پوسٹ تلاش کریں

منظور پشتون کی تحریک سے عوام کو ریلیف مل گیا مگر سیاسی جماعتیں خوفزدہ ہیں: امین اللہ کوئٹہ

ptm-manzoor-pashtoor-wazeer-e-azam-imran-khan-pervaiz-bushra-manika-iddat-period-shah-naimatullah-wali-

نوشتۂ دیوار کے نمائندہ خصوصی امین اللہ کوئٹہ نے کہا کہ منظور پشتون مظلوموں کا قائد بن کر ابھرا ۔ محسود قوم کی حالت کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔ قبائل بدترین غلامی کا سامنا کررہے تھے۔ بہت لوگ غلط و بے بنیاد پروپیگنڈہ کرکے منظور پشتون کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔عوام نے فوجی آپریشن کی مشکلات کو بھی خندہ پیشانی سے برداشت کیا تھا لیکن جب ظلم اس حد تک بڑھ گیا کہ مٹنے پر تل گیا تو منظور پشتون کو توفیق مل گئی۔ سیاسی جماعتیں اپنا وقار کھو چکی ہیں اور عوام میں کسی مقبول قیادت کی ضرورت ہے۔ خیبر پختونخواہ میں متحدہ مجلس عمل، اے این پی و پیپلزپارٹی کے بعد پنجاب کے عمران خان کو بھی حکومت مل گئی۔
تحریک انصاف میں شمولیت سے محض دوہفتے قبل ڈاکٹر عامر لیاقت نے کہا کہ ’’ عمران خان نے عدت میں شادی کی ہے، قرآن اس نکاح کی اجازت نہیں دیتا، یہ حرامکاری اور گناہ ہے۔ عمران خان قیادت کے لائق نہیں ہے‘‘۔ پھر علامہ اقبالؒ کے بقول’’ خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں‘‘۔
پنجاب کی سرزمین بڑی زرخیز بھی ہے اور مردم خیز بھی مگر اسٹیبلشمنٹ نے نوازشریف اور عمران خان جیسے لوگوں کی پشت پناہی کرکے پنجاب اور ملک وقوم کا بیڑہ غرق کیا ۔ قائداعظم کی زبان بھی قوم نہیں سمجھ سکتی تھی مگرقوم کے اجتماعی ضمیر کا فیصلہ پاکستان بنانے کے حق میں تھا تو قراردادِ مقاصدکوکامیابی ملی۔ 23مارچ 1940 ؁ء میں برصغیر پاک وہند کی فوج ایک تھی لیکن قائدکی کامیاب سیاسی حکمت نے پاکستان کو وجود بخش دیا تھا۔
علماء ومفتیان کا حال یہ ہے کہ اگر عمران خان عدت میں شادی کا اعتراف بھی کرلیں تو ایک گروپ حرامکاری کہے گا اور دوسرا اس کو 100فیصد جائز قرار دیگا۔ ڈاکٹر عامر سے تو بعید نہیں کہ ’’ کہے کہ میرے ماں باپ عمران خان پر قربان ہوں ، انکا نکاح بھی عدت میں ہوا تھا، میں خود بھی عدت کی توپیداوار ہوں‘‘۔ پنجاب کی اس قیادت سے عوام کا بیڑہ پار ہوگا کہ ایک طرف عمران خان جعلی و اصلی علماء ومفتیان کیساتھ نمودار ہوکر الیکشن مہم چلائیں ۔ دوسری طرف مریم نواز اپنا شوہر کیپٹن صفدر کو قریب نہیں آنے دیگی اور کزن کیساتھ ساتھ گھومتی نظر آئے گی ۔ آخر ماجراء یہ ہے کیا؟۔ زمین و آسمان کی مخلوق پریشان ہے۔ کیپٹن صفدر کا حرمت مصاہرت کا مسئلہ بھی ہوسکتاہے جسکے بعد حلالہ پر بھی بیوی جائز نہیں بنتی ۔ علماء نے اسلام کو بگاڑ دیا۔
محترم رضا ربانی کی پونی پر قربان ہونا چاہیے اسلئے کہ ہر خاص وعام کی زبان پر آپ کی تعریف ہے۔ جناب رضا ربانی نے آنسو بہاتے ہوئے فوجی عدالتوں کو ووٹ دیا کہ ’’ یہ میری پارٹی کی امانت ہے‘‘ تو عوام نے پسندکیا۔ جب پارلیمنٹ سے ختم نبوت، الیکشن فارم سے جائیداد کی معلومات اور سب چیزیں غائب کردی گئیں اور پھر نااہلی کے خلاف سینٹ کی اکثریت کے نہ چاہتے ہوئے بھی بل منظور کیا گیا تو سینٹ کی نااہلی ثابت ہوگی ،رضاربانی اسکے بڑے ذمہ دار تھے۔ ن لیگ کی سینٹ میں اقلیت تھی تو بھی رضا ربانی نے خاصی رعایت دی یا مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کیا۔ تو جب ن لیگ والوں کو نسبتاًزیادہ تعداد مل گئی ہے پھر رضا ربانی کو چیئرمین بنادیا جاتا تو اسکے مزید بھیانک نتائج نکلتے۔ خفیہ رائے شماری کے فارم پر نام کا اندراج ہوا تو ضمیر وں کو مزید زنجیروں سے جکڑ دیا جائیگا۔ یہ قانون فوج نے نہیں بنایا بلکہ جمہوری تقاضہ ہے تاکہ روتے ہوئے وہ ووٹ پول کرنے پر مجبور ہونے کے بجائے اپنے ضمیر کیمطابق فیصلہ کرے۔ سیاسی جماعتوں کی مت ماری گئی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری اور نوازشریف بے ضمیری سے ضمیر والے ان ارکان کا فیصلہ کردیں جن کی سیاست اور نظرئیے کیلئے قربانی پر کوئی اختلاف نہیں جیسے رضاربانی صاحب وغیرہ تب بھی ضمیر والے مجبور ہوتے ہیں۔ جمہوریت کی سپرٹ کو سمجھنے کی ضرورت ہے جو سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، کارکنوں اور قائدین سے مفقود ہے۔ نوازشریف خود اداروں کے بوٹ چاٹنے کے چکر میں ہے مگر جمہوریت کے علمبردارمحمود اچکزئی، حاصل بزنجو، مولانا فضل الرحمن وغیرہ ان کی دھوتی میں چھپ رہے ہیں۔
قوم کا اجتماعی ضمیر مروجہ سیاستدانوں سے نفرت کرتاہے اور منظور پشتون جیسے نوجوان ہرقوم ، ہر صوبے ، ہر علاقے اور ہر حلقے سے اٹھیں اور یکجہتی سے ایک ایسی تحریک کا آغاز کریں کہ ہماری ریاست اور سیاست دونوں بچ جائیں۔ اب ریاست کی فکر نہیں لیکن سیاست بچانے کی فکر سیاستدان ضرور کریں۔
ہماری تجویز سے منظور پشتون وزیراعظم نہیں بن سکتالیکن پنجابی اکثریت سے کسی کو بھی وزیراعظم بناسکتے ہیں چاہے گدھا ہو ، خچر ہو یا گھوڑا۔ پہلے پنجاب میں جسے بدنام کردیا جاتا تھا وہ وزیراعظم نہ بن سکتا تھا۔ عمران اور نوازشریف نے ایکدوسرے کو جتنا بدنام کیا ، عدالت اور میڈیا پر جس طرح ایکدوسرے کے کپڑے اتارے گئے تو قوم کا اجتماعی ضمیر کسی بھی سیاستدان کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ ہندوستان کی سیاست تو کانگریس، جمعیت علماء ہند اور مجلس احرار کے ہاتھوں میں تھی ۔ قائداعظم تو سرآغا خان کے منشی تھے ۔ علامہ اقبال کبھی ایک دن ملک کی خاطر جیل نہ گئے تھے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کی عوام کیلئے قائداعظم کی شکل ، زبان اور لباس کچھ بھی مانوس نہیں تھا لیکن قوم کے اجتماعی ضمیر نے سب نامانوسی کے باوجود ایک گونگی آواز کو قبول کیا۔ مولانا فضل الرحمن نری بکواس کرے کہ جمعیت علماء اسلام نے پاکستان کیلئے قربانی دی تو اس کی مرضی ہے لیکن اس جھوٹ کی حیثیت اتنی ہے کہ’’ جیسے عمران خان اعتراف کرلے کہ اس نے بشریٰ بی بی سے نہ صرف عدت میں شادی کی بلکہ نکاح سے پہلے محترمہ کو حمل بھی تھا۔ پھر اس بچے کو حرامی قرار دیتا رہے لیکن جب یہ بچہ بڑا ہوکر پاکستان کا تاجدار بادشاہ بن جائے تو مولانا فضل الرحمن کی آنے والی نسلیں کہیں کہ اس بچے کے جواز کے فتوے ہم نے دئیے تھے، ڈاکٹر عامر لیاقت کو توعمران خان ایم کیوایم سے کھینچ کر لائے ہیں، عمران خا ن کا نکاح پڑھانے والے تو ہمارے مفتی سعید خان ہیں‘‘۔ جمعیت علماء اسلام کا وجود اتنا تھا جتنا عمران خان کا مفتی سعید خان سے تعلق ہے مگر جمعیت علماء اسلام تو یہودی سازش سے لیکر الزام کی بوچھاڑ کرنے میں پیش پیش ہے۔ حقائق کو مسخ کرنا بد دیانتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن سودی نظام سے زکوٰۃ کو شراب کی بوتل پر آب زم زم کی لیبل قرار دیتا تھا اور پھر اپنوں کیلئے اس کو جنت کی شراب کو طہور کا نام دیکر پاک کردیاہے۔ یہ آدمی ہے یا پاجامہ؟۔ اسلام کیلئے کرو اسلام آباد کیلئے نہیں۔
ریاست سے عوام کو تکلیف پہنچے یا ریلف نہ ملے تو ظلم و جبر کیخلاف آواز اٹھانا جرأت و بہادری ہے۔ سیاستدانوں کے خلاف تو ہجڑے بھی آواز اٹھاسکتے ہیں لیکن فوج اور طالبان کیخلاف آواز اٹھانا بہت بہادری تھی۔ عمران خان نے طالبان اور فوج کیخلاف کبھی آواز نہیں اٹھائی۔ پرویز مشرف کے دور میں پٹھانوں کے خون بہا پر جو ڈالر کمائے۔ ان پر کراچی کی تعمیر وترقی ہوئی ۔ پختون کو گلہ نہیں، کراچی پختونوں کا بھی شہر ہے۔ پٹھان درختوں پر لٹک کر فوج کی سلیکشن کیلئے اپناقد لمبا کرنے کی کوشش کرتے تھے اسلئے پاک فوج میں زیادہ پٹھان فوج میں بھرتی ہیں۔ بلوچ قدآور سردار فوج میں جانا نہیں چاہتے تھے اور پست قد فٹ نہ ہوتے تھے۔ پنجاب کے لوگ محنت مزدوری کیلئے بلوچستان پہنچ جاتے ہیں مگر مقامی لوگ ٹف مزدوری پر آمادہ نہیں۔ ریاست سے جائز گلے شکوے سب کا حق ہے۔ مشرکین مکہ کی باقاعدہ فوج نہیں تھی، حضرت عمر فاروق اعظمؓ، حضرت امیر حمزہؓاور علی المرتضیٰؓ جیسے بہادر سپوت اسلام قبول کرچکے تھے۔ اللہ نے مکہ کو چھوڑ کر مدینہ ہجرت کرنے کا حکم دیالیکن جہاد کی اجازت نہ دی۔ سیاستدان ہتھیار نہیں دماغ رکھتا ہے ۔ فوجی کے پاس ہتھیار ہوتا ہے مگر دماغ نہیں ہوتا ۔ امریکہ کے تاجرحکمران اسلحہ کی تجارت سے دنیا اور امریکہ کو تباہ کررہے ہیں۔ صدیق اکبرؓ پہلے خلیفۂ راشد بن گئے تو تجارت کو چھوڑ دیا۔ حکمران اپنی تجارت کیلئے حکومت کرتے ہیں۔ دنیا میں خلافت کیلئے جمہوری بنیادوں پر کوششوں کا آغاز کرنا ہوگا۔
پنجاب کے جس حصہ کو سب سے زیادہ ظالم اور غاصب کہا جاتاہے جو سرائیکی، پختون، سندھی، بلوچ، کشمیری ، گلگت و بلتستان اور کراچی پر حکمران تصور ہوتے ہیں انکا حال سب سے زیادہ خراب ہے۔ اپنی تسکین کیلئے 100بچوں کو مارکر تیزاب میں گلا دینے والا بھی لاہوری تھا۔ قصور کے بچوں اور بچیوں کیساتھ بھی یہاں زیادتی ہوئی اور انہیں مزید ٹارچر کیا جا رہاہے جس کی تفصیل میڈیا نے عوام کو دکھادی ۔ ریاست نے قانون کا راستہ اختیار کرنا ہوتا ہے۔ بدمعاش بہت قتل کرتاہے لیکن راؤ انوار کو ایک نقیب اللہ محسود پر کتنے مشکلات کا سامنا ہوا ہے؟۔ سید عتیق الرحمن گیلانی کے گھر پر حملہ کرنے والے قاتلوں کو مجلس عمل کی حکومت اور فوج کے افسران نے کھلی چھوٹ دی تھی۔جو مسلح آمد ورفت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ لیکن عتیق گیلانی تو سب کی خیر خواہی چاہتے ہیں اور یہ اسلام کا کمال ہے، اسلام نام ہی خیرخواہی کا ہے۔ محسود،وزیر لشکری قوم ہیں،ا نکا رخ درست طرف مڑجائے تو پنجاب کے وہ ظالم لوگ جو بچوں اور بچیوں کیساتھ زیادتی کے باوجود مظلوم کو دھمکیاں دیتے ہیں اگر منظور پشتون کے احتجاج سے فوج کی آنکھیں کھل سکتی ہیں اور عوام سے رویہ درست ہوسکتاہے تو مینار پاکستان پر مظلوموں کیلئے ایک زبردست آواز اٹھانے پر بھی قصور کے قصور وار ظالم اپنی حرکتوں سے باز آسکتے ہیں۔محسود قوم کی سب سے بڑی اور زبردست خوبی یہی تھی کہ کسی برائی کا فیصلہ کرنے کے بعد اس کا خاتمہ قومی لشکر کے ذریعے سے کرتے تھے۔ ریاست کی رٹ کو بحال کرنے کیلئے صرف وزیرستان، قبائل ، پختونخواہ، پاکستان اور افغانستان کی سطح پر نہیں بلکہ مظلوم کشمیری عوام اور فلسطینی عوام کیلئے بھی قومی لشکر میں محسود قبائل کا طرزِ عمل دنیا کو نجات دلا سکتا ہے۔احادیث صحیحہ اور شاہ نعمت اللہ کی پیش گوئی بھی ایسی ہیں۔پنجاب کی عوام بھی پشتونوں کے لشکر کا زبردست استقبال کرے گی۔

دومختلف، متضاد، متفرق کردار، ملا فضل اللہ اور ملالہ یوسفزئی: تحریر سید عتیق الرحمن گیلانی

talibanization-asma-jahangir-jmaat-e-islami-abdul-sattar-khan-niazi-mulla-fazal-ullah-malala-yousafzai

سوات پختونخواہ کے دو متضاد کردار ملافضل اللہ ، ملالہ یوسفزئی ہیں۔ ملافضل اللہ کی شریعت کے سامنے ہماری ریاست اور سیاست دونوں سجدہ ریز تھیں۔ مینگورہ میں مسلکی اختلاف کے سبب ایک مذہبی شخصیت کو قتل کیا گیا اور پھر قبر سے نکال کر کئی روز تک اس کی لاش کو چوک پر لٹکادیا گیا، یہ ایک واقعہ نہ تھا بلکہ اس واقعہ سے صورتحال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ عاصمہ جہانگیر جیسے لوگ اس ذہنیت اور ریاست کو اسکے آگے لیٹ جانے کی مخالفت کرتے تھے تو ان کو امریکی ایجنٹ کہا جاتا تھا۔ اے این پی کی حکومت آئی تو میاں افتخار حسین جیسے بہادروں نے بھی طالبانِ سوات سے شریعت کے نفاذ پر معاہدہ کیا تھا اور جب سوات کے طالبان کے بارے میں مولانا فضل الرحمان نے حکومت کی توجہ دلائی کہ طالبان اسلام آباد کے قریب پہنچ چکے ہیں تو ن لیگ کے مقبول ترین رہنما سید ظفر علی شاہ نے کہا کہ ’’ مولانا فضل الرحمن امریکہ کا ایجنٹ ہے اور طالبان کیخلاف بول رہاہے‘‘۔ آپریشن کا آغاز ہوا تو کلثوم نواز واحد مسلم لیگی رہنما تھی جس نے کھل کر کہا کہ ’’ یہ وہ طالبان نہیں جس کی ہم نے حمایت کی تھی‘‘، آپریشن کے بعد حالات بہتر ہوئے تو ملالہ کے سر میں سکول جاتے ہوئے گولی ماری گئی۔ فوج نے اس کو ہیلی کاپٹر سے پشاور پہنچادیا اور اس کو زندگی مل گئی پھر فوج نے معذوری سے بچانے کیلئے بیرون ملک بھیجا۔
کسی اور کی بات نہیں کرتا، میرا اپنا ایک بیٹا شاہین ائر میں کام کرتا ہے، وہ پہلے میرے دوست کے آفس میں تھا۔ ایک دن مجھے کہا کہ اورنگی ٹاؤن میں مہاجر پٹھانوں کے ناک کاٹ رہے ہیں، لانڈھی میں پٹھان مہاجروں کے ناک کان کاٹ رہے ہیں۔ میں نے بہت ڈانٹا کہ ’’اس طرح کی افواہوں پر موبائل فون اور تیز رفتار میڈیا کے دور میں بہت بری بات ہے، آئندہ کسی ایسی سرگرمی کا حصہ نہیں بننا‘‘۔ پھر جب ملالہ یوسف زئی کا واقعہ ہوا تو میرے بیٹے نے کہا کہ ’’ اس کو گولی نہیں لگی ،یہ بہت بڑی سازش ہے‘‘۔ میں نے کہا کہ ’’پہلے تجھے ڈانٹا تھا۔ اب پھر وہی بکواس کررہے ہو؟‘‘۔ اس نے کہا کہ میڈیا پر بات چل رہی ہے۔ میں نے غصہ میں کہا کہ میڈیا بھی بکواس کرتا ہے۔ پھر جب ملالہ یوسف زئی کا زخمی چہرہ میڈیا پر نظر آتا تھا تو میں اس سے کہتا تھا کہ اب یقین آیا ہے کہ گولی لگی ہے؟‘‘، جب واقعہ ہوا تھا تو میرے بھائی نے بھی کہا کہ ’’سازش سے ایک چھوٹی سی گولی ماری گئی ہے تاکہ اس کو آئندہ استعمال کیا جاسکے‘‘۔ میں نے اس سے بھی عرض کیا کہ یہاں بدگمانی کی ایک فضاء ہے جو ماحول میں پروان چڑھ گئی ہے۔ ایک وقت تھا کہ ختم نبوت زندہ باد کا نعرہ جرم تھا۔ مولانا عبدالستار خان نیازیؒ نے داڑھی اس تحریک میں شمولیت کی وجہ سے ہی مونڈھ ڈالی تھی۔ بریلوی مکتبۂ فکر کا جو رہنما حصہ لیتا تھا اس کو اپنے مکتب کی طرف سے بھی ملامت کا نشانہ ہی بنایا جاتا تھا کہ دیوبندی گستاخان رسول قادیانیوں سے بدتر ہیں انکے ساتھ مل کر تم گمراہوں کے خلاف تحریک کیوں چلارہے ہو؟۔ جب فوج نے طالبان سوات پر تشدد کیا، ان کو ہیلی کاپٹروں سے گرانے کی خبریں آئیں تو عاصمہ جہانگیر نے طالبان کیساتھ غیر انسانی سلوک کی شدید مذمت کی۔ جب عاصمہ جہانگیر سے سوال کیا گیا کہ آپ اتنی بہادری سے حق کہتی ہیں تو ملالہ کو آپ کیوں مشورہ نہیں دیتیں کہ وہ خدمت کیلئے آئے؟ جس پر عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ’’ میں اپنی عمر گزار چکی ، مجھے گولی لگے بھی تو مسئلہ نہیں لیکن ملالہ کو نہیں آناچاہیے اس کو زندگی گزارنی ہے اور یہاں اس کو مخصوص ذہنیت کی طرف سے خطرہ ہے‘‘۔ ایک طرف وسعت اللہ خان، مبشر زیدی، ضرار کھوڑو، ماریہ میمن جیسے دیانتدار صحافی تو دوسری طرف طارق پیرزادہ جیسے لوگ میڈیا کے ٹاکشوز میں اپناخیال پیش کرتے ہیں بلکہ مسلط ہوجاتے ہیں۔
وہ لوگ بھی ہیں جو نوازشریف کی طرح زندگی بھر خود اسٹیبلیشمنٹ کے گھٹنوں نے نیچے سر کے تمام بال گراتے ہیں اور انڈے جیسے سر سے یہ بات نکلتی ہے کہ ریاست نے 70سال سے سازش کی ہے۔ پاکستان بن رہا تھا تو کچھ لوگ ہندوستان کی محبت میں تقسیم ہند کے مخالف تھے۔ ہندو بھی وطن کو ماتا سمجھ کر پوجتے ہیں، وہ بھی ہندو سے متأثر تھے بلکہ وطن سے محبت کا جذبہ فطری ہوتاہے لیکن ان پر ہندوؤں کے ایجنٹ کا الزام لگایا گیا۔ علامہ اقبال نے جمعیت علماء ہند ، دارالعلوم دیوبند کے مولانا حسین احمد مدنی کی سوچ کو ابولہب کا دین قرار دیا۔ آج یہ خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ وطن دشمنی کا سہرا بانیان پاکستان کے سر نہ باندھا جائے۔ فوج اپنا کوئی دماغ نہیں رکھتی۔ 1940میں پاکستان کے قرار داد مقاصد پیش نہ ہوتے تو پاکستان نہ بنتا۔ ایک ٹھوس لائحہ عمل کے ذریعے سے نہ صرف پاکستان بلکہ مسلم اُمہ کو ایک کرنیکی ضرورت ہے

مولانا طارق جمیل اور سوشل میڈیا کی یہ تصویر: حنیف عباسی

tablighi-jamaat-haji-muhammad-usman-molana-tariq-jameel-hajre-aswad-muslim-khwateen-ragra-jannat-ki-hoor

صحابہ کرامؓ کے دور میں خواتین مساجد میں نماز پڑھتی تھیں۔ بیت اللہ میں آج بھی پنج وقتہ نماز میں خواتین کی بڑی تعداد شریک ہوتی ہے۔ حجر اسود کو چومنے کیلئے جم گھٹا لگتا ہے تو خواتین و حضرات مذہبی جذبات میں اجنبیت کے حدود کا بھی لحاظ نہیں رکھتے۔ صحابہؓ کے دور میں لونڈی کا پردہ نہیں ہوتا تھا اور لباس بھی بہت مختصر ہوتا تھا۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اسلام کو بھی اپنے ماحول کے نرغے میں ہی ڈھالنا چاہتے ہیں۔ میڈیا ٹاک شوز میں خواتین کا نمایاں کردار ہے اور علماء و مفتیان بھی خواتین اینکر پرسن کیساتھ گفتگو کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن اسکے عادی ہوچکے ہیں اور سوشل میڈیا یا کسی اخبار میں کوئی تصویر چھپ جاتی ہے تو مذہبی جذبات کا تلاطم خیز طوفان اٹھتا نظر آتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ تبلیغی جماعت کے بانی حضرت مولانا الیاس قدس سرہ العزیز ایک بڑی شخصیت تھی جس نے اس عظیم کام کے ذریعے سے لاکھوں کروڑوں عوام کے دلوں میں کسی معاوضہ کے بغیر دینی اور روحانی جذبہ بیدار کیا۔ آج مساجد و مدارس اور خانقاہیں اسی کام کے دم سے آباد ہیں۔ تبلیغی جماعت کے بانی مولانا الیاسؒ کے انتقال کے بعد صاحبزادہ مولانا یوسفؒ کو امیر بنا دیا گیا۔ جس کا تبلیغی جماعت سے کوئی واسطہ نہیں تھا لیکن بڑے اچھے عالم دین ہونے کیوجہ سے کام کو چار چاند لگادئیے۔ پھر ایک بزرگ شخصیت مولانا انعام الحسن ؒ کو امیر بنایاگیا کیونکہ مولانا یوسفؒ کے بیٹے مولانا ہارون کی عمر بہت کم تھی۔ مولانا احتشام الحسن کاندھلویؒ مولانا الیاسؒ کے ہی قریبی ساتھی تھے جس نے ’’موجودہ پستی کا واحد علاج‘‘ کتابچہ لکھا تھا جو تبلیغی نصاب میں شامل تھا۔ مولانا احتشام الحسنؒ آخر میں اس کام کے سخت مخالف ہوگئے تھے کہ اب یہ فتنہ بن چکا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ تبلیغی جماعت میں جو غلط لوگ شامل ہوئے ہیں انکی وجہ سے جماعت بدنام ہے لیکن اس ماحول کی یہ خامی ہے کہ اگر مولانا فضل الرحمن کی ایسی تصویر دیکھتے تو استغفار کرتے اور اپنے بزرگ کو دیکھا تو اس کو اللہ کی طرف سے حکمت قرار دیا یہ روش غلط ہے۔

ڈان لیکس پر ملعون نواز شریف یا جنرل راحیل شریف: قوم کو حقائق سے جلد از جلد آگاہ کیا جائے: اشرف میمن

dawn-leaks-supreme-court-ispr-GHQ-pml-panama-leaks-raheel-sharif-maloon-nawaz-sharif

نوشتہ دیوار کے پبلشر اشرف میمن نے کہا ہے کہ جنرل راحیل شریف کے آخری وقت میں ڈان لیکس کا معاملہ خبروں کی زینت بنا ۔ نواز شریف نے ایک بہت نازک وقت میں یہ الزام لگایا کہ فوج نے ہمارے خلاف ڈان لیکس کی سازش کی ہے۔ اب تک یہ معلوم نہ ہوسکا کہ سازش کرنیوالے نواز شریف تھے یا جنرل راحیل شریف؟ ۔ جو بھی اس سازش کی لعنت میں ملوث تھا اس کو منظر عام پر لاکر قوم کے سامنے ننگا کیا جائے۔ تاکہ پھر کسی کو اس طرح سازش کرنے کی جرأت نہ ہو۔ لوگوں میں بھوک ، افلاس ، عزتوں کے تار تار ہونے ، جان و مال کے خطرات ، ظلم و جبر اور ستم کا سارا ریکارڈ ٹوٹ رہا ہے لیکن وہ یہ تماشہ دیکھ رہے ہیں کہ بڑوں میں کون ملعون ہے اور کون نہیں ؟ اور کسی نتیجے پر نہیں پہنچ رہے ہیں۔ عوام کو بیوقوف بنانا بند کیا جائے اور جلد سے جلد ان تمام رازوں سے پردہ چاک کیا جائے جن کو سازشوں کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر نواز شریف نے پاک فوج کیخلاف کوئی گھناؤنی سازش کی ہے تو عوام کے سامنے اس کو بے نقاب کیا جائے اور اگر فوج نے نواز شریف کے خلاف کوئی سازش کی ہے تو اس کو بھی بے نقاب کیا جائے ۔ الیکٹرانک میڈیا کے چینل تقسیم ہیں اور اپنے اپنے ایجنڈوں پر لوگوں کو چلاتے ہیں۔نواز شریف اور سیاسی قیادتوں کا جمہوری نظام صرف اور صرف اپنے اپنے مفادات کی خاطر ہے جس سے عوام الناس کو فائدہ نہیں۔

اسٹیفن ہاکنگ کی آخری وصیت جنات اور قرآن کی تصدیق ہے: عبد القدوس بلوچ

stephen-hawking-jinnat-and-quran-sir-syed-ahmad-khan-ghulam-ahmad-pervez-science-roohaniyat-black-hole

عظیم سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ کی آخری وصیت’’ زمین پر ہم اکیلے نہیں کوئی اور مخلوق بھی ہے جس سے رابطہ خطرناک ہوسکتاہے‘‘ نے قرآن کی آیات میں جنات کی موجودگی کا سائنسی بنیاد پر اعتراف کرلیا ہے۔ سرسید احمد خان سے غلام احمد پرویزتک نے سائنس کی وجہ سے جنات کی غلط اور گمراہ کن تعبیرات کی تھیں،علماء کرام نے قرآن وسنت کا تحفظ کیا ۔ ہوا یہ ہے کہ سائنس کی دنیا میں جنات کا واضح ثبوت نہیں تھا مگر سائنس نے جنات کا انکار بھی نہیں کیا تھا۔ میڈیکل سائنس نے بیماری کے علاج کیلئے جدید طریقے دریافت کئے ہیں مگر روحانی طور سے علاج کو بھی نفسیاتی علاج قرار دیا ۔ بہت سے ناعاقبت اندیش ،کم عقل ، بیوقوف اور پرلے درجے کے متعصب لوگوں نے جنات کا انکار شروع کیا، حالانکہ اگر سائنسی بنیادوں پر کوئی چیز ثابت نہیں ہوتی تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سائنس اس کی منکر ہے۔ اب بھی شاید بہت عرصہ لگے کہ جنات مادی لحاظ سے بھی ثابت ہوں مگر اسٹیفن ہاکنگ نے ایک بند دریچہ کھول دیا ہے۔ بلیک ہول پر جنکے نظریات کو دنیا مانتی ہے تو جنات کا تصور بلیک ہول کے تصور سے بہت قریب تر ہے ۔ عظیم انقلاب آئے گا۔

خادم حسین رضوی نے اربوں کے املاک کو تباہ کیا تو اسکا ذریعہ معاش کیا ہے: جسٹس فائز عیسیٰ

justice-faiz-essa-allama-khadim-hussain-rizvi-shaftaloolyari-gang-war-lashkar-e-jhangvi-imamia-asghar-khan-case-muh-kala-karna

نوشتہ دیوار کے خصوصی ایڈیٹر سید ارشاد علی نقوی نے کہا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے بڑا اچھا کیا ہے کہ ایک قومی مسئلے پر خصوصی توجہ دی ہے۔ ختم نبوت کے مسئلے پر حکمرانوں نے اپنا اعتراف جرم نہ کیا ہوتا تو ملک میں کسی قسم کا کوئی جلاؤ گھیراؤ نہیں ہوسکتا تھا۔ بدقسمتی سے اس جرم میں صرف حکومت ہی نہیں بلکہ پوری قومی قیادت بھی شریک تھی ۔ حکومت کی طرف سے راجہ ظفر الحق کو تحقیقاتی کمیٹی کا چیئر مین بھی بنایا گیا تھا اور راجہ ظفر الحق نے میڈیا پر بتایا کہ بہت ہوشیاری کے ساتھ ختم نبوت کیخلاف یہ سازش کی گئی تھی جس کو دھر لیا۔ جسٹس شوکت صدیقی نے بھی عدالت میں رپورٹ طلب کی تھی لیکن عدالت کوئی خاطر خواہ نتیجہ نکالنے کی پوزیشن میں نہیں لگتی۔ اب یہ خبر کہ علامہ خادم حسین رضوی کو گرفتار کرنیکا عدالت نے حکم دیا ہے۔ واضح کیا جائے کہ عدالتیں یہی شف شف کی رٹ لگائیں گی یا کبھی شفتالو بھی بولیں گی؟۔ پہلے ڈاکٹر فاروق ستار ، عمران خان اور جانے کون کون اشتہاری رہا لیکن عدالتوں نے ان کو گرفتار نہیں کیا۔ عوام کو اب یہ مذاق لگتا ہے کہ اشتہاری چھوٹو گینگ ، لیاری گینگ ، لشکر جھنگوی ،امامیہ والے ہیں یا کھلم کھلا جلسے جلوس کے سیاسی قائدین بھی اسی طرح کے اشتہاری ہوتے ہیں؟۔ جج ٹریفک پولیس کی طرح توہین عدالت کا پرچہ درج دیتی ہیں لیکن کیا سیاسی جماعتوں کے قائدین کو اشتہاری قرار دینا ان کی توہین نہیں ؟۔ وضاحت کی جائے کہ اشتہاری کے الگ الگ اقسام ہیں یا یہ کوئی مذاق؟۔کیا سیاسی جماعتوں کیلئے امیر ترین ہونا بہت ضروری ہے تاکہ عدالتوں کے وکیلوں اور ججوں کے کام آئیں؟ ۔ اس پر تو قانون موجود ہے کہ مخصوص مقدار سے زیادہ الیکشن مہم میں پیسہ خرچ نہیں کیا جاسکتا۔سیاسی قائدین خلاف ورزی کرتے ہیں اور ججوں نے کبھی بھولے سے ان کا نوٹس بھی نہ لیا ۔ اسپیکر ایاز صادق اور علیم خان کے مقابلے میں پچاس پچاس کروڑ سے زیادہ کا خرچہ کیا گیا اور جہانگیر ترین نے ایک ارب تک کا خرچہ کیا، مگرعدالتوں نے کوئی نوٹس نہ لیاغریب سیاست نہیں کرسکتا تو براہ مہربانی آئین کے آرٹیکل کا بھی ضرور حوالہ دیا جائے تاکہ غریب غرباء سیاست میں حصہ لیکر شرمندہ نہ ہوں۔
عمران خان اور طاہر القادری نے کونسے ذرائع سے پیسہ کمایا ہے اور کیا کاروبار کیا ہے جو علامہ خادم حسین رضوی پر تنقید ہورہی ہے؟۔ ایک نواز شریف کے پاس سیاست کی سند ہے تو اس کو ISIنے رقم دی تھی جس کا فیصلہ اصغر خان کیس میں بمشکل 16سال بعد ہماری تیز رفتار عدالتوں نے کیا۔ ماشاء اللہ چشم بددور۔ اس کا بھی تاحال شرمناک عدالتوں نے کوئی نوٹس نہیں لیا ہے۔ افتخار چوہدری عدالت کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلٹ پروف گاڑی واپس کرنے سے بھی انکاری ہے۔ کیا مسجدوں کے امام اور خطیبوں پر انگشت نمائی اچھی روایت ہے؟۔ مسجد اور خطابت سے تو پھر بھی پیسہ مل جاتا ہے لیکن عوام کے ٹیکس پر جج عوام کو انصاف نہیں دیتے ہیں انکے منہ پر کسی دن ضرور کالک ملی جائے گی۔قرآن میں جھوٹی گواہی پر کہا گیا کہ ’’ اسکا دل گناہگار ہے‘‘۔ عدالت میں جان بوجھ کر غلط فیصلے کرنیوالوں کے چوتڑوں کو داغنے کا قانون بناناہوگا۔ عدلیہ وہ واحد ادارہ ہے جہاں ججوں کا اختلاف بھی ہوتا ہے اور غریب کو بھی داد رسی کیلئے دروازے کھلے ہوتے ہیں مگر بہت بدلنا ہوگا۔

ن لیگ پنجتن پاک ٹبر ہے: نواز شریف، مریم نواز، کلثوم نواز، شہباز شریف اور حمزہ شہباز

hazrat-umar-and-Hadith-Qirtas-panjtan-pak-tabbar-nawaz-sharif-maryam-nawaz-kulsoom-nawaz-shahbaz-sharif-hamza-shahbaz-

چیف جسٹس ثاقب نثار نے یہ کہا ہوگا کہ ’’حضرت عمرؓ جیسے لوگوں کی تلاش ہے‘‘۔ اس تاریخی حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ، جب حضرت نبی کریم ﷺ حدیث قرطاس لکھوانا چاہ رہے تھے تو حضرت عمرؓ نے کہا کہ ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے۔ پھر حضرت عمرؓ کی شہادت کا وقت قریب آیا تو خلافت کیلئے ایک شوریٰ تشکیل دی اور اپنے بیٹے پر پابندی لگائی کہ وہ خلیفہ نہیں بن سکتا۔ شیعہ سمجھتے ہیں کہ اس وصیت میں نبی ﷺ حضرت علیؓ کو نامزد کرنا چاہ رہے تھے۔ ن لیگ کے نزدیک حفظ مراتب کیساتھ پانچ افراد ہیں ۔ اگر سینٹ میں انکی اکثریت ہو تو ان 52افراد کی فہرست بھی اب لوگوں کو بتادیں ۔ سینٹ الیکشن میں کامیاب نہیں ہونا تھا مگر حصہ لیا اور ناکام ہوئے تو پھر ووٹ کو عزت دینے کے بجائے تذلیل کردی

فیصل آباد کی طالبہ عابدہ کا 4 روز اجتماعی زیادتی کے بعد قتل پاکستان کے منہ پر کالک ہے: عتیق گیلانی

Rapists-murderers-of-Faisalabad-university-student-still-at-large-justice-for-abida-ptm-manzoor-pashteen-ispr-general-asif-ghafoor

چیف ایڈیٹر نوشتۂ دیوار عتیق گیلانی نے کہا پنجاب کے دل جڑانوالہ فیصل آباد میں ایک طالبہ عابدہ کو اغوا کرکے 4روز اجتماعی زیادتی کے بعد قتل کرنے کی خبر تمام پاکستانی اداروں عدلیہ ، سول و ملٹری بیروکریسی ، پولیس ، سیاسی حکومتوں کے ذمہ دار افراد کے منہ پر کالک ہے۔ 4روز تک تھانے میں رپورٹ بھی درج نہیں ہوئی۔ طالبات کے احتجاجی کمیپ کو بھی پولیس نے سپوتاژ کرنے کا اقدام اٹھایا ہے۔ منظور پشتین اپنے نوجوان طالبعلم ساتھیوں کے ساتھ پختونوں کا رونا دھونا چھوڑ کر پنجاب کی غریب عوام کی داد رسی کیلئے پہنچ جائیں۔ یہ محض ایک حادثاتی واقعہ نہیں بلکہ پنجاب کے بچے اور بچیاں بدمعاش سیاسی مافیا کی وجہ سے روز روز جنسی تشدد ،بے دردی سے قتل کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اسکاتدارک کرنے کیلئے محمد بن قاسمؒ ، صلاح الدین ایوبیؒ اور محمود غزنویؒ کو قبروں سے اٹھ کر نہیں آنا ہے۔ سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ نے فرمایا کہ ’’جان پر آئے تو مال قربان کردینا ، عزت پر آئے تو پھر جان قربان کردینا اور ایمان پر آئے تو جان مال عزت سب قربان کردینا‘‘۔ پنجاب کے فرقہ وارانہ عناصر اور پختونخواہ کے جن شدت پسند طالبان نے اپنے خون سے اس چمن کو رنگین کردیا تو انکے گمان میں دین ، اسلام اور ایمان کیلئے قربانیاں دی گئیں۔ سینکڑوں سال سے حلالہ کے نام پر لوگ اپنی عزتوں کو ایمان پر قربان کررہے ہیں۔ منظور پشتون تحفظ موومنٹ کے سرگرم اور متحرک کارکن و رہنما خان زمان کاکڑ کا ایک بیان سوشل میڈیا پر دیکھا جس میں وہ پنجابی اور پختون کی جنگ اور تعصبات کیلئے بات کررہے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا سب سے گھناؤنا کردار نواز شریف جیسے لوگوں کی پیداوار ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے ٹاؤٹوں نے ہمیشہ عوامی قیادت ابھرنے کے راستے روکے ہیں۔ پنجاب سے چھوٹے صوبوں اور سرائیکی کی نفرت بلاوجہ نہیں ہے۔ فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور ISPRنے حالیہ بیان میں کہا کہ ’’امریکہ کو سپر طاقت بنانے میں ہمارا مثبت کردار ہے‘‘۔ فوجیوں کو سیاست نہیں آتی۔ جن کو فوج کا ٹاؤٹ سمجھا جاتا ہے وہ دوسروں پر امریکہ نواز ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ جب تک ایسے فالتو یا پالتو ٹاؤٹوں کو لگام نہ دی جائے پاک فوج کے اجتماعی ضمیر کو درست سوچنے کا موقع بھی نہیں ملے گا ۔ کراچی میں موبائل فون چھیننے والوں کا قلع قمع ہو یا بلوچستان میں بغاوت کی سرکوبی ہو یا پختونخواہ میں طالبان کی وجہ سے عوام کا جینا دوبھر ہو، ان میں ریاست کو عوام سے بھی شکایت ہوسکتی ہے اور عوام کو ریاست سے بھی شکایت ہوگی لیکن پنجاب کے اندر جو کچھ ہورہا ہے ایسی زیادتی دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ منظر عام پر آرہی ہے۔ ایک سال میں 41بچے اپنے والدین نے بھوک و افلاس اور ٹینشن کی وجہ سے قتل کئے ہیں۔ دورِ جاہلیت سے بھی بدترین حالات دوہرائے جارہے ہیں۔ جب میرے گھر کے مرد و خواتین ، رشتہ دار ، امام مسجد ، گھر کے خادم اور مختلف اقوام سے تعلق رکھنے والے آفریدی ، مروت ، جٹ اور محسود مہمانوں کو بھی شہید کیا گیا تو ریاست و حکومت بھی تماشہ دیکھ رہی تھی اور محسود قوم کے قبائلی عمائدین بھی طالبان کی معافی کیلئے دہشتگردوں کیساتھ آئے تھے۔ مجھے میرے بھائی نے دلاسہ دینے کیلئے کہا کہ ’’اگر ہمارے اس واقعہ کی وجہ سے قوم کو دہشتگردی سے نجات ملتی ہے تو یہ ہمارے لئے سستا سودا ہے‘‘۔ میں نے جواب میں کہا کہ ’’پنجاب میں خواتین کیساتھ جس طرح سے جنسی زیادتیاں ہورہی ہیں ، اصل ظلم وہ ہے اور جب تک ان کو تحفظ نہ ملے ہماری حالت کبھی ٹھیک نہ ہوگی‘‘ ۔ یہ حقیقت ہے کہ جن لوگوں کیساتھ زیادتی ہوتی ہے ان کا جذبہ کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے۔ دنیا بھر میں دہشتگردی کا واحد واقعہ ہمارا تھا جس پر طالبان نے باقاعدہ نہ صرف معافی مانگی بلکہ مجرموں کو شریعت کے مطابق سزا دینے کا اعلان بھی کیا۔ اگرچہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ طالبان نے مجھے نظریاتی طور پرمخالف سمجھ کر نشانہ بنایا اور باقی قتل و غارت انہوں نے نظریات کیلئے نہ کئے، حکیم اللہ محسود اور قاری حسین کی اپنی گاؤں میں کوئی حیثیت نہیں تھی۔ ملک خاندان بہت شریف النفس اور گاؤں کے معتبر شخص تھے۔ جب انکو شہید کیا گیا تو انکے بیٹے نے کہا کہ میں قاتلوں کو پہچان گیا ہوں ، ان کو پکڑ کر باندھ لوں گا اور پوچھوں گا کہ تم نے یہ کیوں کیا؟۔ ملک خاندان کے بیٹے نے گاڑی اسلئے لی کہ کوئی اپنی گاڑی میں لفٹ دینے سے ڈرتا تھا۔ پھر ان کو بھی گھر کے افراد کیساتھ شہید کیا گیا جن میں ایک حافظہ بچی بھی تھی۔ محسود قوم کے اندر غیرت نہیں رہی تھی جبکہ کانیگرم کی برکی قوم اٹھ گئی اور اپنے اغوا کردہ فرد گلشا عالم خان کا طالبان کے مرکزوں میں جاکر پوچھا۔ جب طالبان پورے ملک میں تباہی مچارہے تھے تو ایک مرتبہ میرے من میں بھی بات آئی کہ اپنے گھر کے افراد کے ذریعے ان پر خود کش حملے شروع کروں اور ایک ایسی تحریک اٹھاؤں کہ محسود قوم کے تمام افراد کو جہاں کہیں بھی ملے نشانہ بنا ڈالوں کیونکہ جب وہاں لاشیں جائیں گی تو یہ لوگ خود ہی انکے ٹھکانے ختم کرنے پر مجبور ہو نگے۔ جب دوسروں پر ان کو فرق نہیں پڑتا تو قوت مدافعت کا یہ فطری طریقہ قرآن میں بھی ہے مگر ایک بھائی نے کہا کہ بے گناہ لوگ بھی مارے جائینگے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟۔ میں نے کہا کہ فتنہ ختم کرنے کیلئے لازم ہے کہ ان کو احساس ہوجائے ، گناہگار جہنم میں اور بیگناہ جنت میں چلے جائیں گے۔ دوسرے بھائی نے کہا کہ ’’ایک بے گناہ بھی مارا جائے تو میں اپنی آخرت خراب نہیں کرسکتا‘‘۔ پھر میں نے سوچا کہ نقاب پوشوں کو کون ،کہاں اور کیسے تلاش کیا جاسکتا ہے؟۔ ایک موقع پر جب طالبان نے کہا کہ تمام مجرم افراد کو ہم ماردینگے تو بھائی نے کہا کہ ہم معاف کردینگے اسلئے کہ اتنی خون ریزی ہماری وجہ سے ہو تو لوگ ہم سے بھی نفرت کرینگے۔ ایک موقع ایسا بھی آیا کہ ایک بھائی نے کہا کہ اب طالبان کیخلاف جہاد بنتا ہے تو میں نے عرض کیا کہ جب ذاتی دشمنی شامل ہو تو یہ جہاد نہیں بنتا۔ جس طرح حضرت علیؓ نے کافر کو چھوڑ دیا تھا۔
یہ سب باتیں عرض کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ پختون تحفظ موومنٹ کے جوان بھڑکیاں مارنے کے بجائے اصل کام کی طرف توجہ دیں۔ مسجد کا امام اس وقت مضبوط ہوتا ہے جب اسکے پاس ایمان کی دلیل ہوتی ہے۔ حلالہ کے حوالے سے ہم نے علمی بنیادوں پر تصفیہ کردیا کہ ’’اب بے غیرتی کی ضرورت نہیں‘‘۔پختون ، پنجابی ، سندھی، بلوچ اور مہاجر علماء کرام کے ساتھ ملکر شعور کی تحریک چلائیں۔ جبری جنسی زیادتی کے خلاف اور مروجہ ریاستی و حکومتی ڈھانچہ بدلنے کی تحریک چلائیں۔ جب قوم کے سامنے خواتین اور عوام کے حقوق کی بات آئے تو سب سے پہلے مدارس ، جامعات ،اسکول کالج اور یونیورسٹیوں کے طلبہ ملکر اپنا کردار ادا کریں۔ گورنمنٹ کے ملازم کی ریٹائرمنٹ 60سال پر ہوجاتی ہے ۔ قومی اسمبلی ، سینٹ ، وزیر اعظم، صدر، صوبائی اسمبلی وزیر اعلیٰ ، گورنر اور یونین کونسل و ضلع کونسل و میئر وغیرہ کیلئے بھی زیادہ سے زیادہ 60سال کی عمر مقرر کی جائے۔ زیادہ سے زیادہ 63سال کی عمر تک سرپرستی کرنیوالے عہدوں پر فائز ہونے کی گنجائش ہو۔ قرآن میں بھی ایک حد سے زیادہ عمر بڑھنے کے بعد انسان کی سمجھ بوجھ ختم ہونے کی نشاندہی ہے لیکن ہمارے ہاں حکمرانوں میں اقتدار کی ہوس کبھی پوری نہیں ہوتی۔ پاکستان میں عزتوں اور جانوں کے تحفظ کیساتھ ساتھ جو لوگ بھی ملک کو لوٹ کر لے گئے ہیں اور قرضوں کو عوام اپنے ٹیکسوں سے چکا رہے ہیں ان کی لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانا بھی ضروری ہے۔ میڈیا پر جرائم کی تشہیر ہوتی ہے اور سزاؤں کا کوئی رواج نہیں ہے جس کی وجہ سے روز بروز جرائم بڑھ رہے ہیں۔ فرسودہ عدالتی نظام اور بے ضمیر ججوں کو حقیقت نظر نہیں آتی.

وزیر اعظم اور چیف جسٹس ناجائز دو گھنٹے خلوت صحیحہ پر مستعفی ہوجائیں: فیروز چھیپا

supreme-court-nawaz-sharif-panama-leaks-imran-khan-dawn-leaks-saqib-nisar-memo-gate-hussain-haqqani-khalwat-e-sahiha-haq-mehr-

ڈائریکٹر فائنانس نوشتۂ دیوار محمد فیروز چھیپا نے کہا ہے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے میمو گیٹ پر حسین حقانی کو امریکہ سے طلب کرلیا اور کہا کہ ’’سپریم کورٹ کی عزت کا مسئلہ ہے ‘‘ جبکہ نواز شریف نے کہا کہ ’’میمو گیٹ میں پیش ہونا میری غلطی تھی‘‘۔ نواز شریف کا کھلے عام میمو گیٹ میں پیش ہونا اتنی بڑی غلطی نہیں تھی جتنی وزیر اعظم عباسی کا چیف جسٹس سے ملنا ہے۔ اس ملاقات کی حیثیت خلوت صحیحہ کی تھی جس کا فقہی مطلب یہ ہے کہ نکاح کے بعد اگر شوہر سے بیوی ایسی خلوت میں ملے کہ سب کچھ یہ آپس میں کرسکیں اس پر خلوت صحیحہ کا اطلاق ہوتا ہے۔ نکاح کے بعد طلاق دی جائے اور خلوت صحیحہ نہ ہوئی ہو تو قرآن میں آدھا حق مہر اور عورت پر عدت فرض نہیں ہوتی۔ خلوت صحیحہ کے بعد عورت پر عدت شوہر پر پورا حق مہر فرض ہوتا ہے۔ یہ فقہ حنفی کا مسئلہ ہے جس پر زیادہ ترلوگ پاکستان میں عمل پیرا ہیں، اس خلوت صحیحہ سے اختلاف بھی ہوسکتا ہے لیکن چیف جسٹس اور وزیر اعظم کی خفیہ ملاقات کا کسی صورت میں کوئی جواز نہیں تھا۔ وزیر اعظم کھلے عام میڈیا پر نواز شریف کے کیسوں کے حوالے سے چیف جسٹس اور عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بناتا رہا اور کسی چیف جسٹس ، جج ، مجسٹریٹ تو دور کی بات ہے گاؤں کے پنچایت کے کسی رکن و سربراہ کو بھی اس طرح سے متاثرہ فریق سے خلوت صحیحہ میں ملنے کے بعد اس کی ثالثی پر اعتماد نہیں رہ سکتا۔ چیف جسٹس نا اہل نواز شریف کے وکیل رہ چکے ہیں۔ عمران خان کو گھسیٹنے کے بعد ریلیف دینا اور جہانگیر ترین کو سزا دینا ایک منصوبہ بندی لگتی تھی۔ پھر اپنے کیس چھوڑ کر سندھ حکومت کے معاملات میں مداخلت اور پھر پنجاب کے ہسپتالوں کا رُخ کرنا عدالت نہیں سیاست لگتی ہے جو اپنے سابقہ کلائنٹ نواز شریف کو بچانے اور حقائق سے توجہ ہٹانے کی بظاہر منصوبہ بندی لگتی ہے۔ حدیبیہ پیپر ملز میں ریلیف کے بعد چیف جسٹس کے ان ریمارکس کا نتیجہ بھی یہی نکلتا ہے کہ جو آپ نے نواز شریف کے حوالے سے میڈیا پر کھلے عام ذکر کئے کہ ہم تمہاری وجہ سے جن مشکلات کا سامنا کررہے ہیں وہ ہمیں پتہ لیکن یہ مشکلات وہی لگتے ہیں جو چیف جسٹس ثاقب نثار بابا رحمت بن کر اپنے سابقہ کلائنٹ کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر برداشت کررہے ہیں، وزیر اعظم سے اس خفیہ ملاقات کے بعد چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں تو یہ ملک و قوم کیلئے اچھی مثال قائم ہوگی۔ وزیر اعظم کیلئے بھی استعفیٰ دینا زیادہ مناسب اسلئے ہے کہ جسکے کہنے پر ملنے گیا تھا وہ میمو گیٹ پر بھی اپنی غلطی کا اظہار کررہا ہے۔ عمران خان کی طرف سے جب چوہدری افتخار سے معافی مانگی گئی تھی پھر انکار کیا تھا تو اسکے وکیل حامد خان نے غیرت کا مظاہرہ کرکے کہا تھا کہ آئندہ عمران خان کا کیس نہیں لڑوں گا۔ اگروکیل سے زیادہ وزیر اعظم میں عزت نہ ہو تو یہ تاریخ کا سب سے بڑا الیمہ ہے۔ عمران خان کو تو بابر اعوان مل گیا جو آصف زرداری کے تقدس کی قسمیں کھاتا تھا۔ اب وہ عمران خان کی صفائی پیش کریگا۔