پوسٹ تلاش کریں

شیعہ پر کفر کے فتوؤں کے دلائل اور انکے محرکات کی حقیقت

shai-per-kufur-k-fatwon-k-dalail-aur-un-k-muhharekaat

ایران کے قائد امام خمینی محتاج تعارف نہیں اور مولانا محمد منظور نعمانی بھی بھارت کے مشہور عالم دین تھے۔ معارف الحدیث اور اسلام کیا ہے؟،وغیرہ انکی کتابیں ہیں۔ مولانا مودوی سے علیحدگی کے وجوہات بھی مولانا منظور نعمانی نے یہ لکھے ہیں کہ ’’جماعتِ اسلامی کے بانی کا الہ کا تصور عقیدے کی بنیاد پر غلط تھا‘‘۔
شیعہ مخالف تنظیم اہلسنت والجماعۃاور حقوق اہلسنت والجماعۃ کے خطیب اور مناظر میدان میں تھے۔ مولانا حق نواز جھنگوی شہید نے پھر ’’انجمن سپاہ صحابہ‘‘ بنائی تو ایرانی لٹریچر کا بہت زور تھا۔ پھر کراچی میں سواداعظم اہلسنت نے بھی شیعہ کے خلاف تحریک شروع کردی تھی۔
سپاہِ صحابہ نے مولانا حق نواز جھنگوی شہید کی تقریر شائع کی، اس میں وضاحت ہے کہ ’’شیعہ سے اختلاف قرآن کی بنیاد پر نہیں ، صحابہؓ کی بنیاد پر بھی نہیں، ہمارا اصل اختلاف شیعوں سے عقیدۂ امامت پر ہے‘‘۔
اس میں شبہ نہیں کہ مولانا حق نواز جھنگویؒ کا مؤقف 100فیصد درست تھا۔ سپاہ صحابہ نے بہت قربانیاں دیں، قیادت اور کارکن شہادت اور جیلوں سے نہ گھبرائے۔ کافر کافر شیعہ کافر کا نعرہ ہر دہلیز، چوکٹ، چوہراہا، ہرقیمت پر لگایا۔
شیعہ خود بھی سمجھتے ہیں کہ اصل اختلاف یہی تھا، علامہ شہنشاہ حسین نقوی نے حضرت صالحؑ کی اونٹنی ناقۃ اللہ اور علیؓ کے ہاتھ، پیر، اعضاء کو اہل اللہ اور اہل رسول قرار دیکر کہا کہ ’’یاعلی مدد اللہ ورسول سے مدد ہے۔ بدبخت ترین علیؓ اور صالح کے قاتل تھے‘‘۔ میری تقریر نیٹ پر ہے جس میں کہا کہ’’اللہ مظلوم نہیں ہوتا‘‘۔یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ مذکر و مؤنث کے عضوء سے پاک ہے، اسے کسی نے جناہے اور نہ اس نے کسی کوجناہے۔مظہرِ نور خداداتا گنج بخشؒ کو بھی سمجھا جاتاہے۔ کعبہ 360 بتوں سے بھرا تھااور داتا کی نگری میں ہیرہ منڈی ہے۔ دین میں زبردستی نہیں۔ اربابِ اقتدار کا کام نظام کی درستگی ہے ۔ اچھی فضاء بہت ضروری ہے۔
نہ تیرا خدا کوئی اور ہے نہ میرا خدا کوئی اور ہے
یہ جو راستے ہیں جدا جدا یہ معاملہ کوئی اور ہے
سواد اعظم اہلسنت کی ابتداء ہوئی تو کراچی کے اکابر علماء مولانا سلیم اللہ خان، مولانا اسفند یار خان ، مفتی احمد الرحمن ، مولانا زکریا تحریک کی قیادت کررہے تھے۔ مولانا زکریا کی مولانا سلیم اللہ اور مولانا اسفندیار نے پٹائی لگادی۔ مولانا زکریا لنگڑے جامعہ انوار العلوم گلبرک کراچی کے مہتمم معذور ڈنڈے سے پٹے تو کیا کرتے؟۔ البتہ اخبارات میں رازوں سے پردہ اٹھادیا کہ مولانا سلیم اللہ خان و مولانا اسفندیارخان نے سواداعظم کے نام پر رقوم، جائیداد ومفادات لئے ہیں۔ وہی مولانا زکریا صاحب سپاہ صحابہ کے مستقبل کے قائد مولانا اعظم طارق کے سوتیلے باپ تھے۔
سواداعظم کی قیادت میں لالو کھیت کے اندر اہل تشیع کی دکانیں جلائی جا چکی تھیں، پختون ایمانی جذبے میں پیش پیش تھے، جس کا خمیازہ مہاجر پختون فسادات میں بھگتنا پڑا ۔ میں نے جامعہ بنوری ٹاؤن میں داخلہ لیا تو سواد اعظم کے تحت مزیدفسادات اُڑان کی موڈ میں تھے، مولانا زکریا چند ماہ پہلے علیحدہ ہوچکے تھے۔ 10محرم کے جلوس کو روکنے کیلئے مولانا سلیم اللہ خان، مولانا اسفندیار خان اوردیگرمدارس کے علماء و طلبہ جامعہ بنوری ٹاؤن پہنچے تھے۔ تقریروں میں کہہ رہے تھے کہ ہم شیعوں کو اس مدرسہ مادر علمی کے دروازے کے سامنے جلوس گزارنے نہیں دینگے۔ پولیس کی ذمہ داری تھی کہ وہ مقررہ راستے سے جلوس گزارتی۔جب سواد اعظم و پولیس میں مذاکرات ناکام ہوگئے تو خوف اور تشویش کی فضاء پیدا ہوگئی۔
جامعہ بنوری ٹاؤن کے علماء ومفتیان نہیں چاہتے تھے کہ فساد ہو، جامعہ بنوری ٹاؤن کے اندر تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری تھا، علماء کے علاوہ ایڈوکیٹ عبدالعزیز خلجی بھی پیش پیش تھا ہم طلبہ بڑوں کے معاملے سے واقف نہ تھے۔ جامعہ کے ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر اسوقت ناظم تعلیمات تھے جواب پرنسپل ہیں۔ آپ نے ہمیں درس دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’باہر فسادی آئے ہیں۔ ان کی باتوں میں نہ آؤ، انکا مقصد فساد پھیلانا ہے۔ شیعہ کے جلوس یہاں سے گزرتا تھا تو مولانا بنوریؒ مسجد نیوٹاؤ ن کے مٹکے صاف ستھرے کرکے بھروا کر رکھتے تھے۔ مسجد کامین گیٹ کھلا رہتا تھا۔ جلوس کے شرکاء پانی پیا کرتے اور واش روم استعمال کرتے‘‘۔
پھر جب جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کے طلبہ نے جلوس پر پتھراؤکیا اور پولیس نے آنسو گیس کی سخت شیلنگ کی تو کئی بیہوش ہوگئے۔ میں نے بھی زخمیوں کی مدد میں حصہ لیا۔ درسگاہ میں دوسرے دن استاذ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے مجھے خصو صی طور پر مخاطب کرکے فرمایا کہ ’’ تمہیں احساس نہیں، ہمارے بال بچے ہیں، آنسو گیس کی جس مصیبت کا سامنا کیا، وہ ہم اور ہمارے بچے جانتے ہیں۔تمہیں کیا ہے‘‘۔ مجھے شدید احساس ہوا کہ استاذ کی بات میں وزن ہے مگر مجھ سے یہ غلطی نہیں ہوئی تھی اسلئے معافی مانگنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی ۔
ایک گھمبیر صورتحال میں مولانا منظور نعمانی کا استفتاء اور مفتی ولی حسن ٹونکی مفتی اعظم کے جوابات شائع کردئیے گئے۔ استفتاء میں تین سوالات تھے جنکا جواب دینے کی ضرورت نہ تھی کیونکہ سوالات جوابات بھی خود ہی تھے۔
پہلا سوال تھا کہ شیعہ قرآن میں تحریف کا عقیدہ رکھتے ہیں۔کئی سارے حوالہ جات سے ثابت کیا کہ شیعہ قرآن پر ایمان نہیں رکھتے اور اگر شیعہ قرآن کو مانتے ہیں تو یہ تقیہ ہے۔ ظاہر ہے کہ جسکا قرآن پر ایمان نہیں ہو تو اس سے بڑا کافر کون ہوسکتا ہے؟۔سوال کا جواب دینا بھی محض ایک خوامخواہ کا تکلف ہی تھا۔
دوسرا سوال تھا کہ اہل تشیع صحابہؓ کے بارے میں یہ اعقتاد رکھتے ہیں کہ وہ کافر ہیں، حضرت ابوبکرؓ کی صحابیت قرآن سے ثابت ہے اور باقی صحابہؓ سنت اور اجماع سے ثابت ہیں اسکا انکار کرنے کی بنیاد پر اہل تشیع بذاتِ خود کافر ہیں، ان کے کفر کے ثبوتوں کے حوالہ جات کے انبار ہیں جس کی کوئی تردید نہیں کرسکتا ہے۔
تیسرا سوال تھا کہ شیعہ کا عقیدۂ امامت در ا صل ختم نبوت کا انکار ہے، وہ اپنے ائمہ کو انبیاء سے بڑھ کر سمجھتے ہیں، ڈھیر ساری کتابوں کے حوالہ جات موجود ہیں ، جس کی تردید کوئی نہیں کرسکتا اور اس وجہ سے بھی اہل تشیع اسلام سے خارج ہیں اور ان پر کفر کا فتویٰ لگتاہے۔
3 سوالات کی تفصیل پھرمزید حوالہ جات جوابات میں درج ہیں جو شیعہ کے کفر کو یقینی بناتے ہیں۔ پھر پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے ڈھیر علماء و مفتیان اور بہت سارے معروف مدارس کی تصدیقی تحریرو مہر تھے، البتہ جامعہ بنوری ٹاؤن کے اس فتوے کی تائید مفتی تقی، مفتی رفیع عثمانی دارالعلوم کراچی کورنگی کے ایریا نے نہ کی۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ ’’وہ عذر پیش کررہے ہیں کہ ہم سرکاری تانگے ہیں،اگر ریاست کا اشارہ نہ ملے تو ہم شیعہ کو کافر نہیں قرار دے سکتے ‘‘۔ اس فتویٰ میں واضح طورپر لکھا گیا کہ ’’قادیانی ختم نبوت کی آیت میں تأویل کرتے ہیں مگر نماز، روزہ، زکوٰۃ اور دیگر تمام معاملات اہلسنت کے عین مطابق ہیں، قرآن و سنت اور صحابہؓ ،اسماعیل شہیدوا کابر دیوبند اور فقہی مسائل بھی ایک ہیں اور شیعہ کا ہر چیز میں اہلسنت سے عقیدت اور عقیدے کے مسئلے پر شدیداختلاف ہے۔لہٰذا شیعہ قادیانیوں سے بدتر کافر ہیں‘‘۔
یہ کتاب اور اس طرح کی دیگر کتابیں بازار میں دستیاب ہیں۔ سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار نے سلیم صافی کو انٹرویو دیا کہ ’’ علماء کرام کا معاشرے میں بہت اہم مقام ہے، ایک چھوٹا سا اقلیتی فرقہ ہے جو علماء کا نام سن کر آگ بگولہ ہوجاتا ہے ، ہم اسکے اس رویہ کی وجہ سے علماء کرام کی قدر کم نہیں کرسکتے۔ کالعدم تنظیم کے مولانا احمد لدھیانوی ملتے تھے تو کیا حرج تھا؟، میں سب کا وزیر داخلہ تھا اور سب کیساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ کالعدم تنظیمیں الیکشن میں بھی حصہ لیتی ہیں، تمام پارٹیوں کے اہم رہنما ان سے ملتے ہیں۔ علماء کرام نے بہت تعاون بھی کیا اور انہوں نے میری بات کافی حد تک مان لی۔ اس کا مجھے کریڈٹ بھی ملنا چاہیے تھا‘‘۔
وہ وقت بھی آیا کہ علماء ومفتیان نے بھی سپاہِ صحابہ سے اعراض کیا۔ ایم کیوایم کا دباؤ کافی بڑھ گیا، مولانا سلیم اللہ خان نے بنوری ٹاؤن کے ایک اجلاس میں مولانا اعظم طارق سے کہا کہ شیعہ پر کفر کا فتویٰ غلط ہے، یہ مشن چھوڑ دو، کوئی دوسرا راستہ اختیار کرلو۔ متحدہ مجلس عمل بنی تو شیعہ سنی کی اتحادتنظیمات المدارس بھی بنی۔ جامعہ بنوری ٹاؤن نے اتحاد کیلئے فتویٰ جاری کیا تو ہم نے اپنے اخبار ضرب حق میں بات اٹھائی کہ یہ بھی بتایا جائے کہ شیعہ تائب ہوگئے یا تم نے غلط فہمی کی بنیاد پر فتویٰ دیا تھا؟۔
ایک طرف شیعوں پر فتویٰ تو دوسری طرف اتحادالمدارس شیعہ سنی اتحاد ہے ، آخر کیوں؟۔ تحریف قرآن کی بنیاد پر شیعہ کو کافر قرار دیا تو علامہ انورشاہ کشمیری نے بھی ’’فیض الباری‘‘ میں لکھا کہ ’’قرآن میں معنوی تحریف تو بہت ہوئی، بلکہ لفظی تحریف بھی ہوئی ، مغالطہ سے یہ کیا ہے یا پھر جان بوجھ کر ‘‘۔ مولانا عبدالکریم کلاچوی نے مفتی فرید اکوڑہ سے جواب مانگا۔ علامہ غلام رسول سعیدی نے دارالعلوم کراچی سے حوالہ دئیے بغیر اس عبارت پر فتویٰ مانگا تو مفتی تقی عثمانی نے کفر کا فتویٰ لگادیا تھا۔ میرا خلیفہ عبدالقیوم و سپاہ صحابہ کے کارکنوں سے یہ طے ہوا تھا کہ مدارس کے نصاب پر بات ہوگی لیکن علماء نے ایسی فضاء بنادی کہ حکومت نے 16ایم پی او کے تحت گرفتاری کا حکم دیا تھا۔

مذہبی معاملات میں اعتدال کا سیدھا راستہ: عتیق گیلانی

mazhabi-maamlat-me-aitadal-ka-seedha-rasta-(General-(R)-Ehsan-ul-Haq-Altaf-Hussain

مذہبی معاملات میں اعتدال کا سیدھاراستہ

مولانا عبد الرحمن کیلانی نے ’’خلافت و جمہوریت‘‘ نامی کتاب لکھ دی جو 1981 ؁ء اور پھر 1985 ؁ء کو شائع ہوئی ہے۔ کتاب کے کچھ دلائل اور مندرجات دیکھنے سے اس نتیجے پر آسانی کیساتھ پہنچا جاسکتا ہے کہ خلافت پر خلفاء راشدینؓ کے دور میں بھی اتنا اچھا خاصہ افتراق تھا کہ کسی دلیل کو شرعی کہنا دشوار نہیں بلکہ سراسر غلط بھی ہے۔ حضرت ابوبکرؓ کی خلافت ہنگامی طور پر منعقد ہوئی اور حضرت عمرؓ کو نامزد کیا گیا، حضرت عثمانؓ کو کثرت رائے سے شوریٰ نے بنایا ، حضرت علیؓ کی خلافت متنازعہ ہونے کے باوجود قابل اعتبار قرار پائی، اور حضرت حسنؓ سے تنہا ایک شخص نے بیعت کی تو خلیفہ بن گئے۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ کو خلیفہ بنانا چاہا تو حضرت عمرؓ نے رکاوٹ ڈال دی اور حضرت امیر معاویہؓ کے حق میں حضرت حسنؓ دستبردار ہوئے۔ دونوں معاملات اپنی اپنی جگہ پر مستحسن تھے لیکن رسول ﷺ کے بعد خلافت راشدہ کا نظام قائم ہوا اور حضرت امیر معاویہؓ کی وجہ سے خلافت کا نظام امارت میں بدل گیا۔ ایک طرف رسول اللہ ﷺ کی رائے سے اختلاف اور دوسری طرف حضرت امیر معاویہؓ کے حق میں دستبرداری سے خلافت و امارت کے معاملے میں اسلام کا ظرف اتنا وسیع ہے کہ اسکے طول و عرض اور گہرائی و بلندی تک پہنچنے کیلئے بڑی بڑی قد آور شخصیات بھی انتہائی پستی کا شکار دکھائی دیتی ہیں۔بس سمندری طوفان کے طلاطم خیز موجوں میں تیرنے والے کبھی جنرل ضیاء کی ڈکٹیٹر شپ کو امیر المؤمنین کا نام دیتے ہیں، کبھی امام خمینی کو شرعی امام بنالیتے ہیں اور کبھی عرب ریاستوں کے متفرق بادشاہوں کو اپنے اپنے دائرہ کار میں شرعی خلیفہ و امام کا درجہ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے پنجاب کے ایک خطیب کی تقریر سوشل میڈیا پر چل رہی ہے جو حضرت امام حسنؓ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کسی کو ان کا یوم وفات معلوم نہیں اسلئے کہ شیعہ مُلا باقر مجلسی نے لکھ دیا کہ ’’امام حسنؓ خلافت سے امیر معاویہؓ کے حق میں دستبرداری کے بعد اس طرح سے امام نہ رہے جسطرح ان کے والد حضرت علیؓ نے ثالثوں کو اختیار دیا تھا اور وہ امام نہ رہے‘‘۔ اہل تشیع صرف امام حسینؓ کو مانتے ہیں باقی کسی کو نہیں مانتے۔ اگر مانتے تو امام حسنؓ کی شہادت کو کیوں اس طرح سے نہیں مناتے؟۔ اس خطیب نے لوگوں کو اہل تشیع کیخلاف خوب اکسا کر خوش کردیا اور امام حسنؓ کے فضائل سنانا بھی ان کی بڑی مہربانی ہے کہ اتحاد کی بات کررہے ہیں۔ لیکن تمام تقریر کے خلاصے کا یہ جواب ہے کہ شیعہ کلمہ و اذان میں علیؓ کا نام لیتے ہیں امام حسینؓ کا نہیں۔ اسلئے کہیں بھول تو نہیں ہوئی؟۔ دوسرا یہ کہ اگر امام حسنؓ کو خلافت سے دستبرداری کے بعد اپنی بیگم نے زہر کھلادیا تھا تو ان کی شہادت اور امام حسینؓ کی شہادت میں بہت فرق ہے۔بقول فیض
جس دھج سے جو مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
امام حسنؓ کے مشن کا حق تب ادا ہوگا جب انتشارنہیں اتحاد کی دعوت دیجائے۔ کربلا کے ذاکر و خطیبوں سے سنا کہ امام حسینؓ جہاد کررہے تھے تو کوئی لڑنے کی ہمت نہ کرسکتا تھا۔ مگر جب سجدے میں گئے تو ظالموں نے شہید کیا۔ قصہ گو ذاکرین سے علامہ اقبال تک نہ جانے کیوں قرآن اور فطری تعلیم بھول کر کہتے ہیں کہ آگیا عین لڑائی میں جب وقت نماز ، قبلہ رو ہوکے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز، ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز، نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ لڑائی کے وقت نماز پڑھنے کا طریقہ عام حالات کے مطابق رکوع و سجود والا نہیں ، جس سے آگے پیچھے وار کرکے دشمن نقصان پہنچائے بلکہ فرجالاً او رکباناً ’’چلتے چلتے اور سوار ہوتے ہوئے نماز پڑھو‘‘۔ اگر ہندی یا پنجابی اقبال شعری جذبات میں مبالغہ آمیزی کررہے تھے تو قرآن کی آیت پر نگاہ نہیں گئی ہوگی لیکن امام حسینؓ نے یقیناًقرآن کی طرف زبردست توجہ دی ہوگی۔
عن سعد بن ابی وقاص قال قال رسول اللہ ﷺ لا یزال اہل الغرب ظاہرین علی الحق حتیٰ تقوم الساعۃ (کتاب الامارۃ، صحیح مسلم)
’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اہل مغرب ہمیشہ حق پر رہیں گے یہاں تک کہ قیامت آجائے‘‘۔ صحیح مسلم کی اس روایت کا تعلق خلافت و امارت کے نظام سے ہے اسی لئے اس کو اس کتاب میں درج کیا گیا ہے۔ کم عقل قسم کے مولوی اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے جس بات کو شرعی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں حقائق اسکے بالکل منافی ہوتے ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے قرآن میں نبی ﷺ سے فرمایا کہ ’’اگر آپ زمین میں اکثریت کے پیچھے چلیں تو یہ آپ کو اپنی راہ سے گمراہ کردیں گے‘‘۔ صلح حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ نے اکثریت کے فیصلے کو مسترد کرکے معاہدہ کیا تو اللہ نے اس کو فتح مبین قرار دیا۔ اور بدری قیدیوں پر فدیہ کا مسئلہ آیا جب اکثریت کی رائے پر نبی ﷺ نے فیصلہ فرمایا تو اللہ نے اس کو غیر مناسب قرار دیا اور اقلیت کو چھوڑ کر اکثریت کیلئے عذاب کی وعید بھی اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی۔
ان آیات اور واقعات کا مقصد ہرگز یہ نہیں تھا کہ اکثریت گمراہ ہوتی ہے اور اقلیت حق پر ہوتی ہے بلکہ ان میں اہل حق کیلئے یہ حوصلہ ضرور ہے کہ اقلیت میں ہونے کے باوجود اپنی بات پر ڈٹے رہیں اور محض اسلئے حق کو نہ چھوڑیں کہ اکثریت مخالف ہے۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کا اقتدار اسلئے کامیاب رہا کہ اکثریت ان کے ساتھ تھی۔ حضرت عثمانؓ کو خلافت شوریٰ میں اکثریت کی بنیاد پر ملی اور جب اکثر لوگ مخالف ہوگئے تو تخت خلافت پر شہید کردئیے گئے۔ جس سے آج تک اُمت اختلاف و انتشار کی کیفیت سے نہیں نکل سکی ۔ حضرت علیؓ کی خلافت کو اکثریت نے قبول نہیں کیا تو با صلاحیت ہونے کے باوجود خلافت کامیاب نہیں رہی۔حضرت حسنؓ نے اکثریت کی وجہ سے امیر معاویہؓ کو خلافت سپرد کردی۔ رسول اللہْ ﷺ نے امارت کے حوالے سے مغرب کے جمہوری نظام کی ہی تائید فرمائی ہے اور پیشین گوئیوں میں پہلی خلافت کا امام مہدی کے حوالے سے مغربِ اقصیٰ کا ذکر ہے۔ جمہوری طرز عمل سے وجود میں آنے والی خلافت سے ہی زمین و آسمان والے دونوں کے دونوں خوش ہوسکتے ہیں۔ اگر خلافت راشدہ کے دورسے جمہوری نظام رائج ہوتا تو ہماری اسلامی خلافت بدترین خاندانی بادشاہتوں میں تبدیل نہ ہوتی۔ درباری اور پیشہ ور مولویوں اور شیخ الاسلاموں نے بہت کم تعداد میں حق کی آواز بلند کی ہے۔ آنیوالے بارہ خلفاء قریش پر اُمت اکھٹی ہوگی لیکن بڑے بڑوں نے حقائق کو جان بوجھ کر مسخ کرکے رکھا دیا ہے۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے 22اگست کے اعلان لا تعلقی سے قبل کہا تھا کہ اگر جنرل(ر) احسان کو الطاف بھائی کے پاس جائے تو الطاف بھائی ہر بات مانیں گے اور اب بھی مختلف رہنماؤں کو جنرل احسان کیساتھ بھیج دیا جائے تو الطاف حسین واپس آجائیگا، اگر الطاف اس ناراضگی کی حالت میں مر گیا تو کم عقل عقیدتمند مہاجروں کے دلوں کو صاف نہ کیا جاسکے گا۔

وکالت کے نظام کی خرابیاں اور مضمرات: سید عتیق الرحمن گیلانی

wikalat-k-nizam-ki-kharabian-aur-muzmirat

وکالت کے نظام کی خرابیاں اور مضمرات

وکالت کا نظام تمام خرابیوں کی اصل جڑ ہے۔ چوہدری اعتزاز احسن نوازشریف کا وکیل ہو تو معصومیت کا سرٹیفکیٹ دلانے کی قسم کھالیتا ہے ، یہ اپنی نالائقی سمجھتا ہے کہ 100 فیصد مجرم کو 100فیصد بری کرنے میں کامیاب نہ ہو،یہ روزی حلال کرنے کا طریقہ ہے۔ بدکارعورتیں کسی کو دلال بنائیں تو اس کو بھڑوا کہتے ہیں۔ بھڑواگیری بری ہے لیکن اس سے زیادہ ظالم ، جابر، بدمعاش ، قاتل اور کرپشن کے سیاسی قائدین کا وکیل بننا ہے۔ اس نظام نے انسانیت کو غیرت، ضمیر، ایمان، اقدار اور شرم وحیاء سب سے محروم کردیا ہے۔ جمعیت علماء اسلام کا ترجمان جان اچکزئی، جماعت اسلامی کا حنیف عباسی اور پرویز مشرف کا دانیال عزیز وامیر مقام وغیرہ ن لیگ کی ترجمانی کرکے شرم وحیاء غارت کررہے ہیں۔ زرداری کے تقدس کی قسم کھانے والا بابر اعوان عمران خان کیساتھ بیٹھ کر غیرت اور قدروں کو دفن کررہاہے۔ شاہ محمود قریشی جاوید ہاشمی نے تحریک انصاف میں شانہ بشانہ کام کرکے بتادیا کہ سیاسی رہنما بیلوں کی طرح کہیں بھی جت سکتے ہیں۔
صحافت کیلئے دلالی و جانبداری شعبے کے بنیادی اور قانونی تقاضے کے منافی ہے لیکن صحافت کے تاجدار بے شرمی کے دریا میں ڈوب مرے ۔ جیو کو اپنی صحافت مثالی لگتی ہوگی ۔ مولاناحامد کاظمی پر جنگ کی شہ سرخی خبر لگی کہ وزیر مذہبی امور نے کرپشن کا اعتراف کرلیا۔ حالانکہ اسی دن شام کو مولانا کاظمی حلفیہ کہہ رہے تھے کہ ’’ میں نے کوئی کرپشن نہیں کی ‘‘۔ مولاناحامد کاظمی کے بارے میں نہیں کہا جا سکتا تھا کہ ’’جن ذرائع سے خبر لیک کی تھی ، بعض اوقات خبر درست ثابت نہیں ہوتی‘‘۔ وہ آزاد تھے اور فون کرکے اعتراف کنفرم ہوسکتا تھا۔ یہ اسحاق ڈار کا عدالت میں اعترافی بیان نہ تھا۔ مولاناحامد سعید کاظمی کو کئی سال جیل کے بعد عدالت سے رہائی ملی مگر جنگ اور جیو کے ذمہ دار اور مالک کو کیا سزا دی گئی؟۔ یہ خبر نہیں مہم جوئی تھی اور یہ مہم جوئی اب جیو اور جنگ نوازشریف کے حق میں اور عدالت و فوج کیخلاف کر رہے ہیں۔ ٹریکٹرکے بڑے ٹائر ٹیوب میں پھونک سے ہوا بھرنے جیسی کوشش نواز شریف کا سیاسی مورال بچانے میں ہورہی ہے۔ پہلے مہم جوئی اسلئے تھی کہ ثابت کیا جاسکے کہ نواز شریف پارلیمنٹ ، قطری خط ، متضاد خاندانی بیانات اور تمام معاملے میں 100% بے گناہ ہے بس فوج نے عدلیہ کو پیچھے لگادیا ہے اور اب یہ کوشش ہے کہ کسی طرح فوج پر دباؤ پڑے کہ عدلیہ کو انصاف پر مبنی کاروائی سے روک کر نواز شریف کوکسی طرح سے ریلیف دلائی جائے۔جبکہ اس اقدام سے عدلیہ کے ساتھ ساتھ فوج کا چہرہ بھی کالا ہوجائے گا۔

پاکستان میں فوج اور جمہوریت کی لڑائی. سید عتیق الرحمن گیلانی

pakistan-me-fauj-aur-jamhuriat-ki-larai

پاکستان میں فوج اور جمہوریت کی لڑائی

پاکستان کی فوج انبیاء اور جمہوریت کے علمبردار صحابہ نہیں ۔ جنرل ضیاء الحق کی ڈکٹیٹر شپ اورمارشل لاء سے موجودہ جمہوریت کی مارشل آرٹ نواز شریف کی ن لیگ نے جنم لیا ہے۔ اللہ نے انبیاء ؑ و صحابہ کرامؓ سے مخصوص واقعات اسلئے سرزد نہیں کرائے کہ لوگ ان کی توہین کرتے ہوئے ان کی ارواح مقدسہ کو اذیت پہنچائیں بلکہ اس امر تک رسائی مقصود تھی کہ آنیوالے لوگ قیامت تک فرعون کی طرح خدائی کے دعویدار بننے سے گریز کریں۔
جب روس نے افغانستان میں قدم جمائے تو بھارت روس کا ساتھی تھا اور پاکستان کی دوستی امریکہ سے تھی۔ روس کی مخالفت میں امریکہ، یورپ، ایران، چین اور دنیا کے بہت ممالک عرب یہاں تک کہ اسرائیل بھی اس صف میں شامل تھا۔ پھر طالبان کی حکومت تک امریکہ اور پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت شانہ بشانہ تھے۔ افغانوں کے محبوب رہنما ڈاکٹر نجیب اللہ کی لاش کو ٹانگ کر کئی دنوں تک مسخ کرنے کی روش اپنا ئی گئی۔ امریکہ اور پاکستان کے گماشتہ طالبان رہنماؤں کے باقیات کو اس سنگین غلط اقدام پر معافی مانگ لینی چاہیے۔ بینظیر بھٹو کا قتل اور نوازشریف کی نااہلی سے بڑی بات ڈاکٹر نجیب اللہ سے زیادتی تھی۔ جسکا خمیازہ پاکستانی قوم ، طالبان اور ملا عمر کو گمنامی کی موت سے مل گیا۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ دوسروں کو آسانی سے توپ مارنے والا آدمی اپنے چوتڑ میں ہلکا سا کانٹا چبھنا بھی برادشت نہیں کرتاہے۔ پاک رزق کو کھاکر ناپاکی بنانیوالی مشین انسان کو تکبرنہ کرنا چاہیے۔
اُسامہ کے بہانے امریکہ آیا تو القاعدہ قائدین پاکستان میں پکڑے اور مارے گئے۔ پاکستان نے صفایا کردیا اور افغانستان میں جہادیوں کی بھرمار ہے ۔گارڈ فادر ٹرمپ ایک بدمعاش ملک کا بدمعاش صدر ہے ۔ افغانستان، عراق ، لیبیا اور شام کے بعد پاکستان پر بھی بدمعاشی جمانے کی بات کررہاہے۔ باکردار ، بزرگ اور بااصول چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے درست کہا ’’امریکہ پاکستان کو اپنا قبرستان بنانا چاہتا ہے تو ویلکم‘‘۔ مگر یہ کام لوٹاکریسی اور طبلہ بجاکر سیاستدان نہیں کرسکتے ۔ یہ اسلام اور پاکستان کیلئے جہاد کا جذبہ رکھنے والے مجاہد کرسکتے ہیں۔ فوج کو حکم دیا جائے تو افغانستان میں بیٹھی نیٹو اور بھارت کو تباہ کرسکتی ہے مگر پھر اپنی جان بچانا بھی مشکل ہوگا۔ کراچی کے دل پر راج کرنیوالا الطاف حسین بھی کھلے عام قوم پرست بلوچوں کی طرح پاکستان توڑنے کی بات کررہاہے اور نوازشریف بھی عدالتی حکم ، ریاستی رویہ اور 70سالہ کینسر کی بات کرتاہے۔ دلوں کو حقائق بدلتے ہیں۔گالی دینے والا الطاف بھائی دُم اٹھاکر فوج کو دعوت دیتا تھا اور اب وہی دُم اپنے اندر گھسادی۔
امریکہ اور بھارت کو کھلا پیغام دیا جائے کہ پاک فوج کے جذبات ابھارکر ان کو شدت پسندی اور انتہاء پسندی کی طرف دھکیلنے کی سازشوں سے باز رہا جائے ورنہ خیر کسی کیلئے بھی نہیں ہوگی۔ جو کہتے ہیں کہ’’ پاکستان کا ایٹمی ہتھیار شدت پسندوں کے ہاتھ نہ لگ جائے‘‘ وہی سازش کررہے ہیں کہ پاک فوج کے جرنیلوں کو بھی انہی کے صفوں میں دھکیلا جائے۔ صحتمند صحافت بھارت اور امریکہ کے خلاف ’’جیو اورجینے دو‘‘ کی آواز بلندکرتی تو کافی حد تک عوام میں شعور آتا۔ اختلافِ رائے رحمت ہے مگر تعصبات ، جھوٹ اور غلط پروپیگنڈے سے بڑی لعنت کوئی نہیں ۔ جیو ٹی وی نے آئی ایس آئی کے خلاف پروپیگنڈے پر معافی بھی مانگ لی اور سزا بھی بھگت لی۔ بول ٹی وی چینل پرانی یادوں سے پاک فوج کو نقصان پہنچا رہا ہے۔اگر حامد میر پر قاتلانہ حملے کی رپورٹ شائع کرکے بتادیا جاتا کہ اصل مجرم وہ تھے تو پھر بھی پروپیگنڈے کا کوئی فائدہ ہوتا۔ پرویزمشرف پر لال مسجد کے شہداء اور بینظیر بھٹو کا کیس عدلیہ میں چل رہاہے تو یہ فوج کی بدنامی نہیں ، پھر آئی ایس آئی کے سربراہ پر الزام کیوں ادارے اور فوج کی بدنامی تھی؟۔ امریکی سی آئی اے پر کس قسم کا الزام نہ لگا؟۔ خفیہ ایجنسیوں پر دنیا بھر میں الزام لگتے ہیں اور انکے سربراہ بھی الزامات کی زدمیں رہتے ہیں ۔
آرمی چیف جنرل باجوہ ٹھنڈے مزاج اور اچھے آدمی ہیں، ممکن ہے کہ اشفاق کیانی کی طرح ان کو بھی کرکٹ کا ٹک ٹک مصباح الحق کہا جائے۔ شاہد آفریدی کی طرح کیپٹن بعض اوقات ٹیم جتانے اور ہرانے میں اپنا کام دکھاتا ہے، کھیلوں کی طرح جنگوں اور لڑائی میں بھی مختلف مواقع پر مختلف طبیعتوں اور مزاج کے لوگ اپنی اپنی جگہ مفید ثابت ہوتے ہیں۔ جنرل باجوہ کو ایک تھیلا کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا مگر یہ وہ تھیلا ہے جو دودھ بچانے کیلئے بکری کے تھنوں پر باندھا جاتا ہے۔حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر ریاستی لیلے ہیں۔ بکری سینگوں کو دشمن کیخلاف استعمال کرسکتی ہے، اپنے بچوں کے خلاف نہیں۔ڈان لیکس کی کہانی کو بہت غلط رنگ دیا گیا تھا ورنہ تو حقیقت یہ تھی کہ ’’فوج نے کہا کہ حکومت اپنے پالے ہوئے بچوں کو کاٹنا چاہتی ہے تو ہم رکاوٹ نہیں اور ہمیں حکم دے تو بھی اسکے پابند ہیں‘‘۔ حکومت کا یہی موقف ہوسکتا تھا کہ ’’تمہارے بچوں کو کاٹنے کا حکم ہم سے نہ لو ، ہم یہ حکم کیوں دیں؟۔ تمہارا کام ہے ، تم نے پالا اور تمہی ختم کرو، ہمارا نام لینے کی ضرورت نہیں ، یہ ہمارے ووٹر ہیں‘‘۔
پاکستان کی سرحدوں پر دشمن کے کانٹوں کی یلغار ہے اور جنرل باجوہ بہت کچھ سہنے کی صلاحیت رکھ کر اپنا کردار ادا کر رہا ہے ۔ قوم کی دعائیں، جذبات اور جان ومال کی قربانیاں ساتھ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان مشکل اوقات میں تمام اندورنی و بیرونی دشمنوں کا راستہ روکنے کی سب کو توفیق عطا فرمائے۔نوازشریف کیساتھ عدلیہ، فوج اور میڈیا کی روش بہت اچھی ہے۔ سب کھلا سچ بولنا شروع کردیں تو عوام کے اندر بہت بڑی تبدیلی آئے گی۔ اگر پاکستان میں فوج کی حیثیت نہیں رہی تو افراتفری کی فضاء میں پاکستان کے تھنوں سے دودھ رسنا بند ہوجائیگا۔ عدالتی نظام کو درست کرنے کی واقعی ضرورت ہے لیکن دھمکی اور بدمعاشی سے نہیں شرافت ، سیاست، حکمت اور قانونی طریقے سے نظام کو ٹھیک کرناہوگا۔
سینٹ میں اکثریت نہ ہونے کے باوجود نوازشریف کی نااہلی پر جماعت کی سربراہی کا راستہ ہموار ہوا، جب سینٹ میں مارچ کو اکثریت حاصل ہوگی تو قانون ساز ادارہ مزید قوانین پاس کریگا اور 2018ء کے الیکشن پر بھاری خرچہ کرکے 2 تہائی اکثریت حاصل کی گئی تو یہ قانون بھی بن سکتا ہے کہ ن لیگ اور نوازشریف کیلئے نااہلی کی سند جاری کرنے والے جج نااہل ہونگے۔ کرپٹ لیڈر اور صاحبزادی کی خواہشات قانون بنتے ہیں۔ فوج اور عدلیہ اپنی پاکٹ میں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ تحریک انصاف کی کوشش ہے کہ اپوزیشن لیڈر بن کر عبوری حکومت نہ بننے دی جائے اور اگر اپوزشن لیڈر کا عہدہ نہ ملا تو جلسے جلوس اور دھرنے سے اسوقت تک انتخابات کا راستہ روکا جائے جب تک اسٹیبلشمنٹ کی ڈوریں ہلتی رہیں۔ گدھ منتظر تھا کہ گدھا مرے تو کھائے، گدھے کی سانس نکلتی تھی نہ گدھ کی لالچ ختم ہورہی تھی۔عوام کیلئے ایک طرح کی سیاسی پارٹیوں میں دلچسپی لینے کی کوئی خاص وجہ نہیں۔
اگر نوازشریف کو ’’مجھے کیوں نکالا ؟‘‘۔ کا جواب ملے کہ قیادت قوم کی ماں ہے مگرتم ضیاء الحق کی داشتہ رہی اورمحمد خان جونیجو جائز منکوحہ کیخلاف سازش میں حصہ لیا۔ ضیاء الحق کی موت پر بھٹو کو انگریز وں کے کتے نہلانے والا قرار دینے پر تعلق جائزنہیں بن سکتا تھا۔ بینظیر بھٹو نے جائزالیکشن جیت لیاتو پاکستان کو میزائل سے مالامال کرنیوالی محترمہ کیخلاف سازشوں میں شریک تھے۔ اسلامی جمہوری اتحاد سے تعلق جائز نہیں بن سکتا تھا۔سلمان اکرم راجا وکیل ہے، نکاح خواں نہیں۔جس نے اصغر خان کیس میں آئی ایس آئی سے پیسہ لینے کا الزام تم پر عدالت میں ثابت کردیا۔ لندن فلیٹوں پر پارلیمنٹ سے تحریری خطاب میں اعتراف کرلیا اسکے بعد ’’میاں مٹھو‘‘ کے وکیل فیس کھری کرسکتے تھے لیکن عدالت میں جھوٹا ہونے سے نہیں بچاسکتے اور نہ قوم اور دنیاکے سامنے کالے کوٹ سرخرو کرسکتے ہیں۔
نوازشریف نے جس طرح احتساب عدالت میں اسلحہ کی بھرمار کے رعب ودبدبہ میں پیشی بھگتادی۔ کیا آصف زرداری، محمود خان اچکزئی ، الطاف حسین، مولانا فضل الرحمن اور دیگر لیڈروں کیلئے اس کی گنجائش ہے؟۔ آرمی چیف جنرل باجوہ اور فوج کے کور کمانڈروں کو اس معاملہ پر ریاست کی پاسداری کیلئے سامنے آنا چاہیے تھا۔ اس سے تمام قانون شکن ، ریاست بیزار اور ملک توڑنے والوں ہی کی بہت حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ الطاف حسین نوازشریف اور مریم نواز کونذرانۂ عقیدت پیش کررہاہے۔ اور ٹھیک کررہاہے کہ ایک طرف الطاف حسین کی تصویر وتقریر کیلئے پابندی ہے تو دوسری طرف نوازشریف کو کھلے عام ملک توڑنے کی دھمکی اور عدالتی قوانین کی دھجیاں اُڑانے کی اجازت ہے۔ بلاول بھٹوزرداری کھدڑے کیطرح ’’مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے ‘‘ کا نعرہ صرف اسلئے لگاتا تھا کہ آصف علی زرداری کی طرف سے اینٹ سے اینٹ بجانے کی تقریر کا تدارک ہوجائے ۔
عمران نے طالبان کو خوش کرنے کیلئے 7محرم کو ریحام خان سے خفیہ نکاح کیا تھا ۔اب بریلوی اور شیعہ کو خوش کرنے بابوں کے مزارات پر چادریں چڑھا رہاہے۔ ایاک نعبد و ایاک نستعین کا ورد کرنیوالے اب درود پڑھ رہے ہیں۔عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی منکوحہ ہے، گرل فرینڈ ہے، داشتہ ہے، چہیتی ہے ، لاڈلی ہے یا متعہ کررکھاہے؟۔ ضرب عضب آپریشن دہشتگردوں کے سہولت کاروں کیخلاف بھی تھا اور عمران خان اس دوران پنجاب پولیس کو طالبان کے حوالے کرنے کی دھمکی دے رہاتھا۔ پختون خوا میں پولیس نہیں ٹوٹل اختیارات فوج کے پاس ہیں۔ بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان جیل توڑنے پر فوجی افسروں کیخلاف تادیبی کاروائی بھی ہوئی؟ اور جب کہیں دھماکہ ، دہشت گردی اور مسلح نقل و حمل ہو تو اسکی ذمہ داری ایجنسیوں پر کیوں نہیں ڈالی جاتی ؟۔ چوہدری نثار نے کہا: ’’واہ کینٹ میں خود کش جیکٹ کیسے پہنچے ؟ میں ذمہ دار پوسٹ پر نہ ہوتا تو سازشوں کا بھانڈہ پھوڑ دیتا‘‘۔ اب چوہدری صاحب وزیرداخلہ نہ رہے تو فوج اور حکومت کا توازن برقرار رکھنے کیلئے کچھ تو بولیں۔ منافقانہ ریاستی نظام اور منافق سیاستدانوں سے شعور کی بنیاد پر جان چھڑانی ہوگی۔

فوج اور عدلیہ کیلئے خصوصی استثناء مگر کیوں؟ عتیق گیلانی

Fauj-Aur-Adlia-k-liye-khususi-istesna-magar-kiun

فوج اور عدلیہ کیلئے خصوصی استثناء مگر کیوں؟

مشکل وقت آئے توقومی اتحاد سے بڑی نعمت اور انتشار سے بڑی بیماری کوئی نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ گالی بن گئی، اسٹیبلٹی استحکام ہے، ریاست مستحکم نہ ہوتو بہت بڑی بدنصیبی ہے۔ رسول اللہﷺ کے دور میں حضرت خالد بن ولیدؓ نے استحکام کیلئے قتل وغارت کی تو نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’اے اللہ! میں خالد کے فعل سے بری ہوں‘‘۔ ریاستی استحکام کیلئے فوجی اہلکار حدود سے بھی تجاوز کرلیتے ہیں مگر ان سے رعایت برتنا فطرت اور سنت کے مطابق ہے۔
خالد بن ولیدؓ سپاہ سالار تھے ، رسول اللہﷺ نے غلط اقدام و ظلم پر بری الذمہ ہونے سے زبردست حوصلہ شکنی فرمائی۔ عدلیہ کا جج اور قاضی جو فیصلہ کرے وہ 100 فیصد غلط بھی ہوسکتاہے ۔غلطی پر سزا دی جائے تو کوئی منصف نہ بنے۔ حضرت خالدؓ کی غلطی سے نبیﷺ نے برأت کرکے بتادیا کہ دنیا میں پکڑ سے محفوظ ہے تو آخرت کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ جبکہ قاضی اور جج کیلئے واضح کیاکہ ’’اگر وہ اجتہاد کرکے درست فیصلہ دیگا تو2نیکیاں ملیں گی ایک اجتہاد کی، دوسری ٹھیک بات تک رسائی کی۔ اگر غلطی کرلی تو اس کو ایک نیکی ملے گی ‘‘۔ اگر یہ ضمانت نہ ملتی تو کوئی اچھا ، تقویٰ دار آدمی قاضی اور جج بننے پر آمادہ نہیں ہوسکتا تھا۔
حضرت ابوبکرؓ نے منصبِ خلافت سنبھالاتو ریاست کو شدید عدمِ استحکام کا سامنا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے زکوٰۃ دینے سے انکار کرنیوالوں کی سر کوبی کیلئے حضرت خالد بن ولیدؓ کی قیادت میں لشکر بھیجا، اس موقع پر حضرت خالد بن ولیدؓ سے یہ زبردست غلطی سرزد ہوگئی کہ مالک بن نویرہ کو قتل کرکے اس کی خوبصورت بیگم سے جبری شادی بھی رچالی۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ ’’اس جرم پر خالد بن ولیدؓ کو سنگسار کردیا جائے‘‘۔حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ ’’ ان کی اس وقت ہمیں ضرورت ہے، اسلئے سزا دینے کے بجائے تنبیہ پر اکتفاء کرلیتے ہیں ‘‘۔
قرآن وسنت کی سمجھ نہیں اسلئے صحابہؓ کے واقعات سے مذہبی طبقے قاصر اور فرقہ وارانہ عصبیت کا شکار ہیں۔ بدری قیدیوں سے فدیہ لینے پر مشاورت ہوئی تو حضرت ابوبکرؓ کی رائے فرمان نبویﷺ ارحم امتی بامتی ابی ابکر’’ میری امت میں سب سے زیادہ امت پررحم کرنیوالے ابوبکر ہیں‘‘ کے مطابق دشمن مشرکینِ مکہ کیلئے بھی رحم کی اپیل تھی جبکہ حضرت عمرؓ نے مشورہ دیا کہ ’’جو میرا قریبی رشتہ دار ہے، اس کو میں قتل کروں ، علیؓ، ابوبکرؓ اور عثمانؓ سب اپنے اپنے قریبی رشتہ داروں کو قتل کریں، کوئی زندہ نہ جائے ‘‘۔ نبیﷺ نے فرمایا :واشدھم فی امر اللہ عمر’’ صحابہؓ میں سب سے زیادہ اللہ کے حکموں میں سخت عمرہیں‘‘۔ مشاورت مکمل ہوئی تو نبی ﷺ نے فرمایا کہ ابوبکرؓ کی رائے ابراہیم ؑ کی طرح ہے ، یعنی کفار کیلئے رحم کی اپیل اور عمرؓ کی رائے نوح ؑ کی طرح ہے ۔فرمایا کہ ’’ روئے زمین پر کوئی کافر باقی نہ رہے‘‘۔ ابراہیم ؑ کی رائے پسند ہے اسلئے رحم کا فیصلہ ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ ’’ نبی کیلئے مناسب نہ تھا کہ اسکے پاس قیدی ہوں یہانتک کہ زمین میں خوب خونریزی کرتے۔ تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے، اگر پہلے سے اللہ لکھ نہ چکا ہوتا تو تمہیں سخت عذاب دیدیتا۔ جن سے تم نے فدیہ لیا ہے اگر انکے دل میں خیرہے تو اس فدیہ کے بدلے اللہ اور زیادہ دے گا۔ اور جن کے دل میں خیانت ہے تو اللہ پھر بھی ان سے نمٹ لے گا‘‘۔
نبیﷺ کو علم تھا کہ اللہ نے حضرت نوحؑ کی بات کو قبولیت بخشی اور حضرت ابراہیم ؑ کی اپیل قبول نہیں کی مگر پھر بھی حضرت ابراہیم ؑ کی بات کو ترجیح دی، جب طائف میں نبیﷺ کے خون بہانے پر اللہ ذوالجلال کا غضب جوش میں آیا تو بھی نبیﷺ نے ان کیلئے ہدایت کی دعا فرمائی اور یہ بھی فرمایا کہ اگر ان کی تقدیر میں ہدایت نہیں تو ان کی اولاد کو ہدایت عطاء فرمانا۔ بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ باپ کی قسمت میں ہدایت نہیں ہوتی تو اللہ بیٹے کو ہدایت دیتا ہے۔ ابوجہل بدر میں مارا گیا تو اس کا بیٹا عکرمہؓ بن ابی جہل ایک مخلص صحابی بن گیا۔ حضرت امیر حمزہ کو شہید کرنیوالا وحشیؓ اور کلیجہ چبانے والی ہندہؓ کو بھی ہدایت مل گئی۔ جن کیلئے نبیﷺ نے چاہا کہ انہیں ہدایت ملے مگر نبیﷺ کے ہاتھ میں اپنی چاہت پوری کرنا نہ تھی۔ انک لا تھدی من احببت ’’بیشک آپؐ جس کو چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے‘‘۔
قرآن میں اللہ نے واضح طور پر فرمایا کہ ’’ بدری قیدیوں پر فدیہ لینا مناسب نہ تھا‘‘ ۔ لیکن جو فیصلہ ہوگیا اس پر عمل در آمد روکنے کا حکم نہ دیا بلکہ تنبیہ کے باوجود اس پرعمل در آمد ہی کروایا۔ یہ اللہ کا حکم تھا: وشاورھم فی الامر واذا عزمت فتوکل علی اللہ ’’ کسی خاص بات میں مشاورت کریں، جب عزم کرلیں تو اللہ پر بھروسہ کریں‘‘۔ نظام زندگی میں کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ ’’ مشاروت کے نتیجے میں کوئی عزم اور فیصلہ کیا جائے تو گومگو کی کیفیت میں مبتلاء رہنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ غلطیوں سے سبق سیکھا جاسکتا ہے‘‘۔ بدری قیدیوں پر مفسرین کی رائے دیکھ لی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ حقائق سے انحراف کرتے ہوئے معاملات بالکل غلط سمت لے گئے ہیں۔ قرآنی آیات اپنی جگہ مفصل ہیں، ہر چیز کی تفصیل بھی ان میں موجود ہے۔ان میں کوئی تضاد نہیں بلکہ ایکدسرے کیلئے تفسیر کی حیثیت بھی رکھتے ہیں۔اگر نبیﷺ کا فیصلہ غلط یا غیر مناسب تھا تو نبیﷺ کی معصومیت پر سوال اٹھے گا۔جس کا جواب بعض بہت معتبر مفسرین نے یہ دیا ہے کہ یہاں نبی سے مراد کوئی اور ہے اسلئے کہ نبی ﷺ کا ہر قول وفعل حکم الٰہی تھا تو اس کو غیرمناسب کیسے قرار دیاسکتا تھا؟۔
مفسرین نے یہ توجیہ بہت غلط کی بلکہ قرآن کی واضح آیت کا انکار کیا کہ نبی سے مراد نبیﷺ نہیں تھے تو نعوذ باللہ اور کس کو نبی کہا گیاہے؟۔ نبیﷺ نے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کا جنازہ پڑھایا تو اللہ نے منع فرمایا۔ کوئی اور اتنی جرأت نہ کرتا کہ اس کھلے گستاخ کا جنازہ پڑھنے کی ہمت کرتا۔ نبیﷺ نے ثابت کیا کہ جب اللہ منافقین کو جہنم کا سب سے نچلا درجہ دیتا ہے تو رئیس المنافقین کیلئے مرنے کے بعد بھی نبیﷺ کا دل مبارک رحم کرنے کی اپیل سے نہیں چوکا بلکہ اللہ کو کہنا پڑا کہ اگر 70مرتبہ بھی استغفار کرو گے تو اللہ نے اس کو نہیں بخشنا ہے،یہ دنیا کے سامنے نبیﷺ کی رحمت للعالمین ہونے کی بہت بڑی سند ہے۔ جب آیت سے ثابت ہو جائے کہ نبیﷺ ہی مراد تھے تو کیا اس سے یہ ثبوت مہیا ہوتاہے کہ نبیﷺ کا اسوۂ حسنہ بہترین نمونہ نہیں تھا؟۔ یہ اقدام غلط تھا اور درست وہی تھا جو بدر کے قیدیوں کو معاف کرنے کے بجائے ان کا زمین میں خون بہادیا جاتا؟؟؟؟؟؟؟۔
نبیﷺ کا اسوۂ حسنہ بیشک بہترین نمونہ تھا ، وہ جو زمین میں خدا بنے پھرتے ہیں ان کا تعلق فوج، عدلیہ ، سیاستدان، علماء اور صوفیاء جس طبقے سے بھی ہو اور غلطی کے امکان کو اپنی توہین سمجھتے ہیں ان کیلئے ڈوب مرنے کامقام ہے کہ نبیﷺ کی سیرت طیبہ کو اللہ نے بطور نمونہ پیش کیا۔ صحابہ کرامؓ کی بھاری اکثریت کا مشورہ رحم کی اپیل کا تھا اور حضرت عمرؓ و سعدؓ کی رائے مختلف تھی تو اللہ نے اکثریت کے مشورے پر عمل بھی ہونے دیا مگر اقلیت کی بات کو درست کہنے کی مثال قائم کردی۔ کیا اس سے ڈکٹیٹر شپ کی راہ ہموار ہوسکتی تھی ؟، کیا اس سے جمہوری اکثریت کاقائد دوسروں کی تضحیک کا حق رکھتا ہے؟۔ حقیقی مسئلہ یہ نہ تھا کہ کافر نے جہاد کے دوران خوف سے کلمہ پڑھ لیا اور حضرت عمرؓ نے ناقابلِ قبول قرار دیکر قتل کردیا بلکہ مدینہ سے بدر کی بڑی مسافت کا راستہ تھا، 70قیدیوں کو لانے میں بہت وقت لگ گیا، ہم ہوتے تو اللہ سے شکوہ کرتے کہ وحی نازل نہ کی اور جب اللہ کے حکم مشاورت پر عمل کیا تو اسکو غیر مناسب قرار دیکر عذاب کی وعید بھی سنادی۔ ایسا اسلام ہمیں بالکل نہیں چاہیے۔
مسلمان شام سے آنیوالے قافلے کی لالچ میں گئے تو مشرکوں کا بہت بڑا لشکر آیا ، اللہ نے فرشتوں کی مدد سے مسلمانوں کو فتح سے نوازا، مسلمان اتنے نمک حرام نہ تھے کہ اللہ کی طرف سے تنبیہ پر برا مناتے۔ نبیﷺ کا فیصلہ بالکل 100فیصد درست تھا، اللہ کو بھی یہی منظور تھا تب ہی مشاورت اور فیصلے سے پہلے وحی بھی نازل نہیں کی اور ان آیات کے ذریعہ مسلمانوں کی تعلیم وتربیت کا اہتمام کیا کہ قیامت تک وحی کا سلسلہ بند ہوگا۔ جب ٹی وی اسکرین پر 2پیسے کمانے والے ریاستوں کے اہم معاملات پر بک بک کرنا شروع کریں تو ان میں اس بات کا شعور ہونا چاہیے کہ مصلحت کی کار گزاری پر زیادہ سوالات اٹھانے سے تمہاری قابلیت نہیں بلکہ تعلیم وتربیت کا فقدان نظر آئیگا۔بک بک کرنیوالا اپنا جائزہ لے۔
غزوہ احد میں مسلمانوں کوشکست ہوئی تو نبیﷺ اور صحابہؓ نے سخت انتقام کی بات کہہ دی۔ اللہ نے فرمایا کہ کیا ہوا ؟، اگر تمہیں زخم لگا ہے تواس سے پہلے ان کو بھی زخم لگ چکا ہے۔ کسی کے انتقام کا جذبہ اس حد تک نہ اُبھارے کہ اعتدال سے ہٹ جاؤ۔ جتنا انہوں نے کیا ہے تم بھی اتنا ہی کرو، اگر معاف کردو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے بلکہ معاف ہی کردو، اور ان کو معاف کرنا بھی اللہ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے خود ہی بدر کے قیدیوں پر فدیہ لینے کے فیصلے کو غیرمناسب کہا اور خوب خونریزی کی خواہش ظاہر کی، جسکے نتیجے میں اُحد کی شکست پر انتقام کا جذبہ ابھرنا تھا۔ صحابہؓ نے معاف کرنے کا مشورہ دیا تو اللہ نے خون بہانے کی بات کہی اور صحابہؓ انتقام لینے پر آمادہ ہوئے تو اللہ نے معاف کرنے کا حکم دیا۔ دونوں آیات میں تضاد نہیں اعتدال کا راستہ تھا۔ چنانچہ پھر اللہ نے یہ وضاحت بھی کردی کہ جنگی قیدیوں کو فدیہ کے بدلے چھوڑ دو یا بغیر فدیہ کے ، تمہیں اسکا اختیار ہے۔ اولی الامر کی حیثیت سے نبیﷺ نے جو فیصلے فرمائے تھے ان واقعات کے ذریعے سے قیامت تک قرآن میں تمام اولی الامر کیلئے بہترین مثالیں قائم کرنی تھیں۔
حضرت عمرؓ کی طرف سے حضرت خالد بن ولیدؓ کو اس غلطی پر سنگسار کرنے کا مشورہ بھی قرآن وسنت کی تعلیم و تربیت کے نتیجے میں درست تھا اور حضرت ابوبکرؓ نے بھی درگزر سے کوئی غلط فیصلہ نہیں کیا ۔ کوئی کہہ سکتاہے کہ پھر بھی معاملہ خلط ملط نظر آتاہے ،قرآن نے کوئی واضح سمت متعین نہیں کی ؟ لیکن یہ بالکل غلط ہے۔ بدر کے قیدیوں میں اقرباء پروری کا جذبہ پنہاں تھا ، قریبی رشتہ داروں کو قتل کرنا بہت بڑے دل گردے کا کام ہے ، یہ حقیقت ہے کہ حضرت نوح ؑ نے سب کافروں کیلئے موت مانگی اور دعا قبول ہوئی تو بیٹے کے کفر پر دھیان نہ گیا۔ حضرت ابراہیمؑ نے اپنے مشرک باپ کیلئے بھی مرنے کے بعد دعا کی تھی۔ اُحد کے انتقام میں بھی اقرباء کے انتقام کا جذبہ تھااسلئے اللہ نے معاف کرنے کا حکم دیا تھا۔ حضرت علیؓ کے چہرے مبارک پر دشمن نے تھوک دیا تو سینے سے اترگئے کہ اب ذاتی انتقام کا جذبہ بھی شامل ہوگیاہے۔ صحابہؓ سے محبت اور دشمنی کی بنیاد پر فرقہ وارانہ تعصبات کو انتشار کا ذریعہ اور اپنے مفادات حاصل کرنیوالے غلیظ طبقات کو اپنی اصلاح پربھی توجہ دینی ہوگی۔
بڑا مسئلہ یہ ہے کہ خالد بن ولیدؓنے ہنگامی حالت میں قتل وغارت کی تھی تو فوجی کیلئے کرفیو کے دوران گولی مارنے کی اجازت سمجھ میں آتی ہے مگر جبری شادی پر معافی کیسے ملی اور اللہ کی بارگاہ میں حضرت خالدبن ولیدؓ کیلئے اتنی بڑی فحاشی والی حرکت کے باوجود ہم کیسے صحابیت کے تقدس کا تصور رکھ سکتے ہیں؟۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بہت بڑا گناہ تھا اور حضرت عمرؓ نے ٹھیک مشورہ دیا تھا کہ اس پر سنگسار کردیا جائے لیکن یہ ایک اضطراری کیفیت کی بات تھی ، خالد بن ولیدؓ کا یہی مشغلہ نہ تھا۔ اللہ نے فرمایا : الذین یجتبون کبائرا لاثم والفواحش الا اللمم ’’ جو اجتناب کرتے ہیں بڑے گناہوں اور بڑی فحاشیوں سے مگر کبھی کبھار‘‘۔ حضرت آدم ؑ کا شجرہ کے قریب جانے سے مشاجرات صحابہؓ تک اللمم کبھی کبھارکی ایک لمبی داستان ہے۔ جب خوشحالی کادور آتا ہے تو حضرت داؤد ؑ کے بارے 99بیگمات کے باوجود اپنے مجاہد اوریا کی بیگم سے شادی کی خواہش پر واضح تنبیہ آتی ہے کہ لی نعجۃ ولہ تسع وتسعون نعجۃ ’’ میرے پاس ایک دنبی ہے اور اسکے پاس 99دنبیاں ہیں‘‘ جس پر حضرت داؤد ؑ نے اللہ سے مغفرت طلب کی اور معاف کیا گیا، رسول اللہﷺ کے دل میں حضرت زیدؓ کی بیگم حضرت زینبؓ سے طلاق کے بعد شادی کی خواہش تھی مگر نبیﷺ نے عوام کے خوف سے اس خواہش کو چھپایا۔ اللہ نے فرمایا کہ’’ جس چیز کو آپ چھپارہے تھے ، اللہ نے اس کو ظاہر کرنا تھا‘‘۔کسی انسان کا دل اسکے اپنے اختیار میں نہیں ہوتا ، جائز اور ناجائز خواہش کسی کے دل میں بھی داخل ہوسکتی ہے۔ نبیؐ نے ایک خوبرو خاتون کو دیکھا اور نفسانی جذبہ ابھرا تو اپنی بیگم سے شہوت پوری کرلی اور فرمایا کہ جس کی نظر ناجائز جگہ پڑے اور خواہش ابھرے تو اپنی بیگم سے خواہش پوری کرلے اسلئے کہ جو چیز اسکے پاس ہے جس سے خواہش ابھری ہو تووہی اس کی بیوی کے پاس بھی موجود ہے۔
اللہ واضح طور پر کہتاہے کہ ’’ اپنے نفسوں کی پاکی بیان مت کرو، اللہ جانتا ہے کہ کون کتنا پاکی رکھتا ہے‘‘۔ اللہ کی ذات ہی نفسانی خواہش سے پاک ہے اسلئے کہ وہ بیوی، بیٹے اور بیٹیوں کے تصور سے بالکل پاک ذات ہے۔ انبیاء کرام ؑ اور صحابہ کرامؓ فرشتے نہیں تھے بلکہ حضرت آدم ؑ کی آل ا ولاد تھے۔حضرت یوسف علیہ السلام کے پیچھے آقا کی بیگم پڑی توفرمایا کہ میں نفس کو بری نہیں کرتا مگر اللہ نے میری حفاظت کردی۔ جو نفس نہیں رکھتا وہ کھدڑا بھی خدا کا بندہ ہے مگر نفسانی خواہش سے بچنے میں یہ کمال نہیں۔ حضرات انبیاء ؑ کمالات والے انسان تھے۔ بعض صوفیاء اور علماء نے اپنے کرتوت پر پردہ ڈالنے کیلئے لکھ دیا کہ ’’ حضرت زیدؓ نے نبیﷺ کی خواہش کیلئے غیرت کی قربانی دی اور داؤد ؑ نے اپنے مجاہد کی بیگم سے بدکاری کا جرم کیا‘‘ ۔یہ انتہائی گھناؤنے الزام ہیں اور ان تہمتوں کا اللہ کو حساب دیدیا ہوگا۔
حضرت داؤد ؑ نبی اوربادشاہ وخلیفہ تھے۔ اجتہادکا تقاضہ پورا کرکے دو قوموں کے درمیان فیصلہ کیا ، وہ انصاف کا تقاضہ پورا سمجھ رہے تھے مگر آپ ؑ کے صاحبزادے حضرت سلیمان ؑ نے کہا کہ ’’ اس سے ایک قوم کو انصاف ملے گا مگر دوسری قوم محروم ہوگی اور پھر خود ہی دونوں قوموں کے درمیان فیصلہ کردیا‘‘۔ داؤد ؑ نے فیصلہ کیا تھا کہ کھیت والوں کو نقصان کی قیمت میں جانور دئیے جائیں ۔ سلیمان ؑ نے فیصلہ دیا کہ کھیت جانور والوں کے ذمہ لگایا جائے جب تک وہ اپنی پوزیشن پر بحال نہ ہو اس وقت تک جانوروں سے کھیت والے اپنا فائدہ اٹھائیں۔ حضرت سلیمان ؑ کے بارے میں اللہ نے واضح کیا کہ ہم نے اس کو زیادہ فہم دیا تھا۔ حضرت داؤد ؑ اور حضرت سلیمان ؑ ہر ایک ہدایت پر تھے۔حضرت آدم ؑ کو اس شجرہ کے قریب جانے سے منع کیاگیا، جس سے آدمی بھوکا اور ننگا ہوجاتاہے۔ شیطان نے کہا تھا کہ میں تمہیں ہمیشہ رہنے والے شجرہ کی نشاندہی کردوں؟۔ پھر بیوی سے مباشرت کا طریقہ بتایا اور حضرت آدم ؑ نے جذبہ سے بے بس ہوکر اسکے قریب نہ جانے کے حکم کی خلاف ورزی کی مگر اللہ سے کہا کہ میں نے اپنے اختیار سے نہیں کیا ۔ حکم عدولی پر اللہ نے معافی دیدی مگر اسکے نتیجے میں قابیل پیدا ہوا، جس نے ہابیل کو اپنی نفسانی خواہش کی تکمیل کیلئے قتل کیا تھا۔

جماعت اسلامی کے بانی مولانا ابو اعلیٰ مودودی نے درس نظامی کی تعلیم حاصل نہیں کی تھی.

maulana-maududi-ne-ulmaa-k-dabao-pr-dharhi-rakhi

جماعت اسلامی کے بانی ابواعلیٰ موددی نے درسِ نظامی کی تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی، مولانا محمد منظور نعمانی اور دانشور طبقے نے جماعت کی آبیاری کی۔ علماء کے دباؤ پر داڑھی رکھی اور بتدریج اسی دباؤ کے نتیجے میں اتنی بڑھائی کہ پہلے کے مودودی اور بعد کے مودودی میں یہ واضح فرق نظر آیا جو تصویر میں دیکھ سکتے ہیں۔
علماء داڑھی رکھوانے کے بعد علیحدہ بھی ہوگئے۔ ایک عرصہ تک جماعت اسلامی اور علماء کرام کے درمیان شدید اختلاف بھی رہا اور مولانا مودودی نے یہ بھی کہا کہ ’’ اگر علماء نے مجھے قبول کرلیا تو سمجھ لو کہ علماء جیت گئے اور میں مشن ہار گیا ہوں‘‘۔ مولانا مودودی سے الگ ہونیوالے بڑے علماء نے ’’ الہ‘‘ کے تصور پر بنیادی اختلاف کا ذکر کیا۔
مولانا مودودی نے حق حکمرانی پر اقتدار کے حوالہ سے ایک الٰہ کا تصور پیش کیا۔ اسلام اور اقتدار کو لازم وملزوم قرار دیا ۔ شاہ ولی اللہ کے نعرے فک النظام اور للہ الامر کو بلند کیا ، جس کو بعد میں جمعیت علماء اسلام اور جمعیت طلبہ اسلام نے اپنا ’’ماٹو‘‘ بنالیاہے۔ مودودی نے درسِ نظامی پڑھا ہوتاتو نصاب کی اصلاح پر توجہ دیتے۔ درسِ نظامی وقرآن وحدیث کی تعلیم سے عاری مولانا مودودی کی صلاحیت قابلِ رشک تھی مگر وہ درختوں سے زرد پتے جھاڑتے رہے، شاخوں اور تنوں کی طرف توجہ نہ دے سکے۔ سیدمودودی نے کہا کہ حج نہ کرنیوالا کافر ومرتد ہے اسلئے کہ حدیث ہے کہ ’’جو حج کی استطاعت رکھتا ہے اور حج نہیں کرتا تو اس کی مرضی ہے کہ یہود بن کر مرے یا عیسائی‘‘۔ علماء نے کہا کہ فقہ میں حج نہ کرنیوالے کو کافر کہا گیاہے تو سید مودودی نے کہا کہ ’’حدیث کے مقابلہ میں کسی فقہ اور اصول فقہ کو نہیں مانتا‘‘۔ علماء نے فتویٰ لگادیا کہ ’’مولانا مودودی گمراہ ہے، کیونکہ فقہ کو نہیں مانتا‘‘، حالانکہ فقہ میں نمازنہ پڑھنے پر کافر ہونے کا اختلاف فقہی اماموں کے درمیان موجود ہے مگر فتویٰ نہیں لگایاگیا۔
مولانا مودودی کمیونزم کیخلاف لڑے مگر جہاں سے مولانا نے الہ کا تصور شروع کیاتھا، جس اللہ نے سود کو اللہ اور اسکے رسول ﷺ سے اعلانِ جنگ قرار دیا، اس سودی نظام کی گود میں روس کے خلاف جہاد کا آغاز ہوا تو منافقانہ طرزِ سیاست مجبوری بن گئی جس سے جماعت نکل نہ سکی۔ ضیاء الحق، نوازشریف کو اسلامی جمہوری اتحاد میں کندھا دیا گیا۔ متحدہ مجلس عمل و ملی یکجہتی کونسل کے ڈرامے رچائے گئے۔ نظریاتی جماعتِ اسلامی کی تبرکات بھی نہیں رہی ہیں۔ قاضی حسین احمد ڈھولک اور سراج الحق نے یوم مئی پر لال ٹوپی پہن لی مگر وہ سمجھتے ہیں کہ گناہ کیوں معاف نہیں ہوتا؟ ۔ وہ اپنے اصل کی طرف آئیں تو بات بنے!۔
حدیث میں مزارعت کو سودقرار دیاگیا۔ امام ابوحنیفہؒ ، مالکؒ و شافعیؒ نے متفقہ ناجائز کہا۔ نبی ﷺ نے اڑھت کی دلالی اور ذخیرہ اندوزی کی ممانعت فرمائی جو ساری کمائی کھا جاتے ہیں۔ مدارس کا نصاب درست ہونا چاہیے۔جماعت اسلامی مقصد کی طرف سفر شروع کرے تو اسکے پروں میں طاقتِ پرواز آسکتی ہے۔ مہرے کی طرح استعمال ہونے کا انجام ٹشوپیپر کی طرح ڈسٹ بین ہوتاہے اور جماعت اسلامی اپنی آنکھیں کھول لے۔

درس نظامی کے اصول اور ان سے انحراف کی تعلیم، مدارس اور انکے علماء و مفتیان

darse-nizami-ke-usool-aur-un-se-inheraf-ki-taleem-madaris-aur-unke-ulmaa-o-muftian

پیپلزپارٹی کی رہنما سسی پلیجو سابق وزیر سیاحت کیساتھ وزیر مملکت مولانا عطاء الرحمن تھے۔ سسی پلیجو نے میڈیاپروگرام میں بتایاکہ مولاناحمداللہ رہنما JUI نے اسمبلی میں ایک بل پیش کیا جس میں قرآن پر ہاتھ رکھ کر حلف اٹھانے کو قانون بنانیکی قرار داد تھی جس کو انہوں نے ناکام بنایا کہ غیرمسلم کیلئے یہ کیسے ممکن ہوگا؟، یہ قدم قابل تعریف ہے۔
جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں داخلہ سے پہلے مولانا یوسف لدھیانوی کی تقریر میں سنا کہ ’’ قرآن کے نسخے پر حلف نہیں ہوتا، یہ اللہ کا کلام نہیں بلکہ نقشِ کلام ہے‘‘ ۔ تو بڑا تعجب ہوا کہ جاہل عوام اور علماء میں اتنا فرق ہے کہ علماء کے نزدیک قرآن کے نسخے پر حلف نہیں ہوتا اور اللہ کے کلام کا لفظ کہنے پر حلف ہوتاہے جبکہ عوام قرآن کے نسخے پر ہاتھ رکھ کر قسم کھانے سے گھبراتے ہیں اور ویسے قرآن کا لفظ کہہ کر بے دھڑک قسم کھاتے ہیں۔
جامعہ بنوری ٹاؤن میں اپنے استاذ مولانا مفتی عبدالسمیع سے بحث کایہ نتیجہ نکلا کہ انہوں نے قرآن کا نسخہ دکھایا کہ یہ اللہ کتاب ہے؟۔ میں نے کہا کہ نہیں،تو مجھے کافر قرار دیا۔ جب میں نے مولانا یوسف لدھیانوی کا بتایا توکہنے لگے کہ تم لوگ پڑھ کر آتے ہو اور مقصد استاذ کو ذلیل کرنا ہوتاہے۔ پھر چوتھے سال نورالانوار میں پڑھا کہ المکتوب فی المصاحف سے مراد لکھی ہوئے قرآنی نسخے نہیں بلکہ 7 قاریوں کے الگ الگ قرآن ہیں کیونکہ لکھے ہوئے نقوش الفاظ اور معانی نہیں ہیں۔ جس پر کوئی تعجب بھی نہیں ہوا اسلئے کہ میرے علم یہ بات آئی تھی ،البتہ یہ معلوم ہوا کہ مولانا لدھیانوی بڑے عالم ہیں اور مولانا عبدالسمیع کی قابلیت زیرو ہے۔ پھر مفتی تقی عثمانی کی کتاب’’ فقہی مقالات‘‘ میں دیکھا کہ ’’ سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے علاج کیلئے لکھنا جائز ہے، صاحب ہدایہ‘‘ تو دماغ پر بوجھ آیا اور بنوری ٹاؤن سے حوالہ دئیے بغیر خلاف فتویٰ لیا۔ اخبارمیں شائع کیا تو مفتی تقی عثمانی نے عوامی دباؤ سے تنگ آکر اپنی دوسری کتاب ’’تکملہ فتح الملہم‘‘ سے بھی نکالنے کا اعلان کیا۔ سمجھ میںیہ بات نہیں آتی کہ صاحب ہدایہ نے اپنی کتاب تجنیس میں یہ کیسے جائز قرار دیا، جو فتاویٰ شامیہ و قاضی خان میں بھی ہے۔ پھر اصول فقہ کا سبق یاد آگیا جو تحریری شکل میں قرآن کو الفاظ اور معانی نہیں مانتاہے اور فقہ میں قرآن پر حلف بھی نہیں ہوتا ہے۔ اصول فقہ میں قرآن کی تعریف آیات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ پڑھنے اور پڑھانے والے اسکے بھیانک نتائج سے عاری ہیں، اس تعریف کی اصل وجہ علم الکلام ہے جسے حضرت امام ابوحنیفہؒ نے کھلی گمراہی قرار دیکر توبہ کرلی۔ نادان مسلکی فقہاء نے مغالطے سے پھر اس کی گمراہی نصابِ تعلیم میں داخل کردی ہے۔
اصولِ فقہ کا یہ قاعدہ ہے کہ قرآنی آیات سے حدیث ٹکراتی ہوتو اسے مسترد کردیا جائیگا۔ بہت سی احادیث پیش کی گئیں جو آیات سے نہیں ٹکراتی ہیں مگر خود ساختہ قیاس کے ذریعے سے ان احادیث کو بالکل رد کردیا گیاہے۔ یہ مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ کا تقویٰ تھا کہ اللہ نے مجھ جیسے طالبِ علم کو اس ادارے میں تعلیم کا موقع دیا اور اسکے علاوہ دیگر مدارس میں موقع ملاتھا تو ان اساتذہ کرام کا مشکور ہوں جنہوں نے میری طرف سے تعلیمی نصاب پر حوصلہ دیا تھااور امید ظاہر کی تھی یہ بڑا کام میں کرلوں گا۔
مجھے تبلیغی جماعت کا بھی شکریہ ادا کرنا ہوگا کہ جہاں سے انبیاء کرام ؑ کی طرف بلا اجرت تبلیغ کی تعلیم وتربیت ملی تھی اور اس ذہنیت کی وجہ سے دارالعلوم کراچی کورنگی میں داخلے کے باوجود مجھ سے کہا گیا کہ آپ کا داخلہ نہیں ہوا۔
مولانا سیدیوسف بنوریؒ کی خواہش تھی کہ کوئی اچھا سا تعلیمی نصاب مرتب کیا جائے مگر وہ اس خواہش کو پورا نہ کرسکے۔مفتی محمودؒ نے بھی بعض کتب کو درسِ نظامی سے نکالنے کا کہا مگر جب وہ مدرس تھے تو کراچی سے ڈھاکہ تک مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع ؒ کے فتوے کی زد میں آئے، جب خود مفتی اعظم بن گئے تو سیاست سے فرصت نہیں تھی۔ مفتی رفیع عثمانی ومفتی تقی عثمانی نے زکوٰۃ کے مسئلے پر بھی ان کی بات نہیں مانی۔ مولانا فضل الرحمن پر بھی شروع میں علماء ومفتیان کا متفقہ فتویٰ آیا تھا جسکا دفاع میری قسمت میں تھا۔ میرے اشعار سے فتویٰ انجام کو پہنچا۔ پھر ہمارے مرشد حاجی عثمانؒ پر بھی فتوے لگائے گئے اور بکاؤ مال نے شکست بھی کھالی۔ ٹانک کے تمام نامور علماء کرام کی طرف سے میری کھل کر تائید ہورہی تھی جن کا تعلق علماء دیوبند سے تھا۔ جمعیت علماء اسلام (س+ف) اور ختم نبوت کے ضلعی امیر سب ان میں شامل تھے۔ مجھے امید ہے کہ جسطرح مفتی تقی عثمانی نے اکیلے پرواز کرکے معاوضہ سے سودی نظام کو جواز بخشا ہے تو جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی سے نصاب اور فتوے کی اصلاح کا عمل بھی انشاء اللہ ضرور شروع ہوجائیگا۔
دارالعلوم کراچی کورنگی میں مفتی عبدالروف سکھری مفتی شفیع کے داماد ہیں ، اسکی نالائقی کا یہ عالم ہے کہ ٹی وی سے چپک جانیوالی مردہ لڑکی کا من گھڑت واقعہ بھی بیان میں بتایا۔ اب اسکے بیٹے حسان سکھروی نے یہ فتویٰ لکھ دیا ہے کہ ’’حاملہ عورت کیلئے بھی لفظی تین طلاق کے بعد حلالہ کرنے کا اطلاق ہوتاہے‘‘۔ باقی صاحبان لگتاہے کہ اللہ کا خوف کھارہے ہیں، مفتی عصمت اللہ نے کافی عرصہ سے ایسا کوئی فتویٰ نہ دیا۔ اندرونی صفحہ 3پر فتویٰ اور اسکے خلاف دلائل ملاحظہ کریں۔ان پر غور کرکے اسلام کے نام پر جہالت کے فتویٰ سے باز آجائیں۔ اللہ بنوری ٹاؤن کو ہمت کی توفیق دے۔ یہ وقت بہت نازک آگیا ہے۔

عالم اسلام کے سیاسی مذہبی مسائل کا حل کیا ہے؟

alam-e-islam-k-siasi-mazhabi-masail-ka-hal-kya-hai

رسول اللہﷺ نے 25سال کی عمر میں 40سال کی حضرت خدیجہؓ سے نکاح کیا اور آپﷺ بچپن سے بتوں سے بیزارتھے۔ بتوں سے بھرے کعبہ کو چھوڑ کر غارِ حراء کو مسکن بنایا تو پہلی وحی نازل ہوئی ۔ ’’پڑھ اللہ کے نام سے جس نے پیدا کیا، انسان کو لٹکے عضوء سے پیدا کیا۔ پڑھ تیرے عزت والے ربّ کی قسم ! جس نے قلم کے ذریعے سکھایا۔ انسان کو سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا‘‘۔ پہلی وحی میں انسان کو اسکے پیدائش کے اوقات بتادئیے۔ اللہ رب العزت کا مقام باورکرایا کہ انسان کی حقارت پیدائش کا آلۂ تناسل ہے ۔ اللہ رب العزت جس نے قلم سے وہ سکھادیا، جو وہ نہیں جانتاتھا
جاہل ابوجہل وابولہب انکار نہ کرسکتے کہ جہالت کے باوجود اپنے مقام کا دعویٰ کرنے والے جس چیز سے پیدا کئے گئے۔ کوئی معزز بات نہیں، عضوء کا نام تک لینا گوارا نہیں۔ مگر کیسے باور کریں کہ قلم کی طاقت سے کوئی غلام بھی اپنے سردار سے زیادہ معزز بن سکتاہے۔ آخر کار جہالت نے تمام تر بدمعاشی، دہشت گردی اور منافقت کی انتہاء کرنے کے باوجود اس مدرسہ کے اصحابؓ کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے جس کا آغاز اقراء کے لفظ سے ہوا تھا۔ مشرکینِ مکہ کے جاہل قلم اور علم سے عوام کو ڈراتے تھے،اب جاہلوں کے جانشینوں نے اسلامی لبادہ اوڑھ کر جاہلوں کا وہی کام کیا۔
اب کون دیکھتا ہے تیرے شمس کی طرف
سورج مکھی کے پھول شعاعوں سے ڈر گئے
مکہ فتح ہواتو رسول ﷺ نے حضرت علیؓ کی بہن اُم ہانیؓ کے مشرک شوہر کو پناہ دی۔ کیا مشرک شوہر مؤمنہ کو نکاح میں رکھ سکتا تھا؟۔ حضرت علیؓ نے قتل کا فیصلہ کیا اور اُم ہانیؓ اپنے شوہر کو زندہ رکھنا چاہتی تھیں، فیصلہ رسولﷺ نے حضرت اُمّ ہانیؓ کے حق میں کردیا۔ کیا یہ حضرت علیؓ کی شکست اور اُمّ ہانی کی جیت تھی ؟ رائے کی غلطی یا صواب فتح اور شکست نہیں بلکہ تحقیق ہے۔ سورۂ مجادلہ دیکھ لیجئے ، اللہ نے رسول ﷺ سے بحث وتکرار کرنیوالی حضرت خولہ بنت ثعلبہؓ کے حق میں وحی اُتاردی۔ نبیﷺ نے مشاورت کرکے بدر کے قیدیوں پر فدیہ لینے کا فیصلہ فرمایا تو اللہ نے کہا کہ’’ نبی کیلئے مناسب نہ تھا کہ آپکے پاس قیدی ہوں، یہانتک کہ زمین میں خوب خونریزی کریں‘‘۔ آےۃ آئینہ ہے کہ نبیﷺ نے جب مشاورت کے بعد فیصلہ کیا مگر وحی بر عکس نازل ہوئی تو اسے انا کا مسئلہ نہیں بنایا بلکہ زارو قطار روئے، اللہ نے مسلم امہ کی تربیت کرنی تھی تاکہ روشن خیالی دل ودماغ میں سرایت کرجائے کہ وحی نے نبیﷺ کی رہنمائی کی تو کوئی اپنے آپ کو مولائے کل نہ سمجھے۔ مولانا اور علامہ نے ہٹ دھرمی چھوڑ کر حقائق کو قبول کرنا ہوگا۔
مولانا فضل الرحمن اور علامہ ساجد نقوی کو ایک جگہ بیٹھ کر پوری قوم کو سمجھانا ہوگا کہ ہم مرد ہیں اور مرادنگی کو پسند کرتے ہیں۔ قرآن میں موجود آیات اور سیرت طیبہ کے واقعات اگر عوام اور دنیا کو سمجھائے گئے تو اسلامی انقلاب کی آمد میں کوئی دیر نہیں لگے گی۔ اپنی بلّیوں کو اپنی تھیلیوں میں چھپانا مسائل کا حل نہیں۔
اُمّ ہانیؓ نے شروع میں اسلام قبول کیا مگر ہجرت نہیں کی۔ فتح مکہ کے بعد اسکا شوہر چھوڑ کر گیا تو نبیﷺ نے بجائے طعن کے شادی کی پیشکش کردی۔اُمّ ہانیؓ نے عرض کیا کہ یہ میرے بچوں پر گراں گزریگااور معذرت کرلی تو نبیﷺ اس خاتونؓ کی تعریف فرمائی۔ پھر اللہ نے آیات نازل کیں کہ رشتہ داروں میں جن خواتین نے ہجرت نہیں کی،ان سے نکاح نہ کریں۔پھر فرمایا کہ ’’آج کے بعد کوئی پسند آئے تب بھی اس سے نکاح نہ کریں‘‘۔
رسول ﷺ نے لونڈی ماریہ قبطیہؓسے حرمت کی قسم کھائی تو اللہ نے وحی نازل کی کہ ’’جسے اللہ نے تیرے لئے حلال کیا ،اسے خود پر کیوں حرام کرتے ہو، اپنی ازواج کی مرضی کیلئے‘‘۔ چندآیات ، سیرت طیبہ کے واقعات کو دنیا کے سامنے رکھا جائے تو کئی پیچیدہ فقہی مسئلے، فرقہ وارانہ عقائد، بین الاقوامی مسائل حل ہوجائیں گے۔ قانونی نکاح پر زنا کا فتوی نہ لگایا جائیگا۔کسی مؤقف پر ہٹ دھرمی کا جواز نہ رہیگا، ہتک آمیزکارٹون ختم ہونگے،مسلک سازی، فرقہ بندی ، جدّت طرازی ختم ہوگی۔
شیعہ سنی نے ایکدوسرے کو قرآن کا منکر اور تحریف کا قائل قرار دیا مگر اپنے نصاب کی اصلاح نہ کی۔ شدت پسندوں نے قربانیاں دیں اور جبہ ودستار فرشوں نے ہمیشہ مزے ہی اڑائے، اب حقائق کی طرف آنا پڑے گا۔

خانہ کعبہ بیت اللہ کی تعمیر، ہجرت اور صلح حدیبیہ کا معاملہ

khana-e-kaba-bait-ullah-ki-tameer-hijrat-aur-sulah-hudaibiya-ka-mammlah

سنی شیعہ علماء اپنے اپنے مسلکوں کو کاروبار بنانے کے بجائے راہِ حق کیلئے میدان میں کام کریں تو ملت اسلامیہ کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ صحیح بخاری کو کتاب اللہ کے بعد صحیح ترین قرار دینے والے شیعہ کی طرح ائمہ اہلبیت کیساتھ علیہ السلام بھی پڑھا کریں یا واضح کریں کہ وہ بخاری میں غلط لکھ دیا گیاہے۔ منافقانہ رویہ کو چھوڑنے کیلئے کھلی کھلی باتیں کرنا ہوں گی۔
درسِ نظامی میں بسم اللہ کو مشکوک بتایاجاتا ہے جس کی وجہ سے قرآن کے بلاشبہ ہونے کا عقیدہ نہیں رہتا۔ مساجد میں بنی امیہ کے دور سے پابندی لگائی گئی تھی کہ جہری قرأت میں بسم اللہ نہ پڑھی جائے۔ امام ابوحنیفہؒ کو تشدد کا نشانہ بناکر جیل میں زہر دیکر شہید کیا گیا ، انکے شاگرد ابویوسف قاضی القضاۃ چیف جسٹس اور شیخ الاسلام کے منصب پر فائز تھے۔ ایسا تو موجودہ دور کے لوٹے سیاستدان وزیرکریں تو بھی شرمندہ ہوں۔ مساجد میں جہری نمازمیں جہری بسم اللہ سے انقلاب کا آغاز ہوگا تو مذہبی طبقے کے بند ذہنوں کی بندشریانے کھل جائینگی، آغاز اچھا ہو تو انجام بھی بہترین ہوگا۔
بنوامیہ کے بعد بنوعباس کاامارت پر قبضہ ہوگیا اور نبیﷺ سے نسبت قریب ہونے کا دعویٰ کرنے کیلئے ابوطالبؓ سے متعلق کفر پر مرنے کی روایت گھڑ ی۔ تاتاری بغداد کو تار تار کرگئے تو اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ اقتدار قائم رہے۔ حرم سراؤں میں خوبصورت ترین لڑکیوں کو قیدرکھنے والے سلاطین اچھے تھے؟۔ انہیں لونڈیوں کی پیداوار بادشاہوں کی اولاد ہونے کے ناطے پھر تختِ خلافت پر بیٹھتے تھے۔ جنکے درباری ملا کے ہاتھوں میں اہل حق کی گردن زدنی کے فیصلے ہوا کرتے تھے۔ آج بھی کچھ زیادہ فرق نہیں ہے۔ تیز رفتار مواصلاتی نظام، کمپیوٹر اور چھپائی کے موقع نہ ہوتے اور اللہ کی حفاظت کا معاملہ نہ ہوتا تو ہم بھی کربلا کے شہیدوں میں شمار ہوتے۔ پشاور میں عمران خان کی جمہوری حکومت نے سول سوسائٹی آرمی پبلک سکول کے شہداء پر جلوس بھی نکلنے نہیں دیا تھا۔
یزید کے بیٹے معاویہ میں اتنی غیرت تھی کہ تخت خلافت سے 40 دنوں میں الگ ہوا کہ ظالمانہ نظام کا میں حصہ نہیں بنوں گا۔ ہمارا یہ حال ہے کہ یزید وابوجہل کو برا کہتے ہیں مگر یہ نہیں دیکھتے کہ ابوجہل کے بیٹے مخلص صحابیؓ بن گئے ۔ ہماری قیادتوں کے خمیر اس سے بھی عاری ہیں۔ رئیس المنافقین ابن ابی کے بیٹے بھی مخلص صحابہؓ تھے۔ ہم نے جاہلانہ عصبیتوں کو اسلام ، جہاد اور فرقوں کا رنگ دیدیا ہے۔
امیر حمزہؓو علیؓ جیسے شیر، فاروق اعظمؓ جیسے دلیراورابوبکرؓو عثمانؓ جیسے اہل خیر موجود تھے جو ابولہب وابوجہل کی طبیعت صاف کردیتے مگر اللہ نے مسلمانوں کو دہشتگردی کی راہ پر نہیں لگانا تھا۔ مدینہ ہجرت کے بعد صلح حدیبیہ کا معاہدہ کیا، حضرت ابوجندلؓ نے زنجیریں توڑ ڈالی تھیں ، نبیﷺ نے معاہدے کے مطابق واپس کردیا۔خواتین بھاگ آئیں تو نبیﷺ نے ان کو حوالہ کرنے کا مطالبہ مسترد کردیا۔ یہ اللہ کی چاہت بھی تھی فرمایا کہ ’’ خواتین سابقہ مشرک شوہروں کو نہ لوٹائی جائیں یہ ان کیلئے حلال نہیں اور وہ بھی ان کیلئے حلال نہیں‘‘۔ حضرت علیؓ نے سمجھاکہ ’’ شرعی حلال مرادہے‘‘ اور حد سے تجاوز کرکے فتح مکہ کے بعد مشرک بہنوئی کو قتل کرنا چاہا۔ نبیﷺ نے اس کو امان دیدی۔ علماء کرام ومفتیان عظام نے حلالہ کی نوعیت پر بہت بڑا مغالطہ کھایا ، لوگوں کے گھر تباہ ہوئے، عصمتیں لٹ رہی ہیں اور اس سلسلے میں بعض فقہاء نے حلالہ کی لعنت کو کارِ ثواب قرار دیکر بہت غلط کیاہے۔ علماء کو چاہیے کہ رجوع کریں۔مجاہد قائدین کہہ دیں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بدلے ہمیں قید کرلیجئے گا۔
ہم نے چند مرتبہ وضاحت کی کہ ’’بخاری کی روایت میں قریش خواتین کو دنیا کی دیگر خواتین پراُ ونٹ کی سواری کی وجہ سے فضیلت دینے کا ذکر ہے اور سعودیہ میں خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی غلط ہے‘‘، اب سعودیہ نے پابندی اٹھادی توبہت اچھا ہوا اور اصلاح کا طریقہ یہ نہ تھا کہ دہشت گرد اپنی خواتین کو حکومتی احکام کی خلاف ورزی پر مجبور کرتے۔ صلح حدیبیہ کے بعد مسلمانوں کیلئے مکہ میں تیر اٹھانے کی اجازت بھی نہ تھی۔ اسلام نے ہی دنیا کوریاست کے آداب سکھادئیے تھے مگر ہم اسلام بھی بھول گئے اور قرآن وسنت کا سلیقہ بھی یاد نہیں رہاہے۔ آج حرمین شریفین میں صلح حدیبیہ کے مقابلہ میں زیادہ پابندی ہے۔

قبلہ اول بیت المقدس مسجد اقصی پر یہودی قبضے کا معاملہ

qibla-e-awwal-bait-ul-muqaddas-masjid-e-aqsa-per-yahoodi-qabze-ka-maamlah

حضرت ابراہیم ؑ کے بیٹے حضرت اسحاق ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ تھے۔ بنی اسرائیل کا تعلق حضرت اسحاق ؑ سے ہے ، بیت المقدس ان ہی کا مرکز تھا۔ حضرت ابراہیم وحضرت اسماعیل ؑ نے آخری نبی حضرت محمدﷺ کیلئے خانہ کعبہ بنایا تھا۔ جب غارِ حراء میں وحی نازل ہوئی اور مشکلات بڑھ گئیں تو اللہ تعالیٰ نے ہجرت کیلئے باقاعدہ دعا سکھائی اور بعثت کے اس مرکز سے ہجرت کرنے کا حکم دیدیا۔ مدینہ ہجرت کرنے کے بعد شروع میں مسلمانوں نے اہل کتاب کی پیروی میں بیت المقدس کو قبلہ بنایا۔ جب نبیﷺ کی خواہش پر اللہ نے کعبہ کو قبلہ بنالیاتو بیوقوف لوگوں نے اعتراضات اٹھادئیے کہ کس چیز نے ان کو قبلہ بدلنے پر مجبور کیا؟۔ یہ تفصیل دوسرے پارہ کے شروع میں ہے۔
جب بیت المقدس ہمارا قبلہ نہیں تھا، تب بھی ہمارے قبضہ میں نہیں تھا۔ مسلمانوں نے اپنا رخ پھیر لیا تو اس پر قبضہ کرنا بھی غلط تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ کہا جاتاہے کہ حضرت عمرؓ کو چابیوں کے مالک نے خود چابیاں پیش کردیں اور ان کی کتابوں میں موجود 17 پیوند والے کپڑے اور غلام کی سواری تھامنے والے خلیفہ حضرت عمر فاروق اعظمؓ ان نشانیوں پر پورے اُترے تھے۔ ایسی صورت اگر محمود غزنوی کیلئے بھی سومنات کا مندر فتح کرتے وقت سامنے آتی تو بھارت کے ہندو بھی اس پر اعتراض نہ کرتے۔ حدیث میں بیت المقد س فتح ہونے کی بشارت میں مزاحمت نہ ہونے کی پیشگوئی موجود ہے۔ فتح مکہ کے وقت جب کعبہ فتح ہوا تو بھی مشرکینِ مکہ نے کوئی مزاحمت نہیں کی تھی اور اگر وہ معاہدہ نہ توڑتے تو 10سال تک یہ گارنٹی موجود تھی کہ کعبہ بتوں سے بھرا ہوتا اور مسلمان نیام میں تلوار رکھنے کے علاوہ کوئی بھی ہتھیار ساتھ نہ لاتے۔ نبیﷺ نے زندگی بھر کیلئے یہ معاہدہ کیا تھا کیونکہ 6ہجری میں صلح ہوئی اور 10ہجری میں آپﷺ کا وصال ہوا،حضرت ابوبکرؓ کا پورا دور، حضرت عمرؓ کا آدھا دورِ خلافت بھی اسی میں آجاتا۔ مگر دشمنوں کی زیادتی تھی کہ پہلے ہجرت پر مجبور کیا اور پھر وہ معاہدہ بھی خود ہی توڑنے میں پہل کردی تھی۔
اسلام وہ دین ہے جس نے دین میں بھی زبردستی کی تعلیم نہیں دی اور نظام میں بھی جبر کا سبق نہیں سکھایا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو دین کی دعوت نرمی سے دی ، نظام کیلئے بھی خود کش حملے نہیں کئے بلکہ ایک مرتبہ غلطی سے کوئی شخص قتل ہوا تو دوسری جگہ چلے گئے اور جب فرعون کو حق کی دعوت دیکر حجت تمام کردی ، تب بھی اپنے لشکر کو لیکر فرعون سے نجات حاصل کرنے کیلئے دریا عبور کیا۔ فرعون کو اللہ نے خود ہی اسکے لشکر سمیت غرق کردیا۔
اسلام دینِ فطرت ہے اور اس کی فطری شکل معاشرے میں بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ یزید نے ایک طرف قسطنطنیہ فتح کیا اور دوسری طرف کربلا میں امام حسینؓ کو ساتھیوں سمیت شہید کردیا۔ ایک طبقہ وہ بھی ہے جس کا عقیدہ ہے کہ یزید صحابی نہ ہونے کے باوجود بھی رضی اللہ عنہ کا حقدار اسلئے ہے کہ قسطنطنیہ کی فتح پر حدیث میں جنت کی بشارت ہے۔ مفتی سید عدنان کاکا خیل نے بجافرمایا کہ مجھے اس طبقے کا علم نہیں۔ شاہ بلیغ الدین اور انکے علماء ومفتیان ساتھی ، محمود عباسی کے ساتھی علماء و مفتیان اور وفاق المدارس کی ا نتظامہ چلانے والوں میں بہت معتبر ہستیاں تقیہ کی پوزیشن پر فائز تھیں۔ دوسری طرف غلو کے مرتکب شیعہ واقعہ ایسا پیش کرتے ہیں،لگتاہے کہ اثناعشری امام حسین ؑ سے پہلے 2 اور بعد میں آنیوالے9 اماموں پر بھی طعن و تشنیع کرتے ہیں۔ یہ رویہ ان کومحرم کے10دنوں تک محدود کردیتاہے۔
بکھرے تاریخی صفحات میںیزید و حسینؓ کی کئی داستانیں بھری پڑی ہیں، بنی اسرائیل نے مشکل سے گائے ذبح کی، تو ہندوؤں نے مقدس کی پرستش شروع کردی اور گائے کی وجہ سے خود کو گاؤ ماتا کے نام پر بھگوانوں تک محدود کرلیا۔ بدر کی فتح پر مشاورت کے بعد نبیﷺ و صحابہؓ کو اللہ نے وحی بھیج کر رلادیا تھا تو محرم کا غم صرف شیعہ نہیں سنی بھی ملکر منائیں تو مجھے بڑی خوشی ہوگی اور خون بہانے سے مزاحمت، جہاد، دنیا کے سامنے خانہ کعبہ میں رمل کی طرح ایک طاقت کا اظہار ہوگا اور خون بہانے سے سنگینی کی سنت عمل ہوگا، حلوہ کھاناسنت نہیں۔ بخاری میں بھی اہلبیت کیساتھ علیہ السلام ہے، زندوں و قبروں پر السلام علیکم، ’’ و علیہ السلام‘‘ اور نماز میں ’’السلام علیک ایھاالنبی، السلام علینا وعلی عبادللہ ‘‘ ہے نا؟۔