پوسٹ تلاش کریں

پاکستان و دیگر ممالک میں اہل تشیع کا ماتم و جلوس پر تماشہ لگانا جائز نہیں. ایرانی علماء کا فتویٰ

ایران (ساجدحسین) محمد رضاصاحب (ایران خوزستان، شہروزفول، خیابان امام خمینی، ڈاک نمبر 6461758746، مکان نمبر 234 نے اپنی ایک ویڈیوکال پربتایا کہ ان علماء کرام (آیت اللہ خامنہ ای، آیت اللہ نوری ھمدانی، آیت اللہ شبیری زنجانی، آیت اللہ صافی گلیایگانی، آیت اللہ بہجت مرحوم، آیت اللہ جوادی آملی، آیت اللہ سیستانی) نے متفقہ طورپر یہ فتویٰ صادرفرمایاہے کہ پاکستان یا دوسرے ممالک کے اندراہل تشیع حضرات جوماتم اورکوب زنی، خون خرابہ ، سرے عام جلوس کی شکل میں نکل کر تماشہ کرتے ہیں یہ سب اسلام اوردین وشریعت میں جائزنہیں حرام ہے۔
اورصحابہ کرام جن میں حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓ،حضرت عثمانؓ،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور اسی طرح دوسرے صحابہؓ کوگالیاں دیتے ہیں یا برا بھلاکہاجاتاہے یہ کسی بھی شخص کوحق نہیں پہنچتاکہ انکو گالیاں دے یا برابھلاکہے۔ مزیدانہوں نے کہا کہ پوری دنیاکیلئے جب تک ایک امام مقرر نہ ہواسوقت تک مسلمانوں کے اندراتحادواتفاق نہیں ہوسکتا۔ اسلام کی سربلندی اسی میں ہے کہ ہم سب صرف اورصرف مسلمان بن کر رہیں اور آپس کے اختلافات کو چھوڑ دیں۔ اور اللہ نے چاہاتوانشاء اللہ پاکستان آکرمیں شاہ صاحب سے ضرورملاقات کیلئے آؤں گا۔ آپ ان سب علماء کرام کے نام ایک پیغام لکھ کربھیجیں تاکہ آپ کا یہ پیغام ہم ان علماء تک پہنچاسکیں۔ آپ یہ پیغام عربی میں لکھیں یا فارسی میں۔ اگرآپ ان علماء سے بات کرناچاہیں توانٹرنیٹ پربھی آپ سوالات پوچھ سکتے ہیں۔

رمضان شریف میں زکوٰۃ کا اہم ترین مسئلہ

زکوٰۃ وصول کرنے کے نام پر بڑے بڑے اشتہارات لگانے والوں کی حیثیت ملٹی نیشن کمپنیوں سے بھی زیادہ ہے۔غریب ومستحق افراد کا اللہ نے ایک وسیلہ بنایا تھا ان ظالموں نے وہ بھی ان سے چھین لیاہے۔ معاشرے میں بہت سے عزتدار لوگ ہوتے ہیں جو زکوٰۃ کے مستحق ہوتے ہیں لیکن وہ کسی کے آگے اپنی ضرورت نہیں رکھ سکتے۔ امام غزالیؒ نے لکھ دیا تھا کہ ’’ امام ابوحنیفہؒ کے شاگردشیخ الاسلام امام ابویوسفؒ نے یہ حیلہ کررکھا تھا کہ سال ختم ہونے سے پہلے اپنا سارا مال اپنی بیوی کو ہبہ کردیتے اور پھر سال ختم ہونے سے پہلے بیوی اس کو ہبہ کردیتی تھی تاکہ زکوٰۃ سے بچا جاسکے۔ جب امام ابوحنیفہؒ سے کسی نے کہہ دیا کہ آپ کا شاگرد اس طرح سے کررہاہے تو فرمایا کہ یہ دین کا فقہ حاصل کرنے کا انعام ہے جس کا وہ فائدہ اٹھا رہاہے‘‘۔ امام ابوحنیفہؒ نے یقیناًطنز یہ یہ جملہ کہا ہوگا، مولانا ابوالکلام آزادؒ نے لکھا:’’ دارالعلوم دیوبند کا ایک بزرگ بھی یہ حیلہ کرتا ہے مگر یہ اسلام نہیں یہود نے جس طرح سے توراۃ کے حکم کو بگاڑ دیا تھایہ حدیث کے مطابق یہود کے نقش قدم پر چلنے کا نتیجہ ہے‘‘۔ (تذکرہ، آزادؒ )
حضرت ابوبکرؓ نے امیروں سے زکوٰۃ چھین کر غریبوں کو ان کا حق دلایا تھا، علماء کرام میں جو بہت امیر کبیر ہیں ان سے زکوٰۃ چھین کر غریب علماء میں بانٹی جائے تو کوئی مولوی غریب نہیں رہے گا لیکن فقہ وتفسیر کی کتابوں میں یہ لکھ دیا گیاہے کہ تمام فقہی مسالک اس پر متفق ہیں کہ زکوٰۃ میں زبردستی نہیں ہے۔ اگر حکمران زبردستی ان سے زکوٰۃ لیتے تو بیویوں کو ہبہ کرنے کے حیلے بہانے بھی نہ چلتے۔ خلافت راشدہ کا دور وہ تھا جسکے آخر میں بڑا شر برپا ہوا،آپس میں لڑ مرے،حالانکہ نبیﷺ نے فرمایا تھا کہ میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ صفات بیان کیں کہ رحماء بینھم اشداء علی الکفار ’’وہ آپس میں رحیم اور کافروں پر سخت ہیں‘‘ لیکن اسلام کے چہرے پر وہ غبار نہیں آیا جس کی وجہ سے اسلام کا سورج چھپ گیا ہو۔ پھر حضرت امام حسنؓ کے کردار کی وجہ سے صلح ہوگی لیکن اس خیر میں دھواں شامل ہوا، جس کے اثرات آج اپنے انتہاء کو پہنچ گئے ہیں۔
نبی کریمﷺ کی چاہت تھی کہ لوگ اپنی زکوٰۃ اپنے ہاتھوں سے مستحقین کے اندر تقسیم کردیں، صحابہؓ چاہتے تھے کہ آپﷺ کے ہاتھوں سے ان کی زکوٰۃ مستحقین کو مل جائے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کوحکم دیا کہ’’ ان سے صدقات ( وصول) کرو، یہ ان کیلئے تسکین کا ذریعہ ہے‘‘۔ نبیﷺ نے اللہ کے حکم سے صحابہؓ کی خواہش پر زکوٰۃ کو قبول کیا لیکن اپنے اہلبیت پر اس کو حرام کردیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے سمجھا کہ جو حکم اللہ کے نبیﷺ کو تھا،ایک خلیفہ کی حیثیت سے وہ حکم مسلمان حکمران کو بھی ہے، لہٰذا جن لوگوں نے بیت المال کو زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا تو انکے خلاف قتال کیا، حضرت خالد بن ولیدؓ نے ایک شخص کو قتل کرکے اس کی خوبصورت بیوی سے شادی بھی رچالی جس پر حضرت عمرؓ نے ان کو سنگسار کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی 99بیویاں تھیں تب بھی اپنے مجاہد اوریا کی عورت پر دل آیا تو اللہ نے دنبیوں کی تعبیر سے آپؑ کو منع کردیا۔ فتح مکہ کے بعد رسول اللہﷺ حضرت علیؓ کی بہن ام ہانیؓ سے شادی کرنا چاہتے تھے تو اللہ نے فرمایا کہ جن رشتہ دارعورتوں نے ہجرت نہیں کی ان سے نکاح نہ کریں اور یہ بھی فرمایا کہ ’’اسکے بعد کوئی عورت بھلی لگے تو اس سے شادی نہ کریں‘‘۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ اللہ نے نبیﷺ کے وصال کے بعد بھی آپﷺ کی ازواج مطہراتؓ سے شادی کا منع فرمایا تھا، یوں ایک طرف کسی عورت کو بہت ہی بڑا شرف مل جاتا کہ ام المؤمنین بن جاتی تو دوسری طرف بیوہ بن جانے کے بعد بھی وہ شادی کی مجاز نہ ہوتی۔ ابنت الجونؓ سے نبیﷺ نے خلوت صحیحہ فرمائی تھی مگر انکے ساتھ ازدواجی تعلق قائم کرنے سے پہلے ان کو چھوڑدیا تھا۔ حضرت عمرؓ نے انکی شادی پر پابندی لگانا چاہی لیکن اس نے کہا کہ مجھے نبیﷺ نے ہاتھ نہیں لگایا۔
حضرت خالد بن ولیدؓ کو نبیﷺ نے سیف اللہ قرار دیا ،حضرت آدم ؑ اس شجرہ کے قریب گئے جسکا فرمایاگیا : ان لاتجوع ولاتعری کہ بھوکے ننگے نہ ہوجاؤ۔وہ کونساشجرہ ہے جسکے پھل کھانے سے انسان کا پیٹ نہ بھرے بلکہ بھوکا ننگا ہوجائے؟، شیطان نے آدمؑ کو بتایا ھل ادلکم علی شجرۃ الخلد وملک لایبلیٰ کیا تمہارے لئے اس شجرے کی نشاندہی کروں جو ہمیشہ والی ہو اور نہ ختم ہونے دولت ہو۔ مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے لکھا کہ شیطان نے اپنی مادی کیساتھ مباشرت کرکے بتادیا، بخاری میں ہے’’ اگر حواؑ نہ ہوتی تو کوئی عورت شوہرسے خیانت نہ کرتی‘‘۔
حضرت آدمؑ کا بڑا بیٹا اسی نافرمانی کے نتیجے میں پیدا ہواتھا، جس نے اپنی ناجائز خواہش کیلئے اپنے بھائی ہابیل کو شہید کردیا ،پھر کوئے نے دفن کرنے کا طریقہ بتایا۔ انسان اچھی سے اچھی چیز کھاکر بھی بدبودار بول وبراز خارج کرتاہے، اسکی پیدائش کا طریقہ کار بھی ماں باپ کے ملاپ اور نطفہ امشاج سے ہوتاہے۔ ضعیف انسان کو تکبر کسی طرح بھی زیب نہیں دیتا اور اللہ اس کو برداشت بھی نہیں کرتاہے۔ زکوٰۃ مستحق کیلئے گند نہیں بلکہ اس کیلئے حق حلال ہے اور غیرمستحق کیلئے گندو حرام ہے۔ یہ فقراء ومساکین کا حق ہے ، غریب بیواؤں اور یتیموں کا حق کھانے اور کھلانے سے اس امت پر عذاب کی کیفیت طاری ہوگئی ہے۔ مال اوراولاد کو اللہ نے فتنہ قراردیا۔ نبیﷺ زکوٰۃ لینے سے انکار کررہے تھے تو اللہ نے حکم دیا کہ انکی تسکین کا ذریعہ ہے اور جب نبیﷺ نے قبول کرلیا تو حضرت ابوبکرؓ نے مغالطہ کھایا جس کی وجہ سے وہ خالد بن ولیدؓ کا ناگوار واقعہ بھی پیش آیا، اس واقعہ کی وجہ سے حضرت خالد بن ولیدؓ کی تمام خدمات کو فراموش کرنا ایسا ہے جیسے حضرت آدم ؑ کی ساری شرافت و اعزازات میں بس درخت کی غلطی کو پکڑ کر تنقید وتنقیص کا نشانہ بنایا جائے۔ رسول ﷺ کا یہ بہت بڑا کارنامہ تھا کہ بیواؤں و طلاق شدہ خواتین کو زوجیت کی عزت کا شرف بخشا، حضرت ابوبکرؓ نے اپنی ضرورت سے تھوڑا زیادہ لینا بھی برداشت نہیں کیا، ان کے خلوص پر حسنِ ظن نہ کرنا اپنا نقصان ہے مگر جس مغالطے کی وجہ سے ایک عظیم فوج کے عظیم سپہ سالار سے اتنی بڑی لغزش ہوئی، حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ کاش نبیﷺ سے پوچھ لیتے کہ زکوٰۃ نہ دینے کے خلاف قتال کیا جائے یا نہیں؟۔ پھر زکوٰۃ کیلئے قتال کا مسئلہ ختم ہوا تو اس کی وجہ سے اچھی فضاء بن گئی اور یزید کے لشکر کے سپاہ سالار نے حضرت حر ؒ نے امام حسینؓ کا ساتھ دیا۔ ایک شخصیت کی وجہ سے مجموعی فضاء پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔ وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی کے گھر سے سیلاب زدگان کیلئے تحفہ میں دیا جانے والا ہار برآمد ہوا، یہ زرداری کی صحبت کے دور رس اثرات تھے۔
حضرت علامہ سیدمحمد یوسف بنوریؒ تاجدارِ مدینہ کے فرزند تھے، مدرسہ کیلئے ایک قانون بنادیا کہ ’’ایک سال سے زیادہ کیلئے زکوٰۃ نہیں لے جائے گی۔ طالب علم کو ہاتھ میں زکوٰۃ دیکر مالک بنایا جائیگا، اسکی طرف سے مدرسہ وکالت کا کام نہیں کریگا اور سالانہ ماہرین کے ذریعہ سے آرڈٹ کرایا جائیگا‘‘۔ علامہ یوسف بنوریؒ نے خود پر ہدیہ کو بھی حرام قرار دیا تھا۔ ایک سرمایہ دار نے کہا کہ مولانا آپ کو ضرورت نہ ہو تو مستحق لوگوں میں بانٹ دیں۔ مولانا نے فرمایا کہ ’’ ثواب آپکوملے جواب مجھے دینا پڑے، اس خسارے کا سودا میں نہیں کرتا‘‘۔ تاریخ کے ہر دور میں اہل حق موجود رہے ہیں، ہم نے ان اہل حق کی وراثت کا حق ادا کرنا ہے۔ حاجی عثمانؒ کے خلفاء کا یہ کارنامہ تھا کہ بسوں میں چلنے والے علماء کرام کو گاڑیاں دی تھیں، حاجی محمدعثمان ؒ نے سائیکل بھی نہ لی اور بہت خستہ حال بلڈنگ کے خستہ حال فلیٹ میں رہے۔ سیدعتیق

عصر حاضرحدیث نبویﷺ کے آئینہ میں

عن حذیفہؓ قال: کان الناس یسئلون رسول اللہ ﷺ عن خیر و کنت اسئلہ عن الشر مخافۃ ان یدرکنی، قال : قلت یا رسول اللہ! ان کنا فی جاہلیۃ و شر فجاء نا اللہ بھٰذا الخیر، فھل بعد ھٰذا الخیر من شر؟ قال: نعم! قلت : وہل بعد ذٰلک الشر من خیر ؟ قال: نعم ! و فیہ دخن، قلت : وما دخنہ؟ قال: قوم یستنون بغیر سنتی و یہتدون بغیر ھدیتی، تعرف منھم و تنکر، قلت فہل بعد ذٰلک الخیر من شر؟ قال: نعم! دعاۃ علیٰ ابواب جہنم، من اجابہم الیھا قذفوہ فیھا، قلت یا رسول اللہ! صفہم لنا، قال ھم من جلدتنا و یتکلمون بالسنتنا! ، قلت: فما تأمربی ان ادرکنی ذٰلک؟، قال: تلزم جماعۃ المسلمین و امامہم! قلت فان لم یکن لہم جماعۃ ولا امام؟ قال: فاعتزل تلک الفرق کلہا ولو ان تعض باصل شجرۃ حتیٰ یدرکک الموت و انت علیٰ ذٰلک (مشکوٰۃ، بخاری، عصر حاضر)
حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے لوگ خیر کے بارے میں پوچھا کرتے تھے اور میں شر کے بارے میں پوچھتا تھا تاکہ مجھے شر نہ پہنچے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! بیشک ہم جاہلیت اور شر میں تھے تو اللہ نے اس خیر (اسلام)کو ہمارے پاس بھیجا ۔ کیا اس خیر کے بعد کوئی شر ہوگا؟، فرمایا : ہاں! ۔ پھر میں نے پوچھا کہ کیا اس شر کے بعد کوئی خیر ہوگی؟۔ فرمایا: ہاں! اس میں دھواں (آلودگی) ہوگی۔ میں نے پوچھا : وہ دھواں کیا ہے؟۔ فرمایا: لوگ میری سنت کے بغیر راہ اپنائیں گے اور میری ہدایت کے بغیر چلیں گے۔ ان میں اچھے بھی ہوں گے اور برے بھی۔ میں نے عرض کیا کہ کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہوگا؟۔ فرمایا: ہاں! جہنم کے دروازے پر کھڑے داعی ہونگے جو ان کی دعوت قبول کریگا اس کو اسی میں جھونک دینگے ۔ میں نے عرض کیا: ان کی پہچان کرائیں۔ فرمایا : ہمارے لبادے میں ہوں گے اور ہماری زبان (مذہبی اصطلاحات) بولیں گے ۔ میں نے عرض کیا : اگر میں انکو پالوں تو کیا حکم ہے؟۔ فرمایا: مسلمانوں کی جماعت اور انکے امام سے مل جاؤ ۔ عرض کیا کہ اگر مسلمانوں کی جماعت ہو اور نہ ان کا امام تو پھر؟۔ فرمایا : ان تمام فرقوں سے الگ ہوجاؤ اگرچہ تمہیں درخت کی جڑ چوس کر گزارہ کرنا پڑے۔ یہاں تک کہ تمہیں موت پالے اور تم اسی حالت پر رہو۔ (عصر حاضر حدیث نبوی ﷺ کے آئینہ میں)
اس حدیث میں صفحہ نمبر 4پر موجود نقش انقلاب کی بھرپور وضاحت ہے۔ اسلام کے آغاز میں نبوت اور خلافت راشدہ کا دور تھا جس کے آخر میں عشرہ مبشرہ نے بھی گھمسان کی جنگ لڑی۔ اس دور کا خیر اور شر دونوں واضح تھے۔ پھر اسکے بعد خیر میں دھواں نمودار ہوا۔ یہ دھواں امارت ، بادشاہت اور جبری حکومتوں کے اختتام تک بتدریج بڑھتارہا، اس خیر کے دور میں اچھے لوگ بھی تھے اور برے بھی، جن میں علماء صوفیاء اور ہر طرح کے حکمران شامل تھے۔ اس دور کے بالکل اختتام پر دوبارہ طرز نبوت کی خلافت کے قیام سے پہلے شر کا وہ دور آیا ہے جس میں مذہبی جماعتیں اور تنظیمیں مذہبی لبادے اور مذہبی زبان میں لوگوں کو جہنم کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ یہ دور وہ ہے جس میں مسلمانوں کی جماعت اور انکے امام کے ساتھ ملنے کا حکم ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے نماز ، وضو اور غسل وغیرہ کے فرائض نہیں سکھائے ، خلافت راشدہ کے دور میں بھی چاروں خلفاء نے اس قسم کی فضولیات پر اپنا اور اپنی قوم کا وقت ضائع نہیں کیا۔ اسی دھوئیں کے دور میں نبی ﷺ کی سنت اور ہدایت کے بغیر فرقہ واریت اور مسلکوں کے اپنے اپنے چشمے لگائے گئے۔ ان من گھڑت ہدایت اور سنت کے طریقوں سے اسلام کا چہرہ بتدریج اجنبیت کا شکار بنتا چلا گیا۔ ان میں کچھ اچھے نیک ، صالح ، اللہ والے اور حق کے علمبردار تھے اور کچھ بد ، بدکار، طاغوت کے بندے اور باطل کے علمبردار تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرائض اور واجبات کیلئے کوئی حلقے نہیں لگائے اور جن لوگوں نے نیک نیتی کیساتھ یہ تعلیم عام کردی کہ غسل کے احکام کیا ہیں اور اس میں نت نئے فرائض وغیرہ دریافت کرلئے مگر درباری بن کر حکمرانوں کی ایماء پر اہل حق کا خون جائز قرار دینے کے فتوے نہیں لگائے تو بھی ان کا کردار اپنی شخصیتوں کی حد تک نیک و صالح اور اہل حق کا رہا۔ انکی ہدایت اور سنت کو پھر بھی بجا طور سے نبی کریم ﷺ کی ہدایت اور سنت نہیں کہہ سکتے۔
امام ابو حنیفہؒ پر حکمرانوں کو شک تھا کہ پس پردہ حضرت امام حسنؓ کی اولاد عبد اللہ اور ابراہیم کی بغاوت کی تائید کررہے ہیں تو ان کو جیل میں زہر دے کر شہید کیا گیا۔ امام ابو حنیفہؒ کی ساری زندگی علم کلام کی گمراہی میں گزری اور پھر آخر میں توبہ کرکے وہ فقہ اور اصول فقہ کی طرف رُخ کرکے شمع ہدایت کے چراغ جلانے لگے۔ قرآن کے مقابلے میں احادیث صحیحہ اور خلفاء راشدین کے فیصلوں کو بھی رد کرنے میں ذرا تامل سے کام نہ لیا۔ ان کی شخصیت اہل حق کیلئے مینارۂ نور کی حیثیت رکھتی تھی۔ آپ نے بڑی استقامت کیساتھ حق کا علم بلند کرنے میں مقدور بھر کوشش کی۔ حضرت امام مالکؒ ، حضرت امام شافعیؒ ، حضرت امام احمد بن حنبلؒ اور حضرت امام جعفر صادقؒ بھی اپنے اپنے طرز پر نبی ﷺ کی سنت کو ہر قیمت پر تحفظ دینے کے زبردست علمبردار رہے ۔ ان کے پیروکاروں نے اپنے اپنے طرز پر فقہ و مسالک کی تدوین کا کام کیا۔ نبی کریم ﷺ کی سنت اور ہدایت کو زندہ کرنے کیلئے دوبارہ طرز نبوت کی خلافت قائم ہوگی تو تاریخ کے ادوار میں اسلام کے سورج پر پڑنے والے دھوئیں کا سراغ لگ سکے گا۔ موجودہ دور میں بات یہاں تک پہنچی ہے کہ سب کو پیٹ کی لگی ہوئی ہے یا پھر خود کش دھماکوں اور گرنیٹ کا خوف دامن گیر ہے۔ مساجد ، خانقاہ اور امام بارگاہ میں وہ لوگ براجمان ہیں جنہوں نے مذہب کو محض دنیاوی مفاد کا ذریعہ بنادیا ہے۔
امام ابو حنیفہؒ کی خدمات کا انکار اسلام کے سورج سے پھوٹنے والی روشن کرنوں کا انکار ہے۔ تاہم اسلام کے سورج کو آلودہ کرنے میں بھی سب نے اپنا اپنا حصہ ڈال دیا ہے۔ امام ابو حنیفہؒ نے علم الکلام (علم العقائد) سے توبہ کرکے قرآن کریم کی بیش بہا خدمت انجام دی مگر اس طریقے ہدایت اور سنت کو نبی کریم ﷺ کے طرز عمل سے نہیں جوڑا جاسکتا ہے۔ علم کلام کا یہ مسئلہ تھا کہ تحریری شکل میں اللہ کی کتاب قرآن کا نسخہ اللہ کا کلام نہیں ، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے وحی کا آغاز ہی قلم کے ذریعے سے انسان کو تعلیم دینے سے کیا ہے اور سورہ بقرہ میں الذین یکتبون الکتٰب بایدیھم ’’جو لوگ کتاب کو اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں‘‘( کتاب ہاتھ سے لکھی جانے والی چیز ہے ) مشرکین مکہ جانتے تھے کہ صبح شام لکھوائی جانے والے چیز کا نام کتاب ہے۔ ان پڑھ اور جاہل بھی یہ سمجھتا ہے کہ کتاب موبائل ، میز اور جگ نہیں لیکن علم کلام سے اپنی گمراہی مقدر ٹھہری۔ اُصول فقہ میں پڑھایا جاتا ہے کہ قرآن کے نسخے کلام اللہ نہیں اور ان پر حلف اٹھانے سے حلف نہیں ہوتا۔ پھر گمراہی کے کالے بادل وقت کیساتھ گہرے ہوتے گئے تو یہاں تک لکھا گیا کہ سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے۔ مستند سمجھے جانیوالے مذہبی مدارس گمراہی کے گڑھ اور قلعے بن چکے جو اپنے نصاب سے گمراہی کو نہیں نکال سکتے۔ علم کی سند جہالت اور مدارس کے نصاب پر ڈٹ جانا ہٹ دھرمی کے سوا کیا ہے؟ ۔امام نہ ملے تو درخت کی جڑ چوسنا بہتر رزق ہے۔
آج بڑے مدارس کے علماء ومفتیان اور مذہبی وسیاسی جماعتوں کے رہنما حق کی خاطر کھڑے ہوجائیں تو اسلامی انقلاب میں بالکل بھی کوئی دیر نہیں لگے گی۔
عن عبد اللہ ابن مسعودؓ ان رسول اللہْ ﷺ قال: ما من نبی بعثہ اللہ تعالیٰ فی اُمۃٍ قبلی الا کان لہ من امتہٖ حواریون و اصحاب یاخذون بسنتہٖ و یقتدون بامرہٖ ثم انھا تخلف من بعدہٖ خلوف یقولون مالا یفعلون و یفعلون مالا یؤمرون ومن جاہدھم بیدہٖ فھو مؤمن ومن جاہدھم بلسانہٖ فھو مؤمن ومن جاھدھم بقلبہٖ فھو مؤمن ولیس وراء ذٰلک من الایمان حبۃ خردلٍ (صحیح مسلم)
حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھ سے پہلے جس نبی کو بھی اللہ نے مبعوث فرمایا اس کی اُمت میں کچھ مخلص اور خاص رفقاء ضرور ہوا کرتے تھے جو اس کی سنت کی پابندی اور اسکے حکم کی پیروی کرتے، پھر انکے بعد ایسے ناخلف پیدا ہوئے جو کہتے کچھ اور کرتے کچھ اور وہ کام کرتے تھے جن کا ان کو حکم نہیں ہوتا تھا۔ پس جو شخص ہاتھ سے انکے خلاف جہاد کرے وہ بھی مؤمن ہے اور جو زبان سے انکے خلاف جہاد کرے وہ بھی مؤمن ہے اور جو دل سے انکے خلاف جہاد کرے وہ بھی مؤمن ہے اور اس کے بعد رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہے۔ (عصر حاضر حدیث نبویؐ کے آئینہ میں۔ مولانا یوسف لدھیانویؒ )
ہمارا ایک دوست امین اللہ خانپور کٹورہ میں اخبار کا گشت کررہا تھا ، ایک شخص نے کہا کہ میں مولانا عبد اللہ درخواستیؒ کا نواسہ ہوں۔ ہمارے مدرسے میں یہ میٹنگ بھی ہوئی ہے کہ عتیق الرحمن مفتی تقی عثمانی اور مفتی شامزئی کیخلاف لکھتا ہے اسکے لئے کوئی پروگرام بنائینگے، اگر مجھے ملے تو میں اس کو کلاشنکوف سے قتل کردونگا۔ امین اللہ بھائی نے کہا کہ میں تمہیں اس کے پاس لے جاتا ہوں پھر قتل کرنا ہو یا خود کش کرنا ہو میں نشاندہی کردیتا ہوں، تو وہ شخص کہنے لگا کہ تمہارا کوئی قصور نہیں ہے تم تو اخبار بیچتے ہو ، میرا اختلاف تم سے نہیں ، امین اللہ بھائی نے کہا کہ میں اخبار بیچتا نہیں ہوں بلکہ یہ میرا مشن ہے۔ تو اس نے کہا کہ مجھے معاف کرنا آپ کی دل آزاری ہوئی ہے۔
جب مفتی تقی عثمانی نے ہمارے مرشد حاجی محمد عثمانؒ پر فتوے لگائے تھے تو مولانا عبد اللہ درخواستی ؒ کے نواسے مولانا انیس الرحمن درخواستی شہید حاجی عثمان صاحب سے بیعت ہوئے تھے۔ ان کے بڑے بھائی مفتی حبیب الرحمن درخواستی نے حاجی عثمانؒ کے حق میں فتوے دئیے تھے۔ جب وہ میرے مشکوٰۃ کے اُستاذ تھے تو اپنے بھتیجے امداد اللہ کو میرے ذمہ لگایا تھا جو تقریباً ہر روز مدرسے سے چھپ کر فلم دیکھنے جاتا تھا۔ اب اس نے بھی بہاولپور میں اپنا مدرسہ کھول رکھا ہے۔ جب انوار القرآن کا طالب علم تھا تو اس وقت بہت بیکار لوگ بھی وی سی آر پر فلمیں نہیں دیکھتے تھے مگر مدرسے میں جمعرات کو کرائے پر وی سی آر لایا جاتا تھا اور میں نے ڈنڈے کے زور پر ان کو روکا تھا۔ اس وقت مدرسے کے تمام اساتذہ اور طلباء اس کے گواہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس عالم کی مثال کتے سے دی جس نے علم نہیں دنیا کو ترجیح دی۔ کتوں میں بھی کچھ نسلی کتے ہوتے ہیں جوپرایا اور دشمن کا نہیں کھاتے لیکن قرآن میں گلی کوچوں کے اس کم اصل کتے کا ذکر ہے جو ہر حال میں ہانپتا ہے۔ ہمارا مؤقف بالکل واضح ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی ایک گمراہ مولوی اور مردود صوفی تھا لیکن اس کو بھی کوئی اتنی نشاندہی کرتا کہ نصاب میں اس قسم کی مغلظات ہیں تو وہ بھی ان مغلظات کیخلاف ہوجاتا۔ موجودہ دور اس دہانے پر کھڑا ہے کہ یا کوئی انقلاب کا امام بن کر مسلمانوں کی جماعت کو ان گمراہانہ تصورات سے بچائے یا پھر سب فرقوں سے الگ تھلگ ہوکر مذہب کے نام پر پلنے کے بجائے جنگل میں نکل جائے چاہے درخت کی جڑیں چوس کر گزارہ کرنا پڑے۔ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے کہ ہم نے ان ناخلف جانشینوں کیخلاف نہ صرف علمی اور عملی جہاد کا آغاز کیا ہے بلکہ مسلم اُمہ کی ایک بھاری اکثریت بھی ہر مکتبہ فکر سے ہماری ہم نوابن گئی ہے۔
ہمارے ساتھیوں کو اگر اللہ تعالیٰ نے کامیابی بخشی تودنیا ان کو سورہ واقعہ کے اندر موجود قلیل من الاٰخرین کے طور پر سمجھے گی۔ سورہ جمعہ اور سورہ محمد میں بھی اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے حوالے سے جو آیات ہیں احادیث میں ان کی وضاحت کی گئی ہے۔ پاکستان اسلام کی نشاۃ ثانیہ کیلئے بنا تھا اور یہ بہت اچھا ہوا کہ مولوی حضرات اقبال و قائد اعظم کیخلاف تھے ورنہ اسلام کے نام پر اس ملک کا کباڑہ کیا جاتا۔ جن لوگوں نے کھل کر ہماری حمایت کی ہے اور وہ دنیا سے جاچکے ہیں اور جو کھل کر ہماری حمایت کررہے ہیں اور وہ دنیا میں موجود ہیں تو ان کا شمار سورہ واقعہ کے مطابق اصحاب الیمین میں ہوگا جو پہلے دور میں بھی کثرت سے تھے اور اس دور میں بھی کثرت سے ہیں۔ دین کو پہچاننے کے بعد ہاتھ ، زباں اور دل سے جہاد کے مختلف مراحل سے ہم بفضل تعالیٰ گزر چکے ہیں۔ حدیث میں پہلا درجہ انہی کو دیا گیا ہے جنہوں نے اللہ کے دین کو پہچانا اور پھر اس کے ذریعے زبان ہاتھ اور دل سے جہاد کیا۔ دوسرا درجہ ان لوگوں کا ہے جنہوں نے اللہ کے دین کو پہچانا اور پھر اعلانیہ اس کی تصدیق بھی کی اور تیسرا درجہ ان لوگوں کاہے جن میں اعلانیہ حمایت کرنے کی جرأت نہ تھی مگر دل ہی دل میں خیر کا عمل کرنے والوں سے محبت رکھی اور باطل کا عمل کرنے والوں سے بغض رکھا۔ انکے بارے میں بھی وضاحت ہے کہ وہ اپنے اس پوشیدہ عمل کے باوجود بھی نجات پائیں گے۔ بہت سے بزرگ علماء دین کل بھی ہم سے محبت رکھتے تھے اور دنیا سے اسی طرح سے رخصت ہوگئے۔ آج بھی بفضل تعالیٰ بڑے بڑے اکابر ہیں جو ہم سے دلی محبت رکھتے ہیں مگر ہمت نہیں کرسکتے۔ اخبار میں ان لوگوں کے بیانات بھی منظر عام پر آتے ہیں جو اعلانیہ ہماری حمایت کررہے ہیں۔ ان کی اس ہمت میں اللہ تعالیٰ برکت ڈالے اور بہت سے لوگوں کو ان کی بدولت اعلانیہ حمایت کی ہمت عطا فرمائے۔ اصل معاملہ عوام کی جہالتوں کا بھی ہے، آج ایک عالم نمازمیں قرآن وسنت کے مطابق سورۂ فاتحہ اور قرآن کی دیگر سورتوں اور آیات سے پہلے جہری بسم اللہ پڑھنا شروع کردے تو عوام کی طرف سے بغاوت کا خطرہ ہوگا۔
انقلاب کیلئے جہری نماز میں جہری بسم اللہ سے آغاز کرنا ہوگا۔ بنی امیہ کے دور میںیہ المیہ پیش آیا کہ جہری نماز میں جہری بسم اللہ پڑھنے والوں کوحضرت علیؓکا حامی قرار دیا جاتا تھا، امام شافعیؒ نے جہری بسم اللہ کو لازم قرار دیا تو ان کو رافضی قرار دیکر منہ کالا کرکے گدھے پر گمایا گیا، حضرت امام ابوحنیفہؒ کی موت جیل میں ہوئی ، حضرت امام مالکؒ کیلئے مشہور ہے کہ ان کے فقہ کو رائج کرنے کی پیشکش ہوئی مگر انہوں نے انکار کردیا۔ امام مالکؒ کی طرف یہ منسوب ہے کہ فرض نماز میں بسم اللہ پڑھنا جائز نہ سمجھتے تھے، حنفی مسلک میں یہ پڑھایا جاتاہے کہ ’’ صحیح بات یہ ہے کہ بسم اللہ قرآن کا حصہ ہے مگر اس میں شک ہے‘‘(نورالانوار)۔صحیح بات یہ ہے بسم اللہ قرآن ہے مگر اس میں شک اتنا قوی ہے کہ اسکے انکار کی وجہ سے کوئی کافر نہیں بنتا‘‘( توضیح تلویح) درس نظامی کی یہ دونوں کتابیں دیوبندی وفاق المدارس و بریلوی تنظیم المدارس کے وفاقی بورڈ کا حصہ ہیں۔ آج مذہبی جماعتیں مدارس کے اپنے کفریہ نصاب کو درست نہیں کرسکتیں تو دنیا میں کیا اسلامی نظام کے نفاذ کا کام کرینگی۔ مولانا فضل الرحمن اور مولانا عطاء الرحمن نالائق طلبہ تھے تو فیل ہوتے تھے،ان کو اسلام کی کوئی فکر نہیں۔ ان خود ساختہ ٹھیکیداروں کے چنگل سے اسلام کو بازیاب کرانا ہوگا۔کسی بادشاہ کو بھکارن پسند آگئی اور اس سے شادی کرلی،جو محل میں کھانا نہیں کھارہی تھی، بادشاہ کو پریشانی لاحق ہوئی تو وزیر نے سمجھایاکہ محل کے کونوں روٹی کے ٹکڑے پھیلادیں تو کھا جائیگی۔درباری مُلاؤں کو بھی انقلاب کا مزہ نہیں آتا بلکہ ٹکڑوں پر پلنا اچھا لگتاہے۔

بقیہ :اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا بہترین ومستند ترین نمونہ

کراچی سے کانیگرم جنوبی وزیرستان تک علماء ومفتیان نے جو کردار ادا کیا اسکو تاریخ کے اوراق میں جگہ ملے یا نہ ملے اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں ہے لیکن الحمد للہ ہے ہمارا کردار اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز ثابت ہورہاہے۔ پہلے میرا بھی علماء کرام و مفتیان عظام سے محض عقیدت واحترام کا تعلق تھا، اب یہ تعلق محض رسمی حد تک نہیں بلکہ مضبوط بنیادوں پر استوار ہوچکا ہے۔ جمعیت علماء اسلام کے سابقہ مرکزی امیر مولانا عبدالکریمؒ بیرشریف لاڑکانہ ، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی امیر مولانا خان محمدؒ کندیاں میانوالی ، مولانا سرفراز خان صفدرؒ گوجرانوالہ اور انکے صاحبزادے مولانا زاہدالراشدی کے علاوہ دیوبندی بریلوی اہلحدیث، جماعت اسلامی اور شیعہ کے بڑے نامور علماء کرام و سرکاری افسران نے بڑی تعداد میں ہماری بھرپور طریقے سے زبردست حمایت کی ہے۔ جن میں سندھ کے چیف سیکرٹری فضل الرحمن،ایف آئی اے کے داریکٹر، آئی جی ڈی آئی جی سندھ اور دیگر ذمہ دار عہدوں پر فائز شامل ہیں۔ کسی بھی تحریک اور جماعت کو ایسے مختلف الخیال لوگوں کی طرف سے اتنی بڑی تعداد میں کھل کر ایسی حمایت کرنے کا اعزاز حاصل نہیں ہوا ہے۔
ٹانک کے تمام مشہور علماء کرام مولانا فتح خانؒ ، مولانا عبدالرؤفؒ گل امام، مولانا عصام الدین محسود، جمعیت علماء اسلام (ف)مولانا غلام محمد ضلعی امیر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، مولانا شیخ محمدشفیع ضلعی امیرجمعیت علماء اسلام(س)مولانا قاری محمد حسن شکوی خطیب گودام مسجد ٹانک و مہتمم مدرسہ شکئی جنوبی وزیرستان وغیرہ نے کھل کر ہماری حمایت کی مگرقاضی عبدالکریم کلاچی نے کھل کراور مولانا فضل الرحمن نے چھپ کر وار کیا۔ پھر مولانا فضل الرحمن نے سب کے سامنے گھر پر آکر کہا تھا کہ ’’میں نے ہمیشہ حمایت کی ہے‘‘۔ حالانکہ جب ٹانک کے معروف علماء نے تحریر ی حمایت کا اعلان کیا اور تبلیغی جماعت نے انکے خلاف فضاء کو خراب کرنا شروع کردی توہم نے ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے تمام دیوبندی مکتبۂ فکر کا پروگرام رکھنے کی تجویز رکھی سب متفق ہوگئے مگر مولانا فضل الرحمن نے مولانا عصام الدین محسود سے کہا کہ یہ پروگرام نہ ہونے پائے۔ انہوں نے پوچھ لیا کہ کیوں؟، مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ’’پھر روتے ہوئے میرے پاس نہیں آنا ، میرے پاس کوئی جواب نہیں‘‘۔
مولانا عصام الدین محسود نے مجھے بتادیا ۔ میں خود مولانا فضل الرحمن کے پاس گیا ، پہلے اس نے بات ٹالنے کی کوشش کی اور پھر مدرسہ کے منتظم مولانا عطاء اللہ شاہ سے کہا کہ آپ شرکت کرلیں۔ مولانا فتح خان کو میں نے صورتحال سے آگاہ کیاتو یہ طے پایا کہ ٹانک کے علماء کے کھانے کا اہتمام مولانا عصام الدین محسودکے ذمہ لگانا ہوگا تاکہ مولانا فضل الرحمن کے دباؤ سے وہ کہیں غائب نہ ہوجائیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے علماء کی دعوت مولانا فتح خان کے ذمہ ہوگی۔ پھر ڈیرہ اسماعیل خان سے کوئی بھی نہیں آسکا تھا لیکن ٹانک اور مضافات کے علماء کرام کی اچھی تعداد شریک ہوئی۔ میں نے اپنے مؤقف کی وضاحت کردی تو مولانا فتح خان نے اٹھ کر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ میری داڑھی سفید ہوگئی ہے، عتیق میرے سامنے بچہ ہے لیکن اسکے علم نے میری آنکھوں سے پٹیاں کھول دی ہیں۔۔۔‘‘۔ مولاناعبدالرؤف مولانا غلام محمد اور دیگر نے بھرپور طریقے سے میرے حق میں تقریریں کردیں۔ جمعیت علماء اسلام کے ذمہ دار عہدوں پر مولانا فتح خان، مولانا عبدالرؤف، مولانا عصام الدین تھے۔
مولانا شرف الدین کی اس وقت کوئی حیثیت نہیں تھی تاہم اس نے اعتراض اٹھایا تھا کہ عہدے مانگنا جائز نہیں، تم خود خلیفہ بننا چاہتے ہو۔ میں نے جواب دیا کہ خلافت حلوے کی پلیٹ نہیں کہ کوئی فرد اس کو اٹھائے اور بھگا کرلے جائے۔ 20افراد مار دئیے جائیں تب 21واں شخص خلیفہ بن جائے تو یہ سستا سودا ہوگا۔ اورجہاں تک عہدہ مانگنے کی بات ہے تو جب رسول اللہ ﷺ مکہ میں تھے تو اللہ نے ہجرت کرنے اور اقتدار کو مددگار بنانے کی دعا کا حکم دیا۔ جب خلافت قائم نہ تو اس کا قیام ضروری ہے البتہ خلافت قائم ہوجائے تب عہدہ مانگنے کی ممانعت ہے ،الیکشن کے دور میں ووٹ مانگنے کیلئے جمعیت علماء اسلام کتنے پاپڑ بیلتی ہے اور حکومتوں میں شامل ہونے کیلئے اس کا رویہ کتنا انوکھا ہوتا ہے۔ اسلام کی رو سے اس طرح کی تنظیم سازی جائز بھی ہے یا یہ کسی اور کے اتباع کا شاخسانہ ہے؟۔ پھر مولانا شرف الدین نے کہا کہ آپ اپنے اخبار میں تائیدی بیانات دیتے ہو مخالفت والے شائع نہیں کرتے۔ میں نے کہا کہ میرا اخبار آپ کے مخالفانہ سوالات اور اعتراضات کیلئے ہی وقف ہے۔ آپ لکھیں ہم شائع کریں گے۔ اس نے کچھ دنوں کا وقت لیا مگر مہینوں پھر چھپتا رہا۔ آخر کار میں اسکے مدرسے تجوڑی میں پہنچ گیا ، بعد میں کسی سے کہا کہ خدا کیلئے میری جان چھڑائیں۔ پھر ہم نے کبیر پبلک اکیڈمی میں ایک پروگرام رکھ لیا۔ مولانا فتح خان ، مولانا عبد الرؤف ، مولانا عصام الدین اور مولانا غلام محمد وغیرہ نے بہت کھل کر جلسہ عام میں ہماری تحریک کی حمایت کی جس کو ہم نے اپنے اخبار ضرب حق میں شہ سرخیوں کیساتھ شائع کیا۔ لوگ علماء اور اکابرین کی حمایت سے مطمئن ہوتے ہیں مگر ہمارے حاسدین نے مخالفت میں شدت پیدا کردی۔
مولانا فضل الرحمن نے ڈیرہ اسماعیل خان میں ہمارے ساتھیوں کیخلاف علماء کو بھڑکایا ، سپاہ صحابہ کے کارکنوں سے ہمارے ساتھیوں کی لڑائی ہوئی تو خلیفہ عبد القیوم نے بتایا کہ یہ پلان کسی اور کا تھا ہمارے کارکن استعمال ہوگئے۔ اسی دن مولانا فضل الرحمن ہمارا پچھلا اخبار لیکر ٹانک گئے اور جن علماء کی تقاریر شائع ہوئی تھیں ان پر دباؤ ڈالا۔ مولانا عبد الرؤف نے بتایا کہ میں نے مولانا کو کہا کہ ہم عتیق گیلانی کو جانتے بھی نہ تھے آپ نے متعارف کرایا، اب اس میں خامی کیا ہے ؟، اگر کوئی بات ہے تو آپ آرام سے بیٹھ جائیں ہم نمٹ لیں گے لیکن اگر کوئی بات نہیں تو خواہ مخواہ حسد کرنا درست نہیں ہے۔ پھر مولانا عبد الرؤف ضلعی امیر جمعیت علماء اسلام ٹانک نے اپنا زبردست تائیدی بیان قلم بند کرکے علامہ اقبال کا یہ شعر بھی لکھ دیا تھاکہ
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کیلئے
قاضی عبد الکریم کلاچی نے اپنے خط میں مولانا شیخ محمد شفیع کو لکھا تھا کہ آپ کی طرف سے عتیق گیلانی کی تحریری اور مجلس عام میں تقریری حمایت پر مجھے دکھ ہوا ہے، باقی (مولانا فضل الرحمن والے)تو ایسے ہیں کہ قادیانیوں کا بھی استقبال کرینگے۔ عتیق گیلانی پر گمراہی کا فتویٰ مہدی کی وجہ سے نہیں لگتا یہ تو کوئی بات نہیں بلکہ اہل تشیع کے کفر پر امت کا اجماع ہوچکا ہے یہ شخص اس اجماع کا منکر ہے اسلئے گمراہ ہے۔ مولانا عبد الرؤف کا بیان ضرب حق کی زینت بنا تھا جس میں قاضی عبد الکریم کو اپنی بھونڈی حرکتیں چھوڑنے کی تلقین کی گئی تھی۔ میں نے قاضی عبد الکریم کے جواب میں لکھا تھا کہ تمہارا فتویٰ سعودی عرب کے حکمرانوں پر بھی لگتا ہے اسلئے کہ غیر مسلم کا حرم میں داخلہ ممنوع ہے۔ جس کے بعد قاضی عبد الکریم نے مولانا عبد الرؤف سے معافی مانگ لی تھی کہ میں غلطی پر تھا۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ ہم نے جان بوجھ کر قاضی عبد الکریم کو عتیق گیلانی سے لڑایا تاکہ اس کے فتوے کند ہوجائیں۔ پھر مولانا فضل الرحمن نے ہمارے گھر پر مولانا گل نواز محسود کے مجھ سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ ’’میں نے اسکی کبھی مخالفت نہیں کی ہمیشہ اسکی حمایت کرتا ہوں۔ ‘‘ اہل تشیع، اہل حدیث،دیوبندی اور بریلوی علماء ومفتیان کی لمبی فہرست ہے جنہوں نے ہماری حمایت کی ہے لیکن درپردہ حسد کا مسئلہ بھی ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے واضح کردہ قیامت کی یہ نشانی حرف بہ حرف پوری ہوئی.

عن انس رفعہ۔اقتراب الساعۃ ان یری الہلال قبلا فیقال لیلتین و ان تتخذ المساجد طرقا و ان یظھر موت الفجاء ۃ
(طبرانی اوسط ، کنزل العمال ج 14، ص 220، جمع الفوائد ج: 3، ص:443، حدیث نمبر: 9808 ، مطبوعہ علوم القرآن بیروت، عصر حاضر حدیث نبوی ؐکے آئینہ میں، لدھیانویؒ )
قرب قیامت کی ایک نشانی یہ ہے کہ چاند پہلے سے دیکھ لیا جائیگا اور پھر کہا جائیگا کہ دو رات کا چاند ہے اور مساجد کو گزر گاہ بنالیا جائیگا اور نا گہانی موت عام ہوگی۔
رسول اللہ ﷺکی طرف سے واضح کردہ قیامت کی یہ نشانی حرف بہ حرف پوری ہوئی ہے۔ پہلے سے چاند دیکھنے کی بات تو اتنی بڑی بات نہیں جتنی چاند گرہن اور سورج گرہن کا معاملہ ہے۔ وہ بھی پہلے سے بتادیا جاتا ہے۔ مفتی منیب الرحمن چیئر مین رویت ہلال کمیٹی کے چشمے سے لگتا ہے کہ آٹھ نمبر سے کم نہیں ہوگا۔ قریب اور دور کے چشمے بھی الگ الگ ہوتے ہیں اور اگر کبھی دور کے ساتھ قریب کا چشمہ بھی لگایا جاتا ہے تو نیچے کی طرف سے ہوتا ہے۔ پوری دنیا میں ہلال کا پہلے سے ہی پتہ چل جاتا ہے مگر پاکستان میں ہلال کمیٹی نے چاند دیکھنے کا فیصلہ اسوقت کرنا ہوتا ہے جب چاند سب لوگوں کو اتنا بڑا نظر آتا ہے کہ اس کیلئے مخصوص کمیٹی کی ضرورت نہیں رہتی۔ ایک مرتبہ ہم اسلام آباد گئے اور اخبارات میں خبر یہ تھی کہ رمضان کا چاند نظر آنے کا اسلام آباد میں کوئی امکان نہیں البتہ کراچی میں نظر آسکتا ہے۔ مفتی منیب الرحمن کراچی سے پھر بھی اسلام آباد چاند دیکھنے کیلئے گئے ۔ اسلام آباد کے ایئر پورٹ پر واپس آتے ہوئے میں نے چیئر مین رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمن سے پوچھا کہ اگر پاکستان اور سعودی عرب کے وقت میں کچھ گھنٹوں کا فرق ہے تو اس سے زیادہ فرق پاکستان اور برطانیہ و امریکہ کا ہے۔ اگر 2 گھنٹوں سے ایک دو دن کا فرق ہوسکتا ہے تو 8اور 12 گھنٹے کا پھر زیادہ فرق ہونا چاہیے۔ جب محکمہ موسمیات نے خبر دی کہ چاند اسلام آباد میں نظر نہیں آسکتا ، کراچی میں موسم صاف ہے ، کراچی میں نظر آسکتا ہے تو پھر چاند دیکھنے کیلئے کراچی سے اسلام آباد آنے کی کیا ضرورت تھی؟۔ تو مفتی منیب الرحمن نے اس کا بہت زبردست جواب دیا کہ یہ پاکستان ہے انجوائے کرو انجوائے۔ اگر دنیا کی سطح پر مختلف چاند ہوں تو پھر الگ الگ روزے اور عید منانا بھی درست ہے۔ جس طرح سے نماز کے اوقات میں مختلف جگہوں پر سورج یا طلوع ہوتا ہے یا غروب اور کہیں عصر و ظہر کے وقت میں مغرب و عشاء کا وقت ہوتا ہے۔ اس طرح سے چاند کا بھی یہ مسئلہ ہوتا تو پھر مختلف روزے اور عید الفطر و عید الاضحی کا جواز تھا۔ دنیا تماشہ دیکھتی ہے کہ لندن اور امریکہ میں بعض لوگ سعودیہ کیساتھ اور بعض پاکستان کیساتھ روزہ و عید مناتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں توراۃ کے حوالے سے مذہبی ذہنیت رکھنے والوں کو گدھوں سے تشبیہ دی ہے۔ مندرجہ بالا حدیث میں یہ وضاحت ہے کہ ہلال کو پہلے سے ہی دیکھ لیا جائیگا ۔ یہ صلاحیت تو دنیا نے حاصل کرلی ہے۔ مگر اسکے باوجود مسلم امہ کی کیفیت یہ ہے کہ دو دن کے چاند پر روزہ و افطار کرتے ہیں۔ پہلے علماء ریڈیو کے اعلان کو شریعت کے منافی سمجھتے تھے اسلئے چشم دید گواہوں پر روزہ و عید کا فتویٰ دیتے تھے۔ پھر ریڈیو کے اعلان کو ہی معتبر قرار دیا۔ پھر ٹی وی کی نشریات کو حرام قرار دیا اور اب ٹی وی پر اعلان نہ ہو تو چاند کا دیکھنا بھی معتبر نہیں۔
ایک لطیفہ ہے کہ کسی شخص نے قسم کھائی ہوئی تھی کہ جب تک چاند کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لوں روزہ نہیں رکھوں گا۔ وہ آسمان کی طرف دیکھنے سے گریز کر رہا تھا ایک دن اپنی گائے کو پانی پلارہا تھا تو چاند کے عکس کو پانی میں دیکھا۔ پھر کہنے لگا کہ اب تم پاؤں میں پڑ گئے ہو اسلئے روزہ رکھنا پڑے گا۔ ہلال کمیٹی والے چاند کو نہیں دیکھتے جب تک چاند بہت ترس نہیں جاتا۔ ماہرین عوام کو بتادیں کہ دوربین کیلئے قریب کے چشموں کی ضرورت ہے یا دور کے؟۔ اگر سعودیہ کا چاند پاکستان کیلئے معتبر نہیں تو پاکستانی حج کا فرض کیسے ادا کرتے ہیں؟۔ نماز کے اوقات کی طرح تمام مہینوں کے ہلالوں کے بھی آئندہ کلنڈر شائع ہوسکتے ہیں جس کو علماء و مفتیان سمجھے بوجھے بغیر بھی اپنے نام کے ساتھ منسوب کرینگے۔ روزہ رکھنے اور افطار کرنے کا کلینڈر بھی علماء و مفتیان نے جدید علوم کی روشنی میں بنایا ہوتا ہے تو پھر چاند کا کیوں نہیں؟۔ خدارا اُمت مسلمہ پر رحم کریں۔محمد اشرف میمن، پبلشر نوشتہ دیوار

اسلام کا مسئلہ طلاق کردار سازی کا ذریعہ

عربی میں عورت کو چھوڑدینے یا علیحدہ کرنے کا نام طلاق ہے۔ زمانہ جاہلیت میں اس طلاق نے ایسی مذہبی کیفیت اختیار کرلی تھی جس میں شوہر چاہتا تو بیوی کو زندگی بھر حق سے محروم کرکے رکھ لیتا۔ طلاق دے دیتا اور پھر عدت کے خاتمے سے پہلے رجوع کرلیتا اور یہ بھی صورتحال تھی کہ بیک وقت تین طلاق دیتا تو رجوع نہیں کرسکتا تھا۔ اللہ نے شوہر کے اختیاری ظلم و جبر کو بھی ختم کردیا اور اس کیفیت سے بھی نجات دلادی کہ میاں بیوی باہمی رضا مندی سے رجوع نہیں کرسکتے تھے۔ طلاق کے حوالے سے دنیا نیوز کے معروف صحافی کامران خان نے ڈاکٹر ذاکر نائک ، جاوید احمد غامدی اور مفتی محمد نعیم کو اپنا اپنا مؤقف پیش کرنے کا موقع فراہم کیا۔ رمضان کا مہینہ آرہا ہے جس میں طلاق کے واقعات کی کثرت ہوتی ہے۔ اہل حدیث کے دار الافتاؤں میں سوالات کے انبار پڑے رہتے ہیں۔
طلاق کے حوالے سے قرآن میں سورہ طلاق کی پہلی دو آیات اور سورہ بقرہ کی 224 سے 232تک کسی بھی مسلک کے بڑے عالم دین کا صرف عوام ترجمہ ہی دیکھ لیں۔ ہمارا مؤقف کتاب ’’ابر رحمت‘‘ اور ’’تین طلاق کی درست تعبیر‘‘ میں بہت واضح ہے جس کی آج تک بڑے پیمانے پر بڑے بڑے علماء و مفتیان کی طرف سے بہت تائید ہوئی ہے مگر ان کی تردید کی جرأت آج تک کوئی نہیں کرسکا ہے۔ الحمد للہ کافی لوگوں کے مسائل بھی حل ہوئے ہیں اور امید ہے کہ تمام مکاتب فکر کے علماء اور دنیا بھر کی تمام ریاستوں کی طرف سے اس کو بھرپور پذیرائی ملے گی۔ ہم یہاں پھر چند مغالطے ختم کرنا چاہتے ہیں۔
اسلام نے نکاح و طلاق کے معاشرتی تصورات کو کچھ اہم اصلاحات کیساتھ متعارف کرایا ہے، نکاح و طلاق کی سب سے زیادہ اہمیت نسب کی حفاظت اور جائز و ناجائز کا تصور ہے۔ نکاح و طلاق میں شوہر و بیوی کے حقوق کا مکمل تحفظ ہے۔ نکاح اور طلاق میں جاہلانہ رسم و رواج کا بالکل جڑ و بنیاد سے خاتمہ کیا گیا ہے مگر بد قسمتی سے اسلام اجنبی بن گیا ہے۔
ایک شوہر اپنی بیوی کو ایک طلاق دیتا ہے اور پھر عدت کے آخر میں بیوی کی رضا مندی کے بغیر رجوع کرلیتا ہے ، اسی طرح سے تین مرتبہ بیوی کو عدت گزارنے پر مجبور کرتا ہے تو کیا یہ حق اس کو شریعت نے دیا ہے؟۔ کم عقل علماء و مفتیان کہتے ہیں کہ اللہ نے ہی شوہر کو یہ حق دیا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے شوہر کو ایک ہی عدت کا حق دیا ہے تین عدتوں کا نہیں۔ پھر اگر شوہر اپنی بیوی کو زندگی بھر طلاق نہیں دے تو بھی کم عقل علماء و مفتیان کہتے ہیں کہ یہ حق شوہر کو اللہ نے ہی دیا ہے۔ بیوی خلع لینا چاہتی ہو مگر شوہر طلاق نہ دے تو بھی یہ کم عقل طبقہ کہتا ہے کہ اللہ نے شوہر کو یہ حق دیا ہے۔ قرآن کی تعلیمات کو چھوڑنے کا سب سے بڑا ذمہ دار طبقہ یہ علماء و مفتیان ہیں جنکو عوام قرآن و سنت اور دین و شریعت کا محافظ سمجھتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں رسول اللہ ﷺ کی طرف سے قیامت کے دن اپنی اُمت کے خلاف شکایت کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے جس سے علماء و مفتیان اندازہ لگاسکتے ہیں۔
و قال رسول ربی ان قومی اتخذوا ھٰذ القرآن مہجورا ’’اوررسول ﷺ فرمائیں گے کہ اے میرے رب! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت 224میں یہ نکتہ واضح کیا کہ اللہ کو اپنی یمین کیلئے مت استعمال کرو ڈھال کے طور پرکہ تم نیکی نہ کرو گے ، تقویٰ اختیار نہیں کرو گے اور لوگوں کے درمیان مصالحت نہ کرو گے۔۔۔ عربی میں یمین کی جمع اَیمان ہے ۔ دائیں ہاتھ کو یمین کہا جاتا ہے اور جب کوئی عہد و پیمان کرتا ہے ، حلف اٹھاتا ہے ، کسی چیز کو حرام قرار دیتا ہے تو یہ سب کے سب یمین کی صورتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے وضاحت یہ کی کہ اللہ کو نیکی ،تقویٰ اور مصالحت نہ کرنے کیلئے عہد و پیمان میں ڈھال کے طور پر استعمال نہ کرو۔ یہ ایسی وضاحت ہے کہ جب بھی میاں بیوی آپس میں ملنے پر راضی ہوں تو کوئی یہ فتویٰ نہیں دے سکتا ہے کہ اللہ کی طرف سے منع ہے ، شریعت رکاوٹ ہے ، فقہ رکاوٹ ہے ، حدیث رکاوٹ ہے اور قرآن رکاوٹ ہے۔ کم عقل علماء و مفتیان کی ذہنیت پر اس آیت میں اللہ نے بینڈ (پابندی)لگادی۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ بیوی کو غصہ میں ماں کہہ دیا جاتا تھا ، حرام کہہ دیا جاتا تھا اور تین طلاق دی جاتی تھی ، نہ ملنے کی قسم کھالی جاتی تھی اور پھر پشیمانی کے بعد بھی مذہب کو آڑ بنا کر میاں بیوی ایکدوسرے کے قریب نہیں آسکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ سرخ لکیر ان تمام فتوؤں پر خط تنسیخ بنا کر کھینچ دی کہ اب اللہ کو ان معاملات میں ڈھال کے طور پر استعمال کرنا چھوڑ دو۔ اللہ کو پتہ تھا کہ انسان بتوں کو بھی پوجتا ہے ، چاند، تارے اور سورج کا بھی پجاری بنتا ہے ، گائے کو بھی پوجتا ہے ، احبار و رہبان علماء و مشائخ کو بھی رب کے درجے پر فائز کردیتا ہے۔ ڈھیٹ انسان کیلئے ایک جملہ کافی نہیں تفصیل ضروری ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت 225 میں واضح کردیا کہ اللہ تمہیں لغو یمین سے نہیں پکڑتا بلکہ دل کے گناہوں سے پکڑتا ہے۔ پھر 226میں یہ بھی بتادیا کہ اگر کوئی اپنی بیوی سے نہ ملنے کی ٹھان لے تو اس کیلئے 4ماہ ہیں اور اگر مل گئے تو اللہ غفور رحیم ہے اور پھر آیت 227میں یہ بھی بتادیا کہ اگر پہلے سے طلاق کا عزم تھا تو اللہ سننے جاننے والا ہے۔ پھر آیت 228میں یہ بھی بتادیا کہ طلاق شدہ کیلئے انتظار کی مدت تین مراحل یا تین ماہ ہے اور اس مدت میں شوہر صلح کی شرط پر رجوع کے حقدار ہیں۔ جس کا مطلب واضح ہے کہ اگر طلاق کا عزم تھا اور اس کا اظہار نہ کیا تو اللہ تعالیٰ دل کے اس گناہ پر ضرور پکڑے گا اسلئے کہ طلاق کے عزم کا اظہار نہ کرنے کی صورت میں عدت 3 کے بجائے 4 ماہ ہے اور یہ عورت کیساتھ زیادتی ہے۔ جب طلاق کے عزم کا اظہار نہ کرنیکی صورت میں عورت کی عدت ایک ماہ بڑھ جائے اور اس پر بھی اللہ کی طرف سے واضح طور پر پکڑکی وعید سنائی گئی ہو تو پھر شوہر کو زندگی بھر عورت کو رلانے کا حق اللہ کی طرف سے کیسے ہوسکتا ہے؟۔
عدت 4ماہ کی ہو یا 3ماہ کی لیکن اللہ تعالیٰ نے رجوع کیلئے بار بار عدت ہی کا حوالہ دیا ہے۔ عدت میں بھی رجوع کیلئے باہمی رضا مندی اور صلح کی شرط کو واضح کیا ہے۔ قارئین ! خود ہی قرآن کی آیات کا ترجمہ ہی دیکھ لیں۔ سورہ بقرہ کی آیت 228میں تین مراحل کی عدت اس صورت میں ہے جب عورت کو حیض آتا ہو اور اگر حیض نہ آتا ہو یا اس میں کوئی مسئلہ ہو تو پھر 3ماہ کی عدت ہے۔ 3طہر و حیض کا مجموعہ بھی 3ماہ بنتا ہے۔ اگر عورت کو حمل ہو تو پھر عدت کے 3مراحل میں 3مرتبہ طلاق کا کوئی تصور نہیں بنتا، 228میں یہ بھی واضح ہے کہ میاں بیوی کے حقوق بالکل برابر ہیں البتہ مردوں کو ایک درجہ زیادہ حاصل ہے۔ یہ بڑا درجہ ہے کہ شوہر طلاق دیتا ہے اور عورت انتظار کی عدت گزار تی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آیت 229میں یہ واضح کیا ہے کہ طلاق دو مرتبہ ہے ، پھر معروف طریقے سے رجوع یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ واضح فرمادیا کہ 3مرتبہ طلاق سے مراد حیض کی صورت میں طہر و حیض کے 3مراحل ہیں۔ بخاری کی کتاب التفسیر سورہ طلاق کے علاوہ کتاب الاحکام ، کتاب الطلاق اور کتاب العدت میں حضرت ابن عمرؓ کے حوالے سے اس وضاحت کا مختلف الفاظ کے ساتھ ذکر ہے۔ ایک صحابیؓ کے سوال کے جواب میں بھی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تسریح باحسان ہی تیسری طلاق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی واضح کردیا کہ اگر معروف طریقے سے رجوع کا پروگرام نہ ہو تو پھر طلاق کی صورت میں تمہارے لئے بیوی سے کچھ بھی لینا حلال نہیں جو بھی تم نے انکو دیا ہے، البتہ اگر دونوں اس بات پر متفق ہوں کہ اگر کوئی دی ہوئی چیز ایسی ہو جس کو واپس نہ کیا جائے تو دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے اور اگر فیصلہ کرنے والوں کو بھی یہ خوف ہو کہ اس چیز کو واپس کئے بغیر یہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو عورت کی طرف سے اس چیز کا فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں۔ یہ اللہ کے حدود ہیں ان سے تجاوز مت کرو اور جو ان سے تجاوز کرتا ہے تو بیشک وہی لوگ ظالم ہیں۔ پھر یہ تمہید مکمل کرنے کے بعد اللہ نے آیت 230میں واضح کیا کہ پھر اگر طلاق دیدی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی اور سے نکاح نہ کرلے۔ علماء و مفتیان اپنی کم عقلی کی وجہ سے قرآن کی ساری حدود کو پامال کرتے ہوئے یہ ایک جملہ پکڑ لیتے ہیں اور باقی آگے پیچھے سے کچھ دیکھنے کی زحمت نہیں کرتے۔ اسکے بعد آیت 231اور 232میں بھی عدت کے بعد رجوع کی گنجائش کو واضح کیا گیا ہے۔ دیوبندی بریلوی اصول فقہ کی متفقہ کتاب ’’نور الانوار: ملا جیونؒ ‘‘ میں بھی حنفی مؤقف کی وضاحت ہے کہ آیت 230میں اس طلاق کا تعلق 229میں فدیہ کی صورت سے ہے ۔ علامہ ابن قیم ؒ نے بھی ’’زاد المعاد‘‘ میں حضرت ابن عباسؓ کے حوالے سے تفسیر لکھ دی ہے کہ اس طلاق کا تعلق سیاق و سباق کے مطابق مرحلہ وار دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسرے مرحلے میں فدیہ دینے کی صورت سے ہے۔ تفسیر کے امام علامہ جاراللہ زمحشریؒ کی بھی یہی رائے ہے۔ اور سب سے بڑھ کر قرآن کی سورہ طلاق میں بھی اسی مؤقف کی ہی زبردست تائید ہے۔ ابو داؤد شریف میں حضرت ابو رکانہؓ اور حضرت اُم رکانہؓ کے حوالے سے بھی سورہ طلاق کا حوالہ دیکر نبی کریم ﷺ نے اسی مؤقف کی تائید فرمائی ہے۔
سورہ بقرہ اور سورہ طلاق کی آیات اور احادیث میں یہ مؤقف بالکل واضح ہے کہ تین مرتبہ طلاق کا تعلق طہر و حیض کے 3مراحل سے ہے۔ رجوع کا تعلق باہمی رضامندی اور عدت کی تکمیل کے حوالے سے ہے۔ عدت کی تکمیل سے پہلے عورت دوسری جگہ شادی نہیں کرسکتی اور عدت کی تکمیل کے بعد دوسری جگہ بھی شادی کرسکتی ہے اور پہلے سے بھی وہ رجوع کرسکتی ہے اللہ تعالیٰ کی آیات رجوع کیلئے معاون ، مددگار اور ترغیب کا ذریعہ ہیں۔ جن لوگوں نے قرآن و سنت کو باہمی رضامندی کی راہ میں رکاوٹ بنالیا ہے یہ ان کی اپنی کارستانی ہے۔ جس طرح سے صاحب ہدایہ ، فتاویٰ قاضی خان اور فتاویٰ شامیہ میں سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے جواز کی باتیں انتہائی گمراہ کن، کافرانہ اور مردودانہ ہیں اور اگر کوئی اس میں شک کرتا ہے تو پھر رمضان کی 27ویں شب میں تمام ٹی وی چینلوں کے سامنے ان گمراہ کن کتابوں کو لاکر ان کی تردید کی جائے یا ان کی تائید کیلئے سورہ فاتحہ کو توبہ نعوذ باللہ من ذٰلک پیشاب سے لکھنے ۔۔۔جس طرح سے سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کی بات فقہ کی مستند کتابوں میں ہونے کے باوجود انتہائی غلط اور گمراہ کن ہے اسی طرح سے یہ بھی غلط ہے کہ قرآن و سنت کے خلاف بیک وقت تین طلاق پر کسی عورت کی عزت لوٹنے کا فتویٰ دیا جائے۔ حضرت عمرؓ نے جھگڑے کی صورت میں شوہر سے طلاق کے بعد رجوع کا حق بالکل ٹھیک چھینا تھا۔ قرآن ایک طلاق کے بعد بھی صلح کے بغیر شوہر کو رجوع کا حق نہیں دیتا۔ ائمہ اربعہ نے ٹھیک فیصلہ کیا کہ طلاق واقع ہوجاتی ہے تاکہ عورت عدت کے بعد دوسری جگہ شادی کرسکے۔ مگر باہمی رضامندی سے رجوع کا حق قرآن و سنت میں نہیں چھینا گیا تو کسی اور کو یہ حق کیسے ہے؟۔ ٹی وی پر کوئی بھی عالم و مفتی ہمار اچیلنج قبول کرلے۔

عدالتی فیصلہ عدالت کے منہ پر کالک….. اشرف میمن کا بیان

نوشتہ دیوار کے پبلشر اشرف میمن نے کہا پانامہ لیکس پرعدالتی بینچ نے عدلیہ ، وزیر اعظم اور عدلیہ سے توقعات رکھنے والوں کے منہ پر کالک ملی ہے۔ قوم کی تقدیر بدلنے کیلئے نظام مصطفی ﷺ کی ضرورت ہے۔ دو ججوں نے وزیر اعظم کو کرپٹ اور نا اہل قرار دیا، تو تین ججوں نے دو ماہ کیلئے ادھورا احرام پہنا کربڑا حاجی بنادیا ہے۔ عدالتی بنچ کوئی پانچ ٹانگوں والا گدھا یا فیصلے سے وزیر اعظم کو شیر کے بجائے گدھا بنادیا ؟ ، بالفرض تین جج نا اہلی کا فیصلہ کرتے تو ن لیگ کے رہنما فیصلے کو من و عن قبول کرتے؟۔ وزیر اعظم اور ن لیگی رہنما واضح طور پر کہتے ہیں کہ عوام نے منتخب کیا ،عوام ہی ہٹا سکتے ہیں، جسکامطلب ہے کہ چار جج بھی نا اہلی کا فیصلہ کرتے تو پانچویں ٹانگ کے زور پر وزیراعظم نے عدالتی فیصلہ نہیں ماننا تھا بلکہ پانچوں جج بھی فیصلہ کرتے توعدالیہ کو بھی گدھا قرار دیا جاتا کہ یہ خوامخواہ میں ڈھینچو ڈھنچو کررہاہے۔ فوج نے پہلے ڈان لیکس پرایکشن لیا مگر کیاڈھینچو ڈھنچو سے معصوم کو ڈرایا تھا؟لگے گا کہ فوج گدھی تھی جو ڈھنچو ڈھنچو کر رہی تھی،پہلے عاصمہ جہانگیر حکومت کو کہتی تھی کہ تم بہو بن کر رہو،ریٹائرڈ فوجی خود کو شوہر اور حکومت کو بیوی کہتے تھے۔ اب قوم کو کیا غرض ہے کہ ڈھینچو ڈھینچو گدھا کرے یا گدھی ؟عوام تماشہ دیکھ رہی ہے کہ ن لیگ نے ذو الفقار علی بھٹو کی غیر جمہوری برطرفی اور عدالتی فیصلے سے وزیر اعظم کی موت کو قبول تھا، بینظیر بھٹو کی حکومت کو ختم کیا تو بھی عدالتی فیصلہ مان لیامگر اپنے خلاف عدالت پر چڑھائی کردی ، یوسف گیلانی کو برطرف کیا تو بھی نواز شریف نے خیر مقدم کیا، حالانکہ یوسف گیلانی نے بے اختیاری میں چھینک ماری تھی جبکہ پانامہ کے پاجامے نے جو دستیاب دست تھے ،سب اگل دئیے۔
سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی، وزیر اعظم پارلیمنٹ میں شیر کی طرح دھاڑا ،قوم کے سامنے قطری شہزادے کے بغیر اپنے خون پسینے کی کمائی کا حساب دیامگر عدالت نے شیر کے پنجے توڑ دئیے تو پارلیمنٹ کے بیان کو ڈھینچو ڈھینچو کہنے میں عافیت ہے۔ شیر کے پنجے اور گدھے کی پچھلی دو لتی مضبوط ہوتے ہیں، خان عبد القیوم خان کی مسلم لیگ کا نشان بھی شیر تھا۔ پشتو والے اسکے بارے میں شعر کہا کرتے تھے
شیر دے ربڑ شیر دے چہ در بزہ نہ شی
ٹول پاکستان بہ پاکیزہ نہ شی
ترجمہ: تمہارا شیر ربڑ کا شیر ہے کہیں یہ پھٹ نہ جائے۔ توپھر پورا پاکستان سے صاف نہیں کیا جاسکے گا۔(مملکت خدادا واقعی گند سے بھرگئی)
وزیر اعظم نواز شریف کی کانگریس و جمعیت علماء ہند کے محمود اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن سے دوستی ہوگئی ۔ امریکی دوست کی طرح یہ لوگ مشترکہ گدھے کے نشان پر انتخاب لڑیں ۔ جسکا بڑا فائدہ یہ ہے کہ ڈھینچو ڈھینچو کئے جاؤ ، زور دار ہوا بھی خارج کرو مگر کسی کی کوئی پرواہ نہ کرو۔ سپریم کورٹ کے دو سینئر ججوں نے پہلی مرتبہ وزیر اعظم کو اس طرح سے نا اہل اور کرپٹ قرار دیا ہے مگر اسکے باوجود اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ جیسے خواجہ آصف نے عمران خان کیخلاف پارلیمنٹ میں تقریر کی کہ کوئی شرم بھی ہوتی ہے،کوئی حیاء بھی ہوتی ۔۔۔اخلاق کا بھی تقاضہ
شاعر ملت علامہ اقبال نے کہا تھا کہ
اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
پولیس اہلکار،سول وملٹری بیوروکریسی، عدالتی ججوں میڈیا بلیک میلروں، سیاستدانوں ، غریب و امیر طبقوں ، ڈاکٹروں اور مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے پاکستانی طے کرچکے ہیں کہ اقبال کے سراغ زندگی کا مطلب یہ ہے کہ خوب بے غیرتی کیساتھ کرپشن کرو، اشتہارات میں خادم اعلیٰ شہبازشریف اور وزیراعظم نواز شریف قوم کیلئے آئیڈیل کی حیثیت رکھتے ہیں،کرپشن کے عالمی الزام کے بعد عدالتی فیصلوں سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بس یہی جینے کا مزہ ہے ،جہاں بس چلے حلال و حرام کی تمیز نہ کرو، پیسہ ہو تو عوام ووٹ دیتی اور گلو بٹ پنجاب پولیس جان لیتی ہے۔ عدالتی فیصلہ سیاسی ہے، مریم نواز کانام جی آئی ٹی میں نہیں۔ اللہ ہماری حالت ،عدالت، سیاست کو اسوقت بدلے گا جب ہم خود کو بدلنے کیلئے اٹھیں۔پانچ ججوں میں سے دو نے نا اہل قرار دیا ہے اور تین ججوں نے فیصلہ التوا میں ڈالا ہے۔ اگر پھر دو جج اہلیت اور بے گناہی کا فیصلہ کریں اور ایک جج درمیانی راہ اپنائے تو پھر؟۔ جیو پر ن لیگ کے رہنما نے کہا کہ 13 میں سے 8سوال میاں شریف اور 5حسین نواز سے ہیں جبکہ نواز شریف اور اسحق ڈار بیگناہ ہیں۔ حسین نوازنے میڈیا کے سامنے جھوٹ بولا تھا کہ قرض لیکر کاروبار شروع کیا، اور وزیر اعظم نے جو تقریر پارلیمنٹ یا اسکے علاوہ کہیں کی ہے تو اسکو استثنیٰ حاصل ہے۔ قوم حیران ہے کہ عدلیہ کے ترازو کو گدھے کی پانچویں ٹانگ سے تشبیہ دے یا پھر وزیر اعظم کیلئے سمجھے کہ وہ گدھے کی ٹانگ سے نہ صرف جمہوریت ، عدلیہ کو ہنکاتا ہے بلکہ ڈان لیکس میں پاک فوج کی بھی ایسی کی تیسی کرتا ہے
بھنور آنے کو ہے اے اہل کشتی نا خدا چل لیں
چٹانوں سے جو ٹکرائے وہ ساحل آشنا چن لیں
زمانہ کہہ رہا ہے میں نئی کروٹ بدلتا ہوں
انوکھی منزلیں ہیں کچھ نرالے رہنما چن لیں
اگر شمس و قمر کی روشنی پر کچھ اجارہ ہے
کسی بے درد ماتھے سے کوئی تار ضیاء چن لیں
یقیناًاب عوامی عدل کی زنجیر چھنکے گی
یہ بہتر ہے کہ مجرم خود ہی جرموں کی سزا چن لیں
(ساغر صدیقی)

امریکی عزائم اور سبھی کے جرائم… یہ نازک ملائم اور چابک بہائم

behzad-azam

inqalabi-ashaar-bande-ko-khuda-kia-likhna-syed-atiq-ur-rehman-gailani

inqalabi-ashaar-bande-ko-khuda-kia-likhna-syed-atiq-ur-rehman-gailani-1

inqalabi-ashaar-bande-ko-khuda-kia-likhna-syed-atiq-ur-rehman-gailani-2

masood_azhar_Shamzai

جب میں جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں پڑھتا تھا، مدارس میں ان طلبہ کو باغی سمجھا جاتاتھا جو بحالی جمہوریت کی تحریک ایم آر ڈی میں شریک مولانا فضل الرحمن کو گمراہ نہ سمجھتے تھے۔ شریعت بل کی حمایت نہ کرنے پر حاجی محمد عثمانؒ نے جمعہ کے وعظ میں سخت لہجے سے کہا ’’ بڑے مفتی کے بیٹے نے شریعت بل کو نہ مانا تو اس کا نکاح کہاں باقی رہا؟‘‘۔ مریدوں کی چیخیں نکل گئیں اور میری بے ساختہ ہنسی چھوٹ گئی۔ موقع ملا تو میں نے اپنے مرشد حاجی عثمانؒ سے عرض کیا کہ مارشل لاء بذاتِ خود نظام ہے، شریعت بلوں سے نہیں نظام سے آئیگی تو انہوں نے اپنی غلطی تسلیم کرلی فرمایامیرے پاس علم نہیں۔ ریفرنڈم کے موقع پر خانقاہ میں جب میں علماء کے فتوے کی مخالفت کررہاتھا تو مجھ سے اپنے اساتذہ مرید علماء نے کہا کہ ’’حاجی عثمان آپ کو حلقہ ارادت سے خارج کردینگے‘‘۔ میں نے کہا کہ ’’ایسا نہیں ہوگا، سیاست دارالافتاء کے مفتی اور خانقاہ کے صوفی کا کام نہیں‘‘۔جب کسی نے حاجی عثمانؒ کو ریفرنڈم کے فتوے کا پوچھا تو جواب دیا کہ ’’فتوؤں کو چھوڑ دو،تم 8سال سے آزماچکے ، اپنے ضمیر سے پوچھ لو، میرا دل نہیں مانتا کہ یہ شخص اسلام نافذ کریگا‘‘۔ جمعیت علماء اسلام کے مولانا شیرمحمدؒ کو میں نے بتایا تو خوش ہوگئے کہ علماء سے تو ایک صوفی زیادہ سمجھ دار ہے۔
جامعہ فاروقیہ میں مفتی نظام الدین شامزئی جمعیت (ف) میں تھے مفتی تقی عثمانی اپنے مرشد ڈاکٹر عبدالحی ؒ کو جنرل ضیاء کے بیٹے اعجازالحق کا نکاح پڑھانے لے گئے جسکی قادیانی جنرل رحیم کی بیٹی سے شادی تھی تو ہمارے اساتذہ نے مفتی تقی عثمانی کے اس روش پر افسوس کا اظہار کیا تھا، جب ڈاکٹر عبدالحیؒ کی میت کو دارالعلوم کراچی میں کندھا دینے جنرل ضیاء آیا تو میرا دل ہوا کہ کوئی پتھر،اینٹ یا کوئی مارنے کی چیز نظرآئے تو اٹھاکر ماردوں کوئی چیز نہیں ملی تو آنکھوں میں مٹی اٹھاکر پھینکنے کی طرف دھیان گیا مگر پھر سوچا کہ ڈاکٹر عبدالحیؒ کی میت کی بے حرمتی نہ ہوجائے ، البتہ جنرل ضیاء کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر غصے سے گھورا تھا، پھر اسکی وجہ سے سب کو میت سے ہٹادیا گیا مگر میں نے اس کا فائدہ اٹھاکر دیر تک کندھا دیا، وردی والوں کے علاوہ صرف میں عام آدمی سادہ کپڑوں والا تھا۔ جب علماء ومفتیان نے ہمارے مرشد حاجی عثمانؒ پر فتویٰ لگایا تو میں افغانستان میں حرکۃ الجہاد الاسلامی کے مولانا خالد زبیر شہید کیساتھ جہاد میں تھا۔
پوچھ گچھ کی گئی کہ کیسے آنا ہوا، بتایا کہ جہاد کو جنت کا مختصر راستہ سمجھ کر خود ہی آیا ہوں، وہ کہہ رہے تھے کہ ہمارے سوا باقی سب امریکہ کے ایجنٹ ہیں، میں نے قبائلی علاقہ سے خلافت کی تجویز پیش کی ،مرشد حاجی عثمانؒ کا بتایا کہ ان کی بھی یہ خواہش ہے اور کراچی کے بڑے مدارس اور فوج کے بڑے افسروں کی بڑی تعداد انکے حلقہ عقیدت میں شامل ہے۔روسی توپوں کی بھرمار میں بے خوف مجاہدین کا مشاہدہ اپنی عملی شرکت سے کیا۔جب مولانا مسعود اظہرکو بتایاتھا کہ مولانا زرولی کو حاجی عثمانؒ پر تہمت لگانے کی وجہ سے ڈرا کر آیا ہوں تو خوش ہوکر کہا کہ مفتی زرولی خان نے مولانا یوسف لدھیانوی کیساتھ یہ کیاتھا، مگر پھرجب حاجی عثمان پرفتویٰ لگانے کے بعدمیں نے علماء ومفتیان کو سرمایہ داروں کا ایجنٹ کہا تو مولانا اظہر ان کا دفاع کرنے آیا وہ میرے مہربان، مجھ سے ہمدردی اور بڑی محبت بلکہ عقیدت تک رکھنے والی شخصیت تھی۔ اس نے کہا کہ حاجی عثمانؒ کے اپنے سندیافتہ پہنچے ہوئے افق کے چاند کیوں مخالف ہوگئے؟، میں نے کہا کہ شیطان سے زیادہ پہنچا ہوا کون ہوسکتاہے؟۔ بعض صحابہ بھی مرتد ہوگئے تھے، قاری شیر افضل خان نے کہا کہ ’’میں اتنا جانتا ہوں کہ جو شخص دارالافتاء کے سامنے مفتیوں کو سرمایہ داروں کا ایجنٹ کہہ رہا ہے ، یہ باطل پر نہیں ہوسکتا‘‘۔ مولانا مسعود اظہر نے بعد میں کہا کہ اس اعدایہ فیل کو چھوڑدو، پہلے لوگ رشک کرکے تمہاری طرف انگلیاں اٹھاکر کہتے تھے کہ ’’ یہ بھی طالب علم ہے۔ اب تمہارا حلیہ دیکھ کر طلبہ خوف کھاتے ہیں کہ حاجی عثمان کا مرید دندناتا پھررہاہے ، کہیں کسی کو پیٹ نہ ڈالے‘‘۔
کچھ دنوں بعد مولانا مسعود اظہر کوپتہ چلا کہ میں نے علماء ومفتیان سے حاجی عثمان کے مغالطے پر اکابرین کیخلاف فتویٰ لیکر پھانس لیا، جسکی فوٹو اسٹیٹ پریہ شعر نقل کیا کہ ’’ہم ضبط کی دہلیز سے اترے تو سمجھ لو پھر شہرِ پُر اَسرار میں تم چل نہ سکو گے‘‘۔ مولانا مسعود اظہر مجھ سے خفا خفا لگ رہے تھے، دور سے دیکھ کر کنی کترائی اور ملاقات کا موقع نہ دیا۔ پھر مولاناجہا د پر گئے تو مفتی رشیدلدھیانوی کی سرپرستی میں چلنے لگے، جامعہ بنوری ٹاؤن نے ان کا نام اپنے مدرس کی حیثیت سے خارج کردیا، مفتی رشید نے مولانا بنوری ؒ کو بھی ستایا تھا، جمعیت علماء اسلام پر فتویٰ لگانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، مولانا مسعود اظہرجب انڈیا کی جیل میں بند ہوئے تو مجھے بڑا دکھ پہنچا مگرجب مفتی رشید لدھیانویؒ پر نوازشریف کی حکومت نے ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی تو تہاڑ جیل سے ضربِ مؤمن میں مفتی رشید کیلئے مولانا مسعود اظہر کا رونا دھونا شائع ہوا۔ میرا ماتھا ٹھنکا کہ مجھے ڈیرہ اسماعیل خان جیل میں لکھنے کی اجازت نہیں تھی تو بھارت نے کیسے اجازت دی کہ مضمون لکھتے رہو؟ پھر مولانا مسعود اظہر کی ڈرامائی رہائی ہوئی، بارہ سرنگوں کی بات آئی کہ اسمیں ایک مولانا کے سائز کی بھی تھی تو میں نے اپنے اخبار ضرب حق میں لکھ دیا کہ ’’اس سائز کی ایک سرنگ سب کیلئے کافی نہ تھی‘‘۔ مولانا نے نئی جماعت کا اعلان کرتے ہی ہزاروں کی تعداد میں مجاہد ین شامل ہونے اور اسامہ بن لادن کی طرف چالیس ذاتی باڈی گارڈ قبول کرنے کا مژدہ بھی میڈیا کو سنایا تھا۔
میں نے شبہ ظاہر کیا تھا کہ ’’یہ امریکی سی آئی اے کی کوئی بڑی سازش ہوسکتی ہے‘‘۔ جیش کے سرپرست مفتی جمیل خان کا تعلق جنگ گروپ سے تھا، 9/11کے دن امریکہ سے وہ برطانیہ پہنچا توبرطانیہ نے واپس امریکہ کے حوالے کردیا، جس کوجلدہی چھوڑ دیا گیا،حامد میر جب اوصاف کا ایڈیٹر تھا تو اپنے اداریہ میں لکھا کہ ’’مفتی نظام الدین شامزئی نے کہا کہ بعض مجاہد ین رابطہ عالم اسلامی مکہ کے ذریعے واشنگٹن سے رقم لاکرعلماء کو خرید رہے ہیں، اگر اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ان کا بھانڈہ پھوڑ دونگا‘‘۔ ہم نے پرزور انداز میں آواز اٹھائی کہ ڈرو مت حق بتادو مگر اس پر عمل نہیں ہوا۔ پرویز مشرف نے بہت لوگوں کو امریکہ کے حوالہ کرکے گوانتانا موبے بھیجا لیکن مولانا مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے کے بعد بھی نہ بھیجا۔ ڈان لیکس کے بعد فوج اورحکومت کا ایکدوسرے پر کالعدم تنظیم کے حوالہ سے الزام کوئی خفیہ بات نہیں۔ جنرل (ر) امجد شعیب وغیرہ نے بھی مولانا مسعود اظہر کو انڈیا کی طرف سے الزامات لگانے کے بعد مشکوک قرار دیا تھا۔
مولانا مسعود اظہر پر مفتی رشید نے جہاد کے بجائے مال ودولت بنانے کا الزام لگایا توجواب میں مولانا اظہر نے کہا کہ ’’ اس نے ہمارے اکابر پر بھی فتوے لگائے تھے‘‘۔ مولانا اظہر پہلے سے مفتی رشید کی قیادت میں کام کرنے سے انکار کردیتے تو اداکارہ نیلو اور ممتاز سے زیادہ مولانا اظہر کیساتھ یہ بات جچتی۔ مفتی محمودؒ کو اقبال کی شاعری بڑی اچھی لگتی تھی اور اقبال کو چاہتے بھی تھے لیکن مولانا حسین احمد مدنی کے خلاف اشعار کی وجہ سے کبھی اپنی تقریر میں علامہ کے اشعار نہیں پڑھے۔ اب یہ بڑی خطرناک بات ہے کہ مولانا مسعود اظہر کو امریکہ بہانا بناکر حملہ کردے۔مجھے اس بات کا یقین ہے کہ مولانا اظہر مغالطہ کھا سکتے ہیں ، اپنوں کیلئے استعمال ہوسکتے ہیں مگر غیر کے ایجنٹ کبھی نہیں ہوسکتے۔ محلاتی سازشوں کاشکار ہونے سے پہلے مولانا مسعود اظہرنے طلاق کے مسئلہ پر حق کا ساتھ دیا تو بھارت میں ایک اصلاح پسند عالمِ دین کی حیثیت سے دارالعلوم دیوبند اور بریلوی کے تمام مدارس کو تین طلاق کی مصیبت سے آزاد کرسکتے ہیں، جس سے کشمیر کی آزادی بھی ممکن ہوگی۔ مسلم خواتین کو فتوؤں کے ذریعے عزت دری سے بچایا جائے تو اس سے بڑا جہاد اور اسلامی نظام کی خدمت نہیں ہوسکتی۔ محمد بن قاسمؒ نے ایک خاتون کی عزت کیلئے سندھ فتح کیا ۔ عتیق گیلانی

shan-mother-neelo

لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو(اطہر مسعود ، بانڈھ ،نیٹ سے)
اب تو خیر اچھے خاصے ’’مرد‘‘ بھی حکمرانوں کے اشارہ اَبرو پر رقص کرتے نہیں شرماتے اور کئی تو ایسے ہیں کہ کئی حکومتیں گزر گئیں ان کا پیشہ نہیں بدلا لیکن ایک وقت تھا کہ عورتیں اور وہ بھی ڈانسر‘ جنہیں ہمارے ہاں بڑی تحقیر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے‘ اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود حکمرانوں کی محفلوں میں ناچنے سے انکار کردیتی تھیں۔جنرل ایوب خان کا اقتدار عروج پر تھا‘ شاید شاہ ایران کو خوش کرنے کیلئے محفل سجائی گئی۔ اس وقت کی نامور ایکٹریس اور ڈانسر نیلو کو بلایا گیا اس نے انکار کردیا جس پر اسے گرفتار کرلیا گیا حبیب جالب نے لکھا
تو کہ ناواقفِ آدابِ غلامی ہے ابھی رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
چار مصرعے تھے جو بعد میں فلم ’’زرقا‘‘ کا ٹائٹل سانگ بنے‘ گانا مہدی حسن نے گایا۔ فلم نے بزنس کے ریکارڈ توڑ دیئے۔ ریاض شاہد جن کی نیلو سے شادی ہوچکی تھی فلم کے ہدایتکار تھے۔ اس شادی کا ایک نشان آج کا ہیرو شان ہے جو ایک تقریب میں جنرل پرویزمشرف کے سامنے اس طرح رقص کررہا تھا کہ اس کی والدہ بھی کیا کرتی ہوں گی133.؟
ذوالفقار علی بھٹو نے بھی ایک ایسی ہی محفل لاڑکانہ میں سجائی۔ اس وقت کی خوبرو ترین اداکارہ ممتاز کی طلبی ہوئی‘ انکار پر تھانے لے جانے کی دھمکی دی گئی‘ جالب نے جو بھٹو کا معروف عاشق تھا لکھا
قصر شاہی سے یہ حکم صادر ہوا لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو

mumtaz-actress

قصرِشاہی سے یہ حکم صادر ہوا ، لاڑکانے چلو ۔۔۔۔۔۔ورنہ تھانے چلو
اپنے ہونٹوں کی خوشبو لٹانے چلو، گیت گانے چلو ۔۔۔۔۔۔ورنہ تھانے چلو
منتظر ہیں تمہارے شکاری ،وہاں کیف کا ہے سماں
اپنے جلوؤں سے محفل سجانے چلو، مسکرانے چلو ۔۔۔۔۔۔ورنہ تھانے چلو
حاکموں کو بہت تم پسند آئی ہو ،ذہن پر چھائی ہو
جسم کی لو سے شمعیں جلانے چلو، غم بھلانے چلو ۔۔۔۔۔۔ورنہ تھانے چلو

Habib-Jalib-Ashaar2

تبلیغی جماعت اور دعوت اسلام سنت زندہ کریں

مولانا الیاسؒ نے بلامعاوضہ تبلیغ سے نشاۃ ثانیہ کی بنیاد رکھی مگر اب گروہ بن گیا
پڑھے لکھو ں کو قرآن وسنت کی راہ دکھائی جائے تو لمحوں میں اسلام زندہ ہوگا
مولانا الیاس قادری علماء ومفتیان کو اکٹھا کرکے طلاق کا مسئلہ حل کرسکتے ہیں

دعوتِ اسلامی کے چینل نے ایک بہت اچھی مہم یہ شروع کررکھی ہے کہ عوام کو بیرونِ ملک کا جھانسہ دیکر لوٹنے والوں کے کردار سے آگاہ کررہے ہیں۔ حضرت عمرؓ فرماتے تھے کہ کسی کے نماز اور روزے کو دیکھ کر اس کی شخصیت کا فیصلہ نہ کرو بلکہ اس کی معاشرت ، معاملہ اور کردار کو دیکھو۔ نماز اہم ترین عبادت ہے اور کردار سازی کا زبردست ذریعہ بھی ہے۔ غلام احمد پرویز کے بعض پیروکار نماز کی افادیت کو ختم کرنے کی مہم جوئی کررہے ہیں حالانکہ نماز کا قیام اور زکوٰۃ کی ادائیگی اسلام کے بنیادی فرائض ہیں۔ جب میں سنی سنائی باتوں پر یقین کرتا تھا تو اپنے بھائی سے کہاتھا کہ رمضان میں ایک نماز کا ثواب 70گنا بڑھ جاتاہے۔ بھائی سے کہا کہ اللہ کی راہ میں نماز کا ثواب49کروڑ ہے اور اس کوپھر70سے ضرب دیا جائے تو کیلکلولیٹر میں نہیں آتا۔وہ تبلیغی جماعت میں نکلے اور میں جہاد کیلئے جنت کا مختصر راستہ سمجھ کر افغانستان گیا۔ اس وقت شرعی پردہ ایک وہم تھا لیکن میں نے پھر بھی شروع کردیا تھا ، گاؤں سے سارے ٹی وی نکلوادئیے تھے۔
آج بہت عرصہ کی جدوجہد کے بعد اللہ نے اپنے راستے کھول دئیے ہیں، اگر کوئی خاندان کی خواتین کو مکہ مکرمہ میں بیت اللہ کی نماز سے محروم کردے تو یہ تصور بھی نہیں ہوسکتاہے اسلئے کہ کہاں ایک لاکھ کا ثواب اور کہاں ایک نماز کا ثواب؟۔ باجماعت نماز کیلئے 25اور بعض حدیث میں 27گنا زیادہ ثواب کا ذکر ہے۔ تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی فضائل کے ذریعے سے ہی قرآن و سنت کے احیاء پر زور دے رہی ہیں اگر انکے مراکز میں 49کروڑ کی بات درست ہے تو مقامی مراکز ومساجد میں بھی یہ توقع کرنی چاہیے۔ نبیﷺ کے وقت میں یہ حکم تھا کہ خواتین کو مساجد سے نہ روکا جائے۔ یہ قرآن کا تقاضہ بھی تھا۔ ایک سنت کو زندہ کرنے پر 100شہیدوں کے اجر کی بشارت ہے ، فقہ کی کتابوں میں پڑھایا جاتاہے کہ پہلی صفوں میں مرد ، پھر بچے ، بچیاں اور پھر آخر میں خواتین کی صفیں بنائی جائیں گی۔ اگر تبلیغی جماعت اور دعوتِ اسلامی نے محلے کی سطح سے اس اسلامی فریضے اور سنت کے عمل کو زندہ کرنے میں اپنا بھرپور کردار اداکیا تو امت کی تقدیر بدلنے میں دیر نہیں لگے گی۔ تبلیغی جماعت کے حاجی عبدالوہاب اوردعوت اسلامی کے مولانا الیاس سے گزارش ہے کہ طلاق کے درست مسئلے و نماز سے اپنی تقدیر بدلنے کا آغاز کریں۔

خاتون نے مُولی سے مولوی کو کس طرح شرعی مسئلہ سمجھادیا

اسلام کے نظام کو پوری دنیا خوشی سے قبول کرکے طرزِ نبوت کی خلافت قائم کرنے میں ہماراساتھ دیگی
علماء ومفتیان کو مفاد پرستی چھوڑ کر سچائی کا کلمہ پڑھنا ہوگا۔ غیر فطری خود ساختہ مسائل کو اعلانیہ چھوڑنا ہوگا
ہمیں درشت زباں کا شوق نہیں بلکہ علماء ومفتیان گونگے شیطان بن کر بہت سخت لہجے پر مجبور کررہے ہیں

سورۂ مجادلہ میں ہے کہ ایک خاتون نے نبیﷺ سے اپنے شوہر کے حوالہ سے جھگڑا کیا،وہ کہہ رہی تھی کہ مجھے اپنے شوہر نے ماں کی پیٹھ سے تشبیہ دی ہے، مجھے حرام نہیں ہونا چاہیے۔ نبیﷺ مروجہ مذہبی قول کے مطابق فتویٰ دے رہے تھے کہ آپ اپنے شوہر پر حرام ہوچکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ دونوں کا مکالمہ سن رہا تھا اور فیصلہ خاتون کے حق میں دیا ، فرمایا کہ ظہار کرنے سے بیوی ماں نہیں بنتی بلکہ ماں وہ ہے جسکے پیٹ سے پیدا ہوئے ہیں۔ یہ منکر اور جھوٹا قول ہے۔ (قرآن و احادیث کا خلاصہ)۔ اس خاتون کا نام حضرت خولہ بنت ثعلبہؓ تھا، حضرت عمرؓ اس وحی کی وجہ سے ان کا بے حد احترام کرتے تھے۔ اسلام کا یہ انوکھا قانون احترام انسانیت کا درس دیتاہے۔ علماء ومفتیان کا فرض بنتاہے کہ اپنے ماحول اور اجتہاد سے طلاق کے مسئلہ پر کسی کو بھی اختلاف سے محروم کرنے کا تصور چھوڑ دیں ، ورنہ وہ نبیﷺ کے جانشین نہیں بلکہ شیطان کے آلۂ کار بن جائیں گے۔یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ نبیﷺ سے حضرت عمرؓ نے حدیث قرطاسؓ کے مسئلہ پر اختلاف کیا تھا لیکن اس اختلاف پر بھی نبیﷺ نے گستاخی اور واجب القتل کا فتویٰ جاری نہیں کیا، جبکہ ہماری عدالتوں کے جج اور علماء ومفتیان قرآن وسنت سے بالکل غافل ہیں اور اسی لئے اپنے سے اختلاف اور نافرمانی پر بھی گستاخی اور قتل کا فتویٰ لگادیتے ہیں۔
حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں ریاستی حکم جاری فرمایا کہ ’’ عورت کوحق مہر زیادہ لینے کا حق نہیں ہوگا‘‘ ۔ تو ایک خاتونؓ نے اس کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ تم کون ہوتے ہو، ہمارے حق مہر کا فیصلہ کرنے والے؟۔ جب اللہ نے ہمیں اپنی مرضی کے مطابق زیادہ اور کم کا اختیار دیا ہے تو آپ کو ہمارے حق میں مداخلت کا کوئی حق نہیں۔ حضرت عمرؓ نے اس خاتون کی بات سن کر اپنا حکم واپس لیا اور کھلم کھلا اظہار کردیا کہ اس خاتون کی بات درست ہے اور عمر نے غلطی کی تھی ، اخطاء عمر واصابت المرأۃ
اسلام سے زیادہ روشن خیال دین کی مثال دنیا کے کسی مذہب میں نہیں، فقہی مسالک اور فرقہ وارانہ اقسام وانواع کے اختلافات مسلمانوں کے درمیان موجود ہیں، ان اختلافی مسائل کی تہہ تک پہنچنے کیلئے مدارس میں بھرپور طریقے سے دلائل کی تعلیم دی جاتی ہے، افسوس کی بات یہ ہے کہ مدارس کے دارالافتاء میں بیٹھے مفتی صاحبان بھی خود کو بااختیار نہیں بلکہ اپنے اداروں کا قیدی بتاتے ہیں۔ درسِ نظامی کے نصاب اور طلاق کے مسئلہ پر ایک زبردست ہیجان پیدا ہواہے اور کئی سال پہلے میں نے مولانا فضل الرحمن کو بالمشافہ دعوت دی تھی لیکن وہ اعتراف کررہے تھے کہ ان کے پاس کوئی علمی قابلیت نہیں، آج ڈیرہ اسماعیل خان کے گلی کوچے میں تحریکِ انصاف کے امین اللہ گنڈاپور نے بہت زبردست فنڈز لگاکر کام کیا اور جب پرویزمشرف کے زمانہ میں پاکستان بھر میں بہت سڑکیں بن گئیں اور بہت کام ہوا تو یہ تماشہ بھی عوام نے دیکھا کہ مولانا فضل الرحمن کے بھائی اور ماموں نے سڑکوں کے پیسے کھالئے تھے۔ پائی، اماخیل اور نندور ملازئی ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان کے وہ گاؤں ہیں جہاں بڑی تعداد میں علماء موجود ہیں۔ شہروں میں جمعہ کے دن مساجد کی تقریروں کا پتہ نہیں چلتا مگر گاؤں میں لاؤڈاسپیکر کی آواز وہاں صاف سمجھ میں آتی ہے جہاں ایک سے زیادہ جمعہ نہیں پڑھایا جاتاہے۔ ایک مولوی صاحب نے تقریر کرتے ہوئے مسئلہ بتادیا کہ ’’عورت بچہ جن رہی ہو، آدھا بچہ باہر آجائے تو بھی اس صورت میں فرض نماز پڑھنا ضروری ہے‘‘۔ ایک خاتون نے اس مولوی صاحب سے کہا کہ ’’ تمہارے اندر پیچھے سے ایک آدھی مولی ڈالی جائے تو پھر میں دیکھتی ہوں کہ تم کس طرح نماز میں رکوع وسجدہ کرتے ہو؟‘‘مولانا فضل الرحمن بتائیں کہ خاتون کی بات سے اس مسئلہ سے رجوع ہوجائیگا یا نہیں؟۔ علامہ شاہ تراب الحق قادریؒ نے بھی جمعہ میں مسئلہ بتایا کہ ’’ لیٹرین کرتے ہوئے مقعد سے جو پھول نکلتاہے ، اگر اس کو دھونے کے بعد سکھایا نہ جائے اور وہ اندر داخل ہوجائے تو روزہ ٹوٹ جائیگا‘‘۔ علماء کرام ٹی وی پربھی سمجھائیں جو مسائل مسجدوں میں بتاتے ہیں،فرقہ وارانہ غلاظت اور سیاست کو دینِ اسلام کا نام نہیں دیا جاسکتا ہے۔ حکمرانوں کے تھالی چٹ درباری ملاؤں نے ہمیشہ دین کا بیڑہ غرق کیا، امام ابوحنیفہؒ ودیگر ائمہ نے سختیاں برداشت کی ہیں۔