عبادات Archives - Page 14 of 14 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

درسِ نظامی کی اصلاح وقت کی اشدضرورت ہے… اداریہ نوشتہ دیوار

مجھے علماء سے عقیدت ومحبت ہے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کے اساتذہ میں زیادہ عقیدت و محبت مولانابدیع الزمانؒ سے ہے ۔ آپؒ کی تلقین مسلم اُمہ کے تمام مسائل کا حل ہے کہ ’’روزانہ قرآن کے ایک ایک رکوع کا ترجمہ وتفسیر سمجھنے کی کوشش کرو‘‘۔ ایک مرتبہ کسی آیت پر اشکال کے حل کا طلبہ کو ایک ہفتے کا وقت دیا کہ کتب تفاسیر میں تلاش کرو، جس سے پوچھنا ہوپوچھ لو،اور اسکا جواب لادو، سوال کا منہ سے نکلنا تھا کہ میں نے بے ساختہ جواب دیدیا۔ میری برجستہ اور خلافِ توقع بے صبری سے قدرِ ناگواری کا اثر بھی چہرے پر نمایاں ہوا پھر حسبِ معمول ہلکاسا تبسم فرمایا۔ اگر کسی نیک طینت بڑے سے بڑے عالمِ دین یا چھوٹے طلبہ پر درسِ نظامی کے حوالہ سے میری گزارشات پر اچانک ناگواری یا سوچنے سمجھنے کے بعد اطمینان کا اظہار ہو تو یہ ایک فطری بات ہے۔ میری تعلیم و تربیت عقیدت ومحبت کے ماحول میں ہوئی۔ فقہ کی کتاب کنزالدقائق میں100فیصد نمبر اورمولانا عبدالمنان ناصر نے میرے اشکال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’عتیق کی بات درست ہے ، کنز والے کی غلط‘‘ تو مجھے کتنا بڑا حوصلہ ملا ہوگا؟۔ درسِ نظامی کی آخری تفسیر ’’بیضاوی شریف‘‘پر اشکال اٹھادیا تو مولانا شبیراحمد (رحیم یارخان والے) نے فرمایا کہ ’’ عتیق کی بات درست ہے اور بیضاوی نے غلط لکھا ہے‘‘ ۔ میں نے جاوید غامدی کے شاگرد ڈاکٹر زبیر سے اساتذہ کاذکر کردیاتو حیران ہوگئے۔ وہ اپنے استاذ کی طرف سے اختلاف کوشائستہ انداز میں برداشت کرنے تعلیم وتربیت کو باعثِ افتخار قرار دے رہے تھے۔
اصول فقہ کی تعلیم ہے کہ قرآن و سنت میں تطبیق (موافقت) ممکن ہو تو تطبیق پیدا کی جائے،پہلا سبق قرآن حتی تنکح زوجا غیرہ کاحدیث سے تضاد ہے کہ ’’ اللہ نے خاتون کی طرف نکاح کی نسبت کی‘‘۔یعنی ولی سے اجازت کی پابند نہیں، حدیث میں بغیر اجازت ولی اسکا نکاح باطل ہے۔(اصول الشاشی)۔ زنا بالجبر اور غیرت کے نام پرقتل کیخلاف پارلیمنٹ میں قانون بنا ، اس پر نیوز 1 چینل میں ڈاکٹر فرید پراچہ نے ’’فساد فی الارض‘‘ کا حوالہ دیکر اختلاف کیا۔ جاہل کو معلوم نہیں کہ دیوبندی بریلوی مدارس حنفی ہیں ، جماعتِ اسلامی اسی کی مقلد ہے، خواتین کا ولی کی اجازت کے بغیر شادی میں درسِ نظامی کا کردارہے۔قرآن نے یہودو نصاریٰ کو ولی بنانا منع کیا ، مذہبی طبقہ امریکہ کو سرپرست بنانا جائز اور دوست بنانا جائز نہیں سمجھتا۔ بکرکنواری اَیم طلاق شدہ و بیوہ ہے،قرآن و حدیث میں تضاد نہیں بلکہ توازن ہے۔ قرآن میں طلاق شدہ کو نکاح کی اجازت دی ہے ،تو نکاح کرانے کا حکم بھی ہے وانکحوالایامیٰ منکم (طلاق شدہ وبیواؤں کا نکاح کراؤ) اور حدیث میں کنواری ہی کیلئے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح باطل ،تو حدیث میں بیٹی کی اجازت کے بغیر باپ کا نکاح کرانا باطل ہے۔ دارالعلوم کراچی کے فاضل نے بتایا کہ ’’مفتی تقی عثمانی کی بیٹی کا ٹیوشن پڑھتے ہوئے استاذ سے معاشقہ ہوگیا تھا مگر مفتی تقی عثمانی نے اپنی بیٹی کا نکاح زبردستی سے اسکی مرضی کے بغیرکسی اورسے کردیاتھا‘‘۔
حنفی فقہ سے قرآن کے مقابلہ میں من گھڑت حدیثوں کا راستہ رک گیاتھا،باقی حضرت امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا کہ ’’ حدیث صحیحہ کے مقابلہ میں میری رائے کو دیوار پر دے مارا جائے‘‘۔ علم وکردار کے لحاظ سے بہت سے علماء ومفتیان نے حق وصداقت کی راہ اپنانے کی بجائے مذہب کو پیشہ بنالیا ہے،اسلئے قرآن وسنت کے فطری دین کو ہردور میں اجنبیت کی منزلیں طے کرکے کہاں سے کہاں پہنچادیا گیاہے۔
نکاح و طلاق پر قرآن وسنت میں تضادو ابہام نہیں۔ قرآنی آیات اور احادیث کی طرف دیکھنے کی زحمت گوارا کرنے کے بجائے مسلکوں کی وکالت کی گئی ۔ صراطِ مستقیم نہیں پگڈنڈیوں کی بھول بھلیوں سے نصاب مکڑی کاجالا ہے۔ مفتی تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمن اور مولانا فضل الرحمن کے جیب اور پیٹ بھرنے کا وسیلہ ہویا سیاسی حکومت کہدے، تو یہ لوگ امت پر رحم کھاکر درسِ نظامی کی تعلیم کو درست کرنے پر نہ صرف آمادہ ہونگے بلکہ عوام کے ایمان اور اسلام کیلئے اپنی خدمات بھی پیش کرینگے، اب تو یہ خانہ خراب سودی نظام کے جواز اور سیاسی خدمات کیلئے مرمٹ رہے ہیں۔
امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک طلاق کے بعد عدت میں نکاح قائم رہتاہے، اسلئے ہر فعل وقول رجوع کیلئے معتبر ہے، پھر فقہاء نے غلطی سے شہوت کی نظر پڑنے ، نیند کی حالت میں میاں یا بیوی کا شہوت سے ہاتھ لگنے کو بھی رجوع قرار دیا جو غلو ہے ، شافعی مسلک والوں نے اسکے برعکس نیت نہ ہو تومباشرت سے بھی رجوع کو معتبر قرار نہیں دیاہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: لاتغلوا فی دینکم ’’اپنے دین میں غلو مت کرو‘‘۔ اس سے بڑھ کر غلو (حدود سے تجاوز) کی مثال اور کیا ہوسکتی ہے؟ ۔
قرآن وسنت میں میانہ روی اور اعتدال کا راستہ ہے، اللہ نے ناراضگی وطلاق کی عدت بھی بیان کی ہے اور اس میں صلح و رضامندی سے مشروط رجوع کی اجازت کو بھی واضح کیا ہے، دونوں میں جدائی کا خوف ہو تو ایک ایک رشتہ دار دونوں جانب سے تشکیل دینے کی بھی ہدایت فرمائی ہے ، تاکہ ان دونوں کا ارادہ صلح کرنے کا ہو تو معاملہ سلجھ جائے اور اللہ تعالیٰ ان میں موافقت پیدا کردے۔اللہ نے باربار معروف طریقے سے رجوع یا معروف طریقے سے رخصت کرنے کا حکم دیا ہے۔ عربی میں معروف اور احسان کی ضد منکر ہے۔ نکاح، طلاق اور رجوع میں باربار احسان اور معروف طریقے کی تلقین کی گئی ہے۔ دورِ جاہلیت میں جو منکر صورتیں طلاق ورجوع کے حوالہ سے رائج تھیں اسلام نے ان سب کا خاتمہ کردیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے ایک ساتھ تین طلاق پر شوہر کے غیرمشروط رجوع کو ختم کیا تھا۔ اسلام نے محض طلاق کے بعد بھی شوہر کو غیرمشروط رجوع کا حق نہیں دیا ، حضرت عمرؓ کے اقدام کی اسلئے صحابہؓ نے توثیق کردی، اگرطلاق واقع نہ ہو تو عورت شادی نہ کرسکے،جیسے بہشتی زیور و بہارشریعت میں امت کے اس اجماع سے انحراف کیاگیا ہے ۔کسے یہ کیامعلوم تھا کہ باہمی رضامندی سے بھی رجوع کا راستہ بنداور حلالہ کا دروازہ کھول دیا جائیگا۔
حضرت عمرؓ کے کارناموں میں سرِ فہرست ہوگا کہ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد شوہر سے رجوع کا حق چھین لیا،مگر اسکا مطلب یہ ہرگز نہ تھا کہ اللہ نے بار بار باہمی رضا سے عدت کا حوالہ دیکر رجوع کی گنجائش رکھ دی اور حضرت عمرؓ نے ان آیات کو منسوخ یا انکے احکام کو بھی مسخ کرکے رکھ دیا،بلکہ قرآن وسنت کی روح اور الفاظ کا یہ تقاضہ تھا کہ شوہر طلاق دے تو صلح کے بغیر اس کو رجوع کا حق حاصل نہیں۔ عورت کو اس حق سے محروم سمجھا گیا تو حضرت عمرؓ نے ایک ساتھ تین طلاق کی صورت میں شوہر کو رجوع کے حق سے محروم کیاتھالیکن یہ محرومی صرف اس صورت میں تھی جب عورت صلح کیلئے رضامند نہ ہو۔ حضرت عمرؓ کی طرف سے یکطرفہ رجوع کا حق نہ دینا اور طلاق واقع ہونے کا متفقہ فتویٰ تاکہ عدت کے بعد دوسری شادی ہوسکے دیگر بات ہے اور اس بنیاد پر باہمی صلح اور رجوع کا راستہ روکنا اور حلالہ پر مجبور کرنا قرآن اور انسانیت کو مسخ کرنا ہے۔ حضرت عمرؓ پر قرآنی آیات کو مسخ کرنے کے اقدام اور حلالہ کی لعنت کو جواز فراہم کرنے کا الزام لگاکر سنی مکتبۂ فکر نے اہل تشیع کو صحابہؓ سے بدظنی پرمجبور کیا اور اپنوں کاحلالہ کی لعنت سے کباڑا کردیاہے۔
کالعدم سپاہ صحابہ جماعتِ اہلسنت اور کالعدم فقہ جعفریہ وحدت المسلمین کوایک ہی اسٹیج سے کھڑے ہوکر قرآنی آیات ، احادیث صحیحہ اور فاروق اعظمؓ کے اقدام کی درست توجیہ سے پاکستان کو ایران و سعودیہ عرب اور عالم اسلام کا امام بنانا ہوگا۔اور طلاق کے متعلق قرآن وسنت کیخلاف غیرفطری تصور کا خاتمہ کرنا ہوگا کہ شوہرایک طلاق دے تو عورت کی دوسری جگہ شادی کے بعد بھی پہلا شوہر دو طلاق کا مالک ہو۔

مدارس کے نصاب کی درستگی پر بہادر قیادت توجہ دے

مدارس کے نصاب کی اصلاح وقت کی اہم ضرورت ہے۔ قرآن وسنت میں کوئی ابہام نہیں مگر قرآن کریم کی آیات کا حلیہ بگاڑنے کو علوم میں مہارت کانام دیا گیا۔ اگرہم نے ہوش کے ناخن نہ لئے توبرا ہوگا اللہ تعالیٰ نے میں فرمایا کہ لاتقربوا الصلوٰۃ وانتم سکریٰ حتی تعلموا ماتقولون ولا جنبا الاعابری السبیل حتی تغتسلوا ’’نماز کے قریب نہ جاؤجب تم نشے کی حالت میں ہو، یہاں تک کہ تم سمجھو ،جوتم کہہ رہے ہو اور نہ جنابت کی حالت میں مگر یہ کہ کوئی مسافر ہو،یہاں تک کہ تم نہالو‘‘۔ قرآن کی آیت کا مفہوم بالکل واضح ہے کہ نشہ کی حالت میں نماز نہیں پڑھ سکتے ، یہاں تک کہ نشہ اتر جائے اور جو کچھ نماز میں پڑھا جائے اس کو سمجھا بھی جائے۔ دوسرا یہ کہ جنابت کی حالت میں بھی نماز پڑھنا جائز نہیں مگر مسافر پڑھ سکتا ہے ،یہاں تک کہ تم نہالو۔ یعنی مسافر کیلئے نہائے بغیر تیمم سے بھی نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ یہ آیت عام لوگوں کو سمجھا دی جاتی جس سے عوام اپنے بچوں کو نماز کا مفہوم سمجھانے کو فرض قرار دیتے۔ اسلئے کہ نشہ کی حالت کے بغیر نشہ میں ہونے کی طرح نماز سمجھے بغیر پڑھنے کو بہت معیوب قرار دیا جاتا۔ دورانِ سفر جہاز یا پانی کی قلت وغیرہ کی وجہ سے کوئی نماز پڑھنا چاہتا تو اس کو بھی نماز پڑھنے میں مشکل نہ ہوتی اور کوئی نماز نہ پڑھنا چاھتا تو بھی اسکے لئے یہ مشکل نہ ہوتی کہ ہرحالت میں نماز پڑھنا ضروری ہے۔ سفر میں جنابت ہوجائے تو تیمم سے نماز پڑھ بھی سکتے ہیں اور نہ پڑھنا چاہیں تو پڑھنے کا حکم نہیں بلکہ آیت میں محض اجازت ہے ۔
آیت کی وضاحت میں بخاری شریف کی روایت نقل کردی جاتی کہ حضرت عمرؓ نے سفر کی حالت میں جنابت کی وجہ سے تیمم سے نماز نہ پڑھی اور حضرت عمارؓ نے پڑھ لی۔اور نبی کریم ﷺ نے دونوں کی توثیق کردی۔ بعض لوگ عبادت کی طرف زیادہ رحجان رکھتے ہیں تو ان کو تیمم سے غسل کئے بغیر بھی اللہ نے نماز سے روکا نہیں ہے اور بعض صفائی پسندطبع کے ہوتے ہیں اور وہ جنابت کی حالت میں نماز پڑھنے کو سفر میں تیمم سے نہیں پڑھنا چاہتے تو ان کو مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے بھی دونوں کی توثیق فرمائی ہے۔
علماء ومفسرین کا فرض بنتا تھا کہ عوام کو قرآن وسنت کا مفہوم سمجھاکر اپنے فرضِ منصبی کا حق ادا کرلیتے مگر یہ حضرات دوسروں کی کیا رہنمائی کرتے، خود بھی منطق کی شراب پی کر وہ ہچکولے کھارہے ہیں کہ الحفیظ والامان۔ ایک طرف کہیں سے روایت نکال کر لائے ہیں کہ حضرت علیؓ شراب کے نشہ میں دھت تھے، جس کی وجہ سے نماز پڑھاتے ہوئے آیات غلط سلط اور خلط ملط ہوگئیں، جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ پھرخودساختہ و عقل باختہ منطق نے ان کو للکارا کہ ’’ جنابت کی حالت میں غسل کے بغیر نماز کے قریب نہ جانے اور مسافر کو اجازت دینے کا بھلا کیا معنیٰ ہوسکتاہے؟،اس کیلئے سوچ وبچار کے گھوڑے دوڑائے اور جواب دیا کہ لامحالہ صلوٰۃ سے مراد نماز نہیں بلکہ مسجد ہے‘‘۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟جبکہ آیت میں صلوٰۃ کا ذکر تو ایک ہی مرتبہ کیا گیا ہے کہ مرضی ہو تونماز مراد لی جائے اور مرضی ہو تو پھر اس سے مسجد مراد لی جائے؟۔ اس مشکل کا حل یہ نکالا کہ ایک دوسری روایت تلاش کرکے دم لیا، چنانچہ حضرت علیؓ کے متعلق لکھا کہ یہ آپؓ کے بارے میں ہے کہ جنابت کی حالت میں مسجد میں آنے کی اجازت دی گئی‘‘۔ اہل تشیع نے پہلی روایت پر ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کو بھی کافر ومرتد قرار دیا اور دوسری روایت کو خصوصی اعجاز سمجھ کر حضرت علیؓ کے بارے میں عام قانون وقواعد سے بالاتر عقیدے کی تبلیغ شروع کردی۔
برصغیر پاک وہند کے مشہور عالم حضرت شاہ ولی اللہؒ نے حضرت عمرؓ اور حضرت عمارؓ کا واقعہ نقل کرتے ہوئے بڑے تعجب کا اظہار کیا ہے کہ حضرت عمرؓ نے جب حضرت عمارؓ کے بارے میں سنا تو اپنا مؤقف بدلا کیوں نہیں؟۔ اور اس سے بڑا تعجب یہ کیا کہ نبیﷺ نے حضرت عمرؓ کے سامنے وضاحت کیوں نہ فرمائی؟۔ پھر اپنے خیال کا اظہار کیاکہ نبیﷺ یہ چاہتے تھے کہ قرآن کی تفسیر کو مقید کرنے کی بجائے زمانہ پر چھوڑ دیا جائے تاکہ مفہوم محدود نہ ہوجائے۔ علامہ مناظر احسن گیلانیؒ نے بھی تدوین فقہ، تدوین حدیث اور تدوین قرآن کتابیں لکھ کر حضرت شاہ ولی اللہؒ کے اس حوالہ کو آخری حل کے طور پر پیش کیا ہے۔ میرے اساتذۂ کرام میں حضرت مولانا بدیع الزمانؒ استاذ تفسیروحدیث واصول فقہ والنحو وغیرہ اگر آج حیات ہوتے تو یقیناًمجھے بڑی تھپکی دیتے کیونکہ ہمارے مرشد حاجی عثمانؒ پر فتویٰ کے دفاع میں بھی میری جدوجہد کو انہوں سراہا تھا۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں ان سے اکثر اساتذہ اور طلبہ بہت عقیدت ومحبت رکھتے تھے۔ وہ طلبہ سے یہ تلقین ضرور کرتے کہ روزانہ ایک ایک رکوع کا ترجمہ پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کریں، مولانا بدیع الزمانؒ نے ہی اصول فقہ کی کتابیں ہمیں پڑھائی تھیں، تفسیرکی ابتداء بھی انہی سے کی تھی۔ جب ان سے مجھے آج بھی عقیدت ومحبت ہے، ان سے علم و فیضِ صحبت کو تبرک سمجھتا ہوں تو تاریخ کے ادوار کا بھی شکر گزار ہوں مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ حق وباطل میں تمیز کا واضح راستہ بھی نظر انداز کردوں،ابوطالب ، علیؓ ، حسنؓ ، حسینؓ ، زیدؒ کے خانوادے سے تعلق کا حق ادا کرناہے۔

اسلام کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے

یہود ونصاریٰ کے مذہبی طبقہ نے اپنے دین کا حلیہ بگاڑ دیا ، قرآن نے انکی مثال کتے اور گدھے سے دی، حدیث میں مسلم امہ کی بھی پیشگوئی ہوئی ہے کہ وہ بھی انکے نقشِ قدم پر چلیں گے، حدیث کی پشین گوئی پوری ہوئی ہے، مذہبی طبقے نے اسلام کا حلیہ بگاڑ دیاہے، کافر اُمت پر ایسے ٹوٹ پڑے جیسے بھوکے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں کافر ممالک یہ سب کچھ اپنے دفاع میں کررہے ہیں۔ دہشت گردوں کی آبیاری بھی انہوں نے کی تھی اور اپنے گماشتہ ممالک کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا تھا۔ پاکستان اور سعودی عرب اس میں پیش پیش تھے، افغانستان، عراق ، لیبیا اور شام وغیرہ کی تباہی کا سہرا ہمارے سرپرست اعلیٰ امریکہ اور اسکے سی آئی اے کے سر پر ہے، ہمارے حکمران سمجھ رہے تھے کہ امریکہ ان کو دل سے لگاکر اپنی چھاتیوں سے دودھ پلارہا ہے ، حالانکہ وہ کم بخت اپنا پیشاب فیڈ کررہا تھا۔ یہ ہمارے حکمران طبقہ کی نااہلی تھی کہ پیشاب کی جگہ دودھ سمجھ رہا تھا، اور اب شراب کی طرح یہ خراب عادت ’’چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی‘‘۔
ہم اسلام کے برگشتہ فرقوں اور پگڈنڈیوں کی بات نہیں کررہے ہیں اور نہ ایسے قدیم لائبریریوں کے قصے سناتے ہیں جو کالعدم اور مفقود ہیں۔بوہری ، آغاخانی، ذکری وغیرہ کی بات بھی نہیں کررہے، شیعہ واہلحدیث کی بات بھی نہیں ہورہی ہے بلکہ پاکستان میں اسلام کیلئے صراطِ مستقیم اور مینارۂ نور سمجھے جانے والے حنفی دیوبندی بریلوی بڑے مدارس کا شاخسانہ رکھتے ہیں کہ وہ اپنے نصاب میں اسلام کے حوالہ سے کتنی غیر فطری سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ اپنے اصولِ فقہ کی کتابوں میں قرآن پاک اللہ کی کتاب کے بارے میں یہ پڑھاتے ہیں کہ ’’ کتابی شکل میں یہ کتاب نہیں، قلم سے لکھی جانے والی کتاب ایک نقش ہوتاہے جو لفظ ہوتا ہے اور نہ معنیٰ‘‘المکتوب فی المصاحف سے مراد قرآن کے عام نسخے نہیں بلکہ سات قاریوں کے الگ الگ قرآن ہیں، نقل متواتر سے مراد یہ ہے کہ بعض ایسی آیات بھی مشہور اور خبر احاد ہیں جو اصل میں قرآن ہیں لیکن متواتر نقل نہ ہونے کی وجہ سے اللہ کی کتاب میں شامل نہیں، بلاشبہ سے مراد یہ ہے کہ مشکوک آیات بھی اس تعریف سے خارج ہیں، جیسے بسملہ جو صحیح بات یہ ہے کہ وہ قرآن ہے لیکن اس میں شبہ ہے اور شبہ اتنا قوی ہے کہ اس کا منکر کافر نہیں بنتا‘‘۔ حالانکہ قرآن کی پہلی وحی میں قلم کے ذریعہ تعلیم اور مقدمۃ الکتاب سورۂ فاتحہ اوراسکے بعد سورۂ بقرہ کی ابتداء بھی بسم اللہ سے کی گئی ہے اور یہ بھی واضح کردیا گیا ہے کہ ذلک الکتاب لاریبہ فیہ ’’یہ وہ کتاب ہے جس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے‘‘۔ سورۂ بقرہ میں ہی وضاحت ہے کہ الذین یکتبون الکتاب بایدیہم ’’جو کتاب اپنے ہاتھوں سے لکھتے ہیں‘‘۔ یہ کتاب کو بھی کتاب نہیں مانتے۔
اصول فقہ میں حقیقت اور مجاز کی تعریف اور استخراجی مسائل کا ذکرکرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ جہاں حقیقی معنی مراد ہوسکتا ہے وہاں مجازی معنی مراد نہیں لیا جاسکتا۔ نکاح کے حقیقی معنیٰ لغت میں ضم ہونے کے ہیں، عقد کیلئے نکاح مجازی معنی ہے۔ جس آیت میں باپ کی منکوحہ سے نکاح نہ کرنے کا حکم ہے، اس میں جائز اور ناجائز مباشرت دونوں شامل ہیں۔ اگر باپ نے صرف عقدِ نکاح کیا ہو، مباشرت نہ کی ہو تو احناف کے نزدیک یہ قرآن سے نہیں اجماع کی وجہ سے ناجائز ہے‘‘۔ (نورالانوار کی اردو شرح قوت الاخیار)۔
حالانکہ یہ سراسر بکواس ہے، نکاح لغت میں بھی جائز تعلق ہی کا نام ہے، حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے ہابیل اور قابیل کے وقت سے نکاح اور زنا میں فرق ہے، لغت میں وہ معنیٰ ہی مراد لیا جاتا ہے جو معاشرے کی بول چال کا حصہ ہوتاہے۔ قرآن میں ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق والی صورت کو بھی واضح الفاظ میں نکاح کہا گیاہے،زنا کو نکاح قرار دینا اور نکاح کو زنا قرار دینا اور عقدِ نکاح سے اس کی نفی کرنا وہ منطق ہے جو علماء ومفتیان کیلئے عقل، فطرت، انسانیت اور اسلام سے دور ہونے کا فطری اورمنطقی نتیجہ ہے۔ اصولِ فقہ کا اسلوب پڑھنے اور پڑھانے والے بیچاروں کو خود بھی سمجھ میں نہیں آتا اور آئیگا بھی کیسے؟۔ لکھا ہے کہ ’’ امر تکرار کا تقاضہ کرتا ہے، شوہر اپنی بیوی سے کہے کہ اپنے کو طلاق دے، تویہ ایک طلاق بھی ہوسکتا ہے اور عدد کا مجموعہ تین طلاق بھی لیکن دو طلاق مراد نہیں ہوسکتے‘‘۔ استاذ نے پڑھانا ہوتا ہے اور طلبہ نے رٹا لگانا ہوتا ہے باقی اس کا افہام وتفہیم سے کوئی تعلق بھی نہیں ہوتا۔ اسی تعلیم کا نتیجہ ہے کہ یہ بھی پڑھایا جاتا ہے کہ ’’بیوی سے اولاد پیدا ہونے کے بعد بیوی شوہر کیلئے بعضیت یا جزئیت کی وجہ سے حرام ہوجاتی ہے لیکن ضرورت کی وجہ سے جائز قرار دی گئی کیونکہ اس میں حرج ہے‘‘۔ حالانکہ پھر کم زاکم حلالہ کے بعد بھی اس کو حلال نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس سے بڑھ کر نصابِ تعلیم میں یہ بکواس بھی پڑھائی جاتی ہے کہ ’’ ساس کی شرمگاہ کے باہر والے حصہ کو شہوت کی نگاہ سے دیکھنے میں عذر ہے،اسلئے یہ حرمتِ مصاہرت کا ذریعہ نہیں لیکن ساس کی شرمگاہ کے اندورونی حصہ کو شہوت سے دیکھنے پر حرمت مصاہرت لازم ہوگی یعنی بیوی حرام ہوجائیگی‘‘۔ اگر ہمارا مقتدر طبقہ امریکہ سے ڈرتاہے توکیا اس نصابِ تعلیم پر بھی بازپرس کرنے سے گھبراتاہے؟ پھر تف ہے ان پر!۔

مفتی عبد القوی کا فتویٰ اور قندیل بلوچ اسکنڈل کے علمی حقائق

وہ محترمہ جومحرم بہن ،بیٹی وغیرہ اور منکوحہ نہ ہو، جس قسم کا معاہدہ کیا جائے یہ نکاح ہے، نکاح ہے، نکاح ہے۔ قرآن وسنت سے یہی سمجھاہے

مفتی عبدالقوی نے فتویٰ جاری کیا تو پاکستان تحریک انصاف کے علماء کے سربراہ تھے، پھرعرصہ بعدقندیل بلوچ کے واقعہ کی وجہ سے ہٹادیا گیا

بدقسمتی ہے کہ واقعات کی بنیاد پر معاشرے میں ردِ عمل آجاتا ہے مگراس نصاب کی غلطیوں پر کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آتا جو خرابیوں کی جڑ ہے

پاکستان بھر میں مفتی عبدالقوی کا فتویٰ سوشل میڈیا پر ویڈیو پیغام کے ذریعہ عام ہوا، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی زینت بنا، مفتی صاحب اس وقت ہلال کمیٹی کے رکن اور پاکستان تحریک انصاف علماء ونگ کے سربراہ بھی تھے۔ اپنے اس فتوے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے معروف قندیل بلوچ کو میڈیا پر ملنے کی دعوت بھی دی اور ذوق کی پاسداری ایک ہوٹل میں ہوئی۔ جیوٹی چینل نے کچھ ریٹنگ اور کچھ تحریکِ انصاف کی مخالفت کی وجہ سے اس کو خوب اچھالا، موصوف کو علماء ونگ تحریکِ انصاف ، ہلال کمیٹی کی رکنیت اور ٹی وی چینلوں پر اپنے فرائضِ منصبی سے محروم کردیا گیا۔ یہ دنیا اتنی تنگ وتاریک ہے کہ امریکی صدارتی امید وار ڈونلڈ ٹرمپ اور اس سے پہلے صدر کلنٹن پر بھی اس قسم کے واقعہ پر بڑی مہم سازی ہوئی مگر اسلامی دنیا میں صرف واقعہ ہی نہیں بلکہ قانون سازی کی بنیاد بھی اتنی شرمناک ہے کہ عام لوگوں کو پتہ چلے تو صحیح بخاری اور فقہ کی کتابوں پر تعجب کی انتہاء کردیں۔ مغیرہ ابن شعبہؓ کے خلاف تین گواہوں نے گواہی دی تو حضرت عمرؓ نے چوتھے گواہ کی آمد پر کہا کہ اللہ اسکے ذریعہ اس صحابی مغیرہؓ کو ذلت سے بچائے گا، پھر اتنی زور داز آواز سے چیخ کر کہا بتا تیرے پاس کیا ہے ؟ کہ راوی خوف سے بیہوش ہونے کے قریب آگیا، چوتھے گواہ نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ اس خاتون(ام جمیلؓ) کے پاؤں مغیرہؓ کے کاندھے پرگدھے کے کانوں کی طرح پڑے تھے اور اس کی سرین دکھائی دے رہی تھی۔ حضرت عمرؓ نے باقی تینوں گواہوں پر حدِ قذف جاری کردیا، ان کو80,80کوڑے لگادئیے،پھر پیشکش کردی کہ آئندہ پھر تمہاری گواہی قبول کی جائے گی ،اگر جھوٹ کا اقرار کرلو، دوگواہوں نے جو صحابی نہ تھے یہ اقرار کرلیا کہ ہم نے جھوٹ بولا تھامگر واحدصحابیؓ گواہ اپنی بات پرڈٹے کہ جو دیکھا سچ تھا۔ یہ واقعہ صحیح بخاری اور فقہ وتفسیر کی کتابوں میں قانون سازی کے حوالہ سے ہے۔
امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک حضرت عمرؓ کی پیشکش قرآن کی آیت کے منافی تھی، قرآن میں ہے کہ جھوٹی گواہی دینے والے کی گواہی کبھی قبول نہ کیجائے۔ جمہور فقہاء امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ نے اس واقعہ کو دلیل بنایااور یہ مسلک اختیار کیا ہے کہ’’ اس واقعہ کی بنیاد پر توبہ کرنے کے بعد جھوٹے گواہ کی گواہی قبول کی جائے گی‘‘۔ پہلے حضرت عمرؓ نے مغیرہ ابن شعبہؓ سے بصرہ کی گورنری چھینی مگرپھر گورنر بنادیا ۔ یہ قانون سازی قرآن وسنت کی بنیادپر ہرگز نہیں۔ البتہ اللہ نے در اصل حضرت عمرؓ کے ذریعہ غیرشرعی، غیرانسانی اور غیرفطری سنگساری کی سزا کو ہمیشہ کیلئے معطل کردیا۔جو قرآن وسنت نہیں بلکہ یہود کی توراۃ میں اللہ کے احکام کی تحریف کا نتیجہ تھاجسکے سب سے بڑے داعی حضرت عمرؓ ہی تھے، اگر قرآن کیمطابق 100کوڑے کی سزا ہوتی تو حضرت عمرؓ کیلئے پریشانی کا سبب نہ ہوتی۔ یہ قرآن وسنت، فطرت وشریعت سے انحراف کا نتیجہ تھا کہ مجرموں کی بجائے گواہوں کے سزا کی غلط روایت بھی پڑگئی۔ سورۂ نور میں زنا کی سزا 100کوڑے کے بعد نبیﷺ نے کسی پر سنگساری کی سزا جاری نہیں کی۔ جب اللہ کی طرف سے کوئی حکم نازل نہ ہوا تھا تو یہ سنگساری کی سزا اہل کتاب کی موافقت کی وجہ سے دی گئی مگر اسمیں آخری حد تک رحم کھانے کا عنصر موجود تھا جبکہ ایک گروہ کی موجودگی میں کوڑوں کی سزا میں رحم کھانے سے روکا گیا ہے اور وہ فطرت کے عین مطابق ہے اس پررحم کھانے کیلئے پاپڑ بیلنے کی ضرورت بھی نہیں۔
صحیح مسلم کی روایت کیمطابق حضرت عمرؓ کے دور تک متعہ کا سلسلہ جاری تھا،حضرت عمرؓ نے اس پابندی لگائی، صحیح بخاری کیمطابق نبیﷺ نے سفر میں متعہ کی اجازت دی اور قرآن کی آیت کا حوالہ دیکر فرمایا کہ’’ان چیزوں کو اپنے اوپر حرام مت کرو، جن کو اللہ نے حلال کیا ہے‘‘۔ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک نے مسیار کے نام سے متعہ کی اجازت دی ہے، مفتی عبدالقوی نے متعہ اور مسیار کا نام لئے بغیر کہا کہ ’’شادی ایک نکاح متعددکی اجازت میرے فہم کے مطابق قرآن وسنت میں موجود ہے‘‘۔ سنی مکتب کی معروف تفاسیر میں بھی متعہ کی اجازت قرآن کی آیات میں موجود تھیں، بعض قرأتوں میں ’’ایک متعین وقت تک نکاح کی وضاحت ہے‘‘۔ یہ قرأت نہیں ہوسکتی بلکہ درسِ نظامی میں جلالین کے طرز پر کوئی پرانی تفسیر ہوگی لیکن بہرحال مفتی عبدالقوی نے اسی کی بنا پر فتویٰ دیا ہوگا۔
مشہور شخصیت حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے جب حضرت علیؓ کے سامنے متعہ کو زنا کہا تو حضرت علیؓ نے کہا کہ’’تم خود بھی تو اسی متعہ کی پیداوار ہو‘‘(زادالمعاد علامہ ابن قیمؒ )،یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حضرت اسماعیلؑ کی والدہ ماجدہ لونڈی تھیں، رسول اللہﷺ کے ایک فرزندزندہ ہوتے تو ان کی ماں لونڈی تھی، حضرت ہاشم کے بیٹے حضرت عبدالمطلب کی والدہ معروف بیوی نہ تھی اسلئے جب لائے گئے تو لوگ ان کو بڑے بھائی مطلب کے غلام سمجھتے تھے، اصل نام شیبہ تھامگر عبدالمطلب نام مشہور ہوا۔ حضرت ابوہرہؓ نے صحابہؓ سے کہا کہ ’’تم خود پر کس بات کا فخر کرتے ہو، قریش تو آسمان (لونڈی )کے بیٹے ہیں۔ کاش! ہم دنیا میں اسلامی نظام کے نفاذ کیلئے شخصی کردار اور فرقہ وارانہ تعصبات چھوڑ کر مثبت راہ کو اپنا نصب العین بنالیں تو ہمارے معاشرے اور معاشرتی نظام کی اصلاح ہوسکتی ہے۔

اداریہ نوشتہ دیوار ، ماہ اکتوبر 2016

جیوٹی چینل پر سلیم صافی نے مشرق وسطیٰ کے مسائل کے ماہر سے انٹرویو کیا تو اس نے بتایا کہ القاعدہ اور داعش میں شدید اختلافات ہیں۔ القاعدہ کا نظریہ ہے کہ فی الحال عالمی خلافت کے قیام کیلئے عملی اقدام درست نہیں، افغانستان میں امارت اسلامی کے بعد جہادی سر گرمیاں جاری رکھی جاتیں تو عالمی قوتوں کو مشکلات سے دور چار کیا جاسکتا تھا، داعش مفاد پرست ہے جبکہ داعش کا مؤقف یہ ہے کہ’’ اسلامی خلافت کا قیام ایک شرعی فریضہ ہے، جس کیلئے قریش ہونا اور جسم کے اعضاء کا سالم ہونا بنیادی شرط ہے اور یہ دونوں شرائط امیرالمؤمنین ملا عمر میں نہیں پائی جاتی ہیں‘‘۔ القاعدہ، طالبان اور داعش کے آپس سمیت امت مسلمہ کے اختلافات کو سلجھانے کیلئے اغیار کی طرف دیکھنے کی بجائے اندرون خانہ مسلم علماء، دانشور اور ہماری ریاستوں کو باہمی طور سے مل بیٹھ کر حقائق کی طرف آنا ہوگا۔
اسماعیلی آغا خانی اور داؤدی بوہرہ کے اہل تشیع فرقوں نے اپنی جماعتوں اور ان کے سربراہوں کو امام زمانہ قرار دے رکھا ہے، اسلئے وہ تمام ممالک میں بہت خاموشی کیساتھ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور کسی سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں۔ اہلحدیث سے کٹ جانی والی جماعت المسلین نے بھی اپنی جماعت اور اسکے امیر کا ایک تصور بنالیا ہے جو کراچی سے پاکستان بھرمیں اپنی سرگرمیاں جاری ہوئے ہیں، اہل تشیع کے امامیہ فرقے کے نزدیک احادیث میں بارہ خلفاءِ قریش کا ذکر ہے اور وہ انکے نزدیک حضرت علیؓ سے مہدی غائب تک بارہ ائمہ اہلبیت ہیں۔ جب تک ان کے نزدیک مہدی غائب کا ظہور نہیں ہوجاتا ، وہ اسلامی امارتوں کے قیام اور اجتہاد سے کام لیکر اپنے اقدامات جاری رکھے ہوئے ہیں، ایران میں انکی جمہوری حکومت اور شام میں خاندانی بادشاہت ہے۔ دنیا بھر میں اہل تشیع کا یہ معروف فرقہ نہ صرف اپنے عقائد ومسلک بلکہ سیاسی اور جہادی جدوجہد میں بھی مصروفِ عمل ہے۔ صدام حسین عراق میں سنی حکمران تھے جس کا تختہ الٹ کر امریکہ نے وہاں شیعہ کوحکومت بنانے کا موقع فراہم کیا، اب امریکہ شام کے شیعہ حکمران حافظ بشار الاسد کو ہٹانے اور وہاں کسی سنی حکمران کو لانے کی تگ ودو میں ہے۔ حال ہی میں داعش کے نام پر امریکہ نے 60شامی فوجیوں کو بمباری کا نشانہ بناکر شہید کردیا اور پھر وضاحت کی کہ غلط فہمی میں یہ ہوا ہے۔ روس امریکہ کیخلاف تھوڑی بیان بازی کرلیتا ہے اور یہ بھی مسلم ریاستوں کے بھیگی بلی بن جانے کے مقابلہ میں غنیمت سے کم نہیں۔
روس کی فوجیں پاکستان میں پہلی بار ایسے موقع پر مشقیں کرنے آئی ہیں جب بھارت اور دنیا کشمیر کے مظالم سے توجہ ہٹانے کیلئے پاکستان پر دباؤ بڑھارہے ہیں۔ امریکہ سے کھربوں کی خریداری کا معاہدہ من موہن سنگھ نے کیا تھا، اسلحہ کی خریداری اور اس کا استعمال ہو یا پاکستان اور خطے سے کمائی کرکے بھارت کو اپنی قسطیں ادا کرنے ہوں، لگتا ہے کہ امریکہ نے بھارت کو مانیٹری کا فریضہ سونپ دیا ہے۔چین اور سعودی عرب سے دشمنی ایران ، افغانستان اور بھارت سے امریکہ کی دوستی بنے تو پاکستان کہاں کھڑا ہوگا؟۔ باتوں سے بات نہیں بنے گی بلکہ ایک مضبوط اور مربوط لائحۂ عمل تشکیل دینا ہوگا۔ تب پاکستان کی سلامتی خطرے سے باہر ہوسکتی ہے۔ سب سے پہلے ان معاشرتی مسائل کو پاکستان اٹھائے جن پر عالمِ اسلام میں یکجہتی اور ہم آہنگی پیدا ہوسکتی ہے۔ افغانستان، ایران ، سعودی عرب، عرب امارات، کویت ،قطر عمان، مصر،سوڈان، لیبیا، شام، عراق ، یمن، ملائشیاء، انڈونیشاء،ازبکستان اور تاجکستان وغیرہ اور تمام مسلم ممالک اور غیرمسلم ممالک بھارت ، امریکہ،لندن، فرانس، جرمنی ،روس وغیرہ سے علماء ومفتیان کے وفود کو پاکستان طلب کرکے خواتین کے حقوق اور خلع وطلاق کا مسئلہ سامنے رکھا جائے تو ایک یکجہتی کا انقلاب پیدا کرنے میں بالکل بھی کوئی مشکل نہ ہوگی۔پاکستان کے مختلف مکاتبِ فکر کے علماء ومفتیان اور دانشوروں کو حکومت اور ریاست بلاکر اس کا تجربہ کرکے بھی دیکھ لے۔
نماز کے اوقات میں فرق اسلئے ہوتا ہے کہ کہیں دن تو کہیں رات ہوتی ہے لیکن پوری دنیا میں چاند ایک ہی ہے، اگر امریکہ اور پاکستان میں ایک دن میں روزہ اور عید کا تصور درست ہے تو پاکستان ، ایران اور سعودی عرب میں بھی ایک دن کا ہونا کوئی غلط، غیرشرعی اور غیرفطری بات نہیں۔ ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن کو دن دھاڑے کچھ فاصلے پر بھینس نظر نہیں آتی تو ہلال کہاں سے نظر آئیگا۔ اگر یہی ہلال شرعی ہو، جو پاکستان میں دکھتا ہے ، ٹی وی چینلوں کی زینت بنتاہے ، کوئی نہیں بھی دیکھنا چاہے تو آسانی سے نظر آنے کیلئے تیار ہوتا ہے، بس خالی آسمان کی طرف نگاہ اٹھانے کی دیر ہوتی ہے تو پھر ایسے ہلال کو دیکھے کیلئے کمیٹی کا بوجھ سرکار کو اٹھانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ ایک مرتبہ محکمہ موسمیات پاکستان نے اعلان کیا کہ کراچی میں چاند نظر آنے کا امکان ہے، اسلام آباد میں ابرآلود موسم کی وجہ سے بالکل نہیں تو میڈیا پر دکھایا جارہا تھا کہ مفتی منیب الرحمن کراچی سے اسلام آباد چاند دیکھنے پہنچے۔ وہاں بادلوں میں چاند تلاش کرنے کے مناظر دکھائے جارہے تھے۔
اتفاق سے مجھے اور اشرف میمن کو اسلام آباد کسی کام جانا پڑا تھا، ائرپورٹ پر یہ ہلال کمیٹی والے حضرات بھی مل گئے، ایک ہی جہاز میں ہماری ٹکٹیں تھیں۔اشرف میمن نے مفتی منیب الرحمن سے سوال جواب کئے۔ اشرف میمن نے کہا کہ اگر چاند یہاں اور سعودی عرب کا اوقات کی وجہ سے ایک دن کافرق ہے تو یہاں اور امریکہ میں اوقات کا زیادہ فرق ہے، پھر زیادہ دنوں کا فرق ہونا چاہیے ۔ مفتی منیب الرحمن نے کہا کہ ’’یہ پاکستان ہے انجوائے کرو‘‘۔ یہ پرویزمشرف کے دور کی بات ہے۔ جب پوری دنیا میں چاند ایک ہے تو عالمی اسلامی خلافت ہو تو بھی ایک دن میں عید ہوگی ، پھر عالمی اسلامی خلافت کے قیام سے پہلے کیا عالم اسلام کی ریاستیں ایک دن کے روزے، عیدالفطر اور عیدالاضحی پر متفق نہیں ہوسکتے ہیں یا تمام ریاستوں کو مرغے پالنے کی شرعی نہیں سیاسی ضرورت ہے؟۔ صرف اقدام کی ضرورت ہے ورنہ یہ کوئی مشکل کام نہیں، جس سے عالم اسلام میں اتحاد کی ایک نئی روح دوڑے گی۔
احادیث میں مسلمانوں کی جماعت ، خلافت کے قیام اور امام زمانہ کو پہچاننے پر زور دیا گیا ہے، ایک وقت تک کا مولانا فضل الرحمن اپنی جماعت پر احادیث کو فٹ کرتا تھا، جمعیت علماء اسلام کی ایک بڑی مرکزی علماء کانفرنس میں ان کا یہ خطاب بھی سینٹر مولانا صالح شاہ قریشی کے کزن مولانا نیاز محمد قریشی نے ’’آذان انقلاب‘‘ کے نام سے شائع کیا تھا، میرے بھائی جمعیت علماء اسلام کے سابقہ مرکزی شوریٰ کے رکن اور مولانا مفتی محمودؒ و مولانا فضل الرحمن کے عقیدتمند پیر نثار شاہ نے کہا تھا کہ ’’میرا پندرہ سالہ مطالعہ ایک طرف اور مولانا فضل الرحمن کی یہ تقریر دوسری طرف تو اس کا وزن زیادہ ہے‘‘۔ جب میں اپنی کتاب ’’ اسلام اور اقتدار‘‘ میں ان احادیث کی وضاحت اور مولانا فضل الرحمن کی تردید کرتے ہوئے لکھا کہ’’ عاقل کیلئے اشارہ کافی ہے ‘‘ تو مولانا نے پھر اپنی جماعت کوان احادیث کا مصداق نہیں ٹھہرایا۔
ویسے تو علامہ اقبالؒ نے امامت کا مسئلہ بالکل حل کردیا ہے، تاہم امامت کے شرعی مسئلے پر عالمی کانفرنس بلائی جائے تو ہلال سے بڑھ کر سورج کی طرح سب ایک امام پر نہ صرف اتفاق ہوسکتا ہے بلکہ امت مسلمہ فتنوں اور فرقہ واریت کی زد سے بھی نکل سکتی ہے اور انسانیت کا بھی بھلا ہوسکتا ہے۔ شیعہ سنی خلفاء وائمہ پر اختلاف تاریخ میں ایسی حیثیت رکھتا ہے جیسے دن گزرنے کے بعد رات کو سایہ کی لیکروں پر جھگڑے کی فضاء کھڑی کی جائے لیکن اتحادواتفاق اور وحدت آج بھی ہوسکتی ہے۔

مفتی تقی عثمانی کے حوالے سے تجزیہ: مُلا منیر

ہمارا معاشرہ حق، دین اور انسانیت کے بجائے پیسہ، شہرت ، اثر ورسوخ اور باطل ڈھانچے کی بنیاد پر کھڑا انقلاب کامنتظرہے

مفتی تقی عثمانی شادی بیاہ کے لفافے کو سود، ماں سے زنا اور سودی نظام کو اسلامی قرار دیاہے ،باقی سارے مدارس مخالف ہیں

اسلام کا حلیہ ہر دور میں ایسے شیخ الاسلاموں کے ذریعہ سے ہی بگاڑا گیا ہے، معاوضہ اور سرکار کی سرپرستی بھی ملتی ہے۔ ملا منیر

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں سود کی سخت مخالفت کی، رسول اللہ ﷺ نے اس کی مذمت فرمائی،مگر عملی طور سے سودی معاملات کا خاتمہ حجۃ الوداع کے موقع پر پہلے چچا عباسؓ کے سود کو معاف کرنے سے کیا۔ جس سے یہ سبق ملتا ہے کہ سود ایک انفرادی معاملہ اور اجتماعی مسئلہ ہے۔ جیسے خنزیر کے گوشت کو اللہ نے حرام کہا لیکن بوقتِ ضرورت بقدر ضرورت اجازت بھی ہے۔ آنے والے وقت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مرغیوں اور جانوروں کی طرح خنزیروں کے بھی فارم بنائے جائیں، دوسرا گوشت بھی ناپید کردیا جائے تو مفتی تقی عثمانی کی آل اولاد سے اس پر سوفیصد حلال ہونے کا معاوضہ دیکر فتویٰ جاری کیا جائے، تبلیغی جماعت والے مسجدوں میں اسکے کھانے کے فضائل بیان کرنا شروع کردیں۔ مخالفت کرنے والے مذہبی جماعتیں جمعیت علماء اسلام حکومت سے مفاد لیکر اس کی سپلائی اپنے ہاتھ میں لیں، تنظیم اسلامی اور جماعتِ اسلامی کے لوگ دارالعلوم کراچی سے خرچہ پانی لیکر خنزیر گوشت کیخلاف مہم شروع کردیں کہ اللہ نے اس کو قرآن میں حرام قرار دیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی واضح کریں کہ فارمی خنزیر وں کا مدارس نے فتویٰ دیا ہے کہ یہ اسلامی ہے۔ جس طرح سود کی مخالفت کے نام پر پیسہ لیکر اسلامی بینکاری کی حمایت کی جارہی ہے۔
جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی، جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی جہاں مفتی تقی عثمانی کے استاذ شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان بیٹھے ہیں، مولانا مفتی زر ولی خان اور دیگر تمام مدارس والے مفتی تقی عثمانی کی مخالفت کررہے ہیں مگر اس کا کوئی اثر مرتب نہیں ہورہا ہے۔ آج سود کا معاملہ ہے تو کل خنزیر کے گوشت کا ہوگا۔ مفتیان نے شروع سے جائز کو ناجائز اور ناجائز کو جائز قرار دینے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا۔ فقہ کے چار اماموں سے پہلے مدینہ کے سات فقہاء گزرے ہیں وہ بھی عام تصویر اور مجسمہ کو ناجائز نہیں سمجھتے تھے، رسول اللہ ﷺ کے اپنے گھر میں بھی حدیث صحیحہ کیمطابق پرندے کی تصویر تھی، گھوڑے کی شکل میں کھلونا مجسمہ تھا، حضرت عائشہؓ کے حجرے میں نبیﷺ اور حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ کی قبریں تعمیر ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں انسان پر احسانات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ قتل الانسان ما اکفرہ ، من ای شئی خلق، من نطفۃ ، خلقہ فقدرہ ، ثم سبیل یسرہ ، ثم اماتہ فاقبرہ ’’مارا جائے انسان یہ کیوں ناشکری کرتا ہے؟، کس چیز سے اس کو پیدا کیا؟ ، نطفہ سے پیدا کیا!، اس کو پیدا کیا، پھر اس کا مقدر بنادیا، پھر اس کیلئے اس کا راستہ آسان کردیا، پھر اس کو موت دیدی اور قبر دیدی‘‘۔ یعنی قبر بھی احسان ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے پوجے جانے والی قبروں، مجسموں اور تصویروں کو مٹانے کا فرمایا لیکن اس کی دنیاوی شکل وصورت پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔ مسلمانوں کے سامنے اسلام کا حلیہ بگاڑنے کی ضرورت نہیں بلکہ حقائق بتانے کی ضرورت ہے۔معجزات اور کرامات برحق ہیں لیکن اسکے نام پر تجارت اور لوگوں کو بیوقوف بنانا بہت غلط ہے۔ روحانی علاج سائنس کی بنیاد پر بھی ایک نفسیاتی علاج ہوسکتا ہے لیکن سوچنے کی ضرورت ہے کہ اگر اللہ نے یہی کرنا ہوتا تو رسول اللہ ﷺ کو شعبِ ابی طالب، مکی دور کی تکالیف، طائف کے سفر میں لہولہان اور حبشہ کی طرف ساتھیوں کو مہاجر اور مدینہ ہجرت کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی؟۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو حکم دینا تھا کہ اپنی جگہ پر دم درود سے علاج کرو، ساری دنیا جھوٹے بتوں لات، منات، عزیٰ وغیرہ کو چھوڑ کر نبیﷺ کے درِ اقدس پر سر جھکاتی اور علاج و شفایاب ہوکر جاتی لیکن اللہ نے ایسا نہیں کیا، یہ الگ بات ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کو غارِ ثور میں سانپ نے ڈس لیا تو لعابِ دہن مبارک سے شفاء مل گئی۔ سراقہ نے سرپٹ گھوڑا دوڑا کر انعام کے چکرمیں نبیﷺ کا پیچھا کیا تو اللہ نے معجزانہ طریقے سے اس کو ٹھوکریں کھلا کر معافی مانگنے پر مجبور کیا، کسی کا دل نہیں مانتا یاگھوڑے کے دھنسنے کا واقعہ شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی اور سرسید احمد خان جیسے لوگوں کی نظروں میں بناؤٹی ہوسکتا ہے لیکن موجودہ دور میں بھی امامِ انقلاب سید عتیق الرحمن گیلانی پر کار میں گولیوں کی بوچھاڑ کی گئی اور اللہ کی قدرت سے بچ گئے۔ گاڑی خود چلارہے تھے اور گاڑی کاوہی دروازہ لیزر ہتھیار سے ایسا کٹ گیا تھا جیسے کلہاڑی سے کاٹا گیا ہو مگر پھر بھی آپ اور ساتھ میں بیٹھنے والوں کو خراش تک نہیں آئی۔
اگر شاہ صاحب وہیں بیٹھ جاتے اور لوگوں کو دم تعویذ کے نام پر دھوکہ دیتے تو طالبان بھی ان کے مرید بن جاتے۔ وہاں کے لوگوں کو یہ بھی پتہ نہیں کہ بریلوی کیا ہوتا ہے، گومل کا ایک خاندان اہلحدیث بن گیا، شاہ صاحب کے گھر کی نوکرانی نے کہا تھا کہ ’’وہ بریلوی بن گئے ہیں‘‘ جس پر کہا گیا کہ وہ تمہیں بریلوی سمجھتے ہیں، اس نے کہا کہ اللہ نہ کرے کہ میں بریلوی ہوں۔ اہلحدیث مسجد کے امام کی تنخواہ ، کنویں کی کھدائی وغیرہ کے نام پر کچھ مفادات اٹھارہے تھے تو شاہصاحب کے بھائی پیر نثار نے ان سے کہا تھا کہ ’’یہ کونسی بات ہے کہ ایک خاندان والے کو بیک وقت اہلحدیث کا مسلک سمجھ میں آگیا‘‘۔ مفتی تقی عثمانی کے پورے خاندان والوں کو اچھا خاصہ معاوضہ مل رہا ہے ، یہ صرف اسی خاندان اسلئے سمجھ میں آیا ہے کہ سودی بینکاری کو اسلامی قرار دینا درست ہے۔ پھر مفتی منیب الرحمن بھی میدان میں کود گیا، آہستہ آہستہ آخرمخالفت کا نام ونشان بھی مٹ جائیگا۔
اللہ تعالیٰ نے اس دور میں سید عتیق گیلانی کی صورت میں ایک تحفہ دیا ہے جس کو ڈھال بناکر ملک سے فرقہ پرستی، قوم پرستی، باطل پرستی اور سارے غلط فتوؤں کا نام نشان مٹایا جاسکتا ہے، زندگی بھر ان کا ساتھ نہ دیا جائے اور فوت ہونے کے بعد علماء حق کی فہرست میں سرخیل ہوں تو یہ بھی ان کے نام پر اپنی کتابیں بیچنے کا دھندہ ہوگا۔ علماء حق کیساتھ تاریخ کے ہر دور میں یہ معاملہ رکھا گیا ہے لیکن یہ میڈیا کا دور ہے، تصویر کا مسئلہ علماء ومفتیان نے اپنے مفاد میں قبول کرلیا ، طلاق کے مسئلے کو بھی قبولیت مل رہی ہے، لوگوں کو محنت کی ضرورت نہیں صرف آنکھیں کھولنے کی ضرورت ہے۔

اسلام سورج کی طرح ہے اور مذہبی طبقے مینڈکوں کی طرح پانی میں عکس پر لڑ رہے ہیں، عتیق گیلانی

حضرت ابراہیمؑ کے بعد دین کا معروف دورِ جاہلیت میں منکر اور منکر معروف بن چکا تھا۔حقیقی ماں کی پیٹھ کو ماں کی پیٹھ سے تشبیہ دینے پر حرام سمجھناشرعی فتویٰ بن چکا تھا۔

رسول ﷺ سے خاتونؓ نے اپنے شوہر کے مسئلہ پر جھگڑا کیا، رائج الوقت فتویٰ پر اللہ نے فرمایا کہ ماں وہ ہے جس نے جن لیا، بول سے ماں نہیں بنتی یہ جھوٹ و منکرہے

بلاتفریق تمام مذہبی طبقوں نے سورج کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے کھڈوں میں اسکے عکس کو تلاش کرنا شروع کیااورپانی بھی گدلا کردیاہے تو ان کو عکس کہاں نظر آئیگا؟

بلاول زرداری نے درست کہا کہ شیر ڈیزل سے نہیں چلتا ، اگر ساتھ میں یہ مشورہ بھی دیتے کہ بھنگ سے چلتا ہے تو وزیر اعظم کو اوپن ہارٹ سرجری نہیں کرانی پڑتی تھی

سندھ کی حکومت پٹرول پیتی ہے ، نیشنل ہائی وے کی شامت پھر آئی ہے ، اگر بلٹ پروف شیشے کیطرح وزیر اعلیٰ کو اندرون سندھ لے جاتے تو کراچی کی قسمت جاگ جاتی

سب نے احمقوں نے اجماع کرلیا کہ سورج چھوٹا ہوتا ہے اسلئے کہ چھوٹے کھڈے میں سمایا اور سورج ٹھنڈا ہے اسلئے کہ اگر گرم ہوتا تو تھوڑا پانی اُبل پڑتا۔یہ منطق ہے

فطری دین اسلام پیش کیا جائے تو مذہبی و غیر مذہبی طبقے فوراً پاکستان ،عالم اسلام اورتمام انسان قبول کرینگے

Mandak2_june2016

اسلام دین فطرت کو مذہبی طبقوں نے غیرفطری بنا ڈالا

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ ’’ اسلام اجنیت کی حالت میں شروع ہوا تھا، اور عنقریب یہ پھر اجنبی بن جائیگا، پس خوشخبری ہے اجنبیوں کے لئے‘‘۔
پاکستان میں سنی، شیعہ، دیوبندی ، بریلوی ،اہلحدیث اور دوسری صدی ہجری میں مالکی، حنفی، شافعی، حنبلی، جعفری،اہل ظواہر،محدثین اور دوسرے فقہاء تھے، فقہ و حدیث کی بنیاد پر محدثین اور فقہاء میں سخت اختلاف اور کشمکش کی فضاء تھی لیکن فقہاء ایک دوسرے سے بھی شدید اختلاف رکھتے تھے، اس طرح محدثین کی بھی آپس میں بھی نہ بنتی تھی، ایک دوسرے کو کذاب اور کتے کے بچے کہنے سے بھی دریغ نہ کرتے، جس کی نشاندہی حدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ ایک ساتھ تین طلاق کی روایت کرنے والے ایک روای کو دوسرے نے ’’جرو کلبیعنی کتے کا بچہ‘‘ قرار دیا ۔
محدثین فقہاء کو ’’ أ ریتون کیا تو نے دیکھا والا طبقہ یا ایسا ہوا تو کیا ہوگا؟‘‘کا نام دیتے ، حدیث جسمیں اسلام کا صرف نام باقی رہنے، قرآن کے صرف الفاظ باقی رہنے ، مساجد لوگوں سے بھری مگر ہدایت سے خالی اور انکے علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق قرار دیاگیا کہ فتنے انہی سے نکلیں گے اور انہی میں لوٹیں گے، محدثین ؒ اس حدیث کی پیشین گوئی کو اپنے زمانے پر فقہاء کی وجہ سے پورا سمجھتے تھے، جبکہ فقہاء سمجھتے تھے کہ ان کی وجہ سے اسلامی احکام کی تشریح اور حفاظت ہورہی ہے۔
ہمیں ان دونوں طبقے کے خلوص پر کوئی شبہ نہیں لیکن من گھڑت روایات اور حیلہ سازی کے کرشموں کو بھی درست قرار دینا ایمان کا زوال اور اسلام کی بیخ کنی ہوگی۔ میں یہ بھی نہیں کہتا کہ پہلے لوگوں نے اس سے غفلت کا مظاہرہ کیا ۔امام غزالیؒ ، مجدد الف ثانیؒ ، شاہ ولی اللہؒ اور بے شمار علماء حق نے اپنے ضمیر، صلاحیت اور ہمت کیمطابق ہدایت کی شمعوں کو جلائے رکھا، اپنے دور کے درخشندہ ستاروں کو گلہائے عقیدت کا پیش کرنا اور ان سے بدظنی کا شکار نہ ہونا ایک بالکل الگ بات ہے مگر انہوں نے کبھی بھی نہ یہ دعویٰ کیا کہ ان سے اختلاف جائز نہیں اور اگر وہ یہ دعویٰ کرتے تو ہمارا فرض بنتا تھا کہ ان کو چمکتے ستاروں کی مانند سمجھنے کی بجائے ان کو زمین میں دفن کرکے قبروں کے نشان بھی زمین پر نہ چھوڑتے، کیونکہ کوئی بت بنائے تو قصور بنانے والوں کا ہوتا ہے لیکن کوئی فرعون کی طرح دعویٰ کرے تو دین میں اس کیلئے کوئی گنجائش نہیں۔
رسول اللہ ﷺ رحمۃ للعالمین آخری نبی کی وحی کے ذریعہ رہنمائی ہوئی،پھر یہ سلسلہ قیامت تک کیلئے بند ہے۔ یہودو نصاریٰ اور مشرکینِ مکہ کا دعویٰ تھا کہ ابراہیمؑ کی ملت پر ہیں مگر وہ دینِ فطرت کی شکل بگاڑ چکے تھے۔جب تک وحی سے رہنمائی نہ ملتی تھی تو نبیﷺ پہلے مشرکینِ مکہ یا یہود ونصاریٰ کے مذہبی فتوؤں کو بعض معاملوں میں درست سمجھتے تھے۔سورۂ مجادلہ ، سورۂ احزاب اور دیگر قرآنی سورتوں اور احادیث صحیحہ میں اسکے بھرپور شواہد موجود ہیں۔دورِ جاہلیت میں معروف منکر اور منکر معروف بن چکا تھا۔رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک خاتون نے عرض کیا کہ میرے شوہر نے مجھ سے ظہار کیا ہے، بیوی کی پیٹھ کو ماں کی پیٹھ سے تشبیہ دینا ظہار کہلاتا تھا ، سخت ترین طلاق کی صورت یہی تھی۔نبیﷺ نے فرمایا کہ آپ حرام ہوچکی ہیں، اب کوئی راستہ نہیں رہا ہے، وہ بحث وتکرار، مجادلہ و جھگڑاکررہی تھی کہ میرے شوہر کی نیت نہیں تھی، میری زندگی اور میرے بچوں کی زندگی تباہ ہوجائے گی۔ اللہ نے وحی اتاری۔
قد سمع اللہ قول التی تجادلک فی زوجہا۔۔۔ بیشک اللہ نے بات سن لی اس عورت کی جو آپ سے جھگڑ رہی تھی اپنے شوہر کے معاملہ میں۔۔۔ ان کی مائیں نہیں مگر جنہوں نے ان کو جنا ہے۔۔۔ یہ (مذہبی فتویٰ) جھوٹ اور منکر ہے۔۔۔ سورۂ مجادلہ کی ان آیات سے علماء و مفتیان کو یہ سبق لینا چاہیے کہ معاشرہ میں اگر منکر معروف کی جگہ لے لے تو بڑے سے بڑا آدمی بھی مغالطہ کھا جاتا ہے،شیعہ مکتب کی رائے اپنے ائمہ اہلبیتؑ کے بارے میں مختلف ہے ، صحیح بخاری میں انکے ائمہ کا ذکر ’’علیہ السلام‘‘ کیساتھ کیا گیا ہے،احادیث میں اہلبیت کی خاص اہمیت بیان کی گئی ہے لیکن اہلبیتؑ زیادہ سے زیادہ ان کے عقیدے کے مطابق بھی نبیﷺ کے واحد جانشین بن سکتے ہیں، قرآن و سنت سے بڑا درجہ تو ان کا نہیں ہوسکتا ہے۔
اہل تشیع کے معروف عالم دین علامہ طالب جوہری سے میری ملاقات ہوئی تھی علامہ علی کرار نقوی بھی موجود تھے، میں نے کہا کہ نبیﷺ سے اختلاف جائز تھا؟ تو انہوں نے کہا کہ نہیں، سورۂ مجادلہ کا واقع بتانے پر قرآن منگوایا، دیکھنے پر کہا کہ ’’ یہ متشابہات میں سے ہے، محکمات یہ ہیں کہ نبیﷺ سے اختلاف جائز نہ تھا‘‘۔ رسول اللہ ﷺ کی سیرت اعلیٰ نمونہ تھا ، جس میں جبر نہ تھا، کوئی بھی اختلاف کا مجاز ہوتا تھا، بدر کے قیدیوں پر فدیہ اور حدیبیہ کے معاہدہ میں اختلاف کا اظہار ہوا تھا ، بدر کے قیدیوں پر نبیﷺ کی رائے کونامناسب اور حدیبیہ کے معاہدے میں نبیﷺ کی رائے کو فتح مبین قرار دیا گیا ہے۔سورۂ احزاب کی آیات پڑھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ معروف منکر اور منکر معروف بن چکا ہو،تواسوقت دین پر عمل کتنا مشکل ہے؟۔
سورۂ مجادلہ میں اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کے دور میں معروف مذہبی فتویٰ کو جھوٹ اور منکر قرار دیالیکن جب فضاؤں میں منکر معروف بن کر انسانی رگ وریشہ میں خون کی طرح دوڑ رہا ہو تو قبولِ حق سے آدمی مقدور بھر اعراض کرتا ہے۔ اسلئے اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا کمال ہے کہ نبیﷺ کی سیرت طیبہ کو اعلیٰ نمونہ بناکر پیش فرمایا۔ وحی نازل ہونے سے قبل آپﷺ کے سینہ مبارک کو چاک کرکے کوئی کالی چیز نکالی گئی ، وحی کی رہنمائی کسی اور کی نصیب میں نہ تھی۔اللہ کو معلوم تھا کہ دین قیامت تک چلے گا لیکن معروف کو منکر اور منکر کو معروف بنادیا جائیگا۔ اس وقت قرآن کے الفاظ اور نبیﷺ کی سیرت سے رہنمائی ہدایت کا اہم ترین ذریعہ بن جائیں گے۔اسلئے قرآن میں بار بار اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی اطاعت کا حکم ہے اور رسول ﷺکی اطاعت کو اللہ کی اطاعت قرار دیا گیا ۔علماء قرآن و سنت کو چھوڑ کر اجماع کا طبلہ بجارہے ہیں ۔
یا ایھا النبی اتق اللہ ۔۔۔ اے نبی! اللہ سے خوف کھا، اور کافروں و منافقوں کی اتباع نہ کر۔۔۔ اور اتباع کر جو تیرے رب نے تجھ پر نازل کیاہے اور اللہ پر توکل کر، اللہ کی وکالت کافی ہے، اللہ نے کسی آدمی کے سینہ میں دو(2)دل نہیں رکھے ہیں اور نہ تمہارے لئے مائیں بنایا ہے جن سے تم ظہار کرتے ہو،اور نہ تمہارے منہ بولے بیٹوں کو حقیقی بیٹے بنایا ہے ، یہ باتیں ہیں تمہارے منہ کی ‘‘۔آگے یہ بھی فرمایا کہ ’’ آپ لوگوں سے ڈرتے ہیں اللہ زیادہ حق دار ہے کہ اس سے ڈرو‘‘۔الاحزاب
مولوی بیچارا تو لوگوں سے نہیں اپنے سایہ سے بھی ڈرتا ہے، معاشرے میں اس رسم کو توڑنا اسکے بس کی بات نہیں جب منکر نے معروف کی جگہ لی ہو۔ قرآن کی یہ آیات عام لوگ پڑھ لیں اور پھر بند حجروں میں علماء ومفتیان کو ایک ایک کرکے ماحول فراہم کریں جس میں ان کیلئے حق پر چلنا مشکل نہ رہے۔سنی مکتب سے زیادہ شیعہ مکتب کے علماء ومفتیان کیلئے رسم کے خلاف حق کی راہ اپنانا مشکل ہے ، دیوبندی اور بریلوی کے مقابلہ میں اہلحدیث کیلئے رسم کے خلاف چلنا مشکل ہے اور دیوبندی کے مقابلہ میں بریلوی کیلئے رسم کے خلاف حق پر چلنا زیادہ مشکل ہے۔
بریلوی حضرت ابوبکرؓ ، دیوبندی حضرت عمرؓ ، اہلحدیث حضرت عثمانؓ، شیعہ حضرت علیؓ کے مزاج سے مناسبت رکھتے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے زندگی بھر نبی ﷺ کی اطاعت کی لیکن جب اپنے دور میں زکوٰۃ نہ دینے والوں کیخلاف قتال کا فیصلہ کیا تو کسی کی سنی اور نہ مانی۔ حضرت عمرؓ نے حدیث قرطاس میں نبیﷺ سے عرض کیا، ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے،حضرت عثمانؓ نے روایات کو ترجیح دی، حضرت علیؓ نے اپنی انفرادیت برقرار رکھی۔ دیوبندی مجبوراً اور بریلوی برضا مقلد حنفی ہیں۔ فاروق اعظمؓ، امام اعظمؒ اور دیوبندی اکابرؒ کی اپوزیشن بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔