھی صلح کی شرط پر معروف رجوع کا حق دیا گیا۔ حضرت عمر فاروق اعظمؓ جب مسندِ خلافت پر جلوہ افروز تھے تو اس سے پہلے یہ معمول تھا کہ تین طلاق کا تعلق عدت کے تین مراحل طہرو حیض سے ہوتا تھا۔ جس کی قرآن وسنت میں وضاحت تھی۔ کوئی ایک ساتھ تین طلاق دیتا تب بھی ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھی۔ قرآن وسنت کے مطابق یہ معمول تھا کہ عدت تک عورت انتظار کرنے کی پابند تھی اور باہمی رضامندی سے رجوع کا دروازہ کھلا رہتا تھا۔
جب میاں بیوی آپس میں باہمی رضامندی سے صلح کریں یا رشتہ دار ان کو صلح پر آمادہ کرلیں تو خوش اسلوبی اور معروف طریقے سے رجوع کرنے پر کوئی کس طرح سے اعتراض کرسکتا تھا۔ ایک خاتون نے تین طہرو حیض کے آخری حیض میں شوہر کا گھر چھوڑ دیا تو اعتراض ہوا کہ اس نے غلطی کی ہے۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ ’’ اس نے ٹھیک کیا ہے ، انتظار کے تین قروء سے مراد اطہار یعنی پاکی کے ایام کی تین مدتیں مراد ہیں‘‘۔ طلاق سے رجوع کیلئے فتویٰ فروش نہیں بیٹھے تھے جن سے رہنمائی طلب کی جاتی بلکہ قرآن وسنت صحابہ کرامؓ کے ماحول ہی کا اہم حصہ تھا۔زندگی کا محور قرآن وسنت کا منشور تھا۔
جب میاں بیوی کے درمیان علیحدگی طلاق کا مسئلہ چل رہا ہو تو سب سے زیادہ اہمیت میاں بیوی کی اپنی رائے، چاہت اور لائحہ عمل کی ہوتی ہے لیکن جب معاشرے کو یہ احساس ہوجائے کہ ان دونوں کے درمیان تفریق کا خطرہ ہو تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ایک فیصل شوہر کے خاندان سے اور ایک فیصل بیوی کے خاندان سے تشکیل دو، اگر ان دونوں کا ارادہ اصلاح کرنے کا ہو تو اللہ ان دونوں میں موافقت پیدا کر دے گا۔ جب تک معاملہ صلح اور اصلاح کی حد تک رہتا ہے تو اس کا تعلق معاشرتی معاملات سے ہوتا ہے۔ میاں بیوی صلح کریں یا معاشرہ اس میں کردار ادا کرے تو بات حکومت تک نہیں پہنچتی ہے۔
اسلام دینِ فطرت ہے ، قرآن وسنت نے صحابہ کرامؓ کو اس فطری دین کی بدولت تاریخ ساز عروج عطا فرمایا جس کی بازگشت ابھی تک دنیاکے اندر موجود ہے۔ قرآن وسنت اور مسلمانوں کی بدولت عورت کے معاملے میں دنیا بدل گئی اور’’ میاں بیوی راضی تو کیا کریگا قاضی‘‘ کی کہاوت نے حقیقت اور قانون کا روپ دھارلیا۔ جب حضرت عمرؓ کے دربار میں ایک شخص نے فریاد کی کہ اس نے تین طلاق ایک ساتھ دئیے ہیں ، اپنی بیوی کو واپس لوٹانا چاہتاہے تو سب سے واضح بات یہ ہے کہ اگر میاں بیوی آپس میں راضی ہوتے تو پھر وہ حضرت عمرؓ کے پاس کیوں آتا؟۔ ظاہر بات ہے کہ عورت صلح کیلئے راضی نہ تھی اور تمام حربے آزمانے کے بعد بات حکومتِ وقت سے مدد لینے تک پہنچی تھی۔
حضرت عمرؓ نے قرآن وسنت اور عقل وفطرت کے خلاف فیصلہ نہیں دینا تھا اور آج بھی دنیا کی ہر عدالت وہی فیصلہ دے گی جو قرآن وسنت اور حضرت عمرؓ نے دیا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ وبعولتھن احق بردھن فی ذلک ان ارادوا اصلاحا ’’ اور انکے شوہر ہی اس مدت میں ان کو لوٹانے کا حق رکھتے ہیں بشرط یہ کہ اصلاح کرنا چاہتے ہوں‘‘۔ جب تنازعہ چل رہا ہو تو اصلاح کی کیا بات ہوسکتی ہے۔ جب قرآن تنازع کی صورت میں رجوع کا حق شوہر کو نہیں دیتاہے تو حضرت عمرؓ نے کیسے دینا تھا؟۔ حضرت عمرؓ نے نہ صرف قرآن کی بات پر عمل کرکے شوہر کو رجوع کا حق نہیں دیا بلکہ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد جو رنجیدہ صورتحال پیدا ہوئی تھی اس پر بھی فرمایا کہ آئندہ کوئی ایک ساتھ تین طلاق دے گا تو اس کو سخت سزابھی دی جائے گی۔
جب حضرت عمرؓ نے یہ فیصلہ کردیا تو حضرت علیؓ نے اس کی تائید فرمادی کہ حضرت عمرؓ کا فیصلہ درست ہے، کوئی شخص ایک ساتھ تین طلاق دیتاہے تو وہ اپنا حق کھو دیتاہے، پھر عورت رجوع پر راضی نہیں ہو تو وہ رجوع نہیں کرسکتاہے۔ اور ساتھ میں یہ وضاحت بھی کردی کہ ’’ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد باہمی صلح سے رجوع کا دروازہ بند نہیں ہوتا بلکہ قرآن کے مطابق رجوع کرسکتے ہیں‘‘۔ افسوس کہ کم عقل علماء ومفتیان اور حلالہ کی ہوس میں مبتلاء رہبروں نے سمجھا تھا کہ حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کے درمیان کوئی تضاد پایا جاتاہے بلکہ حضرت علیؓ کے اپنے مؤقف میں بھی کھلا تضاد سمجھتے تھے، حالانکہ حقیقت میں تضاد نہ تھا۔
دنیا کی کسی قوم کیلئے بھی قرآن وسنت اور خلفاء راشدینؓ کا یہ قانون بہت زبردست ہے کہ طلاق کے بعد عدت میں باہمی رضا اور صلح کے بغیر رجوع کا دروازہ بند ہو۔ البتہ جن معاملات کی وجہ سے بگاڑ پیدا ہورہاہو، جو علیحدگی کے باعث ہوں، شکایات کے ازالے اور اصلاح کی شرط پر رجوع کی گنجائش ہو۔
اللہ نے اہل کتاب کو مخاطب کیا کہ ’’دین میں غلو نہ کرو‘‘۔ علامہ تراب الحق قادریؒ نے رمضان میں تقریر کی تھی ’’ روزے میں جب لیٹرین کیا جائے تو مقعد کے اندر کا حصہ نکلتاہے جو پھول کی طرح ہوتاہے، وہ پھول دھویا جائے تو کپڑے سے خشک کیا جائے ، خشک کئے بغیر اگر وہ پھول اندر داخل ہوا تو روزہ ٹوٹ جائیگا‘‘۔ ہم نے یہ خبر اپنے اخبار میں لگائی تھی، دعوتِ اسلامی کے مبلغ کی ویڈیو دستیاب ہے کہ ’’ روزے میں استنجاء کرتے ہوئے کھل کر نہ بیٹھو اور سانس زورسے نہیں آہستہ لو، ورنہ پانی اندر داخل ہوگا، روزہ ٹوٹ جائیگا‘‘۔
الم ےأن للذین اٰمنوا ان تخشع قلوبھم لذکر اللہ وماانزل من الحق ولا یکونوا کالذین اوتواالکتٰب من قبل فطال علیھم الامد فقست قلوبھم وکثیر منہم فٰسقونO اعلمواان اللہ یحی الارض بعدموتھا قد بیّیّنا لکم الاٰےٰت لعلم تعقلونO ان المصدقین والصدقٰت واقرضوا اللہ قرضاًحسناً یضٰعف لہم و لھم اجر کریمOوالذین اٰمنواباللہ و رسلہ اولئک ھم الصدیقون الشہداء عند ربھم لھم اجرھم ونورھم والذین کفروا و کذبوا باٰےٰتنا اولئک اصحاب الجحیمO ۔۔۔ ۔۔۔
’’ کیا وہ وقت نہیں آیا کہ ایمان والوں کے دل اللہ کی یاد میں گڑ گڑائیں؟۔ اور جو اللہ نے حق نازل کیا ( اس کی طرف متوجہ ہوکر اس کو قبول کرلیں)؟۔ اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوں جن کو کتاب میں ملی تھی پہلے۔ پھر ان پر بڑی عمر گزر گئی ،تو سخت ہوگئے ان کے دل ، اور ان میں اکثر فاسق تھے۔ جان رکھو کہ بیشک اللہ زندہ کرتا ہے زمین کو اسکے مرجانے کے بعد۔ ہم تمہارے لئے کھول کرواضح کرتے ہیں آیات تاکہ تم عقل سے کام لو۔ بیشک قربانی دینے والے مردوں اور خواتین اور جو اللہ کو قرضِ حسنہ دیتے ہیں اللہ تعالیٰ اس کو ضرب دیکر بڑھاتا ہے اور ان کیلئے عزت کا بدلہ ہے۔ جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں ، یہی لوگ صدیقین اور شہداء ہیں اللہ کے نزدیک۔ ان کیلئے ان کا اجر بھی ہے اور ان کا نور بھی ہے۔ اور جولوگ کفر کریں اور ہماری آیتوں کو جھٹلا دیں تو وہ لوگ جہنم والے۔ جان رکھو کہ بیشک دنیا کی زندگی کھیل ، لہو ، زینت اور آپس میں ایکدوسرے پر تفاخر اور اموال واولاد میں بہتات کی باتیں ہیں، اس کی مثال بارش کی ہے جو اچھی لگتی ہے کفار کو، اس کا سبزہ ہے، پھر زور پکڑتاہے، پھر آپ دیکھتے ہو کہ زرد ہوگیا اور پھر ہوجاتا ہے روندا ہوا گھاس۔ اور آخرت میں سخت عذاب ہے اوراللہ کی طرف سے مغفرت اور رضامندی۔ اور دنیا کی زندگی کیا ہے مگر غرور کی گزر بسر۔ دوڑو، اپنے رب کی معافی کی طرف اور جنت کی طرف جس کا عرض آسمان وزمین کے عرض کی طرح ہے۔ جو تیار کی گئی ہے ،ان لوگوں کیلئے جو اللہ اور اسکے رسولوں پر ایمان لائے۔ یہ اللہ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے ،دیدیتاہے اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔ کوئی مصیبت نہیں پڑتی زمین میں اور نہ تمہاری جانوں میں مگر پہلے سے کتاب میں ہے جس کو ہم صورتحال میں پیدا کردیتے ہیں۔ اور یہ اللہ پر آسان ہے۔ یہ اسلئے تاکہ تم افسوس نہ کرو کہ جس کو تم کھو چکے ہواورتاکہ فخر نہ کرو جو اللہ نے دیا ہے۔اور اللہ پسند نہیں کرتا ہے ہر فخر کرکے اترانے والے کو ۔جو خود بھی بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو بھی بخل کرنے کا حکم دیتے ہیں‘‘۔(سورہ الحدید)
ان آیات میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی نشاندہی ہے۔ جس وقت تمام مسلمان اللہ کے احکام کی طرف متوجہ ہوئے اور دنیاوی زندگی کی لہوولعب، زینت اور آپس کے تفاخر کو چھوڑ کر اللہ کی طرف متوجہ ہوئے۔ اہل کتاب کی روش کو چھوڑ دیا تو مسلمانوں کی دواقسام ہوں گی۔ ایک قسم وہ ہوگی جن کے ذریعے اللہ نے اپنے دین کو زندہ کیا ہو اور دوسرے وہ ہوں گے جنہوں نے بعد میں اس مشن کو اپنایا ہو۔ دونوں میں سے سبقت لے جانے والوں کو بھی اپنے کردار پر فخر کی ضرورت اسلئے نہیں کہ اس میں ان کا کوئی ذاتی کمال نہیں، محض اللہ کی عطا ہے، جس کا فیصلہ پہلے سے تقدیرالٰہی میں ہوچکا تھا۔ اور جن لوگوں نے پہلے کردار ادا نہیں کیا وہ بھی اس پر افسوس نہ کریں جو وہ کھوچکے ہیں۔ دونوں طبقات میں کوئی چیز قابلِ فخر اور اترانے کی نہیں ہے۔ رائٹر نے جو اسکرپ لکھ دی تھی اس کو اللہ نے منصہ شہود پر لانا تھا۔ مخالفین کی طرف سے مخالفت کا حق ادا نہ کیا ہوتا اور حق کا علمبردار طبقہ اپنے مؤقف پر ڈٹا نہ رہتا تو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کیلئے دنیا میں حالات کبھی نہ بنتے۔ یہ اللہ کی اپنی حکمتِ عملی تھی جس کا ظہور ہوگیا۔مگر جولوگ فخر سے اتراتے ہیں اور خود بھی بخل سے کام لیتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخل کا حکم دیتے ہیں۔ یہ لوگ ناپسندیدہ اور اسلام کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے سورۂ واقعہ میں بھی اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی خبر دی۔ لوگوں کی تین اقسام کا ذکر فرمایا ہے، دائیں جانب والے،بائیں جانب والے اور سبقت لے جانے والے۔سبقت لے جانوں والے پہلوں میں بہت اور نشاۃ ثانیہ میں کم ہونگے۔ دائیں جانب والے پہلے میں بھی بڑی جماعت ہوگی اور آخر والوں میں بھی بڑی جماعت ہوگی۔ تینوں کی تفصیلات بھی بیان کی گئی ہیں۔ سورۂ الحدید میں پہلے وضاحت فرمائی ہے کہ لایستوی منکم من انفق من القبل الفتح وقٰتل اولئک اعظم درجۃ من الذین انفقوا من بعد وقٰقلوا وکل وعداللہ الحسنٰی واللہ بماتعلون خبیرO ’’ برابر نہیں جنہوں نے فتح سے قبل خرچ کیا اور لڑائی لڑی ، ان لوگوں کا بڑا درجہ ہے ان لوگوں سے جنہوں نے فتح کے بعد خرچ کیا اور لڑے اور ہر ایک کے ساتھ اللہ نے اچھا وعدہ کیا ہے اور جو تم کرتے ہو اللہ اس کو جانتاہے‘‘۔ پھر دعوت دیتے دیتے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی طرف متوجہ کیا ہے۔ کاش فتوحات کے دروازے کھلنے سے پہلے جوق در جوق مسلمان اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی طرف آجائیں اور اجر پالیں۔
پھر سورہ حدید کے آخرمیں فرمایا: لقد ارسلنا رسلنا بالبینٰت وانزلنا معھم الکتٰب والمیزان لیقوم الناس بالقسط وانزلنا الحدید فیہ بأس شدید ومنافع للناس ولیعلم اللہ من ینصرہ و رسلہ بالغیب ان اللہ لقوی عزیزO ولقد ارسلنا نوحاً وابراھیم وجعلنا فی ذریتھما النبوۃ والکتٰب فمنھم مھتد وکثیرمنھم فٰسقونO
’’ ہم نے اپنے رسولوں کو نشانیوں کیساتھ بھیجا، ہم نے انکے ساتھ کتاب نازل کی اور میزان ، تاکہ لوگ انصاف کیساتھ کھڑے ہوں،ہم نے لوہا اتارا، اس میں سخت معاملہ ہے اور لوگوں کیلئے منافع۔ تاکہ اللہ جان لے کہ کون اسکی مدد کرتاہے اوراسکے رسولوں کی، غیب پر ایمان رکھ کر۔ بیشک اللہ زبردست طاقتور ہے۔ بیشک ہم نے نوح کو بھیجا اور ابراہیم کواور ان کی اولاد میں نبوت رکھ دی۔ ان میں سے ہدایت والے بھی ہیں اور اکثر ان میں فاسق ہیں‘‘۔
ہدایت کیلئے دوباتوں کا ہونا ضروری ہے۔ اللہ کی نازل کردہ کتاب اور اس کی دی ہوئی میزان، جو انسانی فطرت میں ودیعت ہوتی ہے۔ جب انسان کا توازن بگڑ جائے تو وہ مرفوع القلم ہوتاہے۔ فہم وفراست کیلئے انسانی ذہن اور دل کی ساخت بھی قدرت کی عظیم عطاء ہے ۔والسماء رفعھا ووضع المیزانO الا تطعوا فی المیزان O واقیموا الوزن بالقسط و لاتخسرواالمیزانO نظام کائنات کے بارے میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ اگر بہت ہی معمولی قسم کا توازن بگڑ جائے تو ایک خوفناک تصادم سے سب کچھ ختم ہوجائے۔ ناپ تول کے ہر پیمانے سے معاشی نظام چل رہاہے۔ پیٹرول بجلی ، گیس، ٹیکسی کے میٹر، موبائل کے بیلنس، ادویات کی اجزاء ، روڈ و بلڈنگ میں ناقص کارکردگی سب کچھ میزان میں خسارہ ہے اور جس قوم کا معاشی سسٹم درست ہوتو اس کا معاشرتی اور عدالتی نظام پر بھی اثر پڑتا ہے ، معاشرتی اور عدالتی نظام میں بھی فطری تقاضا میزان ہی ہے۔ درسِ نظامی کے نصاب کی اصلاح شدت سے محسوس کی جارہی ہے، حکمرانوں کی کرپشن سے پہلے اسلام کی درست تصویر عوام کے سامنے لائی جائے۔ علماء حق کا احسان ہے کہ قرآن وسنت کی زبردست حفاظت کی مگراب سب کو اس پر عمل بھی کرنا پڑے گا۔
دنیا میں کرنسی کی قیمت میں بھی توازن ضروری ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اپنی کرنسی کو متوازن رکھنا ضروری سمجھتے ہیں۔ امپورٹ و ایکسپورٹ کے کاروبار کا دارومدار کرنسی کی مقامی قیمت پر ہوتاہے۔ پاکستان میں عرصہ سے ماہرین کی رائے میں پاکستانی روپیہ کی قیمت جبری طور پر اپنی اوقات سے زیادہ رکھی گئی ہے۔ نوازشریف کے خلاف فیصلہ آنے سے دس دن پہلے آئی ایم ایف نے کہا کہ ’’ پاکستان اپنی کرنسی کی قیمت کم کردے‘‘۔ کرنسی کی مصنوعی قیمت بڑھانے سے ایکسپورٹ کا کاروبار ٹھپ ہوگیاہے، ملکوں کی ترقی میں ایکسپورٹ زیادہ اہم کردار ادا کرتاہے، اسلئے دوسرے ممالک اپنی کرنسی کی قیمت مصنوعی طور پر بڑھانے سے پرہیز کرتے ہیں۔ روپے کی قیمت کم کردی جائے تو مہنگائی بڑھ جائے گی لیکن ملکوں کو دھوکے اور فراڈ سے چلانے کا خمیازہ بھگتنا پڑتاہے۔ اس وجہ سے حکمران کا دھوکہ باز اور فراڈیہ ہونا خطرناک اور فطری بات ہے۔
نااہل وزیراعظم کی موجودہ حکومت سے پہلے پاکستان کا مجموعی قرضہ 30 ارب ڈالر تھا اور اب 48ارب ڈالر تک پہنچ چکا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا دامن صاف تھا،گرچہ بھائیوں کو غلے میں پیسے لوٹادئیے ۔ زلیخانے جھوٹا الزام لگایا، حضرت یوسفؑ نے کہا کہ ’’میں اپنے نفس کوبری نہیں سمجھتااللہ نے بچایا‘‘ حضرت موسیٰ علیہ اسلام پر الزام لگا کہ خصیہ نہیں اسلئے چھپ کر نہاتاہے، پتھر نے کپڑے اٹھائے اور لوگوں نے موسیٰ علیہ السلام کو ننگا دیکھ کر الزام واپس لیا، الزام ختم ہونے کی جوقیمت چکائی جائے تو سودا سستا ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ سے قتل بھی ہوا تھا لیکن اس کا مقدمہ نہیں چلا۔ ضمیر مطمئن نہیں تھا جبھی تو معجزات کے باوجود جانے سے ڈر لگ رہا تھا۔ اگر نوازشریف کو پاکدامنی کا دعویٰ ہے تو ٹرائل کورٹ کو اپنی بے عزتی نہ سمجھے اور اگر عزت کا خیال ہے تو اپنے تمام اثاثہ جات ظاہر کرکے قوم کو لوٹادے، زرداری بھی یہ کریگا، سول وملٹری بیوروکریسی بھی اپنی ساری دولت پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے پیش کردیں۔ عتیق گیلانی

رجوع کا تعلق عدت سے : کے ٹھوس دلائل. اداریہ نوشتہ دیوار

ruju-fatwa-hazrat-umer-hazrat-ali-imam-abu-hanifa-halala-teen-talaq-triple-talaq-quran-syed-atiq-ur-rehman-gailani

1: للذین یؤلون من نساءھن تربص اربعۃ اشہر فان فاؤا فان اللہ غفور رحیمOوان عزموا الطلاق فان اللہ سمیع علیمO
’’اورجو لوگ اپنی عورتوں سے نہ ملنے کی قسم کھالیں، ان کیلئے چارماہ کا انتظار ہے، اگر آپس میں مل گئے تو اللہ مغفرت والا رحم کرنے والا ہے ۔ اور اگر ان کا عزم طلاق کا تھا تو اللہ سننے اور جاننے والا ہے‘‘۔ البقرہ: 226،227
اس آیت سے پہلے اللہ نے وضاحت کی کہ اللہ تمہیں لغو قسم سے نہیں پکڑتا۔ مگر جو تمہارے دلوں نے گناہ کمایا ہے۔ دلوں کا گناہ یہ ہے کہ طلاق کا عزم تھا تو اس کا اظہار کیوں نہیں کیا؟۔ اسلئے کہ طلاق کے عزم کا اظہار کرنے پر عدت تین ماہ ہے اور عزم کا اظہار نہ کرنے کی وجہ سے ایک ماہ مدت بڑھ گئی۔
2: المطلقٰت یتربصن بانانفسھن ثلاثۃ قروء ۔۔۔ وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحا’’طلاق والی 3مرحلے تک انتظار کریں۔ (3طہروحیض یا3ماہ تک) اور ان کے شوہروں کو اس مدت میں ان کو صلح و اصلاح کی شرط پر لوٹانے کی اجازت ہے‘‘۔ البقرہ: 228
مندرجہ بالا آیات میں طلاق کی زیادہ سے زیادہ انتظار کی عدت 4ماہ اورکم ازکم 3ماہ واضح کی گئی ہے اور عدت سے رجوع کا تعلق بھی جوڑ دیا گیاہے۔ کیا کوئی اس سے منکر ہوگا کہ اللہ نے رجوع کا تعلق عدت سے نہیں جوڑا؟۔
خلفاء راشدینؓ فیصلہ اور فتویٰ سب سے پہلے قرآن سے دیتے تھے۔ جب حضرت عمرؓ کے دربار میں ایک ساتھ تین طلاق کا تنازعہ پہنچاتو عورت رجوع پر آمادہ نہیں تھی اور شوہر رجوع کرنا چاہتا تھا، حضرت عمرؓ نے قرآن اور سنت سے فیصلہ دینا تھا، یہی فطرت کا تقاضہ بھی تھا کہ عورت کی رضا کے بغیر رجوع نہیں کرسکتا، دنیا کی ہر عدالت یہی فیصلہ دیتی ہے۔ حضرت علیؓ کا بھی تنازع میں یہ فتویٰ تھا لیکن حضرت علیؓ نے یہ وضاحت بھی فرمادی کہ باہمی رضامندی سے ایک ساتھ تین طلاق کے باوجود بھی رجوع ہوسکتاہے۔ عورت پر یہ بڑا احسان تھا کہ اس دور میں اس کی مرضی کا فیصلہ دیا گیا، مردوں کی جہالت اس قدر تھی کہ بس چلتا تو اپنی بیوی کا حلالہ کرواکر بھی اپنی جاگیر سے نہ نکلنے دیتے۔ اب بھی یہ معاملہ چل رہاہے لیکن حضرت عمرؓ نے حلالہ کروانے پر بھی سنگسار کرنے کا حکم دیا تھا۔ عورت راضی نہ ہو تو رجوع کا فتویٰ دینا بہت بڑی زیادتی ہے مگر عورت راضی ہو اور قرآن میں اجازت ہو تو حلالہ کا فتویٰ دینا بے غیرتی ہے۔
3: الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف او تسریح باحسان
’’طلاق دو مرتبہ ہے پھر معروف طریقہ سے روک لینا ہے یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے‘‘۔ البقرہ:229۔ یہ آیت اس سے پہلے والی آیت کے تناظر میں ہے کہ عدت کے طہرو حیض کی صورت میں تین مراحل ہیں۔ پہلے دو مرتبہ کی طلاق کا تعلق عدت کے پہلے دو مرحلوں سے ہے۔ نبیﷺ نے حضرت عمرؓ کے عرض کرنے پر عبداللہ ابن عمرؓ کو غضبناک ہوکر یہی مسئلہ سمجھایا تھا۔ بخاری کی احادیث ہیں۔ معروف رجوع کا معنی بھی باہمی رضا صلح و اصلاح کی شرط ہے اور اس سے رجوع کی وہ منکر صورتیں مراد نہیں جو فقہ کی کتابوں میں شافعی اور حنفی مسلکوں میں اختلافات کے حوالہ سے درج ہیں ایک کے نزدیک نیت نہ ہو تو مباشرت سے رجوع نہ ہوگا اور دوسرے کے نزدیک نیند میں شہوت سے ہاتھ لگ جائے تو بھی رجوع ہوگا، عورت اور مرد کسی کی بھی شہوت معتبر ہوگی ۔
4: ولایحل لکم ان تأخذوا مما اتیتموھن شئی الا ان یخافا الا یقیما حدود اللہ و ان ختم الا یقیما حدوداللہ فلا جناح علیھما فیماافتدت بہ تلک حدود اللہ فلا تعتدوھا ومن یتعد حدوداللہ فأولئک ھم الظلمونOفان طلقہافلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ ’’اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے ،اس میں سے کچھ بھی واپس لو ۔ الا یہ کہ دونوں کو خوف ہو کہ اسکے بغیر اللہ کی حدود پر دونوں قائم نہ رہ سکیں گے۔ اور اگر (اے جدائی کا فیصلہ کرنے والو) تم یہ خوف رکھو کہ وہ اس چیز کو واپس کئے بغیر دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو عورت کی طرف سے وہ چیز فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں۔ یہ اللہ کے حدود ہیں ان سے تجاوز نہ کرو، جو ان سے تجاوزکرے تو وہی لوگ ظالم ہیں اور اگر اس نے طلاق دیدی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی اور سے نکاح کرلے‘‘۔ البقرہ:229،230۔ آیات کے ربط اور ترتیب کی بڑی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرتا، سوائے غلام احمد پرویز کے، وہ اپنی ڈگڈگی بجاتا ہے۔ آیت229کا پہلا حصہ آیت 228کی وضاحت ہے۔ تیسرے مرحلہ کی عدت میں رجوع کا ارادہ ہوتو معروف رجوع کیا جاسکتاہے، اور چھوڑنے کا پروگرام ہو تو تسریح باحسان ہی تیسرے مرحلہ میں تیسری طلاق ہے۔ لیکن تیسرے مرحلے میں تیسری طلاق دی تو بھی عدت میں رجوع سے اسلئے نہیں روکا جاسکتا ہے کہ قرآن میں تضاد نہیں اور عدت میں باہمی رضامندی سے ہی رجوع کو اللہ نے واضح کردیاہے۔ چونکہ ایک تو مرد عورت کو طلاق کے بعد بھی دوسری جگہ مرضی سے شادی نہیں کرنے دیتاتھا اور دوسرا یہ کہ علماء نے حلالہ کی لعنت کو امت پر مسلط کرنا تھا تو اللہ نے اس کا تدارک کرنے کیلئے ایک بیانیہ و مقدمہ بھی وضاحت کیساتھ بیان کردیا۔ جو حلال نہ ہونے سے پہلے بالکل ہی متصل ہے، فقہ حنفی کی اصولِ فقہ میں اس طلاق کو اسی فدیہ کے مقدمہ سے جوڑا گیاہے، علامہ ابن قیمؓ نے بھی حضرت ابن عباسؓ کی یہی تفسیر نقل کی ہے۔
5: اذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف او سرحوھن بمعروف ’’جب تم عورتوں کو طلاق دو،اور وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو معروف طرح سے رجوع کرلو یا معروف طرح سے روک لو‘‘،231
6:و اذا طللتم النساء فبلغن اجلھن فلاتعضلوھن ان ینکحن اذا تراضوا بیھم بالمعروف ’’اور جب عورتوں کو طلاق دو،اور وہ عدت کو پہنچ جائیں تو ان کو مت روکو کہ اپنے شوہروں سے ازدواجی تعلق قائم کریں، جب وہ آپس میں معروف طرح سے راضی ہوں۔ البقرہ :232
7:اذا طلقتم النساء فطلقوھن لعدتھن…… لاتخرجوھن من بیوتھن والایخرجن الا ان تأیین باحشۃ مبینۃ لعل یحدث بعد ذلک امراOواذاطلقتم النساء فبلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف او فارقوھن بمعروف واشھدوا ذی عدل منکم (سورۂ طلاق ، آیات 1اور2)۔ کیا کوئی حدیث قرآن کی آیات کے منافی ہوگی؟۔

قانون سے کوئی بالاتر نہیں. عاصمہ جہانگیر کا بیان اور تبصرہ

asma-jahangir-gulu-bat-shahbaz-sharif-model-town-case-army-chief-javed-qamar-bajwa-syed-atiq-ur-rehman-gailani

عاصمہ جہانگیر کی بات 100%درست ہے کہ اگر فوج کی طرف سے تحفظ کا یقین نہیں ہوتا تو ججوں نے نوازشریف کی نااہلی کا فیصلہ نہیں دینا تھا۔ واقعی نہیں دے سکتے تھے اگر عدلیہ کی پشت پر ریاست کی قوت نہ ہو تو بوڑھے ججوں کے اندر مولا جٹوں ، گلوبٹوں اور موٹے گینگ نکٹوں سے کشتی کرنے کی صلاحیت تو نہیں !۔ ضعیف العمری و ییرانہ سالی میں محترمہ سٹیا گئیں یا مُلا کی طرح معاوضے کی آذان دے رہی ہیں؟۔ نوازشریف، شہبازشریف اور تمام ن لیگی رہنما عدالت کیخلاف سینہ سپر تھے۔ آرمی چیف کی وضاحت درست تھی کہ عدالت کا جو بھی فیصلہ آیاتو قابلِ عمل ہونا چاہیے۔ کیا آرمی چیف اور نوازشریف کے رشتہ دار آئی ایس آئی چیف یہ کہتے کہ نوازشریف ہمارا لاڈلہ بچہ ہے ، بگڑا ہوا ہے تو کیا ہوا؟۔ ماڈل ٹاؤن کی پولیس کے ہمراہ گلو بٹ نے کیمرے کی آنکھ کے سامنے ڈنڈا برسایا اور گاڑیوں کے شیشے توڑ دئیے ، گولی کا نشانہ بننے والے خواتین و حضرات بڑی تعداد میں زخمی، معذور اور 14شہید ہوگئے۔ کیایہی نوازشریف کو ملنے والے فوجی بٹ مین بھی ادا کرتے تو اچھا ہوتا؟۔
آپ چاہتی کیا ہیں؟۔ کرپشن پر پہلی مرتبہ ہی ہاتھ پڑنے والا ہے تو پیٹ میں درد شروع ہوا، اپنا دوپٹہ نواز شریف کو پہنادیں، شہباز شریف کی ہیٹ پہن کر شاہد خاقان عباسی کی جگہ پر خود وزیر اعظم بن جائیں۔ پھر ججوں کو اٹھا کر جہاں پھینکنا چاہیں وہاں پھینک دیں۔
دوججوں نے پہلے ہی نااہل قرار دیا تھا جس پر مٹھایاں تقسیم کی گئیں۔ سلمان اکرم راجہ اپنی وکالت سے پہلے کہہ رہاتھا کہ پارلیمنٹ اور قطری خط کے تضاد پر جج وزیراعظم کو نااہل کرسکتے ہیں، یہ ان کا صوبدید ہے کہ نااہل کریں یا چھوڑدیں۔ 62،63کے اطلاق میں فرق ہے۔ ایک شخص اپنے طورپر دن بھر بدبودار پھوسیاں مارتا رہے مگر جب وہ نماز پڑھے گا تو وضو کے ٹوٹنے پر مقدس مسجد سے جانا پڑے گا۔ پھر جب نماز کی امامت کررہا ہو اور پھر زوردار ہوا کی آواز بھی گونج اُٹھے تو خود ہی نماز چھوڑ کر کسی کو نائب مقرر کرنا چاہیے۔ یہ نہیں کہ عوام اضطرابی کیفیت سے دوچار ہوں اور جب تک کوئی کان سے پکڑ کر نکال باہر نہ کرے وہ ڈٹا رہے۔ محترمہ ذرا سوچئے!
عاصمہ جہانگیرومولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ ہم سمجھتے تھے کہ بہت مال نکلے گامگر اقامہ نکل آیا۔ مال کے چارجزلگانا ٹرائل کورٹ کا کام ہے جس میں اپیل کا بھی حق ہوگا۔

اجنبی کا تعارف حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں

قال رسول اللہ ﷺ: اذا حضر الغریبَ فالتفتُ عن یمینہٖ و عن شمالہٖ فلم یرالا غریباً فتنفس کتٰب اللہ لہ بکل نفس تنفس الفی الف حسنۃ و خط عنہ الفی الف السیءۃ فاذا مات مات شہیداً(الفتن: نعیم بن حماد)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب اجنبی کو میرے پاس حاضر کیا گیا تو میں نے اس کی طرف دائیں جانب سے التفات کیا اور بائیں جانب سے التفات کیا ، وہ نظر نہیں آتا تھا مگر اجنبی، پس اللہ کی کتاب پوری عظمت کیساتھ اسکے سامنے روشن ہوگئی ، اس کو ہزارہا ہزار نیکیاں ملیں اور ہزار ہا ہزار گناہیں اسکی معاف کی گئیں۔ پس جب وہ فوت ہوا تو شہادت (گواہی) کی منزل پاکر فوت ہوا۔
یہ حدیث امام بخاری کے استاذ نعیم بن حماد ؒ نے اپنی کتاب الفتن میں نمبر 2002 درج کی ہے، یہ اجنبی کا تعارف بتایا گیاہے

پاکستان کی بقاء اور ترقی کیلئے ایک منشور کی ضرورت

موسمیاتی تبدیلیوں ، پانی کے ذخائر،ماحولیاتی آلودگی ، اسلحہ کی دوڑ دھوپ سازش کے تحت فرقہ وارانہ لڑائی اور مضبوط اداروں کو سازش کے تحت کمزور کرنیکا رویہ خاص طور سے بنیادی اہمیت کاحامل ہے۔ ریاست کی مضبوطی اداروں سے اور اداروں کی مضبوطی دیانتداری، میرٹ اور اپنے کام سے کام رکھنے میں ہی ہے۔ سیاسی قیادت ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو ملک وقوم کے بجائے اپنا کاروبار چمکارہے ہیں۔
1: تعلیمی نظام کے نصاب کو درست کرنیکی ضرورت ہے، بھاری بھرکم بستے اور بڑی بڑی فیسوں نے قوم کے بچوں ، نوجوانوں اور نسلوں کے مستقبل کوداؤ پر لگادیا ہے۔ اچھے نصاب اور بچوں کے معیار سے تعلیمی قابلیت کے اساتذہ قوم کی ضرورت ہیں۔ اساتذہ کی کم سے کم تنخواہ اورطلبہ کی زیادہ سے زیادہ فیس بہت بڑا مسئلہ بنتا جارہاہے۔ جس سے قوم تباہ ہورہی ہے، سکول مالکان کی ناجائز منافع خوری المیہ ہے، تعلیم کاروبار نہیں خدمت ہے،اساتذہ کو کسمپرسی سے نکالنا اور طلبہ کو سستی تعلیم دینا ضروری ہے۔ نصاب تعلیم بچوں کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے بجائے بوجھ بنتا جارہاہے جسکی وجہ سے نقل اور جعلی ڈگریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ قوم کی نااہلی کیلئے ہمارا تعلیمی نظام اپنا کردار ادا کرنے میں سب سے آگے ہے۔
قدرت نے پاکستان کو بے پناہ دولت سے نوازا ۔ پانی اور ہر موسم کی آب و ہوا، میدانی و پہاڑی سلسلہ ، دشت وصحرا، عرب وعجم اور مشرق ومغرب کے اس سنگم پر واقعہ ہونا جس میں دنیاکیلئے اسکی بہت بڑی اہمیت ہے۔حکمران قذاقوں کی طرح لوٹ مار کے بجائے قوم کے بہتر مستقبل کیلئے سوچیں۔ہم گرمی میں پہاڑی، سردی میں میدانی علاقے کا موسم انجوائے کرنیوالے تعلیمی ادارے بناسکتے ہیں جو کم خرچ بالا نشیں ہونگے، وزیرستان کے بھی ایسے مدارس ہیں۔اگر مدارس کا نصاب درست کرلیا تو اسکے بہت مثبت اثرات پڑینگے۔ قرآن وسنت سے معاشرہ مالا مال ہوگا، تو عالم اسلام ہی نہیں پاکستان دنیا کی امامت بھی کریگا۔
2: پہاڑی علاقوں سے آنیوالا شفاف پانی ڈیموں کے ذریعہ ذخیرہ کیا جائے تو زیرزمین پانی کے ذخائز میٹھے پانی سے مالامال ہونگے۔ سستی بجلی پیدا ہوگی توعام لوگ پاکستان میں اے سی اور ہیٹر کا استعمال کرکے دنیا کے جہنم سے بچ سکیں گے اور پانی کو ہر طرح کی آلودگی سے بچانے کیلئے انتظام ہوگا تو صحتمند معاشرے پر حکمران فخر کرسکیں گے۔ ملیں، کارخانے اور فیکٹریاںآلودگی پیدا کریں توا ن کو فی الفور کراچی گوادر کوسٹل ہائی وے منتقل کیا جائے۔ بلوچستان کی غیرآباد زمیں آباد اور باقی پاکستان کو آلودہ پانی سے نجات ملے گی۔ دنیامیں کیا ہورہاہے اور ہم کیا کررہے ہیں؟۔ جس طرح انسانی جسم قدرت کا حسین شاہکار ہے۔ کھانے پینے اور ہگنے وپیشاب کرنیکی راہیں ایک ہوجائیں توپورا جسم بدحال ہوجائے۔ ان حکمرانوں کی مسیحائی کے سہارے بیٹھنا زیادتی ہے جو قوم کی تباہی کو پیشہ بناچکے ،پاکستان کے اندر میٹھے پانی کی اتنی صلاحیت ہے کہ کراچی کی ندیاں شفاف پانی سے مالامال ہوں۔ بڑی سڑکوں پر گرین بیلٹ، نہریں اور چھوٹی سڑکوں پر نالے بنیں اور عوام فائدہ اٹھائیں۔ ابھی تو کچی آبادی کیا، متوسط طبقے بھی نہیں ڈیفنس والے بھی پانی سے محروم ہیں۔ سندھ کی زرعی آبادی کیلئے کالاباغ ڈیم ضروری ہے، سندھ کو نہری نظام کے ذریعے بنجر ہونے سے نجات دلائی جاسکتی ہے۔ دریائے سندھ کبھی طوفان نوح اور کبھی کربلا کا منظر پیش کرتا ہے، دنیا آسمانی پانی کی تسخیر پر عمل پیرا ہے اور ہم بہتے پانی سے فائدہ نہیں اٹھاسکتے ہیں۔کالاباغ ڈیم بن جائے تو جب دریا خشک ہوتاہے توپورادریا ڈیم بن سکتاہے، نہ صرف دریا بلکہ جگہ جگہ بڑے مصنوعی ڈیم بنادئیے جائیں تو پاکستان سرسبزوشاداب ہوگا، باغات و جنگلات کی وجہ سے بارشیں برسیں گی ،پانی کا کوئی مسئلہ نہ ہوگا، نہری نظام اور گندے نالوں کا جال پاکستان کو فطری زندگی سے مالامال کردے گا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ ہم نے پانی سے ہر جاندار کو زندگی بخشی ہے‘‘ ۔پانی کا مسئلہ حل کئے بغیر بہتر مستقبل کا خواب پورانہ ہوگا۔
3: پاکستان کے شہری علاقوں میں سڑکوں پر ہجوم کا معاملہ روزانہ خوامخواہ کی اذیت ہے۔ جہاں سرکاری املاک ہوتے ہیں وہاں بھی سڑک انتہائی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ سرکار عوام کی خادم ہو تو سب سے پہلے سرکاری املاک کی بہت بڑی کٹوتی کرکے راہ دکھائی جائے کہ جہاں عوام کو تکلیف نہ ہوگی وہاں زمین اور مارکیٹوں کا بھاؤ بھی نسبتاً بہت زیادہ ہوگا۔ گورنمنٹ کے اداروں کیلئے زمین کونسا بڑا مسئلہ ہے، لینڈ مافیا سے مل کر حکومت اور عوام کے املاک پر قبضے کا سلسلہ کب سے جاری ہے؟، مقتدر طبقہ اپنے مفاد میں اندھا ہونے کے بجائے قومی مفاد اور عوام کے مفادات کا بھی خیال رکھے ،لیاری ایکسپریس وے کے مکینوں کوگھروں سے محروم کیا جارہاہے اور بدلے میں 50ہزار روپے دئیے جارہے ہیں؟۔ کیا غریبوں کی بدعا ان لوگوں کو نہیں لگے گی؟۔ حکومت کیلئے مشکل نہ تھا کہ فلیٹ یا گھر بناکر دیتی مگربے حس اور مفاد پرست طبقہ حکمرانی کے مزے لیتاہے۔ منصوبہ بندی کرکے تمام شہروں کی شاہراہوں کو وسیع کیا جائے، ٹریفک نظام کی بہتری کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے۔ شریعت میں قبرستان اور مساجد کو بھی راستہ بڑا کرنے کیلئے مسمار کیا جاسکتاہے۔ پنجاب کی آبادی بہت بڑی ہے، جنوبی پنجاب کو ملتان سے اسلام آباد تک موٹر وے کے ذریعے میانوالی کی صراط مستقیم سے ملایا جائیگا تو اسکا فائدہ کراچی سندھ اور کوئٹہ بلوچستان کشمیر ، گلگت بلتستان، ہزارہ کے علاوہ پنجاب کو بھی ہوگا ٹریفک کی آلودگی سے بچت ہوگی۔ بڑی مقدار میں فیول اور انرجی بچے گی۔ میدانی اور پہاڑی علاقوں کو بہترشاہراہوں کے ذریعے ملایا جائے توپوری قوم موسم کیمطابق پاکستان کے ہر علاقہ سے فائدہ اٹھا ئیگی۔ بابائے قوم گرمی کی چھٹیاں زیارت میں گزارتے تھے، حکمرانوں نے پہاڑی علاقوں میں محلات بنا رکھے ہیں تو عوام بھی اپنی اوقات کے مطابق گرمیوں کا موسم پہاڑی علاقے میں گزارسکتے ہیں۔
4: اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو خداداد صلاحیتیں دی ہیں، کوئی ذہنی صلاحیت رکھتاہے اور کوئی جسمانی صلاحیت رکھتاہے۔کوئی بھی قوم ذہنی صلاحیت رکھنے والوں کو ذہنی کاموں پر لگادیتی ہے اور جسمانی صلاحیت والوں کو جسمانی صلاحیت پر لگادیتی ہے تو وہ بلندی وعروج حاصل کرلیتی ہے اور جو اسکے برعکس جسمانی صلاحیت والوں کو ذہنی اور ذہنی صلاحیت رکھنے والوں کو جسمانی کام پر لگادیتی ہے تو وہ گراوٹ و پستی کا شکار ہوجاتی ہے۔ نوازشریف اور شہباز شریف میں قائدانہ صلاحیتیں نہ تھیں مگر اسٹیبلشمنٹ نے ان کو پروان چڑھایا جس کی سزا آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو میں صلاحیت تھی تو ایوب خان نے ان کا درست انتخاب کیا تھا، جب بھٹو نے احسان فراموشی کا مظاہرہ کیا اورایوب خان کو چھوڑ دیا تو عروج کی منزل حاصل کی مگر ڈکٹیٹر کے اثر نے خوئے جمہوریت کھو دی۔ اب بلاول بھٹو زرداری، حسن نواز، حسین نواز اور مریم نواز میں قائدانہ صلاحیت تو دور کی بات ذہنی صلاحیت بھی نہیں اور ملالہ یوسف زئی میں ایک غریب کی بچی ہونے کے باوجود قائدانہ صلاحیت ہے۔ جب امیر وغریب کو تعلیم کے یکساں مواقع مل جائیں تو ذہنی صلاحیت امیر وغریب کے بچے میں ہو تو قوم کو قابل ڈاکٹر، انجینئراور تعلیم یافتہ طبقہ ملے گا۔ جن میں ذہنی صلاحیت نہ ہو تو وہ قوم پر نالائق بن کر بھی بوجھ نہیں بنے گا۔ جاگیردار کا بچہ ذہنی صلاحیت سے محروم ہوکر ڈاکٹر بنے اور غریب کا بچہ ذہنی صلاحیت سے مالامال ہوکر بھی کھیتی باڑی کرے تو قوم کا مستقبل کبھی نہیں بن سکتاہے۔ پاکستان میں مزارعت پر پابندی لگائی جائے تو جاگیردار زمین کاشت کریگا یا مزراع کو مفت میں دیگا۔ جس مزارع کو مفت میں کاشت کیلئے زمین مل جائے تووہ اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کیساتھ ساتھ اپنے بچوں کو تعلیم بھی دلواسکے گا۔ والدین بچوں کو تعلیم دلاسکیں تو بچوں پر مزدوری نہ کرنے کی پابندی لگانے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی۔پھر بلاول زرداری، حسن و حسین نواز جیسے لوگ کھیتی باڑی کرینگے اور قابل لوگ آگے آئیں گے۔
5: میاں بیوی ، حکمران رعایا اور طاقتور کمزور کے حقوق کا تعین ہوجائے اور معاشرہ شعور سے مالامال ہوجائے تو ظلم وجبر کا خود بخودخاتمہ ہوگا اور اعلیٰ اخلاقی قدریں تہذیب وتمدن کا حصہ بن جائیں گی۔ النساء کی آیت19میں عورت کو خلع کا حق اور20میں شوہرکوطلاق کا حق اجاگر کیا جائے تو99%شوہروں کے غیر اخلاقی اور تشدد کے رویہ میں فرق آئیگا۔ اس طرح طلاق کی درست تعبیر سامنے لائی جائے تو 100%عوام رمضان کے مہینے میں تین عشرے کی طرح تین مرتبہ طلاق اور آخری عشرے میں مساجدمیں اعتکاف کی طرح حلالہ کا مسئلہ سمجھ میں آجائیگا۔ حقوق کا مسئلہ حل ہوگا تو لوگ قرآن کے وعظ سے مستفید ہونگے۔

عصر حاضرحدیث نبویﷺ کے آئینہ میں

عن حذیفہؓ قال: کان الناس یسئلون رسول اللہ ﷺ عن خیر و کنت اسئلہ عن الشر مخافۃ ان یدرکنی، قال : قلت یا رسول اللہ! ان کنا فی جاہلیۃ و شر فجاء نا اللہ بھٰذا الخیر، فھل بعد ھٰذا الخیر من شر؟ قال: نعم! قلت : وہل بعد ذٰلک الشر من خیر ؟ قال: نعم ! و فیہ دخن، قلت : وما دخنہ؟ قال: قوم یستنون بغیر سنتی و یہتدون بغیر ھدیتی، تعرف منھم و تنکر، قلت فہل بعد ذٰلک الخیر من شر؟ قال: نعم! دعاۃ علیٰ ابواب جہنم، من اجابہم الیھا قذفوہ فیھا، قلت یا رسول اللہ! صفہم لنا، قال ھم من جلدتنا و یتکلمون بالسنتنا! ، قلت: فما تأمربی ان ادرکنی ذٰلک؟، قال: تلزم جماعۃ المسلمین و امامہم! قلت فان لم یکن لہم جماعۃ ولا امام؟ قال: فاعتزل تلک الفرق کلہا ولو ان تعض باصل شجرۃ حتیٰ یدرکک الموت و انت علیٰ ذٰلک (مشکوٰۃ، بخاری، عصر حاضر)
حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے لوگ خیر کے بارے میں پوچھا کرتے تھے اور میں شر کے بارے میں پوچھتا تھا تاکہ مجھے شر نہ پہنچے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! بیشک ہم جاہلیت اور شر میں تھے تو اللہ نے اس خیر (اسلام)کو ہمارے پاس بھیجا ۔ کیا اس خیر کے بعد کوئی شر ہوگا؟، فرمایا : ہاں! ۔ پھر میں نے پوچھا کہ کیا اس شر کے بعد کوئی خیر ہوگی؟۔ فرمایا: ہاں! اس میں دھواں (آلودگی) ہوگی۔ میں نے پوچھا : وہ دھواں کیا ہے؟۔ فرمایا: لوگ میری سنت کے بغیر راہ اپنائیں گے اور میری ہدایت کے بغیر چلیں گے۔ ان میں اچھے بھی ہوں گے اور برے بھی۔ میں نے عرض کیا کہ کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہوگا؟۔ فرمایا: ہاں! جہنم کے دروازے پر کھڑے داعی ہونگے جو ان کی دعوت قبول کریگا اس کو اسی میں جھونک دینگے ۔ میں نے عرض کیا: ان کی پہچان کرائیں۔ فرمایا : ہمارے لبادے میں ہوں گے اور ہماری زبان (مذہبی اصطلاحات) بولیں گے ۔ میں نے عرض کیا : اگر میں انکو پالوں تو کیا حکم ہے؟۔ فرمایا: مسلمانوں کی جماعت اور انکے امام سے مل جاؤ ۔ عرض کیا کہ اگر مسلمانوں کی جماعت ہو اور نہ ان کا امام تو پھر؟۔ فرمایا : ان تمام فرقوں سے الگ ہوجاؤ اگرچہ تمہیں درخت کی جڑ چوس کر گزارہ کرنا پڑے۔ یہاں تک کہ تمہیں موت پالے اور تم اسی حالت پر رہو۔ (عصر حاضر حدیث نبوی ﷺ کے آئینہ میں)
اس حدیث میں صفحہ نمبر 4پر موجود نقش انقلاب کی بھرپور وضاحت ہے۔ اسلام کے آغاز میں نبوت اور خلافت راشدہ کا دور تھا جس کے آخر میں عشرہ مبشرہ نے بھی گھمسان کی جنگ لڑی۔ اس دور کا خیر اور شر دونوں واضح تھے۔ پھر اسکے بعد خیر میں دھواں نمودار ہوا۔ یہ دھواں امارت ، بادشاہت اور جبری حکومتوں کے اختتام تک بتدریج بڑھتارہا، اس خیر کے دور میں اچھے لوگ بھی تھے اور برے بھی، جن میں علماء صوفیاء اور ہر طرح کے حکمران شامل تھے۔ اس دور کے بالکل اختتام پر دوبارہ طرز نبوت کی خلافت کے قیام سے پہلے شر کا وہ دور آیا ہے جس میں مذہبی جماعتیں اور تنظیمیں مذہبی لبادے اور مذہبی زبان میں لوگوں کو جہنم کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ یہ دور وہ ہے جس میں مسلمانوں کی جماعت اور انکے امام کے ساتھ ملنے کا حکم ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے نماز ، وضو اور غسل وغیرہ کے فرائض نہیں سکھائے ، خلافت راشدہ کے دور میں بھی چاروں خلفاء نے اس قسم کی فضولیات پر اپنا اور اپنی قوم کا وقت ضائع نہیں کیا۔ اسی دھوئیں کے دور میں نبی ﷺ کی سنت اور ہدایت کے بغیر فرقہ واریت اور مسلکوں کے اپنے اپنے چشمے لگائے گئے۔ ان من گھڑت ہدایت اور سنت کے طریقوں سے اسلام کا چہرہ بتدریج اجنبیت کا شکار بنتا چلا گیا۔ ان میں کچھ اچھے نیک ، صالح ، اللہ والے اور حق کے علمبردار تھے اور کچھ بد ، بدکار، طاغوت کے بندے اور باطل کے علمبردار تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرائض اور واجبات کیلئے کوئی حلقے نہیں لگائے اور جن لوگوں نے نیک نیتی کیساتھ یہ تعلیم عام کردی کہ غسل کے احکام کیا ہیں اور اس میں نت نئے فرائض وغیرہ دریافت کرلئے مگر درباری بن کر حکمرانوں کی ایماء پر اہل حق کا خون جائز قرار دینے کے فتوے نہیں لگائے تو بھی ان کا کردار اپنی شخصیتوں کی حد تک نیک و صالح اور اہل حق کا رہا۔ انکی ہدایت اور سنت کو پھر بھی بجا طور سے نبی کریم ﷺ کی ہدایت اور سنت نہیں کہہ سکتے۔
امام ابو حنیفہؒ پر حکمرانوں کو شک تھا کہ پس پردہ حضرت امام حسنؓ کی اولاد عبد اللہ اور ابراہیم کی بغاوت کی تائید کررہے ہیں تو ان کو جیل میں زہر دے کر شہید کیا گیا۔ امام ابو حنیفہؒ کی ساری زندگی علم کلام کی گمراہی میں گزری اور پھر آخر میں توبہ کرکے وہ فقہ اور اصول فقہ کی طرف رُخ کرکے شمع ہدایت کے چراغ جلانے لگے۔ قرآن کے مقابلے میں احادیث صحیحہ اور خلفاء راشدین کے فیصلوں کو بھی رد کرنے میں ذرا تامل سے کام نہ لیا۔ ان کی شخصیت اہل حق کیلئے مینارۂ نور کی حیثیت رکھتی تھی۔ آپ نے بڑی استقامت کیساتھ حق کا علم بلند کرنے میں مقدور بھر کوشش کی۔ حضرت امام مالکؒ ، حضرت امام شافعیؒ ، حضرت امام احمد بن حنبلؒ اور حضرت امام جعفر صادقؒ بھی اپنے اپنے طرز پر نبی ﷺ کی سنت کو ہر قیمت پر تحفظ دینے کے زبردست علمبردار رہے ۔ ان کے پیروکاروں نے اپنے اپنے طرز پر فقہ و مسالک کی تدوین کا کام کیا۔ نبی کریم ﷺ کی سنت اور ہدایت کو زندہ کرنے کیلئے دوبارہ طرز نبوت کی خلافت قائم ہوگی تو تاریخ کے ادوار میں اسلام کے سورج پر پڑنے والے دھوئیں کا سراغ لگ سکے گا۔ موجودہ دور میں بات یہاں تک پہنچی ہے کہ سب کو پیٹ کی لگی ہوئی ہے یا پھر خود کش دھماکوں اور گرنیٹ کا خوف دامن گیر ہے۔ مساجد ، خانقاہ اور امام بارگاہ میں وہ لوگ براجمان ہیں جنہوں نے مذہب کو محض دنیاوی مفاد کا ذریعہ بنادیا ہے۔
امام ابو حنیفہؒ کی خدمات کا انکار اسلام کے سورج سے پھوٹنے والی روشن کرنوں کا انکار ہے۔ تاہم اسلام کے سورج کو آلودہ کرنے میں بھی سب نے اپنا اپنا حصہ ڈال دیا ہے۔ امام ابو حنیفہؒ نے علم الکلام (علم العقائد) سے توبہ کرکے قرآن کریم کی بیش بہا خدمت انجام دی مگر اس طریقے ہدایت اور سنت کو نبی کریم ﷺ کے طرز عمل سے نہیں جوڑا جاسکتا ہے۔ علم کلام کا یہ مسئلہ تھا کہ تحریری شکل میں اللہ کی کتاب قرآن کا نسخہ اللہ کا کلام نہیں ، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے وحی کا آغاز ہی قلم کے ذریعے سے انسان کو تعلیم دینے سے کیا ہے اور سورہ بقرہ میں الذین یکتبون الکتٰب بایدیھم ’’جو لوگ کتاب کو اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں‘‘( کتاب ہاتھ سے لکھی جانے والی چیز ہے ) مشرکین مکہ جانتے تھے کہ صبح شام لکھوائی جانے والے چیز کا نام کتاب ہے۔ ان پڑھ اور جاہل بھی یہ سمجھتا ہے کہ کتاب موبائل ، میز اور جگ نہیں لیکن علم کلام سے اپنی گمراہی مقدر ٹھہری۔ اُصول فقہ میں پڑھایا جاتا ہے کہ قرآن کے نسخے کلام اللہ نہیں اور ان پر حلف اٹھانے سے حلف نہیں ہوتا۔ پھر گمراہی کے کالے بادل وقت کیساتھ گہرے ہوتے گئے تو یہاں تک لکھا گیا کہ سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے۔ مستند سمجھے جانیوالے مذہبی مدارس گمراہی کے گڑھ اور قلعے بن چکے جو اپنے نصاب سے گمراہی کو نہیں نکال سکتے۔ علم کی سند جہالت اور مدارس کے نصاب پر ڈٹ جانا ہٹ دھرمی کے سوا کیا ہے؟ ۔امام نہ ملے تو درخت کی جڑ چوسنا بہتر رزق ہے۔
آج بڑے مدارس کے علماء ومفتیان اور مذہبی وسیاسی جماعتوں کے رہنما حق کی خاطر کھڑے ہوجائیں تو اسلامی انقلاب میں بالکل بھی کوئی دیر نہیں لگے گی۔
عن عبد اللہ ابن مسعودؓ ان رسول اللہْ ﷺ قال: ما من نبی بعثہ اللہ تعالیٰ فی اُمۃٍ قبلی الا کان لہ من امتہٖ حواریون و اصحاب یاخذون بسنتہٖ و یقتدون بامرہٖ ثم انھا تخلف من بعدہٖ خلوف یقولون مالا یفعلون و یفعلون مالا یؤمرون ومن جاہدھم بیدہٖ فھو مؤمن ومن جاہدھم بلسانہٖ فھو مؤمن ومن جاھدھم بقلبہٖ فھو مؤمن ولیس وراء ذٰلک من الایمان حبۃ خردلٍ (صحیح مسلم)
حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھ سے پہلے جس نبی کو بھی اللہ نے مبعوث فرمایا اس کی اُمت میں کچھ مخلص اور خاص رفقاء ضرور ہوا کرتے تھے جو اس کی سنت کی پابندی اور اسکے حکم کی پیروی کرتے، پھر انکے بعد ایسے ناخلف پیدا ہوئے جو کہتے کچھ اور کرتے کچھ اور وہ کام کرتے تھے جن کا ان کو حکم نہیں ہوتا تھا۔ پس جو شخص ہاتھ سے انکے خلاف جہاد کرے وہ بھی مؤمن ہے اور جو زبان سے انکے خلاف جہاد کرے وہ بھی مؤمن ہے اور جو دل سے انکے خلاف جہاد کرے وہ بھی مؤمن ہے اور اس کے بعد رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہے۔ (عصر حاضر حدیث نبویؐ کے آئینہ میں۔ مولانا یوسف لدھیانویؒ )
ہمارا ایک دوست امین اللہ خانپور کٹورہ میں اخبار کا گشت کررہا تھا ، ایک شخص نے کہا کہ میں مولانا عبد اللہ درخواستیؒ کا نواسہ ہوں۔ ہمارے مدرسے میں یہ میٹنگ بھی ہوئی ہے کہ عتیق الرحمن مفتی تقی عثمانی اور مفتی شامزئی کیخلاف لکھتا ہے اسکے لئے کوئی پروگرام بنائینگے، اگر مجھے ملے تو میں اس کو کلاشنکوف سے قتل کردونگا۔ امین اللہ بھائی نے کہا کہ میں تمہیں اس کے پاس لے جاتا ہوں پھر قتل کرنا ہو یا خود کش کرنا ہو میں نشاندہی کردیتا ہوں، تو وہ شخص کہنے لگا کہ تمہارا کوئی قصور نہیں ہے تم تو اخبار بیچتے ہو ، میرا اختلاف تم سے نہیں ، امین اللہ بھائی نے کہا کہ میں اخبار بیچتا نہیں ہوں بلکہ یہ میرا مشن ہے۔ تو اس نے کہا کہ مجھے معاف کرنا آپ کی دل آزاری ہوئی ہے۔
جب مفتی تقی عثمانی نے ہمارے مرشد حاجی محمد عثمانؒ پر فتوے لگائے تھے تو مولانا عبد اللہ درخواستی ؒ کے نواسے مولانا انیس الرحمن درخواستی شہید حاجی عثمان صاحب سے بیعت ہوئے تھے۔ ان کے بڑے بھائی مفتی حبیب الرحمن درخواستی نے حاجی عثمانؒ کے حق میں فتوے دئیے تھے۔ جب وہ میرے مشکوٰۃ کے اُستاذ تھے تو اپنے بھتیجے امداد اللہ کو میرے ذمہ لگایا تھا جو تقریباً ہر روز مدرسے سے چھپ کر فلم دیکھنے جاتا تھا۔ اب اس نے بھی بہاولپور میں اپنا مدرسہ کھول رکھا ہے۔ جب انوار القرآن کا طالب علم تھا تو اس وقت بہت بیکار لوگ بھی وی سی آر پر فلمیں نہیں دیکھتے تھے مگر مدرسے میں جمعرات کو کرائے پر وی سی آر لایا جاتا تھا اور میں نے ڈنڈے کے زور پر ان کو روکا تھا۔ اس وقت مدرسے کے تمام اساتذہ اور طلباء اس کے گواہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس عالم کی مثال کتے سے دی جس نے علم نہیں دنیا کو ترجیح دی۔ کتوں میں بھی کچھ نسلی کتے ہوتے ہیں جوپرایا اور دشمن کا نہیں کھاتے لیکن قرآن میں گلی کوچوں کے اس کم اصل کتے کا ذکر ہے جو ہر حال میں ہانپتا ہے۔ ہمارا مؤقف بالکل واضح ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی ایک گمراہ مولوی اور مردود صوفی تھا لیکن اس کو بھی کوئی اتنی نشاندہی کرتا کہ نصاب میں اس قسم کی مغلظات ہیں تو وہ بھی ان مغلظات کیخلاف ہوجاتا۔ موجودہ دور اس دہانے پر کھڑا ہے کہ یا کوئی انقلاب کا امام بن کر مسلمانوں کی جماعت کو ان گمراہانہ تصورات سے بچائے یا پھر سب فرقوں سے الگ تھلگ ہوکر مذہب کے نام پر پلنے کے بجائے جنگل میں نکل جائے چاہے درخت کی جڑیں چوس کر گزارہ کرنا پڑے۔ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے کہ ہم نے ان ناخلف جانشینوں کیخلاف نہ صرف علمی اور عملی جہاد کا آغاز کیا ہے بلکہ مسلم اُمہ کی ایک بھاری اکثریت بھی ہر مکتبہ فکر سے ہماری ہم نوابن گئی ہے۔
ہمارے ساتھیوں کو اگر اللہ تعالیٰ نے کامیابی بخشی تودنیا ان کو سورہ واقعہ کے اندر موجود قلیل من الاٰخرین کے طور پر سمجھے گی۔ سورہ جمعہ اور سورہ محمد میں بھی اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے حوالے سے جو آیات ہیں احادیث میں ان کی وضاحت کی گئی ہے۔ پاکستان اسلام کی نشاۃ ثانیہ کیلئے بنا تھا اور یہ بہت اچھا ہوا کہ مولوی حضرات اقبال و قائد اعظم کیخلاف تھے ورنہ اسلام کے نام پر اس ملک کا کباڑہ کیا جاتا۔ جن لوگوں نے کھل کر ہماری حمایت کی ہے اور وہ دنیا سے جاچکے ہیں اور جو کھل کر ہماری حمایت کررہے ہیں اور وہ دنیا میں موجود ہیں تو ان کا شمار سورہ واقعہ کے مطابق اصحاب الیمین میں ہوگا جو پہلے دور میں بھی کثرت سے تھے اور اس دور میں بھی کثرت سے ہیں۔ دین کو پہچاننے کے بعد ہاتھ ، زباں اور دل سے جہاد کے مختلف مراحل سے ہم بفضل تعالیٰ گزر چکے ہیں۔ حدیث میں پہلا درجہ انہی کو دیا گیا ہے جنہوں نے اللہ کے دین کو پہچانا اور پھر اس کے ذریعے زبان ہاتھ اور دل سے جہاد کیا۔ دوسرا درجہ ان لوگوں کا ہے جنہوں نے اللہ کے دین کو پہچانا اور پھر اعلانیہ اس کی تصدیق بھی کی اور تیسرا درجہ ان لوگوں کاہے جن میں اعلانیہ حمایت کرنے کی جرأت نہ تھی مگر دل ہی دل میں خیر کا عمل کرنے والوں سے محبت رکھی اور باطل کا عمل کرنے والوں سے بغض رکھا۔ انکے بارے میں بھی وضاحت ہے کہ وہ اپنے اس پوشیدہ عمل کے باوجود بھی نجات پائیں گے۔ بہت سے بزرگ علماء دین کل بھی ہم سے محبت رکھتے تھے اور دنیا سے اسی طرح سے رخصت ہوگئے۔ آج بھی بفضل تعالیٰ بڑے بڑے اکابر ہیں جو ہم سے دلی محبت رکھتے ہیں مگر ہمت نہیں کرسکتے۔ اخبار میں ان لوگوں کے بیانات بھی منظر عام پر آتے ہیں جو اعلانیہ ہماری حمایت کررہے ہیں۔ ان کی اس ہمت میں اللہ تعالیٰ برکت ڈالے اور بہت سے لوگوں کو ان کی بدولت اعلانیہ حمایت کی ہمت عطا فرمائے۔ اصل معاملہ عوام کی جہالتوں کا بھی ہے، آج ایک عالم نمازمیں قرآن وسنت کے مطابق سورۂ فاتحہ اور قرآن کی دیگر سورتوں اور آیات سے پہلے جہری بسم اللہ پڑھنا شروع کردے تو عوام کی طرف سے بغاوت کا خطرہ ہوگا۔
انقلاب کیلئے جہری نماز میں جہری بسم اللہ سے آغاز کرنا ہوگا۔ بنی امیہ کے دور میںیہ المیہ پیش آیا کہ جہری نماز میں جہری بسم اللہ پڑھنے والوں کوحضرت علیؓکا حامی قرار دیا جاتا تھا، امام شافعیؒ نے جہری بسم اللہ کو لازم قرار دیا تو ان کو رافضی قرار دیکر منہ کالا کرکے گدھے پر گمایا گیا، حضرت امام ابوحنیفہؒ کی موت جیل میں ہوئی ، حضرت امام مالکؒ کیلئے مشہور ہے کہ ان کے فقہ کو رائج کرنے کی پیشکش ہوئی مگر انہوں نے انکار کردیا۔ امام مالکؒ کی طرف یہ منسوب ہے کہ فرض نماز میں بسم اللہ پڑھنا جائز نہ سمجھتے تھے، حنفی مسلک میں یہ پڑھایا جاتاہے کہ ’’ صحیح بات یہ ہے کہ بسم اللہ قرآن کا حصہ ہے مگر اس میں شک ہے‘‘(نورالانوار)۔صحیح بات یہ ہے بسم اللہ قرآن ہے مگر اس میں شک اتنا قوی ہے کہ اسکے انکار کی وجہ سے کوئی کافر نہیں بنتا‘‘( توضیح تلویح) درس نظامی کی یہ دونوں کتابیں دیوبندی وفاق المدارس و بریلوی تنظیم المدارس کے وفاقی بورڈ کا حصہ ہیں۔ آج مذہبی جماعتیں مدارس کے اپنے کفریہ نصاب کو درست نہیں کرسکتیں تو دنیا میں کیا اسلامی نظام کے نفاذ کا کام کرینگی۔ مولانا فضل الرحمن اور مولانا عطاء الرحمن نالائق طلبہ تھے تو فیل ہوتے تھے،ان کو اسلام کی کوئی فکر نہیں۔ ان خود ساختہ ٹھیکیداروں کے چنگل سے اسلام کو بازیاب کرانا ہوگا۔کسی بادشاہ کو بھکارن پسند آگئی اور اس سے شادی کرلی،جو محل میں کھانا نہیں کھارہی تھی، بادشاہ کو پریشانی لاحق ہوئی تو وزیر نے سمجھایاکہ محل کے کونوں روٹی کے ٹکڑے پھیلادیں تو کھا جائیگی۔درباری مُلاؤں کو بھی انقلاب کا مزہ نہیں آتا بلکہ ٹکڑوں پر پلنا اچھا لگتاہے۔

بقیہ :اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا بہترین ومستند ترین نمونہ

کراچی سے کانیگرم جنوبی وزیرستان تک علماء ومفتیان نے جو کردار ادا کیا اسکو تاریخ کے اوراق میں جگہ ملے یا نہ ملے اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں ہے لیکن الحمد للہ ہے ہمارا کردار اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز ثابت ہورہاہے۔ پہلے میرا بھی علماء کرام و مفتیان عظام سے محض عقیدت واحترام کا تعلق تھا، اب یہ تعلق محض رسمی حد تک نہیں بلکہ مضبوط بنیادوں پر استوار ہوچکا ہے۔ جمعیت علماء اسلام کے سابقہ مرکزی امیر مولانا عبدالکریمؒ بیرشریف لاڑکانہ ، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی امیر مولانا خان محمدؒ کندیاں میانوالی ، مولانا سرفراز خان صفدرؒ گوجرانوالہ اور انکے صاحبزادے مولانا زاہدالراشدی کے علاوہ دیوبندی بریلوی اہلحدیث، جماعت اسلامی اور شیعہ کے بڑے نامور علماء کرام و سرکاری افسران نے بڑی تعداد میں ہماری بھرپور طریقے سے زبردست حمایت کی ہے۔ جن میں سندھ کے چیف سیکرٹری فضل الرحمن،ایف آئی اے کے داریکٹر، آئی جی ڈی آئی جی سندھ اور دیگر ذمہ دار عہدوں پر فائز شامل ہیں۔ کسی بھی تحریک اور جماعت کو ایسے مختلف الخیال لوگوں کی طرف سے اتنی بڑی تعداد میں کھل کر ایسی حمایت کرنے کا اعزاز حاصل نہیں ہوا ہے۔
ٹانک کے تمام مشہور علماء کرام مولانا فتح خانؒ ، مولانا عبدالرؤفؒ گل امام، مولانا عصام الدین محسود، جمعیت علماء اسلام (ف)مولانا غلام محمد ضلعی امیر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، مولانا شیخ محمدشفیع ضلعی امیرجمعیت علماء اسلام(س)مولانا قاری محمد حسن شکوی خطیب گودام مسجد ٹانک و مہتمم مدرسہ شکئی جنوبی وزیرستان وغیرہ نے کھل کر ہماری حمایت کی مگرقاضی عبدالکریم کلاچی نے کھل کراور مولانا فضل الرحمن نے چھپ کر وار کیا۔ پھر مولانا فضل الرحمن نے سب کے سامنے گھر پر آکر کہا تھا کہ ’’میں نے ہمیشہ حمایت کی ہے‘‘۔ حالانکہ جب ٹانک کے معروف علماء نے تحریر ی حمایت کا اعلان کیا اور تبلیغی جماعت نے انکے خلاف فضاء کو خراب کرنا شروع کردی توہم نے ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے تمام دیوبندی مکتبۂ فکر کا پروگرام رکھنے کی تجویز رکھی سب متفق ہوگئے مگر مولانا فضل الرحمن نے مولانا عصام الدین محسود سے کہا کہ یہ پروگرام نہ ہونے پائے۔ انہوں نے پوچھ لیا کہ کیوں؟، مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ’’پھر روتے ہوئے میرے پاس نہیں آنا ، میرے پاس کوئی جواب نہیں‘‘۔
مولانا عصام الدین محسود نے مجھے بتادیا ۔ میں خود مولانا فضل الرحمن کے پاس گیا ، پہلے اس نے بات ٹالنے کی کوشش کی اور پھر مدرسہ کے منتظم مولانا عطاء اللہ شاہ سے کہا کہ آپ شرکت کرلیں۔ مولانا فتح خان کو میں نے صورتحال سے آگاہ کیاتو یہ طے پایا کہ ٹانک کے علماء کے کھانے کا اہتمام مولانا عصام الدین محسودکے ذمہ لگانا ہوگا تاکہ مولانا فضل الرحمن کے دباؤ سے وہ کہیں غائب نہ ہوجائیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے علماء کی دعوت مولانا فتح خان کے ذمہ ہوگی۔ پھر ڈیرہ اسماعیل خان سے کوئی بھی نہیں آسکا تھا لیکن ٹانک اور مضافات کے علماء کرام کی اچھی تعداد شریک ہوئی۔ میں نے اپنے مؤقف کی وضاحت کردی تو مولانا فتح خان نے اٹھ کر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ میری داڑھی سفید ہوگئی ہے، عتیق میرے سامنے بچہ ہے لیکن اسکے علم نے میری آنکھوں سے پٹیاں کھول دی ہیں۔۔۔‘‘۔ مولاناعبدالرؤف مولانا غلام محمد اور دیگر نے بھرپور طریقے سے میرے حق میں تقریریں کردیں۔ جمعیت علماء اسلام کے ذمہ دار عہدوں پر مولانا فتح خان، مولانا عبدالرؤف، مولانا عصام الدین تھے۔
مولانا شرف الدین کی اس وقت کوئی حیثیت نہیں تھی تاہم اس نے اعتراض اٹھایا تھا کہ عہدے مانگنا جائز نہیں، تم خود خلیفہ بننا چاہتے ہو۔ میں نے جواب دیا کہ خلافت حلوے کی پلیٹ نہیں کہ کوئی فرد اس کو اٹھائے اور بھگا کرلے جائے۔ 20افراد مار دئیے جائیں تب 21واں شخص خلیفہ بن جائے تو یہ سستا سودا ہوگا۔ اورجہاں تک عہدہ مانگنے کی بات ہے تو جب رسول اللہ ﷺ مکہ میں تھے تو اللہ نے ہجرت کرنے اور اقتدار کو مددگار بنانے کی دعا کا حکم دیا۔ جب خلافت قائم نہ تو اس کا قیام ضروری ہے البتہ خلافت قائم ہوجائے تب عہدہ مانگنے کی ممانعت ہے ،الیکشن کے دور میں ووٹ مانگنے کیلئے جمعیت علماء اسلام کتنے پاپڑ بیلتی ہے اور حکومتوں میں شامل ہونے کیلئے اس کا رویہ کتنا انوکھا ہوتا ہے۔ اسلام کی رو سے اس طرح کی تنظیم سازی جائز بھی ہے یا یہ کسی اور کے اتباع کا شاخسانہ ہے؟۔ پھر مولانا شرف الدین نے کہا کہ آپ اپنے اخبار میں تائیدی بیانات دیتے ہو مخالفت والے شائع نہیں کرتے۔ میں نے کہا کہ میرا اخبار آپ کے مخالفانہ سوالات اور اعتراضات کیلئے ہی وقف ہے۔ آپ لکھیں ہم شائع کریں گے۔ اس نے کچھ دنوں کا وقت لیا مگر مہینوں پھر چھپتا رہا۔ آخر کار میں اسکے مدرسے تجوڑی میں پہنچ گیا ، بعد میں کسی سے کہا کہ خدا کیلئے میری جان چھڑائیں۔ پھر ہم نے کبیر پبلک اکیڈمی میں ایک پروگرام رکھ لیا۔ مولانا فتح خان ، مولانا عبد الرؤف ، مولانا عصام الدین اور مولانا غلام محمد وغیرہ نے بہت کھل کر جلسہ عام میں ہماری تحریک کی حمایت کی جس کو ہم نے اپنے اخبار ضرب حق میں شہ سرخیوں کیساتھ شائع کیا۔ لوگ علماء اور اکابرین کی حمایت سے مطمئن ہوتے ہیں مگر ہمارے حاسدین نے مخالفت میں شدت پیدا کردی۔
مولانا فضل الرحمن نے ڈیرہ اسماعیل خان میں ہمارے ساتھیوں کیخلاف علماء کو بھڑکایا ، سپاہ صحابہ کے کارکنوں سے ہمارے ساتھیوں کی لڑائی ہوئی تو خلیفہ عبد القیوم نے بتایا کہ یہ پلان کسی اور کا تھا ہمارے کارکن استعمال ہوگئے۔ اسی دن مولانا فضل الرحمن ہمارا پچھلا اخبار لیکر ٹانک گئے اور جن علماء کی تقاریر شائع ہوئی تھیں ان پر دباؤ ڈالا۔ مولانا عبد الرؤف نے بتایا کہ میں نے مولانا کو کہا کہ ہم عتیق گیلانی کو جانتے بھی نہ تھے آپ نے متعارف کرایا، اب اس میں خامی کیا ہے ؟، اگر کوئی بات ہے تو آپ آرام سے بیٹھ جائیں ہم نمٹ لیں گے لیکن اگر کوئی بات نہیں تو خواہ مخواہ حسد کرنا درست نہیں ہے۔ پھر مولانا عبد الرؤف ضلعی امیر جمعیت علماء اسلام ٹانک نے اپنا زبردست تائیدی بیان قلم بند کرکے علامہ اقبال کا یہ شعر بھی لکھ دیا تھاکہ
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کیلئے
قاضی عبد الکریم کلاچی نے اپنے خط میں مولانا شیخ محمد شفیع کو لکھا تھا کہ آپ کی طرف سے عتیق گیلانی کی تحریری اور مجلس عام میں تقریری حمایت پر مجھے دکھ ہوا ہے، باقی (مولانا فضل الرحمن والے)تو ایسے ہیں کہ قادیانیوں کا بھی استقبال کرینگے۔ عتیق گیلانی پر گمراہی کا فتویٰ مہدی کی وجہ سے نہیں لگتا یہ تو کوئی بات نہیں بلکہ اہل تشیع کے کفر پر امت کا اجماع ہوچکا ہے یہ شخص اس اجماع کا منکر ہے اسلئے گمراہ ہے۔ مولانا عبد الرؤف کا بیان ضرب حق کی زینت بنا تھا جس میں قاضی عبد الکریم کو اپنی بھونڈی حرکتیں چھوڑنے کی تلقین کی گئی تھی۔ میں نے قاضی عبد الکریم کے جواب میں لکھا تھا کہ تمہارا فتویٰ سعودی عرب کے حکمرانوں پر بھی لگتا ہے اسلئے کہ غیر مسلم کا حرم میں داخلہ ممنوع ہے۔ جس کے بعد قاضی عبد الکریم نے مولانا عبد الرؤف سے معافی مانگ لی تھی کہ میں غلطی پر تھا۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ ہم نے جان بوجھ کر قاضی عبد الکریم کو عتیق گیلانی سے لڑایا تاکہ اس کے فتوے کند ہوجائیں۔ پھر مولانا فضل الرحمن نے ہمارے گھر پر مولانا گل نواز محسود کے مجھ سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ ’’میں نے اسکی کبھی مخالفت نہیں کی ہمیشہ اسکی حمایت کرتا ہوں۔ ‘‘ اہل تشیع، اہل حدیث،دیوبندی اور بریلوی علماء ومفتیان کی لمبی فہرست ہے جنہوں نے ہماری حمایت کی ہے لیکن درپردہ حسد کا مسئلہ بھی ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے واضح کردہ قیامت کی یہ نشانی حرف بہ حرف پوری ہوئی.

عن انس رفعہ۔اقتراب الساعۃ ان یری الہلال قبلا فیقال لیلتین و ان تتخذ المساجد طرقا و ان یظھر موت الفجاء ۃ
(طبرانی اوسط ، کنزل العمال ج 14، ص 220، جمع الفوائد ج: 3، ص:443، حدیث نمبر: 9808 ، مطبوعہ علوم القرآن بیروت، عصر حاضر حدیث نبوی ؐکے آئینہ میں، لدھیانویؒ )
قرب قیامت کی ایک نشانی یہ ہے کہ چاند پہلے سے دیکھ لیا جائیگا اور پھر کہا جائیگا کہ دو رات کا چاند ہے اور مساجد کو گزر گاہ بنالیا جائیگا اور نا گہانی موت عام ہوگی۔
رسول اللہ ﷺکی طرف سے واضح کردہ قیامت کی یہ نشانی حرف بہ حرف پوری ہوئی ہے۔ پہلے سے چاند دیکھنے کی بات تو اتنی بڑی بات نہیں جتنی چاند گرہن اور سورج گرہن کا معاملہ ہے۔ وہ بھی پہلے سے بتادیا جاتا ہے۔ مفتی منیب الرحمن چیئر مین رویت ہلال کمیٹی کے چشمے سے لگتا ہے کہ آٹھ نمبر سے کم نہیں ہوگا۔ قریب اور دور کے چشمے بھی الگ الگ ہوتے ہیں اور اگر کبھی دور کے ساتھ قریب کا چشمہ بھی لگایا جاتا ہے تو نیچے کی طرف سے ہوتا ہے۔ پوری دنیا میں ہلال کا پہلے سے ہی پتہ چل جاتا ہے مگر پاکستان میں ہلال کمیٹی نے چاند دیکھنے کا فیصلہ اسوقت کرنا ہوتا ہے جب چاند سب لوگوں کو اتنا بڑا نظر آتا ہے کہ اس کیلئے مخصوص کمیٹی کی ضرورت نہیں رہتی۔ ایک مرتبہ ہم اسلام آباد گئے اور اخبارات میں خبر یہ تھی کہ رمضان کا چاند نظر آنے کا اسلام آباد میں کوئی امکان نہیں البتہ کراچی میں نظر آسکتا ہے۔ مفتی منیب الرحمن کراچی سے پھر بھی اسلام آباد چاند دیکھنے کیلئے گئے ۔ اسلام آباد کے ایئر پورٹ پر واپس آتے ہوئے میں نے چیئر مین رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمن سے پوچھا کہ اگر پاکستان اور سعودی عرب کے وقت میں کچھ گھنٹوں کا فرق ہے تو اس سے زیادہ فرق پاکستان اور برطانیہ و امریکہ کا ہے۔ اگر 2 گھنٹوں سے ایک دو دن کا فرق ہوسکتا ہے تو 8اور 12 گھنٹے کا پھر زیادہ فرق ہونا چاہیے۔ جب محکمہ موسمیات نے خبر دی کہ چاند اسلام آباد میں نظر نہیں آسکتا ، کراچی میں موسم صاف ہے ، کراچی میں نظر آسکتا ہے تو پھر چاند دیکھنے کیلئے کراچی سے اسلام آباد آنے کی کیا ضرورت تھی؟۔ تو مفتی منیب الرحمن نے اس کا بہت زبردست جواب دیا کہ یہ پاکستان ہے انجوائے کرو انجوائے۔ اگر دنیا کی سطح پر مختلف چاند ہوں تو پھر الگ الگ روزے اور عید منانا بھی درست ہے۔ جس طرح سے نماز کے اوقات میں مختلف جگہوں پر سورج یا طلوع ہوتا ہے یا غروب اور کہیں عصر و ظہر کے وقت میں مغرب و عشاء کا وقت ہوتا ہے۔ اس طرح سے چاند کا بھی یہ مسئلہ ہوتا تو پھر مختلف روزے اور عید الفطر و عید الاضحی کا جواز تھا۔ دنیا تماشہ دیکھتی ہے کہ لندن اور امریکہ میں بعض لوگ سعودیہ کیساتھ اور بعض پاکستان کیساتھ روزہ و عید مناتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں توراۃ کے حوالے سے مذہبی ذہنیت رکھنے والوں کو گدھوں سے تشبیہ دی ہے۔ مندرجہ بالا حدیث میں یہ وضاحت ہے کہ ہلال کو پہلے سے ہی دیکھ لیا جائیگا ۔ یہ صلاحیت تو دنیا نے حاصل کرلی ہے۔ مگر اسکے باوجود مسلم امہ کی کیفیت یہ ہے کہ دو دن کے چاند پر روزہ و افطار کرتے ہیں۔ پہلے علماء ریڈیو کے اعلان کو شریعت کے منافی سمجھتے تھے اسلئے چشم دید گواہوں پر روزہ و عید کا فتویٰ دیتے تھے۔ پھر ریڈیو کے اعلان کو ہی معتبر قرار دیا۔ پھر ٹی وی کی نشریات کو حرام قرار دیا اور اب ٹی وی پر اعلان نہ ہو تو چاند کا دیکھنا بھی معتبر نہیں۔
ایک لطیفہ ہے کہ کسی شخص نے قسم کھائی ہوئی تھی کہ جب تک چاند کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لوں روزہ نہیں رکھوں گا۔ وہ آسمان کی طرف دیکھنے سے گریز کر رہا تھا ایک دن اپنی گائے کو پانی پلارہا تھا تو چاند کے عکس کو پانی میں دیکھا۔ پھر کہنے لگا کہ اب تم پاؤں میں پڑ گئے ہو اسلئے روزہ رکھنا پڑے گا۔ ہلال کمیٹی والے چاند کو نہیں دیکھتے جب تک چاند بہت ترس نہیں جاتا۔ ماہرین عوام کو بتادیں کہ دوربین کیلئے قریب کے چشموں کی ضرورت ہے یا دور کے؟۔ اگر سعودیہ کا چاند پاکستان کیلئے معتبر نہیں تو پاکستانی حج کا فرض کیسے ادا کرتے ہیں؟۔ نماز کے اوقات کی طرح تمام مہینوں کے ہلالوں کے بھی آئندہ کلنڈر شائع ہوسکتے ہیں جس کو علماء و مفتیان سمجھے بوجھے بغیر بھی اپنے نام کے ساتھ منسوب کرینگے۔ روزہ رکھنے اور افطار کرنے کا کلینڈر بھی علماء و مفتیان نے جدید علوم کی روشنی میں بنایا ہوتا ہے تو پھر چاند کا کیوں نہیں؟۔ خدارا اُمت مسلمہ پر رحم کریں۔محمد اشرف میمن، پبلشر نوشتہ دیوار