پوسٹ تلاش کریں

برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کے واضح نقصانات اور اصل فوائد کا آئینہ

barre-sagheer-pak-o-hind-ki-taqseem-ke-wazeh-nuqsanat-aur-asal-fawaid
تقسیم ہند کے زبردست اور واضح نقصانات

1: انگریز و یہود کے سودی نظام کو کمیونزم سے خطرہ تھا اسلئے برصغیر پاک و ہند کو تقسیم کرنے کا بھرپور ساتھ دیا۔ جنہوں نے آزادی کیلئے جیل کاٹی اور نہ بغاوت کا سامنا کیا۔ ’’لڑاؤاور حکومت کرو ‘‘ کی سیاست کا حق اداکیا۔ انہیں اپنے ایجنڈے کیلئے استعمال کیا۔ آج وہی انگریز و یہود اسلام کو سوشلزم کیخلاف استعمال کرنے کے بعد اسلامی ممالک کو تباہ کرتے کرتے یہانتک پہنچا ۔ افغانستان، عراق، لیبیا، شام کے بعد پاکستان پر دستک دی جا رہی ہے اور ہم ’’ہنوز دلی دور است‘‘ کی رٹ لگائے بیٹھے ہیں۔ اگرتقسیم ہند نہ ہوتا تو یہ کھیل بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ برمی اور کشمیری مسلمانوں کو پاکستان سے الحاق کی کوشش نے بد حال بنادیاہے اور ہمارا یہ حال ہے کہ کشمیر کی کنٹرول لائن پر شہری گولیاں کھاتے کھاتے عادی ہوگئے ۔ آرمی چیف نے کہا کہ مشرق مغرب کے دشمن سن لیں ان کا بارود ختم ہوجائیگا مگر ہمارے جوانوں کے سینے ختم نہ ہونگے‘‘۔ اگر بہادری نہیں کرسکتے تو کلبھوشن کو کنٹرول لائن کے پاس باندھ دیتے تاکہ ان کا اپنا ہی کوئی گولہ ان کو لگ جاتا۔ اقوام متحدہ نے کشمیر پر ہمیں دھوکہ دیا مگر پھر بھی کلبھوشن کا مقدمہ عالمی عدالت انصاف میں چل رہا ہے۔ یہ کہنا کہ ’’لاالہ کے امین ہونے پر فخر ہے‘‘ مگر دشمن کے پیر وں کی جوتی بن کر بھی یہ رٹ ہے۔
2: افغانستان میں روس و امریکہ کی جنگ نہ لڑی جاتی، سپر طاقت روس کا خاتمہ نہ ہوتا۔ پڑوسی بھارت ،افغانستان اور ایران سے دوستی رہتی۔امریکہ ونیٹواس خطے کو اسلحہ فروخت کرنے اور ہیروئن کاشت کرنے کیلئے ٹھکانے نہ بناتے۔ منشیات اور اسلحے کی سمگلنگ سے امریکی CIA اور اسکے گماشتے ذاتی اکاؤنٹ بناتے ہیں جس کاخمیازہ غریب ممالک بلکہ پوری انسانیت کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان تباہ ہواتو بھارت کے مسلم و ہندو بڑے پیمانے پر امریکی و عالمی ایجنڈے کی زد میں آئیں گے۔جب تک بھارت اور پاکستان کو لڑاکر دم نہ لیں ،امریکہ اور یہودی اپنے مشن کی تکمیل نہیں کرسکتے ۔ پاک فوج بہت کمزور یا متحمل مزاج ہے۔ بھارت نے لاہور پر ہلہ بول دیااگر بھارت پاکستان کو فتح بھی کرلیتا تو مشرقی پاکستان نے بنگلہ دیش بننا تھا، مغربی پاکستان کیا بنتا؟۔ نیٹو افغانیوں کو نہیں سنبھال سکتا تو بھارت کیا کرسکتا تھا؟ البتہ کارگل کی طرح نہیں بڑے پیمانے پر پاک فوج کشمیر پر ہلہ بول دیتی تو کشمیری نے بھارتی فوج کوپکڑ کر وہی کرنا تھا جو بنگالیوں نے پاک فوج کیساتھ کیا۔ یہ تمام کی تمام رنجشیں تقسیم ہند کا شاخسانہ ہیں۔ بھارت میں مسلمان اور ہندو برادری ایک ساتھ عدل وانصاف کے تقاضوں کیساتھ رہ سکتے ہیں ، پاکستان میں بھی رہ سکتے ہیں تو پھر تقسیم کی ضرورت کیوں پیش آئی؟۔ ہندو سیکولر اچھوت سے غیر انسانی برتاؤ کرتے ہیں۔اسلام ذات پات، عرب عجم ، کالے گورے نہیں کردا کو ترجیح دیتا ہے۔ عرب انگریز کو آقا اور برصغیر کے لوگوں کو غلام سمجھتے ہیں ۔سیکولر ہندو اور روشن خیال مسلمانوں نے مل کر ہندوستان سے انسانیت اور اسلام کو دنیا میں امامت کے مقام پر فائز کرنا تھا۔
3: اسلام کا درست تصور پیش ہوتا، کمیونزم کیخلاف محاذنہ بنتا تو متحدہ ہندوستان اسلام اور انسانیت کی بہتر تصویر پیش کرتا۔ اقبال نے کمیونزم پر فرشتوں کا گیت ’’جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی ، اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو‘‘ نظم لکھ دی تھی۔ روس کے بارے میں اسلام قبول کرنے کی پیش گوئی کی تھی۔ ابلیس کی مجلس شوریٰ کے عنوان سے اظہارِ خیال کیا تھا کہ شیطان کو اصل خطرہ آنیوالے کل میں کمیونزم نہیں اسلام سے ہے۔ بھارت کو پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے پہلے اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ پاکستان نے امریکہ کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہ کیا مگر صلہ کیا ملا؟۔ دنیا بھر کے علاوہ بھارت میں ان مسلمانوں کی بھی بڑی تعداد ہے جو مغلیہ کے دور میں حکمرانی کرچکے ہیں۔ خلافت بحالی کیلئے انگریز کیخلاف ہندو بھی مسلمانوں کے شانہ بشانہ تحریک چلارہے تھے۔ مولانا محمد علی جوہر’’کامریڈ‘‘ کے نام سے صحافت کرتے تھے، مولانا حسرت موہانی، مولانا ظفر علی خان نظریاتی مسلم لیگیوں کا رحجان انگریز ویہود کے سودی نظام نہیں روس کی طرف تھا۔ قائداعظم بھی پہلے کانگریس میں تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے کانگریس میں شمولیت اسلئے اختیار کی تھی کہ ہندو نے انگریز سے آزادی کیلئے جدوجہد شروع کی تھی ۔ آرمی چیف جنرل باجوہ نے کہا ’’ہم بھارت سے دوستی چاہتے ہیں مگر تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے‘‘۔

پاکستان بننے کے زبردست اور واضح فوائد

1:مسلمانوں کی سب سے اہم کتاب قرآن مجید میں فاتحۃ الکتاب کے بعد پہلی سورت البقرہ ہے، جس میں گائے ذبح کرنے کو کسی واقعہ میں مسئلے کا حل بتایا گیاہے۔ پاکستان نہ بنتا تو حیلہ ساز علماء نے جس طرح اسلام کی تعلیم کو سود وغیرہ سمیت مسخ کرکے رکھ دیا ہے یہ بھی دیکھنے کو مل سکتا تھا کہ اکبر بادشاہ کی روحانی اولاد ہمارے درباری علماء و مفتیان فتوے جاری کردیتے کہ متحدہ ہندوستان میں قرآن کی سورۂ بقرہ کی تعلیم پر پابندی ہے جس میں گائے ذبح کرنے کاذکر ہے۔ عوام اور علماء کا قرآن سے براہِ راست رابطہ نہ تھا مگر جب قرآن کا ترجمہ عام ہونا شروع ہوا تو اس پر پابندی کے خطرات بھی منڈلاتے۔ ہندو بھائی چارے میں مسلمان پڑوسی اور برسرِ اقتدار طبقے کا خیال رکھتے ،تب بھی گائے ذبح کرنے پر پابندی کو دنیا قبول نہیں کرسکتی تھی۔ بھارت سب سے زیادہ گائے کا گوشت ایکسپورٹ کرنیوالا ملک ہے۔ پاکستان کا وجود بھارتی ریاست کو آکسیجن فراہم کررہاہے۔ گاؤ ماتا بوجھ بن کر بھارت کیلئے مسائل کھڑے کرتی ۔ مہاتما گاندھی کو انتہاپسند ہندو نے موت کے گھاٹ اُتارا۔ انگریز کو مصنوعی انتہاپسند مسلمان سے چڑہے توحقیقی انتہاپسند ہندو کو کہاں برداشت کریگا؟، رسول ﷺ نے اقراء کے سبق سے لوگوں کو جہالت کے اندھیروں سے نکالا۔ اب پھر مسلمانوں کو جہالت کے اندھیرے نے گھیر لیاہے اور پاکستان بہتر تجربہ گاہ بن کر نہ صرف برصغیر پاک وہند بلکہ ایشاء اور پوری دنیا کو بھی حقیقی روشنی فراہم کرسکتا ہے۔
2: دارالعلوم دیوبند و جمعیت علماء ہند نے ہندوؤں کیساتھ حکومت کی تحریک چلاکر نہ صرف دین اکبری کی پوزیشن کو زندہ کرنے کی کوشش کی بلکہ اسلام کو اقتدار سے بھی الگ کردیا تھا۔اکابر دیوبند نے کانگریس کے سیکولر نظام کو اسلام کا تقاضہ قرار دیا جبکہ پاکستان میں جمعیت علماء ہند کی بچی جمعیت علماء اسلام کا مؤقف سیکولر طبقات کے خلاف اسلام کے نام پر مذہبی محاذ تھا۔ جس طرح جمعیت علماء ہند نے بھارت میں کانگریس کا ساتھ دیا، اسی طرح جمعیت علماء اسلام نے مسلم لیگ کا ساتھ دیا تھا مگر موجودہ جمعیت علماء اسلام دراصل مسلم لیگ کی وہ حامی جماعت نہیں بلکہ جمعیت علماء ہند والوں نے اس پر قبضہ کرلیا ہے۔ مسلم لیگ کے نااہل نوازشریف اور دیوبند کے نااہل وارث مولانا فضل الرحمن ہیں۔ مسلم لیگ کی مودی سے یاری زروروں پر ہے۔شعور واآگہی سے ایک عظیم انقلاب آسکتاہے۔
3: بھارت کی پاکستان سے دشمنی یہ ہے کہ ملک تقسیم کیوں ہوا؟۔ تقسیم ہند کا مقصد یہ نہ تھا کہ اپنے اپنے ملکوں اور ریاستوں کی محبت میں ایکدوسرے سے دشمنی کی جائے بلکہ مسلمانوں کا تعلق ملت اسلامیہ سے تھا، جو عرصہ سے اقتدار میں رہے ۔ اقتدار سے متعلق شرعی حدود اس بات کا تقاضہ کررہے تھے کہ مسلمانوں کی خود مختار حکومت ہو۔ یہ بھارت کے حق میں بھی بہتر تھا ورنہ بنگال، بلوچستان، سندھ، پنجاب، پختونخواہ، کشمیر اور وسط ہند یوپی، بہار اور دیگر مسلم اکثریتی حصوں میں اسلام کیلئے ہنگامہ آرائی کا سلسلہ جاری رہتا۔ جب بارِ حکومت مسلمان کے کاندھے پر پڑگیا تو بھارت نے بھی سکھ کا سانس یقیناًلیا تھا۔ بھارت جموں و کشمیر پاکستان کے حوالہ کرکے تحفے میں دیدے تو دشمنی کی ساری بنیادیں دوستی میں بدل جائیں گی۔ بھارت کو پاکستان سے راہداری مل گئی تو ایران اور وسط ایشاء کے خزانوں سے خود بھی مالامال ہوگا اور اپنی ساری چیزیں وہاں ایکسپورٹ کرنے کا موقع بھی ملے گا۔ جس طرح مشرکین مکہ اور مدینہ کے مسلمان مہاجرایک قوم قریش تھے اور آخر کار شیروشکر ہوکر پوری دنیا پر غالب آگئے، اس طرح پاک وہند نے مل کر دنیا کو فتح کرنا ہے۔ کشمیر اتنا بڑا مسئلہ نہیں اس میں بنگلہ دیش کا بدلہ بھی ہم چکالیں گے مگرنیٹو نے پاکستان کو تباہ کیا تو بھارت کی تباہی یقینی ہے۔ اتنے مسلم ممالک تباہ ہوگئے لیکن مسلمان پھر بھی اپنی موجودگی ظاہرکر رہاہے مگر بھارت تباہ ہوا تو ہندو کا نام اور نشان تک مٹ جائیگا۔
ہندو مذہبی ’’ویدوں‘‘ کی پیش گوئی میں نبیﷺ اور مہدی کے حوالہ سے معاملہ خلط ملط نہ ہوتا تو ہندو اسلام قبول کرلیتے۔مشرکین مکہ ابراہیم ؑ توہندو نوحؑ کے دین پر ہیں،حرم پاک سے اسلام کی نشاۃ اوّل ہوئی، ارض پاک سے نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوگا۔ علامہ اقبال نے ہندوستان کا گیت گایا تھا جہاں سے نبیﷺ کو ٹھنڈی ہوا آئی۔ ریاست مدینہ کی طرح پاکستان سے اسلام کا ماڈل پیش ہوگااور دنیا خلافت سے امن و سلامتی کا گہوارہ بنے گی۔

ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق جو تجھے حاضر وموجود سے بیزار کرے

پاکستان میں بڑا کھیل شروع ہوچکا۔اپریل 2018ء تک ملک توڑنا بھارت وامریکہ کی سازش ہے۔ بلوچستان کاخلفشار، سندھ و پختونخواہ میں بد اعتمادی توپنجاب و مرکز میں بھی ریاست و حکومت کے درمیان عدم اعتماد کی فضاء ہے، میڈیا بدترین وکالت سے شعلوں کو مزیدبھڑکا تا ہے۔
کبھی نبیﷺ کے فیصلے و اکثریت کے منافی وحی نازل ہوتی تھی ، جس سے قیامت تک آنیوالے مسلمان اعتدال سے نہیں ہٹ سکتے۔صلح حدیبیہ میں قوم کا جذبہ اور مشورہ رسولﷺ کی رائے کیخلاف مگر اللہ نے فتح مبین کہا، جسے صحابہؓ نے ذلت قرار دیا۔ بدر ی قیدیوں پر فدیہ لینے میں اکثریت کا مشورہ اور نبیﷺ کا فیصلہ ایک طرف تھا اور 2 حضرت عمرؓ اور حضرت سعدؓ نے رائے مختلف دی۔ اللہ تعالیٰ نے 2 کی رائے کو درست ،نبیﷺ کافیصلہ نامناسب قرار دیا ۔ کیا کوئی اپنی اوقات نبیﷺ اور صحابہ کرامؓ سے بڑھ کر سمجھ سکتا ہے؟۔نااہلوں کی کوئی فرعونیت نہیں چلے گی!۔
حکومت کے دربار میں عمرؓ اورسعدؓ جیسا ایک بھی ہوتا تو نوازشریف کے کان میں سہی لیکن بول دیتا کہ ’’ پارلیمنٹ میں کہا کہ سعودیہ ودبئی کی مِلیں بیچ کر 2006ء میں لندن کے فلیٹ خریدے ، جسکے تمام دستاویزی ثبوت اللہ کے فضل وکرم سے موجود ہیں۔ عدالت کے ججوں نے آخر تک کہا کہ اگر لندن فلیٹ کے کاغذات دکھا دو تو ہم کیس کو خارج کردینگے لیکن میاں جی! آپ نے نہیں دکھائے۔ یہ بیٹے سے تنخواہ وصول کرنے کا معاملہ نہیں بلکہ مقدمہ یہی تھا کہ آپ اور بیٹوں کی جائیداد ایک ہے۔ اپنے مال سے کوئی بھی تنخواہ نہیں لیتا۔ مال آپ کا ہے اور نام بیٹوں کا‘‘۔
عدالت میں اس اندازسے راجہ رنجیت سنگھ پیش نہ ہوتا جیسے نوازشریف مسلح جتھے کیساتھ پیش ہوا۔رُول آف لاء کی رَٹ والاوزیرداخلہ احسن اقبال اس پر استعفیٰ دینے کی دھمکی دیتا تو جمہوریت مستحکم ہوتی۔ روزنامہ جنگ اور دیگر اخبارات کی شہہ سرخیاں تھیں کہ عدالت کو رینجرزکی تحویل میں دیا گیا، وزیروں اور جتھے پر پابندی ہے تو وزیر داخلہ کیسے بے خبر تھے؟۔ پولیس میں نوازشریف کے مسلح جتھے کو روکنے کی ہمت نہیں تھی تواسکے علاوہ کوئی چارہ بھی نہ تھا۔
وزیرداخلہ اعلان کرتا کہ ’’ عدالتی پیشی پرہماری نااہلی سے بد مزگی کی وہ ناخوشگوار فضاء پیدا ہوئی کہ ایس ایس پی پولیس اسلام آباد کو اپنی بے بسی کی بنیاد پر رینجرز طلب کرنی پڑی ۔ فوجی تربیت قانونی تقاضہ نہیں سمجھ سکتی۔ وہ صرف حفاظت کرنا جانتی ہے،اسلئے نوازشریف کا وکیل بھی روک دیا گیا تھا۔ اس میں کسی اور نہیں وزیرداخلہ کی غلطی ہے‘‘۔
احسن اقبال اخلاقی جرأت سے کہے کہ ’’ نوازشریف کی عدالت میں پیشی کو قانونی و اخلاقی تقاضوں کے مطابق بنانا میرا کام تھا۔ شرمندگی نہیں قابلِ فخر ہے کہ پولیس نے رینجرز سے مدد مانگ لی اور قوم کو دکھا دیا کہ اسٹیبلشمنٹ اور ن لیگ کے درمیان گٹھ جوڑ ہے اور نہ گھٹیا مراسم کہ سپریم کورٹ پر چڑھ دوڑا جائے اورہماری فورسز تماشائی بن کر بیٹھ جائیں۔ رینجرز کے کمانڈر کو شاباش دیتا ہوں ، جس نے اپنافرض اور اپنی ذمہ داری کو پورا کرکے دکھایا ہے‘‘۔
ایک بادشاہ نے تربیت یافتہ نوکر رکھا۔ پیشہ ور نوکر نے کہا کہ مجھے ڈیوٹی کی فہرست لکھ دی جائے۔بادشاہ نے ڈیوٹیوں کی لسٹ تھمادی۔ بادشاہ نوکر کو شکار پر لے گیا اور بادشاہ گھوڑے سے گر پڑا تو پاؤں رکاب میں پھنس گیا۔ گھوڑا بادشاہ کو روند کر گھسیٹ رہا تھا ، بادشاہ مدد کیلئے چیخ رہا تھا لیکن نوکر اپنی ڈیوٹی کی فہرست دیکھ رہا تھا کہ اس کی ڈیوٹی میں یہ شامل ہے یا نہیں؟۔یہی حال حکومت، فوج اور عدالت کا ہے کہ پاکستان تباہ ہورہاہے اور یہ ڈیوٹی کی طرف دیکھتے ہیں کہ ہماری ڈیوٹی کیا ہے؟۔ مریم نواز نے یہ کہا کہ ’’میں بھی نوازشریف ہوں، تم بھی نوازشریف ہو ۔ I LOVE YOU+ I LOVE YOU 2 ‘‘مگر قوم اور ملک کو اس عاشقانہ انداز میں نہیں چلایا جاسکتا۔
barre-sagheer-pak-o-hind-ki-taqseem-ke-wazeh-nuqsanat-aur-asal-fawaid-2
1906ء کو مسلم لیگ نواب وقارالملک اور سر آغا خان نے بنائی تھی۔نوازشریف تقریر کرتے کہ’’ 2006ء میں لندن فلیٹ خریدنے کے جھوٹ پر مجھے پارٹی صدارت کیلئے نااہل قرار دیاگیا۔ اعتراف کرنے میں حرج نہیں کہ مجھ سمیت سب کو مسلم لیگ کا صد سالہ جشن منانے کا خیال اسلئے نہ آیا کہ ہم موسم لیگی شروع سے اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہیں۔ہم نے تعصبات کی بنیاد پر تقسیم کا ایجنڈہ پورا کیااورہم اب بھی عالمی قوتوں کیساتھ تقسیم کے ایجنڈے پر کھڑے ہیں۔تعصب مفاد کانام ہے نظرئیے کا نہیں‘‘۔
یہ وقت ہے کہ بلوچی گاندھی کے نمائندے محمود اچکزئی اور حاصل بزنجو کہیں کہ ’’بابا اسٹیبلشمنٹ مخالف کا کردار ہم نے اسلئے ادا کیا کہ جھوٹ ، لاقانونیت ، کرپشن اور ڈکٹیٹر شپ کا خاتمہ ہو۔ ایسی گورنری اور بلوچستان کے اقتدار میں شمولیت کو جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں جہاں جمہوریت کے لبادے میں کھلے عام یہ سب کچھ ہورہاہے‘‘۔ مولانا فضل الرحمن و اسفندیارولی کہیں کہ ’’ سرحدی گاندھی غفار خان، بااصول سیاستدان ولی خان اورجمعیت علماء ہند و مفتی محمود کی ارواح کوعدالتی کٹہرے میں بدمعاشی اور عوام کے سامنے ڈھٹائی سے جھوٹ کے باوجودنوازشریف کا ساتھ دینے پر تکلیف پہنچے گی۔ تاریخ کے اس موڑ پر ہم نے ثابت کرنا ہے کہ ہم کسی کے مہرے اور مفادپرست پہلے تھے ،نہ آج ہیں۔ جو اسٹیبلشمنٹ کے ٹاؤٹ بنکے فوج کو بدنام کرتے تھے وہ آج جمہوریت کی لاش سے کفن کھینچ کر قوم کے سامنے خود بھی برہنہ پا، برہنہ سر اور برہنہ دھڑ کھڑے ہیں الحفیظ والامان‘‘جس سے پاکستان، جمہوری نظام اورخطے کو استحکام ملتااور تاریخ کے داغ دھبے بھی دورہوتے۔ ملازم اور ایجنٹ میں فرق ہوتاہے۔ مسلم لیگی پہلے انگریز دور میں بھی اسٹیبلشمنٹ کے ٹاؤٹ تھے اور پاکستان میں بھی ہمیشہ رہے۔ فوج انگریز ی دور میں ملازم رہی اور آج بھی ملازم ہے۔ علماء کا فتویٰ تھا کہ انگریز کی ملازمت جائز نہیں مگر مولانا فضل الرحمن کاوالد ملازم تھا اور مولانا اشرف علی تھانوی پر بھائی کی وجہ سے الزام لگاتھا۔
صحافیوں پر پردے کے پیچھے پہلے بھی الزام لگتا تھا مگر اب حالت بہت خراب ہوئی ہے۔’’ عرب لڑکی نے فون کیلئے رعایت مانگی، دکاندار نے کہا: برقعہ اٹھایا توملے گی۔ اس نے برقعہ اٹھایا تو برہنہ تھی۔ یہ رعایت کی قیمت تھی‘‘۔ پارلیمنٹ میں ترمیمی بل پر شیخ رشید و جماعت اسلامی نے ختم نبوت کے مسئلے پر خوب آواز اٹھائی۔ میڈیا پہلے سے آواز اُٹھا چکا تھا ، شہباز شریف نے کہا کہ وزیر برطرف کیا جائیگا مگرکامران خان اپنے شومیں یہ سب کچھ دیکھ کر جان بوجھ کرکہہ رہاتھاکہ ’’کمپیوٹر کی غلطی سے جو لفظ مٹ گیا ، وہ صحیح کردیا گیا مگر سب نے اس پر خوب سیاست کی‘‘۔ اس ننگِ صحافت پرکامران خان نے عرب دوشیزہ کی طرح قیمت وصول کی ہے یا بڑھاپے کی وجہ سے ذہن کام نہیں کررہاہے ؟۔یہ بہر حال المیہ ہے۔سید عتیق الرحمن گیلانی

بریلوی مکتب نے مولانا طارق جمیل پر تنقید سے اپنائیت کا مظاہرہ کیا مگر یہ تنقید غلط ہے

Imam-of-Bohri-community-Mufaddal-Saif-Uddin-sahab-first-time-ever-with-Maulana-Tariq-Jameel-sahab
تبلیغی جماعت کے مولانا طارق جمیل ،مفتی زبیر وغیرہ وفد نے داؤدی بوہرہ جماعت کے سربراہ سے ملاقات اور تحائف کا تبادلہ کیا، جسکی ویڈیو سوشل میڈیا پر عام ہوئی۔ بریلوی مکتب نے تنقید سے اپنائیت کا مظاہرہ کیا،مگر یہ تنقید غلط ہے۔ قائداعظم آغا خانی تھے، جنازہ علامہ شبیر احمد عثمانی نے پڑھایا۔

وکالت نہ ہوتی تو پانامہ کی بات اقامہ تک نہ پہنچتی، اجمل ملک

Allama-Shah-Feroz-uddin-Rehmani-Muhajir-Ittehad-Tehreek-Dr-Saleem-Haider-lieutenant-commander-imran-awan-rahila-tiwana

نوشتۂ دیوار کے ایڈیٹر اجمل ملک نے کہا: اگرجھوٹ کے سینگ ہوتے تو وزیر داخلہ احسن اقبال پھنسا بارہ سینگا ہوتا۔ ڈکٹیٹر کی نشانی ایک شخص نوازشریف کیلئے آئین میں ترمیم ہوئی۔ دنیا کو پاکستان کا خراب چہرہ دکھادیا جو جمہوری مُنی کو بدنام کرگئی۔ اسلامی لگاؤ، پاک دامنی کا زعم، جمہورپسندی کا دعویٰ سب ایوان، پارٹی منشورکے اقدامات سے برہنہ پا، سر اور دھڑ ہوگئے ۔دیکھ لو جمہوریت۔ چین میں 300وزیروں کو کرپشن پر سزائے موت اسلئے ملی ہے کہ وہاں وکالت کا نظام نہیں۔ دہشت گردوں کیخلاف فوجی عدالتوں پر تمام پارٹیاں اسلئے متحد ہوئیں کہ سول عدالتی نظام سے سزائیں ملنا ان کو ممکن نہیں تھیں۔

Allama-Shah-Feroz-uddin-Rehmani-Muhajir-Ittehad-Tehreek-Dr-Saleem-Haider-lieutenant-commander-imran-awan-rahila-tiwana-ajmal-malik
شفاف عوامی جمہوری نظام کیلئے ضروری ہے کہ کرپشن کے مقدمات میں وکالت کا نظام ختم کردیا جائے۔ نوازشریف کا کیس کو وکیل نہ لڑتے تو پانامہ سے ہٹ کر بات اقامہ تک کبھی نہ پہنچتی۔ پارلیمنٹ میں نوازشریف نے کہا تھا کہ اللہ کے فضل سے سعودیہ مل وسیع تر اراضی اور دبئی مل سے ملنے والی کثیر رقم سے لندن کے فلیٹ2006ء میں خریدے گئے۔ وکلاء کو بیچ سے نکال کر سچ بتایا جائے کہ قطری خط درست تھا یا پارلیمنٹ کی تقریر؟۔ اپنا وقت ضائع کئے بغیر قوم کو سچ بتایا جائے تو عدالتوں کا چکر نہیں رہ سکتا۔ جب نوازشریف کے باپ و پوتوں میں بھی جائداد کی تقسیم نہیں ہوئی تو اپنے بچوں سے نوازشریف کیسے الگ ہوگئے؟۔ کیا بلوچستان کا کرپٹ مشتاق رئیسائی ان پیسوں کو بچوں کے نام کردے تو نیب کا کیس ختم ہوگا اور جب نوازشریف اپنے غیر ملکی بچوں کا باپ اور ملازم ہے تو پاکستانیوں پر حکومت کرنے کا کیا حق بنتاہے؟۔ منی لانڈرنگ ان بچوں کے نام پر کی گئی جن کا ایڈریس بھی نامعلوم ہے؟۔

داعش کے ابوبکر البغدای کا اصل نام سائمن ایلیٹ ہے. حامد میر

Daish-made-by-America-Former-Afghanistan-President-Hamid-Karzai-hamid-mir-capital-talk

9/11کے بعد بڑی بڑی طاقتوں نے القاعدہ کے نام پر بڑے بڑے فائدے اٹھائے۔ لیکن آپ سن رہے ہیں کہ پچھلے دو تین سال سے القاعدہ کی جگہ داعش نے لے لی ہے۔ داعش کیا چیز ہے؟ انٹرنیشنل میڈیا نے حال ہی میں ہمیں بتایا ہے کہ لیبیا میں داعش کا ایک لیڈر پکڑا گیا ہے جو دراصل اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد کیلئے کام کرتا تھا۔ اور اس کا جو یہودی نام ہے وہ ہے افراہیم بینجمن، لیکن یہ اسرائیلی یہودی ہے اور یہ داعش میں گھسا ہوا تھا اور یہ وہاں پر ایک مسجدکا امام بھی تھا۔ اور ایک اور بھی میرے پاس خبر ہے دی اسٹار کی یہ کہہ رہا ہے کہ ISISکے لیڈر جو ابوبکر البغدادی ہے یہ بھی اسرائیلی ایجنٹ ہے اور اس کا جو اصل نام ہے اس کے حوالے سے بھی ہمیں انٹرنیشنل میڈیا میں بہت سی خبریں ملتی ہیں۔ اور بتایا جارہا ہے کہ ابوبکر البغدای کا اصل نام سائمن ایلئیٹ ہے۔ اور ایک انٹرویو ہے افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی صاحب نے ایک انٹرویو میں جو کہ انہوں نے ٹائم میگزین کو دیا ہے میں نے کہا ISISاور امریکہ میں کوئی فرق نہیں ہے داعش دراصل امریکہ کیلئے کام کررہی ہے۔(11ستمبر 2017)

حامد میر کے بیان پر تبصرہ: قدوس بلوچ

جیو کے صحافی حامد میر اچھے ،پیارے، باکردار، باخبر اور باصلاحیت صحافی ہیں مگر دودھ میں مینگنی ڈالنے کا کمال بھی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ آج جس القاعدہ کو امریکی مفاد کہا جارہاہے ، اسامہ اور فلسطین تک کی صحافت بھی حامد میر کرتے رہے ہیں۔ یہ نہ ہو کہ کل فلسطین کے مجاہدین کے بارے میں کوئی خبر بریک کریں۔ ابوبکر البغدادی کے بارے میں بڑی مدت سے یہ خبر تھی۔
جب مولانا فضل الرحمن کو حامد میر نے GHQ میں ملاقاتیں کروائیں۔ ڈیڑھ سو سالہ جشن دیوبند کانفرنس میں اسامہ اور ملا عمر کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا۔ اسامہ پیغام کی مولانا فضل الرحمن نے نفی کی اور مجاہدین کو اسٹیج پر لانے کے باوجود کوئی کردار نہیں دیا، مولانا حسین احمد مدنی کے فرزند مولانااسد مدنی کی خاطر کشمیر کے جہاد کو نظر انداز کیا تو حامد میر نے لکھا کہ ’’ اسامہ نے کہا کہ میں وقت پر مولانا فضل الرحمن کو دیکھ لوں گا‘‘۔ حامد میر بتائیں کہ وہ کیا حقائق تھے، اب تو عرصہ سے مولانا فضل الرحمن کشمیر کمیٹی پر براجمان ہوتے ہوتے پک چکے ہیں؟۔
بلوچ، سندھی، پختون ہندوستان کی غلامی کرتے یا پنجاب کریں؟ ۔انگریز گیا مگرٹاؤٹ اب نوازشریف نے یہی تہیہ کر رکھاہے کہ پاکستان میں سب سے زیادتی ہو، توکوئی بھی مسئلہ نہیں لیکن اگر مجھے کبھی پارلیمنٹ اور پریس کانفرنس میں وکیلوں کی لکھی ہوئی اپنی تقریروں میں صاف جھوٹا ہونے کے باجود سچا نہیں قرار دیا تویہ ملک ٹوٹ جائیگا۔خلافت کے قیام کیلئے سب سے پہلے ہم نے آواز اٹھائی، عمران خان کرکٹ کھیلتا تھا توہم عملی میدان میں تھے، سارے مکتبہ فکر کے اکابر نے ہماری تائید کی مگر سازش سے خلافت کو بدنام کیا گیا۔ شف شف نہ کرو بلکہ بول دوشفتالو ۔

حور وں کا مذہبی جنون اور خواتین کا احساس کمتری

angels-heaven-women-hoor-molana-masood-azhar-javed-ahmed-ghamdi-molana-khalid-mehmood
دنیا میں خواتین کی اکثریت شوہرکی محبت میں بے حال رہتی ہے مگر سوکن کاخوف رہتا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ سے نبی کریمﷺ کی ازواج مطہرات امہات المؤمنینؓ تک سوکن سے خواتین متأثر رہی ہیں۔
یہ دنیا دارالامتحان اور آخرت کی کھیتی ہے۔ اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے، مرکے بھی چھین نہ پایا تو کدھر جائیں گے؟۔ حوروں سے خواتین کو کتنی تکلیف ہے؟ یہ تو وہ جانیں اور انکا کام جانے۔ کتنے صوفی حوروں کی تمنا میں راہب بن گئے، تبلیغی جماعت، دعوت اسلامی اور مذہبی لوگ قربانی پر قربانی دے رہے ہیں،جنت کی دیگر ساری نعمتیں بھی شاندار ہیں لیکن موٹی آنکھوں والی حوروں نے انہیں جنون کی حد تک پہنچادیا۔ نوجوان خوبرو جوان بیگمات کو پیشاب کی تھیلیاں قرار دیتے دیتے سال سال، ڈیڑھ ڈیڑھ سال کیلئے جماعتوں میں حوروں کی ادا پانے کی قیمت پر نکل جاتے ہیں۔ کوئی ذوق میں جسم پر بارود باندھ کر سمجھ رہاہے کہ نمرود کی آگ عبور کرکے جب دوسری پار پہنچیں گے تو حوروں کا بے تاب جھرمٹ استقبال کررہا ہوگا۔
اللہ نے فرمایاکہ ’’جو اس دنیامیں اندھا تھا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی ہوگا‘‘۔ حوروں کی اندھی محبت میں حقوق العباد کی دھجیاں اُڑانے والے نہیں سوچتے کہ دنیا میں اپنی بیگمات کے حق کا خیال نہیں رکھا تو ایسا نہ ہو کہ آخرت کی فضاء میں بھاگ رہے ہوں تونامراد مردوں کو اپنی بیگمات بھی چھوڑ دیں ۔ فرعون کی دنیاوی بیگم کا نکاح آخرت میں رسول اللہﷺ سے ہوگا۔ یہ نہ ہوکہ جو حوروں کے متلاشی ہوں ان کو حوروں کا ملنا تو کجا اپنی بیگمات سے بھی ہاتھ دھونا پڑ جائیں۔ جن خواتین میں فطری غیرت ہو اور نیک وبد کی درمیانی زندگی گزاری ہوں تو ان کا مقام بھی وہاں پر اعراف ہوسکتاہے۔
حضرت آدم علیہ السلام جنت میں اپنی ہم جنس حضرت حواء کے بغیر حوروں کی جھرمٹ میں بھی پریشان تھے۔ جنس کے معانی ہم نسل کے بھی ہیں، منطق میں انسان بھی حیوان کی جنس ہے، اردو زباں میں خواتین ومرد کیلئے الگ الگ جنس کا تصورہے مگر حقیقت کی زباں میں انسان ایک جنس ہے جس میں مردو خاتون شامل ہیں۔ جاوید غامدی نے اپنی صلاحیت کو استعمال کرکے قرار دیا کہ حور کا الگ سے وجود نہیں بلکہ دنیا میں موجود خواتین کو قرآن میں حور کہا گیا۔ حالانکہ یہ غلط ہے کیونکہ حوروں کی صفات بیان کی گئیں ، یہ بھی ہے کہ کسی آنکھ نے ان کو دیکھا تک نہیں ہوگا تو جاوید غامدی کی مجلس میں ٹی وی اسکرین پر نمودار ہونے والی خواتین کیسے وہ حوریں ہوسکتی ہیں؟۔بڑی آنکھوں والی خیموں کی زینت ہوں گی۔
اسلام دین فطرت ہے، اگر خواتین کو یقین ہوجائے تو زنجیروں سے باندھ کر کرینوں کی مدد سے بھی ان کو جنت میں ڈالنا مشکل ہوگا۔ وہ سب کچھ برداشت کرسکتی ہیں مگر اپنی ایسی سوکنیں برداشت کرنا انکے بس کا کام نہیں ۔ مفتی نظام الدین شامزئی کے مرید مولانا خالد محمود مجلس علمی لائبریری جمشید روڈ کے منتظم تھے۔ نماز کی امامت کیلئے کوشش کے باوجود آگے نہیں ہوتے تھے۔ ایک دن مجھے کہا کہ میں اللہ کی ذات اور اسلام کا منکر بنا ہوں، میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ ایک سائنس کی کتاب پڑھی ہے جس میں جہاد کی جگہ اب روبوٹ نے لی اور قرآن میں ہے کہ سورج کا سفر جاری ہے جبکہ سائنس نے ثابت کیا کہ زمین ہی اپنے گرد اور سورج کے گرد گھومتی ہے اور معاملات سارے الٹے ہوگئے۔ جس نے سائنس اور اسلام کے حوالہ سے’’ پاکستان اور جدید دور کے تقاضے ‘‘ لکھے ، وہ ایم اے تھا جو سائنس اور اسلام دونوں سے بالکل جاہل تھا۔
بہرحال میں نے مولانا خالد محمود سے کہہ دیا کہ اگر آخرت نہیں، آپ محض ایک مادہ ہو پھر آپکے قتل سے بھی کوئی فرق نہ پڑیگا؟، اس نے کہا کہ میری تو یہی دنیا ہے، اگر یہ بھی خراب ہوگئی تو میرے ساتھ ظلم ہوگا۔خواتین حوروں کی باتیں سنتی ہیں تو اکثریت سمجھ رہی ہے کہ ان کی یہی دنیا ہے، جنت میں کیا بنے گا؟۔ مولانا خالد محمود کو میں نے فوری طور سے بتادیا کہ آپ نے جس کتاب کا مطالعہ کیا اس کا علم سے تعلق نہیں ۔ قرآن میں سورج کے جس سفر کا ذکر ہے ، سائنس اس کی قائل ہے،اسلئے کہ کائنات تسلسل کیساتھ سفر میں ہے تو سورج بھی اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ پھروہ مطمئن ہوگئے اور کہا کہ میں نماز پڑھ رہا ہوں اور آپ قیامت میں گواہی دینا کہ میں اسلام پر ایمان رکھتا تھا۔ میں نے کہا: آپ نماز نہ بھی پڑھیں تو بھی آپکے اسلام کی گواہی دوں گا۔ نبیﷺ نے اس کا جنازہ پڑھانے سے انکار فرمایا جسکے ذمہ قرضہ تھا۔ اور جس پر حقوق العباد کا معاملہ نہ تھا لیکن نماز، روزہ، حج اور دیگر احکام کا کوئی عمل کسی نے نہ دیکھا تھا اور ایک آدمی نے گواہی دی کہ وہ مسلمان تھا اور ایک رات اس نے جہاد کے دوران بھی چوکیداری کی ہے تو نبیﷺ نے نہ صرف اسکا جنازہ پڑھایا بلکہ جنت کی خوشخبری بھی سنادی کیونکہ حقوق العباد کی شکایت نہ تھی ۔
میری بات سن کر مولانا خالد محمود زار وقطار رونے لگے اور کہا کہ رسول اللہﷺ کتنی عظیم شخصیت کے مالک تھے، ایک موقع پر اونٹ کی رسی اٹک گئی اور اونٹ مشکل سے نظر آیا تو کچھ نے مذاق اڑایا کہ ’’ نبیﷺ کوکس طرح سات آسمانوں سے عرش کی خبر ملتی ہے اور یہاں قریب میں اونٹ کا پتہ نہیں چلتا‘‘۔ اس وقت آپﷺ چاہتے تو ان لوگوں سے سخت انتقام لیتے کیونکہ آپ ﷺ کے صحابہؓ ہر بات مان لیتے تھے مگر نبیﷺ نے درگزر سے کام لیا۔ کہاں نبیﷺ کی عظیم شخصیت ،کہاں انبیاء کے وارث کہلانے والوں کا اخلاق اور بدترین رویہ؟۔ یہ علماء ومفتیان آخرت کا یقین نہیں رکھتے، بس اپنی دنیا بنانے کیلئے مذہب کا لبادہ اوڑھ رکھاہے، کہیں اور مفاد مل جائے تو اسکے پیچھے جائیں گے۔ مولانا خالد محمود نے جن اشکبار آنکھوں سے رسول اللہﷺ سے اپنی محبت کا اظہار کیا تھا ، اس نے علماء حق کے ارواح کو بے چین کردیا اور ان کا بلاوا آگیاتھا اور شہادت حق کی منزل پر فائز ہوگئے تھے۔
مسلمان خواتین مطمئن رہیں کہ حوروں سے ان کو قطعی طور سے کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ کیونکہ جنسی تعلق آدم زاد کا صرف آدم زاد سے قائم ہوسکتاہے۔ فقہ حنفی کے اصول کی کتاب ’’نورالانوار‘‘ میں لکھاہے کہ انسان کا ہم جنس کے علاوہ کسی سے نکاح جائز نہیں ۔ جنات اور سمندری انسانوں سے نکاح کرنا شریعت میں جائز نہیں۔ جنات سمندری مخلوق کے مقابلہ میں الگ ہیں، اصول فقہ میں سمندری انسان بحری مخلوق ہے لیکن عام انسان کی طرح ہے ۔
جب ہمیں مولانا بدیع الزمانؒ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں اصول فقہ پڑھارہے تھے تو بتایا کہ ایک شخص سمندر کے کنارے کھڑا دیکھ رہا تھا کہ اچانک سمندری آدمی نمودار ہوا، جس کو اس نے پکڑلیا۔ ابھی پکڑ رکھا تھا کہ سمندر سے ایک عورت بھی باہر نمودار ہوگئی۔ اس کو بھی پکڑ نا چاہا کہ مرد بھی ہاتھ سے چھوٹ گیا ، اور وہ عورت بھی پکڑنے سے پہلے سمندر میں کود گئی اور غائب ہوگئی۔ اس وقت ہمیں یقین آیا اور تمنا بھی پیدا ہوئی کہ یہ منظر نظر آجائے۔
تحقیقاتی اداروں نے سمندر کی کھوج لگائی مگر سمندری انسان کا وجود نہیں جو فقہاء کی خواہشات نے تراش رکھاتھا آج مدارس میں پڑھایا جاتاہے کہ سمندری انسان سے شادی جائز نہیں اسلئے اس کی جنس دوسری ہے۔
جانور، پرندے اور درخت کی فیملی اور جنس میں قدر مشترک ہو تو تعلق قائم ہوسکتا۔حوروں کا کام رونق ، جلوہ ،انسیت اور کھیل تماشہ ہے حوریں آدم زاد نہیں،ان سے جنسی تعلق قائم کرنا شریعت کیخلاف نہ ہو تو انسانی فطرت کیخلاف ضرور ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ مرد جب حوروں سے جنسی تسکین حاصل کرینگے تو کیا خواتین غلمان سے چشم پوشی کرسکیں گی؟۔ اسلئے غیرت کا تقاضہ ہے جو اللہ نے خواتین کی فطرت میں بھی ڈالا ہے کہ حوروں اور غلمان سے جنسی تسکین کا گمان نہ رکھاجائے بعض بے غیرت و بدفطرت قسم کے ملاؤں کو غلمان سے غیرفطری حرکتوں کی خواہش بھی رہتی ہے۔ جسکاپشتو کے نامور شاعر غنی خان نے ذکر کیا۔ جب جنت کے درست تصورات کا علم ہوجائیگا تو بعید نہیں کہ دنیا میں حالات سدھارنے کیلئے مذہبی طبقات ٹھیک سمت سفر کرنا شروع کریں اور بہت بڑا اسلامی انقلاب برپا ہوجائے۔
مولانا امیر بجلی گھر جمعیت علماء اسلام کے صوبائی نائب امیر تھے مگر مایوس ہوگئے تھے۔ مجھ سے کہاکہ ’’ آپ جوان ہیں ، جوانی میں خون کا جوش کام کرنے کا ہوتاہے، آپ اچھی سمت محنت کرتے ہیں مگر دوسروں کا اتحاد تو بہت دور کی بات ہے، مولانا سمیع الحق و مولانا فضل الرحمن کو بھی اکٹھا نہ کرسکوگے‘‘۔ انہوں نے خطاب میں کہا کہ ’’ افغانستان میں صحابہؓ کے مزاروں کو روس نے تباہ کیا تواللہ نے روس کو تباہ کردیا، عراق میں اہلبیت کے مزارات امریکہ تباہ کررہاہے، اللہ امریکہ کو تباہ کریگا، عراق کی پیٹھ پرعبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ لڑ رہے ہیں، امریکہ نہیں جیت سکتا‘‘۔ میں نے لکھ دیا کہ بجلی گھر مولانا دیوبندی ہیں مگر عقیدہ بریلویوں کاہے۔ بریلویوں کا عقیدہ درست ہورہاہے اور بڑے مولانا کا عقیدہ خراب ہے اور جہاد کا حکم اللہ نے زندوں کو دیا ہے ، مولانا اس کو مردوں کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں، جب تک ہم درست اسلام کی طرف نہ آئیں ہمارے ملکوں کو غیروں کی دسترس سے بچا نہیں سکیں گے۔درسِ نظامی میں فقہ حنفی والوں کے اصول اچھے ہیں مگر کم عقلوں کا قبضہ ہے۔ کعبہ میں 360بتوں کے مجسمے رکھ دئیے ہیں۔ جس دن اصول فقہ کے اصولوں اور قرآن وسنت کے مطابق ایک فضا قائم کی گئی تو مدارس کے علماء ومفتیان ملت کی سیاسی باگ ڈور بھی سنبھالیں گے مگر ضروری ہے کہ نصاب سے اقسام و انواع کی غلطیاں نکال لیں۔ علماء کے بدلنے کی دیر ہے ، پھر انقلاب کا ترانہ گایا جائیگا۔ اگر میں شیعہ، بریلوی ، اہلحدیث ہوتا تو پذیرائی ملتی مگر علماء دیوبند کا میرے ساتھ سلوک وہ رہاجو یزید کاحضرت حسینؓ کیساتھ تھا۔ ہندو شاعرہ دیوی روپ کمار نے کہا کہ
بے دین ہوں ، بے پیر ہوں
ہندو ہوں ، قاتلِ شبیرؑ نہیں
حسینؑ اگر بھارت میں اُتارا جاتا
یوں چاند محمدؐ کا ، نہ دھوکے میں مارا جاتا
نہ بازو قلم ہوتے ، نہ پانی بند ہوتا
گنگا کے کنارے غازیؑ کا علم ہوتا
ہم پوچا کرتے اُس کی صبح و شام
ہندو بھاشا میں وہ بھگوان پکارا جاتا

ریپ کیس میں ملوث مذہبی رہنما کے حق میں پرتشدد مظاہرے اور انسانی ہلاکتیں بے غیرتی کی انتہا ہے،فیروز چھیپا

halalah-maulana-ubaidullah-sindhi-darya-e-sindh-hijaz-harmain-sharifain-gru-meet-raam-rahim-rape-in-india

نوشتۂ دیوار کے منتظم اعلیٰ فیروز چھیپا نے کہا کہ بھارتی پنجاب میں ریپ کیس میں ملوث مذہبی رہنما کے حق میں پرتشدد مظاہرے اور انسانی ہلاکتیں بے غیرتی کی انتہا ہے۔ شکر ہے ہمارے آباء اجداد نے بھارت سے ہجرت کی ۔ بدقسمتی سے جس حلالہ کو نبی کریم ﷺ نے لعنت قرار دیا،اس کو کارثواب قرار دیا گیا لیکن اسکے باجود کسی مفتی و مولانا کو اگر حلالہ کرنے پر سزا ہو تو لوگ احتجاج کیا خوشیوں کے شادیانے بجائیں گے۔ کراچی سے کشمیر اور کابل سے لاہور تک کا علاقہ مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا مرکز قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر ہندو پوری دنیا کو ہمارے مقابلے پر لے آیا توبھی ہم یہاں دستبردار نہ ہونگے۔ مشرقی پاکستان کا سندھیؒ نے ذکر نہ کیا بلکہ موجودہ پاکستان کا ذکر حدیث کی بنیاد پر کیا ہے۔ لکھا ہے کہ دریائے سندھ جس کی شاخیں راوی، ستلج، جہلم ، چناب اور دریائے کابل ہیں۔اس کو حدیث سیحون کہا گیاہے، زبانوں میں کچھ لفظی اختلاف ہوتاہے۔اسلام کی نشاۃ اول حجاز مقدس سے ہوئی اور نشاۃ ثانیہ ارض مقدس پاکستان سے ہوگی۔ ابوجہل وابولہب اور مشرکین مکہ کے سرداروں اور مدینہ کے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی وغیرہ کی وجہ سے مکہ ومدینہ کے حرمین شریفین پر کوئی اثر نہ پڑا ۔ مشرکین اور منافقین کے مقابلہ میں اللہ نے کم تعداد کے کمزور مؤمن لوگوں کو جیت عطا فرمائی۔ آج بھی اللہ نہیں بدلا ہے مگر ہمیں سچا مؤمن ، درست مسلمان اور سچا پاکستانی بننے کی ضرورت ہے۔
ایک طرف موجودہ صورتحال میں کراچی سے کشمیر تک اور گوادر سے لاہور تک پاکستان سے یکجہتی ضروری ہے۔ مریم نواز، بلاول بھٹو ، مولانافضل الرحمن، سراج الحق ، ڈاکٹر فاروق ستار، مصطفی کمال،ایاز پلیجو، ڈاکٹر مگسی، حاصل بزنجو،جمال دینی، محمود خان اچکزئی،ا سفندر یار خان،جاید ہاشمی،قبائلی رہنما،چوہدری شجاعت اور عمران خان سیاسی پلیٹ فارم سے قیادت کریں تو دوسری طرف پاکستان کا ریاستی ، عدالتی، مذہبی ، معاشرتی ، تعلیمی اور اخلاقی نظام درست کرنے بھرپور اقدامات اٹھائے جائیں۔ آزمائش میں قوم کو مرنے سے پہلے زندگی کا ثبوت دینے کی بہت ضرورت ہے ۔اُٹھو ایک ہوجاؤ!

موٹر وے کو ڈاکٹر ادیب رضوی کے نام پر انکی زندگی میں منسوب کیا جائے، عتیق گیلانی

dr-adeeb-ul-hassan-rizvi-dr-ruth-fao-motorway-pakistan-gorkan-namaz-e-janaza-sahafat-najashi

جرمن نژاد پاکستانی ڈاکٹر رُوتھ فاؤ حقیقی خالق سے جاملیں، آنجہانی کو قومی قیادت آرمی اورسول نے قومی اعزاز کیساتھ دفن کیا،21 توپوں کی سلامی سے قومی قیادت نے پوری قوم اور پاکستان کا سر فخر سے بلند کردیا کہ کس طرح انسانیت کی قدردان ایک غیر ملکی نژاد پاکستانی کو قومی اعزاز سے نوازاگیا۔ جب اکثریت کو انا للہ وانا الیہ راجعون کا معنی معلوم نہ ہو ’’بیشک ہم اللہ کیلئے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں‘‘۔جہالت سے تعصب کی فضاء بنتی ہے۔ نبیﷺ نے مسلمانوں کے محسن حبشہ کے بادشاہ نجاشی کا غائبانہ جنازہ پڑھایا۔ اللہ نے قرآن میں تمام مذہبی عباتگاہوں کے تحفظ کی بات فرمائی ہے بلکہ پہلے یہودو نصاری اور مجوسیوں کی عبادتگاہوں کی فہرست پھر آخر میں مساجد کا ذکر کیا۔ سب کیلئے اس اعزاز کا بھی ذکر کیا کہ ان میں اللہ کا نام کثرت سے لیا جاتاہے۔ دنیا میں کرکٹ، فٹ بال اوردوسری ٹیمیں رہیں گی تو مقابلہ اور مسابقت ہوسکے گا ، مذاہب باقی ہونگے تو اللہ کی اطاعت کا حق ادا کرنے اور انسانیت کیلئے مسابقت ہوسکے گی۔
نبیﷺ کی سنت پر عمل ہوتا توڈاکٹر روتھ کا پاکستان اور دنیا بھرمیں مسلمان غائبانہ جنازہ پڑھتے۔ قرآن و سنت میں مذہبی تعصب یہود ونصاریٰ شدت پسند مذہبی گروہوں کا شیوہ تھا۔ جنکے نقشِ قدم پر اب مسلمان چل پڑے ہیں۔
ان الذین امنوا والذین ہادوا والنصریٰ والصٰبئین من امن باللہ والیوم الآخرۃ و عمل صالحا فلہم اجرھم عند ربھم ولاخوف علیہم ولاہم یحزنونO (البقرہ:62)بیشک جو مسلمان ہیں، یہودی، نصاریٰ اور صابی ہیں جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور اچھے عمل کرتے ہیں ان کو انکا اجر ملے گا ،ان پر خوف نہ ہوگا اور نہ وہ غمگین ہونگے‘‘۔اللہ نے کہا ہے کہ ’’جس نے ذرہ برابر خیر کیا تو وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر شر کیا تو اس کو دیکھ لے گا‘‘۔ ڈی جی رینجرز نے کہا کہ ہم اپنی شناخت مسلمان اور پاکستانی رکھیں تو بدامنی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس بیان کو انہوں نے غلط رنگ دیاجو اسی لئے پاکستان ہجرت کرکے آئے کہ وہ مسلمان ہیں۔ مسلمان فرقوں اور مذاہب سے نفرت نہیں کرتا۔ الدین النصیحۃ’’دین خیر خواہی کا نام ہے‘‘۔ پاکستانی شناخت مذہبی ولسانی منافرت کو بالکل ختم کردیتا ہے۔

dr-adeeb-ul-hassan-rizvi-dr-ruth-fao-motorway-pakistan-gorkan-namaz-e-janaza-sahafat-najashi-2

ڈان نیوز کے پروگرام ’’ ذرا… ہٹ کے‘‘ میں صحافت کا حق ادا ہوتاہے۔ ڈی جی رینجرز لیفٹنٹ جنرل محمد سعید کے بیان پر تنقید اور ایک متوازن تبصرہ کیا گیا۔ وسعت اللہ خان بڑے سیکولر صحافی ہیں مگر عقیدت کے لائق لگتے ہیں، اسلامی تعلیم یہ ہے کہ جو بھی مخلص لگتا ہواس کی قدر ومنزلت ہونی چاہیے۔ صحافت بڑا مقدس پیشہ ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کوئٹہ بار سے خطاب میں کہا تھا کہ ’’ ایک وہ طبقہ ہے جو اس قابل بھی نہیں جس کا نام زباں پر لاؤں‘‘۔ جس پر ’’ذرا…ہٹ کے‘‘ میں جاندار طریقہ پر تنقید ہوئی۔کافی سارے ہندؤں کے نام لئے جنہوں نے مختلف شعبوں میں عظیم خدمات دی تھیں۔ خاص طورپر رانا بھگوان داس کی عدلیہ کیلئے بڑی خدمات تھیں۔ کوئی شک نہیں کہ رانا بھگوان داس جیسا چیف جسٹس ثاقب نثار بھی نہیں۔ نوازشریف کیخلاف بینچ میں بیٹھناچیف جسٹس نے مناسب نہ سمجھا۔ رانا بھگوان داس ہوتے تو عمران خان کے خلاف بھی نہ بیٹھتے۔
صحافت کی آزادی ضروری ہے لیکن باطل افواہوں کا تعاقب بھی لازم ہے۔ ایک طرف بینظیر بھٹو کو شہید کرنے میں زرداری رحمن ملک اور ناہیدصفدر عباسی کو ملوث کیا جاتاہے دوسری طرف فوج کو موردِ الزام ٹھہرایا جاتاہے۔ بہت غلط طرزِ عمل ہے، ڈاکٹر شاہد مسعودکہے کہ عذیر بلوچ کو کسی نے پوچھاہے؟۔ اگر وہ پی ٹی وی کا چیئرمین نہ بنتا تو زرداری کو بینظیر کا قاتل ثابت کرتا۔ صحافیوں کا یہ گندہ ٹولہ ٹھیک بات بھی کہے تو غلط لگتی ہے، چاپلوسی سے یہ خود کو بدنام کرچکے ہیں۔ جن صحافیوں کو قابلِ اعتبار سمجھا جاتاہے ان کو حقائق بیان کرنا ہونگے۔
برما میں طویل عرصہ فوجی حکومت رہی اور اگر مجاہدین کاروائی نہ کرتے تو بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری ، جبری جنسی زیادتی اور ملک بدری کا اس طرح سے سامنا نہ کرنا پڑتا۔ بلوچ پختون اور مہاجر نے بھی اپنے پیاروں کا صلہ اپنے اپنے حساب سے پایا ہے۔ عالمی قوتوں نے پاکستان میں اپنے پیاروں کا صلہ دینا ہے ، زرداری مجرم سہی مگر الزام کی مد میں 11سال کی سزا کاٹ چکا ہے۔ نواز شریف اقرار جرم ، آزادانہ ٹرائل اور سب ثابت ہونے کے بعد بھی سپریم کورٹ کے ججوں کوہی نا اہل قرار دیتا ہے۔ سازش یہ نہیں جو نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ ہوا بلکہ پنجابی مافیا اپنے اثاثوں کے چکر میں پاکستان کی اقلیتی صوبوں کو سازش کے نتیجے میں باغیانہ اور احساس کمتری کی سوچ تک لے گئی ۔ بینظیر بھٹو کا باپ پھانسی پر چڑھا اور اس کا بھائی قتل ہوا ، اسکی حکومت ختم کی گئی پھر بھی جیل اور مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ جنگل کا قانون شیر کو اس وقت یاد آیا جب نا اہلی کے علاوہ سپریم کورٹ کے پاس چارہ نہ تھا۔ وہ اپنا منہ کالا کرتا یا ن لیگ کو نا اہل لیگ قرار دیتا مگر نواز شریف کو پھر 70سال بعد نئے جنم سے جو انسانیت کی عدالت یاد آگئی اس میں بھی عوام کو دہائی دی گئی کہ میں نے فیصلہ مانا تم نہ مانو۔
ڈاکٹر ادیب رضوی ایک قومی ہیرو ہیں ان کی زندگی میں پاکستان کی موٹروے کو انکے نام سے منسوب کیا جائے،قومی قیادت انکی لاش پر گورکن کی طرح نہ آئے۔ زندہ قومیں زندوں کی قدر کرتی ہیں، مُردوں کی پوچا نہیں۔ عتیق

14 اگست کو گلشن حدید سے بچہ اغوا کیا گیا ……..

Sexually-assaulted-childs-body-dumped-outside-his-house-hafizabad-kasoor-punjab-ARY-channal

لوگوں نے سمجھا کہ دہشت گردوں نے یہ پیغام دیا ہے ، معاشرے کی موجود ہ برائی جس نے قصور پنجاب میں پہلے 100بچوں کے زیادتی کی تصویر دکھائی مگراپنی آنکھیں نہ کھلیں اور اب سوشل میڈیا کا دور ہے اس پروگرام کو زیادہ سے زیادہ پھیلا کر معاشرے میں شعور بیدار کیا جاسکتا ہے۔ 24اگست ARYنیوز
پھر قصور میں 10سالہ بچے کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا ، حافظ آباد پنجاب میں باپ نے دو بیٹیوں کیساتھ زیادتی کی جسکا مقدمہ اس کی بیوی نے درج کیا۔ معاشرے کو ان برائیوں سے بچانے کیلئے بنیادی کردار ادا کرنا ہوگا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااہل غرب ہمیشہ حق پر قائم رہینگے حتیٰ کہ قیامت آجائے، صحیح مسلم

hadith-ehl-e-gharb-bhutto-fatawa-e-alamgiri-khilafat-e-usmania-lashkar-e-taiba-nasir-ullah-babar

نوشتہ دیوار کے مدیر خصوصی ارشاد نقوی نے کہا: جمہور یت و اسٹبلیشمنٹ کی لڑائی چھوڑ کر حقائق کی طرف آناہوگا۔ ذو الفقار علی بھٹو و میاں نواز شریف کی رگوں کا خون اور ہڈیوں کاگودا اسٹبلیشمنٹ کی عطاء ہے۔ جو رعونت و تکبر اور خود پرستی میاں نواز شریف میں نظر آتی ہے بھٹو کے دور میں یہی چیز ذو الفقار علی بھٹو میں تھی۔ لاڑکانے سے اسکا منتخب ہونا یقینی تھا مگر اپنے مد مقابل کو اسسٹنٹ کمشنر سے اغواء کرالیا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی آمد سے پہلے ماڈل ٹاؤن کا جو واقعہ کرایا گیا وہی اپوزیشن کی مخالفت میں غنڈوں سے پٹھانوں کو قتل کرواکر راولپنڈی میں بھٹو نے بھی کروایا تھا۔
جتنی غلطیاں اسٹبلیشمنٹ سے ہوئی ہیں ان سے زیادہ اسٹبلیشمنٹ کی آلہ کار جمہوری جماعتوں سے ہوئیں، ایوب خان ،یحییٰ خان، ضیاء الحق ، مشرف، کیانی اور جنرل راحیل کو ایک دوسرے سے ملانا غلط ہے لیکن جمہوریت کے علمبرداروں کی اولاد اپنا سلسلۂ نسب اپنے قائدین سے ملاتے ہیں۔ کسی عمارت کی بنیاد اور پہلی اینٹ غلط لگ جائے تو اس پر سیدھی اور درست عمارت کھڑی نہیں ہوسکتی ہے۔
پیپلز پارٹی اور ن لیگ خود کو اسٹبلیشمنٹ مخالف ظاہر کرکے عوام پر احسان جتاتے ہیں حالانکہ دونوں کے قائدین پر اسٹبلیشمنٹ ہی کا احسان ہے۔ کوئی اپنی بنیاد سے الگ ہوکر کیسے استحکام حاصل کرسکتا ہے؟ جب یہ لوگ اسٹبلیشمنٹ کے سہارے کھڑے ہوکر عوام کو جوتے مارتے ہیں تو سب کچھ صحیح نظر آتا ہے۔ حالانکہ اسٹبلیشمنٹ نے یہ مینڈیٹ نہیں دیا کہ وہ کرپشن کریں یا عوام کو جوتے ماریں۔ جب انکے نیچے سے اپنی بد اعمالی کے سبب اقتدار کی کرسی چھنتی ہے تو پھر یہ اسٹبلیشمنٹ کو گالی دینا شروع کرتے ہیں،یہ بڑی نمک حرامی ہے۔ جنرل ایوب اورجنرل ضیاء کرپٹ نہ تھے۔
رسول ﷺ اور خلافت راشدہ میں ابوبکرؓ ، عمرؓ ، عثمانؓ ، علیؓ اور حسنؓ نے جمہوری کلچر کی جو بنیاد رکھ دی اگر مسلم امہ بنو اُمیہ بنو عباس اور عثمانیہ کی خاندانی امارت و بادشاہت کا شکار نہ ہوتی تو مغرب ہم سے پیچھے ہی ہوتا۔ موروثی نظام نے جمہوریت کوپنپنے نہ دیا۔ مغلیہ اور عثمانی سلطنت کا خاتمہ مغرب کا کارنامہ تھا۔ مغل کے نیک بادشاہ اورنگزیب عالمگیرؒ نے 500علماء کے تعاون سے فتاویٰ عالمگیریہ مرتب کروایا جو آج بھی مستند مانا جاتا ہے۔ اس میں یہ شرعی احکام بھی درج ہیں کہ ’’بادشاہ چوری ، زنا اور قتل کرے تو اس پر حد جاری نہیں ہوگی اسلئے کہ بادشاہ خود حد جاری کرتا ہے اس پر حد کوئی جاری کر نہیں سکتا ‘‘۔ نواز شریف اپنا مقدمہ مولانا فضل الرحمن کے ذریعے سے اگر شریعت کورٹ میں لے جائے تو جیت جائیگا۔
اسلامی ممالک میں پاکستان جیسا جمہوری ملک کوئی نہیں۔ اسٹبلیشمنٹ نے جن جمہوری شخصیتوں کو اپنے گملوں میں پالا پوسا، انہوں نے عوام کو بیوقوف بنانے میں تاریخی کردار ادا کیا، جس کی سز اہم بھگت رہے ہیں۔ حبیب جالب نے عوامی شعور اجاگر کیا، جمہوری نظام کو بھی فروغ دینے کی کوشش کی مگر کسی جمہوری قائد نے ان کی خدمات کا اچھا صلہ نہیں دیا۔
جمہوری جماعتوں نے وقت سے کچھ سیکھا ہے تو اس سے زیادہ اسٹبلیشمنٹ نے بھی سیکھا ہے۔ 9/11 کے بعد پاکستان نے مجبوری میں امریکہ کا ساتھ دیا تو معراج محمد خان جیسا جمہوری لیڈر امریکہ کی مزاحمت میں طالبان کی ہمت کو داد دے رہا تھا۔ پیپلز پارٹی کے امین فہیم اور باقی سیاسی جماعتوں کے رہنما اور عوام کی طرف سے نیٹوکی مخالفت، طالبان کی حمایت کا برملا اظہار تھا۔ کراچی سے پنڈی اور لاہور سے کوئٹہ تک آزمائش کا سامنا پاک فوج نے کیا تھا۔ امریکہ کی بغل میں رہتے ہوئے اسکے چنگل سے بچ نکلنا اللہ کے فضل کے علاوہ ممکن نہ تھا۔ امریکی حکم پر طالبان پیپلز پارٹی کے نصیر اللہ بابر نے بنائے اور بینظیر بھٹو اس کا شکار ہوئی۔ نواز شریف کو گلہ ہے کہ فوج سپریم کورٹ پر چڑھ دوڑنے سے کیوں روک رہی ہے؟۔ پاک فوج الزامات کا دفاع کیسے کرتی، حکومت وزیر دفاع کا قلمدان بھی بغض سے سونپے تو پاکستان کی خارجہ پالیسی کیا ہوگی؟۔
وزیر خارجہ خواجہ آصف نے جیو میں جوشاہ زیب خانزادہ کو انٹرویو دیا ، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہہ سکتے تھے۔ خواجہ آصف نے سچ کہا کہ فوج نے اپنا کام کیا لیکن قومی ایکشن پلان پر عمل نہ ہوسکا۔ جنرل راحیل کے بیان پر پہلے حکومت برا نہ مناتی تو اچھا ہوتا۔ ڈان لیکس کی اصل کہانی یہ تھی کہ فوج اور حکومت جہادی تنظیم پر ایکدوسرے کو کاروائی کا کہہ رہے تھے مگر غلط رنگ میں کہانی شائع کی گئی۔ وزیر خارجہ کہہ رہا ہے کہ ’’امریکہ کے کہنے سے ہم کالعدم جیش و لشکر طیبہ کیخلاف کاروائی سے دلدل میں پھنس جائیں گے‘‘۔ لشکر طیبہ ملت مسلم لیگ بناچکی تو مولانا مسعود اظہر کو عتیق گیلانی کیساتھ مل کر وہ کام کرنا چاہیے، جس سے مدارس کے نصاب میں انقلاب آئے اور امریکی سازش ناکام ہو اور یہ کام ریاست کیلئے کوئی مشکل نہیں ہے۔

فوج نے مٹکا توڑا اور بکرا بچایا مگر سراج الحق کہہ رہا ہے کہ بکرے کو بھی ذبح ہونے دو. اشرف میمن

matka-sirajul-haq-jamaat-islami-zibah-hekmatyar-syed-munawar-hassan-sheikh-rasheed
پبلشرنوشتۂ دیوار اشرف میمن نے سراج الحق کے بیان پر تبصرہ کیا کہ ملک کی حفاظت صرف فوج نہیں بلکہ سیاسی ومذہبی جماعتوں ، عوام اور تما م سرکاری اداروں کا فرض ہے۔ یہ فوج پر احسان اور نہ اس وجہ سے دُم ہلانے کی ضرورت۔ جماعت اسلامی کب فوج کیساتھ نہ تھی؟،سید منورحسن کو ایک بیان پر ہٹادیا گیا، امریکہ نے پاکستان کو مجبور کیا کہ افغانستان میں اسکا ساتھ دے تو پوری قوم امریکہ مخالف تھی اور لوگ فوج پربرس رہے تھے۔ماہنامہ ضربِ حق اس وقت فوج کی مجبوری سے عوام کو آگاہ کرتاتھا اور آپس کی لڑائی سے منع کر رہا تھا۔ کم عقلوں کے ہاں بکرے کا سر مٹکے میں پھنسا تو پہلے بکرا ذبح کردیا ، جب سر نہ نکلا تو مٹکا بھی توڑا، پھر خوشی منائی کہ ہم کامیاب ہوگئے۔ فوج نے عقل کا مظاہرہ کیا مٹکا توڑا، بکرا بچالیا۔ اب سراج الحق کہتاہے کہ بکرا بھی ذبح کردو، جماعت فوج کیساتھ ہے۔ عراق و لیبیااور افغانستان کیساتھ جماعت تھی مگر اس کا یار گلبدین حکمتیار نیٹو کیساتھ ہے۔ شیخ رشید نے ٹھیک کہا کہ معاملہ گھمبیر ہے ،امریکہ کے ساتھ 40اتحادی ہیں، بھارتی سازش نا کام بنانا ضروری ہے، بھڑکیاں مارنا رہنماؤں کے کام ہیں سینے پر گولی کھانا کسی اور کا کام ہے۔ جماعت اسلامی قرآن وسنت کے معاشرتی ، قانونی اورشرعی مسائل کواجاگر کریگی تو لوگ اسلامی اقتدار کی طرف توجہ دیں گے۔صرف سیاست کرنی ہو توپھراسلامی نام کو ہٹادیں۔