پوسٹ تلاش کریں

جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی پر بچی سے زیادتی کا گھناؤنا اور جھوٹا الزام: ارشاد نقوی

jamia-binoori-town-karachi-girl-child-blame-criminal-syed-irshad-ali-naqvi-mudeer-social-media-dawn-news-video-clip-sale-10-thousand-rupees-kab-tak-noorani-basti-korangi

مدیر خصوصی نوشتۂ دیوارسید ارشاد علی نقوی نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر ڈان نیوز کا ایک ویڈیو کلپ اور اس کے ساتھ یہ خبر چل رہی ہے کہ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے اُستاذ نے ایک 6سالہ بچی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے ہوئے 10ہزار میں فروخت کرنے کی کوشش کی اور رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ مدرسے والے پشت پناہی کررہے ہیں۔ یہ خبر دیکھتے ہی جھوٹی اسلئے لگی کہ جامعہ بنوری ٹاؤن میں کوئی بچیاں نہیں پڑتی ہیں۔ تاہم پھر بھی محمد اجمل ملک ایڈیٹر نوشتۂ دیوار نے جامعہ بنوری ٹاؤن کے مفتی مزمل صاحب سے یہ پوچھا کہ وہاں بچیاں پڑھتی ہیں یا نہیں؟ ۔ مفتی صاحب نے بتایا کہ ’’جامعہ کی عمارت میں بچیوں کو تعلیم دینے کا کوئی انتظام نہیں ہے تاہم ادارے کی شاخ میں بچیوں کو پڑھایا جاتا ہے اور ان کی اساتذہ بھی خواتین ہوتی ہیں۔ مجھے بھی دو دن پہلے پتہ چلا ہے کہ اس قسم کی کوئی خبر سوشل میڈیا پر چل رہی ہے۔ مجھے اس سلسلے میں کوئی معلومات نہیں ہیں‘‘۔
ہم نے سوشل میڈیا پر اس خبر کی تفصیل نکالی جو ڈان نیوز میں 6سال قبل ایک پروگرام ’’کب تک‘‘ میں چلی تھی۔ نورانی بستی کورنگی کا یہ واقعہ ہے جس میں ایک مولوی نما شخص نے 6سالہ بچی کیساتھ جنسی زیادتی کی اور پھر اس کو گھر کے پاس پھینک دیا۔ خاتون اینکر دلسوزی سے چیخ و پکار مچارہی تھیں کہ دنیا کی عدالت میں تجھے کوئی سزا نہیں ملے گی لیکن اللہ کی عدالت سے تم بچ نہ پاؤ گے ۔ 6سال قبل اس درندے کو سزا ملتی تو واقعات کا یہ تسلسل بھی نہ ہوتا۔

جنسی درندگی اور قتل پر سر عام بدلے میں زندگی ہے: فیروز چھیپا

maqbuza-jamuh-wa-kashmir-8-years-child-girl-asfa-chicha-watni-noor-fatima-sexual-assault-murdar-killing-hindu-shaheed-mafia

نوشتۂ دیوار کے ڈائریکٹر فنانس محمد فیروز چھیپا نے کہا ہے کہ آئے روز بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد قتل کی لرزہ خیز وارداتیں ہورہی ہیں ۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کی 8سالہ بچی آصفہ کوہندو درندوں نے ہوس کا نشانہ بنا کر شہید کیا اگر جرأت مند حکمران ہوتا تو کشمیر کو ہی فتح کرنے کیلئے کود پڑتا۔جبکہ چیچہ وطنی میں 8 سالہ بچی نور فاطمہ کو درندگی کا نشانہ بناکر آگ لگادی گئی۔ بدمعاش مافیا کے بل بوتے پر ہمارا حکمران طبقہ بے حس بن گیا ہے ۔ اگر یہ سلسلہ چلتا رہا تو آخر کار مشرکین مکہ کی طرح عوام اپنی بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کرنا شروع کرینگے۔ مریم صفدر نواز کو 2011ء میں اپنی جائیداد کا پتہ نہ تھا۔ نواز شریف نے پارلیمنٹ میں 2006ء کا اعتراف کیا اور اب پوری قوم کو حکمرانوں نے اپنے اقتدارکیلئے گمراہ کیا۔

ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت اور معاشرتی ابتری کے ذمہ دار علماء ہیں، مولانا واحد بخش میر پور میرس

maulana-wahid-bakh-meer-pur-meras-talaq-gilani-allama-ali-sher-rehmani-surgeon

خیرپورمیرس(نادرشاہ،جاویدصدیقی) فاضل دارالعلوم وفاق المدارس خیرپورمیرس مولانا واحدبخش نے کہاکہ میں سول ہسپتال میں سرجن حضرات کے ساتھ آپریشن اسسٹ کرتا ہوں ۔ آپ کا اخبارتمام سرجن پڑھتے ہیں اور تبصرہ یہی ہوتاہے کہ اشاعت اسلام کے حوالہ سے بہترین کاوش ہے ۔ اس پرفتن دورمیں یہ اخبارامید کی کرن ہے۔ میں برملا اس بات کا اظہارکروں گا کہ ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت اورمعاشرتی ابتری کے ذمہ دار علماء ہیں ۔ علماء نے قرآن کو چھوڑا ہو ا ہے ۔ آپ کے اخبارکے ذریعے سے طلاق کے حوالے سے جوکچھ پڑھاہے وہ گیلانی صاحب نے بالکل صحیح لکھاہے ۔ یہاں خیرپورمیں بہت بڑی علمی شخصیت مناظراسلام جماعت اہلسنت کے مرکزی رہنما علامہ مولاناعلی شیر رحمانی صاحب کو بھی آپ کااخباردیاتھا انہوں نے بہت پسند کیا اور فرمایا کہ گیلانی صاحب ابن عمرؓ کی روایت کواورزیادہ واضح کرکے تحریرکریں۔ آخرمیں یہی کہوں گاکہ گیلانی صاحب جولکھ رہے ہیں بالکل صحیح لکھ رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ آپ کی صحت ، عمراور علم میں برکت عطافرمائے ۔ آپ کی جدوجہدمیں خیر پورمیرس کی سطح پرمیرے ذمہ کوئی کام ہوتویہ میرے لئے خوش نصیبی ہوگی۔

جسٹس اعجازالاحسن کا گھر دوبار نشانہ بنا:محمد حنیف عباسی

justice-aijaz-ul-hassan-hanif-abbasi-dgispr-dr-tahir-ul-qadri-dhool-dawn-news-wusat-ullah-khan-hussain-nawaz

سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن کے گھر کوایک نہیں دو مرتبہ نشانہ بنایا گیا مگرنوازشریف و مریم نواز نے کوئی مذمت بھی جاری نہیں کی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان سے تأثر ابھر کر سامنے آیا کہ’’ فریقین حکومت اور اداروں کے درمیان ٹکراؤ کا یہ نتیجہ ہے‘‘۔ ایسا نہ ہو کہ جب کسی جج کے قتل کا سانحہ پیش آئے اور حالات بے قابو ہوں تو مارشل لاء لگانے کی نوبت آجائے۔ اس حقیقت کاریکارڈ موجود ہے کہ دھرنے کے دوران طاہرالقادری نے جنرل راحیل شریف سے مطالبہ کیا تو مشاہداللہ خان بار بار یہ مؤقف دہراہا رہاتھا کہ ’’ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں خفیہ ہاتھ ملوث تھے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کو ٹرینڈ لوگ دئیے گئے ۔وغیرہ‘‘۔
ایک فوجی دماغ سیاسی حکمت عملی نہیں سمجھتا ہے۔ جنرل باجوہ نے صحافیوں سے کہا تھا کہ ’’ بلوچستان کی سیاست میں کوئی ملوث ہو تو اس اہلکار یا افسر کا نام بتادو، ہم خبر لے لیں گے۔سیاستدان کسی سے بھی رابطہ نہ کریں ‘‘۔ مگر پھر بھی کہا گیا کہ ’’جنرل باجوہ ڈارکٹرائن کوئی نہ کوئی بات ہے‘‘۔ آخر کار ڈی جی آئی یس پی آر کو وضاحت کرنی پڑ ی کہ جنرل باجوہ کے کوئی عزائم نہیں ہیں‘‘۔ پھر نوازشریف کا بیان آیا کہ ’’ ہم تمام اداروں سے بات کرنے کو تیار ہیں‘‘۔ میاں رضاربانی نے بھی اس کی حمایت کردی تھی اور بعض نادان صحافی بھی یہ ڈھول پیٹ رہے تھے۔ اگر فوجی سمجھ کر بیان دینے کی صلاحیت رکھتا تو وضاحت کردیتا کہ ’’بھئی ہم نے واضح کیا ہے کہ ہم اپنے کام سے کام رکھیں گے۔ پرویزمشرف کے دور میں آرمی چیف صدر مملکت تھا، نوازشریف جیل میں تھے اور معاہدہ ہوگیا تو مسلسل جھوٹ الاپتے رہے کہ معاہدہ نہیں ہوا، پھر 5 سال کا مان لیا اور 10 سال کا انکار کیا۔اب تو تمہاری ہی حکومت ہے ، مذاکرات کس سے کیوں کرنے ہیں؟۔ پارلیمنٹ کی تقریر کسی نے زبردستی نہیں کروائی۔ عدالت میں خود جانے کا فیصلہ کیا، عدالت کو دھمکیاں دیں تو ہم اس پر شاباش نہیں دے سکتے تھے۔ عدالت نے نظریۂ ضرورت دفن کیا ہے تو اس پر خوش ہونا چاہیے تھا کہ ایکدوسرے پر الزام تراشی کے بجائے عدالت کے فیصلوں سے حقائق کی جانچھ پڑتال ہوسکے گی‘‘۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے نیک نیتی سے صلح کی کوشش کرنے کا سوچا ہوگا مگر یہ اس غلط ماحول کا نتیجہ ہے کہ میڈیا میں بار بار کہا جارہاہے کہ نوازشریف کو اداروں سے ٹکراؤ مہنگا پڑگیاہے‘‘۔ یہ انتہائی غلط مؤقف ہے۔ نوازشریف اداروں کیخلاف بیانبا زی کر رہاہے مگر اداروں نے اس کو ابھی تک سنجیدہ اس کو نہیں لیا ہے اور یہ بات غلط ہے کہ اداروں کوئی ٹکراؤ ہے۔ عدالت نے بہت ہی محتاط انداز میں صرف اقامہ پر فیصلہ دیا اگر پارلیمنٹ کی تقریر کو قطری خط سے جھوٹا قرار دیا جاتا تو سارا قصہ ختم ہوتا۔ ڈان نیوز اور معروف صحافی ، اچھی صحافت کیلئے سکہ کی حیثیت رکھنے والے وسعت اللہ خان نے بھی کہا کہ ’’ میں نہیں سمجھتا کہ یہ ٹکراؤ کا نتیجہ ہے‘‘۔ حامد میر نے کہا کہ ’’ حسین نواز کو روکتارہا کہ انٹریونہ دینا اور پھر سوال کچھ کرتا، جواب میں لندن کے فلیٹ کاذکر کریتا تھا۔

امام عبید اللہ سندھیؒ کے نام پر’’فکرشاہ ولی اللہ‘‘ تنظیم کی گمراہی اور قرآن و سنت کی درست تعبیر: تحریر عتیق گیلانی

shah-wali-ullah-fikr-e-waliullah-ubaid-ullah-sindhi-londi-muta-nikah-agreement-zina-biljibr-haq-e-meher

مولاناعبیداللہ سندھیؒ کو امام انقلاب تھے ، انکے بعض افکار سے اتفاق اور بعض سے اختلاف ہے۔ انہوں نے انقلاب کی کوشش کی ہے۔ کسی بات کا معقول جواب نہ ہو تو علماء اور مذہبی طبقہ گمراہی کا فتویٰ لگاتا ہے۔ مولانا سندھیؒ جید عالم تھے مگر آپ نے علماء و مذہبی طبقے کو ناقابلِ اصلاح و سخت الفاظ سے نوازا۔
مولانا سندھیؒ نے لکھا: ’’ شریعت میں بھائی سے بھی اپنی بیوی کا پردہ کرایاجاتاہے ، ہندوستان میں رائج پردہ شرعی نہیں۔ یہ ریاو شرفاء کا پردہ ہے جو خود کو عوام سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ ان کی خواتین بھی عام خواتین سے بدتر ہیں جن کو یہ جھوٹا زعم و تکبر ہے کہ ہم عوام پر فوقیت رکھتے ہیں، عوام کیلئے رائج پردہ ممکن نہیں۔ یہ پردہ غلط ہے۔ جس قوم میں یہ پردہ رائج ہے ان میں زنا کے بجائے لواطت رائج ہے۔ زنا منع ہے مگر غیرفطری نہیں، لواطت صرف منع اور غیر فطری بھی ہے، اسلئے نام نہاد پردے کا تصور ختم کردینا چاہیے۔( تفسیرالہام الرحمن: مولاناعبیداللہ سندھیؒ )
مولانا سندھیؒ نے قرآن و اسلام کا حکم نہیں، اپنی ہی منطق بیان کی ہے۔ ایک جماعت ’’ فکر ولی اللّٰہی‘‘ کے نام سے مولانا سندھیؒ کی منطق پر کام کررہی ہے۔ ان کو گلہ ہے کہ’’ عتیق گیلانی اور اسکے ساتھی علماء کیخلاف سخت لہجہ استعمال کرتے ہیں مگر علماء ان پر فتویٰ نہیں لگاتے ہیں جبکہ ہم انکے ہیں، ہم پر کفرو گمراہی کا فتویٰ لگاتے ہیں‘‘۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’میری امت گمراہی پر اکٹھی نہیں ہوگی‘‘۔ علماء کرام و مفتیانِ عظام اُمت کی اجتماعی ضمیر کی سب سے بڑی آواز ہیں۔سید مودودیؒ ، مولانا سندھیؒ ، غلام احمد پرویزؒ اور دیگر نابغۂ روزگار ہستیاں رہی ہیں لیکن علماء و مفتیان نے انکی گمراہانہ ذہنیت کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔
رسول اللہﷺ پر ہی وحی کا سلسلہ ختم ہوا، غلطیاں انسان سے ہوتی ہیں اور غلطیوں کی وجہ سے اسکے مقام اور مرتبہ پر بھی کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ حضرت آدمؑ کو جس شجرہ کے قریب جانے سے منع کیا تھا کہ ’’ بھوکے ننگے نہ ہوجاؤ‘‘ اور شیطان نے ہمیشہ والے اور نہ ختم ہونے شجرہ کا بتایا تو حضرت آدمؑ نے مغالطہ کھایا اور جنت سے نکالے گئے مگر ان کے مقام پر اثر نہیں پڑا۔ خلیفۃ الارض کا منصب پہلے سے متعین تھا اور اللہ نے وہاں پہنچادیا۔
مولانا سندھیؒ نے لکھا :’’ قرآن وسنت میں جن غلاموں و لونڈیوں کا ذکر ہے ،ان سے مراد دوسری قوم والے ہیں، جہاں ایک قوم کی اجتماعیت ہوتووہاں دوسری قوم والے لونڈی و غلام ہوتے ہیں۔ اپنی قوم کی چار خواتین کا ایک سے نکاح کی گنجائش ہے لیکن دوسری قوم کی لاتعداد اور بے شمار خواتین سے جنسی تعلق رکھنا جائز ہے کیونکہ وہ لونڈیاں ہے‘‘۔ پاکستان دو قومیتوں کے نظرئیے پر بنا تھا پھر بنگالیوں کو غلام ولونڈی کی طرح سمجھا گیا تو مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیااور بڑی رسوائی کا سامنا ہوا۔
مولانا سندھیؒ کی فکر اس بحث کا نتیجہ جو چل رہی تھی کہ قوم مذہب سے بنتی ہے یا وطن سے؟۔ علامہ اقبالؒ و مولانا مدنیؒ اور مولانا آزادؒ و مولانا تھانویؒ کی طرف سے شرعی مباحثے ہورہے تھے، پاکستان بنا تو رات گئی بات گئی، نظریات بھی دفن ہوگئے۔
دورِ جاہلیت میں غلام اور لونڈی کا تصور تھا۔ غلام کو عبد اور لونڈی کو اَمۃ کہا جاتاتھا۔ قرآن میں بھی اس کا ذکر ہے۔ قرآن اللہ کے سوا معبودوں کو نہیں مانتا۔ ایک طرف انکی نفی کرتاہے۔ دوسری طرف عبد نظام کی وجہ سے دوسرے انسان کا غلام ہوتا تھا تو اس غلامی کی حیثیت کو ایک معاہدے میں بدل دیاتھا۔ ایک آدمی کو اپنی گناہوں کا کفارہ ادا کرنا ہوتا تھا تو جتنے پیسوں کیوجہ سے لونڈی یا غلام گروی ہوتے تھے ان کی گردنیں چھڑا دی جاتی تھیں۔ آقا کا عبد سے تعلق اپنے پیسوں کی حد تک ہوتا تھا۔
ملکت ایمانکم قرآن میں لونڈی و غلام کیساتھ خاص نہیں بلکہ پڑوسی ، قرابتدار ، مسافر، کاروبار ی شراکت دار وغیرہ کے علاوہ مختلف انواع واقسام کے عہدوپیمان پر بھی اسکا اطلاق ہوتا ہے۔ متعہ ومسیار اور ایگریمنٹ بھی اس میں شامل ہے۔ قرآن وسنت میں یہ معاہدہ ہے۔ کچھ آیات ملاحظہ فرمائیے!
فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَۃً أَوْ مَا مَلکََتْ أَیْمَانُکُمْ (النساء:3)’’اگر تمہیں خوف ہو کہ عدل نہ کرسکوگے تو ایک ہی سے شادی کرلو یا جو تمہاری عہد و پیمان والی ہوں‘‘۔ امام سندھیؒ کے نزدیک پاکستان میں ایک شخص چار خواتین سندھی، بلوچ، پشتون اور پنجابی سے شادی کرسکتا ہے لیکن ان سے زیادہ نہیں، البتہ بنگالی، ازبک، عرب، یورپین اور دیگر اقوام کی لاتعداد کی حیثیت لونڈی کی ہوگی۔ اس طرح انکے مردوں کی حیثیت بھی غلاموں کی طرح ہوگی، عرب میں بھی یہی صورتحال رائج ہے۔ لیکن مغرب میں ایک شادی اور بہت سی گرل فرینڈز کی حیثیت عہد وپیمان والیوں کی ہے، اسلام میں نکاح کے علاوہ متعہ مسیار والیوں کی تشریح پر سعودی عرب اورایران کو متحد کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں عادلانہ نظام ہوگا۔ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ ( النساء:24)اوربیگمات خواتین سے مگر جو تمہاری عہد وپیمان والی ہوں‘‘۔عرب کے بادشاہ اور بڑے لوگ اپنی طلاق شدہ اور بیوہ بیگمات سے بھی شادی نہیں کرنے دیتے ہیں۔ خواتین بھی بعض اوقات اپنا اسٹس برقرار رکھنے کیلئے بیوہ ہونے کے باوجود کسی ایرے غیرے سے نکاح نہیں کرنا چاہتی ہیں اور ڈھنگ کا کوئی رشتہ ملتا نہیں ہے۔ رشتہ کرنے پر وہ فوت شدہ شوہر کی مراعات ، پینش، جائیداد سے محروم ہوجاتی ہیں تو انکے ساتھ نکاح کرنے کی حرمت کا معنیٰ یہ ہے کہ وہ اپنی مراعات سے محروم نہ ہوں۔ ایک بڑے سرکاری افسر کی بیوہ سے شادی کا دعویٰ کیا جائے اور وہ حقیقت مان لے تو مراعات سے ہاتھ دھو بیٹھے گی۔ متعہ سے مسئلہ نہ ہو گا۔ قرآن زمان ومکان کی تنگیوں سے بہت بالاتر ہے۔ فَمِنْ مَا مَلَکَتْ أَیمَانُکُمْ مِنْ فَتَیاتِکُمُ الْمُؤْمِنَات( النساء:25)’’پس تم میں سے وہ جوان مؤمن خواتین جو معاہدے ولی ہوں‘‘۔آیت میں یہ پسِ منظر بیان کیا گیا ہے کہ ہر لحاظ سے قابلِ قبول آزاد لڑکیاں اور شادی شدہ خواتین نکاح کیلئے میسر نہ ہوں تو پھر ان لونڈیوں یا متعہ کرنے والیوں سے بھی نکاح کرسکتے ہو۔ جب تم ان سے نکاح کرلو، تو ان کو بھی کمتر مت سمجھو۔ تم بعض بعض سے ہو۔ اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان کو جانتا ہے کہ نفس کی پیاس بجھانا اور اپنی فوقیت دکھانا تمہارا کام ہے، ایسا قطعی نہیں ہونا چاہیے۔
وَالَّذِینَ عَقَدَتْ أَیْمَانُکُمْ فَآتُوھُمْ نَصِیبَھُمْ ( النساء: 33)اورجن سے تمہارا پختہ معاہدہ ہوتو ان کو ان کا حصہ دیدو‘‘۔ اس میں وراثت کے اعتبار سے ہرقسم کا ایگریمنٹ شامل ہے اور جن خواتین نے مردوں سے کوئی ایگریمنٹ کیا ہو یا مردوں نے خواتین سے کوئی پکا معاہدہ کیا ہو، وراثت میں اس کی قانونی حیثیت کو قرآن نے واضح کیا ہے وراثت کے قانون میں جو وصیت اور قرضہ کا ذکر ہے، یہ معاہدہ بھی اسی کے ضمن میں ہے اور حضرت ابراہیمؑ نے اپنی بیوی حضرت ساراؑ اور ان کی اولاد کو اپنی ملکیت ، جائیداد اور گھر کا وارث بنایا، لونڈی حضرت حاجرہؑ کو وادی غیر ذی زرع میں معصوم بچے اسماعیلؑ کساتھ چھوڑ کر چلے گئے۔ ام المؤمنین حضرت ماریہ قبطیہؓ نے بھی ایک لونڈی کی حیثیت سے زندگی گزاری۔ سورۂ تحریم میں ان کی وجہ سے وہ آیات نازل ہوئی تھیں۔ جس نے انسانیت کی تاریخ کو بدلا۔ حقائق سامنے آگئے تو کارٹون بنانیوالے سورۂ تحریم کی بنیاد پر اسلام قبول کرینگے۔ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِیلِ وَمَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ ( النساء:36)اور پڑوسی اور مسافر اور جو تمہارے عہدو پیمان والے ہوں۔یہ آیت انسانی حقوق کے حوالہ سے عالمی نوعیت کی ہے۔ پڑوسی ومسافر کیساتھ تحریری معاہدہ نہیں مگر انکا حق ہے۔ زکوٰۃ کے مصارف میں حادثات کا شکار ہونے والوں کا بھی ذکر ہے۔ دنیا کی سطح پر عالمِ انسانیت کے تمام مظلوم ومجبور وں کی مدد اس میں شامل ہے۔ صلح حدیبیہ کا معاہدہ اپنے مشرک حلیفوں کی وجہ سے نبیﷺ نے توڑ دیا تھا۔ حلف الفضول کی تائیدپر نبیﷺ نے خوشی کا اظہار فرمایا تھا۔
أَوْ بَنِي أَخَوَاتِھِنَّ أَوْ نِسَاءِھِنَّ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُھُنَّ او التابعین غَیر اُولِی الاربۃ مِن الرِجَال( النور:31)’’یا بھانجوں سے یا اپنی عورتوں سے یا جنکے عہد کی وہ مالک ہوںیا وہ تابع آدمیوں میں سے جو عورتوں میں رغبت نہ رکھتے ہوں‘‘۔
اس آیت میں پردے کاحکم ہے جن میں محارم کا ذکرہے۔ غلام سے زیادہ ملکت ایمانھن سے مرادایگریمنٹ والے مراد لینا جائز ہے۔ جب کسی آزاد عورت کا غلام سے نکاح ہو یا کسی بالادست عورت کا تعلق کسی کمزور حیثیت والے مرد سے ہو جائے تو معاہدے کی ملکیت کی نسبت عورت کی طرف ہوگی، مریم نواز کیپٹن صفدر کی بیگم ہے لیکن شوہر بااختیار نہیں۔
وَالَّذِینَ یَبْتَغُونَ الْکِتَابَ مِمَّا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ فَکَاتِبُوھُمْ ( النور: 33)اور عہد والوں میں لکھت کا معاہدہ کوئی چاہتے ہوں تو ان سے مکاتبت کرو۔اس آیت غلاموں کو آزاد کرنے کے حوالے سے معاہدے کی بات نہیں ہوسکتی ہے، اسلئے کہ غلام کو آزاد کرنے میں ویسے بھی خیر ہے۔ بیوہ و طلاق شدہ کیلئے کوئی آزاد میسر نہ ہو تو مؤمن غلام بھی بہتر ہے۔ اگر غلام بھی صرف پیسے لیکر متعہ کرنا چاہتے ہوں تو پھر اس میں خیر کا پہلو نظر آئے تو ان کے ساتھ مکاتبت تحریری معاہدہ کرنا چاہیے، کیونکہ کل وہ آزاد ہوگا تو اولاد کے حوالہ سے عورت کو پریشانی کا بھی سامنا ہوسکتا ہے۔ اسی طرح کسی غریب سے بھی معاہدے میں متعہ کے حوالہ سے بہت سی چیزیں طے ہوسکتی ہیں۔
یَا أَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا لِیَسْتَأْذِنْکُمُ الَّذِینَ مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ ( النور:58)’’اے ایمان والو! تم سے اجازت طلب کریں جنکے تم عہدوپیمان کے مالک ہو‘‘۔ اس آیت میں غلام مرد ہی مراد ہوسکتے ہیں۔ غلاموں کو ایک معاہدے کی شکل میں قانونی حیثیت دی گئی ،تاکہ ان سے عبد جیسا رویہ ختم ہو ۔
ھَلْ لَکُمْ مِنْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ مِنْ شُرَکَاءَ فِي مَا رَزَقْنَاکُمْ ( الروم:28)کیا جن سے تمہارا معاہدہ ہے ان میں کوئی تمہارا شریک ہے جو ہم نے تمہیں رزق دیا ؟۔یہاں پر کاروباری شریک مراد ہے۔اپنے حصے میں کوئی شراکت دار کو شریک نہیں سمجھتا۔وَلا تَجعلُو ا اللہ عُرضَۃ لِایمَنِکُم اَن تَبرُوا و تتقوا و تصلحوا بین الناس (البقرۃ: 224) اور نہ بناؤ،اپنے معاہدوں کیلئے اللہ کو ڈھال کہ تم نیکی کرو، تقویٰ اختیار کرو اور عوام کے درمیان مصالحت کرو۔یہ آیت طلاق کی حقیقت کیلئے ایک بنیادی مقدمہ ہے۔ ایلاء، اکٹھی تین طلاق، ظہار، حرام اور طلاق سے متعلق جتنے صریح وکنایہ الفاظ ہیں اس میں ایک عام حکم جاری کیا گیا ہے کہ میاں بیوی صلح کیلئے راضی ہوں تو کسی قسم کے الفاظ کو اللہ کا نام لیکر انکے درمیان رکاوٹ کی بات نہ کرو۔ یہ نیکی ، تقویٰ اور مصالحت میں اللہ کے نام پر کوئی رکاوٹ قرآن کے منافی ہے اور قرآن میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ جہانتک آیت230کاتعلق ہے تو اس سے پہلے اور بعد میں نہ صرف رجوع واضح ہے بلکہ یہ وہ صورتحال ہے جب دونوں ملنا نہ چاہتے ہوں۔ لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللَّہُ بِاللَّغْوِ فِي أَیْمَانِکُمْ ولکن ےؤاخذ کم بماکسبت قلوبکم البقرۃ: 225 نہیں پکڑتا اللہ تمہیں لغو عہدوپیمان سے مگر پکڑتا ہے جو تمہارے دلوں نے کمایا ہے۔اس میں صریح وکنایہ کے الفاظ پرفیصلہ دیا گیاہے کہ علماء کے پیچھے گھومنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔
اِن الذِینَ یَشتَرُون بِعَھد اللہِ وَاَیمانِھم ثَمَناً قَلِیلاً اُولئک لَا خِلاقَ لَھُم فِی الاٰخِرۃِ، آل عمران: 77 بیشک جو لوگ تھوڑی قیمت لیتے ہیں اللہ کے عہد اور اپنے عہد و پیمان سے انکا آخرۃ میں حصہ نہیں ۔ انسان اللہ سے ہرنماز میں بار بار وعدہ کرتا ہے اگر وہ اللہ کے قوانین کو توڑ کر غلط فتوے دیتا ہے تو اس کا آخرت میں بالکل بھی کوئی نہیں ہوگا۔ تدبر کرو!۔ لایؤاخذکم اللہ با للغو فی ایمانکم ولٰکن یؤاخذکم بما عقدتم الایمان فکفارتہ اطعام عشرۃ مساکین من اوسط ما تطعمون اھلیکم او کسوتھم او تحریر رقبۃ فمن لم یجد فصیام ثلاثۃ ایامٍ ذٰلک کفارۃ ایمانکم اذا حلفتم واحفظوا ایمانکم کذٰلک یبین اللہ لکم اٰیتہٖ لعلکم تشکرون (المائدہ: 89)’’نہیں پکڑتا ہے اللہ تمہیں تمہارے لغو عہد پر لیکن جب تم اپنے عہد کو پختہ کرچکے ۔ تو اسکا کفارہ 10 مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے،اوسط درجے کا جو تم اپنے اہل کو کھلاتے ہویا انکا کپڑا،یا کسی کی گردن کو آزاد کرنا ہے ، یہ تمہارے عہدوپیمان کا کفارہ ہے جب تم قسم اٹھاؤ۔ اور اپنے عہدو پیمان کی حفاظت کرو، اس طرح اللہ واضح کرتا ہے اپنی آیات کو ، ہوسکتاہے کہ تم شکر ادا کرو‘‘۔
فقہ اور اصولِ فقہ کی کتابوں میں یمین کو صرف قسم قرار دیا گیا اور بہت فضول قسم کے اختلاف وتضاد کے مسالک ہیں،قرآن کاترجمہ وتفسیر میں بھی اپنے غلط افکار ڈال دئیے گئے ۔ یہ واضح ہے کہ پختہ عہدوپیمان کو توڑنا گناہ ہے لیکن اس پر کفارہ نہیں ہے اور جب ایمان حلف کے معنی میں ہو تو اس پر کفارہ ہے۔ یمین قسم کو بھی کہتے ہیں اور محض عہد کو بھی۔ یہ قرآن میں واضح ہے۔
واللہ فضلکم فی الرزق بعضکم علی بعض فَمَا الَّذِینَ فُضِّلُوا بِرَادِّي رِزْقِھِمْ عَلَیٰ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ فھم فیہ سوآء ( النحل:71)اور اللہ نے تمہیں میں بعض کو بعض پر رزق میں فضلیت دی ہے۔ جن لوگوں کو بالادستی ہے اپنے عہد وپیمان والوں کو انکے رزق کو لوٹانے کی تووہ اس میں برابر کے شریک ہیں۔’’ اس آیت کے ترجمہ وتفسیر میں بھی بڑا مغالطہ کھایا گیاہے۔اس میں وضاحت ہے کہ اگر کاروبار میں دوافراد شریک ہوں ۔ ایک کام ایک کرے اور دوسرا کام دوسرا کرے تو جب ایک کو منافع زیادہ ملے تو اس میں جس سے عہد و پیمان ہوا ہے وہ بھی برابر کا شریک ہے۔سیاق وسباق سے یہی اخذ ہوتا ہے لیکن آیت کا سوالیہ نشان بنایا گیاہے کہ کیا غلام بھی تمہارے ساتھ تمہارے رزق میں شریک ہیں پھر کیوں شرک کا ارتکاب کرتے ہو؟۔اس سے پہلے انسان کو رذیل عمر کی طرف لوٹنے کی خبر ہے اور اپنے شریکار کو برابر کا حصہ دینے کیلئے واضح کیا ہے کہ کیا تم اللہ کی نعمت کا انکار کرتے ہو؟۔ پھر ازواج اور بیٹوں وپوتوں کا ذکر کیا ہے۔ جس کا مطلب کاروبارمیں دھوکہ سے روکنا ہے۔ کاروباری شریک کا دھوکہ سے منع کیا گیاہے۔ واوفوا بعہداللہ اذا عٰھدتم اذاوَلا تَنقُضوا الاَیمانَ بَعد تَوکِیدھا (النحل:91)اورپورا کرو اللہ کیساتھ عہد کو جب تم عہد کرواور اپنے عہدکو نہ توڑ و،اس کو پختہ کرنے کے بعد اس آیت میں ایمان سے مراد عہدہی ہے لیکن قسم مراد لیاہے۔
تَتَّخِذُونَ أَیْمَانَکُمْ دَخَلًا بَیْنَکُمْ أَنْ تَکُونَ أُمَّۃٌ ھِيَ أَرْبَیٰ مِنْ أُمَّۃٍ ( النحل:92)کہ عہدوپیمان کو واردات بناؤ کہ ایک فریق دوسرے سے زیادہ نفع حاصل کرلے۔اس میں قسم کے ذریعہ سے نفع حاصل کرنا بھی ہے اور وعدوں سے بھی سیاستدانوں کی طرح دھوکہ دینا مراد ہے۔
وَلَا تَتَّخِذُوا أَیْمَانَکُمْ دَخَلًا بَیْنَکُمْ فَتَزِلَّ قَدَمٌ بَعْدَ ثُبُوتِھَا ( النحل:94)اورنہ بناؤاپنے عہدوپیمان کو واردات آپس میں کہ گراوٹ کا ذریعہ بنے قدم جمنے کے بعد اور پھر تم برائی کے مزے کو چکھ لو ، بسبب اللہ کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے۔ اور تمہارے لئے برا عذاب ہوگا۔یہ اخلاقی تربیت ہے کہ جھوٹے وعدوں اور قسموں کو دھوکہ بازی کا ذریعہ نہ بناؤ۔
إِلَّا عَلَیٰ أَزْوَاجِھِمْ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ فَإِنَّھُمْ غَیْرُ مَلُومِینَ ( المؤمنون:6)جواپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر اپنی بیویوں یا جن سے معاہدہ ہو تو ان پر ملامت نہیں۔وَمَا مَلَکَتْ یَمِینُکَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّہُ عَلیکَْ ( الأحزاب:50)اور وہ جوتیرے معاہدہ کی ہوں جو اللہ تجھے عطا کرے۔ قد علمنا ما فرضنا علیھم فی ازواجھم اوما ملکت ایمانھم لکی لا یکون علیک حرج و کان اللہ غفور اً رحیماً ( الاحزاب:50)بیشک ہمیں معلوم ہے جو ہم نے مقرر کیا ہے،ان پر ان کی بیویوں کا حق مہراور جن سے ان کا عہدو پیمان ہوا ہے ان کا اجر۔ تاکہ تجھ پر کوئی تنگی نہ ہو اور اللہ غفور اور رحیم ہے۔
ولایحل لک النساء من بعدوَلَا أَنْ تَبَدَّلَ بِھِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَکَ حُسْنُھُنَّ إِلَّا مَا مَلَکَتْ یَمِینُکَ ( الأحزاب:52)اوراسکے بعد آپ کیلئے عورتیں حلال نہیں اور نہ یہ انکے بدلے کوئی کرلیں اگرچہ ان کا حسن آپ کو اچھا لگے مگر جو آپ کی لونڈی ہو۔ وَلَا أَبْنَاءِ أَخَوَاتِھِنَّ وَلَا نِسَاءِھِنَّ وَلَا مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُھُنَّ ( الأحزاب:55) اور نہ انکے بھتیجوں سے ،نہ انکی خواتین اورنہ انکی لونڈیوں سے۔ قَدْ فَرَضَ اللَّہُ لَکُمْ تَحِلَّۃَ أَیْمَانِکُمْ وَاللَّہُ مَوْلَاکُمْ ( التحریم:6)اور اللہ نے مقرر کیا ہے تمہارے عہد کوحلال کرنا اوروہ تمہارا مولا ہے۔ نبی ﷺ نے حضرت ماریہ قبطیہؓ کو اپنے اوپر حرام قرار دیا تھا ، اس کو ایمان قرار دیا گیاہے۔ تحلۃ کفارہ کو بھی کہتے ہیں لیکن نبیﷺ نے اس کا کفارہ نہیں دیا۔ اسلئے کہ یہاں کفارہ مراد نہیں بلکہ عہد کو حلال کرنا مراد ہے۔
إِلَّا عَلَیٰ أَزْوَاجِھِمْ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُھُمْ فَإِنَّھُمْ غَیْرُ مَلُومِینَ ( المعارج:30)مگر اپنی بیویوں پر اور جوان کی عہدوپیمان والی ہوں تو ان پر کوئی ملامت نہیں۔
اصولِ فقہ ، فقہ، تفاسیر کی کتابوں میں قرآن کے مجموعی الفاظ پر نظر دوڑانے کے بعد علمی نکات اخذ کئے ہوتے تو بہت بڑے مغالطے، اختلافات اور تضادات میں مبتلا نہ رہتے۔ غلطی ہونا بڑی بات نہیں لیکن غلطیوں پر اصرار کرنا ابلیسی عمل ہے۔
فقہاء نے قسم کی تین اقسام بیان کی ہیں۔ 1:یمین لغو 2: یمین غموس،3: یمین منعقدہ۔ کس مسلک میں کس قسم پر کفارہ ہے اور کس پر نہیں؟۔ اختلاف کی حقیقت سمجھ کر ہنسی آئے گی۔ یہی نہیں بلکہ سورۂ بقرہ کی آیت229 اور 230 کے درمیان اتصال اور جوڑ پر جس طرح پاگل پن کامظاہرہ کیا گیا ہے ان کو دیکھ شیخ چلی کے لطیفے بھی بھول جاؤ گے۔ قرآن نے وضاحت کیساتھ مسائل واضح کردئیے ہیں ان سے پہلوتہی برتنے کیلئے جان بوجھ کر حماقت کا مظاہرہ نظر آتا ہے۔
متحدہ مجلس عمل کے علماء اور مذہبی جماعتوں کو اگر اسلام کی فکر ہے تو تمام مکاتبِ فکر کیلئے قابلِ قبول مسائل کا حل عوام کے سامنے پیش کریں،میری خدمات حاضرہیں اور مجھے معلوم ہے کہ انہوں نے صرف ووٹوں کی زکوٰۃ لینی ہے اور اتحاد کے نام پر دوسری جماعتوں سے پیسہ بٹور رہے ہیں، اپنے اداروں کیلئے خیرات ، صدقہ اور زکوٰۃ لینا بھی انکا مقصد ہے۔ تاہم پشتون تحفظ موومنٹ کی طرح ہم درست مقاصد کیلئے ان کو بھی سپورٹ کرینگے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے انقلاب آسکتاہے۔
سعودیہ عرب کی حکومت اسلامی تہذیب وتمدن کیلئے سب سے بڑی ماڈل تھی لیکن اب سینما، جوئے کے اڈے اور خواتین کی ریس وغیرہ کے علاوہ تمام حدود وقیود سے نکل رہے ہیں۔ اگر انکے علماء ومفتیان حکومتی فنڈپر صرف قرآن وسنت کی خدمت کرتے تو آج نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ پاکستان میں بالعموم پنجاب میں بالخصوص افسوسناک صورتحال ہے۔ روز بچے و بچیوں کو جبری جنسی زیادتی کا نشانہ بناکر قتل کیا جا رہا ہے۔ سزاؤں کا کوئی اتہ پتہ نہیں، جرائم کی تشہیر سے جرائم میں اضافہ ہواہے اور نہ کریں تو مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ جبری نظام ہم نے گھر سے سیکھ کر معاشرے میں تشکیل دیا ۔ قرآن کی واضح آیات کے مطابق عورت کو گھر چھوڑنے اور خلع کیلئے حدیث میں ایک حیض کی عدت کافی ہو تو کوئی بیوی کو ایک تھپڑمارنے کی ہمت کرنے سے پہلے ہزار بار سوچے گا۔ اسلئے کہ عورت چھوڑ کر جاسکتی ہو تو مردتھپڑ نہیں مارے گا۔
اسلام میں جبری زنا کی سزا قتل اور سنگساری ہے۔ پاکستان میں عرصہ تک شکایت کرنے والی خواتین کو بھی قیدکردیا جاتا کہ گواہ لاؤ حالانکہ نبیﷺ نے متأثرہ خاتون سے گواہ طلب نہیں کئے، سچ کا یقین ہونے پر سزا کا حکم دیا لیکن پرویز مشرف کے دور میں مفتی تقی عثمانی نے من گھڑت دلائل دئیے تھے۔
ہمارے ہاں جب خاتون نکاح میں ہو تو اسکے حقوق اتنے غصب کئے گئے ہیں کہ ایک لونڈی بھی اسلام نے اسقدرغلامی میں نہیں پھنسائی ہے۔ طلاق کے بعد بھی نہ بسانے کا ارادہ ہو تو بھی دوسری جگہ شادی کرنے پر مار دیا جاتاہے۔ اس سے بڑی اور بدترین غلامی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ دوسری جانب اس کووہ حقوق حاصل نہیں ہوتے جو ایک منکوحہ کے طلاق کے بعد بھی ہوتے ہیں بلکہ حقوق کے لحاظ سے پھر وہ متعہ والی عورت سے بھی بدتر بنتی ہے۔ خلع کیلئے بھی منہ مانگی قیمت جائز ہوتی ہے۔

منظور پشتین مظلوم پنجابیوں کیلئے تحریک اٹھاتا تو کامیاب ہوجاتا: امین اللہ کوئٹہ

shah-wali-ullah-fikr-e-waliullah-ubaid-ullah-sindhi-talaq-londi-jibri-zina-muttahida-majlis-e-amal-mufti-taqi-usmani-saudi-arab-cenima-halala-muta

جنوبی وزیرستان کے منظور پشتین میں انسانیت کا درد ہے مگر تعصب نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ محسود قبائل نے یہ درد محسوس کیااور ساتھ دیا، دوسروں سے زیادتی کا پتہ چلا تو محسود تحفظ موومنٹ کوپختون تحفظ موومنٹ میں بدل دیا۔ سوات سے کوئٹہ تک دُکھے دلوں کی آواز منظور پشتین کہتا ہے کہ طالبان ظلم کریں یا ریاستی ادارے، میں ہر ظالم پر لعنت بھیجتاہوں۔ قبائل تاریخی مظالم میں پس چکے۔ اگر اس تکلیف، مصیبت، درد، ظلم، جبر، بے عزتی،جان، مال اور عزتوں کی لوٹ مار سے کوئی دوسری قوم دوچار ہوتی تو اس کی نسلیں بھی نہیں اُٹھ سکتی تھیں۔ اسلام کی نشاۃ اول کے وقت پہلی ہجرت حبشہ اور دوسری مدینہ ہوئی تھی۔ حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے مسلمانوں کی خوب عزت افزائی کی۔ انصار مدینہ نے مہاجرین کیلئے بھائی چارے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ ہندوستان سے پاکستان ہجرت کرنیوالے انگریز کی جگہ اقتدار کا مالک بنے، مہاجر افغان کی دنیا بھر نے خوب مدد کی لیکن وزیرستان سے ہجرت پر مجبور ہونیوالوں سے انتہائی بدسلوک روا رکھا گیا۔
سید عتیق الرحمن گیلانی کا تعلق جنوبی وزیرستان سے ہے۔ ایک گھر والی سندھی اور دوسری بلوچ ہیں۔ اکثر بچوں کی پیدائش شکار پور اور کراچی میں ہوئی۔ معروف ماہنامہ ضرب حق کراچی کے 10سال تک چیف ایڈیٹر رہے، کئی کتابوں کی تصنیف کے علاوہ ملک بھر سے تمام مکاتبِ فکر کے علماء کرام ، مذہبی و سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی تائید، سندھ پولیس و بیورو کریسی کے اعلیٰ افسران کی تحریری و شائع شدہ تائید رہی۔ چین کیلئے پولیس سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہوتی ہے وہ بھی تھا ۔ ڈان اخبار میں تفصیلی رپورٹ شائع ہوئی تھی کہ عتیق گیلانی پر ٹانک سے جاتے ہوئے قاتلانہ حملہ ہوا تھا اور اسکے بعد کراچی مستقل رہائش اختیار کرلی تھی،تمام اخبارات میں خبر لگی تھی کہ پیر عتیق گیلانی کے گھر پر طالبان نے حملہ کیا اور 13افراد شہید کردئیے۔ ٹی وی چینل، اخبارات کے علاوہ دنیا بھر کی میڈیا میں خبر رپورٹ ہوئی لیکن اسکے باوجود جس طرح طالبان نے رات کی تاریکی میں شبِ خون مارا۔ پاکستان کے لائق انٹیلی جنس اداروں نے اپنے لاؤ ولشکرکے ساتھ عتیق گیلانی کے گھر پر چھاپہ مارا۔ پورا علاقہ گھیرے میں لیا اور بلڈنگ کی دونوں لفٹوں کو بھی قبضہ میں لے لیا تھا۔
گھروالوں کے دل ودماغ سے طالبان کا خوفناک حملہ نہیں مٹا تھا کہ ’’ یہ بہادر گھر میں گھس گئے اور سید حمزہ کو ایک قدآور پولیس انٹیلی جنس افسر یا سپاہی نے زور دار تھپڑ رسید کیا اور پوچھا کہ’’ تمہارا باپ کہاں ہے‘‘ ۔یہ ظلم و جبر کی تاریخ رقم کرنے والی بزدل ریاست کے ظالم اہلکار کاوہ ہاتھ تھا جس نے انگریز کے بعد غلامانہ ذہنیت کا طوق اپنی گردن سے نہیں اتارا ہے، جسکے وزیراعظم کوآج ننگا کیا جاتاہے تو قانون کی پاسداری قرار دیتاہے۔ جسکے جوان عتیق کوامریکی اتاشی اسلام آباد میں سگنل توڑ کر اڑادیتا ہے لیکن پولیس اس کو چھوڑ دیتی ہے اور ہمارا دفتر خارجہ صرف احتجاج ہی کرتا ہے۔
عتیق گیلانی نے اپنے صاحبزادے کا نام حمزہ رکھاہے اور جب ان کو زور دار تھپڑ مارا گیا تو وہ حواس باختہ نہیں ہوا۔ بلکہ تھپڑ مارنے والے ظالم سے ڈٹ کر کہا کہ جب تک تم نہیں بتاؤ کہ مجھے تھپڑکیوں مارا ہے ،اس وقت تک تم نے جو کچھ بھی کرنا ہے کرلو، میں کچھ بھی نہیں بتاؤں گا۔
یہ قصہ اسلئے لکھ دیا کہ منظور پشتین غیرملکی ایجنڈے پر کام نہیں کررہا بلکہ بے گناہ لوگوں کیساتھ جو زیادتیاں ہوگئی ہیں اسکا سلسلہ روکا جائے۔ عتیق گیلانی کیساتھ یہ معاملہ ہواتھا تو دوسروں کیساتھ کیا نہ ہوا ہوگا؟۔ البتہ ریاستی اہلکار اخلاقیات سے عاری ہیں ، ان کی تعلیم وتربیت کا اہتمام نہیں ۔ نااہل نوازشریف نے پارلیمنٹ میں اقرار کیا کہ اثاثوں کا اللہ کے فضل وکرم سے میرے پاس تمام ثبوت ہیں، فیصلے چوکوں پر نہیں عدالتوں میں ہوتے ہیں اور حسین نواز نے بھی میڈیا پر کہا تھا کہ ’’میں عدالت میں اپنا ثبوت پیش کروں گا‘‘۔ ڈکٹیٹر شپ میں میڈیا پر پابندی لگتی ہے اور ملزم اپنا ثبوت و ریکارڈ میڈیا پر بھی پیش نہیں کرسکتا۔ ن لیگ کی حکومت ہے اور میڈیاکو حکومتی اشتہارات سے خرید اہے اور صحافی صحافت کے بجائے وکالت کرتے ہیں۔ذہنی پستی کا شکار جمہوریت کا نام لیکرقیادت کرپشن کی لڑائی میں کہہ رہا ہو کہ’’ پارلیمنٹ کی تقریر اور قطری شہزادے کے خط سے جو کالک اپنے منہ پر ملی تھی واجد ضیاء اس کو صاف کررہاہے‘‘ لیکن پھر بھی اپنے حواری اور مشرف کے لوٹے ہی نہیں بلکہ مولانا فضل الرحمن، حاصل بزنجو، اسفندیار ولی ، اچکزئی بھی اس بیانیہ کو سپورٹ کررہے ہوں۔ متحدہ مجلس عمل کو بھی زکوٰۃ و خیرات سے اپنا ٹاؤٹ بنالیا تو قوم کہاں جائے گی؟۔ باقی سیاسی قیادتوں اور برساتی مینڈکوں کا حال بھی مختلف نہیں۔ عمران خان کے دور میں واقعی تبدیلی آ نہیں رہی ہے بلکہ تبدیلی آگئی ہے۔ پہلے سینٹ کیلئے ارکان بکتے تھے ۔ عمران خان نے اپنے ارکان کو اسلئے پیسے دینے شروع کئے کہ دوسرے خریدلیں تو ہم اپنے ارکان کو خود ہی خرید لیں۔ اس دلالی میں اپنا اُلو بھی سیدھا کرلیا لیکن بعض ارکان نے شاید پھر بھی دھوکا دیدیا۔
آصف زرداری نے محسوس کیا کہ ن لیگ کو سہارا نہیں دیا جارہاہے تو اعلان کردیا کہ’’ میں اسے گراکر دکھاؤں گا‘‘۔ طاہرالقادری کے اسٹیج کیلئے اس بے غیرتی کو بھی برداشت کرلیا کہ عمران خان سے پہلے اپنا منحوس چہرہ اسٹیج سے غائب کردونگا۔ اگر لاہوری باربار طاہرالقادری کو اینویں (پنجابی میں ایسے ہی) ڈگڈی بجاتے ، بندر ناچ گاتے نہ دیکھ چکے ہوتے تو اس ڈرامہ کو کامیابی مل سکتی تھی۔ ڈرامہ کامیاب ہوتا تو زرداری نے کہتا کہ ’’ میں نے حکومت گراکر دکھائی ہے‘‘ جب سیاستدان اس قدر گھٹیا بن جائیں بلکہ گھٹیالوگوں کے ہاتھوں میں قیادت آئے تو یہ قیامت کی علامات ہیں اور اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ سیاستدانوں کی بہت گھٹیا حرکتوں کی وجہ سے سیاست کا بہترین شعبہ بدنام ہوا ہے۔
پنجاب میں اصولوں، اعلیٰ اخلاقی اقدار ، بہترین روایات اور انسانیت کے اعلیٰ معیار کی کمی نہیں۔ ناکارہ اور لاوارث گدھا بھی کوئی غلطی سے مار دے توپٹھان قیمت وصول کرتا ہے۔ 80سال کی بوڑھی ماری جائے جسکا شوہر 20سال پہلے مرچکا ہو تو وارث یہ دعویٰ کرنے سے نہیں شرماتے کہ ایکسیڈنٹ پر غریب ڈرائیور دو افراد کی دیت دے، بڑھیا کے پیٹ میں بچہ بھی تھا۔ پنجاب میں اکلوتا بیٹا غلطی سے ماردیا جائے تو غریب باپ ایک پیسہ لئے بغیر معاف کردیتا ہے اور معاف کرنے میں احسان کا احساس بھی نہیں رکھتا، اس کو اللہ کی مرضی اور مقتول کا مقدر قرار دیتا ہے۔ آصف زرداری بے غیرت سیاسی قیادت کا ایک بے غیرت کھلاڑی ہے لیکن پرویزمشرف کو چلتا کرنے میں پنجاب کی حکومت کا موقع گنوادیا، شہبازشریف کی گالی برداشت کی، نوازشریف سے کہا تھا پہلے آپ کی باری ہے، کابینہ کا وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور وزیرخزانہ اسحاق ڈار کو بنایا۔ رات کی تاریکی میں شہبازاورجنرل کیانی کی ملاقاتوں سے تنگ آکر کئی بار کہا کہ صدارتی محل سے میری لاش ایمبولینس میں جائیگی۔ ن لیگ کیلئے پھر ان کی مشکلات کے دور میں پنجاب کے وفادار ساتھیوں کی ناراضگی مول لیکر سہارا بننے سے دریغ نہ کیا۔ نوازشریف کی بے وفائی کو خاطر میں نہ لایا ۔ 18ویں ترمیم میں صدارتی اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کردئیے۔ دوتہائی نہیں 75فیصد ووٹ حاصل کرکے تین تہائی ووٹوں سے صدر مملکت بن گئے۔ ووٹ کو عزت دینے کی ڈگڈگی بجانے والا نوازشریف غیرت، حمیت، اقدار ، رسم وروایت سے اتنا عاری ہے کہ سندھی صدر مملکت جب نوازشریف کے بھائی عباس شریف کی تعزیت کیلئے جانا چاہ رہاتھا تو نوازشریف نے تعزیت کیلئے بھی آنے سے منع کیا۔واہ واہ۔
اسٹیبلشمنٹ نے چن چن کر بے غیرتوں کا انتخاب سوچی سمجھی سازش کے تحت اپنے مفاد کیلئے کیا تاکہ ذلت ورسوائی کی آخری حدوں کو پار کرسکیں۔ منظور پشتین نام مظلوم تحفظ موومنٹ رکھ دیں اور پنجاب کے غیور عوام کی عزتوں کو بے غیرت نسل کے بدمعاشوں سے تحفظ فراہم کریں۔ جن کا پیشہ یہ ہے کہ اقتدار ، اختیار، کرپشن اور شہرت حاصل کرلو، عزت کی بات نہیں، عزت تو شوہر کے ہوتے ہوئے لٹ جانا معمول ہے جبکہ طاہرہ سید اور بشری بی بی کی کہانیاں ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ نوازشریف کی قیادت نے عوام میں یہ جذبہ پیدا کردیا کہ لاہور میں ڈاکٹر نے ایک عیسائی خاتون کو تھپڑ مارا۔ احتجاج پر ڈنڈوں سے ایک عیسائی کو مار ڈالا، اس سے پہلے بھی میاں بیوی عیسائی جوڑے کو آگ کی بٹی میں جلا ڈالا گیا تھا۔ گوجرانوالہ میں ایک شخص نے کھانا میں دیر کرنے پر اپنی دادی اور بہن کو ڈنڈے مار مار کر قتل کیا اور دوسری بہن کو زخمی کردیا۔ سندھ کے شاہ رخ جتوئی کا قصہ بھی موجود تھا کہ دوسرے جتوئی نے گانیوالی کو ناچنے کا حکم دیکر مار ڈالا۔ یہ ذولفقار علی بھٹو کا شہر ہے جہاں حبیب جالب کی آواز گونجتی ہے کہ ’’ لاڑکانہ چلو، ورنہ تھانہ چلو‘‘۔ پختون قوم سردار اور کسی لیڈر کو نہیں مانتی ۔ قوم کا اجتماعی شعور فیصلہ کرلے تو کوئی قائد بن سکتا ہے۔ قیادت کی اہمیت بالکل بھی نہیں ہوتی ہے۔
منظور پشتین سے معذرت کیساتھ PTMکی مثال کتیا کے پیچھے جمع ہونے ہونیوالے ریلے سے مختلف نہیں، جو کوئی خطرہ بن سکے۔ پنجاب کے مظلوموں کیلئے اٹھتے تو نظریاتی لوگ مل سکتے تھے۔ شک نہیں کہ تعصبات کی آگ خطرہ ہوتی ہے لیکن پٹھانوں کو تعصبات کی آگ میں جھونکا گیا تو آپس میں ہی ہڈی ڈالنے پر لڑپڑینگے۔ پختون قوم خیر کاکام کرے تو اس کو بہت راست آئیگا۔ طالبان کے بعد لسانی تعصب کو ہوا دینا بہت غلط ہے۔ محمود اچکزئی اور اسفندیار ولی نے آخر اسوقت نوازشریف کی گود میں پناہ لی جب کشتی ڈوب گئی۔

مولانا آزادؒ کی تجاویزاورہماری خوش اسلوبی کافائدہ: اداریہ نوشتہ دیوار کالم 4 صفحہ 2 شمارہ اپریل 2018

triple-talaq-in-islam-halalah-maulana-muhammad-khan-sherani-molana-yusuf-binori-agreement-marriage-nikah-mut'ah-mufti-mehmood-kathputli

مولانا ابوالکلام آزادؒ کے نظرئیے اور داڑھی کی تراش سے اختلاف ہوسکتا ہے مگر ان کی قابلیت کا انکار مخالف بھی نہیں کرتا، مولانا آزادؒ بھارت کے وزیرِ تعلیم تھے تو علماء کے سامنے تجویز رکھی’’ جن کتابوں کو درسِ نظامی میں پڑھایا جاتا ہے یہ زوال کے دور کی ہیں۔ اسلامی علوم کو عروج ملا ،پھرعلوم کا زوال ہوا تو ساتویں صدی ہجری میں انتہائی پستی کا دور آیا۔ تفتازانی وغیرہ نے وہ کتابیں لکھیں کہ مغلق عبارات کی خود شروحات لکھ دیں۔ شکایت ہے کہ علماء میں استعداد نہیں لیکن یہ کتابیں علماء کو کوڑھ دماغ بنانے کیلئے کافی ہیں۔ یہ نصاب نہ بدلا تو علماء فراغت کے بعد استعداد نہیں علم وعقل سے بھی محروم ہونگے‘‘۔ آزادؒ کی تجویز کے بعد نصاب کی تبدیلی پر بازگشت رہی ہے لیکن اس پر عمل کی مطلوبہ صلاحیت نہ تھی۔ آزادؒ نے لکھ دیا کہ ’’ اصولِ فقہ میں کمزوریاں ہیں اگر کسی اہل عقل کی نظر پڑگئی تو اسکا ڈھانچہ زمین بوس ہوجائیگا‘‘۔ جمعیت علما اسلام کے مولانا محمد خان شیرانی نے مجھ سے کہا: ’’ آپ نیا نصاب تشکیل دیں تو میں ذمہ لیتا ہوں کہ اسی کو علماء پڑھائیں گے‘‘۔ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل بن گئے تو میں نے متعدد بار ملاقات کی، تین طلاق اور حلالے کا مسئلہ سلجھانے پر پر زور دیا مگر ان کو فرصت یا جرأت نہیں تھی یا خواتین کی عزتوں اور شرعی مسائل کی اہمیت نہ تھی۔
امام ابوحنیفہؒ کیخلاف اسماعیل بخاریؒ اور سید عبدالقادر جیلانیؒ نے بڑا سخت لہجہ استعمال کیا تھا۔ مولانا آزادؒ پر مولانایوسف بنوریؒ نے زندیق کا فتویٰ لگادیا۔فتوے سے دونوں قسم کے اکابر ؒ پر فرق نہیں پڑتا۔ اکابرؒ تو اکابرؒ تھے، صحابہ کبارؓ میں شدید علمی وعملی ، سیاسی اور مذہبی اختلافات تھے۔ صحابہؓ سے بڑھ انبیاءؓ تھے۔ موسیٰ ؑ و ہارون ؑ انبیاء سگے بھائی تھے، موسیٰ نے ہارون ؑ کو داڑھی اور سر کے بالوں سے پکڑ ا تو جھگڑا جائیداد کانہیں مذہبی تھا۔ موسیٰؑ نے کہا کہ ان کو شرک کیوں کرنے دیا؟۔ ہارون ؑ نے کہا کہ تیری غیر موجودگی میں تفریق اور پھوٹ سے بچانا تھا، دیوبندی و بریلوی کے اکابر ایک ہیں ۔ مفتی شاہ حسین گردیزی نے لکھا ’’دیوبندی اکابرؒ نے عاشورہ میں شہدائے کربلا کا تذکرہ بدعت قرار دیا اور بریلوی اکابرؒ نے جواز بخشا تھا لیکن نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ بریلوی اکابرؒ زیادہ کامیاب رہے اسلئے کہ پہلے بڑی تعداد میں اہلسنت کے تعزئیے نکلتے تھے اور پھر بعد میں اہلسنت کے تعزئیے بہت کم ہوگئے‘‘۔
بریلوی دیوبندی معرکۃ الآراء مسئلہ نور وبشر کا ہے مگر بریلوی مقبول کتاب ’’ بہار شریعت میں انبیاء کرام ؑ کیلئے بنیادی عقیدہ یہ لکھاہے کہ انبیاء کرامؑ بشر ہوتے ہیں‘‘۔ دیوبندی مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اپنی کتاب ’’نشر طیب فی ذکر حبیبﷺ‘‘ کی پہلی فصل ’’نبی ﷺ کے نور‘‘ پر لکھ دی کہ ’’کائنات میں سب سے پہلے نبیﷺ کا نور پیدا ہوا ‘‘۔ مناظرانہ بحث، ایکدوسرے کیخلاف نفرت کی ضرورت نہیں لیکن کچھ نے منافرتوں سے شہرت کمائی، یہ ذریعہ معاش نہ ہوگا تو سب ٹھیک ہوجائیگا۔
استاذ گرامی جامعہ بنوری ٹاؤن کے پرنسپل ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر مدظلہ العالی کی طرف سے ہماری تحریک کے حوالے سے میری ایک کتاب میں آپ کی تحریرہے جس میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی خواہش والوں کی حضرت امام مالکؒ کے قول سے رہنمائی ہے کہ ’’ اس امت کی اصلاح نہ ہوگی مگر جس چیز (قرآن وسنت) سے اس امت کی پہلے اصلاح ہوئی ہے‘‘۔ جب تک تعلیمی نظام درست نہ ہو تو علماء اور صلحاء سے بھی بات نہیں بنے گی۔ اکابرین ؒ نے علم و تقویٰ میں کمی نہ چھوڑی مگر علم اور تقویٰ جاتا رہاہے ۔ نصاب کی غلطیوں کو درست کیا تو رشدوہدایت کے چراغ روشن ہونگے اور مساجد ومدارس مسلمانوں کیلئے نہیں بلکہ دنیا کیلئے حقیقی اسلامی اور روحانی مراکز ہونگے جنکے منبر ومحراب اوربلندمیناروں سے حقیقی محبت ہوگی اوردل کی عقیدت سے علماء اور صلحاء کو لوگ چومیں گے۔ عقیدت ومحبت کا جذبہ بھی ٹھیک استعمال ہوگا۔
سعودیہ میں مذہب کا کردار نیست و نابود ہوا۔ عوام نے مذہب سے بغاوت کا راستہ اپنایا ہے۔ مذہبی سیاسی جماعتیں دوسری سیاسی جماعتوں کیلئے کٹھ پتلی کا کردار ادا کرکے گزارہ کرتی ہیں لیکن کام علماء ومفتیان کے حیلے تراشنے نے خراب کیا ہے۔ مفتی محمودؒ نے زکوٰۃ کے مسئلے پر حق کی آواز اٹھائی لیکن دارالعلوم کراچی کے مفتیان نے حیلہ تراشا۔ سود ی بینکاری کو اسلامی قرار دیا اور سارے علماء کی مخالفت نے دم توڑ دیا۔ اگر سوداسلامی ہو تو اسلامی نظام کیلئے کوشش نہیں ہر چیز کا نام بدل دیا جائے،اسلام نے اجنبیت کا بڑا سفر طے کیا،سوچنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے۔
قرآن میں جنسی تعلق کے جائزطریقے 1نکاح اور2 معاہدہ ہیں۔ یمین عہد و پیمان کوبھی کہتے ہیں۔ لونڈی سے نکاح اور معاہدہ اور آزاد عورت سے بھی نکاح اور معاہدہ ہوسکتا ہے۔ ملکت ایمانکم کا جملہ قرآن میں مختلف پیرائے میں آیا ہے۔ لونڈی کیلئے اَمۃ اورغلام کیلئے عبد کا لفظ ہے۔ ملکت فعل ایمانکم اسکا فاعل ہے۔ یعنی جنکے مالک تمہارے معاہدے (ایگریمنٹ) بن جائیں۔ اس جملے کی درست وضاحت کیلئے قرآن کی آیات ہیں جن کی نشاندہی کے بعد علماء کرام ، مفتیان عظام اور قارئین پر واضح ہوگا کہ یہ جملہ قرآن میں معاہدہ کیلئے بھی استعمال ہوا ہے۔ کسی عورت کا شوہر گم ہو اور چار سال بعد اس کو عدتِ وفات کے بعد دوسرے شخص سے شادی کی اجازت ملے۔ کچھ عرصہ بعد پہلا شوہر نمودار ہوجائے تو مسئلہ کیا ہوگا؟۔ دوسرے شوہر سے اسکا نکاح نہ ہوگا بلکہ اس کی حیثیت ایک معاہدے کی ہوگی ، اگر عورت اس کو برقرار رکھنا چاہے تو بھی اس کی گنجائش ہوگی اور اگر عورت معاہدے کو ختم کرنا چاہے تو بھی اجازت ہوگی۔ یہ صورت اس وقت بھی پیش ہوگی کہ جب کوئی عورت لونڈی بن جائے یا وہ دارالکفر کو چھوڑ کر مسلمان بن جائے اور پھرکوئی شخص اس سے معاہدہ کرلے ۔ پہلا شوہر اسلام قبول کرلے اور عورت پہلے شوہر سے ہی اپنا نکاح باقی رکھنا چاہے تو دوسرے شوہر سے اسکے تعلق کی حیثیت معاہدے کی ہوگی۔ یہ اسلام کا کمال ہے کہ قرآن نے لونڈی کو بھی نکاح اور ایگریمنٹ کی اجازت دی تھی۔البتہ ایگریمنٹ کے لفظ کو لونڈی کیساتھ خاص کرنے کا کوئی جوا زنہیں تھا۔
امریکہ کی ایرانی نژاد خاتون نے ایک ضخیم کتاب لکھ کر اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں بڑا غلط تأثر پیش کیا۔ نکاح،متعہ اور لونڈی سے جنسی تعلق اور قوانین پیش کرکے اسلام اور اُمۃ کو بدنام کیا۔حالانکہ امریکہ اور مغرب میں نکاح و ایگریمنٹ کے قوانین بالکل غیرفطری ہیں جس سے مغرب بہت معاشرتی مسائل کا شکار ہے۔ اسلام کا درست تصور انقلاب عظیم کا بہت بڑا پیش خیمہ ثابت ہوگا اور اسکا کریڈٹ مدارس کو جائیگا، اسلئے کہ میں اپنے علم کا سرمایہ افتخار اپنے اساتذہ کرام ، حنفی مسلک اور اصولِ فقہ کی تعلیمات کو سمجھ رہا ہوں۔ مدارس نے قرآن وسنت کے علاوہ مسالک کے درمیان تقابلی جائزے کا میدان کھلا نہ رکھا ہوتا تو قرآن وسنت کی درست تعبیر تک دماغ کبھی نہ پہنچتا۔ یہی وجہ ہے کہ علماء ، اسلاف وا خلاف ، اساتذہ کرام کی جو قدر ومنزلت میرے دل میں ہے وہ اپنے والدین اور پیرومرشد کی بھی نہیں۔علماء حق نے رشدوہدایت کا چراغ ہرمشکل دور میں جلائے رکھا۔ ٹمٹماتا ہوا یہ دیاپوری دنیا کو روشن کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے لیکن ہم نے قرآن وسنت کی طرف رجوع نہ کیا تو ذلت ورسوائی مقدرہوگی۔لباس واطوار،طلاق، خلع، نکاح، معاہدہ، پردہ اور دیگر معاملات پر قرآن وسنت سے رہنمائی لینی بہت ہی ضروری ہے ۔ سید عتیق گیلانی

قرآن وسنت کی تعلیم سے دنیا میں انقلابِ عظیم برپا ہوا: اداریہ نوشتہ دیوار کالم 3 صفحہ 2 شمارہ اپریل 2018

halala-ki-lanat-khawateen-ki-behurmati-fatwa-agreement-marriage-tehreef-e-quran-maulana-anwar-shah-kashmiri-

بڑی اہم بات ہے کہ مفسرین نے بڑی بڑی غلطیاں کی ہیں جسے علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے معنوی تحریف کا نام دیا ۔فقہ کی کتابوں میں مکاتبت سے مراد یہ ہے کہ کوئی غلام معاہدہ لکھ کر پیسوں سے خود کو آزاد کردے، مفسرین نے یہی مکاتبت مراد لی ہے، حالانکہ قرآن کی اس آیت میں غلام کو پیسے دینا واضح ہے جو اسی صورت میں ہوسکتاہے کہ کسی خاتون خاص طور سے بیوہ و طلاق شدہ کو آزاد شخص نکاح کیلئے میسر نہ ہو تو غلام کو پیسے دیکر بھی معاہدہ ہوسکتاہے۔ غلام کو آزاد کرنے میں خیر کا تصور لینا کتناغلط ہے۔ کیایہ کہا جاسکتا ہے کہ’’ اگر آزادی میں خیر ہوتو ہی آزادنہ کرو؟‘‘۔
آگے اللہ نے فرمایا:’’ اور ہم نے تمہاری طرف واضح آیات نازل کی ہیں جیسے تم سے پہلے گزرنے والوں کیلئے نازل کی تھیں۔ تقویٰ والوں کیلئے نصیحت ہیں ۔اللہ زمین اور آسمانوں کا نور ہے۔ اسکے نور کی مثال ایسی ہے کہ گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ ہے ۔چراغ ایک قندیل(شیشے) میں ہے،قندیل گویاموتی کی طرح کا ایک چمکتا ہوا تارا ہے۔اس میں مبارک درخت زیتون کا تیل جلایا جاتاہے نہ مشرقی ہے اور نہ مغربی ہے۔ ………….. ‘‘ (سورۂ نور آیت32سے 35)۔ ان آیات کی روشنی انسانی فطرت کو ایسا متأثر کرسکتی ہے جو عظیم انقلاب کا ذریعہ ہے۔ مشرقی و مغربی تہذیب کا قرآنی آیات پر کوئی اثر نہیں پڑسکتا۔اللہ نے واضح کردیا ہے۔
شوہر کی گمشدگی پر 80 اور 4سال کا بڑا تضاد غلط تھا۔ اللہ نے فرمایا: وانزلنا الکتاب تبیانا لکل شئی ’’اور ہم نے کتاب نازل کی ہر چیز کو واضح کرنے کیلئے‘‘ تو کیا اللہ کی کتاب میں شوہر کی گمشدگی جیسے اہم مسئلے کا حل بھی موجودنہ تھا؟۔
عورت گمشدہ شوہر کیلئے خود انتظار کرنا چاہتی ہو تو مسئلہ نہیں۔ قیامت تک نکاح قائم رہتا ہے یوم یفر المرء من اخیہ وامہ وابیہ و صاحبتہ و بنیہ’’ اس دن بھاگے گا انسان اپنے بھائی سے، ماں سے، باپ سے، بیوی سے، بچوں سے‘‘۔ ناراضگی میں انتظار 4ماہ ہے، طلاق میں 3ماہ یا تین مرحلے ( 3طہرو حیض)اور وفات میں 4ماہ 10 دن۔ شوہر کی گمشدگی پر لامحدود یا غیر فطری انتظار نہیں ہوسکتا ۔
اسلام کا بڑا کمال ہے کہ طاقتور سے زیادہ کمزور کیلئے رعایت ہے۔ سورۂ النساء آیت 19میں پہلے عورت کیلئے حق خلع پھر مرد کیلئے آیت20، 21میں خواتین کے حقوق کیساتھ طلاق کی وضاحت کی ۔ حدیث میں غلام کی دو طلاق، لونڈی کی عدت دو حیض اور خلع میں عورت کی عدت ایک حیض ہے۔ جب شوہر کی موجودگی میں خلع کا حق عورت کو ہے تو شوہر کی گمشدگی میں خلع کا حق بدرجہ اولیٰ ہے۔ قرآن وسنت کے باوجود خاتون کو شوہر کی گمشدگی پر بڑے عرصہ تک مجبور کرنا بہت بڑا المیہ ہے۔
خلع و طلاق میں فرق معاملات کا ہے۔ خلع میں عورت کو شوہر کا گھر چھوڑنا ہے اور طلاق میں مرد کو ہر دی ہوئی چیز سے دستبردار ہونا ہے۔ اگر عورت شوہر کی گمشدگی پر خلع لینا نہ چاہتی ہو اور طلاق کی خواہش بھی نہ رکھتی ہو لیکن جنسی تسکین چاہتی ہو توپھر مسئلہ ہوگا مگر یہ مسئلہ بھی محرمات کی فہرست کا آخری جملہ حل کردیتا ہے۔ مملوکہ بننے کے بعد شوہر والی عورت کو جائز قرار دیا گیا ہے،تو اس سے زیادہ شوہر کی گمشدگی پر اس آیت سے عورت کیلئے دوسرا نکاح یا متعہ ومسیار کرنے کی گنجائش نکلتی ہے۔
اصولِ فقہ میں قرآن وسنت پر تفریعات ہیں۔ حقیقت ومجاز میں ’’ نکاح وطی کیلئے ہے عقد کیلئے نہیں ‘‘ کو پڑھا جائے تو دماغ کے شریانیں پھٹ جائیں گی۔ نکاح اور زناعرفِ عام، لغت اور شریعت میں ایکدوسرے کی ضد ہیں جو آدم ؑ و حواء ؑ ، ہابیل وقابیل سے لیکر موجودہ دور کے تمام انسانوں میں رائج ہے۔ لغت کا تصور معاشرے سے الگ نہیں ۔ معاشرے کی بنیادی اکائی میں میاں بیوی کے درمیان نکاح ہے۔حنفی مسلک نے بہت نامعقول انداز میں یہ تصور دیا کہ لغت میں نکاح کا معنیٰ ملاپ ہے ، عورت اور مرد کا یہ ملاپ جائز نکاح سے ہو یا زنا سے دونوں صورت میں نکاح ہے۔ جبکہ امام شافعیؒ شرعی نکاح مراد لیتے ہیں۔ (نورالانوار)حقیقت ومجاز کی یہ وضاحت ہے کہ باپ کیلئے باپ کا لفظ حقیقت اور دادا کیلئے مجاز ہے، باپ کیلئے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ باپ نہیں لیکن دادا کیلئے کہا جاسکتا کہ وہ باپ نہیں۔ شیر جنگل کے جانور کیلئے حقیقت اور بہادر آدمی کیلئے مجاز ہے۔ جب حقیقی معنیٰ مراد لیا جاسکے تو مجازی معنیٰ مراد نہیں ہوسکتا۔ لاتنکحوا مانکح آبائکم من النساء ( نکاح نہ کرو، جن سے تمہارے آباء نے نکاح کیا ہو) میں حقیقی معنیٰ لغت کے اعتبار سے ملاپ کا ہے جس میں نکاح و زنا شامل ہیں ۔سوال ہے کہ آباء سے مراد پھر صرف باپ مراد لیا جائیگامگر دادا نہیں تو جواب یہ ہے کہ دادی سے نکاح کی حرمت کو اجماع سے ہم حنفی ثابت کرتے ہیں ،قرآن سے نہیں۔( قوت الاخیار شرح نورالانوار)
اگر علماء اصولِ فقہ کو سمجھتے تو حلالہ کے نکاح میں حقیقی معنیٰ ملاپ قرار دیتے کہ زنا سے حلالہ ہوجاتاہے جس کیلئے عقدِنکاح اور عدت شرط نہیں ۔بلکہ اس سے بڑھ کر یہ ہوتا کہ حقیقی معنیٰ کے ہوتے ہوئے مجازی معنیٰ مراد ہوہی نہیں سکتا، اور حقیقی معنیٰ ملاپ اور زنا ہے اور مجازی معنیٰ عقدِ نکاح ہے۔تو اصولِ فقہ کے قاعدے کے مطابق حقیقت کے ہوتے ہوئے مجاز مراد نہیں ہوسکتا اسلئے عقدِ نکاح سے عورت حلال نہیں ہوسکتی بلکہ صرف اور صرف زنا سے ہی حلال ہوسکتی ہے۔ ملا جیونؒ کی انتہائی سادگی پر حضرت مولانا قاری مفتاح اللہ صاحب مدظلہ العالی بہت لطیفے سنایا کرتے تھے۔
حلالہ کو نبیﷺ نے لعنت، جمہور فقہاء نے اسے زنا قرار دیا۔ جس سے عورت پہلے شوہر کیلئے حلال نہیں ہوسکتی۔ احناف کی نظر میں حلالہ کا جواز نہ تھا اور نہ حلالہ سے عورت پہلے شوہر کیلئے حلال ہوسکتی تھی۔ بعض احناف نے حیلہ سے جائز کہا مگرانکے پاس کوئی مستند حوالہ نہ تھا ۔قرآن وسنت تو بہت دور کی بات ہے۔ علامہ ابن ھمام اور علامہ بدرالدین عینی نے غیر معروف بعض مشائخ اور لایعنی کتاب کا حوالہ دیا ہے۔ یہ لوگ 900 ہجری میں آئے ہیں اور حنفی مسلک کے اصول وفروع سے کوئی حوالہ نہیں دے سکے ہیں۔انہوں نے حلالہ کو کارِ ثواب کہنے کا کارنامہ بھی انجام دیا ہے۔
مولانا سلیم اللہ خانؒ نے لکھا کہ ’’حلالہ کیلئے جس حدیث میں جماع کا ذکرہے، وہ خبر واحد ہے۔ احناف خبر واحد کی وجہ سے قرآن پر اضافہ نہیں کرتے ،پھرحلالہ کیلئے صرف نکاح کافی ہونا چاہیے تھا ؟ ،جواب یہ ہے کہ حنفی حدیث سے جماع کو ثابت نہیں کرتے بلکہ نکاح کا معنیٰ جماع ہے‘‘۔( کشف الباری فی شرح صحیح بخاری)
سعودیہ نے ابن تیمیہؒ کے تین طلاق سے رجوع کا فتویٰ ختم کیا ۔پھر گھمبیر صورتحال سے مسیار کے نام سے متعہ کی اجازت دی مگر گھمبیر مسائل حل نہ ہوئے۔ محرمات سے تعلقات کا مسئلہ در پیش تھا تو مغرب کی آزادی کیلئے کھلم کھلا اقدامات شروع کردئیے ہیں۔ قرآن وسنت مسائل کا حل ہیں۔ نبی ﷺ نے متعہ کی اجازت اور آیت کا حوالہ دیا: لاتحرموا مااحل اللہ لکم من الطیبات ’’ جو اللہ نے تمہارے لئے حلال کیا، اسے حرام نہ کرو‘‘۔(بخاری) نبیﷺ نے حلت کو اللہ کی طرف منسوب کیا، اللہ نے قرآن میں منع کیا کہ اپنی طرف سے حلال اور حرام کی نسبت اللہ کی طرف نہ کرو۔ خیبر کے موقع پر پالتو گدھے اور متعہ کی حرمت حضرت علیؓ کی طرف غلط منسوب ہے۔ گدھا، گھوڑا اور خچرکوئی نہ کھاتا تھا۔دومرتبہ حرمت کا تصور غلط ہے ۔ حضرت عمرؓ کے ابتدائی دور تک متعہ جاری تھا۔( صحیح مسلم)

اسلام کو اجنبیت سے نکالنے کی ٹھوس راہ اور حنفی مسلک: اداریہ نوشتہ دیوار کالم 2 صفحہ 2 شمارہ اپریل 2018

Larki-ki-shadi-uski-marzi-k-bina-karna-saudi-arabia-londi-nikah-court-marriage-daf-bajana-binori-town-madrassa-fatwa

حنفی اصول ہے کہ پہلے قرآن وسنت میں تطبیق( موافقت پیدا کی جائیگی) اگر تطبیق نہ ہو تو قرآنی آیت پر عمل اور حدیث کو ترک کیا جائیگا۔ اصول الشاشی کا پہلا سبق یہی ہے کہ حدیث اور جمہور کیخلاف عورت کا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر درست ہے۔ کورٹ میرج کیلئے حنفی مسلک بنیاد ہے جو درسِ نظامی کا حصہ ہے۔
نکاح کیلئے حدیث میں دو عادل گواہی کا ذکر ہے اور قرآن میں طلاق کیلئے بھی دو عادل گواہوں کا حکم ہے۔ قرآن کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے طلاق کے گواہ کا خاتمہ کردیا تو معاشرے میں اسکے بھیانک نتائج نکلے۔ بھاگی لڑکی شادی کرلے تو نکاح کیلئے دوعادل گواہ کی شرط تھی اور شریف اس نکاح پر گواہ نہیں بن سکتے۔ اسلئے دوسری حدیث کو بھی فقہ میں روند ڈالا گیا۔ چنانچہ حدیث کے منافی دوفاسق گواہ بھی کافی قرار دئیے گئے مگر حدیث نے غیرفطری راستہ روکنے کیلئے مزید پابندی لگائی ہے کہ دف بجاکر نکاح کا علان کرو تاکہ سب جان لیں کہ نکاح ہوا، کیونکہ نکاح خفیہ یاری نہیں ۔ فقہاء نے اسکا بھی توڑ نکالا اور دوفاسق گواہ کو اعلان قرار دیا ۔ پوری دنیا میں شادی کیلئے بدمزگی کے واقعات کورٹ میرج، مارکٹائی ، قتل وغارت نہیں۔ جسکے مناظر یہاں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ علماء ومفتیان خاص طور پر جامعہ بنوری ٹاؤن والے پاکستان بلکہ دنیا بھر سے بڑے علماء ومفتیان کو دعوت دیں اور یہ مسائل حل کریں۔
حنفی مسلک اور قرآن کے مطابق عدت میں نکاح قائم رہتا ہے۔قرآن نے عدت میں باہمی رضامندی اور عدت کی تکمیل پر بار بار رجوع کی گنجائش دی۔ رجوع نہ کرنے کی صورت پر دوعادل گواہ بھی مقرر کرنے کا حکم دیا جبکہ ایک حدیث نہیں کہ قرآن کے برعکس عورت کو طلاق کے بعدعدت میں حلالہ کا حکم ہو، ایک عورت نے عدت کی تکمیل کے بعد دوسرا نکاح کیا ۔تووہ حدیث قرآنی آیات کے منافی نہیں۔
حضرت مولانا بدیع الزمانؒ نے اصولِ الشاشی کا پہلا سبق پڑھایا تو میں نے یہ سوال کیا کہ ’’قرآن وسنت میں تطبیق ہے، آیت سے طلاق شدہ عورت کو نکاح کی اجازت اور حدیث سے کنواری مراد لی جائے۔ کنواری و طلاق شدہ وبیوہ کے احکام بھی مختلف ہیں؟‘‘۔ استاذ محترم کو میری بات پسند آئی اور ہلکا تبسم کیا اورپھر فرمایا کہ ’’اگلی کتابوں میں جواب ملے گایا خود کسی نتیجہ پر پہنچوگے، یہ ابتدائی کتاب ہے‘‘۔ بیوہ کیلئے واضح ہے کہ لاجناح علیکم ما فعلن فی انفسھن ’’تم پر گناہ نہیں کہ (بیوہ عدت کے بعد) اپنی جانوں کے بارے میں جو فیصلہ کریں‘‘۔ طلاق شدہ وبیوہ قرآن میں آزاد ہوں تو حدیث سے اجازت کا پابند بنانا غلط ہوگا ۔ حدیث کنواری تک محدود ہو جو آیت سے متصادم نہیں تو احناف اور جمہور کو بھی اعتدال پر آنا ہوگا۔
جب بیوہ و طلاق شدہ کو آزاد اور کنواری کو ولی سے اجازت کا پابند بنایا جائے تو مسالک کیساتھ ساتھ اسلامی معاشرے میں بھی اس اعتدال کا چھوٹے سے لیکر بڑی سطح تک خیرمقدم کیا جائیگا۔ خواتین کے حقوق کی حفاظت کا ببانگِ دہل منبر ومحراب سے اعلان کیا جائے تو دنیا بھر کی خواتین ہی نہیں بلکہ مرد حضرات بھی اپنی بہنوں اور بیٹیوں کیلئے شانہ بشانہ کھڑے ہونگے۔ بخاری میں ہے کہ’’ باپ اگر بیٹی کی اجازت کے بغیراسکا نکاح کردے تو یہ نکاح منعقد نہیں ہوتا ہے‘‘۔ کنواری بیٹی اور اسکا باپ پابند ہو تومعاشرے میں اعتدال آئیگا جو پوری انسانی دنیاکیلئے قابلِ رشک ہوگا۔
آیات اور احادیث صحیحہ میں قطعی طور پر تضاد نہیں ۔ قرآنی آیات کو بھی مسالک نے اپنی ناسمجھی سے متضاد بنانے میں اپنا بنیادی کردار ادا کیا ۔ آیات میں طلاق شدہ وبیوہ کیلئے کھل کر خود مختار ہونے کا ذکر ہے، آیت وانکحوالایامیٰ منکم و الصٰلحین من عبادکم وایمائکم (اورنکاح کراؤ طلاق شدہ وبیوہ خواتین کا اور نیک غلاموں و لونڈیوں کا ) میں اللہ نے انکے نکاح کی ترغیب دی۔ الایمکنواری کے مقابلے میں طلاق شدہ وبیوہ کو کہتے ہیں۔ مگر ان کی حیثیت بھیڑ بکریوں کی طرح نہیں کہ انکا اختیار اس آیت سے ختم سمجھا جائے ۔ البتہ عام طور پر معاشرے میں بیوہ وطلاق شدہ خواتین کے نکاح کا احساس نہیں ہوتا ہے اسلئے معاشرے پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ اگر وہ خود شرم و حیاء ، عفت و عصمت اور شوہرو بچوں کا احساس رکھ کرشادی کیلئے اقدام نہ اٹھاسکتی ہوں تو معاشرہ یہ کردار ادا کرے۔
ممکن نہیں کہ قرآن نے بیوہ وطلاق شدہ کو خود مختار اور محتاج بھی قرار دیا ہو۔ اس آیت میں لونڈی و غلام کا بھی ذکر ہے ،قرآن کی دوسری آیت میں واضح ہے کہ فانکحوھن باذن اہلھن ’’ ان سے انکے مالکوں کی اجازت سے نکاح کرو‘‘۔ قرآن میں تضادنہیں بلکہ تمام حدود و قیود کھل کر واضح ہیں۔ ایک آیت سے ثابت کرنا کہ نکاح کرانے کا حکم ہے تو وہ اجازت کی پابند ہیں اور دوسری آیت سے ان کی آزادی ثابت کرنامسلکی تضادات اور افراط وتفریط ہے اعتدال کی راہ سے امت ہٹ گئی ۔ قرآن امت وسط کو افراط تفریط نہیں اعتدال و صراط مستقیم کی راہ بتاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’ وانکحوالایا میٰ منکم والصٰلحین من عبادتکم وامائکم ان یکونوا فقراء یغنیھم اللہ من فضلہ واللہ واسع العلیمOولیستعفف الذین لایجدون نکاحًاحتی یغنیھم اللہ من فضلہ والذین یبتغون الکتٰب مماملکت ایمانکم فکاتبوھم ان علمتم فیھم خیرًا واٰتوھم من مال اللہ الذی اتٰکم ولاتکرھوافتےٰتکم علی الابغاء ان اردن تحصنًا لتبتغواعرض الحیاۃ الدنیا ومن یکرھن فان اللہ من بعد اکراھن غفور رحیمO ان آیات میں بیوہ وطلاق شدہ خواتین اور نیک غلاموں اور لونڈیوں کے نکاح کرنے کا حکم ہے اور اللہ نے فرمایا ہے کہ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ ان کو مالدار بنادے گا۔ پھرفرمایا کہ جولوگ نکاح تک پہنچ نہیں رکھتے ، ان کو پاکدامنی کی زندگی گزارنی چاہیے یہانتک کہ اللہ ان کو مستغنی کردے۔ بیوہ وطلاق شدہ سے نکاح کیلئے کوئی آزاد تیار نہ ہو تو اللہ نے کہا کہ’’ مشرک سے غلام بھی بہتر ہے‘‘۔ اگر کوئی غلام کسی آزاد عورت سے معاہدے کے مطالبہ پر راضی ہو تو اللہ نے فرمایا ہے کہ اگر اس میں خیر نظر آئے تو یہ معاہدہ بھی کرلینا چاہیے اور جو اللہ کی طرف سے عطاء کردہ مال میں سے اس کودیدو۔ بیوہ وطلاق شدہ اور غلام ولونڈی کی بات کے بعد اللہ نے کنواریوں کا مسئلہ بھی حل کیا۔ فتیات سے مرادلڑکیاں ہیں جن کو مرضی سے شادی نہ کرنے دیجائے یا زبردستی سے جہاں چاہت نہ ہو وہاں شادی پر مجبور کردیا جائے۔ سعودی عرب جیسے ملک میں بھی بیٹی کی قیمت وصول کرکے اسکی مرضی کے بغیر شادی کی جاتی ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ ’’لڑکیوں کو بغاء(زنا یا بغاوت) پر مجبور نہ کرو، اگر وہ شادی کرنا چاہتی ہوں تاکہ تم اپنا دنیاوی مفاد اس میں تلاش کرو، اور جس نے ان کو زبردستی سے مجبور کیا توان کی مجبوری کے بعد اللہ غفور رحیم ہے‘‘۔
لڑکی بغاوت کرے یا چھپ کر تعلق رکھے تو سرپرست بھی ذمہ دار ہوگا اگر لڑکی کی اسکی چاہت کے بغیر زبردستی سے شادی کردی تو اس ناجائز پر اللہ معاف کریگا۔ احادیث کو قرآن کی تفسیر میں لکھاجاتا تو معاشرے پر اچھے نتائج مرتب ہوتے۔یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ قرآنی آیات کی بھی غلط تشریح کی گئی ۔عرب آج بھی اپنی بیٹیوں کو بیچتے ہیں۔ قرآن کی یہ تعلیم نہیں کہ’’ لونڈی پاکدامن رہنا چاہے تو ان کو بدکاری پر مجبور نہ کرو، اگر مجبور کیا تو اللہ غفور رحیم ہے‘‘ پھر عذاب الیم شدید العقاب کالفظ ہوتا۔

تین طلاق سے رجوع کی درست تعبیرعلم کی روشنی میں: اداریہ نوشتہ دیوار کالم 1 صفحہ 2 شمارہ اپریل 2018

hazrat-umer-hazrat-ali-imam-abu-hanifa-imam-malik-imam-shafai-imam-hanbal-halalah-teen-talaq-triple-talaq-quran-syed-atiq-ur-rehman-gailani-ibn-e-majah-haiz-allama-ibn-e-qayyim-bakri-doodh

قرآن وسنت میں طلاق و عدت 3 طہرو حیض ہے۔تین دن کے تین روزے کی طرح طلاق 3طہراور عدت 3حیض ہے۔ حیض نہ آتا ہو تو طلاق وعدت 3 ماہ ہے۔ یہ قرآن و احادیث میں روزِ روشن کی طرح واضح ہے۔ سورہ بقرہ آیت 228، 229 اور سورۂ طلاق آیت1اور2میں کے علاوہ بخاری کتاب التفسیر سورۂ طلاق، کتاب الاحکام ، کتاب الطلاق اور کتاب العدت میں نبیﷺ نے یہ وضاحت فرمائی تھی۔
اُمت نے بدقسمتی سے قرآن وسنت کی طرف رجوع نہ کیا۔ مسالک کی وکالت اور تقلیدجاری رکھی ۔ شاہ ولی اللہؒ نے قرآن و سنت کی ترغیب دی۔ شاہ ولی اللہؒ کے پوتے شاہ اسماعیل شہیدؒ نے تقلید کو بدعت قرار دیا۔ اکابرِ دیوبند ؒ نے تائید کی اور اعلیٰ حضرت بریلویؒ کی طرف سے ’’حسام الحرمین‘‘ کے فتوے سے مقلد اور حنفی ہونے کی وضاحت کردی۔ نواب صدیق حسن خانؒ نے پھر اہلحدیث مسلک کی بنیاد رکھ دی۔
حنفی مسلک میں تقلید نہیں اس اجتہاد کی تعلیم ہے کہ امام و دیگر شخصیات تو دور کی بات ہے قرآن سے متضاد احادیث کو بھی رد کیا گیا۔ اہل حق کایہ سلسلہ قیامت تک باقی رہیگا۔ حدیث میں رضاعتِ کبیر کی آیات اور انکا نبیﷺ کے وصال پر بکری کے کھا جانے سے ضائع ہونے تک کی باتیں صحاح ستہ کی کتاب ابن ماجہ میں موجود ہیں۔ حنفی مسلک کی تعلیم نے اُمت مسلمہ کو اس حد تک گمراہی میں نہ جانے دیاتھا۔
تین طلاق پر قرآن وسنت میں کوئی ابہام نہیں۔ تین طلاق سے صرف اور صرف تین حیض کی صورت میں تین روزے کی طرح3 طہر مراد ہیں۔حمل کی صورت میں عدت کے تین مراحل ہیں اور نہ تین مرتبہ طلاق کا کوئی تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بار بار واضح فرمایا کہ ’’ طلاق سے رجوع کا تعلق عدت سے ہے‘‘ اور یہ کہ ’’ عدت کے اندر بھی باہمی صلح واصلاح کی شرط پر رجوع ہوسکتا ہے‘‘۔ اور یہ کہ ’’ عدت کی تکمیل پر رجوع ہوسکتا ہے‘‘ اور یہ کہ ’’ عدت کی تکمیل کے بعدرجوع اور نکاح ہوسکتا ہے‘‘۔ سورۂ بقرہ کی آیت224سے232تک اور سورۂ طلاق کی پہلی 2 آیات میں جو طلاق سے رجوع کا نقشہ ہے ،اسکے بعد یہ بات تو سمجھ میںآتی ہے کہ حلالہ کا مروجہ مسئلہ قرآن وسنت اور حنفی مسلک کے ہوتے ہوئے نہیں پروان چڑھنا چاہیے تھا مگر یہ سمجھنا ہوگا کہ مغالطہ کیسے پیدا ہوگیا؟۔ جامعہ بنوری ٹاؤن اور دارالعلوم امجدیہ کراچی کے رئیس دارالافتاء اپنی اپنی ٹیموں کیساتھ اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی و مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن اپنے نامزد کردہ افراد کو تشکیل دیں۔ انشاء اللہ ان کی تسلی بھی ہوجائے گی اور اگر نہ مطمئن نہیں کرسکا تو ان کا جوتااور میرا سر۔
احادیث صحیحہ میں ایک ایسی حدیت نہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ہو کہ ’’ عدت میں بھی رجوع نہیں ہوسکتا ، حلالہ کروانے کا حکم تو بہت دور کی بات ہے‘‘ اگر بالفرض کوئی روایت ہوتی توبھی حنفی مسلک نے اپنی اصولِ فقہ کے تحت اس حدیث صحیحہ کو رد کرنا تھا اسلئے قرآن کی وضاحت کے بعد حنفی مسلک کا یہی تقاضہ ہے۔ جہاں تک ان احادیث کا تعلق ہے جن میں اکٹھی تین طلاق پر نبیﷺ غضبناک ہوئے تو غضبناک ہونے کی وجہ یہ نہ تھی کہ رجوع نہیں ہوسکتا تھا، اسلئے کہ حضرت ابن عمرؓ کی طرف سے حیض کی حالت میں طلاق دینے پر بھی غضبناک ہوئے اور پھر رجوع کا حکم بھی دیا۔( بخاری)۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ ابن عمرؓ نے تین طلاق دئیے تھے، جس سے نبیﷺ نے رجوع کا حکم دیاتھا‘‘۔بہر حال یہ بات تو قطعی طور پر ثابت ہے کہ نبیﷺ قرآن پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے غضبناک ہوئے تھے لیکن یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ ’’ اگر کوئی قرآن کیخلاف ایک ساتھ تین طلاق دیگا تو اس کی طلاق واقع ہوگی اور عدت کے بعد عورت کو دوسری جگہ شادی کی اجازت ہوگی‘‘۔ البتہ اس پر غور کرنے کی ضرورت تھی کہ اگر ایک ساتھ تین طلاق کے بعد میاں بیوی باہمی رضامندی سے رجوع پر راضی ہوں تو قرآن نے رجوع کا تعلق میاں بیوی کی رضامندی اور عدت سے جوڑ دیا ہے۔ اس روایت کی کوئی غلط تشریح کی ضرورت نہ تھی کہ نبیﷺ، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے ابتدائی تین سال تک ایک ساتھ تین طلاق بھی ایک شمار ہوتی تھی۔ ( صحیح مسلم)۔ جب رجوع کا تعلق باہمی رضامندی سے اصلاح کیساتھ ہو تو یہ گھر کا معاملہ تھا جس کو گھر میں حل کیا جاتا۔ میاں بیوی کے درمیان تفریق کے خطرہ پر دونوں جانب سے ایک ایک رشتہ دار تشکیل دیا جاتا تھا ۔ جب معاملہ میاں بیوی اور ایک ایک رشتہ دار کے ہاتھوں سے نکل گیا اور صورت اکٹھی 3 طلاق کی تھی۔ ایک طرف لوگوں کے ذہن میں یہ بات تھی کہ دو مرتبہ طلاق کے بعد شوہر کو رجوع کا حق حاصل ہے اور دوسری طرف میاں بیوی کے درمیان اکٹھی 3 پر شوہر کو رجوع کا حق حاصل ہونے یا نہ ہونے کا معاملہ آیا تو حضرت عمرؓ نے قرآن کے مطابق ٹھیک فیصلہ دیا کہ ’’ تنازع میں ایک ساتھ تین طلاق پر رجوع نہیں ہوسکتا ‘‘۔ قرآن میں عدت میں باہمی صلح واصلاح کی شرط پر رجوع کا حق تھا۔ جب تنازعہ ہوا تو حضرت فاروق اعظمؓ نے قرآن کے عین مطابق بالکل ٹھیک فیصلہ دیدیا۔ باب العلم حضرت علی المرتضیٰؓ نے حضرت عمرؓ کا فیصلہ درست قرار دیتے ہوئے یہ واضح کردیا کہ ’’ ایک ساتھ تین طلاق پر بھی باہمی صلح سے رجوع ہوسکتا ہے لیکن تنازعہ کی صورت میں یہی فتویٰ دیتے تھے کہ شوہر رجوع نہیں کرسکتا ہے‘‘۔ خلفاء راشدینؓ نے قرآن کی روح کے بالکل عین مطابق عمل کیا تھا۔
چاروں امام ؒ نے بھی بالکل 100 فیصد درست فتویٰ دیا کہ ایک ساتھ تین طلاق نہ صرف واقع ہوتی ہیں بلکہ شوہر کیلئے رجوع کی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔ اگریہ فتویٰ نہ دیتے تو عورت طلاق کے بعد رجوع سے نکاح میں آتی اور زندگی بھر کسی اور سے نکاح نہ کرسکتی۔ حضرت عمرؓ ،حضرت علیؓ اور ائمہ ؒ نے قرآن وسنت کی مکمل پاسداری سے خواتین کے حقوق کی زبردست حفاظت کی ۔ کیونکہ بالا دست مردوں سے رجوع کا حق چھین لیا۔ مرد باہمی سوچ ،سمجھ ، باہوش وحواس تمام مراحل طے کرکے ایسی صورت میں بھی طلاق وعدت کے بعد دوسری جگہ شادی نہ کرنے دیتے تھے جب وہ خود رجوع بھی نہ کرنا چاہتے ہوں اور کوئی رابطہ بھی نہ رکھنا چاہتے ہوں۔ اس خاص صورتحال کی اللہ تعالیٰ نے بھرپور وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’اگر اس صورت میں طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ دوسرے شوہر سے نکاح کرلے‘‘۔ مردوں کے پاس اتنی طاقت آج بھی ہے کہ اگر وہ دوسری جگہ بسانے سے روکنا چاہتے ہوں تو عورت کو تین طلاق دینے کے بعد بھی اسکا نکاح کسی سے کروادینگے اور پھر اس کو بٹھادینگے۔ اسلئے نبیﷺ نے بہترین رہنمائی فرمائی کہ نکاح کافی نہیں بلکہ ایکدوسرے کا ذائقہ چکھ لینا بھی ضروری ہے۔حلالہ کے فتوے خواتین کی عزتیں لٹوانے کیلئے نہیں بلکہ مردوں کی بالادستی سے جان چھڑانے کیلئے تھے لیکن قرآن کی طرف رجوع ہوتا تو مروجہ حلالے کا تصور بھی ختم ہوتا۔ نورالانوار میں حنفی مسلک یہی ہے کہ ’’ اس طلاق کا تعلق متصل فدیہ کی صورت ہی کیساتھ ہے‘‘۔ علامہ ابن قیمؒ نے ابن عباسؓ کی یہی تفسیر زادالمعاد میں نقل کی ہے۔ بخاری کی حدیث میں عدت ونکاح کے بعد ذائقہ چکھ لینے کی بات ہے جس کا سورۂ بقرہ کی آیات سے کوئی ٹکراؤ نہیں اور ابوداؤد کی روایت میں تین طلاق اور عدت کے بعد حلالہ کے بغیر نکاح واضح ہے۔ قرآن واحادیث اور اصولِ فقہ کے بنیادی قواعد سے تمام مسائل کا حل نکل سکے گا۔