ان کیلئے حلال نہیں کہ چھپائیں جواللہ نے انکے رحموں میں پیدا کیا آیت228البقرہ ’’ تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو تم نے انکو دیا، اس میں کچھ لے لو‘‘۔ آیت229البقرہ اللہ نے اسی تسلسل سے فرمایاکہ باہوش وحواس فیصلہ کے بعد’’ پھرطلاق کے بعد اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور سے نکاح کرلے‘‘۔ یعنی شوہر دوسری جگہ نکاح میں رکاوٹ کا حق نہیں رکھتا۔ جو معاشرے میں آج بھی رائج ہے۔ مغربی تہذیب وتمدن کے پروردہ عمران خان و ریحام خان بھی اس کی ایک مثال ہیں۔ ریحام خان کا طلاق کے بعد لندن سے جان پرکھیل کر آنابڑی بات تھی۔ ریحام خان پہلے سے طلاق یافتہ بھی تھی۔ تہذیب وتمدن میں جب رسم وروایت ٹھوس قدروں کی حیثیت اختیار کرلیتی ہے تو اس کو توڑنے کیلئے شدت کے الفاظ کا استعمال ناگزیر ہوتاہے۔بنیادی بات یہ ہے کہ علیحدگی کا فیصلہ اکثر وبیشترشوہر کی طرف سے ہوتاہے جس کو عربی میں طلاق کہتے ہیں۔ کبھی بیوی کی طرف سے ہوتا ہے جس کو خلع کہتے ہیں۔ سورۂ النساء آیت :19میں خلع کی صورت اور آیت :20 اور21میں طلاق کی صریح وضاحت کا ذکر ہے اور اس میں مختصر الفاظ میں پورا معمہ حل کردیا گیاہے۔ سورۂ البقرہ میں 228اور229میں طلاق اور اسکے تین مراحل کی تفصیل واضح ہے اور ساتھ ہی 229آیت کے آخری حصے میں بہت وضاحت کیساتھ بتایا گیاہے کہ میاں بیوی کی باہوش وحواس علیحدگی اور معاشرے کی طرف سے فیصلہ کن کردار بھی ادا کیا گیا ہو۔ یہ تو بہت ہی بیوقوفی اور کم عقلی کی بات ہے کہ دو مرتبہ طلاق کے بعد کسی خلع کو تیسری طلاق کیلئے بیچ میں لایا جائے، البتہ قرآن میں جو صورت فدیہ دینے کی بیان ہوئی ہے اس پر فقہ حنفی اور علامہ ابن قیم کی طرف سے حضرت ابن عباسؓ کے درمیان بالکل اتفاق ہے کہ قرآن کی اس طلاق آیت:230کا تعلق اسی صورت سے ہے جس میں اللہ کا حکم ہے کہ اللہ کی حدود سے تجاوز مت کرو۔ چونکہ شوہر رکاوٹ بنتاتھا اور بنتاہے اسلئے بیوی کو اس طلاق کے بعد مرضی سے دوسری جگہ شادی کرنے کی اجازت دی گئی ہے ، اگر ولی کی طرف سے رکاوٹ کو جائز قرار دیا گیاہے تو بھی حنفی اس رکاوٹ کو نہیں مانتے۔ جب اسکے بعد پھر آیت231 اور232میں عدت کی تکمیل کے بعد معروف طریقے سے رجوع کیلئے اجازت دیدی تو پھر حلالہ کی لعنت کا کیا جواز بنتاہے؟۔ رسولﷺکی شکایت کا کیا جواب ہوگا؟۔ وقال الرسول رب ان قومی اتخذوا ہٰذا القرآن مھجوراالقرآن)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ طلاق والی خواتین عدت کے تین مراحل تک اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں، اور ان کیلئے حلال نہیں کہ جو اللہ نے انکے رحموں میں پیدا کیا ہے کہ اس کو چھپائیں۔اور انکے شوہر اس مدت میں اصلاح کی شرط پر لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں‘‘۔(سورۂ بقرہ آیت: 228)۔ ایک بہت بڑا مغالطہ یہ ہے کہ شوہر کو آیت میں غیرمشروط رجوع کا حق دیا گیاہے ، حالانکہ ایسا نہیں ۔ شوہر کیلئے طلاق کا حق اور شوہر کیلئے رجوع کی گنجائش میں بہت نمایاں فرق ہے۔ عورت کا حق سلب کرنا بہت بڑی زیادتی ہے۔اگر شوہر کو رجوع کی گنجائش دینے کے بجائے غیرمشروط رجوع کا حق دیا جائے تو یہ عورتوں کا حق سلب کرناہے۔ میاں بیوی دونوں طلاق کے بعد آپس میں صلح و اصلاح پر رضامند ہوں تو یہ رجوع کی گنجائش ہے ، یکطرفہ ہو تو پھر شوہر کاحق ہے۔ وان خفتم شقاق بیھما فابعثوا حکمامن اہلہ وحکما من اہلہاوان یریدا اصلاحا یوفق اللہ بیھما ’’ اگر تمہیں انکے درمیاں جدائی کا خوف ہو تو ایک حکم شوہر کے خاندان سے اورایک حکم بیوی کے خاندان سے تشکیل دو، اگر وہ دونوں صلح چاہتے ہوں تو اللہ دونوں میں موافقت پیدا کردیگا‘‘۔ دونوں کی چاہت نہ ہو توساتھ رہنے پر دنیا کی کوئی طاقت مجبور نہیں کرسکتی اور دونوں کی چاہت ہو تو انکے درمیان میں کوئی طاقت رکاوٹ نہیں بن سکتی ہے۔ یہ معاشرتی مسئلہ ہے اور قرآن نے اس کو معاشرتی بنیادوں پر حل کرنے کا پورا نصاب بتایاہے اور احادیث صحیحہ مزید وضاحتوں سے بھرپور ہیں۔ سورہ بقرۂ آیت: 224 سے 232تک اور سورۂ طلاق کی پہلی دوآیات میں مسئلہ طلاق کے تمام معاشرتی پہلوؤں کی بھر پور نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ بہت بڑی بد قسمتی ہے کہ فقہاء نے اپنی منطقوں میں الجھ کر ہزاروں مسائل اور اختلافات گھڑنے کی عجیب وغریب صورتیں ایجاد کرلی ہیں۔ ہم نے بہت ہلکے پھلکے انداز میں ان حضرات کومسائل کے دلدل سے نکالنے کی کوشش کی ہے اور جب تک حلالہ کی لعنت کے نام اپنی مذموم حرکتوں سے یہ باز نہیں آئیں گے اور ہم زندہ رہیں تو سخت لہجے میں بھی حقائق کھول کر ضربِ حق لگانے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ انشاء اللہ العزیز الرحمن الرحیم المٰلک القدوس السلام الجبارالمتکبر الخاق الوہاب الرزاق الفتاح الودود رجعت بالفعل کی جو صورتیں لکھ دی ہیں اگر ہم بتاتے تو شکایت ہوتی اسلئے کتاب سے ’’ فوٹو اسٹیٹ ‘‘ کرکے علماء ومفتیان اور عوام کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔جن خواتین کی عزتیں حلالہ کے نام پر برباد کردی جاتی ہیں ، ان لوگوں کا دکھ، درد ، تکلیف اور بے عزتی کے احساس نے ہمیں مجبور کردیاہے کہ کھل کر اور بہت ہی کھول کرمعاشرے سے اس برائی کو ختم کرنے میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔
اگر کسی مفتی کی صاحبزادی اور داماد کو ڈرامہ میں پیش کرکے رجعت بالفعل کی صورتیں ٹی وی پر سمجھانا شروع کی جائیں تو مفتی صاحبان مجبور ہوکر عوام کی جان حلالہ سے چھڑانے پر راضی ہونگے۔ شہوت کی شرط پر مباشرت،دخول بالدبر، فرج کو اندر سے شہوت کیساتھ دیکھ لینا جب وہ تکیہ لگاکر بیٹھی ہو۔اور نیند میں بھی رجوع معتبر ہے۔ عورت بھی شہوت سے ہاتھ لگاکر رجوع کا حربہ استعمال کرسکتی ہے مگر اس کیلئے شرط یہ ہے کہ مرد یہ اقرار کرے کہ عورت میں شہوت تھی۔ عجب حماقت ہے کہ عورت کی شہوت ہوتو اسکا اقرار مرد کرے۔ جب ڈرامہ میں رجعت بالفعل کے انواع واقسام کی صورتیں سامنے آئیں گی تو علماء خود چیخ اٹھیں گے کہ ’’ قرآن کا معروف رجوع ٹھیک ہے۔ یہ بکواس کوئی دین و فقہ نہیں ہے، ہم کبھی حلالہ کی لعنت کا فتویٰ نہیں دینگے مگر ہمیں شرمندہ کرکے ہماری پولیں نہ کھولیں! ‘‘۔
ماہنامہ نوشتۂ دیوار کے ایڈیٹر اجمل ملک نے کہا کہ ثانیہ خاصخیلی شہید نے عزت کیلئے جو عظیم الشان قربانی دی ، اسکاخاندان دربدر ہے ۔ اور المیہ ہے کہ دخترسندھ، بنت اسلام، شہزادئ پاکستان اور صاحبزادئ انسانیت نے اتنی بڑی قربانی دی لیکن ہمارے معاشرے کی سیاست، ہمارے مذہبی لوگ، ہماری حکومت اور ہماری تہذیب وتمدن کا خمیر اسقدربے حس ہوچکے ہیں کہ غریب خاندان کی تعزیت کیلئے بھی علاقے لوگ جانے سے ڈرتے تھے۔
ریاست و حکومت کچھ معاشرتی اور مذہبی برائیوں سے نہیں نمٹ سکتی ہے۔ ایک مفتی کی طرف سے جب ناجائز حلالہ کا فتویٰ دیا جاتا ہے تو خاتون ، اسکے شوہر اور دونوں خاندان کی عزتیں ملیامیٹ ہوجاتی ہیں۔ زمین بھی لرزتی ہے اور آسمان بھی عرش تک لرز جاتا ہے۔ دنیا دیکھتی ہے کہ مسلمان بے غیرتی کے اس فعل کو اپنی مرضی سے قرآن و سنت کی تعلیمات سمجھ کر عمل کررہے ہیں تو لوگ اسلام کی طرف نہیں آتے۔ دوسری طرف لڑکی پسند ہو اور وہ شادی نہ کرنا چاہے ، یا منگیتر مکر جائے تو اس پر تیزاب پھینکنے اور قتل کرنے کی حد تک گزر جاتے ہیں، اللہ نے طلاق کا مسئلہ بیان کرنے سے پہلے یہ وضاحت کی کہ اللہ کو مصالحت نہ کرنے کیلئے تم ڈھال کے طور پر استعمال مت کرو۔ پھر عدت میں رجوع اور عدت کی تکمیل پر معروف رجوع کی اجازت بھی واضح کردی۔ اور ساتھ میں یہ بھی واضح کردیا کہ اگر عدت میں تیسری مرتبہ بھی علیحدگی کا فیصلہ برقرار رہا تو بیوی سے کوئی چیز واپس لینا جائز نہیں مگر یہ کہ دونوں کو خوف ہو اور فیصلہ کرنیوالے بھی یہی سمجھیں تو پھر کوئی حرج نہیں اور اس صورت کے بعد طلاق دی تو شوہر کیلئے حلال نہیں یہانتک کہ وہ کسی اور سے نکاح کرلے۔ قرآن نے جس معاشرتی برائی کو ختم کرنے کا قدم اٹھایا تھا وہ تو ہم سے نہیں ہوسکا الٹا یہ بھی ہورہا ہے کہ جبری زیادتیاں اور جبری شادیاں ماحول کا حصہ ہیں اور مزاحمت کرنیوالی کا یہ حشر ہوتا ہے جو ثانیہ شہید کا ہوا اور بینش شریف پر جو تیزاب پھینکا گیا۔ علماء کو کردار ادا کرنا ہوگا ورنہ بڑا عذاب آسکتا ہے۔
دارالعلوم کراچی کا نام دارالعلوم دیوبند کی طرح رکھا گیا۔ جامعہ اور دارالعلوم ایک چیزجیسے مسجد اورمسیت، البتہ دارلعلوم مذکر اور جامعہ مؤنث ہے۔ یہ بڑی جہالت ہے کہ ایک ہی مدرسہ کو دارلعلوم اور جامعہ دونوں کہا جائے ۔ یہ مشکل خنثیٰ یعنی کھدڑے کا تصور ہے۔ جیسے کسی فرد کو صاحب صاحبہ لکھ دیا جائے۔ اردو، عربی دونوں لغات جاننے والوں کیلئے یہ جہالت اور کم عقلی عبرتناک ہے۔ اردو میں مسجد مؤنث اور عربی میں مذکر ہے۔ اللہ والی مسجد،مسجد عثمانیہ وغیرہ اردو کے اعتبار سے درست ہیں مگرعربی میں مسجد مذکر ہے۔ ہمارے مرشد حاجی عثمانؒ کوئی عالم نہ تھے۔ اردو کے روایتی معاملے کو لیکر مسجد الٰہیہ نام رکھ دیا۔ مفتی تقی عثمانی و مفتی رفیع عثمانی کے استاذ اور عربی کے ماہر دارالعلوم دیوبند کے فاضل مولانا عبدالحق استاذ دارالعلوم کراچی سمیت بڑے مدارس کے بڑے علماء ومفتیان بیعت بھی تھے اور آتے جاتے بھی رہے ،کبھی کسی نے مسجد کے نام پر اعتراض نہ کیا لیکن جب الائنس موٹرز کے ایجنٹوں نے فتویٰ لگایا تو مسجد کے نام میں جہالت دکھائی دینی لگی۔ میں نے اسی وقت بتادیا کہ اردو کے لحاظ سے یہ نام روایتی معاملے کے مطابق ہے اور اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ اصول فقہ کی کتاب ’’نوالانوار‘‘ میں ہے کہ’’ ثلاثۃ قروء کا لفظ 3عدد کیلئے خاص ہے جو کم اور زیادہ نہیں ہوسکتاہے۔ اورشرع میں طلاق کا حکم عورت کو پاکی کی حالت میں طلاق دینے کا ہے۔ پاکی کے دنوں میں طلاق دی جائے تو عدت کی مدت میں اس وقت کمی واقع ہوگی کہ اگر 3عدتوں میں اس طہر کو بھی شمار کیا جائے جس میں طلاق دی جائے۔ لہٰذا لازم ہوا کہ عدت سے مراد 3حیض لئے جائیں ۔ اگر وہ طہر مراد لیا جائے تو عدت کی مدتیں 3نہیں ڈھائی بن جائیں گی‘‘۔ حالانکہ یہ ریاضی کا مسئلہ ہے اور مولوی سے ایک ریاضی دان اس حساب کو بہتر سمجھتا ہے۔ جس طہر میں طلاق دی جاتی ہے اگر اس کے علاوہ کئی دنوں بعد 3حیض کو شمار کیا جائے تو قیاسی نہیں بلکہ عملی طور سے 3کے عدد پراچھا خاصہ اضافہ ہوگا۔ یہ بہت بڑی بیوقوفی ہوگی کہ عورت کو عملی طور سے عدت پر مجبور کیا جائے مگر کہا جائے کہ یہ مدت شمار نہ ہوگی۔ جیسے کسی کو تھپڑ مارا جائے اور پھر کہا جائے کہ اس کو شمار نہ کرو۔ علماء و مفسرین اور فقہاء ومحدثین نے اس مخمصہ سے نکلنے کیلئے بہت ہاتھ پیر مارے ہیں لیکن ناکام رہے ہیں۔ چنانچہ لکھ دیا گیا ہے کہ ’’ ایک عدت رجال ہے، جو عورت کی پاکی کے دن ہیں جس میں شوہر کو طلاق دینے کا حکم ہے اور دوسری عدت النساء ہے، جو حیض ہے، جس میں عورت کو انتظار کا حکم دیا گیاہے ‘‘۔ حالانکہ قرآن میں فطلقوھن لعدتھن ’’ عورتوں کی عدت میں طلاق کا حکم ہے‘‘۔ پھر تویہ ہونا چاہیے کہ تم اپنی عدت میں طلاق دو مگرعلماء سے سورۂ طلاق کا درست ترجمہ اور تفسیر بھی نہیں کرسکتے۔ لوگ نبیﷺ کے نواسہ شہید کربلا کا رونا روتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ مفتی محمد شفیع ؒ کا نالائق نواسہ حسان سکھروی قرآن وسنت اور خواتین کی عزت کا ستیاناس کررہاہے اور پھر یہ کربلا والا حق کی آواز اپنی ذات نہیں حق کیلئے بلند کررہاہے۔ اللہ نے فرمایا : انہم یکیدون کیدا واکید کیدا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’ طلاق شدہ خواتین انتظار کریں 3مراحل تک‘‘۔ طہرو حیض ایک مرحلہ ہے۔ حیض میں قربت سے روک دیا گیا ہے تو مباشرت کا دور پاکی کا مرحلہ ہے۔ جب عورت کو حیض نہ آتا ہو یا اس میں بیماری کی وجہ سے کمی بیشی ہو تو 3مراحل کی جگہ 3ماہ کی وضاحت ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ قروء سے تین طہر مراد ہیں یا تین حیض؟ کیونکہ اسکی حقیقت قرآن میں بھی واضح اور عقل وفطرت میں بھی کہ مہینہ طہرو حیض دونوں کا قائم مقام ہوتاہے۔ جب حضرت ابن عمرؓ نے حیض کی حالت میں طلاق دی تو نبیﷺ غضبناک ہوئے اور پھر سمجھایا کہ پاکی کے دنوں میں رکھ لو یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر پاکی کے دنوں میں رکھ لو یہاں تک کہ حیض آجائے اور پھر پاکی کے دنوں میں چاہو تو معروف طریقے سے رجوع کرلو اور چاہو تو ہاتھ لگائے بغیر چھوڑ دو، یہ وہ عدت وطلاق ہے جس کا اس طرح اللہ نے حکم دیا ہے‘‘۔ بخاری کتاب التتفسیر، سورۂ طلاق، کتاب الاحکام، کتاب الطلاق، کتاب العدت۔ متواتر حدیث کو چھوڑ کر غلط قیاس کا سہارا لیا گیا اور نام اسے قرآن کے خاص کادیا۔جامعہ بنوری والے گھبرائے اور دارالعلوم کراچی والے شرمائے نہیں۔ اللہ نے بار بار عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل پر باہمی صلح سے رجوع کی اجازت دی ۔ تین مرتبہ طلاق کا تعلق حیض سے ہی خاص ہے، حمل میں عدت بچے کی پیدائش ہے۔ معروف رجوع باہمی صلح ہے۔ اگر عورت طلاق کے بعد صلح پر آمادہ نہ ہو تو ایک ساتھ تین طلاق واقع ہونے کا مطلب شوہر کیلئے رجوع کی اجازت نہیں تاکہ عدت کے بعد دوسری جگہ شادی کرسکے اور صلح پر آمادہ ہوتو متعددقرآنی آیات سے رجوع کی اجازت ہے۔ حاملہ کو حلالہ کا فتویٰ اللہ کی حدودسے تجاوز اور بڑا ظلم ہے۔ سُود کو جواز فراہم کرنیوالے دنیا میں مخبوط الحواس نہ ہوگئے ہوں تو اپنے فتوؤں کو قرآن و سنت کے ترازو میں تولیں۔
دار العلوم کراچی کورنگی کا جہالت پر مبنی فتوے کا عکس
جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کا نام مدرسہ عربیہ اسلامیہ تھا۔ دنیا کی مقبول ترین جامعہ کا حق تھا کہ اسکا نام بدل دیا جائے۔ مدرسہ عربیہ کی حیثیت پرائمری سکول کی ہوتی ہے۔ پہلے ابتدائی اعدایہ کے بعددو سرا درجہ مساوی میڑک ہے۔ جہاں کم از کم مشکل سے میٹرک کو داخلہ ملتاہے،FA،BA اورMAبھی ہوتے ہیں۔ 8سال میںMA پھر قرآن، حدیث، فقہ، اصول فقہ اور تفسیر ودیگر علوم میں تخصص( اسپیشل آئیز یشن) کی تعلیم یونیورسٹی کا درجہ رکھتی ہے، جس کو جامعہ کہتے ہیں۔ مولانا انور بدخشانی جامعہ کے ایک قدیم استاذ ہیں۔ وہ فرماتے کہ ’’ہدایہ‘‘ فقہ کی کتاب نہیں بلکہ فقہ کی تاریخ ہے۔ انکے نزدیک فقہ قرآن وسنت کی تعلیمات میں عبور حاصل کرنے کا نام ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا کہ ’’ اصول فقہ ‘‘ کی تعلیم پر کسی عقلمند کی نگاہیں پڑگئیں تو نصاب میں پڑھائی جانے والی کتابیں ملیامیٹ ہوجائیں گی اور باقی نصاب بھی ساتویں صدی ہجری میں لکھی جانے والی کتابیں ہیں جو اسلامی علوم کے بدترین زوال کا دور تھا۔ علماء کی شکایت ہے کہ ان میں استعداد نہیں لیکن یہ نصاب ہی ان کو کوڑھ دماغ بنانے کیلئے کافی ہے۔ امام الہند مولانا آزاد کی مادری زباں عربی تھی ، عرب میں ابتدائی تعلیم کے بعداردو ہندوستان میں سیکھ لی تھی۔ مولانا انوربدخشانی حیات ہیں اور جامعہ بنوری ٹاؤن میں انکا وجود بھی ایک برکت ہے۔ زاغوں کے تصرف میں ہے شاہیں کا نشیمن!۔ مولانا یوسف بنوریؒ کے فرزند شہید ہوئے۔ اس اُجڑے گلستاں کی حدود میں میرے ترنم سے کبوتروں کے تنِ نازک میں شاہیں کا جگر پیدا ہوگا ، اسلئے کہ اس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ۔ یہاں 24گھنٹے عبادت اور پچھلے پہر تک آہ وبکا کی صدائیں بلند ہوتی اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں۔ اصول فقہ کی کتابیں ’’اصول الشاشی‘‘ اور ’’ نورالانوار‘‘ ہم نے مولانا بدیع الزمانؒ سے پڑھی تھیں۔ اصول فقہ کا قاعدہ یہ ہے کہ قرآن ، حدیث، اجماع اور قیاس کے دلائل بتدریج ہیں۔ اگر خبر واحد کی حدیث قرآن سے ٹکراتی ہو تو تطبیق دینے کی کوشش کی جائے گی ، تطبیق ممکن نہ ہو تو قرآن پر عمل ہوگا اور حدیث کو چھوڑ دیا جائیگا۔ آیت حتی تنکح زوجا غیرہ ’’یہاں تک کہ عورت کسی اور سے نکاح کرلے‘‘۔اور حدیث ہے کہ’’ جس عورت نے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے باطل ہے باطل ہے‘‘۔ آیت میں نکاح کی نسبت عورت کی طرف ہے تو وہ خود مختار ہے۔ جبکہ حدیث میں ولی کی اجازت کا پابند بنایا گیا۔ لہٰذا حدیث کو چھوڑ دیا جائیگا۔ یہ امام ابوحنیفہؒ کا مسلک ہے۔ جمہور امام مالکؒ ، شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ اس پر متفق تھے کہ حدیث کی پابندی درست ہے ۔ عورت نے بھاگ کر شادی کرلی اور ولی کی اجازت نہیں لی تو کورٹ میرج وغیرہ کا نکاح باطل ہے۔ جمہور کنواری، طلاق یافتہ اور بیوہ سب کو شامل کرتے ہیں۔حالانکہ قرآن و حدیث میں تطبیق کی راہ موجود ہے۔ فطرت، عقل اور شریعت مسلک اعتدال مسئلے کا حل ہے۔ عورت کنواری ہو تو اس کا نگران و محافظ ولی اس کا باپ اور خاندان ہے اور شادی کے بعد اس کا ولی اس کا شوہر بن جاتا ہے اور طلاق یا بیوہ بن جانے کے بعد وہ آزاد اور خود مختار ہوتی ہے۔ کنواری اور ایم کے احکام بھی مختلف ہیں۔ قرآن میں طلاق شدہ اور بیوہ کیلئے خود مختار ہونے کی وضاحت ہے اور کنواری کیلئے جہاں ولی سے اجازت کی پابندی ضروری ہے وہاں والد کیلئے بھی ضروری ہے کہ اس کی اجازت سے نکاح کروائے، ورنہ تو اس کا نکاح نہیں ہوگا۔ معاشرے میں قرآن وسنت اور مسلکوں کی تطبیق سے کام لیا جائے تو اختلاف زحمت نہیں رحمت بن جائے اوراسے ایک اہم معاشرتی اور خوشگوار انقلاب برپا ہوجائے ۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ جہاں حدیث کا قرآن سے ٹکراؤ نہیں، تب بھی مصنوعی ٹکراؤ پیداکیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بار بار یہ وضاحت فرمائی ہے کہ عدت کی تکمیل سے پہلے، عدت کی تکمیل پر اور عدت کی تکمیل کے بعد باہمی رضامندی اور صلح سے رجوع کیا جاسکتاہے۔ کوئی ایک بھی ایسی آیت اور صحیح حدیث نہیں کہ عدت میں قرآنی آیات کے برعکس رجوع کی ممانعت ہو۔ رفاعۃ القرظیؓ کے واقعہ میں وضاحت ہے کہ الگ الگ مراحل میں طلاق دی، عدت کے بعد دوسری جگہ شادی کی تو اس کو نامرد قرار دیا۔ یہ خبر واحد درست ہو توبھی نامرد میں حلالہ کی صلاحیت نہیں ہوتی اور واقعہ کا ایک ساتھ تین طلاق کے بعد حلالہ پر مجبور کرنے کیلئے حوالہ دینا بھی بڑی خیانت ہے ۔قرآن میں صلح و رجوع کی کافی وضاحتیں ہیں۔
جامعہ دار العلوم کراچی کورنگی سے مفتی محمد شفیعٌ کے نالائق نواسے حسان سکھروی نے پھر حاملہ عورت کو تین طلاق پر حلالے کا فتویٰ دیا
دور جاہلیت کے حلالہ سے قرآ و سنت میں چھٹکارے کا پہلا طرز عمل
درسِ نظامی اصول فقہ کی کتاب ’’نورالانوار‘‘ میں واضح ہے کہ ’’ جس طلاق میں حلال نہ ہونے کا ذکر ہے وہ اپنے ماقبل فدیہ دینے کی صورت سے حنفی مسلک کے نزدیک خاص ہے ‘‘۔
علامہ ابن قیم نے زادالمعاد میں ابن عباسؓ کایہ قول نقل کیا ہے کہ ’’طلاق کے بعد حلال نہ ہونے کی صورت دومرتبہ طلاق اور فدیہ سے خاص ہے‘‘۔
جاہلیت کا ایک غلط رواج ایک ساتھ تین طلاق پر حلالہ اور عدت کے اندر تاحیات باربار رجوع کی گنجائش تھی ۔ اس پر تفصیل کیساتھ اللہ نے سمجھایاہے کہ رجوع باہمی صلح سے مشروط ہے۔
اللہ نے تین طلاق کو الفاظ کے بجائے عدت کے تین ادوار میں طہرو حیض کیساتھ خاص کیا۔ رجوع کیلئے عدت رکھی اور حلالہ کی خاص صورت واضح کی
طلاق معاشرتی مسئلہ تھا اور قرآن نے معاشرتی انداز میں اسے حل کیا ہے۔ ایک طرف عورت کو طلاق کی صورت میں بھی اپنی مرضی سے شادی نہ کرنے دیجاتی تھی تو دوسری طرف رجوع کیلئے باہمی رضا مندی کے باوجود ان کورجوع نہیں کرنے دیا جاتا تھا اور حلالہ پر مجبور کیا جاتا تھا۔ سورہ بقرہ کی آیات میں بہت واضح انداز میں بھرپور وضاحتیں ہیں۔ پہلی وضاحت یہ کہ طلاق سے رجوع کا تعلق باہمی صلح اور رضامندی سے ہے۔ دوسری وضاحت یہ ہے کہ عورت پرعدت تک انتظار لازم ہے اورحمل کی عدت بچے کی پیدائش اور حیض کی عدت طہرو حیض کے تین ادوار ہیں۔ طہرو حیض کے تین ادوار کے دروان شوہر صلح کی شرط پررجوع کا زیادہ حقدار ہے ۔ سوال پیدا ہوگا کہ زیادہ حقدار کیوں کہا؟۔ جس کا جواب یہ ہے کہ خلع کی صورت میں نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’عورت ایک حیض کے بعد شادی کرسکتی ہے‘‘۔ شوہر اپنے حق سے دستبردار ہوجائے تو عورت تین حیض نہیں ایک حیض کے بعد شادی کرسکتی ہے، جب شوہر غلام ہو تو حدیث میں آتاہے کہ شوہر کی طلاقیں دو اور بیوی لونڈی ہو تو اس کی عدت دو حیض ہے۔ عورت 3حیض سے عدت پوری کرے اور شوہر طہرمیں پرہیز سے3 مرتبہ طلاق دے۔یہ قرآن و سنت میں بالکل واضح ہے۔ کوئی آیت، حدیث ، صحابہؓ اور اماموں کاایسا قول نہیں کہ تین طلاق پرعدت تک انتظارکے بعد حلالہ کرنے کا حکم ہو۔ قرآن میں 2مرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ طلاق کے بعد شوہر کی طرف سے دی گئی کوئی چیز واپس لینا حلال نہیں۔ جب دونوں اور فیصلہ کرنیوالے با ہوش و حواس فیصلہ کریں تو پھر وہ چیز فدیہ کرنے میں حرج نہیں اور یہ اللہ کے حدود ہیں ان سے تجاوزکرنیوالے ظالم ہیں۔ پھر طلاق دی جائے توعورت کیلئے دوسری جگہ مستقل شادی کا حکم ہے ، شوہر کیلئے رکاوٹ ڈالنا حلال نہیں ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسکے بعد سورہ بقرہ کی آیت نمبر 231اور 232میں تسلسل کیساتھ پھر وضاحت فرمائی ہے کہ عدت کی تکمیل کے بعد بھی معروف طریقے سے جب دونوں باہمی رضامندی سے صلح کرنا چاہتے ہوں تو رجوع کرسکتے ہیں۔ قرآن میں باہمی رضامندی کی صلح کو ہی معروف طریقے کی رجوع قرار دیا گیا ہے۔ فقہ کی کتابوں میں اسکے بالکل برعکس منکر طریقے سے رجوع کو انتہائی بیوقوفی سے اُمت مسلمہ میں رائج کرنے کی بڑی بدعت ڈالی گئی ہے۔ حنفی مسلک کے کتب میں رجوع کیلئے نیت شرط نہیں، اگر شوہر رجوع نہیں کرنا چاہتا ہو مگر بے دھیانی میں شہوت کی نظر بیوی پر پڑ گئی تو رجوع ہوگا۔ اس سے بڑی بات یہ کہ نیند کی حالت میں بھی شوہر کا ہاتھ لگ جائے تو رجوع ہوگا۔ اس سے بڑی بات یہ کہ نیند میں ہاتھ لگنے کی صورت میں بیوی کی شہوت بھی معتبر ہوگی۔ فقہی کتابیں عجائبات سے بھری ہیں
دور جاہلیت کے حلالہ سے قرآ و سنت میں چھٹکارے کا دوسرا طرز عمل
سورۂ طلاق کی میں عدت کے اندر ہی رجوع کی تفصیل بتادی اور عدت کی تکمیل کے بعد معروف رجوع اور ہمیشہ رجوع کا دروازہ کھلا رہنا واضح کردیا
ابوداؤد کی روایت میں مرحلہ وار تین طلاق کے بعد بھی اُم رکانہؓ سے ابورکانہؓ کو سورۂ طلاق کا حوالہ دیکر حلالہ کے بغیر رجوع کرنیکا نبیﷺ نے حکم فرمادیا
عدت کی وضاحت کیساتھ باہمی صلح سے بار بار قرآن کی اجازت سے خود کو زبردستی سے اندھا کرنیوالے قیامت کو نابینا بن کر اٹھ سکتے ہیں العیاذ باللہ
اللہ نے فرمایا کہ ’’جو یہاں اندھا تھا وہ قیامت میں بھی اندھا رہے گا‘‘ ،خودکو اندھا بنانیوالا کہے گا کہ ’’ مجھے کیا ہوا کہ دیکھ نہیں رہا اور میں تو دیکھتا تھا‘‘۔
جب اللہ نے سورۂ بقرہ کی آیات میں بہت تفصیل سے واضح کردیا کہ تین طلاق کا تعلق طہرو حیض کی عدت میں تین مراحل سے ہے۔ ان مراحل میں صلح سے رجوع کا دروازہ بالکل کھلاہے۔ معروف طریقے سے رجوع کا مطلب بھی باہمی صلح ہے اور قرآن میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ حلالہ کے تعلق کو عدت کے دوران دومراحل میں دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسرے مرحلے تیسری مرتبہ رجوع کرنے کے بجائے طلاق کے فیصلے کو برقرار رکھنے کی حدتک بھی محدود نہ کیا بلکہ مزید وضاحت بھی کردی کہ دونوں اور معاشرے نے باہوش و حواس یہ فیصلہ کردیا تو فدیہ دینے میں حرج نہیں اور ان حدود سے تجاوز کرنا جائز نہیں، اسی صورت طلاق دینے کے بعد شوہر کیلئے یہ اجازت نہیں کہ عورت کا نکاح کسی اور سے کرانے میں رکاوٹ ڈالے۔ اس کو اپنی مرضی سے دوسری جگہ نکاح کرنے دیا جائے۔ سورہ بقرہ کی آیت 230سے پہلے اور بعد میں خوب وضاحت ہے کہ عدت سے پہلے اور عدت کے بعد باہمی صلح سے رجوع ہوسکتا ہے۔ 228،229اور231،232 کی آیات میں واضح ہیں۔ صاحبِ ہدایہ ، فتاویٰ شامیہ ، قاضی خان ودیگر فقہاء نے جس طرح سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا جواز لکھا تھا اور100فیصد غلط تھا، اسی طرح حلالہ کیلئے بھی تمام حیلے بہانوں کے حوالے قرآن وسنت اور شریعت و عقل کے منافی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ علماء وفقہاء نے حیلوں سے عوام کی عزتوں کو حلالہ کے نام پر تار تار کرناہے۔ خاندانوں کو تباہ وبرباد کرنا ہے۔ اسلئے سورۂ طلاق میں مزید وضاحت سے بتادیا کہ طلاق کا تعلق عدت کے مراحل سے ہے۔ تکمیل عدت پر رجوع کرو اور طلاق کا حتمی فیصلہ کرنے کی صورت میں دوعادل گواہ مقرر کرو۔ جو اللہ سے ڈرا، اللہ اس کیلئے نکلنے کا راستہ بنادیگا۔ سورۂ طلاق بھرپور وضاحت کرتاہے مگر حلالہ والوں کو نشہ لگ گیاہے۔ حلالے کی لعنت نے فقہی کتابیں لکھنے والوں کے دماغ کو اتنا خراب کردیا ہے کہ قرآن کے روشن دلائل ان کے حلق سے نہیں اترتے۔ لیکن غیر فطری طلاقوں کے عجیب و غریب قسم کے مسائل پر ان کو یہی یقین ہے کہ جو کچھ لکھا گیا ہے وہ سب کا سب درست ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ قرآن میں وضاحت ہے کہ شوہر کا بیوی پر عدت کا حق ہے اور بیوی کو عدت میں انتظار کا حکم ہے۔ احادیث صحیحہ میں بھی اس کی بھرپور وضاحت ہے۔ انسان کی فطرت بھی اس کو قبول کرتی ہے لیکن یہ فقہاء اور محدثین کا کمال ہے کہ کسی ضعیف روایت پر عجیب و غریب خلاء تک بلڈنگ تعمیر کرلی۔ ایک عورت کو شوہر ایک طلاق دیتا ہے اور دو اپنی جیب میں رکھ لیتا ہے۔ پھر دوسری ، تیسری ، چوتھی ، پانچویں سے ہزار اور ہزار سے زیادہ شادیوں تک نکاح کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو سب کی دو ، دو طلاقوں کی ملکیت عورت پر باقی ہونگی۔
اوکاڑہ : میں آپ کے بیانات کچھ عرصہ سے پڑھ رہی ہوں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں آپ نے جو حلالہ اور طلاق کے نقطہ کو واضح کیا ہے اس سے بہت سے لوگ مستفید ہورہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کام میں اور کامیابی عطا فرمائے۔ آمین میرا سوال یہ ہے کہ کیا طلاق واقع ہونے کے بعد حلالہ شوہر سے کرنے کی اجازت ہے ؟ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اپنے بیان میں ایک واضح الفاظ میں کہا کہ طلاق واقع ہونے کے بعد شوہر نا محرم ہے تو حلالہ شوہر سے کرنے کی اجازت ہے۔ آپ اس بارے میں بتائیں کہ کیا ایسا کیا جاسکتا ہے؟ کیا یہ بات قرآن و حدیث کی روشنی سے ثابت ہے؟۔ اُم معظم اوکاڑہ پنجاب جواب : قرآن میں جہاں شوہر کے علاوہ کسی اور سے نکاح کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے وہاں تو مروجہ حلالے کا کوئی تصور نہیں۔ میاں بیوی اور معاشرے میں موجود افراد کی طرف سے باہوش و حواس عدت کے مراحل میں دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسری دفعہ علیحدگی کا فیصلہ ہو اور سب کا اتفاق ہو کہ آئندہ دونوں کے ملنے کی کوئی صورت باقی نہ رہے جس سے اللہ کے حدود پامال ہوں اور سب اتفاق سے فیصلہ کریں کہ آئندہ خاتون کی سابقہ شوہر سے کوئی تعلق نہ جڑے تو پھر ایسی صورت پر ہی طلاق کے بعد شوہر کو حلال نہ ہونے کا اسلئے کہا گیا ہے تاکہ سابقہ شوہر اس عورت کی شادی میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالے۔ تفصیل صفحہ نمبر 6پر دیکھئے
غلام احمد قادیانی نے شاہ اسماعیل شہیدکی کتابیں’’منصبِ امامت‘‘اور ’’الاربعین فی احوال المہدیین‘‘سے امام و مہدی اور مجدد کا دعوی کیا ۔منصب امامت کے ترجمہ پر مولانامحمد یوسف بنوریؒ کامقدمہ موجود ہے ۔ تلاش کے باجود ’’احوال المہدیین‘‘ کا سراغ نہیں ملا۔ نیٹ پر قادیانیوں کے مرکزربوہ سے شاہ اسماعیل شہید کی کتاب کا عکس دیا گیاہے۔ کتاب کی چند سطریں پڑھنے سے معلوم ہوا کہ عجمی سازش سے عربی لکھ دی گئی ہے۔کتاب کی اصل تو صفحۂ ہستی سے غائب ہے ، نقل بھی موجود نہیں۔اس کتاب میں مشہور بزرگ شاہ نعمت اللہ ولی کی پیش گوئیاں بھی ہیں۔ جس کا ایک شعر یہ ہے کہ ’’ اس شخصیت میں مہدی اور مسیح دونوں جھلک رہے ہونگے‘‘۔ شاہ نعمت اللہ کی پیش گوئیاں دستیاب ہیں۔ یہ شعر بھی اس میں موجود ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے اس شعر کی بنیاد پر دعویٰ کیا تھا کہ وہ مہدی ومسیح ہے۔ بعض علماء نے فتویٰ دیا کہ ہندوستان دارالحرب ہے، جو ہجرت نہ کریگا، کافرہو گا اور بیوی بھی طلاق ہو گی۔ بانی خدائی خدمتگار عبدالغفار خان نے لکھاکہ ’’ ہم نے طلاق کے خوف سے ہی افغانستان ہجرت کی تو بیگمات آگے بھاگ رہی تھیں‘‘۔ ہجرت ناکام ہوئی تو طلاق کا فتویٰ زیر بحث آیا اور انگریز کے تسلط میں جہاد کرنا مشکل تھا۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجرؒ کے زیرِ امامت علماء نے جہاد کا ارادہ کیا مگر نہیں کرسکے ۔دارالعلوم دیوبندسے اسلامی علوم کی حفاظت کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوا۔ پہلے علماء کی سرپرستی حکمران کرتے تھے۔ اکبر بادشاہ کے دربار میں ہندوستان کے مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی نے کلمۂ حق بلند کیا، قبائلی علاقہ کانیگرم جنوبی وزیرستان کے بایزید انصاری عرف پیرروشان نے اکبر بادشاہ کے خلاف باقاعدہ جہاد کیا اور اپنے بیٹوں سمیت افغانی قبائلی علاقے جلال آباد میں 1601ء میں شہید ہوگئے۔ مغلوں سے بغاوت کا جذبہ انگریز کے خلاف جہاد کرنے میں بھی کام آیا۔ پاکستان کیلئے عملی جہاد قبائلی علاقوں سے ہوا۔ پاکستان کی آزادی کے بعد 1948ء میں آرمی چیف انگریزاور وزیراعظم کے خواہشمند نوابزادہ لیاقت علی خان کی کشمیر سے دلچسپی نہیں تھی تو قائداعظم محمد علی جناح نے قبائل سے کہا کہ ’’تم کشمیر کی آزادی کیلئے آؤ‘‘۔ بیگم راعنا لیاقت علی خان ہندو تھی۔ قبائل نے سرینگر تک کشمیر فتح کیا تھا۔ جیسے کلبھوشن کو بچانے کیلئے عالمی عدالت میں کیس لیجایا گیا، ویسے کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ کو حوالہ کردیا ،جماعت اسلامی کے مولانا مودودی نے فتویٰ دیا کہ ’’کشمیر میں جہاد نہیں ہورہاہے بلکہ کٹ مررہے ہیں ‘‘۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ مسلم لیگ کے مخالف و جمعیت علماء ہند کے حامی مگر فتویٰ دیا کہ ’’کشمیر میں شرعی جہاد ہے، اگرمولانا حسین احمد مدنی سے بھی کشمیر پر سامنا ہوا تو انکے احترام کے باوجود انکے سینے میں گولیاں اتار دوں گا‘‘۔ میرے خاندان کے پیرمحمد امین شاہ نے کشمیر کے جہاد میں حصہ لیا، جو وزیرستان سے تبلیغی جماعت کے پہلے فرد تھے۔ کانیگرم و علاقہ گومل کے اکثرپڑوسی تبلیغی جماعت کے خلاف تھے۔ مفتی کفایت اللہ مفتی اعظم ہند نے ’’سنت کے بعد دعا بدعت ‘‘پر کتاب لکھی۔ مولانا شاد زمان عرف مولوی شاداجان نے سنت کے بعد دعا کو بدعت کہا تو وہاں کے مشہور علمی گھرانے کے سربراہ مولانا محمد زمان نے ان پر قادیانیت کا فتویٰ لگایا۔ میرے والد انکے ساتھ کھڑے تھے۔ ہماری مسجد میں مناظرے کا اہتمام ہوا، نتیجہ فارسی میں سنایا گیا، دونوں طرف کے حامیوں نے ڈھول کی تھاپ پراپنی اپنی فتح کا جشن منایا۔ عمائدین میں مشہور شخصیت حاجی میرول خان مرحوم آخرتک تبلیغی جماعت کے سخت مخالف تھے۔ ہماری مسجد کو ’’ درس‘‘ اسلئے کہا جاتا کہ یہاں طلبہ علم سے استفادہ کرنے آتے ۔ مفتی محمود مفتی اعظم کہتے تھے کہ ’’ پٹھان مسلکاً دیوبندی اور طبعاً بریلوی ہوتے ہیں‘‘۔ سنت کے بعد دعا کو لازم کہا جاتا اور آذان میں صلوٰۃ و سلام نہیں پڑھی جاتی۔ سہراب گوٹھ میں جنت گل کی مسجد میں یہ حال اور میرا کردار تھا۔ انگریز ی دور میں مرزا غلام احمد قادیانی نے جہاد کو منسوخ کرنے فتویٰ دیا، علامہ اقبال نے مجذوب فرنگی قرار دیتے ہوئے کہا کہ’’ اس کا یہ فتویٰ بے اثر ہے۔ مہدی کے بدنام تخیل سے مایوس نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ پاکستان بنا تو فوج پر مرزائیوں کا تسلط قائم ہوا۔ جہاد کو منسوخ قرار دینے والوں کی گرفت سے کشمیر کے بعد مشرقی پاکستان بھی گیا، ذوالفقار علی بھٹو نے قادیانی طاقت سے جان چھڑانے کیلئے کافر قرار دینے کی چھوٹ دیدی تو وہ لوگ بھی میدان آئے جو قادیانیوں کیساتھ مل کرختم نبوت سے تعاون نہ کرتے تھے۔ شورش کاشمیری ذوالفقار علی بھٹو کا سخت ترین مخالف تھا مگر قادیانیوں کو آئینی کافر قرار دینے پر بھٹو کی عظمت کو سلام کرنے لگا۔ چند سال پہلے اردو ڈائجسٹ میں دیوبند ی بزرگوں پاکستان و ہندوستان کے شیخ الاسلام کا مکالمہ شائع ہوا۔’’ کانگریس کے حامی نے کہا کہ مسلم لیگ کی حمایت انگریز سرکار کرتی ہے اور مسلم لیگ کے حامی عالمِ دین نے جواب دیا کہ انگریزسرکار تبلیغی جماعت کی بھی حمایت کر رہی ہے تو کیا اس وجہ سے تبلیغی جماعت کا کام غلط قرار دیا جائے؟‘‘۔ تبلیغی جماعت عملی جہادنہیں کررہی تھی مگر جہاد کو منسوخ نہ سمجھ رہی تھی۔ جب روس کیخلاف افغانستان میں جہاد کا سلسلہ جاری تھا تو قبائل، پٹھانوں اور تبلیغی جماعت نے اس میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ جب نصیراللہ بابر نے امریکہ کے کہنے پر طالبان کی حکومت قائم کردی تو تبلیغی جماعت افغانستان جاتی تھی ، میرے دوست مولانا دین محمد گئے تھے اور یہ شکایت کی تھی کہ افغانستان میں کھلے عام مزارات پر شرک ہورہاہے۔تبلیغیوں کی نگاہیں نظام پر نہیں مسلک اور عقیدے پر تھیں، بعض لوگ ملا عمر کو خراسان کے مہدی سمجھتے تھے مگر جب امریکہ نے اسامہ کا بہانہ بناکر حملہ کیا تو طالبان کی مزاحمتی تحریک کو جہاد کہنے میں کسی کو شبہ نہیں رہاتھا، خود امریکہ بھی اسکا قائل تھا۔ تبلیغی جماعت نے اس قبولیت عامہ میں جہاد کا ساتھ دیا۔ طالبان اور تبلیغی بزرگ شیر وشکر ہوگئے۔ جرائم پیشہ عناصر جہاد میں جانے سے پہلے حلیہ بدلنے کیلئے رائیونڈ کا رخ کرتے تھے اور پھر داڑھی کیساتھ چوتڑ تک عورتوں کی طرح بال بھی رکھتے تھے۔ بد کاری و بے حیائی کے حدود پار کئے بغیرکوئی شریف یہ حلیہ اختیار نہیں کرسکتا تھا۔ جرائم پیشہ لوگوں نے جہاد کو خوب بدنام کیا اور بہت شریف بھی اسکی نذر ہوگئے۔ سلیم صافی نے جیو پر مولانا طارق جمیل سے خود کش حملوں کیخلاف جملہ کہلانے کی کوشش کی مولانا نے کہاکہ ’’ہماری راہیں جدا ہیں، منزل ایک ہے‘‘۔اب مولانا طارق جمیل نے بوہرہ داؤدی کے سربراہ سے پرجوش ملاقات کی ہے اور یہ معمولی بات ہے مگر جب پاکستان پر جہاد کا معاملہ آرہاہے تو میرے بیٹے محمدعمرنے بتایا کہ ’’کمپنی کا ملازم کہتا ہے کہ کشمیر اور ہندوستان کی لڑائی وطن کیلئے ہے جو جہاد نہیں، چاچا فوج میں ہیں اور ماموں مولوی ہیں‘‘۔ مدارس تک میں دہشتگردی ہورہی تھی تو مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی نے اس کو خلافِ اسلام قرار نہ دیا اور اب امریکہ اور انڈیا نے حملہ کیا تو یہ فتویٰ کہ ’’پاکستان کی طرف سے مدافعت جہاد نہیں ایک سازش ، جہالت اور بے غیرتی ہے‘‘۔ صلح حدیبیہ میں مسلمانوں کا حلیف قبیلہ بنو خزاعہ کافر تھا لیکن مشرکینِ مکہ نے بنوبکر کی مدد کرتے ہوئے بنوخزاعہ کو نقصان پہنچایا توصلح حدیبیہ کا معاہدہ بھی نبیﷺ نے توڑ کر مکہ کو فتح کرلیا۔ اگر برما کے بدھ مت پاکستان کو حلیف بنالیں اور بنگلہ دیش کے مسلمان یا بھارت کے ہندو برماکے بدھ مت پر حملہ آور ہوں تو یہ فرض ہوگا کہ ’’ہم برما کے بدھ مت کی مدد کریں‘‘۔ اقوام متحدہ نے سوڈان کے ٹکڑے کردئیے اور عراق کے کردستان میں ریفرینڈم کرادیا مگر 70 سال سے کشمیریوں کو حق سے محروم رکھا۔ کیا یہ انصاف ہے لیکن جب تک اقوام متحدہ کا خاتمہ نہیں ہوجاتا یا ہم اسکے معاہدے سے باہر نہیں نکلتے ، ہم اسکی تابعداری کے پابند ہیں۔ نبیﷺ نے جاہلیت کے’’ حلف افضول‘‘ کی تعریف میں فرمایا: ’’ مجھے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ پسند ہے کہ میں اس میں شامل تھا‘‘۔ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے، فتنے فساد کو رفع دفع کرتاہے مگر ظالم کے آگے لیٹنے کی تعلیم بھی نہیں دیتا۔ پاکستان ایک ریاست نہیں بلکہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا مرکز بھی ہے۔پاکستان کا مستقبل روشن بنانے کیلئے کوشش کی ضرورت ہے۔ ملاعمر مجاہد جس سازش کا شکار ہوا، وہ سمجھ سے بالاتر تھی۔ ایک ملا، مولوی اور مولانا کو آج دنیا کے اختیارات مل جائیں تو اسلام کا نفاذ اسکے بس میں نہ ہوگا اور یہ اسلئے نہیں کہ اسلام کاروبار بن گیا بلکہ اسلئے کہ اسلام اجنبی ہے۔ خلافت راشدہ کا آخری دور حضرت عمرؓ کے بعد فتنوں کا دور تھا۔ نبیﷺ کے خانوادہ کو اقتدار نہ دیا گیا لیکن بنی امیہ کے یزید اور بنی عباس وبنی فاطمہ کے بعد خلافت عثمانیہ اور مغل سلطنت خاندانی بنیاد پر رہی۔ علماء رکاوٹ نہ بن جائیں ، تبلیغی جماعت کے کارندے مثبت کردار ادا کریں تو پاکستان میں کب کااسلامی انقلاب آچکا ہے۔ بس حقائق کو قبول کرناپڑیگا ، ورنہ افراتفری پھیل گئی تو کوئی بھی کسی کی بات نہ سنے گا۔ امن کی فضاء سے فائدہ اٹھائیں۔ تبلیغی جماعت کے اکابر ، بزرگ اور علماء کا کردار اس وقت اہمیت اختیار کریگا کہ جب یہ اللہ کے احکام اور نبیﷺ کے طریقے کا ایک معاشرتی نظام اپنے کارکنوں اورعوام کو دیں۔
درسِ نظامی کی کتاب ’’ شرح العقائد‘‘ میں ہے کہ ’’خلافت کا قیام واجب ہے ، سنی کے نزدیک خلیفہ کا تقرر مخلوق پر واجب ہے ، شیعہ کے نزد خلیفہ کا تقرر اللہ پر واجب ہے۔ درست عقیدہ ہے کہ اللہ پر کوئی واجب نہیں ۔ شیعہ کا عقیدہ غلط ہے کہ اللہ پر کوئی بات واجب ہے‘‘ علم الکلام کا دوسرا نام علم العقائد ہے جس کا تعلق فلسفہ سے ہے۔ امام ابوحنیفہؒ نے جوانی اس میں کھپادی ،آخر توبہ کی ،اس کو گمراہی قرار دیکر فقہ کی طرف توجہ کی۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمود بڑے قابل عالمِ دین تھے، مگر انہوں نے زیادہ تر توجہ سیاست کی طرف دی۔ شرح العقائداور دیگر چند کتابوں کے بارے میں وہ کہتے تھے کہ یہ شیعہ کی سازش ہے، ان کو اپنے نصاب سے الگ کرنے کی ضرورت ہے۔ اصول فقہ میں قرآن کی تعریف علم العقائد سے پڑھائی جاتی ہے۔ جس میں قرآن کی تحریر کومحض نقش قرار دیا گیاہے جو الفاظ ہیں اور نہ معنیٰ۔ حالانکہ قرآن کی بہت سی آیات سے یہ ثابت ہے کہ قلم کے ذریعہ علم، جو سطروں میں ہے ، جو ہاتھ سے لکھی جاتی ہے، یہ کتاب ہے، جاہل مشرک بھی سمجھتے تھے کہ جو صبح شام لکھوائی جاتی ہے یہ کتاب ہے۔ ایک بچہ، ان پڑھ اور جاہل بھی کتاب کی کتابت کا انکار نہیں کرسکتا۔ علم العقائد کی گمراہی میں حقائق کی شکل مسخ کی گئی ہے اسلئے امام ابوحنیفہؒ نے اس سے توبہ کی مگر اہل تشیع کے بڑے لوگوں نے مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کو باقی رکھا اور اپنے نادان علماء ومفتیان بھی اس کا شکار ہوگئے۔ یہ حقیقت ہے کہ درباری علماء ومفتیان کا ہر دور میں راج رہا ہے جن کی وجہ سے اسلام اجنبی بنتا چلا گیا۔ قادیانیوں کیخلاف تحریک چل رہی تھی تو جب پاکستان کی ریاست نے نہیں چاہا کہ مرزائیوں پر کفر کا فتویٰ لگے تو ہماری عدالت و حکومت نے ’’ختم نبوت زندہ باد‘‘ کے نعرے پر پابندی لگادی۔ آج ریاست کا من چاہے تو مولویوں کو کھڑا کرکے آغا خانیوں پر نہ صرف کفر کے فتوے لگادے بلکہ انکے ہسپتال ، تعلیمی اداروں اور آبادیوں کا بھی بیڑہ غرق کردے۔ قادیانیوں پر کفر کا فتویٰ لگانا ریاست کا موڈ نہ تھا تو ختم نبوت کی تحریک پر مشکلات کا سامنا تھا۔ مولانا عبدالستارخان نیازی نے داڑھی مونڈھ ڈالی ، مفتی محمد شفیع مفتی اعظم پاکستان ، مولانا احتشام الحق تھانوی درپردہ قادیانیوں کیساتھ تھے، تاریخ کے اوراق مٹ نہیں سکتے، ذوالفقار علی بھٹو نے قادیانیوں کی کم تعداد کے باجود فوج میں انکی طاقت سے جان چھڑانے کیلئے تحریک ختم نبوت کو آزاد ی دی۔ تو قادیانی کافر قرار دئیے گئے۔ بھٹو کا تختہ الٹنے میں فوج کے اندرقادیانی اور باہر سے تحریک نظام مصطفی کے قادیانی ائر مارشل اصغر خان نے بڑا کردار ادا کیا اور جنرل ضیاء نے مرزائیوں سے مراسم بنانے کیلئے اعجازالحق کی شادی مشہور قادیانی جنرل رحیم کی بیٹی سے کرادی۔ مفتی تقی عثمانی نے اس کا نکاح پڑھانے کیلئے اپنے مرشد اور مولانا اشرف علی تھانوی کے خلیفہ ڈاکٹر عبدالحی کو استعمال کیا جس پرہمارے استاذ جمعیت علماء اسلام کراچی کے امیر مولانا شیر محمد بہت برہم تھے۔ اگرریاست کی طرف سے اشارہ یا پیسہ ملتا تو شیعہ کیخلاف مفتی تقی عثمانی دوسروں کا ساتھ دیتے، جیسے حاجی عثمانؒ پر فتویٰ لگایا تھا۔ قرآن کیخلاف شیعہ سنی کتابوں میں موجود تمام مواد کی نشاندہی کرکے فرقہ واریت کی سازش کو ناکام بنایا جاسکتاہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی نبی و مہدی تو دور کی بات، قابل مولوی بھی ہوتا تو درسِ نظامی کی خامیوں کی نشاندہی کرتا۔ مولوی نصاب ٹھیک کریں تو قادیانیوں کی بھی آنکھ کھول دینگے اور انکے مربی توبہ کرکے حقائق کوقبول کرینگے۔ شیعہ مخمصے سے نکلیں گے کہ قرآن کو درست مانیں یا نہیں؟ بریلوی بھی علامہ انور شاہ کشمیری کی قرآن کے بارے میں تحریف کے عقیدے کی رٹ کوچھوڑ کر خود راہِ راست پر آئینگے اور دیوبند کے علماء بھی بدترین منافقانہ فضاؤں سے نکل آئینگے۔ شیعہ کہتے ہیں کہ جیسے اللہ انبیاء کو مبعوث کرتاہے،ویسے ائمہ مبعوث کرتا ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ ’’میں زمین میں خلیفہ بنانیوالا ہوں‘‘۔ اللہ نے آدم ؑ کونبی و خلیفہ بنایا۔ بعثت کے لفظ سے نبوت ورسالت کا ہونا لازم نہیں آتا۔ قابیل نے بھائی کو قتل کردیا تو اللہ نے فرمایا : فبعث اللہ غرابا’’ اللہ نے کوا بھیج دیا‘‘۔ بعثت سے کوا نبی نہ بنا۔ ابراہیمؑ سے فرمایا: ’’میں تجھے لوگوں کا امام بناؤں گا۔ عرض کیا کہ میری اولاد میں سے بھی۔ فرمایا : میرا وعدہ ظالموں کو نہ پہنچے گا‘‘۔مفسرین نے لکھا ہے کہ ’’اللہ نے جن الفاظ میں جواب دیا ، یہ دعا کی قبولیت ہے اور جب تک نبوت کا سلسلہ جاری رہا اللہ نے بنی اسرائیل اور پھر آخر میں حضرت محمدﷺ کی بعثت سے یہ وعدہ پورا کردیا۔ نبوت کا سلسلہ ختم ہوا تو قریش کیساتھ قیامت تک وعدہ ہے‘‘۔صحیح مسلم کی کتاب الامارۃ اور صحیح بخاری کی کتاب الفتن میں نبیﷺ کی حدیث ہے کہ قیامت تک ائمہ قریش میں سے ہونگے چاہے 2 آدمی باقی ہوں۔ خلافت راشدہ کے بعدبنو امیہ وبنوعباس تک خلافت قریش میں رہی اور خلافت عثمانیہ کے ترک خلفاء قریش نہ تھے۔ شیعہ مکتب کا کہنا ہے کہ عثمانی خلفاء کی طرح جو قابض بنوامیہ و بنوعباس خاندان تھے وہ شرعی خلفاء نہ تھے۔ بریلوی مکتب کے اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی نے خلافت عثمانیہ کی غیر قریشی خلفاء کو غیر شرعی قرار دیا تھا۔ جنرل ضیاء دور میں سید جمال الدین کاظمی نے دیوبندی بریلوی مشہور مدارس سے خلیفہ کی تقرری پر فتویٰ مانگا تھا تو دیوبندیوں نے جواب دینے سے گریز کیا۔ بریلوی کے علامہ عطاء محمد بندھیالوی نے تفصیلی جواب دیا تھا۔ ایرانی انقلاب کے بعد شیعہ کے رویہ میں بھی بہت بڑی تبدیلی آئی ، مہدی غائب کے غَیبت کبریٰ میں وہ مخلوق کی طرف سے امام کی تقرری کا فریضہ ادا کرنے کے قائل ہوگئے۔ شاہ ولی اللہؒ نے لکھا: ’’مشاہدہ میں نبیﷺ نے فرمایا کہ شیعوں کی گمراہی کی بنیاد امامت کا عقیدہ ہے‘‘۔بیشک اگرشیعہ عقیدۂ امامت نہ رکھتے تو صحابہؓ سے لیکر موجودہ دور تک وہ قرآن سمیت بہت سی باتوں سے بدظن نہ ہوتے۔ شاہ ولی اللہؒ نے لکھا کہ ’’میں اس مشاہدہ کی وجہ سے اس نتیجے پر پہنچا کہ عقیدۂ امامت در اصل ختم نبوت کا انکار ہے‘‘۔ اگریہ صحیح ہو توشاہ ولی اللہؒ کے پوتے شاہ اسماعیل شہیدؒ نے سید احمد بریلویؒ کو خراسان کا مہدی ثابت کرنے کی غرض سے ’’منصبِ امامت ‘‘ کتاب لکھ دی تھی اور اس میں بھی امام کیلئے بعثت کا عقیدہ ہے۔ شاہ اسماعیل شہیدؒ کے خلوص میں کوئی شک نہ تھا مگر انگریز نے ان کو راستہ اسلئے دیا تھا کہ پنجاب میں راجہ رنجیت سنگھ کااقتدار ختم ہو۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے لکھا کہ شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے کہا: ’’ جب تک امام مہدی کا ظہور نہ ہوگا، امت کی اصلاح نہ ہوگی اور مہدی میں اس قدر روحانی طاقت ہوگی کہ پوری دنیا کے حالات کو بدل دیگا‘‘۔ ایسا کوئی نبی اور رسول بھی نہیں آیا ۔ یہ عقیدہ قادیانیت سے بھی زیادہ خطرناک ہے اسلئے کہ کہاں ظلی و بروزی نبی اور کہاں تمام انبیاء سے بھی طاقتور ہونے کا دعویٰ؟۔ شیعہ ،سنی اور قادیانی وغیرہ کتابوں کے مندرجات کی تبلیغ کرتے ہیں ۔ سب کوخوش فہمی ہے اور مذہب کے نام پر پیٹ پوچا کا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ شیعہ علیؓ کی خلافت کی ’’عید غدیر‘‘ منائیں تو یہ اس کی نفی ہے کہ امام کا تقرر اللہ کی طرف سے ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ مان لیا ، نبیﷺ کی طرف سے حضرت علیؓ کو امام و خلیفہ اور امیر بنایا تو صحابہؓ نے ارتداد کا راستہ اختیار کیا،علیؓ کے بعد 10امام مزید آئے ، ان کا طرزِ عمل اتنا جدا تھا کہ شیعوں میں بھی فرقے بن گئے۔ امامیہ کا 12واں امام مہدی غائب ہے ، ایرانی اقتدار حاضر خدمت ہے لیکن امام مہدی کا ظہور نہیں ہورہاہے۔ سخت مخالفین میں جینے والے شیعہ کے 11امام عوام کے اندر موجود رہے تھے۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی نے بھی کہاکہ مہدی آئیگا تو اختلافی مسائل کی اصلاح کردیگا۔ قادیانی کہتے ہیں کہ مرزا صاحب وہ مہدی اور مسیح تھا جس کا انتظار تھا۔ حضرت عیسیٰ ؑ طبعی موت مرچکے ۔مسیح اور مہدی دونوں ایک شخصیت ہے۔ مہلک ہتھیا روں کی موجودگی میں مرزا نے جہاد کو منسوخ کردیا اور مولوی بھی ریاست کے بغیر جہاد کا فتویٰ دینے کی جرأت نہیں کرسکتے۔ یونیورسٹی کے طلبہ میں خلافت کا شعور حزب التحریر اجاگر کرتی ہے جو برطانیہ میں وجود میں آئی ۔ وہاں اس پر پابندی نہیں ۔ اوراس کی تحریر کا کوئی سر پیر بھی نہیں ہوتا ہے۔ اگر ریاستِ پاکستان ہمیں کینیڈا بھیجے تو ہم اسلام کے سفیر بن کر مسلمانوں کے گمراہ لوگوں کو خلیفہ وامام کی درست راہ دکھا دینگے، جس پر سب ہی متفق ہونگے بلکہ مغرب کی سازشوں کو مغرب میں ہی بے نقاب کرینگے۔ مغرب کی سازش سے زیادہ ہمارے اپنے پیچیدہ اور الجھے مسائل کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ جہادمدافعت اور ظالم کو ظلم سے روکنے کا فطری راستہ ہے ،قیامت تک اسکا انکار ممکن نہیں۔ ہزار سال قبل الماوردی کی کتاب ’’ الاحکام سلطانیہ‘‘ سے مدارس کے علماء وطلبہ واقف نہیں اور یونیورسٹیوں میں اس کا تعارف ہے۔ امام کا تقرر پہلے افراد کا کام تھا، اب ریاستوں نے مل کر اس فریضہ کو ادا کرنا ہے۔ خمینی فرانس میں بیٹھ کر امام بن گئے تو ایرانی انقلاب آیا۔ تمام مسلم ممالک کو متفقہ امام دینا ضروری ہے۔اور پاکستان، افغانستان اور ایران آغاز کریں۔
علامہ احمد لدھیانوی اورعلامہ حسن ظفر نقوی لوگوں کو دلیل سے ایک پلیٹ فارم پر لا ئیں تو قتل وغارت گری کا سلسلہ رُک جائیگا۔ جب برما کے مسلمانوں پر مظالم کی انتہا کی گئی تو ایک جلوس نکالا گیا جس میں ایران اور اسرائیل کی حکومتوں کو ذمہ دار قرار دیا گیا، سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر اس خبر کی خوب تضحیک ہوئی اور اہلسنت (سپاہِ صحابہ) والے کا مذاق اڑاگیا مگرسوچنے کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں کتنی برائیاں ہیں؟۔ زنا بالجبر، بدکاری کے بعد بچوں اور بچیوں کو قتل کردیا جاتاہے ، انواع و اقسام کی بدمعاشی ، مظالم ، رشوت، بے حیائی اور چوری ڈکیتیوں کا بازار گرم ہے کیا یہ سب اسرائیل و امریکہ کی سازش ہے؟۔ بے شعور عوام کو ہم کیا دے رہے ہیں؟، اگر کبھی امریکہ ، اسرائیل اور بھارت نے سازش کی اور شیعہ سنی ایکدوسرے سے لڑے تو کسی کاکردار ہو یا نہ ہو مگر ہم اپنی بداعمالیوں کی سزا ضرور کھائیں گے۔ افغانستان، عراق، لیبیا اور شام کے بعد اللہ نہ کرے کہ پاکستان کی باری آجائے۔ قرآن کہتا ہے کہ ظھر الفساد فی البر و البحر بماکسبت ایدی الناس ’’ خوشکی اورسمندر میں فساد برپا ہوگیا بسبب جو لوگوں نے ہاتھوں سے کمایا ہے‘‘ ۔ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم باقاعدہ سکالر اور عالم نہ تھے۔ البتہ قرآن کا ترجمہ سمجھانے کی بڑی خدمت کی۔ بڑے آدمی تھے اور بڑے کی غلطی بڑی ہوتی ہے۔ میرے ایک مہربان جماعت اسلامی کے عبدالرزاق بھٹی کا تعلق شیخ اتار گومل ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان سے تھا جوایک بڑے تاریخی کردار تھے۔ پاکستان بننے سے پہلے وہ کمیونسٹ تھے، پھر جیل میں مولانا مودودی کی کتابیں پڑھ کر مسلمان بن گئے تھے۔ سید منور حسن گذشتہ امیر جماعت اسلامی بھی کالج کے دور میں کمیونسٹ تھے۔ اسلامی جمعیت طلبہ نے کالجوں میں کمیونسٹوں کا راستہ روکنے کی قربانی دی ہے مگر پہلے جو امریکہ جہادی فلسفہ پھیلارہا تھا ،اب خلافت، جہاد اور مذہب کی مخالفت کو شعار بنارکھا ہے۔عبدالرزاق بھٹی نے بتایا تھا کہ ڈاکٹر اسراراحمدنے لکھا کہ’’ اگرچہ شیعہ کا موجودہ قرآن پرایمان نہیں مگر مہدی غائب تک اہل تشیع نے موجودہ قرآن کو قبول کیا ہے تو اس بنیاد پر ہم ان کو مسلمان کہہ سکتے ہیں‘‘۔ ڈاکٹر اسرار احمد نے شیعوں کیلئے اس نرمی کا مظاہرہ اسلئے کیا تھا کہ وہ خود بھی موجودہ قرآن کو مصحف عثمانی کہتے تھے ،جس کو اصل نہیں نقل سمجھتے تھے۔ جس میں کمی وبیشی کا تصور ہے اور برملا اس بات کا اظہار کیا تھا کہ ’’ اللہ تعالی نے قرآن میں کہا کہ اس قرآن کو نہیں چھوسکتے مگر پاک لوگ۔ موجودہ قرآن کو ناپاک بھی چھو سکتے ہیں اسلئے یہ اصل قرآن نہیں بلکہ نقل اور فوٹو کاپی ہے ۔ اصل قرآن لوحِ محفوظ میں ہے جس کو ملائکہ کے علاوہ کوئی نہیں چھوسکتا‘‘۔ ڈاکٹر اسرار احمد اچھے انسان تھے ، مجھے انکے اپنے نظریات کا زیادہ پتہ نہیں تھا، انہوں نے میری کھل کر نہ صرف حمایت کی بلکہ کانفرنسوں میں بھی دعوت دی۔ میں نے سوچا کہ میڈیا کی سطح پر آواز پہنچانے کیلئے ان سے مدد لوں اور میں نے انکے سامنے یہ بات رکھ دی کہ مدارس میں قرآن کریم کے بارے میں تحریف کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اگر آپ میرا ساتھ دیں تو بہت اچھے نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں کھل کر ساتھ نہیں دے سکتا لیکن میری خاموش حمایت آپ کے ساتھ ہوگی، جیسے امام ابوحنیفہؒ نے ائمہ اہلبیت کی خاموش حمایت کر دی تھی مگر زباں سے کھل کر اظہارنہیں کیاتھا‘‘۔ جب مجھے پتہ چلا کہ ڈاکٹر اسرار احمد نے یہ تشہیر بھی عام لوگوں میں کی ہے کہ اصل قرآن لوح محفوظ میں ہے ، ہمارے پاس نقل ہے تویہ منافقت میں نہیں کرسکتا تھا کہ اپنے حامی کیلئے نرم گوشہ رکھوں۔ اپنے ضرب حق اخبار اور اپنی کتاب’’ آتش فشاں‘‘ میں اس کا کھل اظہار کیا جو ڈاکٹر اسرار احمد کو ناگوار بھی گزرا۔ مجھے اپنے اساتذہ کرام کی بھی حق بات کے سلسلے میں کوئی پرواہ نہیں تھی تو کسی اور کیا کرتا؟۔ قرآن واحد ذریعہ ہے جو اس امت کا بیڑہ پار کرسکتاہے مگر ہمارے مذہبی طبقات قرآن کی خدمت کرنے کا دعویٰ کرنے کے باوجود حقائق نہیں مانتے۔ شیعہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’ میں تمہیں دو بھاری چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک قرآن اور دوسری میری عترت۔اگر تم ان دونوں کو مضبوطی سے تھام لوگے تو گمراہ نہ ہوگے‘‘۔ یہ حدیث صرف شیعہ نہیں سنیوں کی کتابوں میں بھی ہے، صحیح مسلم ، ترمذی وغیرہ صحاح ستہ میں شامل کتابوں میں بھی یہ حدیث موجودہے۔ اہل تشیع کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ و امام جعفر صادقؒ کا تعلق ائمہ اہلبیت سے تھا اور ہم حدیث کی پیروی کرتے ہوئے اپنے ائمہ اہل بیت کے مسلک پر گامزن ہیں۔ اہلسنت حضرت ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ اور معاویہؓ کو مان کر یہ حدیث نہیں مانتے۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ ، امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کو مانتے ہیں مگر امام جعفر صادق ؒ کو نہیں مانتے۔ اہلسنت کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ’’دو بھاری چیزیں چھوڑے جار ہا ہوں قرآن اور میری سنت ‘‘۔ موطا مالک کی اس حدیث کا تقاضہ ہے کہ قرآن و سنت کو ہی اطاعت کیلئے اپنامحور بنالیا جائے۔قرآن کا بار بار حکم ہے کہ ’’اطاعت کرو اللہ کی اور اسکے رسول کی ‘‘۔ ایک جگہ یہ ہے کہ ’’ جس نے رسول کی اطاعت کی تو بیشک اس نے اللہ کی اطاعت کی‘‘۔ قرآن اللہ کی وحی ہے ، اس وحی پر عمل وکردار کی مثالی شخصیت رسول ﷺ خود ہیں۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کا حکم قرآن میں ہے اور عملی کردار نبیﷺ کی سیرت طیبہ کو ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ رکوع وسجدہ ، روزہ اور طواف وحج کا حکم اللہ نے دیا مگر لوگوں کو خود کرکے نہیں دکھایا۔ رسول ﷺ نے احکام پر عمل کرکے دکھایا اور نبیﷺ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔ ایک جگہ اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’ اللہ کی اطاعت کرو، رسول کی اطاعت کرو اور تم میں سے جو اولی الامر ہیں ان کی اطاعت کرو، اگر کسی بات پر تمہارا تنازع ہوتو اللہ اور رسول کی طرف اس کو لوٹادو‘‘۔ اگرشیعہ کہیں کہ اولی الامر سے مراد ائمہ اہلبیت ہیں، آیت میں اولی الامر سے اختلاف کی گنجائش ہے توانہیں ماننا پڑیگا کہ ائمہ اہلبیت سے اختلاف رکھنے کی گنجائش انکے ا دوار میں بھی تھی، آج بھی ہے۔ حضرت علیؓ نے مسند پر بیٹھنے والے خلفاء کرامؓ سے اچھے تعلقات رکھے، امام حسنؓ نے معاویہؓ کے حق میں دستبرداری کا معاہدہ کیا، کربلا میں حضرت امام حسینؓ کو واپس جانے دیا جاتا تویہ سانحہ پیش نہ آتا اور مہدی غائب تک باقی ائمہ نے شہیدکربلا کا راستہ نہیں اپنایا بلکہ ایک امام تو کسی عباسی خلیفہ کے جانشین بھی مقرر ہوئے۔ پھر اختلاف و افتراق کی شدت کوکم کرنا پڑیگا۔ ائمہ اہلبیت سے زیادہ باایمان اور تقویٰ وکردار رکھنے والا کوئی علامہ اور ذاکر نہیں ہوسکتا ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے ’’ تقلیدکی شرعی حیثیت‘‘ کتاب میں قرآن کی آیت پرلکھا: ’’ اولی الامر سے مراد ائمہ مجتہدین ہیں،اختلاف سے مراد یہ نہیں کہ ان سے اختلاف ہوسکتا ہے بلکہ فان تنازعتم فی شئی سے علماء کے آپس کا اختلاف مراد ہے۔ احادیث میں علماء کے اٹھ جانے کی خبر ہے۔ ان ائمہ کے بعدجاہل علماء ہیں جو خود بھی گمراہ ہونگے اور دوسروں کو بھی وہ گمراہ کرینگے۔ علماء کا کام ائمہ کی تقلید کرنا ہے، اور عوام کا کام براہِ راست قرآن و حدیث کے احکام کی پیروی کرنا نہیں بلکہ علماء ومفتیان کے توسط سے قرآن و رسولﷺ کی پیروی ہے۔ عوام کی غلط رہنمائی ہوتو انکا مواخذہ نہ ہوگا‘‘۔ جس طرح شیعہ مسلک و اعتقاد میں قرآن کے حوالہ سے تضادات ہیں ، مہدی نے قرآن غائب نہیں کیا مگر اپنی منطق سے گمراہی کا شکار ہیں۔اسی طرح ہر دور کے درباری شیخ الاسلام نے مسلم اُمہ کو قرآن سے دور لے جانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ امام ابوحنیفہؒ نے جیل کی زندگی میں زہرکھاکر شہید ہونا قبول کیامگر اپنے فتوے سے رجوع نہ کیا کہ لونڈی کو بادشاہ کے باپ نے استعمال کیا ہو اور پھر بیٹا اس کیساتھ ازدواجی تعلق قائم کرسکے۔ جبکہ شیخ الاسلام کی طرف سے حیلہ بنالیا گیا کہ ’’ عورت کی گواہی کا انکار کرکے یہ تعلق قائم کرسکتا ہے ‘‘۔ اس پر بڑا معاوضہ بھی حاصل کیا گیا۔ مفتی تقی عثمانی کی طرف سے اپنے جاہل عوام کو کہا گیا کہ ’’ شادی بیاہ کی رسم میں لفافے کی لین دین سود ہے اور اسکے ستر سے زیادہ گناہ، وبال اور برائی میں کم از کم گناہ اپنی سگی ماں کیساتھ زنا کے برابر ہے‘‘ دوسری طرف معاوضہ لیکر سودکو جواز بھی فراہم کردیا ہے۔ تبلیغی جماعت کے کارکن اور رہنما شادی بیاہ کی رسم میں مفتی تقی عثمانی کے فتوے پر عمل نہیں کرتے مگرسود کادفاع کررہے ہیں۔ قرآن وسنت کے جھوٹے پیروکاروں کے منہ پر اللہ نے خوب طمانچہ مارا ہے۔ چاہے جو جس فرقہ ، جماعت اور مسلک کا لبادہ اُوڑھے وقال الرسول ربی ان قومی اتخذوا ھذا القرآن مھجورا ’’ اور رسول کہے گا کہ میرے ربّ! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘۔ درسِ نظامی میں علماء ومفتیان قرآن پر حملہ آور ہوکر پڑھاتے ہیں کہ ’’ تحریری قرآن اللہ کا کلام نہیں، یہ الفاظ اور معانی نہیں صرف نقوش ہیں‘‘۔ اسی وجہ سے صاحبِ ہدایہ ، شامی اور فتاویٰ قاضی خان میں لکھ دیاکہ’’ علاج کیلئے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے‘‘۔ علماء نے تردید کرنے کے بجائے تائیدکا سلسلہ اب بھی جاری رکھا ہواہے۔علامہ اقبالؒ نے کہا: خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق