پوسٹ تلاش کریں

مذہبی تعلیمات کیلئے بہت بگاڑ کے اسباب کیا تھے؟

پاکستان اسلام کے نام پر بنا، اسلام سے بڑھ کر انسانیت کیلئے کوئی قانون اور مذہب نہیں، البتہ مذہبی طبقے نے اسلام کا حلیہ ایسا بگاڑ دیا ہے کہ اگرافہام وتفہیم کا ماحول پیدا کیا جائے تو تمام مذہبی طبقات اپنی خود ساختہ منطقوں سے نکل کر اسلام کا فطری دین قبول کرسکتے ہیں۔ مغل اعظم اکبر بادشاہ نے وقت کے شیخ الاسلام اور درباری علماء کی مددسے اسلام کا حلیہ یوں بگاڑ اکہ ’’علماء نے فتویٰ دیاکہ اولی الامر کی حیثیت سے دین کے احکام کی تعبیر وتشریح آپ کا حق ہے، جو نظام دینِ اکبری میں آپ کی مرضی ہو، آپ کااختیارہے، مسلم امہ، ہندو، بدھ مت اور سارے مذاہب کیلئے قابلِ قبول اسلامی احکام کی تعبیر کااختیار آپکے پاس ہے، یہ ظل الٰہی کا اختیار ہے جو اللہ نے خود آپکو دیا ہے‘‘۔ آج مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن سودی نظام کو جواز کی سند دیتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں فتویٰ پیش ہو تو سودی نظام کو اسلام قرار دینے کی جرأت خود کو گنہگار کہنے والے ارکان بھی نہ کریں۔
اکبر کے دین الٰہی کیخلاف ہمارے شہر کانیگرم جنوبی وزیرستان کے پیر روشان نے پختون قبائل کو متحد کرنے کی تحریک چلائی اور اسکے اقتدار کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی۔ مغل بادشاہوں کی سفاکی مثالی تھی،شیخ احمدسرہندی المعروف مجدد الف ثانیؒ نے اکبر کے سامنے جھکنے اور سجدۂ تعظیمی سے انکار کیامگر مغلیہ دورِ اقتدار ابوالفضل فیضی اور ملادوپیازہ جیسے درباری علماء کی بدولت اسلام کے نام پر چلتا رہا۔ مغلیہ کے بہترین بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے جو فتاویٰ عالمگیریہ پانچ سو علماء کرام کی مدد سے مرتب کیا، جن میں شاہ ولی اللہؒ کے والد شاہ عبدالرحیمؒ بھی شامل تھے۔ فتاویٰ عالمگیریہ میں لکھا ہے کہ ’’ بادشاہ پر کوئی حد نافذ نہیں ہوسکتی ۔ قتل، چوری، زنا، ڈکیتی وغیرہ کے جرائم کرے تو بادشاہ سلامت ہے، اسلئے کہ بادشاہ خود حد کو نافذ کرتا ہے تو اس پر کوئی کیا حد نافذ کرسکتا ہے؟۔ بادشاہ سزا سے بالاتر ہے‘‘۔ اس سے بڑھ کر شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے اپنی کتاب ’’تقلید کی شرعی حیثیت ‘‘ میں علماء کو مقام دیا ہے۔جس میں یہ تک لکھا کہ ’’ عوام علماء کی تقلیدکے پابند ہیں، عوام براہِ راست اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت نہیں کرسکتے ، آیت میں علماء کے آپس کا اختلاف مراد ہے۔ اگر علماء گمراہ کریں، تب بھی عوام پر اطاعت ضروری ہے، عوام پر ذمہ داری عائد نہیں ‘‘۔ مفتی تقی عثمانی نے کھلے عام قرآن کی آیت میں معنوی تحریف کا ارتکاب کیا اور جن احادیث کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے تووہ اپنے دلائل کا بھی کھلے عام مذاق ہیں۔ شیعہ عقیدۂ امامت کی وجہ سے اسلئے گمراہ ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ امام سے اختلاف جائز نہیں تو حضرت عمرؓ نے رسول اللہ ﷺ سے حدیث قرطاس میں اختلاف کی جرأت کیسے کی؟۔ مفتی تقی عثمانی نے شیعوں کے عقیدۂ امامت سے بڑھ کر علماء کرام کی اندھی تقلید کی تعلیم دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کی یہ تعریف کی ہے کہ ’’ اللہ کی آیات پر بھی اندھے اور بہرے ہوکر گر نہیں پڑتے‘‘۔ صحابہ کرامؓ نے رسول اللہ ﷺ کی ایسی تقلید نہیں کی تھی جس کی تعلیم مفتی تقی عثمانی نے علماء ومفتیان کے حوالہ سے دی ہے، بنیادی معاملات قابلِ غور ہیں۔
حضرت شاہ ولی اللہؒ نے قرآن کا ترجمہ کیا، علماء کو احادیث کی طرف متوجہ کیا اور انگریز کے مقابلہ میں مقامی حکمرانوں کو متوجہ کیا ۔انگریز نے قبضہ کیا ، 1857ء کی جنگِ آزادی ناکام ہوئی، سرسید احمد خان نے علی گڑھ کالج کی بنیاد رکھ دی، انگریزوں اور مسلمانوں کے درمیان فاصلہ کم کرنے کی کوشش کی، دارالعلوم دیوبند نے اسلامی تعلیمات کو تحفظ دینے کی مہم شروع کی۔ ہند میں بریلوی، دیوبندی اور اہلحدیث مکاتب بن گئے۔ مولانا عبداللہ غزنوی کا تعلق افغانستان سے تھا، شیخ نذیر حسین دہلوی اہلحدیث کے شاگرد ،افغانستان سے بار بار جلاوطن ہوئے جواحراری رہنما مولانا داؤد غزنویؒ کے دادا تھے، میرے اجداد سیدامیرشاہؒ بن سید حسن ؒ سید اسماعیل ؒ بن سید ابراہیمؒ بن سید یوسف ؒ مذہبی گھرانہ تھا۔ سید یوسف ؒ کے دو فرزند سیدعبداللہؒ اور سید عبدالوہاب ؒ تھے، پیر روشان کے بعد کچھ برکی قبائل نے کانیگرم سے جالندھر سکونت اختیار کی، عبدالوہابؒ شاہ پور ہوشیار پور جالندھر میں مدفون ہیں ، انکی اولاد نے انکو شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کا فرزند لکھا ہے مگر سولویں عیسوی صدی میں فرزند کیسے ہوسکتے ہیں؟۔ سید یوسف ؒ بن سید رضاشاہ ؒ بن سید محمد جمال شاہؒ ولد سیدنظام الدین شاہؒ ولد سیدمحمود حسن دیداری ؒ ولدسید محمد ابوبکر ذاکرؒ ولد سید شاہ محمد کبیرالاولیاءؒ (مدفن کانیگرم) بن سیدمحمد ہاشم ؒ بن عبداللہ.؛.؛.؛.؛.؛.؛.؛.؛.عبدالرزاق بن سید عبدالقادر جیلانیؒ بہت بڑاشجرہ ہے۔
پیرروشان کی اولاد سے ہمارے اجداد کی رشتہ داری رہی۔ بایزید انصاری پیر روشان سید نہ تھے ،انکی اولاد بھٹوزداری کی طرح سیدانصاری بن گئے۔ میری دادی بھی انکے خاندان سے تھیں، جب حضرت علیؓ کی باقی اولاد علوی ہیں اور ہم حضرت فاطمہؓ کی وجہ سے سید ہیں تو دوسروں کو بھی ماں کی وجہ سے سید بننے کا حق ہونا چاہیے۔ نبیﷺ کیلئے تو اللہ نے قرآن میں فرمایا کہ ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولٰکن رسول اللہ و خاتم النبین’’محمد(ﷺ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں‘‘۔ رسول اللہ ﷺ کے چچازاد علیؓ اور چچا عباسؓ کی اولاد خلافت کے منصب کی حقداری پر نہ لڑتے تو بہت اچھا ہوتا۔پیرورشان ایک انقلابی تھے اور ایک انقلابی کا خون رگوں میں گردش کرتا ہو توقابلِ فخر ہے۔ عمران کی والدہ جالندھر کی برکی قبیلے سے تھی جو پیرروشان کے بعد کانیگرم سے ہجرت کرکے آباد ہوئے۔ عمران خان اسلئے نیازی سے زیادہ ماں کو ترجیح دیتا ہے ، شہبازشریف اور آصف زرداری طعنہ کے طور پر نیازی کہہ کر مخاطب کرتے ہیں، حالانکہ لوہار اور زردار کی بھی نیازی سے زیادہ اہمیت نہیں ۔میرے دادا کے بھائی سیداحمد شاہ اور پرناناسیدسبحان شاہ کا قبائلی عمائدین میں افغان حکومت کیساتھ مذاکرات کا ذکر ہے،میرے ماموں سید محمودشاہ اور والدکے چچازاد سیدایوب 1914ء میں اسلامیہ کالج پشاور میں زیرتعلیم تھے اور پیرسیدایوب شاہ عرف آغا جان افغانستان میں پہلے اخبار کے ایڈیٹر تھے۔
مدارس کا نصاب بہتوں نے بدلنے کی کوشش کی، مولانا ابوالکلام آزادؒ بھارت کے وزیرتعلیم تھے ، تب بھی انہوں نے علماء سے اس کی تبدیلی کا مطالبہ کیا تھا۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ ، مولانا انورشاہ کشمیری،ؒ مولانا سندھیؒ ، مولاناسید یوسف بنوریؒ ، مولانا مفتی محمودؒ اور بہت اکابر نصاب کی تبدیلی کے خواہاں رہے۔ وفاق المدارس نے سال بڑھادئیے۔ مفتی اعظم مفتی رفیع عثمانی نے کہا کہ ’’ امام مہدی کا ظہور ہونیوالا ہے، وہ حق وباطل کا امتیاز ہوگا ، ہم ترجیح کی اہلیت نہیں رکھتے‘‘۔ مولانا ابوالحسن علی ندویؒ نے لکھا ’’شاہ اسماعیل شہیدؒ کے مرشد سیداحمد بریلوی ؒ اسلئے مدارس میں پڑھ نہ سکے کہ کتابوں کے حروف نظروں سے غائب ہوجاتے تھے‘‘۔ مولانا سید محمد میاںؒ نے بڑی خوبی ان کی یہ لکھ دی کہ ’’سیداحمد بریلویؒ کا تعلق تصوف سے تھا‘‘ اور جماعتِ اسلامی کے بانی مولانا سید مودودیؒ نے ’’ تصوف سے تعلق کو اصل خرابی کی بنیاد قرار دیا تھا‘‘۔ مولانا سیداحمد بریلوی شہیدؒ پر بھی امام مہدی کا گمان کیا گیا، شاہ اسماعیل شہیدؒ کی کتاب منصب امامت کی اصل بنیاد یہی تھی۔
سنی اور شیعہ میں عقیدۂ امامت کے حوالہ سے بنیادی اختلاف یہ ہے کہ شیعہ امام کے تقرری کو من جانب اللہ سمجھتے ہیں اور سنی کے نزدیک امام کا مقرر کرنا مخلوق کا فرض ہے۔ شاہ ولی اللہؒ نے لکھا کہ ’’ رسول اللہ ﷺ نے مشاہدہ میں فرمایاکہ’’ شیعہ عقیدۂ امامت کی وجہ سے گمراہ ہیں‘‘۔ جس پر شاہ ولی اللہؒ نے غور کرکے یہ نتیجہ نکالا کہ ’’ اس کی وجہ سے ختم نبوت کا انکار لازم آتاہے‘‘۔ مولانا حق نواز جھنگویؒ نے بھی اصل اختلاف عقیدۂ امامت قرار دیاتھا اورشاہ ولی اللہؒ کے فرزند شاہ عبدالعزیزؒ نے تحفہ اثنا عشریہ کتاب لکھی اور شاگردوں نے اہل تشیع کو کافر قرار دیا۔ مگرشاہ اسماعیل شہیدؒ نے بھی منصب امامت میں ’’اہل تشیع کے بنیادی عقیدۂ امامت کی اپنے رنگ میں شدومد سے وکالت کی ‘‘۔ مولانا یوسف بنوریؒ نے شاہ اسماعیل شہیدؒ کی ایک کتاب ’’بدعت کی حقیقت‘‘ کا مقدمہ لکھا ، جس میں تقلید کو بدعت قرار دیا گیا ہے اور اس میں منصب امامت کی بھی بڑی تائید کردی۔ مولانا یوسف بنوریؒ کے والد مولانا سیدزکریا بنوریؒ نے مولانااحمدرضاخانؒ کو ہندوستان میں حنفی مذہب اور تقلید کو بچانے کیلئے خراج تحسین پیش کیا ۔ بنوری ٹاؤن کے مفتی ولی حسن ٹونکیؒ مفتی اعظم پاکستان کی طرف منسوب کرکے فتویٰ لکھاگیا جس میں شیعہ کو صحابہؓ سے انکار، قرآن کی تحریف اور عقیدۂ امامت کی وجہ سے ختم بنوت کا منکر قرار دیکر قادیانیوں سے بدتر کافر قرار دیا گیا۔ مہدی کے بارے میں عوام ہی نہیں علماء دیوبند کے اکابر کا عقیدہ بذاتِ خود قادیانیت سے بدتر تھا اسلئے کہ ایسی شخصیت کا اعتقاد جو اپنی روحانی قوت سے پوری دنیا میں انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو، نبوت کے دعوے سے بھی بڑھ کر گمراہی ہے، انبیاء کرامؑ کیلئے بھی ایسا اعتقاد جائز نہیں ۔مولانا سندھیؒ ، سید مودودیؒ اورعلامہ اقبالؒ نے اس غلط اعتقاد کی زبردست الفاظ میں اصلاح کی کوشش کی تھی۔
شاہ اسماعیل شہیدؒ اور سیداحمد بریلویؒ کی خراسان سے مہدی کی پیش گوئی میں ناکامی کے کافی عرصہ بعد بعض نے امیرالمؤمنین ملا عمرؒ کو بھی مہدی قراردیا۔ داعش کہتی ہے کہ ملاعمر اعضاء کی سلامتی اور قریشی نہ ہونے کیوجہ سے خلیفہ نہیں بن سکتے تھے،اسلئے امیرالمؤمنین ابوبکر بغدادی کو بنادیا۔ ہم نے بھی پاکستان سے اسلام کی نشاۃثانیہ اور خلافت کے قیام کا آغاز کرنے کی بنیاد رکھ دی، تمام مکاتبِ فکر کے سینکڑوں علماء ومشائخ نے تائید بھی کی، میرے استاذ جامعہ بنوری ٹاؤن کے پرنسپل ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے ہماری رہنمائی کے تأثرات میں امام مالکؒ کا قول لکھا کہ ’’ اس امت کی اصلاح نہ ہوگی مگرجس نہج پر اس امت کی اصلاح پہلے کی گئی ‘‘۔ یہ بات بہت بڑے گر کی ہے۔
پیپلزپارٹی کی حکومت کوراجہ داہر اور ن لیگ کی حکومت کو راجہ رنجیت سنگھ سے بہت بدتر سمجھنے والے القاعدہ خود کو محمد بن قاسمؒ اور طالبان و داعش خود کو سیداحمد بریلویؒ کی تحریک سے بڑھ کر سمجھتے ہیں۔ پرویز مشرف نے امریکہ کا ساتھ دیا تو پاکستان میں فوج کیخلاف نفرت کا طوفان اٹھاتھا۔ دہشت گردی مضبوط ہوئی تو فوج سے مزید نفرت بڑھ گئی۔ جنرل راحیل کے جانے کا وقت قریب آیا تو حبیب جالب کی طرح اقبال کا شاہین نہیں بلکہ لال کرتی کا کوّا صحافی ہارون الرشید کہہ رہاہے کہ جنرل راحیل کے بارے میں فوج کے اندر کسی کا وہم وگمان بھی نہ تھا کہ یہ آرمی چیف بنے گا، جس کا مطلب چن چن کر اشفاق کیانی کی طرح ہی بنائے جاتے ہیں جو قوم کو کرپشن، دہشت گردی اور منافقت میں ڈبوکر ماردیں۔فوج کا ماضی تو ن لیگ کو بھی اچھا نہیں لگتا جس کی پیداوار ہیں ۔ حقائق کی تہہ تک اسوقت تک پہنچنے میں کامیابی نہیں مل سکتی جب تک ساری قوم اپنی غلطیوں کا ادراک نہ کرلے۔ فوج کا کام عوام کی اصلاح نہیں ہوتی، عوام کی اصلاح کیلئے سیاسی رہنمااور علماء ومشائخ کا کردار اہم ہوتا ہے۔ سیاسی رہنما ٹاؤٹ اور کچھ ٹاؤٹ بننے کیلئے اپنی دم سر پر دستار سجائے رکھتے ہیں۔ مذہبی نصاب درست ہوجائیگا تو فرقہ بندی سے ہوا نکل جائیگی۔ نیک لوگوں کا کردار ضائع ہونے کے بجائے معاشرے میں اپنا رنگ لائیگا۔ دہشت گردی کا خاتمہ ہوگا۔ آپس میں لڑنے بھڑنے کا ماحول نہ رہے گا، دنیا میں ہمارے پاکستان کی فضاء اپنے ہمسایہ اور دنیا بھر کیلئے مثالی ہوگی، کشمیر کی آزادی یقینی بن جائے گی اور ہندوستان کے مسلمان عزت اور وقار کی زندگی گزاریں گے ۔ شر کی تمام قوتیں سر نگوں اور حق کے غلبے سے اسلامی خلافت کی راہ ہموارہوگی۔
حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر جیسے لوگ پاکستان کا اثاثہ ہیں، کرایہ کے سپاہی اگر ملک بچاسکتے تو بنگلہ دیش میں ہماری فوج ہتھیار کیوں پھینک دیتی؟۔یہ لوگ ریاست کے جتنے وفادار ہیں اتنے اسلام کے بھی نہیں۔ اگر ہمارے فرقوں اور ہماری ریاست کا قبلہ ٹھیک ہوجائے تو کمیونزم کا نظریہ رکھنے والے اسلام کیساتھ کھڑے ہونگے۔ مزارعین سے جاگیردار احادیث اور فقہی اماموں کے مسلک کے مطابق اپنا حصہ وصول کرنا سود سمجھیں تو بندہ مزدور کے اوقات بدل سکتے ہیں، لال خان واحد کمیونسٹ رہنما ہیں جو عملی کوشش کررہے ہیں مگر انکے منشور میں بھی تضاد ہے، ایک طرف مزارع کو مالک بنانے کی بات ہے تو دوسری طرف زمین کی اجتماعی ملکیت کی شق ہے۔ جب اپنے ملک کی خدمت کرنے کا دعویٰ کرنے والے سیاستدان اور عزیز ہم وطنو والے فوجی جرنیل شہروں کے گلی نالیاں صاف کرینگے تو پھر قوم مان جائے گی کہ انکا کوئی ذاتی ایجنڈہ نہیں بلکہ قوم کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں۔ بڑے بڑوں کے پاس پیسہ نہ ہو توکونسلر کا انتخاب جیتنا بھی ان کیلئے مشکل ہے۔

علماء کا کردار: ایک جائزہ

مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ کی ایک کتاب’’ اختلافِ امت اور صراطِ مستقیم‘‘ ،دوسری ’’عصر حاضر حدیث نبویﷺ کے آئینہ میں‘‘ ہے۔ اختلافِ امت میں جماعتِ اسلامی کے بانی سید مودویؒ کا لکھا ہے کہ ’’ ان کی تحریر کو سب سے بڑی خوبی سمجھا جاتا ہے، میرے نزدیک انکی سب سے بڑی خامی ان کی قلم کی کاٹ ہے، جب کفروالحاد کیخلاف لکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دارالعلوم دیوبند کا شیخ الحدیث گفتگو کررہاہے مگر جب وہی قلم اہل حق کیخلاف اٹھتا ہے تو لگتاہے کہ غلام احمد پرویز اور غلام احمد قادیانی کا قلم اس نے چھین لیا ہے‘‘ مولانا لدھیانویؒ نے بڑی شائستگی سے مولانامودودیؒ کو انبیاء کرامؑ اور امہات المؤمنینؓ کا گستاخ قرار دیا۔جماعتِ اسلامی نے بڑی شائستگی سے یہ کیا کہ ’’اپنی مسجد الفلاح نصیر آباد کا امام وخطیب مولانا لدھیانویؒ کو بنادیاتھا‘‘۔ رمضان میں مولانالدھیانویؒ نمازِ فجر کے بعد درس دیتے، محراب میں مولانا لدھیانویؒ خاموش تشریف فرماتھے ،پروفیسر غفور احمد ؒ وہاں کھڑے ہوکر بیان کررہے تھے۔ تو سوچا کہ بڑے بڑوں کی بات سمجھتے ہیں، ہم چھوٹوں کی عقیدت میں نجات ہے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن میں داخلہ سے پہلے دار العلوم اسلامیہ واٹر پمپ میں عارضی طور سے رہاتھا، مولانا یوسف لدھیانویؒ نے تقریر کے دوران یہ فقہی مسئلہ بتادیا کہ ’’ قرآن کے نسخے پر ہاتھ رکھ کر قسم کھانے سے کفارہ واجب نہیں ،اسلئے کہ یہ اللہ کی کتاب نہیں بلکہ اس کا نقش ہے، زبانی اللہ کی کتاب کی قسم کھانے پرکفارہ اد ا کرنا ضروری ہوجاتاہے‘‘۔ مجھے یہ سن کر حیرت ہوئی کہ علماء اور جاہلوں میں یہ فرق ہے کہ جاہل زبانی قرآن کی قسم کھالیتے ہیں مگر کتاب پر ہاتھ رکھ قسم کھانے سے بہت ڈرتے ہیں، حالانکہ علم کی دنیا میں معاملہ بالکل برعکس ہے‘‘۔ پھر جامعہ بنوری ٹاؤن میں داخلہ ملا اور مولانا بدیع الزمانؒ نے علم النحو کی کتاب میں پڑھایا کہ ’’ لفظ وہ ہے جو زباں سے نکلے، عربی میں کھجور کھانے کے بعد گٹھلی پھینکنے کیلئے لفظت (میں نے پھینکا) استعمال ہوتاہے۔ جو مولانا لدھیانویؒ سے سنا ، یہ گویا تصدیق تھی۔ پھر علم الصرف کے صیغوں میں مولانا عبدالسمیع ؒ سے سرِ راہ بحث کا سلسلہ لمبا ہوا، تو انہوں نے قرآن منگوایااور پوچھا کہ ’’ یہ اللہ کی کتاب ہے؟‘‘ میں نے کہا کہ نہیں تو مجھ پر کفر کا فتویٰ تھوپ دیا، میں عرض کیا کہ یہ فتویٰ تو مولانا یوسف لدھیانویؒ پر بھی لگتاہے، ان کا حوالہ دیا تو مجھ پر بہت زیادہ ناراضگی کا اظہار کیا کہ ’’ تم لوگ کتابیں پڑھ کر آتے ہو، مقصد پڑھنا نہیں ہمیں ذلیل کرنا ہوتاہے‘‘۔ ایک طالب علم نے مجھے بازوسے پکڑا ،اور مسجد کے کونے میں لیجاکر کہا کہ ’’صوفی صاحب اپنا ذکر کرو‘‘۔
چوتھے سال میں ’’نورالانوار‘‘ میں قرآن کی تعریف پڑھ لی کہ ’’ کتاب میں موجود لکھائی الفاظ ہوتے ہیں اور نہ معنیٰ بلکہ یہ محض نقوش ہوتے ہیں‘‘ تو کوئی تعجب نہ ہوا،اسلئے کہ پہلے سے یہی معلوم تھا۔ مفتی محمد تقی عثمانی کی کتاب ’’فقہی مقالات‘‘ میں دیکھا کہ ’’ علاج کیلئے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے‘‘ تو پاؤں سے زمین نکل گئی۔ جامعہ بنوری ٹاؤن نے فتویٰ میں بالکل ناجائز اور ایمان کے منافی قرار دیا۔ دونوں فتوے ہمارے اخبار کی زینت بن گئے تو بریلوی مکتبۂ فکر کے لوگوں نے طوفان کھڑا کردیا، جب ہم نے بتایا کہ فتاویٰ شامیہ میں صاحبِ ھدایہ کی کتاب تجنیس کا حوالہ دیکر لکھا گیا ہے ۔ مولانا احمد رضابریلویؒ نے بھی اپنے فتاویٰ میں دفاع کیا ہے تو بولتی بند ہوگی، مفتی تقی عثمانی نے روزنامہ اسلام میں مضمون لکھ کر اعلان کیا کہ ’’میں یہ تصور کرسکتا، اپنی کتابوں فقہی مقالات اور تکملۃ فتح الملہم سے یہ عبارات خارج کرتا ہوں‘‘۔مفتی تقی عثمانی نے تو صاحبِ ہدایہ کے مؤقف کاجانے بوجھے بغیر حوالہ دیا اور ان کو دباؤ کی وجہ سے نکالا بھی مگر سوال پیدا ہوتا کہ ’’صاحبِ ہدایہ نے کیوں لکھا اور فتایٰ شامیہ نے کیوں نقل کیا، وہاں سے کون نکالے گا؟۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ عوام کے پریشر سے جس میں ایم کیوایم کے ڈاکٹر فاروق ستار اور کارکنوں کے بیانات بھی شامل تھے، شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے اپنے ہتھیار ڈال دئیے، اگر مفتی تقی عثمانی میڈیا پر صرف کہہ دے کہ مجھ پر ناجائز دباؤ ڈالا گیا تو بھی ہم معافی مانگ لیں گے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ’’جب اصول فقہ میں پڑھایا جاتا ہے کہ قرآن کی کتابت اللہ کا کلام نہیں بلکہ نقش ہے تو سورۂ فاتحہ بھی کتابت کی صورت میں اللہ کا کلام ہے ہی نہیں پھر صاحبِ ہدایہ اور فتاویٰ شامیہ میں پیشاب سے لکھنے پر حرج کیوں ہوگا؟‘‘۔ جب مفتی تقی عثمانی نے اس حقیقت کو سمجھے بغیر آگے بڑھنے اور ریورس گھیر لگانے میں کردار ادا کیا تو دیگرعلماء کاپھر کیا حال ہے؟۔
مولانا یوسف لدھیانوی ؒ کی کتاب عصر حاضر میں اسلام کے حوالہ سے بتدریج مختلف پیرائے میں تنزلی کا زبردست عکس اوراس دور کی تمام صورتحال کا ذکرہے۔ علماء، مفتیان، مساجد کے ائمہ، مقتدیوں اور مذہبی طبقات کی بدترین حالت کے علاوہ سیاسی جماعتوں، برسراقتدار ٹولوں اور عام لوگوں کی زبردست عکاسی کی گئی ہے، ظلم وجور سے بھری دنیا میں ان لوگوں کی فضیلت کا بھی ذکر کیا گیا ہے جنہوں نے دین کو سمجھ لیا، پھر اسکی خاطر ہاتھ، زبان اور دل سے جہاد کیا، دوسرا طبقہ وہ ہے جہنوں نے دین کو سمجھ لیا اور پھر زبان سے اس کی تصدیق بھی کرلی، تیسرا طبقہ وہ ہے جنہوں نے دین کو سمجھ لیا ، اچھوں سے دل میں محبت رکھی اور بروں سے نفرت رکھی مگر ان میں اظہار کی جرأت نہ تھی۔اسکے باوجود یہ طبقہ بھی نجات پاگیا۔ یہ حدیث موجودہ دور پر بالکل صادق آتی ہے۔ جب حاجی عثمانؒ سے اپنے خلفاء نے بغاوت کی، اپنے دوست علماء نے فتوے لگائے تو مولانایوسف لدھیانویؒ ان ہی لوگوں میں تھے جو دل میں ہم سے محبت اور مخالفین سے نفرت رکھتے تھے مگر اظہار کی جرأت نہ کرسکتے تھے، حاجی عثمانؒ کی قبر پر اپنے دامادوں کو لیکر بھی جایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ روزنامہ جنگ میں بھی ان کی طرف منسوب کرکے لکھا گیا کہ ’’ حضرت عیسیٰؑ کے چاچے نہیں تھے البتہ ان کی پھوپھیاں تھیں‘‘ جس پر عوام کی طرف سے شور مچ گیا، مولانا لدھیانویؒ نے صرف یہ وضاحت کردی کہ ’’یہ جواب میں نے نہیں لکھا تھا‘‘۔
ایک دن روزنامہ جنگ کی شہہ سرخی تھی کہ وزیرمذہبی امور مولاناحامد سعیدکاظمی نے کرپشن کا اعتراف کرلیا، اسی دن شام کو مولانا سعید کاظمی نے کہا کہ ’’میں حلف اٹھاکر کہتا ہوں کہ میں نے کرپشن نہیں کی‘‘۔ اگر میڈیا جھوٹ بولے اور ن لیگ کے متضاد بیانات کو بھی اعتراف نہ قرار دے تو عام لوگ اندھیر نگری سے کیسے نکل سکیں گے؟۔ مدارس کے علماء ومفتیان وقت ضائع کئے بغیر نصاب کو درست کرلیں ورنہ وہ طوفان کھڑا ہوگا جو پھر ریاست سے بھی سنبھل نہ سکے گا۔ بڑی بڑی ریاستوں کا تیا پانچہ ہوا لیکن اللہ تعالیٰ نے پاکستان کی حفاظت ایک عظیم مقصد کی خاطر کی ہے۔

JUI-BanoriTown-MolanaZarwali-MolanaFazlurRehman
مفتی محمودؒ نے بینک کی زکوٰۃ کو سود قرار دیا۔ مولانا فضل الرحمن نے اپوزیشن میں دین کی حفاظت تھی، مولانایوسف لدھیانویؒ نے عصر حاضر میں حدیث نقل کی ’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: علماء دین کے محافظ اور ذمہ دار ہیں جبتک یہ اہل اقتدار سے مل نہ جائیں اور جبتک دنیا میں گھس نہ پڑیں۔جب اہل اقتدار سے مل گئے اور دنیا میں خلط ملط ہوگئے تو انہوں نے دین سے خیانت کی‘‘۔ مولانافضل الرحمن نے دین کے بجائے اب وزیراعظم نوازشریف کی وکالت شروع کردی ، جبکہ مفتی تقی عثمانی وغیرہ شروع سے سرکاری ٹانگے رہے ، اب تو اتنی ترقی کرلی ہے کہ عالمی سطح پر سودی نظام کو اسلامی قرار دینے کا بڑا معاوضہ لے کر ٹھیکہ اٹھار کھا ہے۔ ان سے مذہب کے حوالہ سے دلچسپی لینے کی کوئی توقع کیا ہوسکتی ہے؟۔ مفتی زرولی خان نے مفتی تقی عثمانی کے استاذاوروفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان وغیرہ کو سود کے خلاف فتویٰ دینے پر آمادہ کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔وزیرخزانہ اسحاق ڈار سے لیکر عالمی سطح تک بینکوں اور حکومتوں کی حمایت حاصل ہو تومفتی تقی عثمانی کے مقابلہ میں مفتی زرولی، جامعہ بنوری ٹاؤن اور دیوبندی مکتبۂ فکر کے سارے مدارس کی کیا چلے گی؟۔ مدارس کے نصاب سے اتنی استعداد پیدا نہیں ہوتی ہے جس سے موٹی موٹی باتوں کا بھی علماء ومفتیان کو پتہ چل سکے۔ مدارس کا نصابِ تعلیم صوفیاء کا کوئی وظیفہ نہیں بلکہ سیدھے لوگوں کی لکھی ہوئی کتابیں ہیں۔مولانا سمیع الحق نے کہا تھا کہ اس میں غلطیوں کی اصلاح کی جاسکتی ہے۔ یہ کوئی آسمانی وحی تو نہیں ہے حق بات سمجھنے کیساتھ ماحول میں ا سکی جرأت بھی ہونی چاہیے۔

Molana-MasoodAzhar-SarwatQadri-HasanZafarNaqvi
جامعہ بنوری ٹاؤن سے پاکستان بھر، بھارت اور بنگلہ دیش سے بڑی تعداد میں علماء ومفتیان نے اہل تشیع پر کفر کا فتویٰ لگایا تو دارالعلوم کراچی نے انکار کیا کہ ’’ہم سرکاری ٹانگے ہیں ہم یہ نہیں کرسکتے‘‘۔ حاجی عثمانؒ سے انکے اپنے استاذ مولانا عبدالحق بیعت تھے، دارالعلوم کراچی کے ملازم مولانااشفاق احمد قاسمی فاضل دارالعلوم دیوبندفتوے کے بعد بھی حاجی صاحبؒ سے منسلک رہے۔ مولانا عبداللہ درخواستی ؒ کے نواسے جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن کے مولانا انیس الرحمن درخواستی شہیدؒ فتوؤں کے بعد بیعت ہوگئے، جمعیت علماء اسلام کے دونوں دھڑے حامی تھے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ’’ یہ سن70کا فتویٰ لگتاہے۔علماء نے پیسہ کھاکر فتویٰ دیا ہوگا‘‘۔ میں نے علماء کو پھانسا تو مولانا فضل الرحمن نے بھری محفل میں کہا کہ ’’ دنبہ لٹادیا ہے، چھرا ہاتھ میں ہے، ذبح کرو، ٹانگیں ہم پکڑ لیں گے‘‘۔ علماء معافی کیلئے تیار تھے۔ فتویٰ میں شیخ جیلانیؒ ، شاہ ولی اللہؒ ؒ مولانا بنوریؒ اور شیخ مولانا زکریاؒ پر کفر والحاد، گمراہی و زندقہ اور قادیانیت کے فتوے لگائے ، ہفت روزہ تکبیر میں پابندی کا مطالبہ کرتے ہوئے لکھ دیا کہ ’’یہ فتویٰ حاجی عثمان کے خاص مرید سید عتیق الرحمن گیلانی نے لیاہے‘‘ ۔ عدالتی نوٹس پر مفتی تقی عثمانی نے لکھا کہ ’’ ہم نے نام سے فتویٰ نہیں دیا‘‘، ہم نے درگزر سے کام لیا۔پھر کچھ عرصے بعد فتویٰ دیا کہ ’’حاجی عثمان ؒ کے معتقد سے نکاح کا انجام کیا ہوگا؟، عمر بھر کی حرام کاری اور اولادالزنا‘‘۔ جب میں نے ان کو انکے مدارس میں چیلنج کیا تو بھاگ گئے۔ مفتی رشید احمد لدھیانوی نے ہمارے ساتھیوں کو پٹوایا، جب ہم نے کیس کیا تو تھانہ میں دونوں طرف کے افراد لاکپ میں بند ہوئے۔ ہماری طرف سے عبدالقدوس بلوچ وغیرہ تھے اور ان کی طرف سے لشکر جھنگوی کے ملک اسحاق وغیرہ تھے۔آج ہم نے مشکلات کے پہاڑ وں کو جس طرح سے سر کرلیا ہے۔ ملی یکجہتی کونسل کے صدر اور جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد ؒ ہمارے اخبار کے ایک مضمون سے بہت متأثر ہوئے جو مولانا مسعود اظہر کی بھارت سے رہائی کے بعد لکھا ۔ قاضی حسین احمد سے ہمارے نمائندہ کی ملاقات ہوئی اور پوچھا کہ شیعہ مسلمان ہے یا کافر؟۔ تو ملی یکجہتی کونسل کے صدرسوال کرنے پر بھی ناراض ہوئے۔ تجزیہ تھا کہ تہاڑ جیل سے یہ ممکن نہیں کہ دشمن بھارت مولانا مسعوداظہر کو ہفت روزۂ ضرب مؤمن میں مضامین لکھنے کی اجازت دے۔ سعودیہ، بھارت، افغانستان اور پاکستان میں امریکی سی آئی اے ایک ایسی طاقت ہے جو اپنے پسِ پردہ معاملات کو ڈیل کرسکتاہے۔ مولانا مسعود اظہر نے تنظیم کا علان کرتے ہوئے کہا کہ ’’الحمدللہ چالیس مجاہدین کو اسامہ بن لادن نے ذاتی بارڈی گارڈ کیلئے قبول کرلئے‘‘۔ 9\11کے وقت مسعوداظہر کی جماعت کے سرپرست مفتی جمیل خان (جنگ گروپ) کو امریکہ سے لندن آتے ہوئے واپس امریکہ کے حوالے کیا گیا۔ بہت بے گناہ گوانتاناموبے کی جیل میں تشدد کی نذر ہوئے۔ ڈاکٹرعافیہ صدیقی آج بھی جیل کے سلاخوں کے پیچھے ہے، مولانا مسعود اظہر کا اللہ بال بھی بیکا نہ کرے لیکن امریکہ نے نہیں مانگا، امریکہ نے چاہا تو اسامہ کا خاتمہ کردیا، یا اٹھاکر لے گئے، وہ جو بولیں لوگ یقین کریں گے اور آئی ایس آئی کے جنرل پاشا کو ملازم رکھ لیا۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا کہ ’’نوازشریف کو روتا دیکھ کر جنرل ضیاء الحق یاد آیا‘‘ حالانکہ جنرل ضیاء حادثاتی موت کا شکار ہوئے۔ نوازشریف کیساتھ قاضی حسین احمد بھی اسلامی جمہوری اتحاد کے قیام تک برسی مناتا رہاہے۔مولانامسعوداظہر، حافظ سعید ، مفتی زرولی خان ، مولانا سیدحسن ظفر نقوی ، ثروت اعجاز قادری اور دیگر مذہبی لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوکر مدارس کے نصاب ، مسالک کی چپقلش اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر ایک جامع اور واضح لائحہ عمل تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ امریکہ ایران اور سعودیہ کے علاوہ شیعہ سنی فسادات کرانے کے چکر میں لگ رہا ہے۔مفتی تقی عثمانی نے اہل تشیع سے خود کو بچانے کیلئے ملاقاتیں کی ہیں اور سوشل میڈیا پر جو لوگ مفتی تقی عثمانی تیرے جانثار بے شمار کے نعرے لکھ رہے ہیں وہی اہل تشیع کو کافر قرار دینے کے فتوے بھی جاری کررہے ہیں۔ تبلیغی جماعت کو ان افراد پر کڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے جو انکے لبادہ میں فرقہ واریت پھیلانے کی مذموم کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ دوسروں کیلئے خیر نہ مانگنے والے اپنی خیر بھی نہیں مانگ سکتے ہیں۔

درسِ نظامی کی اصلاح وقت کی اشدضرورت ہے… اداریہ نوشتہ دیوار

مجھے علماء سے عقیدت ومحبت ہے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کے اساتذہ میں زیادہ عقیدت و محبت مولانابدیع الزمانؒ سے ہے ۔ آپؒ کی تلقین مسلم اُمہ کے تمام مسائل کا حل ہے کہ ’’روزانہ قرآن کے ایک ایک رکوع کا ترجمہ وتفسیر سمجھنے کی کوشش کرو‘‘۔ ایک مرتبہ کسی آیت پر اشکال کے حل کا طلبہ کو ایک ہفتے کا وقت دیا کہ کتب تفاسیر میں تلاش کرو، جس سے پوچھنا ہوپوچھ لو،اور اسکا جواب لادو، سوال کا منہ سے نکلنا تھا کہ میں نے بے ساختہ جواب دیدیا۔ میری برجستہ اور خلافِ توقع بے صبری سے قدرِ ناگواری کا اثر بھی چہرے پر نمایاں ہوا پھر حسبِ معمول ہلکاسا تبسم فرمایا۔ اگر کسی نیک طینت بڑے سے بڑے عالمِ دین یا چھوٹے طلبہ پر درسِ نظامی کے حوالہ سے میری گزارشات پر اچانک ناگواری یا سوچنے سمجھنے کے بعد اطمینان کا اظہار ہو تو یہ ایک فطری بات ہے۔ میری تعلیم و تربیت عقیدت ومحبت کے ماحول میں ہوئی۔ فقہ کی کتاب کنزالدقائق میں100فیصد نمبر اورمولانا عبدالمنان ناصر نے میرے اشکال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’عتیق کی بات درست ہے ، کنز والے کی غلط‘‘ تو مجھے کتنا بڑا حوصلہ ملا ہوگا؟۔ درسِ نظامی کی آخری تفسیر ’’بیضاوی شریف‘‘پر اشکال اٹھادیا تو مولانا شبیراحمد (رحیم یارخان والے) نے فرمایا کہ ’’ عتیق کی بات درست ہے اور بیضاوی نے غلط لکھا ہے‘‘ ۔ میں نے جاوید غامدی کے شاگرد ڈاکٹر زبیر سے اساتذہ کاذکر کردیاتو حیران ہوگئے۔ وہ اپنے استاذ کی طرف سے اختلاف کوشائستہ انداز میں برداشت کرنے تعلیم وتربیت کو باعثِ افتخار قرار دے رہے تھے۔
اصول فقہ کی تعلیم ہے کہ قرآن و سنت میں تطبیق (موافقت) ممکن ہو تو تطبیق پیدا کی جائے،پہلا سبق قرآن حتی تنکح زوجا غیرہ کاحدیث سے تضاد ہے کہ ’’ اللہ نے خاتون کی طرف نکاح کی نسبت کی‘‘۔یعنی ولی سے اجازت کی پابند نہیں، حدیث میں بغیر اجازت ولی اسکا نکاح باطل ہے۔(اصول الشاشی)۔ زنا بالجبر اور غیرت کے نام پرقتل کیخلاف پارلیمنٹ میں قانون بنا ، اس پر نیوز 1 چینل میں ڈاکٹر فرید پراچہ نے ’’فساد فی الارض‘‘ کا حوالہ دیکر اختلاف کیا۔ جاہل کو معلوم نہیں کہ دیوبندی بریلوی مدارس حنفی ہیں ، جماعتِ اسلامی اسی کی مقلد ہے، خواتین کا ولی کی اجازت کے بغیر شادی میں درسِ نظامی کا کردارہے۔قرآن نے یہودو نصاریٰ کو ولی بنانا منع کیا ، مذہبی طبقہ امریکہ کو سرپرست بنانا جائز اور دوست بنانا جائز نہیں سمجھتا۔ بکرکنواری اَیم طلاق شدہ و بیوہ ہے،قرآن و حدیث میں تضاد نہیں بلکہ توازن ہے۔ قرآن میں طلاق شدہ کو نکاح کی اجازت دی ہے ،تو نکاح کرانے کا حکم بھی ہے وانکحوالایامیٰ منکم (طلاق شدہ وبیواؤں کا نکاح کراؤ) اور حدیث میں کنواری ہی کیلئے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح باطل ،تو حدیث میں بیٹی کی اجازت کے بغیر باپ کا نکاح کرانا باطل ہے۔ دارالعلوم کراچی کے فاضل نے بتایا کہ ’’مفتی تقی عثمانی کی بیٹی کا ٹیوشن پڑھتے ہوئے استاذ سے معاشقہ ہوگیا تھا مگر مفتی تقی عثمانی نے اپنی بیٹی کا نکاح زبردستی سے اسکی مرضی کے بغیرکسی اورسے کردیاتھا‘‘۔
حنفی فقہ سے قرآن کے مقابلہ میں من گھڑت حدیثوں کا راستہ رک گیاتھا،باقی حضرت امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا کہ ’’ حدیث صحیحہ کے مقابلہ میں میری رائے کو دیوار پر دے مارا جائے‘‘۔ علم وکردار کے لحاظ سے بہت سے علماء ومفتیان نے حق وصداقت کی راہ اپنانے کی بجائے مذہب کو پیشہ بنالیا ہے،اسلئے قرآن وسنت کے فطری دین کو ہردور میں اجنبیت کی منزلیں طے کرکے کہاں سے کہاں پہنچادیا گیاہے۔
نکاح و طلاق پر قرآن وسنت میں تضادو ابہام نہیں۔ قرآنی آیات اور احادیث کی طرف دیکھنے کی زحمت گوارا کرنے کے بجائے مسلکوں کی وکالت کی گئی ۔ صراطِ مستقیم نہیں پگڈنڈیوں کی بھول بھلیوں سے نصاب مکڑی کاجالا ہے۔ مفتی تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمن اور مولانا فضل الرحمن کے جیب اور پیٹ بھرنے کا وسیلہ ہویا سیاسی حکومت کہدے، تو یہ لوگ امت پر رحم کھاکر درسِ نظامی کی تعلیم کو درست کرنے پر نہ صرف آمادہ ہونگے بلکہ عوام کے ایمان اور اسلام کیلئے اپنی خدمات بھی پیش کرینگے، اب تو یہ خانہ خراب سودی نظام کے جواز اور سیاسی خدمات کیلئے مرمٹ رہے ہیں۔
امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک طلاق کے بعد عدت میں نکاح قائم رہتاہے، اسلئے ہر فعل وقول رجوع کیلئے معتبر ہے، پھر فقہاء نے غلطی سے شہوت کی نظر پڑنے ، نیند کی حالت میں میاں یا بیوی کا شہوت سے ہاتھ لگنے کو بھی رجوع قرار دیا جو غلو ہے ، شافعی مسلک والوں نے اسکے برعکس نیت نہ ہو تومباشرت سے بھی رجوع کو معتبر قرار نہیں دیاہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: لاتغلوا فی دینکم ’’اپنے دین میں غلو مت کرو‘‘۔ اس سے بڑھ کر غلو (حدود سے تجاوز) کی مثال اور کیا ہوسکتی ہے؟ ۔
قرآن وسنت میں میانہ روی اور اعتدال کا راستہ ہے، اللہ نے ناراضگی وطلاق کی عدت بھی بیان کی ہے اور اس میں صلح و رضامندی سے مشروط رجوع کی اجازت کو بھی واضح کیا ہے، دونوں میں جدائی کا خوف ہو تو ایک ایک رشتہ دار دونوں جانب سے تشکیل دینے کی بھی ہدایت فرمائی ہے ، تاکہ ان دونوں کا ارادہ صلح کرنے کا ہو تو معاملہ سلجھ جائے اور اللہ تعالیٰ ان میں موافقت پیدا کردے۔اللہ نے باربار معروف طریقے سے رجوع یا معروف طریقے سے رخصت کرنے کا حکم دیا ہے۔ عربی میں معروف اور احسان کی ضد منکر ہے۔ نکاح، طلاق اور رجوع میں باربار احسان اور معروف طریقے کی تلقین کی گئی ہے۔ دورِ جاہلیت میں جو منکر صورتیں طلاق ورجوع کے حوالہ سے رائج تھیں اسلام نے ان سب کا خاتمہ کردیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے ایک ساتھ تین طلاق پر شوہر کے غیرمشروط رجوع کو ختم کیا تھا۔ اسلام نے محض طلاق کے بعد بھی شوہر کو غیرمشروط رجوع کا حق نہیں دیا ، حضرت عمرؓ کے اقدام کی اسلئے صحابہؓ نے توثیق کردی، اگرطلاق واقع نہ ہو تو عورت شادی نہ کرسکے،جیسے بہشتی زیور و بہارشریعت میں امت کے اس اجماع سے انحراف کیاگیا ہے ۔کسے یہ کیامعلوم تھا کہ باہمی رضامندی سے بھی رجوع کا راستہ بنداور حلالہ کا دروازہ کھول دیا جائیگا۔
حضرت عمرؓ کے کارناموں میں سرِ فہرست ہوگا کہ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد شوہر سے رجوع کا حق چھین لیا،مگر اسکا مطلب یہ ہرگز نہ تھا کہ اللہ نے بار بار باہمی رضا سے عدت کا حوالہ دیکر رجوع کی گنجائش رکھ دی اور حضرت عمرؓ نے ان آیات کو منسوخ یا انکے احکام کو بھی مسخ کرکے رکھ دیا،بلکہ قرآن وسنت کی روح اور الفاظ کا یہ تقاضہ تھا کہ شوہر طلاق دے تو صلح کے بغیر اس کو رجوع کا حق حاصل نہیں۔ عورت کو اس حق سے محروم سمجھا گیا تو حضرت عمرؓ نے ایک ساتھ تین طلاق کی صورت میں شوہر کو رجوع کے حق سے محروم کیاتھالیکن یہ محرومی صرف اس صورت میں تھی جب عورت صلح کیلئے رضامند نہ ہو۔ حضرت عمرؓ کی طرف سے یکطرفہ رجوع کا حق نہ دینا اور طلاق واقع ہونے کا متفقہ فتویٰ تاکہ عدت کے بعد دوسری شادی ہوسکے دیگر بات ہے اور اس بنیاد پر باہمی صلح اور رجوع کا راستہ روکنا اور حلالہ پر مجبور کرنا قرآن اور انسانیت کو مسخ کرنا ہے۔ حضرت عمرؓ پر قرآنی آیات کو مسخ کرنے کے اقدام اور حلالہ کی لعنت کو جواز فراہم کرنے کا الزام لگاکر سنی مکتبۂ فکر نے اہل تشیع کو صحابہؓ سے بدظنی پرمجبور کیا اور اپنوں کاحلالہ کی لعنت سے کباڑا کردیاہے۔
کالعدم سپاہ صحابہ جماعتِ اہلسنت اور کالعدم فقہ جعفریہ وحدت المسلمین کوایک ہی اسٹیج سے کھڑے ہوکر قرآنی آیات ، احادیث صحیحہ اور فاروق اعظمؓ کے اقدام کی درست توجیہ سے پاکستان کو ایران و سعودیہ عرب اور عالم اسلام کا امام بنانا ہوگا۔اور طلاق کے متعلق قرآن وسنت کیخلاف غیرفطری تصور کا خاتمہ کرنا ہوگا کہ شوہرایک طلاق دے تو عورت کی دوسری جگہ شادی کے بعد بھی پہلا شوہر دو طلاق کا مالک ہو۔

مدارس کے نصاب کی درستگی پر بہادر قیادت توجہ دے

مدارس کے نصاب کی اصلاح وقت کی اہم ضرورت ہے۔ قرآن وسنت میں کوئی ابہام نہیں مگر قرآن کریم کی آیات کا حلیہ بگاڑنے کو علوم میں مہارت کانام دیا گیا۔ اگرہم نے ہوش کے ناخن نہ لئے توبرا ہوگا اللہ تعالیٰ نے میں فرمایا کہ لاتقربوا الصلوٰۃ وانتم سکریٰ حتی تعلموا ماتقولون ولا جنبا الاعابری السبیل حتی تغتسلوا ’’نماز کے قریب نہ جاؤجب تم نشے کی حالت میں ہو، یہاں تک کہ تم سمجھو ،جوتم کہہ رہے ہو اور نہ جنابت کی حالت میں مگر یہ کہ کوئی مسافر ہو،یہاں تک کہ تم نہالو‘‘۔ قرآن کی آیت کا مفہوم بالکل واضح ہے کہ نشہ کی حالت میں نماز نہیں پڑھ سکتے ، یہاں تک کہ نشہ اتر جائے اور جو کچھ نماز میں پڑھا جائے اس کو سمجھا بھی جائے۔ دوسرا یہ کہ جنابت کی حالت میں بھی نماز پڑھنا جائز نہیں مگر مسافر پڑھ سکتا ہے ،یہاں تک کہ تم نہالو۔ یعنی مسافر کیلئے نہائے بغیر تیمم سے بھی نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ یہ آیت عام لوگوں کو سمجھا دی جاتی جس سے عوام اپنے بچوں کو نماز کا مفہوم سمجھانے کو فرض قرار دیتے۔ اسلئے کہ نشہ کی حالت کے بغیر نشہ میں ہونے کی طرح نماز سمجھے بغیر پڑھنے کو بہت معیوب قرار دیا جاتا۔ دورانِ سفر جہاز یا پانی کی قلت وغیرہ کی وجہ سے کوئی نماز پڑھنا چاہتا تو اس کو بھی نماز پڑھنے میں مشکل نہ ہوتی اور کوئی نماز نہ پڑھنا چاھتا تو بھی اسکے لئے یہ مشکل نہ ہوتی کہ ہرحالت میں نماز پڑھنا ضروری ہے۔ سفر میں جنابت ہوجائے تو تیمم سے نماز پڑھ بھی سکتے ہیں اور نہ پڑھنا چاہیں تو پڑھنے کا حکم نہیں بلکہ آیت میں محض اجازت ہے ۔
آیت کی وضاحت میں بخاری شریف کی روایت نقل کردی جاتی کہ حضرت عمرؓ نے سفر کی حالت میں جنابت کی وجہ سے تیمم سے نماز نہ پڑھی اور حضرت عمارؓ نے پڑھ لی۔اور نبی کریم ﷺ نے دونوں کی توثیق کردی۔ بعض لوگ عبادت کی طرف زیادہ رحجان رکھتے ہیں تو ان کو تیمم سے غسل کئے بغیر بھی اللہ نے نماز سے روکا نہیں ہے اور بعض صفائی پسندطبع کے ہوتے ہیں اور وہ جنابت کی حالت میں نماز پڑھنے کو سفر میں تیمم سے نہیں پڑھنا چاہتے تو ان کو مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے بھی دونوں کی توثیق فرمائی ہے۔
علماء ومفسرین کا فرض بنتا تھا کہ عوام کو قرآن وسنت کا مفہوم سمجھاکر اپنے فرضِ منصبی کا حق ادا کرلیتے مگر یہ حضرات دوسروں کی کیا رہنمائی کرتے، خود بھی منطق کی شراب پی کر وہ ہچکولے کھارہے ہیں کہ الحفیظ والامان۔ ایک طرف کہیں سے روایت نکال کر لائے ہیں کہ حضرت علیؓ شراب کے نشہ میں دھت تھے، جس کی وجہ سے نماز پڑھاتے ہوئے آیات غلط سلط اور خلط ملط ہوگئیں، جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ پھرخودساختہ و عقل باختہ منطق نے ان کو للکارا کہ ’’ جنابت کی حالت میں غسل کے بغیر نماز کے قریب نہ جانے اور مسافر کو اجازت دینے کا بھلا کیا معنیٰ ہوسکتاہے؟،اس کیلئے سوچ وبچار کے گھوڑے دوڑائے اور جواب دیا کہ لامحالہ صلوٰۃ سے مراد نماز نہیں بلکہ مسجد ہے‘‘۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟جبکہ آیت میں صلوٰۃ کا ذکر تو ایک ہی مرتبہ کیا گیا ہے کہ مرضی ہو تونماز مراد لی جائے اور مرضی ہو تو پھر اس سے مسجد مراد لی جائے؟۔ اس مشکل کا حل یہ نکالا کہ ایک دوسری روایت تلاش کرکے دم لیا، چنانچہ حضرت علیؓ کے متعلق لکھا کہ یہ آپؓ کے بارے میں ہے کہ جنابت کی حالت میں مسجد میں آنے کی اجازت دی گئی‘‘۔ اہل تشیع نے پہلی روایت پر ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کو بھی کافر ومرتد قرار دیا اور دوسری روایت کو خصوصی اعجاز سمجھ کر حضرت علیؓ کے بارے میں عام قانون وقواعد سے بالاتر عقیدے کی تبلیغ شروع کردی۔
برصغیر پاک وہند کے مشہور عالم حضرت شاہ ولی اللہؒ نے حضرت عمرؓ اور حضرت عمارؓ کا واقعہ نقل کرتے ہوئے بڑے تعجب کا اظہار کیا ہے کہ حضرت عمرؓ نے جب حضرت عمارؓ کے بارے میں سنا تو اپنا مؤقف بدلا کیوں نہیں؟۔ اور اس سے بڑا تعجب یہ کیا کہ نبیﷺ نے حضرت عمرؓ کے سامنے وضاحت کیوں نہ فرمائی؟۔ پھر اپنے خیال کا اظہار کیاکہ نبیﷺ یہ چاہتے تھے کہ قرآن کی تفسیر کو مقید کرنے کی بجائے زمانہ پر چھوڑ دیا جائے تاکہ مفہوم محدود نہ ہوجائے۔ علامہ مناظر احسن گیلانیؒ نے بھی تدوین فقہ، تدوین حدیث اور تدوین قرآن کتابیں لکھ کر حضرت شاہ ولی اللہؒ کے اس حوالہ کو آخری حل کے طور پر پیش کیا ہے۔ میرے اساتذۂ کرام میں حضرت مولانا بدیع الزمانؒ استاذ تفسیروحدیث واصول فقہ والنحو وغیرہ اگر آج حیات ہوتے تو یقیناًمجھے بڑی تھپکی دیتے کیونکہ ہمارے مرشد حاجی عثمانؒ پر فتویٰ کے دفاع میں بھی میری جدوجہد کو انہوں سراہا تھا۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں ان سے اکثر اساتذہ اور طلبہ بہت عقیدت ومحبت رکھتے تھے۔ وہ طلبہ سے یہ تلقین ضرور کرتے کہ روزانہ ایک ایک رکوع کا ترجمہ پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کریں، مولانا بدیع الزمانؒ نے ہی اصول فقہ کی کتابیں ہمیں پڑھائی تھیں، تفسیرکی ابتداء بھی انہی سے کی تھی۔ جب ان سے مجھے آج بھی عقیدت ومحبت ہے، ان سے علم و فیضِ صحبت کو تبرک سمجھتا ہوں تو تاریخ کے ادوار کا بھی شکر گزار ہوں مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ حق وباطل میں تمیز کا واضح راستہ بھی نظر انداز کردوں،ابوطالب ، علیؓ ، حسنؓ ، حسینؓ ، زیدؒ کے خانوادے سے تعلق کا حق ادا کرناہے۔

اسلام کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے

یہود ونصاریٰ کے مذہبی طبقہ نے اپنے دین کا حلیہ بگاڑ دیا ، قرآن نے انکی مثال کتے اور گدھے سے دی، حدیث میں مسلم امہ کی بھی پیشگوئی ہوئی ہے کہ وہ بھی انکے نقشِ قدم پر چلیں گے، حدیث کی پشین گوئی پوری ہوئی ہے، مذہبی طبقے نے اسلام کا حلیہ بگاڑ دیاہے، کافر اُمت پر ایسے ٹوٹ پڑے جیسے بھوکے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں کافر ممالک یہ سب کچھ اپنے دفاع میں کررہے ہیں۔ دہشت گردوں کی آبیاری بھی انہوں نے کی تھی اور اپنے گماشتہ ممالک کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا تھا۔ پاکستان اور سعودی عرب اس میں پیش پیش تھے، افغانستان، عراق ، لیبیا اور شام وغیرہ کی تباہی کا سہرا ہمارے سرپرست اعلیٰ امریکہ اور اسکے سی آئی اے کے سر پر ہے، ہمارے حکمران سمجھ رہے تھے کہ امریکہ ان کو دل سے لگاکر اپنی چھاتیوں سے دودھ پلارہا ہے ، حالانکہ وہ کم بخت اپنا پیشاب فیڈ کررہا تھا۔ یہ ہمارے حکمران طبقہ کی نااہلی تھی کہ پیشاب کی جگہ دودھ سمجھ رہا تھا، اور اب شراب کی طرح یہ خراب عادت ’’چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی‘‘۔
ہم اسلام کے برگشتہ فرقوں اور پگڈنڈیوں کی بات نہیں کررہے ہیں اور نہ ایسے قدیم لائبریریوں کے قصے سناتے ہیں جو کالعدم اور مفقود ہیں۔بوہری ، آغاخانی، ذکری وغیرہ کی بات بھی نہیں کررہے، شیعہ واہلحدیث کی بات بھی نہیں ہورہی ہے بلکہ پاکستان میں اسلام کیلئے صراطِ مستقیم اور مینارۂ نور سمجھے جانے والے حنفی دیوبندی بریلوی بڑے مدارس کا شاخسانہ رکھتے ہیں کہ وہ اپنے نصاب میں اسلام کے حوالہ سے کتنی غیر فطری سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ اپنے اصولِ فقہ کی کتابوں میں قرآن پاک اللہ کی کتاب کے بارے میں یہ پڑھاتے ہیں کہ ’’ کتابی شکل میں یہ کتاب نہیں، قلم سے لکھی جانے والی کتاب ایک نقش ہوتاہے جو لفظ ہوتا ہے اور نہ معنیٰ‘‘المکتوب فی المصاحف سے مراد قرآن کے عام نسخے نہیں بلکہ سات قاریوں کے الگ الگ قرآن ہیں، نقل متواتر سے مراد یہ ہے کہ بعض ایسی آیات بھی مشہور اور خبر احاد ہیں جو اصل میں قرآن ہیں لیکن متواتر نقل نہ ہونے کی وجہ سے اللہ کی کتاب میں شامل نہیں، بلاشبہ سے مراد یہ ہے کہ مشکوک آیات بھی اس تعریف سے خارج ہیں، جیسے بسملہ جو صحیح بات یہ ہے کہ وہ قرآن ہے لیکن اس میں شبہ ہے اور شبہ اتنا قوی ہے کہ اس کا منکر کافر نہیں بنتا‘‘۔ حالانکہ قرآن کی پہلی وحی میں قلم کے ذریعہ تعلیم اور مقدمۃ الکتاب سورۂ فاتحہ اوراسکے بعد سورۂ بقرہ کی ابتداء بھی بسم اللہ سے کی گئی ہے اور یہ بھی واضح کردیا گیا ہے کہ ذلک الکتاب لاریبہ فیہ ’’یہ وہ کتاب ہے جس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے‘‘۔ سورۂ بقرہ میں ہی وضاحت ہے کہ الذین یکتبون الکتاب بایدیہم ’’جو کتاب اپنے ہاتھوں سے لکھتے ہیں‘‘۔ یہ کتاب کو بھی کتاب نہیں مانتے۔
اصول فقہ میں حقیقت اور مجاز کی تعریف اور استخراجی مسائل کا ذکرکرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ جہاں حقیقی معنی مراد ہوسکتا ہے وہاں مجازی معنی مراد نہیں لیا جاسکتا۔ نکاح کے حقیقی معنیٰ لغت میں ضم ہونے کے ہیں، عقد کیلئے نکاح مجازی معنی ہے۔ جس آیت میں باپ کی منکوحہ سے نکاح نہ کرنے کا حکم ہے، اس میں جائز اور ناجائز مباشرت دونوں شامل ہیں۔ اگر باپ نے صرف عقدِ نکاح کیا ہو، مباشرت نہ کی ہو تو احناف کے نزدیک یہ قرآن سے نہیں اجماع کی وجہ سے ناجائز ہے‘‘۔ (نورالانوار کی اردو شرح قوت الاخیار)۔
حالانکہ یہ سراسر بکواس ہے، نکاح لغت میں بھی جائز تعلق ہی کا نام ہے، حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے ہابیل اور قابیل کے وقت سے نکاح اور زنا میں فرق ہے، لغت میں وہ معنیٰ ہی مراد لیا جاتا ہے جو معاشرے کی بول چال کا حصہ ہوتاہے۔ قرآن میں ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق والی صورت کو بھی واضح الفاظ میں نکاح کہا گیاہے،زنا کو نکاح قرار دینا اور نکاح کو زنا قرار دینا اور عقدِ نکاح سے اس کی نفی کرنا وہ منطق ہے جو علماء ومفتیان کیلئے عقل، فطرت، انسانیت اور اسلام سے دور ہونے کا فطری اورمنطقی نتیجہ ہے۔ اصولِ فقہ کا اسلوب پڑھنے اور پڑھانے والے بیچاروں کو خود بھی سمجھ میں نہیں آتا اور آئیگا بھی کیسے؟۔ لکھا ہے کہ ’’ امر تکرار کا تقاضہ کرتا ہے، شوہر اپنی بیوی سے کہے کہ اپنے کو طلاق دے، تویہ ایک طلاق بھی ہوسکتا ہے اور عدد کا مجموعہ تین طلاق بھی لیکن دو طلاق مراد نہیں ہوسکتے‘‘۔ استاذ نے پڑھانا ہوتا ہے اور طلبہ نے رٹا لگانا ہوتا ہے باقی اس کا افہام وتفہیم سے کوئی تعلق بھی نہیں ہوتا۔ اسی تعلیم کا نتیجہ ہے کہ یہ بھی پڑھایا جاتا ہے کہ ’’بیوی سے اولاد پیدا ہونے کے بعد بیوی شوہر کیلئے بعضیت یا جزئیت کی وجہ سے حرام ہوجاتی ہے لیکن ضرورت کی وجہ سے جائز قرار دی گئی کیونکہ اس میں حرج ہے‘‘۔ حالانکہ پھر کم زاکم حلالہ کے بعد بھی اس کو حلال نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس سے بڑھ کر نصابِ تعلیم میں یہ بکواس بھی پڑھائی جاتی ہے کہ ’’ ساس کی شرمگاہ کے باہر والے حصہ کو شہوت کی نگاہ سے دیکھنے میں عذر ہے،اسلئے یہ حرمتِ مصاہرت کا ذریعہ نہیں لیکن ساس کی شرمگاہ کے اندورونی حصہ کو شہوت سے دیکھنے پر حرمت مصاہرت لازم ہوگی یعنی بیوی حرام ہوجائیگی‘‘۔ اگر ہمارا مقتدر طبقہ امریکہ سے ڈرتاہے توکیا اس نصابِ تعلیم پر بھی بازپرس کرنے سے گھبراتاہے؟ پھر تف ہے ان پر!۔

مفتی عبد القوی کا فتویٰ اور قندیل بلوچ اسکنڈل کے علمی حقائق

وہ محترمہ جومحرم بہن ،بیٹی وغیرہ اور منکوحہ نہ ہو، جس قسم کا معاہدہ کیا جائے یہ نکاح ہے، نکاح ہے، نکاح ہے۔ قرآن وسنت سے یہی سمجھاہے

مفتی عبدالقوی نے فتویٰ جاری کیا تو پاکستان تحریک انصاف کے علماء کے سربراہ تھے، پھرعرصہ بعدقندیل بلوچ کے واقعہ کی وجہ سے ہٹادیا گیا

بدقسمتی ہے کہ واقعات کی بنیاد پر معاشرے میں ردِ عمل آجاتا ہے مگراس نصاب کی غلطیوں پر کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آتا جو خرابیوں کی جڑ ہے

پاکستان بھر میں مفتی عبدالقوی کا فتویٰ سوشل میڈیا پر ویڈیو پیغام کے ذریعہ عام ہوا، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی زینت بنا، مفتی صاحب اس وقت ہلال کمیٹی کے رکن اور پاکستان تحریک انصاف علماء ونگ کے سربراہ بھی تھے۔ اپنے اس فتوے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے معروف قندیل بلوچ کو میڈیا پر ملنے کی دعوت بھی دی اور ذوق کی پاسداری ایک ہوٹل میں ہوئی۔ جیوٹی چینل نے کچھ ریٹنگ اور کچھ تحریکِ انصاف کی مخالفت کی وجہ سے اس کو خوب اچھالا، موصوف کو علماء ونگ تحریکِ انصاف ، ہلال کمیٹی کی رکنیت اور ٹی وی چینلوں پر اپنے فرائضِ منصبی سے محروم کردیا گیا۔ یہ دنیا اتنی تنگ وتاریک ہے کہ امریکی صدارتی امید وار ڈونلڈ ٹرمپ اور اس سے پہلے صدر کلنٹن پر بھی اس قسم کے واقعہ پر بڑی مہم سازی ہوئی مگر اسلامی دنیا میں صرف واقعہ ہی نہیں بلکہ قانون سازی کی بنیاد بھی اتنی شرمناک ہے کہ عام لوگوں کو پتہ چلے تو صحیح بخاری اور فقہ کی کتابوں پر تعجب کی انتہاء کردیں۔ مغیرہ ابن شعبہؓ کے خلاف تین گواہوں نے گواہی دی تو حضرت عمرؓ نے چوتھے گواہ کی آمد پر کہا کہ اللہ اسکے ذریعہ اس صحابی مغیرہؓ کو ذلت سے بچائے گا، پھر اتنی زور داز آواز سے چیخ کر کہا بتا تیرے پاس کیا ہے ؟ کہ راوی خوف سے بیہوش ہونے کے قریب آگیا، چوتھے گواہ نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ اس خاتون(ام جمیلؓ) کے پاؤں مغیرہؓ کے کاندھے پرگدھے کے کانوں کی طرح پڑے تھے اور اس کی سرین دکھائی دے رہی تھی۔ حضرت عمرؓ نے باقی تینوں گواہوں پر حدِ قذف جاری کردیا، ان کو80,80کوڑے لگادئیے،پھر پیشکش کردی کہ آئندہ پھر تمہاری گواہی قبول کی جائے گی ،اگر جھوٹ کا اقرار کرلو، دوگواہوں نے جو صحابی نہ تھے یہ اقرار کرلیا کہ ہم نے جھوٹ بولا تھامگر واحدصحابیؓ گواہ اپنی بات پرڈٹے کہ جو دیکھا سچ تھا۔ یہ واقعہ صحیح بخاری اور فقہ وتفسیر کی کتابوں میں قانون سازی کے حوالہ سے ہے۔
امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک حضرت عمرؓ کی پیشکش قرآن کی آیت کے منافی تھی، قرآن میں ہے کہ جھوٹی گواہی دینے والے کی گواہی کبھی قبول نہ کیجائے۔ جمہور فقہاء امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ نے اس واقعہ کو دلیل بنایااور یہ مسلک اختیار کیا ہے کہ’’ اس واقعہ کی بنیاد پر توبہ کرنے کے بعد جھوٹے گواہ کی گواہی قبول کی جائے گی‘‘۔ پہلے حضرت عمرؓ نے مغیرہ ابن شعبہؓ سے بصرہ کی گورنری چھینی مگرپھر گورنر بنادیا ۔ یہ قانون سازی قرآن وسنت کی بنیادپر ہرگز نہیں۔ البتہ اللہ نے در اصل حضرت عمرؓ کے ذریعہ غیرشرعی، غیرانسانی اور غیرفطری سنگساری کی سزا کو ہمیشہ کیلئے معطل کردیا۔جو قرآن وسنت نہیں بلکہ یہود کی توراۃ میں اللہ کے احکام کی تحریف کا نتیجہ تھاجسکے سب سے بڑے داعی حضرت عمرؓ ہی تھے، اگر قرآن کیمطابق 100کوڑے کی سزا ہوتی تو حضرت عمرؓ کیلئے پریشانی کا سبب نہ ہوتی۔ یہ قرآن وسنت، فطرت وشریعت سے انحراف کا نتیجہ تھا کہ مجرموں کی بجائے گواہوں کے سزا کی غلط روایت بھی پڑگئی۔ سورۂ نور میں زنا کی سزا 100کوڑے کے بعد نبیﷺ نے کسی پر سنگساری کی سزا جاری نہیں کی۔ جب اللہ کی طرف سے کوئی حکم نازل نہ ہوا تھا تو یہ سنگساری کی سزا اہل کتاب کی موافقت کی وجہ سے دی گئی مگر اسمیں آخری حد تک رحم کھانے کا عنصر موجود تھا جبکہ ایک گروہ کی موجودگی میں کوڑوں کی سزا میں رحم کھانے سے روکا گیا ہے اور وہ فطرت کے عین مطابق ہے اس پررحم کھانے کیلئے پاپڑ بیلنے کی ضرورت بھی نہیں۔
صحیح مسلم کی روایت کیمطابق حضرت عمرؓ کے دور تک متعہ کا سلسلہ جاری تھا،حضرت عمرؓ نے اس پابندی لگائی، صحیح بخاری کیمطابق نبیﷺ نے سفر میں متعہ کی اجازت دی اور قرآن کی آیت کا حوالہ دیکر فرمایا کہ’’ان چیزوں کو اپنے اوپر حرام مت کرو، جن کو اللہ نے حلال کیا ہے‘‘۔ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک نے مسیار کے نام سے متعہ کی اجازت دی ہے، مفتی عبدالقوی نے متعہ اور مسیار کا نام لئے بغیر کہا کہ ’’شادی ایک نکاح متعددکی اجازت میرے فہم کے مطابق قرآن وسنت میں موجود ہے‘‘۔ سنی مکتب کی معروف تفاسیر میں بھی متعہ کی اجازت قرآن کی آیات میں موجود تھیں، بعض قرأتوں میں ’’ایک متعین وقت تک نکاح کی وضاحت ہے‘‘۔ یہ قرأت نہیں ہوسکتی بلکہ درسِ نظامی میں جلالین کے طرز پر کوئی پرانی تفسیر ہوگی لیکن بہرحال مفتی عبدالقوی نے اسی کی بنا پر فتویٰ دیا ہوگا۔
مشہور شخصیت حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے جب حضرت علیؓ کے سامنے متعہ کو زنا کہا تو حضرت علیؓ نے کہا کہ’’تم خود بھی تو اسی متعہ کی پیداوار ہو‘‘(زادالمعاد علامہ ابن قیمؒ )،یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حضرت اسماعیلؑ کی والدہ ماجدہ لونڈی تھیں، رسول اللہﷺ کے ایک فرزندزندہ ہوتے تو ان کی ماں لونڈی تھی، حضرت ہاشم کے بیٹے حضرت عبدالمطلب کی والدہ معروف بیوی نہ تھی اسلئے جب لائے گئے تو لوگ ان کو بڑے بھائی مطلب کے غلام سمجھتے تھے، اصل نام شیبہ تھامگر عبدالمطلب نام مشہور ہوا۔ حضرت ابوہرہؓ نے صحابہؓ سے کہا کہ ’’تم خود پر کس بات کا فخر کرتے ہو، قریش تو آسمان (لونڈی )کے بیٹے ہیں۔ کاش! ہم دنیا میں اسلامی نظام کے نفاذ کیلئے شخصی کردار اور فرقہ وارانہ تعصبات چھوڑ کر مثبت راہ کو اپنا نصب العین بنالیں تو ہمارے معاشرے اور معاشرتی نظام کی اصلاح ہوسکتی ہے۔

اداریہ نوشتہ دیوار ، ماہ اکتوبر 2016

جیوٹی چینل پر سلیم صافی نے مشرق وسطیٰ کے مسائل کے ماہر سے انٹرویو کیا تو اس نے بتایا کہ القاعدہ اور داعش میں شدید اختلافات ہیں۔ القاعدہ کا نظریہ ہے کہ فی الحال عالمی خلافت کے قیام کیلئے عملی اقدام درست نہیں، افغانستان میں امارت اسلامی کے بعد جہادی سر گرمیاں جاری رکھی جاتیں تو عالمی قوتوں کو مشکلات سے دور چار کیا جاسکتا تھا، داعش مفاد پرست ہے جبکہ داعش کا مؤقف یہ ہے کہ’’ اسلامی خلافت کا قیام ایک شرعی فریضہ ہے، جس کیلئے قریش ہونا اور جسم کے اعضاء کا سالم ہونا بنیادی شرط ہے اور یہ دونوں شرائط امیرالمؤمنین ملا عمر میں نہیں پائی جاتی ہیں‘‘۔ القاعدہ، طالبان اور داعش کے آپس سمیت امت مسلمہ کے اختلافات کو سلجھانے کیلئے اغیار کی طرف دیکھنے کی بجائے اندرون خانہ مسلم علماء، دانشور اور ہماری ریاستوں کو باہمی طور سے مل بیٹھ کر حقائق کی طرف آنا ہوگا۔
اسماعیلی آغا خانی اور داؤدی بوہرہ کے اہل تشیع فرقوں نے اپنی جماعتوں اور ان کے سربراہوں کو امام زمانہ قرار دے رکھا ہے، اسلئے وہ تمام ممالک میں بہت خاموشی کیساتھ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور کسی سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں۔ اہلحدیث سے کٹ جانی والی جماعت المسلین نے بھی اپنی جماعت اور اسکے امیر کا ایک تصور بنالیا ہے جو کراچی سے پاکستان بھرمیں اپنی سرگرمیاں جاری ہوئے ہیں، اہل تشیع کے امامیہ فرقے کے نزدیک احادیث میں بارہ خلفاءِ قریش کا ذکر ہے اور وہ انکے نزدیک حضرت علیؓ سے مہدی غائب تک بارہ ائمہ اہلبیت ہیں۔ جب تک ان کے نزدیک مہدی غائب کا ظہور نہیں ہوجاتا ، وہ اسلامی امارتوں کے قیام اور اجتہاد سے کام لیکر اپنے اقدامات جاری رکھے ہوئے ہیں، ایران میں انکی جمہوری حکومت اور شام میں خاندانی بادشاہت ہے۔ دنیا بھر میں اہل تشیع کا یہ معروف فرقہ نہ صرف اپنے عقائد ومسلک بلکہ سیاسی اور جہادی جدوجہد میں بھی مصروفِ عمل ہے۔ صدام حسین عراق میں سنی حکمران تھے جس کا تختہ الٹ کر امریکہ نے وہاں شیعہ کوحکومت بنانے کا موقع فراہم کیا، اب امریکہ شام کے شیعہ حکمران حافظ بشار الاسد کو ہٹانے اور وہاں کسی سنی حکمران کو لانے کی تگ ودو میں ہے۔ حال ہی میں داعش کے نام پر امریکہ نے 60شامی فوجیوں کو بمباری کا نشانہ بناکر شہید کردیا اور پھر وضاحت کی کہ غلط فہمی میں یہ ہوا ہے۔ روس امریکہ کیخلاف تھوڑی بیان بازی کرلیتا ہے اور یہ بھی مسلم ریاستوں کے بھیگی بلی بن جانے کے مقابلہ میں غنیمت سے کم نہیں۔
روس کی فوجیں پاکستان میں پہلی بار ایسے موقع پر مشقیں کرنے آئی ہیں جب بھارت اور دنیا کشمیر کے مظالم سے توجہ ہٹانے کیلئے پاکستان پر دباؤ بڑھارہے ہیں۔ امریکہ سے کھربوں کی خریداری کا معاہدہ من موہن سنگھ نے کیا تھا، اسلحہ کی خریداری اور اس کا استعمال ہو یا پاکستان اور خطے سے کمائی کرکے بھارت کو اپنی قسطیں ادا کرنے ہوں، لگتا ہے کہ امریکہ نے بھارت کو مانیٹری کا فریضہ سونپ دیا ہے۔چین اور سعودی عرب سے دشمنی ایران ، افغانستان اور بھارت سے امریکہ کی دوستی بنے تو پاکستان کہاں کھڑا ہوگا؟۔ باتوں سے بات نہیں بنے گی بلکہ ایک مضبوط اور مربوط لائحۂ عمل تشکیل دینا ہوگا۔ تب پاکستان کی سلامتی خطرے سے باہر ہوسکتی ہے۔ سب سے پہلے ان معاشرتی مسائل کو پاکستان اٹھائے جن پر عالمِ اسلام میں یکجہتی اور ہم آہنگی پیدا ہوسکتی ہے۔ افغانستان، ایران ، سعودی عرب، عرب امارات، کویت ،قطر عمان، مصر،سوڈان، لیبیا، شام، عراق ، یمن، ملائشیاء، انڈونیشاء،ازبکستان اور تاجکستان وغیرہ اور تمام مسلم ممالک اور غیرمسلم ممالک بھارت ، امریکہ،لندن، فرانس، جرمنی ،روس وغیرہ سے علماء ومفتیان کے وفود کو پاکستان طلب کرکے خواتین کے حقوق اور خلع وطلاق کا مسئلہ سامنے رکھا جائے تو ایک یکجہتی کا انقلاب پیدا کرنے میں بالکل بھی کوئی مشکل نہ ہوگی۔پاکستان کے مختلف مکاتبِ فکر کے علماء ومفتیان اور دانشوروں کو حکومت اور ریاست بلاکر اس کا تجربہ کرکے بھی دیکھ لے۔
نماز کے اوقات میں فرق اسلئے ہوتا ہے کہ کہیں دن تو کہیں رات ہوتی ہے لیکن پوری دنیا میں چاند ایک ہی ہے، اگر امریکہ اور پاکستان میں ایک دن میں روزہ اور عید کا تصور درست ہے تو پاکستان ، ایران اور سعودی عرب میں بھی ایک دن کا ہونا کوئی غلط، غیرشرعی اور غیرفطری بات نہیں۔ ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن کو دن دھاڑے کچھ فاصلے پر بھینس نظر نہیں آتی تو ہلال کہاں سے نظر آئیگا۔ اگر یہی ہلال شرعی ہو، جو پاکستان میں دکھتا ہے ، ٹی وی چینلوں کی زینت بنتاہے ، کوئی نہیں بھی دیکھنا چاہے تو آسانی سے نظر آنے کیلئے تیار ہوتا ہے، بس خالی آسمان کی طرف نگاہ اٹھانے کی دیر ہوتی ہے تو پھر ایسے ہلال کو دیکھے کیلئے کمیٹی کا بوجھ سرکار کو اٹھانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ ایک مرتبہ محکمہ موسمیات پاکستان نے اعلان کیا کہ کراچی میں چاند نظر آنے کا امکان ہے، اسلام آباد میں ابرآلود موسم کی وجہ سے بالکل نہیں تو میڈیا پر دکھایا جارہا تھا کہ مفتی منیب الرحمن کراچی سے اسلام آباد چاند دیکھنے پہنچے۔ وہاں بادلوں میں چاند تلاش کرنے کے مناظر دکھائے جارہے تھے۔
اتفاق سے مجھے اور اشرف میمن کو اسلام آباد کسی کام جانا پڑا تھا، ائرپورٹ پر یہ ہلال کمیٹی والے حضرات بھی مل گئے، ایک ہی جہاز میں ہماری ٹکٹیں تھیں۔اشرف میمن نے مفتی منیب الرحمن سے سوال جواب کئے۔ اشرف میمن نے کہا کہ اگر چاند یہاں اور سعودی عرب کا اوقات کی وجہ سے ایک دن کافرق ہے تو یہاں اور امریکہ میں اوقات کا زیادہ فرق ہے، پھر زیادہ دنوں کا فرق ہونا چاہیے ۔ مفتی منیب الرحمن نے کہا کہ ’’یہ پاکستان ہے انجوائے کرو‘‘۔ یہ پرویزمشرف کے دور کی بات ہے۔ جب پوری دنیا میں چاند ایک ہے تو عالمی اسلامی خلافت ہو تو بھی ایک دن میں عید ہوگی ، پھر عالمی اسلامی خلافت کے قیام سے پہلے کیا عالم اسلام کی ریاستیں ایک دن کے روزے، عیدالفطر اور عیدالاضحی پر متفق نہیں ہوسکتے ہیں یا تمام ریاستوں کو مرغے پالنے کی شرعی نہیں سیاسی ضرورت ہے؟۔ صرف اقدام کی ضرورت ہے ورنہ یہ کوئی مشکل کام نہیں، جس سے عالم اسلام میں اتحاد کی ایک نئی روح دوڑے گی۔
احادیث میں مسلمانوں کی جماعت ، خلافت کے قیام اور امام زمانہ کو پہچاننے پر زور دیا گیا ہے، ایک وقت تک کا مولانا فضل الرحمن اپنی جماعت پر احادیث کو فٹ کرتا تھا، جمعیت علماء اسلام کی ایک بڑی مرکزی علماء کانفرنس میں ان کا یہ خطاب بھی سینٹر مولانا صالح شاہ قریشی کے کزن مولانا نیاز محمد قریشی نے ’’آذان انقلاب‘‘ کے نام سے شائع کیا تھا، میرے بھائی جمعیت علماء اسلام کے سابقہ مرکزی شوریٰ کے رکن اور مولانا مفتی محمودؒ و مولانا فضل الرحمن کے عقیدتمند پیر نثار شاہ نے کہا تھا کہ ’’میرا پندرہ سالہ مطالعہ ایک طرف اور مولانا فضل الرحمن کی یہ تقریر دوسری طرف تو اس کا وزن زیادہ ہے‘‘۔ جب میں اپنی کتاب ’’ اسلام اور اقتدار‘‘ میں ان احادیث کی وضاحت اور مولانا فضل الرحمن کی تردید کرتے ہوئے لکھا کہ’’ عاقل کیلئے اشارہ کافی ہے ‘‘ تو مولانا نے پھر اپنی جماعت کوان احادیث کا مصداق نہیں ٹھہرایا۔
ویسے تو علامہ اقبالؒ نے امامت کا مسئلہ بالکل حل کردیا ہے، تاہم امامت کے شرعی مسئلے پر عالمی کانفرنس بلائی جائے تو ہلال سے بڑھ کر سورج کی طرح سب ایک امام پر نہ صرف اتفاق ہوسکتا ہے بلکہ امت مسلمہ فتنوں اور فرقہ واریت کی زد سے بھی نکل سکتی ہے اور انسانیت کا بھی بھلا ہوسکتا ہے۔ شیعہ سنی خلفاء وائمہ پر اختلاف تاریخ میں ایسی حیثیت رکھتا ہے جیسے دن گزرنے کے بعد رات کو سایہ کی لیکروں پر جھگڑے کی فضاء کھڑی کی جائے لیکن اتحادواتفاق اور وحدت آج بھی ہوسکتی ہے۔