پوسٹ تلاش کریں

الطاف حسین نے مشکل میں ایم کیو ایم کو چھوڑا جبکہ فاروق ستار نے ہر دور میں‌مقابلہ کیا. ارشاد نقوی

dr-farooq-sattar-or-mqm-ne-surah-fatiha-ko-peshab-se-likhne-ke-khilaf-awaz-uthai-aaj-halala-ke-masle-per-bhi-hum-awaz-hun

نوشتہ دایوار کے خصوصی ایڈیٹر ارشاد نقوی نے مشترکہ پریس کانفرنس کو اہل کراچی کیلئے خوش آئند قرار دیکر کہا کہ نکاح ابھی ٹوٹا نہیں ۔ اس میں تضاد نہ تھا کہ اتحاد کا نام ایم کیو ایم نہ ہوگا اور ایم کیوایم کی شناخت قائم رہے گی۔ قائدین چہرے بدلیں تو شناخت چھوٹے گی، ایم کیوایم کی مصنوعات قائدین کے چہرے بدلنے کے بغیر ممکن نہیں ۔ ڈاکٹر فاروق ستار کی ایم کیوایم میں بھی ہمیشہ اپنی شناخت رہی ہے اور ایم کیوایم پاکستان اب سیاسی پارٹی بن گئی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے سایہ میں ہی کوئی مافیا بن سکتاہے۔ جماعتِ اسلامی پر سایہ رہا تو کالج و یونیورسٹی میں جمعیت ایک مافیا تھی۔ طالبان یا جہادی و فرقہ وارانہ قائدین اسٹیبلشمنٹ کے بغیر مافیا نہیں بن سکتے تھے۔ ذوالفقارمرزا کی قیادت میں عذیربلوچ اور امن کمیٹی مافیا بن گئی لیکن عمران خان اسکے خلاف منہ نہیں کھول سکتا البتہ بندر کی طرح دم اٹھاسکتاہے۔ الطاف کی تعریف اسلئے نہیں کی جاسکتی کہ اسٹیبلشمنٹ کی چاکری کی لیکن مصطفی کمال جب تک پٹا نہ تھا الطاف بھائی پر جان نچھاور کرتاتھا، یہ بھی اسکا احسان ہے کہ ایم کیوایم کی قیادت کو پٹوادیا تھا تو یہ نیک بن گئے، اب ایک بننے میں بھی دیر نہ لگائیں اور کراچی کو امن کا گہوارہ بنائیں۔

بھٹو، مفتی محمود، مودودی، نورانی، ولی خان، غوث بزنجو اگر مزارعین کو مفت زمین دیتے تو انقلاب آچکا ہوتا

zulfiqar-bhuto-mufti-mehmood-moulana-moudodi-molana-noorani-wali-khan-ghous-baksh-baznjo-muzaareen-ko-muft-zameen-dete-to-inqalab-aa-chuka-hota

سیاسی قائدین اور رہنما بکتے نہیں تھکتے مگر ان کو پتہ نہیں کہ نظریہ کیا ہے؟۔ کارل مارکس کی کتاب ’’کیپٹل داس‘‘ نے بڑا انقلاب برپا کردیا ۔ اس میں ’’قدر زاید‘‘ کی بات ہے۔ ایک مزدور جتنی محنت کرے اور کسی باصلاحیت ڈاکٹر، کمپیوٹر اسپشلسٹ اورکاریگر وغیرہ میں صلاحیت ہوتی ہے ، ان میں یہ شعور اجاگر کرنا کہ تمہاری محنت و صلاحیت کا فائدہ سرمایہ دار اٹھالیتاہے اور تمہارے ساتھ یہ بڑا ظلم ہے۔ مثلاًٹھیکدار بلڈنگ ٹھیکہ پر لیکر 10کروڑ لگا کر ایک کروڑ کمائے ۔ مزدور اور کاریگروں کو سمجھایا جائے کہ اس نے پیسوں سے تمہاراحق چھین لیاتو اس سے بچنے کا علاج مُلا نہیں بتاتا ہے۔وہ پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری دینے کی بات کرے لیکن سرمایہ دار نے جو رقم وصول کرلی، اس کو جائز کہتا ہے۔ سود صرف قرض میں نہیں بلکہ نقد میں بھی ہے۔ محنت کش و باصلاحیت عوام کو دنیا میں سرمایہ داروں نے غلام بنایا۔ آزادی کیلئے کمیونسٹ اور سوشلسٹ نظام کو سمجھنا پڑیگا۔ جب سب کچھ سرکاری ہوگا تو محنت کش کو درست صلہ ملے گا، دنیا میں امن وسکون قائم ہوگا اور انسانیت کی بھلائی کے سب کام ہونگے۔ بڑے مخلص لوگ اس نظریہ کیلئے خود کو وقف کردیتے تھے۔
پیپلزپارٹی کے رہنما اور ملک کی سیاست کا بڑا اثاثہ قمرزمان کائرہ نے کہا کہ ’’ ہمارے ہاں جب تک بڑی بڑی گاڑیوں میں نہیں جاؤگے تو سائیکل ، موٹر سائیکل اور بیل پر سوار ہوکر جاؤگے توپھر کوئی بھی ووٹ نہ دیگا‘‘۔پہلی مرتبہ بینظیر بھٹو خود ساختہ جلاوطنی کے بعد آئی تھی تو لینڈ کروزر متعارف کرایا تھا، اسلئے عوام نے 1988ء کے الیکشن میں جتوا دیا تھا۔ حبیب جالب نے بھی گایا : ’’ ڈرتے ہیں بندوق والے اِک نہتی لڑکی سے ‘‘۔ پھر ISIنے نوازشریف و دیگر میں رقوم بانٹ کر1990ء میں اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت قائم کی۔ نوازشریف اور شہبازشریف نے ڈٹ کر پیسہ کمایا۔ کرپشن پر برطرفی ہوئی۔1993ء میں پھر پیپلزپارٹی آئی۔ لندن فلیٹ و منی لاندرنگ کی کہانی اسوقت سے چل رہی ہے۔ رحمن ملک فرشتہ کو پتہ تھا کہ مریم نواز کے نام پر سعودیہ اور دوبئی کی پراپرٹی بھیج کر فلیٹ خرید لیں گے۔ نوازشریف پارلیمنٹ کی تقریر میں کہے گا کہ 2006ءکو فلیٹ خریدے گئے اور 2011ءمیں مریم نواز جیو نیوز ثناء بچہ کے پروگرام میں کہے گی کہ’’ میری کوئی جائیداد نہیں ، اپنے والد کے پاس رہتی ہوں ، پتہ نہیں میری اور میرے بھائیوں کی کہاں سے یہ لوگ جائیداد نکال کر لائے ‘‘۔ جبکہ حسین نواز کہے گا کہ الحمدللہ لندن کے فلیٹ میرے ہیں ، اپنا کاروبار کرتاہوں، میری والدہ کے نام پر بھی بیرون ملک جائیداد ہے اور اس کا حساب میں میڈیا پر نہیں عدالت کو جاکر بتادوں گا۔ (میڈیا ریکارڈ)
لاہور میں 10لاکھ کی جگہ پر تحریک انصاف کے علیم خان اور سپیکر ایاز صادق کے درمیان الیکشن ہوا تو 50،50کروڑکی رقم لگائی گئی اور جہانگیر ترین نے ایک ارب روپیہ لگادیا۔ اب یہ سوچ پیدا ہوگئی کہ تحریکِ انصاف کے عمران خان ہیلی کاپٹر کے ذریعے جلسوں میں جائیگا اسلئے الیکشن میں اسی کو مزہ آئیگا۔اس کو جلدی بھی اسی لئے ہے۔ جسکے پاس پیسہ خرچ کرنے والوں کی اکثریت ہوتی ہے وہی الیکشن جیت جاتی ہے۔ پیسہ خرچ کرنے والا غریب اور نظریاتی نہیں بلکہ استحصالی طبقہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں سیاست کو تجارت بنالیاگیا۔ اسٹیبلشمنٹ بھی پیسوں کیلئے چھوٹے بڑے پیمانے پر بک جاتی ہے۔ جہاں سے پیسہ ملتاہے انہی کو سپورٹ کیا جاتاہے۔ کاروبارِ مملکت کے بڑے حصے کو سول وملٹری اسٹیبلشمنٹ بھی کھاتی ہے اسلئے مہروں کی تلاش جاری رہتی ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا مگر جس طرح طالبان کے نام سے عالمی قوتوں نے حکومت کا لالی پاپ دیکر علماء کرام کو ورغلایا تھا ،اسی طرح پاکستان کو بھی صرف استعمال کیا گیا مگر حقیقی نظرئیے کا یہاں کوئی نام ونشان نہیں تھا۔
قائداعظم محمد علی جناح بھی پہلے کانگریس میں تھے مگر ہندو تعصب نے مسلم لیگ کی طرف دھکیل دیا۔ کانگریس کے منشور میں یہ بات شامل تھی کہ انگریزوں کی دی ہوئی جاگیروں کو ضبط کرلیا جائیگا۔ نوابوں، خانوں اور سول بیروکریسی نے پاکستان کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا تو فوج نے اس پر قبضہ کرلیا۔ بھٹو کی عوامی قیادت بھی اسکے ڈیڈی ایوب خان کی مرہون منت تھی اور نوازشریف بھی جنرل ضیاء کی پیداوار ہیں۔ تحریک انصاف کا ناطہ بھی امپائر کی انگلی سے گھومتا ہے۔ اگر منظرنامہ بدل جائے تو شیخ رشید کہے گا کہ ’’عمران خان جیسا بیکار انسان میں نے نہیں دیکھا، خیبر پختونخواہ کی عوام کو پنجاب میں داخلے پر خوب پٹھوادیا مگر بڑی دہائیاں دینے کے بعد بھی عمران خان خود بنی گالہ کے پہاڑی سے نیچے نہیں اُترا۔ پاک فوج ضرب عضب کے سب سے مشکل آپریشن میں مشغول تھی اور عمران خان بے شرم ، بے غیرت اور ذلیل آدمی ایک طرف امپائر کی انگلی اٹھنی کی بات کر رہا تھا تو دوسری طرف پنجاب پولیس کو طالبان کے حوالہ کرنے کی بات سے بھی نہیں شرماتا تھا۔ عائشہ گلالئی ایک عورت ذات ہے اور اس نے عمران خان پر سنگین الزامات لگادئیے لیکن پھر بھی اسکے خلاف الیکشن کمیشن میں جارہاہے کہ اس نے شیخ رشید کو وزیراعظم کے الیکشن میں ووٹ نہیں دیا مگر خود نامزد کردیا اور پھر بھی عمران خان اور جہانگیرترین نے ووٹ دینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ عمران خان کا لیڈر بننا قیامت کی نشانی ہے‘‘۔
پاکستان کو اسلامی نظریہ دینے کی ضرورت ہے۔ زمین کی جائز ملکیت سے کمیونسٹ منع کرتے ہیں مگر اسلام منع نہیں کرتا۔ البتہ اسلام زمین کو مزارعت، بٹائی، کرایہ اور ٹھیکے پر دینے کو منع کرتاہے۔ نبیﷺ نے فرمایا: ’’ زمین کو خود کاشت کرو، یا جس کو کاشت کیلئے دو ، پوری محنت کاصلہ بھی اسی کا ہے‘‘۔ ابوحنیفہؒ ، مالکؒ اورشافعیؒ سب متفق تھے کہ نبیﷺ نے اس کو سود قرار دیا ہے اسلئے مزارعت جائز نہیں ۔ آج نوازشریف، شہبازشریف، آصف علی زرداری، شاہ محمود قرشی، مولانا فضل الرحمن، شیخ رشید، پرویزمشرف، جنرل اشفاق کیانی، افتخارمحمد چوہدری، مفتی محمد تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمن ، عمران خان، جہانگیر ترین اور دیگر تمام مذہبی وسیاسی رہنماؤں کو اپنے بال بچوں سمیت مفت میں زمین دی جائے کہ خود ہی کاشت کرو، سب محنت تمہاری ہے، پھر بھی وہ اپنے لئے جیل جانا پسند کرینگے مگر کاشتکاری کی محنت نہ کرینگے اور اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی ہوگا ۔ انشاء اللہ
اگر مزارعین کو کاشت کیلئے مفت میں زمینیں دی جائیں تو وہ اس سے زیادہ اور بڑی بادشاہی نہیں مانگیں گے۔ غلامی سے ان کو نجات مل جائے گی۔ اپنی محنت سے آزاد زندگی گزارینگے تو اپنی روٹی، کپڑا اور مکان کا بھی خود بندوبست کرلیں گے۔ اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے قابل بن جائیں گے تو وہاں سے بہت صلاحیت والی قیادت بھی ہر میدان میں قوم کے پاس آئے گی۔ قابل ڈاکٹر، قابل عالمِ دین، قابل سیاسی قائدین اپنے ملک کا نام روشن کرسکیں گے۔ بلاول بھٹوزرداری ، حسین وحسن نواز اور بڑے لوگوں کی نالائق اولاد اپنے قوم کے سر نہیں لگے گی۔ جنکے اندر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھنے کے باوجود کوئی صلاحیت آئی ہے اور نہ آسکتی ہے۔ ان موٹے تازے لوگوں سے زمینوں کی کاشت کاری کا کام لیا جائے تو ان کی صحت بھی بنے گی اور کچھ نہ کچھ دماغ بھی کام کرنے کے قابل بنے گا۔
جب زمین کاشت کرنے کا اچھا معاوضہ ملے گا تو مزدور کی دھاڑی بھی مارکیٹ میں خود بخود بڑھ جائے گی۔ شہروں کا باصلاحیت طبقہ بیروزگاری کے سبب لوٹ ماراور ورادتوں میں ملوث ہونے کے بجائے دیہاتی بچوں کو پڑھانے جائیگا۔ جاہل طبقہ زمین کاشت کرنے کا رخ کریگا۔ تعلیمی اداروں کا خواب پورا کرنے کیلئے چندوں کی ضرورت نہ پڑیگی۔ لوگ خود تعلیم پر خرچہ کرینگے۔ تعلیم سب سے زیادہ باعزت اور باوقار پیشہ بن جائیگا تو ایک بہترین نصاب تعلیم اور اچھے تعلیمی اداروں کا قیام بھی عمل میں آئیگا۔ دنیا روزگار کی تلاش میں یہاں آئیگی تو امن وامان کے گہوارے پاکستان میں دنیا بھر سے لوگ یہاں سرمایہ کاری بھی کرینگے۔ پاکستان انقلاب کا تقاضہ کررہاہے۔
اتنی موٹی سی بات سمجھنے میں دشواری نہیں کہ جوجاگیردار و سرمایہ دار ، سول وملٹری اسٹیبلشمنٹ کے افسران اور سیاستدان یہ نہیں چاہتے کہ وہ مفت میں زمین لیکر خود اور اپنے بچوں کو اس کام پر لگادیں۔ خدارا، دوسرے لوگوں کیلئے اتنا ضرور کریں کہ وہ اپنے بچوں سمیت اس کو بادشاہی پرسمجھ کر خوش ہوجائیں۔ یہ کتنی شرم کی بات ہے کہ جو کمائی اپنے لئے سخت سزا لگتی ہو اور یہ سزا دوسرے کیلئے نعمت ہو،تب بھی اسکا رائج کرنا منظور نہ ہو؟۔ 2018ء کے انتخابات کیلئے حدیث اور ائمہ کے متفقہ مسلک کو بنیاد پر مزارعت کا نظام ختم کیا جائے توبڑا انقلاب آجائیگا۔ نظریاتی سیاست کی بڑی بنیاد یہی ہوسکتی ہے۔
جب پاکستان کی فضاؤں سے غلامانہ غیر اسلامی نظام کی بنیادیں ہل جائیں گی تو غیرمسلم بھی پکار اُٹھیں گے کہ دنیا بھر کی زمین میں تمام انسانیت کو ایسا نظامِ حکومت چاہیے۔ اسلام نے مسلمانوں پر زکوٰۃ اور غیرمسلموں پر ٹیکس کا نظام رائج کردیا تھا۔ نفع ونقصان کی بنیاد پر سود کے بغیر زبردست تجارت ہوسکتی ہے اور اب دنیا اسکی طرف آرہی ہے تو ہم نے زیادہ سے زیادہ سود کو اسلامی بینکاری کا نام دیدیا ہے۔ اگر ائمہ اجل کے مؤقف سے انحراف نہ کیا جاتا تو روس اور امریکہ دونوں اسلامی حکومت کے دروازے پر ڈھیر رہتے۔ اسلامی نظام میں تحریف کے سبب ایک طرف روس نے کمیونزم اور دوسری طرف امریکہ نے کیپٹل ازم کے اندر دنیا کو جکڑ لیا اور ہم دوسروں کے ہاتھوں میں بری طرح استعمال ہوگئے ۔ ہم نے لیفٹ رائٹ کے چکر سے نکل کر عدل واعتدال کی راہ صراط مستقیم پر چلنے کی قسم کھانی ہے۔
سیاسی نظریہ دینا فوج کا کام نہیں، اس نے اپنی ڈیوٹی کے وقت اپنی نوکری کرنی ہے۔ نظریاتی آدمی پہلے فوج میں جانہیں سکتا اور اگر جائے بھی تو فوج کیلئے شرمندگی کا باعث بنتاہے۔ البتہ قحط الرجال میں جنرل ایوب، جنرل ضیاء اور پرویز مشرف بھی نظریاتی گئے۔ اگر فوج کسی جماعت، تنظیم ، پارٹی اورتحریک کی ماسٹر مائنڈ ہو تو پھر بہتر ہے کہ وہ کسی کٹھ پتلی اور جعلی قیادت کے بجائے خود ہی اقتدار پر قبضہ کرکے بیٹھ جائے۔ المیہ یہ ہے کہ کوئی نظریاتی انسان پیدا نہیں ہوا، ورنہ وہ کسی کیلئے کام کرنے کے بجائے سب کو اپنے نظریہ پر لگانے کی صلاحیت رکھتاہے۔ ہماری عوام کو یہ پتہ بھی نہیں کہ قائداعظم نے کوئی بھی نظریہ ایجاد نہیں کیا تھا بلکہ جب انگریز یہاں سے جارہاتھا تو اس سوچ کی مخلصانہ قیادت کی تھی کہ دوقومی نظرئیے کی بنیاد پر ملک کو تقسیم کرنا چاہیے۔ مشرقی پاکستان کی آبادی ہم سے زیادہ تھی اور اردو زبان ہندوستان سے آنیوالے مسلمانوں کی زبان تھی جس کو آج الیکٹرانک میڈیا کی بدولت پاکستان کی اکثریت سمجھ رہی ہے۔ قائداعظم کو خود بھی اردو نہیں آتی تھی۔ بنگلہ دیش نے ہم سے آزادی حاصل کرلی اور اپنے پڑوسی ممالک ایران و افغانستان سے ہمارے تعلقات کبھی شاندار نہیں رہے تو دوقومی نظریہ بھی عملی طور سے دفن ہوگیاہے۔ اسلام قوم نہیں بلکہ نظریہ ہے اور نظریہ بھی ایسا ہے جو انسانیت کیلئے بھی قبول ہوسکتاہے۔
ایک ہوں مسلم ہوں حرم کی پاسبانی کیلئے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر
اسلام پاکستانی قومیت کی بنیاد پر سرمایہ دارانہ نظام کو تحفظ دینے کی لعنت کا نام نہیں اور نہ دوسروں کیلئے آلۂ کار کے طور پر استعمال ہونے کا نام اسلام ہے۔ ہاں ہم مختصر اسٹیبلشمنٹ سے آزاد نہ ہوسکے تو متحدہ ہندوستان میں رہ کر کونسا تیر مارتے؟۔
پاکستان کی سرزمین، پاکستان کی عوام، پاکستان کی فوج، پاکستان کی سول بیوروکریسی، پاکستان کے علماء ومفتیان بہت اچھے اور شاندار لوگ ہیں۔ یہ ان کی اچھائی کی مضبوط دلیل ہے کہ یہاں نظریات اور عقائد پر کوئی پابندی نہیں۔ جب کسی نے اچھا نظریہ پیش نہیں کیا۔ اسلام کو طلاق اور حلالہ کا پیش خیمہ بنادیا تو کون پاگل مزید اس کی تلاش اور تگ ودو میں اپنا وقت ضائع کرتا؟۔ ایوب خان نے عائلی قوانین بنائے تھے تو اس کو اسلام کے خلاف سازش کانام دیا گیا تھا۔قرآن وسنت پر کسی فرقے ، مسلک اور جماعت کا اتحاد ہی نہیں ، بس پیٹ کے جہنم کو بھرتے بھرتے مذہبی طبقے کی زندگی ایکدوسرے کی دشمنی میں گزر جاتی ہے اور عوام کہتے ہیں کہ یہ دینداری، یہ تعصب اور یہ جاہلانہ طرزِ عمل تمہی کو مبارک ہو۔ مولوی خود بھی زمینداروں اور سرمایہ داروں کے ہاں چندوں کے وصول کیلئے کمیوں کی طرح رہتے ہیں۔ مجلس عمل کی حکومت آئی تھی اور علماء سے اسمبلی بھری ہوئی تھی مگرمذہبی جماعتوں نے وزیراعلیٰ اکرم درانی بنادیا تھا۔
اسلام کا ہتھیار کے طور پرذاتی مقاصد کیلئے استعمال بہت بُرا ہے۔ مولوی نے سمجھ رکھاہے کہ دنیا میں ویسے بھی اسلام نہیں آسکتا تو مسلکی تعصب کے نام پر اپنی قسمت بنالو۔ جس طرح پاکستان اسلام کے نام پر بنا مگر اسلام نہ آیا۔ طالبان کی حکومت نے اسلام کیا انسانیت کا بھی بیڑہ غرق کیا اور ایران کے اسلامی انقلاب نے کوئی تاثیر نہیں دکھائی ،دوسرے ممالک میں زیادہ پیسہ خرچ کرکے دہشت گردی کی بنیاد رکھ دی اور سعودیہ نے دوسروں کو اپنے حق حلال کمائی سے بھی جب چاہا، محروم کردیا اور کوئی بھی ایسا اسلامی ملک نہیں جہاں اسلامی نظام قائم ہو۔
اسلام کے نام پر اسلام آباد اور اقتدار چاہیے تو اسلام کے نام کو استعمال کرنے کی ضرورت نہیں۔ اقتدار یزید کے پاس ہو لیکن اسلام کے مضبوط اقتصادی اور معاشرتی نظام سے دنیا بھر میں زبردست پذیرائی مل سکتی ہے۔ وقت کی سپر طاقتوں روم وفارس کو اسلامی افواج نے شکست اسلئے نہیں دی تھی کہ عرب اور مسلمان بڑے بہادر تھے بلکہ اسلامی نظام کی حیثیت ایسی تھی جس کو دنیا کی عوام میں پذیرائی مل رہی تھی۔
آج دنیا سے مزارعت اور سودی نظام کا خاتمہ کرنے کیلئے پاکستان سے ابتداء ہوجاتی ہے تو روس، چین ، یورپ، امریکہ، چاپان، آسٹریلیا اور دنیا بھر کے مسلم وغیرمسلم ممالک ہمارا نظام اپنے ہاں بھی رائج کردینگے۔ کارل مارکس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ’’ قومی حکومت ہو اور محنت و صلاحیت کی بنیاد پر سب اپنا اپنا کمائیں اور کھائیں۔ دوسرا یہ کہ لوگ کمائیں اپنی محنت اور صلاحیت کے مطابق لیکن پیسے اپنی ضرورت کے مطابق لیں‘‘۔ اسلام نے مذہبی روح کے مطابق ایمان، انسانیت اور آخرت کا جذبہ اجاگر کرکے اعلیٰ ترین حکومت کی مثال قائم کردی۔ ابوبکرؓ نے خلافت کا منصب سنبھالا تو تجارت کیلئے نکلے، ساتھیوں نے کہا کہ معقول معاوضہ مقرر کردیتے ہیں اسلئے کہ حکومت پر مکمل توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جب کافی عرصہ ہوا، اور گزارے کے قابل وظیفہ پر عمل ہورہاتھا تو بیگم صاحبہؓ نے ایک دن کچھ میٹھا سامنے رکھ دیا اور کہا کہ روزانہ تھوڑی تھوڑی بچت سے اس کی گنجائش نکلی ہے۔ حضرت ابوبکرؓ وہ مٹھائی لیکر گئے اور اتنا وظیفہ بھی کم کیا جتنی بچت کرکے میٹھا بنایا تھا۔ عمرؓکا دور آیا تو حضرت عمرؓ نے اپنے لئے درمیانہ درجے کا وظیفہ مقرر فرمایا۔
جدید ریاستی نظام اور اقوام متحدہ کی سربراہی نے اقوام عالم اور انسانیت کے مسائل کا کوئی خاطر خواہ حل نہیں نکالا ہے۔ قرآن نے ایک قائدہ بتایا ہے کہ ’’ جوچیزانسانیت کیلئے نفع بخش ہوتو وہ زمین میں ٹھکانہ بنالیتی ہے اور باقی جھاگ کی طرح خشک ہوجاتی ہے‘‘۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا :’’ بہترین لوگ وہ ہیں جو لوگوں کو نفع پہنچائیں‘‘۔ جدید علوم قرآن وسنت ہی کا تقاضہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں پر انسان کو علم کی وجہ سے بلند درجہ دیا اور اس کو زمین میں خلیفہ بنایا۔ اللہ نے فرمایا:’’ اللہ کے پاس ساعۃ کا علم ہے، وہ بارش برساتاہے، اور جانتا ہے جو کچھ ارحام میں ہے، کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا حاصل کریگا اور کس زمین پر وہ مریگا‘‘۔ حدیث میں ہے کہ ’’یہ پانچ غیب کی چابیاں ہیں‘‘۔
ان پانچ چیزوں میں پہلی 3چیزوں کی اللہ نے دوسروں کی نفی نہیں کی ۔ پہلی چیز ساعۃ کا علم ہے۔ عربی میں وقت اور اس کی اکائی کو بھی ساعۃ کہتے ہیں اور قیامت کے دن کو بھی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر اس سے قیامت مراد لی جائے تو پھر اس کا تعلق قرآن میں بیان کردہ چوتھی چیز سے ہوگا۔ کل کے علم کی اللہ نے نفی کردی ۔ عربی میں گھنٹہ،لمحہ کو بھی ساعۃ کہتے ہیں مگراس کا اطلاق کل پر نہیں ہوتا ۔ گویا دونوں باتیں بھی الگ الگ ہیں اور نبیﷺ نے ساعہ کو غیب کی چابی کیوں قرار دیا؟۔معراج کا سفر جس ساعہ(لمحہ) میں طے ہوا، اور اللہ نے سورۂ معارج میں فرشتوں اور جبریل کے چڑھنے کے سفر کی مقدارایک دن کے مقابلے میں 50ہزار سال قرار دی ہے تو غیب کی چابی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتاہے۔ ایک عرصہ تک علماء کے اندر بھی اختلاف رہا کہ سفر روحانی تھا یا جسمانی؟۔ اب بھی پڑھے لکھے جاہل سفر معراج کو خواب قرار دیتے ہیں۔
سرسید احمد خان، غلام پرویز اور جاوید غامدی جیسے لوگوں کو چاہیے تھا کہ معروف سائنسدان البرٹ آئن سٹائن کا دریافت کردہ نظریۂ اضافیت ہی دیکھ لیتے، جس میں تیزرفتاری کے بعد وقت کی پیمائش کا پیمانہ ریاضی کے طے شدہ اصول کے تحت بدل جاتاہے۔ قرآن وسنت کی تفسیر زمانہ نے بقول ابن عباسؓ کردی ہے۔ نظریۂ اضافیت کی سمجھ تک رسائی مشکل ہے تو دن رات کی مثال دیکھ لو جس سے زمین کا محور کے گرد گھومنے کا علم حاصل ہوا اور ماہ وسال کی مثال سمجھ لو، جس سے موسموں، سردی گرمی اور زمین کا سورج کے گرد گھومنے کا علم حاصل ہوا۔ ساعہ کا علم غیب کی چابی وقت نے ثابت کردی ۔ قرآن وسنت واضح تھے۔
قرآن میں دوسری چیز بارش کا برسنا ہے۔ اللہ نے بادلوں کو بھی مسخرات کہا ۔ کائنات کی ہر چیز سورج اور چاند انسان کیلئے مسخر ہیں۔ بارش سے آسمانی بجلی اور برفانی اولے کا تصور تھا تو انسان نے بجلی کو مسخر کرکے اس غیب کی چابی سے نئی دنیا آباد کرلی۔ قرآن میں تیسری چیز ارحام کا علم غیب کی تیسری چابی ہے، اسکی بھی قرآن میں نفی نہیں۔ ارحام کاتصور صرف انسان ، حیوان اور نباتات تک محدود نہیں بلکہ جمادات کے ایٹم بھی اس میں داخل ہیں۔ غیب کی اس چابی نے فارمی حیوان اور نباتات میں بڑا کمال کے علاوہ ایٹمی توانائی اور الیکٹرانک کی دنیاکو بھی آباد کردیاہے۔ اسلام دیگر مذاہب کی طرح سائنسدانوں کیلئے رکاوٹ پیدا نہیں کرتا بلکہ اس کابہترین معاون ہے۔
آنیوالاکل ترقی وعروج کی نئی خبرلیکر آئے تویہ حقیقت ہے کہ علم وتبدیلی کے کمالات کی کوئی انتہاء نہیں اور آدمی فانی ہے۔
زمین پر محنت کرنیوالے کاشتکار کو محنت کا پورا پورا صلہ ملے تومزدور کی کم زکم دھاڑی بھی دگنی ہوجائیگی۔ پانی کی موٹر کے بارے میں ہارس پاور کا جوتصور ہوتا ہے اگر مزدوری کی ایک ویلو بنائی جائے۔ ترقیاتی دور میں حکومت مزدور کی بنیادی ویلو زیادہ سے زیادہ بڑھاسکتی ہے۔پھر محنت، تجربے و صلاحیت سے کئی گنا زیادہ دھاڑی حاصل کرنے کی مسابقت ہوتی ،جس کی بنیاد پر محنت و صلاحیت میں نکھار پیدا ہوتااور دنیا میں ایکدوسرے سے آگے بڑھنے، انسانیت کی خدمت اور نفع بخش چیزیں بنانے میں ایک مثبت کرداربھی ہوتا ۔ دنیا کی ترقی کیساتھ ساتھ انسانیت بھی ترقی کرتی۔ ایک طرف اشتراکیت کا غیرفطر ی نظام چاروں شانوں چت ہواتو دوسری طرف سرمایہ دارانہ نظام اپنے انجام کو پہنچ رہاہے،اللہ کا نور اسلام فطری ہے۔
اسلام کو اشتراکیت کے خلاف دنیا نے ہتھیار کے طور پر استعمال کرلیا اور اب جب سرمایہ دارانہ نظام کو شدید خطرات کا سامنا ہے تو سودی نظام کو مشرف بہ اسلام کردیا ہے۔ کچھ لوگ نظریاتی بنیاد اور کچھ اپنا ذریعہ معاش سمجھ کر کسی نہ کسی کی پراکسی لڑ رہے ہیں۔جس طرح پاکستان بنانے میں اسلام کا جذبہ کارفرما تھا اور طالبان اسلامی جذبے سے بنے اور ایرانی انقلاب بھی اسلامی جذبے سے بن گیا مگر خود اسلام اجنبیت کا شکار تھا توان لوگوں کے جذبوں کا قصور نہیں تھا بلکہ مولوی، مذہبی طبقے اور عوام کا قصور تھا کہ قرآن کا ترجمہ دیکھ کر اسلامی معاشرت قائم نہ کی۔
پاکستان میں پانی کے بہاؤ سے فائدہ اٹھایا جاتا تو پینے اور زرعی مقاصد کے علاوہ سستی بجلی اور صحت کی حالت بہتر ہوتی ۔ اسٹیبلشمنٹ نے لوہے کے بٹے سے شریف فیملی کو اٹھاکر اقتدار سپرد کردیا جو ساہیوال جیسی زرخیز زمین میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے کارخانے لگارہے ہیں ۔محمود خان اچکزئی ایک الیکٹریکل انجنئیر ہیں۔وہ بتاتے کہ آلودگی کے بغیر سستی بجلی پیدا کرنے کا طریقہ کیاہے۔ وزیرصنعت و پیداوار، وزیر پانی وبجلی اور وزیرماحولیات خود اپنے شعبے میں ماہر ہوتے، ایکدوسرے سے ان کا کنکشن ہوتا اور ایک چھوٹی سی سرزمین پاکستان کو ایک گھر کی طرح سمجھا جاتا تو پاکستان اور قوم کی حالت بہتر ہوتی۔
صنعتوں کیلئے کراچی سے گوادر اور بلوچستان کے غیر آباد بنجر علاقوں کو آباد کرنے کی ضرورت تھی اور تیز رفتار ٹرینوں سے آبادیوں کو صنعتی علاقوں سے ملانے میں دشواری نہ تھی۔ پنجاب وسندھ اور پختونخواہ و بلوچستان کے زرخیز علاقوں کو وسیع ڈیموں اور نہری نظام سے آباد کیا جاسکتاہے۔ علماء ومفتیان نے اسلام اور مسلمان کیساتھ بہت برا سلوک روا رکھا اور حکمرانوں اور سیاستدانوں نے نظام اور پاکستان کا برا حال کردیا۔دونوں کو درست راستے پر لایا جائے تو بات بنے گی۔ نام نہاد شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری و نام نہاد مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی نے اپنی اپنی کتابوں میں رسول ﷺ کی احادیث اور آنیوالے بارہ اماموں کے بارے موجود وضاحتوں میں بدترین خیانت کا ارتکاب کیا۔ حالانکہ اس نقشہ کی وجہ سے اُمت کاعظیم اتحاد عمل میں آسکتاہے۔ جس سے شیعہ گزشتہ لوگوں پر طعن تشنیع بالکل بند کردینگے۔ جب بارہ امام کی احادیث کا کوئی درست جواب نہیں ملتا تو انکے لہجے کی شدت بڑھ جاتی ہے۔ یہ نقشہ ، قرآن وسنت کے احکام اور مدارس کے نصاب کی درستگی کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ ایک زبردست اسلامی انقلاب برپا ہوگا۔ مزارعت کے جوازاور سود ی نظام کا فتویٰ ہی واپس لینا ہوگا۔علماء ومفتیان کی طرف سے قرآنی و سنت کے مطابق رہنمائی سے مدارس اور مساجد کی قدرومنزلت بڑھ جائے گی اور معاشرے میں اسلامی انقلاب سے پوری دنیا بھی خلافت کا نظام قبول کریگی۔ گیلانی

حاجی عثمان مجدد تھے اور ہم نے تجدیدی کارنامہ کردکھایا. عتیق گیلانی

haji-usman-tabligi-jamat-ke-akabir-or-tariqat-k-khalifa-thhe-mujjadid-thhe-hum-ne-tajdidi-karnam-kr-dikhaya

حاجی محمد عثمانؒ پر فتویٰ لگنے سے پہلے دیوبندی،اہلحدیث اور خاص طور پر تبلیغی بڑی تعداد میں بیعت تھے۔ حاجی عثمانؒ تصوف کو ولایت صغریٰ اور شریعت و تبلیغ علماء ونظام خلافت کو خلافت کبریٰ سے تعبیر کرتے۔ مسجدنور جوبلی کراچی میں بریلوی مکتب فکر کے مولانا شفیع اوکاڑی امام وخطیب تھے۔ ایک مرتبہ متولی نے ان کو منبر سے اُتارا، حاجی عثمانؒ کو منبر پر بٹھادیا اور مولانا اوکاڑی سے کہا کہ سنو، تقریر ایسی ہوتی ہے۔ حاجی عثمانؒ نے دین کو زندہ کرنیکا احساس جگایا۔ تصوف کے شہسوارکی زباں میں ایمان کی روشنی، یقین کا کمال، تقویٰ پرہیزگاری کا چراغ اور اللہ سے تعلق کی مضبوط رسی، دنیا سے بے نیازی اور بہت کچھ ہوتا ہے جو حال سے محسوس کیا جاسکتا مگر الفاظ میں اسے بیان کرنا ممکن نہیں ۔ہر صدی پر مجددآئیگا تو حاجی امداد اللہ ؒ نے تجدیدی کارنامہ انجام دیا ۔ مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ کے مرید مولانا الیاسؒ نے تبلیغ کا کام شروع کیا۔ مولانا احتشام الحسنؒ انکے ساتھی اور خلیفہ تھے۔اگر ان کو امیر بنایا جاتا تو آج حاجی عبد الوہاب اور مولانا الیاسؒ کے پڑ پوتے میں اختلاف نہ ہوتا۔ حاجی عثمانؒ حاجی عبد الوہاب سے بھی پہلے کے اکابرین میں شمار ہوتے تھے۔
تبلیغی جماعت کی بڑی خوبی یہ ہے کہ اسٹیٹس کو اس میں ٹوٹتی ہے۔ بڑے افسر، تاجر، حکمران، مولانا اور پیرطریقت کو اپنا بستر پیٹھ پر لاد کر گلی، کوچے، محلے، شہر، بستی، ملک و بیرون ملک سردی وگرمی میں گھومنا پڑتاہے۔ اصلاح کیلئے سہ روزہ، عشرہ ، چلہ اور چارماہ لگانے کی مشق کارگر ہے۔ دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث اس غیرمتنازعہ تبلیغی کام سے بڑی محبت رکھتے تھے۔ حضرت جی مولانا یوسفؒ کی یادگار تقریروں میں وفات سے 3 دن پہلے کی آخری تقریر’’ اُمت کے جوڑ‘‘پرکہاکہ’’ حضرت سعد بن عبادہؓ جو ایک جلیل القدر صحابی اور انصار کے سردار تھے مگرخلافت کے مسئلہ پر ناراض تھے اور امت کیلئے توڑ کا باعث بنے، اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی نہیں بخشا اور جنات نے ان کو قتل کردیا تھا‘‘۔
مولانا سید سلیمان ندویؒ کے خلیفہ مولانا اشرفؒ اسلامک ڈیپارٹمٹ پشاور یونیورسٹی کے چیئرمین تبلیغی جماعت کی سر گرمی میں حصہ لیتے تھے۔ ان کی3 باتوں سے حقائق کھلیں گے 1: کہا ’’ اب تو تبلیغی جماعت کے لنگر کی دال اچھی ہے۔ پہلے ایک من پانی میں ایک کلو دال ڈالتے تھے اور لوگ روٹیوں کے ٹکڑوں سے کشتیاں بناکر دانوں کا شکار کرتے تھے‘‘۔عوام وخواص کی اصلاح کیلئے اس لنگرکا کھانا بھی کافی تھا ،پھر خواص کیلئے الگ کھانے کا اہتمام کیا گیا۔ 2: مولانا اشرفؒ نے کہاکہ’’ ایک مرتبہ ہماری جماعت پنجاب میں بریلوی کی مسجد میں گئی۔ وہاں کے امام نے کچھ لوگ بٹھا دئیے اور جب میں رسول اللہﷺ کی شان بیان کررہاتھا تو امام صاحب کہہ رہے تھے کہ بندہ ٹھیک جارہا ہے۔طائف کے واقعہ کو بیان کیا اور جب یہ کہا کہ اللہ کو اپنا دین اتناپسند ہے کہ طائف میں نبیؐ کے خون کو بھی بہادیا۔ تو امام صاحب نے کہا کہ اب یہ پٹری سے اترگیااور انکو مسجد سے باہر پھینک دو، تو ہمیں بستروں سمیت مسجد سے باہر پھینکا گیا‘‘ یہ واقعہ دیوبندی بریلوی چپقلش کا شاخسانہ ہے۔ یہ نکتہ بھی بیان ہوسکتا تھا کہ کعبہ بتوں سے بھرا تھا، طائف کے لوگ شرک میں عرصہ سے ملوث تھے لیکن اللہ نے عذاب کا فیصلہ نہیں کیا مگر جب طائف والوں نے نبیﷺکا خون بہادیا تو اللہ نے طرح طرح کے عذاب نازل کرنے کیلئے فرشتے بھیج دئیے۔ شرک کی بات پر اللہ نے نہیں پکڑا مگر نبیﷺ کا خون بہانازیادہ برا لگا۔ حضرت حاجی محمد عثمانؒ فرقہ واریت کا ناسور زبردست اندازمیں ختم کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ دیوبندی بریلوی توحیدو رسالت کو اس انداز سے بیان کرتے ہیں جیسے اللہ و رسولﷺ میں جھگڑا ہو رہاہے اور یہ وکالت کررہے ہوں۔ توحید کو اسطرح بیان کرنا کہ شانِ رسالت ﷺ میں گستاخی ہو ، غلط ہے۔ بے ادبی توحید نہیں اور شانِ رسالت ﷺ کو ایسا بیان کرنا غلط ہے کہ توحید میں شرک کی آمیزش ہوجائے،شرک کوئی ادب نہیں ہے۔ 3:مولانا اشرفؒ نے کہا ’’ تبلیغی جماعت میں وقت لگانے والا کہہ رہاتھا کہ میں نے چار ماہ میں وہ کمایا جوسید عبدالقادر جیلانی نے زندگی بھر میں نہیں کمایا، جو خواجہ معین الدین چشتی نے نہیں کمایا۔۔۔ ۔۔۔بڑے بڑے اولیاء اور علماء نے نہیں کمایا۔جب وہ یہ کہہ رہاتھا تو میں نے اس کو زبان سے کچھ نہیں کہا مگر دل میں سوچا کہ ان میں کسی نے اتنا تکبر نہیں کمایا جتنا تم نے کمایا‘‘۔ بس تبلیغی جماعت کو اس رویہ سے حاجی عثمانؒ روکتے رہے ہیں۔
ایک طرف انسان اپنی تدبیر کرتے ہیں اور دوسری طرف اللہ بھی اپنی تدبیر کرتاہے۔ جمعہ کے دن چھٹی تھی ، جمعرات کے دن تبلیغی جماعت کا شب جمعہ ہوتاتھا۔ حاجی عثمانؒ نے مریدوں کے اجتماع کیلئے اتوار کا دن رکھا، تاکہ مقابلہ کی بات نہ ہو۔ جمعہ کے دن مسجدنور جوبلی میں عوام سے وعظ ہوتا تھا جس میں لوگوں کو تبلیغی جماعت کی باقاعدہ دعوت دیتے تھے۔ پھر تبلیغی جماعت کے بعض افراد کی طرف سے غلط پروپیگنڈے کا نتیجہ تصادم کی صورت اختیار کرنے لگا تو حاجی عثمانؒ نے اعلان کردیا کہ اس کشمش سے بچنا ضروری ہے۔ جو تبلیغی جماعت ہی میں کام کرنا چاہے ، میری طرف سے مریدی کی بیعت توڑنے کی اجازت ہے اور میں ناراض نہ ہونگا تاکہ یکسوئی کیساتھ وہ وہاں اصلاح کا کام کرسکے۔ جو مرید بن کے رہے گا تو وہ وہاں نہیں جائیگا۔ میں کچھ لوگوں کو تیار کرکے رائیونڈ بھیج دوں گا تاکہ ان کو پتہ چلے کہ اصلاح کیسی ہوتی ہے۔ اس اعلان کے بعد کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو حاجی عثمانؒ کے بہت عقیدتمند مریدتھے مگر سخت مخالفت پر اُتر آئے۔ تبلیغی جماعت میں مخالف عناصر کو بڑا موقع ہاتھ آیا کہ حاجی عثمانؒ کے خلاف خوب کھل کرکھیل کھیلیں۔
اس سے پہلے حاجی عثمانؒ کے مریدوں طیب، جاوید اور ابراہیم نے 1500روپے سے مشترکہ چائے کا کیبن شروع کیا توحاجی عثمانؒ کی دعا سے کاروبار خوب چمک گیا،کچھ بیواؤں اور یتیموں کو بھی شریک کیا گیا توکاروبار میں مزید برکت ہوئی۔یہ دیکھ کر علماء ومفتیان نے بھی شرکت کی تمنا کردی۔ حاجی عثمانؒ نے کہا کہ علماء ومفتیان کی رہنمائی پر شرعی کاروبار کیا جائے اور کاروبار سے ملنے والے منافع کودین کیلئے وقف کرنے کی نیت کی جائے۔ ٹی، جے ، ابراہیم کے نام سے یہ مضاربہ کمپنی عوام وخواص میں بہت مقبول ہوئی۔ یہانتک کہ اس کاسودی نظام کے متبادل کے طور پر خواب دیکھا جانے لگا۔ تبلیغی جماعت نے اخبار میں اشتہار دیدیا کہ ’’ ہمارا اس کاروبار سے تعلق نہیں ‘‘۔ لیکن کراچی کے بڑے مدارس کے بڑے علماء ومفتیان بڑے پیمانے پر اس کیلئے کام کررہے تھے۔ جنکے نام پر کمپنی تھی ان کا بھی تبلیغی جماعت سے کوئی تعلق بھی نہ تھا۔
حاجی عثمانؒ نے اشتہار دیکھ کر حکم دیا کہ یہ کاروبار بند کردیا جائے، اسلئے کہ تبلیغی جماعت کی ناراضگی قبول نہ تھی اور کاروبار کیلئے سب اپنا اپنا راستہ ناپ سکتے تھے۔ یتیموں و بیواؤں کا اللہ رازق ہے ۔ علماء ومفتیان نے مشورہ دیا کہ تمہارا مرشد اللہ والا آدمی ہے، تبلیغی جماعت والے کون ہیں؟۔ نام کو بدل کر یہ کاروبار جاری رکھیں۔ چنانچہ کاروبار کا نام ’’الائنس موٹرز‘‘ رکھ دیا گیا۔ اللہ کا کرنا تھا کہ جب تبلیغی جماعت سے روکنے پر بعض تبلیغی عناصر نے زبردست پروپیگنڈہ شروع کیا تو علماء ومفتیان نے کھل کر حاجی عثمانؒ ہی کا ساتھ دیا۔ دارالعلوم کراچی اور مفتی رشید احمد لدھیانویؒ نے تبلیغی اکابر کی طرف سے کشتئ نوح قرار دینے وغیرہ پر بھی فتوے لگائے۔ مولانا حکیم اخترؒ نے 1986 ؁ء میں تبلیغی جماعت کے خلاف بنگلہ دیش میں تقریر کی تھی جو کتابی شکل میں شائع ہوچکی ہے۔جس میں تحریر ہے کہ علماء کرام حفظ کیساتھ تعلیم مکمل کرکے 13سال کا چلہ لگاتے ہیں، اگر تبلیغی یہ کہتے ہیں کہ اب اللہ کی راہ میں عملی طور سے نکلنا چاہیے تو یہ علماء کی توہین ہے اور اس پر کفر کا فتویٰ ہے۔ پھر اسی کتاب میں حکیم اختر ؒ نے خودبھی علماء کی توہین کی ہے۔ کہا کہ’’علماء بیعت ہوں میں شرماؤں گا بھی نہیں اور گھبراؤں گا بھی نہیں۔ قیمتی عطر کیلئے وہ بوتل نہیں لیا جاتا ، جس پر کتے بلی کی پوٹی لگی ہو‘‘۔حاجی عثمانؒ کی وجہ سے حکیم اخترؒ میں جرأت پیدا ہوئی تو علماء کی بجانے لگے۔
حکیم اختر ؒ باقاعدہ عالمِ دین نہ تھے اور حاجی عثمانؒ بھی عالم نہیں تھے۔ یہ فرق تھا کہ حاجی عثمانؒ ہر بات میں علماء کی رہنمائی ضروری سمجھتے تھے اور حکیم اختر خود ہی مولانا بن گئے تھے اور اس بنیادی وجہ سے حاجی عثمانؒ کے اندر کوئی ایسی بات نہ تھی جس کی وجہ سے ان پر گمراہی کا فتویٰ لگایا جاتا۔ حکیم اخترؒ کی اس کتاب میں ایک انتہائی گھناونی بات ہے، کسی جاہل کا شعر نقل کیاہے کہ ’’ اگر مجلس میں ایک بھی منافق ہو تو نبی کا فیض بھی نہیں پہنچتا ہے‘‘۔ حالانکہ نبیﷺ کے دور میں رئیس المنافقین اور منافقوں کی ایک فہرست موجود تھی۔ پشتو کے معروف عالم شاعر رحمان باباؒ نے پشتو میں ایک شعر کہاہے کہ’’ اگر علم کے بغیر فقیری (پیری مریدی) کروگے تواپنی کھوپڑی کو ہی آگ لگادوگے‘‘۔
اگرحضرت حاجی محمد عثمانؒ پر فتوؤں کی داستان سامنے لائی جائے تو علامہ اقبالؒ کے مشہور اشعار اس پر صادق آتے ہیں۔
اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار سے ہوتی ہے سحر پیدا
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ کی ایک کتاب ’’عصر حدیث نبویﷺ کے آئینہ میں‘‘ عرصہ سے مارکیٹ میں دستیاب نہیں، اگر ناشر نے شائع نہ کی تو ہم اس کو بھی احادیث کے درست ترجمہ و مفہوم کیساتھ انشاء اللہ شائع کردینگے۔ کتاب کی حدیث نمبر4کا عنوان یہ ہے ’’ بدکاری عقلمندی کا نشان‘‘۔ عن ابی ھریرہؓ قال: قال رسول ﷺ یاتی علی الناس زمان یخیّر الرجل بین العجزوالفجور فمن ادرک ذٰلک الزمان فلیخیر العجز علی الفجور (مستدرک حاکم، کنزالعمال ج۱۴، ص۲۱۸)
ترجمہ:۔۔۔ ’’ لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا، جس میں آدمی کو مجبور کیا جائے گا کہ یا تو وہ احمق (ملا) کہلائے یا بدکاری کو اختیار کرے پس جو شخص یہ زمانہ پائے اُسے چاہیے کہ بدکاری اختیار کرنے کے بجائے ’’نکو‘‘ کہلانے کو پسند کرے‘‘۔
حدیث میں ایک طرف عجز اور دوسری طرف فجور کی بات ہے۔مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ نے کتاب پہلے لکھ دی تھی اور پھر جب علماء ومفتیان کی طرف سے بڑے دلیرانہ انداز طریقے سے الحاد، گمراہی ، زندقہ کے فتوے لگادئیے۔ پھر عقیدتمندوں کا آپس میں نکاح کرنے کو بھی ناجائز قرار دیا گیا اور لکھ دیاکہ اس نکاح کا انجام کیا ہوگا؟۔ عمر بھرکی حرامکاری اور اولادالزنا‘‘۔مگر مولانا یوسف لدھیانویؒ کو ان فتوؤں سے سخت اختلاف تھا۔ پھر بھی ان کی جانب بھی فتویٰ منسوب کیا گیا۔ انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ ’’ یہ سب مفتی رشیداحمد لدھیانوی کی خباثت تھی ، میں نے کوئی فتویٰ نہیں لکھا تھا، مفتی جمیل خان نے لکھ کر میری طرف منسوب کیا تھا‘‘۔ ہم نے عرض کیا کہ ’’ آپ اپنی طرف منسوب فتوے سے برأت کا اعلان کریں‘‘ تومولانا یوسف لدھیانوی کا کہنا تھا کہ ’’وہ مجبور اور معذور ہیں اسلئے یہ نہیں کرسکتے‘‘۔
حدیث کے الفاظ میں ایک طرف ان علماء ومفتیان کا چہرہ ہے جو طاقت اور پیسے کے نشے میں ایک مؤمن پر کفر گمراہی اور نکاح کی حرامکاری کے فتوے لگاکر فجور کے مرتکب تھے ، دوسری طرف مولانا یوسف لدھیانویؒ کے عاجز ہونے کی تصویرہے۔ حاجی عثمانؒ کی قبر پر بھی مولانا یوسف لدھیانویؒ جاتے رہے اور یہ بھی فرمایا تھا کہ امام مالکؒ کے خلاف فتوی دینے والوں کو جس طرح آج کوئی نہیں جانتا اور امام مالکؒ کو سب جانتے ہیں،اس طرح وقت آئیگا کہ حاجی عثمانؒ کا نام زندہ ہوگا اور مخالفت کرنے والے علماء ومفتیان کا تاریخ میں کوئی نام اور نشان نہ رہے گا۔
مجدد کا کام ہوتاہے کہ لوگوں میں دین کی تجدید کرے اور دین کی تجدید سے مراد ایمان کی تجدید ہے۔ کیفیت کے اعتبار سے ایمان میں اضافے کو تجدید کہہ سکتے ہیں۔ وقت کے مجدد تو ہمیشہ اہل اللہ رہے ہیں۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ وقت کے مجدد تھے اور اکابر دیوبند آپؒ کے مرید۔ سید احمدبریلوی ہی مجدد تھے اور شاہ اسماعیل شہید انکے مرید، حضرت شاہ ولی اللہؒ کے والد شاہ عبدالرحیم مجدد تھے ۔شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانیؒ کے پیر حضرت خواجہ باقی باللہؒ ہی دراصل مجدد تھے۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے تقلید کی باگیں ڈھیلی کردیں ۔ شاہ اسماعیل شہید نے تقلید پر وار کردیا، پہلے علماء دیوبند حامی تھے، پھر مولانا احمدرضا خان بریلویؒ نے ان پر ’’حسام الحرمین‘‘ سے وار کردیا اور پیچھے دھکیل دیا۔ وضاحت کیلئے المہند علی المفند (عقائد علماء دیوبند) کتاب لکھ دی۔قرآن وسنت کا احیاء نہیں ہوسکا تھا۔
آج دیوبندی بریلوی اتحاد،اتفاق اور وحدت کی فکر پیدا ہوگئی ہے۔مجدد اولیاء عظام کے مریدعلماء کرام کی تاریخ موجود ہے جنہوں نے حدیث کے مطابق ہمیشہ دین میں غلو کرنیوالوں اور دین کو باطل قرار دینے کا اپنے اپنے وقت میں بڑازبردست مقابلہ کیا۔ عمر بن عبدالعزیز ؒ سے سید عبدالقادر جیلانیؒ ،عبدالحق محدث دہلویؒ ، مجدد الف ثانیؒ ، شاہ ولی اللہؒ ، حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ اور حاجی محمد عثمانؒ تک اہل حق کا ایک سلسلہ موجود ہے ۔شاہ ولی اللہؒ نے قرآن کا ترجمہ کیا تو واجب القتل کے فتوؤں سے2 سال تک روپوش رہنا پڑا۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ نے مالٹاکی قید سے رہائی کے بعد اُمہ کے زوال کے 2اسباب قرار دئیے۔ ایک قرآن سے دوری ، دوسرا فرقہ واریت۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیعؒ نے لکھ دیا کہ قرآن سے دوری ہی فرقہ واریت کی بنیاد ہے، لہٰذا دراصل اُمہ کے زوال کاایک ہی سبب ہے۔اللہ نے قرآن میں بھی قیامت کے حوالہ سے نبیﷺ کی یہ شکایت بتادی ہے وقال الرسول رب ان قومی اتخذوا ہذالقرآن مھجورا ’’رسول کہے گا کہ اے میرے رب! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘۔ (القرآن)۔
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیعؒ نے مولانا انورشاہ کشمیریؒ کا لکھا کہ فرمایا:’’ میں نے ساری زندگی ضائع کردی‘‘ ہم نے عرض کیا کہ ’’ حضرت آپ نے ساری زندگی قرآن وحدیث کی خدمت کی، ضائع نہیں کی ‘‘۔ مولانا کشمیریؒ نے فرمایا:’’ میں نے قرآن وسنت کی کوئی خدمت نہیں کی بلکہ فقہی مسلک کی وکالت کی ہے اور اس کا کوئی فائدہ نہیں ‘‘۔ شیخ الہندؒ کے اکثر شاگرد بہت ممتاز تھے، مولانا اشرف علی تھانویؒ ، مولانا عبیداللہ سندھیؒ ، مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہؒ ، مولانا حسین احمد مدنیؒ ، مولانا شبیر احمد عثمانیؒ ، مولانا الیاس ؒ ، مولاناحفظ الرحمن سیوہاویؒ ، مولانا پیرمبارک شاہ گیلانیؒ ، مولانا خیل احمد انبیٹویؒ وغیرہ وغیرہ۔
جب میں ساتویں جماعت میں تھا تو پیرمبارک شاہ گیلانیؒ سے کانیگرم میں ملاقات ہوئی، معلوم تھا کہ دارالعلوم دیوبندکے فاضل ہیں، مجھ سے پوچھا کہ کیا بننے کا ارادہ ہے۔میں نے کہا کہ دارلعلوم دیوبند کا فاضل بننا چاہتا ہوں۔ مجھے آپکے چہرے پر توقع کے خلاف خوشی کے آثار نظر نہیں آئے۔ مجھے ہر نمازکے بعد 10مرتبہ درود شریف پڑھنے کے وظیفے کی تلقین بھی کردی۔
پیرمبارک شاہؒ نے 1923 ؁ء میں نوراسلام پبلک سکول کھولا تھا جو کانیگرم جنوبی وزیرستان میں پاکستان بننے کے بعد حکومت کو حوالہ کیا گیا تھا۔ جس میں رہنے کیلئے ہاسٹل بھی تھا اور گومل یونیورسٹی میں ڈیرہ اسماعیل خان میں جدید تعلیم کے حوالہ سے پیرمبارک شاہ گیلانیؒ کا دن منایا جاتاہے۔مولانا سندھیؒ زندگی بھر مولانا اشرف علی تھانویؒ ، مولانا انور شاہ کشمیریؒ ، مفتی کفایت اللہ ؒ اور مولانا حسین احمد مدنیؒ سے لڑتے رہے کہ درسِ نظامی اور فقہی مسلکوں کو چھوڑ کر قرآن کی طرف دعوت دی جائے مگروہ لوگ کہتے رہے کہ امام مہدی جب آئیگا تو اصلاح کا کام کرلے گا۔ مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے لکھ دیا کہ’’ آپ استاذ کی بات نہیں مان رہے ہو تو امام مہدی آئیں گے تو بھی مخالفین کی صفوں میں تم لوگ کھڑے ہوگئے‘‘۔
حضرت حاجی محمد عثمانؒ کے حلقہ ارادت میں بڑے علماء و مفتیان، فوجی افسران، پولیس افسر، سعودی عرب مدینہ اور شام وغیرہ سے تعلق رکھنے والے عرب بھی شامل تھے۔ آپ نے کہا تھا کہ ’’میرے کالے بال والے مرید امام مہدی کو دیکھ لیں گے اور میرے حلقے والے اس میں اپنا کردار ادا کرینگے۔ خانقاہ بھی امام مہدی کے حوالے ہوگی‘‘۔ جن لوگوں نے مشاہدات دیکھے تھے ان کو مشاہدات کھلے عام بیان کرنے کی اجازت دی گئی۔ ایک مرید نے بتایا کہ’’ شیخ الہندؒ نے مولانا الیاسؒ کو تاج دیا جو حاجی عثمانؒ کے سر پر رکھ دیا‘‘۔ تبلیغی جماعت کی وجہ سے مدارس آباد ہوگئے ہیں لیکن مدارس میں قرآن وسنت کے بجائے ایسی تعلیم دی جارہی ہے جس کو زندگی ضائع کرنے کے برابرہی کہا جاسکتاہے۔ حضرت حاجی محمد عثمانؒ کا پروگرام تھا کہ مدرسہ کو جدید خطوط پر استوار کیا جائیگا۔ فٹ بال وغیرہ کا کھیل بھی رکھا جائیگا۔ مدرسہ، مسجد، خانقاہ، خدمت گاہ اور یتیم خانہ کے نام ہی مسلم اُمہ کے جوڑ کیلئے رکھے گئے تھے۔
حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ کے مریدوں میں اختلا فات تھے اور آپ نے فیصلہ ہفت مسئلہ لکھ کرامت مسلمہ کے اختلافات ختم کرنے کی کوشش فرمائی۔مگر وہ پھر بھی اس قدر زوال کا دور نہیں تھا۔ حاجی عثمانؒ کے دوست علماء ومفتیان، مرید خلفاء و عوام اور ہمدردوں کی ہمدردیاں بھی عجیب تھیں۔ ڈاکٹر شکیل اوج شہیدؒ نے مجھے بتایا کہ ایک مرتبہ حاجی عثمانؒ کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع ملا اور مصافحہ کرنے کی سعادت مل گئی۔ میرے مشکوٰۃ کے استاذ مولانا انیس الرحمن درخواستی شہیدؒ علماء ومفتیان کا فتویٰ لگنے کے بعد بیعت ہوگئے تھے۔ یہ داستان بھی لکھنے کے قابل ہے۔
مجدد ایمان کی تجدید کیسے کرتاہے۔ بس انسان کا حدیث کے مطابق وہ حال ہوجاتا ہے کہ گویا اللہ کو وہ دیکھ رہاہے اور یہ نہیں تو کیفیت یہ بن جاتی ہے کہ اللہ اس کو دیکھ رہاہے۔ احسان کا یہ درجہ مجدد کی صحبت سے بہت جلد مل جاتاہے۔جب حضرت حاجی محمد عثمانؒ کی مقبولیت ، عظمت اور توقیر کو لوگوں نے دیکھ لیا تو جو علماء ومفتیان پیر نہ بھی تھے مگرپیری کا لبادہ اُوڑھ بیٹھے ۔ جب میں نے بنوری ٹاؤن میں داخلہ لیا تو پیری مریدی کو توجہ دلانے کا باعث بن گیا۔ جب گھر میں بھابھی، مامی اور ماموں زاد اور خالہ زاد سے شرعی پردہ شروع کیا تو بھائی حیران تھے کہ کسی سے یہ پردہ نہیں سنا ہے مگر علماء نے تصدیق کردی کہ شریعت یہی ہے اور پھر ہمارے بڑوں کو میرے آگے بے بس ہونا پڑا تھا۔
مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے لکھاہے کہ معاشرے میں صرف نمائشی پردہ ہے جس سے قوم لوطؑ کے عمل میں لوگ مبتلا ہیں، اگر شریعت کی بات ہو تو شرفاء کے خاندانوں میں بھی شرعی پردے کا کوئی تصور نہیں ہے۔ آپؒ رسمی پردہ بھی ختم کرنا چاہتے تھے۔
ہم نے دین اس کو سمجھا جو علماء کی کتابوں میں تھا اور سب کا یہ حال عرصہ سے تھا۔ دین پر عمل کرنا اسلئے ہاتھ میں انگارے پکڑنے کی طرح سخت لگتاتھامگر حقائق بہت مسخ کئے گئے تھے ۔ اللہ نے قرآن میں پردے کے احکام کی سورۂ نور میں بہت واضح تفصیل سے بتادی ۔ پھر بتایا کہ ’’ اندھے پر حرج نہیں، نہ پاؤں سے معذورپر حرج اور نہ مریض پر حرج اور نہ خود تم پر حرج کہ کھاؤ اپنے گھروں سے یا اپنے باپ کے گھر وں سے،یااپنی ماؤں کے گھروں سے یااپنے بھائیوں کے گھروں،یا اپنی بہنوں کے گھر وں سے،یااپنے چاچوں کے گھروں سے یااپنے پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے یا جن کی کنجیاں تمہارے ہاتھ میں ہوں یااپنے دوستوں کے گھروں سے اور اس میں کوئی حرج نہیں کہ سب مل کر کھاؤ یا الگ الگ۔ اور جب تم گھروں داخل ہو جایا کرو،تو خود سے سلام کیا کرو، یہ اللہ کی طرف سے آداب بجالانے کا مبارک اور پاکیزہ طریقہ ہے۔ اس طرح اللہ اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتاہے‘‘۔
ان آیات میں شرعی پردے کا جو تصور بیان کیا گیاہے وہ مذہبی شدت اور فقہی جنون کا علاج کرنے کیلئے بہت کافی ہے۔ سارے رشتہ داروں کے علاوہ اندھے، لنگڑے اور مریض کیلئے بھی گھروں میں کھانے کے حوالے سے خصوصی گنجائش رکھ دی گئی ہے کیونکہ اجنبی افراد کسی کوگھر میں کھانا کھاتے نظر آئیں تو شکوک وشبہات جنم لے سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ پردے کے حوالے سے روشن تصور دنیا کے کسی خطے اور قوم میں ممکن بھی نہیں ہے۔ عام طور سے لوگ یہی کرتے ہیں جو قرآن میں لکھ دیا گیا مگر وہ دین فطرت کی تعلیم سے واقف بھی نہیں ہوتے۔ مذہبی طبقے کی جہالت کو داد اسلئے دینی چاہیے کہ ان کا جذبہ درست تھا اور ہم خود بھی نیک نیتی سے اسکے شکار بن گئے تھے۔
مجدد وقت حضرت حاجی محمد عثمانؒ نے ایمان کی تجدید نہیں کی ہوتی تو ہم شرعی پردے کی جھنجٹ میں بھی نہ پڑتے۔ اب ہمارا فرض ہے کہ درست راستہ مل جائے توخود کو غلط پگڈنڈیوں پر لگائے رکھنے کے بجائے اسی کو اپنالیں۔ ہر نماز کی ہر رکعت میں اللہ سے صراط مستقیم کی دعا مانگتے ہیں اور جب سیدھی راہ مل جائے تو اس پر عمل کرنا بھی شروع کردیں۔ تصویر، طلاق اور شرعی پردے کے علاوہ بہت سارے معاملات میں جو ہم نے حل کردئیے ہیں مگر اس میں ہمارا نہیں بلکہ قرآن وسنت کا کمال ہے ۔ اللہ نے فرمایا کہ ’’ جو میرے احکام میں جدوجہد کرتے ہیں ان کیلئے ضرور بضرور راستے کھول دینگے‘‘۔ حاجی محمد عثمانؒ کی ایک تقریر کا آغاز اسی آیت سے تھا۔ ہمیں موقع ملا توانشاء اللہ اپنے مرکز سے قرآن وسنت، دین ودنیا کے حسین امتزاج کا وہ تعلیمی نصاب متعارف کرائیں گے جس سے ایک بڑا انقلاب برپا ہوگا۔ مدارس کے طلبہ واساتذہ میں صلاحیت کی خوشبو آئے گی۔ مولانا آزادؒ وزیرتعلیم تھے تو علماء سے فرمایا کہ ’’ شکایت ہے کہ علماء میں استعداد نہیں، حالانکہ نصاب تعلیم ہی کوڑھ دماغ بنانے کیلئے کافی ہے، جو ان کتابوں پر مشتمل ہے جو زوال کے دور ساتویں صدی ہجری میں لکھی گئی ہیں‘‘۔ مفتی شفیعؒ نے کہاتھا کہ ’’ عرصہ سے مدارس بانجھ ہیں جو مولوی پیدا نہیں کررہے‘‘۔ نصاب ٹھیک ہوگا تو مدارس بانجھ نہیں رہیں گے ۔سید عتیق گیلانی

عمران خان ڈی آئی خان میں لڑکی کو ننگا گھمانے پر کہتا ہوگا کہ جمائما بھی ننگی گھومتی ہے تو اس میں حرج کیا ہے

imran-khan-ne-larki-ko-nanga-ghumane-per-muzzamat-is-lie-nahi-ki-keh-wo-kehta-hoga-keh-jemima-bhi-nangi-ghoomti-hei-is-me-haraj-kia-hei-ashraf-memon

پبلشرماہنامہ نوشتۂ دیوارمحمد اشرف میمن سابق سینئر نائب صدر تحریک انصاف سندھ نے کہا کہ مغربی کلچر کے انسانی حقوق و اسلام سے عوام کو مغالطہ دیا جا تا ہے، عمران کے بچوں کی ماں پرجو گزرتی ہے، جسکی سزا اسکے بچے بھگت رہے ہیں۔ ہمیں نسلی کتیا کیلئے بھی یہ حقوق و آزادی نہیں چاہیے۔ مغرب میں زنا کی آزادی ہے، جمائما سے نکاح کے بچے نیازی مسلمان مشرقی باپ و گولڈ سمتھ یہودن مغربی ماں کے بچے عظیم رشتہ میں جڑگئے۔ نانا ،نانی ،ماموں، خالہ اور دادا، دادی، پھوپھی چچااور کزنوں کا رشتہ ختم نہیں ہوسکتا۔ سیتا وائٹ کی بچی زنا کی وجہ سے باپ کی شفقت، نان نفقہ، تعلیم وتربیت، موروثی جائیداد اور شناخت تک سے بھی محروم ہے ،دونوں کا فرق واضح ہے۔اگر جمائما کے بیٹے نے سیتاوائٹ کی بچی سے رشتہ یا جنسی تعلق رکھا تو مغرب میں پابندی نہیں مگراسلام ایک مضبوط، بااعتماد اور قابل فخر رشتہ سے اصلاح اور پائیدار امن کی ضمانت دیتا ہے۔ یہ المیہ ہے کہ پختونخواہ میں پہلی مرتبہ کسی لڑکی کو ننگا گھمایا گیامگر سوشل میڈیا نے معاملہ اٹھایا۔ عمران خان تو کہتاہوگا کہ عورت کو ننگا گھمانے میں حرج کیا ہے؟ بچوں کی ماں جمائما بھی تو ننگی گھومتی ہے ۔

نواز شریف خود کو کھیرا سمجھ کر ڈھینچو ڈھینچو کررہا ہے. اجمل ملک

nawaz-sharif-khud-ko-kheera-samjh-kr-dhanchoon-dhanchoon-kr-raha-he-ajmal-malik

ماہنامہ نوشتۂ دیوار کے ایڈیٹر اجمل ملک نے کہا: نوازشریف جنرل جیلانی وجنرل ضیاء کی پیداوار تھا جسٹس نسیم ، قیوم ،افتخار چوہدری کی عدالتوں کا دودھ پیا۔ مگر اب یہ گلہ ہے کہ عدلیہ فوج کے حکم سے دودھ نہیں پینے دیتی۔
ٰٓایک شخص بچہ تھا تو اغوا ہوا ، پھر 10سال کی عمر میں خرکار کے کیمپ میں پہنچا ، 40سال بعد خرکار کی قید سے آزاد ہوا، جب کافی عرصہ بعد اسکے دانت بڑھاپے سے گرگئے تو مذاق میں کسی نے کہا تو دانتوں کیلئے گرائپ واٹر اور نونہال خرید کر پی لینا، اس نے کئی بوتل خرید کر پی لئے اور پھر پتہ چلا کہ اسکے ساتھ ہاتھ ہوا ۔ جانور کا دودھ پیتابچہ کھیرا ہوتا ہے، پھر 2، 4، 6دانت اور بوڑھا ہوجاتاہے۔ نوازشریف کو کوئی سمجھادے کہ زرداری6 دانت کا ہوگا مگر تم بھی کھیرے نہیں ہو۔ تم پرانی یادیں تازہ کرکے سمجھتے ہو کہ عدلیہ گدھی ہے اور دودھ نہیں دیتی اور جنرل گدھا ہے اور دولتی مارتا ہے تو لگتا ہے کہ بڈھا ڈھینچو ڈھینچو کر رہاہے۔ فوج اور عدلیہ کا کوئی قصور ہے نہ ملی بھگت ، اگر پیار سے پکاروگے تب بھی یہی جواب ملے گا، بھٹو نے جنرل ایوب خان کو اس وقت ڈیڈی بنایا جب 2دانت کا تھا مگر4دانت کا ہوا توعوام کو قیادت فراہم کی۔محمد خان جونیجو کے وقت نواز شریف 2دانت کا تھا، ISIسے پیسہ لیکر IJI کی حکومت کی تو4دانت کا تھا، زرداری نے حکومت بنائی تو 6دانت کا تھا، اب صحافی نواز شریف کو نونہال و گرائپ واٹر پلاکر بتاتے ہیں کہ کھیرے ہو۔ وسعت اللہ خان اپنے ’’بات سے بات ‘‘ میں اس کو اپنے الفاظ میں بیان کردینگے تو خوب لگے گا۔ باقی اسٹبلیشمنٹ کی پیداوار جمہوری نہیں ہوسکتی۔

قرآن و سنت کی روشنی اور فقہ حنفی سے حلالہ کے بغیر فتوؤں کیلئے رجوع کریں

quran-o-sunnat-ki-roshni-or-fiqah-hanfi-se-halala-ke-bagair-fatwoon-ke-lie-ruju-karen

آپ کے مسائل کا حل’’ قرآن وسنت کی روشنی میں‘‘

قرآن کریم کے سامنے سمندر ہیچ ہے، جو قیامت تک کہکشاؤں کی وسعت کو ایک جملہ میں بیان کرتاہے۔ قرآن میں جگہ جگہ ’’اَیمانکم‘‘ کا ذکر ہے۔ اس سے مراد قسم بھی ہے، عہدوپیمان بھی، وہ ایگریمنٹ بھی ہے جو باقاعدہ معاہدے کرنے کے تحت ہو اور وہ بھی ہے جس میں اخلاقی طور سے ذمہ داری پڑتی ہو۔ کسی بھی لفظ کا درست مفہوم سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ ’’جملے کو سیاق وسباق کے مطابق دیکھا جائے اور اس پر غور فکر وتدبر کے ذریعے فیصلہ کن نتیجے پر پہنچا جائے‘‘۔
مسائل طلاق سے پہلے اللہ نے فرمایا: ولاتجعلوا اللہ عرضۃ لایمانکم ان تبروا وتتقواوتصلحوا بین الناس واللہ سمیع علیمO’’ اور نہ بناؤ اللہ کو اپنے قسموں(عہدوپیمان، حرام کہنا، ایلاء کرنا، تین طلاق، ظہاروغیرہ) کیلئے ڈھال کہ تم نیکی نہ کروگے، تقویٰ اختیار نہ کروگے اور لوگوں کے درمیان مصالحت نہ کروگے۔ اللہ سنتا اور جانتا ہے‘‘۔( البقرہ :آیت 224)۔ افسوس ہے کہ طلاق صریح، کنایہ اور مختلف بدعات کی گمراہی سے قرآن کی واضح خلاف ورزی کی گئی۔ میاں بیوی ملنا چاہتے ہیں اور مسندوں پر بیٹھ کر فتویٰ دیا جاتا ہے کہ اللہ کا یہ حکم ہے کہ تم نہیں مل سکتے ہو۔ قومی اسمبلی، سینٹ یا صوبائی اسمبلیوں میں علماء ومفتیان کو طلب کرکے حقائق کی نشاندہی کی جائے تو اللہ تعالیٰ ہم پر رحم کریگا۔ حلالہ کے نام پر گھروں کی تباہی اور عزتوں کا لوٹنا بند کرنا چاہئے۔ سعودی عرب، ایران ، بھارت، افغانستان اور دنیا بھر سے علماء وکرام کا عظیم اجتماع بلاکر مسائل نو حل کئے جائیں۔
ایک بیٹا زبردستی سے باپ کی زندگی میں ایک بار اپنا حصہ لے اور اگر پھر اس کو دوبارہ بدمعاشی کرنے دیجائے تو یہ زمین میں فساد پھیلانا ہوگا۔ پھر ہر بدمعاش بیٹا دو، دو حصے کی میراث لے گا۔ ایک باپ کی زندگی میں اور دوسرا حصہ اسکے فوت ہونے کے بعد۔ معاشرے کو بدمعاشی نہیں شریعت اور وقت کے حکمرانوں کے قوانین کے ذریعے سے ہی کنٹرول کیا جاسکتاہے۔ نبیﷺ نے صلح حدیبیہ کا معاہدہ کیا تو بھی اس کی خلاف ورزی نہیں کی،حضرت ابوجندلؓ کو دوبارہ کفارِ مکہ کے حوالے کیا۔ اللہ نے فرمایا: ولکل جعلنا موالی مما ترک الوالدٰنِ والاقربون والذین عقدت ایمانکم فاٰ تو ھم نصیبھم ’’ اور ہم نے اس مال کے وارث مقرر کئے ہیں جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ کر جائیں۔ اور جن لوگوں نے تمہارے ساتھ ایگریمنٹ کیا ہو تو ان کو انکا حصہ دو‘‘۔(النساء : 33)۔ جس نے زبردستی باپ سے زندگی میں حصہ لیا وہ دوبارہ حصہ نہیں لے سکتا ہے۔
امریکہ اور سعودی عرب میں ایگریمنٹ اور مسیار ایک معروضی حقیقت ہے تو اس کا حل بھی قرآن میں ہے۔ الا علی ازواجہم او ماملکت ایمانہم ’’ مگر ان کی اپنی بیگمات اور جو ان کی لونڈیاں ہیں یا جن سے ان کا معاہدہ طے پایا ہو‘‘۔ موجودہ دور میں لونڈیوں کی روایت ختم ہوگئی لیکن قرآن اپنی وسعت کے لحاظ سے قیامت تک روز روز کی بنیاد پر کھڑے ہونیوالے مسائل کو حل کرنے کیلئے دعوے میں سچاہے کہ وانزلنا علیک الکتاب تبیان لکل شئی ’’ اور ہم نے (اے نبیﷺ) تجھ پر کتاب اتاری جو ہر چیز کو واضح کرنے والی ہے‘‘۔ (القرآن)اللہ نے پڑوسیوں کا ذکر کرتے ہوئے بھی ملکت ایمانہم کا ذکر کیا ہے ۔ خواتین کیلئے بھی پردہ نہ کرنے کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔اگر نکاح و طلاق کے درست مسائل مسلمانوں نے اپنے کرتوت سے ملیامیٹ نہ کئے ہوتے اور اسلام دنیا میں اجنبی نہ بنتا تو قرآن وسنت کے معاشرتی مسائل سے پوری دنیا استفادہ کرتی۔ ایک عورت کسی سے نکاح کرلے تو جو حق مہر مقرر ہوچکا ، اگر ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی تو مقرر کردہ حق مہر کا آدھا دینا پڑیگا۔ اگر مغرب کے سامنے اسلامی قوانین قرآن وسنت کی روشنی میں رکھے جائیں تو پھر وہ لوگ بھی قرآن وسنت ہی کو مشعلِ راہ بنالیں۔ باقاعدہ نکاح کرنے کے بغیر یہ رویہ کہ بوائے اور گرل فرینڈز پر گزارہ کرلیں اس کی بنیادی وجہ نکاح کے وہ غیرفطری قوانین ہیں جو وہاں کی حکومتوں نے رائج کئے ہیں۔ شوہر کو طلاق اور عورت کو قرآن میں خلع کی اجازت ہے ۔ آیت 19 النساء میں پہلے خلع پھر آیت20،21 النساء میں طلاق کا ذکر ہے۔ جن میں عورت کے حقوق کو تحفظ دینے کی وضاحت ہے۔ شوہر کویہ حق اسلام نے کہیں نہیں دیا ہے کہ10بچے جنواکر ایسے دور میں بیوی کو طلاق دیکر باپ کے گھر بھیجا جائے جب اس بے چاری کا کوئی میکہ ہی نہ رہا ہو۔ ایک بیوی کو چھوڑ کر دوسری سے شادی اور طلاق کی صورت میں جو کچھ دیا ہے ، چاہے خزانے کیوں نہ ہوں اس میں سے کچھ بھی واپس نہیں لے سکتے۔
وہ خاتون جسکا شوہر فوت ہواور اس کو دنیا میں مراعات ملتی ہیں اور نکاح ثانی سے وہ پہلے کا شرفِ زوجیت کھو دیتی ہے اور مراعات بند ہوتے ہیں تو ایگریمنٹ کرسکتی ہے۔ والمحصنٰت من النساء الاماملکت ایمانکم ’’اور شادی شدہ خواتین بھی حلال نہیں مگر جن سے معاہدہ طے ہوجائے‘‘۔ اس میں ایک طرف پہلے دور کی وہ خواتین تھیں جو شادی شدہ ہوکر بھی لونڈی بن جاتی تھی، آج وہ دور ختم ہے لیکن قرآن کا حکم ہمیشہ کیلئے باقی رہتاہے اور قرآن نے خبر دی ہے کہ قیامت کے دن بھی ماں،باپ، بچوں اور بہن بھائی کی طرح بیویوں کا تعلق بھی باقی رہے گا۔مفتیانِ اعظم کی بیگمات15سال بعد بھی مر جاتی ہیں تو ان کی قبروں کے تختی پر ’’زوجہ مفتی اعظم ‘‘ لکھا ہوتاہے۔علماء ومفتیان بتائیں کہ ’’ اجنبی شخص کی زوجیت کی نسبت لگائی جاتی ہے؟‘‘۔ ایک جاہل مفتی طارق مسعود جامعۃ الرشید سوشل میڈیاپر کہتا ہے ’’شوہر اپنی بیوی کو قبر میں نہیں اُتار سکتا، البتہ اگر محرم موجود نہ ہوں تو بالکل اجنبی مردکے بجائے یہ تھوڑا بہت اجنبی اُتار سکتاہے‘‘۔ بالفرض مفتی طارق مسعود کی اَماں کو اسکا اَبا قبر میں نہیں اُتارتااور وہ قبر پر بھی باپ کی زوجہ کی تختی نہیں لگواتابلکہ اماں طارق مسعودلکھ دیتاہے تو قیامت کے دن وہ انسان بن کر اٹھے گا یا جانور ؟۔ یوم یفرالمرء من اخیہ وامہ وابیہ وصاحبتہ وبنیہ ’’ اس دن فرار ہوگا کہ آدمی اپنے بھائی سے، اپنی ماں سے، اپنے باپ سے ، اپنی بیوی سے اور اپنے بچوں سے‘‘۔ پھر اس اجنبی خاتون کی نسبت اس اجنبی شخص کی طرف کیوں کی گئی ہے؟۔
رسول اللہﷺ نے چچی حضرت علیؓ کی والدہ کو دستِ مبارک سے قبر میں اتارا، فرمایا کہ ’’یہ میری ماں ہے بیٹا جیسے پالا ہے‘‘۔ نبیﷺ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا ’’ اگر آپ پہلے فوت ہوئی تو ہاتھ سے غسل دوں گا‘‘۔ حضرت ابوبکرؓ کی میت کو آپؓ کی زوجہ اُم عمیسؓ نے اور حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہؓ کی میت کو غسل دیا۔ فتویٰ اور میت کو غسل دینا مولوی نے پیشہ بنالیا تو قرآن وسنت کی تعلیمات کو چھوڑ کر دور کی گمراہی میں پڑگئے۔ عین الھدایہ میں لکھ دیا کہ ’’ میت کے عضوء تناسل کا حکم لکڑی کی طرح ہے،اگر مرد نے دبر یا عورت نے فرج میں ڈالا، توغسل نہیں‘‘۔شوہر اور بیوی ایکدوسرے کا چہرہ نہ دیکھ سکیں اور عضوء تناسل کا حکم لکڑی کا؟۔تف ہے تم پر۔

سورہ بقرہ میں طلاق کے بعد حلال نہ ہونے کا مشروط ذکر …..

surah-talaq-me-iddat-k-khatmey-per-2-gawah-or-hamishah-ruju-ki-wazahat

سورۂ بقرہ میں آیت 224سے232تک پورا پورا زور دیا گیاہے کہ طلاق کے بعدباہمی صلح سے رجوع ہے۔

اکٹھی تین طلاق پر دورِ جاہلیت میں حلالہ کا تصور سورۂ بقرہ کی ان آیات سے حرفِ غلط کی طرح بالکل مٹ گیا

سورۂ بقرہ کی آیات 224سے 232تک جس مقصد کیلئے اللہ نے نازل کیں تھیں وہ مقصد ہی فقہ وتفسیراور احادیث کی کتابوں کے اندر بالکل فوت نظر آتاہے۔ بخاری کی ایک روایت کا عنوان ’’ برتنوں کا استعمال‘‘ ہے۔ جس میں دولہا دلہن نے نبیﷺ اور صحابہ کرامؓ کی دعوت ولیمہ میں خدمت کی تھی۔ حقیقت کی مناسبت سے عنوان’’ دولہا اور دلہن کی خدمت‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ آج کہیں اس حدیث پر عمل ہوتو مذہبی لوگ حیرت سے نڈھال ہوجائیں کہ یہ بھی اسلام ہے؟۔ جس طرح حدیث کا عنوان بالکل غلط اور لایعنی درج کیا گیاہے اسی طرح قرآنی آیات کے مفہوم کو بھی عوام سے بالکل دور کردیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مفہوم: ’’اندھے پر حرج نہیں ، اور نہ لنگڑے اور مریض پر اور نہ تم پر کہ کھانا کھاؤ اپنے گھر میں …باپ ، بھائی، بہن، ماموں، خالہ،چاچا وغیرہ اور جن کی چابیاں تمہارے لئے کھلی ہیں اور جو تمہارے دوست ہیں کہ اکھٹے کھانا کھاؤ یا الگ الگ…سورہ نور: آیت61‘‘۔ لیکن تفسیرعثمانی جس کو علامہ یوسف بنوریؒ نے بھی بہترین قرار دیا ہے، اس میں لکھا ہے کہ ’’معذوروں اور مریضوں کو جہاد کرنے سے استثناء دیا گیاہے‘‘۔ بات کیاہے اور تفسیر کیا لکھ دی گئی ہے؟۔ دوسرے معاملات میں بھی ایساہی ہے۔ قرآن کا متن چھوڑ کرکیا تفسیر ہوسکتی ہے؟ ۔ البتہ جہاں تفسیر کی ضرورت ہو تو وہاں کرنی چاہئے۔
سورۂ جمعہ کی آیات میں نبیﷺ کی بعثت سے صحابہؓ کے سامنے تلاوت آیات، ان کا تزکیہ اور کتاب و حکمت کی تعلیم کے بعد وآخرین منہم لمایلحقوابہم ’’اور ان میں سے آخرین جو پہلوں سے ابھی نہیں ملے ہیں‘‘ کے بارے صحابہؓ نے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟۔ نبیﷺ نے حضرت سلمان فارسیؓ کے کندھے پر اپنادست مبارک رکھ کر فرمایا کہ’’ اس کی قوم کا ایک شخص یا افراد ہیں اگر علم(دین، ایمان) ثریا پر پہنچ جائے تب بھی وہاں سے یہ لوگ واپس لائیں گے‘‘۔ (بخاری ومسلم وغیرہ)
نبیﷺ نے صحابہؓ سے پوچھا: ایمان کے اعتبار سے زیادہ عجیب قوم کون ہے؟ توصحابہؓ نے عرض کیا کہ فرشتے۔ آپﷺ نے فرمایا: وہ کیوں عجیب ہیں جبکہ سب کچھ وہ دیکھتے ہیں، عرض کیا گیا: پھر انبیاء ہیں۔ فرمایا: ان پر تو وحی نازل ہوتی ہے۔ عرض کیا گیا: پھر ہم ہیں یارسول اللہ!۔ فرمایا: تم کیسے ہوجبکہ میں تمہارے درمیان میں موجود ہوں۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ پھر اللہ اور اسکے رسول ﷺ کو علم ہے۔ فرمایا: ایمان کے اعتبار سے سب سے زیادہ عجیب وہ ہیں ، جن کے پاس قرآن کی آیات کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوگا مگر ان کا قرآن پر ایسا ہی ایمان ہوگا جیسا تمہاراہے۔ان میں سے ایک کو 50افرد کے برابر اجر ملے گا۔ صحابہؓ نے پوچھا کہ ان میں سے 50 افراد کے برابریا ہم میں سے؟، نبی ﷺ نے فرمایا کہ انمیں سے نہیں بلکہ تم میں سے 50افراد کے برابر ایک کو ثواب ملے گا۔
کعبہ کی المسجد الحرام میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ کے برابر ہے، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ میں ایک نماز کا ثواب 50 ہزار کے برابر ہے۔ تبلیغی جماعت و دعوت اسلامی کے مراکز اور ذیلی شاخوں49اور79کروڑ کی خوشخبری سنائی جاتی ہے۔
سورۂ بقرہ کی آیات کا خلاصہ یہ تھا کہ اللہ کو صلح کے درمیان رکاوٹ کیلئے ڈھال کے طور پر استعمال مت کرو۔ منع کرنے کیلئے اَیمانکم کے تمام اقسام میں لغو الفاظ پر کوئی پکڑنہیں، دلوں کے گناہ پر اللہ پکرتاہے۔ طلاق کا اظہار نہ کرنے کی صورت پر عورت کی عدت 4ماہ ہے اور اظہار کی صورت میں 3ادوار یا 3ماہ ہے۔ عدت کے دوران اور عدت کے بعد باہمی رضامندی سے اللہ نے رجوع کا دروازہ کھلا رکھ دیا ہے اور عدت کے دوران صلح واصلاح کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا۔ طلاق کا تعلق بھی عدت کے ادوار سے ہے۔ پہلی اور دوسری مرتبہ کی طلاق کے بعد تیسرے فیصلہ کن مرحلے کا ذکر صرف اسلئے ہے کہ عدت کے بعد عورت دوسری جگہ شادی کرسکتی ہے اور اس میں بھی معروف رجوع کا مطلب باہمی رضامندی سے رجوع ہے۔ علیحدہ کرنے کا فیصلہ کیا تو شوہر کیلئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی اس کو دیا ہو اس میں سے کچھ بھی واپس لے۔ البتہ دونوں اور معاشرہ میں فیصلہ کرنے والوں کویہ خوف ہو کہ اس کے بغیر دونوں اللہ کے حدود کو پامال کردینگے تو پھر وہ چیز فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں۔ یہ معاشرے کی روایت تھی اور آج بھی ہے کہ بیوی کو طلاق دینے کے بعد اپنی مرضی سے کسی اور سے شادی کی اجازت نہیں دیتے ۔ اسلئے اللہ نے یہ وضاحت بھی کردی کہ ’’اگر پھر طلاق دیدی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ کسی اور سے نکاح کرلے‘‘۔ آیت230سے پہلے 229میں دی گئی صورتحال کو دیکھنے کی ضرورت ہے اور خطرہ تھا کہ علماء وفقہاء کہیں گے کہ 228اور229کے احکام منسوخ ہوگئے، اسلئے اللہ نے 231اور232آیات میں پھر وضاحت کردی کہ عدت کی تکمیل کے بعد بھی اللہ نے معروف طریقے سے باہمی رضامندی سے صلح کا راستہ نہیں روکا اور کسی کو بھی ان کی راہ میں روکاٹ ڈالنے کی اجازت نہیں ہے۔
رسول اللہﷺ کے وصال فرمانے کے بعد ازواج مطہراتؓ سے نکاح کرنے کو اسلئے روکا گیا تھا کہ اس سے نبیﷺ کو اذیت ہوتی ہے۔ چرند، پرند اور انسانوں کے درمیان یہ قدرِ مشترک ہے کہ جوڑی بن جانے کے بعد نر نہیں چاہتا کہ اسکی مادہ کسی اور سے جفت ہو۔ حضرت علیؓ کی ہمشیرہ حضرت ام ہانیؓ کو فتح مکہ کے بعد اس کا شوہر چھوڑ کر چلا گیا تو نبیﷺ نے شرف زوجیت بخشنے کی پیشکش کردی۔ حضرت ام ہانیؓ نے اپنی نسوانی غیرت کی وجہ سے اس شرف کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس سے زیادہ انسانی فطرت کی مثال کیا ہوسکتی ہے؟۔ نبیﷺ سے پھر اللہ نے فرمایا: اگر اسکے بعد کوئی خاتون پسند آئے تب بھی اس سے نکاح نہ کریں۔ (القرآن)
مروجہ حلالہ کی لعنت کا قرآن وحدیث ، صحابہ کرامؓ اور ائمہ اربعہ کے ادوار میں کوئی وجود نہیں تھا۔ شوہر ایک ساتھ تین طلاق دے تو رجوع کا حق نہیں ہے بلکہ اگر ایک طلاق بھی دو تو رجوع کا حق نہیں ہے ورنہ حدیث بیکار ہے کہ طلاق سنجیدگی اور مذاق میں ہوجاتی ہے۔ اسلئے تین طلاق کے بعد شوہر کیلئے طلاق کا حق بالکل غلط تھا اور آج بھی ہے لیکن باہمی صلح سے رجوع کی گنجائش اور شوہر کے یکطرفہ حق میں بڑا فرق ہے اوریہ حقیقت نظر انداز ہوئی اسلئے قرآن پر ایمان واقعی بڑا عجیب ہے۔

سورۂ طلاق میں عدت کے خاتمے پر رجوع یاتفریق اور اس پر دو عادل گواہ اور ہمیشہ کیلئے رجوع کو واضح کیا گیا
قرآن کی آیات سے حلالہ کا بالکل غلط تصور پیش کیا جاتاہے تو احادیث صحیحہ سے بھی غلط ثبوت پیش کیا جاتاہے

جب اللہ تعالیٰ نے دیکھ لیا کہ امت مسلمہ کیلئے ایک طرف یہ ضروری ہے کہ جو خواتین کو طلاق دینے کے بعد اپنی مرضی سے دوسری جگہ شادی کی اجازت نہیں دی جاتی اور خواتین خود بھی طلاق کے بعد دوسری جگہ شادی کرنے کو اپنی غیرت کیخلاف سمجھ لیتی ہیں اور اس غلط رسم وروایت اور انسانی فطرت کو معقول طریقے سے دھکیل دیا اور حلالہ کی رسم جاہلیت کو حرفِ غلط کی طرح مٹادیا۔ تو پھر سورۂ طلاق میں واضح طور سے سمجھایا کہ جب تم عورتوں کو طلاق دو تو عدت کیلئے دو۔ عربی میں علیحدگی کیلئے طلاق کا لفظ استعمال ہوتاہے۔ آیت کا معنی یہ ہے کہ اگر عورت کو چھوڑنا ہو تو عدت تک کیلئے چھوڑ دو۔ مذہبی دنیا میں طلاق کا تصور اس قدر بگاڑ دیا گیا ہے کہ قرآن کی کسی آیت کا درست ترجمہ بھی مسلکی زبان میں نہیں ہوسکتا ہے۔
ایک طلاق دیدی تو یہ کسی وقت کیلئے نہیں ہوسکتی بلکہ ہمیشہ کیلئے ہوگی، پھر زندگی میں دو طلاق باقی رہیں گے۔ اگر رجوع نہیں کیا تو عورت دوسری جگہ شادی کرلے تب بھی باقی رہیں گے۔ پھر عورت نے دوسرے سے طلاق لے کر پہلے والے سے دوبارہ شادی کرلی تو مذہبی دنیا میں بڑے بڑوں کی طرف یہ اختلاف منسوب ہے کہ پہلا شوہر نئے سرے سے تین طلاق کا مالک ہوگا یا پہلے سے موجود 2 طلاق کا۔ جمہور کے نزدیک نئے سرے سے 3طلاق کا مالک نہیں ہوگا۔ امام ابو حنیفہؒ اور انکے شاگردوں کا بھی آپس میں اس بات پر اختلاف نقل کیا جاتا ہے کہ پہلے سے موجود طلاقوں کا مالک ہوگا یا نئے سرے سے 3طلاق کا؟۔ عورت دس آدمیوں سے شادی کرکے ایک ایک طلاق لے تو اس پر سب کے 2، 2طلاق کی ملکیت کا حق باقی ہوگا اور عورت پر مجموعی طور سے 20طلاقوں کی بلڈنگ بنی ہوئی ہوگی۔
شوہر نے کہہ دیا کہ 3طلاق اور عورت نے سن لیا تو شرعاً اس پر 3طلاق واقع ہوں گی لیکن اگر شوہر انکار کرے اور عورت کے پاس گواہ نہ ہو تو عورت خلع بھی لینا چاہے اور شوہر خلع نہ دے تو عورت حرامکاری پر مجبور ہوگی۔ طلاق کے حوالے سے جو عجیب و غریب مسائل اسلام کے نام پر گھڑے گئے ہیں انکے ہوتے ہوئے کوئی بھی معقول قوم ، معقول ملک اور معقول افراد اسلام کو قبول کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ جو مسلمان پیدائشی طور پر مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہوتے ہیں اسلام کو وہ شعوری طور پر قبول نہیں کرتے بلکہ جس طرح ہندوؤں کے گھر میں پیدا ہونے والے افراد گاؤ ماتا کے پجاری اور گائے کے پیشاب پینے تک کو برا نہیں سمجھتے ، اسی طرح مسلمان بھی دیکھا دیکھی اندھی تقلید ، اندھی عقیدت اور اندھا لگاؤ رکھتے ہیں۔
اسلام دین فطرت ہے اور قرآن و سنت کے درست تصورات عالم انسانیت کی توجہ حاصل کرنے کیلئے زبردست ہیں ، یہی وجہ تھی کہ بہت کم وقت میں اس دور میں سپر طاقتیں روم اور ایران کو مسلمانوں نے فتح کرلیا۔ حالانکہ حضرت عثمانؓ ، حضرت علیؓ کی شہادتوں کے بعد مسلمانوں کو بڑی مشکل سے حضرت امام حسنؓ نے اکھٹا کیا تھا۔ احادیث صحیحہ میں 3طلاق کے حوالے سے صحابہؓ کے جتنے واقعات ہیں ان کی تفصیلات دیکھی جائیں تو ان میں الگ الگ 3طلاق دینا طہر و حیض کے حوالہ سے ہی مراد ہیں۔ حضرت رفاعہ القرظیؓ ، حضرت فاطمہ بنت قیسؓ وغیرہ کے حوالے سے احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ عدت میں قرآن و سنت کے لحاظ سے الگ الگ 3 طلاقیں دی گئیں مگر پھر بھی بعض لوگوں نے من گھڑت روایات بنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ لفظ واحد سے حضرت فاطمہ بنت قیسؓ کو ایک ساتھ 3طلاقیں دی گئیں۔ احادیث کے پورے ذخیرے اور ائمہ اربعہؒ کے ہاں صرف 2 واقعات ہیں جن میں ایک ساتھ 3طلاق کا ذکر ہے۔ ایک حضرت عویمر عجلانیؓ جس نے لعان کرنے کے بعد ایک ساتھ3طلاق کا اظہار کیا۔ دوسری روایت حضرت محمود بن لبیدؓ کی ہے جس میں ایک ساتھ 3طلاق پر نبی ﷺ نے ناراضگی کا اظہار فرمایا تھا۔
امام شافعیؒ عویمر عجلانیؓ کے واقعہ سے استدلال پیش کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ان پر ناراضگی کا اظہار نہیں کیا اسلئے ایک ساتھ تین طلاق دینا سنت ہے۔ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک محمود بن لبیدؓ کی روایت سے ایک ساتھ 3طلاق دینا خلاف سنت اور گناہ ہے۔ قرآن میں فحاشی کی صورت پر عدت کے دوران بھی عورت کا نکالنا اور اس کا خود سے نکلنا جائز قرار دیا گیا ہے۔ حضرت عویمر عجلانیؓ کی روایت کا تعلق بھی لعان سے تھا۔ حضرت محمود بن لبیدؓ کی روایت میں نبی ﷺ کی ناراضگی کا اظہار اس بات کیلئے کافی نہیں کہ رجوع نہیں ہوسکتا۔ اسلئے کہ اسی طرح سے رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابن عمرؓ پر بھی حالت حیض میں طلاق دینے پر غضب کا اظہار فرمایا تھا۔ جس کا ذکر کتاب التفسیر سورۂ طلاق صحیح بخاری میں ہے۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی ﷺ نے رسم جاہلیت کی وجہ سے اللہ کی کتاب کو نہ سمجھنے پر سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا تھا۔ جہاں تک رجوع کی گنجائش کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بار بار فرمایا ہے کہ عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل پر باہمی رضامندی سے معروف طریقے پر رجوع کا دروازہ اللہ تعالیٰ نے کھلا رکھا ہے۔ اسلئے نبی ﷺ کوباقاعدہ طور پر یہ وضاحت پیش کرنے کی کبھی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔
سورہ طلاق میں عدت کی تکمیل پر معروف طریقے پررجوع یا معروف طریقے پر الگ کرنے کی وضاحت اور دو عادل گواہوں کا تقررانتہائی جاہل سے جاہل اور کم عقل سے کم عقل انسان کیلئے بھی کافی ہے کہ ایک ساتھ 3طلاق پر اللہ تعالیٰ نے رجوع کا دروازہ بند نہیں کیا گیا۔ پھر سورۂ طلاق میں مزید یہانتک گنجائش کا ذکر ہے کہ جو اللہ سے ڈرا ، اس کیلئے اللہ تعالیٰ راستہ کھول دیگا۔ کاش علماء و مفتیان اپنے ذاتی خیالات کو چھوڑ کر قرآن کریم کی طرف متوجہ ہوجائیں اور مساجد میں عوام کو یہ آیات اور مسائل سمجھانا بھی شروع کردیں۔ اصل معاملہ قرآن و سنت میں حقوق کا ہے۔ شوہر طلاق دیتا ہے تو حقوق کا معاملہ کچھ بنتا ہے اور عورت خلع لے تو حقوق کا معاملہ کچھ اور بنتا ہے۔ جب دونوں آپس میں رہنے پر راضی ہوں تو حلالہ کی رسم کو زندہ رکھنے کا فائدہ صرف ان لوگوں کو ہے جنہوں نے اس لعنت کو کاروبار بنایا ہوا ہے۔ جب تک حکومت کو ان کو ڈنڈا نہ کرے اس وقت تک یہ جاہل عوام کی عزتوں سے کھیلنا بند نہیں کریں گے۔ قومی اسمبلی و سینٹ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

دنیا بھر کی جاہلانہ رسوم قوانین اور اسلامی حقوق کامسئلہ

سعودی عرب، ایران، پاکستان ،افغانستان، ترکی، مصر، عرب امارات، قطر ، عمان،شام،عراق، امریکہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، روس، آسٹریلیا،فلسطین،سوڈان، بنگلہ دیش،برما، ملیشیا، جاپان، لبنان ،چین،کوریا کے علاوہ دنیا بھرکے اسلامی اور غیر اسلامی ممالک میں مسلمانوں کے درمیان بہت سے فرقہ وارانہ، مسلکانہ حقیقی رنجشوں کے علاوہ تہذیب وتمدن اور حالات کے تناظر میں بھی کچھ اختلافات ہیں۔
قرآن وسنت کی عظیم روشنی سے آفتاب کی ضیاء اورمہتاب کے نور کی طرح ہمارا ہر مسئلہ حل ہوسکتاہے۔ اللہ کی کتاب قرآن اور آخری نبی حضرت محمدﷺ کی سنت پر کسی مسلمان کا اختلاف تو دور کی بات ہے وہ شخص مسلمان بھی نہیں ہوسکتا۔ ہمارا اتنا بڑا عظیم الشان اثاثہ ہونے کے باوجود مسلمان اپنے اپنے مفادات اور تعصبات سے کھیل رہے ہیں۔ زوال وپستی کی انتہاء اور بلندی وعروج کے درمیان فاصلے کی کمی نہیں لیکن کسی بیمار ذہن کو بات الٹی لگتی ہو تو اسکے علاج کی ضرورت ہے۔ قرآن شفاء للناس ’’عوام کیلئے شفاء‘‘ ہے۔ دورِ جاہلیت میں باپ کی منکوحہ سے بیٹے شادی رچانے کا حق رکھتے تھے اور منہ بولے بیٹے کی منکوحہ کو حقیقی بہوسمجھ لیا جاتاتھا ۔ اس بدترین بے غیرتی کا اللہ تعالیٰ نے زبردست طریقے سے علاج کردیا ۔
اصلاحات کے نام پر فسادکی بھی بنیاد پڑتی ہے۔ عرب میں لاتعداد عورتوں سے نکاح کا رواج تھا۔بادشاہوں کے حرم سراؤں میں سینکڑوں لڑکیوں کو پابندِ سلاسل رکھا جاتا تھا۔ لڑکے کو باپ کی منکوحہ ، لونڈی یا داشتہ سے نکاح کی اجازت اصلاح کی خاطر بھی دی جاسکتی ہے اور ہوائے نفسانی میں خواہشات کی تکمیل کیلئے بھی۔ معاشرہ اصلاحات بھی لاتا ہے اور فسادات بھی۔ کسی معاشرے میں افراد اپنی بیشمار بیگمات کو طلاق دیتا ہو یا بیوہ بناکر چھوڑتا ہو تو اسکا حل کیاہے؟۔ طلاق شدہ اور بیوہ سے نکاح پر کوئی مشکل سے راضی ہوتاہے۔ اسامہ بن لادن کے باپ نے 22عورتوں سے نکاح کیا تھا۔ جب سعودی عرب نے دیکھاکہ خواتین پر سخت پابندیوں کے باوجود بھی خاطر خواہ اثر نہیں تو مسیار کے نام پر وقتی نکاح یا متعہ کی اجازت دیدی۔ وہاں کے علماء ومفتیان اور مذہبی شدت پسندوں کا حکومت میں کردار ہے۔ بڑے لوگوں پر تو ان کا بس نہیں چلتا مگر غریب غرباء پر ٹھیکہ داری کو جماتے ہیں۔ سختی کے انداز میں وہاں پر کام کرنے والے پسماندہ ملکوں کی عوام سے پوچھتے ہیں کہ ’’آپ نے مسیار تو نہیں کیا ‘‘۔ اگر مذہبی طبقے کے ذہن میں یہ بات ہو کہ’’ حکمرانوں نے قرآن وسنت کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسیار کی اجازت دی ہے‘‘ تو یہ زبردست تصادم ، نفرت اور عدم استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔ اور جب مذہبی طبقے بڑوں سے نہیں نمٹ سکتے اور غریب غرباء پر اپنی ٹھیکہ داری جمانا اپنا حق سمجھتے ہیں تو ملاء اعلیٰ سے ان کا رشتہ ٹوٹ کر احسن تقویم نہیں رہتا بلکہ سافلین میں نچلے ترین درجے پر پہنچ جاتاہے۔ مذہب، سیاست ، صحافت میں کچھ لوگ آلۂ کار کا کردار ادا کرتے ہیں تو معاشرہ کبھی بھی اخلاقی قدروں پر کھڑا نہیں رہ سکتاہے۔
جب امام ابوحنیفہؒ پر وقت کا بادشاہ ، امیرالمؤمنین یا خلیفہ اپنے مقاصد کیلئے قابو نہ پاسکا تو آپ کو جیل میں بند کرکے تشدد کیا اور زندگی سے محروم کردیا۔ امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کو بھی سرِ عام منہ کالا کرکے گدھے پر گھمانے اور سخت ترین کوڑوں کی سزائیں دی گئیں۔ قاضی القضاۃ (چیف جسٹس)شیخ الاسلام کا لقب پانیوالے امام ابویوسف کو حکومت کی تمام مراعات حاصل تھیں، ممکن ہے کہ پاکستان کے چیف جسٹس ثاقب نثار عہدے پر ہوں اور نوازشریف سے مکمل ہمدردی رکھنے کے باجود دوسرے ججوں کے ذریعے نوازشریف کو سزا ہوجائے تو اسی طرح امام ابویوسف کی ہمدردی امام ابوحنیفہؒ کیساتھ ہوں مگر عملی طور سے کچھ نہیں کرسکتے ہوں۔چیف جسٹس و عام ججوں کے جذبے میں فرق ہوسکتاہے، آرمی چیف اور کورکمانڈروں کے جذبے مختلف ہوسکتے ہیں جس طرح نوازشریف اور مریم نوازکی خواہش اسٹیبلشمنٹ سے طبلہ جنگ بجانے میں تھی اور واحد شخص چوہدری نثار تھے جو کھل کر نوازشریف کی خواہش کے خلاف چلے اور آج ان کی فکرسب پر غالب بھی آگئی۔یہاں تک جیو اور جنگ نے بھی نوازشریف کی خواہشات کو اجاگر کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرنے کے بعد اپنی توپوں کا رُخ بدل کر چوہدری نثار کے مشن کو پذیرائی دینا شروع کی۔
خواہشات ، خواب اور خمار کی آنکھوں سے دیکھنے والی دنیا اور معروضی حقائق کی دنیا میں فرق ہوتا ہے لیکن کبھی معروضی حقائق میں بھی خوابوں کی طرح تبدیلی کا عمل اتنا تیزی سے مکمل ہوتا ہے کہ آنکھوں کو یقین نہیں ہوتا۔ سائنس کی دنیا نے ایک ایسا انقلاب برپا کردیاہے کہ مُردے جی اٹھیں تو دنیا پر قیامت کا یقین کرنے لگیں۔اس سے بڑا انقلاب دورِ جاہلیت کو اسلام نے اعلیٰ اخلاقی اقدار سے بدل ڈالا۔ دنیا آج تک اس کی نظیر لانے سے بالکل قاصر ہے۔ حضرت بلال حبشیؓ کو سیدنا کا لقب مل گیا اور ابوجہل وابولہب اور ابن اُبی کی سرداری غارت ہوگئی۔ حضرت علیؓ کے بھائی شہید ہوگئے تو بھابی حضرت ام عمیسؓسے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے شادی کرلی اور حضرت ابوبکرؓ کا وصال ہوا تو اسی سے حضرت علیؓ نے شادی کرلی۔ جس سے محمد بن ابوبکرؓ تھا جس سے پوتاقاسم بن محمد بن ابوبکرؓ تھے جو مدینہ کے 7فقہاء میں بھی تھے۔ عروہ بن زبیرؓ حضرت ابوبکرؓ کے نواسے بھی 7 فقہاء میں تھے اورمکہ پر قابض عبداللہ بن زبیرؓ بھی حضرت ابوبکرؓ کے نواسے تھے۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے کہا کہ ’’متعہ زنا ہے تو حضرت علیؓ نے جواب دیا کہ تم بھی اسی کی پیداوار ہو‘‘۔ (زادالمعاد: علامہ ابن قیم‘‘۔
حضرت امام حسینؓ کی کربلا میں شہادت کے بعد حضرت عبداللہ بن زبیرؓنے مکہ کے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ یزید کی موت واقعی ہوگئی لیکن اپنی زندگی میں مکہ پر قبضہ نہیں کرسکا۔ یزید کی طرف سے لڑنیوالے نے یزید کی موت کے بعد عبداللہ بن زبیرؓ کو صلح کی پیشکش کی مگر آپؓ نے پیشکش کو دھوکہ سمجھ لیا اور مصالحت سے انکار کردیا۔ یزید کی حکومت عدمِ استحکام کا اسقدر شکار تھی کہ چالیس دن میں اسکا بیٹا معاویہؒ اقتدار چھوڑ گیا۔ عبداللہ بن زبیرؓ سے ایک بیٹے کے سوا سب بدست بردار ہوگئے تواپنی 100 سالہ اماں حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ ’’ چاہتا ہوں کہ ہتھیار ڈال دوں اسلئے کہ میری لاش کیساتھ بہت برا سلوک کیا جائیگا تو آپ اس ضعیف العمری میں یہ دُکھ برداشت نہ کرسکوگی۔ حضرت اسماءؓ( نبیﷺ نے ذات النطاقین کا خطاب دیا) نے فرمایا کہ ’’ بیٹا جب تم مرجاؤ تو لاش کو کیا تکلیف ہوگی؟۔ اگر تم ہتھیار ڈال دو تو مجھے اس سے زیادہ تکلیف ہوگی جب تمہاری لاش کیساتھ بہت برا سلوک ہو‘‘۔ عبداللہ بن زبیرؓ نے گود میں سر دیکر دعا کی درخواست کردی کہ آخری اور فیصلہ کن مرحلہ میں جان کی بازی لگانے کا وقت آگیاہے ، استقامت مل جائے، اور ماں نے پیٹھ پر تھپکی دینے کیلئے ہاتھ لگایا تو پوچھا کہ یہ سخت کیا چیز ہے؟۔ بعض اوقات چوٹ کھانے سے بھی جسم سخت ہوجاتا ہے۔ بیٹے نے عرض کیا کہ زرہ ہے تو ماں نے کہا کہ بیٹا اس کو اُتاردو۔ چونکہ ماں نابینا ہوچکی تھیں اور اپنے بیٹے کو بہادری کا سبق سکھارہی تھیں اور اللہ تعالیٰ نے تاریخ کے اوراق میں اس کو محفوظ بھی کرنا تھا۔
عبداللہ بن زبیرؓ کی لاش کو کئی دنوں تک لٹکائے رکھا گیا۔ اماں حضرت اسماء بنت ابی ابکرؓ لاش کے پاس پہنچ گئی تو حجاج نے کہہ دیا کہ ’’دیکھ لیا ، اپنے بیٹے کا انجام !‘‘۔ حضرت اسماءؓ نے فرمایا کہ ’’ بالکل دیکھ لیا اور اللہ کا شکر کہ سودا گھاٹے کا نہیں ۔ تم نے میرے بیٹے کی دنیا تباہ کی ۔ اس نے تمہاری آخرت کو بگاڑ دیا ‘‘۔ تاریخ کے اوراق میں محفوظ یہ واقعات دنیا کے سامنے اسلئے نہیں آتے کہ حکمرانوں کیخلاف بغاوتوں کی تقویت کا باعث بنتے ہیں۔ عربی میں یہ واقعہ فتنہ ابن زبیرؓہے۔ شیعہ اسلئے وقت کے حکمرانوں کی نظر سے گرے ہوئے ہیں کہ واقعہ کربلا کی یاد مناتے ہیں۔ حقائق کا معیارتہذیب وتمدن سے اکثر وبیشتر مختلف رہتاہے۔ امریکہ اور اس کی باقیات سے توقع نہیں کہ افغانستان کے ڈاکٹر نجیب اللہ کی لاش سے ہونے والے سلوک پر دنیا سے معافی مانگ لیں اوراپنے ا قدار کے پیمانوں کو درست کرنا شروع کردیں۔
سندھ کی بیٹی، اسلام کی صاحبزادی ، اقدار کی شہزادی اور دختر انسانیت محترمہ ثانیہ خاصخیلی کی عظیم شہادت کا سانحہ ہماری تہذیب وتمدن ، معاشرہ ، حکومت اور ریاست کے منہ پر کربلا سے بڑی کالک ہے۔ یزید کے دبار میں پہنچتے ہی اہلبیت کے گھرانے کو تحفظ مل گیا۔ زین العابدین نے شہر کی جامع مسجد میں جمعہ کی تقریر کی۔ ثانیہ شہید کے گھر والے تحفظ کی بھیک مانگتے ہیں۔ ہماری عدالتیں قابلِ احترام ہیں لیکن جب مجرم انجام کو پہنچیں گے تو اس میں اتنا وقت لگے گا کہ اس کی معصوم بچی بہن اپنی عمر کی کئی بہاریں کھودے گی۔ خاندان عرصہ تک اس طرح ہراساں رہے گا۔ وڈیرے قاتلوں اور انکے سہولت کاروں کی مونچیں تاؤ کھاتی رہیں گی۔ سیاسی کھوتے ، مذہبی گدھے اور حکومتی وریاستی خر مظلوم خاندان کے ساتھ کھڑے نہیں ہونگے بلکہ کمزور کے مقابلہ میں ظالم طاقتورسے ہمدردیاں جتارہے ہونگے کیونکہ ازل سے تہذیب وتمدن اور معاشرے کی یہی رسم وروایت چلی ہے۔
ثانیہ شہید کی خبر چار دن بعد سوشل میڈیا سے نہ پہنچتی تو حکمرانوں نے کوئی خبر نہیں لینی تھی۔ ثانیہ ایک غریب تھی جس نے اپنی اور خاندان کی عزت کیلئے جان کی قربانی دیدی مگر اسلامی، انسانی اقدار کو تحفظ دے گئی۔ سندھ، پاکستان، اسلام اور انسانیت کو اپنی اس عظیم سپوت پر فخر کرنا چاہیے ،جس نے بڑی بہادری سے جامِ شہادت قبول کرلی۔ ثانیہ سندھ ، انسانیت اور اسلامی اقدار کی محسن ہیں۔ سکولوں ، کالجوں، یونیورسٹیوں، عدالتی بار کونسلوں، پریس کلبوں اور مدارس میں سیمینار، جلسے اور جلوسوں کے ذریعے سے ان کی غیرت کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہیے ۔ اس کی یومِ شہادت کو عالمی طور پر ’’ انسانی غیرت ‘‘ کو اُجاگر کرنے نام پر منانا چاہیے اور یہی اسلام کے احکام اور انسانی اقدار کا بڑا سرمایہ ہے۔ انسان کو یہی غیرت جانوروں سے ممتاز کرتی ہے۔ تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں اور حکومت وریاست کی اہم شخصیات کو ملکر ثانیہ شہید کے قبر پر سلامی پیش کرنے کی ضرورت تھی تاکہ ظالموں کا قلع قمع اور غریبوں، مظلوموں اور بے کسوں کیلئے پاکستان سے دنیا کے سامنے ایک مثبت پیغام جائے۔ پاکستان کی سب سے بڑی کمین گاہ دارالخلافہ اسلام آباد سے زنجیرمیں جکڑی ہوئی لڑکیاں پکڑی گئیں ہیں جو فروخت کی جارہی تھیں۔ ثانیہ شہید کا جذبہ اور ثانیہ شہید کی قربانی کو اُجاگر کرنے سے ہمارا معاشرہ اس گندے نظام سے نکل آئیگا جس کے خمیر سے بڑے بھیانک انداز میں دنیابری طرح لتھڑ چکی ہے۔
سندھ کی پارلیمنٹ سے شادی کیلئے لڑکیوں کی عمرکم ازکم 16کی جگہ 18سال کا قانون پاس کیا گیا جو پاکستان کے دیگر صوبوں کے برعکس تھا اور سینٹ میں پیپلز پارٹی کے اپنے لوگوں میں سے بھی رحمن ملک وغیرہ نے حمایت نہیں کی۔ امریکہ میں ایک طرف آزاد جنسی معاشرہ ہے تو دوسری طرف شادی کیلئے بلوغت ہی نہیں اچھی خاصی عمر بھی شرط ہے۔ کچھ معاملات وہ ہوتے ہیں جن کا تعلق حکومت سے ہوتاہے اور کچھ معاملات میں حکومت بے بس دکھائی دینے پر مجبورہوتی ہے۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں جنسی بے راہ روی کو روکنا ممکن نہیں تو شادی پر پابندی لگانے سے کیا فوائد حاصل ہوسکتے ہیں؟۔ امریکہ میں نکاح کیلئے بڑے سخت قوانین ہیں ، نکاح کے بعد عورت جدائی اختیار کرنا چاہے یا شوہر، دونوں صورتوں میں جائیدادبالکل آدھی آدھی تقسیم ہوتی ہے۔ اگر حکومت بچپن کی شادی پرپابندی نہ بھی لگائے تو لوگ خود بھی شادی کے بجائے اس خوف سے بوائے اور گرل فرینڈز بننا پسند کرتے ہیں کہ جائیداد تقسیم ہوگی۔ نکاح کی خاص پختہ عمر تک پہنچنے کیلئے جسمانی اور جنسی طورسے بالغ ہونے کے بجائے ذمہ داری، عقل اور شعور کی عمر تک پہنچنا بھی ضروری ہوتاہے اور قرآن میں بھی اتفاق سے اسی ہی کا ذکرہے۔ چنانچہ یتیم بچوں کیلئے اللہ نے فرمایا ہے کہ ’’جب وہ نکاح تک پہنچ جائیں ‘‘۔ اس میں جنسی بلوغت مراد نہیں بلکہ اس کی وہ صلاحیت مراد ہے جس میں مالی ذمہ داری اٹھانے کے قابل بن جائے۔
غلام احمد پرویز نے حتی اذا بلغوا نکاحاسے عورت کی جنسی بلوغت مراد لی ہے۔حالانکہ یہاں سرے سے عورت کا ذکر نہیں اور بلوغت کے معنیٰ بھی بلوغت نہیں بلکہ پہنچنے کے ہیں اور وہ بھی جنسی بنیاد پر نہیں بلکہ مالی ذمہ داری اٹھانے کیلئے۔ چونکہ اسلام نکاح کا حق مہر، شادی کے اخراجات، بیوی بچوں کا نان نقفہ سب ہی مرد کے ذمہ ڈالتاہے اسلئے پاکستان میں لڑکی کیلئے شادی کی عمر16اور لڑکے کی عمر18 سال رکھنے میں خواتین کی حق تلفی نہیں ۔ اگر دنیا کو پتہ چل گیا کہ اسلام میں غیرشادی شدہ کیلئے بدکاری کی سزا 100کوڑے ہیں لیکن لڑکیوں کو جان سے ماردیا جاتاہے تو اقوام متحدہ مطالبہ کریگی کہ لڑکیوں پر شادی کی خاص عمرکی پابندی ختم کردی جائے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی چند ٹکوں کو کھرے کرنے کیلئے کام کرنے کے بجائے واقعی میں انسانی حقوق کی پاسداری کیلئے کام کریں گی۔ اگر چہ امریکہ کی ریاستوں میں شادی کیلئے لڑکیوں کی کم ازکم عمر الگ الگ ہے لیکن وہاں پولیس کے ذریعے چھاپہ مار کاروائی کی ضرورت بھی نہیں ہوگی اسلئے کہ علیحدگی کی صورت میں عدالت کی طرف سے پھر کوئی ریلیف نہیں مل سکتا ہے اور جنسی میلاپ اور نکاح کے بغیر بچوں کی پیدائش پر ویسے بھی کوئی قدغن نہیں لگائی گئی ہے۔ بچوں کو جائیداد کی تقسیم کا سامنا کرنا پڑے تو معاشرے کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اسلئے امریکہ اور مغرب میں اپنے مخصوص حالات اور تہذیب وتمدن میں قوانین بھی ہم سے بالکل مختلف ہیں۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں مولانا فضل الرحمن MRDکی تحریک میں تھے اور مولانا نورانی ؒ کے بیان اخبار میں شائع ہوتے تھے کہ ’’ کراچی کو فری سیکس زون میں تبدیل کرنے کی سازش ہورہی ہے‘‘۔ آج حالات بدل گئے، بینظیر بھٹو کیخلاف بڑا شرمناک پروپیگنڈہ ہوتا تھا ، تومریم نوازشریف خود کو بینظیر بھٹو بناکر پیش کرتی ہے۔ احتساب عدالت کا یہ فائدہ ضرور ہواہے کہ مریم و صفدر کی جوڑی قریب قریب ایک جگہ دکھائی دیتی ہے۔ عمران خان نے عائشہ گلالئی کیخلاف الیکشن کمیشن میں اس بنیاد پر کیس دائر کیا کہ اس نے شیخ رشید کواپنا ووٹ نہیں دیا ، حالانکہ عمران خان اور جہانگیر ترین نے بھی اپنے نامزد وزیراعظم شیخ رشید کو ووٹ دینے کی زحمت نہیں کی۔اب سیاست سیاست نہیں رہی بلکہ بے شرمی، بے غیرتی، بے حیائی، بے ایمانی اور بے وقوفی کی لیاقت رہی ہے۔ میرے لئے اور پورے معاشرے کیلئے سب سے عزتمند طبقہ وہ مخلص سیاسی رہنما اور کارکن ہیں جو اصولوں کیلئے اپنے ٹھیٹ کردار اور گفتار کی ضمانت ہوتے ہیں لیکن بیکارسیاسی قیادت اور پارٹیوں نے ان کو بھی بے وقعت بنایا ہے۔ بلاول بھٹو، مریم نواز، نوازشریف، آصف زرداری، عمران خان، سراج الحق، مولانا فضل الرحمن،محمود خان اچکزئی، چودھری شجاعت، شیخ رشید ، الطاف حسین اور سب ہی سیاسی لیڈروں نے اصول، اخلاقیات اور کردار کا جنازہ نکال دیا ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت کی قیادت کرنیوالاسیاست کے نام پر قیادت کے چھولے پُلاؤ بیچنے کے لائق بالکل بھی نہیں رہاہے۔ فوج کا کام سیاست نہیں اور ان کی نرسرسیوں و گملوں میں پھلنے والی قیادت کیا قیادت ہوگی؟۔ موروثی قیادت اور نااہل قیادت کی گود میں پرورش پانے والی قیادت کے اندر کیا صلاحیت ہوگئی اور اسکے کیا اوقات اور اخلاق وکردار ہوں گے؟۔ اچھے لوگوں کو سیاست کیلئے لنگوٹ کس کر نکلنا ہوگا۔
محمود اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن نوازشریف کیلئے بیربل و ملادوپیازہ نہ بنیں جو پیرروشان کے مقابلہ میں مارے گئے، قبائل کے 40FCR کی زد میں خود آئیں تو قبائل کے درد کا پتہ چلے ،کالے قانون کا سامنا قبائل کو ہی کرنا پڑتاہے۔ختم نبوت کی ترمیم کیلئے میڈیا نے خوب آواز بلند کردی، پھر سینٹ میں بل کی منظوری ہوئی، جس پر مزید شور گونج اٹھا۔ قومی اسمبلی میں بل پیش ہونے سے پہلے شیخ رشید نے سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور مفتی محمود کا نام لیکر مولانا فضل الرحمن کو پکارا۔ جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ نے بھی ختم نبوت کی ترمیم کیخلاف بولا مگر پیپلزپارٹی کے خورشید شاہ نے مہنگائی پر بات کی، تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی نے وزیراعظم کی نااہلی کو موضوعِ بحث بنایا۔ مسلم لیگ ن کے بیرسٹر ظفراللہ کی وضاحت اعترافِ جرم بھی ہے اور اس میں وزن بھی ہے کہ ’’ سب جماعتیں ختم نبوت کی ترمیم میں آن بورڈ تھیں‘‘۔ تحریک انصاف کے قائد عمران خان کی وڈیو بھی آچکی ہے کہ وہ قادیانی جماعت کے سربراہ سے ملاقات کرکے ووٹ میں تعاون مانگ رہاہے۔
تحریک انصاف، پیپلزپارٹی ، ن لیگ اور جمعیت علماء اسلام کے رہنماؤں نے اس سلسلے میں غفلت نہیں بدترین منافقت کا رول ادا کیاہے۔ اگر فوج کے ترجمان آصف غفور کی طرف سے وضاحت نہ آتی کہ ’’پاک فوج ختم نبوت کے مسئلہ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریگی‘‘ تو آئین میں ختم نبوت کی اس ترمیم کا یہ لوگ کریدٹ لیتے لیکن جب فوج کی طرف سے وضاحت آئی تو یہ خوف پیدا ہوا کہ جو حشر جیو ٹی وی چینل کا توہین اہل بیت کے مسئلہ پر کیا گیا تھا ، اس سے زیادہ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کا ہوسکتاہے تو ترمیم واپس لی گئی۔ جسکے بعد مولانا فضل الرحمن کا بیان جدہ سے آگیا کہ ’’مجھے معلوم نہیں کہ ختم نبوت کی ترمیم کا مسئلہ کیا ہے؟‘‘۔ اہم مواقع پر مولانا نے ہمیشہ کی طرح رفوچکر ہونے کی چلن سیکھنے کا فائدہ اٹھایا تھا۔ پھر سوات کے جلسہ میں مولانافضل الرحمن نے کہا کہ ’’ ہم نے ختم نبوت کی ترمیم کی سازش ناکام بنادی‘‘۔ منافقت میں گراوٹ کے حدود اور قیود نہیں ہوتے۔ اسلئے اللہ نے فرمایا کہ’’ منافق جہنم کے سب سے نچلے حصہ میں ہونگے‘‘۔پھر مولانا فضل الرحمن نے یہ بیان دیا کہ ’’امریکہ کو پیغام دیا گیا کہ ہم نے ختم نبوت کا مسئلہ آئین سے نکال دیا‘‘۔
اب کوئی مولانا فضل الرحمن سے پوچھ لے کہ یہ پیغام کس نے دیا ؟۔ توکہے گا کہ یہ حالات پر منحصر ہے، اگر نواشریف کی کشتی ڈوب گئی تو نوازشریف کا نام لوں گا اور عمران خان نے مات کھائی تو اسکا نام لوں گا، جنرل قمر جاوید باجوہ کا نام آیا تو اسکا نام لوں گا۔ اور کبھی خدانخواستہ حالات ایسے بن گئے کہ ختم نبوت کی ترمیم واپس لینے کے دینے پڑگئے تو مولانا فضل الرحمن کہے گا کہ ’’ امریکہ کو میں نے پیغام دیدیا تھا کہ یہ کام ہم نے کیا تھا لیکن سازش کے تحت اس کو ناکام بنادیا گیا‘‘۔ ہماری سیاست اور مذہب کا یہ معیار ہے کہ امیر جماعتِ اسلامی سراج الحق نے کہا کہ ’’ شہباز شریف تم کب رانا ثناء اللہ کو نکالوگے؟‘‘۔ در پردہ سراج الحق کہے گا کہ میں نے رانا ثناء اللہ کیخلاف مرغی بن کر آذان دی ، جے یوآئی والے رانا ثناء اللہ سے بڑے مجرم ہیں۔ آج مولانا فضل الرحمن مرغا بن کر کُڑ کُڑ کرے تو سراج الحق مرغی بن کر بغل میں کھڑا ہوگا۔ سخت زباں کا استعمال اتنا خطرناک نہیں جتنا منافقانہ کردار خطرناک ہوتاہے۔ پاک فوج کے پہلے دو آرمی چیف آزادی کے بعد بھی انگریز تھے، قادیانی آرمی چیف منافقت کی بنیاد پر بنتاہے تو یہ غلط ہے، پاک فوج کیلئے بھی اور قادیانیوں کیلئے بھی۔
نوازشریف نے جنرل باجوہ پر الزام کی گنجائش دیکھ کر آرمی چیف بنانے کا فیصلہ کیا ہوگا اسلئے کہ اس کو جنرل راحیل شریف کے بعد بہت کمزور آدمی کی ضرورت تھی ، جب مسلم ن نے دیکھا کہ ختم نبوت کا مسئلہ کریڈٹ بننے کے بجائے گلے کا طوق بن رہاہے تو کیپٹن صفدر سے قومی اسمبلی میں فوج میں عہدوں سے قادیانیوں کو ہٹانے پر زور دیا ، کچھ ڈاکٹر عامر لیاقت جیسے ہیں کہ الطاف حسین کا کلمہ بھی پڑھ لیتے ہیں، جیو کا کلمہ بھی پڑھ لیتے ہیں، پاکستان اور اسلام کا کلمہ بھی پڑھ لیتے ہیں اور جب وہی بات ڈی رینجرز کرتاہے کہ فرقوں کی بجائے اسلام اور لسانی وصوبائی اکائی کی بجائے اپنی شناخت میں پاکستانیت کو اولین ترجیح دو، بول سے فارغ ہونے کے بعد ڈاکٹر عامر لیاقت کی طرف سے کلپ جوڑ کر بلیک میلنگ کی گئی جس پر دوبارہ بول میں رکھوا دیا گیاہے۔ اب اگر جنرل باجوہ نے جھوٹ سے بھی کہہ دیا کہ ’’ میں کٹر قادیانی ہوں اور ڈاکٹر عامر لیاقت مجھ پر تبصرہ کرو ‘‘ تو ڈاکٹر عامر لیاقت کہے گا کہ’’ تحریک انصاف اسلئے میں جوائن کی ہے کہ عمران خان قائداعظم کا نام لیتاہے، قائداعظم کے قادیانی پر کفر کا فتوے نہیں لگاتے تھے، یہ تو پاکستان مخالف ہندؤں کے ایجنٹ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا ایجنڈہ تھا جس کو ذوالفقار علی بھٹو نے فوج کو کمزور بنانے کیلئے استعمال کیا تھا۔ قادیانی ہم سے زیادہ پکے مسلمان ہیں‘‘ ۔
جب صحافت اور سیاست کا معیار گر جائے۔ کوئی میڈیا چینل اور صحافی سیاست نہیں کرسکتااورنہ ہی کسی سیاسی جماعت کو سپورٹ کرسکتاہے، یہ قانوناً جرم ہے لیکن سیاستدان صحافت اور صحافی سیاست کررہے ہیں۔ یہی منافقت کی بنیادیں ہیں اور اس پر پابندی ہونی چاہیے۔ صحافت کا کام کارگردگی کی بنیاد پر بلاتفریق سب ہی کی حمایت اور سب ہی کی مخالفت ہے تاکہ قوم ، ملک اور سلطنت میں سیاست اور سب اداروں کی کارکردگی بہتر بنائی جاسکے اور غلطیوں کی اصلاح ہوسکے ۔ سب سے بڑی اور مقبول سیاسی جماعت کا یہ معیار ہے کہ میڈیا، پارلیمنٹ اور دنیا بھر میں متضاد اور مختلف بیانات کے ذریعے قابلِ وکیلوں کو استعمال کرکے عدالتوں میں صفائی پیش نہ کرسکے اور الزام سازش کا لگارہے ہیں۔ کوئی فوجی عدالتوں کے ذریعے ٹرائیل ہوتا تو سازش کہہ سکتے تھے اور دوسری طرف پارلیمنٹ میں ایک ترمیم ہوگئی جسے نادانستہ غلطی قرار دیا جارہاہے۔ کلمہ کی بات ہے تو فوج اور پارلیمنٹ کیلئے مذہبی معیار کے پیمانے کو بھی بدل دیا جاتاہے۔ مرزاغلام احمد قادیانی نے جہاد کو منسوخ قرار دیا اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاک فوج کا راستہ جہاد کا ہے۔ قادیانیوں کو مذہبی طور پر فوج میں خود بھی شمولیت سے اسلئے گریز کرنا چاہیے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا اسکے سوا کوئی دوسرا کارنامہ بھی نہیں اور جب اس کارنامے پر زد پڑے تو ایسی نوکری کرنا انکے مذہب، ضمیر اور مشن کے خلاف ہے اور فوج پر بھی برا اثرمرتب ہوتاہے۔
جاویداحمد غامدی ایک قابل آدمی ہیں وہ کہتاہے کہ ’’ تمام انسانیت کی طرح میں قادیانیوں کیلئے بھی نرم گوشہ رکھتا ہوں ، پارلیمنٹ نے ان کو کافر قرار دیا ہے تو میرے نزدیک بھی وہ کافر ہیں لیکن پارلیمنٹ نے یہ غلط کیا ہے اسلئے کہ آغا خانی ، بوہری اور دیگر فرقوں کیلئے پہلے کبھی یہ طرزِ عمل نہیں اپنایا گیا۔ پارلیمنٹ کا یہ کام نہیں کہ آپ کسی کو اسلام سے نکالنے یا داخل کرنے کا کام کرو۔ قادیانی تو صرف ایک نبی کا اضافہ مانتے ہیں اور جولوگ الہام کے قائل ہیں وہ تو نبوت کا بڑا سلسلہ مانتے ہیں، میرے نزدیک وہ بھی ختم نبوت کا انکار ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ نبوت میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہا مگر مبشرات، عرض کیا گیا کہ مبشرات کیا ہیں تو نبیﷺ نے فرمایا کہ نیک آدمی کا خواب۔ حدیث سے ختم نبوت ثابت ہوتی ہے اور کچھ بھی باقی نہ رہاہے‘‘۔
جاوید غامدی کا یہ وڈیو تضادات کا مجموعہ ہے، مان لیا کہ پارلیمنٹ کا کام یہ نہیں تو پھر قادیانیوں کے معاملہ میں کیوں مان لیا؟۔ قادیانیوں سے بدترکافر علماء و صوفیاء کے وہ سلسلے ہیں جن کی کتابوں میں الہامات درج ہیں تو پارلیمنٹ کی وجہ سے ایک طبقہ کو کافر کہنا اور دوسرے کو نہیں کہنا کہاں کا انصاف ہے؟۔ جبکہ بقول تمہارے اس میں پارلیمنٹ کا کردار بالکل بھی نہیں ہونا چاہیے۔ یہ کونسی منطق ہے کہ پارلیمنٹ کی ایسی بات جس کا اس کو اختیار ہی نہیں اس پر کیسے کلمہ کا انحصار کیا جائے۔
جاوید احمد غامدی نے حدیث کو بھی ختم نبوت کے حق میں بیان کیاہے یا اس کے خلاف؟۔ اس کی متضاد منطق کے باعث یہ بھی غلط فہمی کا باعث ہے۔ جب نبوت کا کوئی حصہ باقی نہیں رہا تو کیا نیک آدمی کے خواب کو نبوت میں سے باقی حصہ قرار دیا گیا ہے؟۔ نبوت سے مراد حدیث میں کیاہے؟۔ اور مبشرات کیاہے؟۔ نبوت سے مراد غیب کی خبریں ہیں اور غیب کی خبروں کا واحد ذریعہ وحی ہے۔ وحی کا سلسلہ بالکل ختم ہوچکاہے اور اس کی کوئی صورت باقی نہیں رہی ہے۔ عربی میں استثناء کی دوقسم ہیں ایک کی مثال یہ کہ’’ قوم آئی مگر زید‘‘۔ زید کا تعلق قوم کے افراد سے ہے ، اس کو متصل کہتے ہیں ، دوسری قسم کی مثال یہ ہے کہ ’’ قوم آئی مگر گدھا‘‘ ، گدھے کا تعلق قوم کے افراد سے نہیں ، اس کو استثناء منفصل کہتے ہیں۔ حدیث میں مبشرات کا تعلق استثناء منفصل سے ہے۔ جاوید غامدی نے جس نصاب میں مہارت حاصل کی ہے ، اس میں اپنی قابلیت کے جوہر دکھاکر قوم کی خدمت کریں، اسلام کی تبلیغ پر پابندی نہ تھی اور نہ ہونی چاہیے لیکن گمراہ کن خیالات کو الٹی سیدھی منطق سے بغیر کسی درست دلیل کے پیش کرنا انتہائی گھناؤنا فعل ہے، جس کی سخت مذمت بھی مناسب ہے۔
نیک آدمی کے خواب کا حدیث میں نبوت کے حوالہ سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس کو محض خواب کی بنیاد پر بشارت قرار دیا گیاہے۔ الہام اچھے اور برے ہوسکتے ہیں اور قرآن میں اس کا ذکر ہے، نیک آدمی کا خواب یا الہام نبوت کے باقیات نہیں اور اس بنیاد پر نبوت کا دعویٰ بھی غلط ہے اور اس کو نبوت قرار دینا بھی بالکل غلط ہے۔ جاویداحمد غامدی نے مرزاغلام احمد قادیانی کی صف میں امت کے تمام طبقوں کوبھی شامل کرکے بدترین جہالت کا ثبوت دیاہے۔ غلط الہامات کو درست سمجھ کر لوگ غلط راہ پر لگ سکتے ہیں لیکن جب تک اس کو وحی کا درجہ نہ دیں تو کافر نہیں۔مرزا غلام احمد قادیانی اور اسکے پیروکاروں نے شیطانی الہامات کو وحی سمجھ کر عام مسلمانوں کواس بنیاد پر کافر قرار دیا کہ ’’ اس مسیح موعود کو تم کیوں نہیں مانتے، جس نے محمدی بیگم کی محبت میں غلط سلط عربی جملوں کو جوڑ کر‘‘ اسے الہامات اور وحی کا نام دے رکھا تھا۔
سعودی عرب کے ولی عہد نے بھی نئے اعلانات کردئیے ہیں، اسلامی شدت پسندوں اور مسلمان اعتدال پسندوں کے درمیان معرکہ آرائی ختم کرنے کیلئے بہت ضروری ہے کہ قرآن واحادیث کے واضح احکام کا خاکہ سامنے لایا جائے۔ اسلام کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ دین میں زبردستی کا تصور قرآن وسنت نے ختم کردیا۔ لاکراہ فی الدین کوئی مصنوعی جملہ نہیں، مدینہ کی ریاست نے صلح حدیبیہ میں بھی اس پر عمل کیا۔ نبیﷺ نے ابن صائد سے کہا کہ میں کون ہوں، ابن صائد نے کہا: آپ اُمیوں کے نبی ہیں اور میں سارے عالمین کا نبی ہوں۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ جو اللہ کے نبی ہیں وہی اللہ کے نبی ہیں‘‘۔ صحابیؓ نے قتل کی اجازت مانگی تو نبیﷺ نے منع فرمادیا۔ جب حضرت ابوبکرؓ کے دور میں ایک عورت نے نبوت کا دعویٰ کرکے مدینہ پر فوج کشی سے حملہ کردیا تو وہ گرفتار کرلی گئی اور وعدہ لیکر چھوڑ دی گئی کہ پھر وہ مدینے کا رخ نہیں کریگی۔ حضرت ابوبکرؓ نے خلافت مستحکم کرنے کیلئے نبوت کے جس دعویدار مسلیمہ کذاب کا خاتمہ کیا تھا ، نبوت کی دعویدار عورت نے اسی سے شادی رچائی تھی۔ ریاست مانعین زکوٰۃ سے جنگ کا فیصلہ اور حج وعمرے پر ایک ساتھ پابندی لگائے تو اس کی محرکات کو دیکھ کر اتفاق یا اختلاف کا اظہار کرنا چاہیے۔ تاکہ مطلق لعنان حکومتوں کا قیام بھی عمل نہ آئے اور فتنوں کی بھی اچھی طرح سے سرکوبی ہو۔ ایک دور وہ تھا کہ حکومت پاکستان نے ہی ’’ ختم نبوت‘‘ پر پابندی لگائی تھی جس میں مولانا عبدالستار خان نیازی کو داڑھی منڈھانا پڑگئی تھی۔
ایک آدمی مغربی کلچر میں اپنا ایمان محفوظ نہیں سمجھتا اورمسلم حکومتیں رقص وسرود کی محافل سجاتے ہیں تو شدت پسندوں کیلئے خود کش حملہ کرنا ایمان کا تقاضہ بن جاتاہے اور اسٹیج پر موجود اداکارہ ہاتھ نہیں آتی تو لمحہ بھر میں حوروں کے مزے اڑانے کا شوق پورا کردیتاہے جس کی تربیتی کیمپوں میں اس کو ترغیب ملی ہوتی ہے۔ میڈیا چینلوں پر مفتی عبدالقوی کے قندیل بلوچ کیساتھ ویڈیو کلپ دکھائے جائیں مگر ان احادیث کو بھی سامنے لایا جائے جس میں مدینہ کی ریاست میں رقص وسرود اور شراب کباب کی محل سجائی گئی تھی۔ سید الشہداء امیر حمزہؓ نے خاتون رقاصہ کے اشعار پر حضرت علیؓ کی اونٹنی کے نشہ میں مست ہوکر ٹکڑے کردئیے۔ بنیﷺ نے فرمایا کہ یہ تم نے کیا ؟ جس پر امیر حمزہؓ نے نشے کی حالت میں کہا کہ ’’ جاؤ، تیرا باپ میرے باپ کا نوکر تھا‘‘ اس حدیث میں ہے کہ نبیﷺ سمجھ گئے کہ نشہ میں ہے اور واپس تشریف لے گئے۔
خاتون دونوں ہاتھوں اور دونوں پیروں سے رقص کررہی تھیں،صحابہؓ دیکھ رہے تھے اور نبیﷺ بھی دیکھنے کھڑے ہوگئے، اکابر صحابہؓ حضرت ابوبکرؓ ، حضرت عثمانؓ ، حضرت علی اور دیگر بھی اس محفل کو دیکھ رہے تھے۔ حضرت عمرؓ نے کو آتے دیکھا تو رقاصہ پھر بھاگ کھڑی ہوگئی۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’ عمر سے شیطان بھی بھاگتاہے‘‘۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ نبیﷺ سے حضرت عمرؓ کے اندر زیادہ روحانی طاقت تھی بلکہ عوام کو ایک طرف اس روایت میں ریلف ہے تو دوسری طرف علماء وصوفیاء کیلئے اعتدال کی راہ ہے کہ ایسا نہ ہو کہ رقص وسرود کی محفل کو سنت اور صحابہؓ کا اجماع قرار دیکر اپنی ان ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوجائیں جو نبوت کے کام کے حوالہ سے ان پر عائدہوتی ہیں۔ ان روایات سے امت مسلمہ اعتدال کی راہ پر چل سکتی ہے۔ علماء کرام کیلئے یہ ضروری ہے کہ قرآن وسنت کے ذریعے سے ایک فعال کردار ادا کریں۔ مولانا فضل الرحمن کا سارا ٹبر حکومتوں سے ملنے والی مراعات پر چلتاہے اور کوئٹہ کے جلسے میں کہتا ہے کہ علماء اور مدارس کیلئے حکومتی امداد زہر قاتل ہے۔ تحریک انصاف نے مولانا سمیع الحق کو فنڈز دئیے تو مولانا فضل الرحمن کے بھائی اپنا حصہ نہ ملنے کا کیوں شکوہ کیا؟۔ مولانا کی تقریر نہیں سنی لیکن جمعیت کے ایک پرانے رہنما نے بتادیا کہ کوئٹہ میں علماء نے محسوس کیا ہوگا کہ مولانا فضل الرحمن کو فنڈز ملتے ہیں اور ان کو اس توقع سے باز رکھنے کیلئے یہ بیان داغا ہوگا۔ جس سے بیچارے غریب علماء کرام محروم ہیں اور انہی کے بل بوتے پر مولانا کی سیاست چلتی ہے۔
حکومت کا بڑا مسئلہ مالی بحران ہے، ہمارے پاس اشرف میمن اور شاہد علی جیسے ماہرین اور فیروز چھیپا جیسے امین موجود ہیں جو ملک کی خدمت کرکے بحرانوں کی زد سے نکالنے کی بفضل تعالیٰ صلاحیت رکھتے ہیں۔ بلوچستان کا بنجر علاقہ سیاحت کیلئے ترکی کے طرز پر بناؤ سنگھار کرکے بہت پیسہ کمایا جاسکتاہے۔ قوم و ملک کی سمت اچھی ہو تو عبدالقدوس بلوچ، انکے بھائی وہاب بلوچ اور دیگر بلوچوں کو میدان میں اتار کر بلوچستان کو پاکستان کا پرامن علاقہ بنانے کی بھی بفضل تعالیٰ صلاحیت رکھتے ہیں۔ سب سے مشکل کام انسانیت اور اسلامی شدت پسندوں کے درمیان حقیقی اعتدال کی راہ اور فرقہ وارانہ اختلافات کا خاتمہ ہے اس کی بھی قرآن وسنت کی عظیم لشان روشنی کی بدولت ہمارے اندر صلاحیت ہے ۔: فاما بنعمت ربک فحدث ’’پس جو اپنے رب کی نعمت ہے اس کا اظہار کرو‘‘۔ خادم علماء وصلحاء سید عتیق الرحمن گیلانی

اتنے نکاح کئے کہ اپنے سالوں کا پتہ نہیں. مولانا طارق مسعود

itne-nikah-kie-keh-apne-saloon-ka-pata-nahi-mufti-tariq-masood

جامعۃ الرشید کے مفتی طارق مسعود سوشل میڈیا پر اپنے بیانات کی وجہ سے توجہ کا مرکز بن گیاہے اور بہت ساری ویڈیوز نیٹ پر موجود ہیں۔ ایک وڈیو میں زیادہ سے زیادہ شادیوں کی ترغیب دیکر کہاہے کہ آج کل سالے بھی جہیز میں مل جاتے ہیں۔مجھ سے کسی نے کہا کہ تمہارے کتنے سالے ہیں ؟ میں نے جواب دیا کہ اتنے سارے ہیں کہ انکا شمار نہیں کرسکتا، پتہ نہیں کون کون ہیں؟۔
نوشتۂ دیوار کے کالم نگار عبدالقدوس بلوچ نے اس پرتبصرہ کیا ہے کہ مفتی صاحب نے حلالہ کو جب کارِ ثواب قرار دیا ہے تو اس لعنت سے مشکل سے محروم ہونگے۔ حلالہ میں سالے، سالیوں کی بات تو دور کی ہے، ساس سسر کو بھی کوئی نہیں پہچانتاہے مگر یہ بہت خطرناک بات ہے اسلئے کہ حلالی والی پھر تمہاری بیگم بنتی ہے ، اسکے بچے تمہارے بچے بنتے ہیں اور وہ تمہارے بچوں کی سوتیلی ماں بنتی ہے۔ یہ کہاں سے معلوم ہوگا کہ حلالہ کروانے والی کی بچی سے کل تمہاری شادی نہ ہو؟۔ اس کی ماں سے بھی شادی جائز نہیں لیکن جب ساس کا پتہ ہی نہ ہو تویہ کہاں سے پتہ چلے گا کہ کون کس سے شادی کررہا ہے۔ مفتی طارق مسعود حلالہ کے حوالے سے اپنے بیان پر نظر ثانی کریں، اسطرح دیگر معاملات پر غور کریں، ضروری نہیں کہ فقہ کا ہرمعاملہ درست ہو ورنہ سوشل میڈیا بھی غلط ہے

عدت کی تکمیل تک صلح کی شرط پر رجوع کی گنجائش کو قرآن نے برقرار رکھا

teen-talaq-kay-baad-sulah-ki-shart-per-ruju-ho-sakta-hai-surah-baqarah-228

’’ طلاق والی اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں تین مراحل تک۔ ۔۔۔ اور انکے شوہر ان کو اس مدت میں لوٹانے کے زیادہ حق دار ہیں بشرط یہ کہ ان کا پروگرام اصلاح کا ہو‘‘۔ ( البقرہ: آیت 228)رجوع کے حق اور گنجائش میں فرق ہے۔ کسی کیلئے یہ آیت طلاق رجعی کی دلیل تو کسی اور مسلک کیلئے لعل یحدث بعد ذٰلکاور کسی کیلئے اذاطلقتم النساء فبلغن اجلھن طلاق رجعی کی دلیل ہے۔
اگر مسلمان کو اختیار دیا جائے کہ قرآن کی آیات میں اللہ کو چوہا جیسا حافظہ رکھنے والا قرار دو، یا نام نہاد شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی کو، تو دارلعلوم کراچی کا مفتی کہے گا کہ میرا پالنے والا مفتی تقی عثمانی ہے اسلئے اس کو چوہا قرار دینا روزی پر لات مارناہے۔ مفتی تقی عثمانی نے ’’قرآن کا آسان ترجمہ‘‘ میں قرآنی الفاظ کو واضح رونڈ ڈالاہے ۔
جب اللہ تعالیٰ نے واضح طور سے کہہ دیا کہ ’’ عدت میں اصلاح کی شرط پر شوہر کو رجوع کرنے کا حق حاصل ہے ‘‘ تو اسکے بعد یہ ممکن نہ تھا کہ اللہ اپنی بات کی خلاف ورزی کرتا کہ ’’عدت میں غیرمشروط رجوع کا حق بھی حاصل ہے‘‘ اور یہ بھی بہت بڑا تضاد ہوتا کہ اللہ اپنی آیت کا مذاق اُڑاتا کہ ’’عدت کے اندر جو رجوع کاصلح سے مشروط حق دیاتھا وہ بھی واپس لے لیاہے‘‘۔ یہ توپھرنعوذ باللہ قرآن میں تضاد ہوتا۔
بس اتنی بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ نے سورۂ بقرہ کی آیت228میں حکم واضح کیا تھاکہ عدت میں اصلاح کی شرط پر شوہر رجوع کرسکتاہے۔ اسی حکم کوآیت 229میں بھی بعینہ باقی رکھاہے۔ الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف اوتسریح باحسان ’’ طلاق دو مرتبہ ہے پھر معروف طریقہ سے رجوع یااحسان کیساتھ رخصتی ہے‘‘۔ یہ عدت کے مراحل کی تفصیل ہے جو نبیﷺ نے بھی حضرت ابن عمرؓ کو پاکی کے دنوں اور حیض کے مرحلوں سے سمجھائی ہے۔ جس کا ذکر کتاب التفسیرسورۂ طلاق، کتاب الاحکام، کتاب العدت صحیح بخاری میں بھی مختلف الفاظ کیساتھ موجود ہے۔ اسکا مطلب یہ نہیں کہ قرآن کا پہلا حکم باطل یا منسوخ ہوا،اور عدت کے پہلے دو مراحل اور تیسرے مرحلے میں شوہر کو اللہ نے غیر مشروط رجوع کا حق دیدیا بلکہ پہلے دو مراحل میں الگ الگ طلاق کی تفصیل اور پھر تیسرے مرحلے میں معروف رجوع یا رخصتی کا مطلب یہ ہے کہ آخری مرحلہ فیصلہ کن ہے۔ اسکے بعد عورت دوسری جگہ شادی کرسکتی ہے۔ پہلے دو مرحلہ کی دومرتبہ طلاق کے بعد آخری مرحلے میں معروف رجوع یہ نہیں کہ شوہر کو دومرتبہ طلاق کے بعد غیرمشروط رجوع کا حق حاصل ہے بلکہ اصلاح کی شرط ہی معروف رجوع ہے۔ چنانچہ 228اور 229کے احکام میں کوئی تضاد نہیں بلکہ یہ ایکدوسرے کی تفسیر اور وضاحت ہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ پہلے اللہ نے عدت میں رجوع کا مشروط کا حق دیا، پھر دومرتبہ غیرمشروط رجوع کا حق دیا اور عدت میں ہی صلح کی شرط پر رجوع کے حق کو منسوخ اور باطل کردیا۔ ایسی صورت میں آیات کو ایکدوسرے کیلئے ناسخ ومنسوخ قرار دینے کا تصور ایجاد کرنا ہوگا۔ پہلے مراحل میں دومرتبہ طلاق کے بعد تیسرے مرحلہ میں رجوع کرلیا تو فبہا ورنہ طلاق کی صورت میں شوہر کیلئے کچھ لیناحلال نہیں جو کچھ بھی ان کو دیا ہے ………… پھر 230میں اس صورت کا ذکرہے کہ باہمی طور پر باہوش وحواس فیصلہ کرنے کے نتیجہ میں بات فدیہ تک پہنچی تو چونکہ پھر بھی شوہراپنا حق سمجھتاہے کہ دوسری جگہ شادی کرنے میں طلاق کے بعد بھی شوہر کی مرضی چلے تو شوہر کی مرضی چلانے پر اللہ نے پابندی لگادی یہاں تک کہ عورت مرضی سے کسی اور سے نکاح کرلے، پھر132اور 232آیات میں عدت کی تکمیل کے باوجود صلح سے معروف رجوع کی بغیر حلالہ کی لعنت کے اجازت دی۔کچھ تفصیلات صفحہ3پر