عبادات Archives - Page 13 of 14 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

حسینؓ کو شہید کرنے پر اسلام کو اتنا نقصان نہ پہنچا جتنا شافعی و مالک بے نمازی کو قتل پر پہنچاتے۔

اُمت مسلمہ کو امام مالکؒ اور امام شافعیؒ سے بڑی عقیدت ہے جنہوں نے اسلام کی خاطر بر سر اقتدار طبقے کے ہاتھوں بڑی مشکلات کا سامنا کیا۔ یزید سے کسی کو عقیدت نہیں جس نے اقتدار کے مزے اڑا کر کربلا کے میدان میں امام حسینؓ اور انکے ساتھیوں پر مظالم ڈھائے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امام شافعیؒ اور امام مالکؒ کے نزدیک بے نمازی کو واجب القتل قرار دیا گیا ۔ اگر وہ اللہ والے لوگ برسر اقتدار ہوتے اور بے نمازی کو قتل کی سزا دیتے تو آج دنیا میں اسلام کا نام و نشان تک نہ ہوتا۔ بنو اُمیہ اور بنو عباس کے حکمران جیسے بھی تھے لیکن شکر ہے کہ مولوی نہ تھے۔ سقوط بغداد کے وقت شدت پسند مذہبی طبقے سے اگر اقتدار چھین لیا جاتا تو ترک حکمران کبھی مسلمان بن کر خلافت عثمانیہ کے نام سے مسلمانوں کا اقتدار قائم نہ کرتے۔ یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے مذہبی طبقات علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح کو کافر قرار دیتے تھے یا ان کی قیادت میں ہی پاکستان کے قیام کیلئے جدوجہد کررہے تھے۔ علماء و مفتیان کے خلوص اور ایمانی جدوجہد میں کوئی شک نہیں۔ فقہ کے ائمہ مجتہدینؒ سے لیکر موجودہ دور کے علماء تک سے ہمیں بہت ہمدردی اور عقیدت و محبت ہے۔ان کی وجہ سے دین کاڈھانچہ محفوظ ہے۔ دوسرے طبقوں سے مذہبی لوگوں کا کردار بہترہے۔ اہل کتاب دوسروں کے مقابلہ میں بہترہیں اللہ نے عیسائیوں کو مذہبی طبقہ کی وجہ سے محبت میں اہل ایمان کے قریب قرار دیاتھا۔

عقیدت اورشعور سے امت کو عروج کی منزل ملے گی

اُمت کو شعور اور عقیدت سے مالامال کرنا ضروری ہے۔ مسلم امہ کے دلوں کو اسلاف کی عقیدت سے اور ذہنوں کو شعور کی روشنی سے جلا بخشیں گے تو اُمت زوال سے عروج کی منزل پر جا پہنچے گی۔ شیعہ سنی ، بریلوی دیوبندی ، حنفی اہلحدیث، جماعت اسلامی پرویزی ، حزب اللہ ، جماعت المسلمین ، اسماعیلی آغا خانی ، داؤدی بوہرہ ، ذکری اور انواع و اقسام کے فرقے ، جماعتیں اور تنظیمیں ہیں۔ انکے اختلاف ختم کرنے میں وقت نہ لگے گا۔ اسلام ایک بڑی شاہراہ صراط مستقیم ہے۔ پگڈنڈیوں اور بھول بھلیوں میں پھنسے لوگ اسلام کے دعویدار ہیں اور سورۂ فاتحہ میں اللہ نے صراط مستقیم پر چلنے کی دعا سکھائی ہے اور قرآن کی سورۂ فاتحہ کے بعد اللہ نے فرمایا : المOذٰلک الکتاب لاریب فیہ ھدی للمتقینO ’’یہ وہ کتاب ہے ، جس میں شک نہیں ، رہنمائی کا ذریعہ ہے پرہیزگاروں کیلئے۔ ‘‘
مسلم امہ کا بڑا المیہ یہ ہے کہ جو پرہیزگار ہیں وہ قرآن کی طرف نہیں دیکھتے اور جو قرآن کی طرف دیکھتے ہیں وہ پرہیزگار نہیں ۔ عقیدہ انسان کے قلبی وجدان کی عقیدت سے بنتا ہے اور نظریہ ذہنی کاوش اور فکر و شعور سے بنتا ہے۔ قرآن قلبی وجدان کو عقیدت سے مالامال کرنے کا ذریعہ ہے اور ذہنی نشو و نما اور فکر و شعور کو جلا بخشنے کا بہت بڑا خزانہ ہے۔ تبلیغی جماعت کے بانی مولانا محمد الیاسؒ نے فرمایا: ’’اس کام کی پرواز کے دو پر ہیں ، علم اور ذکر‘‘۔ علم فکر کی درستگی اور ذکر قلبی وجدان ہے۔ علماء و صوفیاء اپنے علم و ذکر کی محفل میں مست کہتے تھے کہ ’’ہماری مثال کنویں کی مانند ہے، پیاسے کو مدرسے اور خانقاہ میں چل کر آنا پڑیگا۔‘‘ تو مولانا الیاسؒ نے فرمایا:’’ ہم اس انتظار میں رہنے کے بجائے تبلیغی کام کے ذریعے سے بادل کی طرح برس جائیں تو دنیا نبوت والے اس کام کی وجہ سے روشن ہوجائے گی‘‘۔
مولانا الیاسؒ نے جس درد ، محنت اور کڑھن سے اللہ کے دین کو پہنچایا ، بڑی تعداد میں جماعتیں نکل کر دنیا کے کونے کونے میں اس پیغام کو عام کررہی ہیں اس کی افادیت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا۔ چھ نمبر سے عوام اپنی عقیدت اور فکر کو درست کرنے کی جدوجہد میں لگے ہیں۔ اپنا وقت اپنی جان اور اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرکے بہت کچھ دین کی نعمتیں پالیتے ہیں۔ اس محنت اور جذبے کی جتنی بھی قدر کی جائے کم ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دین کیلئے یہی فکر و عقیدت ، یہی جذبہ و عمل اور یہی عقیدہ و شعور بہت اور کافی ہے؟۔
مدارس کے علماء کے سرخیل علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ کے علم و تقویٰ سے مشکل ہے کہ کوئی عقیدت نہ رکھتا ہو، جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی، مدرسے اور نیو ٹاؤن کی مسجد سے نور کی کرنیں پھوٹتی نظر آتی ہیں۔ اساتذہ کرام اور طلباء حضرات تقویٰ و عمل کے پیکر نظر آتے ہیں۔ مولانا بنوریؒ کے پاس ایک سرمایہ دار مال کا انبار لیکر آیا اور عرض کیا کہ یہ تجھے ہدیہ کرتا ہوں، مولانا نے فرمایا کہ مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اس نے درس کے دوران جوتوں میں وہ رقم رکھ دی ، مولانا نے ناراضگی کا اظہار کیا کہ میں نے خود پر ہدیہ کو بھی حرام کردیاہے، کیوں تنگ کررہے ہو؟ ، اس نے عرض کیا کہ اگر آپ کو ضرورت نہیں تو ضرورتمندوں میں بانٹ دیں۔ مولانا بنوریؒ نے فرمایا کہ ایسی کم عقلی کیوں کروں کہ ثواب تجھے ملے اور حساب مجھ سے لیا جائے۔
حضرت علیؓ نے فرمایا :’’اولاد کیلئے مال و دولت کا ترکہ مت چھوڑو، اگروہ نیک ہونگے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرینگے تو ثواب ان کو ملے گا اور حساب تجھے دینا پڑیگا اور اگر فاسق فاجر ہوں اور مال غلط استعمال کریں تو ڈبل وبال ہوگا‘‘۔ حضرت ابوبکرؓ کی گھر والی نے میٹھا کھانے کیلئے روزانہ کے خرچے سے کچھ بچایا ، جس سے پکا کر حضرت ابوبکرؓ کے سامنے پیش کیا اور داستان سنادی۔ حضرت ابوبکرؓ نے وہ میٹھا مساکین میں تقسیم کردیا اور بیت المال سے اتنا وظیفہ کم کردیا۔ حضرت عمرؓ اتنا ہی وظیفہ لیتے تھے جتنا ایک درمیانے درجے کے انسان کے گزر بسر کیلئے ہوتا تھا۔اپنے وزیراعظم نوازشریف کی بات درست ہے کہ ہیلی کاپٹروں میں گھومنے والے سڑک کی قدر نہیں جانتے۔ جن کے بچے لندن میں رہتے ہوں اور علاج معالجہ باہر کریں تو وہ غریب عوام کی بھوک ، تعلیم اور علاج کا معاملہ کیا جانیں؟۔
علما ء اور صوفیاء کی زندگیاں عظمت اور عزیمت کی داستانیں ہیں۔ مجاہدین اسلام کی قربانیوں سے تاریخ کے اوراق بھرے ہیں۔ میں نے خود تجربہ سے تبلیغی جماعت ، مجاہدین، علماء کرام اور صوفیاء عظام کے خلوص کو بہت قریب سے دیکھا ۔ان میں کچھ لوگ بہت غلط اور بد فطرت ہوسکتے ہیں مگرانبیاء کرامؑ ، خلفاء راشدینؓ، صحابہ کرامؓ ، ائمہ مجتہدینؒ ، محدثینؒ ، علماء کرام اور صوفیاء عظام سے گہری نسبت رکھنے والے یہ اکثر اللہ والے لوگ ہوتے ہیں۔
کسی فکر و عمل میں اختلاف کے ہرگز یہ معنی نہیں کہ عقیدت و توقیر بھی ہم نہیں رکھتے۔ حضرت مولانا یوسف بنوریؒ نماز کے معاملے میں بہت سخت تھے۔ جو طالب علم صبح کی نماز پڑھنے میں بھی سستی کرتا تھا تو اس کی خوب پٹائی لگاتے تھے۔ یہ دین سے عقیدت و محبت اور طبیعت میں سختی کے لازمی اثرات تھے۔ اگر کوئی نماز نہ پڑھتا تو کونسے مولانا بنوریؒ کے بچے بھوکے مرتے۔ ایک حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ’’ اگر مجھے بچوں اور عورتوں کا اندیشہ نہ ہوتا تو جماعت میں نماز نہ پڑھنے والوں کو گھروں میں آگ لگا کر جلا دیتا۔ ‘‘ جس کا اس حدیث پر ایمان ہو تو وہ نماز کے سلسلے میں بڑی شدت سے عمل درآمد کرانا اپنے دین کا حصہ سمجھتا ہے اور مولانا یوسف بنوریؒ کو احادیث سے بڑی رغبت تھی۔ ایک مرتبہ ایک طالب علم کو نماز پر بہت سخت سخت مارا ، مگر وہ طالب علم خاموشی سے مار کھا کر برداشت کرتا رہا اور کسی ردِ عمل کا اظہار بھی نہیں کیا۔ مولانا بنوریؒ نے سوچا کہ طالب علم بڑا شریف الطبع ہے ، پھر کیوں خاموش ہوکر مار کھارہا ہے اور کچھ کہہ نہیں رہا ۔ طالب علم سے پوچھا تو اس نے عرض کیا کہ ایک نماز ہی تو ہے جس کو ہم اللہ کیلئے پڑھتے ہیں اگر یہ بھی آپ کیلئے پڑھیں تو ہمیں کس چیز کا ثواب ملے گا؟۔ مولانا بنوریؒ نے اس کا جواب سن کر بات کو معقول جانا اور اسکے بعد نمازکیلئے طالب علموں سے سختی برتنا بھی چھوڑ دی۔ ترغیب و ڈرانے کیلئے بہت سی احادیث گھڑی گئیں ہیں۔ نبیﷺ کے دور میں خواتین اور بچے نماز میں شریک ہوتے تھے، اسلئے وہ حدیث محلِ نظر ہے۔ قرآن کی کسی آیت میں نماز کے حوالہ سے بڑی بشارت یا ڈرانے کی ایسی دھمکی نہیں، جس طرح سے احادیث میں فضائل اور ڈرانے کی باتیں ہیں۔ آذان کے بعد کی دعا فضیلت کیلئے اورایک نماز کی قضاء سے بیڑہ غرق کیلئے کافی ہے ۔ البتہ قرآن میں ان نماز پڑھنے والوں کیلئے ہلاکت کی خبر ہے جو مال گن کر جمع کرتے ہیں اور مسکینوں کو کھانا کھلانے پرنہیں اُکساتے۔ پشتو کے عظیم شاعررحمان بابا کا شعر ہے ترجمہ:
ہر سخی خدا کا دوست ہے اگرچہ فاسق ہو ہر بخیل خدا کا دشمن ہے اگرچہ زاہد ہو
اگر یہ تصور درست تسلیم کرلیا جائے کہ تبلیغی جماعت کے رائیونڈاور دعوت اسلامی کے مرکز فیضانِ مدینہ اور ان کے تمام ذیلی شاخوں اور مراکز میں ایک نماز کا بدلہ49 کروڑ گنا ہے اور کعبہ کی مسجد میں صرف ایک لاکھ اور مدینے کی مسجد نبویﷺ اورقبلہ اول کی مسجداقصیٰ میں صرف50ہزار ہے تو یہ منہ اور مسور کی دال والی بات نہیں؟،کچھ تو اقدار کا پاس کریں!
مساجد کو عبادات کیساتھ شعور دیا جائے تو دنیا میں اسلامی خلافت کا آغاز ہوسکے گا۔ عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات سے انکار کفر ہے، ان سے عقیدت رکھے بغیر ایمان کا تصور بھی غلط ہے لیکن یہودی علماء کے ہاتھوں آپؑ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عقیدت و شعور کیلئے یہ ایک لازمی نصاب تھا ، عیسائیوں نے خدا بناکر غلطی کی ، اسلئے کہ جو اپنی مشکل دور نہ کرسکے وہ مشکل کشا کیسے ہوسکتا ہے؟۔ اہل تشیع بھلے صحابہؓ سے حسن ظن کو فروغ نہ دیں ، صحابہؓ نے ایکدوسرے کو قتل کیا تو کوئی فرق عقیدت سے نہ پڑیگا، البتہ علیؓ کی کرامات سے عقیدت رکھنے والوں کے دماغ میں شعور آئیگا کہ علی خدا و مشکل کشا ہوتے تو اپنی اور اپنی اولاد کی مشکل دورکرتے۔
قرآن عقیدت اور شعور پیدا کرتاہے ، اگرشعور نہ ہو تو معجزات دیکھ کر آج بھی لوگ عیسیٰ علیہ السلام کو خدا مان لیں گے اور عقیدت نہ ہو تو پھر قرآن میں بیان کردہ معجزات سے بھی ہمارا ایمان بالکل اٹھ جائیگا۔قرآنی علم سے مسلم اُمہ کو زندہ کریں۔
عقیدت ، ذکر اور قلبی وجدان سے انسان کا نفس شفاف آئینے کی طرح عمل کے قابل بنتاہے اور جو سنتاہے اس یقین کرکے عمل کرنا بھی شروع کردیتاہے اور شعور کی بلندی سے انسان فکر کی غلطی سے محفوظ ہوتاہے۔ علماء کرام اور مشائخ عظام میں اسی کا اختلاف تھا۔ عبدالقادر جیلانیؒ نے امام ابوحنیفہؒ پر فتویٰ لگایا، امام بخاری کی نہ بنتی تھی فقہاء نے صوفیاء کو فکر کے حوالہ سے راہ راست پر رکھا اور فقہاء نے عمل کی راہ ان کو سکھادی، یہ اختلاف رحمت تھا۔ اب فکر وشعور اوروجدان و ذکرسے عروج ملے گا۔

اسلام کا آغاز اجنبیت کی حالت میں ہوا اور یہ پھر …..

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بدء الاسلام غریباً فسیعود غریباً فطوبیٰ للغرباء ’’اسلام اجنبیت کی حالت میں شروع ہوا ، عنقریب یہ پھر اجنبیت کی طرف لوٹ جائیگا ، پس خوشخبری ہے اجنبیوں کیلئے۔ ‘‘ یہ پیشگوئی اس وقت سے اب تک حرف بہ حرف پوری ہوئی ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’میرے بعد خلفاء ہونگے ، پھر امیر ہونگے ، پھر بادشاہ ، پھر جابر بادشاہ ہونگے اور پھر دوبارہ طرز نبوت کی خلافت قائم ہو گی ‘‘ نبی کریم ﷺ نے 30 سال تک خلافت کی بشارت دی تھی، حضرت ابوبکرؓ ، عمرؓ، عثمانؓ ، علیؓ اور حسنؓ کے 6 ماہ تک 30 سال۔ اسکے بعد بنو اُمیہ اور بنو عباس کے ادوار میں امارت کی پیشگوئی پوری ہوئی۔ پھر خلافت عثمانیہ کی بادشاہت کی بات پوری ہوئی اور اسکے بعد آج تک جابر حکمرانوں کا سلسلہ چل رہا ہے۔ یہانتک کہ پھر سے طرز نبوت کی خلافت کے قیام کی پیشگوئی پوری ہوجائے۔
رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیبہ مسلمانوں ہی کیلئے نہیں بلکہ عالم انسانیت کیلئے بھی جو اعلیٰ اور ارفع مقام رکھتی ہے اس کی نشاندہی نہ ہونے کیوجہ سے اسلام اجنبیت کے پردوں میں چھپ گیا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا قل انما انا بشر مثلکم یوحیٰ الی ’’کہہ دیجئے کہ میں تمہاری طرح کا ہی ایک بشر ہوں میری طرف وحی ہوتی ہے ‘‘۔ رسول اللہ ﷺ نے عام لوگوں کی طرح شادیاں کیں، عزیز و اقارب سے تعلق رکھا ، اپنے رفقاء و اصحاب بنائے، اولی الامر کی حیثیت سے دنیا کے سامنے نمونہ پیش کیا اور اللہ تعالیٰ نے مختلف مواقع پر وحی کے ذریعے سے رہنمائی فراہم کی۔قرآن و احادیث اور سیرت کی کتابوں میں تفصیل ہے۔
ہماری مت ماری گئی کہ نبی ﷺ کی زندگی کے ہر پہلو کو سمجھنے کا ڈھنگ ہی کھودیا ۔ جب قرآن کے علاوہ انواع و اقسام کی احادیث سے اُمت کا پالا پڑا ، تو امام ابو حنیفہؒ میدان میں اترے اور اسلام کے بگڑے تیور کو سدھارنے کی کوشش فرمائی۔ پھر فقہاء نے حیلہ سازی کے ذریعے سے اسلام کا حلیہ بگاڑنے میں بدترین کردار ادا کیا تو امام غزالیؒ میدان میں اترے اور معاملات کو سدھارنے کی زبردست کوشش کی۔ پھر مغلیہ دور میں اکبر بادشاہ کے دین الٰہی کی بات آئی تو شیخ احمد سرہندیؒ المعروف مجدد الف ثانیؒ نے تجدیدی کارنامہ انجام دیا، پھر سلسلہ حق کی رہنمائی کیلئے شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ سے اللہ نے کام لیا۔
اکبر کے دینِ الٰہی کامقابلہ کانیگرم وزیرستان کے بایزید انصاریؒ نے بھی کیا تھا جو 1601 ؁ء میں بیٹوں سمیت شہید کئے گئے۔شاہ ولی اللہؒ کے والدِ محترم شاہ عبدالرحیمؒ ان 500علماء میں شامل تھے جنہوں نے فتاوی عالمگیری پر دستخط کئے ۔ جس میں بادشاہ کیلئے قتل ، چوری، زنا اور سب حدود معاف ہیں۔ اورنگزیب بادشاہ نے اپنے سارے بھائیوں کو قتل کیا تھا۔ درباری علماء بنوامیہ اوربنوعباس کے ا دوار کی پیداواررہے ہیں۔ ان کی فقہ اور بصیرت پر قوم اعتماد کرلے تو حیلہ سازی سے سودی نظام بھی جائز ہے۔ بس ایک سجدے والا کام کرے ، باقی مسئلہ نہیں، یہ توشکرہے کہ مجدد الف ثانی جیسے لوگوں نے بہت بڑا کارنامہ انجام دیا کہ اکبر بادشاہ کو سجدہ کرنا ناجائز قرار دیا، ورنہ آپ دیکھتے کہ درباریوں کی اولاد موجودہ حکمرانوں کو حلف اٹھاتے وقت سورۂ یوسف کی تلاوت کرکے سجدے کرتے اور ہم پر فتوے لگاتے کہ شیطان نے آدم کو سجدہ نہیں کیا تھا اور یہ ابلیس خلیفہ کو سجدہ نہیں کرتا۔
قرآن میں حضرت آدمؑ اور حضرت یوسفؑ کو سجدے کی آیات ہیں اور سجدوں کی ایسی مخالفت نہیں جیسے اللہ نے سود کے نظام کو اللہ اور اسکے رسول ﷺ کیساتھ اعلانِ جنگ قرار دیا ہے۔ موجودہ دور کے درباریوں سے اکبر بادشاہ کے درباری علماء اچھے تھے۔ اورنگزیب کے دور کے درباری بھی نیک اور اللہ والے لوگ تھے لیکن علمی حقائق اور شعور سے بے بہرہ تھے۔حضرت ہارونؑ نے بنی اسرائیل کو وقتی طورپر شرک کیلئے بھی اسلئے چھوڑ دیا کہ امت میں تفریق نہ ہو اور موسیٰ علیہ السلام نے داڑھی اور سر سے پکڑا تو یہی حکمت بیان کردی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وقتی طور سے کبھی نظریے اور عقیدے کی قربانی دی جاتی ہے مگر اس کے پیچھے کوئی ذاتی مفاد نہیں ہوتا، لیکن اس قربانی کی وجہ سے سختی بھی برداشت کی جائے۔
رسول اللہ ﷺ سے ایک نو مسلم حضرت الجونؓ نے کہا کہ کیا میں عرب کی حسین ترین دوشیزہ سے آپ کا نکاح کراؤں؟ ۔ نبی کریم ﷺ نے حامی بھری۔ اس نے بتایا کہ میری صاحبزادی ہے اور وہ آپ سے شادی کیلئے راضی ہے۔ حق مہر مقرر ہوا۔ رخصتی کے بعد ازواج مطہراتؓ نے اس کا بناؤ سنگھار کرکے نبی ﷺ کے پاس بھیجا۔تو ساتھ میں یہ بھی سمجھایا کہ جتنی بے رغبتی برتو گی اس قدر نبی ﷺ خوش ہونگے، اللہ کی پناہ مانگ لینا وغیرہ۔ عورت اور مرد میں جنسی رغبت اور خواہش فطری طور پر ہوتی ہے اور اگر دلہن کو یہ سمجھایا جائے کہ عصمت کیلئے بے رغبتی کے مظاہرے سے عزت میں اضافہ ہوگا اور شوہر کیلئے زیادہ محبوبیت کا ذریعہ ہوگا تو یہ بالکل غیر معقول بات بھی معلوم نہیں ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اپنا نفس ہبہ کردو۔ تو ابنت الجونؓ نے کہا کہ کیا ایک ملکہ خود کو کسی بازاری کے حوالے کرسکتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے معمول سمجھ کر اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تو اس نے کہا میں تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ فقد عذت بمعاذ ’’جس کی پناہ مانگی جاتی ہے اسکی آپ نے پناہ مانگ لی‘‘۔ اور اس کو دو چادریں دیکر اسکے گھر بھیج دیا۔ (صحیح بخاری) بعد میں جب وہ گھر پہنچی تو گھر والوں سے کہا کہ میرے ساتھ دھوکہ ہوا ہے، انہوں نے کہاکہ تو بڑی کمبخت ہے۔ نبی ﷺ کو پتہ چلا کہ ازواج مطہراتؓ نے اس کو ورغلایا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ بیچاری کیساتھ سوکناہٹ کی وجہ سے یہ ہوا۔
یہ واقعہ دنیا کیلئے بہترین نمونہ ہے کہ جہاں لڑکی اپنے رشتے کیلئے زبان کھولنے کو بھی معیوب سمجھتی تھی اور نبی ﷺ نے فرمایا کہ بکر کنواری اگر خاموش رہے ، مسکرائے یا روئے تو اس کی طرف سے ہاں ہے۔ ایم طلاق شدہ یا بیوہ کیلئے زبان سے اقرار ضروری ہے۔ وہاں اس معاشرے میں نکاح اور رخصتی کے بعد عورت سے اس کی رضامندی پوچھنا اور جب گمان ہو کہ وہ راضی نہیں تو اس کو ہاتھ لگائے بغیر رخصت کرنا وہ عظیم اسوۂ حسنہ ہے جسکے سامنے قرآن کا احسن القصص حضرت یوسف ؑ کا قصہ بھی اس سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ حضرت یوسف ؑ نے اپنے مالک کی شادی شدہ بیوی سے دامن چھڑایا تھا اور نبی ﷺ نے باقاعدہ طور سے شادی اور ازواج مطہراتؓ کی طرف سے بناؤ سنگھار کے بعد بھی بھرپور طریقے سے اسکے راضی ہونے کو یقینی بنانے کی کوشش فرمائی تھی، یہ عظیم اسوۂ حسنہ ہی تھا۔
اگرنبیﷺ کا یہ قصہ تمام زبانوں میں عام کرکے عوام تک پہنچے تو دنیا آپ ﷺ کی انسانیت کو سلام کریگی۔ وہ بھی ہیں جس نے اپنی ناسمجھی کی وجہ سے نبی ﷺ کی سیرت کو بہت بڑا داغ لگایا۔ علامہ ابن حجر نے بخاری کی معروف شرح میں لکھا کہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبی ﷺ نے نکاح کے بغیر خلوت میں کیسے بلایا؟۔ نفس ہبہ کرنے اور ہاتھ بڑھانے کی کوشش کیسے کی؟۔ اس کا جواب یہ ہے کہ نبی ﷺ کا صرف رغبت ظاہر کرنا ہی نکاح کیلئے کافی تھا۔ چاہے وہ راضی نہ ہو اور نہ اسکا ولی راضی ہو، نبی ﷺ کا پوچھنا تو صرف تطیب خاطر کیلئے تھا۔ اس سوال جواب کو دیوبندی مکتبہ فکر وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان اور بریلوی مکتبہ فکر کے علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی اپنی بخاری کی شرح میں نقل کیا، ان خرافات کی کھلے لفظوں میں تردید ہی دراصل دین اسلام کا تجدیدی کارنامہ ہے۔
رسول اللہ ﷺ سے غزوہ بدر کے قیدیوں ، غزوہ اُحد شہر سے باہر نکل کر لڑنے اور صلح حدیبیہ کے معاہدے پر صحابہ کرامؓ نے اولی الامر کی حیثیت سے اختلاف کیا۔ قیدیوں پر مشاورت سے رسول اللہ ﷺ نے فدیہ لینے کا فیصلہ کیا تو اللہ نے حکمت اور تزکیہ کرتے ہوئے وحی اتاری کہ ’’نبی کیلئے یہ مناسب نہ تھا…… ‘‘۔ پھر اُحد میں مسلمانوں کو تکلیف پہنچی اور بدلہ لینے کا اظہار فرمایا تو اللہ نے منع کیا ، معاف کرنے کا حکم دیا ۔ پھر صحابہؓ کی رائے کیخلاف صلح حدیبیہ کا معاہدہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے فتح کی بشارت دے دی انا فتحنا لک فتحاً مبیناً لیغفراللہ لک ما تقدم من ذنبک وما تأخر منہ ’’ہم نے روشن فتح عطا کی تاکہ تیرے اگلے پچھلے گناہ اللہ معاف کردے‘‘۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن نے ہر چیز کووضاحت سے بیان کیا تو اس آیت میں فتح سے گناہ کی معافی کا کیا تعلق ؟، فتح سے معصیت کا جوڑ نہیں بنتا؟۔ جملے میں گناہ سے معصیت مراد ہو ہی نہیں سکتا بلکہ مشکل ، تکلیف اور بوجھ مراد ہے، اللہ نے فرمایا کہ ’’ ہم نے وہ بوجھ اتار دیا، جس نے تیری کمر توڑ رکھی تھی‘‘، عربی میں ذنب کا معنی معصیت کے بھی ہیں اور اضافی بوجھ کے بھی۔ ایک آدمی اپنے مخلص خدمتگار کو ڈانٹ رہا تھا ، ایک بار خدمتگار نے آہ بھری، تو پوچھا کیا ہوا؟ ۔ وہ کہنے لگا کہ بس کبھی تواللہ میرے گناہ معاف کردے۔ اللہ نے فتح کیساتھ ذنب تکالیف کے ازالے کا فرمایا اور لوگوں نے اس پر فرقے ، گروہ اور مسلک بنالئے ۔فتح سے تکلیف کابوجھ جاتاہے۔

خلفاء راشدینؓ اور ائمہ مجتہدین ؒ کے ادوار کی اجنبیت

رسول اللہ ﷺ کے وصال سے وحی کا سلسلہ بند ہوا ۔ صحابہ کرامؓمشاورت کے انداز میں رسول اللہ ﷺ سے اولی الامر کے طور پر اختلاف کرتے تھے، آخری فیصلہ نبی ﷺ کا ہوتا تھا جیسے بدر کے قیدیوں پر فدیہ لینے اور صلح حدیبیہ میں ہوا۔ پھر اللہ کی طرف سے رہنمائی وحی کے ذریعے سے نازل ہوتی تھی۔ یہ سلسلہ حضرت ابوبکرؓ کے دور میں بند ہوا تو اختلاف رائے کے باوجود یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کیلئے ضروری تھا کہ سب اولی الامر خلیفہ راشد کی بات حتمی سمجھ کر اجتماعی طور پر قبول کرلیں۔ اسکے علاوہ کوئی چارہ کار بھی نہیں تھا۔ یہاں سے خلافت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ اسلام بھی پھر مسلسل اجنبی بنتا چلا گیا۔
رسول اللہ ﷺ کی چاہت یہ تھی کہ مالدار صحابہؓ اپنی زکوٰۃ اپنے ہاتھوں سے خود ہی مستحق افراد میں تقسیم کریں مگر صحابہؓ کی چاہت تھی کہ نبی ﷺ زکوٰۃ کولیکر اپنے دست مبارک سے ان مستحق افراد میں تقسیم کریں جو آپ ﷺ کے گرد منڈلاتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کی اور نبی ﷺ سے فرمایا کہ آپ ان سے زکوٰۃ لیں یہ ان کیلئے تسکین کا ذریعہ ہے۔ نبی ﷺ نے اللہ کے آگے سر تسلیم خم کیا لیکن ساتھ میں یہ بھی فیصلہ فرمایا کہ میرے اہل بیت اور اقارب پر زکوٰۃ حرام ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے یہ سمجھا کہ اللہ کی طرف سے نبی ﷺ کو زکوٰۃ لینے کا حکم تھا تو ایک خلیفہ کی حیثیت سے مجھ پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ امیروں سے زکوٰۃ لیکر غریب مستحقین میں تقسیم کروں۔ اس کیلئے قتال پر بھی کمر کس لی۔ حضرت عمرؓ نے شروع میں ان سے اختلاف کیا جب ان کو پر عزم دیکھا تو بھرپور ساتھ دیا۔ پھر اپنے دور میں حضرت عمرؓ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ’’کاش !ہم رسول ﷺ سے یہ حکم پوچھ لیتے کہ جو زکوٰۃ نہ دے انکے خلاف قتال کرنا درست ہے یا نہیں۔ ‘‘۔
ایک آدمی نے نبیﷺ کو زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تو اسکے خلاف قتال نہ ہوابلکہ خلفاء نے بعد میں اس کی زکوٰۃ لینے سے بھی انکار کردیا۔حضرت ابوبکرؓ نے جو فیصلہ کیا تھا وہ اپنے وقت کے لحاظ سے ٹھیک ہوسکتا تھا مگر یہ کوئی مستقل اللہ کا حکم نہیں تھا اسلئے کہ نبی کریم ﷺ سے اللہ نے فرمایا تھا کہ ان سے زکوٰۃ کا لینا ان کیلئے سکون کا ذریعہ ہے قتال کی صورت میں یہ اضطراب کا ذریعہ تھا ۔ اہل سنت کے چاروں فقہی ائمہ حضرت امام ابو حنیفہؒ ، امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ میں سے کوئی بھی اسکا قائل نہیں کہ زکوٰۃ نہ دینے پر قتال کیا جائے۔ اس کو حکومت اور حکمران کا حق نہیں سمجھاجاتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں زکوٰۃ کی بینکوں سے کٹوتی شروع ہوئی تو ایسے سنی علماء بھی تھے جنہوں نے اپنی بیگمات کے نام سے اپنے اکاؤنٹ اہل تشیع کے مسلک میں درج کئے۔ پھر حکومت نے فیصلہ واپس لیا اور اب کوئی بینک کو لکھ کر دے تواسکے اکاؤنٹ سے زکوٰۃ کی کٹوتی نہیں ہوتی ۔
حضرت ابوبکرؓ کا اقدام علماء و مفتیان کے مفاد میں بھی نہیں لیکن حضرت عمرؓ کی طرف یہ منسوب ہے کہ انہوں نے قرآن میں موجود مؤلفۃ القلوب کی زکوٰۃ کو منسوخ کیا ۔ حالانکہ قرآن میں اس کو فریضۃ من اللہ اللہ کی طرف سے فرض قرار دیا گیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ’’ان آٹھ اقسام میں سے کوئی قسم منسوخ نہیں ہوسکتی ، یہ اللہ کی طرف سے ہے ان میں نبی اور غیر نبی مداخلت نہیں کرسکتا ہے۔‘‘ تفسیر عثمانی میں یہ حدیث درج ہونے کے باوجود لکھا گیا ہے کہ اکثر علماء کے نزدیک مؤلفۃ القلوب کی زکوٰۃ منسوخ ہے۔ افسوس کہ امریکی US ایڈ لی جاتی ہے اور بے نظیر انکم سپورٹ کے نام سے اربوں روپے برطانیہ سے لئے جاتے ہیں مگر زکوٰۃ کے دروازے غیر مسلم مستحق مؤلفۃ القلوب پر بند کردئیے گئے ہیں۔
پہلے زکوٰۃ کی رقم غریب غرباء تک تھوڑی بہت پہنچ جاتی تھی اب اس کو بھی ہمارا پیشہ ور طبقہ مختلف ناموں اور کاموں سے ہتھیا کر مستحقین کو محروم کررہا ہے۔ قرآن کی آیات سے رہنمائی لی جاتی تو بلبلاتے ہوئے مستحقین کیلئے زکوٰۃ مانگنے پر شرم آتی۔ ایک سال پاکستان کے مسلمانوں کی تمام زکوٰۃ مستحق غریبوں تک پہنچ جائے تو اللہ ہماری تقدیر بدل دے گا۔ شریف فیملی پانامہ لیکس کی زکوٰۃ بھی غریب عیسائیوں تک پہنچانے کا اہتمام کرتی تو تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی کے مقابلے میں زیادہ لوگ اس امداد سے اسلام قبول کرلیتے۔ مریم نواز نے جیو ٹی وی چینل پر کہا تھا کہ میرے اور میرے بھائیوں کے پاس کچھ بھی نہیں ۔ مشعل اوبامہ سے USایڈ لینے کی بات تعلیم کیلئے ہوئی تھی اور اب USایڈ کی اصل رقم سے شاید زکوٰۃ اسلام آباد کے اسکولوں کیلئے بسیں خریدنے پر خرچ کی جارہی ہے اس میں بھی کرپشن ہوگی اور حکومت کے مخالف سیاستدان عدالتوں میں رلتے ہی رہیں گے۔
امام مالکؒ اور امام شافعیؒ نے حضرت ابوبکرؓ کی طرف سے زکوٰۃ نہ دینے پر قتال کرنے کو تو درست نہیں قرار دیا ، البتہ اسی سے استدلال لے کر بے نمازی کو قتل کرنا فرض قرار دیا۔ ان لوگوں نے اسلام کی خاطر اہل اقتدار سے بڑی مشکلات اٹھائیں لیکن اگر بنو اُمیہ اور بنو عباس کے فاسق فاجر حکمرانوں کے بجائے مسند اقتدار پر ان کو بٹھایا جاتا اور بے نمازیوں کو قتل کرنا شروع کردیتے تو آج اسلام کا نام و نشان نہ ہوتا اور یزید نے کربلا کے واقعہ سے اسلام کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا انکے برسر اقتدار آنے سے اسلام کو نقصان پہنچتا۔ حضرت امام ابو حنیفہؒ کے بہت بڑے کارنامے ہیں اور انکی وجہ سے اسلام کے خلاف ایک بہت بڑا طوفان رکا تھا۔ احادیث کی بھرمار سے قرآن کے احکام کو بہت بڑا خطرہ لاحق تھا۔ امام ابو حنیفہؒ اور باقی تینوں اماموں نے جو کارنامے انجام دئیے ہیں وہ بہت ہی قابل ستائش ہیں۔ البتہ جس طرح حضرات خلفاء راشدینؓ نے اہم کارناموں کے باوجود کچھ ایسے معاملات متعارف کرائے ہیں جن سے اسلام بتدریج اجنبیت کا شکار ہوتا چلا گیا ۔ اسی طرح ائمہ مجتہدینؒ سے بھی بعض معاملات میں بہت زیادہ بڑی غلطیاں سرزد ہوئیں۔
امام ابو حنیفہؒ نے اپنی بیشتر زندگی علم کلام (عقائد کا فلسفیانہ علم) میں گزاری اور پھر تائب ہوکر فقہ کی طرف توجہ دی۔ افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ علم کلام کی گمراہی کو اصول فقہ میں داخل کیا گیا۔ فقہ حنفی کی درس نظامی میں پڑھایا جاتا ہے کہ کتابی شکل میں قرآن اللہ کی کتاب نہیں اور نہ اس پر حلف ہوتا ہے کیونکہ تحریر اللہ کا کلام نہیں بلکہ محض نقوش ہیں جو نہ لفظ ہے اور نہ معنی۔ جب تحریری شکل میں سورۂ فاتحہ اللہ کا کلام نہیں تو حنفی مسلک کے معتبر لوگوں صاحب ہدایہ ، فتاویٰ قاضی خان اور فتاویٰ شامی میں علاج کیلئے سورۂ فاتحہ کو خون اور پیشاب سے لکھنا جائز قرار دیا گیا۔ جب تک یہ گمراہانہ اصول فقہ کا نصاب درست کرنے کی ہمت علماء و مفتیان نہیں کرسکتے تو پھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے کیا لڑینگے؟۔ دہشت گردوں نے کتنا ڈرایا تھا ؟ ۔ امام ابوحنیفہؒ علم الکلام و علم العقائد کے نئے گمراہانہ عقائد سے تائب ہوئے تو ان کو اصولِ فقہ میں پڑھانے سے گمراہی کے سوا فائدہ کیا ہے؟ ۔
امام ابوحنیفہؒ سے شیخ الاسلام قاضی القضاۃ ابویوسف بڑے آدمی نہ تھے مگر امام ابوحنیفہؒ نے جیل میں زہر سے شہادت پائی اور امام ابویوسف وقت کے بادشاہوں کیلئے حیلہ سازی کا کام کرتے تھے۔ امام غزالیؒ نے ان فقہاء کی حیلہ سازی پر گرفت کی تو مصر کے بازار میں ان کی مقبول ہونے والی کتابیں احیاء العلوم وغیرہ جلائی گئیں۔ امام غزالیؒ نے آخر کارفقہ کو گمراہی قرار دیکر تصوف کا رخ کیا۔ من الظلمات الی النور ’’ اندھیرے سے روشنی کی طرف‘‘ نامی کتاب لکھ دی۔ مگر ہوا یہ کہ جس فقہ کے علم کو اندھیرے سے تشبیہ دی تھی، اس کو تصوف میں داخل کردیا۔ جس کو نور علی نور نہیں بلکہ ظلمات بعضہا فوق بعض قرار دیا جاسکتاہے۔ دعوتِ اسلامی کے بانی علامہ الیاس قادری نے اپنی کتاب ’’ غسل کا طریقہ‘‘ میں امام غزالیؒ کی کتاب سے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ’’ ایک صوفی کو نفس نے کہا کہ رات جنابت کی حالت میں سوجاؤ، تو اس نے اپنے نفس کو یہ سزا دی کہ کپڑے سمیت نہایا ۔ پوری رات سخت سردی میں رات گزاری ، نفس انسان کا دشمن ہے‘‘۔جبکہ رسولﷺ صرف وضو کرکے حالت جنابت میں سوتے تھے۔ایک صحابیؓ کو دوسروں نے ٹھنڈے پانی سے نماز کیلئے غسل پر مجبور کیا،جس سے وہ بیمار ہوکر فوت ہوا، تونبیﷺ نے فرمایا کہ ’’تمہیں اللہ مار ڈالے اس کو ہلاک کردیا‘‘۔ علماء اور صوفیاء اپنی جگہ پر بیٹھتے تھے ،اب گھر گھرفتنہ پھیلتاہے۔
کوئی کم عقل دعا سے عرش ہلادے، یہانتک کہ فرشتہ پوچھ لے، کیا چاہیے؟۔ اللہ کا بندہ کہے کہ مجھے بیٹا چاہیے اور پھر فرشتہ کہے کہ بیوقوف پہلے شادی تو کرلو ۔ یہی صورتحال خلافت کیلئے رونے دھونے والے علماء و مفتیان کرام اور صوفیاء عظام اور خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیاہے؟والے شاعرعلامہ اقبال کی تھی۔ جب تک ہم خود کو نہ بدلیں اللہ نے بھی ہماری حالت نہیں بدلنی اور ہماری حالت اس وقت تک نہیں بدل سکتی جب تک درست علم کے ذریعے سیدھی راہ کی نشاندہی نہ ہو ۔ مدارس کا نصاب درست کرنا پڑے گا۔
گلہ تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا کہاں سے آئے صدا لاالہ الا اللہ

قرآن و سنت کی روشنی میں حقائق کی زبردست نشاندہی

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اقتدار ملا تھا اسلئے حدود و تعزیرات کے مذہبی احکام یہود کے ہاں موجود ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اقتدار نہیں ملا تھا اسلئے انجیل اور نصاریٰ کے ہاں حدود و تعزیرات کے احکام نہیں ہیں۔ حدود کا تعلق اللہ کے براہ راست احکام سے ہے اور تعزیرات حکمرانوں کی طرف سے ہوتے ہیں۔ اسرائیل یہودیوں کی مذہبی ریاست ہے اور پاکستان دنیا میں واحد وہ ریاست ہے جو مسلمانوں نے مذہب کی بنیاد ہی بنائی تھی۔
قرآن کی آیات اورسنت سے حدود اور تعزیرات کا مسئلہ سمجھنا ضروری ہے۔ خواتین کو ستانے اور زنا بالجبر کی قرآن میں تعزیر قتل ہے۔ فاینما ثقفوا فقتلوا تقتیلاجب عادلانہ معاشرے کا قیام عمل میں آیا تو ایسے لوگ جہاں پائے گئے وہ قتل کئے گئے۔ مدینہ میں زیادہ عرصہ تک یہ لوگ نہیں رہیں گے۔ وائل ابن حجرؓ کی روایت میں ہے کہ خاتون کی اس شکایت پرکہ فلاں نے زبردستی مجھ سے زنا کیا، نبیﷺ نے اس کو پکڑ کر لانے کا حکم دیا اور سنگسار کروا دیا۔ ( ابوداؤد ، موت کا منظر)۔ قرآن میں مرد وعورت کیلئے زناکی حد100 کوڑے ہیں۔ دو مرد آپس میں برائی کریں تو قرآن میں ان کو اذیت دینے کا حکم ہے،اسلئے لواطت پر مختلف آراء ہیں۔ جلانے، پہاڑ سے گرانے، اس پردیوار گرانے کی مختلف آراء ہیں۔ نئی تحقیق میں یہ بیماری ہے اسکا علاج بھی عادی مجرموں کیلئے اذیت کا باعث بن سکتاہے۔
مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے لکھا: ’’ سنگسار کرنے کا حکم توراۃ میں تعزیر تھا‘‘۔ مولانا مناظر احسن گیلانیؒ نے لکھا:’’ الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فارجموھما : بوڑھا اور بوڑھی زنا کریں تو دونوں کو سنگسار کردو۔ یہ اللہ کا کلام کسی طور سے نہیں ہوسکتا۔ غیر شادی شدہ بوڑھا بھی زنا کرے تو ا س کی زد سے نہیں بچتاہے اور جواں شادی شدہ بھی زنا کرے تو زد میں نہیں آتا۔ اسلئے یہ یہود ی علماء کاتحریف شدہ جملہ ہے‘‘۔( تدوین القرآن: مولانا گیلانی) یہودی علماء نے یہ حکم توراۃ میں کیوں داخل کیا؟۔ نبیﷺ نے اللہ کے ہاں ناپسندیدہ افراد میں بوڑھے زنا کار اور غریب متکبر کا ذکرکیا، تو موسیٰ ؑ نے یہی کہاہوگا اور یہودی علماء نے اس کو تعزیز کے طور پر توراۃ میں ڈال دیا ہوگا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ’’ اگریہ خوف نہ ہوتا کہ لوگ کہیں گے کہ عمرؓ نے اللہ کی کتاب پر اضافہ کیا تو سنگساری کا حکم قرآن میں لکھ دیتا‘‘۔
نبیﷺ جب تک اللہ کی طرف سے حکم نازل نہ ہوتا تھا تو اہل کتاب کے مطابق عمل کرتے تھے(بخاری)۔ قبلہ اول کی طرح فیصلہ بھی ان کی کتاب کے مطابق ہوتاتھا۔ ایک آدمی نے کہا کہ ’’ میرے غیرشادی شدہ لڑکے نے فلاں کی بیوی سے زنا کیا، میں نے اپنے بیٹے کی جان بچانے کیلئے بکریوں کا جرمانہ دیکر فیصلہ کیا، اب علماء (یہودی) نے بتایا کہ اس کی بیگم سنگسار ہوگی اور تمہارے بیٹے کو100کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی کی سزا ہوگی، نبیﷺ نے توراۃ دیکھ کر وہی فیصلہ کردیا، پھر مسلمان خاتون اور مرد نے اپنے خلاف گواہی دی تو نبیﷺ نے سنگساری سے بچانے کیلئے معاملہ بہت ٹال دیا لیکن آخرکا ر سزادی۔ کسی ایک واقعہ کو روایات میں باربار نقل کرکے انبار لگادیاگیاہے۔ صحابیؓ سے پوچھا گیا کہ سورۂ نور نازل ہونے کے بعد نبیﷺ نے کسی کو سنگسار کیا تو جواب دیا کہ پتہ نہیں۔ (بخاری)
اللہ نے واضح فرمایا کہ پہلے لوگوں میں بھی یہ حکم تھا کہ شادی شدہ لونڈی زنا کی مرتکب ہو تو اسکو آزاد عورت کی آدھی سزا دی جائے (50کوڑے) ۔ نبی ﷺ کی ازواج مطہراتؓ کو دوگنی سزا( 200 کوڑے) کی وضاحت ہے۔ سنگسار ہونا دوگنا اور نصف نہیں ہوسکتا۔ اللہ نے واضح کیا کہ پہلوں کو قتل و جلاوطنی کا حکم اللہ نے نہ دیا۔ (یہ ان کی اپنی کارستانی ہے) اللہ نے یہ بھی واضح کیا کہ اے نبی ﷺ! اگر اہل کتاب آپ سے فیصلے کیلئے کہیں اور آپ فیصلہ کرنے سے انکار کردیں تو یہ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ ان کی کتابوں میں تحریف ہے اور آپ کے پاس اللہ کے احکام محفوظ ہیں۔ اگر اپنی کتاب سے یہ آپ سے فیصلہ کروانا چاہیں تو آپ انکار کردیں۔ اسلئے کہ اس کی وجہ سے یہ آپ کو اپنی کتاب سے بھی فتنہ میں ڈال دیں گے۔ پھر اسی پس منظر میں اللہ نے فرمایا: ’’اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو اپنے اولیاء نہ بناؤ، جو ان کو اپنا اولیاء بنائے وہ انہی میں سے ہے، یہ بعض بعض کے اولیاء ہیں‘‘۔ پہلے لوگ مختلف اولیاء سے اپنے فیصلے کیلئے رجوع کرتے تھے۔ جرگہ اورپنچائیت کا سسٹم آج بھی موجود ہے۔ ولایت حکومت اور جرگے کے باختیار آقاؤں کو اپنا اختیار سپرد کرنے کو بھی کہتے ہیں۔جب توراۃ اور قرآن کے احکام میں فرق آگیا تو بعد میں یہ حکم نازل ہوا۔
عورت کا ولی اس کا باپ ، چاچا اور سرپرست ہوتا ہے۔ اہل کتاب کی خواتین سے اللہ نے شادی کی اجازت دی تو اس سے بڑھ کر دوستی کیا ہے؟ ۔جب قرآن کی وضاحت ہے کہ نبی ﷺ کو اللہ نے اہل کتاب کی ولایت سے اس بنیاد پر منع فرمایا کہ اگر وہ اپنی کتاب سے فیصلہ کروانا چاہیں اور مسلمانوں کو بھی ان کو ولی بنانے سے روکا ہے، تو یہ کس قدر اسلام کو اجنبیت میں دھکیل دیا گیا ہے کہ یہود کے توراۃ کو اپنے نصاب کا حصہ بناڈالا ہے، جب توراۃ اور قرآن کے حکم میں فرق نہیں تو پھر سنگسار کرنے کیلئے یہود سے کروائیں یا مسلمان سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن اگر یہود نے سنگسار کرنا ہو اور مسلمان نے قرآن کے مطابق 100کوڑے کی سزا دینی ہو تو یہود کو اپنے حال پر چھوڑ دیں البتہ اگر وہ ہم سے قرآن کے مطابق اپنا فیصلہ کروانا چاہیں تو ہم قرآن کے مطابق ان پر حکم جاری کرسکتے ہیں۔
حضرت عمرؓ نے اپنے بیٹے کو 100کوڑے لگوائے۔بیگمؓ کا مشورہ سننے سے انکار کیا تو اس نے کہا کہ خالی بات سن لو۔ یہ مشورہ دیتی ہوں کہ کوڑے مارنیوالے کو بدلتے رہو تا کہ سخت سزا ہو۔ چنانچہ کوڑوں سے اس کی جان بھی نکال دی۔جس کی وجہ سے جلاوطنی کی سزا کا معاملہ زیرِ بحث بھی نہیں آیا۔ عقیدت و اختلافِ رائے میں کوئی تفریق بالکل بھی نہیں۔
صحابہؓ کے اندر زنا کا تصور معمولاتِ زندگی کا معاملہ نہ تھا۔ ایک روایت ہے کہ عورت نے زنا کا اقرار کیا تو نبیﷺ نے سنگسار کردیا، فقہ کے تین ائمہ امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ اس پر متفق ہیں کہ عورت ایک بار بھی گواہی دے تو سنگسار کیا جائیگا، جبکہ مرد کیلئے چار مرتبہ اپنے خلاف گواہی ضروری ہے۔ امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا کہ ’’اس واقعہ کی پوری تفصیلات موجود ہیں، عورت کیلئے بھی چارمرتبہ گواہی ہے‘‘۔ امام ابوحنیفہؒ کی تقلید نہ کریں تو بھی مخالفین کہیں گے کہ ’’اندھوں میں وہ کانا راجہ ضرور تھا‘‘۔ابنت الجونؓ پر جواب والاعلامہ ابن حجر بھی حنفی نہیں تھا۔اگر صحابیؓ وائل ابن حجرؓ یہ بات دیکھ لیتے تو کتنا افسوس کرتے؟۔
کاروباری معاملہ میں قرآن نے دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر قرار دی اور علماء نے حدود میں عورت کی گواہی ناقابلِ قبول قرار دی، پھر جمہور فقہاء نے حد کیلئے مرد کے مقابلہ میں چار مرتبہ کے بجائے عورت کی ایک مرتبہ گواہی کو کافی قرار دیا،کیا اس سے بڑا اندھا پن ہوسکتاہے جس میں یہ تیر رہے ہیں؟۔ پہلے دور نہیں اب بھی پرویز مشرف نے زنا بالجبر کو حدود سے نکال کر تعزیرات میں شامل کیا تاکہ جو متأثرہ خاتون ہو، اس کو انصاف مل سکے۔ مفتی تقی عثمانی نے فتویٰ جاری کیا کہ’’ دین میں ہم مداخلت برداشت نہ کرینگے‘‘ ۔ جماعتِ اسلامی نے اس پمفلٹ کا پرچار کیا۔ حالانکہ اس میں بڑے اندھے پن کا ثبوت دیا گیا، جس حدیث کا حوالہ دیاتھا اس میں نبی ﷺ نے زنا بالجبر میں فقہی شرائط کے مطابق چار گواہوں کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ متأثرہ خاتون کی اکیلی گواہی قبول فرمالی۔ جس پر میں نے جواب بھی لکھ کر شائع کیا تھا۔ اگر اسلام کے آئین کو دنیا میں نافذ کرنے کیلئے شائع کیا گیا تو دنیا اس کو قبول کرنے سے انکار نہیں کریگی۔ علامہ اقبال نے اسلئے ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ کے عنوان سے ابلیس کی طرف سے یہ تجویز پیش کی ہے کہ ’’مومن کو قیامت تک غلام رکھنے میں خیر ہے، تاکہ دنیا کی نظر سے آئین پیغمبر پوشیدہ رہے‘‘۔ بدکارشادی شدہ مرد یا عورت کے جینے کی اجازت نہ ہوتوالطیبات للطیبین اورالخبیثات للخبیثین اورالزانی لا ینکح الا الزاانےۃ ….کی آیات کا محل باقی نہ رہتا۔ فحاشی پر بیوی کو نکالنے کی بات ہے،قتل کی نہیں۔ سورۂ الطلاق میں ہے۔ قرآن مسلمان کیلئے بہت بڑے انقلاب کا ذریعہ ہے۔جو مغرب سے آنیوالے سازش کو روک سکتاہے ورنہ کوئی پابندی لگائے گا اور کوئی ہمارے لئے احتجاج کریگا ۔علماء کرام، صوفیاء عظام، تبلیغی جماعت،دعوت اسلامی، جمعیت علماء اسلام ، سنی تحریک، سپاہ صحابہ، فقہ جعفریہ ، اہلحدیث اس کاوش کا فائدہ اٹھائیں نہیں تو! تاریخ نے قوموں کے وہ دور بھی دیکھے لمحوں نے خطاء کی صدیوں نے سزاپائی
عالمی سطح پر قرآن وسنت کے ٹھوس خاکے کو اٹھایا جائے تو یہود ونصاریٰ بھی اس خلافت کے نظام کی خوش ہوکر تائید کرینگے۔ قرآن میں توراۃ و انجیل کے احکام کا ذکر اور یہود کی تحریف اور نصاریٰ کی خود ساختہ رہبانیت کا ذکرہے۔ ہم بھی انکے نقش پر چل پڑے اور حقائق کی طرف آئے تو مسلم اُمہ بہت خوش ہوجائے گی۔ عتیق گیلانی

پبلشر نوشتہ دیوار اشرف میمن کا بیان

یوفون کی ٹیون اور سوشل میڈیا میں تبلیغی جماعت کا مولانا طارق جمیل کہتا ہے کہ ’’جس زمین پہ سجدہ نہ ادا ہو، اس سے بھی بڑا کوئی جرم ہے؟۔ زنا کرنے کو گناہ سمجھتے ہیں، نماز کا چھوڑ دینا زنا سے بڑا جرم ہے، رشوت کھانے کوگناہ سمجھتے ہیں، نماز کا چھوڑ دینا رشوت کھانے سے بڑا جرم ہے ، قتل کرنا بڑا گناہ سمجھتے ہیں ، نمازکا چھوڑ دینا قتل سے بڑا جرم ہے۔سجدے ہی کا تو انکار کیا تھا شیطان نے۔ شیطان نے کوئی زنا کیا تھا؟، کوئی قتل کیا تھا؟ ، کوئی شراب پی تھی، کوئی جوا کھیلا تھا؟، کیاکیا تھا؟ کوئی شرک کیا تھا؟ شیطان ایک سجدے سے …‘‘ مولانا طارق جمیل کو سوشل ، الیکٹرانک، پرنٹ میڈیا اور تبلیغی جماعت کے ذریعے گھر گھر، مسجد مسجد، گلی گلی اجتماعی انفرادی طور سے پھیلانے کی خدمت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اس خطاب سے عوام کوپیغام کیا مل رہا ہے؟۔ زنا، قتل، ڈکیتی، جبری زنا، ظلم و ستم، حقوق العباد کی پامالی ، دہشت گردی، شرک اور انواع و اقسام کے تمام گناہ ، جرائم کی حیثیت نہیں، بس تبلیغی جماعت کی تحریکِ نماز میں شامل ہو جاؤ، پھر رشوت مزے لے لے کھاؤ، انڈین فلموں میں کام کرکے زنا کرو، شراب اڑاؤ، دہشت گرد بن کر قتل وغارت کا بازار گرم کرو، آستانوں میں شرک کرو، صحابہ کرامؓ کو گالیاں دو، انواع واقسام کے عقائد مسئلہ نہیں۔ انواع واقسام کے ظلم وستم کوئی بات نہیں۔ظلم وستم، رشوت ستانی، عوام کا مال ہڑپ کرکے کھانے والوں،سودی معاملات کرنے والوں،یتیموں اور بیواؤں کا پیسہ کھانے والوں،کرسی عدالت پر ناانصافی کرنے والوں،بیوروکریسی نظام کو گندہ کرنے والوں،عوام کی زندگی اجیرن کی جائے،جعلی ادویات تیار اور فروخت ہو، ڈاکٹر اور وکیل بن کر عوام سے دھوکہ کیا جائے،پولیو کی ٹیموں پرحملہ کرکے غریبوں کو قتل کیا جائے، منشیات کے اڈے چلائے جائیں، ظلم وستم کا بازار گرم کرکے اغواء برائے تاوان کے جرائم کئے جائیں،بھڑواگیری و عصمت فروشی کے اڈے چلائے جائیں۔بدمعاشی، بدکرداری سے معاشرے کا شریف طبقہ ستایا جائے، طارق جمیل کی مقبولیت کا راز لیاری گینگ وار کے سر غنہ سے لیکر دنیا بھر میں حقوق انسانی کو پامال کرنیوالوں کو سند جواز، جنت کی خوشخبری اور جھوٹی عزت وتسلی دینے میں ہے ۔بیوقوف یہ نہیں سمجھتاکہ شیطان آدم ؑ کی عظمت کو سجدہ نہ کرنے پرراندۂ درگاہ ہوا، تو حقوق انسانی کی پامالی اور انسانیت روندڈالنے سے بڑا ابلیس کا نظام اور کیا ہوسکتاہے؟۔ مولانا طارق جمیل کھل کر ابلیسی نظام کو چھوٹ دے رہاہے کہ برائیاں مسئلہ نہیں، بس نماز پڑھ لو، پھر جو مرضی ہو کرتے رہو۔ مولانا طارق جمیل کی سوشل میڈیا پر اہل تشیع کیساتھ بھی تصویر ہے، جس میں شیعہ عالم کو تبلیغی اجتماع میں شرکت کی دعوت دی ہے اور جب ریاستی ادارے نے اپنے حدود میں پابندی لگائی تو بری امام ؒ کے مزار پر حاضری دے دی۔ دہشت گردوں کی بھی مذمت کرنے سے انکار کیاتھا۔ مولانا طارق جمیل مشرق ومغرب کو یہ پیغام دیتاہے کہ تبلیغی جماعت کا پیغام صلح کل ہے۔ جرم ایک ہی تھا جو شیطان نے کیا تھا، باقی سب چھوٹی باتیں ہیں ان سے فرق نہیں پڑتا۔ شرک، قتل، رشوت، زنا، زنابالجبر، جوا، شراب یہ معمولی باتیں ہیں کرتے رہو۔
اسلام کا چہرہ ایسا مسخ کیا جارہاہے جیسے سابقہ امتوں کے علماء ومشائخ نے مسخ کیاتھا۔ ایک عام آدمی اس بات کو سمجھتاہے کہ نماز کا تعلق اللہ کے حقوق سے ہے، رشوت اور قتل کا تعلق حقوق العباد سے ہے، اللہ کے حقوق سے بڑا سنگین معاملہ حقوق العباد کاہے۔ جس کو اللہ معاف نہیں کریگا۔ زمین میں خلافت کا تعلق عدل ونصاف کے قیام سے ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ اعدلوا ھو اقرب للتقویٰ ’’ عدل قائم کرو، یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے‘‘۔ تبلیغی جماعت میں ایک شخص سال، ڈیڑھ سال کیلئے جماعت میں نکل جاتاہے، اسکے پیچھے اس کی بیگم بدکاری کی مرتکب ہوجاتی ہے، شوہر کا حقوق زوجیت ادا نہ کرنا بڑا ظلم ہے اور یہ بڑی زیادتی ہے کہ شوہر سال ، ڈیڑھ سال کی جماعت میں نکلے اور اس کی بیگم ناجائز تعلق سے اپنی خواہش پوری کرے، معاشرے کو خراب کرے لیکن مولاناطارق جمیل کی تقریر اس کیلئے اہمیت کی حامل ہے کہ زنا بڑا جرم نہیں جس زمین پہ سجدہ ادا نہ ہو،یہی بڑا جرم ہے۔ دہشت گردوں نے لوگوں کی زبردستی سے عزتیں لوٹ لی ہیں، ظلم سہنے اور ظلم کرنے والوں کو تلقین جاری ہے کہ ظلم کرو،اور ظلم کا نشانہ بنو، عزتیں لوٹو اور عزتیں لٹواوو، یہ بڑا جرم نہیں، بس تبلیغ میں نکلو اور جس زمین پہ سجدہ نہ ہو وہاں سجدہ کرو، تحریک سے جڑنا جرائم کی تلافی ہے اور تبلیغ سے جڑنے کے بعد کوئی ظلم ، کوئی زیادتی، کوئی بدکاری، کوئی عقیدہ نقصان دہ نہیں۔تبلیغی جماعت کے ہاں ایک مشہورکتاب ’’ موت کا منظر‘‘ ہے، جس میں’’زنابالجبر‘‘ کے عنوان سے سزا کا ذکرہے۔ وائل ابن حجرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک عورت آئی جس کے ساتھ ایک شخص نے زبردستی سے زنا کیا تھا، رسول اللہﷺ نے اس کو سنگسار کرنے کا حکم دیا۔مولانا طارق جمیل خود بتائیں کہ اگر اس کے پاس ضمیر، غیرت اور عزت نام کی کوئی چیز ہو اور کوئی اس کی بیگم، بیٹی، ماں اور بہن کیساتھ زبردستی سے زیادتی کرے تو کسی کا نماز چھوڑدینے سے بڑا جرم کیا یہ نہیں ہوگا؟۔ ذکری فرقے نے ذکر پر زور دیا اور نماز چھوڑ دی لیکن دوسرے مظالم کو روا رکھنے کی تلقین تو نہ کی، مولانا طارق جمیل سجدے کی بنیاد پر دوسرے جرائم کو بے اہمیت سمجھنے کی دعوت دیتا ہے، جرائم پیشہ عناصر کو یہ تقریر بڑی عمدہ لگ رہی ہے، کیونکہ جرائم پیشہ عناصر معاشرے کے تمام معاملات کے کرتا دھرتا ہوتے ہیں۔ پوری دنیا میں سود ی نظام خرابیوں کی جڑہے اور سود کو بھی جواز بخشا جاتاہے ۔زنا، قتل، شراب، جوا، رشوت اور دیگرجرائم کی کیا حیثیت ہے؟۔
حضرت حاجی عثمانؒ نے مولانا الیاسؒ کے جانشین حضرت جی مولانا یوسفؒ کیساتھ تبلیغی جماعت میں بڑا وقت لگایا تھا، وہ تبلیغی جماعت میں کہتے تھے کہ ’’ نماز فحاشی ومنکرات سے روکتی ہے۔ تم جماعت میں موسیٰ بنتے ہو، معاشرے میں پھر فرعون بن جاتے ہو،ظلم، رشوت،زیادتی، منکرات سے نہ رُک جاؤ، تو تمہاری نمازیں قبول نہیں وغیرہ‘‘۔ پہلے لوگ تبلیغی جماعت کی کارکردگی سے پرہیزگار ، منکرات سے بچنے والے اور اچھے شہری بنتے تھے اب جرائم پیشہ طبقہ روپ بدلنے کیلئے جماعت کو ڈھال کے طور پر استعمال کررہا ہے۔ حضرت آدم ؑ کو زمین کی خلافت کیلئے پیدا کیا گیا، عبادت کیلئے فرشتے بھی کم نہ تھے۔ شیطان کی ساری عبادت اسلئے رائیگاں گئی کہ خلیفہ نہیں مانا۔ رسول اللہ ﷺ کو مکہ سے مدینہ ہجرت کا حکم اقتدارکیلئے دیاگیا، پاکستان کی تشکیل اسلامی نظامِ کیلئے ہوئی۔ مولانا طارق جمیل سے ہمارے ساتھیوں اجمل ملک وغیرہ نے حدیث کا ذکر کیا کہ ’’اسلام اور اقتدار دو جڑواں بھائی ہیں ایکدوسرے کے بغیر درست نہیں ہوسکتا‘‘ توصاف کہا کہ ’’میں اس حدیث کو نہیں مانتا‘‘۔اللہ نے فرمایا: ادخلوافی السلم کافۃ۔اسلام میں پورے داخل ہونے کا حکم ہے اور اقتدارِ اعلیٰ اور حکومت سے متعلق اسلام کے احکام کو تسلیم کئے بغیر مولانا طارق جمیل کی اگلی منزل انڈین فلموں میں اداکاری کرنے کی لگتی ہے۔قرآن وسنت کے علاوہ مولاناطارق جمیل آئین پاکستان کے بھی باغی ہیں، جب دارالعلوم کراچی کورنگی کے مفتی تقی عثمانی وغیرہ حاجی عثمانؒ کے خلفاء کیساتھ ’’ا لائنس موٹرز‘‘ کے کاروبار میں شامل تھے تو تبلیغی جماعت کے اکابر ین کی باتوں پر فتوے لگادئیے، اہل تشیع پر مفتی عثمانی نے کبھی فتویٰ نہیں لگایا۔عوام کا دباؤ پڑجائے تو مولاناطارق جمیل اپنے بیان پر معافی مانگ لے گا، نہیں توبنی اسرائیل کی گائے سے گاؤ ماتا کی پوجا تک بات پہنچ جائے گی۔مفتی تقی عثمانی کا ایک بیان بھی سوشل میڈیا پر موجود ہے کہ ’’میں نعمان مسجد لسبیلہ کراچی میں قرآن کا درس دینا چاہ رہا تھا، تبلیغی جماعت نے کہا کہ جمعہ کو ہمارا گشت ہوتاہے، درسِ قرآن نہ دیں،جب میں نے کہا کہ تم گشت مغرب کے بعد کرتے ہو اور بیان عشاء کے بعد تو میں عصر کی نماز کے بعد درسِ قرآن دوں گا، تبلیغی کے منہ سے فوراً نکلا کہ تم دین کی راہ میں رکاؤٹ بنتے ہو۔تبلیغی جماعت کی یہ ذہنیت کہ ان کی اصلاح کروتوبھی یہ اس کو دین کی مخالفت سمجھتے ہیں،دنیا میں آگ لگادے گی‘‘۔سوشل میڈیا پر بیان دیکھ لیں ۔ اشرف میمن

خلق الانسان ضعیفاً(انسان کمزور پیدا کیا گیا) القرآن

دنیا کی رہنمائی کیلئے ’’قرآن مجید‘‘ عظیم نعمت ہے لیکن افسوس کہ قرآنی دعوت کے دعویدار مذہبی طبقے بالغِ نظری کا ثبوت نہیں دیتے۔ بوڑھے ہوکر بھی طفلِ مکتب کہلانے پر فخر کرتے ہیں حالانکہ قرآن فلسفے کی کتاب نہیں بلکہ فطری رہنمائی کیلئے نازل ہوا۔ ان پڑھ لوگوں کو پڑھا لکھا ، جاہلوں کو عالم اور نادانوں کو دانا بنادیا۔ جہالت کے اندھیروں میں قریش ایسے سوئے تھے کہ 13 سالہ مکی دور میں بھی چندلوگوں نے ہی اسلام قبول کیااور قرآن کے نزول کی روشنی سے بھی نہیں جاگ رہے تھے۔پاکستانیوں کو توجہ لانے کی ضرورت ہے۔
حضرت آدم و حوا علیھماالسلام کو اللہ نے جنت میں حکم دیا کہ ’’اس درخت کے قریب مت جاؤ‘‘ لیکن شیطان نے ان کو پھسلادیا اور اللہ نے زمین کی خلافت کا وہ منصب سونپ دیا،جس کیلئے فرشتوں نے سجدہ کیا تھا۔ ہمارے ملک میں جمہوریت کے محافظ کرپٹ حکمران ڈکٹیٹروں کے بغل بچے بھی ہیں ، کرپشن بھی کی اور خود کو معصوم اور دوسرے کو موردِ الزام بھی ٹھہرایا اور اعتراف جرم بھی طعنے کے انداز میں کرتے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے مارشل لاء کے خلاف مسلم لیگ ن کے کردار پر نکتہ چینی کی اور خواجہ سعد نے اپنی صفائی میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں جیل کاٹنے کا ذکرکیااور اپنے باپ خواجہ رفیق کی شہادت کا حوالہ دیا۔خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ پیپلزپارٹی پانامہ لیکس پر بات کرے لیکن اس کی اپنی سلیٹ بھی صاف نہیں، خورشیدشاہ کا جواب آیا کہ ہماری سلیٹ صاف نہیں تو تمہارا بلیک بورڈ بھی آلودہ ہے۔ شاہ محمود قریشی نے خواجہ سعد اور انکے بڑے باپ خواجہ رفیق کی بڑائی بیان کی اور کہاکہ میں واحد ناظم تھا جس نے پرویزمشرف کے ریفرنڈم کی تائید نہیں کی، اس وقت میں پیپلزپارٹی میں تھا۔شاہ محمود قریشی اپنی صفائی پیش کرکے اپنے قائد عمران خان کے چہرے پر ریفرینڈم کی تائید کی کالک مَل رہے تھے اور خواجہ سعد رفیق جنرل ضیاء کے دور میں جیل جانے کا ذکر کرکے اپنے قائد کا چہرہ سیاہ کررہے تھے۔ خورشیدشاہ اور خواجہ سعدرفیق نے سلیٹ اور بلیک بورڈ صاف نہ ہونے کاالزام ہی نہیں لگایا بلکہ اعترافِ جرم بھی کردیاہے لیکن ہماری عدالتوں سے طاقتور لوگوں کو کلین چٹ ملتی رہے تو عوام کا نظام پر اعتماد بحال نہ رہے گا، یہ الیکٹرانک میڈیا کا دور ہے اور عدالتوں کو چاہیے کہ ان کو کلین بورڈ کردیں۔ عدالتوں پر پارلیمنٹ میں جماعتِ اسلامی کے نمائندے نے کھل کر عدمِ اعتماد کا اظہار کیااور اگر دہشت گردوں کیخلاف فوجی عدالتوں کی ضرورت تھی تو ان طاقتور طبقات کیخلاف بھی کیاعدالتوں میں سکت نہیں ہے؟۔
فرعون کے دور میں بنی اسرائیل کیخلاف مظالم مشہور تھے۔اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی اطلاع کردی اور فرعون کی گود میں ہی آپؑ کی پرورش کی۔نسلی تعصب نے ماحول پر گہرے اثرات مرتب کئے تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے ایک بیکار انسان کی شکایت پر قبطی کو مکا کیا مارا، کہ وہ ڈھیر ہوگیا۔ قتل کے اس جرم پر پردہ پڑا رہا۔ جب اپنی قوم کا وہ فرد کسی اورسے جھگڑ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو شکایت کرنے لگا تو حضرت موسیٰ نے فرمایا کہ ’’تجھے بھی روز روز لڑائی کرنی ہے؟‘‘۔ وہ چیخا کہ کیا تو مجھے اس طرح قتل کریگا جیسے اس دن دوسرے کو قتل کیا تھا؟۔ اس وجہ سے قتل کا راز فاش ہوا۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلاف قتل کا مقدمہ چلنے کی تیاری ہونے لگی تو قبطی قوم کے شخص نے ہی ان کو اطلاع دی ۔ جب وہ فرار ہوگئے تو دوسرے علاقہ میں پہنچ کر دوبچیوں کی مدد کردی۔ وہ حیاء سے چل رہی تھیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان کی یہ ادا بھلی لگ رہی تھی۔ وہ پیغمبر کی بچیاں تھیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وہاں ٹھکانہ بھی مل گیا، 8سال مزدوری کے عوض ایک بچی کے نکاح کی پیشکش قبول کرلی۔ شادی کے بعد بیوی کو زچگی ہوئی تو راہ چلتے میں کوہ طور پر جلوہ دیکھا، سمجھے آگ ہے لیکن وہاں سے یہ آواز آئی کہ ’’بیشک میں اللہ ہوں‘‘۔ کہاوت ہے کہ ’’ آگ لینے گئے اور پیغمبری مل گئی‘‘۔ قرآن طعن وتشنیع سے روکنے کی دعوت دیتاہے اور معصوم بننے کے بجائے کمزور انسان رہنے پر کاربند رکھتاہے۔ معصومانہ سیاست کے دعوؤں سے احمقانہ لیڈرشپ کو باز آنے کی ضرورت ہے۔
بخاری شریف کی روایت ہے کہ حضرت سعد بن معاذ انصاریؓ ایک مرتبہ اپنے دوست کے ہاں مکہ میں ٹھہرگئے۔ دوست سے کہا کہ ’’کعبہ کی زیارت کا کوئی راستہ نکلے‘‘، دوست نے کہاکہ’’بڑا مشکل ہے کوئی دیکھ لے تو شامت نہ آجائے‘‘۔ بہرحال یہ طے ہوا کہ دوپہر کا وقت مناسب ہے، لوگ سوجاتے ہیں،کسی کوپتہ نہ چلے گا۔ کعبہ کی زیارت کو نکلے تو راہ میں ابوجہل کی نظر پڑی۔ ابوجہل بہت غصہ ہوا، دوست مشرک سردار سے کہا کہ ’’ہمارے دین کا یہ دشمن ہے اور تم اس کو کعبہ کی زیارت کیلئے لے جارہے ہو؟۔ تمہارے ساتھ نہ ہوتا تو میں اس کو زیارت کبھی نہ کرنے دیتا بلکہ قتل کرتا۔ حضرت سعدؓ نے کہا کہ ’’تم زیادہ الجھنے کی کوشش نہ کرنا،ہم تمہارا شام سے آنے والا قافلہ روک دینگے۔ دوست سردار نے کہا کہ ابوجہل سے سخت لہجے میں بات نہ کرو، یہ ہماراسردار ہے۔ حضرت سعدؓ نے اپنے دوست سے غصہ میں کہا کہ مجھے تمہاری اوقات کا پتہ ہے عنقریب تم اور تمہارے سردار سب قتل ہونیوالے ہو۔ معاملہ ٹھنڈا ہوا، گھر پہنچے تو دوست سردار نے اپنی بیوی سے کہا کہ ’’ تمہارا بھائی نے میرے قتل کی خبر سنارہا تھا‘‘۔ بیگم نے کہا کہ سچ !، کیسے؟۔ حضرت سعدانصاریؓ نے کہا کہ ’’مجھے اور کچھ بھی معلوم نہیں لیکن رسول اللہ ﷺ نے مشہور سرداروں کے نام لیکر فرمایا ہے کہ عنقریب یہ قتل ہونگے‘‘۔ جسکی وجہ سے اس دوست سردار پر خوف طاری ہوا۔ پھر مدینہ میں حضرت سعدؓ نے مختلف لوگوں کو یہ قصہ سنایا۔ جس کی وجہ سے شام کے قافلے کو لوٹنے کا خیال منظم ہوا۔ مشاورت کے بعد فیصلہ ہوا، تو جو لوگ اس میں شریک نہ ہوئے انکی مذمت نہ ہوئی اسلئے کہ جہاد کے ارادے سے نہ گئے تھے جس کی وضاحت بخاری میں موجود ہے۔ قرآن و احادیث اور سیرت کی کتابوں میں واضح ہے کہ مسلمانوں کا پروگرام شام کا قافلہ تھا لیکن اللہ نے بدر کے معرکہ سے دوچار کردیا، فتح کے بعد مشرکین کے70افرادسردار سمیت قتل اور70قیدی بنائے گئے۔ جب مشرک قافلے کے دفاع کیلئے مکہ سے نکل رہے تھے تو سرداروں پر رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی کی وجہ سے قتل کا خوف بھی طاری تھا۔ سعد انصاریؓ کا دوست مشرک سردار نکلنے پر آمادہ نہیں تھا مگر ابوجہل نے کہاکہ تم نہ نکلوگے تو دوسرے بھی ڈرکے مارے تیار نہ ہونگے۔یہ سارا پسِ منظربخاری میں بھی موجودہے۔
مسلمانوں نے قیدیوں پرمشاورت کی تو حضرت عمرؓ اور حضرت سعدؓ نے مشورہ دیاکہ ’’ان قیدیوں کو قتل کیا جائے‘‘۔ باقی حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علیؓ وغیرہ متفق تھے کہ ’’فدیہ لیکر ان کو چھوڑ دیا جائے‘‘۔ رسول ﷺ نے فدیہ لیکر رحم والے مشورے پر فیصلہ فرمادیا تو اللہ نے آیتیں نازل کردیں کہ’’ نبی (ﷺ) کیلئے مناسب نہیں تھاکہ انکے پاس قیدی تھے، یہانتک کہ زمین میں خونریزی کرتے، تم دنیاچاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتاہے اگر اللہ پہلے سے لکھ نہ چکا ہوتا تو سخت عذاب دیدیتا۔ ۔۔۔‘‘۔ رسول ﷺ نے بھی اس عذاب کو دیکھ لیا، جو حضرت عمرؓ اور حضرت سعدؓ کے سوا سب کو لپیٹ میں لیتا اور ان حقائق کی قرآن وسنت میں تفصیلات موجودہیں۔
مفسرین نے حقائق کو مسخ کرنے کیلئے قسم قسم کی تفسیرلکھ دی ، مسلمان مخالف قوتوں کیلئے حقائق کے منافی تفسیرو تعبیرکیسے قابلِ قبول ہوسکتی ہیں جب ان پر مسلمانوں کا آپس میں بھی اتفاق ممکن نہیں ۔ علامہ غلام رسول سعیدیؒ نے اپنی تفسیر ’’تبیان القرآن‘‘ میں مفسرین اور اپنے استاذ کے حوالے دئیے ہیں جو بڑی مضحکہ خیز بھی ہیں۔ آیات اور حقائق سے ان کا کوئی جوڑ بھی نہیں لگتا، بس آیت کے مفہوم کو مسخ کرنے اور اجنبی بنانے کا ذریعہ ہیں لیکن قرآن کی ان آیات سے ہدایت کے چراغ روشن ہوتے ہیں۔
مہاجر مسلمانوں کے گھروں اور زمینوں پر قبضہ کیا گیا تھا، مدینہ میں انصارؓ اپنے مہاجرؓ بھائیوں کا بوجھ خندہ پیشانی سے برداشت کررہے تھے ، قافلہ کو لوٹنا شوق نہیں مجبوری اور اپنا حق تھا اور فدیہ لینے کی مجبوری تھی لیکن اللہ نے پھر بھی انکا تزکیہ کردیا کہ مسلمانوں کی تحریک دنیاوی مفاد کے حصول کی خاطر نہیں بلکہ اللہ صرف آخرت چاہتاہے۔ اگر اللہ تنبیہ نہیں فرماتا تو نتیجہ میں قیامت تک قافلے لوٹنے اور اغواء برائے تاوان کو مقصد سمجھا جاتا۔ صحابہ کرامؓ کے ذہنوں میں رسول اللہﷺ کے عزیز واقارب کی وجہ سے معافی کا جذبہ تھا، اللہ نے اس جذبے کو بھی ناقابلِ قبول قرار دیا۔ یہی سبب بناتھا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ سے باغِ فدک پر حضرت فاطمہؓ ناراض ہوئیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے اہلبیت کی ضروریات کو باغِ فدک سے پوراکیا اور باقی آمدن غرباء کیلئے وقف کر رکھی تھی۔ خلیفۂ اول حضرت ابوبکرؓ نے اپنی بیگم کا بچابچاکر میٹھے کیلئے جمع کردہ مال بھی غریب میں تقسیم کیا اور اتنا وظیفہ اپنا کم کروادیا۔
حضرت عمرؓ نے حدیثِ قرطاس میں رسول اللہﷺ کے فرمان پر عرض کیا کہ ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے، یہ قرآنی آیات کی تربیت کا نتیجہ تھا۔ اللہ نے قرآنی آیات کے ذریعہ تعلیم وتربیت اور تزکیہ کے علاوہ حکمت کی بھی تعلیم دی تھی، فدیہ لینے کے مسئلہ پر مسلمانوں کوڈانٹاگیااور نبیﷺ کا فیصلہ نامناسب قرار دیا تو بظاہر ڈانٹ مسلمانوں کو پڑی مگر پیغام درحقیقت مشرکوں کو دیاگیا کہ ’’اس دفعہ فدیہ دیکر سلامت جارہے ہو لیکن پھر یہ توقع نہ رکھنا کہ پھر گرفتاری کے بعد چھوٹ جاؤگے‘‘۔ جیسے یہ کہاوت مختلف زبانوں میں مشہور ہے کہ ’’ بیٹی تجھ سے کہہ رہا ہو ں کہ گھر کے یہ اصول ہیں ، ان پر چلنا ہوگا لیکن بہو سنو تم بھی‘‘ جس کا مقصد بہو کو سمجھانا ہوتاہے۔ یہ حکمت کی زبان مسلمانوں کو قرآن نے بہت پہلے قرآن ہی کے ذریعے سمجھائی تھی۔
غزوہ اُحد میں مسلمانوں کو زخم لگا تو بہت دکھ پہنچا اور بدلہ لینے میں مبالغہ آرائی کاکہاکہ ایک کے بدلے ستر کی حالت یہ کردینگے اور سمجھ رہے تھے کہ اللہ نے درست فرمایا تھا ،فدیہ کے بدلے میں ہمیں ا ن کو چھوڑنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے تھی، تو اللہ نے واضح فرمایا: ’’ اگر تمہیں تکلیف پہنچی ہے تو ان کوبھی تکلیف پہنچی تھی‘‘۔ ’’ کسی قوم کے انتقام کا جذبہ تمہیں وہاں تک نہ لیجائے کہ تم اعتدال سے ہٹ جاؤ‘‘۔ ’’ جتنا انہوں نے کیا ہے ، تم بھی اتنا کرسکتے ہو، اور اگر معاف کردو، تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور معاف ہی کردو، اور معاف کرنا بھی اللہ کی توفیق کے مرہونِ منت ہے‘‘۔ جب مسلمانوں نے معاف کیا تو اللہ نے کہا کہ تم نے معاف کیوں کیا؟۔ اور جب بدلہ لینے کی بات کردی تو اس پر بھی مخالفت میں آیات نازل ہوئیں اور معاف کرنے کا حکم دیدیا۔
قرآن میں دوسری جگہ اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’ قیدیوں کو فدیہ کے بدلے میں یا بغیر فدیہ کے جیسے چاہو چھوڑ سکتے ہو‘‘۔ شدت پسند وں کے ذہن کی سوئی خون بہانے پر ہی اٹکی ہوئی ہے اور بے شرم سیاستدان سمجھتے ہیں کہ وہ قاتل اور کرپٹ ہوکر بھی معصومیت کے دعوے نہ کریں تو اقتدار ہاتھ سے جائیگا۔ اس قوم نے قرآن کو چھوڑدیا ہے ۔ نبیﷺ کی پیشگوئی کے مطابق اسلام اجنبیت کا بالکل شکار ہوگیاہے۔ پاکستان میں زیادہ تر علماء کرام ومفتیانِ عظام کا تعلق دیوبندی، بریلوی ، اہلحدیث اور اہل تشیع کے مکاتبِ فکر سے ہے۔اکثریت کا تعلق حنفی فقہ درسِ نظامی سے تعلق رکھنے والے دیوبندی بریلوی علماء کی ہے۔
مدارس دینیہ میں علماء بننے کیلئے غسل کے فرائض سے لیکر طلاق وغیرہ کے مسائل تک جو تعلیم دی جاتی ہے ، اس کا صحابہ کرامؓ کے دور میں کوئی وجود نہ تھا۔ امام ابوحنیفہؒ ، امام مالکؒ اور امام شافعیؒ کے معتقدین کا غسل کے فرائض پر اختلاف سے لیکر جن جن مسائل پر اختلافات ہیں، ان کے سیکھنے سکھانے سے مولوی طبقہ پیدا ہوتا ہے ۔ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کے دور میں اس قسم کے مسائل کا وجود نہ تھا اسلئے کوئی مولوی بھی نہیں تھا، رسول اللہ ﷺ کی طرف سے یہ مسئلے مسائل کسی کو نہیں سکھائے جاتے تھے اسلئے مولوی بننے کے ادارے بہت بعد کے ادوار میں پیدا ہوئے۔ آج بھی مسلمانوں کی اکثریت کا یہ حال ہے کہ وہ مولوی پیدا کرنیوالے مذہبی مسائل سے نا آشنا ہوتے ہیں مگر بدقسمتی سے اسلام جیسی عظیم الشان نعمت کو انکے رحم وکرم پر چھوڑ دیاگیا، جنہوں نے اسلام کو اپنے موروثی پیشہ کے طور پر اپنایاہے۔
رسول اللہ ﷺ کو وحی کے ذریعے رہنمائی کی ضرورت تھی۔ خلافتِ راشدہ کے دور میں وحی کا سلسلہ بند تھا۔ صحابہؓ کی چاہت تھی کہ زکوٰۃ اور صدقات کو نبیﷺ کے حوالہ کریں کیونکہ زیادہ تر مساکین نبیﷺ کے گرد منڈلاتے تھے تاکہ آپﷺ اپنی صوابدید کے مطابق جن کو چاہیں دیدیں۔ رسول اللہﷺ کی چاہت یہ تھی کہ اہل ثروت اپنی زکوٰۃ اپنے ہاتھ سے غرباء میں تقسیم کریں اسلئے کہ اپنے عزیز واقارب محبت کی وجہ سے ترجیح کے باعث بن سکتے تھے۔ انصارؓ کے جوانوں نے ایک بار شکوہ شکایت شروع کی کہ ’’قربانیاں ہم نے دیں اور مہاجرینؓ کو ترجیح دی جاتی ہے ‘‘ تو نبیﷺ نے بھرپور وضاحت کی، پھر انصارؓ نے کہاتھا : رضینا باللہ ربا و بمحمد نبیا و بالاسلام دینا ’’ہم اللہ کے رب ، محمدﷺ کے نبی اور اسلام کے دین ہونے پرراضی ہیں‘‘۔
جب اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ کو حکم دیا کہ ’’ مسلمانوں سے صدقات لیں،یہ ان کی تسکین کا ذریعہ ہے ‘‘ تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے اوپر اور عزیز واقارب پر زکوٰۃ کو حرام قرار دیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ اللہ نے انسان کے بارے میں فرمایاہے :انہ لحب الخیر لشدید ’’مال کی محبت میں انسان بہت سخت ہے‘‘۔ نبیﷺ نے فرمایا’’ میرا بس چلتا تو سارا خیر خود ہی سمیٹ لیتا‘‘۔ اللہ نے رسول ﷺ کے ذریعہ صحابہؓ کی تربیت کا اہتمام فرمایا، رسول ﷺ نے اپنے لئے زکوٰۃ کو ناجائز قرار دیا تو حضرت ابوبکرؓ نے ضرورت سے زیادہ مال بیت المال سے لینا جائز نہ سمجھا۔ ان مقدس ہستیوں نے قرآنی تعلیمات دنیا کے سامنے عملی طور پر پیش کردیں۔ حضرت عمرؓ نے ایک متوسط طبقے سے زیادہ بودوباش اپنے لئے قبول نہ فرمایا، حضرت عثمانؓ پہلے سے خود ہی مالدار تھے اور حضرت علیؓ قرآن وسنت کیلئے کوشاں رہے۔ ان ہستیوں سے حسنِ ظن کے باوجود عشرہ مبشرہ کے صحابہ حضرت طلحہؓ و حضرت زبیرؓ اور حضرت علیؓ کے مابین قتل و غارت کیوں ہوئی، جبکہ قرآن نے انکی صفت رحماء بینھم اشداء علی الکفار ’’ آپس میں رحیم اور کافروں پر سخت‘‘بیان کی تھی ؟،نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’ خبر دار میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایکدوسرے کی گردنیں مارنے لگو‘‘۔
اللہ نے مسلمانوں کے درمیان قتل وغارت اور جھگڑے کی صورت میں صلح کرنے کا حکم دیا۔غیبت کو مردے بھائی کا گوشت کھانا کہہ دیا اور غیبت کو زنا سے بدتر قرار دیاگیا تو اسکے معانی منطقی نتائج نکالنے کے نہیں بلکہ جسکو ہلکا گناہ سمجھا جائے ،پُرزور الفاظ میں ا س سے بچنے کی تلقین ہے، جیسے فتنے کو قرآن میں قتل سے سخت قرار دیاگیا اور اولاد کو بھی فتنہ قرار دیاگیا۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ کوئی کم عقل خطیب زورِ خطابت میں اولاد کو قتل کرنے کی دعوت شروع کردے، مولانا طارق جمیل کی آواز ایک ٹیلی فون کی گھنٹی پر ہے کہ ’’جس زمین پر سجدہ نہ کیا جائے، زنا کو بڑا جرم سمجھتے ہیں، نماز نہ پڑھنا زناسے بڑا جرم ہے،رشوت کو جرم سمجھتے ہیں، نمازنہ پڑھنا رشوت سے بڑا جرم ہے، قتل کو بڑا جرم سمجھتے ہیں،نماز نہ پڑھنا قتل سے بڑا جرم ہے، شیطان نے زنا کیا تھا، قتل کیا تھا،شرک کیا تھا،اک سجدہ ۔۔۔‘‘۔ پتہ نہیں ہماری ریاست اور عوام کا کیا انجام ہوگا؟۔ کس قسم کے جاہل عوام کے محبوب رہنما بن گئے ہیں؟۔
اس جاہل کو علم کی سند کس جاہل نے دی ؟۔ غزوہ خندق میں نبیﷺ سے چار نمازیں قضاء ہوئیں،سفر میں نبیﷺ سمیت صحابہؓ سے نمازِ فجر قضا ہوئی، حضرت علیؓ نے نبیﷺ کی خدمت میں عصر کی نماز قضا کردی، ایک وفد کو نبیﷺ نے حکم دیاکہ ’’عصرکی نماز بنی قریضہ پہنچ کر پڑھو‘‘، بعض افراد نے وقت پر نماز ادا کرلی اور بعض نے قضا کرکے مغرب کیساتھ پڑھ لی، نبیﷺ نے کوئی تنبیہ نہ فرمائی۔ ایک مقروض کا نمازِ جنازہ پڑھنے سے رسول اللہﷺ نے انکار فرمایا، حضرت علیؓ نے قرض ادا کرنا اپنے ذمہ لے لیا تو نبیﷺ نے اس نمازی کا جنازہ پڑھالیا، ایک ایسا شخص جسکے نماز، روزہ ، حج اورکسی عبادت کا کوئی گواہ نہ تھا لیکن حقوق العباد کا اس پرکوئی معاملہ نہ تھا، ایک شخص نے مسلمان ہونے کیلئے گواہی دی کہ ایک موقع پر رات کو میرے ساتھ چوکیداری کی تھی،رسول اللہﷺ نے نہ صرف نمازِ جنازہ پڑھائی بلکہ جنت کی بشارت بھی دی،ہرعالم اور تھوڑی بہت دینی شعوررکھنے والا جانتاہے کہ حقوق العباد کو اللہ معاف نہیں کرتا اور حقوق اللہ میں معافی کی گنجائش ہے۔
نبیﷺ نے ذی الخویصرہ علیہ لعنت کے بارے میں فرمایا :’’اس گستاخ کو قتل نہ کرو، اسکے اور بھی ساتھی ہیں جنکے نماز اور روزے کو دیکھ تم اپنی نماز اور روزوں کو حقیر سمجھوگے، یہ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن انکے حلق سے نہ اتریگا اوریہ ایمان سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتاہے‘‘ ۔ مولانا طارق جمیل ذی الخویصرہ کی روحانی اولاد پیداکررہاہے۔ مذہبی طبقے میں نماز پر اتنا زور اور زنا، رشوت، قتل اور شرک سمیت سب کو ہلکا کرنے کی کوشش بڑی گھناؤنی حرکت ہے۔ غیبت کو مردے بھائی کا گوشت اور زنا سے بدتر اسلئے کہا گیا کہ حقوق العباد کو معمولی نہ سمجھا جائے ، مذہبی لوگ ناسمجھ ہیں، حقوق العباد کی پامالی ان کو سراپا شیطان بنادے گی۔ تبلیغی جماعت، علماء کرام اور مفتیان عظام نوٹس لیں، یہ جرم جنیدجمشیدکے اس جرم سے خطرناک ہے جس سے مولاناطارق جمیل نے برأت کا اعلان کیا تھا، دیوبندی مکتبۂ فکر کے اکابر علماء میں اگر ایمانی قوت ہو تو اس پر اعلانیہ توبہ کی تلقین کروائیں۔ بہت سے لوگوں نے یہ خطاب سنا ہوگا اور اسکے علاوہ بھی یہ مذہبی اداکار کیا کچھ نہ کرتا ہوگا؟۔
نبیﷺ نے فرمایا : ’’جس نے جان بوجھ کر نماز ترک کی، اس نے کفر کیا‘‘ باقی ائمہ نے اس کو شدت پر محمول کیا لیکن حضرت امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا کہ اس سے ترہیب مرادہے ، حقیقت نہیں۔ صحابہؓ سے فرمایاتھا کہ ’’ میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو‘‘۔ عشرہ مبشرہ اورصحابہؓ پر یہ کفر کا فتویٰ نہ لگایاگیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ ’’ جو حج کی استطاعت رکھتاہو وہ حج نہ کرے تو اس کی مرضی کہ یہود بن کر مرے یا نصرانی‘‘۔ جس پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے کفر کا فتویٰ لگایاتھا۔ علماء نے ان کی تردید کردی کہ حج کا منکر کافر ہے مگر استعداد رکھنے کے باوجودحج نہ کرنے والا فاسق ہے کافر نہیں۔ فقہ سمجھ کا نام ہے ، حدیث پڑھنے یا مسائل رٹنے کوفقہ نہیں کہتے ہیں۔ امام احمد بن حنبلؒ ، امام شافعیؒ ، امام مالکؒ کے بارے میں کہا جاسکتاہے کہ نیک نیتی سے حدیث کو سمجھنے میں غلطی کی، مولانا مودودیؒ نے بھی اسی طرح سے سمجھ میں غلطی کی تھی مگر مولاناطارق جمیل نے ایسی جاہلانہ منطق کا جال بچھایا جس میں شیطانی قوتوں کی زبردست سرپرستی کا حق اداکردیاہے۔
رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں وحی کا سلسلہ موجود تھا، ایک خاتون نے ظہار کے مسئلہ پر مجادلہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے خاتون کے حق میں ہی وحی نازل کی، سورۂ مجادلہ کی آیات دیکھ لی جائیں۔ رسول اللہﷺ کا کوئی جانشین ایسا نہیں، جس سے اختلاف کی گنجائش نہ ہو،جوپیروکاروں کو اختلاف نہیں کرنے دیتا وہ خلیفہ، عالم اور مذہبی پیشوا نہیں بلکہ دجال کے لشکر کا امام ہے۔ امام ابوحنیفہؒ سے انکے شاگردوں نے اختلاف کیا، رسول اللہﷺ سے صحابہؓ کرام کا اختلاف رہا۔بدر کے قیدی، سورۂ مجادلہ،صلح حدیبیہ ، حدیث قرطاس وغیرہ کی مثالیں قرآن وسنت میں موجود ہیں۔ خلافت راشدہؓ میں بھی اختلاف جاری رہا۔ حضرت ابوبکرؓ نے زکوٰۃ نہ دینے والوں کیخلاف جہاد کا فیصلہ کیا توحضرت عمرفاروق اعظمؓ نے اختلاف کیا، حضرت ابوبکرؓ نے بہرحال فیصلہ کیا تو صحابہؓ نے ویسے ساتھ دیا جیسے صلح حدیبیہ کے وقت نبیﷺ کا بادلِ نخواستہ ساتھ دیا تھا۔ حضرت عمرؓ نے نبیﷺ سے حدیث قرطاس کے مسئلہ پر اختلاف کیا لیکن آخر میں اس تمنا کا اظہار فرمایا: ’’کاش! ہم نبیﷺ سے تین چیزوں کے بارے میں پوچھ لیتے۔1: نبیﷺ کے بعد خلافت کس کے پاس ہونی چاہیے 2:زکوٰۃ نہ دینے والوں کیخلاف قتال کرنا چاہیے یا نہیں،3: کلالہ کی میراث۔ رسول اللہﷺ کو زکوٰۃ لینے کا حکم تھا، جس میں مؤمنوں کے دل کو تسکین پہنچنے کی وضاحت تھی۔ جن لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تھا، وہ یہی مؤقف رکھتے تھے کہ ’’یہ حکم نبیﷺ کیساتھ خاص تھا‘‘۔ حضرت ابوبکرؓ نے یہ سمجھاکہ خلیفۃ الرسول کی یہ ذمہ داری ہے کہ مالداروں سے غریبوں کے حقوق کو چھین کرلیا جائے۔ زکوٰۃ نہ دینے والوں میں مالک بن نویرہ بھی تھا جسکی خوبصورت بیگم سے اس وقت کے آرمی چیف نے شوہر کے قتل کے بعد شادی بھی رچالی۔ حضرت عمرؓ نے اس فعل پر حضرت خالد بن ولیدؓ کو سنگسار کرنے کی تجویز پیش کی لیکن حضرت ابوبکرؓ نے تنبیہ پر اکتفاء کیا اور فرمایا کہ ’’ خالدؓ ہماری ضرورت ہیں‘‘۔ ایک موقع پر نبیﷺ نے حضرت خالدؓ کو تنبیہ بھی نہیں فرمائی بلکہ صرف اپنی برأت کا اعلان فرمایا۔ بعض معاملات میں مصلحت کی شاذ ونادر مثالیں ملتی ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے غلطی سے قبطی کو قتل کیا تو خود کو سزا کیلئے پیش کرنے کے بجائے راہِ فرار اختیار کرلی مگریہ قاعدہ اور قانون نہیں اور نہ اس وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام پیغمبروں کی فہرست سے خارج ہیں۔
صحابہ کرامؓ نے انتہائی مشکل حالات میں اقتدار کا مسند سنبھالا، ایمانداری سے نبھایا، حضرت داؤد علیہ السلام کا دل اپنے ایک مجاہد اوریا کی بیوی پر آیاتو اللہ نے تنبیہ کیلئے فرشتے بھیجے، قرآن میں 99دُنبیوں کے مقابلہ میں ایک دُنبی چھیننے کا ذکرہے، جس پر حضرت داؤد علیہ السلام نے اللہ سے مغفرت مانگی اور اللہ نے معاف کردیا۔ نبی کریم ﷺ نے فتح مکہ کے بعد ام ہانیؓ سے شادی کی خواہش ظاہر فرمائی مگر اس نے انکار کیا،اللہ نے فرمایاکہ ’’جن رشتہ داروں نے ہجرت نہیں کی ان سے نکاح نہ کریں‘‘ اور فرمایا کہ ’’ اب اسکے بعد کوئی شادی نہ کریں چاہے کوئی خاتون بھلی لگے‘‘۔ شادی کی خواہش فطری ہوتی ہے۔ انبیاء ؑ و صحابہؓ کے معاملے سے غلط منطقی نتائج نکالنا گمراہی ہے۔
حضرت علیؓ کی بہن ام ہانیؓ اولین مسلمانوں میں تھیں، ہجرت نہ کی تھی، شوہر مشرک تھا، مکہ فتح ہوا تو حضرت علیؓ نے اسکے شوہر کوقتل کرنا چاہا، نبیﷺ نے اسکی فرمائش پرامان دی، شوہر چھوڑکر چلاگیا، نبیﷺ نے حضرت خدیجہؓ سے پہلے بھی ام ہانیؓ کا رشتہ حضرت ابوطالب سے مانگا تھا۔ اہل تشیع کا متشدد طبقہ اپنی علمی موشگافیوں سے بڑے غلط نتائج مرتب کرکے صحابہ کرامؓ کو نشانہ بناتاہے۔ حضرت علیؓ نے اپنے مشرک بہنوئی کو قتل کرنا چاہاجس کا قصور بھی نہ تھااسلئے کہ وہ جائزوناجائز کے تصور سے ماوراء تھا۔ اہلسنت اہل تشیع کی طرح منطقی نتائج نہیں نکالتے بلکہ حسنِ ظن، درگزر اور چشم پوشی کرتے ہیں۔
اللہ نے قرآن میں فرمایاکہ ’’زانی نکاح نہیں کرتامگرزانیہ یا مشرکہ سے، اور زانیہ کا نکاح نہیں کرایا جاتا مگر زانی یا مشرک سے اور یہ مؤمنوں پر حرام کیا گیاہے‘‘۔ اہل تشیع بتائیں کہ حضرت ابوطالب نے اپنی مؤمنہ بیٹی حضرت ام ہانیؓ کا نکاح نبیﷺ کے بجائے مشرک سے کیوں کروادیا؟۔ اور وہ مؤمنہ ہوکر بھی مشرک کے نکاح میں کیوں رہیں؟۔ کیا نعوذباللہ من ذٰلک ہم قرآن کی آیت سے یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ وہ بدکار یا مشرکہ تھیں؟۔ ہم زندگی کے تمام پہلوؤں سے صرفِ نظر کرکے وثوق سے کہتے ہیں کہ حضرت ام ہانیؓ کا شمار ان دس خواتین میں ہوتاہے جن کو عشرہ مبشرہ کے دس مرد صحابہؓ کی طرح ان دس خواتین میں شمار کیا جاتاہے جن کی زندگی رسول اللہ ﷺ کے اردگرد رہی۔ اس پر باقاعدہ عربی میں کتاب بھی موجود ہے۔ معراج کا واقعہ بھی حضرت اُمّ ہانیؓ کے گھر میں ہواتھا، اسلام مخالف طبقات نے اعتراض کیا ہے کہ ’’ نبیﷺ کا وہاں کیا کام تھا، کیوں رات گزاری؟‘‘۔ ڈاکٹر شکیل اوج شہیدؒ نے بتایاکہ میں نے جواب دیا کہ ’’امّ ہانیؓ آپ ﷺ کی دودھ شریک بہن تھیں‘‘۔ حالانکہ یہ قرآن وسنت کی تعلیم سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ نبیﷺ کو ایک انقلابی کی حیثیت سے جن خطرات کا سامناتھا، ایک انقلابی اپنی زندگی کو بچانے کیلئے جو طرزِ عمل اپناتاہے، رات رشتہ داروں کے ہاں چھپتاہے ، یہ وہی جانتاہے جس سے اس قسم کے حالات اور واقعات کا سامنا کرنا پڑا ہو۔
رسول اللہﷺ کا رشتہ مانگ لینا ہی اسکے مؤمنہ ہونے کا ثبوت ہے، آپؓ نے بچوں کی خاطر رشتے سے انکار کیا تو رسول اللہﷺ نے اس کی تعریف کی، جب ابوسفیانؓ نے اسلام قبول کیا تو حضرت عمرؓ نے اس خواہش کااظہارفرمایا کہ نبیﷺ تک پہنچنے سے پہلے ہاتھ لگ جاتا اور اس کوحالت کفرمیں ماردیتا۔ اگر علیؓ اُمّ ہانیؓ کا شوہر قتل کرتا تو نبیﷺ بدلہ نہ لیتے مگر اس وجہ سے اسلام کے اجتماعی نظام عدل پر تہمت نہیں لگائی جاسکتی تھی۔اللہ نے کبائرگناہ اور فواحش سے اجتناب کی صفت کیساتھ قرآن میں بھی اضطراری طورکا استثناء رکھاہے۔
رسول اللہﷺ نے ام ہانیؓ کے شوہرکو درست پناہ دی، اللہ نے خواتین کو ہجرت کے بعد انکے شوہروں کو لوٹانا ناجائز اسلئے قرار دیاکہ شوہروں کی طرف سے تشدد کا خدشہ تھا۔ لاھن حل لھم ولاھم یحلون لھم’’وہ عورتیں ان شوہروں کیلئے حلال نہیں اور نہ وہ شوہر ان کیلئے حلال ہیں‘‘۔ ام ہانیؓنے ہجرت نہیں کی تھی،اسلئے آیت کا ان پر اطلاق نہیں ہوتا تھا،اور حلال نہ ہونے سے مراد شرعی حلت و حرمت کا تصور بھی نہیں تھا بلکہ لغت وزبان میں جس پر بدترین تشدد متوقع ہو،اس کیلئے بھی یہ الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔
حضرت ام ہانیؓ سے رشتہ مانگنا ہی مؤمنہ ہونے کیلئے کافی بڑی سند ہے،تو سبقت لے جانیوالے مہاجرؓ و انصارؓ کیلئے رضی اللہ عنہم ورضوعنہ زیادہ بڑی سند ہے۔اہل سنت واہل تشیع کی غلط فہمیاں دور کرنا ضروری ہے۔
مذہبی طبقات کی مثال نسوار، حقہ، چرس، افیون،بھنگ، ہیروئن، کوکین، شیشہ اور اقسام وانواع کے موالیوں کی طرح ہے، جو جس ماحول میں رہا، اس کووہ لت لگ گئی۔ منشیات فروش بدمعاش بھی پالتے ہیں اور قتل وغارتگری سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ مذہبی طبقوں کی لڑائی بھی کاروباری مجبوری ہے۔ اب تویہ حال ہے کہ دوسرے فرقہ والے اپنا مذہب بھی تبدیل کرنا چاہیں تو چاہت یہی ہوگی کہ وہ جوں کے توں رہیں تاکہ اسی سے اپنا کاروبار چلے۔
رسول ﷺ کو جس نے زکوٰۃ نہ دی تو اس کیخلاف قتال نہ کیا، چاروں امام متفق تھے کہ زکوٰۃ نہ دینے پر قتال نہیں۔ امام مالکؒ و امام شافعیؒ نے نماز پر قتل کا حکم دیا۔ یوں اسلام اجنبی بنتا چلاگیا اور آج مولانا طارق جمیل کے وعظ ہیں یاعلامہ ضمیر نقوی کے جو پاکستان کو بھارت کی گاؤ ماتا کے مقابلہ میں ذوالجناح کی عطا قرار دیتاہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام معجزات کے باوجود مظلوم تھے مگر مظلوم خدا نہیں ہوتا، نصاریٰ کا عقیدہ درست ہورہاہے، حضرت علیؓکو مظلوم ہی سمجھنے میں عقیدہ سلامت ہے اور قتل سے زیادہ گالی بری نہیں۔عتق گیلا نی

مذہبی نظام کی اصلاح

مذہبی نظام میں اہم معاملہ مدارس کا نصابِ تعلیم ہے۔ مولانا فضل الرحمن اور انکے بھائی مولانا عطاء الرحمن وغیرہ سیاسی ہیں، مدارس کے نصاب سے آگاہ نہیں۔ اساتذہ و مفتی حضرات کا واسطہ نصاب سے پڑتاہے۔ فرقہ وارانہ اور مسلکانہ الجھنوں میں گرفتار کم عقل فرد کا تعلق کسی بھی فرقے اورمسلک سے ہو وہ ایک وفادار سیاسی کارکن کی طرح قابل اعتماد، مخلص اور نیک سمجھا جاتاہے۔ مدارس میں کرایہ کی وکالت سے زیادہ دین کی کوئی خدمت نہیں ہے۔ ایک مجبورطبقہ مأمورہے جو وہی جووہ پڑھتا، پڑھاتا اور فتویٰ دیتاہے جس کی وکالت پر پیٹ پوجا کرتاہے۔ دارالعلوم دیوبند کے شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ نے چند سال مالٹا کی جیل میں گزارے اور درس وتدریس اور سیاست سے ہٹ کر قرآن پر تدبر کا موقع مل گیا تو آنکھیں کھل گئیں، دارالعلوم دیوبند اور اپنے شاگردوں کے حصار کو توڑ نہیں سکے لیکن یہ فرمان چھوڑ دیا کہ ’’ امت کے زوال کی 2وجوہات ہیں، قرآن سے دوری اور فرقہ پرستی‘‘۔ واحد شاگردمولانا سندھیؒ نے قرآن کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کاآغاز کیا لیکن وہ فتوؤں کی نذر ہوگئے، مولانا سندھیؒ نے لکھا ہے کہ ’’ تم امام مہدی کا انتظار کرتے ہو مگر جب اپنے استاذ کی درست بات نہیں مانتے تو تم امام مہدی کے بھی مخالفین کی صف میں ہوگے‘‘۔ مولانا انور شاہ کشمیریؒ نے بھی آخر کار فرمایا کہ ’’ میں نے قرآن وسنت کی خدمت نہیں بلکہ مسلکوں کی وکالت میں اپنی ساری زندگی ضائع کردی‘‘۔ مفتی اعظم مفتی محمد شفیعؒ نے بھی آخری عمر میں یہ اقوال نقل کئے اور مدارس کو بانجھ قرار دیدیا۔ مولانا ابولکلام آزادؒ کی والدہ عرب تھیں، مادری زبان عربی تھی ، بچپن حجاز میں گزرا، بعد میں اردو بھی سیکھ لی۔ مدارس کے نصاب کو سمجھنے میں دیر نہیں لگی، جب بھارت کے وزیرتعلیم تھے تو علماء کرام کا بڑا اجلاس بلاکر نصاب بدلنے کی تلقین کرتے ہوئے واضح کیا کہ ’’ یہ ساتویں صدی ہجری کی کتابیں ہیں، جس وقت مغلق عبارتوں کو کمال سمجھا جاتاتھا، زوال کے دور میں لکھی گئی کتابیں پست ذہنیت کی عکاسی کرتی ہیں، یہ شکایت غلط ہے کہ علماء کی ستعداد کم ہوگئی ہے، یہ نصاب ہی ذہین لوگوں کو کوڑھ دماغ بنانے کیلئے کافی ہے‘‘۔ مگر علماء نے توجہ نہ دی۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے چےئرمین مولانا شیرانی اور مولانا عطاء الرحمن کے پاس پہنچا تو اپنی ریاست پاکستان کو عجیب و غریب قرار دے رہے تھے، مجھ سے پوچھا تو میں نے مدارس میں قرآن کی تعریف کے حوالہ سے سوال اٹھادیاکہ کتابی شکل میں اللہ کے کتاب کی نفی ہے، مکتوب فی المصاحف سے مراد لکھی ہوئی کتاب نہیں، حالانکہ الذین یکتبون الکتاب بایدیھم ، علم بالقلم، اکتتبھا بکرۃ واصیلا، والقلم ومایسطرون دلیل ہیں کہ اصولِ فقہ میں کفر پڑھایا جارہاہے۔ پھر کتاب اللہ کے بارے میں کہ صحیح بات کہ بسم اللہ قرآن ہے مگر اس میں شبہ ہے اور نقل متواتر سے غیرمتواتر آیات خارج ہوگئیں ، اگر قرآن کی تعریف قرآن کیخلاف ہو، اس میں شک اور کچھ کمی کی بھی تعلیم دی جائے ، حالانکہ ایک ان پڑھ اور بچہ بھی کتاب کی تعریف سمجھتا ہے‘‘۔
مولانا عطاء الرحمن نے پشتو کہاوت سنائی کہ’’ بھوکے سے کہا کہ پراٹھے کیوں نہیں کھاتا؟ ، ہم ملک پر سرگرادن تھے اور اس نے یہ مسئلہ اٹھادیا‘‘۔ کیا نصاب میں قرآن کے خلاف کوئی اور طبقہ یہ سازش کرے تو مولوی اسکے خلاف طوفان نہیں کھڑا کرینگے؟۔ کیا ریاست علماء ومفتیان کو قرآن کے حوالہ سے حق بات پوچھنے سے بھی ڈرتی ہے؟۔ کیا اس نصاب کا پڑھنا اور پڑھانا کسی بڑی سازش سے کم ہے؟۔ ہم نے پہلے بھی یہ آواز اٹھائی تھی، شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے فقہ کی سب سے مستند کتاب ’’ہدایہ ‘‘کے مصنف کے حوالہ سے لکھ دیا کہ ’’ علاج کیلئے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے‘‘، یہ حوالہ فتاویٰ شامی اور فتاویٰ قاضی خان میں بھی ہے۔ یہ عمران خان کے ثناخواں اور نکاح خواں مفتی سعید خان نے بھی اپنی کتاب ’’ریزہ الماس‘‘ میں اس دفاع کیساتھ لکھاہے کہ ’’جیسے قرآن میں سؤر کاگوشت جائز ہے، جو بدن کا جزء بھی بن جاتاہے مگر سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھاجائے تو جزء بدن نہیں بنتا‘‘۔ مفتی تقی عثمانی نے عوام کے دباؤ میں اس سے رجوع کرکے اپنی کتابوں سے نکالنے کا بھی اعلان کردیا مگر سوال پیدا ہوتاہے صاحب ہدایہ کو یہ لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟۔مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب ’’اعمال قرآنی‘‘ میں بھی یہ نسخے ہیں لیکن صاحب ہدایہ نے یہ جرأت اسلئے کی کہ اصول فقہ میں علم الکلام کا مسئلہ ہے کہ تحریر میں سورۂ فاتحہ باقی قرآن کی طرح اللہ کا کلام یا کتاب اللہ نہیں ہے۔امام ابوحنیفہؒ نے علم الکلام کی گمراہی سے توبہ کی ،ہمارے ہاں یہ فقہ، اصولِ فقہ اور دم تعویذکیلئے پڑھایا جاتاہے۔مولانا فضل الرحمن، مفتی منیب الرحمن اور مفتی تقی عثمانی اہل اقتدار سے کہتے ہیں کہ ’’میں ہوں البیلا تانگے والا‘‘۔ فرقہ پرستوں کا حال ان سے بدتر ہے، مخلصوں کو ریاست نہ سپورٹ کیا تو پاکستان عالمِ اسلام بلکہ دنیا کا امام ہوگا۔

فرقہ واریت کا خاتمہ ایک بنیادی ضرورت. عتیق گیلانی

شیعہ سنی، بریلوی دیوبندی اور حنفی اہلحدیث مسلکوں اور فرقوں کی اصلاح موجودہ دور کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ یہ کلیہ بہت پرانا اور ناکام ہوچکا ہے کہ ’’اپنا مسلک چھوڑونہیں اور دوسروں کا چھیڑو نہیں‘‘۔ شیعہ فرقے کی بنیاد اسلام سے صحابہؓ کی محبت نہیں بغاوت پر ہے تو وہ کیسے اپنے مسلک پر قائم رہ کر اہلسنت کی دل آزاری سے باز آسکتے ہیں؟۔ دیوبندی خودکو توحیدی ،بریلوی کو مشرک سمجھتے ہیں اور بریلوی خود کو محبان رسول اور دیوبندی کو گستاخ سمجھتے ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ ان کی نفرت پیار میں بدل جائے۔ اہلحدیث کے نزدیک حنفی مسلک والے احادیث سے منحرف اور حنفیوں کے نزدیک وہ تقلید ہی نہیں قرآن سے بھی منحرف ہیں تو کیسے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہونگے؟۔
پاکستان کے بریلوی، دیوبندی ،شیعہ اور اہلحدیث کے جنرل ہیڈ کواٹرز اپنے پڑوسی دشمن ملک بھارت میں ہیں۔جب یہ سب ہندودیش میں ہندؤں کیساتھ گزارہ کرسکتے ہیں تو یہاں ان کی دُموں کو مروڑ کر کون لڑاتاہے؟۔ کیا یہ ہماری ریاست کی بہت بڑی کمزوری نہیں کہ جو لوگ دوسرے ممالک میں تو بہت سکون سے رہتے ہیں مگریہاں ایکدوسرے کیخلاف شر پھیلارہے ہیں؟، یہ سوالات بھی کھڑے کئے گئے مگر ان سوالات سے بھی حل نکلنے والا نہیں ہے۔ علامہ اقبالؒ کی شاعری پر عوام کا ایک طرح سے اعتماد ہے مگرفرقہ واریت کے خلاف انکے اشعار نے بھی فرقہ بندی سے روکنے میں کردار ادا نہیں کیاہے۔
فرقہ واریت کا اصل مسئلہ حل کرنے میں عقیدے ، نظریے اور مسلک کے اختلافات کو احسن انداز میں پیش کرناہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وجادلہم بالتی ھی احسن ’’اور ان سے لڑو،اس طریقہ سے جو بہترین راستہ ہے‘‘۔ اس انداز تکلم سے فرقہ واریت کا نہ صرف خاتمہ ہوسکتا ہے بلکہ قرآن نے ایک دوسری جگہ یہ نشاندہی بھی کردی ہے کہ ’’ برائی کا بدلہ اچھائی کے انداز میں دو ،تو ہوسکتاہے کہ صورتحال ایسی بدل جائے کہ گویا وہ دشمن تمہارا گرم جوش دوست بن جائے‘‘۔ کالعدم سپاہ صحابہ کے قائد مولانا اعظم طارق کو شہید کرنے والے محرم علی کی قبر پر جیونیوز کے طلعت حسین نے شیعہ رہنما علامہ امین شہیدی کی عقیدت بھری تصویر دکھائی اور علامہ شہیدی سے سوالات بھی کرلئے مگر مسئلے کا حل نہیں نکلا۔ فرقہ واریت کے حوالہ سے سخت زبان استعمال کرنے والوں پر پابندیاں لگ گئیں، ن لیگ اور سابقہ ق لیگ کے شیخ وقاص کے مقابلہ میں پھر بھی اہلسنت کے حمایت یافتہ مولانا جھنگوی جیت گئے۔ مولانا مسرور جھنگوی کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر ہے جس میں کلمہ کی طرح سپاہ صحابہ میں شامل ہونے کیلئے ’’کافر کافر شیعہ کافر ‘‘ ضروری ہے۔ سعودیہ نے یہ نعرہ قانونی طور پر اپنے ملک میں رائج نہیں کیا ، قادیانیوں کو بھی پہلے کافر نہیں کہا جاتا تھا۔ پارہ چنار کے ایک سنی نے کہا کہ اگر سنی حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کے ماننے سے انکار کریں تو شیعہ علیؓ کو بھی کافر کہیں گے، یہ ایرانی مجوسی ہیں۔ہمارا کام اتحاد و اتفاق اور وحدت ہے اور کبھی موقع ملے گا تو کمیونسٹ ذہنیت کے اہل تشیع کی الجھی ہوئی ذہنیت کو ٹھیک کرینگے جو ایران کے بادشاہ مزدک سے نبی علیہ السلام ، اہلبیت اور حضرت ابو ذر غفاریؓ کو جوڑتے ہیں۔ تشدد و پابندی مسئلے کا حل نہیں ، صحابہ کرامؓ کا ذکر قرآن میں ہے اور قرآن سے نا واقفیت ہے۔ سیدعتیق گیلانی

فرقہ واریت کو بنیاد سے ختم کرنے کی ضرورت ہے

حضرت امام حسنؓ نے کم سنی میں حضرت ابوبکر صدیقؓ سے کہا کہ ’’آپ میرے باپ کے منبر پر بیٹھے ہیں‘‘ ۔ حضرت ابوبکرؓ بہت روئے، گود میں اٹھایا ، فرمایا کہ ’’ خدا کی قسم یہ تیرے باپ کا منبر ہے، یہ میرے باپ کا منبر نہیں ‘‘۔ حضرت حسینؓ نے کم سنی میں یہی بات حضرت عمرؓ سے کی ، فاروق اعظمؓ نے پیار کیا اور پوچھا کہ ’’ کس نے یہ بات سمجھائی ہے‘‘۔ حضرت حسینؓ نے کہا کہ ’’کسی نے نہیں خود سے یہ سمجھ رہا ہوں‘‘۔ خلافت پر شروع سے اختلاف تھا کہ انصار ومہاجرین، قریش و اہلبیت میں سے کون حقدار تھا، انصار کے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ نے کبھی حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کے پیچھے نماز نہ پڑھی، تبلیغی جماعت کے بانی مولانا الیاسؒ کے بیٹے مولانا یوسف حضرت جیؒ نے اپنی وفات سے تین دن پہلے اپنی آخری تقریر امت کے اتحاد پر کی تھی، جس میں سعد بن عبادہؓ کو جنات کی طرف سے بطورِ سزاقتل کی بات ہے۔ تبلیغی نصاب یا فضائل اعمال میں موجود کتابچہ’’موجودہ پستی کا واحد علاج‘‘ کے مصنف مولانا احتشام الحسن کاندھلویؒ کی ایک کتاب میں حضرت حسنؓ وحسینؓ کی طرف سے بچپن میں حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کے سامنے منبر کی حقداری کا ذکرہے۔
کربلا میں حضرت حسینؓ کیساتھ جو سلوک ہوا، اگر یزید اور اسکے لشکر کی حمایت کو ترجیح دینے کیلئے یہ سبق دیا جائے کہ حضرت حسنؓ و حسینؓ نے بچپن سے جو رویہ اختیار کیا تھا، کربلا میں بھی ان کی اپنی غلطی تھی، یزید برحق تھا اور مسندِ خلافت کیخلاف سازش کرنیوالا غلط تھاتو اہل تشیع کے تعصب میں یہ ممکن ہے مگر افراط و تفریط سے امت کو منزل پر نہیں پہنچایا جاسکتا۔ میں اہل تشیع کے مؤقف سے ایک فیصد بھی اتفاق نہیں کرتا اور خلافت کیلئے حضرت علیؓ اور آل علیؓ سے زیادہ کسی اکابر صحابیؓ اور انکی اولاد کو مستحق اور اہل نہ سمجھنے کے باوجود سو فیصد خلافت راشدہؓ کے ڈھانچے کو قرآن و سنت اور منشائے الٰہی کے عین مطابق سمجھتاہوں۔ حضرت ابوبکرؓ کے بعدصدیق اکبرؓ کے صاحبزے کا کوئی سوال بھی پیدا نہ ہوا۔ حضرت عمرؓ کے بعد عبداللہ بن عمرؓ کو خلافت کی مسند پر بٹھانے کی تجویز آئی تو فاروق اعظمؓ نے یکسر مسترد کردی اور فرمایا کہ ’’ جو بیوی کو طلاق دینے کا طریقہ نہیں سمجھتا، وہ خلافت کے امور کو کیسے چلائے گا؟ اسلئے خلافت کی مسند پر بیٹھنے والوں کی فہرست سے یہ باہر ہے‘‘۔ حضرت عثمانؓ پر تو اقرباپروری کے الزامات لگے مگرخلافت کو موروثی بنانے کا کوئی الزام نہ لگا،ورنہ مورثی خلافت عثمانیہ بنی امیہ کی امارت سے پہلے شروع ہوجاتی،البتہ حضرت علیؓ نبی ﷺ کے چچازاد اور داماد تھے، ان کو خلیفہ اول نامزد کردیا جاتا توخلافتِ راشدہ عوام کی رائے سے نہیں شروع سے موروثیت میں بدل جاتی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت علیؓ میں جو صلاحیت رکھی تھی وہ کسی اورصحابیؓ میں ہرگز نہ تھی، حضرت ابوبکرؓ سے تو حضرت عمرؓ میں زیادہ صلاحیت تھی۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: لولا علی لھک عمر ’’اگر علیؓ نہ ہوتے تو عمرؓ ہلاک ہوجاتا‘‘۔ حضرت ابوبکرؓ کے مقام کو حضرت عمرؓ سے اونچا اسلئے سمجھتا ہوں کہ اللہ نے اہلیت اور صلاحیت حضرت عمرؓ میں زیادہ رکھی تھی لیکن حضرت ابوبکرؓ اپنے خلوص کی وجہ سے آگے بڑھ گئے، اللہ نے دکھادیا کہ فضیلت کی بنیاد صلاحیت کی محتاج نہیں، ورنہ کم صلاحیت والے اللہ کی بارگاہ میں اپنا عذر پیش کردیتے۔صلاحیت توابوجہل میں بھی ابوسفیان سے زیادہ تھی۔
بلاشبہ حضرت علیؓ میں وہ صلاحیت نہ تھی جو حضرت ابوطالب میں تھی۔صلح حدیبیہ کے موقع پر سارے صحابہؓ جذبات میں تھے، حضرت علیؓ نے رسول اللہ کا لفظ کاٹنے پر نبی ﷺ کے حکم کے باوجود انکار کیا۔حضرت ابوطالب ہوتے تو اپنے ہاتھ سے رسول اللہ کے لفظ کو کاٹ کر کہتے کہ اگر لفظ کاٹنے سے نبوت ختم ہوتی ہے تو بھتیجے کی نبوت بالکل ختم ہوجائے، یہ منصب مصلحتوں کا تقاضہ کرتاہے، لڑائی کا ماحول پیدا کرنے کا نہیں۔ اور یہ کریڈٹ لیتے کہ اپنے بھتیجے کی ایسی تربیت کی ہے جس میں مصالحت کو آخری حد تک لیجانے کی اہمیت شامل ہے۔ انسان پر ماحول کا گہرا اثر ہوتا ہے، بیت اللہ میں حجرِ اسود کا معاملہ آیا تو نبیﷺ پر وحی نازل نہ ہوئی تھی، یہ گھریلوماحول کا نتیجہ تھا کہ اتحادو اتفاق اور قبائل میں قومی وحدت قائم فرمائی۔ نبیﷺ نے حضرت ابوطالب سے صاحبزادی ام ہانیؓ کا رشتہ مانگا مگر ابوطالبؓ نے غربت کا لحاظ رکھا، نبوت کا لحاظ نہ کیا، دو غریب میاں ﷺبیوی رضی اللہ عنہاایک گھرمیں اکٹھے ہوجاتے تو نبوت کی تحریک چلانے میں مشکل پیش آتی۔ اسلئے نبیﷺ کیلئے ایک مالدار خاتون حضرت خدیجہؓ کارشتہ لیا۔حضرت عمرؓ نے نسبت کیلئے حضرت علیؓ سے بیٹی کا رشتہ مانگا، حضرت علیؓ نے انکار نہیں کیا۔ ابوطالب کا رسول اللہﷺ کیلئے انکار اور حضرت علیؓ کا حضرت عمرؓ کو رشتہ دینے سے انکار نہ کرنے میں کم ازکم اہل تشیع کو حضرت ابوطالب کی صلاحیت کا اعتراف کرنا پڑیگا۔حضرت ابوبکرؓ نے رسول اللہﷺ کو اپنی صاحبزادی کا رشتہ دیا۔ ام ہانیؓ نے فتح مکہ کے بعد بھی رسول اللہ ﷺ کے رشتے کی پیشکش قبول نہ کی اور اللہ نے نبیﷺ کو پھر ان سے رشتہ منع کردیا تھا۔
مولانا طارق جمیل کا ٹی پر بیان تھا جو نبیﷺ کا نیک نیتی سے دفاع کر رہا تھا کہ پچیس سال کے جوان نے چالیس سال کی خاتون سے شادی کرکے یہ ثابت کردیا کہ ’’آپﷺ نے نفسانی خواہشات کیلئے شادیاں نہیں کیں‘‘۔ حالانکہ یہ غلط بات ہے، پھر نبیﷺ پر غیرمسلموں کے اس اعتراض کا کوئی دفاع نہیں ہوسکتا کہ عمر کا لحاظ کئے بغیر ایک بڑی عمر کے شخص نے ایک چھوٹی بچی حضرت عائشہؓ سے شادی کیوں کی؟۔ سوال 9سال کے بجائے 18سال کی عمر پر بھی ختم نہیں ہوتا، اسلئے معتقدین کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے مخالفین کو مخالفت کا موقع فراہم کیا جائے تو بڑی حماقت ہے؟۔ جنید جمشید کے طرزِ تکلم اور مولانا طارق جمیل کے طرزِ استدال میں کوئی فرق نہیں ۔ 25سالہ جوان 40سال کی عمر والی سے شادی کرے یا 53سال کی عمر میں چھوٹی عمر والی لڑکی سے شادی کی جائے تو یہ انسانی فطرت کا تقاضہ ہے۔ مسئلہ عمر میں فرق کا نہیں بلکہ بات اتنی ہے کہ جبری شادی نہ ہو۔ حضرت عائشہؓ نے حضرت یوسف علیہ السلام سے زیادہ اذیت اٹھائی تھی اور حضرت یوسف علیہ السلام سے حضرت زلیخا کو جتنی محبت تھی اس سے زیادہ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے نبیﷺ سے محبت کی تھی۔ طعن و تشنیع کا محل دونوں طرف سے نہیں ہونا چاہیے۔ اگر حضرت عائشہؓ کی اولاد ہوتی تو حضرت فاطمہؓ کی اولاد سے زیادہ معزز ان کو سمجھا جاناتھا۔ مغرب کوزلیخا کی اولاد پر فخرہے تو ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کی اولاد پر مسلمان کیوں فخر نہ کرتے؟۔ لونڈی ماریہ قبطیہؓ سے اولاد زندہ رہتی توبھی انصارومہاجر، قریش واہلبیت،عباسی واہلبیت کا جھگڑا چلنے کی نوبت نہ آتی۔
اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعہ موروثی نظام قائم نہیں کرنا تھا۔ نبیﷺ کی ایک لونڈی حضرت ماریہ قبطیہؓ کے صاحبزادے کو اللہ تعالیٰ نے بچپن میں اٹھالیا۔ ہماری صحاح ستہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے فرزند کے بارے میں فرمایاکہ ’’اگر زندہ رہتے تو نبی اور صدیق ہوتے‘‘۔ جس سے قادیانی ختم نبوت کے انکار کا عقیدہ پیش کرتے ہیں۔ جب غلو کرنے والے حضرت علیؓ کو بھی خدا کے درجہ پر پہچاکر چھوڑتے ہیں تو فرزندِ نبی کو نبوت کے درجہ پر ضرور پہنچاتے ۔ورنہ خلافت کا موروثی نظام تو اسلام کے گلے میں پڑ ہی جاتا۔ احادیث کی کتب میں وہ روایات بھی ہیں جس سے قرآن کی حفاظت کا قرآنی عقیدہ بھی قائم نہیں رہتا۔ رضاعت کبیر کے مسئلہ پر بھی من گھڑت احادیث صحاح ستہ کی زینت ہیں۔ جس میں نبیﷺ کے وصال کے وقت چارپائی کے نیچے دس آیات بکری کے کھا جانے سے ضائع ہونے کا ذکرہے۔ حضرت ابوبکرؓاور حضرت علیؓ کے حوالہ سے بھی وہ احادیث موجود ہیں جن کی وجہ سے امت مسلمہ کا افتراق وانتشار یقینی ہے۔ اتنی وضاحتوں کا مسئلہ ہوتا تو پھر انصارؓ وقریشؓ اور اہلبیتؓ و خلفاء راشدینؓ میں اختلاف کیوں ہوتا؟۔
ابوطالب نے حضرت ام ہانیؓ کی شادی مشرک سے کرادی جو فتح کے بعدمکہ چھوڑ کر عیسائی بن گیا۔ حضرت علیؓ نے قتل کرنا چاہا، اپنی بہن سے مشرک کا نکاح ناجائز سمجھا تھا، نبیﷺ نے روک دیا، حضرت ام ہانیؓ کے کہنے پرامان دیدی۔ رسول اللہ ﷺ کی نبوت کا تعلق وحی سے تھا، ایک خاتون کو مروجہ قول کیمطابق ظہار پر فتویٰ دیا تو اللہ نے سورۂ مجادلہ میں اس منکر قول کی اصلاح فرمائی ۔ صحابہؓ نے اکثریت سے غزوہ بدر کے قیدیوں پر فدیہ کا مشورہ دیا اور آپﷺ نے قبول فرمایا تو اللہ نے نامناسب قرار دیا، جب صلح حدیبیہ سے متعلق صحابہؓ نے اختلاف کیا تو اللہ نے نبی ﷺ کے فیصلے کو فتح مبین قرار دیا۔ اگر حضرت علیؓ خلیفہ نامزد ہوجاتے، ان سے اختلاف کی گنجائش نہ ہوتی اور وحی کا سلسلہ بھی بند ہوتا تواسلام اور امت کوناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا۔مولانا الیاسؒ کے خلیفۂ مجاز مولانا احتشام الحسنؒ تھے مگر تبلیغی جماعت نے مولانا الیاسؒ کا بیٹا جانشین بنایا۔مولانا احتشام الحسنؒ امیر بنتے توتبلیغی جماعت اپنی پٹری سے نہ اُترتی۔انہوں نے سب سے پہلے تبلیغی جماعت کو فتنہ قرار دیا تھا۔
نبیﷺ نے غدیر خم کے موقع پر فرمایا: من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ ’’جسکا میں مولا ہوں ، یہ علی اسکا مولا ہے‘‘۔ جس سے دوست نہیں ،سرپرست مراد تھا۔ نبیﷺ حضرت علیؓ کوؓ اپنے بعد خلیفہ بنانا چاہتے تھے ، حدیث قرطاس میں بھی اس کی تحریری چاہت تھی، حضرت عمرؓ نے روکا کہ ’’ہمارے لئے اللہ کی کتاب ہی کافی ہے‘‘ تو یہ منشائے الٰہی کیمطابق تھا۔ اس میں شک نہیں کہ حضرت علیؓ میں خداد صلاحیت اور اہلیت تھی، نبی ﷺ کی طرح ان کی آل پر بھی زکوٰۃ حرام تھی۔ جب انصارؓ وقریشؓجھگڑا کررہے تھے توقریش کی بنیاد سے زیادہ احادیث کی بنیاد پر حضرت علیؓ اور اہلبیت کا حق مقدم تھا۔ نبیﷺ کے جانثارانصارؓ نے خود کواسلئے خلافت کا حق دار سمجھا کہ جس حدیث کو حضرت ابوبکرؓ نے پیش کیا وہ خبرواحد تھی۔ علماء نے لکھا کہ الائمۃ من القریش’’ امام قریش میں سے ہونگے‘‘ حدیث پربعد میں اجماع ہوا، اگر اصولی طور پر نبیﷺ نے لوگوں کو یہی تلقین کرنی ہوتی تو بھی انفرادی مجلس کا اظہار حقائق کے منافی تھا۔ پھر کھل کر اجتماع عام میں کہہ دیا جاتا کہ ’’میرے بعد امام قریش میں سے ہونگے‘‘۔ وضاحت کے بعد انصارؓ خلافت کے حقدارنہ بنتے۔ اسکے مقابلہ میں حضرت علیؓ کی ولایت زیادہ خلافت کے استحقاق کیلئے مناسب دعویٰ تھا۔
شیعہ نے بارہ سے مراد اپنے امام سمجھے ،خلافت وامامت کے حوالہ سے انکا مؤقف کمزور نہیں ، خصوصاً جب بنو امیہ اور بنوعباس نے موروثی بنیادوں پر استحقاق جمانے کی روایت قائم کی اور پھر ترک کی موروثی خلافت عثمانیہ قائم ہوئی۔ مدارس، خانقاہوں سے لیکرمذہبی و سیاسی جماعتوں کو بھی موروثی بنایا گیا تو شیعہ کو کیوں موردِ الزام ٹھہرایا جائے؟۔ حقائق کیلئے مدارس ، خانقاہوں، سیاسی ومذہبی جماعتوں اور بادشاہتوں کا بھی خاتمہ کرنا پڑیگا۔ ایران میں بادشاہت نہیں عرب میں موروثی نظام ہے۔ سعودیہ میں اہلیت کے بجائے وراثت سے اہل تشیع کے عقیدے کو تقویت ملتی ہے اور ایران کی جمہوریت سے اہلسنت کے مؤقف کو تقویت ملتی ہے، بجائے اہلیت کے جمہوری بنیاد پر حکمرانوں کی تقرری مقبول ہے۔ قرآن وسنت کی روشنی سے فرقہ واریت کا گھپ اندھیرا اجالے میں بدلے گا، مذہبی طبقے روشنی کا فائدہ اُٹھانے کے بجائے دن دھاڑے ہاتھ میں موم بتیاں لیکر بارود کے ڈھیر سے کھیل رہے ہیں، ملاعمراور ابوبکرالبغدادی پر اختلاف کی طرح شیعہ سنی اختلاف کا حل بھی موجودہ دور کی اہم ترین ضرورت ہے ورنہ عراق وشام اور افغانستان جیسا حال ہوگا۔
ایران اور سعودیہ کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کیلئے فرقہ وارانہ لٹریچر میں اعتدال ضروری ہے۔ اگر حضرت علیؓ پہلے خلیفہ بنتے تو وراثت کی مہلک ترین بیماری کا سارا الزام اسلام کی گردن میں آتا۔ حضرت عمرؓنے اپنی وفات سے پہلے تین چیزوں پر افسوس کا اظہار کیا کہ کاش رسول اللہﷺ سے پوچھتے کہ’’ 1: آپﷺ کے بعد خلیفہ کون ہو۔ 2: زکوٰۃ نہ دینے والوں کے خلاف قتال سے متعلق 3: کلالہ کی میراث کے بارے میں‘‘۔ حضرت عمرؓ نے خلیفہ مقرر کرنے کی فکر کی۔ حضرت ابوبکرؓ نے بھی اپنا جانشین مقرر کیا۔ نبیﷺ نے بھی حجۃ الوداع میں فرمایا کہ ’’ دوبھاری چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک قرآن اور دوسری میری عترت، دونوں کو مضبوط پکڑوگے تو گمراہ نہ ہوگے‘‘۔ حدیث کی سند پرتسلیم شدہ محقق علامہ البانی نے اس حدیث کو درست قرار دیا اور نبیﷺ نے غدیر خم کے موقع پر حضرت علیؓ کو اپنے بعد سرپرست بنانے کا حکم دیا۔ حدیث قرطاس میں اہل تشیع کے بارہ اماموں کا شجرہ لکھ دیتے لیکن حضرت عمرؓ نے رکاوٹ ڈال دی۔ کیا یہ مان لینے سے تاریخ بدل جائے گی؟۔
صلح حدیبیہ میں حضرت علیؓ کا رسول اللہ کے لفظ کو کاٹنے سے انکار ایک کنفرم اور بنیادی غلطی اسلئے تھی کہ اللہ نے اسی معاہدے کی قرآن میں تائید کردی۔ حضرت عمرؓ نے بدر کے قیدیوں پر جو مشورہ دیا تھا، رسول اللہ ﷺ نے اس رائے کے برعکس ان صحابہؓ کی رائے پر فیصلہ فرمادیا جس میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت علیؓ اور دوسرے اکابرؓ صحابہؓ شامل تھے۔اللہ نے اکثر کی مشاورت کے باوجود رسول اللہﷺ کا فیصلہ نامناسب قرار دیا۔ جب نبی ﷺ نے مشاورت کے بغیر حضرت علیؓ کو نامزد کیاتھا تو بدر کے قیدیوں پر فدیہ لینے سے زیادہ حضرت عمرؓ کی رائے کو اللہ پسندیدہ قرار دے سکتا تھا۔ نبیﷺ کو قرآن میں اللہ نے مشاورت کا حکم دیااور امیرالمؤمنین کی تقرری اس کا تقاضہ کرتی ہے۔
اہلسنت نے حماقت سے واقعات کی غلط تعبیر وتشریح کی۔ مولا اور ولی دوست کے معنیٰ میں بھی ہے لیکن دوست کیلئے اعلان غیرضروری تھا۔ ایک طرف فرقوں کے مولانا ہیں تو دوسری طرف آیات میں یہودونصاری اور مشرکین کو اپنا سرپرست بنانا منع ہے جس سے دوست مراد لیا گیا، جب یہودونصاریٰ کی خواتین سے شادی جائز ہے تویہ دوستی سے بڑھ کر دوستی ہے۔ آیت میں سرپرست ہی مراد ہے مگر احمق طبقہ سمجھ رہا ہے کہ امریکہ وبرطانیہ کو سرپرست بنانا جائز ہے، دوستی جائز نہیں ۔ موجودہ دور میں دہشت گردوں، فرقہ پرستوں اور شدت پسندوں کو ذرائع ابلاغ کے ذریعہ سمجھانا مشکل نہیں۔ شیعہ سنی، بریلوی دیوبندی اور حنفی اہلحدیث اختلاف کا خاتمہ بہت آسان ہے۔ عوام وخواص، حکمران و علماء ، سیاسی قیادت اور مجاہدین کی ترجیحات اپنے غلط مفادات کی تابع ہیں،ماتمی جلوس اور شاتمی رویہ کو ختم کرنے میں بالکل بھی دیر نہ لگے گی ۔حضرت امام حسنؓ نے حضرت علیؓ سے خلافت کا منصب سنبھالنے پر کھل کر اختلاف کیا،پھرمنصب سے دستبرداری بھی اختیار کرلی ۔ اگر اسکا خلاصہ سمجھ میں آیا تو قرآن وسنت پر اتفاق ہوگا اور صحابہؓ پر اختلاف کی شدت نہ رہے گی۔
اصل بات یہ ہے کہ حضرت عمرؓ کے اندر حضرت ابوبکرؓ سے زیادہ صلاحیت تھی مگر تقدیرالٰہی نے کمال کرکے دکھایا۔ اگر حضرت عمرؓ پہلے خلیفہ بنتے تو زکوٰۃ کے مسئلہ پر امت مسلمہ کا اختلاف نہ بنتا۔ اختلاف کی سنت قرآن اور نبیﷺ کے دور میں بھی جاری تھی۔ اللہ نے اس کو شدومد سے مسلم امہ میں جاری رکھنا تھا۔ قرآن میں جبری زکوٰۃ لینے کاحکم نہ تھا، نبیﷺ کو لینے کا حکم اسلئے دیاکہ صحابہؓ کی خواہش تھی کہ آپﷺ کو زکوٰۃ دی جائے۔ نبیﷺ نے اللہ کا حکم ماننے کیساتھ اپنے اہل عیال اور اقرباء پر بھی زکوٰۃ حرام کردی تاکہ مستحق لوگوں کی حق تلفی نہ ہونے پائے۔ حضرت ابوبکرؓ سے شروع میں بھی جبری زکوٰۃ لینے کے مسئلہ پر حضرت عمرؓ نے اختلاف کیا اور جب مالک بن نویرہ کو قتل کرکے اس کی خوبصورت بیگم سے حضرت خالد بن ولیدؓ نے جبری شادی کی تو بھی حضرت عمرؓ نے سنگسارکرنا مناسب قرار دیامگر حضرت ابوبکرؓ نے تحمل سے کام لیکر تنبیہ پر اکتفاء کیا۔ نبی ﷺ نے بھی ایک موقع پر حضرت خالدؓ کی طرف سے بے دریغ قتل وغارت گری سے اپنی برأت کا اعلان فرمانے پر اکتفاء کیا تھا۔اللہ تعالیٰ بھی انسان کو زندگی میں غلطیوں پر توبہ کرنے کا بار بار موقع فراہم کرتا ہے۔ ہم نے مانا کہ حضرت علیؓ سے غلطیاں نہ ہوتیں اور مہدی غائب بھی کوئی غلطی نہ کرینگے لیکن اللہ کی سنت یہ رہی ہے کہ قبطی کو قتل کرنے والے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ظاہری منصبِ خلافت پر فائز کرتاہے ، جس نے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو بھی داڑھی اور سر کے بالوں سے پکڑلیا تھا۔ حضرت خضرؑ جیسے ولایت کے حقداروں کو ظاہری منصب سے اللہ نہیں نوازتا ہے۔ جو بچے کو بھی قتل کرے تو ایک نبی کوبھی اپنے سے اختلاف کی گنجائش رکھنے کا حقدار نہ سمجھے بلکہ راستہ الگ کردے۔
حضرت ابوبکرؓ نے جبری زکوٰۃ وصول کی مگراہلسنت کے چاروں فقہی امام متفق ہوئے کہ زکوٰۃ کیلئے قتال جائز نہیں،اختلاف کی رحمت جاری رکھنے کا یہ وسیلہ بن گیا ،مسلکوں کی مت ماری گئی کہ نماز کیلئے قتل پر اختلاف کیا، حالانکہ جب زکوٰۃ کیلئے قتل جائز نہ ہو تو نمازپرقتل کے حوالہ سے کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے تھی۔ امام مالکؒ وامام شافعیؒ نے وقت کی حکومتوں کا تشدد برداشت کیالیکن اگر یہ برسرِ اقتدار آتے اور بے نمازیوں کو قتل کرنا شروع کرتے تو عوام کو اسلام سے نفرت ہوجاتی۔ حکمران ان فرشتہ صفت انسانوں کے مقابلہ فاسق فاجر تھے لیکن منشائے الٰہی میں ان پاکبازائمہ سے وہ حکمران بھی اسلام اور امت مسلمہ کیلئے بہتر تھے۔ قیامِ پاکستان کے وقت بھی مذہبی طبقات اپنے اختلافات میں الجھے تھے اور واجبی مسلمان قائدین نے قائدانہ کردار ادا کیا۔ سعودیہ میں بھی مذہبی طبقے سے بہتر خادم الحرمین کیلئے شاہی خاندان ہے۔نجدی مذہبی شدت پسندوں کا اقتدار ہوتا توپھر رسول اللہﷺ کے روضہ مبارک کے نشانات مٹادیتے، قبر کو سجدہ گاہ بنانے والوں کو نبیﷺ کی دعا سے وہاں کا اقتدار نہیں مل سکتا ،ورنہ وہ قبرمبارک کو سجدہ گاہ بنالیں۔ علامہ شاہ تراب الحق قادریؒ کے مدرسہ کے مہتمم نے بھی اس کا اظہار کیاتھا۔ مذہبی طبقے کو اقتدار میں آنے سے قبل اجنبیت کے ان غلافوں سے نکلنا پڑے گا جن میں لپٹے ہوئے یہ اسلام سے بہت ہی دور ہیں۔عتیق الرھمٰن گیلانی

مذہبی تعلیمات کیلئے بہت بگاڑ کے اسباب کیا تھے؟

پاکستان اسلام کے نام پر بنا، اسلام سے بڑھ کر انسانیت کیلئے کوئی قانون اور مذہب نہیں، البتہ مذہبی طبقے نے اسلام کا حلیہ ایسا بگاڑ دیا ہے کہ اگرافہام وتفہیم کا ماحول پیدا کیا جائے تو تمام مذہبی طبقات اپنی خود ساختہ منطقوں سے نکل کر اسلام کا فطری دین قبول کرسکتے ہیں۔ مغل اعظم اکبر بادشاہ نے وقت کے شیخ الاسلام اور درباری علماء کی مددسے اسلام کا حلیہ یوں بگاڑ اکہ ’’علماء نے فتویٰ دیاکہ اولی الامر کی حیثیت سے دین کے احکام کی تعبیر وتشریح آپ کا حق ہے، جو نظام دینِ اکبری میں آپ کی مرضی ہو، آپ کااختیارہے، مسلم امہ، ہندو، بدھ مت اور سارے مذاہب کیلئے قابلِ قبول اسلامی احکام کی تعبیر کااختیار آپکے پاس ہے، یہ ظل الٰہی کا اختیار ہے جو اللہ نے خود آپکو دیا ہے‘‘۔ آج مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن سودی نظام کو جواز کی سند دیتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں فتویٰ پیش ہو تو سودی نظام کو اسلام قرار دینے کی جرأت خود کو گنہگار کہنے والے ارکان بھی نہ کریں۔
اکبر کے دین الٰہی کیخلاف ہمارے شہر کانیگرم جنوبی وزیرستان کے پیر روشان نے پختون قبائل کو متحد کرنے کی تحریک چلائی اور اسکے اقتدار کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی۔ مغل بادشاہوں کی سفاکی مثالی تھی،شیخ احمدسرہندی المعروف مجدد الف ثانیؒ نے اکبر کے سامنے جھکنے اور سجدۂ تعظیمی سے انکار کیامگر مغلیہ دورِ اقتدار ابوالفضل فیضی اور ملادوپیازہ جیسے درباری علماء کی بدولت اسلام کے نام پر چلتا رہا۔ مغلیہ کے بہترین بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے جو فتاویٰ عالمگیریہ پانچ سو علماء کرام کی مدد سے مرتب کیا، جن میں شاہ ولی اللہؒ کے والد شاہ عبدالرحیمؒ بھی شامل تھے۔ فتاویٰ عالمگیریہ میں لکھا ہے کہ ’’ بادشاہ پر کوئی حد نافذ نہیں ہوسکتی ۔ قتل، چوری، زنا، ڈکیتی وغیرہ کے جرائم کرے تو بادشاہ سلامت ہے، اسلئے کہ بادشاہ خود حد کو نافذ کرتا ہے تو اس پر کوئی کیا حد نافذ کرسکتا ہے؟۔ بادشاہ سزا سے بالاتر ہے‘‘۔ اس سے بڑھ کر شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے اپنی کتاب ’’تقلید کی شرعی حیثیت ‘‘ میں علماء کو مقام دیا ہے۔جس میں یہ تک لکھا کہ ’’ عوام علماء کی تقلیدکے پابند ہیں، عوام براہِ راست اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت نہیں کرسکتے ، آیت میں علماء کے آپس کا اختلاف مراد ہے۔ اگر علماء گمراہ کریں، تب بھی عوام پر اطاعت ضروری ہے، عوام پر ذمہ داری عائد نہیں ‘‘۔ مفتی تقی عثمانی نے کھلے عام قرآن کی آیت میں معنوی تحریف کا ارتکاب کیا اور جن احادیث کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے تووہ اپنے دلائل کا بھی کھلے عام مذاق ہیں۔ شیعہ عقیدۂ امامت کی وجہ سے اسلئے گمراہ ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ امام سے اختلاف جائز نہیں تو حضرت عمرؓ نے رسول اللہ ﷺ سے حدیث قرطاس میں اختلاف کی جرأت کیسے کی؟۔ مفتی تقی عثمانی نے شیعوں کے عقیدۂ امامت سے بڑھ کر علماء کرام کی اندھی تقلید کی تعلیم دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کی یہ تعریف کی ہے کہ ’’ اللہ کی آیات پر بھی اندھے اور بہرے ہوکر گر نہیں پڑتے‘‘۔ صحابہ کرامؓ نے رسول اللہ ﷺ کی ایسی تقلید نہیں کی تھی جس کی تعلیم مفتی تقی عثمانی نے علماء ومفتیان کے حوالہ سے دی ہے، بنیادی معاملات قابلِ غور ہیں۔
حضرت شاہ ولی اللہؒ نے قرآن کا ترجمہ کیا، علماء کو احادیث کی طرف متوجہ کیا اور انگریز کے مقابلہ میں مقامی حکمرانوں کو متوجہ کیا ۔انگریز نے قبضہ کیا ، 1857ء کی جنگِ آزادی ناکام ہوئی، سرسید احمد خان نے علی گڑھ کالج کی بنیاد رکھ دی، انگریزوں اور مسلمانوں کے درمیان فاصلہ کم کرنے کی کوشش کی، دارالعلوم دیوبند نے اسلامی تعلیمات کو تحفظ دینے کی مہم شروع کی۔ ہند میں بریلوی، دیوبندی اور اہلحدیث مکاتب بن گئے۔ مولانا عبداللہ غزنوی کا تعلق افغانستان سے تھا، شیخ نذیر حسین دہلوی اہلحدیث کے شاگرد ،افغانستان سے بار بار جلاوطن ہوئے جواحراری رہنما مولانا داؤد غزنویؒ کے دادا تھے، میرے اجداد سیدامیرشاہؒ بن سید حسن ؒ سید اسماعیل ؒ بن سید ابراہیمؒ بن سید یوسف ؒ مذہبی گھرانہ تھا۔ سید یوسف ؒ کے دو فرزند سیدعبداللہؒ اور سید عبدالوہاب ؒ تھے، پیر روشان کے بعد کچھ برکی قبائل نے کانیگرم سے جالندھر سکونت اختیار کی، عبدالوہابؒ شاہ پور ہوشیار پور جالندھر میں مدفون ہیں ، انکی اولاد نے انکو شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کا فرزند لکھا ہے مگر سولویں عیسوی صدی میں فرزند کیسے ہوسکتے ہیں؟۔ سید یوسف ؒ بن سید رضاشاہ ؒ بن سید محمد جمال شاہؒ ولد سیدنظام الدین شاہؒ ولد سیدمحمود حسن دیداری ؒ ولدسید محمد ابوبکر ذاکرؒ ولد سید شاہ محمد کبیرالاولیاءؒ (مدفن کانیگرم) بن سیدمحمد ہاشم ؒ بن عبداللہ.؛.؛.؛.؛.؛.؛.؛.؛.عبدالرزاق بن سید عبدالقادر جیلانیؒ بہت بڑاشجرہ ہے۔
پیرروشان کی اولاد سے ہمارے اجداد کی رشتہ داری رہی۔ بایزید انصاری پیر روشان سید نہ تھے ،انکی اولاد بھٹوزداری کی طرح سیدانصاری بن گئے۔ میری دادی بھی انکے خاندان سے تھیں، جب حضرت علیؓ کی باقی اولاد علوی ہیں اور ہم حضرت فاطمہؓ کی وجہ سے سید ہیں تو دوسروں کو بھی ماں کی وجہ سے سید بننے کا حق ہونا چاہیے۔ نبیﷺ کیلئے تو اللہ نے قرآن میں فرمایا کہ ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولٰکن رسول اللہ و خاتم النبین’’محمد(ﷺ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں‘‘۔ رسول اللہ ﷺ کے چچازاد علیؓ اور چچا عباسؓ کی اولاد خلافت کے منصب کی حقداری پر نہ لڑتے تو بہت اچھا ہوتا۔پیرورشان ایک انقلابی تھے اور ایک انقلابی کا خون رگوں میں گردش کرتا ہو توقابلِ فخر ہے۔ عمران کی والدہ جالندھر کی برکی قبیلے سے تھی جو پیرروشان کے بعد کانیگرم سے ہجرت کرکے آباد ہوئے۔ عمران خان اسلئے نیازی سے زیادہ ماں کو ترجیح دیتا ہے ، شہبازشریف اور آصف زرداری طعنہ کے طور پر نیازی کہہ کر مخاطب کرتے ہیں، حالانکہ لوہار اور زردار کی بھی نیازی سے زیادہ اہمیت نہیں ۔میرے دادا کے بھائی سیداحمد شاہ اور پرناناسیدسبحان شاہ کا قبائلی عمائدین میں افغان حکومت کیساتھ مذاکرات کا ذکر ہے،میرے ماموں سید محمودشاہ اور والدکے چچازاد سیدایوب 1914ء میں اسلامیہ کالج پشاور میں زیرتعلیم تھے اور پیرسیدایوب شاہ عرف آغا جان افغانستان میں پہلے اخبار کے ایڈیٹر تھے۔
مدارس کا نصاب بہتوں نے بدلنے کی کوشش کی، مولانا ابوالکلام آزادؒ بھارت کے وزیرتعلیم تھے ، تب بھی انہوں نے علماء سے اس کی تبدیلی کا مطالبہ کیا تھا۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ ، مولانا انورشاہ کشمیری،ؒ مولانا سندھیؒ ، مولاناسید یوسف بنوریؒ ، مولانا مفتی محمودؒ اور بہت اکابر نصاب کی تبدیلی کے خواہاں رہے۔ وفاق المدارس نے سال بڑھادئیے۔ مفتی اعظم مفتی رفیع عثمانی نے کہا کہ ’’ امام مہدی کا ظہور ہونیوالا ہے، وہ حق وباطل کا امتیاز ہوگا ، ہم ترجیح کی اہلیت نہیں رکھتے‘‘۔ مولانا ابوالحسن علی ندویؒ نے لکھا ’’شاہ اسماعیل شہیدؒ کے مرشد سیداحمد بریلوی ؒ اسلئے مدارس میں پڑھ نہ سکے کہ کتابوں کے حروف نظروں سے غائب ہوجاتے تھے‘‘۔ مولانا سید محمد میاںؒ نے بڑی خوبی ان کی یہ لکھ دی کہ ’’سیداحمد بریلویؒ کا تعلق تصوف سے تھا‘‘ اور جماعتِ اسلامی کے بانی مولانا سید مودودیؒ نے ’’ تصوف سے تعلق کو اصل خرابی کی بنیاد قرار دیا تھا‘‘۔ مولانا سیداحمد بریلوی شہیدؒ پر بھی امام مہدی کا گمان کیا گیا، شاہ اسماعیل شہیدؒ کی کتاب منصب امامت کی اصل بنیاد یہی تھی۔
سنی اور شیعہ میں عقیدۂ امامت کے حوالہ سے بنیادی اختلاف یہ ہے کہ شیعہ امام کے تقرری کو من جانب اللہ سمجھتے ہیں اور سنی کے نزدیک امام کا مقرر کرنا مخلوق کا فرض ہے۔ شاہ ولی اللہؒ نے لکھا کہ ’’ رسول اللہ ﷺ نے مشاہدہ میں فرمایاکہ’’ شیعہ عقیدۂ امامت کی وجہ سے گمراہ ہیں‘‘۔ جس پر شاہ ولی اللہؒ نے غور کرکے یہ نتیجہ نکالا کہ ’’ اس کی وجہ سے ختم نبوت کا انکار لازم آتاہے‘‘۔ مولانا حق نواز جھنگویؒ نے بھی اصل اختلاف عقیدۂ امامت قرار دیاتھا اورشاہ ولی اللہؒ کے فرزند شاہ عبدالعزیزؒ نے تحفہ اثنا عشریہ کتاب لکھی اور شاگردوں نے اہل تشیع کو کافر قرار دیا۔ مگرشاہ اسماعیل شہیدؒ نے بھی منصب امامت میں ’’اہل تشیع کے بنیادی عقیدۂ امامت کی اپنے رنگ میں شدومد سے وکالت کی ‘‘۔ مولانا یوسف بنوریؒ نے شاہ اسماعیل شہیدؒ کی ایک کتاب ’’بدعت کی حقیقت‘‘ کا مقدمہ لکھا ، جس میں تقلید کو بدعت قرار دیا گیا ہے اور اس میں منصب امامت کی بھی بڑی تائید کردی۔ مولانا یوسف بنوریؒ کے والد مولانا سیدزکریا بنوریؒ نے مولانااحمدرضاخانؒ کو ہندوستان میں حنفی مذہب اور تقلید کو بچانے کیلئے خراج تحسین پیش کیا ۔ بنوری ٹاؤن کے مفتی ولی حسن ٹونکیؒ مفتی اعظم پاکستان کی طرف منسوب کرکے فتویٰ لکھاگیا جس میں شیعہ کو صحابہؓ سے انکار، قرآن کی تحریف اور عقیدۂ امامت کی وجہ سے ختم بنوت کا منکر قرار دیکر قادیانیوں سے بدتر کافر قرار دیا گیا۔ مہدی کے بارے میں عوام ہی نہیں علماء دیوبند کے اکابر کا عقیدہ بذاتِ خود قادیانیت سے بدتر تھا اسلئے کہ ایسی شخصیت کا اعتقاد جو اپنی روحانی قوت سے پوری دنیا میں انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو، نبوت کے دعوے سے بھی بڑھ کر گمراہی ہے، انبیاء کرامؑ کیلئے بھی ایسا اعتقاد جائز نہیں ۔مولانا سندھیؒ ، سید مودودیؒ اورعلامہ اقبالؒ نے اس غلط اعتقاد کی زبردست الفاظ میں اصلاح کی کوشش کی تھی۔
شاہ اسماعیل شہیدؒ اور سیداحمد بریلویؒ کی خراسان سے مہدی کی پیش گوئی میں ناکامی کے کافی عرصہ بعد بعض نے امیرالمؤمنین ملا عمرؒ کو بھی مہدی قراردیا۔ داعش کہتی ہے کہ ملاعمر اعضاء کی سلامتی اور قریشی نہ ہونے کیوجہ سے خلیفہ نہیں بن سکتے تھے،اسلئے امیرالمؤمنین ابوبکر بغدادی کو بنادیا۔ ہم نے بھی پاکستان سے اسلام کی نشاۃثانیہ اور خلافت کے قیام کا آغاز کرنے کی بنیاد رکھ دی، تمام مکاتبِ فکر کے سینکڑوں علماء ومشائخ نے تائید بھی کی، میرے استاذ جامعہ بنوری ٹاؤن کے پرنسپل ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے ہماری رہنمائی کے تأثرات میں امام مالکؒ کا قول لکھا کہ ’’ اس امت کی اصلاح نہ ہوگی مگرجس نہج پر اس امت کی اصلاح پہلے کی گئی ‘‘۔ یہ بات بہت بڑے گر کی ہے۔
پیپلزپارٹی کی حکومت کوراجہ داہر اور ن لیگ کی حکومت کو راجہ رنجیت سنگھ سے بہت بدتر سمجھنے والے القاعدہ خود کو محمد بن قاسمؒ اور طالبان و داعش خود کو سیداحمد بریلویؒ کی تحریک سے بڑھ کر سمجھتے ہیں۔ پرویز مشرف نے امریکہ کا ساتھ دیا تو پاکستان میں فوج کیخلاف نفرت کا طوفان اٹھاتھا۔ دہشت گردی مضبوط ہوئی تو فوج سے مزید نفرت بڑھ گئی۔ جنرل راحیل کے جانے کا وقت قریب آیا تو حبیب جالب کی طرح اقبال کا شاہین نہیں بلکہ لال کرتی کا کوّا صحافی ہارون الرشید کہہ رہاہے کہ جنرل راحیل کے بارے میں فوج کے اندر کسی کا وہم وگمان بھی نہ تھا کہ یہ آرمی چیف بنے گا، جس کا مطلب چن چن کر اشفاق کیانی کی طرح ہی بنائے جاتے ہیں جو قوم کو کرپشن، دہشت گردی اور منافقت میں ڈبوکر ماردیں۔فوج کا ماضی تو ن لیگ کو بھی اچھا نہیں لگتا جس کی پیداوار ہیں ۔ حقائق کی تہہ تک اسوقت تک پہنچنے میں کامیابی نہیں مل سکتی جب تک ساری قوم اپنی غلطیوں کا ادراک نہ کرلے۔ فوج کا کام عوام کی اصلاح نہیں ہوتی، عوام کی اصلاح کیلئے سیاسی رہنمااور علماء ومشائخ کا کردار اہم ہوتا ہے۔ سیاسی رہنما ٹاؤٹ اور کچھ ٹاؤٹ بننے کیلئے اپنی دم سر پر دستار سجائے رکھتے ہیں۔ مذہبی نصاب درست ہوجائیگا تو فرقہ بندی سے ہوا نکل جائیگی۔ نیک لوگوں کا کردار ضائع ہونے کے بجائے معاشرے میں اپنا رنگ لائیگا۔ دہشت گردی کا خاتمہ ہوگا۔ آپس میں لڑنے بھڑنے کا ماحول نہ رہے گا، دنیا میں ہمارے پاکستان کی فضاء اپنے ہمسایہ اور دنیا بھر کیلئے مثالی ہوگی، کشمیر کی آزادی یقینی بن جائے گی اور ہندوستان کے مسلمان عزت اور وقار کی زندگی گزاریں گے ۔ شر کی تمام قوتیں سر نگوں اور حق کے غلبے سے اسلامی خلافت کی راہ ہموارہوگی۔
حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر جیسے لوگ پاکستان کا اثاثہ ہیں، کرایہ کے سپاہی اگر ملک بچاسکتے تو بنگلہ دیش میں ہماری فوج ہتھیار کیوں پھینک دیتی؟۔یہ لوگ ریاست کے جتنے وفادار ہیں اتنے اسلام کے بھی نہیں۔ اگر ہمارے فرقوں اور ہماری ریاست کا قبلہ ٹھیک ہوجائے تو کمیونزم کا نظریہ رکھنے والے اسلام کیساتھ کھڑے ہونگے۔ مزارعین سے جاگیردار احادیث اور فقہی اماموں کے مسلک کے مطابق اپنا حصہ وصول کرنا سود سمجھیں تو بندہ مزدور کے اوقات بدل سکتے ہیں، لال خان واحد کمیونسٹ رہنما ہیں جو عملی کوشش کررہے ہیں مگر انکے منشور میں بھی تضاد ہے، ایک طرف مزارع کو مالک بنانے کی بات ہے تو دوسری طرف زمین کی اجتماعی ملکیت کی شق ہے۔ جب اپنے ملک کی خدمت کرنے کا دعویٰ کرنے والے سیاستدان اور عزیز ہم وطنو والے فوجی جرنیل شہروں کے گلی نالیاں صاف کرینگے تو پھر قوم مان جائے گی کہ انکا کوئی ذاتی ایجنڈہ نہیں بلکہ قوم کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں۔ بڑے بڑوں کے پاس پیسہ نہ ہو توکونسلر کا انتخاب جیتنا بھی ان کیلئے مشکل ہے۔

علماء کا کردار: ایک جائزہ

مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ کی ایک کتاب’’ اختلافِ امت اور صراطِ مستقیم‘‘ ،دوسری ’’عصر حاضر حدیث نبویﷺ کے آئینہ میں‘‘ ہے۔ اختلافِ امت میں جماعتِ اسلامی کے بانی سید مودویؒ کا لکھا ہے کہ ’’ ان کی تحریر کو سب سے بڑی خوبی سمجھا جاتا ہے، میرے نزدیک انکی سب سے بڑی خامی ان کی قلم کی کاٹ ہے، جب کفروالحاد کیخلاف لکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دارالعلوم دیوبند کا شیخ الحدیث گفتگو کررہاہے مگر جب وہی قلم اہل حق کیخلاف اٹھتا ہے تو لگتاہے کہ غلام احمد پرویز اور غلام احمد قادیانی کا قلم اس نے چھین لیا ہے‘‘ مولانا لدھیانویؒ نے بڑی شائستگی سے مولانامودودیؒ کو انبیاء کرامؑ اور امہات المؤمنینؓ کا گستاخ قرار دیا۔جماعتِ اسلامی نے بڑی شائستگی سے یہ کیا کہ ’’اپنی مسجد الفلاح نصیر آباد کا امام وخطیب مولانا لدھیانویؒ کو بنادیاتھا‘‘۔ رمضان میں مولانالدھیانویؒ نمازِ فجر کے بعد درس دیتے، محراب میں مولانا لدھیانویؒ خاموش تشریف فرماتھے ،پروفیسر غفور احمد ؒ وہاں کھڑے ہوکر بیان کررہے تھے۔ تو سوچا کہ بڑے بڑوں کی بات سمجھتے ہیں، ہم چھوٹوں کی عقیدت میں نجات ہے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن میں داخلہ سے پہلے دار العلوم اسلامیہ واٹر پمپ میں عارضی طور سے رہاتھا، مولانا یوسف لدھیانویؒ نے تقریر کے دوران یہ فقہی مسئلہ بتادیا کہ ’’ قرآن کے نسخے پر ہاتھ رکھ کر قسم کھانے سے کفارہ واجب نہیں ،اسلئے کہ یہ اللہ کی کتاب نہیں بلکہ اس کا نقش ہے، زبانی اللہ کی کتاب کی قسم کھانے پرکفارہ اد ا کرنا ضروری ہوجاتاہے‘‘۔ مجھے یہ سن کر حیرت ہوئی کہ علماء اور جاہلوں میں یہ فرق ہے کہ جاہل زبانی قرآن کی قسم کھالیتے ہیں مگر کتاب پر ہاتھ رکھ قسم کھانے سے بہت ڈرتے ہیں، حالانکہ علم کی دنیا میں معاملہ بالکل برعکس ہے‘‘۔ پھر جامعہ بنوری ٹاؤن میں داخلہ ملا اور مولانا بدیع الزمانؒ نے علم النحو کی کتاب میں پڑھایا کہ ’’ لفظ وہ ہے جو زباں سے نکلے، عربی میں کھجور کھانے کے بعد گٹھلی پھینکنے کیلئے لفظت (میں نے پھینکا) استعمال ہوتاہے۔ جو مولانا لدھیانویؒ سے سنا ، یہ گویا تصدیق تھی۔ پھر علم الصرف کے صیغوں میں مولانا عبدالسمیع ؒ سے سرِ راہ بحث کا سلسلہ لمبا ہوا، تو انہوں نے قرآن منگوایااور پوچھا کہ ’’ یہ اللہ کی کتاب ہے؟‘‘ میں نے کہا کہ نہیں تو مجھ پر کفر کا فتویٰ تھوپ دیا، میں عرض کیا کہ یہ فتویٰ تو مولانا یوسف لدھیانویؒ پر بھی لگتاہے، ان کا حوالہ دیا تو مجھ پر بہت زیادہ ناراضگی کا اظہار کیا کہ ’’ تم لوگ کتابیں پڑھ کر آتے ہو، مقصد پڑھنا نہیں ہمیں ذلیل کرنا ہوتاہے‘‘۔ ایک طالب علم نے مجھے بازوسے پکڑا ،اور مسجد کے کونے میں لیجاکر کہا کہ ’’صوفی صاحب اپنا ذکر کرو‘‘۔
چوتھے سال میں ’’نورالانوار‘‘ میں قرآن کی تعریف پڑھ لی کہ ’’ کتاب میں موجود لکھائی الفاظ ہوتے ہیں اور نہ معنیٰ بلکہ یہ محض نقوش ہوتے ہیں‘‘ تو کوئی تعجب نہ ہوا،اسلئے کہ پہلے سے یہی معلوم تھا۔ مفتی محمد تقی عثمانی کی کتاب ’’فقہی مقالات‘‘ میں دیکھا کہ ’’ علاج کیلئے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے‘‘ تو پاؤں سے زمین نکل گئی۔ جامعہ بنوری ٹاؤن نے فتویٰ میں بالکل ناجائز اور ایمان کے منافی قرار دیا۔ دونوں فتوے ہمارے اخبار کی زینت بن گئے تو بریلوی مکتبۂ فکر کے لوگوں نے طوفان کھڑا کردیا، جب ہم نے بتایا کہ فتاویٰ شامیہ میں صاحبِ ھدایہ کی کتاب تجنیس کا حوالہ دیکر لکھا گیا ہے ۔ مولانا احمد رضابریلویؒ نے بھی اپنے فتاویٰ میں دفاع کیا ہے تو بولتی بند ہوگی، مفتی تقی عثمانی نے روزنامہ اسلام میں مضمون لکھ کر اعلان کیا کہ ’’میں یہ تصور کرسکتا، اپنی کتابوں فقہی مقالات اور تکملۃ فتح الملہم سے یہ عبارات خارج کرتا ہوں‘‘۔مفتی تقی عثمانی نے تو صاحبِ ہدایہ کے مؤقف کاجانے بوجھے بغیر حوالہ دیا اور ان کو دباؤ کی وجہ سے نکالا بھی مگر سوال پیدا ہوتا کہ ’’صاحبِ ہدایہ نے کیوں لکھا اور فتایٰ شامیہ نے کیوں نقل کیا، وہاں سے کون نکالے گا؟۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ عوام کے پریشر سے جس میں ایم کیوایم کے ڈاکٹر فاروق ستار اور کارکنوں کے بیانات بھی شامل تھے، شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے اپنے ہتھیار ڈال دئیے، اگر مفتی تقی عثمانی میڈیا پر صرف کہہ دے کہ مجھ پر ناجائز دباؤ ڈالا گیا تو بھی ہم معافی مانگ لیں گے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ’’جب اصول فقہ میں پڑھایا جاتا ہے کہ قرآن کی کتابت اللہ کا کلام نہیں بلکہ نقش ہے تو سورۂ فاتحہ بھی کتابت کی صورت میں اللہ کا کلام ہے ہی نہیں پھر صاحبِ ہدایہ اور فتاویٰ شامیہ میں پیشاب سے لکھنے پر حرج کیوں ہوگا؟‘‘۔ جب مفتی تقی عثمانی نے اس حقیقت کو سمجھے بغیر آگے بڑھنے اور ریورس گھیر لگانے میں کردار ادا کیا تو دیگرعلماء کاپھر کیا حال ہے؟۔
مولانا یوسف لدھیانوی ؒ کی کتاب عصر حاضر میں اسلام کے حوالہ سے بتدریج مختلف پیرائے میں تنزلی کا زبردست عکس اوراس دور کی تمام صورتحال کا ذکرہے۔ علماء، مفتیان، مساجد کے ائمہ، مقتدیوں اور مذہبی طبقات کی بدترین حالت کے علاوہ سیاسی جماعتوں، برسراقتدار ٹولوں اور عام لوگوں کی زبردست عکاسی کی گئی ہے، ظلم وجور سے بھری دنیا میں ان لوگوں کی فضیلت کا بھی ذکر کیا گیا ہے جنہوں نے دین کو سمجھ لیا، پھر اسکی خاطر ہاتھ، زبان اور دل سے جہاد کیا، دوسرا طبقہ وہ ہے جہنوں نے دین کو سمجھ لیا اور پھر زبان سے اس کی تصدیق بھی کرلی، تیسرا طبقہ وہ ہے جنہوں نے دین کو سمجھ لیا ، اچھوں سے دل میں محبت رکھی اور بروں سے نفرت رکھی مگر ان میں اظہار کی جرأت نہ تھی۔اسکے باوجود یہ طبقہ بھی نجات پاگیا۔ یہ حدیث موجودہ دور پر بالکل صادق آتی ہے۔ جب حاجی عثمانؒ سے اپنے خلفاء نے بغاوت کی، اپنے دوست علماء نے فتوے لگائے تو مولانایوسف لدھیانویؒ ان ہی لوگوں میں تھے جو دل میں ہم سے محبت اور مخالفین سے نفرت رکھتے تھے مگر اظہار کی جرأت نہ کرسکتے تھے، حاجی عثمانؒ کی قبر پر اپنے دامادوں کو لیکر بھی جایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ روزنامہ جنگ میں بھی ان کی طرف منسوب کرکے لکھا گیا کہ ’’ حضرت عیسیٰؑ کے چاچے نہیں تھے البتہ ان کی پھوپھیاں تھیں‘‘ جس پر عوام کی طرف سے شور مچ گیا، مولانا لدھیانویؒ نے صرف یہ وضاحت کردی کہ ’’یہ جواب میں نے نہیں لکھا تھا‘‘۔
ایک دن روزنامہ جنگ کی شہہ سرخی تھی کہ وزیرمذہبی امور مولاناحامد سعیدکاظمی نے کرپشن کا اعتراف کرلیا، اسی دن شام کو مولانا سعید کاظمی نے کہا کہ ’’میں حلف اٹھاکر کہتا ہوں کہ میں نے کرپشن نہیں کی‘‘۔ اگر میڈیا جھوٹ بولے اور ن لیگ کے متضاد بیانات کو بھی اعتراف نہ قرار دے تو عام لوگ اندھیر نگری سے کیسے نکل سکیں گے؟۔ مدارس کے علماء ومفتیان وقت ضائع کئے بغیر نصاب کو درست کرلیں ورنہ وہ طوفان کھڑا ہوگا جو پھر ریاست سے بھی سنبھل نہ سکے گا۔ بڑی بڑی ریاستوں کا تیا پانچہ ہوا لیکن اللہ تعالیٰ نے پاکستان کی حفاظت ایک عظیم مقصد کی خاطر کی ہے۔

JUI-BanoriTown-MolanaZarwali-MolanaFazlurRehman
مفتی محمودؒ نے بینک کی زکوٰۃ کو سود قرار دیا۔ مولانا فضل الرحمن نے اپوزیشن میں دین کی حفاظت تھی، مولانایوسف لدھیانویؒ نے عصر حاضر میں حدیث نقل کی ’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: علماء دین کے محافظ اور ذمہ دار ہیں جبتک یہ اہل اقتدار سے مل نہ جائیں اور جبتک دنیا میں گھس نہ پڑیں۔جب اہل اقتدار سے مل گئے اور دنیا میں خلط ملط ہوگئے تو انہوں نے دین سے خیانت کی‘‘۔ مولانافضل الرحمن نے دین کے بجائے اب وزیراعظم نوازشریف کی وکالت شروع کردی ، جبکہ مفتی تقی عثمانی وغیرہ شروع سے سرکاری ٹانگے رہے ، اب تو اتنی ترقی کرلی ہے کہ عالمی سطح پر سودی نظام کو اسلامی قرار دینے کا بڑا معاوضہ لے کر ٹھیکہ اٹھار کھا ہے۔ ان سے مذہب کے حوالہ سے دلچسپی لینے کی کوئی توقع کیا ہوسکتی ہے؟۔ مفتی زرولی خان نے مفتی تقی عثمانی کے استاذاوروفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان وغیرہ کو سود کے خلاف فتویٰ دینے پر آمادہ کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔وزیرخزانہ اسحاق ڈار سے لیکر عالمی سطح تک بینکوں اور حکومتوں کی حمایت حاصل ہو تومفتی تقی عثمانی کے مقابلہ میں مفتی زرولی، جامعہ بنوری ٹاؤن اور دیوبندی مکتبۂ فکر کے سارے مدارس کی کیا چلے گی؟۔ مدارس کے نصاب سے اتنی استعداد پیدا نہیں ہوتی ہے جس سے موٹی موٹی باتوں کا بھی علماء ومفتیان کو پتہ چل سکے۔ مدارس کا نصابِ تعلیم صوفیاء کا کوئی وظیفہ نہیں بلکہ سیدھے لوگوں کی لکھی ہوئی کتابیں ہیں۔مولانا سمیع الحق نے کہا تھا کہ اس میں غلطیوں کی اصلاح کی جاسکتی ہے۔ یہ کوئی آسمانی وحی تو نہیں ہے حق بات سمجھنے کیساتھ ماحول میں ا سکی جرأت بھی ہونی چاہیے۔

Molana-MasoodAzhar-SarwatQadri-HasanZafarNaqvi
جامعہ بنوری ٹاؤن سے پاکستان بھر، بھارت اور بنگلہ دیش سے بڑی تعداد میں علماء ومفتیان نے اہل تشیع پر کفر کا فتویٰ لگایا تو دارالعلوم کراچی نے انکار کیا کہ ’’ہم سرکاری ٹانگے ہیں ہم یہ نہیں کرسکتے‘‘۔ حاجی عثمانؒ سے انکے اپنے استاذ مولانا عبدالحق بیعت تھے، دارالعلوم کراچی کے ملازم مولانااشفاق احمد قاسمی فاضل دارالعلوم دیوبندفتوے کے بعد بھی حاجی صاحبؒ سے منسلک رہے۔ مولانا عبداللہ درخواستی ؒ کے نواسے جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن کے مولانا انیس الرحمن درخواستی شہیدؒ فتوؤں کے بعد بیعت ہوگئے، جمعیت علماء اسلام کے دونوں دھڑے حامی تھے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ’’ یہ سن70کا فتویٰ لگتاہے۔علماء نے پیسہ کھاکر فتویٰ دیا ہوگا‘‘۔ میں نے علماء کو پھانسا تو مولانا فضل الرحمن نے بھری محفل میں کہا کہ ’’ دنبہ لٹادیا ہے، چھرا ہاتھ میں ہے، ذبح کرو، ٹانگیں ہم پکڑ لیں گے‘‘۔ علماء معافی کیلئے تیار تھے۔ فتویٰ میں شیخ جیلانیؒ ، شاہ ولی اللہؒ ؒ مولانا بنوریؒ اور شیخ مولانا زکریاؒ پر کفر والحاد، گمراہی و زندقہ اور قادیانیت کے فتوے لگائے ، ہفت روزہ تکبیر میں پابندی کا مطالبہ کرتے ہوئے لکھ دیا کہ ’’یہ فتویٰ حاجی عثمان کے خاص مرید سید عتیق الرحمن گیلانی نے لیاہے‘‘ ۔ عدالتی نوٹس پر مفتی تقی عثمانی نے لکھا کہ ’’ ہم نے نام سے فتویٰ نہیں دیا‘‘، ہم نے درگزر سے کام لیا۔پھر کچھ عرصے بعد فتویٰ دیا کہ ’’حاجی عثمان ؒ کے معتقد سے نکاح کا انجام کیا ہوگا؟، عمر بھر کی حرام کاری اور اولادالزنا‘‘۔ جب میں نے ان کو انکے مدارس میں چیلنج کیا تو بھاگ گئے۔ مفتی رشید احمد لدھیانوی نے ہمارے ساتھیوں کو پٹوایا، جب ہم نے کیس کیا تو تھانہ میں دونوں طرف کے افراد لاکپ میں بند ہوئے۔ ہماری طرف سے عبدالقدوس بلوچ وغیرہ تھے اور ان کی طرف سے لشکر جھنگوی کے ملک اسحاق وغیرہ تھے۔آج ہم نے مشکلات کے پہاڑ وں کو جس طرح سے سر کرلیا ہے۔ ملی یکجہتی کونسل کے صدر اور جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد ؒ ہمارے اخبار کے ایک مضمون سے بہت متأثر ہوئے جو مولانا مسعود اظہر کی بھارت سے رہائی کے بعد لکھا ۔ قاضی حسین احمد سے ہمارے نمائندہ کی ملاقات ہوئی اور پوچھا کہ شیعہ مسلمان ہے یا کافر؟۔ تو ملی یکجہتی کونسل کے صدرسوال کرنے پر بھی ناراض ہوئے۔ تجزیہ تھا کہ تہاڑ جیل سے یہ ممکن نہیں کہ دشمن بھارت مولانا مسعوداظہر کو ہفت روزۂ ضرب مؤمن میں مضامین لکھنے کی اجازت دے۔ سعودیہ، بھارت، افغانستان اور پاکستان میں امریکی سی آئی اے ایک ایسی طاقت ہے جو اپنے پسِ پردہ معاملات کو ڈیل کرسکتاہے۔ مولانا مسعود اظہر نے تنظیم کا علان کرتے ہوئے کہا کہ ’’الحمدللہ چالیس مجاہدین کو اسامہ بن لادن نے ذاتی بارڈی گارڈ کیلئے قبول کرلئے‘‘۔ 9\11کے وقت مسعوداظہر کی جماعت کے سرپرست مفتی جمیل خان (جنگ گروپ) کو امریکہ سے لندن آتے ہوئے واپس امریکہ کے حوالے کیا گیا۔ بہت بے گناہ گوانتاناموبے کی جیل میں تشدد کی نذر ہوئے۔ ڈاکٹرعافیہ صدیقی آج بھی جیل کے سلاخوں کے پیچھے ہے، مولانا مسعود اظہر کا اللہ بال بھی بیکا نہ کرے لیکن امریکہ نے نہیں مانگا، امریکہ نے چاہا تو اسامہ کا خاتمہ کردیا، یا اٹھاکر لے گئے، وہ جو بولیں لوگ یقین کریں گے اور آئی ایس آئی کے جنرل پاشا کو ملازم رکھ لیا۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا کہ ’’نوازشریف کو روتا دیکھ کر جنرل ضیاء الحق یاد آیا‘‘ حالانکہ جنرل ضیاء حادثاتی موت کا شکار ہوئے۔ نوازشریف کیساتھ قاضی حسین احمد بھی اسلامی جمہوری اتحاد کے قیام تک برسی مناتا رہاہے۔مولانامسعوداظہر، حافظ سعید ، مفتی زرولی خان ، مولانا سیدحسن ظفر نقوی ، ثروت اعجاز قادری اور دیگر مذہبی لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوکر مدارس کے نصاب ، مسالک کی چپقلش اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر ایک جامع اور واضح لائحہ عمل تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ امریکہ ایران اور سعودیہ کے علاوہ شیعہ سنی فسادات کرانے کے چکر میں لگ رہا ہے۔مفتی تقی عثمانی نے اہل تشیع سے خود کو بچانے کیلئے ملاقاتیں کی ہیں اور سوشل میڈیا پر جو لوگ مفتی تقی عثمانی تیرے جانثار بے شمار کے نعرے لکھ رہے ہیں وہی اہل تشیع کو کافر قرار دینے کے فتوے بھی جاری کررہے ہیں۔ تبلیغی جماعت کو ان افراد پر کڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے جو انکے لبادہ میں فرقہ واریت پھیلانے کی مذموم کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ دوسروں کیلئے خیر نہ مانگنے والے اپنی خیر بھی نہیں مانگ سکتے ہیں۔