پوسٹ تلاش کریں

اسلام کا مسئلہ طلاق کردار سازی کا ذریعہ

عربی میں عورت کو چھوڑدینے یا علیحدہ کرنے کا نام طلاق ہے۔ زمانہ جاہلیت میں اس طلاق نے ایسی مذہبی کیفیت اختیار کرلی تھی جس میں شوہر چاہتا تو بیوی کو زندگی بھر حق سے محروم کرکے رکھ لیتا۔ طلاق دے دیتا اور پھر عدت کے خاتمے سے پہلے رجوع کرلیتا اور یہ بھی صورتحال تھی کہ بیک وقت تین طلاق دیتا تو رجوع نہیں کرسکتا تھا۔ اللہ نے شوہر کے اختیاری ظلم و جبر کو بھی ختم کردیا اور اس کیفیت سے بھی نجات دلادی کہ میاں بیوی باہمی رضا مندی سے رجوع نہیں کرسکتے تھے۔ طلاق کے حوالے سے دنیا نیوز کے معروف صحافی کامران خان نے ڈاکٹر ذاکر نائک ، جاوید احمد غامدی اور مفتی محمد نعیم کو اپنا اپنا مؤقف پیش کرنے کا موقع فراہم کیا۔ رمضان کا مہینہ آرہا ہے جس میں طلاق کے واقعات کی کثرت ہوتی ہے۔ اہل حدیث کے دار الافتاؤں میں سوالات کے انبار پڑے رہتے ہیں۔
طلاق کے حوالے سے قرآن میں سورہ طلاق کی پہلی دو آیات اور سورہ بقرہ کی 224 سے 232تک کسی بھی مسلک کے بڑے عالم دین کا صرف عوام ترجمہ ہی دیکھ لیں۔ ہمارا مؤقف کتاب ’’ابر رحمت‘‘ اور ’’تین طلاق کی درست تعبیر‘‘ میں بہت واضح ہے جس کی آج تک بڑے پیمانے پر بڑے بڑے علماء و مفتیان کی طرف سے بہت تائید ہوئی ہے مگر ان کی تردید کی جرأت آج تک کوئی نہیں کرسکا ہے۔ الحمد للہ کافی لوگوں کے مسائل بھی حل ہوئے ہیں اور امید ہے کہ تمام مکاتب فکر کے علماء اور دنیا بھر کی تمام ریاستوں کی طرف سے اس کو بھرپور پذیرائی ملے گی۔ ہم یہاں پھر چند مغالطے ختم کرنا چاہتے ہیں۔
اسلام نے نکاح و طلاق کے معاشرتی تصورات کو کچھ اہم اصلاحات کیساتھ متعارف کرایا ہے، نکاح و طلاق کی سب سے زیادہ اہمیت نسب کی حفاظت اور جائز و ناجائز کا تصور ہے۔ نکاح و طلاق میں شوہر و بیوی کے حقوق کا مکمل تحفظ ہے۔ نکاح اور طلاق میں جاہلانہ رسم و رواج کا بالکل جڑ و بنیاد سے خاتمہ کیا گیا ہے مگر بد قسمتی سے اسلام اجنبی بن گیا ہے۔
ایک شوہر اپنی بیوی کو ایک طلاق دیتا ہے اور پھر عدت کے آخر میں بیوی کی رضا مندی کے بغیر رجوع کرلیتا ہے ، اسی طرح سے تین مرتبہ بیوی کو عدت گزارنے پر مجبور کرتا ہے تو کیا یہ حق اس کو شریعت نے دیا ہے؟۔ کم عقل علماء و مفتیان کہتے ہیں کہ اللہ نے ہی شوہر کو یہ حق دیا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے شوہر کو ایک ہی عدت کا حق دیا ہے تین عدتوں کا نہیں۔ پھر اگر شوہر اپنی بیوی کو زندگی بھر طلاق نہیں دے تو بھی کم عقل علماء و مفتیان کہتے ہیں کہ یہ حق شوہر کو اللہ نے ہی دیا ہے۔ بیوی خلع لینا چاہتی ہو مگر شوہر طلاق نہ دے تو بھی یہ کم عقل طبقہ کہتا ہے کہ اللہ نے شوہر کو یہ حق دیا ہے۔ قرآن کی تعلیمات کو چھوڑنے کا سب سے بڑا ذمہ دار طبقہ یہ علماء و مفتیان ہیں جنکو عوام قرآن و سنت اور دین و شریعت کا محافظ سمجھتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں رسول اللہ ﷺ کی طرف سے قیامت کے دن اپنی اُمت کے خلاف شکایت کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے جس سے علماء و مفتیان اندازہ لگاسکتے ہیں۔
و قال رسول ربی ان قومی اتخذوا ھٰذ القرآن مہجورا ’’اوررسول ﷺ فرمائیں گے کہ اے میرے رب! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت 224میں یہ نکتہ واضح کیا کہ اللہ کو اپنی یمین کیلئے مت استعمال کرو ڈھال کے طور پرکہ تم نیکی نہ کرو گے ، تقویٰ اختیار نہیں کرو گے اور لوگوں کے درمیان مصالحت نہ کرو گے۔۔۔ عربی میں یمین کی جمع اَیمان ہے ۔ دائیں ہاتھ کو یمین کہا جاتا ہے اور جب کوئی عہد و پیمان کرتا ہے ، حلف اٹھاتا ہے ، کسی چیز کو حرام قرار دیتا ہے تو یہ سب کے سب یمین کی صورتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے وضاحت یہ کی کہ اللہ کو نیکی ،تقویٰ اور مصالحت نہ کرنے کیلئے عہد و پیمان میں ڈھال کے طور پر استعمال نہ کرو۔ یہ ایسی وضاحت ہے کہ جب بھی میاں بیوی آپس میں ملنے پر راضی ہوں تو کوئی یہ فتویٰ نہیں دے سکتا ہے کہ اللہ کی طرف سے منع ہے ، شریعت رکاوٹ ہے ، فقہ رکاوٹ ہے ، حدیث رکاوٹ ہے اور قرآن رکاوٹ ہے۔ کم عقل علماء و مفتیان کی ذہنیت پر اس آیت میں اللہ نے بینڈ (پابندی)لگادی۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ بیوی کو غصہ میں ماں کہہ دیا جاتا تھا ، حرام کہہ دیا جاتا تھا اور تین طلاق دی جاتی تھی ، نہ ملنے کی قسم کھالی جاتی تھی اور پھر پشیمانی کے بعد بھی مذہب کو آڑ بنا کر میاں بیوی ایکدوسرے کے قریب نہیں آسکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ سرخ لکیر ان تمام فتوؤں پر خط تنسیخ بنا کر کھینچ دی کہ اب اللہ کو ان معاملات میں ڈھال کے طور پر استعمال کرنا چھوڑ دو۔ اللہ کو پتہ تھا کہ انسان بتوں کو بھی پوجتا ہے ، چاند، تارے اور سورج کا بھی پجاری بنتا ہے ، گائے کو بھی پوجتا ہے ، احبار و رہبان علماء و مشائخ کو بھی رب کے درجے پر فائز کردیتا ہے۔ ڈھیٹ انسان کیلئے ایک جملہ کافی نہیں تفصیل ضروری ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت 225 میں واضح کردیا کہ اللہ تمہیں لغو یمین سے نہیں پکڑتا بلکہ دل کے گناہوں سے پکڑتا ہے۔ پھر 226میں یہ بھی بتادیا کہ اگر کوئی اپنی بیوی سے نہ ملنے کی ٹھان لے تو اس کیلئے 4ماہ ہیں اور اگر مل گئے تو اللہ غفور رحیم ہے اور پھر آیت 227میں یہ بھی بتادیا کہ اگر پہلے سے طلاق کا عزم تھا تو اللہ سننے جاننے والا ہے۔ پھر آیت 228میں یہ بھی بتادیا کہ طلاق شدہ کیلئے انتظار کی مدت تین مراحل یا تین ماہ ہے اور اس مدت میں شوہر صلح کی شرط پر رجوع کے حقدار ہیں۔ جس کا مطلب واضح ہے کہ اگر طلاق کا عزم تھا اور اس کا اظہار نہ کیا تو اللہ تعالیٰ دل کے اس گناہ پر ضرور پکڑے گا اسلئے کہ طلاق کے عزم کا اظہار نہ کرنے کی صورت میں عدت 3 کے بجائے 4 ماہ ہے اور یہ عورت کیساتھ زیادتی ہے۔ جب طلاق کے عزم کا اظہار نہ کرنیکی صورت میں عورت کی عدت ایک ماہ بڑھ جائے اور اس پر بھی اللہ کی طرف سے واضح طور پر پکڑکی وعید سنائی گئی ہو تو پھر شوہر کو زندگی بھر عورت کو رلانے کا حق اللہ کی طرف سے کیسے ہوسکتا ہے؟۔
عدت 4ماہ کی ہو یا 3ماہ کی لیکن اللہ تعالیٰ نے رجوع کیلئے بار بار عدت ہی کا حوالہ دیا ہے۔ عدت میں بھی رجوع کیلئے باہمی رضا مندی اور صلح کی شرط کو واضح کیا ہے۔ قارئین ! خود ہی قرآن کی آیات کا ترجمہ ہی دیکھ لیں۔ سورہ بقرہ کی آیت 228میں تین مراحل کی عدت اس صورت میں ہے جب عورت کو حیض آتا ہو اور اگر حیض نہ آتا ہو یا اس میں کوئی مسئلہ ہو تو پھر 3ماہ کی عدت ہے۔ 3طہر و حیض کا مجموعہ بھی 3ماہ بنتا ہے۔ اگر عورت کو حمل ہو تو پھر عدت کے 3مراحل میں 3مرتبہ طلاق کا کوئی تصور نہیں بنتا، 228میں یہ بھی واضح ہے کہ میاں بیوی کے حقوق بالکل برابر ہیں البتہ مردوں کو ایک درجہ زیادہ حاصل ہے۔ یہ بڑا درجہ ہے کہ شوہر طلاق دیتا ہے اور عورت انتظار کی عدت گزار تی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آیت 229میں یہ واضح کیا ہے کہ طلاق دو مرتبہ ہے ، پھر معروف طریقے سے رجوع یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ واضح فرمادیا کہ 3مرتبہ طلاق سے مراد حیض کی صورت میں طہر و حیض کے 3مراحل ہیں۔ بخاری کی کتاب التفسیر سورہ طلاق کے علاوہ کتاب الاحکام ، کتاب الطلاق اور کتاب العدت میں حضرت ابن عمرؓ کے حوالے سے اس وضاحت کا مختلف الفاظ کے ساتھ ذکر ہے۔ ایک صحابیؓ کے سوال کے جواب میں بھی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تسریح باحسان ہی تیسری طلاق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی واضح کردیا کہ اگر معروف طریقے سے رجوع کا پروگرام نہ ہو تو پھر طلاق کی صورت میں تمہارے لئے بیوی سے کچھ بھی لینا حلال نہیں جو بھی تم نے انکو دیا ہے، البتہ اگر دونوں اس بات پر متفق ہوں کہ اگر کوئی دی ہوئی چیز ایسی ہو جس کو واپس نہ کیا جائے تو دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے اور اگر فیصلہ کرنے والوں کو بھی یہ خوف ہو کہ اس چیز کو واپس کئے بغیر یہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو عورت کی طرف سے اس چیز کا فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں۔ یہ اللہ کے حدود ہیں ان سے تجاوز مت کرو اور جو ان سے تجاوز کرتا ہے تو بیشک وہی لوگ ظالم ہیں۔ پھر یہ تمہید مکمل کرنے کے بعد اللہ نے آیت 230میں واضح کیا کہ پھر اگر طلاق دیدی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی اور سے نکاح نہ کرلے۔ علماء و مفتیان اپنی کم عقلی کی وجہ سے قرآن کی ساری حدود کو پامال کرتے ہوئے یہ ایک جملہ پکڑ لیتے ہیں اور باقی آگے پیچھے سے کچھ دیکھنے کی زحمت نہیں کرتے۔ اسکے بعد آیت 231اور 232میں بھی عدت کے بعد رجوع کی گنجائش کو واضح کیا گیا ہے۔ دیوبندی بریلوی اصول فقہ کی متفقہ کتاب ’’نور الانوار: ملا جیونؒ ‘‘ میں بھی حنفی مؤقف کی وضاحت ہے کہ آیت 230میں اس طلاق کا تعلق 229میں فدیہ کی صورت سے ہے ۔ علامہ ابن قیم ؒ نے بھی ’’زاد المعاد‘‘ میں حضرت ابن عباسؓ کے حوالے سے تفسیر لکھ دی ہے کہ اس طلاق کا تعلق سیاق و سباق کے مطابق مرحلہ وار دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسرے مرحلے میں فدیہ دینے کی صورت سے ہے۔ تفسیر کے امام علامہ جاراللہ زمحشریؒ کی بھی یہی رائے ہے۔ اور سب سے بڑھ کر قرآن کی سورہ طلاق میں بھی اسی مؤقف کی ہی زبردست تائید ہے۔ ابو داؤد شریف میں حضرت ابو رکانہؓ اور حضرت اُم رکانہؓ کے حوالے سے بھی سورہ طلاق کا حوالہ دیکر نبی کریم ﷺ نے اسی مؤقف کی تائید فرمائی ہے۔
سورہ بقرہ اور سورہ طلاق کی آیات اور احادیث میں یہ مؤقف بالکل واضح ہے کہ تین مرتبہ طلاق کا تعلق طہر و حیض کے 3مراحل سے ہے۔ رجوع کا تعلق باہمی رضامندی اور عدت کی تکمیل کے حوالے سے ہے۔ عدت کی تکمیل سے پہلے عورت دوسری جگہ شادی نہیں کرسکتی اور عدت کی تکمیل کے بعد دوسری جگہ بھی شادی کرسکتی ہے اور پہلے سے بھی وہ رجوع کرسکتی ہے اللہ تعالیٰ کی آیات رجوع کیلئے معاون ، مددگار اور ترغیب کا ذریعہ ہیں۔ جن لوگوں نے قرآن و سنت کو باہمی رضامندی کی راہ میں رکاوٹ بنالیا ہے یہ ان کی اپنی کارستانی ہے۔ جس طرح سے صاحب ہدایہ ، فتاویٰ قاضی خان اور فتاویٰ شامیہ میں سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے جواز کی باتیں انتہائی گمراہ کن، کافرانہ اور مردودانہ ہیں اور اگر کوئی اس میں شک کرتا ہے تو پھر رمضان کی 27ویں شب میں تمام ٹی وی چینلوں کے سامنے ان گمراہ کن کتابوں کو لاکر ان کی تردید کی جائے یا ان کی تائید کیلئے سورہ فاتحہ کو توبہ نعوذ باللہ من ذٰلک پیشاب سے لکھنے ۔۔۔جس طرح سے سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کی بات فقہ کی مستند کتابوں میں ہونے کے باوجود انتہائی غلط اور گمراہ کن ہے اسی طرح سے یہ بھی غلط ہے کہ قرآن و سنت کے خلاف بیک وقت تین طلاق پر کسی عورت کی عزت لوٹنے کا فتویٰ دیا جائے۔ حضرت عمرؓ نے جھگڑے کی صورت میں شوہر سے طلاق کے بعد رجوع کا حق بالکل ٹھیک چھینا تھا۔ قرآن ایک طلاق کے بعد بھی صلح کے بغیر شوہر کو رجوع کا حق نہیں دیتا۔ ائمہ اربعہ نے ٹھیک فیصلہ کیا کہ طلاق واقع ہوجاتی ہے تاکہ عورت عدت کے بعد دوسری جگہ شادی کرسکے۔ مگر باہمی رضامندی سے رجوع کا حق قرآن و سنت میں نہیں چھینا گیا تو کسی اور کو یہ حق کیسے ہے؟۔ ٹی وی پر کوئی بھی عالم و مفتی ہمار اچیلنج قبول کرلے۔

عدالتی فیصلہ عدالت کے منہ پر کالک….. اشرف میمن کا بیان

نوشتہ دیوار کے پبلشر اشرف میمن نے کہا پانامہ لیکس پرعدالتی بینچ نے عدلیہ ، وزیر اعظم اور عدلیہ سے توقعات رکھنے والوں کے منہ پر کالک ملی ہے۔ قوم کی تقدیر بدلنے کیلئے نظام مصطفی ﷺ کی ضرورت ہے۔ دو ججوں نے وزیر اعظم کو کرپٹ اور نا اہل قرار دیا، تو تین ججوں نے دو ماہ کیلئے ادھورا احرام پہنا کربڑا حاجی بنادیا ہے۔ عدالتی بنچ کوئی پانچ ٹانگوں والا گدھا یا فیصلے سے وزیر اعظم کو شیر کے بجائے گدھا بنادیا ؟ ، بالفرض تین جج نا اہلی کا فیصلہ کرتے تو ن لیگ کے رہنما فیصلے کو من و عن قبول کرتے؟۔ وزیر اعظم اور ن لیگی رہنما واضح طور پر کہتے ہیں کہ عوام نے منتخب کیا ،عوام ہی ہٹا سکتے ہیں، جسکامطلب ہے کہ چار جج بھی نا اہلی کا فیصلہ کرتے تو پانچویں ٹانگ کے زور پر وزیراعظم نے عدالتی فیصلہ نہیں ماننا تھا بلکہ پانچوں جج بھی فیصلہ کرتے توعدالیہ کو بھی گدھا قرار دیا جاتا کہ یہ خوامخواہ میں ڈھینچو ڈھنچو کررہاہے۔ فوج نے پہلے ڈان لیکس پرایکشن لیا مگر کیاڈھینچو ڈھنچو سے معصوم کو ڈرایا تھا؟لگے گا کہ فوج گدھی تھی جو ڈھنچو ڈھنچو کر رہی تھی،پہلے عاصمہ جہانگیر حکومت کو کہتی تھی کہ تم بہو بن کر رہو،ریٹائرڈ فوجی خود کو شوہر اور حکومت کو بیوی کہتے تھے۔ اب قوم کو کیا غرض ہے کہ ڈھینچو ڈھینچو گدھا کرے یا گدھی ؟عوام تماشہ دیکھ رہی ہے کہ ن لیگ نے ذو الفقار علی بھٹو کی غیر جمہوری برطرفی اور عدالتی فیصلے سے وزیر اعظم کی موت کو قبول تھا، بینظیر بھٹو کی حکومت کو ختم کیا تو بھی عدالتی فیصلہ مان لیامگر اپنے خلاف عدالت پر چڑھائی کردی ، یوسف گیلانی کو برطرف کیا تو بھی نواز شریف نے خیر مقدم کیا، حالانکہ یوسف گیلانی نے بے اختیاری میں چھینک ماری تھی جبکہ پانامہ کے پاجامے نے جو دستیاب دست تھے ،سب اگل دئیے۔
سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی، وزیر اعظم پارلیمنٹ میں شیر کی طرح دھاڑا ،قوم کے سامنے قطری شہزادے کے بغیر اپنے خون پسینے کی کمائی کا حساب دیامگر عدالت نے شیر کے پنجے توڑ دئیے تو پارلیمنٹ کے بیان کو ڈھینچو ڈھینچو کہنے میں عافیت ہے۔ شیر کے پنجے اور گدھے کی پچھلی دو لتی مضبوط ہوتے ہیں، خان عبد القیوم خان کی مسلم لیگ کا نشان بھی شیر تھا۔ پشتو والے اسکے بارے میں شعر کہا کرتے تھے
شیر دے ربڑ شیر دے چہ در بزہ نہ شی
ٹول پاکستان بہ پاکیزہ نہ شی
ترجمہ: تمہارا شیر ربڑ کا شیر ہے کہیں یہ پھٹ نہ جائے۔ توپھر پورا پاکستان سے صاف نہیں کیا جاسکے گا۔(مملکت خدادا واقعی گند سے بھرگئی)
وزیر اعظم نواز شریف کی کانگریس و جمعیت علماء ہند کے محمود اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن سے دوستی ہوگئی ۔ امریکی دوست کی طرح یہ لوگ مشترکہ گدھے کے نشان پر انتخاب لڑیں ۔ جسکا بڑا فائدہ یہ ہے کہ ڈھینچو ڈھینچو کئے جاؤ ، زور دار ہوا بھی خارج کرو مگر کسی کی کوئی پرواہ نہ کرو۔ سپریم کورٹ کے دو سینئر ججوں نے پہلی مرتبہ وزیر اعظم کو اس طرح سے نا اہل اور کرپٹ قرار دیا ہے مگر اسکے باوجود اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ جیسے خواجہ آصف نے عمران خان کیخلاف پارلیمنٹ میں تقریر کی کہ کوئی شرم بھی ہوتی ہے،کوئی حیاء بھی ہوتی ۔۔۔اخلاق کا بھی تقاضہ
شاعر ملت علامہ اقبال نے کہا تھا کہ
اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
پولیس اہلکار،سول وملٹری بیوروکریسی، عدالتی ججوں میڈیا بلیک میلروں، سیاستدانوں ، غریب و امیر طبقوں ، ڈاکٹروں اور مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے پاکستانی طے کرچکے ہیں کہ اقبال کے سراغ زندگی کا مطلب یہ ہے کہ خوب بے غیرتی کیساتھ کرپشن کرو، اشتہارات میں خادم اعلیٰ شہبازشریف اور وزیراعظم نواز شریف قوم کیلئے آئیڈیل کی حیثیت رکھتے ہیں،کرپشن کے عالمی الزام کے بعد عدالتی فیصلوں سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بس یہی جینے کا مزہ ہے ،جہاں بس چلے حلال و حرام کی تمیز نہ کرو، پیسہ ہو تو عوام ووٹ دیتی اور گلو بٹ پنجاب پولیس جان لیتی ہے۔ عدالتی فیصلہ سیاسی ہے، مریم نواز کانام جی آئی ٹی میں نہیں۔ اللہ ہماری حالت ،عدالت، سیاست کو اسوقت بدلے گا جب ہم خود کو بدلنے کیلئے اٹھیں۔پانچ ججوں میں سے دو نے نا اہل قرار دیا ہے اور تین ججوں نے فیصلہ التوا میں ڈالا ہے۔ اگر پھر دو جج اہلیت اور بے گناہی کا فیصلہ کریں اور ایک جج درمیانی راہ اپنائے تو پھر؟۔ جیو پر ن لیگ کے رہنما نے کہا کہ 13 میں سے 8سوال میاں شریف اور 5حسین نواز سے ہیں جبکہ نواز شریف اور اسحق ڈار بیگناہ ہیں۔ حسین نوازنے میڈیا کے سامنے جھوٹ بولا تھا کہ قرض لیکر کاروبار شروع کیا، اور وزیر اعظم نے جو تقریر پارلیمنٹ یا اسکے علاوہ کہیں کی ہے تو اسکو استثنیٰ حاصل ہے۔ قوم حیران ہے کہ عدلیہ کے ترازو کو گدھے کی پانچویں ٹانگ سے تشبیہ دے یا پھر وزیر اعظم کیلئے سمجھے کہ وہ گدھے کی ٹانگ سے نہ صرف جمہوریت ، عدلیہ کو ہنکاتا ہے بلکہ ڈان لیکس میں پاک فوج کی بھی ایسی کی تیسی کرتا ہے
بھنور آنے کو ہے اے اہل کشتی نا خدا چل لیں
چٹانوں سے جو ٹکرائے وہ ساحل آشنا چن لیں
زمانہ کہہ رہا ہے میں نئی کروٹ بدلتا ہوں
انوکھی منزلیں ہیں کچھ نرالے رہنما چن لیں
اگر شمس و قمر کی روشنی پر کچھ اجارہ ہے
کسی بے درد ماتھے سے کوئی تار ضیاء چن لیں
یقیناًاب عوامی عدل کی زنجیر چھنکے گی
یہ بہتر ہے کہ مجرم خود ہی جرموں کی سزا چن لیں
(ساغر صدیقی)

امریکی عزائم اور سبھی کے جرائم… یہ نازک ملائم اور چابک بہائم

behzad-azam

inqalabi-ashaar-bande-ko-khuda-kia-likhna-syed-atiq-ur-rehman-gailani

inqalabi-ashaar-bande-ko-khuda-kia-likhna-syed-atiq-ur-rehman-gailani-1

inqalabi-ashaar-bande-ko-khuda-kia-likhna-syed-atiq-ur-rehman-gailani-2

masood_azhar_Shamzai

جب میں جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں پڑھتا تھا، مدارس میں ان طلبہ کو باغی سمجھا جاتاتھا جو بحالی جمہوریت کی تحریک ایم آر ڈی میں شریک مولانا فضل الرحمن کو گمراہ نہ سمجھتے تھے۔ شریعت بل کی حمایت نہ کرنے پر حاجی محمد عثمانؒ نے جمعہ کے وعظ میں سخت لہجے سے کہا ’’ بڑے مفتی کے بیٹے نے شریعت بل کو نہ مانا تو اس کا نکاح کہاں باقی رہا؟‘‘۔ مریدوں کی چیخیں نکل گئیں اور میری بے ساختہ ہنسی چھوٹ گئی۔ موقع ملا تو میں نے اپنے مرشد حاجی عثمانؒ سے عرض کیا کہ مارشل لاء بذاتِ خود نظام ہے، شریعت بلوں سے نہیں نظام سے آئیگی تو انہوں نے اپنی غلطی تسلیم کرلی فرمایامیرے پاس علم نہیں۔ ریفرنڈم کے موقع پر خانقاہ میں جب میں علماء کے فتوے کی مخالفت کررہاتھا تو مجھ سے اپنے اساتذہ مرید علماء نے کہا کہ ’’حاجی عثمان آپ کو حلقہ ارادت سے خارج کردینگے‘‘۔ میں نے کہا کہ ’’ایسا نہیں ہوگا، سیاست دارالافتاء کے مفتی اور خانقاہ کے صوفی کا کام نہیں‘‘۔جب کسی نے حاجی عثمانؒ کو ریفرنڈم کے فتوے کا پوچھا تو جواب دیا کہ ’’فتوؤں کو چھوڑ دو،تم 8سال سے آزماچکے ، اپنے ضمیر سے پوچھ لو، میرا دل نہیں مانتا کہ یہ شخص اسلام نافذ کریگا‘‘۔ جمعیت علماء اسلام کے مولانا شیرمحمدؒ کو میں نے بتایا تو خوش ہوگئے کہ علماء سے تو ایک صوفی زیادہ سمجھ دار ہے۔
جامعہ فاروقیہ میں مفتی نظام الدین شامزئی جمعیت (ف) میں تھے مفتی تقی عثمانی اپنے مرشد ڈاکٹر عبدالحی ؒ کو جنرل ضیاء کے بیٹے اعجازالحق کا نکاح پڑھانے لے گئے جسکی قادیانی جنرل رحیم کی بیٹی سے شادی تھی تو ہمارے اساتذہ نے مفتی تقی عثمانی کے اس روش پر افسوس کا اظہار کیا تھا، جب ڈاکٹر عبدالحیؒ کی میت کو دارالعلوم کراچی میں کندھا دینے جنرل ضیاء آیا تو میرا دل ہوا کہ کوئی پتھر،اینٹ یا کوئی مارنے کی چیز نظرآئے تو اٹھاکر ماردوں کوئی چیز نہیں ملی تو آنکھوں میں مٹی اٹھاکر پھینکنے کی طرف دھیان گیا مگر پھر سوچا کہ ڈاکٹر عبدالحیؒ کی میت کی بے حرمتی نہ ہوجائے ، البتہ جنرل ضیاء کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر غصے سے گھورا تھا، پھر اسکی وجہ سے سب کو میت سے ہٹادیا گیا مگر میں نے اس کا فائدہ اٹھاکر دیر تک کندھا دیا، وردی والوں کے علاوہ صرف میں عام آدمی سادہ کپڑوں والا تھا۔ جب علماء ومفتیان نے ہمارے مرشد حاجی عثمانؒ پر فتویٰ لگایا تو میں افغانستان میں حرکۃ الجہاد الاسلامی کے مولانا خالد زبیر شہید کیساتھ جہاد میں تھا۔
پوچھ گچھ کی گئی کہ کیسے آنا ہوا، بتایا کہ جہاد کو جنت کا مختصر راستہ سمجھ کر خود ہی آیا ہوں، وہ کہہ رہے تھے کہ ہمارے سوا باقی سب امریکہ کے ایجنٹ ہیں، میں نے قبائلی علاقہ سے خلافت کی تجویز پیش کی ،مرشد حاجی عثمانؒ کا بتایا کہ ان کی بھی یہ خواہش ہے اور کراچی کے بڑے مدارس اور فوج کے بڑے افسروں کی بڑی تعداد انکے حلقہ عقیدت میں شامل ہے۔روسی توپوں کی بھرمار میں بے خوف مجاہدین کا مشاہدہ اپنی عملی شرکت سے کیا۔جب مولانا مسعود اظہرکو بتایاتھا کہ مولانا زرولی کو حاجی عثمانؒ پر تہمت لگانے کی وجہ سے ڈرا کر آیا ہوں تو خوش ہوکر کہا کہ مفتی زرولی خان نے مولانا یوسف لدھیانوی کیساتھ یہ کیاتھا، مگر پھرجب حاجی عثمان پرفتویٰ لگانے کے بعدمیں نے علماء ومفتیان کو سرمایہ داروں کا ایجنٹ کہا تو مولانا اظہر ان کا دفاع کرنے آیا وہ میرے مہربان، مجھ سے ہمدردی اور بڑی محبت بلکہ عقیدت تک رکھنے والی شخصیت تھی۔ اس نے کہا کہ حاجی عثمانؒ کے اپنے سندیافتہ پہنچے ہوئے افق کے چاند کیوں مخالف ہوگئے؟، میں نے کہا کہ شیطان سے زیادہ پہنچا ہوا کون ہوسکتاہے؟۔ بعض صحابہ بھی مرتد ہوگئے تھے، قاری شیر افضل خان نے کہا کہ ’’میں اتنا جانتا ہوں کہ جو شخص دارالافتاء کے سامنے مفتیوں کو سرمایہ داروں کا ایجنٹ کہہ رہا ہے ، یہ باطل پر نہیں ہوسکتا‘‘۔ مولانا مسعود اظہر نے بعد میں کہا کہ اس اعدایہ فیل کو چھوڑدو، پہلے لوگ رشک کرکے تمہاری طرف انگلیاں اٹھاکر کہتے تھے کہ ’’ یہ بھی طالب علم ہے۔ اب تمہارا حلیہ دیکھ کر طلبہ خوف کھاتے ہیں کہ حاجی عثمان کا مرید دندناتا پھررہاہے ، کہیں کسی کو پیٹ نہ ڈالے‘‘۔
کچھ دنوں بعد مولانا مسعود اظہر کوپتہ چلا کہ میں نے علماء ومفتیان سے حاجی عثمان کے مغالطے پر اکابرین کیخلاف فتویٰ لیکر پھانس لیا، جسکی فوٹو اسٹیٹ پریہ شعر نقل کیا کہ ’’ہم ضبط کی دہلیز سے اترے تو سمجھ لو پھر شہرِ پُر اَسرار میں تم چل نہ سکو گے‘‘۔ مولانا مسعود اظہر مجھ سے خفا خفا لگ رہے تھے، دور سے دیکھ کر کنی کترائی اور ملاقات کا موقع نہ دیا۔ پھر مولاناجہا د پر گئے تو مفتی رشیدلدھیانوی کی سرپرستی میں چلنے لگے، جامعہ بنوری ٹاؤن نے ان کا نام اپنے مدرس کی حیثیت سے خارج کردیا، مفتی رشید نے مولانا بنوری ؒ کو بھی ستایا تھا، جمعیت علماء اسلام پر فتویٰ لگانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، مولانا مسعود اظہرجب انڈیا کی جیل میں بند ہوئے تو مجھے بڑا دکھ پہنچا مگرجب مفتی رشید لدھیانویؒ پر نوازشریف کی حکومت نے ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی تو تہاڑ جیل سے ضربِ مؤمن میں مفتی رشید کیلئے مولانا مسعود اظہر کا رونا دھونا شائع ہوا۔ میرا ماتھا ٹھنکا کہ مجھے ڈیرہ اسماعیل خان جیل میں لکھنے کی اجازت نہیں تھی تو بھارت نے کیسے اجازت دی کہ مضمون لکھتے رہو؟ پھر مولانا مسعود اظہر کی ڈرامائی رہائی ہوئی، بارہ سرنگوں کی بات آئی کہ اسمیں ایک مولانا کے سائز کی بھی تھی تو میں نے اپنے اخبار ضرب حق میں لکھ دیا کہ ’’اس سائز کی ایک سرنگ سب کیلئے کافی نہ تھی‘‘۔ مولانا نے نئی جماعت کا اعلان کرتے ہی ہزاروں کی تعداد میں مجاہد ین شامل ہونے اور اسامہ بن لادن کی طرف چالیس ذاتی باڈی گارڈ قبول کرنے کا مژدہ بھی میڈیا کو سنایا تھا۔
میں نے شبہ ظاہر کیا تھا کہ ’’یہ امریکی سی آئی اے کی کوئی بڑی سازش ہوسکتی ہے‘‘۔ جیش کے سرپرست مفتی جمیل خان کا تعلق جنگ گروپ سے تھا، 9/11کے دن امریکہ سے وہ برطانیہ پہنچا توبرطانیہ نے واپس امریکہ کے حوالے کردیا، جس کوجلدہی چھوڑ دیا گیا،حامد میر جب اوصاف کا ایڈیٹر تھا تو اپنے اداریہ میں لکھا کہ ’’مفتی نظام الدین شامزئی نے کہا کہ بعض مجاہد ین رابطہ عالم اسلامی مکہ کے ذریعے واشنگٹن سے رقم لاکرعلماء کو خرید رہے ہیں، اگر اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ان کا بھانڈہ پھوڑ دونگا‘‘۔ ہم نے پرزور انداز میں آواز اٹھائی کہ ڈرو مت حق بتادو مگر اس پر عمل نہیں ہوا۔ پرویز مشرف نے بہت لوگوں کو امریکہ کے حوالہ کرکے گوانتانا موبے بھیجا لیکن مولانا مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے کے بعد بھی نہ بھیجا۔ ڈان لیکس کے بعد فوج اورحکومت کا ایکدوسرے پر کالعدم تنظیم کے حوالہ سے الزام کوئی خفیہ بات نہیں۔ جنرل (ر) امجد شعیب وغیرہ نے بھی مولانا مسعود اظہر کو انڈیا کی طرف سے الزامات لگانے کے بعد مشکوک قرار دیا تھا۔
مولانا مسعود اظہر پر مفتی رشید نے جہاد کے بجائے مال ودولت بنانے کا الزام لگایا توجواب میں مولانا اظہر نے کہا کہ ’’ اس نے ہمارے اکابر پر بھی فتوے لگائے تھے‘‘۔ مولانا اظہر پہلے سے مفتی رشید کی قیادت میں کام کرنے سے انکار کردیتے تو اداکارہ نیلو اور ممتاز سے زیادہ مولانا اظہر کیساتھ یہ بات جچتی۔ مفتی محمودؒ کو اقبال کی شاعری بڑی اچھی لگتی تھی اور اقبال کو چاہتے بھی تھے لیکن مولانا حسین احمد مدنی کے خلاف اشعار کی وجہ سے کبھی اپنی تقریر میں علامہ کے اشعار نہیں پڑھے۔ اب یہ بڑی خطرناک بات ہے کہ مولانا مسعود اظہر کو امریکہ بہانا بناکر حملہ کردے۔مجھے اس بات کا یقین ہے کہ مولانا اظہر مغالطہ کھا سکتے ہیں ، اپنوں کیلئے استعمال ہوسکتے ہیں مگر غیر کے ایجنٹ کبھی نہیں ہوسکتے۔ محلاتی سازشوں کاشکار ہونے سے پہلے مولانا مسعود اظہرنے طلاق کے مسئلہ پر حق کا ساتھ دیا تو بھارت میں ایک اصلاح پسند عالمِ دین کی حیثیت سے دارالعلوم دیوبند اور بریلوی کے تمام مدارس کو تین طلاق کی مصیبت سے آزاد کرسکتے ہیں، جس سے کشمیر کی آزادی بھی ممکن ہوگی۔ مسلم خواتین کو فتوؤں کے ذریعے عزت دری سے بچایا جائے تو اس سے بڑا جہاد اور اسلامی نظام کی خدمت نہیں ہوسکتی۔ محمد بن قاسمؒ نے ایک خاتون کی عزت کیلئے سندھ فتح کیا ۔ عتیق گیلانی

shan-mother-neelo

لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو(اطہر مسعود ، بانڈھ ،نیٹ سے)
اب تو خیر اچھے خاصے ’’مرد‘‘ بھی حکمرانوں کے اشارہ اَبرو پر رقص کرتے نہیں شرماتے اور کئی تو ایسے ہیں کہ کئی حکومتیں گزر گئیں ان کا پیشہ نہیں بدلا لیکن ایک وقت تھا کہ عورتیں اور وہ بھی ڈانسر‘ جنہیں ہمارے ہاں بڑی تحقیر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے‘ اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود حکمرانوں کی محفلوں میں ناچنے سے انکار کردیتی تھیں۔جنرل ایوب خان کا اقتدار عروج پر تھا‘ شاید شاہ ایران کو خوش کرنے کیلئے محفل سجائی گئی۔ اس وقت کی نامور ایکٹریس اور ڈانسر نیلو کو بلایا گیا اس نے انکار کردیا جس پر اسے گرفتار کرلیا گیا حبیب جالب نے لکھا
تو کہ ناواقفِ آدابِ غلامی ہے ابھی رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
چار مصرعے تھے جو بعد میں فلم ’’زرقا‘‘ کا ٹائٹل سانگ بنے‘ گانا مہدی حسن نے گایا۔ فلم نے بزنس کے ریکارڈ توڑ دیئے۔ ریاض شاہد جن کی نیلو سے شادی ہوچکی تھی فلم کے ہدایتکار تھے۔ اس شادی کا ایک نشان آج کا ہیرو شان ہے جو ایک تقریب میں جنرل پرویزمشرف کے سامنے اس طرح رقص کررہا تھا کہ اس کی والدہ بھی کیا کرتی ہوں گی133.؟
ذوالفقار علی بھٹو نے بھی ایک ایسی ہی محفل لاڑکانہ میں سجائی۔ اس وقت کی خوبرو ترین اداکارہ ممتاز کی طلبی ہوئی‘ انکار پر تھانے لے جانے کی دھمکی دی گئی‘ جالب نے جو بھٹو کا معروف عاشق تھا لکھا
قصر شاہی سے یہ حکم صادر ہوا لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو

mumtaz-actress

قصرِشاہی سے یہ حکم صادر ہوا ، لاڑکانے چلو ۔۔۔۔۔۔ورنہ تھانے چلو
اپنے ہونٹوں کی خوشبو لٹانے چلو، گیت گانے چلو ۔۔۔۔۔۔ورنہ تھانے چلو
منتظر ہیں تمہارے شکاری ،وہاں کیف کا ہے سماں
اپنے جلوؤں سے محفل سجانے چلو، مسکرانے چلو ۔۔۔۔۔۔ورنہ تھانے چلو
حاکموں کو بہت تم پسند آئی ہو ،ذہن پر چھائی ہو
جسم کی لو سے شمعیں جلانے چلو، غم بھلانے چلو ۔۔۔۔۔۔ورنہ تھانے چلو

Habib-Jalib-Ashaar2

تبلیغی جماعت اور دعوت اسلام سنت زندہ کریں

مولانا الیاسؒ نے بلامعاوضہ تبلیغ سے نشاۃ ثانیہ کی بنیاد رکھی مگر اب گروہ بن گیا
پڑھے لکھو ں کو قرآن وسنت کی راہ دکھائی جائے تو لمحوں میں اسلام زندہ ہوگا
مولانا الیاس قادری علماء ومفتیان کو اکٹھا کرکے طلاق کا مسئلہ حل کرسکتے ہیں

دعوتِ اسلامی کے چینل نے ایک بہت اچھی مہم یہ شروع کررکھی ہے کہ عوام کو بیرونِ ملک کا جھانسہ دیکر لوٹنے والوں کے کردار سے آگاہ کررہے ہیں۔ حضرت عمرؓ فرماتے تھے کہ کسی کے نماز اور روزے کو دیکھ کر اس کی شخصیت کا فیصلہ نہ کرو بلکہ اس کی معاشرت ، معاملہ اور کردار کو دیکھو۔ نماز اہم ترین عبادت ہے اور کردار سازی کا زبردست ذریعہ بھی ہے۔ غلام احمد پرویز کے بعض پیروکار نماز کی افادیت کو ختم کرنے کی مہم جوئی کررہے ہیں حالانکہ نماز کا قیام اور زکوٰۃ کی ادائیگی اسلام کے بنیادی فرائض ہیں۔ جب میں سنی سنائی باتوں پر یقین کرتا تھا تو اپنے بھائی سے کہاتھا کہ رمضان میں ایک نماز کا ثواب 70گنا بڑھ جاتاہے۔ بھائی سے کہا کہ اللہ کی راہ میں نماز کا ثواب49کروڑ ہے اور اس کوپھر70سے ضرب دیا جائے تو کیلکلولیٹر میں نہیں آتا۔وہ تبلیغی جماعت میں نکلے اور میں جہاد کیلئے جنت کا مختصر راستہ سمجھ کر افغانستان گیا۔ اس وقت شرعی پردہ ایک وہم تھا لیکن میں نے پھر بھی شروع کردیا تھا ، گاؤں سے سارے ٹی وی نکلوادئیے تھے۔
آج بہت عرصہ کی جدوجہد کے بعد اللہ نے اپنے راستے کھول دئیے ہیں، اگر کوئی خاندان کی خواتین کو مکہ مکرمہ میں بیت اللہ کی نماز سے محروم کردے تو یہ تصور بھی نہیں ہوسکتاہے اسلئے کہ کہاں ایک لاکھ کا ثواب اور کہاں ایک نماز کا ثواب؟۔ باجماعت نماز کیلئے 25اور بعض حدیث میں 27گنا زیادہ ثواب کا ذکر ہے۔ تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی فضائل کے ذریعے سے ہی قرآن و سنت کے احیاء پر زور دے رہی ہیں اگر انکے مراکز میں 49کروڑ کی بات درست ہے تو مقامی مراکز ومساجد میں بھی یہ توقع کرنی چاہیے۔ نبیﷺ کے وقت میں یہ حکم تھا کہ خواتین کو مساجد سے نہ روکا جائے۔ یہ قرآن کا تقاضہ بھی تھا۔ ایک سنت کو زندہ کرنے پر 100شہیدوں کے اجر کی بشارت ہے ، فقہ کی کتابوں میں پڑھایا جاتاہے کہ پہلی صفوں میں مرد ، پھر بچے ، بچیاں اور پھر آخر میں خواتین کی صفیں بنائی جائیں گی۔ اگر تبلیغی جماعت اور دعوتِ اسلامی نے محلے کی سطح سے اس اسلامی فریضے اور سنت کے عمل کو زندہ کرنے میں اپنا بھرپور کردار اداکیا تو امت کی تقدیر بدلنے میں دیر نہیں لگے گی۔ تبلیغی جماعت کے حاجی عبدالوہاب اوردعوت اسلامی کے مولانا الیاس سے گزارش ہے کہ طلاق کے درست مسئلے و نماز سے اپنی تقدیر بدلنے کا آغاز کریں۔

خاتون نے مُولی سے مولوی کو کس طرح شرعی مسئلہ سمجھادیا

اسلام کے نظام کو پوری دنیا خوشی سے قبول کرکے طرزِ نبوت کی خلافت قائم کرنے میں ہماراساتھ دیگی
علماء ومفتیان کو مفاد پرستی چھوڑ کر سچائی کا کلمہ پڑھنا ہوگا۔ غیر فطری خود ساختہ مسائل کو اعلانیہ چھوڑنا ہوگا
ہمیں درشت زباں کا شوق نہیں بلکہ علماء ومفتیان گونگے شیطان بن کر بہت سخت لہجے پر مجبور کررہے ہیں

سورۂ مجادلہ میں ہے کہ ایک خاتون نے نبیﷺ سے اپنے شوہر کے حوالہ سے جھگڑا کیا،وہ کہہ رہی تھی کہ مجھے اپنے شوہر نے ماں کی پیٹھ سے تشبیہ دی ہے، مجھے حرام نہیں ہونا چاہیے۔ نبیﷺ مروجہ مذہبی قول کے مطابق فتویٰ دے رہے تھے کہ آپ اپنے شوہر پر حرام ہوچکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ دونوں کا مکالمہ سن رہا تھا اور فیصلہ خاتون کے حق میں دیا ، فرمایا کہ ظہار کرنے سے بیوی ماں نہیں بنتی بلکہ ماں وہ ہے جسکے پیٹ سے پیدا ہوئے ہیں۔ یہ منکر اور جھوٹا قول ہے۔ (قرآن و احادیث کا خلاصہ)۔ اس خاتون کا نام حضرت خولہ بنت ثعلبہؓ تھا، حضرت عمرؓ اس وحی کی وجہ سے ان کا بے حد احترام کرتے تھے۔ اسلام کا یہ انوکھا قانون احترام انسانیت کا درس دیتاہے۔ علماء ومفتیان کا فرض بنتاہے کہ اپنے ماحول اور اجتہاد سے طلاق کے مسئلہ پر کسی کو بھی اختلاف سے محروم کرنے کا تصور چھوڑ دیں ، ورنہ وہ نبیﷺ کے جانشین نہیں بلکہ شیطان کے آلۂ کار بن جائیں گے۔یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ نبیﷺ سے حضرت عمرؓ نے حدیث قرطاسؓ کے مسئلہ پر اختلاف کیا تھا لیکن اس اختلاف پر بھی نبیﷺ نے گستاخی اور واجب القتل کا فتویٰ جاری نہیں کیا، جبکہ ہماری عدالتوں کے جج اور علماء ومفتیان قرآن وسنت سے بالکل غافل ہیں اور اسی لئے اپنے سے اختلاف اور نافرمانی پر بھی گستاخی اور قتل کا فتویٰ لگادیتے ہیں۔
حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں ریاستی حکم جاری فرمایا کہ ’’ عورت کوحق مہر زیادہ لینے کا حق نہیں ہوگا‘‘ ۔ تو ایک خاتونؓ نے اس کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ تم کون ہوتے ہو، ہمارے حق مہر کا فیصلہ کرنے والے؟۔ جب اللہ نے ہمیں اپنی مرضی کے مطابق زیادہ اور کم کا اختیار دیا ہے تو آپ کو ہمارے حق میں مداخلت کا کوئی حق نہیں۔ حضرت عمرؓ نے اس خاتون کی بات سن کر اپنا حکم واپس لیا اور کھلم کھلا اظہار کردیا کہ اس خاتون کی بات درست ہے اور عمر نے غلطی کی تھی ، اخطاء عمر واصابت المرأۃ
اسلام سے زیادہ روشن خیال دین کی مثال دنیا کے کسی مذہب میں نہیں، فقہی مسالک اور فرقہ وارانہ اقسام وانواع کے اختلافات مسلمانوں کے درمیان موجود ہیں، ان اختلافی مسائل کی تہہ تک پہنچنے کیلئے مدارس میں بھرپور طریقے سے دلائل کی تعلیم دی جاتی ہے، افسوس کی بات یہ ہے کہ مدارس کے دارالافتاء میں بیٹھے مفتی صاحبان بھی خود کو بااختیار نہیں بلکہ اپنے اداروں کا قیدی بتاتے ہیں۔ درسِ نظامی کے نصاب اور طلاق کے مسئلہ پر ایک زبردست ہیجان پیدا ہواہے اور کئی سال پہلے میں نے مولانا فضل الرحمن کو بالمشافہ دعوت دی تھی لیکن وہ اعتراف کررہے تھے کہ ان کے پاس کوئی علمی قابلیت نہیں، آج ڈیرہ اسماعیل خان کے گلی کوچے میں تحریکِ انصاف کے امین اللہ گنڈاپور نے بہت زبردست فنڈز لگاکر کام کیا اور جب پرویزمشرف کے زمانہ میں پاکستان بھر میں بہت سڑکیں بن گئیں اور بہت کام ہوا تو یہ تماشہ بھی عوام نے دیکھا کہ مولانا فضل الرحمن کے بھائی اور ماموں نے سڑکوں کے پیسے کھالئے تھے۔ پائی، اماخیل اور نندور ملازئی ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان کے وہ گاؤں ہیں جہاں بڑی تعداد میں علماء موجود ہیں۔ شہروں میں جمعہ کے دن مساجد کی تقریروں کا پتہ نہیں چلتا مگر گاؤں میں لاؤڈاسپیکر کی آواز وہاں صاف سمجھ میں آتی ہے جہاں ایک سے زیادہ جمعہ نہیں پڑھایا جاتاہے۔ ایک مولوی صاحب نے تقریر کرتے ہوئے مسئلہ بتادیا کہ ’’عورت بچہ جن رہی ہو، آدھا بچہ باہر آجائے تو بھی اس صورت میں فرض نماز پڑھنا ضروری ہے‘‘۔ ایک خاتون نے اس مولوی صاحب سے کہا کہ ’’ تمہارے اندر پیچھے سے ایک آدھی مولی ڈالی جائے تو پھر میں دیکھتی ہوں کہ تم کس طرح نماز میں رکوع وسجدہ کرتے ہو؟‘‘مولانا فضل الرحمن بتائیں کہ خاتون کی بات سے اس مسئلہ سے رجوع ہوجائیگا یا نہیں؟۔ علامہ شاہ تراب الحق قادریؒ نے بھی جمعہ میں مسئلہ بتایا کہ ’’ لیٹرین کرتے ہوئے مقعد سے جو پھول نکلتاہے ، اگر اس کو دھونے کے بعد سکھایا نہ جائے اور وہ اندر داخل ہوجائے تو روزہ ٹوٹ جائیگا‘‘۔ علماء کرام ٹی وی پربھی سمجھائیں جو مسائل مسجدوں میں بتاتے ہیں،فرقہ وارانہ غلاظت اور سیاست کو دینِ اسلام کا نام نہیں دیا جاسکتا ہے۔ حکمرانوں کے تھالی چٹ درباری ملاؤں نے ہمیشہ دین کا بیڑہ غرق کیا، امام ابوحنیفہؒ ودیگر ائمہ نے سختیاں برداشت کی ہیں۔

خانہ بدوش مولانا فضل الرحمن درباری مُلا بننے کے بعد

اللہ تعالیٰ نے سورۂ قریش میں دنیا کی معززترین عرب قوم قریش کو مخاطب کرتے ہوئے خانہ بدوش قرار دیا ، خانہ بدوشی عیب نہیں، اسلام و فطرت کے منافی بھی نہیں، غیرت و حمیت کی بھی خلاف نہیں البتہ قافلے میں بوڑھے، جوان، خواتین و حضرات اور بچے بچیوں کا چلنا مشقت ضرور ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے اجداد بھی خانہ بدوش تھے۔ مسلمانوں کا عظیم اجتماع ’’حج‘‘ ہوتاہے جہاں لوگ دنیا بھر سے خاندان سمیت بڑی تعداد میں آتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے سلیم صافی کو انٹریو دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے Dچوک کی طرح تو خواتین کا مظاہرہ نہیں کرنا تھا ، ہمارے مرد حضرات خواتین کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مخلوط نظام کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ جیو کی پالیسی نہیں ہوگی ورنہ سلیم صافی حج کا حوالہ دیکر مولاناکا قہقہہ رونے میں بدل سکتے تھے۔
اسلام میں خواتین کیساتھ زیادتی کے علاوہ قوم لوط کے غیر فطری عمل کو بھی بہت مذموم قرار دیا گیا ہے۔ مدارس کے نصاب میں شامل ’’مقاماتِ الحریری‘‘ میں لڑکے کیساتھ زیادتی پر بہت شرمناک سبق ہے جس میں جوزر علیہ شوزر ہے، جوزر لڑکے اور شوزر رومال کو کہتے ہیں ، یعنی وہ لڑکا جس پر رومال تھا۔ ابوزید اپنا حلیہ بدل کر اس پر دعویٰ کرتاہے کہ اس نے میرے لڑکے کو مارا تھا، قاضی کے سامنے گواہ پیش نہیں کرسکتا تو لڑکے سے اپنے الفاظ پر قسم کھلاتا ہے کہ پھڑکنے والے گال سے لیکر آنکھوں اور لبوں تک کی تعریف کرکے انتہائی بیہودگی کا یہ لفظ بھی کہتاہے کہ ’’میری دوات قلموں سے ایسی ہوجائے‘‘۔ جس پر لڑکا قسم سے انکار کرتا ہے اور وہ شخص ابوزید اس قاضی کے جذبات کو بھی مشتعل کردیتا ہے اور اس کو لڑکے سے برائی کی دعوت کا دھوکہ دیکر پیسے بٹورتاہے۔ پھر انکشاف کرتاہے کہ یہ لڑکا اس کا اپنا ہی بیٹاہے۔بنوری ٹاؤن میں اس کتاب کے ہمارے استاذ مفتی نعیم تھے۔ جب میرے ایک بھائی نے ایک مولوی کا کہا کہ ’’اس بے غیرت نے اپنے بیٹے کو استعمال کرنے کیلئے چھوڑ رکھاہے‘‘ تو مجھے اتنا غصہ آیا کہ میرا پروگرام بنا کہ رات کو بھائی کو قتل کردونگا، بھائی کو میری دل آزاری کا احساس ہوا، اور مجھ سے بڑی شدت سے معافی مانگی۔ بعد میں بھائی جے یو آئی میں شامل ہوا، پھر جب میں باقاعدہ مدارس میں پڑھنے لگا تو پتہ چلا کہ علماء میں اچھے برے ہوتے ہیں۔ میرے والد نے ایک نواب کی علاقہ عمائدین کی طرف سے تعریف پر کہا’’اس نے لڑکوں سے زیادتیاں کی ہیں کونسا اچھا کام کیاہے؟‘‘۔ اس نواب نے تبلیغی اجتماع کیلئے اس قسم کا اظہارِ خیال کیا تھا اور اب مولانا فضل الرحمن عمران خان سے سیاسی اختلاف کا اظہار ضرور کریں ، پہلے جمعیت کا شاعر امین گیلانی نوازشریف کیخلاف عابدہ حسین اور تہمینہ دولتانہ کا نام لیکر مولانافضل الرحمن کے جلسے میں عوام کو بھڑکاتاتھااسلئے کہ محترمہ بینظیر سے دوستی تھی، اب مولانا مریم نواز کا دفاع کرینگے جو سیاست کرنی ہو کریں لیکن اسلام کا نام بدنام نہ کریں،سب اپنے اپنے قماش کو درست کریں۔

شیعہ سنی فرقہ واریت کی بڑی بنیاد اور اسکا حل

جب انصار و مہاجرین اور قریش و اہلبیت کے درمیان شروع سے خلافت و امامت کے مسئلے پر اختلافات موجود تھے تو آج کے دور میں اس کا حل نکلے بھی تو کوئی خاص فائدہ نہیں۔ البتہ اختلاف کو تفریق و انتشار کا ذریعہ بنانا درست نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اسلام اجنبیت کی حالت میں شروع ہوا ، یہ پھر اجنبیت کی طرف لوٹ جائیگا خوشخبری ہے اجنبیوں کیلئے۔ رسول اللہ ﷺ کی چاہت یہ تھی کہ لوگ اپنے ہاتھ سے خود زکوٰۃ تقسیم کریں۔ اللہ تعالیٰ نے عوام کی خواہش پر حکم دیا کہ ان سے زکوٰۃ لو ، یہ ان کیلئے تسکین کا ذریعہ ہے۔ نبی ﷺ نے اللہ کا حکم مانا مگر اپنے اہل بیت کیلئے اس کو حرام قرار دیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے سمجھا کہ خلیفہ کی حیثیت سے مجھے بھی زکوٰۃ لینے کا حکم ہے اور اس کی خاطر جہاد بھی کیا جس سے اہل سنت کے چاروں ائمہ مجتہدین نے اختلاف کیا۔ حضرت عمرؓ کی طرف منسوب کیا گیا کہ مؤلفۃ القلوب کی زکوٰۃ کو انہوں نے منسوخ کیا تو اس کو اکثریت نے قبول کیا جس میں ان کا اپنا مفاد تھا۔ حضرت عثمانؓ نے سمجھا کہ عزیز و اقارب کیساتھ احسان کرنا اللہ کا حکم ہے اسلئے انکے خلاف بغاوت کا جذبہ ابھرا اور ان کو مظلومیت کے ساتھ شہید کیا گیا۔ اللہ کی طرف سے رسول اللہ ﷺ پر رہنمائی کیلئے وحی نازل ہوتی تھی جس کا سلسلہ بند ہوا تھا۔
شیعہ سنی اختلاف میں ایک بنیادی مسئلہ حدیث قرطاس کا ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے قلم اور کاغذ منگوا کر وصیت لکھوانے کا فرمایا، حضرت عمرؓ نے کہا کہ ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے۔ بہت سی وہ آیات جن میں اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی اطاعت کا حکم ہے ، اہل تشیع اس کو آیات کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں، حضرت عمرؓ کی طرف سے رسول اللہ ﷺ سے اختلاف کا جواز ہو تو یہ بالکل بھی کوئی غیر معقول بات نہیں کہ اہل تشیع حضرت عمرؓ سے قیامت تک اپنا اختلاف برقرار رکھیں اور اسی پر دنیا میں گامزن رہیں۔ میں صرف اس انتشار کو ختم کرنے کیلئے کچھ دلائل دیتا ہوں تاکہ یہ فرقہ واریت کے زہر کیلئے تریاق کا کام کرے۔ قرابتداری کی محبت فطری بات ہے ، حضرت نوح ؑ نے اپنے کافر بیٹے سے بھی محبت کی۔ حضرت علیؓ کی ہمشیرہ حضرت اُم ہانیؓ شیعہ سنی دونوں کی نظر میں احترام کے لائق ہیں۔ وہ اللہ کے حکم کے مطابق ہجرت نہ کرسکیں ، اپنے مشرک شوہر کیساتھ فتح مکہ تک رہیں، قرآنی آیات میں مشرکوں سے نکاح منع ہونے کی بھرپور وضاحت ہے اور الزانی لا ینکح اور الطیبون للطیبات اور لاھن حل لھم ولا ھم یحلون لھن وغیرہ۔ ان تمام آیات کے باوجود جب اُم ہانیؓ کو اس کا شوہر چھوڑ کر گیا تو رسول ﷺنے نکاح کا پیغام دیا اور انہوں نے منع کردیا۔ ان سب چیزوں کے منفی منطقی نتائج نکالیں گے تو بدمزگی پھیلے گی۔ نبی ﷺ کو اللہ نے خود منع فرمایا کہ جن رشتہ داروں نے ہجرت نہیں کی ان سے نکاح نہ کرو (القرآن)۔ اسکے علاوہ نبی ﷺ نے مشاورت کرکے بدر کے قیدیوں سے فدیہ کا فیصلہ فرمایا تو اللہ نے اس کو مناسب قرار نہیں دیا۔ جس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ صحابہ کرامؓ کی تربیت اللہ کی طرف سے قرآن کی بھی اندھی تقلید کی نہیں ہوئی تھی۔ الذین اذا ذکروا باٰیت اللہ لم یخروا علیھا صما و عمیاناً (یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی آیات کے ذکر پر بھی اندھے اور بہرے ہوکر گر نہیں پڑتے)۔ مجھے خود بھی اس خاندان سے تعلق کا شرف حاصل ہے اور مجھے اس بات پر فخر ہے کہ حضرت اُم ہانیؓ نے اول سے آخر تک جو کردار ادا کیا اس میں ایک سلیم الفطرت خاتون کا ثبوت دیا۔ صحابہؓ اور اہل بیتؓ کے کردار کو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والے انسانوں کیلئے نمونہ بنایا ہے۔ حضرت اُم ہانیؓ کے اس کردار کی وجہ سے کوئی بھی دنیا کے کسی قانونی نکاح کو زنا نہیں قرار دے سکتا۔ لقد خلقنا الانسان فی احسن التقویم ثم رددناہ اسفل السافلین ہم گراوٹ کے آخری درجہ پر پہنچے ہیں جس کا قرآن میں ذکر ہے ، صحابہؓ واہلبیتؓ حضرت اُم ہانیؓ کا تعلق احسن التقویم سے تھا ۔
ہم نے یہ تماشہ بھی دیکھا ہے کہ علماء و مفتیان ہاتھ جوڑ جوڑ کر کہہ رہے تھے کہ خداکیلئے ہم حاجی عثمان ؒ کو بہت بڑا ولی اور مسلمان قرار دینگے لیکن ہماری طرف سے لگنے والے اکابرین پر فتویٰ کی تشہیر نہ کی جائے۔ جب ہم نے معاف کردیا تو پھر متفرق جائز و ناجائز اور نکاح منعقد ہوجائے گا وغیرہ کے فتوے کے بعد حاجی عثمان صاحبؒ کے اپنے ارادتمندوں اور عقیدتمندوں کے آپس کے نکاح کو بھی ناجائز اور اس کے انجام کو عمر بھر کی حرامکاری اور اولاد الزنا قرار دیا گیا حالانکہ اسلام دنیا بھر کے مذاہب و انسانوں کے قانونی نکاح و طلاق کو اسی طرح سے تسلیم کرتا ہے جیسے مسلمانوں کا۔ جن مفتیوں کے آباو اجداد ہندو تھے اور وہ مسلمان ہوئے تو وہ بھی حلال کی اولاد ہیں۔ شیعہ سنی تفرقے بہت سی غلط فہمیوں کا نتیجہ ہیں عشرۂ مبشرہ کے صحابہ کرامؓ نے بھی غلط فہمی کی بنیاد پر جنگیں کی تھیں۔ ائمہ اہلبیت کا توحید پر عقیدہ مثالی تھا مگر شیعہ حضرت علیؓ کو مولا سمجھ کر شریک ٹھہراتے ہیں یہ عقیدے کی اصلاح کیلئے ضروری ہے کہ حضرت علیؓ کو وہ مظلوم سمجھیں تاکہ مولا میں تفریق رہے۔

تین طلاق کا اہم ترین مسئلہ اور اس کا آسان حل

تین طلاق کے مسئلے پر نت نئے مسائل کھڑے ہوتے رہے ہیں۔تین مرتبہ طلاق پر قرآن وسنت کا ایک معروف ڈھانچہ ہے جسے کوئی بھی سمجھ سکتاہے اور دوسرا منکرات کا پیش خیمہ تھا جس کو بڑے لوگ آج تک بھی سمجھنے سمجھانے سے قاصر ہیں لیکن افسوس کہ مسلمانوں نے معروف کو چھوڑکر منکر پر طلاق کے ایسے مسائل کھڑے کردئیے کہ فرشتے بھی حیران ہونگے کہ آخر ابلیس کی ضرورت کیا ہے۔مذہبی لبادے میں شیاطین الانس کے خناس ہی کافی ہیں جن سے قرآن کے آخری سورہ میں آخری لفظ سے پناہ مانگی گئی ہے۔اللہ نے قیامت کے دن رسول ﷺ کی طرف قرآن میں یہ شکایت درج کی وقال رسول رب ان قومی اتخذوا ہذاالقرآن مھجورا
’’اور رسولﷺ فرمائیں گے کہ میرے رب میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘۔
طلاق کے مسائل کا آغاز کرنے سے پہلے اللہ نے فرمایا کہ ’’ اللہ کو اپنے عہدوپیمان کے لئے ڈھال کے طور پر استعمال نہ کرو، کہ تم نیکی نہ کرو، تقویٰ اختیار نہ کرو اورعوام میں مصالحت نہ کراؤ‘‘، مگر افسوس کہ پھر بھی اللہ کا نام لیکر میاں بیوی میں جدائی کرائی جاتی ہے اور تقویٰ اختیار کرنے کے بجائے حلالہ کی لعنت پر مجبور کیا جاتاہے، میاں بیوی صلح چاہتے ہیں لیکن علماء ان کے درمیان اللہ کو استعمال کرکے رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے۔ ہماری بات سمجھ میں آئی ہے لیکن ڈھیٹ بن گئے ہیں۔
قرآن میں طلاق کا لفظ جہاں استعمال ہوا ہے، اس میں حقائق بھی بالکل واضح ہیں۔ پہلی عدت چار ماہ بیان ہوئی ہے لیکن اگر طلاق کا عزم تھا تو اس پر پکڑ بھی ہوگی اسلئے کہ طلاق کے اظہار سے مدت چار کے بجائے تین مراحل (طہروحیض)یاتین ماہ کی وضاحت ہے۔طلاق کی عدت بچے کی پیدائش، تین طہرو حیض اور تین ماہ کی وضاحت قرآن میں ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ عورت خلع لے تو پھر اس کی عدت ایک طہرو حیض ہے۔ غلام کی دو طلاقیں اور لونڈی کی عدت دو حیض ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک مرتبہ کے طلاق کا تعلق ایک طہرو حیض سے ہی ہے۔ حضرت ابن عمرؓ کو نبیﷺ نے سمجھایا کہ ایک طہر میں ہاتھ لگائے بغیر بیوی کو رکھ لینا ایک مرتبہ کی طلاق اور دوسرے طہرو حیض میں رکھ لینا دوسری مرتبہ کی طلاق ہے اور تیسرے طہر وحیض میں رکھنے یا ہاتھ لگائے بغیر چھوڑ دینا تیسری مرتبہ کی طلاق ہے۔ جس کا مطلب واضح ہے کہ حمل اور تین ماہ کی عدت سے تین طلاق کا کوئی تعلق بھی نہیں ۔ سورۂ بقرہ اور سورہ طلاق کی آیات میں عدت کے حوالہ سے طلاق اور رجوع کی زبردست وضاحت ہے ۔ حنفی مکتبۂ فکر کی سوچ بہت عمدہ ہے اور اسی بنیاد پر طلاق کا مسئلہ میں نے قرآن وسنت کی روشنی میں روزِ روشن کی طرح حل دیکھا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ میرا اللہ زندہ بھی کرتاہے اور مارتا بھی ہے تو خدائی کے دعویدار وقت کے بادشاہ نمرود نے جواب میں کہاتھا کہ یہ کام تو میں بھی کرسکتا ہوں۔ ایک گناہگار کو چھوڑ دیا اور بے گناہ کو قتل کردیا۔ ابراہیم علیہ السلام نے پھر فرمایا کہ ’’میرا رب مشرق سے سورج طلوع کرتا ہے اور مغرب میں غروب کردیتاہے۔تو جو انکار کر رہا تھا وہ مبہوت بن کر رہ گیا‘‘۔
امام ابوحنیفہؒ کے استاذ امام حمادؒ کا مسلک یہ تھا کہ ایک ساتھ تین طلاق واقع نہیں ہوتی ہیں ، جبکہ امام ابوحنیفہؒ ، امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کا مسلک یہ تھا کہ ایک ساتھ تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ میں بہت واضح طور سے یہ کہتا ہوں کہ حضرت عمرؓ نے بالکل ٹھیک فیصلہ فرمایا تھا کہ ایک ساتھ تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور ائمہ مجتہدین ؒ کا مسلک بھی% 100 درست تھا۔ اس پر ایک اضافہ یہ بھی کرنا چاہیے کہ شوہر ایک طلاق بھی دے تو اس کو یک طرفہ غیرمشروط رجوع کا کوئی حق حاصل نہیں۔ البتہ عورت عدت تک دوسری شادی نہ کرنے کی پابند ہے اور اگر دونوں کی طرف سے صلح کی شرط پر رجوع کا پروگرام ہو یا دونوں طرف سے ایک ایک رشتہ دار مصالحت کیلئے کردار ادا کرے تو پھر رجوع پر پابندی لگانے کی بات غلط ہے۔ طلاق واقع نہ ہونے کا فتویٰ دینا غلط اسلئے ہے کہ پھر مرد رجوع کرلے اور عورت راضی نہ ہو توعدت کے بعد بھی شادی نہیں کرسکتی۔
جس منکر صورت کی قرآن و احادیث میں بالکل گنجائش نہیں ہے وہ یہ ہے کہ ایک طلاق کے بعد عورت دوسری جگہ شادی کرلے تب بھی پہلا شوہر دو طلاق کی ملکیت کا مالک رہتا ہے ، اس ملکیت سے دستبردار بھی نہیں ہوسکتا، اسلئے کہ طلاق عدت ہی میں واقع ہوسکتی ہے، ایسی منکر ملکیت قرآن و سنت اور انسانی فطرت کے بالکل منافی ہے اور اسی منکر صورتحال کی بنیاد کسی ضعیف حدیث پر رکھی گئی ہے ، اس حقیقت سے بڑے بڑے علماء ومفتیان ناواقف ہونے کے باوجود اس سمجھ سے قاصر ہیں کہ فقہ اور اصولِ فقہ کے سارے مسائل اس منکر صورتحال کی پیداوار ہیں۔ جس میں قرآن اور سنت کے منافی عدت سے پہلے رجوع کا راستہ باہمی رضامندی سے بھی رک جاتا ہے اور عدت کی مدت کے بعد عورت دوسری جگہ شادی کرلے تب بھی کچھ طلاقوں کی منکر ملکیت باقی رہتی ہے۔

اختلاف رحمت اور امت کا اجماع گمراہی پر نہیں ہوسکتا

رسول اللہ ﷺ نے بالکل درست فرمایا کہ میری امت کا اختلاف رحمت ہے اور میری امت کا اجماع گمراہی پر نہیں ہوسکتا۔ حقائق کے تناظر میں دیکھا جائے تو اصول فقہ کی دنیا میں اجماع امت کی دلیل قرآن اور حدیث کے بعد ہے۔ ایک طرف احادیث میں امت کے اختلاف کو رحمت اور گمراہی پر اجماع نہ ہونے کا ذکر ہے تو دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے فرمایا :رسول ﷺ قیامت کے دن شکایت کرینگے کہ اے میرے رب میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔ قرآن کی آیت اور ان احادیث کی تطبیق کیسے ہوسکتی ہے؟۔ کہا جاتا ہے کہ ایک ساتھ تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور اس پر امت کا اجماع ہے۔ اب دل کے اندھوں سے پوچھا جائے کہ جب اجماع کا تعلق قرآن و حدیث کے بعد ہے تو قرآن کی موجودگی میں اجماع کوئی دلیل بن سکتی ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بار بار فرمایا ہے کہ عدت میں اور عدت کی تکمیل کیساتھ رجوع ہوسکتا ہے۔ کوئی ایک بھی ایسی صحیح حدیث نہیں جس میں یہ کہا گیا ہو کہ قرآن کی بھرپور وضاحتوں کیخلاف عدت کے اندر بھی رجوع کا دروازہ بند ہوجاتاہے۔ قرآن و حدیث کی موجودگی میں اجماع کوئی دلیل بن نہیں سکتا۔ تاہم اسکی حقیقت کا ادراک کرنے کیلئے اُصول فقہ کی سمجھ بوجھ بھی ضروری ہے۔ درس نظامی کی معتبر کتاب ’’نور الانوار‘‘ اور دیگر اصول فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ ائمہ مجتہدین کا اجماع بھی معتبر ہے، ائمہ اہل بیت کا اجماع بھی معتبر ہے اور اہل مدینہ کا اجماع بھی معتبر ہے، کیا اجماع کی یہ تعریف درست ہوسکتی ہے؟۔ امت مسلمہ کو یہ تعریف اجماع کے بجائے ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کا ذریعہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں طلاق کے عزم کا اظہار نہ ہونے کی صورت میں پہلی مرتبہ طلاق کا ذکر کیا ہے اور اس کی عدت چار ماہ واضح کی ہے جبکہ اسکے بعد کی آیت میں طلاق کے اظہار کی صورت میں تین طہر و حیض یا تین مہینے کے انتظار و عدت کی وضاحت ہے۔ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک چار ماہ تک رجوع نہ کرنے سے طلاق واقع ہوتی ہے اور جمہور کے نزدیک جبتک طلاق کا اظہار نہیں کرتا زندگی بھر طلاق نہ ہوگی۔ دونوں مسلکوں کا اختلاف بالکل رحمت ہے اسلئے کہ اگر کسی ایک مؤقف پر یہ اکھٹے ہوجاتے تو امت کا گمراہی پر اتفاق ہوجاتا۔ قرآن اور فطرت سے دونوں مسلک کیخلاف ہیں۔قرآن نے شوہر اور بیوی دونوں کا حق بیان کیا ہے۔ شوہر کا حق تو یہ ہے کہ عورت چار ماہ تک دوسری جگہ شادی نہیں کرسکتی اور عورت کا حق یہ ہے کہ وہ چار ماہ کے بعد دوسری شادی کرسکتی ہے۔
امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک مرد کا حق استعمال ہوا ، اسلئے عورت کو طلاق ہوگئی اور چار ماہ کے بعد یہ تعلق حرامکاری ہے۔ جمہور کے نزدیک جب تک طلاق نہ دیگا وہ زندگی بھر بھی دوسری شادی نہیں کرسکتی ،اگر کریگی تو یہ حرامکاری ہوگی۔ دونوں کی گمراہی قرآن کیخلاف ہے۔ قرآن نے شوہر کے ساتھ ساتھ بیوی کا بھی حق بیان کیا ہے، اگر بیوی چار ماہ کے بعد دوسری شادی کرتی ہے تو اجازت ہے اور اگر اسی شوہر کے ساتھ رہنا چاہے تو بھی اس کو اجازت ہے۔ اس سے زیادہ اللہ تعالیٰ نے بالکل کھلے الفاظ میں بیوہ کو 4ماہ 10دن کی عدت کے بعد دوسری جگہ شادی کی اجازت دی ہے مگر یہ بھی اسکے اختیار میں ہے کہ اگر وہ اسی فوت شدہ شوہر سے اپنے تعلق کو برقرار رکھنا چاہتی ہو تو تعلق قیامت تک برقرار ہی رہیگا۔ یوم یفر المرء من اخیہٖ و امہٖ و ابیہٖ و صاحبتہٖ و بنیہ ’’اس دن فرار ہوگا آدمی اپنے بھائی، اپنی ماں، اپنے باپ ، اپنی بیوی اور اپنے بچوں سے‘‘۔ جس طرح والدین اور بچوں کا تعلق ختم نہیں ہوتا اسی طرح سے بیوی کا بھی شوہر سے تعلق ختم نہیں ہوتا ہے۔
معروف اور منکر دو متضاد الفاظ ہیں۔ معروف اچھائی اور نیکی کا نام ہے اور منکر برائی اور بدی کا نام ہے۔ معروف کا مترادف لفظ احسان بھی ہے۔ احسان بھی منکر کا متضاد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ قرآن میں بار بار واضح فرمایا ہے کہ رجوع اور چھوڑنا (طلاق) معروف طریقے سے ہو ، ایک جگہ احسان کیساتھ رخصتی ( طلاق) کا بھی ذکر ہے۔ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک رجوع کیلئے نیت شرط نہیں اور امام شافعیؒ کے نزدیک رجوع کیلئے نیت شرط ہے۔ حنفیوں کے نزدیک غلطی شہوت کی نظر پڑ ے تو بھی رجوع ہے نیند میں شوہر یا بیوی کا ہاتھ شہوت سے لگ جائے تو بھی رجوع ہوگا۔ شافعیؒ کے نزدیک نیت نہ ہو تو مباشرت سے بھی رجوع نہ ہوگا۔ یہ سب معروف کے مقابلے میں منکرات ہیں اور طلاق کیلئے عدت شرط ہے اور عدت میں رجوع ہوسکتا ہے تو منکر طریقے سے طلاق نہ ہوگی۔

بیوقوف اور کرپٹ سول وملٹری پنجاب کو تباہ نہ کردیں

پنجاب کے بیوقوف سیاستدان اور کرپٹ ملٹری وسول اسٹیبلیشمنٹ کہیں پاکستان کے مرکزی حصہ کو آباد کرنے کے نام پر برباد نہ کردیں۔ پنجاب آلودہ ہوجائے اور دلدل بن جائے تو پورے پاکستان کو تباہ کرنے کیلئے دشمن کی ضرورت بھی نہیں ہے۔پنجاب کی عوام غربت، جہالت، انواع و اقسام کے امراض، علاج وتعلیم کی سہولت سے محروم اور عزتوں کی حفاظت نہ ہونے سے دوچار ہے لیکن ان کوشعور دینے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ واحد پہاڑی علاقہ ملکہ کوہسار مری سیروتفریح کے دن سفر کے قابل بھی نہیں ہوتا۔ حالانکہ ملکہ کوہسار مری سے شاہِ کوہسار وزیرستان اور بلوچستان کے وہ پہاڑی سلسلے جہاں زیارت اور قلات تک موسم گرما میں بہترین سیاحت ہوسکتی ہے ویران ہوتے ہیں۔ ریاست ایسے حالات پیدا کرسکتی ہے کہ گرمیوں میں پورے پاکستان اور دنیا بھر سے سیاحوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہے۔ ذوالفقار مرزا کہتاتھا کہ آئی ایس آئی میری ساتھی ہے، عذیر بلوچ اپنا بچہ ہے۔ عذیر بلوچ کی گرفتاری کی خبر احسان اللہ احسان کی حیثیت کو شکوک میں بدل رہی ہے۔