Tag: featured
مولانا نصر اللہ کے بیان پر عبد القدوس بلوچ کا تبصرہ
کراچی (عبد الشکور) مولانا نصر اللہ امام و خطیب جامع مسجد معصب ابن عمیر چمڑہ چورنگی (03333405517) نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ قیام پاکستان مقصد محض آزادی کے ساتھ ساتھ ایک بنیادی نقطہ نظر اسلامی معاشرہ تھا مگر بدقسمتی سے قائد اعظم جیسے منافقین کے ہاتھ باگ دوڑ دے دی گئی جنہوں نے کانگریس سے مل کر منافقانہ رویہ اپنایا کہ آج تک اہل پاکستان ذلیل و خوار ہیں لہٰذا ایک ایسے معاشرے کی از سر نو تشکیل کی ضرورت ہے جو ہر قسم کے منافقانہ رویوں سے پاک جس میں آئین حدیث شریف اور قانون قرآن ہو۔ اور معاشرتی برائیاں بھلے جتنی بھی ہوں پھر یہ ہوا کے تنکے کی طرح اڑ جائیں گی۔ اور ہم سب من حیث القوم سکھ کا سانس لے سکیں گے ورنہ آج کل جس جمہوریت کا ڈھونگ رچایا جارہا ہے یہ محض ایک تباہی و بربادی ہے جس کی زندہ مثال موجودہ نظام ہے اس موجودہ نظام کے خاتمے کے بغیر ہماری زندگی اجیرن ہے اور دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام امت مسلمہ کے لوگوں کو اس نظام کے خاتمے اور جنازے کو کندھا دینے کی توفیق عطا فرمائے۔
تبصرہ نوشتہ دیوارتیز و تند عبد القدوس بلوچ
جناب مولانا صاحب !علماء و مفتیان ایک طرف قائد اعظم کے ساتھ تھے اور دوسری طرف گاندھی اور نہرو کے ساتھ تھے۔ مدارس پر کس نے پابندی لگائی ہے کہ وہ اپنے نصاب میں غلطیوں کی اصلاح نہ کریں؟۔ مجلس احرار کے قائد مولاناسید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ نے پہلے پاکستان کی مخالفت کی مگر پھر جب پاکستان بن گیا تو فرمایا کہ ’’مسجد بننے پر پہلے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن جب مسجد بن جائے تو پھر اس کا تقدس ، اس کی حفاظت اور اس کی آبادی بھی ضروری بن جاتی ہے‘‘۔ آپکا بیان بہت معذرت کے ساتھ ایسا ہے جیسے آپ اپنے مسجد کے بانیوں کو اور اس کے رکھوالوں کو برا بھلا کہو کہ وہ منافقین ہیں لیکن دوسروں کو برا کہنے کے بجائے اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔ علماء ہی ذمہ دار ہیں۔ قدوس بلوچ
علماء اور حکمرانوں سے خصوصی گزارش
حنفی مسلک کے مدارس دیوبندی بریلوی کا نصابِ تعلیم ایک ہے۔ قرآن وسنت اور اجماع وقیاس کی بنیادی تعلیم کا محور و مرکز اصولِ فقہ ہے۔ بہت کم لوگ اصولِ فقہ کی دقیق، مغلق اور منطقی زباں کو سمجھتے ہیں، تاہم اصولِ فقہ کی کتابوں کے تراجم ہوچکے ہیں اور ان کو سمجھنے کی دشواری کا معاملہ ختم ہے۔ نصاب کی تبدیلی کی بازگشت ہے مگر چوہوں کی مجلس شوریٰ بلی کے گلے میں گھنٹی ڈالنے سے کترارہی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے سرکاری پلیٹ فارم سے اس نیک کام کا آغاز ہوگا تو دنیا کی سطح پر خوشیوں کا طوفان اُمنڈ آئیگا۔
امام ابوحنیفہؒ نے اپنا سارا عہدِ شباب علم الکلام کی گمراہی میں گزارا اور پھر توبہ کرکے فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ علم الکلام سے اصول فقہ محفوظ نہیں ۔ اصولِ فقہ میں کتاب، سنت، اجماع اور قیاس کے چار اصول ترتیب وار ہیں۔ اللہ کی کتاب سے پانچ سو آیات مراد ہیں جو احکام سے متعلق ہیں،باقی آیات قصص و مواعظ ہیں۔ اگر علماء پانچ سو آیات میں سے غسل، وضو، نکاح، طلاق اوررجوع کے احکام طلبہ کو پڑھاتے تو مسائل کا شکار نہ ہوتے۔ قرآن میں ہے۔ ولا جنباً الا عابریٰ السبیل حتیٰ تغتسل ’’ اور نہ حالتِ جنابت میں نماز کے قریب جاؤ مگر یہ کہ کوئی مسافر ہو،یہاں تک کہ نہالو‘‘۔ اس حکم میں مسافر کیلئے غسل کے بغیر تیمم سے بھی نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔ اجازت میں حکم فرض نہیں مباح کا درجہ رکھتاہے۔ حضرت عمرؓ نے سفر کے دوران حالت جنابت میں تیمم سے نماز نہیں پڑھی تو نبیﷺ نے فرمایا کہ آپ نے ٹھیک کیا ہے۔ حضرت عمارؓ نے مٹی میں لوٹ پوٹ کر تیمم کرکے نماز پڑھ لی تو نبیﷺ نے فرمایاکہ ہاتھ اور چہرے پر مسح کافی تھا۔ پھر اللہ نے وضو کی تفصیل بتائی ہے اور فرمایا ہے کہ اگر تم حالتِ جنابت میں ہو تو اچھی طرح پاک ہو جاؤ۔ ظاہرہے کہ وضو کے مقابلہ میں نہانا ہی اچھی طرح پاک ہونا ہے جس کا پہلے ذکرہے۔ دنیا میں انسان تو کیا چرندے اور پرندے بھی نہانا جانتے ہیں۔ صحابہؓ وضوو غسل کرنا جانتے تھے مگر فضول کے فرائض پر اختلافات سے وہ بے خبر تھے۔ آج مسلمانوں کو پھر قرون اولیٰ کا دور زندہ کرنا ہوگا تو لوگوں کی اصلاح ہوگی۔میرے استاذ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر صاحب نے میری ایک کتاب پر حضرت امام مالکؒ کا یہی قول نقل فرمایا ہے۔ اصولِ فقہ کی کتابوں میں قرآن کی غیر معقول تعریف سے ایمان سلامت نہیں رہ سکتاہے۔
المکتوب فی المصاحف، المنقول عنہ نقلا متواترا بلاشبۃ کتاب کی یہ تعریف ہے کہ ’’جو مصاحف میں لکھی ہوئی ہے، نبیﷺ سے متواتر نقل کی گئی ہے، کسی شبہ کے بغیر‘‘۔ یہ تعریف ہوتی تومعاملہ ٹھیک تھا مگر اسکی تشریح یہ کی جاتی ہے کہ مصاحف میں لکھی سے مراد کتاب نہیں، یہ تو نقوش ہیں جونہ لفظ ہیں اور نہ معنی بلکہ یہاں 7قاریوں کے الگ الگ قرآن مرادہیں۔ اسلئے فقہ کا مسئلہ ہے کہ مصحف پر حلف اٹھانا حلف نہیں ہوتا اور شامی، قاضی خان، صاحب ہدایہ نے لکھ دیا ہے کہ سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے۔ حالانکہ ان بکواسات کا تعلق علم الکلام سے تھا جس سے امام اعظم ؒ نے توبہ کی تھی مگر پھر بھی وہی گمراہی ہے۔ پہلی وحی کاآغاز اقراء اور تعلیم بالقلم سے ہواتھا: والقلم ومایسطرون سے مصحف قرآن کا حلف معتبر ہے اور الذین یکتبون الکتاب بایدیھم سے واضح ہے کہ کتاب لکھی ہوئی چیزکا نام ہے۔
لکھا ہے کہ متواترکی قید سے غیر متواتر آیات نکل گئیں۔ جو قرآن پر اضافہ ہے۔ بلاشبہ سے بسم اللہ کے نکلنے کا ذکر ہے جس سے قرآن بلاشبہ نہیں رہتا۔ حالانکہ علم الکلام کو عمل دخل دینے کے بجائے کتاب کی تعریف میں آیات کا حوالہ دینا تھااور قرآن کی حفاظت میںآیات کا حوالہ دینا تھا جن میں کمی بیشی اور شک وشبہ کی گنجائش نہیں ۔ امام شافعیؒ کے ہاں خبرواحد حدیث دلیل ہے مگر مشہورو خبر واحد آیت کا وجود اسلئے نہیں کہ قرآن کی حفاظت پر پھر ایمان باقی نہیں رہتاہے۔ امام شافعیؒ نے اہل اقتدار سے ذلت اٹھائی ، ان پر رافضی کی تہمت لگائی گئی۔ امام ابوحنیفہؒ کوجیل میں زہر دیا اور ائمہ کرام کے نام لیواؤں نے بعد میں مزید غلو سے کام لیاہے۔
بنی امیہ کے دور میں ایک طرف اسلام پھیل گیا تو دوسری طرف سرکاری سرپرستی میں بعض مسائل میں جبر کی فضاء بنائی گئی، چنانچہ جہری نمازوں میں بسم اللہ پڑھنے کو حضرت علیؓ کی شدت سے منسوب کیا گیا۔ جو جہری نماز میں جہری بسم اللہ پڑھتے،وہ حکومت کے غدار سمجھے جاتے۔ اصولِ فقہ میں قرآن کی تعریف سے بسم اللہ کو اسلئے مشکوک بناکر خارج کیا گیا ہے۔ آج دور بدل چکاہے اگر ائمہ مساجد جہری نمازوں میں بسم اللہ جہر سے پڑھنا شروع کریں تو قیامت نہیں بہت بڑا انقلاب آئے گا۔
امام ابوحنیفہؒ سمیت تمام ائمہ کرامؒ نے قرآن کو پہلی ترجیح دی، جس کی وجہ سے وہ احادیث مسترد ہیں جن کی وجہ سے قرآن پر حرف آتا ہے۔ ابن ماجہ میں ہے کہ جب نبیﷺ کا وصال ہوا، تو 10آیات بڑے آدمی کا دودھ پینے کے حوالہ سے تھیں جن کو بکری نے کھا کر ضائع کردیا۔ اہلحدیث ان روایات کو بھی حدیث سمجھتے ہیں۔ انکے مسلک میں یہ ہے کہ بڑا آدمی اگر عورت کا دودھ چوس کر پی لے تو اس عورت سے وہ پردہ نہ کرے لیکن شادی کرسکتاہے۔اسی طرح وہ بچیوں کا ختنہ بھی مستحسن سمجھتے ہیں
جن احادیث سے قرآن کی تحریف کا عقیدہ پیدا ہوتا ہے ان پر ایمان رکھنے سے قرآن پر ایمان نہیں رہتا ہے۔ مسلمانوں کا یہی اعلان ہے کہ قرآن میں کسی حرف کی بھی تبدیلی نہیں آئی ہے تو اپنی تعلیمات کا نصاب بھی درست کرنا پڑے گا۔ قرآن میں وضاحت ہے کہ اللہ کے کلام پر باطل آگے سے حملے میں کامیاب ہوسکتاہے نہ پیچھے سے۔ بسم اللہ پرآگے کی طرف سے حملہ ہے، قرآن میں موجود ہے مگر نماز اور نصاب میں معاملہ مشکوک بنایا گیا۔
قرآن کی آخری دو سورتیں الفلق اور الناس کے بارے میں لکھ دیا گیا کہ عبداللہ ابن مسعودؓ نے اپنے مصحف میں نہیں رکھا، وہ اس کو قرآن میں داخل نہیں سمجھتے تھے۔ حالانکہ پہلے ہاتھ سے قرآن لکھا جاتا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا مصحف عرصے تک موجود رہا۔ پہلا اور آخری صفحہ پھٹ کر ضائع ہوگئے، جس طرح عام طور سے ہوتا ہے، جس نے دیکھ لیا تو اس نے یہی بات کردی کہ میں نے عبداللہ بن مسعودؓ کا مصحف دیکھا ، لیکن اس میں سورۂ فاتحہ اور آخری دو سورتیں نہیں تھیں۔ اگرچہ بعض نے یہ بھی لکھاہے کہ ابن مسعودؓسورہ فاتحہ کو بھی نہیں مانتے تھے مگر نماز کے اندر فاتحہ کی شمولیت سے یہ بات آسانی سے ہضم نہیں ہوسکتی تھی اسلئے آخری دو سورتوں پر حملہ کیا گیا تھا کہ حضرت ابن مسعودؓ ان کے منکر تھے۔ العیاذ باللہ، قائداعظم کا جنازہ علامہ شبیر احمد عثمانی نے پڑھایا ۔ تفسیر عثمانی میں بھی حضرت ابن مسعودؓ کی طرف سے ان آخری سورتوں پر شیطانی حملے کا ذکر ہے۔
علامہ غلام رسول سعیدی نے بھی اس پر تفصیل سے انتہائی نامعقول بحث درج کی ہے۔ دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث کو قرآن کے بارے میں اپنی غلط تعلیم کا خاتمہ کرنا ہوگا۔لوگ اسلئے علماء کے علمی معاملات سے دور بھاگتے ہیں کہ ان کو اپنے ایمان کی سلامتی بھی خطرے میں لگنے لگتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسولﷺ کی شکایت قرآن میں نقل کی ہے کہ قیامت کے دن فرمائیں گے کہ ’’ میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘۔
اللہ نے فرمایا کہ قیامت میں ہرشخص کو اسکے امام (سربراہ) کیساتھ بلایا جائیگا۔ یوم ندعوا کل اناس بامامھم بعض نے مغالطہ کھایا اور سمجھا کہ امہاتھم یعنی ماؤں کیساتھ بلانے کا ذکر ہے۔ چناچہ وہ حدیث بھی گھڑ لی کہ ’’قیامت میں سب کو ان کی ماؤں کے نام سے پکارا جائیگا لیکن حضرت عمرؓ بڑی غیرت والے ہیں صرف ان کو انکے باپ کے نام سے پکارا جائیگا۔
جب اصول فقہ میں قرآن کی تعریف میں علم الکلام کی گمراہی پڑھائی جائے گی۔ قرآن کے علاوہ بھی قرآن کا تصور پڑھایا جائیگا اور اس میں شک وشبہ کی تعلیم ہوگی تو ایسے قرآن کی طرف کون آئیگا جس سے الٹا انسان کا عقیدہ اور ایمان خراب ہو؟۔
قرآن کی تعریف میں سب سے پہلے قرآن کی آیات کے ذریعے کتاب کا معنیٰ درست کرنا ہوگا، پھر ان آیات کو درج کرنا ہوگا جن میں قرآن کی حفاظت کا ذکر ہے، ان روایات کو درج کرکے مسترد کرنا ہوگا جن سے تحریف کا عقیدہ پیدا ہوتاہے۔ یہ صاف ستھری ذہنیت علماء وطلبہ کو قرآن پر عمل کی طرف راغب کریگی۔ اصول فقہ میں ہے کہ قرآن الفاظ اور معانی دونوں کا نام ہے لیکن پھر امام ابوحنیفہؒ کی طرف یہ منسوب ہے کہ فارسی میں نماز پڑھنا جائز بلکہ افضل ہے۔ ایک طرف فقہ کی تعلیم میں فارسی میں نماز پڑھنے کا جواز لیکن دوسری طرف حضرت شاہ ولی اللہؒ پر فارسی ترجمہ کرنے پر کفر ، مرتد اور واجب القتل کے فتوے لگائے گئے جس کی وجہ سے دوسال تک ان کو روپوش ہونا پڑا۔ پھر جب علماء کو بات سمجھ میں آگئی، شاہ ولی اللہؒ کے بیٹوں نے اردو میں قرآن کے ترجمے کئے۔ علماء نے مختلف زبانوں میں قرآن کا ترجمہ کیا تو پنجابیوں اور پٹھانوں کے سنگم پر مشترکہ آبادی میں غرغشتو کے عالم نے پشتو میں قرآن کا ترجمہ کردیا تو ان پر فتوے لگائے گئے کہ پشتو میں ترجمہ کرکے کفر کیا ہے۔
جب علماء کرام کے نصاب میں ایسی تعلیم نہیں ہوگی جو طلبہ میں صلاحیت پیدا کرلے تو نالائق پیدا ہونگے اور کوئی لائق ہوگا تو اس کو بروقت پہچاننا مشکل ہوگا۔یہ مسئلہ حل طلب ہے۔ مولانا محمد خان شیرانی نے مجھ سے پہلے کہا تھا کہ ’’ آپ نصاب مرتب کرلیں تو میں مدراس میں پڑھانے کی ذمہ داری لیتا ہوں مگر مجھے ان کی بات پر یقین نہیں آیااور نہ ان کی اتنی حیثیت تھی اوراسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین بن گئے تو طلاق کے مسئلہ پر تفصیل بتائی ، اپنی کتاب پیش کی مگر ٹس سے مس نہ ہوئے۔ ایک موقع پر مولانا فضل الرحمن کے بھائی مولانا عطاء الرحمن اور قاری عثمان بھی تھے تو میں نے قرآن کی تعریف پر اصول فقہ کی تعلیم کا بتایا۔ مولانا عطاء الرحمن بنوری ٹاؤن میں فیل ہونے کی وجہ سے بھاگ گئے تھے۔ جبکہ میں شروع سے نصاب کی تعلیمات پر جاندار تنقید کرتا تھا۔
درسِ نظامی کی آخری تفسیر بیضاوی تھی جس میں لکھا ہے کہ ’’ الم کی مراد اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور یہ بھی کہا گیاہے کہ الف سے اللہ ، لام سے جبریل اور میم سے محمد مراد ہیں۔اللہ نے جبریل کے ذریعے یہ کتاب محمدﷺ پر نازل کی ‘‘۔ میں نے استاذ مولانا شبیر احمد رحیم یار خان سے کہا کہ اس تفسیر میں دو تضاد ہیں۔ پہلا یہ کہ جب صرف اللہ ہی کو پتہ ہے کہ الم سے کیا مراد ہے تو یہ کہنا غلط ہے کہ اس سے یہ مراد ہے اور دوسرا یہ کہ الف اللہ کا پہلا حرف اور مم محمد کا پہلا حرف ہے تو جبریل کا بھی پہلا حرف ہونا چاہیے تھا پھر الف جیم میم کیوں نہیں؟۔ استاد نے کہا کہ عتیق کی بات صحیح اور بیضاوی کی تفسیر غلط ہے۔
اصولِ فقہ کی کتاب ’’اصول الشاشی ‘‘ کا پہلا سبق ہے: حتی تنکح زوجاً غیرہ آیت میں عورت کی طرف نکاح کی نسبت ہے ، لہٰذا جس حدیث میں عورت کا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر باطل قرار دیا گیا وہ قرآن کی آیت سے ٹکراتی ہے، اس پر عمل نہیں ہوگا۔ حالانکہ قرآن میں طلاق شدہ کا ذکرہے، قرآن و حدیث میں ٹکراؤ نہیں ۔کنواری کا ولی باپ ہوتاہے، شادی کے بعد شوہر سرپرست بنتاہے، طلاق یا شوہرفوت ہو توعورت خود مختار بنتی ہے۔ وزیراعظم نے زیرِ کفالت افراد میں مریم نواز کا ذکر کیا۔ سپریم کورٹ میں یہ معاملہ زیرِ غور ہے۔ ولی اور مولا کے معنی دوست بھی ہیں اور سرپرست و صاحبِ اختیاربھی عورت کا ولی اس کا والد ہوتاہے یا شوہر ۔ اور دونوں کا تعلق منقطع ہوجائے تو پھر اس کو خود مختار کہتے ہیں۔ ولی کے معنی صرف دوست کے نہیں، قرآن میںیہود و نصاریٰ کو اولیاء بنانے سے روکا گیاہے تو اختیار دینا منع کیا گیاہے، دوستی سے نہیں روکا گیا ہے،والمحصنات من اہل الکتاب حل لکم اوراہل کتاب میں پاکدامن خواتین سے شادی کی اجازت ہے۔
یہود ونصاریٰ کی خواتین سے شادی کی اجازت ہے تو بیوی سے بڑھ کر دوستی نہیں ہوسکتی ہے۔ بیوی بچوں کی ماں ہوتی ہے، اس سے دشمنی تو نہیں کی جاسکتی ۔ دہشتگرد اسلئے مسلم حکمرانوں کو اسلام دشمن سمجھتے ہیں کہ ان کی عیسائی حکمرانوں سے دوستی ہے اور یہ انکے نزدیک قرآن سے بغاوت کا درجہ ہے۔ جب ہمارے علماء اور حکمران طبقہ اسلام کی بنیادی تعلیم سے بھی آگاہ نہ ہو تو اسکے نتیجے میں افراتفری کی فضاء کبھی بھی ختم نہیں ہوگی۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں ،کوئی پنڈورہ بکس نہیں کھلے گا۔ مشکل کو قابو کرنیکا درست راستہ علم ہے جہالت نہیں۔ حضرت علیؓ میں تمام صلاحیتیں تھیں اور نبیﷺ کے بعد انصار وقریش کی طرح خلافت کے حقدار ہونے کا معاملہ درست تھا۔ نبیﷺ کی چاہت بھی ٹھیک تھی لیکن یہ منشاء الٰہی نہیں تھی۔ پھر خلافت کے علاوہ مساجد، مدارس ، خانقاہوں پر بھی موروثی نظام کے اثرات مرتب ہوئے۔ خلافت راشدہ کو اللہ نے موروثیت کی بیماری سے پاک رکھنا تھا۔ تمام مذہبی سیاسی جماعتیں، چندہ سے بننے والے ٹرسٹ، مدارس اور سب چیزوں کو عوامی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اب تو پارٹیاں حکومتوں کو بھی اپنی وراثت بنانے میں مشغول ہیں۔ نواز شریف اور زرداری کے علاوہ دوسرے بھی ریاستی اداروں سے مل کر حکومتی کاروبارپر قبضہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
عدالت اس وقت نااہل تھی کہ جب آصف علی زرداری کو11سال جیل میں رکھا مگر چوری کا مال بھی نہیں پکڑ ا۔ اب تو اس میں اہلیت آگئی ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا اور تحقیقات کرکے کرپشن ثابت بھی کی جائے گی اور سزا بھی دی جائے گی۔ یہ بھی یاد رہے کہ ایسا بھی لوگ کرتے ہیں کہ بڑے غبن، چوری اور ڈکیٹی کے بعد کچھ عرصہ جیل جاتے ہیں وہ کاروبار ہی یہ کرتے ہیں۔ عدالت صرف اتنا بھی کرے کہ نوازشریف اور تمام ذمہ دار عہدوں پر رہنے والوں نے باہر اثاثے بنالئے ہوں تو ان کو جائز وناجائز کی بحث سے پہلے اپنی آل اولاد اور دولت سمیت اپنے ملک میں لانے پر مجبور کردے۔
سیاسی کارکن اور سیاسی رہنماؤں کو یہ بھی کر گزرنا ہوگا کہ موروثی قیادت اہلیت بھی رکھتی ہو تو قیادت کسی اور تجربہ کار اور اہل شخص کو سپرد کردی جائے۔ امریکہ میں ایک شخص دو مرتبہ سے زیادہ صدر نہیں بن سکتاہے تو ہمارے ہاں بھی نسل در نسل اس جہالت کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ استعداد والے لوگوں کی بہت حق تلفی ہوتی ہے۔ عمران کا ہسپتال بھی موروثی نہیں ٹرسٹی ہونا چاہیے، مدارس پر بھی موروثیت کا قبضہ ختم کرنا ہوگا اور اس بات میں تفریق ضروری ہے کہ جو ذاتی ملکیت ہوتی ہے وہ کیا ہے اور عوام کا چندہ لیکر بنانے والے اداروں کی حیثیت کیاہے؟۔ کسی آدمی نے اپنی زمین پر اپنے پیسوں سے مسجد بنادی توملکیت ختم ہوجاتی ہے، کانیگرم جنوبی وزیرستان میں میرے باپ دادا نے ایسا کیاہے لیکن اس کا اختیار عوام کے پاس ہے۔
جب انسان میں مفاد کا نہیں خدمت کا جذبہ ہوتاہے تو خدمت پر کوئی لڑائی نہیں ہوتی ہے۔ پیپلزپارٹی، ایم کیوایم اور ن لیگ جھاڑو لیکر صفائیاں شروع کردیں پھر دیکھیں کہ اس پر کوئی جھگڑا نہیں ہوگا۔ اس طرح ایم این اے، سینٹ، ایم پی اے، بلدیاتی اداروں کے کونسلر اور تمام ذمہ دار عہدوں وزیراعظم اور صدر مملکت خدمت کا جذبہ رکھ کر کام کریں تو بہتان تراشی اور اخلاق باختہ گالیوں کی نوبت نہیں آئیگی۔ ماتحت ملازم ڈیوٹی پر مجبور ہوتے ہیں لیکن بڑے گریڈ کے افسروں کو حکومت مجبور نہیں کرسکتی ہے۔ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ بہت اچھے انسان ہونگے مگر جب صوبائی حکومت کا اختیار بھی ہے اور وہ نہیں چاہتی ہے کہ آئی جی کے عہدے پر وہ کام کرے تو آئی جی کواس خدمت کی کرسی پر لات مارنا چاہیے۔ اس سے ان کی ذات اور عہدے کا وقاربھی مجروح ہورہا ہے۔
نوازشریف کیساتھ اگر اسٹیبلشمنٹ کی کوئی لڑائی ہے تو عوامی اختیار کیلئے حکومت سے زیادہ حکومت سے باہر رہ کر جدوجہد کا آغاز کیا جاسکتاہے۔ عہدے سے چپک جانے میں وہ عزت نہیں جو اس کو ٹھکرانے سے ملتی ہے۔ حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کو خلافت کی کوئی لالچ نہیں تھی ، ان کا دور بھی بڑے اطمینان سے گزرا۔ امام حسنؓ نے خلافت کی مسند چھوڑی تو اللہ نے عزت سے نوازا۔ جب اللہ تعالیٰ نے انسان پیدا ہی خلافت کیلئے کیا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ وہ ذمہ داری اٹھانے سے انکار کردے؟۔ انا عرضنا الامانت علی السمٰوٰت واالارض و الجبال فابین ان یحملنہا و اشفقن منھا وحملھا الانسان انہ کانا ظلوما جہولا ’’بیشک ہم نے امانت کو پیش کیا،آسمانوں زمین اور پہاڑوں پر مگر انہوں نے امانت اٹھانے سے انکار کردیا اور انسان نے امانت اٹھالی، بیشک وہ بڑا ظالم اور جاہل تھا‘‘۔ انسان کو مکلف بنایا گیاہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو اختیار دیا گیاہے۔ اختیار اس کی جبلت کا حصہ ہے، جتنا اختیار مل جائے اس کو پورا کرنے کیلئے بہت ساروں کی اگر کوئی دم ہوتی تو اٹھائے اٹھائے گھومتے کہ مجھے یہ اختیار چاہیے مگراللہ نے بنی نوع انسان آدم علیہ السلام کی اولاد پر کرم کیا اور عزت سے نوازا ۔ انسان کی عزت اور اختیار اسکے ہاتھ میں ہے اسلئے اللہ نے فرمایا کہ لایکلف اللہ نفس الا وسعہا لہا ماکسبت و علیھا مااکتسبت ’’ اللہ نے کسی نفس کو مکلف نہیں بنایا ہے مگر اسکے دائرے وسعت کے مطابق، پھر وہ اچھا عمل کرتا تو اس کو اجر ملتاہے اور برا عمل کرتاہے تو اس کی سزا بھگت لیتا ہے‘‘۔
اس آیت کا بھی غلط مفہوم نکالا گیا کہ اللہ کسی پر طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا ہے۔ حالانکہ اگلے جملے میں دعاہے کہ ہم پرہماری طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالنا۔ آیات کا غلط مفہوم مرتب کرنے پر ہماری قوم مشکلات کا شکار ہے۔ غریب و مظلوم طبقے انسانیت کے ظلم وجبر اور تشدد کا شکار بنتے ہیں تو کہا جاتاہے کہ اللہ نے جو بوجھ ڈال دیا ہے اس کو برداشت کرنا چاہیے۔
سابق ایم این اے صدیق کانجو کے بیٹے مصطفی کانجو نے بیوہ کے اکلوتے بیٹے کو نشے میں دھت ہوکر قتل کیا تو بیوہ نے سپریم کورٹ کے سامنے اپنی مجبوری بتائی کہ میری بیٹیاں ہیں ان کی عزتوں کو خطرہ ہے اسلئے کیس سے دستبردار ہورہی ہوں مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ ن لیگ کی حکومت کھڑی ہوجاتی اور بیوہ کو انصاف دلاتی تو مخلوقِ خدا خوش ہوتی، اللہ بھی راضی ہوجاتا۔ تحریک انصاف ، پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی سمیت کسی بھی سیاسی ومذہبی جماعت نے اس غریب بیوہ کا ساتھ نہیں دیا۔ طاقتور خاندانوں کے ذریعے جمہوری جماعتوں کو طاقت میں آنا ہوتاہے، اسلئے غریب اور مظلوم عوام بے بسی سے مظالم سہنے کا شکار رہتے ہیں۔
اصول فقہ کی ’’نورالانوار‘‘ میں ثلاثۃ قروء 3ادوار پر ریاضی کی غلط بحث کی گئی ہے۔ عدت کے 3ادوار کا تعلق طلاق کے 3مراحل سے کیسے بنتاہے؟۔ رسول اللہ ﷺ نے ابن عمرؓ پر ناراضگی کا اظہار کیا، اور قرآن میں عدت کے تین ادوار میں تین مرتبہ طلاق کے مراحل سمجھائے۔ اگر اس حدیث کو قرآن فہمی کیلئے بنیاد بنایا جاتا تو طلبہ، علماء، عوام کے دماغ کھل جاتے۔ حضرت عمرؓ نے اسلئے اپنے بیٹے کو خلافت کیلئے نااہل قرار دیکر فرمایا کہ’’ اس کو طلاق کا بھی پتہ نہیں تو خلافت کے امور کیسے چلائے گا‘‘۔علماء ہمیشہ سے نااہلی کا شکار اسی لئے رہے کہ طلاق کے مسئلے میں بھی مار کھاگئے تھے، وزیراعظم کو مریم نواز کے زیرسرپرستی کا پتہ نہ تھا تو کاروبارِ حکومت کیلئے ان کی اہلیت الیکشن کمیشن نے کیسے تسلیم کرلی؟، الیکشن کمیشن کے اس ذمہ دار عملے کوبرطرف کیا جائے تومیرٹ پر بھرتی کرنے کے موقع بھی پیدا ہونگے۔
ہاروت ماروت اور یاجوج ماجوج کاعجیب ذکر خیر
ہاروت ماروت اور یاجوج ماجوج کاعجیب ذکر خیر
یہ ضمیر کے سوداگرجادوگر کب ہونگے دنیا میں اجاگر
ہاروت ماروت فرشتے تھے جو لوگوں کو جھاڑ پھونک سکھاتے تھے، میاں اور بیوی میں جسکے ذریعے تفریق ہوجاتی اور وہ بتاتے تھے کہ ہم فتنہ ہیں اور اس کی تاثیر سے کسی کو نقصان نہیں پہنچتا مگر اللہ کے حکم سے۔ جن علماء نے قرآن وسنت کا تقاضہ سمجھ کر طلاق کے غلط تصورسے میاں بیوی میں جدائی کرائی، وہ محترم ہیں لیکن اگر قرآن وسنت میں ایسا نہ ہو اور حقائق واضح ہونے کے بعد بھی ناجائز تفریق اور حلالہ کا فتویٰ جاری رکھیں تو ایسی ہٹ دھرمی پر حکومت، اپوزیشن اور میڈیا اپنا کردار ادا کریں۔ جنگ گروپ کے مفتی حسام اللہ شریفی صاحب کی طرف سے طلاق اور حلالہ کے مسئلے پر وضاحتیں آچکی ہیں،اسلئے GEOپر یہ اہم مسئلہ ضرور اٹھایا جائے، تاکہ اخبارِ جہاں اور روزنامہ جنگ میں غلطیوں کا ازالہ ہوجائے۔ARY، آج، دنیا، بول، پاک، نیوز1،24، 92 ،DAWNودیگر چینلوں پر اس اہم ا یشو کو اٹھانے کی ضرورت ہے۔ علماء کرام نے پہلے تائید کرکے ثابت کیا کہ وہ بہت زیادہ قابل احترام ہیں۔
ہمیں کوئی شوق نہیں کہ بڑے علماء ومفتیان کی تذلیل کریں مگر جن خواتین کو ناجائز حلالے کے فتوے دئیے جاتے ہیں وہ ہماری مسلمان مائیں، بہنیں، بیٹیاں ہیں۔ ہماری غیرت گوارا نہیں کرتی کہ خاموش رہیں۔علماء کرام کو خاموشی کا روزہ توڑنے کی ضرورت ہے ورنہ ہم سپریم کورٹ کی عدالت میں فریق بناکر طلب کریں گے۔ دارالعلوم کراچی کے فتویٰ میں البقرہ:230 کا حوالہ ہے مگر متصل آیت:229 میں دو مرتبہ طلاق اور تیسری مرتبہ چھوڑنے کا بھی ذکرہے اورباہوش وحواس دونوں اور فیصلہ کرانے والوں کی طرف سے جدائی کی وضاحت ہے، عورت کی طرف فدیہ حلال نہ ہونے کے باوجوداس صورت میں جائز ہے کہ دونوں کو آئندہ رابطہ کرنے پر اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا خوف ہو۔ اس طلاق کا تعلق اس سے متصل صورتحال سے ہے ۔ علماء اللہ کے حدود کو توڑکر فتویٰ دیتے ہیں۔ آیات228اور231،232میں بھی عدت کے اندر اور عدت کے بعد باہمی رضا سے رجوع کی وضاحت ہے اور حدیث میں عدت کے اندر حلالہ کے انتظار کا فتوی نہیں۔
ایک طرف دارالعلوم کراچی کی شائع کردہ کتابوں میں شادی بیاہ میں لفافے دینے کی رسم کو سود اور اسکے 70سے زیادہ وبال اور گناہوں میں کم ازکم گناہ ماں کیساتھ زنا کے برابر قرار دیاگیاہے،جسکے خلاف انکے اپنے عقیدت مند بھی عمل پیرا ہیں۔ معروف تاجر محمود رنگون والا کے ہاں بھی یہ رسم جاری ہے، جہاں اشرف میمن کی مفتی رفیع عثمانی سے ملاقات ہوئی۔
دوسری طرف سارے مدارس والے موجودہ نام نہاد اسلامی بینکاری کو سود قرار دیتے ہیں لیکن یہ لوگ معاوضہ لیکر جواز کے فتوے جاری کئے ہوئے ہیں۔ ضمیر کے سوداگرجادوگر کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے یایہ سب کچھ اللہ پر ہی چھوڑدیں؟۔
شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی و مفتی اعظم مفتی رفیع عثمانی علم وسند کے اعتبار سے ماشاء اللہ دونوں کی شہرت خوب ہے۔ ہاروت و ماروت فرشتے ، جھاڑ پھونک سے ’’ میاں بیوی کے درمیان تفریق کرتے تھے، اللہ کی طرف سے وہ فتنہ تھے‘‘۔حلالہ کی ضرورت نہ ہوتو اسکی نشاندہی ضروری ہے۔ یاجوج و ماجوج کا کام یہ بتایاگیاہے کہ ہر بلندی سے پستی کی طرف آئیں گے سب چیزیں چٹ کر جائیں گے۔ اللہ نے کسی عالم کے بارے میں فرمایا ’’ اسکے پاس علم تھا ، اگر ہم چاہتے تو اس کو علم کے ذریعے بلندی وعروج کی منزل پر پہنچاتے مگر اس نے زمین کی پستی کو پسند کیا ۔ اس کی مثال کتے کی ہے ، اگرآپ اس پر بوجھ لاد دیں، تب بھی ہانپے اور چھوڑ دیں، تب بھی ہانپے ‘‘۔
اگر عالم دین اپنے علم کا درست استعمال کرے تو اللہ ترقی وعروج عطا فرماتا ہے اور جو بھی اپنے علم کا غلط فائدہ اُٹھاکر زمین کی زندگی کو دائمی سمجھ لیتاہے تو اس کی مثال پھر کتے کی طرح بن جاتی ہے۔ مذہب کوکاروباربنادیا جائے توچندہ، زکوٰۃ، صدقہ، خیرات، فتویٰ فروشی اور حلالہ کی لعنت کے ذریعے انسان ہر بلندی سے پستی کا سفر کرتاہے ،جو ہرچیز چٹ کرجاتاہے۔ یاجوج اور ماجوج کا کردار ان علماء کابھی ہوسکتاہے جن کا سفر بلندی سے پستی اور ہر چیز چٹ کرجانے کا ہو۔سنریہم آےٰتنا فی الآفاق و فی انفسہم عن قریب ہم اپنی نشانیاں آفاق اور انکے نفسوں میں دکھائیں گے۔ اللہ کی آیات آفاق اور انفس کی موجودہ دنیا میں ہم بھی پاسکتے ہیں۔
مولانا یوسف بنوریؒ نے فتویٰ فروشی اور مذہب کو کاروبار بناکر کسی مفاد کو ترجیح نہ دی ۔ مولاناسیدعطاء اللہ شاہ بخاریؒ ، مولانا الیاسؒ ، مولاناتھانویؒ ، مدنیؒ ، سندھیؒ ، کشمیریؒ ، شیخ الہندؒ گنگوہیؒ ، نانوتویؒ اورانکے مرشد حاجی امداد اللہ مہاجرمکیؒ سے اختلاف ہوسکتاتھا، انکا آپس میں بھی تھا مگرانکے خلوص وایمان پرخود غرضی و دنیا طلبی کی تہمت نہیں لگائی جاسکتی ۔ مذہب فروشوں کو ا نکے بلند مقام کی جانشینی کا دعویٰ نہیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔ کہاں وہ اللہ والے ؟، کہاں یہ مفاد پرست؟۔ مؤمن کاتعارف یہ ہے: ان اللہ اشتریٰ من المؤمنین انفسہم واموالہم بان لہم الجنۃ ’’بیشک اللہ نے مؤمنوں سے جنت کے بدلے ان کی جانیں اور اموال خرید لئے‘‘ وہ مذہبی طبقے جو اپنی جان و مال کے بدلے اللہ سے جنت کا سودا کئے بیٹھے ہوں، انکا ادراک کرنامشکل کام نہیں۔ صحابہؓ ، علماء ومشائخ ؒ اور مجاہدینؒ کی قربانیوں سے تاریخ بھری پڑی ہے دوسرا وہ مذہبی طبقہ ہے جس کا یاجوج ماجوج کی طرح عروج سے پستی کاسفر تھا: ولاتشتروا بآےٰتی ثمناً قلیلاً وایای فاتقون۔’’ اور میری آیتوں کو تھوڑی سی قیمت کے بدلے مت بیچواور مجھ سے ڈرو‘‘۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کی تجدید واحیائے دین میں مدارس، خانقاہوں اور تبلیغی جماعت کے کردار کو دنیا نظر انداز نہیں کرسکتی لیکن کیا یہ سب کچھ اسلئے تھا کہ بڑی داڑھیاں رکھ کر، مذہبی لبادے اور عالیشان مذہبی عمارتیں بناکر دین کی حفاظت ، عوام کی عزتوں کی حفاظت اور اپنی آخرت کی حفاظت کے بجائے اپنے پیٹ کی آگ بجھائیں؟۔ اور جہنم کی طرح ہل من مزید ’’کیامزید بھی ہیں‘‘کی آواز لگائیں؟۔چندہ کی بے تحاشا مہم سے یاجوج ماجوج کا منظر دکھائی دے، غریب و مستحق عوام تک خیرات، صدقہ ، فطرہ اور زکوٰۃ کی رقم نہ پہنچے؟ ۔ یہ بلندی نہیں پستی کا سفر ہے، اُوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اپنے لئے مانگنا بھی برا ہے تو دین کے نام پر دنیاوی مقاصد حاصل کرنا زیادہ بدتر ہے بنوری ٹاؤن کے افتتاحی تقریب میں کہا جاتا ’’ دنیا کو دنیا کی راہ سے حاصل کرنا برا نہیں۔ دین کو دنیا کا ذریعہ بنانا بہت برا ہے۔ طلبِ دنیا ہو تو مدرسہ چھوڑ دو۔‘‘
حاجی عثمانؒ کے مرید وں کا آپس میں بھی نکاح پر فتوی پوچھاگیاتو جامعہ بنوری ٹاؤن نے فتویٰ دیاکہ ’’منسوب باتیں غلط ہیں تو فتویٰ نہیں لگتا، نکاح تو بہر حال جائز ہے‘‘۔ مفتی عبدالسلام چاٹگامی اور مفتی ولی حسن ٹونکیؒ کے تائیدی دستخط تھے۔ دارالعلوم کراچی سے سوال تھا کہ نکاح منعقد ہوجائیگا یا نہیں؟۔ مفتی تقی عثمانی ورفیع عثمانی نے لکھا ’’ نکاح منعقد ہوجائیگا،مگربہتر ہوگا کہ انکے بارے میںآگاہ کردیں‘‘۔ مفتی رشیداحمد لدھیانوی کے ہاں سے سوال جواب ایک ہی قلم سے لکھا گیا کہ’’ اس نکاح کا انجام کیا ہوگا؟ عمر بھر کی حرامکاری اور اولاد الزنا‘‘۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکیؒ نے سابقہ فتوے کیخلاف دستخط کردئیے جو ایک مجذوب و معذور شخصیت تھی اور مفتی تقی عثمانی و رفیع عثمانی نے لکھ دیا کہ’’ نکاح جائز نہیں ،گو منعقد ہوجائے‘‘۔ میں نے دارالعلوم کراچی میں نماز مغرب اور جامعہ بنوری ٹاؤن میں نمازِ عشاء کے بعد اعلانیہ فتویٰ چیلنج کیا۔ تبلیغی جماعت کی تربیت نے اعلان اور مجدد ملت حضرت حاجی عثمانؒ کی صحبت نے ایمان سکھا یاتھا ۔ جائز نکاح کو حرامکاری کہا جائے تو جسکے سینے میں دل ہو وہ کتنا تڑپ اُٹھے گا؟۔ ایک خاتون نے بارگاہ رسالت ﷺ میں جرأت کرکے مجادلہ کیا تو وحی کے ذریعے فتوے کی دنیا میں ایسا انقلاب آیا جو قیامت تک قرآن کے سینے (28پارہ سورۂمجادلہ)میں وضاحت کیساتھ محفوظ رہے گا۔ بے خبر علماء ومفتیان! اس کو ذرا دیکھ لیں۔
سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے فرمایا:’’ جان پر آئے تو مال کی قربانی دیدو۔جان سے زیادہ مال قیمتی نہیں مگرعزت جان سے بھی زیادہ اہم ہے۔ عزت کیلئے جان اور مال دونوں قربان کردو۔ معاشرتی اقدار یہی ہیں کہ عزت پر جان کی بھی بازی لگائی جائے۔ ایمان کا درجہ سب سے اُونچا ہے، جب ایمان پر بات آئے تو جان، مال اور عزت سب کو ایمان پر قربان کیا جائے‘‘۔یہی دستور ہے ورنہ اوندھے منہ نماز میں رکوع اورسجدے بہت مشکل ہوتے۔
طالبان ، القاعدہ، لشکر جھنگوی، داعش اور ساری انتہاپسند تنظیموں کیلئے یہ اقوال زریں کا بہت بڑا اثاثہ ہے جس کا ذکر قرآن میں بھی جابجا ہے، ایمان کیلئے ایک خود کش حملہ آور اپنی جان کی بازی اسی لئے لگاتاہے کہ ایمان سے زیادہ قیمتی چیز کا کوئی تصور نہیں۔ ایک نوجوان شادی شدہ کا سال، ڈیڑھ کیلئے تبلیغی جماعت میں جانا خود کش حملے سے زیادہ مشکل کام ہے لیکن وہ اپنے ایمان کیلئے یہ قربانی دیتاہے اور دنیا ومافیہا کو چھوڑ کر مذہبی علوم کی خدمت اور صوفیانہ روحانی ماحول کیلئے وقف ہوجانا تبلیغی جماعت میں سال اور ڈیڑھ سال لگانے سے بھی زیادہ بھاری اور دشوار کام ہے۔ مذہبی لوگ اپنے تئیں جو جان ومال اور وقت کی قربانیاں دیتے ہیں وہ یقینابہت زیادہ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ ان کے پاؤں کی گرد کو خاکِ شفاء سمجھ کردھو کرپیا جائے تو بڑی سعادت ہے ، وہ سفلی جذبہ سے انسان کو پاک کرکے بلند وبالا مقام تک پہنچادیتے ہیں۔
اللہ انسان کو احسن تقویم کا اعزاز دینے کے بعد اسفل السافلین کے نچلے درجہ پر پہنچا دیتاہے مگرایمان وعمل صالح بچنے کا ذریعہ ہے لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم ثم رددناہ فی اسفل سافلین الا الذین امنوا وعملوا الصالحات فلھم اجر غیر ممنون فما یکذبک بعد بالدین أالیس اللہ باحکم الحاکمین
انسان اپنے مذہبی طبقات ہی کے ذریعے ممکن سمجھتا ہے کہ ایمان و عمل صالح کی دہلیز پر پہنچ کرنچلے درجے کی انسانیت اور ہمیشہ کیلئے جہنم سے وہ اپنے رہنماؤں کی بدولت ہی بچ سکتاہے۔ایمان کی دولت سے زیادہ قیمتی سوغات کا تصور کوئی مذہبی طبقہ نہیں رکھتا ہے۔
خود کش حملہ قربانی ہے، اس سے بڑھ کر قربانی یہ ہے کہ نوجوان بیوی بچوں کو چھوڑ کر سال ، ڈیڑھ کیلئے تبلیغی جماعت میں نکلے اور اس سے بڑی قربانی یہ ہے کہ کوئی اپنی دنیا کو قربان کرکے علم وتصوف کیلئے ہی وقف ہو۔ جان دینا شہید کی قربانی اور جان کھپانا صدیق کی قربانی ہے ۔ انبیاء کرام ؑ کے بعد صدیقین و شہداء اور صالحین کا درجہ ہے۔ صالحین بہت ہیں لیکن صدیقین اور شہداء کا درجہ کسی کسی خوش قسمت اور بڑے نصیب والے کو ہی ملتاہے۔ صالح بندوں سے محبت رکھنا بھی ایمان کی علامت ہے۔ عربی شاعر نے خوب کہا ہے کہ
اُحب الصالحین ولست منھم
لعل اللہ یرزقنی صلاحا
’’ میں نیک لوگوں سے محبت رکھتا ہوں مگر خود ان میں سے نہیں ہوں۔ ہوسکتاہے کہ اس کی برکت سے اللہ میری اصلاح کردے‘‘۔ اصلاح کوئی معمولی بات نہیں ۔ حدیث کے حوالہ سے علماء نے لکھا کہ ’’ اللہ امام مہدی علیہ السلام کی اصلاح ایک رات میں فرمادیگا‘‘۔ اہل تشیع اور اہل سنت کے مذہبی طبقوں سے معذرت کیساتھ وہ کونسی قربانی ہوسکتی ہے جو علماء ومشائخ، صالحین، مجاہدین، شہداء اور صدیقین سے بھی بڑھ کر ہو؟، اپنے گریبان اور بند قباؤں کو چاک کرکے دل پر ہاتھ رکھ کر بتاؤ کہ ایک تبلیغی جماعت کا کارندہ نصاب کے مطابق زندگی بھر اپنے معمولات جاری رکھے تو یہ بڑی ہے یا یہ بڑی قربانی ہے کہ یکم دم تین طلاق دینے پراپنے بچوں کی ماں کو ایک رات، ایک گھنٹہ اور ایک لمحہ حلالہ کی غرض سے پیش کردے؟۔ ایک مجاہد جان کی قربانی دیکر بڑی قربانی دیتاہے یا اگر وہ حلالہ کیلئے اپنی ماں کو پیش کردے؟ اور ایک عالم ومفتی اور شیخ الطریقت زندگی وقف کرنے سے بڑی قربانی دیتاہے یا یہ کہ اس کی بال بچوں والی بیٹی کو ایک رات کیلئے حلالہ کی لعنت کا سامنا کرنا پڑے تو بڑی قربانی ہے؟۔ لوگ ایمان کی خاطر حلالہ کی قربانی تک دیتے ہیں لیکن عزت دیکر اجر وثواب کے مستحق بنتے ہیں یا لعنت ملامت اور دنیا و آخرت کی تباہی مول لیتے ہیں؟؟؟۔ جسکے پاس ضمیر، غیرت اور عزت نام کی کوئی چیزہو، وہ بغیر جواز کے حلالہ کا کبھی کوئی فتویٰ دینے کا تصور نہیں کرسکتا لیکن جس نے ضمیر کھودیا ہو اس کا کچھ نہیں کہہ سکتا۔
ایمان کیلئے عزت کی بڑی قربانی دیکر بھی ایمان محفوظ رہ سکتاہے تو ضرور فتویٰ دیجئے۔
دارالعلوم کراچی کے محمود اشرف عثمانی نے فتویٰ میں اضافہ کیا کہ ’’ ورنہ نکاح ممکن بھی نہیں ‘‘۔ یہ واضح ثبوت ہے کہ علمی صلاحیت سے محروم جدی پشتی جاہل طبقہ تیسری نسل میں یہانتک پہنچ چکاہے کہ ممکن و ناممکن نکاح اور الفاظ و جملے کی تمیز سے بھی عاری ہے۔حلالہ سازشی نکاح ہے، دیگر مسالک اسکے ذریعے حلال ہونے کے قائل نہیں مگر حنفی مسلک کی خاص رعایت سے نکاح بہرحال نکاح ہے، سازشی ہو یا مستقل؟۔ بعض عدت کی شرط کا لحاظ رکھے بغیر نکاح ودخول کے ذریعے حلالہ کردیتے ہیں تو حنفی اصولوں سے جاہل علماء ومفتیان کا طبقہ یہ نہیں مانتا، حالانکہ نکاح کی قیدبھی محض تکلف ہے اسلئے کہ حنفی مسلک میں زنا بھی نکاح ہے۔ نکاح کیلئے سازشی گواہ اور سازشی ملا کی ضرورت نہیں۔ رسول ﷺ نے نکاح کا اعلان دعوت ولیمہ سے کیا،(بخاری) علامہ ابن رشدؒ نے کتاب ’’ بدایۃ المجتہد نہایۃ المقتصد‘‘ میں لکھاہے کہ امام حسنؓ کے نزدیک نکاح کیلئے گواہ شرط نہیں۔ البتہ اس کا اعلان ضروری ہے، حضرت ابن عباسؓ نے حدیث روایت کی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ’’ نکاح کیلئے دوعادل گواہ مقرر کردو‘‘۔ حنفیوں کے نزدیک یہ خبر واحد حدیث معتبر نہیں ہے۔ نکاح کیلئے دو فاسق گواہ بھی کافی ہیں۔ قرآن و حدیث کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے؟۔ جبکہ قرآن میں عدت کی تکمیل پر دو عادل گواہوں کا حکم ہے ۔ جو کوئی خبر واحد حدیث بھی نہیں مگر حلالہ کی لعنت کے خاتمے کیلئے قرآن کو معتبر کہا تو اپنے آباء اجداد کے کرتوت کا کیا بنے گا؟۔
فقہ کی کتابوں میں اس پر بحث ہے کہ اگر عدت میں عورت نے شادی کرلی اور دوسرے نے بھی طلاق دیدی تو عورت کی عدت ایک ہوگی یا دو عدتیں گزارنی پڑیں گی؟۔ہم حلالہ کا وہ شرعی مسئلہ فقہ کی کتابوں سے ثابت کرینگے کہ عدت وانتظار کی بھی کوئی ضرورت نہ ہوگی، لیکن جب قرآن وسنت میں حلالہ کے بغیر بھی رجوع کرنے کی نہ صرف گنجائش ہو بلکہ اس کی بار بار وضاحت کی گئی ہو تو حلالہ کا فتویٰ دینا بڑا سخت جرم ہے۔ ہم نے کتاب ’’ابر رحمت‘‘ اور ’’تین طلاق کی درست تعبیر‘‘ میں تفصیل سے وضاحت کردی۔ پھرکتابچہ ’’ تین طلاق سے رجوع کا خوشگوار حل ‘‘ بھی پیش کردیا ہے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے مظفر گڑھ کے واقعہ پر ازخود نوٹس لیامگر حلالہ پنچایت کے فیصلے سے زیادہ سنگین ہے۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں بینچ نے ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے فیصلہ دیا ’’ طلاق کا تعلق الفاظ سے نہیں بلکہ باقاعدہ پراسیس مکمل کرکے طلاق دی جاسکتی ہے، لہٰذا بیوی کو خرچہ دیا جائے‘‘۔ سورۂ طلاق میں بھی پراسیس مکمل کرکے دوعادل گواہوں کومقرر کرنیکا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ دنیا کو ہماری ریاست کی جہالت کا کیسے پیغام جاتاہے کہ خرچہ کیلئے برسوں سے طلاق معتبر نہیں مگر ریاستی نظام ایسا ہے کہ قرآن وسنت کے خلاف جاہل مفتیوں کو جاہل عوام کی عزتیں لوٹنے کیلئے کھلا چھوڑ دیاہے؟۔ دارالعلوم کراچی کا یہ فتویٰ قرآن وسنت کیساتھ تودجل ہے ہی، علاوہ ازیں سپریم کورٹ کے فیصلے کی بھی توہین ہے۔ مذہبی جماعتیں ، مدارس، عدالتیں ،عوام جب تک حلالہ کی لعنت سے چھٹکارا نہیں پالیتے ہیں ، ان میں کوئی غیرت نہیں جاگ سکتی ہے۔ میڈیا چینل پر بھی اس کو اہمیت نہیں دی جاتی ہے، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اخبار جہاں جنگ گروپ کے مفتی حسام اللہ شریفی مدظلہ کی طرف سے حلالہ کی مخالفت کے باوجود جنگ و جیو والے ان کو اجاگر نہیں کرتے ہیں۔ میڈیا کی شامت اسی وجہ سے آسکتی ہے۔ ہر دم بک بک کرنیوالے میڈیا کو فرصت نہیں۔
پنچایت کا 17 سالہ لڑکی کے ریپ کے فیصلے سے بدتر حلالہ کے فتوے ہیں. عتیق گیلانی
درجہ بالا تصویر میں مظفر گڑہ کا واقعہ ہے، 17سالہ لڑکی سے پنچایت نے بطور بدلہ ریپ کا فیصلہ کیا، چیچہ وطنی میں بھی 14سالہ لڑکی کا نکاح اس شخص سے بدلے میں کروایا جس کی بیوی سے زیادتی کی گئی۔ بادی النظر میں پنچایت کے فیصلے کا انسانیت کی توہین ہونا روزِ روشن کی طرح واضح ہے مگر اس کی وجوہات تک پہنچنا بھی ضروری ہے کہ آخر انسانیت کی روپ میں اتنا بڑا ظلم پنچایت کے فیصلے میں کیسے ممکن ہے کہ ایک انسان کے جرم کی سزا دوسری بے گناہ خاتون کو دی جائے؟۔
شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی اور مولانا فضل الرحمن کو میڈیا میں چیلنج دیتا ہوں کہ قرآن و سنت ،درسِ نظامی اور فقہ حنفی کی واضح تعلیمات کے مطابق ایک ساتھ تین طلاق کے باوجود باہمی رضامندی سے رجوع کی گنجائش ہے حلالہ کی نہیں لیکن پھر بھی حلالہ کا ناجائز فتویٰ دیا جاتاہے۔ جو معاشرہ قرآن اور سنت کا پابند ہو ، پاکستان کے آئین میں بھی اس کی وضاحت ہو اور قرآن وسنت میں بار بار باہمی رضامندی سے رجوع کا حکم دیا گیا ہو مگر قرآن وسنت واضح ہوجانے کے بعد بھی کوئی ہٹ دھرمی پر قائم ہو اور جاہل لوگوں کو حلالے کا فتویٰ دے تو اس کا کیا علاج ہونا چاہیے؟۔ برما کے مظالم پر آواز اٹھانے والے یہ نہیں جانتے کہ دارالعلوم کراچی سے عزت کی تباہی کا سلسلہ کیوں نہیں رک رہاہے؟۔ مولانا فضل الرحمن قرآن اور سنت کے علاوہ عزتوں کو تحفظ دینے میں اپنا کردار ادا کرے، چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب اور جسٹس آصف سعید کھوسہ حلالے کے گھناؤنے فتوؤں کا نوٹس لیں۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی آیاہے کہ’’ طلاق کا تعلق الفاظ نہیں پراسیس کیساتھ ہے‘‘۔ یہ دین، انسانیت اور سپریم کورٹ کی بھی توہین ہے۔
جاوید غامدی کا بیان قرآن نہیں بکواس ہے. اجمل ملک
نوشتۂ دیوار کے ایڈیٹر محمداجمل ملک نے کہا ہے کہ ہماری کوشش ہے کہ کسی طرح سے حقائق واضح ہوجائیں۔ مساجد کے علماء کرام جو درسِ نظامی کے فاضل ہوتے ہیں،ان کو حق بات کا اعتراف کرنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی۔اسکے برعکس مذہب کے نام پر اپنی دکانیں چمکانے والوں نے بھی لگتاہے کہ مذہب کو معاش کا ذریعہ بنالیا۔اجمل ملک نے جاوید غامدی کے ویڈیو لنک کے ذریعے بیان کا تعاقب کرتے ہوئے پڑھے لکھے جاہلوں کو اس حقیقت سے آگاہ کرنے پر زور دیاہے کہ جاوید غامدی کو ہماری میڈیا میں بڑی حیثیت دی جاتی ہے۔ قرآن پر اسکی معلومات کو سند سمجھا جاتاہے مگر اسکا بیان حقیقت کے کس قدر منافی ہے کہ ’’اور میں محض تفنن طبع کیلئے نہیں کہہ رہا ۔قرآن مجیدکہتا ہے تلک ایام ندالہا بین الناس ہم دنیا کے اقتدار کو ایک لائن میں کھڑا کرکے ایک کے بعد دوسری قوم کو دے رہے ہیں۔ یہ آخری زمانہ ہے، قرآن نے بتایا ہے کہ حضرت نوحؑ کے تیسرے بیٹے یافس کے پاس حکمرانی ہوگی۔ پہلے انکے پہلے بیٹے حام کی نسلوں افریقی اقوام کے پاس حکمرانی رہی۔ دوسرے دور میں دوسرے بیٹے سام سمیٹک نیشن کے پاس اقتدار رہاہے اور اب یہ یافس کی اولاد ہے جو امریکہ آسٹریلیا ، یورپ،وسط ایشیاء میں اور ہندوستان میں بڑی حد تک آباد ہیں۔ تو اللہ نے اپنے اسٹیج پر اب ان کو موقع دے رکھاہے، مسلمان قومیں اپنا وقت لے چکی ہیں،یہ آپکے سوال کے ایک حصے کا جواب‘‘۔
جاوید غامدی کو ہم سازشی ، ایجنٹ اور دغا باز نہیں کہتے۔ ریٹائرڈ کی عمر تک پہنچنے کے بعد اچھے اچھوں کی دماغی صلاحیت بھی ختم ہوجاتی ہے۔ یہ قرآن ہی کی بات ہے۔ اگر دنیا میں ہندوؤں کو بھرپور غلبہ ملتا تو پھر جاوید غامدی یہ بھی کہتا تھا کہ حضرت نوحؑ کا جو بیٹا کنعان دریا میں غرق ہوا تھا، یہ ہندو اسی کی اولاد ہیں ، جس کی نئی جنم سے اللہ نے اقتدار کا وعدہ پورا کردیا، یہ قیامت تک اقتدار میں رہیں گے، ہم اچھوتوں کا کام یہ نہیں کہ اقتدار کی منزل تک پہنچیں بلکہ ہم اپنے نام کیساتھ عربی قبیلہ غامدیہ کی طرح غامدی لگادیں اس سے زیادہ کچھ نہ ہوگا۔یہ پست ذہنیت کی علامت ہے۔
جہاں تک قرآن کی بات ہے تو نوحؑ کی اولاد میں نمایاں حضرت ابراہیم ؑ تھے، جن کی اولاد کیلئے امامت کی دعااور ظالم نہ ہونے کی شرط پر دعا کی قبولیت کا ذکر قرآن میں ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کے ایک بیٹے اسحاقؑ سے بنی اسرائیل تھے، یوسف ؑ کو بھی اقتدار ملا تھا۔
حضرت داؤدؑ اور حضرت سلیمانؑ کو اقتدار ملا تھا اور قریش مکہ نبیﷺ کی بعثت ہوئی ، دنیا کی سپر طاقتوں کو خلافت نے شکست دیدی تھی اور یہ سب حضرت ابراہیمؑ کی اولاد تھے۔ایک بادشاہ جو لوگوں سے زبردستی بیوی چھین لیتاتھا وہ حضرت نوحؑ کے کسی اور بیٹے کی اولاد تھا۔ جواہل فرعون بنی اسرائیل کے مردوں کو ذبح کرتے تھے وہ کوئی اور نسل تھی۔ بنی اسرائیل کو بنی اسماعیل سے بھی جدا کرنا بھی غلط ہے۔
کوئی جھوٹ بولے تو بھی کسی ڈھنگ سے بولے۔ مذہب ایک ایسا حربہ ہے کہ اس میں جھوٹ کی بھی کوئی حد اور ڈھنگ نہیں۔ جاوید غامدی کا بے ڈھنگے جھوٹ میں اس طرح بڑی ڈھٹائی سے اظہار اور میڈیا کا اس کو کوریج دینا انتہائی افسوسناک ہے۔ سیاسی لوگ بے ڈھنگے لگتے ہیں جب سندھی اجرک، بلوچی وپٹھانی پگڑی اور چترالی ٹوپی عوام کو مانوس کرنے کیلئے پہنتے ہیں۔ شہباز شریف پیٹرول کی آگ میں جلنے والوں کے پاس بھی انگریزی ہیڈ پہن کر اسلئے گیا کہ جاویدغامدی کے بیان سے خود کو یافس کی اولاد سمجھتا ہوگا۔ مریم نواز بھی کہتی ہے کہ ’’ ہم حکمران خاندان ہیں‘‘۔
جاوید غامدی نے مزید کہاہے کہ ’’پاکستان پر اللہ نے جن کو حکومت کیلئے منتخب کیاہے۔ وہ تین چار سو خاندان ہیں اور ان کی اولادہیں۔ ایک لمبے عرصے تک یہی رہنا ہے، جب تک ایجوکیشن نہیں بڑھے گی، بہت سے حالات نہ ہونگے تو کوشش کریں کہ یہ کچھ تھوڑے دیندار ہوجائیں، کچھ اخلاقی چیزوں کو مان لیں، لیکن لوگ الٹی کوشش کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ مسجد کے مولوی کو ایوانِ اقتدار میں پہچانا ہے‘‘۔
حالانکہ جاوید غامدی یہ سب کچھ غلط بول رہا ہے۔ مفتی محمودصاحب مسجد کے مولوی تھے مگر اپنی صلاحیتوں سے وزارت اعلیٰ کے منصب پر پہنچ گئے، نوازشریف کا باپ صنعتکار تھااگروہ جنرل ضیاء الحق کی ڈکیٹیر شپ کا سہارا نہ لیتا تو اقتدار کی اہلیت بھی اس میں نہیں تھی، آج بھی اس سے لوٹی ہوئی دولت واپس لی جائے تووہ اور اس کی اولاد اور خاندان میں کچھ صلاحیت نہیں ہے۔جنرل ضیاء الحق، پرویزمشرف اور بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح وغیرہ کا کونسا اقتدار والا خاندانی بیک گراؤنڈ تھا؟۔
جاید غامدی قرآن اور جمہوریت کے نام پر درس دینے کے بجائے پہلے اپنے دماغی علاج کا کوئی بندوبست کریں۔ قرآن اور تاریخ کی موٹی موٹی باتوں کا بھی اس کو علم نہیں ہے اور جمہوریت سے بھی واقف نہیں۔ کسی ادارہ میں پروفیسری کی اور پھر شاید ریٹائرمنٹ کا دکھ لیکر بیٹھ گئے۔ قرآن کہتاہے کہ انسان ایسی عمر کو پہنچ جاتاہے کہ جب وہ علم کے بعد کچھ نہیں سمجھتا۔ ومنھم من یرد الی ارذل العمر لکی لا یعلم بعد علم شئیاً ’’ اور ان میں سے بعض اس رذیل عمر تک پہنچتے ہیں کہ علم کے بعد کچھ سمجھ نہیں رکھتے‘‘۔ افراد ریٹائر ہوتے ہیں، مر جاتے ہیں اور نیست ونابود ہوجاتے ہیں مگر قوموں کے عروج وزوال کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہتاہے جبتک دنیا میں موجود ہوں۔ قرآن مایوس لوگوں کو کافر قراردیتا ہے قرآن مردہ قوموں کو زندگی کی نعمت عطا کرتا ہے، قرآن گری ہوئی قوموں کو عروج بخشتا ہے ۔قرآن دنیا وآخرت کی کامیابی کا ضامن ہے۔ قرآن اللہ پر ایمان دیتا ہے، قرآن موسیٰ کو فرعون سے ٹکرانے کی دعوت دیتاہے تاکہ بنی اسرائیل کو غلامی سے بچائے ، ظالموں کے سامنے لیٹنے کی دعوت قرآن نے نہیں دی ہے، قرآن نے مکہ مکرمہ کے غلاموں حضرت بلالؓ وغیرہ کو ابوجہلوں اور ابولہبوں سے ٹکرایا تھا۔
بدر واحدکے غزوے اور صلح حدیبیہ کا معاہدہ گواہ ہے کہ جاوید غامدی پرلے درجہ کا جاہل ، مکار اور بکواسیہ ہے۔ اگر حکومت اسکے ساتھ ملی ہوئی نہ ہو تو میڈیا پر اس سے درست وضاحت طلب کی جائے، اگر وہ معذور ہو تو یہ غلط درس دینے سے توبہ کرلے۔اس دور میں اسلام کو اجنبیت سے نکالنا مسائل کا حل ہے۔
مذہبی سیاسی اسلامی منشور ایک ایسی تحریک کی بنیاد بن سکتا ہے…..
مذہبی سیاسی اسلامی منشور ایک ایسی تحریک کی بنیاد بن سکتا ہے جس کی تاثیر سے بنگلے والے اور جھونپڑی والے برابر برابر اپنے معاشرتی اور معاشی مسائل قرآن و سنت کے عین مطابق حل کریں جو آنے والے الیکشن میں نئے چہروں کے ساتھ نہ صرف پاکستان اور اسلامی دنیا بلکہ مشرق، مغرب، شمال، جنوب تک ایسی تبدیلی کا پیش خیمہ ہو جس سے اہل آسمان و زمین خوش ہوں۔
جسٹس کھوسہ نے ٹھیک کہا کہ قانون گدھا ہوتاہے مگر جج گدھا نہ بنے، بشیر نور
جسٹس کھوسہ کے اس فیصلے پر ن لیگ نے مٹھائیاں بھی بانٹیں تھیں۔ جن چینلوں اور صحافیوں نے نوازشریف کی وکالت کا ٹھیکہ اٹھا رکھاہے ان کی ساری محنت کا محور روزی روٹی حلال کرنے کے گرد گھومتی ہے۔ عورت ایک ماں، بہن، بیوی، بیٹی اور تمام رشتوں کے علاوہ کوئی رشتہ نہ بھی ہو تو بہت ہی قابلِ احترام ہوتی ہے۔ وہ جس کنڈیشن میں بھی ہو مرد کیلئے اس کو نگاہِ بد سے دیکھنے کا کوئی واز نہیں ہے اور اس کو خود بھی اپنے ناگفتہ بہ لباس کے باوجود یہ حق پہنچتاہے کہ کوئی نظر گاڑھ کر دیکھے تو اس کو برا لگے مگر جب دعوتِ گناہ اس کا پیشہ بن جائے تووہ عزت کھو دیتی ہے، وکالت کا پیشہ ہی ایسا ہے کہ سلمان راجہ اور اعتزاز احسن جیسے قابلِ احترام شخصیات بھی نواز شریف کے کیس میں90 کے زوایے سے گھوم جاتے ہیں، سیاست میں پارٹی بدلنے پر بھی ایسا ہوتاہے جن کا صحافی لطف اٹھاتے ہیں مگر صحافیوں کا پیشہ بالکل جداہے۔ انہیں یہ اجازت نہیں کہ جانبداری کریں۔ گدھے کو جعلی ڈگری مل سکتی ہے ، پیسوں کے زور پر گدھا منتخب ہوسکتا ہے۔وزیراعظم بن کر گدھا عدالت سے کہے کہ مجھے تم نااہل نہیں کر سکتے تو یہ ڈھینچو ڈھینچو سے ججوں کو ڈرانا ہوگا۔ عدالت نااہل قرار دے اور وہ زور دار ہوا خارج کرکے کہے کہ میرے ساتھ زیادتی ہے تو گدھا آخر گدھا ہی ہوتا ہے، قرآن نے کس کی مثال گدھے سے دی جس نے کتابیں لاد رکھی ہوں۔ الیکشن کے فارم میں نواز شریف نے تین زیرکفالت افراد کا ذکر کیا۔ کلثوم ، مریم،وہ خود۔ کیاالیکشن کمیشن میں پوچھنے کی اہلیت نہیں کہ کوئی اپنے زیرکفالت کیسے ؟۔ مریم کنواری نہیں بال بچے دار تھی۔ بچی کی شادی بھی وہیں ہوئی ۔ بھٹوسے لیکر گیلانی تک ہر وزیراعظم کی نااہلی پر بنگڑے ڈالنے والا شرم وحیاء رکھتا تو یہ نہ کہتا کہ پہلے نظریاتی نہ تھاجب جونیجو کا ساتھ نہ دیا اور جنرل ضیاء کی برسیوں پربھٹو کو انگریز کے کتے نہلانے کا کہتا۔
پنجاب کا بھنگی طالبان کی حالت دیکھنے کابل گیا۔ دیکھا دیکھی نماز پڑھنے مسجد پہنچا۔ رکوع میں زور دار ہوا خارج کردی۔ لوگ ہنس ہنس کر مسجد سے بھاگے۔ بھنگی نے امام سے پوچھا کہ وضو ٹوٹ گیا؟ امام نے کہا کہ ہاں!۔ اس نے کہا کہ ہوا بہت کم نکلی ہے۔ امام نے کہا کہ جاؤبابا وضو تمہارا ٹوٹ گیا ، اس نے بار بار اصرار کیا کہ کیا وضو ٹوٹ گیا ہے حالانکہ نہیں ٹوٹنا چاہیے۔ کچھ ٹی وی چینل، کچھ صحافی، کچھ وکیل اور کچھ مولانا بھی فنی نکات تلاش کررہے تھے کہ کسی طرح امام صاحب اپنی رائے بدلے، بے وضو نماز کے صحیح ہونے کا فتویٰ دے مگرامام اقرارجرم اور دھماکے کی آوازکوکیسے نظراندازکرتا؟۔
جیومیں حامد میر رجل رشید نکلا، جس نے اعتراف کیا کہ عدالت عظمیٰ نے پہلی مرتبہ خلاف توقع ٹھیک فیصلہ دیا ۔ اگر عدالت کو ڈرانے سے ججوں کو اکسانے کا کام نوازشریف نہ کرتاتو روایت برقرار رہنے کا خطرہ بدستور موجود تھا۔ محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن نے نوازشریف کو نااہل کروایا مگر جیو کا کردار بھی کم نہ تھا۔پانامہ نے پاجامہ اتارا، دو ججوں نے نااہل کرکے چڈا اتارا۔ پھر جی آئی ٹی نے پیمپر اتارا لیکن جیو مسلسل چیخ رہا تھا کہ سبحان اللہ مشک وعنبر اور گلاب و چنبیلی کی خوشیو سے سارا وطن معطر ہورہاہے۔خلق خدا کو تعفن و بدبو کا سامناتھا۔ جج اپنے منہ پر کالک ملتے یا نواز شریف کے منہ پر ۔ جے آئی ٹی کے ارکان پر ن لیگ نے اتناغصہ اتار دیا کہ ججوں کواتفاقِ رائے سے وزیراعظم کے منہ پر ہی کالک ملنی پڑی۔ کس منہ سے نظر ثانی کی اپیل میں جارہے ہیں؟ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔ وسعت اللہ خان نے فیصلہ آنے سے پہلے اچھا لطیفہ سنادیاکہ میراثی جاگیردار کے پاس گیاتومہمان میراثی اپنی اوقات سمجھ کر نیچے زمین پر بیٹھ گیا، جاگیردار نے اوپر بیٹھا دیا ۔میراثی نے کچھ پیسے کمالئے تھے، بیٹے کو بھی تعلیم دلائی تھی، جاگیردار نے کہا کہ کیسے آنا ہوا؟۔ میراثی نے کہا کہ زمانہ بدل گیا، رشتوں کا معیار بھی بدلا ہے، میرا بیٹا لکھا پڑاہے اگر اپنی بیٹی کا رشتہ دیدو۔ جاگیردار نے اپنے آدمیوں سے اس بات پر خوب پٹھائی لگوادی۔ پھر میراثی اپنی پگڑی اور دھوتی شوتی سنبھال کر جب گھر سے باہر نکلا تو واپس آکر کہنے لگا کہ کیا میں رشتے کا انکار سمجھ لوں؟۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ وزیراعظم کو کوئی نکال نہیں سکتا، اب کہا جاتا ہے کہ کوئی روک نہیں سکتا۔ بادی النظر میں ن لیگی رہنما بہت خوش ہیں۔ 90کی دہائی سے 25سال ہوگئے ہیں کہ لندن کے عالیشان فلیٹوں کا حساب مانگا جارہاہے مگراصلی کاغذات تک نہیں دکھا رہے ہیں، میڈیا پر تسلسل کیساتھ متضاد جھوٹ بولا گیا، پارلیمنٹ میں جھوٹ کا پلندہ تحریری شکل میں نوازشریف نے سنانا شروع کردیا تواس دوران خواجہ سعد رفیق بہت غصہ دکھائی دے رہا تھا، حالانکہ خوش ہونا چاہیے تھا کہ ثبوت دیا جارہاہے مگرخواجہ صاحب کو پتہ تھا کہ یہ ثبوت نہیں بھوت ہے۔ حقائق کے منافی تقریر کادفاع میڈیا میں بڑا مشکل ہوگا، عدالت میں ناممکن ہوگا۔ جے آئی ٹی کے ارکان کو اسلئے قصائی کہا جارہاتھا کہ قربانی کا چھرا صاف دکھائی دے رہاتھا۔ فوج کے سربراہ بھی دھیمے مزاج کے انتہائی شریف النفس جنرل قمر باجوہ، آئی ایس آئی کا چیف بھی شکوک وشبہات سے بالکل مبرا، سپریم کورٹ کاچیف جسٹس بھی کسی سازش کا حصہ نہیں ہوسکتے۔ اپنی اکثریت والی حکومت، عالمی قوتوں سے بھی اچھے مراسم، احتجاجی تحریک کا بھی گلوبٹوں سے مقابلہ مشکل نہ تھا، میڈیا چینل بھی بھرپور ساتھی اورمشہور اینکر پرسن بھی اپنی شہرت کی بلندیاں اپنی جان نچاور کررہے تھے مگر ایسا لگتا تھا کہ جیسے کامران، مجیب الرحمن شامی، شاہ زیب خانزادہ کتے بلے بن کر مری ہوئی بھینس کے تھنوں سے لگے چوس چوس کر عوام کو دھوکہ دیتے ہوں کہ ماشاء اللہ کیا دودھ کی نہریں ہیں، حالانکہ صحافی کا کام وکالت کرنا نہیں ہوتا ۔ جیو کے محمد جنید کے پروگرام میں عدالت کے متفقہ فیصلے پر جواب میں حامد میر نے کہا کہ حکومت کو پہلے سے پتہ تھا کہ اس کو نااہل ہونا ہے مگر سیاسی بیانات دے رہی تھی کہ ہم نااہل نہیں ہونگے، تو جنید نے ہاتھ کو اس انداز سے دکھایا کہ جیسے حامد میرنے جیو کا سار گیم خراب کردیا ہو۔ مولانا فضل الرحمن کی دلیل مثالی ہوا کرتی تھی مگر اب یہ کہنے سے بھی نہیں شرمایا کہ ’’ نوازشریف نے بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ نہیں لی اسلئے نااہل قرار دیا، اگر تنخواہ لے لیتے تو نااہل نہ ہوتے‘‘۔ حالانکہ عدالت نے کہا ’’کہ مقدمہ یہ تھا کہ خاندان کے اثاثے مشترکہ ہیںیہ ثبوت ہے باپ بیٹے کا ملازم نہیں، تنخواہ کا حساب کتاب نہیں، جو ڈھونڈرہے تھے وہ سراغ مل گیا‘‘۔ لندن فلیٹ کیا رحمن ملک کی عزت افزائی اور نیب کو سچا ثابت کرنے کیلئے 2006ء میں خرید لئے؟۔اصغر خان کیس 1990ء میں آئی ایس آئی سے پیسے لئے۔ پھر حکومت بناکر کرپشن کی ، کرپشن کی وجہ سے حکومت کا خاتمہ ہوا۔ شکرہے کہ یہ نہ کہاکہ کون شریف؟، کون حسن ، کون حسین، کون مریم، کون کلثوم؟… عدالت نے وہی کیا جو نوازشریف کو پرویز مشرف نے سعودیہ بھیجاتھااسلئے ن لیگ خوش اور شرمندہ ہے، عدالتی کاروائی نے بہتوں کی صلاحیت اور ضمیر سے پردہ اٹھا دیاہے۔ بشیر نور :سعودی عرب
مذہبی سیاسی جماعت کے منشور کا یہ عارضی خاکہ دیکھ لیں! مشاورت سے ترتیب وتدوین ہوگی۔

1: آزاد منش کہتے ہیں کہ مذہبی طبقہ خواتین کو گھروں میں محصور کرنے کے درپے ہے حالانکہ اسلام کے بنیادی مرکز خانہ کعبہ اور مدینہ منورہ میں دنیا بھر کی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ حج اور عمرے کا فریضہ انجام دیتی ہیں۔ دنیا کے کسی دوسرے مذہب کی خواتین ہی نہیں خود آزاد منش خواتین میں یہ ہمت نہیں کہ حجر اسود کو چومنے کیلئے ایسی بھیڑ میں نامحرم مردوں کیساتھ ہڈی پسلی ایک کرنے کی ہمت کریں جہاں کمزور اعصاب کے مرد جانے کی ہمت نہیں رکھتے وہاں یہ اعزاز حاصل کرلیں، جو فرض ہے نہ واجب بلکہ جان لیوا بھیڑ ہو توسنت بھی نہیں اور غیرمحرموں کے دبوچنے کے اس ماحول میں مستحب و مستحسن بھی کجا بلکہ شریعت وفطرت اور انسانیت کے بھی منافی ہے لیکن مجال ہے کہ مذہبی طبقہ اپنی خواتین کو اس شوق سے روکیں یا مذہبی قیادت کچھ منہ کھولے۔ اگر مخلص نمازی ہوں تو بیت اللہ کی طرح ہر مسجد کا ماحول مشترکہ فیملی مرکز بن سکتاہے، جس میں پانچوں اوقات میں محلہ کے مرد، لڑکے، بچے ،خواتین، لڑکیاں اور بچیاں شرکت کا اہتمام کرکے ایک نئی دنیا میں ایسے داخل ہوسکتے ہیں کہ نماز اجتماعی ماحول کو فحاشی و منکرات سے بچانے کا ذریعہ بھی بنے گا۔ فقہ کی کتابوں میں صف بندی کے لحاظ سے امام کے پیچھے مردوں، لڑکوں، بچوں ، بچیوں، لڑکیوں اور آخر میں خواتین کی ترتیب کا ذکر ہے۔ 1400 سال پہلے ام المؤمنین حضرت عائشہؓ نے لشکر کی قیادت کی تھی اور حضرت زینبؓ نے کربلاء کے واقعہ پر شہداء کی تحریک کو زندہ رکھا تھا۔ غزوات میں صحابیاتؓ نے زخمیوں کی مرہم پٹی کی خدمت اور پانی لانے کا فریضہ انجام دیا تھا۔ اسلام نے روشن خیالی میں دنیا کو بہت پہلے بہت پیچھے چھوڑ دیا مگر امیرالمؤمنین یزید سے لیکر امیرالمؤمنین نواز شریف تک جب حکمرانوں نے اسلام کو اقتدار کیلئے استعمال کیا تو ہر آنے والا دن پہلے سے زیادہ تاریک تر بنتا چلا گیا۔ اس میں اسلام کا قصور نہیں بلکہ اسلام کو غلط استعمال کرنے والے حکمرانوں اور ان کے حواریوں کے سیاہ کرتوت کا کرشمہ ہے۔ اب طالبان شریف اور طالبان خان کے علاوہ پاکستان میں اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگانے والوں اور انکے چیلے چپاٹوں کا کرداربھی سامنے ہے۔
2: پنچایت نے ریپ کے بدلے ریپ اور ریپ کے بدلے شادی کے فیصلوں سے ہیجان پیدا کردیا ۔ طالبان نے تشدد کا راستہ اختیار کیاتو قوم کی حمایت سے وہ محروم ہوگئے۔ جرگہ و پنچایت کا نظام اسلئے رائج ہورہاہے کہ تھانہ و پولیس ، سیاست وقیادت، پاکستان کی شرعی اور عام عدالتوں کا انصاف وہ بازو ہیں جو سب نے آزمائے ہوئے ہیں۔ ملزم طاقتور ہو اور مظلوم کے پاس کوئی ثبوت نہ ہو تو وہ عدالت کی فیس، لوئر کورٹ ، سیشن کورٹ، ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ جانے تک اچھا خاصہ پیسہ اور وقت ضائع کرکے بھی کچھ انصاف نہیں پاتا بلکہ ہرجانہ اور ہتک عزت کے دعوے پر جرمانہ بھرنا پڑتا ہے، یا معافی مانگنی پڑتی ہے۔ شرعی عدالتوں میں زنابالجبر پر بھی چار گواہ پیش نہ کرنے پر قید اور کوڑوں کی سزا دی جاتی ہے۔ تو پنچایت کے ذریعے غریب معاشرے نے اپنا راستہ نکال لیا ہے۔
اسلام کی تلاش میں ملک خداداد بنایا گیا لیکن کیا پاکستان خواتین ، غریب و بے بس، مظلوم ولاچار اور مجبور ومعذور معاشرے کو انصاف دینے کی صلاحیت بھی رکھتاہے یا نہیں؟، بس اس کا کام یہ ہے مذہبی سیاسی جماعتوں کو ووٹ دو اوروہ ایوانوں میں پہنچ کر اپنا اُلو سید ھا کریں؟۔ خالص مذہبی جماعتوں میں جان، مال اور وقت لگاکر اپنے کام سے کام رکھو اور مدارس ومساجد کو چندے دو، جب طلاق کا مسئلہ آئے تو قرآن وسنت کو بھی توڑ مروڑ کر پیش کریں اور تفریق و حلالے کا فتویٰ دے کر جان عذاب میں ڈالیں۔ پنچایت پر تو کوئی آواز اٹھانے کی جرأت کرلیتاہے، معاشرہ قہر الٰہی سے ڈرتا ہے ، چیف جسٹس نوٹس لیتاہے ، تھانہ بھی حرکت میں آتاہے ،وزیراعلیٰ شہبازشریف بھی سرپر ہاتھ پھیرنے کی برکات سے نوازتا ہے اور میڈیا بھی زبردست کوریج دیتا ہے لیکن حلالہ پر عزت بھی لٹ جاتی ہے، ملامت اور لعنت کی برسات بھی ہوتی ہے اور زندگی بھر اس گناہِ بے لذت کی لذت کا سرٹیفکیٹ مل جاتاہے۔ یہ طبقہ اقتدار میں آیا تو پھر معاشرے کا کیا حشر نشر ہوگا؟۔ عوامی شکایات درست ہیں اور ایک ایک طاقتور کو لگام دینے میں مشکل نہیں ہوگی۔ بنی امیہ کے یزید نے خاندانی قبضہ کرکے اسلام کا حق ادا نہیں بلکہ بنی امیہ، بنی عباس اور خلافت عثمانیہ کے خاندانوں نے سلطنت مغلیہ اور حکمرانوں کے حواری نواب، خان ، ملا اور پیروں کے خانوادوں نے بھی اسلام کو اپنے اپنے مفادات کیلئے استعمال کیا جیسے موجودہ دور کی پارٹیاں کررہی ہیں۔ مسجد، مدرسہ، خانقاہ، درگاہ اور مذہبی وسیاسی جماعتوں کو عوام کے چندوں اور طاقت سے بنایا جاتاہے اور پھر اس پر مافیاز قبضہ کرلیتی ہیں۔ مسجد کی کمیٹیاں بھی حق کی آواز کیلئے نہیں حق دبانے کیلئے استعمال کی جاتی ہیں جو خردبرد میں بھی ملوث ہوتی ہیں۔ موجودہ دور میں یہ ممکن ہوگیا ہے کہ کسی بھی ٹرسٹ پر خاندانی قبضہ ختم کیا جائے۔ مالیاتی نظام کی تفصیل انٹرنیٹ کے ذریعے کھلے عام رکھی جائے جس کی تفتیش اور چیک اینڈ بیلنس کیلئے ایک نظام بھی تشکیل دیا جائے۔ غریبوں کے نام پر غریبوں کا حق صدقات، خیرات، زکوٰۃ، فطرہ اور عطیات سے لوگ امیر سے امیر بنتے جارہے ہیں۔باکردار لوگوں کے اٹھنے سے تمام فلاحی اور مذہبی اداروں کو عوام کی فلاح وبہبود کیلئے متحرک اور باوقاربنایا جاسکتاہے۔
حضرت عمرؓ نے حلالہ پر حد جاری کرنے کی بات فرمائی۔ رسول ﷺنے محرم عورت ماں، بہن، بیٹی وغیرہ سے نکاح کرنے پر قتل کا حکم دیا۔ علماء نے محرم سے نکاح پر شبہ سے حد کو رفع کرنے کا راستہ رکھا اور دوسری طرف قتل کی بات رکھی تاکہ کسی غریب کو محرم کے نکاح کے جھوٹے الزام میں قتل کیا جائے تو بھی اس پر باز پرس نہ ہو اور طاقتور کیلئے محرم سے نکاح پر سزا سے بچنے کا راستہ ہو۔ مولانا فضل الرحمن کو پوچھا جائے ، فتاویٰ عالمگیریہ پانچ سو معتبر علماء نے مرتب کیا جن میں حضرت شاہ ولی اللہؒ کے والد بھی تھے، جس میں بادشاہ کیلئے قتل، چوری، زنا، ڈاکہ پر کوئی سزا نہیں ہوسکتی ہے
3 : اللہ تعالیٰ نے خواتین کو جنسی ہراساں کرنے کے حوالہ سے مؤمنات خواتین کو حکم دیا کہ ایسا لباس وپوشاک زیبِ تن کریں تاکہ پہچانی جائیں کہ وہ فالتو نہیں اور ضرر سے بچ جائیں۔ یہ لوگ مدینہ میں نہ رہیں گے مگر کم عرصہ۔ پہلے بھی اللہ کی سنت رہی ہے کہ حق کا غلبہ ہونے کے بعد اینما ثقفوا فقتلوا تقتیلاً ’’جہاں پائے گئے ان کا تعاقب کرکے قتل کیا گیا‘‘۔ زنا بالجبر اور جنسی ہراساں کرنے کو اللہ نے فسادفی الارض قرار دیا ۔ جماعت اسلامی اور علماء کے بے غیرت رہنما اس آیت کی کھلی وضاحت کے باوجود خواتین سے جبری زنا کو بھی فساد فی الارض میں شامل کرنے کے بجائے رسالت مآب ﷺ کو اذیت دینے پر اس آیت کو فٹ کرتے ہیں۔ حالانکہ رسول ﷺ کو اذیت دینے کا اس سے پہلے والے رکوع میں ذکر ہے اور اس آیت کااس اذیت سے تعلق نہیں ۔ طاقتور طبقے ہی خواتین کو اذیت دینے اور زنابالجبر میں ملوث ہوتے ہیں اور مذہبی طبقے طاقتور وں کے زرخرید غلام ہوتے ہیں۔ غریب کی بجائے طاقتوروں کے ذریعہ اقتدار تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ جماعت اسلامی بھی غریب کارکنوں کو اپنے لئے بوجھ اور مالداروں کواپنا اثاثہ سمجھتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک خاتون شکایت لیکر آئی کہ اسکے ساتھ جبری زنا ہوا ہے۔ نبیﷺ نے فوراً مجرم کو پکڑنے اور سنگسار کرنے کا حکم دیا۔ وہ پکڑا گیا اور سنگساری کے حکم پر عمل بھی ہوا۔ مولوی کہتے ہیں کہ نبیﷺ کوئی قانون دان نہیں تھے، عورت کیساتھ جبری زنا ہو تب بھی چارمرد عادل گواہ لازم ہیں۔ آج کل ڈی این اے سے سو فیصد مجرم کے جرم کا یقین بھی ہوجاتا ہے مگر اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین مولانامحمد خان شیرانی نے کونسل کی سفارش میڈیا کو بتائی کہ’’ ڈی این اے کو بطورِ شہادت استعمال نہیں کیا جاسکتامگر معاون قرار دیا جاسکتا ہے‘‘۔ حالانکہ قرآن وسنت کی زنا بالجبر میں بغیر گواہی قتل کی سزا ہے اور ڈی این اے اس کی توثیق ہے۔
جب غیرت، انسانیت، فطرت اورقرآن وسنت کیمطابق زنا بالجبر کیلئے قتل اور جنسی ہراساں کرنے کی سخت سے سخت سزا دی جائے گی تو دنیا میں خواتین اسلام کی چھتری کے نیچے آجائیں گی اور غیرتمند مرد بھی اسی کی حمایت کریں گے۔ ابلیس کی مجلس شوریٰ کے عنوان سے علامہ اقبال ؒ نے کہا تھا کہ دنیا میں شیطانی نظام کو خطرہ مزدوکیت، جمہوریت اور بادشاہت سے نہیں بلکہ اسلام سے ہے جس کا آئین آشکار ہوجائے کہ حافظِ ناموسِ زن ہے اور مرد آزما مرد آفریں ہے تو پھر مکڑی کے جالے سے انسانیت کی آنکھوں کو دھوکہ نہیں دیا جا سکے گا۔ علماء اور جماعتِ اسلامی اپنی صلاحیتوں کو ضائع کرنے کے بجائے بروئے کار لائیں اور اسلام کے ٹھیکدار بن کر نہیں خادم بن کر نبیﷺ کے دین کو عوم تک پہنچانے کا بھرپور حق ادا کریں توچند دنوں میں انقلاب آسکتاہے۔
4: عدالتوں میں ہتک عزت کا دعویٰ ہوتاہے تو پہلے ہزاروں، لاکھوں اور کروڑوں کی قیمت میں ہوتا تھا۔ اب اربوں میں بھی ہورہاہے۔اسلام میں مال ودولت، رتبہ ومقام اور بڑی وچھوٹی حیثیت کی بنیاد پر ہتک عزت کی قیمت نہیں لگتی، بلکہ سب کی عزت برابرہے اور عورت پر بہتان کی سزا80کوڑے ہیں۔ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ پر بہتان لگایا گیا تو بہتان لگانے والوں کو80،80کوڑے لگائے گئے۔ ایک غریب عورت پر بھی کوئی بہتان لگائے تو اس کی سزا 80 کوڑے ہیں۔ انسانی عزتوں میں رتبہ ومقام کے لحاظ سے بہت فرق ہوتاہے لیکن جرم کے لحاظ سے غریب کی عزت کو بالکل بھی کم تصور نہیں کیا گیا اور اللہ کو انسانی رحجانات اور مفادات کا پتہ تھا کہ غریب اور لاچارکو دنیا میں انصاف نہیں مل سکے گا ،اسلئے بہتان و زنا کی سزا میں برابری کا قانون جاری کیا۔ مگرآج بھی مرد وں کیلئے الگ معیار ہے اور خواتین کیلئے الگ معیار ہے۔ غریبوں کیلئے الگ معیار ہے اور امیروں کیلئے الگ معیار ہے۔ عورت شادی شدہ ، غیرشادی شدہ ہو، ماں ہو، بہن ہو، بیٹی ہو یا بیوی ہو اس کو غیرت کے نام پر قتل کیا جاتاہے۔ مرد شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ، بھائی ہو، باپ ہو، بیٹا ہو یا شوہر مگر کوئی قتل نہیں کرتا۔ یہ ددہرا معیار اللہ اور رسولﷺ کیلئے قبول نہیں اور نہ انسانیت اور دنیا کیلئے۔ بیوی کو رنگے ہاتھوں کسی غیر کیساتھ دیکھنے کے بعد بھی اس کو قتل کرنے کی اجازت نہیں ۔ سیکولر اور ملحد بھی اس غیرت پر سمجھوتہ نہیں کرتالیکن اسلام نے 1400 سال پہلے جو لعان کا قانون نافذ کیا تھا ، اس کی نظیر دینے سے آج بھی دنیا قاصر ہے۔قرآن نے عورت کو کھلی فحاشی پر گھر سے نکلنے اور نکالنے کی اجازت دی مگر تشدد اور قتل کی نہیں۔ سورۂ طلاق میں بھی اس کی وضاحت ہے۔امام ابوحنیفہؒ نے زنا کی سزا کیلئے مرد و عورت کا چارمرتبہ اقرارِجرم برابر قرار دیا ، باقی تین امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ نے مرد کیلئے چار مرتبہ اقرارِ جرم لازم مگر عورت کیلئے ایک مرتبہ اقرار جرم کافی قرار دیا۔ صحابہؓ اپنے اوپر اقرارِ جرم سے حد نافذ کرکے دنیا کو ایمان کی صداقت کا یقین دلاتے تھے اور اب خود کش کے ذریعے دوسروں کو نقصان پہنچاکر اسلام کو دہشت گرد ی کا منبع قرار دیا جاتا ہے۔ تبلیغی جماعت، دعوتِ اسلامی ، جماعتِ اسلامی، جمعیت علماء اسلام ، مدارس کے علماء اور خانقاہی نظام والوں نے اسلام کے نام پر قربانیوں سے زیادہ مفادات حاصل کئے اگر پاکستان شریعت کورٹ میں کچھ لوگوں کو خود پر شرعی سزاؤں کیلئے پیش کردیا جائے تو دنیا میں مذہبی طبقے کا نام روشن ہوجائیگااور بدکردار لوگ لبادے کاتحفظ اوڑھ کر بھی درونِ خانہ ذلت کا احسا س رکھیں گے۔ مذہب کو کاروبار کی بجائے فرض کا درجہ حاصل ہونا چاہیے۔
5: زنابالجبر، خواتین کوہراساں کرنے اور بچوں کیساتھ زیادتی کرنے پر مذہبی طبقے کا رویہ اور فقہ کی کتابوں میں لکھے ہوئے مسائل اس قابل نہیں کہ ان پر قانون سازی کیلئے کام کیا جائے۔ جو قرآن وسنت کے واضح احکام کے بالکل منافی ہیں ۔ مرد اور عورت کیلئے قرآن میں زنا کی سزا 100 کوڑے ہیں۔ جبکہ دو مرد کیلئے برائی پر اذیت دینے کا حکم ہے اور توبہ کرنے پر معافی ہے۔ اذیت کیلئے اس پردیوار گرانے،اس کو پہاڑ سے گرانے اور جلانے کے حوالہ سے بہت باتیں ہیں۔ اذیت کی سزا کا مقصد قرآن میں قتل کرنا نہیں بلکہ جرم روکنا ہے۔ جو قومِ لوط ؑ کے عمل کے رسیا ہوں ، درست علاج بھی ان کو اذیت دینے کے برابر ہے۔ طالبان رہنما نیٹو کی آمد کے بعد دنیا بھر سے میڈیا پر ظاہر ہوئے ،اگر اپنے چندا فراد کو علاج کیلئے بھی مغربی ممالک بھیج دیتے تو دنیا پر زبردست اثرات مرتب ہوتے، شوکت خانم کی طرح ایک اعلیٰ معیار کا ہسپتال ان لوگوں کے علاج کیلئے بنتا۔ زناکی سزا 100 کوڑوں کیلئے اقرارِ جرم یا چار گواہوں کی گواہی ضروری ہے۔ قرآن میں سنگسار کرنے کا حکم نہیں۔ ایک طرف محفوظ قرآن ہے اور دوسری طرف تحریف شدہ توراۃ ہے۔ قرآن کی آیت میں شادی شدہ اور غیرشادی شدہ کی سزا میں کوئی فرق نہیں ۔ توراۃ میں بھی صرف اور صرف بوڑھے مرد اور بوڑھی عورت کے بارے میں ہے جس میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کی کوئی تفریق نہیں ۔ الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فرجموھما ۔۔۔ ’’ بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت جب زنا کریں تو دونوں کو رجم کرو‘‘۔جب تک سورۂ نور کی آیات نازل نہیں ہوئی تو پہلے اہل کتاب کے احکام کے مطابق عمل کیا جاتاتھا اور سورۂ نور کی آیات نازل ہوئیں تو کسی کو سنگسار نہیں کیاگیا۔ حضرت عمرؓ اللہ کے احکام میں سب سے زیادہ سخت تھے۔ اپنے بیٹے کو شرعی گواہ نہ ہونے کے باوجود زنا کا پتہ چلنے پر کوڑوں سے اتنا سخت مارا کہ وہ قتل ہوا۔ حضرت مغیرہ ابن شعبہؓ پر چار گواہوں نے گواہی دی تو اس کو سنگساری سے بچانے کیلئے پوری کوشش کی، ایک کی گواہی ناکافی قرار دیکر باقی تین افراد کو80،80کوڑے لگانا گوارا کیا مگر سنگساری کی غیر فطری سزا سے بچانے میں کردار ادا کیا ۔ یوں حضرت عمرؓ کے ہاتھوں سے سنگساری کی وہ سزا دفن ہوئی جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہ تھا۔ حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ ’’اگر میرے پاس دنیا کااقتدارہو تو سارے مذاہب والوں کو ان ہی کی کتابوں کے مطابق سزا دوں گا۔ اگر مسلمان پر گواہی کا معاملہ آتا تو حضرت علیؓ نے سنگسار کرنے کے بجائے گواہی اور اقرار پر قرآن کے مطابق 100کوڑوں کی سزا نافذ کرنی تھی۔ اگر یہودی رعایا پر زنا کی حد جاری کرنے کی ضرورت پڑتی تو بوڑھے بوڑھی پر سنگساری کا حکم جاری ہوتا اور دنیا میں یہ سمجھا جاتا کہ مسلمان سب سے زیادہ عادل حکمران ہیں۔ خلفاء راشدینؓ کی نیک نیتی پر کوئی بھی شبہ نہ کرتا لیکن وحی کی رہنمائی سے وہ محروم تھے اسلئے حضرت علیؓ اپنے تئیں عدل قائم بھی کرلیتے تو سنگساری کی سزا انسانیت پر کسی نہ کسی شکل میں باقی رہتی ۔ حضرت علیؓ کو مستحکم اقتدار کا موقع نہیں مل سکا اور اللہ تعالیٰ نے حکمتِ بالغہ سے انسانیت کی حفاظت فرمائی۔
اگر حضرت عمرؓ کے دل ودماغ میں حضرت مغیرہ ابن شعبہؓ کیلئے قرآن کے مطابق 100 کوڑوں کی سزا ہوتی تو ان کو بچانے کیلئے باقی تین افراد کو 80،80کوڑے نہ لگائے جاتے۔ اس کاروائی نے حدود کے نفاذ کا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دروازہ بند کردیا۔جس طرح شیطان کیلئے رجیم کا لفظ لعنت کے معنیٰ میں استعمال ہواہے۔ اسی طرح بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت کوڑوں کی سزا سے قتل بھی ہوسکتے تھے تو ان پر خالی لعنت ملامت کے الفاظ کافی قرار دئیے گئے ہیں، جس طرح لعان میں بھی قرآن کے الفاظ میں لعنت ہی ہوتی ہے۔ سزا سے بچاؤ کی قائم مقام لعن طعن ہوسکتی ہے۔ حضرت عمرؓ کے بیٹے کو شدید ضربوں سے قتل کرنے کے بعد شرعی حدود کی یقیناًمعاشرے میں نفاذ کی حوصلہ افزائی نہیں حوصلہ شکنی ہوئی ہوگی۔ پرویزمشرف نے زنابالجبر کو شرعی حد سے نکال کرتعزیر میں شامل کرنے کی کوشش اسلئے کی کہ مجرموں کو تحفظ ملتا تھا، جس پر مفتی تقی عثمانی نے انتہائی غلط قلم اٹھایا۔
قرآن میں شادی شدہ لونڈی کی سزا عام خواتین کے مقابلہ میں آدھی ہے اور اس میں بھی یہ فرمایا گیاہے کہ مشکل میں پڑنے سے ڈرنے کا خوف نہ ہو تو معاف کرنا بہتر ہے۔ لونڈی کمزور ہوتی ہے تو اس کی سزا میں آدھی تخفیف کے بعد مزید عفوودرگزر سے کام لینے کا حکم دیا گیاہے اور اسلام کا کمزور کو انصاف فراہم کرنے کے علاوہ یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ شادی شدہ کیلئے سنگساری کی سزا نہیں ہے، کیونکہ وہ آدھی نہیں ہوسکتی ہے۔ کنواری لونڈی کی بات نہیں شادی شدہ کی وضاحت ہے۔ 100 کوڑے کے مقابلہ میں 50کوڑے آدھی سزا ہے۔ قرآن میں امہات المؤمنینؓ سے زیادہ محترم کون ہوسکتی ہیں؟۔ اللہ نے فرمایا کہ اگر وہ کسی کھلی فحاشی کا ارتکاب کریں تو دوھری سزا کا حکم ہے۔ 100 کے مقابلہ میں200 دوھری سزا ہے لیکن سنگساری میں دوھری سزانہیں ہوسکتی۔
6:جب جرم کی سزا فطرت کے مطابق ہوگی تو بہت سے لوگ اپنے جرائم کو چھپانے کی غلطی پر اصرار کرنے کے بجائے اقرار کرکے آخرت میں سرخرو ہونا چاہیں گے۔زنا پر گواہی قائم ہوجائے تو اللہ نے فرمایا کہ ’’اس پر دل میں رحم مت کھاؤ، مؤمنوں کے ایک گروہ کی موجودگی میں اس پر100 کوڑے کی حد جاری کردو‘‘۔ یہ سزا مردوں اور خواتین کیلئے یکساں ہے۔ یہ سزا معاشرے میں جرم کو ختم کردے گی۔ اللہ تعالیٰ نے لونڈی کی سزا کے حوالے سے فرمایاہے کہ گزشتہ قوموں میں بھی یہی تھی۔ پھر اللہ نے یہ بھی وضاحت فرمائی کہ ان کو اپنی جانوں کے قتل اور جلاوطنی کی سزا بھی اللہ نے نہیں دی تھی، یہ ان کے خود ساختہ قوانین تھے۔ شادی شدہ کو قتل سے روکنے کیلئے لعان کا قانون کتنا عظیم ہے؟۔ جو بے غیرت قرآن کی آیت پر عمل کرنے میں لعان کی لعن طعن کو بے غیرتی سمجھتے تھے ان کو حلالہ کی بدترین لعنت میں بے غیرتی پر عمل کرنے میں کوئی مسئلہ نظر نہیں آتا۔ نبیﷺ خواتین سے بیعت لیتے وقت بدکاری نہ کرنے اور بہتان نہ لگانے وغیرہ کا عہد لیتے تھے۔ عورت بہتان لگاتی ہے تو مرد سے زیادہ خود اس کو نقصان پہنچتاہے۔ہتک عزت کی سزا خاتون پر بہتان لگانے کی ہے۔ مرد پر بھی بہتان لگانا بہت براہے لیکن قرآن میں پاکدامن خواتین پربہتان کی سزاواضح ہے اور اس پر عمل درآمد ہو، غریب و امیر، رتبہ ومقام والی اور نچلے درجہ سے تعلق رکھنے والی سب کیلئے یہ ایک ہی سزا80 کوڑے ہوں تو معاشرے میں عدل ومساوات کی زبردست فضاء قائم ہوگی۔
7: بہت سی شرعی اصطلاحات جس میں خلع، طلاق، عورت پر گھریلو تشدد، حلالہ ، عورت کیلئے معاشی میدان میں شانہ بشانہ چلنے کی اجازت وغیرہ کی قرآن وسنت کے واضح ہدایات سے ہمارے چودہ طبق کی تاریکیاں دور ہوسکتی ہیں۔ سورۂ النساء آیت19 میں پہلے عورت کو خلع کا حق دیا گیاہے اورآیت20میں مرد کو طلاق کا حق دیا گیاہے۔ مالی حقوق میں خواتین کی رعایت بالکل واضح ہے۔ شوہر پر حق مہر اورگھر کے خرچہ کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے اور اسی وجہ سے فضیلت بھی حاصل ہے لیکن یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ عورت کے کمانے پر کوئی پابندی ہے۔ حضرت خدیجہؓ کی معاشی اور تجارتی سرگرمی سے شروع ہونے والی اسلامی تحریک میں خواتین کی کمائی پر کیسے پابندی لگ سکتی ہے؟۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے صحابہؓ کے دور میں حضرت ابوبکرؓ نے خلیفہ بننے کے بعد بھی تجارت کرنا چاہی تو مسلمانوں نے ایک معقول وظیفہ مقرر کردیا۔ زوجہ محترمہؓ نے تھوڑا تھوڑا بچاکر میٹھابنانے کا اہتمام کیا تو حضرت ابوبکرؓ نے وہ لیکر غرباء میں تقسیم کردیا اور بیت المال سے اتنا وظیفہ کم کردیا۔ اگر حضرت ابوبکرؓ کی زوجہؓ خود سلائی وغیرہ کرکے یہ کام کرتیں تو حضرت ابوبکرؓ بھی پیش کرنے پر خوشی سے کھاتے، حضرت فاطمہؓ نے ہاتھ سے کمایا تو حضرت علیؓ نے ان کی اجازت سے وہ کھانا بھکاری کو دیا تھا۔
مذہبی سیاسی جماعت کے منشور کی ضرورت کیوں ہے؟ پہلے ایک مختصر سا جائزہ لینا مناسب ہے ۔

پاکستان میں مذہبی و سیاسی جماعتیں ایک ہی طرح کے ملتے جلتے منشور صرف رجسٹریشن کیلئے بناتی ہیں، عوام تو بہت دور کی بات ہے جماعتوں کے قائدین اور بڑے رہنما بھی اس سے واقف نہیں ہوتے۔ برسرا قتدار آنے کے بعد منشور زیرِ بحث نہیں آتا۔ ایسے منشور کا خاکہ تیار کرنا ضروری ہے کہ اقتدار سے پہلے بھی عوام اور پسے ہوئے طبقات تک اس کا فائدہ پہنچے اور اقتدار میں آنے کے بعد اس پر عمل نہ ہو تو عوام کے اندر شعور بیدار ہوکہ یہ جماعت امین ہے نہ صادق بلکہ منافق ،اسلئے دوبارہ وہ عوام کی طرف سے ووٹ لینے کا رخ کرنے پر زندہ وتابندہ نہیں بلکہ شرمندہ رہے۔
قرآن کی آیات یا اس کا ترجمہ حوالہ جات کیساتھ ایک نصاب کی طرح پوری قوم کو سمجھانے کی ضرورت ہے ۔محرم رشتوں کی وضاحت ہے کہ ’’ ان کیساتھ نکاح مت کرو جنکے ساتھ تمہارے آباء نے نکاح کیا ہے مگر جو پہلے گزر چکا۔ تم پر تمہاری مائیں حرام ہیں اور بیٹی، بہن، بھائی وبہن کی بیٹی، خالہ، پھوپی، دودھ پلانے والی ماں،وہ سوتیلی بیٹی جو تمہارے گھر میں پلی بڑھی جس کی ماں میں تم نے ڈالا ہے ، اگر اسکی ماں میں نہیں ڈالاہے تو تمہارے لئے جائز ہے۔ تمہارے بیٹے کی بیوی اور یہ کہ دوبہنوں کو جمع کرو اور عورتوں میں سے محصنات مگر جن کے معاہدے کے تم مالک بن جاؤ‘‘۔
چوتھے پارے کا آخر میں پانچویں پارے کے ابتدائی جملے تک محرمات ایک فہرست ہے ،ان کا سمجھنا سمجھانا ہرمسلمان مرد عورت پر فرض ہے۔ محرمات کا معلوم نہ ہونا بڑی جہالت ہے۔ عام طور پر ان پڑھ لوگ بھی محرمات جانتے ہیں۔ یہ دورِ جاہلیت کی بات تھی کہ باپ کی لونڈی اور سوتیلی ماں سے بھی نکاح کیا جاتا تھا ،بڑی بات تھی کہ اللہ نے پہلے کے معاملے سے درگزر کی وضاحت کردی۔ حقیقی بیٹے کی بیوی کو بھی محرم قرار دیا۔ منہ بولے بیٹے کی سورۂ احزاب میں بھرپور وضاحت ہے کہ وہ حقیقی بیٹے کی طرح نہیں ہوسکتے۔ اتنی وضاحتوں کے باوجود مولانا آزاد جمیل نے سماء ٹی وی پر 15 رمضان المبارک کو افطار کے پروگرام میں کہا کہ ’’ بہو کی سسر سے شادی ہوسکتی ہے۔ تفصیل سے اس پربات بھی ہوئی‘‘۔ پروگرام سحری کے نشرِ مقرر میں بھی چلا۔ مولانا آزادجمیل آخری سحری تک’’ بول ٹی وی ‘‘ پر جلوہ افروز رہے۔ تعجب صرف مولانا آزاد جمیل کی جہالت پر نہیں تھا بلکہ سید بلال قطب اور ساتھ میں بیٹھے ہوئے شیعہ علامہ پر بھی تھا کہ انہوں نے بھی فوری طور سے لقمہ نہیں دیا کہ قرآن وسنت، فطرت وانسانیت اور عقل وفہم کیخلاف کیا بکواس کررہے ہو؟۔ اسلامی اسکالروں اور علامہ کہلانے والوں کی جہالت کا یہ عالم ہو تو عام تعلیم یافتہ اور ان پڑھوں میں کتنی جہالت ہوگی؟۔
یااہل الکتاب لا تغلوا فی دینکم ’’ اے اہل کتاب ! اپنے دین میں غلو مت کرو‘‘۔اللہ کا یہ حکم مان لیتے اور دین میں ہم اہل کتاب کی طرح غلو افراط وتفریط میں مبتلاء نہ ہوتے تو یہ دن دیکھنے نہ پڑتے۔ میں جب جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کا طالب علم تھا تو ترجمہ پڑھانے والے استاذ مفتی محمدولی خانؒ نے بتایا کہ ’’ خواتین فتویٰ پوچھنے آتی ہیں کہ داماد سے ناجائز تعلق کے بعد بیٹی کا داماد سے رشتہ قائم رہتاہے؟‘‘۔حنفی مسلک میں جائز وناجائز دونوں صورتوں میں حرمت مصاہرت قائم ہوجاتی ہے۔ ناجائز تعلق توبہت دور کی بات غفلت، نیند اور وہم وگمان میں بھی نہ ہو تب بھی اگر شہوت سے ہاتھ لگ گیا تو رشتہ ختم ہوجاتاہے، نصاب میں پڑھایا جاتاہے کہ ساس کی شرمگاہ اگر شہوت سے باہر سے دیکھ لی تو عذر ہوگا لیکن اس کی شرمگاہ کو اندسے شہوت کیساتھ دیکھا تو حرمت قائم ہوجائے گی۔ بیوی کیساتھ مباشرت اور ایک بچہ پیدا ہونے کے بعد اصولی طور سے میاں بیوی میں بھی اولاد کے ناطے رشتہ ازدواج کا تعلق ناجائز بن جاتاہے لیکن ضرورت کی وجہ سے جائز قرار دیا گیاہے۔ یہ انواع واقسام کی بکواس اصولِ فقہ کی کتابوں میں پڑھائی جاتی ہے۔ ٹانک شہر کے بہت بڑے عالم مولانافتح خانؒ کے پاس اس مسئلہ پر بات کرنے کیلئے ملک مظفر شاہ کانیگرم کی جانی پہچانی شخصیت کو بٹھایا تو مولانافتح خانؒ نے فرمایا کہ’’ پیر صاحب زورآور آدمی ہے، میں کیا کہہ سکتا ہوں‘‘۔ ملک مظفر شاہ کو یہ مغالطہ ملا کہ حقیقت کے خلاف شاید میں اپنی من مانی کررہا ہوں۔
فقہ حنفی میں اس قدر غلو کہاں سے آئی؟۔ حقیقت ومجاز کے اصول میں ہے کہ نکاح کا لفظ میل میلاپ کے معنی میں حقیقی ہے، مباشرت جائز ہو یازناہو حقیقی نکاح ہے۔اور شرعی عقدمیں نکاح کا لفظ مجازی ہے۔ حقیقت کی موجودگی میں مجازی معنی مراد نہیں لیا جاسکتاہے۔ حقیقی ومجازی معنی میں یہ فرق ہے کہ حقیقت کی نفی نہیں ہوسکتی ہے، مجازی کی نفی ہوسکتی ہے۔ شیر حقیقت میں جانور ہے تو نہیں کہا جاسکتاہے کہ شیر شیر نہیں ہے۔ بہادر آدمی کو شیر مجازی طور پر کہا جاتاہے تو نفی ہوسکتی ہے کہ بہادر آدمی شیر ہے کہ بہادر ہے اور شیر نہیں ہے کہ جنگلی نہیں۔ فقہ حنفی کو مزید تقویت دینے کی میرے اندر اللہ کے فضل سے صلاحیت ہے ۔ قرآن کہتاہے کہ جو سوتیلی بیٹیاں تمہارے گھر میں پلی بڑھی ہیں ، ان کی ماؤں میں اگر تم نے ڈالا ہے تو تم پر حرام ہیں اوراگر ان میں نہیں ڈالا ہے تو جائز ہیں۔ کہا جاسکتاہے کہ مجازی معنیٰ نکاح سے زیادہ حقیقی معنی میں حرمت کی صلاحیت ہے،اسلئے کہ مجازی معنیٰ عقد سے حرمت کی نفی اور حقیقی معنیٰ داخل کرنے سے حرمت کا ثبوت قرآن میں موجود ہے۔ جبکہ امام شافعیؒ کے نزدیک ناجائز تعلق سے حرمت مصاہرت زنا سے بھی ثابت نہیں ہوتی۔
فقہ میں آسمان زمین کا فرق اور اصولِ فقہ میں سمجھنے کا فقدان بہت بڑا مسئلہ ہے۔کیا شریعت میں ایسی تفریق ہوسکتی ہے کہ عورت فتویٰ لیکر آئے کہ داماد پر ناجائز نیند، غفلت یا نشہ میں ہاتھ لگ گیا تو بیٹی کارشتہ حرام ہوگیا۔ اور دوسرے مسلک والا کہے کہ نہیں ناجائز مباشرت سے بھی رشتے پر اثر نہیں پڑتا ہے؟۔ علماء کرام اور مفتیان عظام اپنی ضد اور ہٹ دھرمی چھوڑ کر نصاب کو درست کریں۔ قرآن میں عفوو درگزر ہے ، جائز وناجائز کی حقیقت بھی ہے اور اخلاقیات کا درس بھی ہے۔ جب صحابہ کرامؓ کو آبا کی منکوحہ سے پہلے کے نکاح کا درگزر فرمایاتو نصاب کی غلطی پر بھی درگزر فرمائے گا۔ یہ تمہاری بہت بڑی کم عقلی ہے کہ تم یہ پڑھاؤ کے آبا کی موجودگی میں دادا کی منکوحہ مراد نہیں لی جاسکتی ہے تو ہم اس کو قرآن کی آیت سے نہیں اجماع سے ثابت کرتے ہیں۔ باپ دادا میں کوئی فرق نہیں اور تمہارا عقدنکاح کو مجازی اور مباشرت کو حقیقی نکاح قرار دینا بھی انتہائی جہالت ہے۔ لغت کا تعلق معاشرتی زباں سے ہوتا ہے۔ حضرت آدم ؑ و حواءؑ ، ہابیل قابیل سے لیکر ہردور میں نکاح و زنا کا الگ الگ تصور ہرمعاشرے میں موجود ہے۔مباشرت کو حقیقی اور عقدِ نکاح کو مجازی کہنے کا نصاب تلف کرنا پڑے گا۔ ہاتھ لگانے سے کے نکاح و طلاق اور ہاتھ لگانے کے بعد کے نکاح و طلاق میں فرق قرآن نے خود واضح کیا ہے۔ ابنۃ الجونؓ کا واقعہ بخاری میں ہے مگر جس حدیث میں رسول اللہﷺ نے حضرت یوسف علیہ السلام سے بھی زیادہ ایک خاتون کیساتھ حسنِ سلوک اور خواتین کی آزادی کیلئے انتہا درجہ کی عملی قربانی دینے کی مثال قائم فرمائی اس پر جس طرح انتہاء درجہ کی غلط تشریح کو وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خانؒ اور علامہ غلام رسول سعیدیؒ نے اپنی معتبر شرح میں نقل کیا ہے جو علامہ ابن حجرؒ کے حوالہ سے ہے تو اس نے مرزا غلام احمد قادیانی کے محمدی بیگم کاقصہ بھی پیچھے چھوڑ دیاہے۔ عائشہ گلالئی نے جو عمران خان پر جنسی ہراساں کرنے کا الزام لگایاہے جس پر پارلیمنٹ کی کمیٹی بن گئی ہے تو احادیث صحیحہ کی غلط تشریحات کا آئینہ بھی عوام کو دکھایا جائے جس کا اثر نہ صرف پاکستان کے ملحد طبقے پر پڑے گا بلکہ دنیا میں اسلام کا مذاق اڑانے والے بھی سیدھی راہ پر آجائیں گے۔جب تک ہمارے دینی مدارس کے نصاب کی اصلاح نہ ہوگی کوئی مسئلہ حل نہ ہوگا۔
وہ ایک سجدہ جسے تُو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
بیہودہ اور انتہائی فحش قسم کے اشتہارات میں گزر بسر کرنے والی قوم کہے گی کہ قرآن کی زباں میں محرمات کی آیات کو نصاب میں کیسے شامل کیا جاسکتاہے؟۔ سوتیلے بچوں کی ماں میں ڈالنے والی بات اخلاقی قدروں کی معیار پرپورا نہیں اُترسکتی ہے۔ جن بچوں میں پرندوں، جانوروں ،انسانوں اور ٹی وی فلموں ڈراموں کے جنسی رحجانات اور حقائق کا شعور ہوتاہے ،ان کیلئے بچیوں کی سوتیلی ماں کی کھلی وضاحت اخلاقی اقدار کے مثبت رحجانات کا ذریعہ بنے گا۔ اللہ نے کھلے لفظوں کا استعمال کرتے ہوئے زنا کے قریب نہ جانے کا حکم دیا ۔چونکہ ایک مؤمن ومسلمان کیلئے انتہائی بداخلاقی کی کیفیت ہے کہ اس نے کسی بیوہ یا طلاق شدہ سے شادی کی ہو اور اس کی چھوٹی بچیاں بھی ہوں جو اس کے گھر میں پل کر جوان ہوئی ہوں۔اور پھر اس کا ارادہ خراب ہوجائے کہ وہ اس کی اپنی بیٹیاں تو نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے غلیظ خیالات کے دماغ پر زور دار ضرب لگانے کیلئے فرمایا کہ’’ جن کی ماؤں سے نکاح کرنے کے بعد ان میں ڈالا ہے اور اگر نہیں ڈالا ہے تو جائز ہیں‘‘۔ ممکن نہیں ہے کہ کوئی شخص کسی بیوہ یا طلاق شدہ سے نکاح کرے اور اس کی بیٹیاں جوان ہونے تک اس کیساتھ ازدواجی تعلقات قائم نہ کرے۔ یہ صرف اخلاقی طور سے چوٹ مارنے والی بات ہے، مگر فقہاء نے یہ مسئلہ نکال دیا کہ ماں سے نکاح کرنے کے بعد اگر ہاتھ نہیں لگایا ہو تو اس کو چھوڑ کر بیٹی سے نکاح کیا جاسکتاہے اور بیٹی سے نکاح کے بعد ہاتھ لگانے سے پہلے چھوڑ دیا جائے تب بھی اس کیساتھ نکاح جائز نہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہوتاہے کہ بیٹی سے نکاح کے بعد بیٹی کو چھوڑ کر اس کی ماں سے نکاح کیا جائے۔ قرآن کے پاس الفاظ کی کمی نہیں تھی لیکن مذمت کیلئے اللہ نے دخول کے الفاظ کو استعمال کیا ہے ورنہ دوسری جگہ اللہ نے مشرک جوڑے کے بارے میں کس قدر اچھے الفاظ میں میاں بیوی کے تعلق کا نقشہ کھینچا ہے۔ فرمایا:’’جب اس نے اس کو ڈھانپ لیا تو اس کو حمل ہوا خفیف سا حمل،پھر جب وہ بھاری ہوگئی تو دونوں میاں بیوی نے دعا کی کہ ہمارے رب ہمیں تندرست بچہ عطا فرما، جب اللہ نے تندرست بچہ دیا تو وہ اللہ کیساتھ شریک ٹھہرانے لگے‘‘۔
قرآن وسنت سے فقہی مسائل کے اختلافات کا متفقہ حل نکالنے میں بالکل دیر نہیں لگے گی مگر نیت اور عملی کردار کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ مدارس کو چاہیے تھا کہ یہ اخبار طلبہ کو خریدکر دیتے اور سب کو اپنی اپنی مطلب کی چیز اور علم کا خزانہ سمجھاتے۔ مغرب کی یونیورسٹیوں کی طرح مجھے درس کیلئے بلاتے ، تاکہ دماغی کاوش کی صلاحیتیں ان میں منتقل کرنے میں کوئی دیر نہ لگتی ۔ جب تک اپنے فریضہ کیلئے اپنی جدوجہد نہ کرلوں تو قبر کی مٹی میں نہ علمی جواہرات میرے کام کی ہیں نہ کسی اور کی۔ طلبہ کرام!، میں نے تمہاری طرح مدرسہ میں تعلیم حاصل کی ہے۔ نصاب کو سمجھنے کیلئے شروحات کے سہارے لئے ، اساتذۂ کرام سے سوال وجواب کئے، نصاب پر تنقید کرنے کے حوالہ سے حوصلہ شکنی کا کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا۔ مدارس کی محبت میرے دل اور میری روح میں بسی ہوئی ہے۔ مجھ پران مادر علمیہ کا احسان نہ ہوتا تو میں اسلام کی خدمت کرنے کا تصور نہیں کرسکتا تھا۔ اللہ نے فرمایا: انمایخشی اللہ من عبادہ العلماء ’’ بیشک اللہ سے اسکے بندوں میں سے علماء ڈرتے ہیں‘‘۔ اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ علماء کا خوف معتبر ہے۔ جو جاہل اللہ سے ڈرتا ہو لیکن حلال کی جگہ حرام اور حرام کی جگہ حلال سمجھ کر عمل وکردار ادا کررہا ہو تو اس کا خوف اللہ کے نزدیک معتبر نہیں ہے۔ سمت درست نہ ہو توحج پر جانیوالا مکہ مکرمہ خانہ کعبہ کے بجائے ایران کے جعلی کعبہ پہنچ جائیگا جو ابھی نقلی طور پر بنایا گیاہے اور پھر اس کی پوزیشن جاہل عوام میں بالکل تبدیل بھی ہوسکتی ہے اسلئے کہ جہاں شبیہ کو تقدس کا درجہ حاصل ہووہاں بڑی مشابہت کا معاملہ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پچھلے محرم میں یہ تقریر سامنے آئی تھی کہ یہ جھوٹ ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الا اللہ۔ بلکہ پاکستان ذوالجناح نے بنایا تھا۔ قائداعظم کے داد ا نے ذوالجناح کی منت مانگی تھی ، جس کو ذوالجناح نے بیٹا دیا،اسلئے اس کا نام پونجا جناح رکھ دیا۔ بعض کراچی والے جس طرح کراچی کو کرانچی کہتے ہیں ،اس طرح پوجا کو پونجا کردیا گیا تھا۔ ہم نے پچھلے محرم میں تبصرہ لکھ دیا تھا کہ پاکستان بھارت کے 22 صوبوں میں کسی ایک صوبے کے برابر بھی نہیں اور کشمیر کی آازدی بھی ادھوری ہے۔تو بھارت کے ہندو بھی کہہ سکتے ہیں کہ ذوالجناح کے مقابلے میں ہماری گاؤ ماتا نے بڑا بھارت دیدیا ہے اور کل ایران کا جاہل طبقہ نہیں بلکہ پاکستان کے مقبول ذاکر بھی کہیں گے کہ ایران کعبے کی شبیہ کیلئے وجود میں آیاتھا ، وجہ اس کی یہ بھی ہوسکتی ہے کہ امریکہ سعودیہ کیساتھ ہے اسلئے امام مہدی غائب کے ظہور کیلئے ایک ایسا کعبہ ضروری تھا جس میں خروج کیلئے کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
قرآن وسنت حقائق کے ادراک کیلئے بہت بڑا معیار ہیں۔ حرمت مصاہرت پر فقہی اختلاف کا یکسر خاتمہ ہوسکتاہے۔ اصول سے غلط نتائج نکالنے کے بجائے درست مسائل کا استنباط کیا جائے جس کا خلاصہ عوام کے سامنے رکھا جائے تو معاشرے پر اسکے بہت مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ نکاح کا معاہدہ جب تک نتیجہ خیز حد تک پہنچ کر ازدواجی تعلقات قائم کرنے کی حد تک نہیں پہنچے تو وہ ادھورا ہی رہے گا۔ اس کامقرر کردہ حق مہر نصف ہوگا اور عورت پر عدت نہیں ۔ عدت نہ ہو تو اس پر نکاح کی تکمیل پر پہنچنے کا اطلاق بھی نہیں ہوتا۔ عربی میں بعل اس شوہر کو ہی کہتے ہیں کہ جس نے بیوی سے ازداوجی تعلق بھی قائم کرلیا ہو، صرف نکاح والے کو بعل نہیں کہتے۔ ہماری اصطلاح میں جس کو منگنی کہا جاتاہے ،وہی درحقیقت شرعی اور زبانی نکاح ہے ۔رخصتی کے بعد ازدواجی تعلق کے قیام پر ہی ہاتھ لگانے کا اطلاق ہوتاہے۔ ازدواجی تعلق کے بعد پورے حق مہر اور عدت گزارنے کا معاملہ بھی آتاہے۔ حضرت ابنۃ الجونؓ سے رسول اللہﷺ نے نکاح ، حق مہر اور معاملات طے کیے، خلوت صحیحہ کے بعد ہاتھ لگائے بغیر رخصت فرمایا تو حضرت عمرؓ کو پتہ چلا کہ اس نے دوسری شادی کی ہے تو بہت ناراض ہوکر پہنچے۔ ابنۃ الجونؓ نے کہا کہ مجھ پر اُمّ المؤمنین کا اطلاق نہیں ہوتا اور نہ میں رسول ﷺ کے حرم میں داخل ہوئی ہوں۔ جس پر حضرت عمرؓ نے چھوڑ دیا۔ قرآن و سنت کا آئینہ مسلکی اختلافات کو ختم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ حرمت مصاہرت کیلئے نکاح اور دخول کا مجموعہ بنیاد بنے تو کسی مسلک کا اختلاف بھی نہیں رہے گا اور غیر فطری مسائل سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔ جب قرآن میں نکاح کیساتھ دخول کا مسئلہ بھی واضح ہے تو اس سے زیادہ وضاحت نہیں ہوسکتی ہے۔ فقہی مسائل کو معاشرہ سمجھ کر عمل کرے توبہت مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ بیوی شوہر سے لڑ پڑے اور کہہ دے کہ میرا ہاتھ غلطی سے شیر خوار بچے کیساتھ شہوت سے لگ گیا تو میاں بیوی کا نکاح نہ رہے گا۔اسی طرح بیٹا باپ سے لڑ ے اور کہے کہ میں نے شہوت کیساتھ بہن یا ماں کو ہاتھ لگادیا تو ماں باپ کا نکاح نہیں رہے گا۔ مجھے خوشی ہے کہ ایک مدرسہ کے مفتی نے مجھ سے کہا : ’’حرمت مصاہرت کے مسائل پر بڑے علماء میں تشویش ہے ، وہ اس مشکل سے نکلنے کی راہ دیکھ رہے ہیں‘‘۔ وہ مفتی صاحب خودکو مفتی تقی عثمانی کا ہم پلہ اسلئے سمجھتے ہیں کہ دارالافتاء کے رئیس ہیں۔درسِ نظامی اور فتاویٰ کی کتابوں کا ترجمہ موجودہے، کوئی بھی معمولی تعلیم والا کہیں سے عبارت تلاش کرلے گا۔
اصل مسئلہ صلاحیت کا ہوتاہے، اگر کوئی اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرکے موجودہ سودی نظام کو جواز بخشے گا تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پہلے بھی یہ مختلف ادوار میں اسلام کا چہرہ مسخ کرنے کیلئے ہوتا رہاہے۔اصل بات یہ ہے کہ کوئی اجنبیت کے سیاہ ترین بادلوں کے باوجود نصاب پر توجہ دے اور اسلام کا روشن چہرہ دنیا کے سامنے پیش کردے۔ پہلے کوئی محنت کرتا تھا تو کاتب کے ذریعے حق کا پیغام نہیں پہنچ پاتا تھا۔ پریس اور موجودہ میڈیا کا دور بعد کی پیداوار ہے۔ شاہی درباروں میں حق اور اہل حق کی جگہ نہیں ہوتی تھی بلکہ وہ پابند سلاسل رہتے ۔ آج کمپیوٹر کی کتابت ، پریس اور سوشل میڈیا کا دور ہے ۔ ورنہ ہمارے لئے بھی کلمۂ حق بلند کرنا آسان نہ تھا۔ مہدی، نبوت اور خدائی کے دعویدار بناکر مار دئیے جاتے اور قبر پر تختی لگادی جاتی کہ مہدی اور نبوت کا دعویٰ کرنیوالا اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے۔ تبلیغی جماعت کا پروپیگنڈہ سیل متحرک ہوکر گلی کوچوں اور کونے کونے میں پیغام پہنچادیتا کہ ہماے ا ایک برگشتہ جادوگر ، ستمگر، گمراہ اور انتہائی دھوکہ باز فراڈی انسان حاجی عثمان نے پیری کے لبادے میں لوگوں سے فراڈ کیا اور یہ عتیق الرحمن اسی کا چیلہ تھا ۔اہل حق کا دشمن، علماء کرام کا گستاخ، اکابرین کی عظمتوں کا منکر اور نئے دین کا مدعی انتہائی خطرناک بدمعاش تھا۔ اپنی ساری صلاحیت شیطانی قوتوں میں خراب کردی، داڑھی اور دینی لبادے سے بھی آخر محروم ہوگیا تھا۔
بعض لوگ سمجھتے ہونگے کہ یہ عتیق گیلانی ہے تو بہت اچھا انسان ، اسکے ایسے جانثار ساتھی ہیں جو بہادری اور جوانمردی میں ایک تاریخ رقم کررہے ہیں۔ جان ہتھیلی پر رکھ کر مشکل اوقات میں جو قربانیاں دے رہے ہیں اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ لیکن یہ ملامتی صوفی کی علامات ہے جس میں ہروقت کوئی نہ کوئی ایسی بات، ایسا جملہ اور ایسے معاملات اٹھائے جاتے ہیں کہ لوگ ملامت کی گردان ہی جاری رکھتے ہیں۔ میں ان لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ ملامتی صوفی کو چھوڑئیے ،حقائق کی طرف دیکھئے۔ ایک انسان کی جان بچانا انسانیت کو زندہ کرنا ہے۔ حلالہ کی لعنت سے ایک خاتون کی عزت بچانا ساری دنیا کی عزت بچانا ہے ۔ قرآنی آیات کے احیاء سے مردہ قوم کے جسم میں پھر زندگی کی روح دوڑنا شروع ہوجائے گی ۔ ہمارا ہدف پاکستان اور اسلامی دنیاہی نہیں بلکہ ہم دنیا بھر میں اس خلافت علی طرزِ نبوت کی طرف پیش قدمی کررہے ہیں جس سے آسمان اور زمیں والے دونوں کے دونوں خوش ہونگے۔تقریباً 27سال کا عرصہ ہوا، نقشِ انقلاب شائع کرتے کرتے۔ اور اب یوٹیوب پرپہلی تقریر دی ہے ،جو اوکاڑہ کی مختصر تقریب میں کی ہے۔اس میں میرا ٹھنڈا اور دھیمہ لہجہ مت دیکھو بلکہ قرآن وسنت کی ترویج اور فرقہ واریت کے خاتمہ کا انداز دیکھ لو۔
زمانہ جاہلیت میں ایک طرف باپ کی منکوحہ سے نکاح کرلیتے تو دوسری طرف منہ بولے بیٹے کی بیوہ سے نکاح ناجائز سمجھتے۔ یہ قصے نہیں قرآنی آیات ہیں جن کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ کی کئی ریاستوں میں کم عمر لڑکیوں کے نکاح پرپابندیوں کے باوجود مسئلہ حل نہ ہوسکا۔ جہاں جنسی آزادی ہو، 12، 13سال کی لڑکیاں ماں بننے کامعمول ہو وہاں 16،18اور20سال کی عمر تک شادی پر پابندی دورِ جاہلیت سے بڑی جہالت ہے۔ اسلامی جمہوری اتحاد کا صدر غلام مصطفی جتوئی الیکشن ہارگیا اورسینئر نائب صدر کی بنیاد پر مولانا سمیع الحق وزیراعظم بننے کے حقدارتھے مگر پھر صوبائی رہنما نوازشریف وزیر اعظم بن گئے۔ مولانا سمیع الحق پر میڈم طاہرہ کا سکینڈل بنا۔ اصغر خان کیس کے حقائق کو سامنے لایا جائے تاکہ نوجوں نسل نظریاتی بن جائے۔ پھانسی کے بعد ذو الفقار علی بھٹو کے ختنہ کی بھی تلاشی لی اور اگر شریف النفس سرائیکی جنرل باجوہ اور نواز شریف کے ہمدرد چیف جسٹس ثاقب نثار کی موجودگی میں لاہوری وزیر اعظم کی تلاشی نہ لی گئی تو لاہور ی سپوت اور جیو کے حامد میر یہ کہنے میں حق بجانب ہونگے کہ پاکستان تخت لاہور ہے۔ مذہبی وسیاسی مسائل نے قوم کو گھیرے میں لیا ہے۔ اس منشور کی ضرورت ہے جو درست راہ پر لگادے۔ منشورکی قرآنی آیات کی تلاوت مساجد میں خوش الحان قاریوں سے کروائی جائے۔ جید علماء سلیس ترجمہ کریں۔ سحر بیان خطیب عوام کو سمجھائیں۔ دانشوراس کی حکمتوں کو عوام میں منتقل کریں۔ مدارس علماء اور طلبہ کو بھیج دیا کریں، تبلیغی جماعت ، دعوت اسلامی ، جمعیت علماء اسلام، جماعت اسلامی، جمعیت علماء پاکستان اور دیگر چھوٹی بڑی تنظیمیں اپنی اپنی خدمات موثر طریقہ سے انجام دیں۔









