پوسٹ تلاش کریں

زنا بالجبر (منکرات)

موت کا منظر کتاب میں ’’زنا بالجر کی سزا‘‘ کے عنوان سے وائل ابن حجرؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے خاتون نے شکایت کی تو نبیﷺ نے اس شخص کو سنگسار کا حکم دیا ۔ ابوداؤدکی اس روایت کی تائید انسانی فطرت اور قرآن کی آیت سے بھی ہوتی ہے۔ اللہ نے مسلم خواتین کو حکم دیا کہ گھروں سے نکلیں تو شریفانہ لباس پہن لیں تاکہ پہچانی جائیں اور کوئی اذیت نہ دے۔ یہ عناصر مدینہ میں نہیں رہیں گے مگر کم عرصہ ، پہلے بھی ایسے لوگ تھے جنکے بارے میں یہ سنت رہی ہے کہ اینما ثقفوا فقتلوا تقتیلا ’’جہاں بھی پائے گئے تو قتل کردئیے گئے‘‘۔ سینٹ میں امسال ان خواتین کی رپورٹ پیش کی گئی جن سے زبردستی زیادتی کی گئی 2936کیس تو صرف پنجاب کے تھے۔ سندھ وغیرہ کی تعداد انکے علاوہ ہے۔ بہت بڑی بات یہ ہے کہ میڈیا پر خبر نشر ہوئی کہ سندھ رینجرز کو ایک خاتون نے مدد کیلئے پکارا، جس کا تعلق خیبر پختونخواہ سے تھا۔ اس کو زبردستی اغوا کرکے بیچا جارہا تھا، جسکے پیچھے پورا گینگ تھا جن کا یہ دھندہ تھا۔ افسوس ہے کہ ایک دن سیاسی شخصیت میڈیا پر ببانگ دہل کہہ رہی تھی کہ فوجی عدالتوں میں صرف دہشتگردوں کیخلاف سماعت ہوئی ، اغواء وغیرہ کے چھوٹے معاملے فوجی عدالت کے حوالے نہیں کئے گئے، حالانکہ سب سے زیادہ سزا کے مستحق زبردستی سے عزتوں کے لٹیرے و اغواء کارہیں۔
کوئی غیرتمند انسان یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ اس کی ماں ، بیٹی، بیوی اور بہن پر کوئی جبری ہاتھ ڈالے، اس کی عزت کوتار تار کردے۔ ہمارے اصحابِ حل و عقد کو کیا ہوگیا کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کیساتھ زیادتیاں ہوتی ہیں اور ان پر کوئی کان نہیں دھرتا۔ سیاسی لیڈر حکومت کرنے کے بعد ایسے واقعات کو روکنے پر وجہ نہیں دیتے تب بھی کس منہ سے عوام سے ووٹ مانگنے جاتے ہیں؟، تحریکِ انصاف انقلاب کی بات کرتی ہے لیکن اسکے جلسے میں لڑکیوں کو بدقماش لڑکے بھمبھوڑ لیتے ہیں۔ خواتین صحافیوں کو بھی کنچے مارنے میں شرم محسوس نہیں کی جاتی۔ عمران خان کہہ دیتے کہ جنہیں ہیرو سمجھتا تھا وہ تو ہیرہ منڈی کی پیداوار نکلے جو اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں تو سخت پیغام جاتا۔ لوگوں کی غیرت جاگ جاتی۔ امریکہ میں بھی خواتین سے بیہودہ حرکت کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزا کا سامنا کرنا پڑتاہے۔
سب سے بڑی افسوسناک بات یہ ہے کہ سیاسی لوگ انسانی ضمیروں کو جگانے اور مذہبی طبقات عوام میں اسلامی روح پھونکنے میں ناکام ہیں۔ معاشرے میں جبری جنسی زیادتیوں کے خلاف کوئی بھی غم و غصہ کا اظہار نہیں کرتاہے لیکن کسی مذہبی اور سیاسی رہنما کے بارے میں سخت لہجہ استعمال ہوجائے تو ان کی ساری رگیں پھڑک اٹھتی ہیں، یہ رویہ ہم نے بدلنا ہوگا۔ رسولﷺ نے فتح مکہ کے وقت کسی کو لونڈی اور غلام نہیں بنایا۔ متعہ کی اجازت دی۔ ایک مذہبی انسان کی یہ سوچ کتنی گھناؤنی ہوگی کہ ابوسفیانؓ اور امیر معاویہؓ کی بیگمات کو لونڈی بنانا ٹھیک سمجھے اور ابوجہل وابولہب کی بیواؤں سے متعہ کی اجازت کو زنا قرار دیا جائے؟۔ ایک مولوی اور نبیﷺ کے اسلام میں فرق ہے۔ نبیﷺ نے آل فرعون کی طرح بنی اسرائیل کی خواتین کو لونڈی نہیں بناناتھا۔ قرآن میں لونڈی کی شادی کرانے کا حکم ہے۔ گورنر سندھ زبیر صاحب کی یہ بات غلط ہے کہ جنرل راحیل شریف ایک عام آدمی تھا ، نوازشریف کی وجہ سے کراچی میں امن قائم ہوا ہے۔ اگر پاک فوج کے ذمہ لگایا جائے تو پنجاب میں جبری جنسی تشدد کا خاتمہ ہوگا۔ سندھ رینجرز نے بس میں ایک عورت کی آواز پر مدد کی ، ایک گینگ خواتین کو پختونخواہ سے اغواء کرکے بیچتا تھا، جمہوری حکومت میں غیرت ہوتی تو خبر سے عوام کو آگاہ کیا جاتا۔ جب ن لیگ کے رہنماؤں نے الطاف حسین کیخلاف صرف زبان کھولی تھی تو ایم کیوایم والوں نے خاندان کی خواتین کو استعمال کرکے سعودیہ میں پناہ کا الزام لگایا گیا، اب مراد سعید پر ن لیگ کے رہنماؤں نے سنگین الزام لگاکر اپنا بھڑوا بچہ قرار دیا۔سلیم بخاری نے کہا تھا کہ پارلیمنٹ میں بھڑوے بیٹھے ہیں جس کی وسعت اللہ خان نے بھی خبرلی تھی۔

قصاص (منکرات)

اگر سوٹا لیکر کسی کوبال بچوں سمیت ایک مرتبہ گھر میں گھس کر پیٹ ڈالاجائے ، تو ان کو اندازہ لگ جائے کہ دہشتگردوں نے جنکے گھروں میں قتل وغارت کا بازار گرم کیا، اصل منکر وہی ہے، نماز نہ پڑھنا زنا، رشوت، قتل، شرک سے بڑا جرم نہیں۔وینا ملک، عامرخان اور دہشگردی کے ماحول کو سپورٹ کرنا غلط ہے۔ ہم پر آفت پڑی تو یقین ہوگیا کہ خلافت قائم ہوگی لیکن انکے ساتھ ایسا ہو تو شاید اسلام بھی چھوڑدیں۔یزید نے خود حسینؓ ، آپؓ کے کنبہ کے افراد اور ساتھیوں کو شہید نہ کیا، اس وقت گلوبٹ کا پولیس کی جھرمٹ میں گاڑیوں کے شیشے توڑنے کا منظر بھی نہیں دیکھا جاسکتا تھا۔ یزید ی لشکر کا سپاہ سالار حضرت حرؒ اپنے لشکر کو چھوڑ کر حضرت حسینؓ کیساتھ ملا تھا۔ اگر یزید ان کارندوں کو سزا دیتا تو تاریخ میں اتنی ملامت کا سامنا نہ کرنا پڑتا ، یزید سے فائدہ اٹھانے والے سیاسی رہنماؤں کا حال بھی موجودہ دور کے حکمران رہنماؤں سے مختلف نہیں تھا۔ حالانکہ یزید اور اسکے ساتھی قبروں میں بلبلا رہے ہونگے کہ کہاں ماڈل ٹاؤن لاہور کا میڈیا کے دور میں یہ واقعہ اور کہاں اس دور کے حالات؟۔ دہشت گرد مخالفین کو مارتے تھے تو پنجاب کے وزیراعلیٰ شہبازشریف کہا کرتے تھے کہ ’’پنجاب میں حملہ نہیں کرنا چاہیے ، ہم آپ کیساتھ ہیں‘‘۔ دہشت گردوں کے حامی مذہبی لبادے والی بدترین بیکار مخلوق ابھی ہے۔
فوجی عدالت کی اسلئے ضرورت پیش آئی کہ دہشتگرد کو عام عدالتوں سے سزا نہیں ملتی تھی۔ قرآن کا یہ قانون دنیا کے سامنے پیش کیا جائے تو پاکستان میں ان جرائم کی شرح بالکل زیرو ہوگی۔ اسلئے کہ قتل کے بدلے قتل کی سزا انصاف کا عین تقاضہ ہے۔ قتل کے بدلے میں پچیس سال قید کی سزا، ریاست، جیل، اس شخص، اسکے خاندان اور اسکے دشمنوں سے بھی زیادتی ہے۔ بعض قاتل خود کو قانون کے حوالہ کردیتے ہیں۔ لواحقین و مخالفین دونوں کیلئے اس کا خود کو قانون کے حوالہ کرنا اسلئے اذیت کا باعث بنتاہے کہ لوئر کورٹ، سیشن کورٹ، ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ تک دھکے کھانا ، بھاری بھرکم رقم خرچ کرنا اور پیشیوں پر رسک لینا ایک لامتناہی آزمائش ہے۔ طالبان بنانے میں پیپلزپارٹی رہنما فرحت اللہ بابر کے بھائی نصیر اللہ بابر کے کردار کا سب کو پتہ ہے۔ طالبان پاکستان بھی پرویز مشرف نے عالمی قوتوں سے مل کر بنانے کا انکشاف کیا ۔ اگر طالبان اسلام کی سمجھ رکھتے اور اسلامی قوانین کو نافذ کردیتے تو پاکستان نہیں دنیا میں ان کا خیر مقدم کیا جاتا۔ طالبان نے اسلام کے نفاذ میں کوئی کردار ادا نہیں کیا اور پختون روایات کو بھی تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی دہشتگردوں اور امریکہ کو سپورٹ کرنے کے معاملے پر پھر لڑ رہے ہیں۔ اگر فوجی عدالت کے ذریعے دہشتگردی کا خاتمہ نہیں کیا جاتا تو یورپ کے دباؤ میں سزائے موت کا قانون بھی ختم ہوتا اور بڑے دہشتگردوں سے ڈیل کرتے یا سکیورٹی کا خرچہ کرکے خود کو بچانے کی کوشش کرتے اور عوام کو دہشتگردوں کے رحم وکرم پر چھوڑدیا جاتا۔
مشکوٰۃ شریف میں ایک خاتون کا دونوں ہاتھوں اور پیروں سے ناچنے کا ذکرہے ، اکابر صحابہؓ نے بھی مظاہرہ دیکھا ، رسول اللہﷺ بھی دیکھنے کھڑے ہوگئے۔ طرزِنبوت کی خلافت میں جبر کا ماحول نہیں ہوگا۔ کوئی انسان بھی اپنی بیوی سے زیادہ کسی بات پر غیرت نہیں کھا سکتا مگر اسلام نے 14 سو سال پہلے یہ قانون نازل کیا کہ قابلِ اعتراض حالت میں دیکھ کر قتل نہیں کرسکتے۔ لعان کی آیات میں میاں بیوی کا ایکدوسرے کا جھوٹا کہنے کے کلمات کا طریقہ ہے۔ حضرت عویمرعجلانیؓ نے بیوی کیخلاف گواہی دی اور بیوی نے اپنے خاندان کی ناک بچانے کیلئے اسکو جھٹلایا۔ اسلام کسی کی غیرت کو بھی خراب نہیں کرتا، جو قتل کرے تو اسکو بدلے میں قتل سے بھی نہیں کترانا چاہیے۔ غیرت کے نام پر کسی کو قتل کرکے اپنی زندگی کی بھیک مانگنے سے بڑی بے غیرتی کوئی نہیں ۔ اللہ نے فرمایا کہ قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے۔ کسی کو ناک کاٹنے پر ناک کاٹنے کی سزا دی جائے تو زندگی بھر نشے میں بھی اس ماحول کا کوئی فرد یہ جرم نہیں کرسکے گا۔ انصاف کیلئے بے چینی ختم ہو تو دہشتگردی ختم ہوجائیگی۔

حج (معروفات)

حج و عمرہ دلچسپ موضوع ہے کہ خلفاء راشدینؓ کے اختلاف کی ہماری کتابوں میں وضاحت ہے۔ مشرکین مکہ دورِ جاہلیت میں سمجھتے تھے کہ حج کے زمانہ میں عمرہ کرنا جائز نہیں ، رسول اللہ ﷺ نے ایک حج کیا جس میں عمرہ کا احرام بھی ساتھ باندھ لیا۔ حضرت عمرؓ نے سمجھا کہ لوگ اس کو سنت سمجھ کر افضل کا یقین رکھتے ہیں۔ چنانچہ پابندی لگائی کہ حج کیساتھ عمرے کا احرام نہ باندھا جائے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ نماز کی سنتوں کے بعد اندرون سندھ، بلوچستان، پختونخواہ ، افغانستان اور دیگر علاقوں میں بعض دیوبندی اجتماعی دعا مباح سمجھ کر کرتے اور بعض بدعت سمجھ کر مخالفت کرتے ۔ کانیگرم جنوبی کانیگرم کے علماء نے نمازکی سنتوں کے بعد دعا نہ کرنے پر ایک پنج پیری عالم دین پر قادیانیت کے فتوے تک لگادئیے ۔ رسول اللہﷺ سے ایک وفد ملنے آیا،بڑی مونچھ اور داڑھی مونڈھ کر خوفناک چہرے والوں سے نبیﷺ نے پوچھا کہ تم نے چہروں کو کیوں مسخ کیاہے ؟، تو وہ کہنے لگے کہ ہمارے دین کا یہ حکم ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’ہمارے دین نے ہمیں مونچھ کم رکھنے اور داڑھی بڑھانے کا حکم دیا ‘‘۔ حدیث کا مطلب ان کو غلط طرزِ عمل سے آگاہ کرنا تھا۔ حضرت عمرؓ اس کو اچھی طرح سمجھتے تھے اسلئے اپنی بڑی مونچھ کو دین کے خلاف نہ سمجھا ۔ عربی مقولہ ہے الناس علی دین ملوکہم عوام الناس اپنے حکمرانوں کا طرزِ عمل اپناتے ہیں۔ حضرت عمرؓ کی وجہ سے بعد میں آنے والے مسلمان حکمرانوں ، سرداروں اور علماء کرام کے ہاں بڑی مونچھ کی روایت پڑگئی تھی، ٹیپو سلطانؒ ، سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ ، علامہ اقبال وغیرہ کی تصایر عام ہیں۔ اگر حضرت علیؓ کی مستحکم حکومت قائم ہوتی تو پھر بہت پہلے سے سر منڈھانے کی روایت مسلمان حکمران ، علماء اور عوام الناس میں پڑ جاتی۔ اسلئے کہ حضرت علیؓ کے متعلق ہے کہ داڑھی چھوٹی اور سر کو مونڈھواتے تھے۔ بہر حال حج وعمرہ ایک ساتھ کے حوالہ سے حنفی مسلک کا جمہور سے اختلاف تھا۔ بخاری میں حضرت عثمانؓ کا روکنے اور حضرت علیؓ کا اعلانیہ مخالفت کا واقعہ ہے۔
حضرت عمرؓ کا ذہن تقلیدی نہیں اجتہادی تھا، اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انکے کردار کو قرآن وسنت کیخلاف انحراف اور سازش قرار دیا جائے۔ امام ابوحنیفہؒ کا ذہن بھی اجتہادی تھا اسلئے وہ حضرت عمرؓ کی تقلید پر زور دینے کے بجائے جس راہ کو حق اور ٹھیک سمجھتے تھے اسی کو اختیار کرلیتے ۔ جب حنفی مکتب کی طرف سے ایک ساتھ حج و عمرہ کا احرام باندھنے کیلئے دلائل دئیے جاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ کیخلاف شیعہ اور حنفیوں میں کوئی فرق نہیں ۔ حضرت ابن عمرؓ سے کہا گیا کہ تمہارے والدؓ ایک ساتھ حج و عمرہ کا احرام باندھنے کے مخالف تھے تو کہنے لگے کہ اپنے باپ کو نبیﷺ کی جگہ رسول تو نہیں مانتا۔ حضرت ابن عباسؓ نے کہا تھا کہ مجھے ڈر ہے کہ تم پر پتھر نہ برس جائیں کہ میں کہتا ہوں کہ اللہ کے رسولﷺ نے یہ کیا اور تم حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کا حوالہ دیتے ہو۔ صحیح مسلم میں حضرت عمران بن حصینؓ کے حوالہ سے تقیہ اختیار کرنے کا ذکر ہے اسلئے کہ وہ اس مؤقف پر ڈٹے تھے کہ حج و عمرہ کا احرام ایک ساتھ سنت اور اللہ کی طرف سے نازل کردہ حکم ہے۔ بنی امیہ کے حکمران ضحاک نے ایک ساتھ حج وعمرے کو زبردست جہالت قرار دیا تو حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے سمجھایا کہ ہم نے نبیﷺ کیساتھ ایک ساتھ حج و عمرے کا احرام باندھا ۔ حج و عمرہ پر اختلاف کی شدت خلوص کا مظہر تھامگریہ اسلام کو اجنبیت کی طرف دھکیلنے کی شروعات تھیں، خواتین کو مساجد سے روکنااس سے زیادہ بڑا قدم تھا ۔حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ ’’ نبیﷺ موجودہوتے تو خواتین کو مساجد سے منع فرمادیتے‘‘۔ حضرت عائشہؓ نے خلافت کیخلاف جہادی لشکر کی قیادت کی۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’خبردار! میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایکدوسرے کی گردنیں مارنے لگو‘‘۔پھر گردنیں مارنے تک نوبت پہنچی لیکن ایکدوسرے پر کفر کے فتوے نہیں لگائے۔ امام حسنؓ نے صلح میں کردار ادا کیا۔ ریاست کیخلاف ہتھیار اٹھانے اور خواتین کی جماعتوں کونکالنے سے زیادہ آسان سنت کے مطابق ماحول بناناہے جہاں خواتین وحضرات مکہ کی طرح اجتماعی نماز کا اہتمام کرکے مساجدکو آباد کریں ۔ٹی وی کی رونقیں اور شخصیات کا پروٹوکول مساجد کو آباد نہیں کرسکتی ہیں۔ گھر، محلہ اور مسجد سے سنت کے ماحول کاآغاز ہوگا تو معروف کا درست تصوربھی اجاگر ہوگا۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ’’ قریش کی خواتین کو دنیا کی خواتین پر اسلئے فضلیت حاصل ہے کہ وہ اونٹ پربھی سواری کرلیتی ہیں‘‘۔ اونٹ کی سواری سے زیادہ ڈرائیونگ ہے، گاڑی چلاناعورت کیلئے شریعت کے منافی نہیں لیکن سعودیہ میں یہ پابندی لگائی گئی۔ جب خواتین پر مساجد میں پابندی لگ گئی تو بہت سی خرابیاں پیدا ہوئی ہیں، آج پھر سنت کی طرف آنا پڑے گا۔

روزہ (معروفات)

کانیگرم جنوبی وزیرستان میں ایک نقارہ بجاکر اعلان کیا گیا کہ ’’ جس نے بھی روزہ نہ رکھا تو 500روپے جرمانہ ہوگا۔ کچھ جوانوں نے اسکی کھلے عام خلاف ورزی کی ، وہاں مغرب کے بعد گپ شپ کیلئے دعوت ہوتی تھی، روزے کیخلاف پابندی توڑنے کیلئے دن کی دعوت کا اہتمام ہوا۔ عوام میں انکو اسلام کادشمن تصور کیا جانے لگا، انکے بڑوں نے جرمانہ بھی ادا کیا اور اس اقدام کی وجہ سے شرمسار بھی ہوئے ، ان کو ڈانٹ ڈپٹ کر فرض بھی ادا کیا ہوگا۔ ان افراد میں اکثر یا سب شاید زندہ ہوں۔ ان لوگوں نے اپنے طور پر جو کیاسمجھ کر کیا؟، ہمارا انتہائی شریف پڑوسی تاج خان بھی ان میں شامل تھا، اس سے پوچھا کہ ’’ اس اقدام کی کیوں ضرورت پیش آئی؟‘‘۔ کیونکہ اس سے غلط حرکت متوقع نہیں ہوسکتی تھی تو اس نے کہا کہ ’’ میرا روزہ تھا، ہم نے یہ احتجاج اسلئے نوٹ کروایا تھا کہ روزے میں زبردستی اور جرمانے کا تصورغلط ہے‘‘۔ ایک مرتبہ شکار پور سندھ میں رمضان کا مہینہ گزارا، وہاں عوام کو کھلے عام دن دیہاڑے کھاتے پیتے دیکھ کر سمجھا کہ کھلے عام کھانے پینے والے ہندو ہیں پھر ایک مرتبہ گھر والی کے ایک رشتہ دار کو گلی میں سگریٹ پیتے دیکھا تو سمجھ گیا کہ دوسرے بھی مسلمان ہونگے۔ گرمی میں سفر کے دوران بھی مجھے روزہ رکھنے میں مشکل نہیں ہوتی تھی مگر جب دیکھا کہ مذہبی لوگ روزہ نہ رکھنے میں شرم کرتے ہیں توان کی جھجک دور کرنے کیلئے دورانِ سفر روزہ کھولنا شروع کیا۔ بنوں میں مسافروں کی بھی روزہ نہ رکھنے پر پٹائی لگ جاتی تھی۔ بہت ضروری ہے کہ اسلام میں غلو سے پرہیز کریں۔
علامہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ ’’ فطرت کے مقاصد کی کرتاہے نگہبانی یا بندۂ صحرائی یا مرد کوہستانی‘‘۔ کانیگرم جنوبی وزیرستان کے جن لوگوں نے روزے پر جرمانے کیخلاف اپنا احتجاج نوٹ کروایا تھا انکا احتجاج اصحابِ کہف کے جوانوں کی طرح تاریخ میں رقم کرنے کے قابل ہے۔ نماز، زکوٰۃ ، روزہ اور حج میں زبردستی کے تصور نے اسلام کے معروف احکام کا چہرہ مسخ کیا۔ علامہ اقبالؒ نے جو تصورات پیش کئے، ان پر اسلامی جمہوری اتحاد کی سازش میں پیسے کھانے والے حکمران کہاں عمل کرسکتے ہیں؟۔ علامہ اقبالؒ نے فرمایا کہ: ’’ایراں ہو عالم مشرق کا جنیوا شاید کرۂ ارض کی تقدید بدل جائے ‘‘۔ نوازشریف سعودیہ سے اپنے احسانات کا بدلہ چکانے کیلئے بھی کوئی قدم نہیں اٹھاسکتا۔ ڈرپوک کتا بھونکے اور دور سے پاؤں پٹخے جائیں تو بھاگ جاتاہے۔ ہمارا حکمران طبقہ دنیا کے خوف سے پہلے تو بھونکتا نہیں اور بھونکے تو دور سے پیر پٹخنے کی آواز سن کر بھاگتاہے۔ جب امریکہ ہماری پشت پناہی کرتاہے تو پھر اسلام کیلئے ریاست، قوم، وطن اور عزت وناموس تک سب کچھ قربان کردیتے ہیں لیکن جب امریکہ راضی نہ ہو تو بھونکنے کی ہمت نہیں کرتے اور دُم ہلانے کو ہی ترجیح دیتے ہیں اور کہیں آواز کی نوبت بھی آجائے تو مؤقف بدلنے میں دیر نہیں لگاتے ۔یہودونصاریٰ ، امریکہ اوراسرائیل سے زیادہ اپنے بنائے ہوئے پھندوں سے نکلنا ہمارے لئے بہت ضروری ہے۔بقول علامہ اقبال ’’سب اپنے بنائے ہوئے زنداں میں ہیں محبوس‘‘۔ فرقہ واریت کا ناسورہمیں صرف باتوں سے ختم نہیں کرنا ہوگا بلکہ قرآن وسنت اور فطرت و عقل کے مطابق لوگوں کو گمراہی سے نکالنا ہوگا۔ میرا تعلق کانیگرم جنوبی وزیرستان سے ہے جہاں کوئی نیا فرقہ نہیں۔ اکبربادشاہ کے دور میں ہندوستان میں مجدد الف ثانیؒ نے درباری کا کردار ادا نہیں کیا ، ہمارے کانیگرم کے پیرروشان بایزید انصاریؒ نے اکبر کیخلاف عملی جہاد کیا ،بادشاہوں کے خلاف لڑنے والی شخصیات کومتنازع بنانے میں درباریوں کا اہم کردار ہوتاہے۔ میرا کسی نئے فرقہ سے تعلق نہیں ، البتہ علماء دیوبندکے مدارس میں فقہ حنفی کی تعلیم حاصل کی ۔ بقولِ اقبال ’’ جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے جنگیزی‘‘ ۔ دین میں سیاست نہ ہو تو وہ اسلام نہیں بدھ مت، ہندومت اور عیسائیت ہے مگراسلام نہیں ۔ اسلام میں سیاست نہ ہوتی تو مکہ سے مدینہ ہجرت کا حکم نہ ملتا ۔ خلفاء راشدینؓ کی سیاست قرآن وسنت کا بنیادی ڈھانچہ تھا، اسلئے ان کی اتباع کا حکم ہے۔

زکوٰۃ (معروفات)

سورۂ توبہ میں ان مشرکوں سے برأت کا اعلان ہے جن سے مسلمانوں نے عہدوپیمان کیا کہ وہ اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے اور اللہ نے کافروں کو ذلت سے دوچار کرناہے۔ حج اکبر کے دن لوگوں میں اعلان کرنا ہے کہ اللہ مشرکوں سے بری ہے اور اسکے رسول(ﷺ) بھی بری ہیں۔ اگر تم توبہ کروتوتمہارے لئے بہتر ہے اور اگر تم پھر گئے، تو اللہ کو عاجز نہیں بناسکتے، کافروں کو بشارت دو درد ناک عذاب کی۔ مگر وہ مستثنیٰ ہیں جنہوں نے معاہدوں کی کچھ خلاف ورزی نہ کی اور نہ تمہارے خلاف کسی کی مدد کی۔ تو ان کی مدت تک ان سے عہدو پیمان کو پورا کرو، اللہ پسند کرتاہے پرہیز گاروں کو۔ جب حرمت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں سے لڑو،جہاں ان کو پاؤاور ان کو پکڑو اور ان کو محصور کردو، اور ان کیلئے ہرگھات پر بیٹھوپھر اگر وہ توبہ کریں اور نماز پڑھیں اور زکوٰۃ دیں تو ان کا راستہ چھوڑدو، اللہ غفور رحیم ہے اور اگر کوئی مشرکین میں سے پناہ مانگے تو اس کو پناہ دو،یہاں تک کہ اللہ کے کلام کو سن لے۔ پھر اس کو وہاں پہنچادو جہاں اس کو تحفظ حاصل ہو۔ یہ اسلئے کہ یہ وہ قوم ہے جو سمجھ نہیں رکھتے۔ مشرکوں سے اللہ اور اسکے رسول کا کیا عہد ہوسکتاہے؟۔ مگر جن لوگوں نے معاہدہ کیا مسجد حرام کے پاس اور پھر جب تک وہ قائم رہیں تو تم بھی قائم رہو۔ بیشک اللہ پرہیزگاروں کو پسند کرتاہے۔ (سورۂ توبہ)۔
قرآن سے صاف ظاہر ہے کہ آیات میں ان مشرکین کا ذکر ہے جنہوں نے حجاز مقدس میں معاہدے کئے اور توڑے، جہاں حرمت کے چار ماہ میں جنگی بندی ہوتی تھی، جو معاہدے کے پابند رہے اور کسی دشمن کو مدد فراہم نہیں کی ان سے معاہدے پورے مدت تک قائم رکھنے کی تاکید ہے اور جنہوں نے معاہدے توڑے ان کیلئے بھی حرمت کے مہینوں کو برقرار رکھا گیا۔ پھر اللہ نے فرمایا ہے کہ فقتلوھم حیث وجدتموھم ’’ان سے لڑو، جہاں ان کو پاؤ‘‘۔ دہشت گردوں نے آیت کا یہی جملہ دیکھ کر اللہ کا حکم سمجھا کہ مشرک جہاں ملے قتل کرو۔ حالانکہ اس سے لڑنا مراد ہے، قتل کرنا نہیں۔ اگلا جملہ واضح ہے کہ واخذوھم ’’ اور ان کو پکڑو، ان کا محاصرہ کرو اور ہر گھات پر ان کیلئے بیٹھو‘‘۔ دشمن کو قتل کرنے سے زیادہ مشکل پکڑ لینا ہے۔ اللہ کرے کہ مسلمان بلندی پر پہنچ جائیں، کشمیر کو اقوام متحدہ کے بغیر بھی آزاد کرسکیں اور ہندوستان کی چھ لاکھ فوج پکڑ کر لائیں تاکہ بنگلہ دیش کا بدلہ اُتاردیں۔ البتہ ان آیات سے ہندو اور دیگر مشرکین عیسائی وغیرہ مراد نہیں ۔ یہود گستاخ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں گستاخی کرتے تھے اور عیسائی تثلیث کا مشرکانہ اعتقاد رکھتے تھے تب بھی اللہ نے ان کی خواتین سے شادی کی اجازت دی ،بیویاں بناکر قتل کرنا مقصد تو نہ تھا۔ بریلوی دیوبندی حنفی ہیں لیکن ایکدوسرے سے اتنا بغض رکھتے ہیں جتنا اسلام نے یہودو نصاریٰ سے بھی بغض رکھنے کی تعلیم نہیں دی۔ صحابہؓ نے یہودونصاریٰ کی خواتین سے شادیاں کیں لیکن متعصب علماء ومفتیان مسلمان فرقوں میں بھی نفرت پھیلانے کے مرتکب ہیں۔حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے خلوص میں شک نہ تھا مگر آپؓ نے یہودونصاریٰ کو مشرکین قرار دیکر ان کی خواتین سے شادی کی اجازت منسوخ قرار دی۔ علم وفہم کو عام کرنا ہوگا۔
فرمایا: ’’اگر کوئی مشرک پناہ لے تو اس کو پناہ دو، یہاں تک کہ اللہ کی آیات سن لے اور پھر جہاں اس کو امن ہو وہاں تک پہنچادو‘‘۔ ہندو سپاہی آیا تو پاکستان نے واپس کیا،حالانکہ کوئی صلح حدیبیہ کا معاہدہ نہ تھا مگرہم نے دشمن کیساتھ وہ سلوک روا رکھا جس پر دنیا کا کوئی ملک عمل نہیں کرتا ، بھارت نے اس پر تشدد بھی کیا ہوگا مگراس اقدام سے ان عناصر کی حوصلہ شکنی ہوگی جو اخلاقی معیار و قانون کی پاسداری نہ کریں۔مفتی محمد شفیعؒ اور علامہ غلام رسول سعیدیؒ کی تفاسیر میں حنفی مسلک کے نقطۂ نگاہ سے اختلاف ہے۔ مفتی شفیعؒ کا معارف القرآن دہشت گردوں کی ذہن سازی کا انتہائی غلط ذریعہ ہے۔ طالبان ، علماء ومفتیان نے میری کتاب ’’جوہری دھماکہ‘‘ کے بعدجس طرح تصویر کے مسئلہ پر مفتی محمد شفیع ؒ کا مؤقف مسترد کیا ، تشدد کے حوالہ سے بھی میرا مؤقف انشاء اللہ اپنائینگے۔

نماز (معروفات)

پنج وقتہ نماز کیلئے وضو و حالت جنابت سے غسل کا عمل صفائی ستھرائی کے علاوہ سفر حضر، گرمی سردی ہرموسم اور عمر کے ہر دور میں حضرات و خواتین کو بہار کی طرح تروتازہ رکھتا ہے۔ اللہ نے فرمایا ’’بلاشبہ نماز بے حیائی اور منکرات سے روکتی ہے‘‘۔ مدینہ و مکہ میں چودہ سوسال پہلے خواتین و حضرات ، لڑکے لڑکیوں اور بچے بچیوں کا مسجد میں اجتماع منکرات سے بچنے کا ذریعہ تھا، آج خانہ کعبہ میں یہ منظر ملتا ہے مگر مسلمان تصور نہیں کرسکتا کہ ایک محلہ کی مسجد میں بھی عوام بیت اللہ کی طرح اکھٹے نماز پڑھیں۔ طرزِ نبوت کی خلافت ہو،خواتین کو حقوق ملیں تو مساجد بھر جائیں گی۔ خواتین اسلام سے محبت ،کرداراور عبادت میں مردوں سے کم نہیں ۔مارکیٹوں، مزاروں، تعلیمی اداروں اور سفر وحضر کے معمولات کی طرح مساجد میں مخلوط نظام عبادت کا تصور اُجاگر ہوگا۔ نیک گھرانے روزِروشن کی طرح نمایاں اور سب پر اثر انداز ہونگے۔دہشت گردی، چوری، ڈکیتی ،بے حیائی اور منکرات کا جڑ سے خاتمہ ہو گا۔ خواتین کی وجہ سے گھر کے مرد حضرات باجماعت نماز کی پابندی کرینگے۔ تشددکا خاتمہ اوراخلاقی معیار بہت بلند ہوجائیگا۔ محلہ میں گھر کی طرح نظام ہوگا،اڑوس پڑوس کا حق اُجاگر ہوگا،مساجدکی حفاظت کیلئے پولیس کی ضرورت ہوگی، نہ ریاست پر اضافی خرچے کا بوجھ ، ایکدوسرے کے غمی خوشی میں شریک ہونگے۔
کالج یونیورسٹی سے حج وعمرہ تک جو مسلمان اکھٹے مگر مساجد میں اجتماعی نمازنہیں جوتقویٰ اور فحاشی ومنکرات کے خاتمے کا ذریعہ تھا۔ پنجاب میں حجاب پر طالبات کیلئے اضافی نمبروں کی تجویز آئی تھی ۔ مساجد 1400سال پہلے جاہلانہ ماحول کو بدلنے کا منبع رہیں، آج بھی بن سکتی ہیں۔ خانہ کعبہ میں کوئی خواتین اور بچیوں کو اجتماعی عمل طواف اور نماز باجماعت سے نہیں روکتا، وہاں مذہب نہیں بلکہ ماحول بدلتاہے، پوری دنیا کا ماحول کو بدلنا ہوگا۔خانہ کعبہ میں ایک نماز کا ثواب لاکھ کے برابر ہے اور مسجد نبوی ﷺ اور بیت المقدس میں50ہزار کے برابرہے، مسجدوں کا رخ کرینگے تو یہ اللہ کے حکم پر عمل ہوگا کہ وارکعوا مع الراکعین ’’رکوع کرنے والوں کیساتھ رکوع کرو‘‘۔ نبی کریمﷺ نے حکم دیا کہ کوئی بیوی کو مسجد میں آنے سے نہ روکے ۔ ایک صحابیؓ نے اپنی بیگم کو روکا تو انکے والد نے زندگی بھر ان سے بات نہ کی کہ نبیﷺ کا حکم نہیں مانا ۔ یہ سنت ترک ہوئی تو ایسے شر کا دور آیا کہ عشرہ مبشرہؓ کے صحابہؓ نے بھی ایکدوسرے کو قتل کیا۔ عبداللہ بن زبیرؓ کے وقت میں کعبہ کا مطاف منجنیق کے ذریعے پتھر سے بھر دیا گیا۔ لوگوں پر مساجد میں ایسی خوف کی کیفیت طاری ہوئی کہ جہری نمازوں میں بسم اللہ پڑھنا مسجد کے ائمہ کیلئے مشکل ہوگیا۔ حضرت امام شافعیؒ پڑھنا لازم قرار دیتے تھے’’ تو ان کا منہ کالا کرکے گدھے پر گھمایا گیا کہ تم رافضی ہو‘‘۔آج مساجد کے ائمہ کی اکثریت بعض طبقوں کے ہاتھوں میں یرغمال ہیں، حق بات سمجھ کر بھی حق کا ساتھ نہیں دے سکتے ۔جس دن محلے کے لوگوں نے مل جل نماز پڑھنی شروع کی اور اس میں خانہ کعبہ کی طرح ماحول بنالیا تو پھر مخصوص مذہبی لبادے اور طبقے اپنی اجارہ داری مسجد اور امام پر مسلط نہ کرسکیں گے۔فرقہ واریت ختم ہوجائیگی۔ نبیﷺ نے فرمایا: ’’کہ لوگوں پرایک زمانہ آئیگاکہ اسلام کا کچھ باقی نہ رہیگا مگر اسکا نام ، قرآن میں سے کچھ باقی نہ رہیگا مگر اسکے الفاظ، مساجد لوگوں سے بھری ہونگی مگر ہدایت سے خالی اور انکے علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہونگے، ان سے فتنہ نکلے گا اور انہی میں لوٹے گا۔ (عضر حاضر)۔نبیﷺ نے ازواج مطہراتؓ سے فرمایا کہ’’ میرے بعد حج نہیں کرنا‘‘۔ حضرت عائشہؓ حج کیلئے گئیں اورپھرجنگوں کی قیادت کی۔ نبیﷺ نے اسی تناظر میں فرمایا کہ ’’وہ قوم فلاح نہیں پاسکتی ، جس کی قیادت عورت کررہی ہو‘‘۔ (بخاری) حضرت عائشہؓ نے لبیدؓ کا شعر پڑھ کر فرمایاکہ وہ زمانے کی شکایت کررہا تھا اگر ہمارا زمانہ دیکھ لیتا تو کیا کہتا۔۔۔۔ (عصر حاضر)۔ سیاسی اور تبلیغی سرگرمیوں کی وجہ سے معاشرے میں گروہی تقسیم کا نقشہ طرزِ نبوت کی خلافت سے بالکل یکسر بدل جائیگا۔ مساجد ہدایت سے خالی نہیں بلکہ رشدوہداہت کا محور ومرکز بن جائیں گی۔

ہم اُمت بچانے نکلے ہیں، آؤ ہمارے ساتھ چلو…

 

ummat-bukhari-muslim-quran-kitab-ul-fitan-syed-atiq-ur-rehman-gailani(2)

ہم ملت بچانے نکلے ہیں آؤ ہمارے ساتھ چلو، ہم فطرت بچانے نکلے ہیں آؤ…ساتھ چلوہم عزت بچانے …ہم قسمت … نکلے..
ہم حجت بچانے…آؤ..ساتھ چلو…ہم شریعت… ہم خدمت… ہم قدرت…ہم ندرت… ہم عدت…ہم رجعت …آؤ ہمارے….

یہ کون آیا جو ہم پر حجت تمام کرتاہے
سرِبازار حلالے کی عزت نیلام کرتاہے

فقیہ شہر کا فتویٰ ہے اس کی بات نہ سنو!
یہ شخص شعور کی دولت کو عام کرتاہے

فقہیانِ حرم نے بہت پامال کی حرمتیں
یہ عزتوں کو بچاکر ذلت بدنام کرتا ہے

قال رسول اللہ ﷺ: اذا حضر الغریبَ فالتفتُ عن یمینہٖ و عن شمالہٖ فلم یرالا غریباً فتنفس کتٰب اللہ لہ بکل نفس تنفس الفی الف حسنۃ و خط عنہ الفی الف السیءۃ فاذا مات مات شہیداً(الفتن: نعیم بن حماد)
waqar-atiq-gailani2
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب اجنبی کو میرے پاس حاضر کیا گیا تو میں نے اس کی طرف دائیں جانب سے التفات کیا اور بائیں جانب سے التفات کیا ، وہ نظر نہیں آتا تھا مگر اجنبی، پس اللہ کی کتاب پوری عظمت کیساتھ اسکے سامنے روشن ہوگئی ، اس کو ہزارہا ہزار نیکیاں ملیں اور ہزار ہا ہزار گناہیں اسکی معاف کی گئیں۔ پس جب وہ فوت ہوا تو شہادت (گواہی) کی منزل پاکر فوت ہوا۔
یہ حدیث امام بخاری کے استاذ نعیم بن حماد ؒ نے اپنی کتاب الفتن میں نمبر 2002 درج کی ہے، یہ اجنبی کا تعارف بتایا گیاہے

قرآنی آیات کی روح کو سمجھنے کیلئے پرویز کی غلط فکر تھی: عتیق گیلانی کی ایک تحریر

اقراء باسم ربک الذی خلق، خلق الانسان من علق، اقراء و ربک الاکرم الذی:پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا، انسان کو علق سے پید اکیا، پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے عزت بخشی قلم سے سکھاکر‘‘۔لقنا الانسان من نطفۃ امشاج’’ہم نے انسان کو مشترکہ(والدین) نطفہ سے پیدا کیا‘‘۔ ونفس ما سواہا، فالھمہا فجروھا و تقوٰھا ’’ اور جان کی قسم اور جو اسکو ٹھیک کیا پھر اسمیں اسکی بدونیک خواہشات ڈالیں‘‘۔ نیک وبدخواہش بھی علق ہے کہ حلال وحرام بچے اسی کا نتیجہ ہیں۔ فرمایاقد افلح من زکٰھاوقدخاب من دسٰھا:بیشک فلاح پائی جس نے اسے پاک کیا، نامراد ہوا جس نے اسے خاکسترکیا۔تزکیہ وطہارت اور اسکے برعکس فجور کے ذریعے گند نفسانی اعمال کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
قتل الانسان مااکفرہ من ای شئی خلقہ من نطفۃ ’’ مارا جائے انسان کیوں کر ناشکری کرتاہے،کس چیز سے پیدا کیا ؟، نطفہ سے!‘‘۔ خلق من ماء دافق یخرج من بین الصلب والترائب ’’ پیدا کیا گیاکودتے پانی سے جو پیٹھ اور سینے کے بیچ سے نکلتاہے‘‘۔ علق کے معنی ’’لٹکاہوا‘‘ ۔ تخلیق کاہرہر مرحلہ علق ہے۔ ڈاکٹر حمیداللہؒ نے لکھا کہ ’’جرمن ڈاکٹر نے جدید تحقیق کی کہ باپ کا سپرم ماں کی بچہ دانی سے لٹک جاتا ہے۔قرآن نے 14سو سال پہلے علق قرار دیا اور وہ اس بات پر مسلمان ہوگیا‘‘ جونک اور ہرمعلق چیز کو علق کہتے ہیں۔ مرداور عورت کی بیماری سے تخلیق کا مادہ بہتاہے۔ حمل گرتا ہے۔ جہالت یا اعلیٰ تمدن میں انسان کو اپنی اوقات یاد دلانے کی بات ہو تو یہ موٹی بات سمجھنا آسان ہے کہ انسان کو علق کی پیداوار کیوں کہا؟۔ عضوء تناسل بھی علق ہے۔دیہاتی روایات میں کھلے ڈھلے الفاظ کا بے دریغ استعمال ہوتاہے ،قرآن نے تہذیب وعلم کو بھی پیشِ نظر رکھا ہے۔ ابولہب وابوجہل کو قرآن کی بات سمجھ میں آئی کہ کھلے مہذب الفاظ میں قرآن نے انسان کو سمجھایاہے ۔ تکبر نے ابلیس کو عزازیل سے گرا کر شیطان بنا دیا۔قلم کے ذریعے عزت دینے کیساتھ ساتھ انسان کواپنی پیدائش کی اوقات بھی یاد دلائی گئی ہے ۔
جرمنی میں قادیانی ٹیکسی ڈرائیور سوال جواب پر ہمیں اپنے مرکز لے گیا، فرینکفرٹ میں مبلغ سے جواب نہ بنا تو کالون کے مبلغ کا پتہ بتادیا۔ مذہب کی شکل میں دھندہ ہے، مولوی تو ہر جگہ اللہ معاف کرے اب ملازم بن کر رہ گیاہے الاماشاء اللہ۔ میں نے قادیانی مبلغ سے کہا کہ ’’ مرزاغلام احمد قادیانی نے لکھا: میں مریم تھی، اللہ نے مجھ سے مباشرت کی تو خود سے پیداہوکر عیسیٰ بن گیا۔کیا مرزاکایہ مشاہدہ جرمنی میں لکھ کر سائن بورڈ لگالوگے؟۔ جس پر مبلغ نے کہا کہ ’’قرآن میں نطفہ کی پیدا وارکہاگیا تو کیا ہم اس کا بورڈ لگاسکتے ہیں؟‘‘ ۔ میں نے کہاکہ بالکل بہت شوق سے لگائیں۔ سب ہی کو اعتراف ہوگا کہ واقعی سچ ہے،قرآن نے بالکل درست کہا، تکبر ہمیں زیب نہیں دیتا‘‘۔
غلام احمد پرویز نے پڑھا لکھا طبقہ احادیث سے بدظن کردیاہے مگر علماء نے معقول جواب کے بجائے فتویٰ داغا، یہ ہتھیار کارگر ہوتا تو علماء ایکدوسرے پر لگاتے ہیں۔ دلیل کا جواب دینا چاہیے، امام ابوحنیفہؒ نے حدیث سے گریز کیا۔پرویز نے ان کوقرآن کیخلاف سازش قرار دیا، کہا کہ ’’ نبیﷺ امی (ان پڑھ) نہیں پڑھے لکھے تھے، اللہ نے فرمایا کہ اقراء پڑھ۔ ان پڑھ کیلئے یہ خطاب نہیں ہوسکتا۔ بخاری کی کہانی غلط ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ ماانا بقاری میں پڑھ نہیں سکتا ۔ جبرئیل نے سینے سے لگایا تو پڑھنا آیا، گھبراہٹ ہوئی، حضرت خدیجہؓ نے دلاسہ دیا، چچا ورقہ بن نوفل کے پاس لیکر گئیں، اس نے نبوت کی تصدیق کی۔یہ یہودکی سازش تھی تاکہ یہ ثابت ہو کہ نبیﷺ نے ورقہ سے سیکھااور قرآن الہامی کتاب نہیں۔اللہ نے فرمایا: لنثبت بہ فوادک تاکہ قرآن سے تیرا دل ثابت قدم ہو۔ وحی گھبراہٹ کا ذریعہ نہ تھا، یہ کیا بات ہوئی کہ ایک خاتون نبیﷺ کو دلاسہ دے رہی تھیں ۔چچا کے پاس لے گئیں؟‘‘۔امام ابوحنیفہؒ نے حدیث کو آیت سے متصادم کہاتو بہت احتیاط برتی ، پرویز نے حدیث نہیں قرآن میں بھی من مانی سے دریغ نہیں کیا۔
پرویزی لکھا پڑھا طبقہ علماء کے طلبہ ، صوفیاء کے مریداور قادیانی چیلہ سے بھی زیادہ ہٹ دھرم بنتاہے۔ پرویز کو اسلئے مانا جاتاہے کہ وہ قرآن کا داعی تھا تو اگر اسکی بات غلط ہواور پھر بھی اس پر ڈٹا جائے تویہ ہٹ دھری ہے۔ اللہ نے اقراء ضرور فرمایا اور اس کا معنی قلم کے ذریعے لکھی تحریر پڑھنے کے ہیں لیکن سوال ہے کہ جبرئیل قرآن کو کس چیز پر لکھ کر لائے ؟۔ کوئی تختہ سیاہ تھا؟، کاغذ کا ٹکڑا تھا؟، نوشتۂ دیوار تھا؟، لوح وقلم کونسے تھے؟، نزل علی قلبک قرآن کو تیرے دل پر نازل کیا۔ سر کی آنکھ سے بھی پڑھناہے اوردل کی آنکھ سے بھی پڑھنا ہے، روایت میں دل کی آنکھ سے پڑھنا مراد ہے۔ ان الاعمیٰ عمی القلب ’’ اصل اندھا دل کا اندھا ہوتاہے‘‘۔ یہی ہٹ دھرمی ہے۔ اگرنبیﷺ کے دل پر قرآن نازل نہیں ہوا، تو ورقہ بن نے اوراق پڑھنے سکھادئیے؟ ۔
نبیﷺ کو جبرئیل نے سینے سے لگایا تو دل سے دل کو راہ ہوتی ہے، اللہ نے قرآن کو جبرئیل کی طرف بھی منسوب کیا: انہ لقول رسول کریم بیشک یہ عزت والے فرشتے کی بات ہے۔ پہلی وحی سے گھبراہٹ کی بات ہو تو اللہ نے فرمایا: لو انزلنا ھٰذا القراٰن علی جبل لرئیتہ خاشعًا متصدعًا من خشےۃ اللہ ’’ اگر ہم اس قرآن کو پہاڑ پر نازل کرتے تو ہیبت کے مارے ریزہ ریزہ ہوجاتا‘‘۔ یہ بنیﷺ کا ظرف تھا جو برداشت کرگیا۔ موسیٰ علیہ السلام کو اللہ نے آگ کی شکل میں اپنا جلوہ دکھایا ، پھر بتایا کہ میں اللہ ہوں۔پھر اپنے ہاتھ کے عصا سے گھبراگئے۔اپنا جلوہ دکھایا تو موسیٰ بیہوش گرپڑے۔ دنیا نے اگر ترقی کرلی تو دل کی بات دل کی آنکھوں سے بھی پڑھنے کامعاملہ سمجھ میں آئیگا۔ نبیﷺ نے فرمایا تھا کہ دنیا اس قدر ترقی کریگی کہ بیوی کے بوٹ کے تسمہ پر کوئی چیز چپکا دی جائے گی جس سے شام کو سارا ریکارڈ دکھا جائے گا‘‘۔ صحاح ستہ کی ایسی حدیث کو ضعیف قرار دیا گیا لیکن اب اس کا سمجھنا آسان ہوگیاہے۔ پرویزی کھل کر پلٹ کر آجائیں!۔
نبیﷺ پر وحی کے نزول سے پہلی مرتبہ گھبراہٹ طاری ہوئی، زوجہ محترمہؓ نے دلاسہ دیا تو قرآن نے بیوی کو تسکین کا ذریعہ کہا، یہ صرف جنسی تسکین نہیں بلکہ ہر مشکل وقت میں ایکدسرے کا دکھ درد بانٹتا ہے، کوئی حادثے کا شکار ہو اور دوسرا دلاسہ دے تو انہونی بات نہیں۔پرویز نے مذہبی جذبہ سے عوام کو متأثرکیا۔ رسول ﷺ کا ناموس حساس معاملہ ہے۔احادیث صحیحہ میں سورۂ نور کی تفسیریہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ پر بہتان لگا، اللہ نے صفائی پیش کردی۔ قرآن و حدیث اور سیرت کی کتابوں کے بالکل برعکس پرویز نے لکھا کہ ’’ حضرت عائشہؓ پر نہیں کسی اور خاتون پر بہتان لگا، یہ روافض کی سازش تھی تاکہ بہتان کی راہ ہموار ہو، حضرت عائشہؓ پر بہتان کی سزا قتل ہے‘‘۔ احادیث کا ذخیرہ جھوٹ تھایا حضرت عائشہؓ پر بہتان کی سزا قتل نہیں تواس سے بڑھ کرتوہینِ رسالت کیاتھا؟۔ مذہبی طبقہ اور پرویزی مل بیٹھ کر مسئلہ حل کریں۔ افسوس کہ بریلوی مکتبہ فکرکے شیخ الحدیث علامہ غلام رسول سعیدی نے سورۂ نور کی تفسیر میں جہاں حضرت عائشہؓ پر بہتان کا ذکر کیا، وہاں حضرت مغیرہ ابن شعبہؓ کے واقعہ کی تفصیل لکھ دی جسکا قارئین پر غلط اثرپڑ سکتا ہے۔
یہ نبیﷺ کا ظرف تھا کہ اپنی زوجہ محترمہؓ پر بہتان برداشت کیا۔ کسی اور کی زوجہ پر بہتان لگتا تو برداشت نہ کر تا۔ اللہ نے عظیم بہتان کی سزا سے ’’اسٹیٹس کو‘‘ کا خاتمہ کردیا۔ غریب ا امیر، کمزور طاقتور اور بڑے چھوٹے کی عزت کیلئے بہتان پرایک سزا مقررفرمائی۔ طاقتور طبقات نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا ہوتاہے۔ پرویز مشرف کا قریبی ساتھی عمر اصغر خان کے بارے میں شواہد کہتے کہ وہ خود کشی نہیں کرسکتا تھا مگر شاہد کسی طاقتور کی کچار میں ہاتھ پڑگیا تھا۔ بہتان کمزوروں پر لگتے ہیں۔ عزتیں کمزوروں کی لوٹ لی جاتی ہیں ۔ناک، کان، آنکھ اور دانت کمزوروں کے ہوں تو خیر نہ ہوگی لیکن طاقتوروں کا کون کیا بگاڑ سکتاہے؟۔ ایک صحابیؓ کے بیٹے نے دوسرے کا دنت توڑ دیا۔ بدلے کی بات پر قسم کھالی کہ اپنے بیٹے کا دانت اسکے بیٹے کے بدلے نہ توڑنے دونگا۔ نبیﷺ نے بالکل بھی رعایت نہ دینی تھی لیکن مظلوم نے خود ہی معاف کردیا۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’ بعض لوگ اللہ کو اتنے پسند ہوتے ہیں کہ اگر قسم کھالیں تو اللہ اس کو پورا کردیتاہے‘‘۔(بخاری)صحابہؓ کی عقیدت اس حدیث میں بھی ہے، لیکن اس سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ اللہ کے مقبول ترین بندے نے بھی اپنی حیثیت کا لحاظ کیا۔ صحابہؓ پر تو انگلی اٹھانے والے بھی ہیں اور احادیث کی سازش قرار دینے والا طبقہ بھی ہے مگر قرآن کو توسب مانتے ہیں،حضرت موسیٰ علیہ السلام نے گو غلطی سے مگر قتل تو کیا تھا؟، قانون کی بالادستی میں زبردستی نہ ہو تو رضاکارانہ طور سے خود کو پیش کرنا بہت مشکل کام ہے۔
نبیﷺ نے طائف میں اکیلے پتھر کھائے ،قوم کو معاف کردیا۔ یہودیہ کا کچرا ڈالنا برداشت کیا ، پھر بیمار پرسی کیلئے بھی تشریف لے گئے۔ حضرت عائشہؓ پر بہتان برداشت کرلیا ، یہ قربانیاں تو امت کے کمزور، غریب، بے بس اور بے سہارا طبقات کیلئے دی تھیں۔ نبیﷺ کو عظیم الشان مقام سے نوازا گیا ، بہتان کی سزا عام خواتین کے برابر اور جرم پر درگزر نہیں بلکہ ڈبل سزا کا حکم دیا۔ ہمارا اسلام انسانیت کیلئے بہترین نمونہ ہے لیکن مولوی اپنے دھندے میں مشغول ہیں۔اسلامی نظریاتی کونسل نے بیان دیا ہے کہ ’’یہ جناح کا نہیں یحییٰ خان کا پاکستان ہے۔ سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کاہے کرایہ کے مجاہدین پالے اور اب کو ان کو دہشت قرار دیکر مارا جارہاہے۔ یہاں کرائے کے مولوی، صحافی اور سیاستدان مل جاتے ہیں‘‘۔ بالکل سو فیصد درست بات ہے لیکن کیا یہ وہ اسلام ہے جس کو اللہ نے نبیﷺ پرنازل کیا تھا، یا پھر علماء کی اسٹیبلشمنٹ کا بنایا ہوا مذہب ہے، اس پر بھی غور کرو‘‘۔ پانامہ کیس نوازشریف پر چلا، مروڑ مولوی کے پیٹ میں کیوں اُٹھتا ہے۔ فتاویٰ عالمگیری کے شکار بڑوں کی سزاتصور نہیں کرسکتے ، مغلوں سے انگریزنے اقتدارلیا، اب انگریزی نظام کا اسٹیٹس کوچل رہاہے، جس کا خاتمہ انشاء اللہ پاکستان سے عالمی نظامِ خلافت سے ہوگا۔ پرویزی مکتبۂ فکر کے لوگوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ غلام احمد پرویز نے احادیث سے زیادہ قرآن کی آیات کو دھچکا پہنچانے کی کوشش کی ۔بطور مثال حضرت مریمؑ نے کہا کہ مجھے اولاد کی خبر دی جبکہ لم یمسسنی بشر مجھے کسی بشر نے چھوا نہیں؟، اس طرح کے واقعات میں پرویز کو جھوٹا سمجھنا ہوگا یا قرآن کو، کیونکہ دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے ہیں۔قرآن کی بہترین تفسیراحادیث صحیحہ ہیں، اللہ نے فرمایا: لایمسہ الا المطہروں ’’ قرآن کو نہیں چھوسکتے مگر پاکباز‘‘ ڈاکٹر اسرار ؒ نے قرآن کی خدمت کی مگرغلط تفسیر کی تشہیر کی کہ’’ قرآن لوح محفوظ میں ہے اور یہ اسکی فوٹو کاپی ہے، جسکو ناپاک بھی چھو سکتے ہیں‘‘ حالانکہ لایمسہ سے مرادہاتھ لگانا نہیں عمل ہے ۔عورت سے مباشرت کیلئے لٰمستم النساء ہے۔ جیسے الذین حملوا التوراۃ ثم لم یحملوہا سے مراد توراۃ کو لادنا نہ تھا بلکہ عمل تھا ، اس طرح قرآن میں لایمسہ سے عمل کرنا مراد ہے،یہ تفسیر بخاری میں ہے۔ ڈاکٹرا سرار اور مفتی تقی عثمانی پر دباؤپڑا تو غلطی سے اعلانیہ رجوع کرنے پر مجبور ہوگئے۔
قرآن وحدیث میں طلاق کا مسئلہ واضح ہے۔ عبداللہ بن عمرؓ نے بیوی کو حیض میں طلاق دی توحضرت عمرؓؓ نے یہ ماجراء نبیﷺ کو سنادیا۔ نبیﷺ غضبناک ہوئے اور پھر سمجھادیا کہ پاکی کے دِنوں میں ہاتھ لگائے بغیر پاس رکھو، یہاں تک کہ حیض آئے۔ پھر پاکی کے دنوں میں پاس رکھو، یہاں تک کہ حیض آئے پھر پاکی کے دنوں میں چاہو تو رجوع کرلو اور چاہو تو ہاتھ لگائے بغیر طلاق دیدو، یہ ہے وہ عدت جس میں اللہ نے طلاق کا حکم دیا ہے۔ کتاب التفسیر سورۂ طلاق،بخاری۔صحیح بخاری کتاب الاحکام، کتاب العدت اور کتاب الطلاق میں بھی یہ ہے۔ مسلم میں حسن بصریؒ کی روایت ہے کہ ایک مستند شخص سے سنا کہ ابن عمرؓ نے ایک ساتھ تین طلاقیں دی تھیں۔ 20سال تک کوئی دوسرا شخص نہ ملا، جس نے تین طلاق کی ترید کی ہو، پھر زیادہ مستندشخص نے بتایاکہ ایک طلاق دی تھی، بہر حال اس حدیث میں تین مرتبہ طلاق کا تعلق 3طہرو حیض ہی قرآن کی تفسیر ہے۔
اللہ نے فرمایا :المطلقٰت یتربصن بانفسھن ثلاثۃ قروء ’’طلاق والیاں تین مرحلوں تک انتظار کریں‘‘ وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوااصلاحا ’’ اور انکے شوہر ہی اس مدت میں صلح کی شرط پران کو لوٹانے کا حق رکھتے ہیں‘‘۔ اگر حمل ہو تو پھر انتظار کی یہ عدت تین مراحل کی نہیں بلکہ بچے کی پیدائش تک انتظار کرنا پڑیگا ۔ آیت میں خواتین کے حق کا تحفظ ہے کہ عدت کے بعد وہ شادی کرسکتی ہیں ، یہ نہیں کہ آدھا بچہ باہر آیا تو رجوع کی گنجائش ختم ہوگی جیسا فتاویٰ شامی ہے اور مفتی اس پر فتویٰ دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اللہ نے اگلی آیت میں فرمایا الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف او تسریح باحساناُس سے کیا مرادہے؟،جواب یہ ہے کہ اس سوال کی گنجائش بالکل بھی نہ تھی اسلئے کہ اسے پہلے عدت کی دوصورتوں کا ذکر ہے ایک حمل اور دوسری طہرو حیض کے تین مرحلے۔ ظاہر ہے حمل میں دومرتبہ طلاق اور تیسری مرتبہ رجوع یا چھوڑنے کی صورت نہیں بنتی تو مراد تین مرحلوں کی صورت ہے۔حضرت ابن عمرؓ نے سمجھنے میں غلطی کی تو نبیﷺ غضبناک اسلئے ہوئے کہ مسئلہ بہت واضح تھا۔ جب نبیﷺ نے وضاحت کی کہ طہروحیض کے تین مرحلے مراد ہیں تو پھر مزید وضاحت کی گنجائش تلاش کرنے میں قرآن کیساتھ حدیث کابھی تومذاق ہے،لیکن غلط فہمی مسئلہ نہیں، اللہ دین کی سمجھ دے۔
صحابیؓ نے پوچھا: یارسول اللہ!؛ قرآن میں تیسری طلاق کا ذکرکہاں ہے ؟۔ نبیﷺ نے یہ نہ فرمایا : فان طلقہا فلاتحل لہ ’’اگر پھرطلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں‘‘ تیسری طلاق ہے بلکہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’ الطلاق مرتٰن کے بعد تسریح باحسان احسان کیساتھ رخصتی تیسری طلاق ہے‘‘یہ مزید وضاحت ہے کہ تیسری طلاق سے کیا مراد ہے؟۔
سوال ہے کہ مرحلہ وار تین طہرو حیض میں تین مرتبہ طلاق کا مسئلہ سمجھنا مشکل نہیں، تین مرتبہ طلاق بس طہرو حیض کی صورت میں ہونگے۔ پھر رجوع کی کیا صورت ہے؟۔ جواب یہ ہے کہ پہلے مرحلہ میں رجوع ، دوسرے مرحلے میں رجوع اور تیسرے مرحلے میں تیسری مرتبہ طلاق دیدی توبھی رجوع ہے۔ نبیﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ تیسری مرتبہ طلاق دی توپھر رجوع نہیں ہوسکتا، بلکہ یہ سمجھایا کہ تیسرے مرحلے میں رجوع اور طلاق میں سے کوئی بھی صورت کا تعلق طلاق کے عمل سے ہے۔ اگر نبیﷺ یہ وضاحت بھی کرتے کہ تیسری مرتبہ طلاق دی تو رجوع نہیں ہوسکتا تو بھی امام ابوحنیفہؒ کے مسلک کے ترازو سے قرآن و حدیث کو دیکھاجاتا، آیت ہے کہ ’’شوہرکواس مدت میں رجوع کا صلح کی شرط پر حق ہے‘‘۔ اور حدیث ہوتی کہ ’’تیسرے مرحلے میں رجوع کا حق ختم ہے‘‘ ۔ تو قرآن سے حدیث کو متصادم قرار دیکر ترک کیا جاتا۔حدیث میں تیسرے مرحلہ میں رکھنا یا چھوڑنا واضح ہے اور یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ نبیﷺ نے ابن عمرؓ کے کی طرف سے حیض میں طلاق کے باوجود اس کو شمار نہیں کیا بلکہ طلاق کو واضح طور سے طہرو حیض کا عمل قرار دیا، ورنہ تو چاہیے تھا کہ آپﷺ فرماتے کہ ایک مرتبہ کی طلاق توواقع ہوگئی، اب آئندہ دو مرتبہ کی رہ گئی مگر نبیﷺ نے اس کو شمار نہ کیا۔طلاق کو شمار کرنے کا تعلق عدت کیساتھ ہی ہے۔ روزے میں دن رات کی طرح نبیﷺ نے طہرو حیض سے تین مرتبہ عدت و طلاق کا تصوربتادیا۔
قرآن میں بھرپور وضاحت ہے اذا طلقتم’’ جب عورتوں کو طلاق دو تو عدت کیلئے دو، ۔۔۔ عدت کا احاطہ کرکے شمار کرو، انکو انکے گھروں سے مت نکالو اور نہ وہ خود نکلیں۔۔۔ ہوسکتاہے کہ اللہ صلح کی راہ نکال دے۔ جب تم طلاق دے چکو اور انکی عدت پوری ہوچکی تو معروف طریقے سے رکھو یا معروف طریقے سے الگ کردواور دو عادل گواہ بھی بنالو۔ ۔۔۔ جو اللہ سے ڈرا، اس کیلئے اللہ راہ بنادیگا‘‘( سورۂ طلاق)۔علماء کو ترجمہ وتفسیر میں بھی ظاہری الفاظ سے ہٹ کر چلنا پڑا ہے۔
سوال یہ ہے کہ مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق کی عدت کے بعد رجوع کی گنجائش ہے؟۔ جواب یہ ہے کہ بالکل ہے! ، سورۂ طلاق دیکھ لو۔ مرحلہ وار تین طلاق پر رجوع کی بھرپور وضاحت ہے۔ رکانہؓ کے والد نے رکانہؓ کی والدہ کو اس طرح سے طلاق دی۔ پھردوسری خاتون سے شادی کرلی، اس نے شکایت کی کہ وہ نامرد ہے۔ نبیﷺ نے اسکو چھوڑنے کا حکم دیا اور حضرت رکانہؓ کے والد کو حضرت رکانہؓ کی والدہ سے رجوع کا فرمایا، انہوں نے عرض کیا :وہ تو تین طلاق دے چکا۔ نبیﷺ نے فرمایا: مجھے معلوم ہے اور سورۂ طلاق کی آیت پڑھ کر حوالہ دیا۔ (ابوداؤد)۔طلاق میں علماء نے بڑا مغالطہ کھایا، جیسے روزہ دن کے بجائے رات کو ٹھہرایا جائے بلکہ اس سے زیادہ کیونکہ پھر رات میں ایک روزہ رکھا جاسکتا ۔ الفاظ کی ملکیت کا تصور دیکر صرف قرآن و سنت کا مذاق نہیں اڑایا بلکہ دنیا میں سب سے بڑا عجوبہ کی بنیاد رکھی، لکھا کہ ایک طلاق کے بعد بیوی کسی سے نکاح کرلے تو پہلا شوہر بدستور بقیہ2طلاق کا مالک ہوگا۔ فقہ میں یہ صورتیں ہیں1:پہلی و تیسری طلاق واقع بیچ والی باقی 2:پہلی و تیسری طلاق باقی بیچ والی واقع۔ 3: پہلی دو طلاقیں باقی اور تیسری واقع۔ بخاری میں ہے کہ’’ بیوی کو حرام کہنا کھانے پینے کی طرح نہیں بلکہ تیسری طلاق ہے‘‘، حالانکہ سورۂ تحریم میں حرام اور مجادلہ میں ماں کہنے کا مسئلہ واضح تھا۔ علماء مل بیٹھ کر معاملہ سلجھائیں تو انقلاب آئیگا۔
امام ابوحنیفہؒ کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوگا کہ یہ خرافات ان کی جانب منسوب ہونگے۔ یہ بعد کے لوگوں نے اپنی اپنی سمجھ اور ظرف کے مطابق کیا کیا مسائل کھڑے کردئیے ، یہ مسلک کیلئے نالائق وکالتوں کا شاخسانہ ہے۔ قرآن و سنت میں واضح ہے کہ دومرتبہ طلاق کا تعلق طہروحیض کے پہلے دو مرحلوں سے ہے اور نکاح کے بعد ہاتھ لگائے بغیر طلاق دی تو پھر دو تین مرتبہ طلاق کا تصور ہی ختم ہوجاتاہے۔ عورت کی عدت میں شوہر کیلئے مشروط رجوع کا حق ہے ۔اصولِ فقہ کی کتابوں کا اکثر مواد ہاتھ لگانے سے پہلے کی تین طلاقوں اور انکی عجیب و غریب غیرفطری اور غیر شرعی صورتوں سے بھراہواہے۔ بڑے علماء کرام اور مفتیانِ عظام خود غرض بن کر نہ سوچین یہ عزتوں کا مسئلہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ عدت میں اور تکمیلِ عدت کے بعد رجوع ہے تو آیت کا مطلب کیا ہے کہ ’’فان طلقہا فلا تحل لہ اگر پھر اسکو طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہ ہوگی ۔۔۔‘‘۔ جواب یہ ہے کہ آیت سے متصل یہ صورت واضح ہے جس میں میاں بیوی اور فیصلہ کرنے والے باہوش وحواس متفق ہوجائیں کہ میاں بیوی ایکدوسرے سے ملنے پراللہ کی حدود پامال کرنے کا خدشہ محسوس کریں تو عورت کی طرف سے وہ فدیہ دیا جائے۔ اس صورت میں شوہر کے مزاج کا خیال رکھتے ہوئے یہ قید لگائی گئی کہ عورت جب تک دوسری شادی نہ کرے اس کیلئے حلال نہیں۔ درسِ نظامی میں اصول فقہ کی کتاب ’’ نورالانوار‘‘ میں جمہور فقہاء کا مؤقف بتایا گیا کہ اس طلاق کا تعلق دو مرتبہ طلاق سے ہے اور بیچ کی بات جملہ معترضہ ہے مگرحنفی مؤقف یہ ہے کہ ف تعقیبِ بلا مہلت کیلئے آتاہے اسلئے اس طلاق کا تعلق اس سے ماقبل بیان کردہ صورتحال سے ہے۔ ابن تیمیہؒ کے شاگرد علامہ ابن قیمؒ نے ایک طرف حضرت ابن عباسؓ کے قول سے حنفی مسلک کی تائید کردی کہ اس طلاق کا تعلق دومرتبہ طلاق کے بعد سیاق وسباق کیمطابق عورت کی طرف سے فدیہ دینے کی صورتحال سے ہی ہے اور دوسری جانب تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے فدیہ کے بارے میں لکھا کہ ’’یہ طلاق نہیں بلکہ الگ چیز ہے‘‘۔ حالانکہ حنفی مؤقف اور حضرت ابن عباسؓ کا قول ایک معاملہ کی وضاحت کرتے ہیں کہ فدیہ کے بدلے میں جو طلاق دی جائے وہی مراد ہے۔
سورۂ بقرہ میں اس آیت230سے پہلے اور بعد کی آیات میں عدت وعدت کے بعد باہمی رضاسے رجوع واضح ہے۔ دورِ جاہلیت نہیں اب باہوش وحواس کوئی طلاق دے تو عورت کو مرضی سے شادی نہیں کرنے دیتا ۔برطانیہ میں لیڈی ڈیانا اسی جرم پر ماری گئی ۔ قرآن کا حکم تسلیم کروالیا جائے کہ شوہر بیوی کو تمام شروط وقیود سے طلاق دے، تو قرآنی آیت کیمطابق عورت کو اس کی مرضی سے شادی کرنے دی جائے۔ کوئی حق تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں مگرحیلوں سے معاشرہ حلالہ کی بے غیرتی کا عادی بنادیا گیا۔جب قرآن وسنت کے عظیم معاشرتی نظام کو سمجھ کر نافذ کرینگے تو مغرب بھی اسلام کے سامنے چت ہوجائیگا۔علماء کرام اپنے حال اور امت پر رحم فرمائیں۔
حضرت عمرؓ نے جھگڑے میں یکدم تین طلاق کو ناقابلِ رجوع قرار دیا، طلاق کے بعد قرآن کیمطابق شوہر غیر مشروط رجوع نہیں کرسکتا۔ ائمہ نے طلاق کا درست فتویٰ دیا، ورنہ عدت کے بعد عورت شادی نہ کرسکتی، عدت وطلاق لازم ملزوم ہیں۔ عدت ختم ہو تو طلاق کی ملکیت باقی نہیں رہتی۔ضعیف روایت پر مسائل کاغلط ڈھانچہ بنایاگیا۔ اسلامی قانون نے صنفِ نازک اور کمزور کو تحفظ دیا مگر طاقت نے اسلام کا بیڑہ غرق کردیا۔ علماء کا حق کا اعلان کریں تو بھلا ہوگا۔ عتیق گیلانی

قرآن کی آیات سے واضح انحراف کا معاملہ: عتیق گیلانی کی ایک تحریر

فاذا اخصن فان اتین بفاحشۃفعلیھن نصف ما علی المحصنٰت من العذاب ذٰلک لمن خشی العنت منکم وان تصبیروا خیرلکم ۔۔۔؛ومن یفعل ذٰلک عدوانًا وظلمًا فسوف نصلیہ نارًا۔۔۔Oترجمہ’’ جب لونڈی نکاح میں لاؤ، پھر اگر وہ فحاشی کی مرتکب ہوں،تو ان پر عام عورتوں کی نصف سزا ہے۔ یہ اس کیلئے ہے جو تم میں سے تکلیف میں پڑنے سے ڈرتا ہواور اگر تم صبر کرلو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور اللہ غفور رحیم ہے۔اللہ چاہتاہے تمہارے لئے واضح کرنااور تمہیں بتانا ان لوگوں کا طریقہ جو تم سے پہلے گزرچکے اور وہ تم پر توجہ چاہتاہے اور اللہ علیم حکیم ہے۔ اللہ چاہتاہے کہ تم پر توجہ دے اور جو لوگ اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں انکی چاہت ہے کہ تم میلان کا شکار ہوجاؤ ، بہت بڑے میلان کا۔ اللہ چاہتاہے کہ تم سے بوجھ ہلکا کرے اور انسان کمزور پیدا کیا گیا۔ اے ایمان والو! آپس میں اپنے اموال باطل طریقے سے نہ کھاؤ مگریہ کہ رضا سے تجارت اور اپنی جانو ں کو قتل نہ کرو، بیشک اللہ تم پر نہایت رحم والا ہے اور جس نے حد سے تجاوز (دشمنی)اور ظلم سے ایسا کیا تو ہم اسکو عنقریب جہنم میں جھونک دیں گے۔ اور اللہ کیلئے یہ بہت آسان ہے۔( سورۂ النساء: آیات:25تا30)
منکوحہ لونڈی کو آدھی سزا بھی اس کیلئے جو مشکل میں پڑنے سے ڈرتا ہو۔ کیونکہ فحاشی سے رُکنا مشکل ہوسکتاہے،اگر سزا کے بغیر صبرکیا تو یہ بہتر ہے۔ منکوحہ لونڈی کیلئے50کوڑے تو آزاد منکوحہ کیلئے 100 ہیں۔ لونڈی سے شادی ٹھیک ہے بعضکم من بعض ’’تم ایکدوسرے سے ہو‘‘۔ تفسیرو ترجمہ میں حقائق سے انحراف ہے کہ ’’ لونڈی سے نکاح مشکل میں پڑنے سے ڈرنے کیلئے ہے صبر بہتر ہے‘‘۔ فحاشی پر عورت سزا کے بغیر گھر سے نکلے یالُعان کے ذریعے حق سے محروم ہو،یا کوڑوں کی سزا ہو۔ یہ سب صورتیں حلالہ کی بے غیرتی اور غیرت کے نام پر قتل کے مقابلہ میں اسلام کو بڑاعروج بخشیں گی۔
اللہ نے یہ بھی واضح کیا کہ آزاد عورت کے مقابلہ میں لونڈی کی آدھی سزا پہلے امتوں میں بھی رائج رہی ۔ باربار اللہ نے باور کرایا کہ اللہ تم پر خاص توجہ چاہتاہے اور نفسانی خواہشات کی پیروی والے چاہتے ہیں کہ تم میلان میں مبتلا ہو، بہت بڑے میلان میں (بڑا میلان کیا؟، سنگساری اور قتل کا حکم 100 کوڑوں کے مقابلے میں!)اللہ چاہتاہے کہ تم سے بوجھ ( سنگساری کی سزا ) کو ہلکا کردے ۔انسان کمزور پیدا کیا گیا۔ آیات کاواضح مفہوم بگاڑنے کی کوشش کے بعد سیدمودودی کی فصاحت بھی معاملات کو سلجھا نے کے کام نہیں آسکی۔ اگرسیاق وسباق کے مطابق قرآن کا ترجمہ و تفسیر ہو تولوگوں کو ہدایت ملے۔
مذہبی طبقہ وکیلوں کی طرح احکام کی تشریح بدل کر باطل مال نہ اُڑائیں مگر باہمی رضا سے تجارت۔ اور اپنی جانوں کو قتل مت کرو۔ بیشک اللہ بہت رحم والاہے۔ خواتین کو اکثر و بیشتر بدکاری کے جرم میں قتل کا نشانہ بنایا جاتاہے۔ تبلیغی جماعت، جماعت اسلامی، جے یوآئی ، جے یو پی، وحدت المسلمین، اسلامی نظریاتی کونسل ، قومی اسمبلی اور سینٹ وغیرہ اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد کرکے یہ اہم معاملات زیرِ بحث لائیں تاکہ اسلامی قانون سازی کی راہ ہموار ہو۔
پھر اللہ نے مزید وضاحت کردی کہ ’’اگر یہ سب کچھ حد سے تجاوز (دشمنی) اور ظلم سے کوئی کرتاہے تو اس کو اللہ جہنم میں جھونک دیگا‘‘۔ غلط فہمی اور خلوص کی بنیاد پر حقائق سے قاصر لوگوں کیلئے وعید نہیں ۔ حضرت عمرؓ نے حضرت مغیرہؓ پر سنگساری کا حکم جاری نہ کیا ، اگر غلط فہمی میں جاری کردیتے تو بھی ان پر وعید کا اطلاق نہ ہوتا۔ حضرت علیؓ سنگسار کرنے کا حکم دیتے ،تب بھی وعید کے زمرے میں نہ آتے۔ علماء نے بھی خلوص کی بنیاد پر غلط فہمی سے مفہوم نہ سمجھا مگر اب ہمارے لئے سب سے بڑا اثاثہ قرآن وسنت ہے۔ مفادات کو مدِ نظر رکھ کر حقائق سے انحراف کرنے پر مذہبی طبقے یقیناًوعید کا نشانہ بن سکتے ہیں۔
حدودو تعزیرات نہیں معاشرتی معاملات اور حقوق میں بھی قرآن وسنت میں بہت ڈنڈیاں ماری گئیں ۔ الفاظ کی جنگ میں مبتلاء مذہبی طبقے اسلام کے درست مفہوم سے فرقہ وارانہ تعصبات چھوڑ سکتے ہیں اور ملتِ واحدہ بن کر دنیا میں اسلامی نظام کو غلبہ دلاسکتے ہیں۔ اہل تشیع یہ کہہ دیں کہ ’’جو فرق حسینؓ اور یزید میں تھا، وہی علیؓ اور عمرؓ میں بھی تھا‘‘۔ تو ہم نہیں روک سکتے ۔ ہمارا مؤقف یہ ہے کہ یزید کا کردار غلط تھا اور امام شافعیؒ و امام مالکؒ مقدس ہستی تھے لیکن اگر وہ یزید کی جگہ حکمران ہوتے تو دینداری، فقہ وسمجھ اور خلوص کے باوجود یزید اور بنی امیہ وبنی عباس کے امراء کی نسبت اسلام کا زیادہ بیڑہ غرق کرتے ،اسلئے کہ کربلا کے شہداء سے اسلام کو اتنا نقصان نہ پہنچا جتنا بے نمازی کو قتل کرنے سے پہنچتا، ابوبکرؓ و عمرؓ سے زیادہ اسلام کو علیؓ کے اقتدار سے نقصان پہنچتا۔ عثمانؓ کی شہادت کی افواہ پر نبیﷺ نے بیعت رضوان لی، یداللہ فوق ایدیھم ۔ علیؓ کے پروردہ محمد بن ابی بکرؓ نے پہلے عثمانؓ کی داڑھی میں ہاتھ ڈالاتھا، حسنؓ و حسینؓ دروازے پر حفاظت کر رہے تھے۔سنی عشرہ مبشرہؓکی لڑائی کومنافقت نہیں سمجھتے جو جنگِ صفین و جمل برپا ہوئی تھی۔اہل تشیع کا اس کومذہبی رنگ دینا اور اسلاف سے بدظنی غلط ہے ۔خوارج بھی علیؓ کا لشکر تھے ،پھر برگشتہ ہوئے۔ منصبِ خلافت سیاسی مسئلہ تھا۔ امام حسنؓ نے دستبردارہو کر شیعہ اور خوارج کی اصلاح کی ۔اگرخلافت کا پسِ منظر سیاسی نہ ہوتا تو مسلم اُمہ شروع سے مذہبی تفرقے کا شکار بنتی۔ شیعہ کا ایران وشام اورعراق میں اقتدار کامیاب ہے؟۔ خلافت مذہبی مسئلہ ہوتا تو علیؓ کا اختیارسونپ دینا، حسنؓ کی دستبرداری، حسینؓ کی طرف سے واپسی کے مطالبے سے لیکر آخری امام کی غیبت تک ذمہ داری ائمہ پر پڑتی،اسلئے تو خوارج نے علیؓ اور اسماعیلیہ نے حسنؓ کی امامت کا انکار کیا تھا۔
حضرت علیؓ نے فرمایاکہ ’’میں یہود کو توراۃ، نصاریٰ کو انجیل اور مسلمانوں کو قرآن سے فیصلہ دونگا‘‘ ۔ بظاہریہ خوش آئند ہے مگر توراۃ میں تحریف، انجیل میں حدود وتعزیرات نہیں اور قرآن میں واضح ہے: ومن الذین ھادوا ۔۔۔ یحرفوں الکلم من بعد مواضعہ۔۔۔ ؛فان جاء و ک فاحکم بینھم او اعرض عنھم وان تعرض عنھم فلن یضرک شےءًاوان حکمت فاحکم بینھم بالقسط ۔۔۔ المائدہ: 41، 42۔اور یہود ۔۔۔ بات کو اپنی جگہوں سے ہٹاتے ہیں ۔۔۔ اگرآپکے پاس آئیں تو انکے درمیان فیصلہ کرو یا ان سے کنارہ کشی کرو، اگر اعراض کرو تو آپ کو نقصان نہیں پہنچاسکتے اور اگر فیصلہ کرو تو انصاف سے کرو‘‘۔ قرآن وتوراۃ کا حکم برابر ہوتو ٹھیک اگر نہیں تو قرآن برحق ہے اور یہی انصاف کا تقاضہ بھی۔ تفصیل آگے دیکھئے۔

فرقہ واریت کا بیج بونے والے غلام احمد پرویز پر اشرف میمن کا تبصرہ

نوشتۂ دیوار کے پبلشر اشرف میمن نے کہا : پاکستان میں فرقہ پرستی،متعصبانہ رویہ اور قتل وغارتگری میں نادیدہ قوت ملوث قرار دی جاتی تھی لیکن اس کی نشاندہی کرنے میں ریاست، علماء، دانشور، حکمران کامیاب نہ ہوسکے ۔ غلام احمد پرویز نے بڑاباریک کام کیا، قرآن کا نام لیکر فرقہ پرستی کو ختم کرنے کی کوشش کی ۔ امام ابوحنیفہؒ نے بھی قرآن کے مقابلہ میں بہت سی احادیث کو قبول نہیں کیا۔ حنفی مسلک کا ماحول غلام احمد پرویز کی پذیرائی کا بہت بڑا سبب بنا ، وہ روانی سے قرآنی آیات کے ترجمے اور مفہوم کو بیان کرتا تھا، پڑھا لکھا طبقہ ان سے بہت زیادہ متاثر ہوا، بیوروکریسی افسران کی زیادہ تر تعداد غلام احمدپرویز کو اپنا مذہبی پیشوا مانتی ہے، علماء نے پرویز پر انکارِ حدیث کافتویٰ لگادیامگر اس کا کیا اثر پڑتا؟۔ علماء خود بھی تو اہلحدیث کی مخالفت کرتے تھے۔ غلام احمد پرویز نے ایک تو حدیث کی صحاحِ ستہ کو ایران و شیعہ کی بہت بڑی سازش قرار دیا۔ دوسرا یہ تشہیر کی کہ قرآن میں بہتان کا واقعہ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے متعلق نہ تھا، اس کو سازش کے تحت درج کیا گیا تاکہ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کی سیرت کو داغدار بنایا جاسکے۔ واقعہ کسی عام خاتون سے متعلق تھا۔حضرت عائشہؓ پر بہتان لگادیا جاتا تو توہین رسالت و اذیت رسولﷺ کی وجہ سے 80کوڑے کی سزا نہ ہوتی بلکہ یقیناًان کو قتل کیا جاتا۔ جب پرویز کی اس فکر کو لکھے پڑھے طبقہ نے قبول کیا تو سنی مکتبۂ فکر میں اس واقعہ سے متعلق روایتوں کوشیعہ کی سازش قرار دیاگیا۔ جنکے دل ودماغ میں یہ بات بیٹھ گئی کہ شیعہ نے اتنی بڑی سازش کی تو ان کو قتل کرنا ثواب سمجھا گیا۔ ہم غلام احمد پرویز اور اس کے ساتھیوں پر سازش کرنے کا الزام لگانا تو بہت دور کی بات ہے کوئی شبہ تک نہیں کرتے۔ جس طرح مولانا طارق جمیل نے نماز کیلئے پر جوش خطاب کیا اور فون کی بیل بنادیاگیا، اسی طرح غلام احمد پرویز کا پروگرام قتل وغارتگری نہ تھا۔ بیوروکریسی کی ذہنیت میں’’ اسٹیٹس کو‘‘کا خمار بڑی بات نہیں جیسے تبلیغی جماعت کے دل میں نماز کا خمار بیٹھ جاتاہے ۔ نماز کا پڑھنا بہت ہی زبردست کام ہے جو شرک، کفر، بے حیائی اور منکرات سے روکنے کا زبردست ذریعہ ہے۔
وہ اک سجدہ جسے تو گرا ں سمجھتاہے ہزاروں سجدوں سے دیتاہے آدمی کو نجات
اسٹیٹس کو اور فرقہ پرستی نے بیڑہ غرق کردیا، پرویز اور مولاناالیاسؒ برابر نہیں ہوسکتے۔ یاد رہے کہ فرقہ پرستی واسٹیٹسکوکا باہمی تعلق سمجھے بغیرفتنہ وفساد ختم نہ ہوگا۔
غلام احمدپرویز نے نیک نیتی سے حضرت عائشہ صدیقہؓ کے دفاع کیلئے اپنا نظریہ پیش کردیا، قبول کرنیوالے ’’اسٹیٹس کو‘‘ کی بیوروکریسی اور حب رسولﷺ سے سرشارعوام تھی۔ بڑا افسر اپنے چپڑاسی اور چوکیدار کی عزت اپنے برابر نہیں سمجھتا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی زوجہ مطہرہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓکے ناموس کو کسی عام خاتون کے برابر سمجھا جائے؟۔ ہمیں ان کی نیت، ایمان، خلوص، علم، سمجھ اور کسی بھی وہم وگمان پر ذرا بھی سازش کا کوئی شبہ نہیں ہوسکتاہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے ، اٹل حقیقت ہے، واضح حقیقت ہے، بے باک حقیقت ہے ، رب ذولجلال کی طرف سے انسانی وہم وگمان اور عام ماحول سے بالکل ہی بالاتر حقیقت ہے کہ بہتان ام المؤمنین حضرت عائشہؓ پر ہی لگایا گیا تھا۔ اس کی سزا بھی ایک عام خاتون کے برابر 80کوڑے کا حکم دیا۔ یہی نہیں بلکہ حضرت ابوبکرؓنے قسم کھائی کہ میں آئندہ ان بہتان لگانے والوں پر احسان نہ کروں گا تو اللہ تعالیٰ نے حکم نازل کیا کہ مالداروں کی یہ شان نہیں ،احسان جاری رکھنا چاہیے۔( سورۂ نور)
تکبر ورعونت اور جاہلیت کے سرکردہ انسانوں کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اپنے برابر اپنے سے کمتر لوگوں کی عزت کا احسا س نہیں رکھتے ۔ یہ معاملہ اتنا باریک اور خطرناک ہوتا ہے کہ شیطان نے جنت میں اسی بات کو سمجھنے میں غلطی کی تھی۔ اس نے تکبر اسلئے کیا کہ حضرت آدمؑ کو اللہ نے مٹی سے پیدا کیا اور مجھے آگ سے پیدا کیا گیا۔ نبیﷺ نے عرب و عجم ، کالے گورے، سب رنگ ونسل والوں کو ایک آدمؑ کی اولاد قرار دیا لیکن اسلام نے جو سبق دیا تھا وہ ہم بھول گئے۔ انگریز کے پروردہ جاگیردار،سرمایہ داراورساختہ وپر داختہ بیوروکریسی میں نشو ونما پانیوالے دماغ کی سمجھ میں یہ بات کبھی نہیں آسکتی کہ عام عوام کی عزتیں دن رات لٹتی ہیں ، صبح و شام تماشہ لگتاہے اور کوڑی جتنی عزت رکھنے والی خواتین کی چیخ و پکار کو کچرا کنڈی میں ڈال دی جاتی ہے۔ جو ایسا ڈاکخانہ ہے کہ اس کی ہر ڈاک منوں مٹی میں دبا دی جاتی ہے، یا ری سائیکل کرکے اس کی شناخت تک مٹادی جاتی ہے اور اگر اس کی شناخت قائم بھی رہتی تو کون سے نتائج اسکے نکل سکتے ہیں؟۔
اللہ تعالیٰ نے جان ، آنکھ، کان، ناک اور دانت کے بدلے میں کوئی فرق نہ رکھا۔ سب کیلئے یکساں قانون بنایا۔ عزت پر بھی یکساں حد نافذ کا حکم دیا۔ رسول اللہ ﷺ کی سیرت کو اعلیٰ اخلاقی نمونہ قرار دیا۔ معاشرے میں کوئی طاقتور اپنی عزت کو کسی کمزور کے برابر نہیں سمجھتاہے ، اس روایت کو اسلام کے ذریعے ختم کردیا۔ طاقتور اور کمزور کی جان وعزت قانون کی نگاہ میں برابر ہوگی تو فتنہ وفساد اور خود کُش حملوں کیلئے کسی کو افراد میسر نہیں آئیں گے۔ دنیا کے سامنے قرآن و سنت کا یہ قانون آئیگا کہ جان اور انسانی اعضاء آنکھ، کان، ناک اور دانت میں تو برابری ہی ہے مگر اسلامی قانون میں عزتوں کا بھی کوئی فرق نہیں تو دنیا میں یہ بہت بڑے انقلاب کا پیش خیمہ بنے گا اور سب سے پہلے پاکستان کی بیوروکریسی نے اس کا اعلان کرنا ہے اسلئے کہ جب ہمارا آئین پابند ہے کہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہوسکتی تو یہ کونسا اسلام ہے کہ افتخار چوہدری کی ہتک عزت کا دعویٰ 20ارب ہو اور نعیم بخاری کی بیوی بھی چھن جائے تو اُف نہ کرسکے؟۔اس کو قرآن وسنت کے مطابق نہیں قرار دیا جاسکتا کہ شوہر اپنی بیوی کی ناک کاٹے، دانت توڑے اور کسی کمزور اورغریب سے جو سلوک روا رکھے اس پر قانون کی گرفت نہ ہو۔ ناک کے بدلے جیل کا قیدی بنانا بھی غلط ہے ، ناک کے بدلے میں ناک کاٹی جائے تو کوئی یہ جرم نشہ پی کر بھی نہ کریگا۔
دنیا میں اسلامی قانون سب سے ممتاز ہے اور اخلاقیات کے درس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے، اس سے بڑھ کر کیا اعلیٰ اخلاق ہونگے کہ حضرت ابوبکرؓ جس رشتہ دار پر احسان کررہا تھا، اسی حضرت مسطح رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہؓ پر بہتان لگایا تھا۔ صحابہؓ سے بڑھ کر جذبہ کس کا ہوسکتاتھا؟ اور حضرت ابوبکرؓ سے زیادہ کس کو تکلیف ہوگی؟۔ پھر احسان جاری رکھنے کا حکم کس قدر اعلیٰ اخلاقی اور انسانی اقدار کا نمونہ ہے۔ قرآن تعصبات کی آگ بھڑکانے کے بجائے عزت،جان اور مال کوکتنا تحفظ فراہم کرتاہے ؟ اور کتنے اعلیٰ اخلاقی قدروں کی ترویج کرتاہے؟۔ غلام احمد پرویز نے سب کا بیڑہ غرق کردیا۔ مولانا الیاسؒ نے تبلیغی جماعت کے ذریعہ اسٹیٹس کو توڑدیا تھا۔ اعلیٰ افسران اپنے ماتحت کیساتھ بستر اٹھاکر گھوم رہے ہوں، ساتھ کھا پی رہے ہوں تو خاکساری اور تواضع پیدا ہوتی ہے۔ سید عتیق گیلانی کے مرشد حاجی عثمان میمنؒ نے بھی اس جماعت میں بہت وقت لگایا تھا، حاجی عبدالوہاب سے پہلے کے بزرگوں میں تھے ۔ حاجی محمد عثمانؒ تبلیغی جماعت کے اندر بھی اسٹیٹس کو کے مخالف تھے۔ عوام کیساتھ اجتماعات میں بیٹھتے اور عوام کیساتھ دسترخوان پر کھاتے ۔ اسی وجہ سے یہ تأثر پیدا کیا گیا کہ ان کی وجہ سے تبلیغی جماعت شخصیت پرستی کا شکار ہوسکتی ہے۔ عوامی اجتماعات میں انکے بیانات پر پابندی لگی، اس صورتحال کا مولانا طارق جمیل کو بھی کافی عرصہ سامنا رہاہے۔ ’’حاجی عثمانؒ کے خلیفہ سرورالنورسوسائٹی گلبرگ کراچی کی جماعت میں بدمعاش قمر ٹیڈی ایک نوعمر لڑکے کو ساتھ لیکرگھمارہا تھا تو عتیق گیلانی نے اسکی شکایت مکی مسجد میں شوریٰ سے بھی کردی کہ تبلیغی جماعت میں لوگ اصلاح کیلئے اپنے بچوں کو بھیجتے ہیں‘‘۔ اگر مولانا الیاسؒ ہوتے تو ہماری تحریک کے بنیادی نکات کو اجاگر کرنے کا ٹاسک دیتے ۔جماعتی اکابرین کو چاہیے کہ مشاورت سے مثبت فیصلہ کریں،ورنہ مساجد پر قبضہ کرنیوالے غنڈے پھرجماعت پر بھی قابض ہونگے محمداشرف میمن