پوسٹ تلاش کریں

بھارتی فوج ریہرسل میں کوے سے انڈے گرانے پر شرم کرے۔ عبد القدوس بلوچ

رحیم شاہ مروت ہے پنجابی نہیں، UCناظم ن لیگ کا عوامی نمائندہ ہے وردی والا نہیں۔ پیپلز پارٹی لسانیت کا رنگ نہ دے۔ پختون غلط نعرے نہیں لگائیں۔
بھارتی فوج ریہرسل میں کوے سے انڈے گرانے پر شرم کرے۔ عبد القدوس بلوچ
سود کے 73گناہوں میں سے کم از کم گناہ حدیث کے مطابق اپنی ماں کیساتھ زنا ہے ۔ پاکستانی آئین میں سودی قرضوں کی گنجائش نہیں مگر ہم سودی بھیک مانگے جارہے ہیں
کوئی مجبوری میں عزت بیچتا ہے۔ پاکستان ایران کے تیل و گیس سے اپنی عزت بچاسکتا ہے مگرنہیں بچاتا، دشمن بھارت کو اسکے ذریعے سے رام کرسکتا ہے مگر نہیں کرتا ہے۔
کراچی (نمائندہ خصوصی) عبد القدوس بلوچ امیر ادارہ اعلاء کلمۃ الحق نے کہا کہ کشمیر میں بھارت مظالم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔مودی نے ہندو انتہاپسندی سے جو دہشتگردی پھیلا ئی ہے اسکا سیکولر بھارت میں کوئی جواز نہیں ۔ بھارت حماقت کرے تو پاک فوج مقبوضہ کشمیر پر قبضہ میں دیر نہ لگائے ۔ بنگلہ دیش کا بدلہ بھارتی فوج سے چکانا چاہیے۔ اقوام متحدہ نے سرینگر سے ہماری فوج اور قبائلیوں کو نکال کر کشمیریوں سے استصواب رائے کا وعدہ پورا نہیں کیا۔ جنرل راحیل مسلم افواج سے بھارت کو کشمیر سے نکالیں۔ کیلئے اقوام متحدہ سے حق کی بات منوالیں۔ وقت آگیا کہ دنیا فلسطین وکشمیر کا حق تسلیم کرے اور ظلم و ستم کے نظام کا خاتمہ ہو، بھارت اپنی ریہرسل میں کالے جہازوں سے سفید رنگ کے بم برسا کر لگتا ہے جیسے مودی جی کوّے سے انڈے پھینک رہا ہو، بھارت شرم کرے۔ ہمارے چھوٹے ایٹم بم پاکستان پر حملہ آور لشکروں کو نیست و نابود کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دنیا نے جنگ سے مسلم اُمہ کو نہیں خود کو بھی برباد کیا ۔پاکستان کا آئین قرآن وسنت ہے، سود خور یہودی مافیااور بکا ہوا مفتی طبقہ سودی قرضے سے پاکستان کا بیڑہ غرق کریگا۔ سودکے 73 گناہ میں کم ازکم گناہ ماں سے زنا ہے(حدیث) کوئی مجبوری میں عزت بیچتاہے،پاکستان ایرانی تیل وگیس سے اپنی جان و عزت کو بچاسکتاہے ، دشمن بھارت کو قابو کرسکتا ہے مگریہودی لابی پاکستان کو مقروض بنائیگی اور ہم بے تول کشکول بن جائیں گے۔ 

تاریخ کے اوراق: حبیب جالب

1962ء کا دستور
ایوب خان کے مارشل لاء کیخلاف آواز اٹھانا بڑے ہی حوصلے کی بات تھی۔ مجھے یاد نہیں کہ ایوب خان کے خلاف میرے علاوہ کسی نے آواز اٹھائی تھی۔
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
وہ چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
یہ نظم سننے کے دوران جو لوگ سہمے بیٹھے تھے وہ اب نعرہ زن ہوگئے بآواز بلند داد دی اور بار بار ایک ایک بند کو سنا۔
مولانا بھاشانی
میں نے بھٹو سے پوچھا کہ ’’مولانا بھاشانی کو شیشے میں کیسے اتارا تھا؟‘‘۔ بھٹو نے کہا کہ ’’بھئی وہ قصور میرا ہے۔ میں نے مولانا بھاشانی سے کہا کہ ہم چین کی طرف جا رہے ہیں، تم مادر ملت کیساتھ امریکہ کی طرف جارہے ہو۔ پھر میں نے اسے پیسے دئیے‘‘۔ ۔۔۔مولانا بھاشانی مشرقی پاکستان کے مقبول ترین رہنما تھے اور بی ڈی الیکشن میں انکے امیدوار کامیاب بھی ہوگئے تو پھر محترمہ فاطمہ جناح کیوں ہاریں؟ ۔ یہ سوال مدتوں ہم دوستوں کو پریشان کرتا رہا۔ اس وقت سنا یہی تھا کہ ایوب خان نے بھٹو کی معرفت مولانا بھاشانی سے کوئی سودا بازی کرلی تھی۔ ۔۔۔
ہماری نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما مولانا بھاشانی پر تنقید سے سخت پریشان تھے۔ ایک بار مولانا بھاشانی کو گھیر لیا ۔ اجمل خٹک اور ولی خان نے تو سخت الفاظ میں ان باتوں کا ذکر کیا جو مولانا کے بارے میں ہورہی تھیں۔ مگر مولانا جواب دینے کے بجائے ٹالتے رہے۔ ولی خان نے کہا :’’بھٹو صاحب کہتے ہیں کہ آپ نے پیسے لئے ہیں‘‘۔
’’ولی خان تم پختونستان مانگتا ہے ادھر آؤ ہم تمہاری مدد کریگا‘‘۔ مولانا بھاشانی نے ٹالتے ہوئے کہا۔
ولی خان نے جواباً کہا : ’’یہاں پختونستان کی بات نہیں ہورہی ہم تو صرف نام پختونستان مانگتے ہیں تم بتاؤ تم نے بھٹو صاحب سے پیسے لئے تھے؟‘‘۔۔۔۔
اپوزیشن لیڈر بھٹو
ایوب خان کا عہد میرے دل و دماغ پر ایک سزا کے طور پر گزرا ہے، ہماری پارٹی (نیپ) مغربی پاکستان کے ساتھ مشرقی پاکستان میں بھی تھی۔ نیپ خیال کے اعتبار سے ذہین لوگوں کیلئے بڑی قابل قبول تھی۔ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ ’’مجھے نیپ کا مرکزی جنرل سیکرٹری بناؤتومیں نیب میں شامل ہوجاؤں گا‘‘۔ ہم نے کہا کہ جمہوری پارٹی کا یہ کام نہیں کہ کسی کو عہدہ دے، ہمارے ہاں الیکشن ہوتاہے اور الیکشن کے ذریعے کوئی بھی منتخب ہوسکتا ہے۔
باچاخان
باچاخان آئین ساز اسمبلی کے ممبر تھے اور قائد اعظم نے انہیں اپنے ہاں چائے پر بلایا۔ قائد اعظم نے کہا کہ ’’آج میرا پاکستان مکمل ہوا ہے‘‘۔ باچاخان نے قائد اعظم کو بھی دعوت دی اور یہ بھی کہا ’’جس ایمانداری اور دیانت سے میں نے پاکستان کی مخالفت کی تھی اسکی کچھ وجوہات تھیں لیکن اب پاکستان بن گیا، اپنے ماننے والوں کو بھی آپ کے سامنے پیش کروں گا اور ان کو کہوں گا کہ پاکستان کی تعمیر و ترقی میں ملکر کام کریں‘‘۔ قائد اعظم کی باچاخان سے ملاقات طے ہوگئی تھی جسے انگریز آئی جی اور قیوم خان نے ایک سازش کے تحت نہ ہونے دیا۔
ان سے کہا کہ لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ بن جائیگا اور وہ آپ کو مار دیں گے۔ قائد اعظم بانی پاکستان ایک انسان تھے انہیں مافوق البشر قرار دینا غلط بات ہوگی۔ انسان خطاء کھا سکتا ہے قائد اعظم سے کوئی غلطی سرزد ہونا فطری عمل تھا۔ وہ باچا خان کی دعوت پر نہیں گئے اور انکے انتظار میں کھڑے لوگوں پر قیوم خان نے گولی چلوادی تھی۔ 700 سو آدمی مر گئے تھے۔ باچاخان کو گرفتار کرلیا گیا اور وہ متحدہ ہندوستان میں بھی بار بار قید ہوئے۔ اب پاکستان میں بھی انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں اٹھائیں، قائد اعظم کو وہاں کس نے قتل کرنا تھا؟، ان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح نے تمام سرحد کا دورہ کیا تھا ولی خان کی صدارت میں مادر ملت کا جلسہ بھی ہوا تھا۔ ولی خان نے الیکشن میں ان کا ساتھ دیا تھا۔ باچاخان نے بھی مادر ملت کی حمایت کی تھی تو انہیں کسی نے قتل نہیں کیا۔ مادر ملت سرحد کے دورے پر جب تشریف لے گئیں تو ان کا شاندار استقبال ہوا۔ انکے ہاتھ دنبوں پر لگوا کر انہیں ذبح کیا گیا۔ یہ وہاں کی رسم ہے تو یہ بات غلط تھی کہ قائد اعظم کو وہاں کوئی پریشانی ہوتی یا ایسا کوئی واقعہ پیش آتا۔ (یہ خاکی وردی والے فوجی کا کام نہ تھا بلکہ انگریز پولیس آئی جی اور قیوم خان کا کام تھا۔ہر بات کا الزام فوج پر لگتا ہے۔قیوم خان کا انتخابی نشان ببر شیر ہوتا تھا جو آج ن لیگ کا ہے۔ )
شہید
کسی ڈکٹیٹر کو اپوزیشن نے نہیں اتارا بلکہ فوج نے آکر اتارا ۔ ایوب خان کو بھی اس کی فوج نے اتارا ۔ ضیاء الحق کو بھی اپوزیشن نے نہیں اتارا بلکہ فرشتہ اجل نے اُتارا۔
چنگیز خان شہید ہلاکو شہید ہے
آیا جو اس زمین پہ ڈاکو شہید ہے
جو اس نگر میں کرکے مرا ’’ کُو‘‘ شہید ہے
کاذب کے واسطے ہے ہر اک روز روزِ عید
کیا کیا نہ اہل صدق کی مٹی ہوئی پلید
کہئے یہی یقیں سے شیطان عظیم ہے
جو بھی ہے اس کے تابع فرماں عظیم ہے
ہر بو الہوس ہے معتبر و باوفا یہاں
ہر رہزن ہے رہبر و میر کارواں
ہر رہزن ہے خاک نشینوں کا ترجماں
لوگ اپنے قاتلوں کے ہیں عشاق میری جاں
نہ تو بھٹو کو شہید اور نہ ہی ضیاء الحق کو شہید مانتا ہوں۔ میں تو حسن ناصر کو شہید مانتا ہوں۔ بھٹو کی پھانسی کیخلاف میں نے بیان دیا، بھٹو صاحب نے کہا ہوگا کہ ’’اوئے تم کیا عجوبے ہو احمد رضا قصوری کو فکس نہیں کرسکتے۔۔۔‘‘ جیسے بھٹو کے عہد میں مولانا نورانی کا گریبان پکڑا گیا ۔ بھٹو نے یہ تو نہ کہا ہوگا کہ گولی ماردو اور انہوں نے جاکر گولی ماردی۔ جو نواب احمد خان کو لگ گئی۔ بھٹو کی پھانسی کا کیس کسی طرح نہ بنتا تھا۔ ہر چند کہ میرا بارہ سال کا بچہ طاہر عباس مرا، اسکا سوئم تھا، میں سوگوار بیٹھا تھا کہ بھٹو نے مجھے جیل میں ڈالا۔ میری بیوی آج تک اس کو نہیں بھولی۔ پیپلز پارٹی میں یہ خوبی ہے یا خامی کہ بھٹو فیملی سے اندھی عقیدت ہے۔ ہر پارٹی میں یہ ہوتا ہے لیکن عبد الولی خان کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ سینٹرل ورکر کمیٹی میں ہر ایک کی بات سنتے ہیں لیکن طاقت سے اپنی بات منوالیتے ہیں۔ لیکن جو بھی کرنا چاہتے ہیں ،پارٹی کے اندر جمہوری انداز سے طے کرتے ہیں۔ بزنجو کیخلاف پارٹی میں اسوقت پچاس ساٹھ تقریریں ہوئی تھیں جب آئین کے مسئلے پر بھٹو کیساتھ گفتگو چلی تھی اور معاہدہ ہوا۔ بزنجو ولی خان سے اختلاف رکھتے تھے۔ وہ کسی صورت بھٹو کیساتھ کنفڈریشن کے حق میں نہ تھے۔ بزنجو صاحب میرے ساتھ جیل میں تھے تو انہوں نے کہا ’’بھئی میں ولی خان کی قید میں ہوں بھٹو کی قید میں نہیں‘‘۔
گوالیا رکا مشاعرہ
وہاں مشاعرے میں جب میں نے یہ شعر پڑھے
خدا کا نام کوئی لے تو چونک اٹھتے ہیں
ملے ہیں ہم کو وہ رہبر خدا کے رستے میں
نہ ڈگمگائے کبھی ہم وفا کے رستے میں
چراغ ہم نے جلائے ہوا کے رستے میں
وہاں علامہ انور صابری احراری ہوا کرتے تھے وہ فوراً مائک پر آئے اور کہا کہ واہ واہ کیا شعر کہا ہے کہ
خدا کا نام کوئی لے تو چونک اٹھتے ہیں
ملے ہیں ہم کو وہ رہبر خدا کے رستے میں
’’ جالب نے جو چودہ سال پاکستان میں گزارے ۔ یہ اس کی کہانی اور داستان ہے ‘‘۔وہ جب مائک سے ہٹے تو میں نے کہا ’’شعر کبھی کبھی علامہ حضرات کے سر سے بھی گزر جاتا ہے۔ شعر انٹرنیشنل ہے ۔ خدا پاکستان ہی میں نہیں ساری دنیا میں ہے اسلئے پاکستانی سیاست کے پیش نظر تو شعر نہیں کہا ۔ جیسے علامہ صاحب نے پاکستانی خدا کو Exploitکرلیا تو یہ سراسر Exploitation ہے‘‘ دوسرے دن ایک نیشنلسٹ کہنے لگا کہ ’’کل تو آپ نے کمال کردیا ، علامہ انور صابری کو بہت اچھا جواب دیا۔ آپ تو بڑے باہوش آدمی ہیں ورنہ آپ کا تو پاکستان میں داخلہ بند ہوجاتا۔ اس نے تو سوچی سمجھی سازش کی تھی‘‘۔ میں نے کہا ہم جانتے ہیں کہ کہاں کیا بات کرنا چاہیے۔ ہم دونوں ملکوں کے عوام کے حق میں بات کرتے ہیں۔ مجھے پاکستان کے عوام نے پیار دیا تو ہندوستان کے عوام بھی مجھے پسند کرتے ہیں میں نے انڈیا میں یہ بات محسوس کی ہے کہ جنگ نہ ہندوستان کے عوام کیلئے بہتر ہے اور نہ پاکستان کے عوام کیلئے سود مند ہے۔ ہم اس منافرت اور جنگ و جدل کے خلاف ہیں۔ اور دونوں ملکوں کے درمیان دوستی کا مضبوط رشتہ دیکھنا چاہتے ہیں۔
ابلیس نما انسان
اجمل خٹک کے ایک انٹرویو میں آیا کہ مرتضیٰ بھٹو کو کہا گیا کہ اون کرنا ہے۔ ورنہ اس کا یہ کام نہیں تھا۔ بہر کیف ضیاء الحق کو بہانہ مل گیا حکومت کا،مخالفین کو اندر کرنے کا۔ جمہوری عمل کو روکنے کا۔کراچی پریس کلب نے خط لکھا کہ آپ کوئی تازہ نظم لکھ کر لائیں۔ میں نے یہ نظم لکھی تھی۔
بندے کو خدا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گہر ، دیوار کو در کرگس کو ہما کیا لکھنا
اک حشر بپا ہے گھر گھر میں دم گھٹتا ہے گنبد بے در میں
اک شخص کے ہاتھوں مدت سے رسوا ہے وطن دنیا بھر میں
اے دیدہ درو اس ذلت کو قسمت کا لکھا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
یہ اہل حشم یہ دارا و جم سب نقش بر آب ہیں اے ہمدم
مٹ جائینگے سب پروردہ شب اے اہل وفا رہ جائینگے ہم
ہو جاں کا زیاں پر قاتل کو معصوم ادا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
لوگوں پہ ہی ہم نے جاں واری کی ہم نے انہی کی غم خواری
ہوتے ہیں تو ہوں یہ ہاتھ قلم شاعر نہ بنیں گے درباری
ابلیس نما انسانوں کی اے دوست ثنا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
حق بات پر کوڑے زنداں باطل کے شکنجے میں ہے یہ جاں
انساں ہے کہ سہمے بیٹھے ہیں خونخوار درندے ہیں رقصاں
اس ظلم و ستم کو لطف و کرم اس دکھ کو دوا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
ہر شام یہاں شام ویراں آسیب زدہ رستے گلیاں
جس شہر کی دھن میں نکلے تھے وہ شہر دل برباد کہاں
صحرا کو چمن بن کو گلشن بادل کو ردا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
اے میرے وطن کے فنکارو ظلمت پہ نہ اپنا فن وارو
یہ محل سراؤں کے باسی قاتل ہیں سبھی اپنے یارو
ورثے میں ہمیں یہ غم ہے ملا اس غم کو نیا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
اور یہ قطعہ بھی سنا دیا
وہ کہہ رہے ہیں محبت نہیں وطن سے مجھے
سکھارہے ہیں محبت مشین گن سے مجھے
میں بے شعور ہوں کہتا نہیں ستم کو کرم
یہی خطاب ملا ان کی انجمن سے مجھے
ضیاء الحق کے کارندوں نے سب سیاسی لوگوں کو پکڑ لیا ، ایم آر ڈی بن چکی تھی میاں محمود علی قصور ی انکے لڑکے فلمی ایکٹر محمد علی ، فیض صاحب کے داماد شعیب ہاشمی ، سوشلسٹ پارٹی کے سی آر اسلم سب کو کوٹ لکھپت جیل بھیج دیا گیا۔ تقریباً ڈیڑھ بجے وہ کوٹ لکھپت جیل لے کر گئے۔ وہاں تقریباً سبھی لوگ تھے باقی آہستہ آہستہ آتے گئے۔ نصر اللہ خان بہاولپور میں نظربند تھے۔ پنجاب کے دوست مختلف جیلوں میں بند تھے۔ یہاں بھی ملاقات کے وقت سی آئی ڈی والے موجود ہوتے تھے۔ ہم کسی کا نام نہیں لیتے تھے، اشاروں کنایوں میں گفتگو کرتے کہ ’’بھئی فلاں سے قرض لے آؤ‘‘ نام لینے سے وہ پھنس سکتا تھا۔بے حد مشکل زندگی تھی ،بچے بے آسرا، میں جیل میں تھا۔ بیوی ملاقات کیلئے آئی میں نے کوٹ لکھپت جیل میں یہ غزل لکھی تھی ۔
جو ہو نہ سکی بات وہ چہروں سے عیاں تھی
حالات کا ماتم تھا ملاقات کہاں تھی
اس نے نہ ٹھہرنے دیا پہروں میرے دل کو
جو تیری نگاہوں میں شکایت میری جاں تھی
گھر میں بھی کہاں چین سے سوئے تھے کبھی ہم
جو رات ہے زنداں میں وہی رات وہاں تھی
یکساں ہیں میری جان قفس اور نشیمن
انساں کی توقیر یہاں ہے نہ وہاں تھی
شاہوں سے جو کچھ ربط نہ قائم ہوا اپنا
عادت کا بھی کچھ جبر تھا کچھ اپنی زباں تھی
صیاد نے یوں ہی تو قفس میں نہیں ڈالا
مشہور گلستان میں بہت میری فغاں تھی
تو ایک حقیقت ہے میری جاں میری ہمدم
جو تھی میری غزلوں میں وہ اک وہم و گماں تھی
محسوس کیا میں نے ترے غم سے غم دہر
ورنہ میرے اشعار مین یہ بات کہاں تھی
میری کتاب ’’ سر مقتل ‘‘ ایوب خان دور میں ضبط ہوئی، ضیاء الحق دورمیں میری ایک اور شاعری کی کتاب ’’گنبد بے در‘‘ ضبط ہوگئی تھی۔ یہ عالم تھا کہ ہر طرف خاموشی تھی۔ ہماری آواز باہرتک نہ جاتی تھی۔ ضیاء دور بہت خوفناک تھا لگتا تھا جیسے ہم ساری زندگی جیل میں لڑتے رہیں گے۔ پھر معافی ناموں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ’’باؤنڈسسٹم ‘‘کے تحت اس کے خلاف میں نے ایک نظم لکھ دی تھی کہ
دوستوجگ ہنسائی نہ مانگو موت مانگو ، رہائی نہ مانگو
عمر بھر سر جھکائے پھرو گے مل رہا ہے جو بار ندامت
دل پہ کیسے اٹھائے پھرو گے اپنے حق میں برائی نہ مانگو
ہم ہیں جن کے ستم کا نشانہ مت کہو ان سے غم کا فسانہ
پھر کہاں جم گھٹا یہ میسر بن گیا ہے قفس آشیانہ
اب قفس سے جدائی نہ مانگو موت مانگو رہائی نہ مانگو
رات سے روشنی مانگنا کیا موت سے زندگی مانگنا کیا
ظلم کی ظلمتوں سے میری جاں جوت انصاف کی مانگنا کیا
غاصبوں سے بھلائی نہ مانگو موت مانگو رہائی نہ مانگو
یہ نظم جیل سے باہر چلی گئی۔ اس کی سزا مجھے یہ دی گئی کہ مجھے میانوالی جیل بھیج دیا گیا اور وہاں پھانسی کی کوٹھڑی میں ڈال دیا۔ بڑی بھیانک جیل تھی۔ ہم بنیان اور جانگیا پہنے سلاخوں سے لگ کر ہوا کے جھونکے کے منتظر ہوتے۔ سامنے دیوارکیساتھ چھت ملی ہوئی تھی اور چھوٹے چھوٹے روشندان بہت اوپر تھے۔ پنکھے کو ہوا لگتی توکچھ ٹھنڈی ہوا آتی۔ لیکن پنکھا مسلسل گرم ہوا پھینکتا اسلئے بند کرنا پڑتا تھا۔ شدید تپش اور برا حال ۔ سانس لینا بھی دوبھر ہوتا تھا۔
میانوالی جیل
ایک دفعہ ہم جیل کے صحن میں بیٹھے، یہ چھوٹا سا صحن تھا اسمیں تھوڑی چھاؤں تھی، اسسٹنٹ جیلر آیااور ہمیں دیکھ کر کہا کہ ’’جالب صاحب یہاں بڑے بڑوں کے کپڑے اتر جاتے ہیں‘‘۔ کیونکہ ہم بنیان اور جانگیا پہنے ہوئے تھے۔ میں نے جواب دیا کہ ’’یہ بھی آپ کا حسن نظر ہے‘‘۔ وہ پھر کچھ دن ہم سے ملنے نہیں آیا۔
ایک دن جیلر نے کہا کہ ’’آپ کو شاعری نہیں کرنے دی جائے گی۔ نہ ہی آپ کو کاغذ قلم کی سہولت دی جائے گی‘‘۔ میں نے کہا نہ دینا میں تو بہت سادہ چیز کہتا ہوں۔ سادہ سادہ الفاظ میں۔ آپ کا یہ جو سپاہی ہے رات کو اسکے کان میں سناؤں گا ۔ صبح وہ سارے شہر میں عام ہوجائے گی۔ وہ کہنے لگا ’’میری آپکے ساتھ لائل پور سے واقفیت ہے‘‘۔ میں نے کہا میں آپ کو دیکھتے ہی پہچان گیا تھا۔ ٹھیک ہے آپ نے اپنا فرض ادا کردیا آپ نے اپنا کام کردیا اور ہم اپنا کام جاری رکھیں گے۔ میں نے وہاں ایک غزل لکھی ۔
بکھیری زلف جب کالی گھٹا نے
نظر میں پھر گئے بیتے زمانے
جنوں کچھ اور بھی نکھرا ہمارا
بگاڑا کچھ نہ صحرا کی ہوا نے
میانوالی میں کرکے قید مجھ کو
بہت احسان کیا اہل جفا نے
ہوا اس شہر میں محروم پیدا
لکھے اس نے یہاں دل کے فسانے
بنایا شیرجاں ریگ رواں کو
محبت سے محبت آشناں نے
مجھے مٹنے دکھائی دے رہے ہیں
یہ زنداں اور یہ مقتل پرانے
گریں گی نفرتوں کی سب فصیلیں
یہاں گونجیں گے الفت کے ترانے
میانوالی میرا ، لاہور میرا
مجھے لگتے ہیں سب منظر سہانے
قفس میں مر چلے تھے ہم تو جالب
بچایا ہم کو آواز لتا نے
کراچی بدر
جس دن میں ہسپتال میں داخل ہوا تھا اسی شام پولیس مجھے پکڑنے آگئی تھی۔ انہوں نے مجھے گورنر کے آرڈر کے تحت کراچی بدر کرنا تھا۔ پولیس نے ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی سے بات کی کہ ’’ہم حبیب جالب کو گرفتار کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ ڈاکٹر کی اجازت کے بغیر پولیس ہسپتال میں داخل نہیں ہوسکتی۔ ڈاکٹر ادیب نے کہا کہ ’’میں مریض کی خراب حالت کی وجہ سے نہیں چاہوں گا کہ آپ ان کو اٹھا کر لے جائیں۔ ٹھہرئے میں پہلے مریض سے پوچھتا ہوں‘‘۔ وہ میرے پاس آئے اور کہا کہ اگر آپ گورنمنٹ کے خرچ پر لاہور جانا چاہتے ہیں تو باہر پولیس کھڑی ہے اگر یہاں رہنا چاہتے ہیں تو آپ کی خدمت کیلئے ہر طرح سے حاضر ہوں۔ میں نے ان سے کہا آپ میرا علاج کریں میں یہیں رہوں گا وہ پولیس کے پاس گئے اور انہیں کہا کہ مریض تو Moveبھی نہیں کر سکتا ہے پولیس نے کہا کہ ہمارا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ Move نہ کریں۔ چونکہ دوسرے دن ضیاء الحق کی آمریت کیخلاف جلوس نکلنا تھا ،مجھے شریک ہونا تھا یہ خبر چھپ چکی تھی ۔ میری حالت بہت خراب تھی اور اس قابل نہیں تھا کہ جلوس میں شامل ہوکر نعرے بازی کرسکوں۔ یہ وہ دور تھا جب ضیاء الحق نے ریفرنڈم کا ڈھونگ رچایا ہوا تھا پریس کلب میں ایک جلسہ تھا وہاں میں نے ریفرنڈم پر یہ نظم سنائی تھی۔
ریفرنڈم
شہر میں ہو کا عالم تھا
جن تھا یا ریفرنڈم تھا
قید تھے دیواروں میں لوگ
باہر شور بہت کم تھا
کچھ باریش سے چہرے تھے
اور ایماں کا ماتم تھا
مرحومین شریک ہوئے
سچائی کا چہلم تھا
دن انیس دسمبر کا
بے معنیٰ بے ہنگم تھا
یا وعدیٰ تھا حاکم کا
یا اخباری کالم تھا
دیکھئے معلومات کا ذخیرہ(جالب بیتی : حبیب جالب)
مولانا فضل الرحمن کا کردار
کراچی کے تمام بڑے مدارس جامعہ بنوری ٹاؤن ، دارالعلوم کراچی ، جامعہ فاروقیہ اور دیگر علماء نے جنرل ضیاء کے ریفرینڈم کی حمایت میں شرعی فتویٰ دیا تھا۔ ان پر حیرت تھی کہ سیاسی معاملے میں یہ نااہل فتوے کیوں دیتے ہیں؟۔ مولانا فضل الرحمن کا تعلق سیاست سے تھا اور انہوں جمہوریت کیلئے قربانیاں بھی دی تھیں۔ وہ کہتے تھے کہ ’’ پاک فوج ملک کیلئے آنکھوں کی پلکوں کی طرح زینت بھی ہے اور حفاظت کا ذریعہ بھی۔ پلکوں کے بغیر آنکھیں بدنما بھی لگتی ہیں اور غیرمحفوظ بھی ہوجاتی ہیں۔ لیکن جب پلکوں کا ایک بال بھی آنکھوں میں گھس جائے تو ناقابل برداشت ہوتا ہے، مارشل لاء کی صورت میں تمام پلکیں آنکھوں میں گھس گئی ہیں۔ ان کو آنکھوں سے نکالنا ضروری ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان کی حفاظت کا فریضہ پاک فوج انجام دیتی ہے تو ملک پر حکمرانی کا حق بھی اسے ملنا چاہیے۔ ملک کی حفاظت کیلئے ان کو معاوضہ ملتا ہے اور اگر کوئی چوکیدار گھر کی حفاظت کرے اور پھر وہ بندوق لیکر کھڑا ہوجائے اور مالک مکان کو یرغمال بنالے۔ اور اس کیلئے یہ دلیل دی جائے کہ مکان کی حفاظت بھی وہ کرتا ہے اور اس پر اختیار کا حق بھی اس کو حاصل ہے تو کیا کوئی اس دلیل کو مانے گا؟۔ قوم نے فوج کو بندوق اسلئے نہیں دی ہے کہ وہ قوم پر تھان کر حکومت کرے۔ یہ اسکے حلف کی خلاف ورزی ہے۔ فوج کا کام سرحدوں کو محفوظ بناناہے۔ اپنی عوام پر اس کو آئین حکمرانی کا حق نہیں دیتا۔ ہمارا پیپلزپارٹی کیساتھ اختلاف ہے۔ وہ جمہوری ایجنڈہ سے جو نظام قوم کے سامنے پیش کرتے ہیں ، ہم انکا مقابلہ اسلامی نظام کے ذریعے سے کرینگے۔ عوام انہیں کو ووٹ دے یا ہمیں منتخب کرے۔ گیند عوام کی کورٹ میں ہوگی مگر اب تو گیند چھن گئی ہے اور اب ہمارا مشترکہ فرض بنتا ہے کہ پہلے تیسرے فریق سے بال چھین لیں۔ فوج نے ایک ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے،اسکے لئے مشترکہ جدوجہد ضروری ہے ۔ اسلئے ہمارا سیاسی جماعتوں سے اتحاد ہواہے‘‘۔

پاکستان کی بنیاد کو ہلانے والے جنرل ایوب، بھٹو اور مولانا بھاشانی

پہلے دو چیف انگریز تھے ۔ پہلا مسلمان آرمی چیف جنرل ایوب تھا جس نے طاقت اور دھاندلی سے اقتدار سنبھالا۔
پاکستان کے پہلے جمہوری قائد ذو الفقار علی بھٹو نے جنرل ایوب کیلئے دلالی کی اور مولانا عبد الحمید بھاشانی کو خریدا۔
پاکستان کی نمبر ایک بڑی سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی کے مولانا عبد الحمید بھاشانی نے بک کر مادر ملت کو ہروایا
مدیر منتظم نوشتہ دیوار نادر شاہ نے یہ تحقیقی جائزہ پیش کیا جو پاکستان کے مقبول ترین اور جمہوریت پسند عوامی شاعر حبیب جالب نے ’’جالب بیتی‘‘ میں لکھا ہے۔ جنرل ایوب خان آرمی چیف نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد اگرچہ اے ڈی اور بی ڈی ممبروں کے ذریعے بنیادی جمہوریت کو متعارف کرایا مگر انکے مقابلے میں مادرِ ملت فاطمہ جناح کھڑی تھیں جو الیکشن جیت گئی تھیں۔ جنرل ایوب کیلئے جو ایک دلال کی حیثیت سے استعمال ہوا تھا اسے ہم قائد عوام ذو الفقار علی بھٹو کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ پیسوں پربکنے والی شخصیت مولانا عبد الحمید بھاشانی کی تھی۔ جرنیل خریدتا ہو ، سیاسی لیڈر اسکی دلالی کرتا ہو اور مذہب کا نمائندہ مولانا بکتا ہو تو عوام بیچاری کیا کرسکتی ہے؟۔
پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور مولوی خود بھی قرآن سے دور ہے۔ اگر خواتین کے حقوق ، نکاح و طلاق اور حق مہر کے چند مسائل عوام کو اچھی طرح قرآن و سنت سے سمجھائے جائیں تو بکنے ، جھکنے اور دلالی کے سارے معاملات سے حکومت اور عوام کو زبردست چھٹکارا مل جائیگا، ماں بہن اور بیٹی و بیوی کی حق تلفی سے جبری نظام قائم ہے۔

انڈیا کے چیف جسٹس نے بھارتی عوام کے بخئے ادھیڑ دئیے۔ 

میں گائے کو ماتا نہیں مانتا ہوں۔ گائے کو گھوڑے اور کتے سے زیادہ نہیں مانتا،دنیا کھاتی ہے ابھی میں کیرالہ ہوکر آیا ہوں تو میں نے وہاں بیف کھایا۔
چلا رہے ہیں رام مندر ۔ میں آپ کو بتاؤں اصل رامائن جو سنسکرت میں ہے اس میں رام خدا نہیں بلکہ انسان ہے ۔دو ہزار سال کے بعد وہ خدا بن گیا
اندرا گاندھی نے کہا غریبی ہٹاؤ ، آپ پیچھے پیچھے، جیسے چوہے بانسری بجانیوالے کے پیچھے پیچھے۔صحافی کو چمچہ گیری کرنی پڑتی ہے ورنہ نوکری جائیگی۔
انڈیا کے سابق چیف جسٹس مرکنڈے نے کہا کہ سرکار کا دماغ خراب ہوگیا ہے ۔ کس طرح سے یہ چار سال سے Behaveکررہے ہیں حد کردی ہے دنیا میں ہماری ہندوستان کی ناک کٹادی۔ میں امریکہ میں ابھی چھ مہینے رہ کر آیا ہوں ، جون سے دسمبر تک تھا لوگ ہنستے ہیں ہندوستان پر کہ یہ کس طرح کے پاگل لوگ ہیں کہ کسی کو پکڑ کر مار ڈالا ،یہ کہ گائے کاٹ رہا تھا۔ کسی کو کچھ کررہے ہیں پاگل پن کئے جارہے ہیں کئے جارہے ہیں چار سال سے پاگل پن ہوا ہے اس ملک میں۔
ایک صحافی نے سوال کیا کہ گائے کو سب سے بڑا ہوا بنا کر پیش کیا گیا ہے اس وقت۔ جسکے جواب میں ہندوستان کے چیف جسٹس مرکنڈے نے کہا کہ میں نے تو صاف صاف کہہ دیا ہے میں سائنٹیفک آدمی ہوں میں گائے کو ماتا نہیں مانتا ہوں۔ گائے کو گھوڑے اور کتے سے زیادہ نہیں مانتا ہوں، جیسے گھوڑا یا کتا ہے، ویسے گائے ایک جانور ہے۔ اور دنیا کھاتی ہے گائے کا گوشت ، امریکہ کھاتا ہے یورپ کھاتا ہے ، افریقہ ، چائنا، آسٹریلیا ، یہاں تک کہ افغانستان ، پاکستان ، تھائی لینڈ میں بھی، ہندوستان میں بھی، ابھی میں کیرالہ ہوکر آیا ہوں تو میں نے وہاں بیف کھایا۔ کوئی بری چیز نہیں ہے دنیا کھاتی ہے۔ وہ سب برے لوگ ہیں آپ ہی سادھو سنت ہیں؟۔ حد کردی پاگل پن کی۔ آپ میں مگر پگلیٹی بھری ہوئی ہے ماتا ماتا پاگلوں کی طرح چلا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گائے ماتا ہے کیونکہ وہ دودھ دیتی ہے پینے کو۔ تو بھئی بکری بھی دیتی ہے دودھ پینے کو، بھینس بھی دیتی ہے، اونٹ کا بھی پیتے ہیں لوگ دودھ، تبت میں یاک کا پیتے ہیں، وہ سب دیوی دیوتا ہیں؟۔ پاگل پن کی باتیں ہیں۔ بے وقوفی کی باتیں ہیں۔ اب تم گدھے ہو تو بنے رہو گدھا۔ گدھے کا علاج نہیں ہے میرے پاس۔ گائے کو ماتا ماننا او رپوجا کرنا انتہائی بے وقوفی کی بات ہے۔ آپ گائے کو ماتا مانتے ہیں ذرا سوچئے کوئی جانور انسان کی ماتا ہوسکتی ہے؟ دماغ ہے آپکے پاس یا گوبر بھرا ہوا ہے۔ گائے جانور ہے جیسے گھوڑا اور کتا ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ میں نہیں مانتا ہوں۔
صحافی نے کہا کہ اسی طرح کی اظہار رائے کھل کر کرنے کے بعد نصیر الدین شاہ کو پاکستان بھیجنے کی بات کی گئی ہے۔ جسکے جواب میں چیف جسٹس نے کہا کہ اس کو تو بھیج دیا مجھے بھیج کر دکھاؤ اگر ہمت ہو تو، بے وقوفی کی باتیں۔ عقل استعمال کرو یا عقل بالکل کھو گئی تمہاری۔ گائے ماتا ہے گائے دیوی ہے، پاگل پن کی باتیں۔ دنیا کے سامنے اپنا مذاق اڑوارہے ہو لوگ سوچتے ہیں کہ گدھے ہیں ہندوستان میں اور کچھ نہیں۔
صحافی نے کہا کہ ایک پولیس افسر سے زیادہ اہمیت گائے کی نظر آتی ہے ، بلند شہر کا معاملہ جس طرح سے سامنے آیا۔ چیف جسٹس مرکنڈے نے کہا کہ جیسے میں نے کہا اکبر الہ آبادی کا شعر ہے
خبر دیتی ہے تحریک ہواتبدیل موسم
تو اب بد ل رہا ہے زمانہ،
بڑا اچھا جھٹکا پانا ان لوگوں کیلئے بہت ضروری تھا۔ جس پر صحافی نے کہا کہ ہم پورا شعر سننا چاہیں گے آپ سے۔ چیف جسٹس مرکنڈے نے پورا شعر سنایا۔
خبر دیتی ہے تحریک ہواتبدیل موسم
کھلیں گے اور ہی گل زمزمے بلبل کے اور ہوں گے
زیادہ تھے جو اپنے زعم میں وہ سب سے کم ہوں گے
زمزمے کا مطلب ہے گیت اور زعم کا مطلب گھمنڈ، تو چار سال سے یہ لوگ زعم میں تھے ان کا دماغ خراب ہوگیا تھا۔ پاگل پن کئے جارہے ہیں کئے جارہے ہیں کئے جارہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ رام مندر بننے سے کیا بیروز گاری ختم ہوجائے گی ؟ child malnutrition ختم ہوجائے گا؟، farmers distressختم ہوجائے گا؟ یہ سب الیکشن کیلئے ہے چونکہ چناؤ آرہا ہے۔ اسی لئے چلا رہے ہیں رام مندر رام مندر۔ میں آپ کو بتاؤں اصل رامائن جو سنسکرت میں ہے اس میں رام خدا نہیں ہے بلکہ انسان ہے۔۔۔ دو ہزار سال کے بعد وہ خدا بن گیا۔۔۔آپ کسی سنسکرت کے اسکالر سے پوچھ لیں۔ تو جب وہ انسان ہے تو اس کا عبادتخانہ کیوں بنارہے ہو؟۔
عبادتخانہ تو دیوی دیوتا کا بنایا جاتا ہے انسانوں کا تھوڑی بنایا جاتا ہے۔ لوگوں نے اصل رامائن پڑھا نہیں کیونکہ آپ لوگ پڑھے لکھے لوگ تو ہیں نہیں۔ ادھر اُدھر ہوا میں تیر ماردیا کہیں۔ جو بھگوان ہے ہی نہیں تو اس کا مندر کیا بنارہے ہو؟ ۔۔۔
آپ لوگ پروفیسر ہیں اس یونیورسٹی کے میں آپ کا ایک ٹیسٹ لے لیتا ہوں بہت بڑے پروفیسر بن کے آئے ہیں نا آپ ۔ ابھی ٹیسٹ لے لیتا ہوں۔ آپ کی بیٹی اگر کسی دلت (اچھوت) سے شادی کرنا چاہے گی آپ راضی ہوں گے؟۔ کبھی نہیں ہونگے۔ قتل کردیں گے اس کا۔ دلت (اچھوت) لڑکا اگر غیر اچھوت لڑکی سے شادی کرنا چاہے تو وہ اپنی موت کو دعوت دے رہا ہے۔ قتل ہوجائے گا آپ کی پروفیسری سب رہ جائے گی جب آپ کی لڑکی کہے گی کہ اچھوٹ لڑکے سے شادی کرنی ہے۔ آپ یہ نہ سمجھئے کہ بڑے پی ایچ ڈی لئے ہوئے ہیں کوٹ اور ٹائی پہنی ہے تو بڑے تعلیم یافتہ ہیں۔ میں آپ کو تعلیم یافتہ نہیں مانتا ہوں کیونکہ آپ میں بھی کوڑا بھرا ہوا ہے نسل پرستی بھری ہوئی ہے۔ سر میں گوبر بھرا ہے آپ کے بھی معاف کرئے گا۔ یہ آپ کا ٹیسٹ ہے کہ اگر آپ میں نسل پرستی بھری ہے کہ نہیں؟۔ ننانوے فیصد پروفیسرز کے سر میں یہ نسل پرستی بھری ہے۔ لڑکی گھر چھوڑ کر بھاگ جائے تو یہ الگ بات ہے مگر آپ اجازت کبھی نہیں دیں گے۔ کیونکہ آپ دلت (اچھوت) کو نیچ مانتے ہیں۔
آج بھی 71سال ہوگئے ہیں آزادی کے مگر ابھی تک دلت کو نیچ کا خطاب دیا جاتا ہے۔ تم بڑے پسماندہ ملک میں ہو۔ ۔۔۔ آپ کے میڈیا کے جو مالک ہیں یہ بزنس مین ہیں اور بزنس مین گورنمنٹ کو ناراض نہیں کرنا چاہتا ہے، کیونکہ ناراض کیا تو گورنمنٹ بیس طریقے سے ناراض کرسکتی ہے۔ انکم ٹیکس نوٹس اور پلیوشن نوٹس ، یہ نوٹس وہ نوٹس تو مالک نہیں چاہیں گے گورنمنٹ کو پریشان کرنا۔ تو چمچہ گیری کریں گے گورنمنٹ کی۔ تو لہٰذا آپ کو بھی چمچہ بننا پڑے گا۔ چمچہ نہیں بنو گے تو آپ کی نوکری گئی۔ بہت بڑے آپ سینہ تان کے آئے ہیں جرنلسٹ اور زیادہ آپ نے بک بک کیا تو مالک آپ کو نوکری سے نکال دے گا۔ آپ کے بھی بیوی بچے ہیں نا ان کو کھلانا ہے آپ کو۔ کیا کھلاؤ گے اگر نوکری چلی گئی؟۔
معاف کیجئے گا میں میڈیا کے صرف چند افراد کی عزت کرتا ہوں دو چار ہیں ۔ ان کے علاوہ میں میڈیا کی عزت نہیں کرتا کیونکہ سب بکے ہوئے ہیں۔ ٹی وی تو میں نے دیکھنا چھوڑ دیا ہے۔ کیا بکواس چل رہی ہے۔ ایک وہ لارڈ تھے بھاؤ بھاؤ ان کا نام رکھا ہے میں نے آپ سمجھ سکتے ہیں وہ کون ہیں۔ تو یہ میڈیا والے کیسے چمچہ گیری کرتے ہیں اب بی جے پی پاور میں آئی تو بی جے پی کی چمچہ گری ہورہی ہے اگر وہ الیکشن ہار گئی تو یہی جرنلسٹ جو پاور میں آئے گا اس کی چمچہ گیری شروع کردیں گے۔ تو بھیا بہت بہت شکریہ نمستے ! ایک دو کو چھوڑ کر میرے دل میں کسی کی عزت نہیں ہے۔تم سب بکے ہوئے ہو۔ میں میڈیا کے بارے میں بات ہی نہیں کرنا چاہتا ہوں۔ بہت دکھ ہوتا ہے جو میڈیا کو کرنا چاہیے ۔ ۔۔۔
آپ کسی ٹھگ کو چن لیں سب ٹھگ بیٹھے ہیں جو آپ کو بہت پیار اٹھگ لے اس کو ووٹ دے دو۔ میں تو نہیں دوں گا ووٹ کیونکہ مجھے سب ٹھگ لگتے ہیں۔ معذت میں اس بکواس کام کا حصہ نہیں بنتا چاہتا ۔ آپ بنئے ہم کیا آپ کو رائے دیں۔
آپ کو ٹھگ پیارے ہیں ۔ جیسے وہ اندرا گاندھی نے کہا غریبی ہٹاؤ اور آپ پیچھے پیچھے، جیسے چوہے بانسری بجانے والے کے پیچھے پیچھے، اندرا گاندھی کو دھڑادھڑ ووٹ مل گئے اور وہ جیت گئی۔ پھر مودی آئے انہوں نے کہا بگاڑ بگاڑ وکاس وکاس ، لو بھی تمہاری نوکریاں تو چلی گئی ہیں جو تھیں وہ بھی چلی گئی ہیں یہ وکاس ہوگیا ہے۔
انا ہزارے آئے ایمانداری ایماندداری کرکے چیف منسٹر ہوگئے لو بھیا ایمانداری۔ اب ہم کیا تم کو سمجھائیں ؟ تم کو عقل نہیں ہے یا گوبر بھرا ہے ۔ اس کا میرے پاس علاج نہیں ہے۔ مجھے پارلیمنٹری ڈیموکریسی پر بھروسہ ہی نہیں ہے تو نوٹا یا پوٹا ا س کے کوئی معنی نہیں۔

مراد سعید، فیاض الحسن چوہان اور ڈاکٹر عامر لیاقت خالی پاکستان میں نہیں بھارت میں بھی ہیں۔ 

پاکستان جتنے کا تیرا رکھشا بجٹ (دفاعی بجٹ) ہے نا، اتنے کی شیونگ ہمارے یہاں مرد کروالیتے ہیں ۔ جتنے کے بم تم لوگ بنارہے ہو نا، اتنے کے بچے پٹاخے پھوڑدیتے ہیں ہمارے یہاں دیوالی میں۔ نواز شریف پاکستان کا سب سے امیر انسان 9ہزار کروڑ کا اسامی، اس سے زیادہ ہمارے یہاں لیکر بھاگ جاتے ہیں ۔ ایک بات اور جتنی تمہارے یہاں آبادی ہے اس سے زیادہ ہمارے یہاں جیل میں قیدی ہیں اگر سب کی سزا معاف کردی جائے تو یقین مانو صبح تک پورا پاکستان صاف کردیا جائے گا۔ اب شروع تم نے کیا ہے جو کھیل خون سے وہ مہا شیوراتی پر تمہاری بھسم سے ختم ہوگا ۔ ایڈوانس میں ہیپی مہا شیوراتی بھارتی اداکارہ

تلاش گمشدہ………مجھے شرم آتی ہے

پاکستان کبھی کسی سے بھیک نہیں مانگے گا۔ آپ مجھے بتائیں کہ قائد اعظم کسی سے بھیک مانگ سکتا تھا۔ تو کیا عمران خان کبھی کسی سے بھیک مانگے گا؟ عمران خان مرجائے گا لیکن کبھی بھیک نہیں مانگے گا۔ اگر عمران خان آپ کا پرائم منسٹر ہو اور بھاگا پھرے دنیا میں پیسے مانگتے ہوئے میں خود کشی کرلوں گا بجائے پیسے مانگنے کے۔ پاکستان میں جب تحریک انصاف حکومت میں آئے گی تو اس کا پرائم منسٹر نہ کبھی کسی کے سامنے بھیک مانگے گا نہ قرضے مانگے گا۔ مجھے اتنی شرم آتی ہے جب میں ان حکمرانوں کو دیکھتا ہوں سعودی عربیہ جاکر ہاتھ پھیلا کر بیٹھے ہیں مجھے شرم آتی ہے۔ دوسرے ملکوں سے جاکر بھیک مانگیں۔ اور آئی ایم ایف آئے ہمیں بتائے کہ بجلی کی قیمت اتنی بڑھادو بیشک لوگ مریں۔ اور ہمیں حکم کرے کبھی بجلی بڑھادو کبھی گیس بڑھادو کبھی فلانی چیز بڑھادو۔ مجھے شرم آتی ہے۔ یہ ملک وہ ہونا چاہیے جو نیا پاکستان میں دیکھتا ہوں اس کے اندر انشاء اللہ ہم امداد کریں گے غریب ملکوں کی۔ ہم ان کو پیسے دیں گے۔ ہمیں عظیم قوم بننا ہے بھکاریوں کی طرح بھیک مانگنے سے کبھی کوئی قوم عظیم نہیں بنتی۔ 

اسلام دین فطرت ہے، منافق کیلئے اسمیں کوئی جگہ نہیں

صحابہ کرامؓ رسول اللہ ﷺ کے خواب پر یقین و ایمان رکھ کر عمرہ کیلئے مکہ مکرمہ روانہ ہوگئے۔ حدیبیہ کے مقام پر مشرکین مکہ سے مذاکرات کیلئے حضرت عثمانؓ کو بھیجا۔ دشمنوں نے شرارت کی اور افواہ اڑادی کہ سفیر اسلام حضرت عثمانؓ کو شہید کردیا گیا۔ احرام کی چادروں میں لپٹے ہوئے مسلمان لڑنے کیلئے نہیں آئے تھے لیکن مشرکین مکہ نے ان کی غیرت کو آخری حد تک چیلنج کردیا تو رسول اللہ ﷺ نے ایک درخت کے نیچے حضرت عثمانؓ کا بدلہ لینے کیلئے بیعت لی۔ جس پر اللہ نے فرمایاکہ’’ اللہ کا ہاتھ انکے ہاتھوں کے اوپر تھا۔ بیشک اللہ ان سے راضی ہوا جنہوں نے درخت کے نیچے آپ سے بیعت کی‘‘۔ پھر مشرکین مکہ نے جب اس نزاکت والے معاملے کو سمجھا تو صلح حدیبیہ پر آمادہ ہوئے۔ طالبان نے بھی بے سرو سامانی کے باوجود امریکہ کے B52طیاروں اور ہتھیاروں کو چیلنج کیا تھا۔
جب کچھ خواتین مکہ سے فرار ہوکر مدینہ پہنچیں تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں واپس کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ہمارے معاہدے میں صرف مردوں کیلئے بات ہوئی تھی۔ جسکی اللہ نے بھی قرآن میں حمایت کردی۔ جب مشرکین نے صلح حدیبیہ کا معاہدہ توڑتے ہوئے مسلمانوں کے حلیف کافر قبیلے بنو خزاعہ کے خلاف بنو بکر کی مدد کی تو نبی ﷺ نے اپنے کافر حلیف قبیلہ کا بدلہ لینے کیلئے مکہ کو فتح کیا۔ قرآن میں اللہ کا حکم ہے کہ ظالم کافروں کو اس حد تک پہنچادو کہ ذلیل ہوکر جزیہ دیں۔ جب 9/11کا واقعہ ہوا تو امریکہ نے اقوام متحدہ کی اجازت سے ہی افغانستان پر حملہ کیا۔ پاکستان کے پاس اقوام متحدہ کے رکن کی حیثیت سے کوئی چارہ نہیں تھا کہ امریکہ کا ساتھ نہ دیتا۔ جبکہ افغانستان کی طالبان حکومت کو اقوام متحدہ نے تسلیم نہیں کیا تھا۔ پاکستان میں انکار کی صلاحیت بھی نہیں تھی۔
مولانا مسعود اظہر تہاڑ جیل میں تھے تو اتنی آزادی پاکستان کی ذرائع ابلاغ میں بھی حاصل نہ تھی جتنی انڈیا کے جیل میں حاصل تھی۔ پرویز مشرف نے کہا کہ مسعود اظہر دہشتگرد ہے اس نے مجھ پر بھی حملہ کروایا۔ پرویز مشرف مولانا مسعود اظہر کو امریکہ کے حوالہ کرتے یا انڈیا کے لیکن پھر بھی مولانا مسعود اظہر کے مشن پر کوئی اثر نہیں پڑسکتا تھا۔ تہاڑ جیل میں بھی آزادی تھی اور امریکہ نے ملا ضعیف کو بھی آخر کار چھوڑ دیا۔ بھارت اپنا رویہ بدلے ، کلبھوشن ہی دہشتگرد ہے۔ امریکہ کے ہاتھ میں نہ کھیلے اور نہ نقل اتارے۔ کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھول گیا۔
رستم شاہ مہمند نے کہا کہ ’’ اسلام کی ہزار سالہ تاریخ میں ایسا نہیں ہوا کہ کسی خاتون کو اس طرح سے کافروں کے حوالے کیا گیا ہو جس طرح ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو جنرل پرویز مشرف نے حوالے کیا۔ میرا رابطہ رہتا تھا اور مجھے بتایا گیا کہ ایک خاتون کی چیخوں کی آواز بگرام ایئر بیس افغانستان میں آتی ہے تو میں نے کہا کہ معلوم کرو کہ افغانی ہے یا پاکستانی؟۔ مجھے بتایا گیا کہ پاکستانی خاتون ہے جس کے ساتھ امریکی فوجی جبری جنسی تشدد کرتے ہیں۔ ملا ضعیف نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ مجھے پاکستانی افسروں نے امریکی فوجیوں کے حوالے کیا تو انہوں نے مجھے ننگا کیا اور مجھ پر چڑھ گئے، یہ شرمناک کھیل پاکستانیوں نے دیکھا اور اتنا بھی نہیں کہا کہ ہمارے سامنے سے ملا ضعیف کو ہٹا لو اور پھر جو کرنا ہو مرضی ہے۔ پرویز مشرف نے انسانیت اور مسلمانوں کو داغدار کردیا‘‘۔
رستم شاہ مہمند اگر اسی وقت ڈاکٹر عافیہ کی بات پر استعفیٰ دیدیتا تو شاید امریکی حکام تک ڈاکٹر عافیہ کی داد رسی ہوجاتی۔ برسوں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا پتہ بھی نہیں چل رہا تھا کہ وہ کہاں ہے؟۔ رستم شاہ مہمند اگر بتادیتے تو کم از کم انکے لواحقین کو اطمینان تو ہوتا کہ امریکیوں کی قید میں ہے۔پھر شاید وزیر اعظم عمران خان کی طرح پروپیگنڈے سے اہل خانہ کو یہ اطمینان بھی ہوجاتا کہ مغرب میں انسان رہتے ہیں۔ امریکی ڈاکٹر عافیہ سے جانوروں والا سلوک نہیں کرتے ہونگے۔
رستم شاہ مہمند نے ہٹلر کا قول اپنے لئے درست نقل کیا کہ ’’ذلت کے ماحول میں غیرت کی توقع نہیں ہوسکتی ‘‘۔ اپنی ریاست کی خامیوں کو دور کرنے کیلئے سب کو ملکر فتوؤں سے لیکر عدالتی نظام تک اور پولیس سے لیکر اعلیٰ آرمی ایجنسیوں تک باہمی مشاورت سے ضروری ہے۔ آزادی بڑی نعمت ہے اور اس میں شک نہیں کہ پاکستان کا عدالتی نظام قابل اصلاح ہے لیکن نہ ہونے سے پھر بھی بہت بہتر ہے۔ پشاور میں آرمی اسٹیدیم ایک بہت بڑا پارک تھا لیکن عدالت نے اس کا قبضہ آرمی سے چھڑایا۔ آرمی میں بہت خامی ہوسکتی ہے مگر پاکستان کا استحکام آرمی کی بدولت ہے۔ جب ہم پر مشکل وقت تھا ، طالبان نے دہشتگردی کی بدترین واردات کرکے مائن بھی بچھائے تھے تو متحدہ مجلس عمل کی حکومت نے مائن صاف کرنے کی سرکاری اسکواڈ سے بھی انکار کیا۔ ہم نے پرائیویٹ بم ڈسپوزل اسکواڈ کی خدمات حاصل کیں۔ رات کی تاریکی میں بھاگتے ہوئے طالبان بارودی سرنگیں بچھا سکتے تھے تو سالوں سال وزیرستان میں رہائش پذیر دہشتگردوں نے بھی کتنی بارودی سرنگیں بچھائی ہوں گی؟۔ یہ تاریخی حقائق کوئی مٹا نہیں سکتا ۔
فوج نے پی ٹی ایم کے مطالبے پر جنوبی وزیرستان محسود ایریا سے بارودی سرنگوں کو صاف کیا اور منظور پشتین نے اس کو سراہا تو یہ ٹھیک بات تھی۔ وہ لوگ جو اپنے ملک سے باہر بیٹھ کر حقائق سے بے خبر ہیں اور ہر بات میں پنجاب اور فوج کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں ان کو بیرون ملک امن و امان کی فضا ء میں مفت کے نعرے لگانے کے بجائے اپنے ملک میں آکر ہمت دکھانی چاہیے۔ منظور پشتین نے ڈان نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’پی ٹی ایم پختونوں کی قومی تحریک ہے اور پی ٹی ایم کی کوئی رائے نہیں کہ قبائلی علاقہ جات پختونخواہ کیساتھ ضم ہوں یا الگ صوبہ بنے۔ پی ٹی ایم دونوں کے حق میں ہے۔ البتہ میری اپنی ذاتی رائے یہ ہے کہ پختونخواہ کیساتھ ضم ہو‘‘۔ جو لوگ منظور پشتین کے نام اپنے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے پاکستان کو پنجاب کی حکومت کہتے ہیں اگر ہمت ہو تو منظور پشتین کو بدنام نہ کریں۔ اگر آج منظور پشتین نے ان لوگوں کے حوالے سے کوئی درست وضاحت پیش نہیں کی تو کل وہ منظور پشتین کیلئے بھی گل خان کے نعرے لگائیں گے۔ منظور پشتین نے ایک مشکل وقت میں اپنی محسود قوم کے تحفظ کیلئے کام کیا اور پھر جب اپنی قوم کے لوگ ملکان اور علماء کیساتھ چھوڑ کر چلے گئے تو اپنی تحریک کو محسود تحفظ موومنٹ کی جگہ پشتون تحفظ موومنٹ کا نام دیا۔ اگر یہ تحریک مظلوم تحفظ موومنٹ کے نام سے کام کرتی تو بلوچ ، سندھی ، مہاجر، پنجابی سب اس جھنڈے تلے اکھٹے ہوتے اور عمران خان کی جگہ منظور پشتین آج ملک کا وزیر اعظم ہوتا۔
خوشگوار تبدیلی کیلئے قرآن کی عظیم تعلیمات کو دیکھنا ہوگا۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور علماء قرآن و سنت سے برگشتہ ہیں۔ اگر پختون قوم طالبان کو وقت پر پہچان لیتی تو اس قدر مشکلات کا شکار نہ ہوتی۔ اب بھی وقت ہے کہ علماء کرام کو راستے پر لانے کیلئے پاکستانی قوم ایک زبردست تحریک چلائے۔خامیوں کی کوئی اصلاح کرنا چاہتا ہو تو استنجے کے بغیر قوم کی امامت نہیں کرسکتا ہے۔ پہلے اپنی ہی خامیوں پر نظر مشکل سے جاتی ہے جو انقلاب کیلئے بنیاد ہے۔سید عتیق گیلانی

پروفیسر ارمان لونی شہید معروضی حقائق کے تناظر میں

پروفیسر ابراہیم لونی شہید عظیم انسان تھے۔ ان کی شہادت سے بڑا خلاء پیدا ہوا، جس کو پورا کرنے کیلئے پی ٹی ایم کے پاس متبادل نہیں۔ پی ٹی ایم کی قیادت کو چاہیے کہ چترال سے لیکر زیارت تک ماتمی ریلی نکالیں جیسے اہل تشیع محرم کے دنوں میں حضرت امام حسینؓ کی شہادت پر ماتم کرتے ہیں۔ حضرت امام حسینؓ نے یزید کیخلاف قربانی دی تو آپکی ہمشیرہ حضرت زینبؓ نے آپ کی تحریک کو اپنے بیانات سے زندہ رکھا۔ پروفیسر ابراہیم لونی شہید کی ہمشیرہ وژانگہ محترمہ اس ورثے کی واحد علمبردار ہیں۔ پی ٹی ایم کے قائدین و رہنماؤں میں کوئی بھی ایسا نہیں جو جواں سال ہمشیرہ کو اپنے ساتھ میدان میں نکالنے کی جرأت کرے۔
پروفیسر ابراہیم لونی نے کوئٹہ پریس کلب میں اپنے ساتھ پختون اور بلوچ خواتین و حضرات کو مشعال خان کے حق میں مظاہرے کیلئے کھڑا کیا اور کہا کہ ’’ہم سب مشعال ہیں۔ کوئی آئے اور ہمیں قتل کردے۔ پیچھے سے وار کرنا مردانگی نہیں بلکہ جس کو قتل کرنا ہے سامنے آئے۔ مشعال خان پر گستاخی ثابت نہ تھی اور جنہوں نے ان کو شہید کیا وہ اگر مرد ہیں تو عدالت میں کہہ دیں کہ ہم نے قتل کیا ۔ مشعال خان کی فیس بک آئی ڈی قتل ہوئی اس کا کمرہ قتل ہوا، جو بے گناہی کے نشانات تھے۔ عدالت تین دن توبہ کرنے کا موقع دیتی ہے۔ مشعال کو تین گھنٹہ کا موقع دیا ، ایک گھنٹہ کا موقع دیا ، ایک منٹ کا موقع دیا اور آدھے منٹ کا موقع دیا ؟‘‘۔ یہ تقریر کوئٹہ پریس کلب میں جرأت کا مظاہرہ کرکے پروفیسر ارمان لونی نے کی ۔ یہ پی ٹی ایم کی قیادت کا فرض بنتا کہ مردان اور صوابی میں مشعال کے حق میں مظاہرہ کرتے، جہاں انکے والدین، بہن بھائی بے یار و مددگار تنہا کھڑے تھے۔ اسلئے یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ پروفیسر ابراہیم لونی شہید کا متبادل موجود نہیں ۔
پروفیسر ابراہیم لونی شہید کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے تھا کہ مردان کی اس یونیورسٹی میں کوئی پنجابی نہیں تھا۔ پنجابی غیرتمند قوم ہے ، وہ کسی مجرم کو بھی اس طرح تنہائی میں سزا نہ دیتی۔ غازی علم الدین شہید اور ممتاز قادری شہید نے اپنا جذبہ استعمال کرتے ہوئے اپنی جانوں کی قربانی دی اور اپنے اقدام سے مکرنے کا مکروہ کام بھی نہیں کیا۔ یہ وہ بے غیرت پٹھان تھے جنہوں نے ایک بیگناہ کو کسی دلیل اور ثبوت کے بغیر انتہائی غلیظ حرکت کی اور پھر اقرار جرم سے بھی گریز کیا۔ پروفیسر ابرہیم ارمان لونی شہید اگر پنجاب میں پیدا ہوتے تو عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی طرح زندگی بھر اپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھتے اور کوئی ان کو شہید نہ کرتا۔ یہی مناسب ہوگا کہ پی ٹی ایم والے اہل تشیع کی طرح ماتمی جلوسوں سے ارمان شہید کو اب زندہ رکھیں۔ علامہ سید شہنشاہ حسین نقوی نے اپنے خطاب میں پاکستان کو امریکہ کے سامنے سرنڈر ہونے کا اچھا طعنہ دیا ہے اور اچھا کیا ہے کہ امام خمینی کو خراج عقیدت پیش کیا ہے لیکن یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ عراق میں امریکیوں کا استقبال کرنے والے میر جعفر میر صادق کا کردار اہل تشیع نے ادا کیا تھا۔
اے این پی کے اندر دوقسم کے لوگ ہیں ایک مذہبی اقدار کے بہت پابند اور دوسرا طبقہ کمیونزم کے خیالات سے متاثر۔ افراسیاب خٹک اور بشریٰ گوہر پہلے کسی دوسری پارٹی میں کام کررہے تھے اور پھر اے این پی کا حصہ بن گئے۔ ان کو مذہب سے دور طبقہ کہا جاسکتا ہے۔ مشعال خان کے والد اقبال خان بھی اسی طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اقبال خان ایک روشن خیال اور ترقی پسند پشتو شاعر بھی ہیں اور ان کی خوبی یہی ہے کہ لسانی تعصبات پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔ وہ بالکل ٹھیک سمجھتے ہیں کہ سوال اٹھانے کا راستہ جاری رکھنا چاہیے۔ وہ ایک محب وطن پاکستانی اور اچھے انسان ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جیل میں انہوں نے مولانا فضل الرحمن کے پیچھے نماز پڑھی۔ مجھے یہ سن کر بڑا افسوس ہوا کہ مشعال خان کی شہادت پر بھی انکے گھر کے دروازے کے قریب مسجد میں اشتعال انگیز آوازوں کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔ اگرچہ اقبال خان اور ان کے گھرانے کے افراد کا مسجد سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن مسجد کے امام کو پھر بھی شریک غم ہونا چاہیے تھا۔
وزیرستان میں زام پبلک اسکول کے پرنسپل عارف خان محسود نے جلسہ عام میں اللہ کی ذات پر سوالات اٹھائے تھے لیکن کسی نے ان کا گریبان تک نہیں پکڑا تھا۔ بعد میں فالج کا شکار ہوئے تو سچے پکے مسلمان بن گئے۔ یوسف نسکندی سے ملاقات کے بعد سیلم اختر اور پھر ایک 75سالہ عاصم جمال سے ملاقات ہوئی تھی۔ عاصم جمال مذہب کی مخالفت میں تمام حدوں سے گزر جاتے تھے۔ لیکن پھر مکالمے کے بعد اس بات پر آئے کہ نماز پڑھنے کی خواہش کرنے لگے اور بتایا کہ وہ پہلے 22 پارے کے حافظ بھی تھے۔ مکالمہ جاری رکھنے، سوالات اٹھانے سے اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اللہ کے سامنے سوالات اٹھائے تھے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خضر کے سامنے بھی سوالات اٹھائے تھے۔ یہ ایک باطل اور فرسودہ جملہ تھا کہ ’’اپنا عقیدہ چھوڑو نہیں ، اور کسی کا عقیدہ چھیڑو نہیں‘‘۔ ایسے میں تو سوالات کا سلسلہ دفن ہوجاتا ہے۔ یہ اس وقت کہا جاسکتا ہے کہ جب انسان کو اپنے مسلک اور عقیدے پر اعتماد نہ ہو۔
ساہیوال میں پنجابیوں کے ہاتھوں پنجابیوں کا قتل ایک حادثہ تھا۔ کراچی اور سندھ میں رحیم شاہ کے ہاتھوں ایک سندھی اور باجوڑ کے پختونوں کا قتل بھی ایک حادثہ تھا۔ ہر بات کو وردی سے جوڑنے کی بات ہوگی اور پنجابیوں سے تعصبات کو ہوا دی جائے گی تو یہ دال گلے کی نہیں۔ پاکستان کی ریاست کو چاہیے کہ انصاف کے تمام تقاضے پورے کرکے مجرموں کو قرار واقعی سزا بھی دے، ایک وقت تھا کہ لیاری پر بھتہ خوروں کی ریاست چل رہی تھی جب آپریشن کی بات ہوتی تو عوام کا ایک سیلاب نام نہاد سرداروں کے تحفظ کیلئے سامنے آجاتا تھا۔ یہ بدمعاش ہر دور میں ہر کہیں ہوتے ہیں لیکن جب ان کو سیاستدانوں کی پشت پناہی اسلئے حاصل ہوتی ہے کہ عوام میں اپنی ساکھ قائم رکھ سکیں تو معاشرہ برباد ہوجاتا ہے۔ طالبان کے فکر و عمل سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن جوانوں نے جس طرح اپنی جانوں پر بارود باندھ کر قربانیاں دیں اور نہ صرف پورے خطے کو بلکہ مشرق و مغرب کو ہلا ڈالا اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ محمود غزنویؒ اور ابدالیؒ کے باپ دادوں اور پردادوں میں بھی اتنی ہمت نہ تھی لیکن جب وقت کے ساتھ جوش ہوش میں بدل گیا تو آج طالبان سرنڈر گھومتے پھر رہے ہیں جن کو سلنڈر کہا جاتا ہے۔ دین کے نام پر آخرت میں حوریں پانے کیلئے خود کو بارود سے اڑانا زیادہ مشکل نہیں لیکن دنیا بنانے کیلئے اپنی زندگی قربان کرنا مشکل کام ہے۔ کمیونسٹ انسان دوست ہوتے ہیں لیکن آخرت کی امید نہ رکھنے کی وجہ سے دنیا کی بزدل ترین مخلوق دیکھنی ہو تو یہ کامریڈ نظر آئیں گے۔ مجھے ذاتی طور پر علماء سے زیادہ کامریڈ اسلئے اچھے لگتے ہیں کہ اگر علماء کی طرح کامریڈوں کے بس میں ہوتا تو یہ اپنے ذاتی مفادات کیلئے اسلام کے نام پر حلالوں کی لعنت میں ملوث نہ ہوتے۔ محسود اور پختون قوم سے طلاق کی حقیقت دنیا کے سامنے لائیں۔ انڈیا کی پارلیمنٹ میں ہندو خاتون نے قرآن کا طلاق فطری اور دنیا کیلئے قابل قبول قرار دیا ہے۔

جواں سال منظور احمد پشتین کو بہت ہوشیار رہنا چاہیے 

شمالی وزیرستان درپہ خیل میں منظور احمد پشتین نے قبائلی کلچر ڈے سے اپنے خطاب میں بڑی پیاری باتیں کیں مگر تعصب غلط تھا۔ ایک نوجوان جب جذباتی ماحول کی نذر ہوجاتا ہے تو معروضی حقائق سے زیادہ جذبات پر یقین رکھتا ہے۔ منظور احمد پشتین نے روایتی قبائلی عقل و فکر ، علم و تدبر اور فطری صلاحیتوں کا ثبوت دیتے ہوئے انتہائی خوش اسلوبی اور متانت کے ساتھ تقریر کی۔ پاک فوج نے اچھا کیا ہے کہ قبائلی عوام کے اعتماد کو بحال کرنیکی راہ ہموار کردی ہے، دہشتگردوں کے ظلم و ستم نے جو ڈر ، خوف اور بد اعتمادی کی فضا پیدا کی تھی اس کا واحد حل ایک ایسی قومی تحریک تھی جو لوگوں کو انکے اقدار کی طرف بہتر انداز میں لوٹائے۔
کافی عرصے سے ملک بھر میں بالعموم اور قبائلی علاقہ جات میں بالخصوص کچھ اس قسم کی تحریکوں نے جنم لیا تھا کہ قبائل کی سطح پر لوگ اپنے خونی رشتوں کو زیادہ سے زیادہ ترجیح دیں۔ ملکی سطح پر اعوان قومی تحریک کی مثال دی جاسکتی ہے۔ محسود و برکی قوموں کے علاوہ کانیگرم کے پیروں نے بھی اپنا ایک سیٹ اپ بنالیا تھا۔ کوئی شک نہیں کہ اپنے قبیلے سے محبت انسان کی فطرت و ایمان کی علامت ہے۔ بین الاقوامی طورپرخاندانی اقدار کو بحال کرنے کی تحریک اٹھے تو عالمی قوتیں ان کو سپورٹ کریں گی۔ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم نے مشورہ سے اللہ کے پیغمبر سے کہا کہ’’ اللہ نے جو عذاب ہم پر نازل کرنا ہو نازل کردے ، پتھر برسائے تو ہم مرہم پٹی کرلیں گے ،بیماری دے تو ایکدوسرے کی بیمار پرسی اور جنازے پڑھیں گے۔ جو کوئی مصیبت ہم پر اللہ نازل کردے ہمیں کوئی خطرہ نہیں اور ہم اللہ کو نہیں مانتے وہ جو عذاب نازل کرنا چاہے بیشک نازل کردے ۔ ہاں صرف آپس میں لڑانے کا عذاب ہم پر مسلط نہ کرے کیونکہ اس سے بڑھ کر کوئی عذاب نہیں‘‘۔
اللہ کو یہ بات اتنی پسند آئی کہ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم سے وعدہ کے باوجود اس عذاب کو ٹال دیا اور اللہ نے فرمایا کہ یہ میری نا فرمان اور کافر قوم ہے لیکن جو مشاورت سے ایک بات انہوں نے کی یہ میری بھی پسندیدہ بات ہے۔ عالم انسانیت کی تاریخ میں ایک واحد قوم حضرت یونس ؑ کی تھی جس پر عذاب کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے ٹال دیا۔ اگر اعوان قوم سے قبائلی علاقہ جات تک اپنے قبیلہ کے لوگوں سے محبت ، اخوت و بھائی چارے کا ماحول قائم کرنے کے پیچھے وردی ہو تو بھی یہ زبردست اور بہترین بات ہے۔ اپنی قوم سے محبت رکھنا ایمان اسلئے ہے کہ اللہ نے نبیؐ سے فرمایا کہ مشرکین مکہ سے کہہ دو قل لا اسئلکم علیہ اجراً الا مودۃ فی القربیٰ ’’ کہہ دیجئے کہ میں تجھ سے اس دینی تحریک پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا مگر قرابت داری کی محبت‘‘۔ یہ آیت مکی ہے جسکے اولین مخاطب مشرکین مکہ تھے۔ قرآن ہمیشہ کیلئے ہے اسلئے حدیث صحیحہ میں اس آیت کی تفسیر میں مسلمانوں کو مخاطب کرکے اہل بیت کی محبت بھی مراد لی گئی ہے۔ دونوں تفسیر میں کوئی تضاد نہیں ہے اور دونوں فطرت کا عین تقاضا ہیں۔
مشرکین مکہ میں غیرت اور بے غیرتی کے مسائل تھے۔ قرآن میں ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کرتے تھے۔ یہ غیرت بھی اپنے حدود سے نکلی ہوئی تھی۔ دوسری طرف بخاری کی روایت ہے کہ لوگ اپنی بیگمات کسی اچھے نسل والوں کے حوالہ کرتے جب ان کو حمل ہوجاتا تھا تو واپس لے لیتے تھے تاکہ ان کا نسب اچھا ہوجائے اور یہ پھربے غیرتی کی انتہا تھی۔ قرآن کریم کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے عرب جاہلوں کی اصلاح کردی تو حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر آنے والی قیامت تک صحابہ کرامؓ کی وہ ممتاز اور بلند درجہ جماعت تیار ہوئی جس کی کوئی مثال پہلے ادوار میں ملتی ہے اور نہ بعد کے ادوار میں اس کا کوئی امکان ہے۔ اللہ نے رسول اللہ ﷺ کے ذریعے سے عربوں میں کسی قومی جذبے کی تحریک چلانے کا حکم نہیں دیا تھا ورنہ انکے نقائص اور بے غیرتیاں کبھی ختم نہیں ہونی تھیں۔
اگر مشرکین مکہ قرابتداری کی محبت کا پاس رکھتے تو مسلمانوں کو کبھی حبشہ اور پھر یثرب ہجرت کرنے کی کبھی ضرورت نہ پڑتی۔ جب مشرکین مکہ سے قرابت کی محبت کا تقاضہ قرآن کا حکم اور فطری بات تھی تو کوئی قوم بھی اپنوں سے محبت کی تعلیم کو ایمان اور فطرت کا تقاضہ سمجھ سکتی ہے۔قرآن نے مشرکین مکہ کے باطل عقائد اور بے غیرتی والے رسم و رواج کو چیلنج کیا تو انہوں نے قرابتداری کی محبت کا بھی پاس نہیں رکھا۔ جس طرح اپنی قوم اور اپنی زبان سے محبت ایمان کا تقاضہ ہے اسی طرح دوسروں سے نفرت اور تعصبات بے ایمانی اور کفر کا تقاضہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ لکل قوم ھاد ہر قوم کیلئے ایک ہدایت دینے والا ہوتا ہے۔ پختونوں کیلئے مشہور شاعر رحمان بابا ؒ کی حیثیت ہدایت کار کی ہے لیکن فلموں اور ڈراموں کی وجہ سے ہدایت کار کی اصطلاح بری لگتی ہے۔ اس عظیم شاعر کی پوری شاعری پختون قوم کی فطرت اور انسانیت کا شاہکار ہے۔
پختون قوم کے سب سے بڑے سیاسی لیڈر خان عبد الغفار خانؒ و عبد الصمد خان اچکزئی شہیدؒ تھے جنہوں نے انگریز سے آزادی کیلئے قربانیاں دیں لیکن ان کے سیاسی اور قومی نظرئیے کا قبلہ کابل نہیں دہلی تھا۔ دو قومی نظرئیے میں وہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی بجائے متحدہ ہندوستان کے ساتھ کھڑے تھے۔ وہ یہ تصور بھی نہ کرسکتے تھے کہ اپنے پڑوسی پنجابی ، سندھی اور بلوچوں سے الگ ہوکر پختونستان کی الگ مملکت بنالیں۔ جب سیاسی لیڈر شپ وزیر اعظم ذو الفقار علی بھٹو نے جھوٹے مقدمات بنا کر بلوچ اور پختون قیادت کو بغاوت کے مقدمے میں قید کرکے حیدر آباد جیل میں مقدمہ چلایا تو جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا ء نے ان کو رہائی دلائی۔ اس کے پیچھے قابلِ فخر وردی تھی لیکن نا مردی نہیں تھی۔
قبائلی علاقوں میں فوج ، پولیس اور عدلیہ کا کوئی تصور نہ تھا لیکن عالمی المیہ تھا کہ بڑی تعداد میں امریکہ کی مزاحمت کرنے والے پہنچ گئے۔ وزیروں نے ان کا خیر مقدم کیا اور اپنے ہاں ان کو ٹھکانے دئیے ۔ کمزور لوگوں نے اپنی جگہ بنانے کیلئے طاقتور لوگوں کو ٹھکانے لگانا شروع کردیا۔ علی وزیر کی خاندانی حیثیت تھی اسلئے انکے خاندان کو شہید کردیا گیا۔ منظور پشتین و محسن داوڑ کا کوئی بڑا خاندانی بیک گراؤنڈ نہیں تھا اسلئے وہ طالبان سے زیادہ متاثر نہ ہوئے۔ یہ لوگ اپنی قوم کا درد لے کر اٹھے اور ان کو معروضی حقائق کے مطابق تعصبات کی آگ بھڑکانے سے گریز کرنا چاہیے۔ حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ نے لکھا ہے کہ ’’سندھ ، بلوچستان، پنجاب، کشمیر، فرنٹیئر اور افغانستان میں جس قدر قومیں بستی ہیں یہ سب امامت کی حقدار ہیں۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ انہی قوموں نے کرنی ہے۔ اگر ہندو پوری دنیا کو ہمارے مقابلے پر لے آئے تو بھی ہم اس خطے سے دستبردار نہیں ہونگے‘‘۔ (المقام المحمود: تفسیر عم پارہ۔ امام انقلاب مولانا سندھیؒ )
قائدPTMمنظور پشتین کو چاہیے کہ علماء ومفتیان کے سامنے حقوق نسواں کو رکھیں۔ اگر پختونوں میں اصلاحات کا عمل ہو تو باقی قوموں کیلئے بہت آسانی پیدا ہوسکتی ہے۔ اپنے کارکنوں کو قرآنی تعلیمات کی طرف راغب کریں، یہ وقت کا بہترین تقاضہ ہے، دینداری صرف آخرت نہیں بلکہ دنیابھی میں کام آتی ہے۔

بھارت کی پاکستان سے ممکنہ جنگ کے خطرات و نتائج 

بھارت میں جمہوری نظام ہے، سیکولر بھارت میں ہندوستان کی بقاء ہے اور فرقہ پرست، متعصبانہ ذہنیت اور ہندو ازم بھارت کیلئے تباہی کا پیش خیمہ ہے۔ جب من موہن سنگھ بھارت کا وزیراعظم تھا تو کارگل کے واقعہ کی ذمہ داری قبول کرنیوالے بلکہ کریڈٹ لینے والے جنرل پرویزمشرف نے پاکستانی مجاہدین کا راستہ روکا تھا۔ پرویز مشرف کے دست راست وفاقی وزیرجسے بھارت نے ویزہ دینے سے انکار کیا تھا،شیخ رشید نے کہا تھا کہ ’’ مقبوضہ کشمیر کے لوگ پاکستان کے مجاہدین سے تنگ تھے، وہاں جاکر کشمیریوں سے آدمی پوچھے کہ ان مجاہدین سے لوگ کتنے تنگ ہیں اور کس قدر مصائب کا شکار ہیں، حکومت نے اچھا کیا ہے کہ مجاہدین پر وہاں سے پابندی لگادی ‘‘۔ شیخ رشید کا بیان وعدہ معاف گواہ کی طرح نہیں تھا بلکہ یہ سلطانی گواہی ہے، لیکن یہ چاپلوسی اور غلط بیانی نہ تھی۔ کشمیر کے مجاہدین جو جانوں کا نذرانہ پیش کررہے تھے تو ہندوستانی فوج بدلے میں کشمیری خواتین کی عزتوں تک کو لوٹ لیتے تھے۔ مجاہدین کی اپنی مائیں بہنیں تو وہاں نہیں ہوتی تھیں۔ شیخ رشید نے کشمیری مسلمانوں کے دکھ درد کو صحیح سمجھ لیا تھا۔ مجاہدین کی بجائے کارگل جیسی کاروائی سے کشمیر کو آزاد کرنے پر پرویزمشرف کو یقین آیا تھا۔
جب پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں مداخلت کا سلسلہ بالکل بند کیا تواسکا نتیجہ یہ نکلا کہ کشمیریوں نے آزادی کی تحریک تیز کردی۔ مودی سرکار نے تشدد کا راستہ اختیار کیا تو کشمیریوں کی طرف سے پھولوں کے گلدستوں کی امیدکیوں کی جاسکتی ہے؟۔ کشمیری مجاہدین کو ہوسکتا ہے کہ بھارتی فوج یا خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے خود اتنا بارود فراہم کیا ہو،اسلئے کہ ایک طرف بدترین تشدد سے دنیا بھر میں اس کا چہرہ بڑا بدنام ہوا۔ دوسری طرف پاکستان پر مداخلت کے امکانات نہیں رہے ہیں۔اگر کشمیر پر ظلم کے پہاڑ توڑے جائیں تو کیا کشمیری مجاہدین کو کسی اور کی ترغیب سے خود کش کرنیکی ضرورت پڑ سکتی ہے؟۔ پاکستان پر امریکن ڈرون حملے ہوتے تھے، ازبک کمانڈروں کی یلغار ہوتی تھی اور بڑے پیمانے پر قبائلی پاک فوج سے تنگ تھے تو بھی عوام نے چپ کی سادھ لی تھی جب باہر سے مداخلت کا سلسلہ بند ہوا ، تو قبائل میں پشتون تحفظ موومنٹ نے جنم لیا۔ چیک پوسٹوں پر سختی ختم کرنے کا مطالبہ ہوا۔ مائن صاف کرنے کا مطالبہ ہوا۔ دونوں مطالبے پر عمل کا آغاز ہوا۔ PTMکے بے روزگار جوانوں کو ایک شغل مل گیا۔ چندوں اور شہرت نے منہ کی مٹھاس میں اضافہ کردیا۔ بین الاقوامی قوتوں نے پذیرائی بخش دی مگر فوج نے برداشت کا مادہ ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ کشمیر میں لوگوں کو مظاہروں کا موقع دیا جاتا تو روز روز اپنے بازار بند اور کاروبار زندگی مفلوج ہونے سے آخر تنگ آجاتے، جس طرح کراچی میں عوام ایم کیوایم کے جلسے جلوس اور ہڑتالوں سے تنگ آچکے تھے۔بھارت میں مودی سرکار کی حکومت نہ ہوتی اور کشمیریوں پر مظالم کا حکم بھارتی فوج کو نہ ملتا تو حالات ایسے خراب نہیں ہوسکتے تھے۔ بھارتی آزاد میڈیا اور اپوزیشن رہنما اور ہندوستان کی خالق پارٹی کانگریس مودی سرکار پر اسلئے تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔ اگر وہاں آزاد میڈیا اور آزاد سیاست نہ ہوتی تو مودی سرکار فوج کو پاکستان سے جنگ کا حکم دے چکی ہوتی۔
جنگ کوئی بڑی نعمت ہوتی تو خوشحال عراق اور لیبیا بدحال نہ ہوتے۔ اب تو افغانستان کے لوگ بھی تنگ آمدبہ جنگ آمد سے تنگ آمد بہ امن آمد ہوچکے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ عالمی طاقتوں کی خواہش ہے کہ لسانیت کے نام پر ایک نئی اور تازہ جنگ شروع ہو۔ بیرون ملک سے ایجنڈے پر تیزی سے عمل دکھائی دیتاہے اور اگر اس کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کامیاب ہوگئی تو یہ خطہ ایک بار پھر جنگ کا سامنا کریگا۔ بیرونی لڑائی سے اتنا نقصان نہیں ہوتاجتناآپس کی خانہ جنگی سے ہوتا ہے۔ ریاست اور عوام کی لڑائی میں جو تباہی بربادی قوم کی ہوتی ہے،اس کی واضح مثال افغانی ہیں۔ دربدر خاک بہ سرافغانی اور بارود کے ڈھیر سے کھنڈر افغانستان کی سرزمین عبرت ہے جس سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
بھارت نے اگر پاکستان پر جنگ مسلط کردی تو اس خطے کی آگ کو بجھانے کا اختیارحکمرانوں کے ہاتھ سے نکل جائیگا۔ امریکہ کو چین سے خطرات ہیں اور ان خطرات سے نمٹنے کا ایک علاج ہے کہ ہندوستان و پاکستان میں لڑائی ہوجائے ۔ کشمیر کا تنازعہ عالمی قوتوں نے پہلے سے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت رکھا تھا۔ پاکستان اور ہندوستان کے اس تنازعہ کا حل ضروری ہے ، عالمی قوتوں کو موقع ملنے کی یہ واحد وجہ ہے۔برصغیر پاک وہند کے لوگ اپنے عظیم نسلی اور علاقائی تاریخ سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایران ، افغانستان اور عرب امارات و سعودی عرب کو بھی بھارت سے مسئلہ نہیں۔ پاکستان اور بھارت اپنے دیرینہ مسئلہ کشمیر کو حل کریں تو دونوں ملک کی عوام اور ریاستیں ڈھیر ساری خوشیوں سے مالامال ہوسکتی ہیں۔ زید حامد نے ٹھیک کہا ہے کہ’’ اگر 7لاکھ بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کی مداخلت کا راستہ نہیں روک سکتی تو بھارت کو چاہیے کہ اپنی افواج کو کھیتی باڑی کے کام پر لگادے‘‘۔ دنیا کی کوئی بھی فوج ہو اس کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ہے۔ پاکستان میں جنرل ایوب ، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے آرمی چیف کے عہدے پر قبضہ جمائے رکھا تو ایک طویل دورانیہ تک پاک فوج کی اعلیٰ قیادتیں اپنے حقوق سے بھی محروم رہیں۔ نچلا طبقہ تو صرف حکم کا پابند ہوتا ہے۔ پاکستان میں اسلامی نظام نافذ نہیں ہوسکا تو اس میں فوج کا کوئی قصور نہیں ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقے نے اپنے مفادات کیلئے ملک اور قوم کو بری طرح سے استعمال کیا۔ ذو الفقار علی بھٹو ، نواز شریف اور عمران خان کو اقتدار کے مواقع ملے اور اس طرح سے دیگر کئی سیاسی و غیر سیاسی رہنما وزیر اعظم اور صدر کی حیثیت سے آئے گئے۔ مشرقی و مغربی پاکستان میں جنرل ایوب خان نے اے ڈی ،بی ڈی ممبروں کے چناؤ سے عوامی جمہوریت کا ایک بہترین آغاز کیاتھامگر بھٹو کے ذریعے فاطمہ جناح کیخلاف دھاندلی سے سیاست تباہ کی اور پھر مجیب الرحمن اور ذو الفقار علی بھٹو نے ملک کو دو لخت کرنے میں کردار ادا کیا۔
سول بیورو کریسی نے انگریز کے جانے کے بعد نہ سیاسی شعور ابھرنے دیا اور نہ ہی مذہبی تصورات کیلئے کوئی بنیادی کام ہونے دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا لیکن سول و ملٹری بیوروکریسی سے زیادہ بے شعور اور اسلام سے بے بہرہ ہمارے مدارس اور علماء و مفتیان تھے۔ شعور کی دولت عام ہوجائے اور اسلام کی حقیقی تعلیمات سے لوگ آگاہ ہوں تو سب ٹھیک ہوجائیگا۔ بھارت کا با شعور طبقہ کبھی بھارتی فوج کو جنگ آزمائی کی طرف دھکیلنے کی کوئی کوشش نہیں کریگا۔ کم عقل دونوں طرف سے موجود ہوتے ہیں لیکن ایٹمی طاقت اور غربت کے مارے ہوئے لوگوں کو جنگ کی ہولناکیوں کی طرف لے جانا بہت خطرناک ہوگا۔ بھارت ہندو ازم اور جنگی جنون کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔
پاکستانی پارلیمنٹ طلاق کے مسئلہ پر قرآن کے مطابق بحث کا آغاز کرے تو بھارت سے صلح کی راہ ہموار ہوگی اسلئے کہ غیرفطری طلاق انسانی المیہ ہے۔