پوسٹ تلاش کریں

ہما بقائی پروفیسر کراچی یونیورسٹی سے ملاقات

کراچی ( ڈاکٹر احمد جمال) نمائندہ نوشتۂ دیوار راقم الحروف احمد جمال، ایڈیٹر اجمل ملک اور چیف ایڈیٹر سید عتیق گیلانی نے کراچی یونیورسٹی میں انٹر نیشنل امور کی ماہراور تجزیہ کار ڈاکٹر ہما بقائی سے ملاقات کی۔ اجمل ملک نے ڈاکٹر صاحبہ سے کہا کہ آپ ٹی وی پر اپنا مؤقف جرأتمندانہ پیش کرتی ہیں۔ ہمیں جرأتمند لوگ اچھے لگتے ہیں ، اسلئے ان سے ملتے ہیں۔ڈاکٹر صاحبہ نے کہا کہ آپ کا اخبار ملتا ہے۔ طلاق کے مسئلہ پر بھی کافی لکھا ہے اس کی حقیقت کیا ہے؟۔ سید عتیق الرحمن گیلانی نے بتایا کہ طلاق کے حوالہ سے قرآن وسنت کا مؤقف واضح ہے مگرٹی وی ا سکرین پر اس کو پیش نہیں کیا جاتا۔ جن اسلامی اسکالرز کو اہمیت کے قابل سمجھا جاتاہے، ان کی بہت ناقص معلومات ہوتی ہیں۔ کراچی یونیورسٹی میں اسلامک ڈیپارٹمنٹ کے ڈین ڈاکٹر شکیل اوجؒ سے ملاقات رہی ہے۔ حضرت امّ ہانیؓ حضرت علیؓ کی بہن تھیں، انکے گھر میں معراج کا واقعہ ہواتھا، انہوں نے ہجرت نہیں کی تھی۔ فتح مکہ کے بعد حضرت علیؓ نے انکے مشرک شوہر کو قتل کرنا چاہا، انہوں نے شوہر کی پناہ کیلئے نبیﷺ سے درخواست کی، پھر ان کا شوہر ان کو چھوڑ کر گیا تو نبیﷺ نے ان سے نکاح کی پیشکش کردی، وہ بچوں کی وجہ سے راضی نہیں ہوئی تو اللہ نے قرآن میں یہ فرمایا ’’جن رشتہ دار خواتین نے ہجرت نہیں کی، ان سے آپ نکاح نہ کریں‘‘۔ اتنے واضح حقائق کے باوجود ڈاکٹر شکیل اوج کا کہنا تھا کہ امّ ہانیؓ نبیﷺ کی دودھ شریک بہن تھی اور حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کے خلاف تین افراد اور چوتھے فرد کی فحاشی کی گواہی پر حد جاری نہ کی گی تو اس پر باقاعدہ امام ابوحنیفہؒ اور دیگر مسالک کے ہاں قانون سازی ہے لیکن ڈاکٹر شکیل اوج شہیدؒ نے کہا کہ وہ تو حضرت مغیرہ ابن شعبہؓ کی اپنی بیوی تھیں۔جو اتنی موٹی موٹی باتوں کا علم نہ رکھتے ہوں ان کو اسلامی اسکالر کا درجہ دینا کتنا عجیب ہے؟۔
عتیق گیلانی نے کہاکہ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر منظور کو عربی دینی علوم پر دسترس تھی، ڈاکٹر ہما بقائی نے کہا کہ اب تو وہ ضعیف ہیں ۔ مشرف دور میں ان کو انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کا وائس چانسلر بھی بنایا گیا ، میں بھی ان سے ملتی رہی ہوں۔ عتیق گیلانی نے بتایا کہ انہوں نے اسلام کے حوالہ سے جو کتاب لکھی عام آدمی سمجھ نہیں سکتا۔ اس میں یہ لکھ دیا ہے کہ ’’دو تین سو سال ہمیں اسلام کیساتھ گزارا کرنا پڑیگا، اسکے بعد اسلام کا وجود ختم ہوجائیگا جوں جوں ترقی ہوگی تو اللہ کا وجود ناپید ہوتا جائیگا۔حضرت عمرؓ نے طلاق کے حوالہ سے قرآن کیخلاف اجتہاد کیا، اگر یہ سلسلہ جاری رہتا تو پھر اسلام کی کوئی شکل باقی نہ رہتی‘‘۔ ڈاکٹر ہما بقائی نے اس پر توبہ کرکے کہا کہ ڈاکٹر منظور فلسفی تھے اسلئے ان کی بات سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ سید عتیق گیلانی نے کہا انکی سوچ میں مدارس کے دینی نصاب کا بڑا عمل دخل تھا۔ انہوں نے اصول فقہ پڑھی تھی ، اصول فقہ میں پڑھایا جاتا ہے کہ قرآن کی کتابت اللہ کا کلام نہیں۔ فقہ کی معتبر کتب فتاویٰ قاضی خان فتاویٰ شامیہ اور البحرالرائق میں ہدایہ کے مصنف کے حوالہ سے لکھا ’’ علاج کیلئے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے‘‘ اس کو مفتی تقی عثمانی نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ، جس پر ہمارے اخبار کیوجہ سے دباؤ آیا تو اپنی کتابوں سے عبارت نکال دی۔ مفتی سعید خان نے 2007ء میں کتاب شائع کی، اس میں بھی سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا دفاع کیاہے۔ اسکی بنیادی وجہ گمراہی کی یہ تعلیم ہے کہ ’’المکتوب فی المصاحف سے مراد لکھے گئے قرآن کے نسخے نہیں بلکہ 7قاریوں کے الگ الگ قرآن ہیں‘‘۔ ڈاکٹر منظور احمد نے بھی یہی کہا کہ’’ قرآن اورل(زبانی) ہے۔ اس کی لکھی ہوئی شکل اللہ کی کتاب نہیں‘‘جس پر ان کو جواب دینے سے پہلے فلسفی کے بارے میں یہ لطیفہ بتایا کہ جو کئی ہفتوں سے دیوار پر لگے ہوئے گوبر کے متعلق سوچ سوچ کر پریشان تھا کہ آخر یہ کیسے لگاہے؟۔ خاتون نے پوچھ کر لمحہ بھر میں اس کا مسئلہ حل کردیا۔ ہاتھ سے گوبر اٹھاکر دیوار پر چپکادیا۔ قرآن کے بارے میں اصول فقہ کی فلسفیانہ سوچ بالکل غلط ہے۔ کتاب نام ہی لکھی ہوئی چیز کا ہے۔ جیسے میز، کرسی، پنکھا، موبائل اور دیگر اشیاء کیلئے فلسفیانہ گفتگو کی ضرورت نہیں، اس طرح کتاب پر بھی فلسفے کے بجائے اس حقیقت کا تسلیم کرنا چاہیے کہ اللہ کی کتاب کی لکھی صورت کتاب ہے۔ پہلی وحی میں قلم کی تعلیم کا ذکرہے۔ قرآن میں واضح ہے کہ لکھی ہوئی چیز کا نام کتاب ہے۔ ان پڑھ بھی سمجھتا ہے کہ کتاب کیاہے۔محمد اجمل ملک

فیصل رضا عابدی سے ملاقات

کراچی( اجمل ملک چیف ایڈیٹر) پہلے ڈاکٹر احمد جمال کے ہمراہ سید فیصل رضاعابدی سے ملاقات ہوئی۔ پھر گیلانی صاحب کیساتھ ملاقات کی۔ کچھ اہم نکات سے زیادہ تفصیل کی گنجائش نہیں ہے، ہمارا مقصد غلط فہموں کو دور کرکے ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔ فیصل عابدی ایک دلیر مذہبی اور سیاسی کارکن ورہنما ہیں۔ اُمید ہے کہ درست مؤقف سمجھ میں آیا تو پیش بھی کرینگے۔ فیصل رضاعابدی نے یہ بتادیا کہ ناسا کی رپورٹ ہے۔’’ 2023ء میں پوری دنیا پر ایک مسلمان حاکم ہوگا۔ وہ امام مہدی ہی ہوسکتے ہیں‘‘۔ گیلانی صاحب نے کہا کہ میں کہتا ہوں کہ بہت جلد اس سے پہلے ہی یہ ہوجائیگا۔ مگر ہمیں کچھ حقائق کی طرف دیکھنا ہوگا۔ شیعہ سنی کی لڑائی اس بات پر ہوگی کہ تراویح بدعت یا ماتم بدعت ہے تو بات نہیں بنے گی،فیصل رضا عابدی نے کہاکہ یہ منافقت ہے کہ جو رسول کی آل پر درود نہیں بھیجتے۔ نماز میں ہم سلام کہتے ہیں اور نماز کے بعد اہلبیت کو علیہ السلام نہیں کہتے۔ رضی اللہ عنہ اور سلام میں یہ فرق ہے کہ جو پہلے کافر تھا، پھر مسلمان ہوا تو اس سے اللہ راضی ہوا، علیہ السلام اس کیلئے ہوتا ہے جس کو پہلے سے اللہ نے پاک قرار دیا ہو، آیت تطہیر جنکے بارے میں نازل ہوئی۔ جن کو مباہلہ میں بھی اہلبیت قرار دیا گیا۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ حق علی کیساتھ ہے اور علی حق کیساتھ ہے، جس نے علیؓ سے جنگ کی اس نے مجھ سے جنگ کی۔ جس نے علیؓ سے جنگ کی وہ رضی اللہ عنہ کیسے رہا۔ اس پر لعنت بھجیں گے یا رضی اللہ عنہ کہیں گے؟۔ گیلانی صاحب نے بتایا کہ فرعون کی اولاد نہ تھی مگر قرآن میں آلِ فرعون سے مراد اسکے پیروکار ہیں۔ علیؓ سے لڑائی کے بارے میں تاریخی واقعات ہیں، احادیث پر اتفاق اور اختلاف ہے لیکن قرآن پر تو کوئی اختلاف نہیں۔ سورۂ مجادلہ میں عورت کا نبیﷺ سے جھگڑے کا ذکرہے جس میں اللہ نے وحی بھی عورت کے حق میں اتاری، بدری قیدیوں پر فدیہ لینے کی مشاورت ہوئی، علیؓ اور دیگر صحابہؓ کی اکثریت کا مشورہ یہ تھا کہ فدیہ لیا جائے۔ حضرت عمرؓ کا مشورہ تھا کہ فدیہ نہ لیں تو اللہ نے وحی اتاری کہ ’’ نبی کیلئے یہ مناسب نہ تھا کہ اسکے پاس قیدی ہوں یہانتک خوب خون زمین پر بہادیا جاتا‘‘۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک شیعہ ایڈوکیٹ سے میں نے کہا کہ تمہارا یہ عقیدہ کہ اگر امام کہے کہ کل میں یہ کام کرونگا تو یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ خلاف ورزی کرے لیکن قرآن میں نبیﷺ کے بارے میں ہے کہ اصحاب کہف کی تعداد کے وعدے پر وحی بند ہوئی ۔ جس پر اس نے کہا کہ میری سوچ بدل گئی ہے مگر چند دن بعد ان کو شہید کردیا گیا۔
فیصل رضاعابدی نے سلام کا فلسفہ ٹھیک پیش نہیں کیا، نماز میں نبیﷺ پر سلام کے بعدہم خود پر اور صالحین بندوں پر سلام کی دعا کرتے ہیں۔سلام تو ایکدوسرے اور اہل قبور کو بھی کرتے رہتے ہیں۔ صحابہؓ کو رضی اللہ عنہ کی سند قرآن نے دی اور سلام تو عام لوگوں کے علاوہ جاہل کو بطورِ مذمت بھی پیش کیا جاتاہے۔ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہیگا تو بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوسکے گا۔ اللہ توقیق عطاء کرے۔جامعہ اسلامیہ کلفٹن کے مہتمم مفتی محی الدین کے صاحبزدے مفتی طلحہ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ طلاق کے مسئلہ پر امت پریشان ہے اگر سید عتیق الرحمن گیلانی کی ہمارے مدرسے کے علماء ومفتیان کی ٹیم سے ایک ملاقات ہوجائے تو بہتر ہوگا۔ گیلانی صاحب وہاں طے شدہ وقت کیمطابق ہمارے ساتھ گئے لیکن مفتی طلحہ صاحب کہیں جنازے پر گئے تھے ، انکے والد مفتی محی الدین سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ فرقہ واریت اور دیگر مسائل کیلئے دارالعلوم کراچی اور جامعہ بنوری ٹاؤن ہیں ، ہم ان مسائل پر بات نہیں کرتے، گیلانی صاحب نے نصاب پر فقہ حنفی کے مسلک کے حوالہ سے بات کرنے کا کہا لیکن انہوں نے کہا کہ اتھارٹی میری ہے اور جب میں اس کی اجازت نہیں دیتا تو جامعہ اسلامیہ کے اساتذہ آپ کی کوئی مدد نہیں کرسکتے ہیں۔
گوجرانوالہ میں ہم مفتی خالد حسن کے پاس گئے وہاں ہمیں بڑا حوصلہ ملاتھا، ہمارا پروگرام نصرت العلوم جانے کا بھی تھا مگراقبال صاحب نے دعا کرانے کی بات پرا حوال سے آگاہ کیا تو ہماری ہمت ٹوٹ گئی، ایک دوست کے کہنے پر آئی ایس آئی کے افسر خالد عمر سے ملاقات کی تھی اگلے دن پھر ملاقات کرنی تھی مگرپھرہم چلے گئے، اکابر علماء تعاون کریں تو خوشگوار ماحول پیدا ہو، اجمل ملک

جامعہ مدنیہ لاہور کے مولانا رشید میاں سے ملاقات

لاہور( ذکاء اللہ) جامعہ مدنیہ کریم پارک لاہور میں ہم وفد کی شکل میں گئے ۔ مولانا رشید میاں نے کہا کہ ’’پہلے خانوں اور نوابوں کو بھی دین سے دلچسپی تھی ،اسلئے مدارس سے بھی صلاحیت والے علماء ومفتیان نکلتے تھے مگر اب معاشرے کا بالکل کچرا مدارس میں آتا ہے اور صلاحیت والے لوگوں کو سکول کالج میں پڑھایا جاتاہے تو مدارس سے کیا اُمید وابستہ ہوسکتی ہے۔عتیق گیلانی نے جب طلاق اور قرآن کی تعریف کے حوالہ سے مدارس کے نصاب کی نشاندہی کی تو انہوں نے کہا کہ اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا بس جو بزرگوں نے کیا ہے اسی پر چلنا ہوگاپہلی بار میں یہ باتیں سن رہا ہوں، دیکھوں گا کہ علماء نے اس پر کیا لکھ دیا ہے۔ از ذکاء اللہ

اداریہ نوشتۂ دیوار(ملکی مافیا کا قومی بیانیہ)

صدر ممنون نے قومی اسمبلی میں کہا ’’ قومی بیانیہ کو پوری قوت سے متحد ہوکر پیش کرنا ہوگا‘‘ مگر قومی بیانیہ ہمارے ٹی وی ٹاک شوز پر مختلف خبروں اور تجزیوں میں بزبانِ حال یہ ہے کہ
اسٹیبلشمنٹ اور انکے کارندے پیپلز پارٹی کو بھارت ، محمودخان اچکزئی کو ایران اور مولانا فضل الرحمن کو افغانستان جبکہ ن لیگ کو امریکہ سمجھتے ہیں۔ زرداری نے 11 سال جیل کاٹی ، 450کھرب کرپشن اور دہشتگردوں کا سہولت کارڈاکٹر عاصم رینجرز کی تحویل میں رہا۔ ن لیگ نے ڈان لیکس میں فوج کو ناکوں چنے چبوادئیے تو اسٹیبلشمنٹ کے رضاکار وں نے کہا کہ اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن ن لیگ کیساتھ ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ امریکہ پاکستان تباہ کرتا تو ایران و افغانستان کو تکلیف ہوتی؟۔ گدھے گدھی کا رومانس بھی جنگ لگتاہے۔
محمود اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن کے نزدیک فوج ن لیگ کے ہاتھوں جتنی ذلیل و خوار ہوجائے تو مضائقہ نہیں، اسلئے کہ ن لیگ کی فوج سے امریکہ وپاکستان کی بڑی دوستی ہے۔ لوہا لوہے کو کاٹتا ہے ۔نام نہادجمہوریت ،عدلیہ اور فوج ایکدوسرے کو ذلیل کرنیکی کوشش کرینگے تو دوسرے تالی بجائیں گے۔ پرویز مشرف اردو اسپیکنگ مہاجر تھا تو گومل ڈیم و تربت ڈیم بنایا ،بھاشاڈیم اور گوادر سی پیک کی بنیاد رکھی ، کراچی گوادر کوسٹل ہائی وے، بلوچستان اور وزیرستان کے دور دراز علاقوں میں ترقیاتی کام کئے، ملک کو قرضوں سے چھٹکارا دلایا ،سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگاکر پاکستان کو عالمی قوتوں سے بچایا۔ اشفاق کیانی پر خود کش حملہ نہ ہوا۔ کرپٹ جرنیل کو میڈیا نے بڑاامیج دیکر پیش کیا ۔ جنرل راحیل شریف نے کرپٹ مافیا کو لگام دینے کی کوشش کی اور فوج کے کردارکوبڑی حد تک بہتر بنایا۔
ن لیگ فوج کو اس حد تک زیر اثر لائی کہ آئی ایس پی آر نے رد الفساد کابیان دیا کہ ’’10 دہشتگرد مارے گئے، 3فوجی شہید ہوئے اور خود کش جیکٹ برآمد ہوئے‘‘۔ تو روزنامہ دنیا میں وزیر داخلہ چوہدری نثار کی بھی خبر لگی کہ ’’واہ کینٹ میں خود کش جیکٹ کیسے پہنچے؟، یہ سب جانتا ہوں مگر ایک ذمہ دار عہدے پر ہونے کی وجہ سے کھل کر بات نہیں کرسکتا ‘‘۔ ڈان لیکس کچھ بھی نہیں اسکے مقابلے میں لیکن کسی نے اس کو نہیں اٹھایا۔ شیخ رشید کو مولانا فضل الرحمن کی حیثیت افغانستان اور محمود خان اچکزئی کی ایران کی لگتی تھی اسلئے کہا اگر ڈان لیکس پر فوج نے قدم اٹھایا تو مولانا فضل الرحمن فوج کیخلاف نہیں جائیں گے، فوج خود لیٹ گئی تو مولانا فضل الرحمن کیا کرتے؟۔قومی بیانیہ کردار سے بنتاہے، گفتار سے نہیں۔
شہباز شریف جسطرح سابق صدر زرداری کو چوکوں پر لٹکانے ، سڑکوں پر گھسیٹنے اور انواع و اقسام کی گالی گلوچ سے نوازتا ، ڈوگر کیخلاف جالب کے اشعارگا کر دستوراور آئین کو نہ مانتا حالانکہ اسکی صوبائی حکومت بیساکھی پر کھڑی تھی تو موجودہ حکومت کے خاتمہ پر نہال ہاشمی اور وزراء کا رویہ کیا ہوگا؟۔ افتخار چوہدری کی عدالت میں نواز شریف کالا کوٹ پہن کر جنرل اشفاق کیانی کیساتھ پیش ہوا ، جسٹس سجاد علی شاہ پر ہلہ بول دیا، جسٹس قیوم کو خرید لیا ۔ بھٹو کی پھانسی پر جنرل ضیاء کی برسیاں مناتا، اصغر خان کیس میں آئی ایس آئی سے اسلامی جمہوری اتحاد کے نام پر پیسے لئے، تو یہ کونسا مذہب ،نظریہ اور یہ کونسی سیاست ہوسکتی ہے؟۔
ن لیگی رہنما کبھی نہ کہتا کہ’’ آئی ایس پی آر جنرل باوجوہ اب بندوق کی نالی میں رسی ڈال کر صاف کریگا ‘‘ اگر ایجوکیشن آفیسر ڈاکٹر نعیم اللہ باجوہ کی بے عزتی پر ایکشن لیتا۔ ن لیگ کے ایم این اے پرویز خان کورنگے ہاتھوں پکڑلیا تو گلو بٹ سے زیادہ سزا کے لائق ڈاکٹر نعیم اللہ باجوہ کو ڈانٹنے پر عابد شیر علی تھا۔مارشل لاء کے گودی بچے ن لیگ کا وطیرہ ہے کہ انکے گناہوں سے چشم پوشی نہ کرنا بھی جرم ہے، اب یہ جے آئی ٹی اور عدلیہ کیخلاف چیخ و پکار اور دہشت مچائے ہوئے ہیں۔ یہ جمہوری کلچر نہیں مافیا سے بھی بڑا کردار ہے۔
کسی نے آنکھوں میں دھول کیا جھونک ڈالی اب میں پہلے سے بھی بہتر دیکھتا ہوں
قومی بیانیہ یہ ہے کہ عدلیہ نے 2/3سے مہینوں فیصلہ محفوظ رکھ کر عدالت نہیں سیاست کی اور پھر جے آئی ٹی بناکر مریم نوازکا نام نکال دیا۔ پارلیمنٹ کی تقریرکے ثبوت اور قطری خط کے تضادنے وزیراعظم کا احرام کھول دیا۔ کتاب سے صفحات غائب نہ تھے بلکہ جھوٹ کا پلندہ تھا۔ عدلیہ نے روزانہ کی بنیاد پر جو سماعت کی اور فیصلہ محفوظ کرنے کے بعد کافی وقت لگایا، یہ سب انصاف نہیں بلکہ نام نہاد سیاہ غلاف تھا۔ جن کو جے آئی ٹی قبول نہ تھی وہ اس کی حمایت میں آگئے، ججوں سے سوال پوچھا جائے کہ تم نے سیاست کرنی ہے یا عدالت؟، اب تو خواجہ سعد رفیق یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کو سازش اور سیاست قرار دیتاہے۔ یہ بتایا جائے کہ فوج ، عدلیہ اور ن لیگ سب مل کر مافیا کا کردار ادا نہیں کررہے ہیں؟۔ یہ سب آپس میں ایک ہیں، صرف عوام کی آنکھوں میں زیادہ دھول ڈالنے کی ضرورت اسلئے ہے کہ ’’ الیکٹرانک میڈیانے شعور کو بیدار کیاہے‘‘۔ سلمان تاثیر کے قتل کے بعد اس کا بیٹا اور یوسف رضا گیلانی کا بیٹا اغواء ہوا۔ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد ڈاکٹر عاصم پر دہشت گردوں کی معاونت کا الزام لگا۔ ذوالفقار مرزا نے عذیر بلوچ کو پالا، زرداری پر الزام لگانے سے پہلے مرزا کو کیوں نہیں پکڑا گیا؟۔پیسوں سے بھری کشتیاں پکڑی گئیں تو پیسے کہاں گئے؟۔ کیا مافیا مل کر اس کو کھارہا ہے؟۔ ن لیگ کی فوج اور عدلیہ کے سائے میں پلنے اور نمک حرامی کی تاریخ رہی ہے۔جلاوطنی کے بعد نوازشریف آیا تورؤف کلاسرانے سکیورٹی فورسز کا لکھ دیا کہ ’’ ایک ڈکٹیٹر کے کہنے پر سپاہیوں نے کتوں کی طرح سابق وزیر اعظم کو گھسیٹا‘‘ ۔ اسوقت کوئی ن لیگی رہنما اور کارکن ائیرپورٹ نہ آیا۔دوبارہ نوازشریف آیا تو نعروں کے جواب میں کہا ’’چپ کرو، تم کہتے تھے کہ نواز شریف قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں مگر مجھے ہتھکڑی پہناکرلیجایا جارہا تھاتو میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی بھی نہ تھا‘‘۔بھڑکیاں مارنے والوں نے میاں شریف کا جنازہ بھی نہ پڑھا ۔دھرنے کے موقع پر ن لیگی وزارء پناہ کیلئے حامد میرکے گھر گئے تھے۔ ڈوب مرنے کومیراجی چاہتاہے ، شرم تم کو مگر نہیں آتی۔
ڈان لیکس کے مسئلہ پر پاک فوج کو فتح کرنے کے بعد عدلیہ اور جے آئی ٹی کے ارکان کیلئے تسلسل کیساتھ جوزبان وزراء استعمال کرر ہے تھے ،جوشیلے مہاجر نہال ہاشمی نے کلمہ پڑھ کر کہا کہ’’ میں نے کسی کو دھمکی نہیں دی‘‘ ۔ اعتزاز احسن نے پارلیمنٹ میں خوب کہا کہ ’’ضرورت پڑتی ہے تو یہ لوگ ٹانگ بھی پکڑ لیتے ہیں،ویسے تکبرو رعونت سے انکے گردنوں میں سریہ ہوتا ہے‘‘۔ ماڈل ٹاؤن میں بندے ماردئیے لیکن غریبوں کو انصاف نہ مل سکا۔ اب طاقتور فوج بھی ڈان لیکس کے معاملہ میں مظلوم عوام کی صفوں میں کھڑی ہوگئی ہے۔
امامت کے قابل بننے سے پہلے قوم کا تزکیہ ہے، پرویزمشرف کا دور تزکیہ میں گزرگیا، فوج کے جونئیر لوگ طالبان کے ہاتھوں شہید ہوتے مگر جواب نہیں دے سکتے تھے اسلئے کہ قوم طالبان کیساتھ کھڑی تھی ، ڈان لیکس کے معاملے پر فوج کے بڑوں کا بھی تزکیہ ہوگیا۔ بلوچستان کی بلوچ عوام، کوئٹہ میں ہزارہ اور دیگر لوگوں کا تزکیہ، قبائلی علاقہ جات و کراچی کی عوام اور عدلیہ کے ججوں کا تزکیہ اوراے این پی کے قائدین وکارکنوں کا تزکیہ، مساجد وامام بارگاہوں کا تزکیہ بھی ہوچکاہے۔ انقلاب کے ذریعہ پنجاب شریف کا بھی تزکیہ ہوگا۔شہباز شریف یہ کہنے کے بجائے کہ سپریم کورٹ صرف ایک شریف خاندان کا احتساب نہ کرے یہ کہتاکہ ’’پہلے ہمیں سڑکوں پر گھسیٹا ،چوکوں پر لٹکایا جائے، دوسروں کی باری بھی آجائیگی‘‘۔
قرآن کو عملی جامہ پہنانے کا نام سنت ہے۔ جس نے رسولﷺ کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ اللہ اور اسکے رسولﷺ کی اطاعت سے انقلاب برپا ہوگا۔ سفر میں 2، 3 افرادجارہے ہوں تب بھی ایک کو امیر بنانے کا حکم ہے، نمازکی امامت تربیت ہے، مختلف ممالک کے حکام بھی شریعت کا تقاضہ ہیں۔ حضرت معاذ بن جبلؓ نے پہلے قرآن، پھر سنت اور پھر اجتہاد کے ذریعے فیصلے کا کہا تونبیﷺ نے پسند فرمایا۔ قرآن کو چھوڑ کر احادیث کو مسلک بنایااور احادیث کو چھوڑ کر اجتہادی مسائل کی تقلید کی۔ یہ الٹی گنگا سیدھی کرنی ہوگی۔ گھر کاسربراہ مرد ہوتا ہے لیکن شوہر بیوی اورباپ بچوں کا مالک نہیں ۔ حکمران اوررعایا کے ایکدوسرے پر حقوق ہوتے ہیں۔ جب قرآن و سنت کے مطابق میاں بیوی کے درمیان حکمرانی اور حقوق کا درست تصور پیش ہوگا توملکی معاملات میں بھی حکمران ورعایا کے حقوق کا درست تعین ہوگا اورپھر عالم اسلام ہی نہیں، دنیا کے انسان بھی قرآن کے مطابق طلاق اور خلع کا معاملہ رائج کرینگے۔ علماء کرام علمی حقائق کی طرف توجہ دیں اور جاہلوں سے چھٹکارا پائیں۔ ایجنٹ علماء ومفتیان ، مذہبی سیاستدان اور مجاہدین آخرت نہیں دنیا کے طلبگار ہیں۔

رسول فرمائیگا اے میرے رب! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا. القرآن

مسلم امہ کی گراوٹ کا یہ عالم ہے کہ دنیا کی واحد مسلم ایٹمی پاور کے وزیراعظم نوازشریف کو امریکی ٹرمپ کے سامنے چاکری کرنے کا موقع نہ ملنے پر طوفان کھڑا ہوا۔ کل نواز شریف طالبان کیساتھ فوج کے خلاف کھڑا تھاکہ فوج امریکی ایجنٹ ہے پھر ’’رات گئی بات گئی‘‘، قطر کی حکومت امریکہ اور دہشتگردوں کا مشترکہ اثاثہ تھا مگر اچانک عرب نے قطر سے تعلقات منقطع کرلئے کہ دہشتگردوں کا سرپرست تھا۔ حقائق کی سمجھ دیر سے آئی تو بھی یہ المیہ تھا اور اچانک معاملہ بگڑنے پردوسروں کیلئے بھی غیر یقینی کی کیفیت ہے۔جنرل راحیل شریف اور پاکستانی فوج کو چاہیے کہ وقتی طور سے گھمبیر صورتحال میں اُمہ کے مفادکوسامنے رکھیں۔ قیادت خدمت ہے، بچوں کیلئے باہر اثاثے بنانے والے لٹیروں کو عدالت سے سزا ہونے دیں ورنہ قوم تباہ وبرباد ہوجائیگی اور ملک قائم نہیں رہیگا۔نام نہاد لٹیری قیادت کو سزا ملے تو کوئی بھی قیادت کے حصول پرکبھی نہیں لڑیگا۔ سیاسی رہنماؤں نے اپنی وفاداری بدل بدل کر نظریاتی اور کردار کی سیاست کا قلع قمع کردیا ہے ۔میڈیا لوگوں کو مزید بے حسی کی طرف دھکیل رہاہے۔ مدارس و مساجد فکر وشعور ، عمل وکردار اور نظام خلافت کے قیام کیلئے بہترین پلیٹ فارم ہیں۔علماء کو اپنے نصاب، فرقہ وارانہ انتہاپسندی اورصرف پیٹ و جیب کا خیال رکھنے کے بجائے میدان میں متحد ہوکر اترناہوگا۔ بروزِ قیامت رسولﷺ کی قرآن کے بارے میں شکایت قابلِ غور ہے۔ جب تک اس شکایت کا ازالہ کرنے کی کوشش نہ کرینگے تو زوال وپستی سے نہیں نکل سکتے ۔ خواجہ سعد رفیق کا بیان قابلِ تعجب تھا کہ ’’ لیاقت علی خان، حسین سہروردی، ذوالفقار علی بھٹو اور یوسف رضا گیلانی کیساتھ کیاہوا؟‘‘ نوازشریف کی تاریخ بڑی بھیانک ہے، دُم پر پاؤں پڑنے لگا تو چیخ نکلنا شروع ہوئی۔ علماء و مشائخ صرف اپنے پلیٹ فارم کی اہمیت کو سمجھ لیں اور قرآن وسنت کے منشور کو پیش کردیں تو وہ قائدہیں۔ آزادی کے وقت دو قومی نظریہ کاعلامہ اقبال اور قائداعظم نے قوم کو دیا ، کچھ علماء ومشائخ مسلم لیگ کیساتھ تھے اور کچھ کانگریس کیساتھ۔ آج پاکستان کا نظریاتی وجود بے کردار سیاسی قیادت کی نذر ہوا۔ بھٹو کی طرف سے اسلامی سوشلزم کا نعرہ اسلام تھا اور نہ سوشلزم۔ معجون مرکب ختم ہوا تو سود کیلئے حلالہ کی لعنت ہے۔اسلام منافقت کو جہنم کا پست ترین درجہ دیتا ہے مگر قوم منافقت در منافقت کی شکار ہوئی۔ سیاسی علماء نے بھی آخرت کے خیال کو دل سے نکال کر فیصلہ کرلیاہے کہ اسلام تو ویسے بھی نہ آئیگا، بس اقتدار کیلئے ہر دور میں کسی کا دُم چھلہ بن کر اپنا مفاد حاصل کرنے میں ہوشیارسیاست ہے۔
پاکستان کو نعمت سمجھ کر قرآن کے شعور کیلئے تحریک شروع کی تو عروج کی منزل ملے گی۔ قرآن شبِ قدر میں نازل ہوا، سورۃ القدرکی تفسیر میں مولانا سندھیؒ نے خطہ اسلام کی نشاۃ کا ذریعہ قرار دیکر لکھاکہ: امام ابوحنیفہؒ ائمہ اہلبیت کے شاگرد تھے، اسلئے ایران بھی ہماری ہی امامت قبول کرلے گا،یہ وقت آگیاہے۔
مولانا عبیداللہ سندھیؒ کی تفسیر’’ مقام محمود‘‘ میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور امامت کیلئے سندھ، بلوچستان، کشمیر، پنجاب، سرحد اور افغانستان میں بسنے والی قوموں کو امامت کا حقدار قرار دینا بڑی بات تھی۔ مولاناسندھیؒ نے قرآن کی طرف متوجہ کرنے کیلئے حنفی مسلک کو بنیاد قرار دیا ہے۔ امام مہدی کے حوالے سے شیعہ سنی اپنے اپنے مسلک کے مطابق ضرور انتظار کریں لیکن قرآن کی طرف توجہ دینے میں آخر حرج کیا ہے؟۔ کیا قیامت کے دن ہمارا مواخذہ اسلئے نہیں ہوگا کہ ہم امام مہدی کے انتظار میں بیٹھے رہے ؟۔ ہرگز ہرگز نہیں۔
اصول فقہ کی شریعت کے چار دلائل ہیں۔ 1کتاب،2 سنت،3اجماع اور4قیاس۔ کتاب سے مراد پوری کتاب نہیں بلکہ 500 آیات ہیں جو احکام سے متعلق ہیں قرآن کی باقی تمام آیات قصے، نصیحت اور مواعظ ہیں۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ان500آیات کو اپنے موضوع و ابواب کے حوالہ سے درج کیا جاتا۔ طلبہ کو قرآن کے متن سے بھرپور طریقے سے رہنمائی فراہم کی جاتی مگر افسوس کہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ مثلاًصرف طلاق سے متعلق آیات کو ایک باب کے تحت جمع کرکے پڑھایا جاتا تو مسلم امہ گمراہی کی راہ پر گامزن نہ ہوتی۔ قرآن میں ہے کہ رسولﷺ کی اپنی امت کے حوالہ سے یہ شکایت ہوگی کہ انہوں نے قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔ طلاق کے حوالہ سے آیات میں کافی وضاحتیں ہیں۔ صرف ان آیات ہی کو دیکھ لیجئے جو طلاق سے متعلق ہیں تو یقین ہوگا کہ اللہ نے سچ فرمایا کہ’’ قرآن ہر چیز کو واضح کرتاہے‘‘۔ تبیانا لکل شئی
امام ابوحنیفہؒ نے علم الکلام میں زندگی گزاری تھی پھر تائب ہوکر فقہ کی طرف توجہ دی تھی۔ اصول فقہ میں یہ گمراہانہ عقیدہ ہے کہ ’’ تحریری شکل میں قرآن لفظ ہے نہ معنی، بلکہ نقشِ کلام ہے‘‘۔ جسکی بنیاد پر فقہی مسئلہ ہے کہ ’’ قرآن کے مصحف پر حلف نہیں ہوتا اور اگر زبان سے کہا جائے کہ قرآن کی قسم تو حلف ہوتاہے‘‘۔ اگر علم الکلام کی موشگافی پڑھانے کے بجائے کتاب کی تعریف میں قرآن کی آیات کے حوالے ہوتے تو دینی مدارس اسلام کی حقیقت کو سمجھنے میں مغالطہ نہ کھاتے۔ اللہ نے فرمایا: الذین یکتبون الکتٰب بایدیہم ’’جو کتاب کو اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں‘‘۔ کتاب جو ہاتھ سے لکھی جائے ۔ پہلی وحی میں قلم سے علم سکھانے کا بتایا ۔ والقلم ومایسطرون ’’ قلم کی قسم اور جو سطروں میں ہے‘‘ کتاب لکھی چیز کا نام ہے، کتابت پر مختلف الفاظ آئے ہیں، فلیکتب کاتب بالعدل’’معاملہ انصاف سے کاتب لکھے‘‘۔ املاء کا بھی ذکر ہے کہ املاء کون کرائے؟۔باربار اللہ نے کتاب کا ذکر کیا ہے، جاہل مشرکین بھی یہ سمجھتے تھے کہ قالوا اساطیر الاولین اکتتبہا بکرۃ واصیلا ’’صبح شام لکھوائے جانیوالے پرانے قصے کہانیاں ہیں‘‘ کتاب کیا ہے؟۔
حنفی مسلک کی بنیادیہ تھی کہ قرآن اور حدیث میں تطبیق ممکن ہو تو تطبیق ضروری ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہوسکے تو قرآن کو احادیث سے متصادم قرار دینے سے گریز کیا جائے مگر افسوس کہ اصول فقہ کا پہلا سبق اس اصول کے خلاف ہے۔ قرآن میں نسبی اورسسرالی رشتہ نعمت ہے، اگر لڑکی باپ کی اجازت کے بغیر بھاگ کر شادی کرلے تو رشتہ داری نعمت نہیں زحمت بنتی ہے۔ قرآن کیمطابق نبیﷺ نے فرمایا ’’ جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر شادی کرلی تو اس کا نکاح باطل ہے، باطل ہے، باطل ہے‘‘۔ اس حدیث کو انسانی فطرت کے مطابق سمجھاجا سکتاہے۔ نبیﷺ نے یہ فرمایا کہ ’’ اگر کوئی باپ اپنی بیٹی کا نکاح اسکی رضاکے بغیر کردے تو یہ نکاح نہیں ‘‘۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ معاشرہ قرآن وسنت کیمطابق ایک اچھے ماحول کا مظاہرہ کرتا۔ حال ہی میں ہمارے علاقہ گومل میں واقعہ پیش آیا کہ برسوں سے وہاں رہنے والے افغانی کوچے نے اپنی لڑکی کی منگنی کسی بوڑھے شخص سے کرادی تھی۔ وہ لوگ اپنی بیٹیوں کو جانوروں کی طرح مال سمجھ کر بیچتے ہیں۔ باقی پٹھانوں میں بھی یہ بے غیرتی پائی جاتی ہے اسلئے اس کو شریعت اور غیرت کے منافی نہیں سمجھا جاتاہے، چنانچہ وہ کوچی لڑکی ایک کم عمر مقامی وزیرستانی کے ساتھ بھاگ گئی۔ کوچوں نے اسکے ردِ عمل میں بڑی تعداد میں جمع ہوکر مقامی بچے کے گھر سے ایک 12سال کی بچی اٹھالی۔ عوام کا بس نہیں چلا تو پولیس کو طلب کیا مگر پولیس نے بھی مار کھالی۔ پھر پاک فوج نے 10منٹ کی وارننگ پر مقامی بچی کو کوچوں سے بازیاب کروایا۔یہ افسوسناک واقعات رونما ہوتے ہیں جو قرآن وسنت سے دوری کا نتیجہ ہیں۔
خاندان کی عزت، غیرت اور تہذیب وتمدن کے روایتی رسوم ورواج اگر اسلام و انسانیت کے بنیادی حقوق اور شرافت کے بالکل منافی ہوں تب بھی لوگ حقائق کی طرف اس وقت نہیں دیکھتے جب انکے ہاتھ میں طاقت ہوتی ہے۔ ایسے کھوکھلے معاشرے کو دنیا میں عروج کا ملنا تو بہت دور کی بات ہے، بسا اوقات ان کی عزت ایسی خاکستر ہوجاتی ہے کہ وہ جیتے جی مرنے سے بھی بدتر ہوتاہے۔ کانیگرم جنوبی وزیرستان میں ایک شخص نے اپنی چچا زاد منگیتر سے منگنی توڑ دی تویہ واقعہ پیش آیا کہ پیر گل اعظم شاہ نے منگنی کرلی۔ لیکن چچازاد کی طرف سے دوبارہ اپنی منگیتر سے شادی کا اعلان ہوا۔ علماء کرام نے بھی کہا کہ ’’یہ غلط ہے منگنی ٹوٹ گئی تھی اور پھر گل اعظم شاہ سے منگنی ہوئی تو یہ نکاح ہے‘‘۔ مگر طاقت کے زعم نے شادی بڑی دھوم سے کروائی۔ پیر گل اعظم شاہ نے کہا:’’ یہ میری شادی کے شادیانے بج رہے ہیں‘‘۔ اور موقع پاکر دلہن کو اٹھایا اور دوبئی پہنچادیا۔ دوسرا شخص ایسا غائب ہوا کہ پتہ نہ چل سکا کہ اسکو کیا ہوا؟، زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا؟۔
طالبان نے ایک کام بڑا زبردست کیا تھاکہ اگر کوئی لڑکی اپنے کزن سے شادی پر راضی نہ ہوتی تو اس کو اسکے اور اسکے گھروالوں کی مرضی سے شادی کرادیتے تھے۔ حالانکہ ایک غیرت مند معاشرے میں یہ گنجائش نہیں ہونی چاہیے کہ گھر والے اور لڑکی راضی نہ ہوں تب بھی غیرت سمجھ کر اسکی مرضی کے مطابق شادی نہ کرنے دیجائے۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کیلئے معاشرے کا کردار بڑااہم ہوتا ہے، مفتی اعظم پاکستان مفتی محمودؒ صوبے کے وزیراعلیٰ رہے، متحدہ مجلس عمل کو حکومت ملی تو کسی عالم دین کو وزیراعلیٰ بنانے کے بجائے اکرم خان درانی کو داڑھی رکھواکر وزیراعلیٰ بنایا گیاتھا۔ جمعیت علماء اسلام ف کے رہنمامولانا مفتی کفایت اللہ نے اے این پی کے دور میں قرار داد پیش کی کہ ’’ پشاور، مردان، چارسدہ، سوات اور صوابی کے پانچ اضلاع میں خواتین کو نکاح کے نام پر بدکاری کیلئے بیچا جارہاہے ، ان پر پابندی لگائی جائے، جس کو پختونخواہ کی اسمبلی نے منظور کیا‘‘۔ اب حال ہی میں سندھ میں رینجرز سے دو خواتین نے بس میں تلاشی کے دوران مدد مانگ لی کہ ان کو بدکاری کیلئے بیچ دیا گیاہے، جس پر میڈیا میں پورے گینگ کی خبر بھی آئی مگر تحریک انصاف نے خبر پر ایکشن لینے کے بجائے سندھ اسمبلی میں یہ آواز اٹھائی کہ ’’ پہلے پنجاب میں پختونوں کو تنگ کیا جا رہاتھا، اب سندھ میں بھی وہی سلوک ہو رہا ہے‘‘۔ ہمارے استاذ مولانا محمد امین ہنگو شاہو وام کوہاٹ نے کہا تھا کہ ’’ اس دور کا مجدد وہ ہوگا جو پٹھان خواتین کو انکے حقوق دلائے‘‘۔
مدارس اپنے نصاب پر غور کرکے پاکستان کو دنیا کا امام بناسکتے ہیں۔اصول فقہ کی پہلی کتاب ’’ اصول الشاشی‘‘ میں پہلا سبق یہ ہے کہ آیت حتی تنکح زوجا غیرہ’’یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے سے نکاح کرلے‘‘۔ میں عورت کی طرف نکاح کی نسبت ہے۔ حدیث میں ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کو باطل قرار دیا گیا تو حدیث آیت سے متصادم ہے اسلئے حدیث کو ترک کیا جائیگا، قرآن پر عمل ہوگا۔ حالانکہ قرآن میں طلاق شدہ مراد ہے اور حدیث سے کنواری مراد لی جائے تو قرآن کا حدیث سے ٹکراؤ نہیں۔ مخلوط نظام تعلیم اور دیگر وجوہات کی بنیاد پر ہمارا معاشرہ کروٹ بدل رہاہے، پسند کی شادیاں کورٹ میرج کے ذریعے ہورہی ہیں، علماء کو پتہ نہیں کہ اسکے ذمہ دار وہ خود ہیں۔ اگرقرآن وسنت کا پورا نقشہ پیش ہوتا تویہ سانحات نہ ہوتے۔ والدین بھی لڑکی کی رضامندی کو ضروری سمجھتے اور لڑکی بھی باپ کا خیال رکھتی۔ ہم غلط رسوم ورواج کیوجہ سے قرآن و فطرت اور معاشرتی اقدار سب کچھ بے سمت منزل کھو رہے ہیں۔
اصول فقہ کی دوسری کتاب’’ نوراالانوار‘‘ میں پڑھایا جاتاہے کہ ’’ قرآن میں طلاق شدہ کیلئے عدت 3قروء کی ہے۔ 3کا لفظ خاص ہے جو ڈھائی نہیں ہوسکتا، اسلئے احناف اس سے تین حیض مراد لیتے ہیں، طہر کی حالت میں طلاق دینا شریعت کے مطابق ہے ، جس طہر میں طلاق دی جائے تو وہ ادھورا شمار ہوگا اسلئے قرآن کے لفظ پر عمل کرنے کا تقاضہ ہے کہ پورے 3مراد ہوں ‘‘۔ حالانکہ اس طرح سے پاکی کے ایام میں طلاق دی جائے تو تین حیض کے علاوہ وہ ایام بھی شمار ہوں گے تو پھر عدت ساڑھے تین ہو گی۔ قرآن نے حیض نہ آنے یا اشتباہ کی صورت میں 3قروء کاقائم مقام 3 ماہ کو قرار دیا اور مہینہ طہرو حیض دونوں کا قائم ہے اسلئے دونوں مراد ہیں۔ طلبہ ان الجھنوں کو نہیں سمجھتے۔اگر قرآنی آیات و احادیث صحیحہ پڑھائی جاتیں تو معاشرہ بھی قرآن سے فائدہ اٹھاتا۔ لیکن افسوس کہ علماء خود بھی حقائق سے بے بہرہ ہیں۔عربی سیکھنے کا فائدہ اٹھایا جائے اورمعاشرے کو قرآن وسنت کے رنگ میں رنگا جائے، تو انقلاب عظیم آنے میں دیرنہ لگے۔
اہلسنت شیعہ پر الزام لگاتے ہیں کہ مہدئ غائب نے قرآن اپنے ساتھ چھپالیا ، جب وہ منظر عام پر آئیں گے تو پھرقرآن پر عمل ہوگا۔ شیعہ اہلسنت پر الزام لگاتے ہیں کہ احادیث کے مطابق قرآن اور اہلبیت کو سب پکڑ لیتے تو امت اس قدر زوال کا شکار اور قرآن سے دور نہ ہوتی۔ کیا اہلسنت رسول اللہ ﷺکی طرف سے قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں شکایت کرنے کا جواب دینگے کہ ہم سے سنت غائب ہوگئی، اسلام اجنبی بن چکا، گمراہانہ نصابِ تعلیم کی وجہ سے قرآن کو چھوڑ رکھا تھا؟۔ اور اہل تشیع جواب دینگے کہ مہدی غائب کے ظہور کا انتظار تھا اسلئے قرآن چھوڑ رکھا تھا؟۔ جماعتِ اسلامی والے کہیں گے کہ ہم علماء نہ تھے، بس علماء کے نصاب نے ہمیں قرآن سے دور رکھا تھا؟۔کیا اہلحدیث کہیں گے سلفی مذہب کی وجہ سے ہم قرآن کے قریب نہ جاسکے تھے؟۔ کون ہے جو خود کو نبیﷺ کی قوم نہیں سمجھتا ہے؟۔ نبیﷺ فرمائیں کہ سنت اور اہلبیت غائب لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ’’قرآن موجود تھا، اسکو ہدایت کیلئے ذریعہ کیوں نہیں بنایا تھا؟‘‘۔
قرآن ہدی للمتقین ہے اور ہدی للناسبھی، علماء ومشائخ متقین بن کر نماز کی صراط مستقیم کی دعا کریں مگر درست راستہ نظر آتا ہو اس پر خود چلنے کی کوشش نہ کریں تو پھر وہ متقین نہیں اور عوام الناس کے سامنے قرآن کے واضح وہ حقائق رکھے جائیں جس سے کوئی بھی قوم اپنا عروج حاصل کرسکتی ہے تو عوام ہدایت پائیں گے۔ بڑا المیہ ہے کہ علماء اکابر پرست اور عوام مقابرپرست بن گئے اور اس کا یہ فائدہ ضرور ہے کہ نصاب کو سمجھنے سے قاصر ہیں ، بس تضاد پر عقیدہ رکھاہے جس کی وجہ سے کھلی گمراہی سے محفوظ ہیں جبکہ ڈاکٹر منظور احمد جیسے لوگ انتہائی مخلص ہیں اور وہ نصاب کو سمجھ کر کھلی ہوئی گمراہی کا عقیدہ رکھ واضح طور سے گمراہ ہوگئے مگر جب پتہ چل گیا تو بات سمجھ میں آئی اور اللہ نے انکا خاتمہ بالخیر کرنے کا اہتمام کردیا۔ وہ اپنی بات پر ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہیں کررہے تھے۔
تیسرا طبقہ جاوید غامدی جیسے لوگوں کا ہے جو مدارس کے نصاب کی اصل خامیوں سے بھی واقف نہیں اور تقلید کی افادیت بھی نہیں سمجھتے۔ ایسی آیات اور احادیث ہیں جن کو زمانہ ثابت کررہاہے، یہ تقلید کی افادیت ہے،قرآن کے احکام کی طرف توجہ تمام مسائل کا حل ہے۔
ہماری حکومت، اپوزیشن اور ریاست کیلئے یہ مشکل نہیں کہ میڈیا پر حقائق لانے میں کردار ادا کرے۔ بزرگ علماء ومفتیان حقائق لانے سے کنی کترارہے ہیں۔ دنیا کی مسلم ریاستوں میں انقلاب اور یکجہتی کی فضاء بن سکتی ہے۔

فقرا و مساکین کے حق زکوٰۃ کو ہتھیانے کیلئے بھی ہتھکنڈے استعمال ہورہے ہیں، فیروز چھیپا

نوشتۂ دیوار کے منتظم اعلیٰ فیروز چھیپا نے اپنے بیان میں کہاکہ نماز کی طرح زکوٰۃ اللہ کا حکم ہے ۔ زیادہ تر لوگ رمضان میں زکوٰۃ دینا پسند کرتے ہیں، قرآن میں فقراء ومساکین کا اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے ذکر کیا اور باقی مستحقین مسافروں، حادثات کا شکار ہونیوالے، گردنوں کی آزادی، مؤلفۃ القلوب اور زکوٰۃ کے عاملین کی وضاحت ہے۔ یہ بہت بڑا المیہ بن گیا کہ فقراء ، مسکین کا حق چھیننے کے ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ مسلم امہ کی عزتوں پر وار کیلئے طلاق کی غلط تعبیر اور حلالے کے حیلے سے بڑی مصیبت کوئی نہیں تھی جس پر ہم نے عوام کو زبردست طریقے سے آگاہی دی اور جنکے ہاتھ میں زکوٰۃ کاروبار بن کر رہ گیاہے وہ زکوٰۃ کا بھی حلالہ کرتے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے زکوٰۃ نہ دینے والوں کے خلاف جہاد کیا تھا اور اگر موجودہ دور میں اس پر عمل ہوجائے تو بڑے نامی گرامی علماء ومفتیان زد میں آ جائیں گے۔ بڑے بڑوں نے زکوٰۃ کے مال کو ہتھیانے کیلئے اپنی منڈیاں بنارکھی تھیں۔ اب دوسرے چالاک وعیارلوگ بھی یہی کام کررہے ہیں۔ اگر امیر علماء کی زکوٰۃ غریب علماء کو مل جائے تو بھی زبردست خدمت ہوگی۔ سوشل میڈیا پر میں نے یہ پیغام دیا تھا۔جس کو عام کرنے بہت زیادہ ضرورت ہے۔ السلام علیکم۔۔۔رمضان کا مہینہ شروع ہونے کو ہے۔ صاحب ثروت اس مہینہ میں ایک خطیر رقم زکوٰۃ کی مد میں نکالتے ہیں، مگر افسوس کہ اللہ کے واضح حکم کے باوجود یہ رقم مستحق افراد تک نہیں پہنچ پاتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ مخیر حضرات اس انتہائی اہم فریضے کو خود اپنے ہاتھوں سے مستحق لوگوں تک نہیں پہنچاتے ہیں بلکہ مختلف قسم کی این جی او ، فرقہ وارانہ مدارس، لسانی و عصبی تنظیموں وغیرہ کو یہ رقم دیکر فرض کا قرض سمجھتے ہیں کہ فرض ادا ہوگیا۔ نتیجے میں زکوٰۃ کی رقم مستحقین تک فوری پہنچنے کے بجائے مختلف بینک اکاؤنٹس میں فکس ہوتی ہے۔ اب تو یہ بہت بڑا کاروبار بن چکا ہے، نوبت یہانتک پہنچ گئی کہ زیادہ سے زیادہ زکوٰۃ کی کے چکر میں زکوٰۃ ہی کی رقم سے لاکھوں کروڑوں کے اشتہارات پرنٹ میڈیا ، الیکٹرانک میڈیا اور شاہراہوں پر بل بورڈز لگائے جارہے ہیں۔
آپ حضرات دل پر ہاتھ رکھ کر ضمیر سے سوال کریں کہ جب سے بے شمار این جی او، فرقہ وارانہ مدارس اور تنظیموں نے لوگوں کی فلاح و بہبود ، مفت کھانا کھلانے، علاج معالجے اور طرح طرح کے پیکیجز شروع کئے، غربت میں کمی آئی ہے یافقیروں میں اضافہ ہوا؟۔ لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہوا ہے یا ا نکے مراکز پر منگتوں کی بھیڑ ہے۔ صحتوں میں استحکام آیا ہے یا ۔۔۔؟ زکوٰۃ لینے والوں کی تعداد کم ہوئی یا ۔۔۔؟ یقیناًحالات بد سے بدتر ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ جب کسی غریب کی عزت نفس بھی جاتی رہے اور وہ اداروں کے دروازوں پر بھکاریوں کی طرح سر عام لائنوں میں کھڑے ہونے پر مجبور ہو جائیں تو بالآخر وہ چوری، ڈاکا، صاحب حیثیت و مالکان کے گریبان میں ہاتھ ڈالنے پر مجبور ہوسکتے ہیں۔ کیا آج کل کے حالات ایسے ہی نہیں؟۔
میں نہیں کہتا کہ سارے ادارے، مدارس اور تنظیمیں غلط ہیں، ایک سے بڑھ کر ایک اللہ کے ولی ہیں مگر اکثریت ذاتی مفادات اٹھانے والوں کی ہے۔ ورنہ یہ اتنا بڑا کاروبار نہ بنتا۔ آخر میں عرض ہے کہ اگر اسی رمضان المبارک سے مخیر حضرات خود اپنے ہاتھوں سے قریب و دور کے مستحق افراد دوست، رشتہ دار ، ملازمین ، ہمسائے اور قرآن کے مطابق وہ افراد جو’’ ہاتھ نہیں پھیلاتے مگر تم ان کے چہروں سے ان کی کسمپرسی کا اندازہ لگاسکتے ہو‘‘۔ کو دینا شروع کردیا تو مجھے بارگاہ رب سے پوری امید ہے کہ اسکی رحمت جوش ماریگی۔ یقیناًاللہ کریم برکتوں کے دروازے بھی کھول دیگا۔ ایسا ہوا تو وہ ایماندار اور انتہائی مخلص لوگ جو صرف اللہ کی رضامندی کیلئے این جی اوز، مدارس اور مختلف ادارے چلا رہے ہیں وہ بھی خوش ہوجائیں گے کہ اب کسی کیلئے دست دراز نہیں کرنا پڑے گا۔ اور ذاتی مفادات اور باطل طریقے سے لوگوں کا مال کھانے والوں کا راستہ بھی رکے گا۔فقط ایک مخلص مسلمان

فوج کا قانون کی بالادستی کو تسلیم کرنا بڑے انقلاب کی ابتداء ہے. ملک اجمل

نوشتہ دیوار کے ایڈیٹرمحمد اجمل ملک نے ڈان لیکس پر تبصرہ کیا کہ یہ نئی صورتحال قوم کو نجات دلانے کاذریعہ ہے۔ فوج نے ڈان لیکس کا فیصلہ مسترد کرنے کے بعد قبول کرکے شعور کا ثبوت دیا ہے، سرحدات کی تشویشناک صورتحال کے علاوہ اپوزیشن کا منافقانہ طرزِ عمل اور وزیرِ داخلہ چوہدری نثار کی طرف سے ردالفساد کیخلاف ہرزہ سرائی ریاست کی تباہی کیلئے ایک بہت بڑا مسئلہ بن سکتا تھا۔ چوہدری نثار نے یہ کہہ کر کہ ’’مجھے ذمہ دار عہدے کی وجہ سے اس بات کی اجازت نہیں کہ کچھ بول سکوں‘‘ بہت کچھ بول دیا ۔ ڈان لیکس سے زیادہ سنگین معاملہ وزیرِ داخلہ کایہ بیان تھا۔ ریاستی اداروں کو قوم اور حکمرانوں کی تائید کی ضرورت ہوتی ہے۔ آئی ایس پی آر کا ڈان لیکس کے فیصلے کو مسترد کرنا فطری بات تھی لیکن جب حکومت و اپوزیشن دونوں نے مل کر آئی ایس پی آر کا بیان مسترد کردیا تو پاک فوج کیلئے عزت کا راستہ یہی تھا کہ جیسے تیسے فیصلے کو قبول کرلیا جائے۔ جن لوگوں کی چاہت یہ تھی کہ آرمی حکومت کا دھڑن تختہ کرے، فوج نے ان کی خواہش کی تکمیل نہ کرکے بہت اچھا کیا، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی بہت تحمل و بربادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت اور کسی اور کیخلاف انتقامی کاروائی نہیں کر رہے ہیں۔ بھاگے ہوئے زرداری واپس آگئے ، مریم نواز بھی خیر سے واپس آجائیں گی۔ ڈان لیکس کی جعلی رپورٹ کا اصل موضوع منظر عام پر نہیں تھا بلکہ میڈیا پر پاک فوج کا ٹرائیل ہورہا تھا۔ اصل بات یہ تھی کہ شہباز شریف نے ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر کو ڈانٹا تھا یا نہیں؟۔ شہباز شریف جنرل راحیل کے سامنے خواب و خیال میں بھی جسارت نہیں کرسکتا۔ مریم نواز نے ایک تیر سے دو شکار کئے، ایک فوج سے انتقام ،دوسرا شہبازکو قربانی کابکرا بناناچاہا مگر سب تدبیریں الٹی ہوگئیں۔
ڈان لیکس کا اصل معاملہ یہ تھا کہ شہباز شریف اتنا بڑا ڈان نہیں کہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی ڈانٹ ڈپٹ کرسکے۔ پاک فوج کو اس نازیبا حرکت پر غصہ آیا تھا۔ حکومت نے خود بھی اس کو بہت بڑی سازش قرار دیا، جب کئی مہینوں کے بعد ان لوگوں کو مجرم قرار دیا گیا جو اس کھیل کا حصہ بھی نہیں تھے تو آئی ایس پی آر نے اس کو مسترد کیا، اپوزیشن لیڈرسید خورشید شاہ نے آئی ایس پی آر کے بیان کو معقول قرار دیا لیکن آصف زرداری کے ترجمان فرحت اللہ بابر اور اعتزاز احسن کا بیان آیا کہ ’’ آئی ایس پی آر کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وزیراعظم کے فیصلے کو مسترد کردے‘‘۔ حالانکہ اس بیان کی وزیرداخلہ چوہدری نثار نے بھی تردید کی تھی۔ آئی ایس پی آر تو ایک فریق تھا مگرچوہدری نثار نے کس طرح وزیراعظم ہاؤ س سے جاری ہونے والے بیان کی تردید کی تھی؟۔ چوہدری نثار نے آئی ایس پی آر کے بیان کو افسوسناک قرار دیا تھا۔ گدھے سے کسی نے پوچھا کہ ڈھینچو ڈھینچو کیوں کرتے ہو؟۔ تو اس نے کہا کہ لوگوں کو ڈراتا ہوں۔ پھر پوچھا کہ ٹیٹ کیوں مارتے ہو؟، تو اس نے کہا کہ خود بھی تو ڈرتا ہوں۔ چوہدری نثار نے اپنے بیان میں دونوں کام کئے تھے۔
حکومت عوام کو بچوں کی طرح بے شعور نہ سمجھے۔ وزیراعظم ہاؤس اور جی ایچ کیو کے درمیان اس لڑائی کو اس طرح کا رنگ دیناغلط ہے کہ گویا یہ گدھا اور گدھی کا کوئی جنسی اسکنڈل تھا، گدھے کا طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ دانت نکال کر گدھی پر چڑھ دوڑتا ہے، گدھی لاتیں مارتی ہے ، دیکھنے والے اس گھمسان کی جنگ سے پریشان ہوکر سمجھتے ہیں کہ کمزور جنس اپنی جان سے جائیگی، اچانک پھر پتہ چلتا ہے کہ سیٹلمنٹ ہوگئی ہے اور قصہ ختم۔ کہتے ہیں کہ گدھے کی محبت لات مارناہے۔ فوج اور حکومت کے درمیان جس ڈرامائی انداز میں رومانس کا کھیل اپنے اختتام کو پہنچاہے وہ بڑا انوکھا طرزِ عمل ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ وزیراعظم ہاؤس کا بیان قانون کی بالادستی اور طاقتور ترین ادارے فوج نے اس کو قبول کیا ہے۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ طاقتور لوگ قانون کو مانتے نہیں۔ پاک فوج نے قانون کی بالادستی تسلیم کرکے قوم کو نئی راہ پر ڈالا ہے۔ یہ زبردست انقلاب کا پیش خیمہ ہے کہ طاقتور ترین ادارے نے قانون کی بالادستی قبول کرلی ہے۔ اس کی مثبت انداز میں بڑے پیمانے پر اتنی تشہیر کرنے کی ضرورت تھی کہ ہر طاقتور اپنی سطح پر قانون کے سامنے جھک جائے لیکن افسوس کہ اس کو منفی انداز میں پیش کرکے قوم ، ملک اور سلطنت کا جنازہ نکالا جارہا ہے۔جب مسلمانوں کو غزوہ بدر میں فتح کے بعد تنبیہ کی گئی کہ’’نبی کیلئے یہ مناسب نہ تھا کہ اس کے پاس قیدی ہوں یہاں تک کہ خوب خون بہاتے، تم دنیا چاہتے ہو، اللہ آخرت چاہتاہے، اگر پہلے سے اللہ لکھ نہ چکا ہوتا تو سخت عذاب دیتا، جن لوگوں سے فدیہ لیا گیا، اگر انکے دلوں میں خیر ہے تو اللہ اسکا بہتر بدلہ دے گا اور اگر انکے دلوں میں خیانت ہے تو اللہ ان سے نمٹ سکتا ہے‘‘۔ قرآن کی وحی سے یہ مسلمانوں کا تزکیہ ہورہاتھا، ان کو حکمت عملی کی تعلیم دی جاری تھی پھر جب مسلمانوں نے غزوہ احد میں شکست کھائی تو بدلہ میں تجاوز کرنے کی قسمیں کھانے لگے لیکن اللہ نے فرمایا کہ اگر تمہیں زخم لگا ہے تو ان کو بھی پہلے لگ چکا ہے۔ کسی قوم کے انتقام کا جذبہ وہاں تک نہ لے جائے کہ تم عدل نہ کرو اور انہوں جتنا کیا ہے ، اتنا ہی تم بھی کرسکتے ہو، اگر معاف کردو، تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے، معاف ہی کردو اور معاف کرنا بھی اللہ کی توفیق کے بغیر تمہارے لئے ممکن نہیں‘‘۔ شکست میں بھی تزکیہ ہی کیا جارہا تھا، پھر جب مسلمانوں کا اچھا خاصا تزکیہ ہوگیا، حکمت سیکھ گئے تو صلح حدیبیہ کامعاہدہ ہوا، جو مسلمانوں کیلئے قطعی طور پر قابلِ قبول نہیں تھا لیکن اللہ نے اس کو فتح مبین قرار دیدیا۔
کوئی بھی ایسا ماحول نہیں چاہتا جس میں اپنی خواہشات کے برعکس معاملہ سامنے آجائے مگر اللہ تعالیٰ اس سے انسانوں کو دوچار کردیتا ہے۔ امریکہ سے جنگ لڑنے والے طالبان کی پشت پر مسلمان ہی نہیں پوری دنیا بھی خفیہ طور سے کھڑی تھی ، نیٹو کو شکست دینا آسان نہ تھا مگر مجاہدین نے سینہ سپر ہوکر زبردست قربانیاں دیں۔ ان لوگوں کی بدقسمتی یہ تھی کہ تزکیہ وحکمت سے محروم تھے اس لئے ایک اچھے موقع کا غلط فائدہ اٹھایا، خود کو بھی تباہ کیا اور اپنے چاہنے والوں کو بھی تباہ کیا۔آج ن لیگ کو ایک موقع ملا ہے ،پاک فوج تو ریاست کی ملازم ہے ، کوئی کسی کا ذاتی غلام ہو تب بھی اسکے ساتھ زیاتی کرنے کا حق نہیں ہوتا۔ جب دھرنے کے موقع پر نوازشریف نے راحیل شریف سے کردار ادا کرنے کی گزارش کی تو خورشید شاہ نے گرج برس کر کہا کہ ’’یہ تم نے کیا کیا؟‘‘ نواز شریف نے کہا کہ ’’میں نے جنرل راحیل سے کوئی کردار ادا کرنے کیلئے نہیں کہا‘‘، آئی ایس پی آر نے پھر وضاحت کردی لیکن خواجہ سعد رفیق نے میڈیا سے سوال کے جواب میں کہا کہ ’’ وزیراعظم کا کام حکم دینا ہوتا ہے درخواست کرنا نہیں‘‘۔ حالانکہ وزیراعظم کا کام اپنی حدود وقیود کے اندر رہ کر حکم دینا تھا اور دھرنے کو روکنا، ان سے بات چیت کرنا اور سیاسی طور سے ڈیل کرنا فوج کی ذمہ داری تھی اور نہ ہی اس کا وزیراعظم حکم دے سکتے تھے۔ ن لیگ عدالتوں پر تو چڑھ دوڑنے اور آرمی چیف جہانگیر کرامت کو ذلیل کرکے ہٹانے کا قصہ بھی رکھتی ہے اور اگر پرویزمشرف بھی پیٹھ میں چھرا گھونپنے سے نہ بچتے تو آج مغل بادشاہوں کی طرح نوازشریف پاک فوج کو بھی ذاتی غلام بنالیتی۔ فوج طاقتور ادارہ ہے اور اس کی تاریخ ’’حق مانگنا توہین ہے حق چھین لیا جائے‘‘ رہی ہے۔جس پریس کانفرنس کے ذریعے سے ڈان لیکس کے فیصلے کو قبول کرلیا ، تو قبول اور مسترد کرنے میں قانونی اعتبار سے کوئی فرق نہیں ۔جو سیاستدان، نامی گرامی وکیل اور صحافی یہ کہتے ہیں کہ آئی ایس پی آر کو رپورٹ مسترد کرنے کا حق نہیں ، ان کو یہ بھی کہنا چاہیے تھا کہ قبول کرنے کا بھی حق نہیں، بس وزیراعظم ہاؤس سے برآمد ہونے والا اعلامیہ وہ دلہن ہے جسکو مسترد اورقبول کرنا کوئی معنیٰ نہیں رکھتاہے۔ ن لیگ نے میڈیا ہاؤس کو خرید کر جس قسم کا ماحول پیدا کیا ، اس میں ایک آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کا الجھ جانا بعید از قیاس نہیں تھا۔ گدھے گدھی کا جنسی منظر نامہ ایسارومانس ہوسکتا ہے جس میں کاٹنے اور دولوتیاں مارنے کے بعد عوام سے کہا جائے کہ ہم محبت کررہے تھے اور تم نے ہمیں آمنے سامنے لا کھڑا کیا۔ یہ فوج کے کافی حد تک تزکیہ کی دلیل ہے کہ وہ اپنے اوپر تاریخ کی سخت ترین تنقید کو خندہ پیشانی سے برداشت کررہی ہے۔ مریم نواز کا نام رپورٹ سے نکالنے کے جواب میں آئی ایس پی آرکے لبوں پر مسکراہٹ آئی۔ وزیراعظم ہاؤس کیلئے اس سے بڑی شکست اور کیا ہوسکتی ہے کہ رنگ میں لڑنے والے کھلاڑی میں کسی کی ہار جیت نہیں ہوئی بلکہ یہ پہلی نوراکشتی تھی جس میں رنگ سے باہر افراد کے نام شکست خوردہ اور سزا یافتہ ہیں۔ جسکا اظہار طارق فاطمی، راؤ تحسین اور پرویز رشید نے بھی کیا ۔ یہ جمہوریت کی فتح نہیں شکست ہے کہ آمروں کی طرح غلط فیصلہ مسلط کیا گیا جس پر آئی ایس پی آر بھی بجا طور سے مسکرائے ۔ وزیراطلاعات مریم اورنگزیب نے سچ کہا کہ ’’یہ کسی کی شکست و جیت نہیں بلکہ قوم کی جیت ہے‘‘۔ قوم کی جیت اسلئے ہے کہ ہمیشہ طاقتور اپنی طاقت کے زور پر اپنا حق چھین لیتا ہے لیکن اس مرتبہ پاک فوج نے بھی طاقتور ہونے کے باوجود اپنے حق کیلئے زور نہیں لگایا۔اگر یہ جمہوری وطیرہ بن جائے کہ جرم کوئی کرے اور سزا کسی کو دی جائے اور وزیراعظم ہاؤس کا یہ فیصلہ ہو کہ طاقتور فوج کو بھی انصاف نہ مل سکے تو پھر اس سے بڑھ کر ظلم وجبر کی انتہاء کیا ہوسکتی ہے؟۔ قوم کا خیر خواہ طبقہ اس بات پر بجا طور سے خوش ہے کہ جن کمزور لوگوں کو طاقتور اچھوت سمجھ کر ظلم و زیادتی کا نشانہ بناتے تھے، آج فوج بھی ہمارے ساتھ شاملِ حال ہوگئی ، جس سے مظلوموں کا حوصلہ بڑھا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا یہ کہنا غلط ہے کہ ’’ ڈان لیکس پر بال کی کھال نہ اتاریں‘‘ اسلئے کہ کھال تو اترگئی ہے ، صرف بال ہی رہ گئے ہیں۔ کھال کے بغیر بالوں کی اتنی بھی حیثیت نہیں ہوتی ہے جتنی دہشت گرد اپنے عروج کے دور میں جعلی داڑھی اور جعلی بال لگایا کرتے تھے۔
عمران خان نے عدالت اور فوج سے جو توقعات وابستہ کررکھی تھیں تو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جمہوری معاشرے میں جہاں عوام کا ضمیر پیسوں سے خریدا جاتا ہو ، وہاں سب ہی دولت کی چمک کے آگے بے بس ہوجاتے ہیں۔ جب عمران خان نے اسلام آباد کو بند کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن خود بنی گالہ کے گھر سے بھی باہر نہیں آئے تو تحریکِ انصاف کے کارکنوں کو فوج پر سوشل میڈیا میں تنقید کے تیر چلانے سے پہلے اپنے قائد کی بھی بھرپور خبر لینی چاہیے۔ مسلم لیگ کا ایم این اے اپنی قیادت پر تنقید کی جرأت کرکے یہ بھی کہے کہ ’’چوہدری نثار نے اپنی بیٹی کو بھارت سیف گیمز کیلئے بھیجا تھا‘‘ ، تو چوہدری نثار کی طرف سے اعتزاز احسن کو ذاتیات پر جواب دینے سے زیادہ مناسب یہ تھا کہ اپنی بیٹی کی عزت پر حملہ کرنے کا جواب دیتا، اگر سندھ میں رینجرز عذیر بلوچ کے سرپرست ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو کچھ نہ کہے اور پیپلزپارٹی کی قیادت آصف زرداری کو ٹھیس پہنچانے کیلئے اس کے ساتھیوں کو انتقام کا نشانہ بنائے اور پھر چوہدری نثار بیان دے کہ ہم اپنی فورسزز کیساتھ کھڑے ہیں اور جب ڈان لیکس پر فوج سے معاملات خرابی کا شکار ہوں تو ردالفساد میں بھی وزیرداخلہ پاک فوج پر الزام تراشی کرے تو یہ حکومت اور اپنی ریاست کو ذاتی غلام کی طرح سمجھنے سے کم نہیں ہے۔
میرے دوست خالد نے بتایا کہ 1985ء میں نوازشریف وزیراعلیٰ بنے تو والد کے دوست نے بتایا تھا کہ ایک ہندوکی مل تھی، جس میں میاں شریف کا چاچا ملازم تھا، اس نے1937ء میں میاں شریف کو بھی منشی کی حیثیت سے وہاں بھرتی کروایا، تقسیم کے بعد حالات خراب ہوگئے تو ہندو بھاگااور مل کی چابی میاں شریف کے پاس تھی، اس طرح وہ اس کا مالک بن گیا۔ پھر کراچی میں کسی میمن سے وہ فرم خرید لی جس کو انگریز ملازم چلاتا تھا، فرم لاہور منتقل کردی، انگریز چھٹی پر جارہا تھا تو اپنا کام کسی کو نہیں سکھا رہا تھا لیکن شریف پر اعتماد کرکے اپنا کام سکھایا، پھر چھٹیوں کے بعد آیا تو اس نے آنکھیں پھیر لیں۔ شریف برادران بیرونِ ملک سے اپنی پراپرٹی پاکستان منتقل کریں کہیں الطاف بھائی کی طرح دولت سے محروم ہی نہ کردیا جائے۔ابن انشاء کی روح سے معذرت کیساتھ
کل چودہویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرا ترا
کل فیصلے کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا
دو نے کہا یہ چور ہے اور تین بولے رُک جا ذرا
سب جو وہاں موجود تھے ناچا کئے گایا کئے
گلو ترا بلو ترا احسن ترا خواجہ ترا
عزت کی تو بس خیر ہے آتی ہے یہ جاتی ہے یہ
اس فیصلے سے جو بھی ہوا بس بچ گیا عہدہ ترا
تجھ پر قلم پھیرا نہیں باقی کسی کو گھیرا نہیں
کیسے بچا سمدھی ترا بیٹی تری بیٹا ترا
JIT بھی ڈھونڈ لے قبر پہ جاکر پوچھ لے
باقی کسی کا کیا گناہ بس پھنس گیا باوا ترا
عامر بڑا ’’ممنون‘‘ ہے کیسا عجب قانون
مل بھی تری، ول بھی تری پھر بھی نہ اک پیسہ ترا

مشال خان کے قاتلوں کا جذبہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا ذریعہ کیسے بن سکتا ہے؟ عتیق گیلانی

میں (عتیق گیلانی) نے لاہور ، اوکاڑہ ، گوجرانوالہ ، اسلام آباد ، پشاور ، نوشہرہ، مردان اور صوابی کا مختصر دورہ کیا ، اتحاد العلماء جماعت اسلامی نے جو پشاور میں علماء و مشائخ کانفرنس منعقد کی اس میں بھی مختصر شرکت کی۔ مشال خان کے والد سے بھی معلومات لیں۔ اسکے والد نے بتایا کہ ’’پورا گاؤں زیدہ صوابی گواہ ہے کہ میرے بیٹے نے کبھی کسی سے کوئی لڑائی جھگڑا نہیں کیا ، عام آدمی کو بھی کبھی گالی نہیں دی۔ رسول اللہ ﷺ کی توہین کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ پانچ وقت کا نمازی اور روزانہ قرآن کی تلاوت کرتا تھا۔ بس ایک غریب کا بیٹا تھا ، اسکی قابلیت کی اسکو سزا دی گئی۔ میرے بیٹے کیساتھ جو ہوا سو ہوا مگر کسی اور غریب کے بیٹے کیساتھ ایسا نہ ہو۔ اسلئے میں برسر اقتدار طبقہ سے انصاف چاہتا ہوں، مولانا فضل الرحمن نے ٹھیک بات کہی، البتہ کچھ علماء اسکی پارٹی کے شرپسندی کا مظاہرہ کررہے ہیں جس کی وجہ سے شریف علماء بھی دباؤ کا شکار ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان جیل میں ہم اور مولانا فضل الرحمن اکھٹے تھے، میں نے مفتی محمودؒ کے پیچھے بھی نماز پڑھی ہے، اس واقعہ پر بہت لوگ دور دور سے افسوس کا اظہار کرنے آئے‘‘۔ مولانا فضل الرحمن کی ویڈیو یو ٹیوب پر ہے ، مولانا شجاع الملک کا بیان بھی موجود ہے۔ دونوں بیانات میں تضادات ہیں اور ان تضادات کو سنجیدگی سے ختم کرنے کا تہیہ کیا جائے تو اسلام و پاکستان کا پوری دنیا میں بول بالا ہوسکتا ہے ، علماء کرام کسی کا دُم چھلہ نہ بھی بنیں تو عوام کا جم غفیر انکو اقتدار میں لائیگا، پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے اور اسلام ہی کی بنیاد پر پاکستان رہیگا۔
مولانا فضل الرحمن نے تحریک انصاف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ’’ اس پارٹی کو بیرونی ایجنڈے کے تحت پاکستان میں سازش کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ اس نے سب سے پہلے قادیانیوں سے مدد لی۔ اس واقعہ میں مشال خان کو یونیورسٹی کے ساتھیوں نے الزام کی بنیاد پر قتل کیا ، اگر تحقیق کے بعد ثابت ہوجائے کہ الزام غلط تھا تو ہم اسکے ساتھ کھڑے ہیں۔ اگر ثابت ہوجائے کہ الزام درست تھا تب بھی قاتلوں کو قانون ہاتھ میں لینے کا حق نہیں تھا۔ یہ ہمارا مؤقف بالکل واضح ہے۔ اسمبلی میں اس بات پر بحث ہورہی ہے کہ توہین رسالت کا قانون درست ہے مگر اسکا غلط استعمال روکا جائے۔ حالانکہ یہ اسوقت کہا جاسکتا ہے کہ جب قانون کا غلط استعمال ہو جبکہ یہاں تو قانون کا استعمال ہوتا ہی نہیں اگر ہوتا تو اس قسم کے واقعات بھی پیش نہ آتے‘‘۔
مولانا فضل الرحمن ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں اور اپنی بات کو گول مول پیش کرنے میں بڑی مہارت کی شہرت رکھتے ہیں۔ اگر وہ اسلام کی خاطر نہیں اپنے سیاسی مخالف کو ٹھکانے لگانے کی خاطر بھی یہ کہتے کہ ’’عبد الولی خان یونیورسٹی کی انتظامیہ کا تعلق تحریک انصاف سے ہے ، جب مشال خان نے انتظامیہ کیخلاف کرپشن پر آواز اٹھائی تو اس پر توہین رسالت کے حوالے سے جھوٹا الزام ایک تیر سے دو شکار تھے، ایک اپنے کرپشن کو چھپانا اور دوسرا توہین رسالت کے حوالے سے طالب علموں کے جذبات کو غلط استعمال کرکے دنیا بھر میں اسلام کو بدنام کرنا تھا تاکہ اس قانون کی پاکستان سے چھٹی کرائی جائے‘‘۔ مولانا فضل الرحمن مشال خان کے والد سے تعزیت کرنے پہنچ جاتے اور ان کو پورا پورا انصاف دلانے کی یقین دہانی کراتے تو بڑی تعداد میں عوام کے دل جیت لیتے۔ ایک طرف موم بتی گروپ علماء سے نفرت کا اظہار کرے اور دوسری طرف علماء اپنے اقدام کے سبب لوگوں کی نظر میں انتہائی گراوٹ کا شکار ہوں تو یہ ملک و قوم کیلئے بہت بڑا المیہ ہے۔
مولانا شجاع الملک نے اپنے جلسہ میں مذہبی طبقے کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنا بیانیہ بہت اچھے انداز میں پیش کیا کہ ’’دنیا بھر میں قتل ہوتے ہیں ، ظلم و جبر کا بازار گرم ہوتا ہے مگر اقوام متحدہ، بیرونی ممالک اور ہمارے حکمران طبقات اور میڈیا ٹس سے مس نہیں ہوتا لیکن جب توہین رسالت کے مرتکب کو سزا دینے کی بات ہوتی ہے تو سب ایک زباں ہوکر شور مچاتے ہیں۔ جب اصلاحات کے حوالے سے مجھے ہری پور جیل جانا پڑا ،تو پھانسی کی چکیوں میں مردانیوں کی اکثریت تھی، 134 میں سے 128پھانسی کے منتظر مردانی تھے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر کہ تم نے ماں کو گالی دی ہے اور میرے کتے کی توہین کی ہے اسلئے قتل کرتا ہوں۔ جب رسول اللہ ﷺ کی توہین پر ایک قتل ہوا تو یہ دنیا کھڑی ہوگئی کہ بڑا جرم ہوگیا ہے۔ حالانکہ اگر مشال مجرم نہ بھی تھا تو چھوڑ دیتے کہ چلو اچھا ہوا کہ ایمان اور اسلام کیلئے مردانیوں نے یہ قربانی دی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس کی شلوار نکل گئی مگر بہت سوں کی نکلی ہے تو ایک اسکی بھی نکل گئی تو کیا ہوا؟۔ کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا اور ہمارے بہت محترم شخصیت مسجد کے امام نے اس کو لوگوں سے بچا کر پولیس کے حوالے کیا۔ لوگوں نے مولانا کی گاڑی بھی جلادی اور وہ اب تک عوام کے خوف سے مفرور ہیں۔ اس ملک میں قانون کسی اور کیلئے نہیں ہے صرف مولوی کیلئے ہے اور مولوی پاسداری بھی کرے تو بھی اس کو ٹھکانہ نہیں ملتا۔ ہم اس کارنامے پر مشال خان کے قاتل غازیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور اگر مشال خان کے جرم کا کوئی گواہ نہیں تو حاضرین تم سب اسکے گواہ ہو ، سب نے کہا کہ ہاں ہم گواہ ہیں‘‘۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا شجاع الملک نے اپنے ایمانی جذبات کا بہت بہادری کے ساتھ اس وقت اظہار کیا کہ جب قانون نافذ کرنے والے مشال خان کے قاتلوں اور انکو اشتعال دلانے والوں کی پکڑ دھکڑ میں مصروف تھے۔ ایک طرف میڈیا نے وہ مناظر دکھائے جب تحریک انصاف کے جلسوں میں کارکن کسی لڑکی کو بھنبھوڑ رہے تھے تو دوسری طرف تحریک انصاف کا نمائندہ کونسلر ، یونیورسٹی انتظامیہ اور کالج کے لڑکے مشال خان کو مذہبی جذبے کے تحت قتل کرکے تشدد کا نشانہ بنارہے تھے۔ تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے دونوں مظلوموں سے ہمدردی کا اظہار کیا لیکن ایک میں انصاف کے تقاضے پورے ہوئے یا نہیں دوسرے کا بھی پتہ چل جائیگا۔ مولانا شجاع الملک نے اپنے قائد مولانا فضل الرحمن کی طرح اس موضوع پر اپنی سیاست چمکانے کے بجائے صرف اور صرف مذہبی جوش و خروش اور جاہ و جلال کا مظاہرہ کیا ہے جو خوش آئند ہے۔
سورہ فاتحہ کے بعد اللہ نے سورہ بقرہ کی ابتداء میں بسم اللہ کے بعد فرمایا: ذٰلک الکتٰب لاریب فیہ ہدی للمتقین ’’یہ وہ کتاب ہے جس میں شک نہیں ہدایت دیتی ہے متقیوں کو‘‘ ۔ حضرت عمرفاروق اعظمؓ کیلئے رسول اللہ ﷺ نے ہدایت کی دعا فرمائی۔ اس دعا میں عمرو بن ہشام ابوجہل بھی شامل تھا۔ ابو جہل ایک سیاسی و مذہبی قائد تھا۔ اس نے ایک اجتماع میں عوام کو بھڑکایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمارے معبودوں کی توہین کی ہے ، بھائی کا بھائی سے جھگڑا ہے اور بیٹے کا باپ سے۔ اس فتنے کو ختم کرنے پر قوم کی طرف سے 100اونٹوں کا انعام دیا جائیگا‘‘۔ حضرت عمرؓ ایک جذباتی انسان تھے مگر ان کے دل میں لالچ نہیں تھی۔ تلوار نیام سے نکال کر رسول اللہ ﷺ کو قتل کرنے کی غرض سے روانہ ہوئے تو راستے میں کسی نے خبر دی کہ تمہارا بہنوئی بھی اسلام قبول کرچکا ہے۔ حضرت عمرؓ نے رُخ موڑا ، بہنوئی اور بہن کی پٹائی لگانی شروع کی ، جب استقامت کا مظاہرہ دیکھا تو کہا کہ مجھے بھی قرآن کے اوراق دکھادو ، بہن نے کہا کہ تم پہلے غسل کرلو۔ قرآن کا پڑھنا تھا کہ حضرت عمرؓ کی کیفیت بدل گئی اور اسلام قبول کیا۔ پھر حضرت عمرؓ کے ذریعے سے اسلام کو کھلم کھلا وہ تقویت ملی جس کی وجہ سے آپ کو فاروق اعظم کا خطاب مل گیا تھا۔
سید الشہداء حضرت امیر حمزہؓ کو شہید کرکے کلیجہ نکالنے والے وحشیؓ اور کلیجہ چبانے والی ہندہؓ کو بھی اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی توفیق دی، جن کا چہرہ بھی رسول اللہ ﷺ سے دیکھا نہیں جاتا تھا۔ اس مشال خان کے واقعہ کا جو بھی پس منظر ہے ، قاتلوں کیساتھ اسکے کوئی ذاتیات نہیں تھے ، جن لوگوں نے قتل کے بعد بھی انتہائی سلوک کیا ان میں بہر حال دین ، مذہب اور رسول اللہ ﷺ سے محبت ہی کا جذبہ کار فرما تھا۔ مولانا شجاع الملک کی سوچ مردان کے حوالے سے ماحول کا حصہ ہوسکتی ہے مگر قرآن کسی ایک بے گناہ کے قتل کو تمام انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے۔ اگر کسی مخالف مکتبہ فکر کی عوام یہ غلط پروپیگنڈہ کریں کہ مولانا شجاع الملک توہین رسالت کا مرتکب ہے اور اسکے ساتھ وہی سلوک روا رکھا جائے جو مشال خان کیساتھ روا رکھا گیا تو مولانا شجاع الملک کے لواحقین بھی ہمدردی کے لائق ہونگے۔ اسلام میں لاش کیساتھ مسخ کرنے کا سلوک ناجائز ہے تو کوئی مولانا اس کو جواز نہیں بخش سکتا۔ شلوار کا نکلنا اس کیلئے بہت بڑی توہین ہے جس کی عادت نہیں بگڑی ہو۔ جس کی عادت رہی ہو اس کیلئے واقعتا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ ہمیں اس سے بحث نہیں کہ مشال خان بے گناہ تھا یا مجرم تھا، سوال یہ ہے کہ قاتلوں نے جس جذبے کے تحت اسکے ساتھ یہ سلوک کیا ہے وہ جذبہ ٹھیک تھا یا غلط؟۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ درست جذبے کواجاگر کرکے اسکا غلط استعمال روکا جائے، مولانا فضل الرحمن کی یہ بات درست ہے کہ توہین رسالت کے قانون کیخلاف سازش ہورہی ہے، مگر بات قانون کے درست یا غلط استعمال کی نہیں بلکہ اس جذبے کو غلط استعمال کرنے کی ہے، اگر مشال خان نے توہین نہیں کی تھی اور مولانا فضل الرحمن اسکے ساتھ کھڑے ہیں اور قاتلوں کو مجرم ہی سمجھتے ہیں تو مولانا شجاع الملک اور مولانا فضل الرحمن کے تضادات کو کیسے دور کیا جائیگا؟۔
ایک بہت بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ اور حضرت وحشیؓ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کے ذریعے ہدایت دیدی مگر علماء اور مذہبی طبقات کی اکثریت ہدایت پانے کی توفیق سے کیوں محروم ہیں؟۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اقتدار اور دولت کی لالچ نے ان کو ہدایت سے محروم کیا ہے۔ حضرت امیر حمزہؓ کو شہید کرنے والے وحشیؓ نے بھی لالچ میں کارنامہ انجام دیا تھا مگر پھر بھی ان کو ہدایت مل گئی۔ دولت اور اقتدار کی لالچ تو بہت لوگوں کو ہوتی ہے۔ انصارؓ و مہاجرینؓ ، عشرہ مبشرہ کے صحابہؓ کے بعد بنو اُمیہ ، بنو عباس اور خلافت عثمانیہ کے ادوار میں بڑے اور اچھے لوگ بھی دولت اور اقتدار کی لالچ میں مبتلا ہونے کے باوجود ہدایت سے محروم نہیں رہے۔ جبتک اتمام حجت نہ ہو تو اللہ تعالیٰ بھی کسی قوم کو عذاب نہیں دیتا وما کنا معذبین حتیٰ نبعث رسولاً ’’اور ہم کسی کو عذاب نہیں دیتے مگر جب کسی رسول کو مبعوث کردیں‘‘۔ رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے بعد رسالت کا سلسلہ ختم ہوچکا اور اب عوام و خواص کی اکثریت کسی امام ہدایت یا امام مہدی کیلئے چشم براہ کھڑی ہے۔
میں نے جمعیت علماء اسلام کے سابقہ ضلعی امیر ، سرپرست اعلیٰ اور صوبائی نائب امیر مولانا فتح خان مرحوم کے سامنے یہ بات رکھی کہ اجتہاد کی تعریف کیا ہے؟۔ انہوں نے فرمایا کہ جو قرآن و حدیث میں نہ ہو۔ میں نے عرض کیا کہ بسم اللہ قرآن و حدیث میں ہے اور اس پر اجتہاد کی گنجائش ہے؟۔ فرمایا کہ بسم اللہ قرآن و حدیث میں ہے اور اس پر اجتہاد کی گنجائش نہیں۔ پھر میں نے عرض کیا کہ مساجد میں جہری نمازوں میں بسم اللہ کو جہر کیساتھ نہیں پڑھا جاتا ہے ، درس نظامی میں ہے کہ درست بات یہ ہے کہ بسم اللہ قرآن کا حصہ ہے مگر اس میں شبہ ہے ۔ تو کیا پھر ذٰلک الکتاب لاریب فیہ پر ایمان باقی رہتاہے؟۔ مولانا فتح خان نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے عرض کیا کہ امام مالک کے نزدیک بسم اللہ قرآن کا جز نہیں اسلئے فرض نماز میں اس کا پڑھنا جائز نہیں، امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ بسم اللہ سورہ فاتحہ کا بھی جز ہے اسلئے اسکے بغیر نماز نہیں ہوگی جبکہ حنفی مسلک میں یہ مشکوک ہے تو کیا بسم اللہ پر اجتہاد کی گنجائش ہے؟۔ مولانا فتح خان نے کہا کہ جو بات آپ کررہے ہیں اگر میں یہ بات کروں تو مسجد میں ہی مجھے مار دیا جائیگا۔ چھوٹے مولوی قرآن پر ایمان رکھتے ہیں مگر درس نظامی کو نہیں سمجھتے اور جو بڑے سمجھتے ہیں وہ چھوٹوں سے گھبرارہے ہیں۔
مشال خان کا والد مضبوط اعصاب کا مالک ہے ، اگر وہ قاتلوں کو فی سبیل اللہ معاف کرکے صرف یہ مکالمہ کرلے کہ ہمارا قرآن پر ایمان ہے ، جو مولوی حضرات اپنے نصاب میں قرآن کے بارے میں یہ پڑھاتے ہیں کہ المکتوب فی المصاحف المنقول عنہ نقلاً متواترا بلا شبہ ’’جو مصاحف میں لکھا ہوا ہے ، آپ ﷺ سے تواتر کیساتھ بغیر کسی شبہ کے نقل ہوا ہے۔‘‘ سے مراد قرآن کے لکھے ہوئے نسخے نہیں ۔ فتاویٰ قاضی خان ، فتاویٰ شامیہ میں صاحب ہدایہ کی طرف منسوب ہے کہ سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے اور قرآن کی کچھ آیات موجودہ قرآن میں شامل نہیں جو غیر متواتر ہیں ۔ قرآن کی توہین پر مشال کے قاتل یہ سبق پڑھانے والے علماء کو بھی سزا دینگے ؟ ۔ اگر درس نظامی سے یہ تعلیم نکالی جائے تو علماء کو بھی ہدایت مل جائے گی۔

اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا بہترین و مستند ترین نمونہ

سورۂ واقعہ میں السٰبقون السٰبقون کی دو جماعتوں کا ذکر ہے ، جومقرب ہیں، پہلوں میں بڑی جماعت اور آخر میں تھوڑے سے۔ جبکہ دوسرے درجے میں اصحاب الیمیں کا ذکر ہے ، جن کی میں پہلوں میں بھی بڑی جماعت ہے اور آخر والوں میں سے بھی بڑی جماعت ہے۔قرآن میں سبقت لے جانیوالوں کیلئے آخر میں قلیل من الاٰ خرین کا ذکر ہے اور اصحاب الیمین کیلئے بھی آخر میں بڑی جماعت کا ذکر ہے۔ ان دونوں درجات کی حامل جماعتوں کی احادیث میں بھی بھر پور طریقے سے وضاحت ہے۔
حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت کو آخری دور میں حکمرانوں کی طرف سے سختیاں پہنچیں گی، ان میں سے کوئی محفوظ نہ ہوگا مگر وہ آدمی جس نے اللہ کے دین کو پہچانا اور اسکے ذریعے زباں، ہاتھ اور دل سے جہاد کیا، یہ وہ ہے جو سبقت لے جانے والوں میں شامل ہوگیا، فذٰلک الذی سبقت لہ السوابق، دوسرا وہ شخص جس نے اللہ کے دین کو پہچانا اور پھر اسکے ذریعے سے تصدیق بھی کردی۔ تیسرا وہ شخص ہے جس نے اللہ کے دین کو پہچان لیا، پھر کسی کو خیر کا عمل کرتے دیکھا تو اس سے محبت رکھی اور باطل عمل کرتے دیکھا تو اس سے دل میں بغض رکھا، یہ شخص حق کو چھپانے کے باوجود بھی نجات کا مستحق ہے۔ مشکوٰۃ، ص438۔ عصر حاضر ۔ مولانا یوسف لدھیانویؒ
بفضل تعالیٰ ہم نے 1988ء میں حاجی محمد عثمانؒ کیخلاف معروف علماء ومفتیان کے غلط ، گمراہ کن اور مفادپرستی کی بنیاد پر دئیے جانے والے فتوؤں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔بہت سے علماء ومفتیان نے کھل کر اعلانیہ ہمارا ساتھ دیا اور بہت سے درپردہ ہمارے ساتھ تھے، پھر ہم نے 1991ء میں روزنامہ جنگ کراچی، کوئٹہ، لاہور سے ایک اشتہار دیکر باقاعدہ خلافت کے قیام کا اعلان کیا۔خلافت پرالمارودی کی کتاب’’الاحکام السلطانیہ‘‘میں واضح ہے کہ ’’عالم اسلام کے تمام مسلمانوں پر ایک امام کا تقرر فرض ہے۔ جہاں سے جو لوگ بھی پہل کریں دوسرے تمام مسلمانوں پر اس کی اتباع ضروری ہے اور اسکے مقابلہ میں جو امام کھڑا ہو،اس کی گردن ماری جائے‘‘۔ کتابچہ ’’ خلافت علی منہاج النبوۃ کے وجود مسعود‘‘ لکھ کر شائع کیا،کانیگرم وزیرستان کے مولانا اشرف خان کو اپنے مشن کا بتایا تو بہت خوشی کا اظہار کیا، مولاناشاداجان نے کہا کہ مولوی محمد زمان کوقائل کرلو تو مسئلہ نہیں بنے گا۔ مولوی محمد زمان کو تفصیل سے بتایا کہ ہمارے ہاں فتنہ وفساد کی جڑ دومتوازی قوانین ہیں، جس کو شریعت کا قانون مفاد میں لگتاہے وہ فریق شرع کی بنیاد پر فیصلہ کرنا چاہتاہے، جس کو پشتو کے قانون کے مطابق مفاد میں لگتاہے وہ روایتی قانون سے چاہتاہے۔ جب کسی بات پر اتفاق نہیں ہوتا تو قتل وغارت تک بات پہنچتی ہے، جب ایک قانون متعین ہوگا تو فتنہ وفساد کی جڑ ختم ہوگی، جب شرع کی حدود نافذ ہونگی تو وزیرستان جرائم کے بجائے امن اور امان کا گہوارہ بن جائیگا۔ قبائل میں اسلامی ریاست کا نمونہ پاکستان کیلئے مشعل راہ ہوگا۔ یوں پورا پاکستان ، افغانستان اور ایران سے اسلامی خلافت کا آغاز ہوگا، ہندوستان کے مسلمان بھی ہمارے ساتھ اٹھ کھڑے ہونگے اور بھارت کے حکمرانوں کو شکست دینگے۔ پھر عرب اور دنیا کے تمام مسلمان ریاستوں کو شریک کرکے عرب کو مرکز بنادینگے۔ مگر حدود کے نفاذ کا اعلان کرنے سے پہلے کانیگرم کے علماء، تبلیغی جماعت کے کارکن اور پیر لوگ یہ اعلان کرینگے کہ سب سے پہلے شریعت پر عمل کیلئے ہم اپنے گھروں سے ابتداء کرینگے، اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو حق مہر کے نام پر بیچیں گے نہیں، جو بھی حق مہر ہوگا، وہ عورت کو دینگے۔ دوسرا یہ کہ خواتین کو جائیداد میں حصہ دینگے۔ تیسرا یہ کہ گھر سے شرعی پردہ شروع کرینگے ۔ مولوی محمد زمان نے شرعی حدود کے اجراء کی حمایت کی لیکن گھر سے شریعت پر چلنے کی بات کو مشکل قرار دیا۔ ہم نے کہا کہ جب اپنی بہن بیٹی کو اس کا حق مہر اور وراثت میں حصہ دینا مشکل ہو تو دوسروں پر شرعی حدود کا اجراء کیسے آسان ہوگا؟یہ منافقت ہوگی اسلام نہ ہوگا۔ پھر تبلیغی جماعت کے چند افراد میرے پاس آئے اور ایک نے پہلے یہ مسئلہ پوچھا کہ میرا بیٹا کراچی میں ٹائیر پنکچرکا کام کرتا ہے ، اس کی کمائی میرے لئے جائز ہے؟۔ میں نے کہا کہ اپنے کاروبار میں دھوکے سے حرام نہ کماتا ہو تو بالکل جائز ہے۔ پھر پوچھا کہ میری بہو، بیٹیوں اور بیوی کو شرعی مسائل کا پتہ نہیں، رائیونڈ سے مستورات کی ایک جماعت آتی ہے اورمیرے گھر کی خواتین کو مسائل سکھاتی ہیں توکیا جائز ہے؟، میں نے کہا کہ بالکل نہیں۔ اس نے کہا کہ کیوں؟۔ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’اپنے نفسوں واپنے اہل عیال کو آگ سے بچاؤ‘‘ یہ تمہاری ذمہ داری ہے، رائیونڈ سے آنے والی مستورات کی نہیں اور وزیرستان کے حالات بہت خراب ہیں، لوگ آغواء ہوجاتے ہیں، خواتین کی جماعت کو اغواء کرلیا گیا اور ان کو زیادتی کا شکار بنایا گیا تو ایک اور جماعت پیدا ہوگی۔ پھر توتبلیغی جماعت نے ہمارے خلاف پروپیگنڈے کی تمام حدود کو پار کیا۔ قادیانی، بریلوی اور شیعہ کے تمام الزامات لگادئیے۔ ایک دن مسجد کا امام نہیں تھا تو ایک تبلیغی آگے بڑھا، ملک ظفر شاہ نے اس کو پکڑ کر پیچھے دھکیل کر کہا کہ چلہ لگاکر جعلی ادویات کا میڈیکل اسٹور بھی کھول لیتے ہو، میرا کہا کہ ایک عمر علم کی تعلیم میں لگادی ہے اور مجھے نماز کیلئے آگے کردیا۔ میں نے نماز پڑھادی تو نماز کے بعد اعلان کیا کہ میرے خلاف انواع واقسام کے پروپیگنڈے چل رہے ہیں وضاحت اسلئے کررہا ہوں کہ جنہوں نے میرے پیچھے نماز پڑھ لی ہے ان کو تشویش نہ رہے۔ ہمارا تعلق مولانا اشرف علی تھانویؒ اور مولانا الیاسؒ سے ہے جو نام سے ان کو نہیں جانتے ، بہشتی زیور کے مصنف اورتبلیغی جماعت کے بانی۔ قادیانی ، بریلوی اور شیعہ کا پروپیگنڈہ کرنے والوں میں اتنی غیرت ہونی چاہیے کہ مجھے گریبان سے پکڑلیں۔ تبلیغی جماعت کے قیام کا مقصد لوگوں کو شرعی احکام کی طرف راغب کرنا تھا، لوگ یہاں چند فٹ کے فاصلے پر ننگے نہاتے ہیں ، آنے والے مہمانوں کے علاوہ فرشتوں کو اس ننگے مناظر پر شرم آتی ہوگی، فضائل کی تعلیم فرض ،واجب، سنت نہیں بلکہ مستحسن عمل ہے مگر جب فرائض کی تعلیم اور حلال وحرام کی تربیت نہ ہو تو یہ نام کی دینداری رہ جاتی ہے۔ اس پر تبلیغ کے امیر گل ستار نے کہا کہ ’’مفتی زین العابدین کا فتویٰ ہے کہ تبلیغی جماعت کا موجودہ کام فرض عین ہے‘‘۔ پھر مسجد میں یہ بات طے ہوئی کہ جو غلط ہوگا اس کو کانیگرم بلکہ وزیرستان سے نکالیں گے۔تبلیغی جماعت والوں کی کوشش تھی کہ میری غیرموجودگی میں علماء کو جمع کیا جائے اور میرے خلاف اور اپنے حق میں متفقہ فیصلہ لیا جائے۔ جس طرح حضرت ابراہیمؑ نے بیماری کا بہانہ کرکے بتوں کو توڑا تھا، مجھے بھی حکمت سے کہنا پڑا کہ ’’میں جارہاہوں‘‘۔ میرانشاہ میرا آنا جانا رہتا تھا۔ جب گھر میں چھپ گیا تو دوسرے دن تبلیغی جماعت نے یہ فیصلہ کیا کہ تمام علماء کا اجلاس ہماری مسجد میں ہوگا۔ میں نے اپنے بھانجے اور گومل کے امام حافظ عبدالقادر شہیدؒ کو بھی ٹیپ ریکارڈر کیساتھ بروقت پہنچنے کی اطلاع کردی۔ جب علماء کا اجلاس شروع ہورہا تھا تو میں بھی نمودار ہوگیا۔ پھر ان کی پریشانی کی انتہاء نہ رہی۔ میرا کہنا تھا کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ لوگ میری وجہ سے اکٹھے ہوئے ہیں، مجھ سے بات نہیں کرنی تو مجھے ویسے بھی میرانشاہ جانا ہے ، چلا جاؤں گا، انہوں نے کہا کہ ہم مشورہ کرکے بتادیتے ہیں کہ آپ سے بات کریں یا نہیں۔ پھر انہوں نے فیصلہ کیا کہ مسجد کے عقب میں چھوٹے کمرے میں عوام کے بجائے مختصر محدود افراد کے سامنے بات کی جائے۔ میں نے کہا کہ یہ غلط ہے، عوام کے سامنے ہی بات ہوجائے مگر وہ نہیں مانے۔پھر بات کو ٹیپ کرنے کیلئے میں نے اصرار کیا کہ کراچی کے معروف علماء ومفتیان نے ہمارے مرشد حاجی عثمانؒ سے دھوکہ کیا تھا، ملاقات کا اہتمام کرکے من گھڑت استفتاء کے چشم دید گواہ بن گئے۔ تم لوگوں نے خود بھی اس بات پر مناظرہ کیا تھا کہ سنت کے بعد دعا بدعت ہے یا مباح؟، فارسی میں فیصلہ سنانے کے بعد دونوں طرف سے ڈھول کی تھاپ پر اپنی اپنی جیت کا اعلان کیا تھا اور اس بنیاد پر قادیانیت کا فتویٰ بھی مولوی محمدزمان نے مولانا شاداجان پر لگایا تھا۔ جس کا وہ اعتراف کرکے کہہ رہے تھے کہ اب ایسا نہیں ہوگا، فیصلہ تحریری شکل میں لکھ دیا جائیگا۔ پھر انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ ’’آپ نے مہدی آخر زمان کا دعویٰ کیا ہے؟‘‘۔ میں نے کہا کہ جب میں نے مدینہ دیکھا تک نہیں، اس مہدی کی پیدائش مدینہ اور چالیس سال کی عمر میں خروج مکہ میں ہوگا ، اسکا نام محمد اور والدین کے نام آمنہ اور عبداللہ ہونگے تو میں کیسے یہ دعویٰ کرسکتا ہوں، انہوں نے کہا کہ مہدی صرف وہ ایک ہے۔میں نے شاہ اسماعیل شہیدؒ کی کتاب ’’منصبِ امامت‘‘ دکھادی کہ ’’مہدی آخرزمان سے پہلے مہدیوں کا سلسلہ ہوگا، جن میں سے ایک خراسان کا مہدی ہے‘‘۔ جمعہ خطبات میں بھی خلفاء راشدینؓ کو مہدی کہاجاتاہے۔ پھر انہوں نے میری طرف سے یہ باتیں لکھ کر دستخط کئے کہ ’’میں نے مہدی آخر زمان کا دعویٰ نہیں کیا اور تبلیغی کام مستحسن ہے‘‘۔ سب کے دستخط کئے مگر پھر تحریر دینے سے انکار کرکے مسجد کی امامت اور نیا دین چھوڑ دینے کا مشورہ دیابقیہ صفحہ 2 نمبر1

اسلام کی نشاۃ اول کا بہترین و مستند ترین نمونہ

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جہاں السابقون الاولون من المہاجرین و الانصار کا ذکر کیا، وہاں انکے ساتھ رضی اللہ عنھم و رضو عنہ کی سند کا بھی ذکر فرمایاہے ۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ انہی کے نقش قدم پر ہوسکتی ہے و الذین اتبعوھم باحسانکی سعادت اس وقت مل سکتی ہے جب پہلوں کے بارے میں حسن ظن کا عقیدہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نشاندہی بھی فرمائی ہے کہ ثلۃ من الاولین و قلیل من الاٰخرین پہلوں میں بڑی جماعت اور آخر والوں میں سے تھوڑے وہ ہونگے جو سبقت لیجانے میں سبقت لے جائینگے۔ اللہ نے ان کو اولٰئک المقربون مقرب ہونیکا درجہ دیا ہے۔ اس کے علاوہ سورہ جمعہ میں بھی اللہ نے صحابہ کرامؓ کو قرآن کی تعلیم و تربیت اور حکمت و تزکیہ کا ذکر کیا ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ واٰخرین منھم لما یلحقوا بھم اور آخر والے جو ان پہلوں سے ابھی نہیں ملے ہیں۔ صحابہ کرامؓ کے حوالے سے فتح مکہ سے قبل اور فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کرنے پر مختلف درجات کا ذکر ہے۔ بدری صحابہؓ اور غیر بدری صحابہؓ میں بھی فرق تھا۔ عشرہ مبشرہ کے دس صحابہؓ سب میں ممتاز تھے۔ عشرہ مبشرہؓ میں چار خلفاء راشدینؓ کی امتیازی حیثیت بھی ایک مسلمہ بات ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے وصال کے وقت انصارؓ و مہاجرینؓ کے درمیان خلافت کے مسئلے پر اختلاف شروع ہوا ، حضرت علیؓ تجہیز و تکفین میں لگ گئے اور انصارؓ نے خلافت کیلئے ایک مجلس کا اہتمام کر رکھا تھا جہاں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ پہنچے۔ مکالمہ کے بعد حضرت ابوبکرؓ کی بیعت پر اکثریت کا اتفاق ہوا ، فتنہ و فساد ہوتے ہوتے بچ گیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اپنے بعد حضرت عمرؓ کو خلیفہ نامزد کردیا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے بعد خلافت کا مسئلہ شوریٰ کے سپرد کردیا۔ حضرت عثمانؓ کو شوریٰ نے مقرر کردیا اور جب حضرت عثمانؓ کو شہید کیا گیا تو حضرت علیؓ ہنگامی حالت میں خلیفہ نامزد ہوگئے۔پھر حضرت عثمانؓ کے قاتلین سے بدلہ لینے کے مسئلے پر حضرت علیؓ اور حضرت عائشہؓ و طلحہؓ و زبیرؓ کے درمیان جنگیں برپا ہوئیں۔ حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کا تعلق بھی عشرہ مبشرہ سے تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے حدیث قرطاس میں ایسے وصیت نامہ کا ذکر کیا تھا جس کے بعد امت گمراہ نہ ہو لیکن حضرت عمرؓ نے کہا کہ ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے۔ حضرت عمرؓ نے بعد میں فرمایا تھا کہ کاش! ہم رسول اللہ ﷺ سے تین باتوں کا پوچھ لیتے ، ایک آپؐ کے بعد خلیفہ کون ہو، دوسرا زکوٰۃ نہ دینے والوں کیخلاف قتال ، اور تیسرا کلالہ کی میراث۔
رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو وصیت فرمائی تھی کہ اپنی بیگمات کو مساجد میں آنے سے نہ روکا جائے۔ غیر مسلم یہود و نصاریٰ بیگمات کو بھی انکی عبادت گاہوں میں جانے سے نہ روکنے کا حکم دیا تھا۔ آج جس طرح فیملی پارک آباد ہیں اس وقت مساجد اور عبادتگاہیں آباد ہوا کرتی تھیں۔ آج جس طرح مکہ مکرمہ کی مسجد الحرام میں حضرات و خواتین ، بچے اور بچیاں نماز و طواف میں شریک ہوتے ہیں اسوقت مسجد نبوی اور دوسری مساجد کو بھی اسی طرح آباد رکھا جاتا تھا۔ معروف شاعر شاکر شجاع آبادی نے اپنے اشعار میں کہا ہے کہ جن مساجد میں مخلص نمازی ہیں وہ زمین پر بیت اللہ ہیں اور جو مولوی کی تجارت گاہیں بن گئی ہیں انکو ڈھایا جائے۔ عدالتوں کے بارے میں کہا ہے کہ اوپر انصاف کا جھنڈا ہے اور نیچے انصاف بکتا ہے ایسی عدالتوں کو بمع عملہ کے گرادیا جائے۔ شاکر شجاع آبادی بہت ہی مقبول شاعر ہیں وہ کہتے ہیں کہ سنی مشرک ، شیعہ کافر اور وہابی منکر ہیں لہٰذا اے کافر !تم ہی جنت پانے کی تیاری کرلو۔ علماء و مفتیان کرام کو حقائق کی طرف آنے کی ضرورت ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنی ازواج مطہراتؓ سے فرمایا تھا کہ میرے ساتھ جو حج کرلیا وہ کافی ہے ، میرے بعد حج نہیں کرنا۔ جب حضرت عمرؓ نے اپنی زوجہؓ کو مسجد میں جانے سے روکنے کیلئے رات کو خفیہ طور سے چھیڑا ، جسکے بعد انہوں نے مسجد میں جانا یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ اب مسجد میں جانے کا زمانہ نہیں رہا۔ عربی مقولہ ہے کہ الناس علی دین ملوکھم عوام اپنے حکمرانوں کے طرز عمل پر چلتے ہیں۔ صورتحال اس وقت یہ بنی کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا کہ اگر رسول اللہ ﷺ حیات ہوتے تو خواتین کو مساجد میں جانے سے خود روک دیتے، جب مساجد میں خواتین کا آنا رُک گیا تو ایک درشتی کا سا ماحول پیدا ہوا۔ حضرت عمرؓ کی مسجد میں شہادت کے بعد حضرت عثمانؓ کو گھرمیں محصور کرکے شہید کیا گیا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا و من اظلم ممن منع مسٰجد اللہ ان یزکر فیھا اسمہ و سعٰی فی خرابھا اولءٰک ماکان لھم ان یدخلوھا الا خائفین لھم فی الدنیا خزی و لھم فی الاٰخرۃ عذاب عظیم O ’’اور اس سے بڑا ظالم کون ہے کہ جو منع کرے اللہ کی مساجد سے کہ اس میں اس کا نام لیا جائے اور ان کو ویران کرنے کی کوشش کرے۔ ایسے لوگ ان مساجد میں داخل نہیں ہوں گے مگر خوفزدہ ہوکر ۔ ان کیلئے دنیا میں بھی ذلت ہے اور آخرت میں بھی بہت بڑا عذاب ہے‘‘( البقرہ : آیت 114)۔
رسول اللہ ﷺ نے آخری خطبہ میں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ جب ماحول بگڑ گیا تو بات اس حد تک پہنچی کہ بنو اُمیہ کے حجاج کے مقابلے میں حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ خوارج سے مدد مانگتے تھے اور خوارج حضرت عثمانؓ کو برا بھلا کہنے کی شرط پر مددکیلئے تیار تھے۔ درج بالا آیت سے پہلے یہود و نصاریٰ کی اس کیفیت کا ذکر ہے جس میں وہ دوسروں کی مذمت کرتے ہیں اور اپنے بارے میں خوش فہمیوں کا شکار ہیں۔ آج اگر بیت اللہ کی طرح مسلمان اپنے گاؤں ، محلہ اور شہروں کی مساجد کو آباد کریں تو اُمت کی اصلاح کیلئے یہ زبردست اقدام ہوگا۔ جن کالج ، یونیورسٹیوں ، دفاتر، ہسپتال ، ایئر لائن اور پبلک مقامات پر مخلوط نظام سے بگاڑ پیدا ہورہا ہے اگر روزانہ کی بنیاد پر پنج وقتہ نماز سے ماحول کی تبدیلی کا آغازکرینگے تو مسلم امہ کو دنیا کی ساری قومیتوں اور مذاہب پر عالم انسانیت میں فوقیت حاصل ہوگی۔ بصورت دیگر امت مسلمہ کے صحابہ کرامؓ اور صحابیاتؓ سے ہماری عقیدت برقرار رہے گی کیونکہ ان کو سند قرآن نے دی ہے لیکن مسلم امہ کی اکثریت جس طرح سے بے راہ روی کا شکار ہوگی اسکے مناظر کا اندازہ سب اپنے گھروں میں ٹی وی پر چلنے والے اشتہارات سے لگا سکتے ہیں۔
قرآن و سنت میں بہت سی ایسی باتیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی طرف سے فیصلے کے برعکس آیات نازل کیں۔ جیسے سورہ مجادلہ میں خاتون کا ذکر ، بدر کے قیدیوں پر فدیہ لینا ، عبد اللہ ابن ابی منافق کا جنازہ پڑھانا، فتح مکہ کے بعد ہجرت نہ کرنے کے باوجود حضرت علیؓ کی ہمشیرہ حضرت اُم ہانیؓ سے شادی کرنے کی خواہش۔۔۔ خلفاء راشدینؓ کے دور میں بھی اختلاف کا معاملہ رہا۔ مشرکین مکہ زمانہ حج میں عمرہ کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔ اللہ نے حج اور عمرہ کرنے کی اجازت دیدی۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک حج کیا ، اس میں عمرہ کا احرام بھی ساتھ باندھا ۔ حضرت عمرؓ نے حج کیساتھ عمرہ کا احرام باندھنے کو روکا۔ حضرت عمران بن حصینؓ نے کہا کہ جب اللہ نے حکم نازل کیا اور نبی ﷺ نے اس پر عمل کیا تو اس کے بعد کوئی ایسا حکم نازل نہیں ہوا کہ منع کیا گیا ہو۔ جس نے روکا ، اس نے اپنی رائے سے روکا۔ احادیث کی کتب میں تفصیلات ہیں۔ ابن عمرؓ سے کہا گیا کہ تمہارے والد کی رائے یہ تھی تو انہوں نے کہا کہ میں اپنے والد نہیں رسول اللہ ﷺ کی نبوت پر ایمان لایا ہوں۔ ابن عباسؓ نے فرمایا کہ حیرت ہے کہ تم پر پتھر کیوں نہیں برستے کہ رسول ﷺ کے مقابلے میں عمرؓ اور ابوبکرؓ کی بات کرتے ہو۔ بخاری شریف میں حضرت عثمانؓ سے حضرت علیؓ کے الجھنے کا معاملہ بھی مذکور ہے۔ حنفی مسلک یہ ہے کہ حضرت عمرؓ کی بات کو قرآن و سنت کے مقابلے میں کوئی حیثیت حاصل نہیں۔ باقی مسالک حضرت عمرؓ کی بات کو ترجیح دیتے ہیں۔
اہل تشیع کہتے ہیں کہ عمرؓ نے قرآن و سنت کے مقابلے میں مشرکین مکہ کا مذہب رائج کرنے کی کوشش کی۔ فقہی مسالک کی سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ مسئلے مسائل رٹنے کے علاوہ سمجھ بوجھ کا اس میں کوئی کام نہیں۔ جب حنفی اپنے مسلک کی وکالت کرتے ہیں تو یہ نظر آتا ہے کہ وہ بھی اہل تشیع کی طرح حضرت عمرؓ کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ حالانکہ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ حضرت علیؓ نے حضرت عمرؓ کی وفات کے بعد بھی اچھے کلمات سے ان کی تعریف اور توصیف کی جس کا نہج البلاغہ میں ذکر ہے، حضرت عمرؓ جانتے تھے کہ مسلم اُمہ مشقت میں مبتلا ہوجائے گی ، اگر واحد سنت سمجھ کر حج وعمرے کا احرام ایک ساتھ باندھا جاتا تو قیامت تک لوگ بڑی مشقت میں پڑ جاتے۔ حج کے دنوں میں پہلے سے لوگ پہنچ جاتے ہیں اگر کئی کئی دنوں تک وہی احرام سنت سمجھ کر زیب تن رہتا تو مکہ کے لوگ حاجیوں کی بدبو سے بھاگ جاتے۔ حضرت عمرؓ قرآن و سنت کی تعلیمات سے نہیں لڑ رہے تھے بلکہ لوگوں کی جہالت سے لڑ رہے تھے، صحابہؓ کس بات پر لڑ رہے تھے اور آج کے مذہبی طبقات کن کن باتوں کے مباح و بدعت ہونے پر لڑ رہے ہیں؟۔ داڑھی کی لمبائی ، مونچھ کی کٹائی ، چوتڑ تک سر کے بال یا گنجاپن ۔ زاغوں کے تصر ف میں ہے شاہیں کا نشیمن