پوسٹ تلاش کریں

داعش کافتنہ صحیح حدیث میں واضح ہے، ڈاکٹرطاہر القادری

امام بخاری کے استاذ نعیم بن حماد کی کتاب’’الفتن‘‘ میں داعش کی نشاندہی موجود ہے

آج تک میرے سیاسی اور مذہبی مؤقف کی کسی نے کبھی تردید نہیں کی ہے البتہ اختلاف کیا ہے

علامہ طاہرالقادری نے نشتر پارک کراچی کے جلسہ میں داعش کے حوالہ سے رسول ﷺ کی احادیث کا حوالہ پیش کیا، حدیث کوپورا نقل نہ کیا۔ قارئین کے سامنے رکھ دیتے ہیں: عن علی ابن ابی طالبؓ قال: اذا رأتم الرایات السود فالزموا الارض، فلا تحرکوا ایدیکم ولاارجلکم ثم یظھر قوم ضعفاء لایؤبہ لھم،قلوبھم کزبر الحدید، ھم اصحاب الدولۃ، لایفون بعھد و لا میثاق، یدعون الی الحق و لیسوا من اہلہ اسماء ھم الکنیٰ و نسبھم القریٰ وشعرھم مرخاۃ کشعور النساء حتیٰ یختلفوامابینھم ثم یؤتی اللہ حق من یشاء
( حدیث نمبر573، الفتن نعیم بن حماد)
ترجمہ’’ حضرت علیؓ سے روایت ہے فرمایا: جب تم کالے جھنڈوں کو دیکھو، تو زمین کو لازم کرلو، پس اپنی زبانوں اور ٹانگوں کو حرکت نہ دو، پھر ایک قوم ظاہر ہوگی جو کمزور ہوگی جن کا کوئی ٹھکانہ نہ ہوگا اور انکے دل لوہے کے ٹکڑے کی طرح ہونگے، وہ اقتدار والے ہونگے،جو پورا نہ کرینگے کسی عہد اور معاہدے کو۔ حق کی طرف بلائیں گے مگر اہل حق میں سے نہیں ہونگے،انکے نام کنیت والے ہوں گے،انکی نسبت شہروں کی طرف ہوگی،انکے بال عورتوں کی لٹکے ہوئے ہونگے،یہاں تک کہ ان کا آپس میں اختلاف ہوگا ، پھر اللہ جس کو چاہے گا حق دیدے گا‘‘۔
کالے جھنڈے طالبان اور القاعدہ نے اٹھائے، اس دور میں یہ حالت تھی کہ گوشہ نشینی کی زندگی اور زبان اور ٹانگیں نہ ہلانے کا حکم درست لگتا تھا، امریکہ نے حملہ کیا توبہت کمزور تھے،ان کا ٹھکانہ نہ تھا،انکے دل لوہے کی طرح سخت تھے،اصحاب دولہ اسلئے تھے کہ طالبان کی حکومت تھی اور امریکہ، پاکستان، قطر، یورپی یونین اور سب ہی ممالک ان کی پشت پناہی کررہے تھے ،بینظیر بھٹو کو ماراگیا، بینظیر نے انکو ڈالروں کے تنخواہ دار ہونے کا کہاتھا۔ ہفت روزہ اخبار جہاں کراچی میں بینظیر بھٹو کے قتل کی خبر شائع ہوئی تو اسکے ساتھ یہ خبر بھی شائع ہوئی تھی کہ برطانوی فوج کے سپاہیوں کو افغان فوج نے رنگے ہاتھوں پکڑا جو طالبان کو پیسے دے رہے تھے اور ردِ عمل میں شرمندہ ہونے کے بجائے ہنس رہے تھے۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو بھی منی لانڈرنگ میں با عزت بری کردیا گیا۔ اغیار ہمارے ریاستی اداروں اور حکمران ٹولے کو ایک ہاتھ میں رکھتا ہے اور دوسرے ہاتھ میں باغیوں کو پالتا ہے۔ یہ الزام نہیں۔
امریکہ نے حقانی نیٹ ورک کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیا تو کورکمانڈر کانفرنس میں جواب دیا گیا کہ ’’ ہم اکیلے نہ تھے یعنی تم بھی شریکِ جرم تھے‘‘۔ آج تک سب کی طرف سے ایکدوسرے پر الزام کا سلسلہ ختم نہیں ہوا ہے، اگر یہ گروپ آپس میں یہ کھیل ختم کرنے کیلئے نہ لڑتے تو حکومتوں نے ان کو پالنے کا سلسلہ جاری رکھنا تھا۔ جنرل راحیل کی قیادت میں اسکا خاتمہ ہواہے لیکن اب بھی یہ کھیل دوبارہ شروع ہوسکتا ہے۔
حکومت ، اپوزیشن اور ریاستی اداروں میں اگر خلوص ہو تو نہ صرف بھٹکے ہوئے طبقات کی اصلاح ہوسکتی ہے بلکہ پاکستانی قوم دنیا کی امامت کی حقدار بن سکتی ہے۔ مولانا عبید اللہ سندھی کا تعلق جمعیت علماء ہند سے ہی نہ تھا بلکہ وہ کانگریس کے بھی رکن تھے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ’’قرآن کے نزول کے وقت اس کے مخاطب عرب تھے ، اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے وقت قرآن کا مخاطب پوری دنیا ہوگی ، جو اچھائیاں عرب میں موجود تھیں ، انکو باقی رکھا گیا اور برائیوں کو ختم کردیا گیا۔ نشاۃ ثانیہ کا زمانہ آئیگا تو دنیا بھر میں اچھائیوں کو باقی رکھا جائیگا اور برائیوں کو ختم کردیا جائے گا‘‘۔نیز یہ بھی لکھا ہے کہ ’’پنجاب ، سندھ ، بلوچستان ، فرنٹیئر، کشمیر اور افغانستان میں جس قدر قومیں موجود ہیں ، یہ دنیا کے مسلمانوں کا مرکز ہیں، یہی امامت کی حقدار ہیں اگر ہندو پوری دنیا کو ہمارے مقابلے پر لئے آئے پھر بھی ہم اس مرکزی حصے سے دستبردار نہ ہونگے‘‘۔
غسل کے تین فرائض سے تین طلاق کی تعبیر تک ، قرآن کی تعریف سے لیکر اجماع و قیاس تک نصاب کے نام پر مدارس میں بھی عجیب منطق پڑھائی جاتی ہے۔ مولانا منیر احمد قادری نے لکھا’’مولانا یوسف لدھیانوی نے توبہ کی ؟ ، آسیہ ملعونہ کی کیا سزا ہے؟ اور حضرت ابوبکرؓ کے والد نے رسول اللہ ﷺ کو گالی دی تو منہ پر تھپڑ مارا ‘‘۔ نبی ﷺ نے ابن صائد کو قتل نہ کیا اور حضرت ابوبکرؓ نے تھپڑ مارا ، پھر ہم بھی نئے سرے سے سوچیں؟۔ نادر شاہ

بلوچستان و پختونخواہ انڈسٹریل زون بن سکتے ہیں، فاروق شیخ

دنیا بھر میں مستقبل کا سب سے بڑا مسئلہ ماحولیاتی آلودگی کا ہے، پنجاب اور سندھ انسانی ، حیوانی اور نباتاتی حیات کیلئے قدرتی وسائل کے حامل ہیں

پختونخواہ اور خاص طور پر بلوچستان کے سنگلاغ پہاڑ ومیدان، دشت وصحرا انڈسڑیل علاقے کیلئے زبردست ہیں، گھر کے صحن اور بلڈنگ کو سمجھنا ہوگا

کراچی (پ ر) نوشتۂ دیوار نمائندۂ کورنگی فاروق شیخ نے اپنے بیان میں کہاہے کہ کراچی کورنگی میں رہائشی اور انڈسریل ایریا دونوں کا وجود ہے۔پاکستان کے وسیع نقشہ کے تناظر میں دیکھا جائے تو رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑا اور آبادی کے لحاظ چھوٹا صوبہ بلوچستان کا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں پاکستان کا شمار انشاء اللہ ہونیوالا ہے۔ پنجاب اور سندھ کی زرخیز زمینوں میں سہولتوں کی ضرورت ہے، جہاں دنیا بھر سے لوگ اپنے کاروباری مقاصد کیلئے آئیں تو ان کو رہائش کی بہترین سہولتیں میسر ہوں۔ پاکستان ایک گھر کی طرح ہے جس میں بلڈنگ اور صحن ہوتاہے، کوئی صحن کی جگہ پر بلڈنگ اور بلڈنگ کی جگہ صحن والے کام نہیں کرتا۔ پنجاب میں بڑے پیمانے پر کارخانے لگ جائیں تو پنجاب رہائش کے قابل بھی نہیں رہے گا۔ سابق صدر مملکت آصف زرداری نے کہاتھا کہ شریف برادران کے سر وں میں لوہار کا دماغ ہے جس کا وہ بہت برا مانے لیکن لوہار ایک محنت کش کو کہتے ہیں۔ حق حلال کی کمائی والا لوہار ہو یا کوئی بھی محنت کش ،اسکو خفت محسوس کرنیکی ضرورت نہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا تھا الکاسب حبیب اللہ ’’محنت کرکے کمانے ولا اللہ کا دوست ہے‘‘، حضرت داؤد علیہ السلام اور آپکے فرزند حضرت سلیمان علیہ السلام تو انبیاء کرام کیساتھ وقت کے خلفاء اور بادشاہ بھی تھے ، جن کو اللہ نے لوہے کی صنعت ذرے بنانا سکھایا ۔ اگر شریف برادران کو بھٹو کے دور میں اس صنعت سے ہٹنے پر مجبور نہ کیا جاتا اور یہ لوگ جنرل ضیاء الحق کے ہتھے چڑھ کرگندی سیاست کے عادی نہیں بنتے تو صورتحال بالکل مختلف ہوتی۔ اگر کسی کو وراثت میں قابلیت ملے تب بھی اسمیں کوئی برائی نہیں ہے بلکہ بہت اچھی بات ہے، داؤدؑ سے زیادہ قابلیت حضرت سلیمانؑ میں تھی جس کا قرآن و حدیث میں ذکر ہے۔ ایسی قابلیت کی بنیاد پر وراثت ملتی ہو تو کون اعتراض کرسکتاہے لیکن بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز کے بجائے کوئی روبوٹ لایا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔ جنرل ایوب خان ذوالفقار علی بھٹو کو وزیر خارجہ نہ بناتے تویہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج ہم دنیا کے صنعتی ترقی میں عروج پر پہنچے ہوئے ہوتے۔
پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے ملک کی قیادت نہیں کی ہے بلکہ اپنی تجوریاں بھری ہیں۔ اگر ان میں خلوص ہوتا تو سی پیک اور ایرانی گیس کا مسئلہ کب کا حل ہوچکا ہوتا۔ بجلی اور گیس سے محروم عوام کا سیاستدانوں کے پاس احساس بھی نہیں ہے۔ عدالت عظمیٰ دونوں خاندانوں کے احتساب کو یقینی بناکر ملک وقوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں۔ کرپشن تحریک انصاف کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ہمارا قومی مسئلہ ہے ۔ دانشوروں کو چاہیے کہ قومی سیاست پر خاندانی تجارت کے راستے کو روکنے میں عوام اور ریاستی اداروں کا شعور بیدار کریں۔ کھلے ڈھلے الفاظ میں ان کو سمجھائیں کہ کیا نوازشریف عمرہ جاتی کے محل پر بلڈنگ میں صحن والے کام انجام دے گا اورصحن میں بیڈروم کے اشیاء ڈالے گا؟۔ کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے پر پنجاب کے دل ساہیوال کا بیڑہ غرق کر رہاہے۔ لاہور کے آس پاس علاقوں میں غریب کے بچے صنعتی زہریلی گیس سے ہی معذور ہورہے ہیں، میڈیا کو اشتہارات دیکر خریدا گیاہے۔ان مہلک امراض سے بچاؤ کی ذمہ داری کس کی ہے؟۔ غریب کے بچے منرل واٹر کیا پینے کے صاف پانی سے پنجاب میں بھی محروم ہیں۔ زہریلے مادوں کے اخراج سے جو نقصان پنجاب کی عوام کو پہنچ سکتاہے ، بھارت کو ہمیں مارنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
کراچی میں زیرزمین سمندر کا پانی ہے لیکن یہاں سے بھی صنعتی علاقوں کو انسانی آبادیوں سے بہت دور لے جانے کی ضرورت ہے، اور پنجاب میں تو زیادہ تر زیرزمین پانی ہی استعمال ہوتاہے ، پاکستان میں صنعتی آلودگی کیلئے موثر اقدامات نہیں کئے گئے تو دشمن کو مارنے کی بھی ہمیں ضرورت نہیں رہے گی۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن نے بدمعاش کلچر متعارف کروا رکھاہے جس کی ایک جھلک میڈیا پر ڈاکٹر نعیم باجوہ کے حوالہ سے عوام نے دیکھی تھی۔ اس بیچارے کا یہ قصور تھا کہ ن لیگ کے ایم این اے کی جگہ پر اس کا بھتیجا امتحان دیتے ہوئے پکڑا تھا۔ پرویز خان سے استعفیٰ لینے کی بات سے زیادہ اہمیت کا معاملہ یہ تھا کہ نوازشریف اور شہبازشریف کو اپنے بدمعاش بھتیجے عابد شیرعلی کو سیاست سے آوٹ کرنا چاہیے تھا، اس سے زیادہ بدمعاشی تو ایم کیوایم اور طالبان نے بھی نہیں کی ہے۔

ناکام عدالتی نظام کی وجہ سے طالبان اور شدت پسند: اشرف میمن

1916ء سے 2016ء تک لاہور ہائیکورٹ میں کیس کا فیصلہ نہ ہوسکا تو عدلیہ میں جرگہ سسٹم کیوں نہیں رکھا جاتا

پبلشر نوشتۂ دیوار اشرف میمن نے اپنے بیان میں کہا کہ پانامہ لیکس پر کیمرے کی آنکھ عدالت کے ججوں کو دیکھ رہی ہے۔ماضی بعیداور ماضی قریب میں عدالت عظمیٰ اور اسکے ججوں کا کردار ایک سیاہ باب ہے۔ ججوں نے عدالت کیساتھ اپنا منہ بھی کالا کیا ہے۔جسٹس ڈوگر کیخلاف شہبازشریف کی تقریروں کی گونج اب بھی لوگوں کے کانوں میں موجودہے۔یہ پاکستانی ریاست اسلام کے نام پر بنی ہے اور اس میں جرنیل، جج اور جرنلسٹ کی آزادی اور غیر جانبداری بہت ضروری ہے۔ جانبدارانہ کردار اپنے پیشہ ،ملک وقوم سے غداری ہے۔ اب زمانہ بدلاہے اگر عدالت عظمیٰ نے سوئس اکاونٹ کیخلاف خط نہ لکھنے پر ایک وزیراعظم کو ناہل قرار دیا اور دوسرے کو بچایاتو ڈوگرکا جو حشر کیا گیا تھا،وہی جسٹس جمالی کا بھی ہوگا، شہباز کی شوبازی سے زیادہ مؤثر انداز میں قوم پرست اور شدت پسند حبیب جالب کی شاعری سے عوام کے دل و دماغ گرمائیں توپھرملکی سلامتی خطرے میں پڑجائیگی، شاکر شجاآبادی کی شاعری کالجوں کے نصاب میں پڑھائی جاتی ہے، وہ کہتاہے کہ جن مساجدمیں اللہ کی عبادت اورمخلص نمازی ہیں وہ بیت اللہ ہیں اور جو ملاؤں کے کاروبار ہیں ان کو گرادو۔ اوپر انصاف کا جھنڈا ہے اور نیچے انصاف بکتا ہے، ایسی عدالتوں کو عملے کیساتھ اُڑادو‘‘۔ اگر عدلیہ بچوں کی طرح چھٹیوں پر نہ جائے تو …
عدالت میں قطری شہری کا جو خط پیش کیا گیا ، عدالت ،وکیل اور جج جانے نہ جانے لیکن دنیا جانتی ہے کہ معاملہ اب سیاہ وسفید کی طرح سامنے آگیاہے۔ عرب حکمران بادشاہ ہوتے ہیں یا شہزادے، ججوں کا نعیم بخاری پر قہقہ لگانا کسی وجہ سے ہوگا ۔ خوبصورت ہونا شہزادے یا شہزادی کی علامت ہواور بادشاہوں کا چوپٹ راج ہو تو بادشاہ عوام کی بیگمات بھی چھین لیتا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ جلیل القدر نبی نے اپنی بیگم حضرت سارہؑ کو جھوٹ بول کر زوجہ کے بجائے اپنی ہمشیرہ قرار دیا۔ اللہ تعالیٰ نے عزت بچائی اور خدمت کیلئے لونڈی حضرت حاجرہؓ بھی دیدی،جو حقیقت میں ایک شہزادی تھی۔ بادشاہ کے ظالمانہ دور میں یہ تمیز مشکل ہوتی ہے کہ شہزادی اور لونڈی میں فرق کیا ہے؟۔ نعیم بخاری خوبصورتی کو شہزادے کیلئے معیار سمجھتے ہیں تو ان کی سابقہ بیگم طاہرہ سید بڑی شہزادی ہوگی جو شاہِ وقت نوازشریف کے کرتوت سے چھن گئی تھی۔ ججوں نے شاید نعیم بخاری کے معصومانہ جواب پرتاریخی پیرائے میں قہقہ لگایا ہوگا؟۔ مظلوموں کی بے بسی پر توہینِ عدالت سے پیشگی معذرت کیساتھ ہنسنابھی منع نہیں۔ جنتی عیش میں شجرۂ ممنوعہ سے انسان نہیں رُکتا، حضرت داؤدؑ اورسلیمان ؑ انبیاء کو بادشاہت ملی ہے تو مجاہد اوریا کی خوبصورت بیگم کو بھی ہتھیالینے اور ملکہ سبا بلقیس کی ٹانگوں کے قصے بن گئے۔ اللہ نے تنبیہ فرمائی کہ ’’ایک بھائی کے پاس 99دنبیاں ہوں اور دوسرے کے پاس ایک ، اور وہ یہ بھی ہتھیالیناچاہے تو کیساہے؟‘‘ ۔
نوازشریف کی معصومیت حماقت ہے،اللہ کی ذات پاک ہے، معصومیت کی تشریح حقائق کے منافی ہوتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے شادی کی خواہش ظاہر کی اور پھر کہا کہ ’’میرے ازدواجی تعلقات خوشگوار ہیں‘‘۔ یعنی دوسری شادی کا جواز ناخوشگواری کے باعث ہے، حالانکہ انکے والد مفتی محمودؒ نے خوشگوار تعلق میں بھی دوسری شادی کی۔ اللہ تعالیٰ نے فتح مکہ کے بعد رسول اللہﷺ سے فرمایا :’’ اب کوئی شادی آپ نہ کریں چاہے کوئی خاتون شادی کیلئے اچھی بھی لگے‘‘۔ شادی کی چاہت ، شادی کا کرنا معصومیت کیخلاف نہیں ۔ نوازشریف کی معصومیت پر وسیم بادامی کے بقول معصومانہ سوال ہے کہ ’’قطری شہری کا خط آپ کا وکیل اکرم شیخ عدالت میں لایا؟، اکرم شیخ کا یہ کہنا درست ہے قومی اسمبلی کی تحریری تقریر میں حوالہ بھول گئے ؟۔تو لیجئے آپ اپنے دام میں صیاد آگیا۔ قطری شہری کا خط گرفت کیلئے کافی ہے، سرمایہ کاری پریہ نہیں کہا جاتاکہ ’’مجھے آگاہ کیا گیا‘‘ بلکہ دستاویزی ثبوت پیش کیا جاتا ہے۔ دستاویزی ثبوت کی موجودگی میں یہ کہنا کہ’’ مجھے آگاہ کیا گیا ‘‘ کھلے الفاظ میں جھوٹ کا بہت بڑا پلندہ ہے ۔قطری خط بذاتِ خود ثبوت نہیں بلکہ تابوت ہے‘‘۔
وکلاء اور ججوں کے پاس تعلیم کی ڈگریاں ہونگی اور تعلیم کی ڈگری سے زیادہ کاروباری معاملہ کا لکھت پڑھت سے تعلق ہوتاہے۔ ایکزٹ کی طرح دنیا بھر میں جعلی اسناد بکتی ہیں بنوں میں علماء کی اسناد بکنے کا مسئلہ مشہورہے۔ قابلیت کا پتہ ڈگری کے بغیر بھی چلتاہے۔ ملک ریاض نے ڈگری کے حامل لوگوں کو ملازم رکھاہے۔ نوازشریف کا سب سے بڑا اعزاز محنت کرکے کمانا تھا۔ جب پکی پکائی تازہ روٹی قطری شہزادہ دیتا تھا تو پھرنوازشریف اور اسکے خاندان کا کیا کمال ہے؟۔ پھر کس بات پر حمزہ شہبازفخر کرتاہے کہ ’’میں ایک مزودر کا بیٹا ہوں‘‘۔ مزدوری سے اونچی اڑان ہوتی تو پاکستان میں بہت سے لوگوں کی حالت بدل جاتی۔ بعض لوگوں کی بدلی ہے مگر ا نکے پاس ثبوت بھی ہیں۔ وہ فوجی ڈکٹیٹروں کیساتھ مل کر حکومتوں کے ذریعے کرپشن نہیں کرتے رہے ہیں۔ کاروباری معاملہ ہو تو اللہ نے قرآن میں اس وقت بھی انصاف کی حامل تحریر کا حکم دیا تھا جب کاروباری معاملے میں عام بینکوں وغیرہ کا رواج بھی نہ تھا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ میاں شریف نے کسی دستاویزی ثبوت کے بغیر ہی اتنی بڑی کاروباری رقم قطری شہری کو دی ہو؟۔ دستاویزی ثبوت کی موجودگی میں یہ نہیں کہا جاتا ہے کہ مجھے آگاہ کیا گیا بلکہ دستاویزی معاملہ پیش کیا جاتاہے۔ ججوں نے اگر معاملہ الجھانا ہے تو وکالت کے پیشے کی مہارت کے ثبوت کیلئے ضروری ہے کہ جتنا ممکن ہو معاملہ الجھایا جائے اور کسی جج کی اہلیت کیلئے وکالت کا تجربہ ہی بڑی بنیاد ہوتاہے۔ وزیراعظم کی وکالت کرنی ہو تو حماقت بھرا خط مسترد کیا جائے کہ چور کا اپنے ہاتھوں کو خودہی کاٹنے کے مترداف ہے اور اسے حضرت یوسفؑ کے حسن میں ہاتھ کاٹنے والی خواتین کی معذوری قرار دیاجائے۔ عدالت پہلی فرصت میں خط ہی مسترد کردے اور وکیل دوبارہ اسکی تصدیق کیلئے مہریں ثبت کرکے نہ لائے۔ مخالف وکیل خط کے دلیل کا حوالہ دے تو اکرم شیخ کہہ دے کہ ’’غلطی سے یہ خط لایا گیا، وزیراعظم پارلیمنٹ میں بھولا نہ تھا بلکہ میرے مؤکل نے اس خط کو مسترد کیا ہے‘‘ اور اگر عمران خان کے وکلاء نے معاملہ جیتنا ہے تو خط کا قضیہ فیصلہ کن قرار دیں۔ جج شہزادے کی تشریح پرنہیں وکیل کی نااہلی پر قہقہے لگاتے ہونگے۔ ججوں کی چاہت ہوگی کہ قانون کی اندھیر نگری نے ہاتھ باندھے ہیں، قومی دولت کو مال غنیمت سمجھ کرلوٹنے والا عدالت کی گرفت میں آجائے ۔عدالت کا فیصلہ وزیراعظم کے حق میں یا خلاف ہو، دونوں صورت میں پاکستان شاندار مستقبل کی طرف پرواز کریگا، معصوم کوئی بھی نہیں لیکن وزیراعظم کے ہاتھ میں قوم کا مستقبل ہے، بے دریغ قرضوں سے عوام پر ٹیکس بڑھ گیاہے، ایک عام مزدور کی تنخواہ 10سے12ہزار کرنے پر بھی فخر کرنے میں شرم محسوس نہیں ہوتی۔ یہ لوگ اپنے بچوں کے اتنی رقم میں مہینے کے اخراجات پورے کرکے دکھائیں۔ علی احمد کرد کاکہنادرست ہے کہ وزیراعظم غریبوں سے ہی ہونا چاہیے،ملک کا 2فیصدامیر طبقہ 98% غریبوں کامسئلہ سمجھنے سے قاصرہے ۔کرپٹ حکمران کرپشن ہی کرسکتے ہیں
شاہ ولی اللہؒ نے نظام کو پلٹنے کی بات کی تھی، عدالت کے اس فیصلے سے نظام کا کایاہی پلٹ جائیگا۔

ایم کیوایم کا جن بوتل میں یا سرکٹی لاش بن گئی ہے؟:فیروز چھیپا

مہاجر نے کراچی سے ہمیشہ غریبوں کو اسمبلیوں میں بھیجا ایم کیو ایم پاکستان ، لندن اور PSP چلے کارتوس ہیں

نوشتۂ دیوار کے مہتمم فیروز چھیپا نے کہاہے کہ کراچی میں امن وامان کی بحالی کیساتھ ایک ایسی فضاء قائم ہوئی ہے جہاں امیدومایوسی کا اظہار ہورہاہے۔ پاکستان کے طول وعرض کو دیکھا جائے تو ایسی قیادت نہیں جو کراچی کو اس فضاء سے نکالنے میں کامیاب دکھائی دے ۔ بکھری ایم کیوایم کے رہنماؤں کو حوصلہ کرنا چاہیے، چلے کارتوس کے خول ہیں، تاہم مہاجر زندہ دل ہیں۔ مہاجرقوم میں بے پناہ صفات ہیں۔ کراچی سے ہمیشہ غریب اور متوسط طبقے کے لوگ قومی و صوبائی اسمبلی میں گئے ہیں۔ جب بھی کوئی قومی سطح کی تحریک چلی ہے ،ہمیشہ کراچی کے زندہ دل لوگوں نے اس میں بہت بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ مصطفی کمال کی پارٹی ہو یا ایم کیوایم پاکستان و ایم کیوایم لندن یہ پارٹیاں بہت پہلے بن کر اپنے منطقی انجام تک پہنچ جانا چاہیے تھا۔ جب کسی قوم میں نبی کریم ﷺ کی عظیم شخصیت بھی موجود تھی تو اللہ تعالیٰ صحابہ کرامؓ سے مشاورت کے باوجود بھی وحی کے ذریعے سے رہنمائی فرماتا تھا۔ کراچی میں ایم کیوایم لندن کے وہ کارکن جنہوں نے براہِ راست اپنے قائدالطاف حسین کے شب وروز اور معمولاتِ زندگی کو کافی عرصہ سے دیکھا نہیں ہے ان کا جذباتی لگاؤ فطری طور پر بہت زیادہ ہوگا۔ ان کے برعکس جن کا ملنا جلنا رہتا تھا وہ اتنا جذباتی لگاؤ نہیں رکھتے تھے۔ زیادہ تر مہاجروں کی مثال پیرکے مریدوں یا فوجی سپہ سالار کے سپاہیوں کی ہوتی ہے۔ وہ جزا وسزا کے خوف سے زیادہ حکم کی پاسداری کرنا ہی جانتے ہیں اور کسی قوم کیلئے اس وقت یہ بڑی کامیابی کی ضمانت ہے جب اس کی قیادت محفوظ ہاتھوں میں ہو۔جرمن قوم کی قیادت ہٹلر کے ہاتھوں میں تھی اور قوم کا اس پر بے پناہ اعتماد تھا، اکثر اوقات رہنماؤں کے مقابلے میں یہ حقیقت سامنے آتی تھی کہ ہٹلر ہی کی بات ٹھیک ہوتی تھی۔ جب ہٹلر نے آخر میں سب کیساتھ قوم کو لڑایا تب بھی ان کو ہٹلر کی بات کے درست ہونے کا یقین تھا لیکن عظیم قوم جرمن کا بیڑہ غرق ہوا، تو پتہ چلا کہ ہٹلر کا دماغ ہی چل گیا تھا۔ الطاف حسین عظیم انسان ہوسکتے ہیں لیکن پیغمبر تو نہیں ہیں؟۔
کراچی میں الطاف حسین کی قیادت ماننے والوں کی اکثریت مسلمانوں کی ہے اور قائد خود بھی اللہ اور اسکے رسول ﷺ پر ہی ایمان رکھتے ہیں۔ پاکستان اسلام کے نام پر بناہے اور مہاجرقوم نے اسلام کی وجہ سے ہی بھارت سے پاکستان ہجرت کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی تربیت کا جو معیار قرآن وسنت کے ذریعے دنیا کے سامنے متعارف کرایا ہے ، وہ صرف کلمہ پڑھ لینے کا نام نہ تھابلکہ اللہ اور اسکے رسولﷺ کی اطاعت اور فرمان برداری کانام اسلام ہے۔ قرآن میں روزہ رکھنے کیلئے طلوع فجر سے رات تک کا واضح حکم ہے ۔ اگر مسلم اُمہ کی فوجی یا مریدی کی تربیت ہوتی تو جہاں سورج چھ ماہ تک غروب نہیں ہوتا،وہاں روزہ رکھنے سے مسلمان مرجاتے لیکن اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ مؤمن وہ ہیں ’’ جو اللہ کی آیات پر بھی بہرے اور اندھے ہوکر نہیں گرپڑتے ہیں‘‘۔ یہ بھی سورۂ مجادلہ میں ہے کہ اللہ نے عورت کا نبیﷺ سے جھگڑا سن لیا اور پھر اسی کے حق میں فیصلہ بھی دیدیا ۔غزوہ بدر کے موقع پر فدیہ لینے پر اکثریت کی مشاورت کے باوجود جب نبیﷺ نے فیصلہ کیا تو اللہ نے نامناسب قرار دیا اور حضرت عمر فاروقؓ کے مشورے کی توثیق کردی۔ عمر فاروقؓ نے حدیث قرطاس کے مسئلے میں رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ ’’ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے‘‘۔ تو مسلمانوں نے قرآنی تعلیم وتربیت کے نتیجے میں اس اختلاف کو گستاخی سمجھ کر قتل یا بغاوت کا فتویٰ جاری نہیں کیا۔ الطاف حسین نے بار بار قیادت سے دست برداری کے اعلانات کرکے یہ تربیت کردی تھی کہ مائنس ون فارمولے پر عمل ہوجائے تو ایم کیوایم کے رہنما اور کارکن مایوس نہ ہوں۔ ریاست کی یہ پالیسی بہت اچھی ہے کہ وہ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف ہی بلاامتیاز کاروائی کا کہہ رہی ہیں۔ ایم کیوایم حقیقی کو پہلے میدان میں اتارا گیا، پھر بیت الحمزہ کو ملیامیٹ کردیا گیا تھا۔ اب ایم کیوایم کے دفاتر مسمار کردئیے گئے لیکن مسئلہ کا حل ریاستی جبر نہیں بلکہ سیاسی قیادت ہے۔
ریاست کی رٹ صرف کراچی نہیں بلکہ سب سے پہلے سوات میں بحال کی گئی تھی۔ پھر جہاں جہاں خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں ریاست کی رٹ نہیں رہی تھی وہ بحال کی گئی۔ کراچی میں بھی ایم کیوایم کے سیکٹر انچارج فیصلے کرتے تھے۔ اگر کراچی کی ایم کیوایم اور طالبان سے عوام بھی بہت خوش ہوتی تو ریاست کو مداخلت کی ضرورت نہ پڑتی۔ گورنر سندھ سعیدالزمان صدیقی نے موجودہ عدالتی سسٹم سے بچنے کیلئے عوام میں اپنا ایک فورم متعارف کرایا تھا جو اپنی مدد آپ کے تحت جلد اور سستا انصاف فراہم کرنے کے فلسفے پر بنایا گیا تھا۔ جب ایم کیوایم کے مقابلہ میں پیپلزامن کمیٹی کا وجود عمل میں لایا گیا، طالبان گروپ بھی کراچی میں بھرپور طریقے سے متحرک تھے، دوسری مذہبی و سیاسی جماعتوں کے حوالہ سے بھی عدالت نے فیصلہ دیدیا تو ریاست کو سب کیخلاف حصہ بقدر جثہ کاروائی کرنی پڑگئی۔ اب بھی ایم کیوایم ختم نہیں ہوئی ہے اور الطاف حسین کی مقبولیت میں بھی کمی نہیں آئی ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے ہمارے ساتھیوں کو22اگست سے پہلے کہا تھا کہ ’’ جنرل احسان الحق(ر+آئی ایس آئی چیف) کو الطاف بھائی کے پاس بھیجا جائے تو معاملہ ٹھیک ہوجائیگا اور اگرچہ اب اس تجویز پر عمل کرنے سے فائدہ ہوتاہے یا نہیں لیکن الطاف حسین کی قیادت کے بغیر یہ نہ سمجھا جائے کہ ایم کیوایم کا جن بوتل میں بند کیا گیاہے۔ اگر اس سر کٹی لاش نے بھوت بن کر کاروائیاں شروع کردیں تو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتاہے۔الطاف بھائی کو چاہیے کہ اگر ایم کیوایم پاکستان کی موجودہ قیادت پر ہی اپنے اعتماد کا بھرپور اظہار کردیں تو مہاجر قوم مشکل سے نکل سکتی ہے۔ مہاجر قوم کی تقدیر بدلنے کیلئے اس نظام کی تبدیلی بڑی ضروری ہے جسکی وجہ سے ایم کیوایم بن گئی تھی۔ ایم کیوایم نہیں تو دوسرے کون سے دودھ کے دھلے ہوئے ہیں؟۔

نشان حیدر، نشان ذی النورین، نشان فاروق اعظم، نشان صدیق اکبر… حنیف عباسی

نوشتۂ دیوار کے نمائندے حنیف عباسی نے اعلیٰ فوجی اعزازات کے حوالہ سے پارلیمنٹ، حکام کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ نشانِ حیدر سے بڑھ کردوسرے سول وملٹری اعزاز بھی قانون کا حصہ بنائے جائیں۔ ملک وقوم کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرنے والے ملک ریاض کو نشانِ ذی النورین سے نوازا جائے۔ تاکہ دیگر لوگ بھی اپنا سرمایہ باہر سے اپنے ملک میں لگانے میں دلچسپی اور عزت و اعزاز سے ترغیب پائیں۔ جنرل راحیل نے مشکل ترین ہنگامی صورتحال میں ملک کو کھڈے لائن سے بچایا، اسلئے ان کو 7سٹار نشانِ صدیق اکبر دیا جائے، تاکہ قومی خدمات کے حامل افراد کو سادگی کے نام پر بیوقوف نہ کہا جائے۔اعلیٰ کارکردگی کی بنیاد پرفوج کا استحکام وقت کا تقاضہ ہے، جنرل زبیر ملک کے استحکام کیلئے نشانِ فاروق اعظم کا بنیادی کارنامہ انجام دیں ۔خلفاء راشدینؓ کے نام سے قومی اعزازات ملی یکجہتی کیلئے ضروری ہیں۔جنرل یحیےٰ خان کو بھی بالکل ہنگامی صورتحال کا سامنا تھا، اگر اس وقت قومی اعزازات میں رتبۂ شہادت پر فائز ہوئے بغیر بھی نشانِ ذی النورین، نشانِ فاروق اعظم اور نشانِ صدیق اکبر ہوتے تو سقوطِ ڈھاکہ مشرقی پاکستان بچانے میں جنرل یحیےٰ خان کو اہل تشیع ہونے کے باوجود نشانِ صدیق اکبر پر بڑا فخر ہوتا۔
قومی اعزازات سے فرقہ واریت کو ختم کرنے میں زبردست مدد ملے گی۔ پاک فوج پاکستان کے استحکام کیلئے بنیادی ادارے کی حیثیت رکھتا ہے، نشانِ حیدر کا تعلق صرف محاذِ جنگ سے ہے۔ پاکستان میں جنگی محاذوں سے زیادہ مارشل لاؤں کے ادوار مسلط رہے ہیں جن سے پاک فوج کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچاہے۔ کرپشن کے حوالہ سے بھی یہ ادارہ دوسرے لوگوں سے مختلف نہیں رہا، جنرل راحیل شریف کی آمد سے قبل یہ زوال کے انتہا کو پہنچ چکے تھے۔ پاکستان کے دوانگریز آرمی چیف سمیت جنرل ایوب خان سے جنرل پرویز مشرف تک مقامی جرنیلوں کو عزت و احترام سے نہیں دیکھا جاتا، جنرلوں کی اولاد اور جنرلوں کے پیداوار سیاستدان بھی جرنیلوں کو سرِ عام برا بھلا کہتے ہیں۔ جنرل راحیل شریف نے نہ صرف قوم اور بین الاقوامی عزت واحترام کا مقام حاصل کیا بلکہ حکومت اور اپوزیشن سمیت ملک کی تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں میں بھی بڑی عزت پائی ہے۔ جنرل راحیل شریف کی باوقارشخصیت نے پہلی مرتبہ آرمی چیف کے منصب پر فائز ہوکر نہ صرف یہ کہ زبردست عزت کمائی بلکہ اس منصب کو بھی جنرل راحیل کی وجہ سے عزت حاصل ہوئی ہے۔
جب آنیوالے وقت میں یہ کہا جائے کہ عزت پیسوں سے ملتی ہے، جنرل راحیل نے کرپشن کی عزت حاصل نہیں، منصب کا فائدہ نہ اٹھایا، مارشل لاء نہیں توسیع ہی لے لیتے تو صداقت ، کردار، شجاعت اور عدالت کے تقاضے پر عمل کرنے والی قوم میں امامت کے صفات کبھی پیدا نہ ہوں گے بلکہ ہمارے اندر پست ذہنیت کی پسماندگی سرائیت کر جائے گی۔ جو قومیں نوسربازوں، کرپٹ اور چالاک وعیار لوگوں کو اہمیت دیتے ہیں وہ قوم ہمیشہ تنزلی کا شکار رہتی ہے۔ جنرل راحیل نے قومی ترقی کیلئے سادگی سے ہنگامی بنیادوں پر جو کارنامہ انجام دیا ہے ،اس مشن کو آگے بڑھانے کیلئے یہ ضروری ہے کہ جنرل زبیر حیات جوائنٹ چیف آف سٹاف کی حیثیت سے ایسے اقدامات اٹھائیں جس سے قوم کے انتظام و انصرام میں حضرت عمر فاروق اعظمؓ کے احساسات پیدا ہوں۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے کمال ایمان سے کرپشن اور بدا نظامی کا راستہ روکنے میں اپنا کردار ادا کیا تو حضرت فاروق اعظمؓ نے بہترین انتظامی اجتماعی عدل وانصاف کا نظام کھڑا کرکے دنیا کی ہیت کو بدل ڈالا تھا۔ شارعِ فیصل کراچی کی ایک طرف فضائیہ اور دوسری طرف نیوی ہے۔ عوام کیلئے وسیع بہترین سڑکوں کی ابتداء کی جائے تو جنرل زبیرحیات اپنے عہدے کو بہت زبردست عزت بخش سکتے ہیں، شارع فیصل کے دونوں اطراف بہترین مارکیٹ، آفس، ہوٹل اور رہائش گاہوں سے فضائیہ اور نیوی کو بھی بڑی آمدن حاصل ہوگی۔ کراچی شہر کا حلیہ بھی بالکل بدل جائیگا۔ جب شہر کچرے سے کچراچی بن جائیگا تو سب کا نقصان ہوگا۔ پاک فوج نے کراچی کے امن کیلئے بہترین اقدامات اٹھائے ہیں لیکن اندرون سندھ، پنجاب اور دوسرے شہروں کا بھی کوئی خاص مزہ نہیں ہے۔ جب پاک فوج بہترین طریقے سے بنیادی اقدامات اٹھائے گی تو دیرپا امن اور خوشحالی مقدر بنے گی۔
قومی اعزاز کیلئے ملک ریاض کا نام بھی اسلئے لیا کہ ان کے ذریعے بیرون ملک مقیم لوگ اپنے سرمایہ باہر سے پاکستان میں لگارہے ہیں۔جب تعمیری سوچ کو اعزاز کیساتھ بڑھایا جائیگا تو بہت کرپٹ لوگ بھی اپنا سرمایہ باہر سے پاکستان لانے میں عزت محسوس کریں گے۔ تبلیغی جماعت، دعوتِ اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں میں لوگوں کو توبہ کرنے اور اپنی پوزیشن تبدیل کرنے کا موقع ملتا ہے تو عوام میں تخریب کاری کی بجائے تعمیری سوچ کو پذیرائی حاصل رہتی ہے۔ باعزت روزگارسے ملک میں بڑھتے ہوئے جرائم پر قابو پانے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ ایک شخص ملک ریاض ملک کی تعمیر وترقی اور روزگار کی فراہمی میں اتنی بڑی خدمت انجام دے سکتے ہیں تو پاک فوج نے بھی اس میدان میں زبردست پیش قدمی کرنی ہوگی۔ جنرل زبیر حیات اپنے منصب کے لحاظ سے جو خدمات انجام دے سکتے ہیں وہ آرمی چیف کے بس کی بات بھی نہیں ہے۔ آرمی چیف بری فوج کا سربراہ ہوتاہے، نیوی اور فضائیہ کے سربراہوں کی حیثیت اسلئے نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے کہ ان کا عملہ زیادہ نہیں ہوتاہے۔ جنرل زبیر حیات کو قسمت سے آرمی چیف بھی بڑے خاکسار، ملنسار اور بڑوں کیلئے مثالی تواضع وانکسار رکھنے والی شخصیت جنرل قمر جاوید باجوہ ملے ہیں جن کی ہرممکن مدد حاصل رہے گی۔قرضوں سے ملک نہیں چل سکتے۔ پاک فوج اپنی مدد آپ کے تحت بڑے ہی منافع بخش ، حوصلہ افزاء اور تعمیرملت کے بنیادی پروگرام میں بہترین حصہ لے کر دفاع کے بوجھ کو بھی اپنے کاندھوں پر اٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ فرقہ وارانہ سوچ سے بالاتر پاک فوج کواپنی پیشہ وارانہ سرگرمیوں کیساتھ طبقاتی کشمکش کے بجائے تعمیرِ ملت پر بھی اپنی توجہات مرکوز کرنی ہوگی اور مارشل لاء کی طرف جانے کے بجائے اپنی عوام سے مضبوط تعلقات مسائل کے حل کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔جنرل راحیل نے ساتھیوں کیساتھ جو بنیاد رکھ دی ہے اس پر تعمیرکی بہت ضرورت ہے ۔

عمران خان نے محرم الحرام میں نکاح کیا یا متعہ؟ ارشاد علی نقوی

عمران خان شیعہ مخالف طبقوں کو محرم کے نکاح پر اپنا ہمنوا بناتا ہوگا اور اہل تشیع سے کہتا ہوگا کہ میں نے متعہ کیا تھا

نوشتۂ دیوار کے ڈیزائنرسیداشاد علی نقوی نے موجودہ دور کے فراڈ سیاسی قیادتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاہے کہ مفاد پرستوں کے ہاتھوں قوم کے اخلاق، کردار ، اقدار، سیاست اور لیڈر شپ سب کچھ تباہ ہوں تواس کی ذمہ داری کس پر پڑے گی؟۔عمران خان نے نکاح کیا تھا لیکن کس ڈرامہ بازی سے کہہ رہا تھا کہ تبدیلی آئیگی اور میں شادی کروں گا۔
آصف علی زرداری نے اینٹ سے اینٹ بجانے کا کہاتھا اور پھر اس کی غلط تعبیریں کرتے ہوئے بھی نہ شرمایا، نوازشریف اور شہباز شریف نے جب زرداری کو قومی دولت لوٹنے کا ذمہ دار قرار دیا تو معلوم ہوتا تھا کہ حبیب جالب کی روح ان میں جاگ گئی ہے لیکن پانامہ لیکس سے اپنے پاجامے بھی لتھڑے نظر آئے تو قوم کو پتہ چلا کہ انسان اور سیاستدان دوسروں کے خلاف نہیں بول رہے تھے بلکہ کتے بھونک ، گدھے ڈھینچو، ڈھنچو کررہے تھے۔ عمران خان دونوں کو جس طرح سے منافق، بے غیرت، بے شرم، ملی بھگت اور سازباز کا مرتکب قرار دے رہاتھا تو عوام محسوس کررہی تھی کہ عمران خان سیدھا، باغیرت، شرم و حیاء رکھنے والا، صاف ستھرااور بالکل پاکیزہ کردار رکھنے والا انسان ہے لیکن جب اسکی فائل کھلی ہے تو اس سے بڑا ڈرامہ باز کوئی نہیں لگتاہے۔ ہر چیز کی حد ہے مگر عمران خان نے رسی توڑدی ہے۔ 14اگست 2014ء کو عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کا تاریخی دھرنا شروع ہوا تھا۔ اس دوران محرم الحرام اور عیدالبقر بھی آئے ، 31اکتوبر کو7محرم الحرام کی تاریخ تھی۔ریحام خان کے ساتھ نکاح کی خبر میڈیا میں جنوری کو دی گئی۔ مفتی سعید خان نے نکاح کے بارے میں جنوری میں میڈیا سے کہا کہ ’’ میں عمران خان کے بہاف پر کہہ رہا ہوں کہ ابھی عمران خان کا نکاح ہواہے‘‘۔ جب ریحام خان نے طلاق کے بعد انکشاف کیا کہ 31اکتوبر شادی کی سالگرہ تھی اور تحفہ مانگنے پر مجھے طلاق ملی تھی تو میڈیا نے مفتی سعید خان سے پوچھا کہ شادی کب ہوئی تھی؟۔ 31اکتوبریاپھر جنوری کو؟، مفتی سعیدخان نے کہا کہ ’’ 7محرم کو نکاح ہوا تھا، اس کے مطابق تاریخ دیکھی جائے‘‘۔ پھر میڈیا نے مفتی سعیدخان کے کلپ بھی چلائے۔ مفتی سعید خان کے کہنے میں کہ عمران خان کے بہاف پر کہہ رہا ہوں اور قطری شہزادے کے خط میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ جھوٹ کی بنیاد پراگر کوئی قومی اسمبلی اور سیاسی جماعت کی قیادت کیلئے نااہل ہوسکتاہے تو دونوں کو نااہل کیا جائے۔
دھرنے کے دوران ضرب عضب شروع تھا تو عمران خان ایک طرف امپائر کی انگلی اٹھنے کی دھائی دے رہا تھا تو دوسری طرف پنجاب پولیس کو طالبان کے حوالہ کرنے کی دھمکی دے رہا تھا۔ آج میڈیا پر انکشاف ہورہا ہے کہ دھرنے کے پیچھے آئی ایس آئی چیف ظہیر الاسلام کا کردار تھا، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جیوٹی وی چینل پر روزسنگباری کی جاتی تھی۔ انصار عباسی نے بھی کہا تھا کہ ’’دھرنے کے پیچھے آرمی چیف نہیں لیکن کچھ لوگ خود کو آرمی چیف سے زیادہ مضبوط سمجھتے ہیں‘‘۔یہ بھی عجیب معاملہ تھا کہ دھرنے میں عمران خان کو چاہنے والی لڑکیاں سرِ عام شادی کی پیشکش کرتی تھیں، روز روز کی گہماگہمی ایک تماشہ ہوتا تھا، جب شادی کرہی لی تھی تو اس کو چھپانے کی ضرورت کیا تھی؟۔ پھر ڈرامہ بازی کی ضرورت کیا تھی کہ ’’تبدیلی آئے گی اور شادی کروں گا‘‘۔ ایسا ڈرامہ تو کسی بھی سیاسی قیادت نے نہیں رچایا ہے۔ دوسروں کو ڈرامہ باز کہنے کی اس قدر جسارت اور خود اتنا بڑا ڈرامہ رچانے میں کوئی مشکل محسوس نہیں ہوئی؟۔ آصف علی زرداری نے سیاسی اداکار کے لقب سے ٹھیک یاد کیا تھا لیکن سیاسی اداکاری تو اب اس کا اپنا بیٹا بھی کررہاہے۔ سیاست ادکاری کی آرٹ ہو تب بھی قوم کے جاہلوں سے کھیلنے میں زیادہ حرج نہیں ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو بھی ایک سیاسی اداکارہی تھا جس کی نقل موجودہ سیاسی قیادتیں اتار رہی ہیں۔
اصل مسئلہ قلابازیاں کھانے، غیراخلاقی حرکتیں کرنے اور دوسروں کو ڈھٹائی سے موردالزام ٹھہرانے کیساتھ اپنی ایسی حرکات ہیں جن کی کوئی توجیہ کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ 7محرم کو نکاح سے طالبان ، لشکر جھنگوی اور داعش کو پیغام دیاگیا کہ عمران سے زیادہ اہل تشیع کا کوئی مخالف نہیں، عام سنی بھی محرم خصوصاً عاشورے میں نکاح اور شادی سے اجتناب کرتے ہیں۔ شادی کی بھی جائے تو اس کو چھپانے کی کیا ضرورت ہے؟۔ جب طالبان کا غلغلہ تھا تو عمران خان انکی بڑی ڈھٹائی سے تائید کرتا تھا، طالبان کا دور نہ رہا تو جلسے میں ’’نعرۂ حیدری :یا علی‘‘کی آوازیں بھی بلند ہورہی ہیں۔ ایاک نعبد وایاک نستعین کے بجائے اب یاعلی مدد کے نعرے بھی لگ جائیں تو مسئلہ نہیں لیکن قوم کے سامنے اس بات کی وضاحت تو کم ازکم کی جائے کہ ’’پہلے متعہ تو نہیں کیا تھا؟‘‘۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ طالبان کو اس نکاح سے جو پیغام دیا جارہاتھا اس کو اہل تشیع کے سامنے یہ دوسرا رنگ دینے میں بھی حرج محسوس نہیں کرینگے۔ تحریک انصاف علماء ونگ کے سربراہ مفتی عبدالقوی کا ویڈیو پیغام الیکٹرانک ، سوشل اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے پہنچ چکا تھا۔ایک حرکت سے اس کو نکال دیا گیا تو کیا تحریک انصاف کے سربراہ کیلئے کوئی اخلاقی معیار شرط نہیں ہے؟۔ امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کی بیوی کے نازیبا تصویروں پر بھی امریکی قوم کو بہت اعتراض ہے لیکن عمران خان کس قسم کی مٹی سے بنایا گیا انسان ہے کہ اپنے لئے کسی اخلاقی معیار کو خاطر میں بھی نہیں لاتا ہے؟۔
ملٹی نیشنل کمپنیاں میڈیا کو اس شرط پر تو اشتہارات نہیں دیتیں کہ عمران خان کا چہرہ بے نقاب نہ کیا جائے؟۔ سیاسی جماعتوں کی بہادری ملا، طالبان اور فوج سے نہ ڈرنے کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ سیاسی رہنماؤں اور قائدین کیخلاف بولنے سے ہیجڑوں کو بھی ڈر نہیں لگتا۔سینٹر مشاہداللہ خان نے سماء ٹی وی چینل پر فیصل قریشی کے پروگرام میں کہاتھا کہ ’’ عمران خان پرائے بچے پال رہا ہے‘‘۔ مبشرلقمان نے دانیال عزیز کو یہودی ماں کا بیٹا کہہ کر اصل یہودی قرار دینے پر چیلنج کررکھاہے۔ قلابازی کھانے والے دانیال عزیز اور عمران خان کے کردار پر یہودبھی شرم کھا رہے ہوں۔ علامہ اقبال نے مسلمانوں کو مخاطب کرکے اس کردار کی بنیادپر کہا کہ ’’جسے دیکھ کر شرمائے یہود‘‘۔
قوم کو شعور وآگہی دینا صحافتی فریضہ ہے۔ کسی جماعت کی وکالت اورکسی کیخلاف محاذ آرائی کرنا صحافت کے بنیادی فریضے کے منافی ہے۔ قوم کے شعور کو بیدار کرنے کا فرض نبھانا چاہیے۔ سیاسی قائدین قوم کیلئے رول ماڈل ہوتے ہیں اور ان پر تنقید کرنا انکے ذاتیات کا مسئلہ نہیں ۔ قوم کے سامنے خود کو قیادت کیلئے پیش کرنیوالا اپنی معاشرتی زندگی کو ذاتیات نہیں کہہ سکتا،لیڈر کی ذات پبلک پراپرٹی ہوتی ہے۔جج، جرنیل اور جرنلسٹ جانبدار بن جائے تو اس کا منہ ہی کالا ہے۔

آرمی چیف راسخ العقیدہ سنی مسلمان ہیں، گھکڑ منڈی کے علامہ زاہد الراشدی و دیگر ذرائع سے سوشل میڈیا کی افواہ غلط ثابت ہوئی ہے۔ قرآن کی آیت سچ ثابت ہوئی ہے۔سید عتیق الرحمن گیلانی

انگریز کے جانے کے بعد بھارت اور پاکستان میں فوج ، عدلیہ اور بیورو کریسی کا نظام جوں کا توں ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا لیکن اسلامی نظام تو بہت دور کی بات ہے ہماری مملکت خدا داد میں فلاحی ریاست بھی قائم نہ ہوسکی۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح آغاخانی ، پہلے دو آرمی چیف انگریز ، پہلا وزیر خارجہ قادیانی اور پہلا وزیر قانون ہندو تھا۔ 1971 ؁ء میں سقوط ڈھاکہ پیش آیا، باقی ماندہ مغربی پاکستان میں ذو الفقار علی بھٹو نے اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگایا، آخر کار 1973 ؁ء میں پہلی مرتبہ پاکستان کو اسلامی جمہوری آئین ملا۔ پہلے ختم نبوت کی تحریک والوں پر بغاوت کے مقدمات قائم ہوئے ، تحقیقاتِ عدالت پنجاب کے نام سے حکومت نے جو کتاب شائع کی ، اسمیں جسٹس منیر کی سربراہی میں مرزائی اور ان کو تحفظ دینے والوں کو اصل مسلمان اور انکے مخالف فسادی قرار دئیے گئے، جن کو اسلام اور مسلمانوں کی تعریف کا بھی پتہ نہیں تھا۔ شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی نے قائداعظم کا نمازِ جنازہ پڑھایا لیکن وزیرخارجہ سر ظفراللہ نے یہ کہہ کر جنازہ پڑھنے سے انکار کیا کہ ’’ایک کافر کا جنازہ مسلمان نہیں پڑھ سکتا یا پھر ایک کافر مسلمان کا جنازہ نہ پڑھے‘‘۔
ذوالفقار علی بھٹو نے تحریکِ ختم نبوت والوں کی حوصلہ افزائی کی اور پاکستان میں قادیانیوں کو کافر قرار دینے کا قانون بنایا گیا۔ سوشل میڈیا پر یہ خبر پھیلائی گئی ہے کہ غیرمسلم فوج میں بریگیڈئر کے عہدے سے زیادہ ترقی نہیں کرسکتا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوج میں ترقی کیلئے قادیانیت کا مذہب ترک کردیا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے سسر جنرل رحیم کے بارے میں بھی مشہور ہے کہ وہ کٹر قادیانی تھے۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کے امیر مولانا عبد الکریم بیر شریفؒ لاڑکانہ کا اصرار تھا کہ جنرل ضیاء الحق قادیانی ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے علماء کی تحریک پر نہ صرف قادیانیت سے برأت کا اعلان کیا تھا بلکہ قادیانیوں پر سخت ترین پابندیاں بھی لگادی تھیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے رشتے ناطے اپنے کزن پارسیوں سے تھے۔ قائد اعظم کو تعلیم بھی انکے والد کے دوست کراچی کی معروف پارسی شخصیت نے ہی لندن میں دلائی تھی۔ پاکستان بنتے وقت بنگلہ دیش اور چاروں صوبوں میں کسی کو بھی اُردو نہیں آتی تھی۔ سر آغا خان نے تجویز دی تھی کہ پاکستان کی قومی زبان عربی ہو، تاکہ قرآن و سنت اور عرب ممالک سے روابط پیدا کرنے میں آسانی ہو۔ ہمارے ارباب اختیار نے اردو کو مسلط کرکے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کو کھودیا۔ 69سال ہوگئے کہ قومی زبان اردو کو سرکاری زبان نہ بناسکے۔ سرتاج عزیز بھارت سے بے آبرو ہوکر نکالا جاتا ہے تو انگریزی میں تقریر کرکے عوام سے نہیں ڈونلڈ ٹرمپ سے مخاطب ہوتا ہے۔ میڈیا پر اردو میں ترجمہ کرکے لکھا گیا کہ افغان صدر اشرف غنی کا بیان قابل مذمت ہے اس بیان سے اس کی گھبراہٹ واضح ہوتی ہے۔ سرتاج کا دماغ شاید چل گیا ہے ، جب افغانستان اور دنیا کو یہ شکایت ہے کہ پاکستان سے دراندازی ہوتی ہے تو یہ کہنا کہ ’’اشرف غنی کے بیان سے پتا چلتا ہے کہ گھبراہٹ طاری ہے‘‘ سے وہی مؤقف واضح ہوتا ہے جس کا ہمارے بزرگ وزیر خارجہ نے ازالہ کرنا تھا۔اگر ہم افغان صدر کو ڈرانا چاہتے پھر یہ بیان درست ہوتا۔ ہماری دیرینہ خواہش یہ ہے کہ ہم سے انکا خوف نکل جائے۔
پاکستان کی تاریخ میں اگر رانا بھگوان داس کو ایک عرصے تک مستقل چیف جسٹس بنادیا جاتا تو عدالت کی تاریخ میں سب سے زیادہ انصاف اور قانون کیمطابق فیصلے ہوتے۔ انگریز آرمی چیف کی قیادت میں پاک فوج نے قبائلیوں کی مدد سے سرینگر تک کشمیر کو فتح کرلیا تھا۔ پھر سیاسی قیادت نے اقوام متحدہ کے آسرے پر پاکستانی افواج اور قبائلیوں کو واپس بلالیاپھر کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہو سکا، پہلے مسلمان آرمی چیف جنرل ایوب خان نے بیوروکریسی کے صدر کو معطل کرکے اقتدار پر قبضہ کیا اور ذو الفقار علی بھٹو کو وزیر خارجہ بنادیا۔ بھٹوکو اپنے محکمے اور ملک میں قادیانی کی طاقت کا اندازہ تھا اسلئے مذہبی طبقوں کو قادیانیوں کے خلاف تحریک کی کھلی چھوٹ دے دی۔ پاکستان کی بنیاد ہی مکس ملغوبہ تھا۔ سیکولر لوگوں نے اسلام کے نام پر عوام میں مذہبی منافرت کی بنیاد رکھ دی تھی۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ’’ اگر شریعت میں اللہ کے سوا کسی کو سجدے کی اجازت ہوتی تو عورت کو حکم کرتا کہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے‘‘۔ کمزور کو طاقتور سے نہ لڑانے کی یہ بہترین حکمت عملی ہے۔ صحافت و سیاست کے شعبے میں ایسے لوگوں کی بہتات ہے کہ اگر آرمی چیف کو سجدے کی بھی ملک میں روایت ہوتی تو بہت سارے قطار اندر قطار کھڑے رہتے۔ مغل بادشاہ اکبر کے دربار میں بھی درباری ملاؤں اور حکومت کے دست و بازو نے سجدہ تعظیمی کا ارتکاب کیا تھا۔ جنرل رحیم کے داماد جنرل ضیاء الحق نے جو احسانات نواز شریف اور اسکے خاندان پر کئے تھے ، احسان کے بدلے میں احسان کے طور پر ہی نہیں بلکہ سُود جیسے بدترین گناہ کے طور پر بھی اگر نواز شریف جنرل قمر باجوہ کو چیف آف آرمی اسٹاف بناتا تو قابل تعریف تھا۔ لیکن اگر اس نے پاک فوج کو کمزور پوزیشن پر لانے کیلئے کسی بدنیتی کا مظاہرہ کیا ہے تو اسکے نتائج بھی خود ہی بھگتے گا۔ بھارت میں سکھ نالاں ہیں اور باغیانہ ذہنیت رکھتے ہیں لیکن اکثر و بیشتر سکھ ہی آرمی چیف بنتا ہے۔ ہمارے ملک میں اقلیت سے تعلق رکھنے والے قادیانیوں پر بغاوت کا کوئی الزام نہیں ہے بلکہ پاکستان بنتے وقت قادیانیوں نے بھارت کے قادیان کو چھوڑ کر ربوا چنیوٹ پنجاب کو اپنا مرکز بنایا۔ جب طالبان ، مجاہدین اور پاک فوج کے جوان قبائلی عوام اور پاکستانیوں پر مظالم ڈھاتے تھے تو شریف برادران اور عمران خان وغیرہ کی ہمدردیاں طالبان سے ہوتی تھیں۔ عوام کے سمجھدار لوگوں میں یہ سوچ بھی موجود تھی کہ فوج میں قادیانیوں کا غلبہ ہے اور جان بوجھ کرخاص طور پرپختون اور عام طور پردوسری قومیتوں کے لوگوں کو قادیانی ذہنیت کی خاطر تباہ و برباد کیا جارہا ہے۔ جنرل راحیل شریف سے عوام کی محبت اسلئے بڑھی کہ ملک میں اس فتنے و فساد کا ایک حد تک قلع قمع کردیا گیا ہے۔
حضرت عمر فاروق اعظمؓ نے حضرت علیؓ کی مشاورت سے اپنے دور حکومت میں جو نظام تشکیل دیا اس میں پولیس ، فوج ، عدلیہ اور بیت المال وغیرہ میں دوسرے ممالک سے استفادہ لیا گیا۔ آج شدت پسند بھی اغیار کے فوجی تعلیم و تربیت اور جدید آلات سے ہی مدد لیتے ہیں۔ پاکستان بہت نازک موڑ پر کھڑا ہے ، میڈیا کا کردار عدل و اعتدال کے قیام کے بجائے افراط و تفریط پھیلانا رہ گیا ہے۔ صحابہ کرامؓ کے دور میں اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ جب کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو اور اس کو سمجھنے میں دشواری ہو تو اولی الامر سے تصدیق کرواؤ ۔ آج فاسق فاجر میڈیا کا فائدہ اٹھا کر جس طرح سے ہوش ربا خبریں پھیلاتے ہیں اور ملک میں جو صورتحال موجود ہے اس کے کچھ بھی نتائج نکل سکتے ہیں۔ بڑے علماء کرام اپنے نصاب تعلیم میں کفر کے مترادف مضامین کو تسلیم کرنے کے باوجود تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے توعام مسلمانوں سے کیا توقع ہوگی؟ ۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے داعش کے اوپر احادیث کو فٹ کیا تو انہی احادیث میں یہ بھی ہے جو مولانا یوسف لدھیانوی نے اپنی کتاب ’’عصر حاضر حدیث نبوی ﷺکے آئینہ میں‘‘ نقل کیا ہے کہ ’’لوگوں پر ایک وقت ایسا بھی ضرور آئیگا جب کمینہ ابن کمینہ کو بہت معزز سمجھا جائیگا‘‘۔ موجودہ دور کی وہ شخصیات جنہوں نے محض اپنی چالاکیوں سے ایسا مقام حاصل کیا ہے کہ ہر قسم کی الٹی سیدھی ہانکتے ہیں مگر پھر بھی انکی سیکورٹی پر خاطر خواہ پیسے خرچ کئے جاتے ہیں۔ کوئی ان سے درست بات پوچھتا بھی ہے تویہ جواب دینے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہوتے ہیں۔ سید عتیق الرحمن گیلانی

فرقہ واریت کو بنیاد سے ختم کرنے کی ضرورت ہے

حضرت امام حسنؓ نے کم سنی میں حضرت ابوبکر صدیقؓ سے کہا کہ ’’آپ میرے باپ کے منبر پر بیٹھے ہیں‘‘ ۔ حضرت ابوبکرؓ بہت روئے، گود میں اٹھایا ، فرمایا کہ ’’ خدا کی قسم یہ تیرے باپ کا منبر ہے، یہ میرے باپ کا منبر نہیں ‘‘۔ حضرت حسینؓ نے کم سنی میں یہی بات حضرت عمرؓ سے کی ، فاروق اعظمؓ نے پیار کیا اور پوچھا کہ ’’ کس نے یہ بات سمجھائی ہے‘‘۔ حضرت حسینؓ نے کہا کہ ’’کسی نے نہیں خود سے یہ سمجھ رہا ہوں‘‘۔ خلافت پر شروع سے اختلاف تھا کہ انصار ومہاجرین، قریش و اہلبیت میں سے کون حقدار تھا، انصار کے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ نے کبھی حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کے پیچھے نماز نہ پڑھی، تبلیغی جماعت کے بانی مولانا الیاسؒ کے بیٹے مولانا یوسف حضرت جیؒ نے اپنی وفات سے تین دن پہلے اپنی آخری تقریر امت کے اتحاد پر کی تھی، جس میں سعد بن عبادہؓ کو جنات کی طرف سے بطورِ سزاقتل کی بات ہے۔ تبلیغی نصاب یا فضائل اعمال میں موجود کتابچہ’’موجودہ پستی کا واحد علاج‘‘ کے مصنف مولانا احتشام الحسن کاندھلویؒ کی ایک کتاب میں حضرت حسنؓ وحسینؓ کی طرف سے بچپن میں حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کے سامنے منبر کی حقداری کا ذکرہے۔
کربلا میں حضرت حسینؓ کیساتھ جو سلوک ہوا، اگر یزید اور اسکے لشکر کی حمایت کو ترجیح دینے کیلئے یہ سبق دیا جائے کہ حضرت حسنؓ و حسینؓ نے بچپن سے جو رویہ اختیار کیا تھا، کربلا میں بھی ان کی اپنی غلطی تھی، یزید برحق تھا اور مسندِ خلافت کیخلاف سازش کرنیوالا غلط تھاتو اہل تشیع کے تعصب میں یہ ممکن ہے مگر افراط و تفریط سے امت کو منزل پر نہیں پہنچایا جاسکتا۔ میں اہل تشیع کے مؤقف سے ایک فیصد بھی اتفاق نہیں کرتا اور خلافت کیلئے حضرت علیؓ اور آل علیؓ سے زیادہ کسی اکابر صحابیؓ اور انکی اولاد کو مستحق اور اہل نہ سمجھنے کے باوجود سو فیصد خلافت راشدہؓ کے ڈھانچے کو قرآن و سنت اور منشائے الٰہی کے عین مطابق سمجھتاہوں۔ حضرت ابوبکرؓ کے بعدصدیق اکبرؓ کے صاحبزے کا کوئی سوال بھی پیدا نہ ہوا۔ حضرت عمرؓ کے بعد عبداللہ بن عمرؓ کو خلافت کی مسند پر بٹھانے کی تجویز آئی تو فاروق اعظمؓ نے یکسر مسترد کردی اور فرمایا کہ ’’ جو بیوی کو طلاق دینے کا طریقہ نہیں سمجھتا، وہ خلافت کے امور کو کیسے چلائے گا؟ اسلئے خلافت کی مسند پر بیٹھنے والوں کی فہرست سے یہ باہر ہے‘‘۔ حضرت عثمانؓ پر تو اقرباپروری کے الزامات لگے مگرخلافت کو موروثی بنانے کا کوئی الزام نہ لگا،ورنہ مورثی خلافت عثمانیہ بنی امیہ کی امارت سے پہلے شروع ہوجاتی،البتہ حضرت علیؓ نبی ﷺ کے چچازاد اور داماد تھے، ان کو خلیفہ اول نامزد کردیا جاتا توخلافتِ راشدہ عوام کی رائے سے نہیں شروع سے موروثیت میں بدل جاتی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت علیؓ میں جو صلاحیت رکھی تھی وہ کسی اورصحابیؓ میں ہرگز نہ تھی، حضرت ابوبکرؓ سے تو حضرت عمرؓ میں زیادہ صلاحیت تھی۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: لولا علی لھک عمر ’’اگر علیؓ نہ ہوتے تو عمرؓ ہلاک ہوجاتا‘‘۔ حضرت ابوبکرؓ کے مقام کو حضرت عمرؓ سے اونچا اسلئے سمجھتا ہوں کہ اللہ نے اہلیت اور صلاحیت حضرت عمرؓ میں زیادہ رکھی تھی لیکن حضرت ابوبکرؓ اپنے خلوص کی وجہ سے آگے بڑھ گئے، اللہ نے دکھادیا کہ فضیلت کی بنیاد صلاحیت کی محتاج نہیں، ورنہ کم صلاحیت والے اللہ کی بارگاہ میں اپنا عذر پیش کردیتے۔صلاحیت توابوجہل میں بھی ابوسفیان سے زیادہ تھی۔
بلاشبہ حضرت علیؓ میں وہ صلاحیت نہ تھی جو حضرت ابوطالب میں تھی۔صلح حدیبیہ کے موقع پر سارے صحابہؓ جذبات میں تھے، حضرت علیؓ نے رسول اللہ کا لفظ کاٹنے پر نبی ﷺ کے حکم کے باوجود انکار کیا۔حضرت ابوطالب ہوتے تو اپنے ہاتھ سے رسول اللہ کے لفظ کو کاٹ کر کہتے کہ اگر لفظ کاٹنے سے نبوت ختم ہوتی ہے تو بھتیجے کی نبوت بالکل ختم ہوجائے، یہ منصب مصلحتوں کا تقاضہ کرتاہے، لڑائی کا ماحول پیدا کرنے کا نہیں۔ اور یہ کریڈٹ لیتے کہ اپنے بھتیجے کی ایسی تربیت کی ہے جس میں مصالحت کو آخری حد تک لیجانے کی اہمیت شامل ہے۔ انسان پر ماحول کا گہرا اثر ہوتا ہے، بیت اللہ میں حجرِ اسود کا معاملہ آیا تو نبیﷺ پر وحی نازل نہ ہوئی تھی، یہ گھریلوماحول کا نتیجہ تھا کہ اتحادو اتفاق اور قبائل میں قومی وحدت قائم فرمائی۔ نبیﷺ نے حضرت ابوطالب سے صاحبزادی ام ہانیؓ کا رشتہ مانگا مگر ابوطالبؓ نے غربت کا لحاظ رکھا، نبوت کا لحاظ نہ کیا، دو غریب میاں ﷺبیوی رضی اللہ عنہاایک گھرمیں اکٹھے ہوجاتے تو نبوت کی تحریک چلانے میں مشکل پیش آتی۔ اسلئے نبیﷺ کیلئے ایک مالدار خاتون حضرت خدیجہؓ کارشتہ لیا۔حضرت عمرؓ نے نسبت کیلئے حضرت علیؓ سے بیٹی کا رشتہ مانگا، حضرت علیؓ نے انکار نہیں کیا۔ ابوطالب کا رسول اللہﷺ کیلئے انکار اور حضرت علیؓ کا حضرت عمرؓ کو رشتہ دینے سے انکار نہ کرنے میں کم ازکم اہل تشیع کو حضرت ابوطالب کی صلاحیت کا اعتراف کرنا پڑیگا۔حضرت ابوبکرؓ نے رسول اللہﷺ کو اپنی صاحبزادی کا رشتہ دیا۔ ام ہانیؓ نے فتح مکہ کے بعد بھی رسول اللہ ﷺ کے رشتے کی پیشکش قبول نہ کی اور اللہ نے نبیﷺ کو پھر ان سے رشتہ منع کردیا تھا۔
مولانا طارق جمیل کا ٹی پر بیان تھا جو نبیﷺ کا نیک نیتی سے دفاع کر رہا تھا کہ پچیس سال کے جوان نے چالیس سال کی خاتون سے شادی کرکے یہ ثابت کردیا کہ ’’آپﷺ نے نفسانی خواہشات کیلئے شادیاں نہیں کیں‘‘۔ حالانکہ یہ غلط بات ہے، پھر نبیﷺ پر غیرمسلموں کے اس اعتراض کا کوئی دفاع نہیں ہوسکتا کہ عمر کا لحاظ کئے بغیر ایک بڑی عمر کے شخص نے ایک چھوٹی بچی حضرت عائشہؓ سے شادی کیوں کی؟۔ سوال 9سال کے بجائے 18سال کی عمر پر بھی ختم نہیں ہوتا، اسلئے معتقدین کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے مخالفین کو مخالفت کا موقع فراہم کیا جائے تو بڑی حماقت ہے؟۔ جنید جمشید کے طرزِ تکلم اور مولانا طارق جمیل کے طرزِ استدال میں کوئی فرق نہیں ۔ 25سالہ جوان 40سال کی عمر والی سے شادی کرے یا 53سال کی عمر میں چھوٹی عمر والی لڑکی سے شادی کی جائے تو یہ انسانی فطرت کا تقاضہ ہے۔ مسئلہ عمر میں فرق کا نہیں بلکہ بات اتنی ہے کہ جبری شادی نہ ہو۔ حضرت عائشہؓ نے حضرت یوسف علیہ السلام سے زیادہ اذیت اٹھائی تھی اور حضرت یوسف علیہ السلام سے حضرت زلیخا کو جتنی محبت تھی اس سے زیادہ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے نبیﷺ سے محبت کی تھی۔ طعن و تشنیع کا محل دونوں طرف سے نہیں ہونا چاہیے۔ اگر حضرت عائشہؓ کی اولاد ہوتی تو حضرت فاطمہؓ کی اولاد سے زیادہ معزز ان کو سمجھا جاناتھا۔ مغرب کوزلیخا کی اولاد پر فخرہے تو ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کی اولاد پر مسلمان کیوں فخر نہ کرتے؟۔ لونڈی ماریہ قبطیہؓ سے اولاد زندہ رہتی توبھی انصارومہاجر، قریش واہلبیت،عباسی واہلبیت کا جھگڑا چلنے کی نوبت نہ آتی۔
اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعہ موروثی نظام قائم نہیں کرنا تھا۔ نبیﷺ کی ایک لونڈی حضرت ماریہ قبطیہؓ کے صاحبزادے کو اللہ تعالیٰ نے بچپن میں اٹھالیا۔ ہماری صحاح ستہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے فرزند کے بارے میں فرمایاکہ ’’اگر زندہ رہتے تو نبی اور صدیق ہوتے‘‘۔ جس سے قادیانی ختم نبوت کے انکار کا عقیدہ پیش کرتے ہیں۔ جب غلو کرنے والے حضرت علیؓ کو بھی خدا کے درجہ پر پہچاکر چھوڑتے ہیں تو فرزندِ نبی کو نبوت کے درجہ پر ضرور پہنچاتے ۔ورنہ خلافت کا موروثی نظام تو اسلام کے گلے میں پڑ ہی جاتا۔ احادیث کی کتب میں وہ روایات بھی ہیں جس سے قرآن کی حفاظت کا قرآنی عقیدہ بھی قائم نہیں رہتا۔ رضاعت کبیر کے مسئلہ پر بھی من گھڑت احادیث صحاح ستہ کی زینت ہیں۔ جس میں نبیﷺ کے وصال کے وقت چارپائی کے نیچے دس آیات بکری کے کھا جانے سے ضائع ہونے کا ذکرہے۔ حضرت ابوبکرؓاور حضرت علیؓ کے حوالہ سے بھی وہ احادیث موجود ہیں جن کی وجہ سے امت مسلمہ کا افتراق وانتشار یقینی ہے۔ اتنی وضاحتوں کا مسئلہ ہوتا تو پھر انصارؓ وقریشؓ اور اہلبیتؓ و خلفاء راشدینؓ میں اختلاف کیوں ہوتا؟۔
ابوطالب نے حضرت ام ہانیؓ کی شادی مشرک سے کرادی جو فتح کے بعدمکہ چھوڑ کر عیسائی بن گیا۔ حضرت علیؓ نے قتل کرنا چاہا، اپنی بہن سے مشرک کا نکاح ناجائز سمجھا تھا، نبیﷺ نے روک دیا، حضرت ام ہانیؓ کے کہنے پرامان دیدی۔ رسول اللہ ﷺ کی نبوت کا تعلق وحی سے تھا، ایک خاتون کو مروجہ قول کیمطابق ظہار پر فتویٰ دیا تو اللہ نے سورۂ مجادلہ میں اس منکر قول کی اصلاح فرمائی ۔ صحابہؓ نے اکثریت سے غزوہ بدر کے قیدیوں پر فدیہ کا مشورہ دیا اور آپﷺ نے قبول فرمایا تو اللہ نے نامناسب قرار دیا، جب صلح حدیبیہ سے متعلق صحابہؓ نے اختلاف کیا تو اللہ نے نبی ﷺ کے فیصلے کو فتح مبین قرار دیا۔ اگر حضرت علیؓ خلیفہ نامزد ہوجاتے، ان سے اختلاف کی گنجائش نہ ہوتی اور وحی کا سلسلہ بھی بند ہوتا تواسلام اور امت کوناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا۔مولانا الیاسؒ کے خلیفۂ مجاز مولانا احتشام الحسنؒ تھے مگر تبلیغی جماعت نے مولانا الیاسؒ کا بیٹا جانشین بنایا۔مولانا احتشام الحسنؒ امیر بنتے توتبلیغی جماعت اپنی پٹری سے نہ اُترتی۔انہوں نے سب سے پہلے تبلیغی جماعت کو فتنہ قرار دیا تھا۔
نبیﷺ نے غدیر خم کے موقع پر فرمایا: من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ ’’جسکا میں مولا ہوں ، یہ علی اسکا مولا ہے‘‘۔ جس سے دوست نہیں ،سرپرست مراد تھا۔ نبیﷺ حضرت علیؓ کوؓ اپنے بعد خلیفہ بنانا چاہتے تھے ، حدیث قرطاس میں بھی اس کی تحریری چاہت تھی، حضرت عمرؓ نے روکا کہ ’’ہمارے لئے اللہ کی کتاب ہی کافی ہے‘‘ تو یہ منشائے الٰہی کیمطابق تھا۔ اس میں شک نہیں کہ حضرت علیؓ میں خداد صلاحیت اور اہلیت تھی، نبی ﷺ کی طرح ان کی آل پر بھی زکوٰۃ حرام تھی۔ جب انصارؓ وقریشؓجھگڑا کررہے تھے توقریش کی بنیاد سے زیادہ احادیث کی بنیاد پر حضرت علیؓ اور اہلبیت کا حق مقدم تھا۔ نبیﷺ کے جانثارانصارؓ نے خود کواسلئے خلافت کا حق دار سمجھا کہ جس حدیث کو حضرت ابوبکرؓ نے پیش کیا وہ خبرواحد تھی۔ علماء نے لکھا کہ الائمۃ من القریش’’ امام قریش میں سے ہونگے‘‘ حدیث پربعد میں اجماع ہوا، اگر اصولی طور پر نبیﷺ نے لوگوں کو یہی تلقین کرنی ہوتی تو بھی انفرادی مجلس کا اظہار حقائق کے منافی تھا۔ پھر کھل کر اجتماع عام میں کہہ دیا جاتا کہ ’’میرے بعد امام قریش میں سے ہونگے‘‘۔ وضاحت کے بعد انصارؓ خلافت کے حقدارنہ بنتے۔ اسکے مقابلہ میں حضرت علیؓ کی ولایت زیادہ خلافت کے استحقاق کیلئے مناسب دعویٰ تھا۔
شیعہ نے بارہ سے مراد اپنے امام سمجھے ،خلافت وامامت کے حوالہ سے انکا مؤقف کمزور نہیں ، خصوصاً جب بنو امیہ اور بنوعباس نے موروثی بنیادوں پر استحقاق جمانے کی روایت قائم کی اور پھر ترک کی موروثی خلافت عثمانیہ قائم ہوئی۔ مدارس، خانقاہوں سے لیکرمذہبی و سیاسی جماعتوں کو بھی موروثی بنایا گیا تو شیعہ کو کیوں موردِ الزام ٹھہرایا جائے؟۔ حقائق کیلئے مدارس ، خانقاہوں، سیاسی ومذہبی جماعتوں اور بادشاہتوں کا بھی خاتمہ کرنا پڑیگا۔ ایران میں بادشاہت نہیں عرب میں موروثی نظام ہے۔ سعودیہ میں اہلیت کے بجائے وراثت سے اہل تشیع کے عقیدے کو تقویت ملتی ہے اور ایران کی جمہوریت سے اہلسنت کے مؤقف کو تقویت ملتی ہے، بجائے اہلیت کے جمہوری بنیاد پر حکمرانوں کی تقرری مقبول ہے۔ قرآن وسنت کی روشنی سے فرقہ واریت کا گھپ اندھیرا اجالے میں بدلے گا، مذہبی طبقے روشنی کا فائدہ اُٹھانے کے بجائے دن دھاڑے ہاتھ میں موم بتیاں لیکر بارود کے ڈھیر سے کھیل رہے ہیں، ملاعمراور ابوبکرالبغدادی پر اختلاف کی طرح شیعہ سنی اختلاف کا حل بھی موجودہ دور کی اہم ترین ضرورت ہے ورنہ عراق وشام اور افغانستان جیسا حال ہوگا۔
ایران اور سعودیہ کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کیلئے فرقہ وارانہ لٹریچر میں اعتدال ضروری ہے۔ اگر حضرت علیؓ پہلے خلیفہ بنتے تو وراثت کی مہلک ترین بیماری کا سارا الزام اسلام کی گردن میں آتا۔ حضرت عمرؓنے اپنی وفات سے پہلے تین چیزوں پر افسوس کا اظہار کیا کہ کاش رسول اللہﷺ سے پوچھتے کہ’’ 1: آپﷺ کے بعد خلیفہ کون ہو۔ 2: زکوٰۃ نہ دینے والوں کے خلاف قتال سے متعلق 3: کلالہ کی میراث کے بارے میں‘‘۔ حضرت عمرؓ نے خلیفہ مقرر کرنے کی فکر کی۔ حضرت ابوبکرؓ نے بھی اپنا جانشین مقرر کیا۔ نبیﷺ نے بھی حجۃ الوداع میں فرمایا کہ ’’ دوبھاری چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک قرآن اور دوسری میری عترت، دونوں کو مضبوط پکڑوگے تو گمراہ نہ ہوگے‘‘۔ حدیث کی سند پرتسلیم شدہ محقق علامہ البانی نے اس حدیث کو درست قرار دیا اور نبیﷺ نے غدیر خم کے موقع پر حضرت علیؓ کو اپنے بعد سرپرست بنانے کا حکم دیا۔ حدیث قرطاس میں اہل تشیع کے بارہ اماموں کا شجرہ لکھ دیتے لیکن حضرت عمرؓ نے رکاوٹ ڈال دی۔ کیا یہ مان لینے سے تاریخ بدل جائے گی؟۔
صلح حدیبیہ میں حضرت علیؓ کا رسول اللہ کے لفظ کو کاٹنے سے انکار ایک کنفرم اور بنیادی غلطی اسلئے تھی کہ اللہ نے اسی معاہدے کی قرآن میں تائید کردی۔ حضرت عمرؓ نے بدر کے قیدیوں پر جو مشورہ دیا تھا، رسول اللہ ﷺ نے اس رائے کے برعکس ان صحابہؓ کی رائے پر فیصلہ فرمادیا جس میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت علیؓ اور دوسرے اکابرؓ صحابہؓ شامل تھے۔اللہ نے اکثر کی مشاورت کے باوجود رسول اللہﷺ کا فیصلہ نامناسب قرار دیا۔ جب نبی ﷺ نے مشاورت کے بغیر حضرت علیؓ کو نامزد کیاتھا تو بدر کے قیدیوں پر فدیہ لینے سے زیادہ حضرت عمرؓ کی رائے کو اللہ پسندیدہ قرار دے سکتا تھا۔ نبیﷺ کو قرآن میں اللہ نے مشاورت کا حکم دیااور امیرالمؤمنین کی تقرری اس کا تقاضہ کرتی ہے۔
اہلسنت نے حماقت سے واقعات کی غلط تعبیر وتشریح کی۔ مولا اور ولی دوست کے معنیٰ میں بھی ہے لیکن دوست کیلئے اعلان غیرضروری تھا۔ ایک طرف فرقوں کے مولانا ہیں تو دوسری طرف آیات میں یہودونصاری اور مشرکین کو اپنا سرپرست بنانا منع ہے جس سے دوست مراد لیا گیا، جب یہودونصاریٰ کی خواتین سے شادی جائز ہے تویہ دوستی سے بڑھ کر دوستی ہے۔ آیت میں سرپرست ہی مراد ہے مگر احمق طبقہ سمجھ رہا ہے کہ امریکہ وبرطانیہ کو سرپرست بنانا جائز ہے، دوستی جائز نہیں ۔ موجودہ دور میں دہشت گردوں، فرقہ پرستوں اور شدت پسندوں کو ذرائع ابلاغ کے ذریعہ سمجھانا مشکل نہیں۔ شیعہ سنی، بریلوی دیوبندی اور حنفی اہلحدیث اختلاف کا خاتمہ بہت آسان ہے۔ عوام وخواص، حکمران و علماء ، سیاسی قیادت اور مجاہدین کی ترجیحات اپنے غلط مفادات کی تابع ہیں،ماتمی جلوس اور شاتمی رویہ کو ختم کرنے میں بالکل بھی دیر نہ لگے گی ۔حضرت امام حسنؓ نے حضرت علیؓ سے خلافت کا منصب سنبھالنے پر کھل کر اختلاف کیا،پھرمنصب سے دستبرداری بھی اختیار کرلی ۔ اگر اسکا خلاصہ سمجھ میں آیا تو قرآن وسنت پر اتفاق ہوگا اور صحابہؓ پر اختلاف کی شدت نہ رہے گی۔
اصل بات یہ ہے کہ حضرت عمرؓ کے اندر حضرت ابوبکرؓ سے زیادہ صلاحیت تھی مگر تقدیرالٰہی نے کمال کرکے دکھایا۔ اگر حضرت عمرؓ پہلے خلیفہ بنتے تو زکوٰۃ کے مسئلہ پر امت مسلمہ کا اختلاف نہ بنتا۔ اختلاف کی سنت قرآن اور نبیﷺ کے دور میں بھی جاری تھی۔ اللہ نے اس کو شدومد سے مسلم امہ میں جاری رکھنا تھا۔ قرآن میں جبری زکوٰۃ لینے کاحکم نہ تھا، نبیﷺ کو لینے کا حکم اسلئے دیاکہ صحابہؓ کی خواہش تھی کہ آپﷺ کو زکوٰۃ دی جائے۔ نبیﷺ نے اللہ کا حکم ماننے کیساتھ اپنے اہل عیال اور اقرباء پر بھی زکوٰۃ حرام کردی تاکہ مستحق لوگوں کی حق تلفی نہ ہونے پائے۔ حضرت ابوبکرؓ سے شروع میں بھی جبری زکوٰۃ لینے کے مسئلہ پر حضرت عمرؓ نے اختلاف کیا اور جب مالک بن نویرہ کو قتل کرکے اس کی خوبصورت بیگم سے حضرت خالد بن ولیدؓ نے جبری شادی کی تو بھی حضرت عمرؓ نے سنگسارکرنا مناسب قرار دیامگر حضرت ابوبکرؓ نے تحمل سے کام لیکر تنبیہ پر اکتفاء کیا۔ نبی ﷺ نے بھی ایک موقع پر حضرت خالدؓ کی طرف سے بے دریغ قتل وغارت گری سے اپنی برأت کا اعلان فرمانے پر اکتفاء کیا تھا۔اللہ تعالیٰ بھی انسان کو زندگی میں غلطیوں پر توبہ کرنے کا بار بار موقع فراہم کرتا ہے۔ ہم نے مانا کہ حضرت علیؓ سے غلطیاں نہ ہوتیں اور مہدی غائب بھی کوئی غلطی نہ کرینگے لیکن اللہ کی سنت یہ رہی ہے کہ قبطی کو قتل کرنے والے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ظاہری منصبِ خلافت پر فائز کرتاہے ، جس نے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو بھی داڑھی اور سر کے بالوں سے پکڑلیا تھا۔ حضرت خضرؑ جیسے ولایت کے حقداروں کو ظاہری منصب سے اللہ نہیں نوازتا ہے۔ جو بچے کو بھی قتل کرے تو ایک نبی کوبھی اپنے سے اختلاف کی گنجائش رکھنے کا حقدار نہ سمجھے بلکہ راستہ الگ کردے۔
حضرت ابوبکرؓ نے جبری زکوٰۃ وصول کی مگراہلسنت کے چاروں فقہی امام متفق ہوئے کہ زکوٰۃ کیلئے قتال جائز نہیں،اختلاف کی رحمت جاری رکھنے کا یہ وسیلہ بن گیا ،مسلکوں کی مت ماری گئی کہ نماز کیلئے قتل پر اختلاف کیا، حالانکہ جب زکوٰۃ کیلئے قتل جائز نہ ہو تو نمازپرقتل کے حوالہ سے کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے تھی۔ امام مالکؒ وامام شافعیؒ نے وقت کی حکومتوں کا تشدد برداشت کیالیکن اگر یہ برسرِ اقتدار آتے اور بے نمازیوں کو قتل کرنا شروع کرتے تو عوام کو اسلام سے نفرت ہوجاتی۔ حکمران ان فرشتہ صفت انسانوں کے مقابلہ فاسق فاجر تھے لیکن منشائے الٰہی میں ان پاکبازائمہ سے وہ حکمران بھی اسلام اور امت مسلمہ کیلئے بہتر تھے۔ قیامِ پاکستان کے وقت بھی مذہبی طبقات اپنے اختلافات میں الجھے تھے اور واجبی مسلمان قائدین نے قائدانہ کردار ادا کیا۔ سعودیہ میں بھی مذہبی طبقے سے بہتر خادم الحرمین کیلئے شاہی خاندان ہے۔نجدی مذہبی شدت پسندوں کا اقتدار ہوتا توپھر رسول اللہﷺ کے روضہ مبارک کے نشانات مٹادیتے، قبر کو سجدہ گاہ بنانے والوں کو نبیﷺ کی دعا سے وہاں کا اقتدار نہیں مل سکتا ،ورنہ وہ قبرمبارک کو سجدہ گاہ بنالیں۔ علامہ شاہ تراب الحق قادریؒ کے مدرسہ کے مہتمم نے بھی اس کا اظہار کیاتھا۔ مذہبی طبقے کو اقتدار میں آنے سے قبل اجنبیت کے ان غلافوں سے نکلنا پڑے گا جن میں لپٹے ہوئے یہ اسلام سے بہت ہی دور ہیں۔عتیق الرھمٰن گیلانی

سیاسی بے چینی کا حل سیاستدان خود کیوں نہیں نکالتے؟

آصف علی زرداری نے 11سال جیل میں گزارے مگر عدالت سے سزا نہ ہوئی ۔ نواز شریف نے سعودیہ جلاوطنی کے دوران جیو ٹی وی اور جنگ کے مشہورصحافی سہیل وڑائچ سے انٹریو میں کہا کہ ’’ زرداری کیخلاف کیس آئی ایس آئی کے کہنے میں آکر بنائے تھے‘‘ ۔ جب بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد زرداری کو حکومت ملی تو پھر نوازشریف اور شہباز شریف نے زرداری کو قومی دولت لوٹنے کا مرتکب قرار دیا اور پیٹ چاک کرکے سڑکوں پر گھسیٹنے اور چوکوں پر لٹکانے کی تقریر شروع کردیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا سعودیہ میں جھوٹ بولا ؟۔ زرداری کی قیدکا ذمہ دار کون تھا؟، دوبارہ بھی فوج کے کہنے پر شور برپا کیا تھا یا یہ سب بکواس اور غلط بیانی ہے؟۔ اگر زرداری جرم ثابت ہونے سے پہلے جیل میں سزا کاٹے، دنیا بھر کی گالیاں، مغلظات اور دھمکیاں کھائے تو وہی سلوک پانامہ لیکس کے بعد اپنے لئے بھی برداشت کرلو۔ جب سوئس اکانٹ پر زرداری کو گالیاں دی جارہی تھیں تو لندن جائیداد اور پانامہ لیکس کی دولت سے نوازشریف اور شہباز شریف بے خبر تھے یا یہ ضمیر کی آواز تھی؟۔ اگر زرداری کی ہتک نہیں تو تمہاری عزت کیا بہت انوکھی ہے؟۔ یہ طے کرنا بھی عزت کے خلاف لگتا ہے کہ مریم نواز صفدر کی بیگم ہے یا نہیں رہی ؟،غریب کی عزت لٹ رہی ہے۔علماء گونگے ہیں ،فتویٰ دیا جاتاکہ قرآن میں طلاق شدہ کی شادی کرانے کا حکم ہے اور شادی شدہ کا تعلق چھپانا جائز نہیں۔
پاکستان کی تعمیر نو کیلئے بچوں کو مال ودولت سمیت بلالو، تاکہ ان کی خداداد صلاحیتوں سے قوم کو بھی فائدہ پہنچے۔ مجرم سے حقائق اگلوانے کیلئے تفتیشی حکام الگ الگ بیان لیتے ہیں مگر تمہارے بچے وکیلوں سے مشاورت کیساتھ میڈیا پر بھی بات کیلئے تیار نہیں۔ متضاد بیانات سے سچ یا جھوٹ کا پتہ چل چکاتھا۔ آئی ایم ایف کی سربراہ خاتون نے اسحاق ڈار کیساتھ پریس کانفرنس میں کہہ دیاکہ ’’جدید دور میں احتساب کرنا مشکل کام نہیں رہا‘‘۔ وزیراعظم اخلاقی ، قانونی ، شرعی ، سیاسی ہر قسم کی ساکھ کھوچکے ہیں،یہ الگ بات ہے کہ تمام تضادات کے باوجود عدلیہ کو غلاظت کا ایسا ڈھیر سمجھ رکھا ہے جہاں غلیظ سے غلیظ تر انسان کو بھی چھپنے کا مواقع مل سکے، عدلیہ کو کسی کا داغ دھونے کی بجائے ڈٹ کر ایسے فیصلے کرنے چاہیے کہ عدالت کو مجرم اپنی پناہ گاہ سمجھنے کی بجائے رعب ودبدبہ اور گرفت کا ذریعہ سمجھیں، چیخ کر مجرم پکاریں کہ’’ عدالت میں معاملہ لیجانے کی بجائے ہم پر رحم کیا جائے‘‘۔
شہبازشریف اتناکہہ دیتا کہ ’’میں نے ہمیشہ جنرل کیانی کی ٹانگوں میں سر دیا، پرویز مشرف سے مخاصمت کا بھی حامی نہ تھا، نواز شریف کی طرح میں نمک حرام نہیں کہ جس نے گود میں پالا ، اسکے منہ پر پاؤں رکھوں‘‘۔ تو بات بالکل ختم ہوجاتی۔ فوج کیخلاف صاف مؤقف تھا کہ ’’ہم تیرآزمائیں اور تم جگر آزماؤ‘‘ ،جب ہوا کا رخ بدل گیا تو پھر ’’تم تیر آزماؤ، ہم چوتڑ آزمائیں‘‘۔بھائیوں کا مسئلہ نہ ہوتا تو ن لیگ کئی گلوبٹ قربان کرچکی ہوتی، عاصمہ جہانگیر اور مولانا فضل الرحمن بتائیں کہ گلوبٹ اور پرویز رشید سے زیادہ شہبازشریف اور نوازشریف استعفیٰ کے مستحق نہ تھے؟۔