پوسٹ تلاش کریں

دریائے ستلج اور پنجند کے مقام پر منرل واٹر سے زیادہ صاف پانی کے بڑے ذخائر

کیا راجستھان کی ناکامی ،چولستانی نہر کا نقصان اور متبادل زیرزمین پانی سے آگاہ نہیںکیاگیا؟ جواب:11اپریل 2024ء کو ایکس، دو، تین، چار 14نکات پر مشتمل رپوٹ میں سب کچھ بتایا

گرین پاکستان نے اپنے الفاظ میں بھی سمجھایا لیکن یہاں کا ٹھیکیداری سسٹم بہت مضبوط ہے۔ مقصد صرف مافیاکا پیسہ کھانا ہے ،خمیازہ عوام بھگتتی ہے

ناظرین آداب علی وارثی ایک مرتبہ پھر نیا دور کے پلیٹ فارم سے آپ کے سامنے حاضر ہے ۔ سوال: پنجاب کہتا ہے کہ ہمارے حصے کا پانی ہے۔
ڈاکٹر حسن عباس: یہ پنجاب نہیں کہہ رہا یہ کنالز بنانے والے کہہ رہے ہیں کہ پنجاب کا پانی جائے گا اور سندھ کا نہیں ۔ سندھ کی سیاسی جماعتیں ، لوکل لیڈرز، عوام سمجھتے ہیں کہ جب دریاؤں کا رخ موڑا گیا تو سندھ کو نقصان ہوا اور وہ آرگنائز طریقے سے آواز بلند کر رہے ہیں۔ کچھ چیزیں سیاسی ہیں اور بہت سی چیزیں سائنٹیفک اور حقیقی ہیں تو یہ ملا جلا رجحان ہے جس میں ان کنالز کی مخالفت کی آواز آرہی ہے مگر ایسا نہیں کہ پنجاب کا کسان بڑا خوش ہے کہ چولستان میں پانی جا رہا ہے پنجابی کسان بھی پریشان ہے مگر بدقسمتی سے سندھی کسان کی طرح سیاسی ،ا نتظامی اور تہذبی منظم نہیں جس طرح سندھی کسان ہیں تو پنجابی کسان پریشان ہے کہ اگر میرے حصے کا پانی جائے گا تو مجھے پہلے پورا نہیں مل رہا تو پھر میرا کیا بنے گا؟اور حال میں پنجاب سے آواز اٹھی ہے۔ لوکل لوگوں نے مقدمات درج کروائے کہ یہ زیادتی ہے ۔ جہاں تک SIFC کے Green Pakistan Initiative کا معاملہ ہے تو بیان کردہ مقصد یہ ہے کہ فوڈ سیکیورٹی کو استحکام دیا جائے اور جو زرعی اجناس اُگا سکتے ہیں ان کو ایکسپورٹ کیا جائے جہاں وہ پیدا نہیں ہو سکتی مثلا مڈل ایسٹ سینٹرل ایشیا میں جائیں۔ تو آئیڈیا برا نہیں ہونا،ایسا ہونا چاہے لیکن جس طریقے سے وہ یہ مقصد حاصل کرنے جا رہے ہیں اس پر کافی سارے سوالات اُٹھ رہے ہیں۔
سوال: بریفنگ دی گئی تھی صحافیوں اور بہت سے سول سوسائٹی کے لوگوں کہ پنجاب کے لاہور، قصور اور غالباً اوکاڑہ تین اضلاع میں شہری آبادی بہت زیادہ ہو چکی ہے ۔ وہاں اتنے زیادہ پانی کی اب ضرورت نہیں ، اسلئے انکے حصے کا پانی لینا ہے ۔
ڈاکٹر حسن عباس: یہ ہر روز ایک نئی منطق سنتے ہیں کہ پنجاب میں شہری آبادی بن گئی تو وہ پانی بچ گیا ہے کبھی یہ منطق کہ سیلاب کا پانی آئے گا تو کینال چلا دیں گے کبھی کہتے ہیں دیامیر بھاشااور مہمند ڈیم بن جائیں گے تو ادھر کا پانی آجائے گا۔ کبھی کہتے ہیں سندھ کا ایک بوند نہیں جائے گا اور پنجاب کا پانی آئیگا۔ ابھی تک کوئی واضح وضاحت کینالز بنانے والی لابی کی طرف سے نہیں آئی وہ کبھی کوئی بہانہ کرتے ہیں کبھی کوئی بہانہ کرتے ہیں اور لگتا ہے کہ مقصد چولستان میں پانی لے جانا نہیں، مقصد گرین پاکستان کو سپورٹ کرنا نہیں بلکہ مقصد صرف اور صرف وہ بڑے بڑے ٹھیکے لینا ہے جس سے اگلے 6 سال تک ٹھیکے کرنے کے، مٹی کھودنے کے، سریہ باندھنے کے پیسے ملتے رہیں اور چیزیں چلتی رہیں اور جو ٹھیکدار ہیں ان کی بلا سے پانی ہے یا نہیں ، پانی آئے یا نہ آئے گرین پاکستان کامیاب ہو یا ناکام ہو ان کی بلا سے کچھ نہیں ہے ان کو صرف ٹھیکے چاہئیں۔ جس طرح نیلم جہلم میں انہوں نے کیا کہ اس قوم کے کوئی پانچ چھ بلین ڈالرز خرچ کر دیے اور نیلم جہلم کے ٹھیکے دار پیسے لیکر چلے گئے۔ لیکن نہ ہمیں بجلی ملی، نہ وہ پروجیکٹ کام کر رہا ہے۔ تو ٹھیکیداری کا نظام پاکستان میں بہت طاقتور ہو چکا ہے ان لوگوں کو آپ روک نہیں سکتے یہ بہت پاور فل ہیں یہ فیصلہ سازوں تک پہنچ جاتے ہیں اپنی لابنگ کر دیتے ہیں اپنی مرضی کے فیصلے کرا لیتے ہیں اور پھر اگر پراجیکٹ نہ بھی چلے تو یہ اتنے مضبوط ہیں کہ ان کو کوئی پوچھ نہیں سکتا۔ تو مجھے ایسی سٹوری نظر آرہی ہے کیونکہ جہاں تک نہروں کا تعلق ہے اور
Green Pakistan Initiative کا تعلق ہے تو ان مقاصد کا تو ان نہروں سے دور دور تک کوئی واسطہ بنتا ہوا نظر نہیں آرہاہے۔
انڈیا نے راجستھان کینال بنائی ۔راجستھان ڈیزرٹ نام رکھا۔ گوگل پر زوم کر کے دیکھیں ۔اُوپر ریت کے ٹیلوں نے اس کو مٹی سے بھر دیا ہے اور بلینزآف ڈالرز کا خرچہ انہوں نے کیا۔ تین دریا کا رُخ موڑ دیا60 سال لگا دیے، ابھی تک ڈیزرٹ ڈیزرٹ ہی ہے اور قابل عمل نہیں۔ ہائیڈروجیکل سسٹم ہے اس میں بڑے سے بڑا ڈیم بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ تین مہینے کا سٹیمنا نہیں ہے آپ اربوں ڈالر کا خرچہ کس کیلئے کر رہے ہیں؟۔ مجھے بتائیں نیلم جہلم کا قرضہ کون دے رہا ہے؟۔ میں اور آپ! ہم موبائل فون بیلنس، گاڑی اور موٹر سائیکل میں پٹرول ڈلواتے ہیں اس پرجو ہم ٹیکس دیتے ہیں وہ پیسہ جا رہاہے ٹھیکدارکو تو کسی نے پوچھا بھی؟ یہ ٹھیکدار اتنے پاور فل ہیں کہ آپ پوچھ تک نہیں سکتے کہ آپ ہیں کون ؟۔ ہمارے ارباب اختیار کو اسکے بارے میں کوئی نالج نہیں تھی پہلے سے؟۔
ان کو بتایا گیا تھا ستلج کے نیچے 34 ملین ایکڑفٹ پانی ہے اور پنجند ریور کے نیچے تقریبا 110 ملین ایکڑفٹ پانی ہے۔ مثلاً دیامیر بھاشا ڈیم بن رہا ہے یہ چھ سات ملین ایکڑ فٹ کا ہے، ادھر 500ہے یہ 100گنا زیادہ پانی ہے۔ ان کو پتہ ہے کہ آلٹرنیٹ سستا بنتا ہے جلدی بنتا ہے ماحول دوست، سماجی طور پر مستحکم ، ایکنامیکل ہے۔ یہ ڈیموں، بیراجوں اور نہروں پر مبنی روایتی کے مقابلے میں تعمیر اور چلانے کے لحاظ سے نمایاں طور پر زیادہ آسان ہے۔ گرین پاکستان کے اپنے الفاظ ہیں اس رپورٹ کے بارے میں۔
سوال: یہ غذائی مسائل کا قابل عمل حل ہے؟۔
ڈاکٹر حسن عباس: یہ بالکل قابل عمل نہیں ہے۔ اگر فوڈ سکیورٹی کرنا چاہتے ہیں تو ورٹیکل گروتھ پہ جانا ہوگا جس کا مطلب پر وہ سیراب شدہ علاقہ جہاں لوگوں کو الاٹمنٹس ملی ہوئی ہیں اور وہ ایریا جہاں پانی نہیں پہنچ رہا ادھر لوگ غربت کسمپرسی کا شکار ہیں ان علاقوں کو اگر آپ مضبوط کریں ادھر اگر کوئی آپ نے پانی کا پراجیکٹ کرنا ہے تو آپ وہاں لے کے جائیں اگر آپ نے ماڈرن ایریگیشن ٹیکنالوجیز لے کے آنی ہے تو وہاں لے کر جائیں اپنے لوگوں کو بااختیار بنائیں کہ وہ اس زمین سے زیادہ پروڈیوس کریں جس زمین سے اس وقت وہ مشکل سے پروڈیوس کر رہے ہیں تو آپ کا کام ہے کہ ان کو سپورٹ کریں ۔ یہاں صاف آپ کو یاد ہوگا کہ وزیراعظم اسٹیج پر آئے اور کہا کہ یہ میرا پراجیکٹ نہیں ہے یہ جنرل عاصم منیر صاحب کا پروجیکٹ ہے۔ ہمیں لگ رہا تھا کہ شاید کچھ زیادہ ہی شکر گزاری کہ عالم میں ہیں لیکن شاید وہ اس سے اپنے آپ کوبری الذمہ بھی کر رہے تھے۔
سوال : یہ بتائیے کہ جب یہ فیصلے ہو رہے ہوتے ہیں تو فیصلہ سازی کس طرح سے ہوتی ہے آخر آپ نے جیسے ابھی یہ مثال دی راجستھان کی ۔ کچھ سال پہلے بھاشا ڈیم پر ڈیم فنڈ بنایا تھا اس پر غالباً آپ نے کہا تھا کہ یہ مفاد فرست گروپس ڈیم کیلئے ہر وقت زور ڈالتے ہیں اور وہ رشوت دینے کیلئے بھی تیار ہو جاتے ہیں۔کیا ان کو یہ پتہ نہیں کہ ڈیموں کا فائدہ نہیں۔ ماحولیات پر اس کا برا اثر پڑتا ہے؟اور صوبوں کے درمیان بد اعتمادی پیدا ہوتی ہے؟۔
جواب :پہلے سے جی نہ صرف یہ کہ نالج تھی بلکہ ان کو رپورٹ لکھ کے دی گئی تھی زبانی کلامی بھی نہیں لکھ کے ایک رپورٹ ان کو دی گئی تھی جس میں ان کو بتایا گیا تھا کہ کنال راجستھاں کی طرح چولستان ڈیزرٹ میں کیوں نہیں چل سکتی؟۔ اس پہ پورے سارے ایک، دو، تین، چار اس کو 14 پوائنٹس لکھ کے دیے گئے تھے کہ یہ مسائل ہیں اگر آپ نے کنال بنائی اور وہ رپورٹ 11پریل 2024 میں ان کو جمع کرائی گئی تھی اور اس میں جو کنال کا سب سے پہلا منفی نکتہ دیا گیا وہ یہ تھا کہ جب کنال کیلئے دریاں میں پانی نکالیں گے تو صوبوں کے درمیان چپقلش اور بدمزگی پیدا ہوگی اور جو قومی ہم آہنگی شمال اور جنوب کی ہے اس کو دھچکا لگے گا یہ تو اپریل میں پچھلے سال ان کو بتایا گیا تھا۔ ایک سال کے بعد اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ سب کچھ ہو رہا ہے پھر ان کو یہ بھی بتایا گیا تھا کہ کنال کی جگہ آپ کے پاس متبادل چیز ہے۔ دیکھیں چولستان میں ایسا نہیں کہ فارمنگ نہیں ہو سکتی ، ہو سکتی ہے لیکن کنال سے نہیں ہو سکتی اسکے دوسرے طریقے ہیں پھر ان کو دوسرے طریقے بھی بتائے گئے تھے کہ آپ کے اس وقت دریاؤں میں پانی کوئی نہیں ہے جو پہلے سے کم اور ختم ہے۔ پنجاب میں بھی پانی کی کمی ہے سندھ میں بھی ۔اگر مزیدپانی لیں گے تو مسائل بنیں گے۔ ان کو بتایا گیا تھا کہ دریائے ستلج کے نیچے پانی کا ذخیرہ ہے اور پنجند کے مقام پر بھی ۔یہ دو جگہیں جو چولستان کے قریب100 سے200 اور50 سے 100 کلومیٹر کے فاصلے پر یہ علاقے ہیں جو آپ نے مختص کیے ہیں اور پھر فارمنگ کیلئے ان کو اگر آپ نے زرعی بنانا ہے تو اس کیلئے جو ذریعہ ہے وہ یہ دریاؤں کے نیچے سٹور پانی ہے جو کہ اس وقت کوئی استعمال نہیں کر رہاہے ۔اس کو استعمال کریں اور اس پانی پر ایک بہت مفصل تحقیق ، مطالعہ ، تجربہ ہواہے۔ جس میں قومی اور بین الاقوامی ماہرین نے شرکت کی اور اس کاقابل عمل معاملہ دیکھا گیا کہ کتنا پانی ہم نکال سکتے ہیں، کتنا پانی ٹوٹل ہے اور پانی کی کیا کوالٹی ہے؟۔ کدھر سے نکالنے سے نقصان نہیں ہوگا ؟۔کس طرف سے پائپ لائن آئے گی۔ کدھر کیا ہوگا ایک بہت تفصیلی رپورٹ بنا کے دی اور اس میں جو پانی کی کوالٹی تھی جو اس دریا کی ریت کے نیچے ہے وہ پینے کے قابل ہے یعنی وہ اتنا صاف پانی ہے کیونکہ وہ قدرتی فلٹر ہوا ہوا ہے وہ پینے کے قابل پانی ہے ہم نے ایک جگہ پہ اس کو بوتل پانی سے موازنہ کیا تو بوتل پانی سے بھی اچھا پانی تھا پھر جو اس کی تعداد ہے اس پانی کی جو مقدار ہے وہ بھی دریاؤں کے بڑے ڈیموں سے پانچ سو گنا زیادہ ہے۔ اگر دریاؤں کیساتھ قدرتی نظام سے جمع شدہ پانی کو استعمال کیا جائے تو دریائے ستلج اور پنجند کے علاوہ پورے ملک میں بڑے بڑے ذخائر دریافت ہوں گے۔ ہم ڈیموں کے ذریعے اتنا بھی پہلے جمع نہیں کرسکتے۔ ڈیموں میں بہت کم گنجائش ہے اور اس کے بہت زیادہ نقصانات بھی ہیں۔ ایران کے پاس ڈیموں کیلئے بین الاقوامی ٹیم 1950ء میں آئی تھی اور اس وقت دنیا نے اتنی ترقی نہیں کی تھی مگر مقامی ماہرین نے کہا کہ مصنوعی ڈیموں سے قدرتی نظام بہتر ، محفوظ اور بہت فائدہ مند ہے اور اس کے نقصانات اور مضر اثرات بھی نہیں ہیں۔
آج دنیا نے ترقی کرلی ہے اور نہری نظام کو ختم کردیا گیا ہے۔ زیر زمین پانی کے ذخائر قدرت کا بہت بڑا تحفہ ہے جس میں پانی بہت بڑی مقدار میں اسٹور بھی ہوتا ہے اور فلٹر بھی زبردست طریقے سے ہوجاتا ہے اور ماحولیاتی آلودگی سے محفوظ بھی ہوتا ہے ، اس کا موجودہ دور میں خرچہ بھی بہت کم ہے۔
ڈاکٹر حسن عباس کی تعلیم، مہارت اور خلوص قوم، سیاستدانوں اور صحافیوں میں عام ہورہا ہے اور مقتدر طبقات کا بند دماغ بھی انشاء اللہ جلد کھل جائے گا اور قومی مفاد کو مدنظر رکھ کر بہترین منصوبہ بندی سے پاکستان جنت نظیر بنادیا جائے گا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اپریل 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

قرآن کی کسی آیت کا حکم منسوخ نہیں!

ما ننسخ من آیةٍ او ننسھا نأت بخیرٍمنھا او مثلھا ہم جو آیت منسوخ کرتے ہیں یا بھلادیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی لے آتے ہیں۔البقرہ:106

سوال:کیا اس آیت سے یہ کہیں لگتا ہے کہ اللہ نے اس آیت سے اپنا کوئی حکم منسوخ کردیا ہے؟۔
جواب : اس آیت سے کسی حکم کی منسوخی کا تصور زائل ہوتا ہے۔ اگر کسی حکم کی آیت اللہ نے منسوخ کردی ہے تو اس سے بہتر آیت اس حکم کو سمجھنانے کیلئے نازل کی ہے یا کم ازکم اسی جیسی آیت ضرور۔
سوال :شیعہ پر الزام لگتاہے کہ وہ اللہ کی طرف بھولنے کی نسبت کرتے ہیں تو کیا قرآن کی آیات میں تبدیلی اور بھلا دینے کا الزام درست ہے؟۔
جواب: قرآن کی آیات میں تبدیلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی بھلادینے کا امکان تھا۔
اس آیت میں سابقہ آسمانی کتب کی آیات میں منسوخی اور بھلاد ینے کی بات ہے اسلئے کہ انہوں نے احکام کو تبدیل کردیا تھا۔ من الذین ھادوا یحرفون کلم عن مواضعہ و یقولون سمعنا و عصینا واسمع غیر مسمعٍ وراعنالیًّا بألسنتھم وطعنًا فی الدین (المائدہ :46)
”اور یہود میں کچھ لوگ کلمات کو اپنی جگہوں سے ہٹاتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم نے سنا اور انکار کیا اور سنو،نہیں سننااور ”راعنا” اپنی زبانوں کو نرم کرکے اور دین میں طعن زنی کرتے ہوئے”۔
اہل کتاب ایماندارطبقہ ”سلام علیکم” کہتا ۔ لیکن یہود ”سام” کہہ دیتے۔ قرآن میں اہل کتاب کی طرف مخاطب کے لفظ سے منسوب ہے کہ وہ سلام علیکم کہتے تھے اور سابقہ کتابوں میں حکم بھی ہوگا لیکن قرآن میں ”سلام علیکم” کے الفاظ کا مسلمانوں کو حکم نہیں ہے۔ جب یہود نے نبیۖ سے کہا کہ سام علیکم تو حضرت عائشہ نے ان کو جواب میں یہ کہا کہ وعلیکم سام ۔ نبیۖ نے فرمایا ”وعلیکم” کافی تھا۔
رعاک اللہ ،اللہ تیری حفاظت کرے۔ راعنا کا معنی ہماری نگہداشت کیجئے۔ راعنة، راعنہ رعونت سے ناسمجھی کے ہیں۔ یہود الف کی جگہ آخر میں ”ة” کو ”ہ” سے بدل دیتے تھے۔ راعنا کی جگہ راعنہ کہتے اور مذاق اڑاتے ۔ اسلئے اللہ نے حکم دیا کہ
یایھا الذین اٰمنوا لاتقولوا راعنا وقولوا انظرنا واسمعوا …”اے ایمان والو! راعنا مت کہو،اور کہو کہ انظرنا اور سنو۔ اور کافروں کیلئے دردناک عذاب ہے۔ نہیں چاہتے کافر اہل کتاب اور مشرکوں میں سے کہ تمہارے اوپر خیر میں سے نازل ہو۔ اور اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت سے خاص کرتا ہے”۔ ( البقرہ آیات104،105)
اہل کتاب نے اعتراض کیا کہ راعنا کا حکم اللہ نے منسوخ کیا اور سلام علیکم کے حکم کو بھلادیا ہے۔
اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا کہ ” جب ہم کوئی آیت منسوخ کرتے ہیں یا بھلادیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی دوسری آیت لاتے ہیں”۔
بہت افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے یہ سمجھ لیا کہ قرآن کے کچھ احکام کو نازل کرتے ہیںتو پھر ان کو تبدیل کرتے ہیں یا بھلادیتے ہیں؟۔
پھر اس کا مصداق تلاش کرنے کے پیچھے بہت ساری روایات گھڑ دیں۔ یہاں تک بھی بک دیا کہ سورہ احزاب آدھی رہ گئی اور آدھی بھلادی گئی ہے۔
مفتی منیر شاکر شہید کے پاس علامہ غلام رسول سعیدی کی کتابیں تھیں۔ میں نے کہا کہ ”خلع” کی تنسیخ پر آدھی سورہ احزاب کو بھلانے کا لکھ دیا گیا۔
شاہ ولی اللہ نے قرآن کا ترجمہ کیا تو علماء نے ان پر کفرومرتد کا فتویٰ لگایا۔ حالانکہ شاہ ولی اللہ کے والد شاہ عبدالرحیم کے ہم عصر” ملاجیون” کی کتاب ”نورالانوار” میں لکھا ہے کہ ” امام ابوحنیفہ نماز میں قرآن کو فارسی سے عربی میں پڑھنا جائز نہیں بلکہ افضل سمجھتے تھے۔ فتاویٰ عالمگیریہ اور نورالانواراس وقت سے مدارس میں رائج ہیں۔ پھر جب دوسری زبانوں میں قرآن کا ترجمہ ہوا تو پشتو ترجمہ پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا۔ عرب اور پشتون قوم کا بیٹیوں کو بڑی رقم کے بدلے بیچنا اور پنجاب و ہندوستان میں جہیز کی لعنت سے واضح ہے کہ مسلمان کا عمل قرآن سے بہت دور ہے۔ ہندو بیوہ کو ”ستی” میں زندہ جلاتے تھے تو شاہ اسماعیل شہید اور مولانا قاسم نانوتوی کی طرف سے بیوہ کی شادی احیاء اسلام کی تحریک تھی۔
مدارس اور مذہبی طبقات کی بہتات کے باوجود مسلمان قرآن واسلام سے اسلئے دور ہورہاہے کہ مذہبی تعلیمات ہی غلط اور خلافِ فطرت ہیں۔
٭

قرآن کی آیات محکمات کا انکار کیا گیا!

قرآن کی آیات اور احکام کو منسوخ کرنے کے حوالے سے مسلمانوں میں انتہائی گمراہ کن عقائدوتعلیمات کا وہ آئینہ جس پر پارلیمنٹ میں آئین سازی کرنی ہوگی

جب ہم عمرہ پر گئے تھے تو مدینہ منورہ میں کتابیں دیکھنے اور خریدنے جاتے تھے۔ مہدی سے متعلق ایک کتاب پوچھنے پر کتب خانے والے نے کہا کہ ”آپ شیعہ تو نہیں؟”۔ میں نے کہا کہ میں شیعہ ہوں اور آپ؟۔ اس نے کہا کہ الحمد للہ ہم سنی ہیں۔ میں نے کہا کہ الحمدللہ ہم شیعہ ہیں تو الحمدللہ سے کیا ہوتا ہے؟۔ شیعہ سنی میں فرق کیا ہے؟۔ اس نے کہا کہ شیعہ قرآن میں تحریف کے قائل ہیں۔ میں نے کہاکہ آپ نہیں ہیں؟۔ اس نے کہا کہ بالکل نہیں! تو میں نے کہا کہ ابن ماجہ اُٹھاؤ۔ پوچھا یہ آپ لوگوں کی کتاب ہے؟۔ اس نے کہا کہ ہاں ۔ جب اس میں روایت دکھائی کہ حضرت عائشہ نے کہا کہ جب رسول اللہ ۖ کا وصال ہوا تو رضاعت کبیر اور رجم کی آیات چار پائی کے نیچے پڑی تھیں اور بکری نے کھاکر ضائع کردیں۔ تو وہ لوگ دھنگ رہ گئے۔
میں نے کہا کہ ”میں تو نہ شیعہ ہوں اور نہ سنی” تو انہوں نے کہا کہ ”ہم بھی نہ شیعہ ہیں اور نہ سنی” اور وہ دونوں علماء لگ رہے تھے۔ مدینہ یونیورسٹی میں آخری درجہ تک پڑھانے والے اساتذہ کرام سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ” آپ کی باتیں درست ہیںلیکن اگر یہاں پتہ چلا تو ہمیں غائب کردینگے یا پھر نوکری سے فارغ کرکے جلاوطن کردیںگے”۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز کو بھی ساری بات سمجھادی تھی لیکن اس نے کہا کہ” علماء شاہ دولہ کے چوہے ہیں ،میر ی نوکری کیلئے مشکل کھڑی ہوگی”۔ مولانا محمد خان شیرانی، مولاناعطاء الرحمن ، مفتی سعید خان، مولانا تراب الحق قادری اور بڑی تعداد میں علماء کرام کو بالمشافہہ اور تحریرات سے باتیں سمجھ میں آگئی تھیں لیکن کچھ علماء کرام میں ایمانی غیرت ہے اور کچھ میں ہمت نہیں ہے۔
قرآن کی تعریف کا معاملہ اپنے استاذ مفتی محمد نعیم صاحب جامعہ بنوریہ عالمیہ کے سامنے رکھا تھا تو انہوں نے کہا کہ یہ تو واقعی قرآن کی تحریف ہے۔
جب قرآن کی تعریف میںیہ پڑھایا جائے کہ ”اس سے غیر متواتر آیات نکل گئی ہیں اور اس میں شبہ والی آیت ہے”۔تو یہی تحریف کا عقیدہ ہے۔
اصول فقہ میں جو آیات پڑھائی جاتی ہیں وہ نہ صرف متنازعہ ہیں بلکہ قرآن کی واضح تعلیمات کی بیخ کنی بھی کی جارہی ہے۔مثلاً ثلاثة قروء میں 3 کاعدد خاص ہے اور عورت کو طلاق طہر میں دینی ہے اور عورت کی عدت 3حیض ہے اسلئے کہ جس طہر میں طلاق دی ہے اگر اس کو شمار کیا جائے گا تو عدت تین کی جگہ پر ڈھائی بن جائے گی۔(نورالانور)
اگر3 حیض کو شمار کیا جائے تو جس طہر میں طلاق دی ہے تو اس کی وجہ سے عدت ساڑھے 3حیض بن جائے گی۔ پھر بھی قرآن کے خاص پر عمل نہ ہوگا اور یہ بات میں طالب علمی کے زمانہ میں اساتذہ کے سامنے رکھ چکا ہوں اور انہوں نے تسلیم کیا کہ کتاب میں غلط تعلیم دی جارہی ہے۔ علماء لکھتے ہیں کہ عدت کی دوقسمیں ہیں۔ایک عدت الرجال جو مردوں کی عدت ہے جو عورت کی پاکی کا زمانہ ہے یعنی مرد عورت کی پاکی میں طلاق دے گا ۔ دوسری عورت کی عدت ہے جوحیض ہے ۔ حالانکہ قرآن کی سورہ طلاق میں اللہ نے فرمایا کہ ” جب تم عورتوں کو طلاق دو تو تم لوگ ان کی عدت کیلئے طلاق دو”۔ فطلقوھن لعد تھن پھر تو حیض کیلئے طلاق دینی ہوگی اور ایک تو عدت الرجال کی مشروعیت وڑ گئی اور دوسرا یہ کہ حیض میں ویسے بھی مقاربت منع ہے۔
قرآن کے متعلق غلط قواعد سے صرف حضرت عائشہ کے قول اور جمہور فقہی مسالک کی مخالفت نہیں ہوتی ہے بلکہ قرآن کی آیات کا درست ترجمہ بھی ناممکن بن جاتا ہے اور قرآن کی واضح آیات مجہول اور منکرات کے احکام میں بدل جاتے ہیں۔
پھر ایک طرف حنفی مسلک یہ ہے کہ خبرواحد کی حدیث کو آیات سے متصادم قرار دیتے ہیں جن کی وجہ سے انکارِ حدیث کا مسئلہ آتا ہے اور پھردوسری امام شافعی کے نزدیک قرآن میں خبرواحد کا عقیدہ کفر اور تحریف ہے لیکن احناف کے نزدیک قرآن کی خبرواحد بھی آیت کے حکم میں ہے۔ جس سے قرآن کی آیات محکمات کا تصور ہی ختم کردیا گیا ہے اور میںایک عرصہ سے لگاہوا ہوں اور عدالت کے دروازے پر دستک دینے کے بغیر چارہ نہیں ہے ۔
٭

مدارس سے ہی انقلاب آئیگا!انشاء اللہ

منہ اٰیٰت محکمٰت ھن ام الکتٰب واُخر متشٰبھٰت
اس میں سے کچھ فیصلہ کن آیات ہیں جو کتاب کی بنیاد ہیںاور دوسری متشابہات ہے۔ (سورہ ال عمران:7)

مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ قرآن کی محکم آیات میں گڑبڑ اور انتشار کی وہ کیفیت پیدا کردی کہ اچھے خاصے ذہین غلام احمد پرویز جیسے کو بھی بہت زیادہ الجھاؤ نے گمراہ کردیا۔ علماء کرام کی بدنیتی نہیں بلکہ نیک نیتی ہے کہ قرآن کا ترجمہ مت پڑھو اسلئے کہ جب ایک عالم دین اپنے علم کی گمراہی کاکٹا لیکر قرآن کو دیکھتا ہے تو اس کا اپنا دماغ بھی کام نہیں کرتا تو دوسروں کو کیسے کہہ سکتا ہے کہ اس کو پڑھ کر ہدایت حاصل کرو؟۔ ہندوستان میں قرآن کے ترجمہ کا سہرا شاہ ولی اللہ اور انکے صاحبزادگان شاہ عبدالقادر اور شاہ رفیع الدین کے سر ہے۔
لیکن قرآن سے مسائل کیسے حل ہوتے کہ جب محکم آیات پر حنفی، مالکی ،شافعی، حنبلی اور جعفری کے علاوہ فقہائ، مجتہدین، محدثین ، خلفاء راشدین اور صحابہ کرام وتابعین عظام تک کوئی متفق نہیں تھے؟۔
ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ پہلے کسی خلیفہ راشد ، صحابی، اہل بیت ، تابعی ، تبع تابعیاور مجتہد اور فقیہ ومحدث کی رائے یا عمل کو معیار بناتے ہیں ،اس کے بعد قرآنی آیات سے اس کی تائید کرتے ہیں۔
جب محکم آیات سے مسائل حل ہونے کے بجائے فکری، ذہنی، قلبی، نظریاتی ، عقیدے ، مسلک ، مشرب اوروجدانی کیفیات میں انتشار وفساد ہوگا تو مسلمان کیسے گمراہی کے دلدل سے نکلیں گے؟۔
محض یہ کہنا کہ” قرآن کی طرف رجوع مسائل کا حل ہے”ایک ہوئی فائرنگ کے سوا کچھ نہیں ہے اور شاہ ولی اللہ سے شیخ الہند مولانا محمودالحسن تک اور مولانا عبیداللہ سندھی سے علامہ تمناعمادی، غلام احمد پرویز،جاویداحمد غامدی اور مفتی منیر شاکر شہید تک قرآن کی طرف دعوت دینے والوں کی ہر دور میں ایک اچھی خاصی تعداد بھی رہی ہے۔ لیکن
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں
قرآں کو بوٹی بوٹی کردیا فقہاء ملت نے
فرقوں کی بہتات میں رسولۖ خدا ملتا نہیں
جب قرآن میں آیات محکمات کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہوا ہے۔ وہ محکمات جس کی وجہ سے اس وقت کی سپر طاقتیں روم وفارس لیٹ گئی تھیں اور مشرق و مغرب میں ایک بڑا انقلاب برپا کردیا تھا لیکن پھر خلافت خاندانوں کی لونڈی بنادی گئی اور مذہبی طبقہ محکمات کے بٹوارے میں لگ گیا۔ پھر متشابہات کا کیا حال کیا ہوگا؟۔ اسلام اور مسلمان قسمت کے بڑے دھنی ہیں۔ متشابہات کے معنی مشتبہ کے نہیں جس میں اشتباہ ہو بلکہ مشابہ مراد ہے۔ جیسے جیسے سائنس کی ترقی وعروج کا دور آرہاہے تو مشابہ آیت دنیا کے سامنے فتوحات کی تصویر لئے کھڑی ہے۔
پہاڑوں کو قرآن نے میخیں قرار دیا۔ سائنس کی دنیا نے ثابت کیا۔ پہاڑوں کے بارے میں کہا کہ یہ بادلوں کی طرح چلتے ہیں اور ثابت ہوا اور عرب اترابًا قد کے برابر گاڑیاں کہا۔ ترقی یافتہ دنیا نے ثابت کیا۔وانزلنا الحدیدًاہم نے لوہے کو نازل کیا تو سائنس نے ثابت کیا۔ مدارس کے علماء کرام کا کوئی قصور اسلئے نہیں کہ ان کو ورثہ میں جو کچھ مل گیا تو انہوں نے اپنے جبڑے سے مضبوط تھام لیا لیکن یہ بھی جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور دیگر مدارس ہی کا کمال ہے کہ میں نے انہی سے کسب فیض کیا ،مجھے سب سے زیادہ سپوٹ بھی مدارس کے علماء ومفتیان ہی سے ملی اور آج بھی میرا میدان عمل یہی لوگ ہیں اور مساجد ومدارس ہی سے انقلاب آئیگا۔ انشاء اللہ
پختونخواہ سے کراچی ایک تیز رفتار بس پر لکھا تھا کہ ” جوماں کا اکلوتا بیٹاہووہ اس میں سفرنہ کرے”۔
علامہ عنایت اللہ مشرقی ،علامہ تمنا عمادی ،غلام احمد پرویز، مولانا ابوالاعلیٰ موددی، ڈاکٹر اسرار احمد، شیخ القرآن مولانا طاہر پنج پیری، ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی ،کمال لدین عثمانی ،پروفیسر مسعود احمد،مفتی منیر شاکر اور وہ تمام فرقے، جماعتیں اور گروہ جو ایک ایک شخصیت کے سہارے کا آسرا لئے ہوئے ہیں تو ہم ان کو احترام کیساتھ کہتے ہیں کہ تم لگے رہو۔ اپنی شخصیت قربان کردی تو پھر تمہارا بچے گا کیا؟۔ البتہ اگر جمہور امت کے علماء ومفتیان میں سے بہت بھی قربان ہوگئے تو بڑی تبدیلی و انقلاب کی توقع ہے۔
جمہور کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
اجماع ہے ملت کے مقدر کا سورج

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اپریل 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv