پوسٹ تلاش کریں

مدارس دہشتگردی کے مراکز، جاوید غامدی… جاوید غامدی کو کرارا جواب: عتیق گیلانی

جاوید غامدی TITچینل انٹرنیٹ ویڈیو
سوال یہ ہے کہ دہشتگردی کا سبب کیا ہے؟ اور اس سے کیسے نجات حاصل کرسکتے ہیں؟ ۔
جواب: دہشتگری اسوقت جو مسلمانوں کی طرف سے ہورہی ہے اسکا سبب وہ مذہبی فکر ہے جو مسلمانوں کے مدرسوں میں پڑھایا جارہا ہے جو انکی سیاسی تحریکوں میں سکھایا جارہا ہے اسکا باعث ہے اور اسمیں چار چیزیں ہر مدرسہ پڑھاتا ہے ہر مذہبی مفکر سکھاتا ہے وہ آپ کے سامنے نہ سکھائے تو بہر حال لازماً سکھاتا ہے۔ وہ چار چیزیں کیا ہیں وہ سن لیجئے؟۔ پہلی چیز یہ کہ دنیا میں اگر کسی جگہ شرک ہوگا یا کسی جگہ کفر ہوگا یا ارتداد ہوگا یعنی کوئی شخص اسلام چھوڑ دیگا اس کی سزا موت ہے اور یہ سزا ہمیں نافذ کرنیکا حق ہے۔ دوسری بات یہ سکھائی جاتی ہے کہ غیر مسلم صرف محکوم ہونے کیلئے پیدا کئے گئے ہیں مسلمانوں کے سوا کسی کو دنیا پر حکومت کا حق نہیں ۔ غیر مسلموں کی ہر حکومت ایک ناجائز ہے۔ جب ہمارے پاس طاقت ہوگی ہم اس کو الٹ دینگے۔ تیسری چیز ہر جگہ سکھائی جاتی ہے کہ مسلمانوں کی ایک حکومت ہونی چاہیے جسکو خلافت کہتے ہیں الگ الگ حکومتیں ان کا کوئی جواز نہیں۔اورچوتھی بات یہ ہے کہ جدید نیشنل اسٹیٹ جو قومی ریاست ہے یہ ایک کفر ہے۔ اسکی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ۔ یہ چار باتیں ہماری مذہبی فکر کی بنیاد ہیں۔ مجھے یہ بتائیے کہ اگر یہ آپ کو سکھادی جائیں تو آپ کیا کرینگے؟۔ اس وجہ سے میں مسلسل اپنی حکومت سے بھی اور پاکستان کے لوگوں سے بھی کہہ رہا ہوں کہ جب تک آپ اس مذہبی فکر یہ Narativeہے اس کے مقابل میں اسلام کا صحیح Narativeپیش نہیں کرینگے یہ لوگ پیدا ہوتے رہیں گے ایک کے بعد دوسرا دوسرے کے بعد تیسرا۔ چنانچہ میں نے پاکستان میں بہت سے آرٹیکل لکھے ہیں۔ ابھی حالیہ چند مہینے پہلے اسلام اور ریاست ایک جوابی بیانیہ Counter Narativeکے عنوان سے ایک آرٹیکل میں نے لکھا اس پر بہت بحث ہوئی۔ پاکستان میں تمام علماء نے اس پر تنقید کی پھر میں نے اس پر جواب دیا۔ اس میں بھی میں نے یہی بات واضح کی ہے کہ ہمیں تین چیزوں کی ضرورت ہے ورنہ یہ جو اس وقت صورتحال پیدا ہوگئی ہے یہ صورتحال مشرق وسطیٰ میں جہنم بنا دے گی دنیا کو۔ اور میں یہ آپ سے عرض کررہا ہوں کہ ایک زمانے میں یہی بات افغان جہاد کے بارے میں لکھ رہا تھا کوئی نہیں مانتا تھا۔ اس کے بعد پوری قوم نے مانا۔ آج میں آپ کو بھی متنبہ کررہا ہوں اس کیلئے تین اقدام ضروری ہیں۔ Counter Narativeپر مسلمان قوم کی تربیت ضروری ہے۔ میں نے دس نکات کی صورت میں اس کو بیان کردیا ہے۔ اسلام کا اصل Narativeکیا ہے ؟ یہ نہیں ہے اصل Narativeکیا ہے آپ پڑھ لیجئے۔ یہ ضروری ہے کہ اس پر مسلمان قوم کو Educateکیا جائے۔ دوسری کیا ہے دوسری چیز یہ ہے کہ دینی مدارس کا نظام بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ کسی علم کی اسپیشلائزیشن کی تعلیم بچے کو نہیں دی جاسکتی۔ ہر بچے کا حق ہے اس کو پہلے بارہ سال تک broad baseتعلیم دی جائے۔ اسکے بعد عالم بنے اسکے بعد سائنسدان بنے ۔ ہمارے دینی مدارس اس اصول پر کام کرتے ہیں کہ پانچ سال کے سات سال کے بچے کو عالم بنادیتے ہیں۔ اس کا حق کسی کو نہیں ہے۔ ڈاکٹر بنانے کا حق بھی نہیں ہے انجینئر بنانے کا حق بھی نہیں ہے۔ بارہ سال کے Broad baseتعلیم کے بعد جو جی چاہے بنائیے۔ اس کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ اس کیلئے سول سوسائٹی تیار ہو۔ لوگ ایجوکیٹ ہوں۔ مسلم حکومتوں پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ بارہ سال کی Broad base تعلیم کے بغیر کسی اسپیشلائزیشن کے ادارے کو قائم نہ ہونے دیں۔ اسکے بعد جس کا جو جی چاہے دیوبندی مدرسہ بنائے، بریلوی بنائے لیکن طے شدہ بات ہے کہ بارہ سال کی Broad base تعلیم کے بعد داخلے کا حق ہو۔ مجھے بتائے کہ آپ کسی کو حق دیتے ہیں اس بات کا کہ وہ پانچ سال کے بچے کو ڈاکٹری کی تعلیم دینا شروع کردے، نہیں دیتے۔ بارہ سال کیBroad base تعلیم ہربچے کا حق ہے۔ تیسری چیز یہ کہ جمعہ کامنبر علماء کیلئے نہیں ہے یہ ریاست کے حکمرانوں کیلئے ہے،اسکو واپس لانا چاہیے، اگر یہ واپس نہیں جائیگا تو عالم اسلام میں مسجدیں یا تو بریلوی کی ہو نگی یا دیوبندیوں کی ہونگی یا اہل حدیث کی ہونگی خدا کی کوئی مسجد نہیں ہوگی۔

:جاویداحمد غامدی کو کرارا جواب : عتیق گیلانی

جاوید غامدی کے یہ الزامات حقائق کے بالکل منافی ہیں۔مدارس کی تعلیم کا دہشت گردی سے تعلق نہیں ۔دہشت گردی آج کی اصطلاح ہے جبکہ مدارس کا وجود ہزار سال قبل ہے البتہ نام نہاد سکالرز جنہوں نے مدارس میں باقاعدہ تعلیم حاصل نہ کی ہو تو وہ قرآن کا مفہوم غلط پیش کرکے دین کو دہشت گردی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ غامدی نے جس فن میں تعلیم حاصل کی، اپنی خدمات اس تک محدود رکھتے تو یہ اسلام، فطرت اور عقل کا بھی تقاضہ ہوتا۔ عطائی ڈاکٹروں کی طرح ان عطائی اسلامی اسکالرز کا بھی سدباب ہوتا۔ مدارس اور مذہبی جماعتوں پر تنقید کا حق سب کو ہے لیکن یہ نہیں کہ’’ الٹا چور کوتوال کو پکڑے‘‘۔ یہ افکارخلافِ حقیقت کے علاوہ بدترین قسم کے تضادات کا شکار ہیں۔دنیا میں اسلام ہی کا یہ کرشمہ ہے کہ دین میں زبردستی نہیں۔ جو صلح حدیبیہ اور فتح مکہ سے لیکر آج تک قائم ہے۔ ہندوستان پر 8سو سال کی حکومت میں کس مشرک و کافر کو مدرسہ کی تعلیم نے قتل کروایا؟۔انگریز نے پوری دنیا پر ظالمانہ حکومت کی مگر اسلام عدل کا نظام چاہتا ہے۔ صدیوں خلافت قائم رہی مگر دہشتگردی نہ تھی تو اب خلافت کیونکر دہشتگردی کا ذریعہ بن جائیگی
جاوید غامدی نے تین چیزوں کی وضاحت کردی۔ 1: یہ کہ قرآن و سنت ، علماء اور مذہبی طبقات کے مقابلے میں جاوید غامدی کی ذاتی فکر کے مطابق اسلام کا مفہوم پیش کیا جائے، جو دس نکات پر مشتمل ہے۔جاوید غامدی نے سورہ مائدہ کی آیات کا بھی غلط مفہوم بیان کرتے ہوئے حکمرانوں پر کفر کا فتویٰ لگایا ہے ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں سیاق و سباق کے اعتبار سے تین قسم کے لوگوں کی وضاحت کرتے ہوئے الگ الگ حکم واضح فرمایا ہے۔ علماء و مشائخ اگر دنیاوی مفاد کیلئے دین کو بیچ ڈالیں تو ان پرکافر کا فتویٰ لگایا ہے اور جو حکمران اللہ کے حکم کے مطابق انصاف نہ کریں ان پر ظالم کا فتویٰ لگایا ہے اور جو عوام اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں ان پر فاسق کا فتویٰ لگایا ہے۔ ایک سوال کہ قرآن میں ماں کے پیٹ کے اندر بچے یا بچی کا علم نہ ہونے کی بات ہے جبکہ الٹرا ساؤنڈ کے ذریعے پتہ چلتا ہے، کے جواب میں جاوید غامدی نے کہا کہ مشرکین مکہ نے قیامت کے بارے میں سوال اٹھایا تھا کہ اس کے وقت کا پتہ نہیں تو قیامت کیسے آئے گی؟۔ جس کے جواب میں اللہ نے کہا تھا کہ جس طرح بارش اور ماں کے پیٹ میں بچے کا پتہ نہیں مگر اس کی حقیقت سے انکار نہیں کرتے ، اسی طرح قیامت کا دن بھی ہے۔
حالانکہ ان پانچ چیزوں کے بارے میں حدیث ہے کہ یہ غیب کی چابیاں ہیں۔ موجودہ دور نے یہ ثابت کیا ہے کہ واقعی قرآن و حدیث برحق ہیں اور یہ غیب کی چابیاں ہیں۔ پہلی چیز ساعہ کا علم ہے، قیامت کو بھی ساعہ کہتے ہیں اور گھنٹے اور لمحے کو بھی ساعہ کہتے ہیں۔ سورہ معارج میں فرشتے چڑھنے کی مقدار یہاں کے ایک دن کے مقابلے میں 50ہزار سال ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے معراج میں اس کا مشاہدہ کیا، 80سال سے زیادہ کا سفر کرنے کے باوجود یہاں ایک لمحہ گزرا تھا۔ آئن اسٹائن نے ریاضی کے قاعدے سے اس نظریہ اضافیت کو درست قرار دے کر ثابت کیا، جسکے ذریعے علوم کا دروازہ کھل گیا۔ دن رات ، ماہ و سال سے زمیں کی گولائی اور اپنے محور کے گرد چکر لگانے اور سورج کے گرد چکر لگانے کے انکشاف سے ثابت ہوا کہ واقعی الساعہ (وقت)غیب کی چابی ہے۔ دوسری چیز قرآن میں بارش کا برسنا ہے، بارش میں ژالہ باری اور آسمانی بجلی کا مشاہدہ غیب کی چابی تھی۔ اللہ نے بادل کو بھی مسخر قرار دیا تھا اور جب انسان اس مشاہدے کو عملی تجربات میں لایا تو مصنوعی بجلی پیدا کرنی شروع کی۔ الیکٹرک کے ذریعے دنیا کے کارخانے اور روشن کائنات اسی غیبی چابی کی مرہون منت ہے۔ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا تھا کہ قرآن کی تفسیر زمانہ کرے گا ۔ دنیا کو قرآن و حدیث کی پیشگوئی بتائی جائے تو ان کا ایمان بن جائیگا۔ تیسری چیز قرآن میں ارحام کا علم ہے۔ رحم صرف ماں کا پیٹ نہیں ہوتا بلکہ تمام جانور، پرندے اور حشرات الارض کے پیٹ اور انڈے بھی رحم ہیں۔ اسی طرح نباتات درخت پودوں کے بیج وقلم وغیرہ بھی رحم ہیں۔ آج نت نئے فارمی جانور ، مرغیاں اور پرندوں کے علاوہ پھل ، اناج، گندم اور مکئی وغیرہ اسی غیبی چابی کی مرہون منت ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں حیوانات و نباتات کے علاوہ ایسے جوڑوں کا ذکر بھی کیا ہے جس کو اس وقت کے لوگ نہ جانتے تھے۔ جمادات میں ایٹم کے ذرات پر بھی رحم کا اطلاق ہوتا ہے ، جس پر مثبت و منفی الیکٹران بنتے ہیں۔ ایٹم بم ، ایٹمی توانائی اور الیکٹرانک کی دنیا بھی اسی غیبی چابی کی مرہون منت ہے۔
2: جاوید غامدی نے بارہ سال تک عام تعلیم کی بات کی ہے لیکن مدارس میں جو نصاب علم کا پڑھایا جاتا ہے اس میں بارہ سال سے کم عمر کے اندر اتنی صلاحیت بھی نہیں ہوتی کہ کو ئی اس کو پڑھ سکے۔ جس طرح ارفع کریم نے کم عمری میں علم میں کمال حاصل کیا اور وہ پاکستان کیلئے اعزاز کی بات ہے اس طرح بعض اکابر نے پہلے کم عمری میں علم حاصل کیاہو تو یہ ان کا کمال تھا۔ بریلوی دیوبندی مدارس کا نصاب تعلیم ایک ہی ہے مگر میٹرک ، ایف اے ، بی اے اور ایم اے کے بعد بھی فرقہ وارانہ ماحول کی تعلیم دی جائے تو اسکے نتائج مختلف نہیں ہونگے ۔ یہ بہت بڑی کم عقلی کی سوچ ہے اور مذہبی ماحول سے لا علمی کا نتیجہ ہے۔ مدارس میں قرآن و سنت اور تمام مسالک کے دلائل پڑھائے جاتے ہیں۔ سوال جواب اور اشکالات کے نتیجے میں علماء و طلباء میں بڑی وسیع النظری اور وسیع الظرفی پروان چڑھتی ہے،مدارس کی تعلیم سے جمہوری تہذیب و تمدن پروان چڑھتا ہے، مسائل میں جمہور کا مسلک اور شخصیات کا مسلک پڑھایا جاتا ہے۔ اسکول و کالج اور یونیورسٹی کے مقابلے میں مدرسے کے طلبہ زیادہ با اخلاق ، باکردار اور اعلیٰ تہذیب و تمدن کا کرشمہ ہوتے ہیں۔حال ہی میں قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد منشیات کا اڈہ بن گیا تھا۔ قانون اور سزا نہ ہو تو یہ تعلیمی ادارے ہر وقت جنگ و جدل اور فتنہ و فساد کے مراکز بن جائیں۔ جماعت اسلامی پر انبیاء کرامؑ اور امہات المؤمنینؓ کی گستاخی کے فتوے اور الزامات لگے، دیوبندیوں پر بریلوی تسلسل کیساتھ نبیﷺ کی گستاخی کے الزامات لگاتے ہیں لیکن کسی مدرسہ میں بھی کسی کیساتھ وہ سلوک نہیں ہوا جو مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشعال خان کیساتھ الزام کی بنیاد پر ہوا۔ کسی نے سلمان تاثیر کی طرح سیکیورٹی اہلکار بن کر دوسرے قتل نہیں کیا، ریاست اور یونیورسٹی میں کام خراب ہو اور الزام مدارس پر لگایا جائے؟۔
3: غامدی کا تیسرا نکتہ جمعہ پڑھانا سرکار کا حق ہے۔ جہاں جرائم پیشہ لوگوں اور منشیات کے سب سے زیادہ اڈے ہوں وہاں کا تھانہ مہنگے دام اور سفارش سے تھانیداروں کو ملتا ہے۔ شریف لوگ انصاف کے حصول کیلئے بھی تھانہ جانے میں خوف محسوس کرتے ہیں تو کیا مساجد بھی ان تھانیداروں اور بیورو کریٹوں کو حوالہ کی جائیں جنہوں نے رشوت سے معاشرے کا کباڑہ کیا ؟۔ غامدی اس عمر کو تو نہیں پہنچے ؟،اللہ فرماتا ہے ومنھم من یرد الیٰ ارزل العمر لکی لا یعلم بعد علم شیئا ’’اور بعض لوگ وہ ہیں جو اس نکمی عمر تک پہنچتے ہیں کہ سمجھ بوجھ کے بعد ان کو کچھ سمجھ میں نہیں آتا‘‘۔
فرمایا:خلق لکم ما فی الارض جمیعاً ’’تمہارے لئے جو کچھ زمین میں ہے سب بنایا ‘‘۔ جس طرح ماں ، بہن، بیٹی اور بیوی کا اپنا اپنا مقام ہے ، اس طرح لوگوں کے ذاتی مکانات ، زمینیں ، فیکٹریاں ، کارخانے اور دفاتر ہیں۔ ذاتی ملکیت کے خاتمے کا فلسفہ ناکام ہوا۔ مزدور روس جانا پسند نہ کرتا تھا۔ اسلام میانہ روی کا دین ہے ۔ احادیث میں زمین کو مزارعت پر دینا سُود اور ناجائز ہے ۔ امام ابو حنیفہؒ ، امام مالکؒ اور امام شافعیؒ متفق تھے کہ زمین کو بٹائی پر دینا ناجائز اور سُود ہے، علماء و فقہاء نے حیلہ نکال کر جاگیرداروں کے مفادات کا تحفظ کیاتو مزارعین غلامی سے نہ نکل سکے ۔ اگریہ حیلہ نہ ہوتا تو آج پاکستان اور دنیا میں غربت اور غلامی کا نام و نشان تک نہ ہوتا۔ بیٹی بہن کم زیادہ حق مہر کے عوض نکاح میں دی جائے تو میاں بیوی جتنے چا ہیں بچے جن لیتے ہیں ۔ یہ تصور نہیں کہ اسلئے بہن یا بیٹی یا کوئی خاتون دے کہ اسکے ذریعے میرے لئے یا آدھو ں آدھ پر بچے جنواؤ۔ انسانی حقوق کا تقاضہ یہ ہے کہ جسطرح ماں باپ سے آزاد بچے پیدا ہوں ، اسی طرح زمین کی پیداوار مزارعین کیلئے غلامی کا ذریعہ نہ بنے۔ فقہاء نے لکھا کہ احادیث میں اسلئے سُود قرار دیا کہ مزارعت غلامی کا ذریعہ تھا لیکن کیا اب بھی مزارعین جاگیرداروں کی وہی بدترین غلامی کی زندگی نہیں گزار رہے ہیں؟۔
معاشرتی تہذیب و تمدن کی عوام میں اتنی غیرت ہوتی ہے کہ شک کی بنیاد پر بھی بیوی کو موت کی گھاٹ اتار دیتے ہیں جبکہ علماء و فقہاء اسکے اندر اس قدر بے غیرتی پیدا کرلیتے ہیں کہ ایک ساتھ تین طلاق دینے والا خود اپنی بیوی کو حلالہ کی لعنت کیلئے پیش کردیتا ہے۔ کیا اس تعلیم کو عدم برداشت اور دہشتگردی کیلئے بنیاد قرار دیا جاسکتا ہے؟۔ شیخ الاسلام اور مفتی اعظم یہ تعلیم دیتے ہیں کہ شادی بیاہ میں جو لفافے ایکدوسرے کو دئیے جاتے ہیں وہ سُود ہیں اور اسکے ستر گناہ ہیں اور کم از کم گناہ ماں سے زنا کرنے کے برابر ہے اور دوسری طرف سُودی بینکاری کو معاوضہ لیکر اسلامی قرار دیتے ہیں تو کیا اس سے عدم برداشت اور دہشتگردی کی فضاء پیدا ہوگی؟۔ بنی اُمیہ ، بنی عباس اور خلافت عثمانیہ تک ہر دور میں فتوے ماحول کیمطابق ڈھالنے والے بیچارے کونسی دہشتگردی کی تعلیم دیتے ہیں؟۔ ہندوستان کی متحدہ قومیت کے علمبردار بھی مدارس کے علماء اور پاکستان کیلئے مسلم لیگی قیادت کیساتھ بھی علماء تھے۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے حکومت الٰہیہ کا نظریہ پیش کیا، پاکستان کی اسلئے مخالفت کی کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کو متحد رکھنا ممکن نہ ہوگا۔ مگرپاکستان بن گیا تو فرمایا کہ’’ مسجد بننے پر شروع میں اختلاف ہوسکتا ہے مگر جب مسجد بن جائے تو اسکی حفاظت ضروری ہے۔ اگر ہندوستان کی طرف سے مولانا حسین احمد مدنیؒ بھی آجائیں تو اسکے سینے میں گولیاں اتاردوں گا کیونکہ وہ اپنے ملک کی حفاظت کرتے ہونگے اور میں اپنے ملک کی‘‘۔ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن دارالعلوم دیوبندسے اسلام نہیں اقوام متحدہ کیمطابق یہ فتویٰ نہیں دلاسکتے کہ’’ کشمیریوں پر انسانیت سوز مظالم بند کرو‘‘۔ علماء کی بیچارگی کا یہ عالم ہے کہ مساجد میں مقتدیوں کے ڈر سے بسم اللہ پڑھنے کی نماز میں سورۂ فاتحہ ودیگر سورتوں سے پہلے جرأت نہیں کرسکتے۔ ارباب فتویٰ کے خوف کا یہ عالم ہے کہ طلاق کے درست مسئلہ کی حمایت کرکے لکھ کر فتویٰ نہیں دے سکتے۔علیؓ، طلحہؓ، زبیرؓاوربی بی عائشہؓ کی جرأت کوئی کہاں سے لائے؟۔ حسینؓ کی شہادت تاریخ کا ایک سانحہ بن کر رہ گیا ہے۔
اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنے کیلئے قرآن و سنت اور صحابہؓ و اہل بیتؓ کی سیرت کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ حضرت سعد بن عبادہؓ انصار کے سردار تھے مگر جب لعان کی آیات نازل ہوئیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’’اگر بیوی دیکھ لوں تو اسکو قتل کردونگا‘‘۔ نبی ﷺ نے انصارؓ سے شکایت کی تو وہ عرض کرنے لگے کہ وہ بڑی غیرت والا ہے ، کسی طلاق شدہ یا بیوہ سے شادی نہیں کی اور جسے طلاق دی ہے تو کسی اور سے شادی نہیں کرنے دی۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ میں اس سے زیادہ غیرت والا ہوں اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیرت والا ہے (صحیح بخاری)۔ حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ مہاجر صحابی تھے اور انکے انصاری بھائی صحابیؓ نے پیشکش کی کہ ’’ جائیداد آپ کیساتھ آدھی آدھی کرلیتا ہوں ، دو بیویاں ہیں ، جو پسند ہو، آپ لے لیں‘‘۔ یہ صحابیؓ تھے بیگمات کی صلاح سے یہ پیشکش کررہے تھے۔
اللہ کی حکمت کو دیکھئے کہ جب شوہر کی نیت میں فتور آئے تو وہ طلاق اور بیوی کوبدلنے میں غیرت محسوس نہیں کرتا مگر جب بیوی کی دوسری جگہ شادی کا مسئلہ آتاہے تو غیرت جاگ اٹھتی ہے۔ جاوید غامدی کے شاگرد ڈاکٹر زبیر احمد سے ہماری ملاقات ہوئی ، ہم نے بتایا کہ جاوید غامدی نے لکھا کہ ’’ایک ساتھ تین طلاق پر سخت سزا ہونی چاہیے ‘‘ مگر حلالہ سے بڑھ کر سزا کیا ہے؟۔ ہم نے مؤقف پیش کیا تو ڈاکٹر زبیر نے بتایا کہ یہ مؤقف سو فیصد درست ہے مگر یہ ٹی وی پر پیش کیا تو ہمارا پروگرام بند کردیا جائیگا۔ اب کامران خان نے دنیا نیوز پر طلاق کا معاملہ اٹھایا توجاوید غامدی کا یہ مؤقف سامنے آیاکہ ’’قرآن میں ایک طلاق ہی کی وضاحت ہے اور پھر عدت کے اندر اور عدت کے بعد باہمی رضامندی سے رجوع کا دروازہ کھلا ہے‘‘۔ حالانکہ یہ خلافِ حقیقت اور سراسر فراڈ ہے۔
کامران خان اور دیگر اینکرپرسن کیلئے قرآن سمجھنا دشوار نہیں، طلاق کی سورۃہے ،اللہ نے عورتوں کی عدت کیلئے طلاق کا حکم دیا، عدت پوری گننے اور اس دوران بیوی کو اسکے گھر سے نہ نکالنے اور نہ خود نکلنے کا فرمایا، ہوسکتاہے کہ طلاق کے بعد اللہ دونوں میں موافقت پیدا کردے ۔جب عدت کی تکمیل ہو تو معروف رجوع یا معروف الگ کرنے کا حکم دیا ہے، علیحدگی کی صورت میں دوعادل گواہ مقرر کرنے کا بھی حکم ہے اور پھر اللہ سے ڈرنے والے کیلئے راہ کھولنے کی بشارت بھی دی ہے۔
یہ فراڈہے کہ’’ اللہ نے ایک طلاق کا حکم دیا ‘‘۔ عربی میں طلاق علیحدگی کا نام ہے، آیت کا معنیٰ یہ ہے کہ ’’جب تم بیوی کو علیحدہ کرنا چاہو تو عدت تک کیلئے علیحدہ کرلو‘‘۔ مذہبی طبقہ طلاق کا مفہوم غلط لیتاہے، اس مفہوم سے قرآن کا ترجمہ نہیں ہوسکتا، اسلئے کہ قرآن میں عدت تک کیلئے طلاق کا حکم ہے اورمذہبی مفہوم یہ ہے کہ’’ ایک طلاق دی تو یہ مخصوص عدت کیلئے نہیں بلکہ کمان سے نکلا ہوا وہ تیر ہے جس کا زمان و مکان سے تعلق نہیں۔1،2،3۔جو لفظ زبان سے نکل گیاوہ حتمی ، حرفِ آخر اور ہمیشہ کیلئے ہے۔ اللہ کہتاہے کہ عدت تک کیلئے طلاق دو، اور مذہبی طبقہ سمجھتاہے کہ قرآن کا یہ جملہ محض الفاظ کی رنگینی کے سوا کچھ نہیں۔ حالانکہ یہ جملہ مذہبی تصورات کا ڈھانچہ گرا دیتاہے، جس کی بنیاد پر طلاق کی باطل عمارت کھڑی کی گئی ہے۔ طلاق کا مفہوم مذہبی نہیں بلکہ عربی لغت کا لفظ ہے جو عورت کو علیحدہ کرنے کیلئے استعمال ہوا ہے ۔ ’’جب عورت کو چھوڑنا چاہو تو عدت تک کیلئے چھوڑ دو‘‘
جب عورت کو حیض آتا ہو تو اس کی عدت کے تین ادوار پاکی کے بعد حیض، پاکی کے بعد حیض اور پاکی کے بعد حیض میں علیحدگی کے عمل کو تسلسل کیساتھ تین مرتبہ طلاق کہتے ہیں۔ جن عورتوں کا حمل ہو تو وہاں تین ادوار اور تین مرتبہ طلاق کا کوئی تصور نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے حیض کی صورت میں عدت کا تصور دیتے ہوئے واضح فرمایا کہ ’’ طلاق دومرتبہ ہے، پھر معروف طریقے سے رجوع یا احسان سے رخصت کرنا ہے‘‘۔ نبیﷺ نے وضاحت فرمائی کہ پاکی کے دِنوں میں روکے رکھو، یہاں تک کہ حیض آجائے، (پہلی مرتبہ طلاق )پھر پاکی کے دِنوں میں روکے رہو، یہاں تک کہ حیض آجائے، (دوسری مرتبہ طلاق )پھر پاکی کے دِنوں میں معروف طریقے سے رجوع کرلو، یاپھر ہاتھ لگائے بغیر احسان سے رخصت کردو، (یہ تیسری مرتبہ کی طلاق ہے)۔ بخاری کی کتاب التفسیر سورۂ طلاق، کتاب الاحکام، کتاب العدت اور کتاب الطلاق میں یہ وضاحت ہے۔ سورۂ طلاق کی میں بھی یہی وضاحت ہے۔ ابوداؤد میں ہے کہ رکانہؓ کے والدنے رکانہؓ کی ماں کوطلاق کے بعد کسی خاتون سے شادی کرلی،جس نے اس کی نامردی کی شکایت کردی، نبیﷺ نے اس کو چھوڑنے اور رکانہؓ کی ماں سے رجوع کا حکم دیا، انہوں نے عرض کیا کہ وہ تین طلاق دے چکا ، نبیﷺ نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہے اور سورۂ طلاق کی آیات کو تلاوت فرمایا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مرحلہ وار تین طلاق کے بعد بھی رجوع کا دروازہ بند نہیں ہوتا؟۔ جواب یہ ہے کہ حدیث کا مفہوم واضح ہے اور اس حدیث سے زیادہ قرآن میں بھی یہی بات واضح ہے کہ مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق کے بعد بھی رجوع کا دروازہ اللہ نے کھلا رکھا ہے۔یہی سورۂ طلاق کی پہلی دوآیات میں تفصیل سے واضح ہے۔ جہاں تک آیت میں فان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ کا تعلق ہے تووہ ایک خاص صورتحال سے نتھی ہے۔ مثلاً رمضان کے روزوں میں تین عشرے ہیں۔ پہلا عشرہ رحمت کا ہے، دوسرا مغفرت کا ہے اور تیسرا آگ سے نجات کا ہے۔ پھر اگر آخری عشرہ میں مساجد کا اعتکاف ہوتو اللہ نے اس صورت میں بیویوں سے مباشرت کو منع کردیا ہے۔ یہ کتنی بڑی نالائقی ہے کہ کوئی آخری مساجدکے اعتکاف کی صورتحال نکال کر آخری عشرہ میں مباشرت پر پابندی لگائے؟۔ یہی صورتحال قرآن میں تین مرتبہ طلاق کے حوالہ سے ہے، اللہ نے بار بار عدت کے اندر اور عدت کے بعد باہمی رضامندی سے رجوع کی اجازت دی مگر ایک صورت میں یہ وضاحت کی کہ’’ طلاق دومرتبہ ہے، پھر معروف طریقے سے رجوع یا احسان کیساتھ رخصتی ہے اور (رخصتی کا فیصلہ کرتے ہوئے) تمہارا لئے حلال نہیں کہ جو کچھ ان کو دیاہے ، اس میں سے کچھ بھی واپس لو مگر یہ کہ دونوں کو خدشہ ہو کہ پھر اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکوگے۔ اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو دونوں پر کوئی حرج نہیں کہ وہ عورت اس میں سے وہ فدیہ کردے۔ یہ اللہ کی حدود ہیں ان سے تجاوز مت کرو، جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں، پھر اگر طلاق دیدی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے خاوند سے شادی کرلے‘‘۔
درسِ نظامی، اصول فقہ کی کتاب ’’نورالانوار ‘‘ میں اس آیت کے حوالہ سے حنفی مؤقف کی بھرپور واضح ہے کہ فان طلقہا کا تعلق دومرتبہ طلاق سے نہیں بلکہ فدیہ دینے کی صورت سے ہے اسلئے کہ ف تعقیب بلا مہلت کیلئے ہے۔دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ میں فدیہ کوئی مستقل طلاق نہیں، بلکہ تیسری طلاق کیلئے ایک ضمنی چیز ہے۔ جس طرح مساجد میں اعتکاف کی صورت کے بیان سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کو چوتھا عشرہ شمار کیا جائے بلکہ رمضان کے تیسرے عشرے کی ایک صورت ہی ہے جو تیسرے عشرے کے ضمن میں بیان ہوا ہے۔علامہ ابن قیمؒ نے بھی حضرت ابن عباسؓ سے نقل کیاہے کہ ’’اس طلاق کا تعلق دومرتبہ طلاق کے بعد فدیہ ہی کی صورت سے سیاق وسباق کے مطابق ہے۔ کسی بھی اس پر سیاق وسباق کے بغیر اطلاق کرنا درست نہیں ہے‘‘۔ (زادالمعاد: علامہ ابن قیمؒ )
رسول اللہﷺ ، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے ابتدائی چند سال تک کوئی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دیتا تو وہ ایک شمار ہوتی۔ تین طلاق کا تعلق طہرو حیض کے مراحل، رجوع کا تعلق عدت سے تھا لیکن حضرت عمرؓ نے ایک ساتھ تین طلاق کو تین قرار دیکر ناقابلِ رجوع کا فیصلہ کیا۔ حضرت عمرؓ کا یہ فیصلہ قرآن کے عین مطابق خواتین کے حقوق کو تحفظ دینے کیلئے 100%درست تھا۔یہ وہ صورت تھی جس میں میاں بیوی کے درمیان جھگڑا برقرار ہو۔ میاں بیوی راضی تو حکومت کو مداخلت کرنے سے کوئی غرض نہیں ہوسکتی۔ بالفرض ایک مرتبہ طلاق کے بعد عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہوتی تویہی فیصلہ حضرت عمرؓ ، خلفاء راشدینؓ اورتمام صحابہؓ کرتے کہ شوہر کو یکطرفہ رجوع کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ اللہ نے فرمایا: وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحا ’’ اور ان کے شوہروں کو ہی انکے لوٹانے کااس مدت میں حق ہے ، بشرط یہ کہ صلح کرنا چاہیں‘‘۔ وان خفتم شقاق بینہما فابعثوا حکما من اہلہ و حکما من اہلہا ’’ اگر تم دونوں کی جدائی کا خوف کرو، تو ایک فیصل شوہر کے خاندان سے اور ایک بیوی کے خاندان سے مقرر کرلو، اگر دونوں صلح پر رضامند ہوں تو اللہ انکے درمیان موافقت پیدا کردیگا‘‘۔ قرآن کے برعکس شوہر کوغیرمشروط رجوع کا حق دیا گیا۔حضرت عمرؓ کے فیصلے کی ائمہ اربعہؒ نے درست توثیق کی، ورنہ عورت شادی نہ کرسکتی تھی مگریہ تو وہم وگمان میں نہ تھا کہ ڈھیر ساری آیات کے باوجود باہمی صلح سے بھی رجوع کا راستہ روکا جائیگااور تمام حدود کو پامال کرکے حلالہ کیلئے فتویٰ بازی ہوگی۔شوہر رجوع نہیں چاہتا،تب بھی بیوی کو مرضی سے نکاح نہیں کرنے دیتا اسلئے اللہ نے دوسرے خاوند سے نکاح کی وضاحت کردی ۔

پاکستان و دیگر ممالک میں اہل تشیع کا ماتم و جلوس پر تماشہ لگانا جائز نہیں. ایرانی علماء کا فتویٰ

ایران (ساجدحسین) محمد رضاصاحب (ایران خوزستان، شہروزفول، خیابان امام خمینی، ڈاک نمبر 6461758746، مکان نمبر 234 نے اپنی ایک ویڈیوکال پربتایا کہ ان علماء کرام (آیت اللہ خامنہ ای، آیت اللہ نوری ھمدانی، آیت اللہ شبیری زنجانی، آیت اللہ صافی گلیایگانی، آیت اللہ بہجت مرحوم، آیت اللہ جوادی آملی، آیت اللہ سیستانی) نے متفقہ طورپر یہ فتویٰ صادرفرمایاہے کہ پاکستان یا دوسرے ممالک کے اندراہل تشیع حضرات جوماتم اورکوب زنی، خون خرابہ ، سرے عام جلوس کی شکل میں نکل کر تماشہ کرتے ہیں یہ سب اسلام اوردین وشریعت میں جائزنہیں حرام ہے۔
اورصحابہ کرام جن میں حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓ،حضرت عثمانؓ،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور اسی طرح دوسرے صحابہؓ کوگالیاں دیتے ہیں یا برا بھلاکہاجاتاہے یہ کسی بھی شخص کوحق نہیں پہنچتاکہ انکو گالیاں دے یا برابھلاکہے۔ مزیدانہوں نے کہا کہ پوری دنیاکیلئے جب تک ایک امام مقرر نہ ہواسوقت تک مسلمانوں کے اندراتحادواتفاق نہیں ہوسکتا۔ اسلام کی سربلندی اسی میں ہے کہ ہم سب صرف اورصرف مسلمان بن کر رہیں اور آپس کے اختلافات کو چھوڑ دیں۔ اور اللہ نے چاہاتوانشاء اللہ پاکستان آکرمیں شاہ صاحب سے ضرورملاقات کیلئے آؤں گا۔ آپ ان سب علماء کرام کے نام ایک پیغام لکھ کربھیجیں تاکہ آپ کا یہ پیغام ہم ان علماء تک پہنچاسکیں۔ آپ یہ پیغام عربی میں لکھیں یا فارسی میں۔ اگرآپ ان علماء سے بات کرناچاہیں توانٹرنیٹ پربھی آپ سوالات پوچھ سکتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے واضح کردہ قیامت کی یہ نشانی حرف بہ حرف پوری ہوئی.

عن انس رفعہ۔اقتراب الساعۃ ان یری الہلال قبلا فیقال لیلتین و ان تتخذ المساجد طرقا و ان یظھر موت الفجاء ۃ
(طبرانی اوسط ، کنزل العمال ج 14، ص 220، جمع الفوائد ج: 3، ص:443، حدیث نمبر: 9808 ، مطبوعہ علوم القرآن بیروت، عصر حاضر حدیث نبوی ؐکے آئینہ میں، لدھیانویؒ )
قرب قیامت کی ایک نشانی یہ ہے کہ چاند پہلے سے دیکھ لیا جائیگا اور پھر کہا جائیگا کہ دو رات کا چاند ہے اور مساجد کو گزر گاہ بنالیا جائیگا اور نا گہانی موت عام ہوگی۔
رسول اللہ ﷺکی طرف سے واضح کردہ قیامت کی یہ نشانی حرف بہ حرف پوری ہوئی ہے۔ پہلے سے چاند دیکھنے کی بات تو اتنی بڑی بات نہیں جتنی چاند گرہن اور سورج گرہن کا معاملہ ہے۔ وہ بھی پہلے سے بتادیا جاتا ہے۔ مفتی منیب الرحمن چیئر مین رویت ہلال کمیٹی کے چشمے سے لگتا ہے کہ آٹھ نمبر سے کم نہیں ہوگا۔ قریب اور دور کے چشمے بھی الگ الگ ہوتے ہیں اور اگر کبھی دور کے ساتھ قریب کا چشمہ بھی لگایا جاتا ہے تو نیچے کی طرف سے ہوتا ہے۔ پوری دنیا میں ہلال کا پہلے سے ہی پتہ چل جاتا ہے مگر پاکستان میں ہلال کمیٹی نے چاند دیکھنے کا فیصلہ اسوقت کرنا ہوتا ہے جب چاند سب لوگوں کو اتنا بڑا نظر آتا ہے کہ اس کیلئے مخصوص کمیٹی کی ضرورت نہیں رہتی۔ ایک مرتبہ ہم اسلام آباد گئے اور اخبارات میں خبر یہ تھی کہ رمضان کا چاند نظر آنے کا اسلام آباد میں کوئی امکان نہیں البتہ کراچی میں نظر آسکتا ہے۔ مفتی منیب الرحمن کراچی سے پھر بھی اسلام آباد چاند دیکھنے کیلئے گئے ۔ اسلام آباد کے ایئر پورٹ پر واپس آتے ہوئے میں نے چیئر مین رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمن سے پوچھا کہ اگر پاکستان اور سعودی عرب کے وقت میں کچھ گھنٹوں کا فرق ہے تو اس سے زیادہ فرق پاکستان اور برطانیہ و امریکہ کا ہے۔ اگر 2 گھنٹوں سے ایک دو دن کا فرق ہوسکتا ہے تو 8اور 12 گھنٹے کا پھر زیادہ فرق ہونا چاہیے۔ جب محکمہ موسمیات نے خبر دی کہ چاند اسلام آباد میں نظر نہیں آسکتا ، کراچی میں موسم صاف ہے ، کراچی میں نظر آسکتا ہے تو پھر چاند دیکھنے کیلئے کراچی سے اسلام آباد آنے کی کیا ضرورت تھی؟۔ تو مفتی منیب الرحمن نے اس کا بہت زبردست جواب دیا کہ یہ پاکستان ہے انجوائے کرو انجوائے۔ اگر دنیا کی سطح پر مختلف چاند ہوں تو پھر الگ الگ روزے اور عید منانا بھی درست ہے۔ جس طرح سے نماز کے اوقات میں مختلف جگہوں پر سورج یا طلوع ہوتا ہے یا غروب اور کہیں عصر و ظہر کے وقت میں مغرب و عشاء کا وقت ہوتا ہے۔ اس طرح سے چاند کا بھی یہ مسئلہ ہوتا تو پھر مختلف روزے اور عید الفطر و عید الاضحی کا جواز تھا۔ دنیا تماشہ دیکھتی ہے کہ لندن اور امریکہ میں بعض لوگ سعودیہ کیساتھ اور بعض پاکستان کیساتھ روزہ و عید مناتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں توراۃ کے حوالے سے مذہبی ذہنیت رکھنے والوں کو گدھوں سے تشبیہ دی ہے۔ مندرجہ بالا حدیث میں یہ وضاحت ہے کہ ہلال کو پہلے سے ہی دیکھ لیا جائیگا ۔ یہ صلاحیت تو دنیا نے حاصل کرلی ہے۔ مگر اسکے باوجود مسلم امہ کی کیفیت یہ ہے کہ دو دن کے چاند پر روزہ و افطار کرتے ہیں۔ پہلے علماء ریڈیو کے اعلان کو شریعت کے منافی سمجھتے تھے اسلئے چشم دید گواہوں پر روزہ و عید کا فتویٰ دیتے تھے۔ پھر ریڈیو کے اعلان کو ہی معتبر قرار دیا۔ پھر ٹی وی کی نشریات کو حرام قرار دیا اور اب ٹی وی پر اعلان نہ ہو تو چاند کا دیکھنا بھی معتبر نہیں۔
ایک لطیفہ ہے کہ کسی شخص نے قسم کھائی ہوئی تھی کہ جب تک چاند کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لوں روزہ نہیں رکھوں گا۔ وہ آسمان کی طرف دیکھنے سے گریز کر رہا تھا ایک دن اپنی گائے کو پانی پلارہا تھا تو چاند کے عکس کو پانی میں دیکھا۔ پھر کہنے لگا کہ اب تم پاؤں میں پڑ گئے ہو اسلئے روزہ رکھنا پڑے گا۔ ہلال کمیٹی والے چاند کو نہیں دیکھتے جب تک چاند بہت ترس نہیں جاتا۔ ماہرین عوام کو بتادیں کہ دوربین کیلئے قریب کے چشموں کی ضرورت ہے یا دور کے؟۔ اگر سعودیہ کا چاند پاکستان کیلئے معتبر نہیں تو پاکستانی حج کا فرض کیسے ادا کرتے ہیں؟۔ نماز کے اوقات کی طرح تمام مہینوں کے ہلالوں کے بھی آئندہ کلنڈر شائع ہوسکتے ہیں جس کو علماء و مفتیان سمجھے بوجھے بغیر بھی اپنے نام کے ساتھ منسوب کرینگے۔ روزہ رکھنے اور افطار کرنے کا کلینڈر بھی علماء و مفتیان نے جدید علوم کی روشنی میں بنایا ہوتا ہے تو پھر چاند کا کیوں نہیں؟۔ خدارا اُمت مسلمہ پر رحم کریں۔محمد اشرف میمن، پبلشر نوشتہ دیوار

تبلیغی جماعت اور دعوت اسلام سنت زندہ کریں

مولانا الیاسؒ نے بلامعاوضہ تبلیغ سے نشاۃ ثانیہ کی بنیاد رکھی مگر اب گروہ بن گیا
پڑھے لکھو ں کو قرآن وسنت کی راہ دکھائی جائے تو لمحوں میں اسلام زندہ ہوگا
مولانا الیاس قادری علماء ومفتیان کو اکٹھا کرکے طلاق کا مسئلہ حل کرسکتے ہیں

دعوتِ اسلامی کے چینل نے ایک بہت اچھی مہم یہ شروع کررکھی ہے کہ عوام کو بیرونِ ملک کا جھانسہ دیکر لوٹنے والوں کے کردار سے آگاہ کررہے ہیں۔ حضرت عمرؓ فرماتے تھے کہ کسی کے نماز اور روزے کو دیکھ کر اس کی شخصیت کا فیصلہ نہ کرو بلکہ اس کی معاشرت ، معاملہ اور کردار کو دیکھو۔ نماز اہم ترین عبادت ہے اور کردار سازی کا زبردست ذریعہ بھی ہے۔ غلام احمد پرویز کے بعض پیروکار نماز کی افادیت کو ختم کرنے کی مہم جوئی کررہے ہیں حالانکہ نماز کا قیام اور زکوٰۃ کی ادائیگی اسلام کے بنیادی فرائض ہیں۔ جب میں سنی سنائی باتوں پر یقین کرتا تھا تو اپنے بھائی سے کہاتھا کہ رمضان میں ایک نماز کا ثواب 70گنا بڑھ جاتاہے۔ بھائی سے کہا کہ اللہ کی راہ میں نماز کا ثواب49کروڑ ہے اور اس کوپھر70سے ضرب دیا جائے تو کیلکلولیٹر میں نہیں آتا۔وہ تبلیغی جماعت میں نکلے اور میں جہاد کیلئے جنت کا مختصر راستہ سمجھ کر افغانستان گیا۔ اس وقت شرعی پردہ ایک وہم تھا لیکن میں نے پھر بھی شروع کردیا تھا ، گاؤں سے سارے ٹی وی نکلوادئیے تھے۔
آج بہت عرصہ کی جدوجہد کے بعد اللہ نے اپنے راستے کھول دئیے ہیں، اگر کوئی خاندان کی خواتین کو مکہ مکرمہ میں بیت اللہ کی نماز سے محروم کردے تو یہ تصور بھی نہیں ہوسکتاہے اسلئے کہ کہاں ایک لاکھ کا ثواب اور کہاں ایک نماز کا ثواب؟۔ باجماعت نماز کیلئے 25اور بعض حدیث میں 27گنا زیادہ ثواب کا ذکر ہے۔ تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی فضائل کے ذریعے سے ہی قرآن و سنت کے احیاء پر زور دے رہی ہیں اگر انکے مراکز میں 49کروڑ کی بات درست ہے تو مقامی مراکز ومساجد میں بھی یہ توقع کرنی چاہیے۔ نبیﷺ کے وقت میں یہ حکم تھا کہ خواتین کو مساجد سے نہ روکا جائے۔ یہ قرآن کا تقاضہ بھی تھا۔ ایک سنت کو زندہ کرنے پر 100شہیدوں کے اجر کی بشارت ہے ، فقہ کی کتابوں میں پڑھایا جاتاہے کہ پہلی صفوں میں مرد ، پھر بچے ، بچیاں اور پھر آخر میں خواتین کی صفیں بنائی جائیں گی۔ اگر تبلیغی جماعت اور دعوتِ اسلامی نے محلے کی سطح سے اس اسلامی فریضے اور سنت کے عمل کو زندہ کرنے میں اپنا بھرپور کردار اداکیا تو امت کی تقدیر بدلنے میں دیر نہیں لگے گی۔ تبلیغی جماعت کے حاجی عبدالوہاب اوردعوت اسلامی کے مولانا الیاس سے گزارش ہے کہ طلاق کے درست مسئلے و نماز سے اپنی تقدیر بدلنے کا آغاز کریں۔

خاتون نے مُولی سے مولوی کو کس طرح شرعی مسئلہ سمجھادیا

اسلام کے نظام کو پوری دنیا خوشی سے قبول کرکے طرزِ نبوت کی خلافت قائم کرنے میں ہماراساتھ دیگی
علماء ومفتیان کو مفاد پرستی چھوڑ کر سچائی کا کلمہ پڑھنا ہوگا۔ غیر فطری خود ساختہ مسائل کو اعلانیہ چھوڑنا ہوگا
ہمیں درشت زباں کا شوق نہیں بلکہ علماء ومفتیان گونگے شیطان بن کر بہت سخت لہجے پر مجبور کررہے ہیں

سورۂ مجادلہ میں ہے کہ ایک خاتون نے نبیﷺ سے اپنے شوہر کے حوالہ سے جھگڑا کیا،وہ کہہ رہی تھی کہ مجھے اپنے شوہر نے ماں کی پیٹھ سے تشبیہ دی ہے، مجھے حرام نہیں ہونا چاہیے۔ نبیﷺ مروجہ مذہبی قول کے مطابق فتویٰ دے رہے تھے کہ آپ اپنے شوہر پر حرام ہوچکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ دونوں کا مکالمہ سن رہا تھا اور فیصلہ خاتون کے حق میں دیا ، فرمایا کہ ظہار کرنے سے بیوی ماں نہیں بنتی بلکہ ماں وہ ہے جسکے پیٹ سے پیدا ہوئے ہیں۔ یہ منکر اور جھوٹا قول ہے۔ (قرآن و احادیث کا خلاصہ)۔ اس خاتون کا نام حضرت خولہ بنت ثعلبہؓ تھا، حضرت عمرؓ اس وحی کی وجہ سے ان کا بے حد احترام کرتے تھے۔ اسلام کا یہ انوکھا قانون احترام انسانیت کا درس دیتاہے۔ علماء ومفتیان کا فرض بنتاہے کہ اپنے ماحول اور اجتہاد سے طلاق کے مسئلہ پر کسی کو بھی اختلاف سے محروم کرنے کا تصور چھوڑ دیں ، ورنہ وہ نبیﷺ کے جانشین نہیں بلکہ شیطان کے آلۂ کار بن جائیں گے۔یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ نبیﷺ سے حضرت عمرؓ نے حدیث قرطاسؓ کے مسئلہ پر اختلاف کیا تھا لیکن اس اختلاف پر بھی نبیﷺ نے گستاخی اور واجب القتل کا فتویٰ جاری نہیں کیا، جبکہ ہماری عدالتوں کے جج اور علماء ومفتیان قرآن وسنت سے بالکل غافل ہیں اور اسی لئے اپنے سے اختلاف اور نافرمانی پر بھی گستاخی اور قتل کا فتویٰ لگادیتے ہیں۔
حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں ریاستی حکم جاری فرمایا کہ ’’ عورت کوحق مہر زیادہ لینے کا حق نہیں ہوگا‘‘ ۔ تو ایک خاتونؓ نے اس کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ تم کون ہوتے ہو، ہمارے حق مہر کا فیصلہ کرنے والے؟۔ جب اللہ نے ہمیں اپنی مرضی کے مطابق زیادہ اور کم کا اختیار دیا ہے تو آپ کو ہمارے حق میں مداخلت کا کوئی حق نہیں۔ حضرت عمرؓ نے اس خاتون کی بات سن کر اپنا حکم واپس لیا اور کھلم کھلا اظہار کردیا کہ اس خاتون کی بات درست ہے اور عمر نے غلطی کی تھی ، اخطاء عمر واصابت المرأۃ
اسلام سے زیادہ روشن خیال دین کی مثال دنیا کے کسی مذہب میں نہیں، فقہی مسالک اور فرقہ وارانہ اقسام وانواع کے اختلافات مسلمانوں کے درمیان موجود ہیں، ان اختلافی مسائل کی تہہ تک پہنچنے کیلئے مدارس میں بھرپور طریقے سے دلائل کی تعلیم دی جاتی ہے، افسوس کی بات یہ ہے کہ مدارس کے دارالافتاء میں بیٹھے مفتی صاحبان بھی خود کو بااختیار نہیں بلکہ اپنے اداروں کا قیدی بتاتے ہیں۔ درسِ نظامی کے نصاب اور طلاق کے مسئلہ پر ایک زبردست ہیجان پیدا ہواہے اور کئی سال پہلے میں نے مولانا فضل الرحمن کو بالمشافہ دعوت دی تھی لیکن وہ اعتراف کررہے تھے کہ ان کے پاس کوئی علمی قابلیت نہیں، آج ڈیرہ اسماعیل خان کے گلی کوچے میں تحریکِ انصاف کے امین اللہ گنڈاپور نے بہت زبردست فنڈز لگاکر کام کیا اور جب پرویزمشرف کے زمانہ میں پاکستان بھر میں بہت سڑکیں بن گئیں اور بہت کام ہوا تو یہ تماشہ بھی عوام نے دیکھا کہ مولانا فضل الرحمن کے بھائی اور ماموں نے سڑکوں کے پیسے کھالئے تھے۔ پائی، اماخیل اور نندور ملازئی ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان کے وہ گاؤں ہیں جہاں بڑی تعداد میں علماء موجود ہیں۔ شہروں میں جمعہ کے دن مساجد کی تقریروں کا پتہ نہیں چلتا مگر گاؤں میں لاؤڈاسپیکر کی آواز وہاں صاف سمجھ میں آتی ہے جہاں ایک سے زیادہ جمعہ نہیں پڑھایا جاتاہے۔ ایک مولوی صاحب نے تقریر کرتے ہوئے مسئلہ بتادیا کہ ’’عورت بچہ جن رہی ہو، آدھا بچہ باہر آجائے تو بھی اس صورت میں فرض نماز پڑھنا ضروری ہے‘‘۔ ایک خاتون نے اس مولوی صاحب سے کہا کہ ’’ تمہارے اندر پیچھے سے ایک آدھی مولی ڈالی جائے تو پھر میں دیکھتی ہوں کہ تم کس طرح نماز میں رکوع وسجدہ کرتے ہو؟‘‘مولانا فضل الرحمن بتائیں کہ خاتون کی بات سے اس مسئلہ سے رجوع ہوجائیگا یا نہیں؟۔ علامہ شاہ تراب الحق قادریؒ نے بھی جمعہ میں مسئلہ بتایا کہ ’’ لیٹرین کرتے ہوئے مقعد سے جو پھول نکلتاہے ، اگر اس کو دھونے کے بعد سکھایا نہ جائے اور وہ اندر داخل ہوجائے تو روزہ ٹوٹ جائیگا‘‘۔ علماء کرام ٹی وی پربھی سمجھائیں جو مسائل مسجدوں میں بتاتے ہیں،فرقہ وارانہ غلاظت اور سیاست کو دینِ اسلام کا نام نہیں دیا جاسکتا ہے۔ حکمرانوں کے تھالی چٹ درباری ملاؤں نے ہمیشہ دین کا بیڑہ غرق کیا، امام ابوحنیفہؒ ودیگر ائمہ نے سختیاں برداشت کی ہیں۔

شیعہ سنی فرقہ واریت کی بڑی بنیاد اور اسکا حل

جب انصار و مہاجرین اور قریش و اہلبیت کے درمیان شروع سے خلافت و امامت کے مسئلے پر اختلافات موجود تھے تو آج کے دور میں اس کا حل نکلے بھی تو کوئی خاص فائدہ نہیں۔ البتہ اختلاف کو تفریق و انتشار کا ذریعہ بنانا درست نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اسلام اجنبیت کی حالت میں شروع ہوا ، یہ پھر اجنبیت کی طرف لوٹ جائیگا خوشخبری ہے اجنبیوں کیلئے۔ رسول اللہ ﷺ کی چاہت یہ تھی کہ لوگ اپنے ہاتھ سے خود زکوٰۃ تقسیم کریں۔ اللہ تعالیٰ نے عوام کی خواہش پر حکم دیا کہ ان سے زکوٰۃ لو ، یہ ان کیلئے تسکین کا ذریعہ ہے۔ نبی ﷺ نے اللہ کا حکم مانا مگر اپنے اہل بیت کیلئے اس کو حرام قرار دیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے سمجھا کہ خلیفہ کی حیثیت سے مجھے بھی زکوٰۃ لینے کا حکم ہے اور اس کی خاطر جہاد بھی کیا جس سے اہل سنت کے چاروں ائمہ مجتہدین نے اختلاف کیا۔ حضرت عمرؓ کی طرف منسوب کیا گیا کہ مؤلفۃ القلوب کی زکوٰۃ کو انہوں نے منسوخ کیا تو اس کو اکثریت نے قبول کیا جس میں ان کا اپنا مفاد تھا۔ حضرت عثمانؓ نے سمجھا کہ عزیز و اقارب کیساتھ احسان کرنا اللہ کا حکم ہے اسلئے انکے خلاف بغاوت کا جذبہ ابھرا اور ان کو مظلومیت کے ساتھ شہید کیا گیا۔ اللہ کی طرف سے رسول اللہ ﷺ پر رہنمائی کیلئے وحی نازل ہوتی تھی جس کا سلسلہ بند ہوا تھا۔
شیعہ سنی اختلاف میں ایک بنیادی مسئلہ حدیث قرطاس کا ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے قلم اور کاغذ منگوا کر وصیت لکھوانے کا فرمایا، حضرت عمرؓ نے کہا کہ ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے۔ بہت سی وہ آیات جن میں اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی اطاعت کا حکم ہے ، اہل تشیع اس کو آیات کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں، حضرت عمرؓ کی طرف سے رسول اللہ ﷺ سے اختلاف کا جواز ہو تو یہ بالکل بھی کوئی غیر معقول بات نہیں کہ اہل تشیع حضرت عمرؓ سے قیامت تک اپنا اختلاف برقرار رکھیں اور اسی پر دنیا میں گامزن رہیں۔ میں صرف اس انتشار کو ختم کرنے کیلئے کچھ دلائل دیتا ہوں تاکہ یہ فرقہ واریت کے زہر کیلئے تریاق کا کام کرے۔ قرابتداری کی محبت فطری بات ہے ، حضرت نوح ؑ نے اپنے کافر بیٹے سے بھی محبت کی۔ حضرت علیؓ کی ہمشیرہ حضرت اُم ہانیؓ شیعہ سنی دونوں کی نظر میں احترام کے لائق ہیں۔ وہ اللہ کے حکم کے مطابق ہجرت نہ کرسکیں ، اپنے مشرک شوہر کیساتھ فتح مکہ تک رہیں، قرآنی آیات میں مشرکوں سے نکاح منع ہونے کی بھرپور وضاحت ہے اور الزانی لا ینکح اور الطیبون للطیبات اور لاھن حل لھم ولا ھم یحلون لھن وغیرہ۔ ان تمام آیات کے باوجود جب اُم ہانیؓ کو اس کا شوہر چھوڑ کر گیا تو رسول ﷺنے نکاح کا پیغام دیا اور انہوں نے منع کردیا۔ ان سب چیزوں کے منفی منطقی نتائج نکالیں گے تو بدمزگی پھیلے گی۔ نبی ﷺ کو اللہ نے خود منع فرمایا کہ جن رشتہ داروں نے ہجرت نہیں کی ان سے نکاح نہ کرو (القرآن)۔ اسکے علاوہ نبی ﷺ نے مشاورت کرکے بدر کے قیدیوں سے فدیہ کا فیصلہ فرمایا تو اللہ نے اس کو مناسب قرار نہیں دیا۔ جس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ صحابہ کرامؓ کی تربیت اللہ کی طرف سے قرآن کی بھی اندھی تقلید کی نہیں ہوئی تھی۔ الذین اذا ذکروا باٰیت اللہ لم یخروا علیھا صما و عمیاناً (یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی آیات کے ذکر پر بھی اندھے اور بہرے ہوکر گر نہیں پڑتے)۔ مجھے خود بھی اس خاندان سے تعلق کا شرف حاصل ہے اور مجھے اس بات پر فخر ہے کہ حضرت اُم ہانیؓ نے اول سے آخر تک جو کردار ادا کیا اس میں ایک سلیم الفطرت خاتون کا ثبوت دیا۔ صحابہؓ اور اہل بیتؓ کے کردار کو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والے انسانوں کیلئے نمونہ بنایا ہے۔ حضرت اُم ہانیؓ کے اس کردار کی وجہ سے کوئی بھی دنیا کے کسی قانونی نکاح کو زنا نہیں قرار دے سکتا۔ لقد خلقنا الانسان فی احسن التقویم ثم رددناہ اسفل السافلین ہم گراوٹ کے آخری درجہ پر پہنچے ہیں جس کا قرآن میں ذکر ہے ، صحابہؓ واہلبیتؓ حضرت اُم ہانیؓ کا تعلق احسن التقویم سے تھا ۔
ہم نے یہ تماشہ بھی دیکھا ہے کہ علماء و مفتیان ہاتھ جوڑ جوڑ کر کہہ رہے تھے کہ خداکیلئے ہم حاجی عثمان ؒ کو بہت بڑا ولی اور مسلمان قرار دینگے لیکن ہماری طرف سے لگنے والے اکابرین پر فتویٰ کی تشہیر نہ کی جائے۔ جب ہم نے معاف کردیا تو پھر متفرق جائز و ناجائز اور نکاح منعقد ہوجائے گا وغیرہ کے فتوے کے بعد حاجی عثمان صاحبؒ کے اپنے ارادتمندوں اور عقیدتمندوں کے آپس کے نکاح کو بھی ناجائز اور اس کے انجام کو عمر بھر کی حرامکاری اور اولاد الزنا قرار دیا گیا حالانکہ اسلام دنیا بھر کے مذاہب و انسانوں کے قانونی نکاح و طلاق کو اسی طرح سے تسلیم کرتا ہے جیسے مسلمانوں کا۔ جن مفتیوں کے آباو اجداد ہندو تھے اور وہ مسلمان ہوئے تو وہ بھی حلال کی اولاد ہیں۔ شیعہ سنی تفرقے بہت سی غلط فہمیوں کا نتیجہ ہیں عشرۂ مبشرہ کے صحابہ کرامؓ نے بھی غلط فہمی کی بنیاد پر جنگیں کی تھیں۔ ائمہ اہلبیت کا توحید پر عقیدہ مثالی تھا مگر شیعہ حضرت علیؓ کو مولا سمجھ کر شریک ٹھہراتے ہیں یہ عقیدے کی اصلاح کیلئے ضروری ہے کہ حضرت علیؓ کو وہ مظلوم سمجھیں تاکہ مولا میں تفریق رہے۔

مجدد ملت ودین حضرت حاجی محمد عثمان قدس سرہ

دیوبندی مولانا اشرف علی تھانویؒ کومجدد کہتے ہیں حالانکہ انکے ہم عصر مولانا شبیر عثمانی، مولانا مدنی، مولانا کشمیری، مفتی کفایت اللہ، مولانا سیوہاری، مولانا خلیل احمد، مولانا محمد الیاس، مولانا سندھی کے علاوہ انکے استاذ شیخ الہند اور انکے اساتذہ مولانا گنگوہی و مولانا نانوتوی کے سامنے مولانا تھانوی کی حیثیت نہ تھی ، انکے مرشد حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ مجدد تھے۔ فیض کیوجہ سے سب مجدد نظر آئے۔ مجدد الف ثانیؒ نے مرشد خواجہ باقی باللہؒ کو مجدد قرار دیا۔ مجدد کے مرید علماء نے دین کو غلو سے پاک کرنے کا کارنامہ انجام دینا ہوتا ہے۔ حاجی امداداللہؒ کے مریدعلماء نہ ہوتے تو حاجیؒ کو کوئی مجدد نہ سمجھ سکتا تھا ۔ حاجی عثمانؒ کے مرید علماء ہوائی فائرنگ کے مانند فتوؤں سے بھاگ گئے۔ وہ وقت دور نہیں کہ حاجی عثمانؒ کو مخالف بھی مجدد مان لیں گے۔
تصوف کے سلسلے کا جوفیض مولانا اشرف علی تھانویؒ کے توسط سے عام ہوا ، اسکی مثال حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ کے کسی دوسرے خلیفہ میں نہیں ملتی، جس طرح نبیﷺ کے صحابہؓ میں حضرت علیؓ عمر کے لحاظ سے چھوٹے تھے لیکن تصوف کے حوالہ سے حضرت علیؓ کو بہت امتیازی حیثیت حاصل تھی،مولانا اشرف علی تھانویؒ کے ایک خلیفہ مولانا فقیر محمد صاحبؒ تھے، ان پر عام طور سے گریہ کی کیفیت طاری رہتی تھی مگر مکہ و مدینہ میں حاجی عثمانؒ کا بیان سن کر جذب وکیف میں گھومنے لگ جاتے تھے۔ حاجی عثمانؒ سے کہا کہ مجھ پر بار بار الہام وارد ہوتاہے کہ آپ کو حاجی امداد اللہ ؒ کی نسبت سے خلافت دوں، حاجی عثمانؒ منع کرتے تھے کہ مجھے اجازت نہ ملے ،تو اس نسبت سے خلافت نہیں لے سکتا۔ پھر حاجی عثمانؒ کو بھی اجازت مل گئی اور مولانا فقیر محمدؒ نے لکھا کہ ’’مدینہ منورہ میں 27رمضان المبارک کو ورود ہو ا، اور اس کی تکمیل ہوئی، حاجی عثمانؒ صاحب حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ سے بہت مشابہت رکھتے ہیں، یہ ان کی مہربانی ہے کہ سلسلہ کی خلافت کو قبول فرمالیا ۔‘‘۔ پھر کافی عرصہ بعد بعض حاسدین نے مولانا فقیر محمدؒ سے کہا کہ خلافت واپس لے لو، انہوں نے خلافت کے واپس لینے کا اعلان کردیا، مگر اس کی وجہ سے حاجی عثمانؒ کے حلقہ ارادت پر کوئی اثر نہیں پڑا، لوگ مولانا فقیرمحمدؒ کی وجہ سے نہیں حاجی عثمانؒ کی اپنی شخصیت سے متأثر تھے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے علماء ومفتیان نے مولانا فقیر محمد سے پوچھ لیا کہ خلافت ورود کی نسبت سے دی تو کسی کے مشورے سے واپس لی، یا دوبارہ ورود ہوا؟ تو انہوں نے کہا کہ دوبارہ ورود تو نہیں ہوا، کسی نے مشورہ دیا ، جس پر انہوں نے کہا کہ شرعی طور سے آپ کو خلافت واپس لینے کا حق دوبارہ ورود پر ہے، مشاورت سے یہ خلافت واپس نہیں لے سکتے۔ جس پر مولانا فقیر محمد نے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے لیٹر پیڈ پر لکھ دیا کہ ’’ جو خلافت میں نے حاجی عثمانؒ کو ورود کی نسبت سے دی تھی وہ تاحال قائم اور دائم ہے‘‘۔ اس پر مولانا فقیرمحمدؒ کے دستخط کے علاوہ مفتی احمد الرحمنؒ ، مفتی ولی حسن ٹونکیؒ اور مفتی جمیل خانؒ کے بھی بطورِ گواہ کے دستخط موجود ہیں۔
پھر حاجی عثمانؒ کے خلفاء نے بغاوت کرلی اور علماء ومفتیان نے فتویٰ لگا دیا اور مولانا فقیرمحمدؒ کو بھی مشورہ دیدیا کہ خلافت واپس لے لو، تو خلافت واپس لینے کا بھی اعلان شائع کیا گیا۔ اقراء ڈائجسٹ کی مجلس مشاورت میں حاجی عثمانؒ کا نام بھی تھا۔ حاجی عثمان ؒ کے مریدوں میں فوجی افسران 8بریگڈئیرز،کورکمانڈر جنرل (ر)نصیر اختر، جنرل ضیاء بٹ، پولیس افسرڈی آئی جی وغیرہ شامل تھے۔ جماعت اسلامی، اہلحدیث، تبلیغی جماعت ، دیوبندی مدارس کے علماء ومفتیان بڑی تعداد میں بیعت تھے، مفتی محمد تقی عثمانی ومفتی محمد رفیع عثمانی کے استاذدارالعلوم کراچی کے مدرس مولانا عبدالحق ؒ بھی بیعت اور بڑے خلیفہ تھے، وہ کہتے تھے کہ’’ بیعت کے بعد پتہ چلا کہ نئے سرے سے علم حاصل کروں‘‘۔ مولانا اشفاق احمد قاسمیؒ دارالعلوم دیوبند کے فاضل اور دارالعلوم کراچی کے ملازم فتوؤں کے بعد بیعت پر قائم رہے۔ مولانا عبداللہ درخواستیؒ کے نواسے مشکوٰۃ اور جلالین کے میرے استاذمولانا انیس الرحمن درخواستی شہیدؒ فتوؤں کے بعد بیعت ہوئے تھے۔
مولانا محمد مکی اور جامعہ صولتیہ مکہ کے مولانا سیف الرحمن فتوؤں کے بعد حاجی عثمانؒ سے تعلق رکھتے تھے ، خطیب العصر مولانا سید عبدالمجید ندیم بھی فتوؤں کے بعد حاجی عثمانؒ سے ملاقات کیلئے تشریف لائے اور کہا کہ حضرت عثمانؓ کی مظلومیت نام کی وجہ سے آپ کو بھی بھگتنا پڑی ہے۔ فتوؤں کے بعد میں نے خواب دیکھاتھا کہ ’’حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ مسجدالٰہیہ خانقاہ چشتیہ خدمت گاہ قادریہ مدرسہ محمدیہ یتیم خانہ اصغر بن حسینؓ تشریف لائے ہیں اور آنے کا مقصد مجھے دیکھنا تھا، میں اپنی جگہ لیٹا رہا اور ملنے کیلئے دل سے آمادہ نہ تھا، آخر کار آپؒ کمرے کے دروازے پر تشریف لائے تو مجھے مجبوراً اٹھنا پڑا‘‘۔حاجی عثمان ؒ نے زندگی میں اپنا جانشین بنانے کیلئے بہت زور ڈالا مگر میں راضی نہ تھا، پھر انکے وصال سے پہلے میں نے رضامندی ظاہر کی تو خوش ہوگئے۔ پھر میں نے وزیرستان سے خلافت کیلئے کام کرنے کا فیصلہ کیا تو خواب میں فرمایا کہ ’’خانقاہ سے آکر کام شروع کرلو‘‘۔ وفات سے قبل مجھ سے فرمایا کہ’’ مولانا یوسف لدھیانوی ؒ سے معلوم کرلینا، انکی طرف سے فتویٰ میری سمجھ میں نہیں آتا‘‘۔
دین کا کام شروع کیا تو مولانا یوسف لدھیانویؒ کی خدمت میں حاضری دی، مولانا لدھیانویؒ نے فرمایا کہ’’وہ میرا فتویٰ نہیں تھا، مفتی جمیل خان نے لکھ کر میری طرف منسوب کیا، میں حاجی عثمانؒ سے بہت عقیدت رکھتا ہوں، فتویٰ دینے والوں کا نام دنیا میں اس طرح سے نہیں رہے گا جیسے امام مالکؒ کیخلاف فتویٰ لگانے والوں کا آج نام نہیں ، تاریخ میں حاجی عثمانؒ کا نام امام مالکؒ کی طرح رہے گا۔ ان کے خلاف ساری خباثت مفتی رشید احمد لدھیانویؒ نے کی ہے‘‘۔ پھر جب میں اپنے کچھ ساتھیوں کو توحید آبادصادق آباد دورۂ صرف کیلئے مولانا نصراللہ خانؒ کے پاس لے گیا تو میری غیر موجودگی میں ساتھیوں پر مختلف جگہوں سے آئے علماء وطلباء نے تہمتوں کا سلسلہ شروع کیا، آخرکار مولانا نصراللہ ؒ سے مطالبہ کیا کہ ہم نکلیں گے یا ان کو نکال دو، پھر وہ نکل کر چلے گئے۔ مولانا نصراللہ نے دوسروں کو مطمئن کرنے کیلئے مولانا لدھیانویؒ کے پاس بھیجا۔ مولانا لدھیانویؒ نے فرمایا کہ مخالفت کرنے والوں کو ہی نکال دو۔ اگر فتوؤں کی داستان شائع کردی تو بھی بہت سے خود کو شیخ الاسلام اور مفتی اعظم پاکستان سمجھنے والے منہ چھپاتے پھریں گے۔ ہمارے ظرف کا کمال ہے کہ ہم ان کو دیوار سے نہیں لگارہے ہیں ورنہ عدالتوں میں بھی ناک رگڑ وادیتے۔
مشاہدات بیان کرنے میں علماء وخلفاء ،تبلیغی جماعت میں چار ماہ لگانے والے اوراہلحدیث تک بھی شامل تھے، ان پر دارالعلوم کراچی کی طرف سے’’ الاستفتاء‘‘ مرتب کرکے لکھا گیا کہ ’’ ایک پیر اپنے خلیفہ کو مجبور کرتے کہ نبیﷺ کو دیکھتے ہو یا نہیں؟‘‘۔ کیا یہ ممکن تھا کہ سہارے سے اُٹھنے کا محتاج پیر کسی پر اس طرح کی زبردستی کرے کہ وہ خودتو نہ دیکھ سکے لیکن ہٹے کھٹے مرید کومجبور کردے؟۔ الائنس موٹرز کے ایجنٹ دنیادار علماء ومفتیان نے کتوں کی طرح بہرحال ہانپناتھا، دنیا و آخرت کی ذلت سے بچنے کیلئے جب تک علی الاعلان توبہ نہ کریں یہ فتویٰ پیچھا نہیں چھوڑے گا۔
اللہ کے ولی کو ستاکر معافی مانگ لیتے تو آج اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں ان کو ذلت کی چماٹوں کے بجائے دنیا میں بھی عزت ملتی اور آخرت میں بھی سرخرو ہوتے۔

اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی، بانی تبلیغی جماعت مولانا الیاس اور امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری

تفصیلات جاننے کیلئے یہاں کلک کریں

توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم (منکرات)

مولانا منیراحمد قادری نے بریلوی مفتی سے فتویٰ لیکر نعلین مبارک کے نقش کو قرآن کی گستاخی قرار دیکرمسجد سے ہٹوایادیا۔ علامہ تراب الحق قادریؒ دوسروں کو گستاخ کہتے رہے۔ ایک مفتی نے علامہؒ پر توہینِ رسالت کا فتویٰ لگایا کہ نبیﷺ کیلئے داماد کا لفظ استعمال کیاہے اگر ہم فتوے کی جان نہ نکالتے تو تراب الحق قادری کو قتل کردیاجاتا۔ بخاری میں ہے کہ نبیﷺ کو دیکھا تو صحابہؓ نے جوتے اتار ے۔ نبیﷺ نے نماز کے بعد فرمایا کہ مجھے یاد آیا گند لگا تھا ، تم نے کیوں اُتارے؟۔ عرب جوتے سمیت نماز پڑھتے ہیں، نبی ﷺ نے معراج میں جوتے نہ اُتارے، قرآن میں ہے کہ موسیٰ ؑ کوکوہِ طور پر واخلع نعلیکجوتے اتارنے کا حکم ملا۔ نعل کا معنیٰ جوتا ہے، جیسے گھوڑے کا نعل ۔ اللہ نے زبان میں بدنیتی کا لحاظ رکھا، راعنا کے بجائے انظرنا کا حکم دیا ، راعی چرواہا اگرچہ برا لفظ نہیں، انبیاء کرامؓ نے جانور چرائے ہیں، نبی ﷺ نے فرمایا :کلکم راعی وکلکم مسؤل عن رعتہ ’’تم میں ہر ایک راعی ہے اور اسکی رعیت کے بارے میں پوچھا جائیگا‘‘۔ رعیت زیادہ ہو توراعی معزز ہوگا۔ مذہبی طبقے نے الفاظ میں ادب کا لحاظ نہ کرنے پر اللہ کی سنت کا حق ادا کیا مگر غلو سے بچیں، ورنہ لفظِ نعلین پر گستاخی کا فتویٰ لگے گا۔ بریلوی نے دیوبندی کو اور دیوبندی نے جماعتِ اسلامی کو گستاخ قرار دیا تھا۔
اصل نعلین عرش جانے پر فخر ہو اور نقش ہو تو مسجد میں گستاخی؟۔ ایک فرقے کا ایک طبقہ مسجد بھردے اور دوسرا گستاخی قرار دے ؟۔ ایک صحابیؓ کی انگوٹھی کے نگینہ میں شیر کی تصویر تھی۔ رسول ﷺ کی رحمۃ للعالمینی کا تقاضہ ہے کہ دنیا کو جہالت کے اندھیروں سے نکالا جائے ، مولانا طارق جمیل کی غلط بات کو تحفظ دینے کیلئے معتقدجان کی بازی لگانے کی ہمت نہیں رکھتے ورنہ قتل کرتے۔ غازی علم دینؒ اور ممتازی قادریؒ نے جان کی بازی لگانے کی جرأت کرلی۔ جج اپنے حکم سے انحراف کو گستاخی قرار دے مگر نبیﷺ کا اسوۂ حسنہ حدیث قرطاس توانسانیت کو عروج کی منزل پر پہنچائے ۔
سلمان حیدر کا اغواء ایشوبنا، ڈاکٹر عامرلیاقت نے کہا کہ انڈیا میں ہے۔فوج نے کہا کہ ہم نے نہیں اٹھایا۔خبر آئی کہ اغواء کے بعد ویپ سائٹ پرپوسٹ لگائی گئی۔ اورمقبول جان نے کہا کہ سلمان حیدر کے ملوث ہونے کا نہیں کہہ سکتا، گھر پہنچا تو چوہدری نثار نے تحفظ دیا۔ بھاگاتو جج نے ایشو اٹھایا، یہ سوچا سمجھا منصوبہ نہ ہوکہ ’’ خبریں لگاگر بیرون ملک سیاسی پناہ لی جائے؟‘‘۔ دیکھنا پڑیگا کہ کسی پر غلط الزام لگاکر قتل نہ کیا جائے اور کوئی اس کا سیاسی فائدہ نہ اٹھائے ۔جب الطاف حسین کا غلغلہ تھا تو اس کی گستاخی پر کارکن اور بڑے رہنما بہت سیخ پا ہوتے۔سیاسی و مذہبی قیادتوں پر بھی جذبہ دکھتاہے۔یہ ہمارے ایمان کے علاوہ ماحول کی غیرت بھی ہے کہ نبیﷺ کی ادنیٰ گستاخی برداشت نہ کریں۔ ایک آدمی بیوی کیساتھ کسی کو دیکھ لے تو قرآن میں قانونی تحفظ اور لعان کا حکم ہے مگر مسلمان غیرت کھاکر اللہ کا قانون نہیں مانتا اور قتل کردیتاہے، اسکی تشہیر نہیں کرتا، ا سے گالی سمجھ کر مٹی ڈالتاہے۔ مجنون کا پیغام آتا تولیلیٰ دودھ بھیج دیتی، شک ہواتوچھری اور پیلٹ بھیجی کہ جسم کا گوشت چاہیے،کہنے لگاکہ میں دودھ پینے والامجنون ہوں ، گوشت والا وہ ہے، اصلی مجنون نے مختلف حصوں کا گوشت کاٹ کردیا۔حضرت عائشہؓ پر بہتان لگا تو دودھ پینے والا مجنون کوئی نہ تھا ، عاشقانِ رسول ﷺ کی کثرت تھی مگر قتل کی جرأت نہ کی۔ ڈاکٹر عامر لیاقت، اوریا مقبول، مولانا فضل الرحمن اور مولانا الیاس قادری اگر عاصمہ جہانگیر، فرزانہ باری، ماروی سرمد، طاہرہ عبداللہ کو قتل کرکے خود پھانسی چڑھ گئے تو کوئی خواب وخیال میں بھی توہین کی جرأت نہ کریگا اوراگردودھ پینے والے مجنونوں کی سیاست ختم ہوگئی توبھی توہین رسالت کا باب بند ہوجائیگا۔ طائف کے بازار میں نبیﷺ نے پتھر کھائے۔ اللہ نے حضرت عائشہؓ پر بہتان سے غریب و بے بس طبقے کی عزتوں کو تحفظ دیدیا۔ مرزاغلام احمد قادیانی، غلام احمد پرویز اور دودھ پینے والے مجنونوں نے اسلام کے جسم سے روح نکال کر دنیا میں توہینِ رسالت کیلئے راہیں ہموار کردیں۔