پوسٹ تلاش کریں

ڈاکٹر فاروق ستار کا اظہار لاتعلقی ایم کیوایم کا سقوطِ ڈھاکہ

میری اس سقوطِ ڈھاکہ سے 2،3 دن پہلے ڈاکٹر فاروق ستار سے ملاقات ہوئی اور ان کو مشورہ دیاکہ اسٹیبلشمنٹ سے مخاصمت کا فائدہ نہیں، بھوک ہڑتالی کیمپ ختم کرکے بڑے جلسے میں اعلان کریں کہ’’ جتنے ہمارے کارکنوں کو پکڑ لیا ہے، اتنے اور بھی گرفتار کرلیں، ہمیں کوئی اعتراض نہیں البتہ پورے ملک میں یہ تأثر ہے کہ پنجاب کا مخصوص علاقہ ،ن لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کا گٹھ جوڑ ہے جس میں دوسروں کی نسبت امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔یوسف رضا گیلانی کا تعلق پیپلز پارٹی اور سرائیکی مرکز ملتان سے تھا تو اس کو صدر کیخلاف خط نہ لکھنے پر عدالت کی طرف سے سزا ہوئی اور نااہل قرار دئیے گئے مگر اصغر خان کیس میں نواز شریف مجرم ہے لیکن عدالت اس کو باقاعدہ سزا نہیں سناتی ہے کیا یہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی ، لاہور اور ملتان میں تفریق نہیں؟۔ سپریم کورٹ کے سامنے احتجاج کرینگے کہ نوازشریف اگر لاڈلہ نہیں اور تختِ لاہور امتیاز نہیں رکھتا ہے تو دونوں میں اتنا بڑا اور واضح فرق کیسا؟‘‘۔
عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے پاس ایم کیوایم جتنی طاقت نہیں، اس احتجاج سے بلوچستان، پختونخواہ، سندھ، سرائیکی بیلٹ کی ہمدردی ساتھ ہونگی۔ ایم کیوایم کی سیاست، کارکنوں اور ہمدردوں کا رُخ پلٹے گا، اسٹیبلشمنٹ سے مخاصمت کا ماحول بھی نہ رہیگا، کراچی کی عوام میں پاکستان کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت ہے ، لیکن ڈاکٹر فاروق ستار نے بتایا کہ نوازشریف تسلی کراچکے ہیں کہ ہم آپ کیخلاف نہیں، فوج تمہیں نہیں چھوڑرہی ۔ 12مئی کے واقعہ میں پرویز مشرف کی ہم نے حمایت کی لیکن پتہ نہیں پھر قتل وغارت کا بازار گرم ہوا، ہمیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا ہوا؟۔ پھر ساری سیاسی جماعتوں نے ہمارے خلاف متفقہ فیصلہ کیا کہ ہم سے وہ اتحاد نہیں کریں گے۔ اب پھر ہم استعمال ہوجائیں تو پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ بن جائیں۔ فرحت اللہ بابر نے سینٹ میں ہمارے حق میں آواز اُٹھائی، شاہ زیب خان زادہ نے بھی اس پر پروگرام کیا، نوازشریف میڈیا پر بھی خرچہ کررہا ہے اور فوج کی اکثریت کو بھی ہمنوا بنالیا ۔ ہماری بھی تسلی کرائی ہے تو ہم کیوں استعمال ہوں؟۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے یہ بھی کہا کہ اگر ایک مرتبہ جنرل احسان کو الطاف بھائی کے پاس بھیج دیا جائے تو وہ بالکل بدل جائیں گے، پوری قوم نے دیکھا کہ وہ بار بار بدل جاتے ہیں، بس ذرا سی عزت اور پیار سے ہاتھ پھیرنے کی دیر ہے، میں گارنٹی سے کہتا ہوں کہ الطاف بھائی سب کچھ بھول جائیں گے، جو کریمنل ہیں انکی ہم خود بھی حمایت نہیں کررہے ہیں ، پرامن کراچی ہماری بھی چاہت ہے، جو بے گناہ ہیں انکے ساتھ زیادتی نہ ہو، ایسے مجرم جنہوں نے وہ جرم نہ بھی کیا جس میں سزا ہوئی لیکن دوسرے جرائم کئے ہوں تو بھی انکی سزا پر ہم احتجاج نہیں کررہے ہیں ہم صرف بے قصور لوگوں کیلئے آواز بلند کررہے ہیں، جن کو پہلے مارا جاچکا ہے پتہ ہے کہ میرے کواڈینیٹر کے قاتل کو سزا نہیں ہوسکتی، ہم آئندہ بے گناہوں کو بچانے کی فکر کررہے ہیں۔ یہ لڑائی ہماری خواہش پر نہیں ہے اور نہ ہمارے حق میں ہے ، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ لڑائی ہمارے مفاد میں نہیں اور دوسرے اس کا فائدہ اٹھارہے ہیں‘‘۔
ڈاکٹر فاروق ستار اچھے ہیں یا بُرے؟ ، وہ تو اسکے اعمال لکھنے والے فرشتوں کو معلوم ہوگا۔یہ ایک حقیقت ہے کہ اس نے بہت دباؤ کے باوجود خود کوبڑی شخصیت ثابت کیاہے، بہتوں کواس دباؤکا سامنا کرنا پڑتاجسکا ڈاکٹر فاروق ستار نے سامنا کیا تو ان کی شلوار یں ایک لیٹر پیشاب،ایک کلو پوٹی اور ایک کلو گیس کی بدبو سے ٹاک شوز کی محفلوں کو کشت زعفران بنا دیتیں، مہاجرقوم اور ایم کیوایم کے حقیقی قائد ، رہبر اور رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے خود کو ثابت کیا۔ ایک مشکل ترین وقت کے کٹھن لمحات میں جس جرأت، بہادری، ثابت قدمی، تحمل وبربادی کا مظاہرہ ڈاکٹر فاروق ستار نے کیا ہے، انکے حوصلے پر رشک آتا ہے، اگر دنیا کا بڑا انعام ’’نوبل‘‘ ہے جو ملالہ یوسف زئی کو آدھا ملا ہے تو ڈاکٹر فاروق ستار پورے انعام کے مستحق ہیں ۔
طالبان دہشت گردوں کا دور تھا تو میاں افتخار حسین نے اس سے زیادہ بہادری کا مظاہرہ کیا مگراسوقت کی اسٹیبلشمنٹ اور اسکے ہیجڑے چہیتے وطن وقوم سے محبت رکھنے والوں پر امریکی ایجنٹ کا الزام لگارہے تھے، جیوٹی وی چینل پر کیا کیا الزامات لگتے تھے، ہاتھ میں تسبیح لیکر صلواتین سناکرغلیل سے خواتین صحافیوں کو کنچے مارتے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف،وزیراعظم نوازشریف، اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ، ایم کیوایم کے بانی الطاف حسین ، میڈیا کے صحافیوں کو چاہیے کہ وہ سب مل کر ڈاکٹر فاروق ستار کیلئے نوبل انعام کا مطالبہ کریں۔ اس شخصیت نے ایک ساتھ ایم کیوایم کے کارکنوں کے سامنے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر الطاف حسین سے جو اعلانِ لاتعلقی کیا، الطاف حسین کی ناراضگی مول لی، کارکنوں کے اشتعال کو بالائے طاق رکھا، مغلظات بک کر بھونڈے پن سے اپنی جان کی امان نہ لی، بدترین میڈیا ٹرائیل کا بہترین انداز میں اپنے اعصاب پر قابو رکھ کرعدل وتوازن سے سامنا کیا، یہ قدرت کی بہت بڑی عطاء اور نوازش ہے۔اس موقع پر میں ڈاکٹر فاروق ستار کو دل کی اتاہ گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں، ان لوگوں کی بھرپور مذمت کرتا ہوں جو گیدڑ اور گدھ کی طرح موقع کا فائدہ اٹھاکر بزدلی سے اپنا شکار کھیلتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا : الدین النصیحۃ ’’دین خیر خواہی کا نام ہے‘‘ ۔
دینِ اسلام انسانیت کا علمبردار ہے، جب حضرت سیدا لشہداء امیرحمزہؓ کو شہید کرکے کلیجا نکال کرچبایا گیا تو سرکارِ دوعالمﷺ نے فرمایا کہ ’’ میں انکے 70 افراد سے یہی سلوک کروں گا‘‘۔صحابہؓ انتقام کے جذبے سے سرشار تھے ،اللہ نے فرمایا کہ ’’ کسی قوم کے انتقام کا جذبہ اس حد تک نہ لے جائے کہ تم اعتدال سے ہٹ جاؤ‘‘ اور فرمایا کہ ’’ جتنا انہوں نے کیا ہے، اتنا تم بھی کرو،اور اگر معاف کردو، تویہ تمہارے لئے بہتر ہے، اور معاف ہی کردو، اور ان کو معاف کرنا بھی تمہارے بس میں نہیں، ہماری توفیق سے یہ ممکن ہے‘‘۔ پھر اللہ تعالیٰ نے دکھایا کہ حضرت امیرحمزہؓ کو شہید کرنے والے وحشیؓ کو ہدایت سے نوازا، کلیجہ چبانے والی ہندؓ کو بھی ہدایت کا تمغہ دیا، اس نے نبیﷺ سے عرض کیا کہ پہلے مجھے دنیا میں آپ سے زیادہ کسی سے نفرت نہ تھی اور آج آپ سے بڑھ کر محبوب چہرہ کسی کا بھی نہیں ۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ’’ سامنے کی طرف مت بیٹھو، تجھے دیکھ کر اپنے چچا امیر حمزہؓ شہید کا چہرہ یاد آتا ہے اور مجھے اذیت ملتی ہے‘‘۔اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ کی سیرت کو اسوۂ حسنہ قرار دیا ہے۔
پیار اور انتقام کے جذبات کے پیچھے کار فرما عوامل کچھ بھی ہوسکتے ہیں، وحی کے نزول کا امکان نہیں، ہم نے قرآن و سنت کو مشعلِ راہ بناکر پاکستان سے مسلم اُمہ اور عالمِ انسانیت کی رہنمائی کیلئے قائدانہ کردار ادا کرنے کی کوشش کرنی ہے، باصلاحیت قائدین، عوام ، فوج اور وسائل کی ہمارے پاس بالکل بھی کمی نہیں ۔الطاف بھائی کی باتوں کونظر انداز کریں، کل وہ پھر رو رو کر کشمیریوں کے حق میں دعائیں، بھارتی فوج کو بد دعائیں دیگا، پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے میں دیر نہ لگے گی۔ پاک فوج کے ساتھ شانہ بشانہ لڑکر کشمیر کی آزادی اور دہشت گردوں کے خاتمہ کیلئے خود بنفسِ نفیس پاکستان آجائیگا۔ایم کیوایم سے لاتعلقی کا اعلان کرنیوالی ارم عظیم فاروقی نے خوب کہا کہ ’’ مجھے مصطفی کمال کو بھائی کہنے پر ایم کیوایم نے معطل کیا مگر میں ایک سیدزادی ہوں، خاندانی بیک گراؤنڈ رکھتی ہوں، بدتمیزی سے بات کرنے کی میری تربیت نہیں ہوئی ہے، میں ایم کیوایم چھوڑ چکی ہوں، دوبارہ واپس نہ آؤں گی، الطاف کو بھی بھائی ہی کہونگی، دوسری پارٹی میں شامل ہوکر خودکو پارٹیاں بدلنے والوں کی فہرست میں شا مل نہ کروں گی،میرے لئے پاکستان سب پر مقدم ہے‘‘۔ عتیق گیلانی

ایم کیوایم کو بحران سے نکالنے میں مدد کی ضرورت

ایک بہت بڑا طبقہ اسٹیبلشمنٹ اور ایم کیوایم کی مخاصمت سے فائدہ اٹھاکر بہت بڑی سازش میں مصروف ہے، پاکستان برطانیہ سے الطاف حسین کیخلاف کاروائی کا مطالبہ کرتا ہے تو برطانیہ کے کرتا دھرتا حکام کو ہنسی آتی ہوگی کہ جب ایم کیوایم کے کارکن کراچی میں خون کی ہولی کھیلتے تھے، اس وقت تو تمہاری اسٹیبلشمنٹ، حکمرانوں اور صحافیوں نے کچھ دباؤ ڈالنے کی بات نہیں کی، اب خالی مردہ باد کے نعرے لگانے پر اتنا طیش آگیاہے؟ اگر بالفرض برطانیہ نے الطاف حسین کو ملک بدر کرکے امریکہ بھیج دیا اور وہ امریکی شہری بن گئے تو جس طرح ریمنڈ ڈیوس نے عدلیہ ، اسٹیبلشمنٹ اور صوبائی ومرکزی حکومتوں کے چہرے پر کالک مَل دی اور قتل کرکے امریکہ جانے میں کامیاب ہوا، اسی طرح امریکہ الطاف حسین کو کراچی میں کھڑا کردے ،چیلنج سے کہہ دے کہ یہ میرا شہری ہے اور اس کیساتھ زیادتی ہوئی تو میں فوجی اور USایڈ بند کردوں گا ، تو لوگ دیکھیں گے کہ ہمارا وہ غیرتمند طبقہ جو آج اس کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں کل یہی لوگ دُم اٹھا اُٹھاکر کہیں گے کہ ہم سے غلطیاں ہوئیں الطاف بھائی آپ بہت اچھے ہیں، یہاں اسٹیبلشمنٹ، سیاستدانوں اور صحافیوں کو رویہ بدلنے کا زبردست تجربہ ہے۔ ایم کیوایم کے منحرف رہنماایک زندہ اور تابندہ مثال ہیں۔
جنرل راحیل شریف اور اسکی موجودہ ٹیم نے پاکستان کو بدلنے میں بڑی قربانی دی۔ طالبان، بلوچ قوم پرست، پنجابی فرقہ پرست اور کراچی لسانیت پرست دہشت گردوں کی کمر توڑ دی اور یقینااوندھی پڑی ریاست کی ٹوٹی ریڑھ کی ہڈی کو جوڑ کر کھڑا کیا ہے۔ پختونخواہ میں لوگ طالبان کے خلاف،بلوچستان میں قوم پرستوں، پنجاب میں فرقہ پرستوں اور کراچی میں الطاف حسین کے خلاف بول نہیں سکتے تھے۔ اپنے کرپٹ فوجی افسران کے خلاف بھی کاروائی کی ہے اسلئے کہ وہ خود کرپٹ نہیں ہیں۔ نواز شریف اور زرداری خود کرپٹ ہیں اور عمران خان بھی اپنے کرپٹ ساتھیوں کی بدولت وہ اسٹیٹس کو بنارہا ہے جس کو توڑنے کا دعویٰ کررہا تھا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی اُٹھان نوازشریف کی بغل میں ہوئی اور پاک سر زمین پارٹی کی قیادت جس کی پروردہ ہے اسی کو گالیاں دے رہے ہیں۔
جنرل راحیل شریف سیاسی ذہنیت نہیں رکھتے ، وہ خالص پیشہ وارانہ خدمات پر توجہ دیکر قوم کی کشتی کو پار لگانے کی مخلصانہ کوشش کررہے ہیں، ان کو سیاسی حکمت عملی کا بھی مظاہرہ کرنا ہوگا، نوازشریف نے بے تحاشہ قرضے لیکر میڈیا کو اشتہارات کے ذریعہ رام کیا ہوا ہے، جب کوئی تابعدار جرنیل آئیگا تو میڈیا کو پیسہ نہیں طاقت کے ذریعہ رام کریگا۔ محمود خان اچکزئی قومی اسمبلی میں شروع سے طالبان اور ایجنسیوں کیخلاف یہی بات کررہا ہے جو اس نے وکلاء کے سانحہ پر کی ، مولانا محمد خان شیرانی کا بھی شروع سے جو مؤقف تھا اس کود ہرایا ہے، جیواور جنگ نے اپنا مفاد سمجھ کر اس خبر کی ایسی تشہیر کی جیسے حامد میر کے زخمی کیے جانے پر ڈی جی ISI ظہیر الاسلام کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ یہی نہیں بلکہ ایبٹ آباد میں اسامہ کیخلاف امریکی آپریشن کے بعد جیو نیوز اور باقی چینلوں پر امریکہ کے سوال کو بہت اچھالا گیا کہ ’’پاکستان کی ایجنسیاں جرم میں ملوث ہیں یا نااہل ہیں؟۔‘‘ جسکے جواب میں ہم نے جیو سمیت تمام ٹی وی چینلوں کو مسیج کردیا کہ ’’ 9/11کاواقعہ امریکہ کے ملوث ہونے کی وجہ سے تھا، یا اس کی نااہلی تھی؟۔‘‘ جو بیشتر چینلوں نے اٹھایا اور اس کی وجہ سے امریکہ کا توپخانہ بند ہوا، دیکھا جائے کہ کس نے پاکستان کے دفاع کو کیوں ترجیح نہ دی تھی؟۔
ایم کیوایم نے اپوزیشن کے ٹی او آرز کمیٹی سے علیحدگی اختیار کرکے اس بات کا ثبوت دیا کہ واقعی نوازشریف نے ان کو کھڈے لائن لگانے کی حکمت عملی اپنائی تھی۔ میں نے ڈاکٹر فاروق ستار سے یہ بھی کہا کہ’’ سیاسی جماعتیں آپکی ہمدرد نہیں‘‘ لیکن انہوں نے مجھے فوج کا نمائندہ سمجھ کر اپنے کام کو جاری رکھنے کو ترجیح دی، پھر وہ ہوا، جس کی میں نے پیش گوئی کردی تھی، اے آر وائی کے ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا تھا کہ ’’پانی نکالنے سے کنواں صاف نہ ہوگا جب تک کتا نہیں نکالا جائے‘‘۔ پھر پیمرا کے ذریعے ڈاکٹر شاہد مسعود کو ہی 45دن کی پابندی لگاکر نکالا گیا۔ ایم کیوایم نے بھی حکومت کی طرح اے آر وائی کو ہی نشانہ بنایا۔ پیپلزپارٹی کے فرحت اللہ بابر کو اپنے بھائی نصیراللہ بابر کی طرف سے کاروائیاں کراچی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں لگ رہی تھی اور اب انسانی حقوق پر آواز اٹھاکر ایم کیوایم کو کھڈے لائن لگایا۔
ایم کیوایم کیساتھ 1992ء کے آپریشن کے مقابلہ میں رینجرز کا رویہ کافی بہتر ہے،آج ایم کیوایم میں پہلے جیسی صلاحیت نہ رہی، اس کا بڑا کریڈٹ زرداری کو بھی جاتا ہے جس نے ایم کیوایم کو حکومت میں بار بار شامل کرکے اسکی ساکھ کوزبردست نقصان پہنچایا، جانثاروں میں وہ جان نہ رہی جو ایم کیو ایم کے کارکنوں اور رہنماؤں کا خاصہ تھا۔ جیوو جنگ کا نامور صحافی حسن نثارکہتا تھا کہ ’’ ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین واحد سیاسی قائد ہیں جو اپنے کارکنوں کو ٹیچر کی طرح تربیت دیتے ہیں، باقی تو ساری سیاسی قیادت اور کارکن کچرہ ہیں‘‘۔ کیا حسن نثار مؤقف بدلے تو ایم کیوایم کے کارکن عظیم دانشور قرار دیکر یقین کرینگے کہ حسن نثار زبردست تجزیہ نگارہیں؟۔ اسٹیبلشمنٹ نے ڈاکٹر فاروق ستار اور اسکی ٹیم کو موقع دیکر بہت اچھا کیا ہے، صحافیوں اور سیاستدانوں کا یہ کام نہیں کہ وہ رینجرز کے جذبات کو ابھار کر ایم کیوایم کیخلاف اپنا ذاتی عناد نکال لیں، فوج کو بھڑکانے کی بجائے ایم کیوایم کے رہنماؤں اور کارکنوں کی اصلاح کریں۔ ایم کیوایم کے بانی کو دھکیلنے کی بجائے علم ودانش کی نکیل ڈالیں۔
کراچی کے نومنتخب ناظم وسیم اختر نے بالکل درست کہا کہ ’’ مرد کے بچے ہو توپھر 12مئی کا مقدمہ پرویز مشرف پر چلاؤ‘‘۔ جنرل راحیل شریف اور ڈی جی رینجرز بلال اکبر کو بڑھکانے کیلئے میڈیا پر یہ بیان بار بار چلایا گیا، پرویزمشرف پر مقدمہ ہو یا نہ ہو لیکن ایم کیوایم کے دفاتر مسمار کردئیے گئے۔ وسیم اختر نے طعنہ اور طیش دلانے سے کام نہ لیا ہوتا تو وہ خود کو کیسے مرد کا بچہ سمجھتا؟۔ وسیم اختر کی بات درست ہے کہ یہ لوگ مرد کے بچے نہیں جو پرویز مشرف پر مقدمہ نہیں چلاتے۔ یہ حقیقت ہے کہ فوج کے جرنیل مرد نہیں ریاست کے بچے ہوتے ہیں ، ریاست مرد یا باپ نہیں ماں ہوتی ہے۔اس میں بھی شک نہیں کہ ایم کیوایم کے علاوہ کسی نے یہ نعرہ نہیں لگایا کہ ’’جس نے قائد کو بدلا ، اس نے باپ کو بدلا‘‘۔ اسلئے کوئی ایسی جماعت نہیں جسکے رہنما اور کارکن ویسے باپ اور مرد کے بچے ہوں مگر باپ کام سے ریٹارڈ ہوسکتا ہے۔
البتہ سوال یہ ہے کہ کیا مرد کا بچہ ایسا ہوتا ہے کہ پرویزمشرف اور لندن میں بیٹھے اپنے قائد کے کہنے پر12مئی کے واقعہ میں کردار ادا کرے اور پھر کہہ دے کہ مجھ پر سیاسی مقدمہ ہے؟ کیا ایسے مرد کے بچے سے ریاست ماں کا بچہ ہونا بہتر نہیں ہے؟۔ کیا مرد ایسا ہوتا ہے کہ خود لندن میں بیٹھ کر اپنے چاہنے والوں کی جان ، مال، عزت، سیاست اور سب کچھ کو داؤ پر لگادے؟۔ ایم کیوایم کے جذباتی کارکنوں کو میں تہہ دل سے سلام پیش کرتا ہوں جو یہ بات سوچنے پر بھی اس وقت تیار نہیں کہ الطاف بھائی کو بُرا کہیں۔یہ بڑے بے غیرت قسم کے لوگوں کی عادت ہوتی ہے جو کسی پر برا وقت آنے پر گرگٹ کی طرح آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ ویسے تو قرآن میں زبردستی سے کلمہ کفر کہنے پر بھی اللہ نے معافی کی گنجائش کا ذکر کیا ہے لیکن ڈاکٹر فاروق ستار نے ڈر سے نہیں بلکہ اپنی جان پر کھیل کر الطاف حسین سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے ، کیونکہ جو جذباتی کارکن ہوتے ہیں ان میں سمجھ نہیں ہوتی ، اس کا کچھ بھی ردِ عمل آ سکتاتھا۔ اسلئے جذباتی کارکن ، ریاست اور صحافی ڈاکٹر فاروق ستار کو بہت رعایت دیں۔اتنا ان کو الطاف حسین کیخلاف مجبور کرنے سے ان کی اپنی بھی کوئی حیثیت نہ رہے گی۔ عتیق گیلانی

مہاجر کیا سوچ رہا، کیاسوچنا چاہیے؟:ایڈیٹراجمل ملک

اپنی مٹی پر دیوانہ بنا پھرتا ہوں لوگ کہتے ہیں مہاجر مجھ کو

Ajmal_Malik_Sep2016

کراچی، حیدر آباد اور سندھ کے شہری علاقوں میں عوام کی نمائندہ جمہوری جماعت متحدہ قومی موومنٹ ایم کیوایم پر بحران آیاتو مہاجر کیا سوچتے ہیں؟۔ اس کی تصویر سید شہزاد نقوی نے کارٹون کی صورت میں اپنے ذہنی تخلیق سے اتاری ہے، سید شہزاد نقوی کا تعلق ایم کیوایم سے بالکل بھی نہیں ، اس نے شکوہ کیا ہے کہ اپنی مٹی پر رہتا ہوں تو لوگ مجھ کو مہاجرکیوں کہتے ہیں؟۔جب ایک غیرسیاسی مہاجر یہ دیکھتا ہے کہ ایم کیوایم کے دفاتر اچانک مسمارکردئیے، وہ لوگ جو اپنے قائد کے خلاف معمولی بات پر جذباتی ہوجاتے تھے، اسی قائد کیخلاف عجیب الزامات، ہر قسم کی مغلظات اور پھرپور طریقے سے سرگرم ہیں، اب ایم کیوایم پاکستان نے بھی لندن سے لاتعلقی کا اعلان کردیا ہے، مہاجر کہاں کھڑے ہیں؟، لوگ انکے بارے سوچ کیا رکھتے ہیں؟، یہاں پلے بڑھے، پاکستان اور کراچی کی گلیوں کے سوا کچھ دیکھا نہیں، پھر کیوں بے وطن مہاجر سمجھا جارہا ہے۔ کس قیمت پر یہ وطن اپنا ہی بن سکتا ہے؟، طالبان نے پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی لیکن ان کو پرائے ہونے کا احساس نہیں دلایا گیا۔
جے سندھ، بلوچ قوم پرست اور پاکستان کے گناہ میں شرکت نہ کرنے پر فخر کرنے والا مولانا فضل الرحمن، متحدہ ہندوستان کے حامیوں کی اولاد اسفندیارخان، محمود خان اچکزئی ، قائداعظم کو کافر کہنے والا مولانا مودودی اور مولانا احمدرضاخان بریلوی کی روحانی اولادآج سب پاکستانی مگر جنہوں نے ’’بن کے رہیگا پاکستان، بٹ کے رہیگا ہندوستان ‘‘ کے نعرے لگاکرقربانیاں دیں، ان کی اولاد کی محب وطن ثابت کرنے کیلئے کس طرح سے ناک رگڑوائی جاری ہے؟۔ شاہ زیب خانزادہ نے واسع جلیل سے کہاکہ ’’تم نے رضاحیدر کے قتل کا الزام اے این پی پر لگایاتو100پٹھان ماردئیے گئے، بعد میں پتہ چلا کہ لشکرِ جھنگوی نے ماراتھا‘‘ مگراس وقت تو ریاست نے کوئی کاروائی نہ کی ،حالانکہ الطاف حسین رو رو کے کہہ رہا تھا کہ ان بیچاروں کا کیا قصور تھا جن کو مارا گیا؟۔ 12مئی کا واقعہ بڑا تھا یا 22اگست کا؟۔طالبان نے کیا کچھ نہیں ، وہ خود قبول کرتے تھے کہ ہم کررہے ہیں ، ان کے ہمدرد کہتے تھے کہ نہیں یہ طالبان نہیں امریکہ کروا رہاہے؟، شہباز شریف طالبان سے کہتا تھا کہ ’’پنجاب کو نشانہ مت بناؤ، ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘، ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ’’را کاملازم کلبھوشن نوازشریف کے مِل ملازموں سے رابطے کی وجہ سے پکڑا گیا‘‘۔ کوئٹہ دھماکہ پر جنرل راحیل شریف نے کہا کہ ’’بھارت کی را ملوث ہے‘‘تو اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی کی روزمانہ جنگ میں سرخی لگی کہ ’’تم جھوٹ مت بولو یہ گھر کا معاملہ ہے، تم نے جو مسلح بردار تنظیمیں پال رکھی ہیں ، کیا یہ کرائے کے قاتل نہیں؟‘‘۔محمود خان اچکزئی نے اسمبلی کے فلور پر کہا کہ ’’میں پاکستان زندہ باد نہیں کہوں گا‘‘۔کسی نے بھی اپنے بیان سے توبہ نہیں کیالیکن الطاف حسین نے اپنا بیان واپس لیا، کسی کی جماعت نے اپنے قائد اور رہنما سے لاتعلقی کے اعلان کی زحمت محسوس نہ کی لیکن ایم کیوایم نے کھل کر اظہار لاتعلقی کیا۔کسی کاسرکاری عہدہ نہیں چھینا گیا مگر ایم کیوایم کے دفاتر بھی مسمار کردئیے گئے کیوں؟۔
مہاجر بے وطن خوار ہے، غدار ہے، بیکار ہے، ناہموار ہے، بیچار ہے، عبرت کا جھنکارہے؟ ہاتھ میں پاکستان کا جھنڈا لے کر شہر کی آبادیوں میں بھی اپنی آواز کو صدا بسحرا سمجھ رہاہے اور ہر روز ہر ٹی چینل پر نئے ایک سے ایک نیا شوشہ کھڑا کرکے ڈاکٹر فاروق ستار مجرم کی حیثیت سے کٹہرے میں کھڑا ہوتا ہے، الزامات کی برکھا برسائی جاتی ہے، روز نئے بادل اُمڈ تے اور چھٹتے ہیں، ژالہ باری کرکے مہاجروں کی نمائندہ منتخب قیادت کی بے توقیری کی جاتی ہے لگتا ہے کہ مہاجر آزاد نہیں مجبور ہیں، محب وطن نہیں غدار ہیں، پاکستانی نہیں بھارتی ایجنٹ ہیں۔ انکا جمہوری حق چھینا جارہاہے، نتائج بدلنے میں سرِ عام کوئی شرمندگی بھی نہیں ہورہی ہے۔ سارے اینکروں، ٹاک شوز، ملمع سازی کرنے والے ٹاؤٹ قسم کے مخصوص نام نہاد رہنماہم پر چھوڑ دئیے گئے ہیں۔ ساری توپوں کارخ مہاجروں کی جانب موڑ دیا گیا ہے، بے یقینی کی کیفیت ہے، ایک زمانہ میں جیو اور جنگ کا جو حال کیا گیا تھا،اسرائیل، بھارت اور امریکہ کے ایجنٹ، اہلبیت کے گستاخ، ملک کے دشمن اور ڈھیر سارے مقدمات کا نشانہ بن گئے۔ آج ایم کیوایم کی باری ہے تو کل مسلم لیگ (ن) کی بھی آئے گی۔ جمہوریت کی علمبرداری کیا صرف اسٹیبلشمنٹ کی وفاداری سے مشروط ہے؟۔ اسٹیبلشمنٹ کیساتھ ہو، تو 100خون معاف،12مئی کیا بستیوں کے بستیوں کو آگ لگادے لیکن جب وہ اسٹیبلشمنٹ کیساتھ نہ ہو تو پوری قوم اسکے ناکردہ جرائم کی سزا کھائے، الزامات بھگتے؟۔
مصطفی کمال نے کمال کیا کہ سب سن لیں، ایم کیوایم کے ووٹر خود کو لاوارث نہ سمجھیں ہم موجود ہیں انکے حقوق کیلئے لڑینگے؟۔فاروق ستار میں شروع سے شرافت کا ایک معیار ہے، مصطفی کمال جذباتی ہے کیا مہاجروں کو پھر جذبات کی رو میں بہائے جانے کاسلسلہ جاری رہے گا۔ آج وہ مصطفی کمال جو الطاف حسین کے خلاف ایک ذوی معنیٰ لفظ بھی برداشت نہیں کرسکتا تھا، ایک ہیجان میں مبتلاء ہے، قاتل، لٹیرے، جن پر بھارت میں تربیت لینے کا الزام ہے وہاں پناہ لے رہے ہیں، آڑے تڑے کی زباں استعمال کی جارہی ہے، جس کاضمیر ہی قتل اور بہت سے الزامات کے اقرارِ جرم اور اعترافِ بد دیانتی میں پل بڑھ کر جوان ہوا ہو، کیااس کی غیرت جاگ گئی ہے تو اس کو مہاجر قوم کی قیادت سپرد کی جائے؟۔ مصطفی کمال تو چھوٹا الطاف ہی لگتا ہے، وہی تعلیم وہی تربیت، وہی ذہنیت، وہی معیار، وہی لہجہ، وہی درشتی، وہی الزام کا قرینہ اور وہی شخصیت بس ہوا کا رخ بدلا۔ مخلص ،معصوم،نڈر، جری، مثالی بہادر، جذباتی رونے دھونے والااور آسمان سے تارے لانے کا وہی طریقۂ واردات ، اگر ڈاکٹر فاروق ستار گستاخی ، لعن طعن اور 24گھنٹہ الطاف حسین سے رابطے کے باوجود خطرات سے دوچار ہے تو مصطفی کمال نے کس سے سلامتی کا تعویذ لیکر مہاجروں کی کشتی پار لگانے کیلئے ملاح کا کردار ادا کرنے کا ٹھیکہ اُٹھا رکھا ہے؟۔
خدارا! ڈاکٹر فاروق ستار کی زندگی داؤ پر لگانے کیلئے ٹی وی اسکرین پر اس کو ایسے الفاظ کہلوانا چھوڑ دو، جس سے اس کی زندگی خطرے میں پڑ جائے، جینا مشکل بنے، مار دیا جائے یا ڈاکٹر عامر لیاقت کی طرح ہتھیار پھینک دے، آخر عزت بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے، شرم بھی نہیں آتی کہ ایک لا چار شخص کے پیچھے ہاتھ دھوکے پڑے ہو۔ عام لوگ ان سے کیا توقع رکھیں؟،جو ایم کیوایم کے دورِ عروج میں دم دبا کر بیٹھے رہے، طالبان کی پشت پناہی کرتے رہے اور پھر یکایک رخِ زیبا ایسا موڑا کہ گویا کبھی شناسائی ہی نہ تھی۔ ایم کیوایم کے قائد سے ایک طلاق اور تین طلاق کی باتیں منظر پر آرہی ہیں، حالانکہ پاک سرزمین پارٹی تین طلاق کے بعد حلالہ کے بغیر ہی پاک ہوگئی ہے۔کیا نوازشریف کے ساتھی دانیال عزیز، طارق عظیم، طلال چوہدری اور عطاء مانیکا وغیرہ نے (ق) لیگ سے حلالہ کروایا تھا کہ دوبارہ نکاح میں آگئے ہیں؟۔تحریک انصاف میں کتنے لوٹے حلالہ پر حلالہ کرواکے شاہ محمود قریشی وغیرہ عزت سے بیٹھے ہیں لیکن مہاجروں کیساتھ آخر کار ایسا کیوں؟۔
اب نہ تو ملک چھوڑ کر جاسکتے ہیں، کچھ کہہ بھی نہیں سکتے، چپ رہ بھی نہیں سکتے۔ باغی ہیں کیا اور غدار ہیں کیا؟۔ مہاجر نام نہ لیتے تو بے شناخت تھے سندھی مکھڑ، بلوچ پناہ گیر، پٹھان ہندوستانی کہتے تھے۔ نام لیا تو مجرم بن گئے، مہاجر قومی موومنٹ کو تحریک چلانے والوں نے نام بدل کر متحدہ کردیا، پھر حقیقی مہاجر قومی موومنٹ کو ریاست نے سپورٹ فراہم کی اور متحدہ بھی مجرم بن گئی، ایک نسخہ ناکام ہوتا ہے تو سنیاسی باوا نے دوسرا ٹریلر چلا کرقوم کی تباہی کا سامان تیار کر رکھا ہوتا ہے۔ اگر یہی روش ہے تو قانون بنایا جائے کہ پاکستان یا مہاجروں کی اپنی نمائندہ جماعت نہیں بن سکتی ہے اور جس نے سیاست کرنی ہو وہ اسٹیبلشمنٹ کے پیرول ، خواہشات اور طے کردہ منزل پر گامزن رہ کر ہی سیاست کرسکتا ہے، ہر نئے فوجی سربراہ کی طرف سے ایک نیا سرکلر جاری ہوگا جس میں ایک وضاحت ہوگی کہ اسٹیٹ کی پالیسی یہ ہے، طالبان کو سپورٹ کرنا ہے، ایم کیوایم کو سپورٹ ہے یا نہیں، بلاول بھٹو زرداری کب بلو رانی اور کب شہزادہ کہلائے، شیخ رشید کی زبانی معلوم ہوگی کہانی۔ جنرل ضیاء الحق کشمیر پر پالیسی بنائے تو مسلح تنظیمیں پالی جائیں، پرویز مشرف اپنے اقتدار کیلئے سہی لیکن کشمیر کے مؤقف سے پیچھے ہٹے تو جس پر مجاہدین کے کیمپ چلانے کا الزام تھا،وہ شیخ رشیدTV سکرین پر یہ وظیفہ باربار دہرائے کہ ’’مقبوضہ کشمیر کے لوگ مجاہدین سے بہت سخت تنگ تھے‘‘۔ مگر جنرل راحیل شریف کشمیر کو تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈہ قرار دیکر اہمیت دے تو پھر پاکستان کیلئے یہ سب سے بڑا اہم مسئلہ بن جائے۔ مہاجر تو باعزت لوگ ہیں رنڈوے رشید کو کراچی میں اپنی تربیت کیلئے بھی نہیں بلا سکتے ہیں، کہتے ہیں کہ عمران کی بھی اس نے ریحام خان سے طلاق کرادی،نوازشریف پرویزمشرف سے ناراض ہوتے ہیں تو بلوچستان کیساتھ زیادتی کے حوالہ سے پیش پیش ہوتے ہیں اور حکومت میں ہوتے ہیں تو ان کو مولی گاجر کی طرح کاٹنے پر بھی آواز نہیں اٹھاتے ہیں۔
مہاجر کس سے کیسی سیاست سیکھیں، جماعتِ اسلامی جنرل ضیاء الحق کے دور میں ٹاؤٹ کا کردار ادا کررہی تھی تو ہڑتال کیلئے رات کو گاڑیاں جلاکر شہر کو بند کردیا جاتا ، مخالفین کو تعلیمی اداروں میں تشدد کا نشانہ بایا جاتا تھا، اسلام کے نام پر جنرل ضیاء نے ریفرینڈم کرایا تو جماعتِ اسلامی اور تمام مذہبی فرقوں کے بڑے مدارس جنرل ضیاء الحق کو سراپا مجسمۂ اسلام قرار دے رہے تھے، تحریکِ انصاف کے عارف علوی نے اکیلے کراچی پولیس کا مقابلہ کرکے پیہ جام کروایا حالانکہ پولیس اس کی سپورٹ نہ کرتی تو کیا پھدی کیا چھدی کا شوربہ۔ ایسے ماحول میں مہاجر کو سمجھ نہیں آرہی ہے کہ بھارت کی ایجنٹ ایم کیوایم نے آخر کونسے جہاز استعمال کرکے ایبٹ آباد کے امریکی کمانڈوز سے زیادہ کمال دکھایا کہ اتنے آفس بنالئے جو اچانک مسمار کر دینے کا فیصلہ ہوا، مہاجر کیا سوچے؟۔
مہاجرکو یہ سوچنا چاہیے کہ جو گلے شکوے اسکے دماغ میں بیٹھ گئے ہیں، ان کو نکال دے۔ کیا نوازشریف کی حکومت کے ہوتے ہوئے مارشل لاء نہیں لگا؟۔ نوازشریف نہیں روتا رہا کہ مجھے بھی ہتھکڑیاں لگاکر جہاز کی کرسی کیساتھ بھی باندھ دیا گیا؟۔ کیا اس پر کوئی گلہ شکوہ کرتا ہے کہ مہاجر بڑا سخت گیراور بے توقیری کرتا ہے؟۔ پرویزمشرف مہاجر تھا مگر انکی وجہ سے الزام مہاجروں کے سر نہ آیا ۔ سندھ میں پیپلزپارٹی ، پنجاب میں ن لیگ کی صوبائی حکومتیں ختم کی گئیں، محمد خان جونیجو کی حکومت ختم کی گئی، بلوچستان میں نیپ کی حکومت ختم کرکے اکبر بگٹی کے ذریعہ گورنر رائج قائم کیا گیا، اپوزیشن کی ساری قیادت کو ذوالفقار علی بھٹو نے جیل میں ڈالا، بغاوت اور غداری کا مقدمہ چلایا گیا۔ یہ تو جنرل ضیاء نے جمہوری حکومت قید کرکے جمہوری لوگوں پر غداری کے مقدمات ختم کیے ورنہ اپوزیشن کی ساری جمہوری جماعتیں قائد عوام بھٹو کے زمانے میں غداری کے مقدمہ میں تختۂ دار کو پہنچتیں۔ جب کراچی کے سیاہ وسفید کی مالک مہاجروں کی نمائندہ جماعت ایم کیوایم تھی تو کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں میں اعلیٰ درجے کی تعلیم، تربیت، امن وامان ،روشن خیالی اور مذہب شناسی کے نمونے اور مثالیں قائم کرکے مہاجر پاکستان کے دوسرے لسانی کائیوں کے قابلِ تقلید بن سکتے تھے۔پاکستان میں بہت زبانیں ہیں جن کی تاریخ بڑی قدیم ہے، اردو کو پاکستان میں قومی زبان کا درجہ دیکر اردو بولنے والوں میں احساس پیدا کیا گیا کہ ’’تم حکمران ہو‘‘۔ ہجرت کرنے والے تو پنجاب ، پختونخواہ اور بلوچستان میں بھی بہت ہیں، کراچی میں بڑی تعداد ان کی بھی ہے جو ہندوستان سے ہجرت کرکے آئے ہیں جوگھروں میں اردو کی بجائے دوسری زبانیں بولتے ہیں۔اردو اسپکنگ دوسروں کی طرح خود کو مہاجر نہ بھی کہلواتے تو میمن، چھیپا، مارواڑی، صدیقی، فاروقی ، عثمانی ، علوی ، سید اور اپنے اپنے پیشے اور قومیت سے اپنا تعارف رکھ سکتے تھے۔
مہاجر کہلانے میں بھی کوئی عیب نہیں، صحابہ کرامؓ کی بڑی تعداد مہاجروں کی تھی ،نبیﷺ بھی مہاجرین میں سے تھے۔ حضرت آدمؑ بھی جنت سے زمین پر مہاجر بن کے آئے۔ حضرت اسماعیلؑ بھی مہاجر تھے، قبائل تعارف کیلئے ہوتے ہیں، سب ایک آدم کی اولاد ہیں،زبان رابطے کا ذریعہ ہے۔آج کوئی برطانیہ، امریکہ، مغرب کے دیگر ممالک یا آسٹریلیا کی قومیت اختیار کرکے فخر کرتا ہے تو پاکستان بنا ہی مسلمانوں کیلئے تھا۔خاص طور سے ہندوستان سے آنے والوں کیلئے۔ وہاں وہ اقلیت میں تھے، نظریۂ پاکستان کی وجہ سے پڑوسیوں سے تصادم کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ پاکستان ایک خطۂ زمین ہے اس پر اسلامی نظام کے نفاذ کی ذمہ داری حکمران طبقہ اور علماء کرام پر تھی۔اردو اسپکنگ اپنی مادری زباں کی وجہ سے سب سے بڑھ کر کردار ادا کرسکتے تھے۔لوگوں نے نظام پر توجہ نہ دی اور نوکریوں باگ ڈور سنبھالنے اور مراعات کے چکر میں لگ گئے۔
پہلی مرتبہ آزادانہ انتخاب کا نتیجہ ادھر ہم ادھر تم نکلا، بنگلہ دیش الگ ہوا، فوج کو بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑگئے۔ بھٹو نے اقتدار سنبھالا ،تو170قابل ترین بیوروکریٹوں کو فارغ کیا اورکوٹہ سسٹم قائم کرکے پنجابیوں اور مہاجروں کا گٹھ جوڑ ختم کرکے سندھیوں کو پنجابیوں سے ملادیا۔ پھر جنرل ضیاء الحق نے ہتھوڑے گروپ سے لیکر کراچی کے لسانی فسادات تک پیپلزپارٹی کو مٹانے کا منصوبہ بنایا، جمعیت علماء اسلام کراچی کے امیر مولانا نورالہدی کو سات ماہ تک جیل رکھا، اسلئے کہ وہ پیپلزپارٹی کے جیالے شیخ نورالہدی مرحوم کو قید کرنا چاہتے تھے مگر بیوروکریٹ کمشنر نے اپنی جان فوجی دماغ سے چھڑانے کیلئے مولوی کو پکڑ کر بتایا یہ کہ ’’جیالا پکڑ لیا ہے‘‘۔ جب شیخ نورالہدیٰ پکڑ لیے گئے تو مولانا نورالہدیٰ کی جان چھوٹ گئی، ان کو چھوڑدیا گیا۔ اوریا مقبول جان خود بھی کمشنر رہے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ سول بیوروکریسی ہمیشہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کو مغالطہ دیتی ہے،اسلئے ملک کی حالت بہتر نہیں ہورہی ہے۔بیروکریسی کو سدھارنے کیلئے کون کام کرے گا؟۔
اچھی تعلیم کیلئے ایک زبرست ماحول کی ضرورت ہوتی ہے،پہلے طلبہ تنظیموں نے پھر یہ معیار کراچی میں ایم کیوایم کے عروج کی وجہ سے گرگیا، اب تو کوٹہ سسٹم کی ضرورت ہی نہ رہی ہے اور تعلیم کے علاوہ تربیت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ تربیت کے بغیر تعلیم سے کوئی معیاری معاشرہ قائم نہیں ہوسکتا، تربیت کے بعد پھر تزکیہ بھی ضرورت ہوتی ہے، قوموں اور قیادت پراونچ نیچ کے ادوار آنے سے انسانوں کا تزکیہ ہوتا ہے۔ ایم کیوایم کے رہنما ؤں کو جب وقت ملا تھا تو عوام سے خوش اخلاقی سے پیش آتے۔عاجزی ، انکساری، رواداری ، اخلاق ، مروت اور اچھا انداز اپناتے تو آج تیز وتند ، تلخ و ترش اور گھن گرج کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ آزمائش اللہ تعالیٰ بڑے لوگوں پر ہی ڈال دیتا ہے لیکن یہ عذاب نہیں بلکہ گناہوں کی معافی اور تزکیہ ہے۔مہاجر کا شریف طبقہ ایک طرح سے یرغمال بناہوا تھا اس پر عام مہاجر کو پریشان نہیں خوش ہونا چاہیے۔ اجمل ملک ایڈیٹر نوشتہ دیوار

اسلام کا مذہبی طبقہ نے بیڑہ غرق کردیا،ڈاکٹر سید وقار حیدر شاہ سیالکوٹی

فوجی، سیاستدان، عام آدمی، پڑھالکھا،ان پڑھ، ڈاکٹر،انجینئر، سائنسدان، بینکار اور مذہبی طبقہ سے تعلق رکھنے والا بالکل عام وہ شخص جو مولوی نہ ہو یہ تصور بھی نہیں کرسکتا ہے کہ اسلام فطری دین ہے جسے ہر فرد بخوبی سمجھ سکتا ہے مگرمولوی کے دل پر اللہ نے تالا لگا دیا ہے ۔غیر مسلم سکھ، ہندو، یہودی، عیسائی، بدھ مت ، مجوسی اور دنیا کے کونے کونے میں رہنے والے انسانوں کو اسلام پوری آب وتاب کیساتھ سمجھ میں آجائیگا مگرعلماء ومفتیان کی اکثریت زنگ آلودہ دل، ضد، ہٹ دھرمی، کوتاہ ذہنی،قاصر دماغی ، مفادپرستی، فرقہ وارنہ عصبیت ، طبقاتی عناد ، کورنگاہی اور معصومانہ حماقت کے سبب اسلام کو سمجھنے میں دیرلگادیگی، جانور تو سب ہی جانور ہیں لیکن گدھا ضرب المثل ہوتاہے، اللہ نے یہود ی علماء کو گدھے سے تشبیہ دی اور نبیﷺ نے انکے نقش قدم پر چلنے کی پیشگوئی فرمائی تھی جو بالکل درست ثابت ہورہی ہے اور آج تمام طبقے اپنے احوال میں علماء سمیت زیادہ مختلف نہیں ہیں۔
عورت صنفِ نازک اور مرد طاقتورہے، دونوں میں لڑائی ہوتو عورت زبان کی تیز اور مرد ہاتھ چھوڑہوگا۔ یہ ایک غیرمعمولی کیفیت ہوتی ہے کہ زبان درازی کے مقابلہ میں ہاتھ چلنے اور مارکٹائی تک بات پہنچ جاتی ہے۔اگراللہ شوہر پر پابندی لگادیتا کہ بیوی پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتے تو باتونی لڑائی کا بازار گرم ہوتا اور زندگی اجیرن بن جاتی،چرب زبانی کا مقابلہ ہاتھ سے ہوتا ہے، اللہ نے شوہر کو اجازت دیدی واضربوھن ’’اور انکو مارو‘‘۔ ایک عام انسان سوچتا ہے کہ نعوذباللہ یہ کتنا ظلم ہے کہ اللہ نے شوہر کو ٹھنڈا کرنے کی تعلیم دینے کی بجائے الٹا بیوی کو مارنے کا حکم دیا ، مذہب سے زیادہ سیکولر و سوشلسٹ نظام میں عافیت ہے لیکن کیا وہاں عورت پر تشدد نہیں کیا جاتا ہے؟۔ اسلئے تویہ قوانین بھی بنائے گئے ہیں کہ ’’عورت مار کھانے کی بجائے فوری طور سے پولیس کو اطلاع کردے‘‘۔
قرآن نے حکمت اور فطری تقاضوں کو پورا کرکے عورت کو شوہر کی مار سے بچانے کا نسخۂ کیمیا بتادیا۔ شوہر کی بیوی سے دشمنی نہیں ہوتی ،مارکٹائی اور تشدد کی عادت فطری تعلیم سے جہالت کا نتیجہ ہے۔ اللہ نے پہلے مرحلے میں شوہر کو پابند بنایا کہ وہ بیوی کو سمجھائے۔ پھر دوسرے مرحلہ میں بستر الگ کرلے، پھر تیسرے مرحلہ میں مارنے کی بات ہے۔یہ مارنا سزا نہیں بلکہ عورت کی توہین ہے۔کوئی معزز انسان اپنی توہین و اہانت برداشت نہیں کرسکتا۔ہلکی ماربھی رسوائی ہے۔ بدکاری پر100کوڑے کی سزا میں مؤمنوں کے ایک گروہ کوگواہ بنانے کا حکم جسمانی سزا سے زیادہ روحانی اذیت اور شرمندگی کا احساس ہے۔ عورت کی سرکشی کا خطرہ ہو اور مار سے اطاعت کرلے توفرمایا:’’ ان کیلئے (مارکٹائی ، باتیں سنانے کی) راہیں تلاش نہ کرو‘‘۔اللہ نے یہ بھی فرمایاہے کہ ’’اگر ان دونوں میں جدا ہونے کا خوف ہو تو دونوں طرف سے ایک ایک رشتہ دار کو فیصلے کیلئے حَکم بنایا جائے۔۔۔‘‘
فوج کی حکمرانی اسلئے غلط ہے کہ انکی تربیت دشمن کیلئے ہوتی ہے ،انکا عوام سے برتاؤ اچھا نہیں ہوسکتا ، البتہ سیاسی قائدین آمریت کی پیداوارہیں۔ ریاست ماں جیسی مگرماں انسان نہیں کتیا جیسی ہے ، ریاست کے اہلکاروں کا اپنی عوام سے سلوک کتوں کے بچوں کا ہوتاہے،اگرہم قرآن کیمطابق مہذب بن کر ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کو انکے حقوق دینگے تو ہماری ریاستی اداروں کا رویہ بھی درست ہوگا، کشمیر وفلسطین اور سب ہی آزاد ہونگے۔
بیوی کوشوہر کی شکل ،کرداراور سلوک پسند نہ ہواورچھوڑنے کی اجازت ہوتو شوہر ایسا سلوک روانہ رکھے گا کہ عورت اسکو چھوڑ کر جائے،رویہ کی وجہ سے شکل بھی بری لگتی ہے۔ یہ اسلام نہیں کہ شوہر کے ہرطرح کے ناروا رویے کے باوجود لفظِ طلاق کا پابند بنایا گیا ہو۔ اس میں شبہ نہیں کہ نکاح کا عقدہ بہت مضبوط اور شوہر کا اختیار ہے لیکن اس دائرہ اختیار کے بھی حدود ہیں۔ طلاق کی ایک صورت الفاظ کی ہے، دوسری صورت عمل سے طلاق کی ہے ، پہلے اللہ نے طلاق کی عملی صورت کو واضح کیا اور پھر طلاق کے اظہار کو واضح کیا ۔پہلے اللہ نے عورت کی طرف سے شوہر کو چھوڑنے کی وضاحت کی پھر شوہر کی طرف سے بیوی کو چھوڑنے کے اختیار کی وضاحت کی۔ ہاں ہاں! مولوی سمجھے گا نہ مانے گا۔مذہبی طبقہ تو قرآن وسنت کیخلاف ایک طلاق کے بعددوطلاقوں کے باقی رہنے کا تصور دوسری شادی کے بعد بھی رکھتا ہے حالانکہ دو مرتبہ طلاق کاتعلق طہروحیض کے ادوار سے واضح ہے۔
قرآن گنجلک،الجھی ہوئی اور بھول بھلیوں کی کتاب نہیں بلکہ اسکی آیات بینات کی فصاحت و بلاغت اتنی واضح ہے کہ عام انسان بھی بات کی تہہ تک پہنچ جاتا ہے فرمایا: عورتوں کے زبردستی مالک نہ بن بیٹھو!،اور اسلئے ان کو نہ روکو، کہ جو تم نے انکو دیااس میں سے بعض واپس لے لو، الایہ کہ وہ کھلی فحاشی کا ارتکاب کریں۔ انکے ساتھ اچھا معاملہ کرو، اگر وہ تمہیں بری لگیں تو ہوسکتا ہے کہ کسی چیز کو تم برا سمجھو اور اللہ اس میں تمہارے لئے بہت سارا خیر رکھ دے‘‘(سورۂ النساء آیت19)۔ ہٹ دھرم اورغیرت وحسِ انسانی سے عاری علماء کی اکثریت کے علاوہ اس آیت کے افہام وتفہیم کا ادراک ہر بنی نوع انسان بخوبی کر سکتا ہے۔ پہلے واضح فرمایا: عورت کے زبردستی مالک نہ بن بیٹھو، بیوی کی ملکیت کا تصور باطل قرار دیا، پھر وہ چھوڑ کر جانا چاہیں تو اسلئے نہ روکو ،کہ دی ہوئی چیزمیں سے بعض واپس لے لو مگر فحاشی کی صورت مستثنیٰ ہے۔ عورت کھلی فحاشی کی مرتکب نہ ہو تو شوہر کی طرف سے بعض دی ہوئی چیزوں سے محروم کرنے کے اقدام کو بھی غلط قرار دیا ہے۔ ایسے موقع پر بیوی پر غصہ و بدسلوکی کا اندیشہ ہوتا ہے اور ممکن ہے کہ وہ بری بھی لگیں مگر اللہ نے پوری صورتحال کا زبردست طریقے سے احاطہ کرکے تمام پہلوؤں کو واضح کردیاہے کہ ’’پھر بھی انکے ساتھ اچھا برتاؤ کرو، وہ تمہیں بری لگ رہی ہوں تو ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں بری لگے اور اللہ تمہارے لئے بہت سارا خیر رکھ دے‘‘۔ بالفرض عورت شوہر سے نباہ نہیں کرنا چاہ رہی ہے، چھوڑ کر جانا چاہ رہی ہے تو اس کو انا کا مسئلہ بناکر بدسلوکی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے ٹھنڈا پانی پی کر برداشت کرنا چاہیے۔ اگر وہ اس طرح چھوڑ کر نہ جائے یا اس کیلئے رکاوٹ پیدا کی جائے اور کل کلاں عزت تارتار ہوجائے، زندگی اجیرن رہے، بدمزگی کی صورتحال دائمی طور سے رہے تو اس کی بجائے ان کو حسنِ سلوک سے چھوڑنے کی بات میں بہت سارا خیرپنہاں اور چھپا ہوا نہیں بلکہ عیاں اور واضح ہے۔
غیرت یہ ہے کہ عورت کی وفاداری مشکوک ہوجائے تو بھی چھوڑنے میں لمحے کی دیر نہ لگائی جائے لیکن جب عورت چھوڑ کر جانا چاہتی ہو اور شوہر اس کو رکنے پر مجبور کرے تویہ شوہر کی غیرت نہیں حد درجہ بے غیرتی بھی ہے، اللہ نے اس آیت میں غیرت ہی کی تعلیم دی ہے مگر بے غیرت قسم کے معاشرے میں بے غیرتی کو ہی بڑی غیرت سمجھ لیا جاتاہے ۔ مذہبی طبقہ کی اکثریت کو چھوڑ دو، یہ قرآن سمجھنے کی صلاحیت سے ہی خود کو عاری کرکے دل اور دماغ پر زنگ چڑھا چکی ہے، کسی حسنی اور حسینی مہدی اور امام برحق کے انتظار میں ان کو بیٹھے رہنے دو،جو گمراہی کے قلعے مدارس اور ان زنگ آلودہ دلوں کو فتح کرے گا۔
اگلی آیت میں اللہ نے شوہر کو بیوی چھوڑنے کی اجازت دی فرمایا : ’’اگرکوئی بیوی کی جگہ دوسری بیوی کرنا چاہے تو اگر کسی ایک کو بہت سارا مال دیا ہو تو بھی اس میں سے کچھ لینا جائز نہیں ۔کیا تم بہتان اور کھلے ہوئے گناہ کے ذریعہ سے بعض مال واپس لوگے؟‘‘۔ (آیت20سورۂ النساء)۔ عورت چھوڑ کر جانا چاہے تو بھی دیے ہوئے مال میں بعض کی واپسی کو صرف فحاشی کی صورت میں مستثنیٰ قرار دیا ، اسی آیت کے ذیل میں خلع کی احادیث کو درج کرنا تھا، عورت چھوڑ کر جانا چاہتی ہوتو اس کو خلع کہتے ہیں۔شوہر چھوڑ نا چاہتا ہوتو بہتان لگاکر عورت کو بعض چیزوں سے محروم کرنے کے کھلے گناہ سے روکا گیا ہے۔ فرمایا: کیا تم ان پر بہتان لگاؤگے اور وہ تم سے لے چکیں میثاق غلیظ پکا عہدوپیمان۔ آیت21
اللہ تعالیٰ نے انبیاء سے میثاقِ غلیظ لینے کا ذکر کیا ہے اور بیوی کا شوہر کو امانت سونپ کر رازداری کے مقدس عمل کو بھی میثاقِ غلیظ قرار دیا ہے۔ کم عقل علماء و مفتیان نے نکاح کے اس مقدس عہدوپیمان کی ضد کو طلاق مغلظہ کا نام دیکر اسکے مفہوم کا بھی ستایاناس کردیا ہے۔ یہ بیوقوف ہٹ دھرم اورانتہائی معصوم احمق طبقہ کہتا ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق دینا عورتوں کو مغلظہ یعنی اپنے اوپر غلیظہ بنانا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے طلاق نہیں نکاح میں مباشرت کے مقدس عمل کو ہی میثاقِ غلیظ (پکا عہدوپیمان) قرار دیا تھا۔ جو اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ اس کی مثال دینی بھی مشکل ہے۔ عدت تک قائم رہتا ہے، عدت حمل کی صورت میں ہو وضع حمل تک اور طہرو حیض کی شکل میں ہو تو تینوں مراحل میں تین مرتبہ طلاق کے باوجود عدت کے خاتمے تک باہمی رضامندی اور صلح سے معروف طریقے پر اللہ نے بار بار روجوع کی وضاحت کی ہے۔ سورۂ البقرہ،النساء، المائدہ، الاحزاب، المجادلہ اور سورہ طلاق کی آیات کو دیکھا جائے تو عالم انسانیت قرآن کی عظیم انسانی منشور کے سامنے سجدہ ریز ہوجائیگی۔
امام ابوحنیفہؒ کا مسلک اقرب الی الحق اسلئے ہے کہ اللہ نے ایلاء پر چار ماہ کے انتظار کا حکم دیا اور طلاق کے عزم کے باوجود اظہار نہ کرنے پر مواخذے کی وضاحت کی ۔ علامہ ابن قیم اور جمہورائمہ و محدثین کے نزدیک نعوذباللہ چار ماہ کا انتظارمحض ایک شوشہ، فضول اور بکواس ہے، جبتک شوہر طلاق نہ دے عورت چارماہ کیا زندگی بھر انتظار کریگی۔ جبکہ امام ابوحنیفہؒ نے کہا’’ چارماہ تک انتظار عزم کا اظہار ہے اسلئے طلاق ہوجائیگی‘‘۔ قرآن میں اختلاف کی گنجائش نہیں، عورت کے حق کابیان ہے کہ طلاق کے اظہار کی صورت میں تین مراحل یا تین ماہ انتظار کرنے کی پابند ہے اور عزم کا اظہار نہ کرنے پر ایک ماہ کا اضافہ ہے اگر عورت کاحق ملحوظِ خاطر رہتا توآیت میں اختلاف کی گنجائش نہ رہتی۔مرد طلاق دے اور عورت انتظارکی پابندہو تو اس سے بڑھ کر درجہ کیاہوسکتاہے؟۔ حقوق نسواں کی بحالی سے مغرب اسلام کی طرف راغب ہوگا اورہر قسم کا غلام آزادی پر آمادہ ہوگا۔

اسلامی انقلاب یا سوشلزم کی جدوجہد؟ نادر شاہ

سوشلزم کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ ذاتی ملکیت اور دولت کا خاتمہ کرکے ہر چیز سرکار کی تحویل میں ہو، ایران کے ایک بادشاہ نے ’’زر، زمین اور زن‘‘ کو فتنہ قرار دیکر فیصلہ کیا کہ ہرچیز ریاست کی ہوگی۔ لوگ اپنے اوقات کار میں اپنی استعداد اور صلاحیت کیمطابق جو زندگی گزاریں گے وہ سرکاری ہوگی۔ یہ نظام اس وقت کامیاب ہوسکتا تھاجب انسان کی مرغیوں کی طرح کچھ نسلیں ہی ہوتی ۔ ان میں زیادہ تر برائلر باقی انڈے دینے والی، جنگجو اور فینسی وغیرہ کی انواع واقسام۔ اس طرح سے وہ حدود وقیود میں رہ کر زندگی گزارتے۔
علامہ اقبال نے ’’فرشتوں کا گیت ‘‘ کے عنوان سے اس نظام کی تائید کی،جسکا ایک شعر’ جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو‘ ہے اور اقبال نے کارل مارکس کا کہا کہ ’’وہ پیغمبر نہیں مگر اسکے ہاتھ میں کتاب ہے‘‘۔ اس نظام کا یہ خلاصہ ہے کہ جس طرح اسلام نے سودی نظام میں مال کے ذریعہ مال کمانے کو بدترین کہا ہے ، صرف قرض رقم نہیں بلکہ نقد سونا چاندی اور خوراک کے مختلف اشیاء کا نام لیکر اسمیں زیادتی کو سود کہا ہے۔ اسی طرح وہ تمام ذرائع اور وسائل جسکے ذریعہ سے مزدور کی محنت کا استحصال ہو، یا کسی بھی مالی ذریعہ سے زائد منافع کمایا جائے وہ سب کا سب سود اور ناجائز ہے۔ مثلاً ایک آدمی کسی کو دس لاکھ روپیہ دے اور دس ہزار ماہانہ سود لے یا اس دس لاکھ پر مکان خریدے اور اس کا ماہانہ دس ہزار کرایہ لے دونوں ہی سود ہے۔
جس طرح سے موجودہ سودی بینکاری کو اسلام سے بدل دیا گیا ہے، اسی طرح سے مکان کا کرایہ بھی سود کے جواز کیلئے ایک حیلہ ہے۔ اسکا فیصلہ کن حل کارل مارکس نے نکالا ہے کہ مزدور جو محنت کرتا ہے ، سرمایہ دار اس کی محنت کا غلط فائدہ اٹھاتا ہے اسلئے زر کا نظام ہی ختم ہونا چاہیے۔ روس اور چین میں مزدوروں کی فلاح والا نظام تھا اور یورپ اور مغربی ممالک اورآسٹریلیا ، جاپان وغیرہ میں سرمایہ دارانہ نظام ہے لیکن ہمارا مزدور اور وہ محنت کش طبقہ جس کو حکومت چھین لینے کی دعوت دی جاری ہے ،سرمایہ دارانہ نظام والے ممالک کی طرف بھاگتا ہے ، روس و چین کی طرف باندھ کر بھی لے جایا جائے تو نہیں جاتا اور اگر وہاں انکے حالات بدلتے یا عقیدت ومحبت رکھتے تو پھر وہاں جانے میں کیا تھا؟۔
محترم لال خان صاحب اور دیگر محنت کشوں کا علمبردار طبقہ اپنے خلوص سے سوچنے پر مجبور ہیں کہ سوشلسٹ انقلاب مسائل کا حل ہے،اگر محنت اور صلاحیت کی بنیاد پر انسان کو معاوضے کی تلاش ہو تو سرمایہ دار اور جاگیردار سے یہ امید رکھی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے ہی مفاد کیلئے محنت اور صلاحیت کا پورا پورا معاوضہ دے لیکن اگر ریاست ہی مالک بن جائے تو پھر حکومت سے لڑنا معمولی بات نہیں ، ناممکن نہیں تو مشکل ضرورہے۔ مزدوروں اور محنت کشوں کو قربانی کا بکرا بناکر نظام کی تبدیلی کیلئے استعمال کیا جائے اور پھر بھی اس کی قسمت نہ بدلے تو کون کس کا کیا بگاڑ سکتا ہے، آخرت میں مواخذے کا خوف بھی گارگر ہوتا ہے اور یہ بھی اس نظام میں بالکل مفقود ہوجاتا ہے۔طبقاتی تقسیم میں ایک دوسرے کیخلاف اکسانے کے کام سے اصلاح ہوسکتی ہو تو یہ قوتِ مدافعت کو بیدار کرنے کا ذریعہ ہے اور مقابلے میں ترقی کا عمل جاری رہتا ہے اور اس قسم کی کاوشیں ہونی چاہئیں۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے غلام کو عبد قرار دیا، اور یہ بھی بتادیا کہ عبدیت(غلامی) کسی اور کی نہیں صرف اللہ کی ہی ہوسکتی ہے۔ غلامی کی جو جراثیم ہڈیوں اور رگوں میں سرائیت کر چکے تھے ، اللہ تعالیٰ نے نسل در نسل غلام رہنے والی قوموں کوبہت محدود وقت میں بڑی زبردست حکمت سے نکالا۔ مشرک رشتہ داروں کی نسبت سے عبدمؤمن اور مؤمن لونڈی سے شادی کو بہتر قرار دیا۔ فیض احمد فیض بہت بڑے انقلابی تھے لیکن کسی غریب گھرانے کی خاتون سے بھی شادی نہ کی لونڈی سے شادی تو بہت دور کی بات ہے۔ اللہ نے قرآن میں طلاق شدہ، بیواؤں کی شادی کرانے کا حکم دیا،تو صالح غلاموں اور لونڈیوں کی شادی کرانے کا بھی حکم دیا ۔ اللہ نے قرآن میں لونڈی بنانے کے رسم کو اہل فرعون کا وظیفہ قرار دیا اور اس رسمِ بد کو ختم کرنے میں اسلام نے بہترین کردار ادا کیا ،کسی غلام کو آقا سے نفرت یا مارکھلانے کی بجائے حسنِ سلوک اور سہولت سے آزادی دلائی ۔کالے حبشی غلام حضرت بلالؓ نے وہ عزت پائی کہ بڑے بڑے بادشاہوں کے تاج کو انکے پاؤں کی خاک کے برابرنہیں سمجھا جاتا ۔بڑے بڑے لوگ ان کا نام گرامی رکھنے پر بھی فخر محسوس کرتے ہیں۔
سرمایہ دار ملکوں میں محنت اور صلاحیت کی وہ ناقدری نہیں ہوتی جوسوشلسٹ نظام میں ہوتی ہے۔ دنیا کے امیر ترین افراد میں سے کچھ نے اپنی صلاحیتوں کا صلہ پایا اور پھر اپنی دولت کو غریبوں کیلئے وقف کردیا۔ ہمارے ایک ساتھی شاہ وزیرخان بنیرسوات کا رہاشی ہے، پہلے داڑھی لمبی تھی اور پھر چھوٹی کرلی۔ لوگوں نے کہا کہ افسوس تم نے داڑھی چھوٹی کرلی ہے؟۔ اس نے کہا :’’ جب میری داڑھی بڑی تھی تو کونسا تم میرے پیچھے بوتل لیکر گھومتے تھے کہ اس کو دم کردو، پہلے بھی یہی شاوزیرتھا اور اب بھی وہی شاہ وزیرہوں‘‘۔
ایک مزدور طبقے سے تعلق رکھنے والے کی حالت اپنی صلاحیت کیوجہ سے بڑی مشکل سے بدل سکتی ہے۔ برائلر مرغے کولڑنے والے اصیل مرغے سے لڑادیا تو اسکا کام کردیا۔ اچھی شکل، اچھی ذہنیت اور اچھی صلاحیت کوئی جرم نہیں اور نہ بدشکل، ذہنی غباوت اور کم صلاحیت کوئی جرم ہے، دوافراد ایک طرح کی صلاحیت رکھتے ہوں ایک کم محنت کرے اور دوسرا زیادہ۔ اگر زیادہ محنت کرنے والے کا فائدہ اسکے بچوں کو پہنچے تو یہ قدر زایدکے فارمولے سے متصادم نہ ہونا چاہیے ورنہ کوئی اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر معاشرے کی ترقی و عروج میں بھی کوئی کردار ادا کرنے کے کام نہ آئیگا،ترقی وعروج کی فضاء اسوقت ہی قائم ہوسکتی ہے جو افراد کے اجتماع میں انفرادی طور پر ایک دوسرے سے بڑھنے ،آگے نکلنے ،زیادہ سے زیادہ آسانی وسہولت اور فوقیت حاصل کرنے کا ایک ماحول بھی موجود ہو۔ سکول میں پڑھنے والے بچے ہوں یاسڑک پر چلنے والی گاڑیاں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کیفیت ایک فطری عمل ہے اور پھر بعض معاملات میں ایک دوسرے کیلئے قربانی دینے کا ماحول اعلیٰ درجے کی اخلاقیات کی وجہ سے پیدا ہوتاہے ،ایک سری گھروں میں گھوم کر واپس آنا اور میدان قتال میں مرنے سے بچنے کیلئے پانی مانگتے ہوئے پھر کسی کو ترجیح دینا وہ روحانی اقدار ہیں جو مذہب پیدا کردیتاہے ےؤثروں علی انفسھم ولوکان بھم الخصاصۃ ’’وہ اپنی جانوں کو دوسروں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود انہی کو ضرورت بھی ہو‘‘۔ تعصب بھرنے سے اعلیٰ اخلاقی قدریں پیدا نہیں ہوسکتی ہیں۔
فتح مکہ کے بعد کسی کو غلام بنایا اور نہ لونڈی انتم طلقاء لاتثریب علیکم الیوم ’’تم آزاد ہو، آج تم پر کوئی ملامت نہیں‘‘۔یہود ومنافقین کیساتھ میثاقِ مدینہ اور مشرکین سے صلح حدیبیہ کی عہدشکنی کے بعد فتح مکہ کے موقع پر بہترین سلوک ریاضی کا کلیہ نہ تھا، تاہم اہل فکر ودانش میں ریاضی کے قانون میں دو اور دوچار کی طرح معاشی اور معاشرتی نظام سمیت سائنسی معاملات میں بھی مکالمے کی ضرورت ہے، اسلام چیلنج میں پورا اترنے میں ناکام نہیں عقلی بنیادوں پر زیادہ قابل ترجیح نہ سمجھا جائے تو پھینک دینے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ ہونا چاہیے۔ اسلام کو فرقہ وارانہ مسالک نے اجنبی بنا دیا ہے، کمیونسٹ پارٹیاں کس وجہ سے انتشار اور ایک دوسرے سے عناد کا شکار ہیں؟۔اگر مارکسی نظریہ ایک ریاضی ہے تو ریاضی میں اختلاف، تفریق اور انتشار کیساہوسکتاہے؟۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا : ارض اللہ واسعۃ ’’اللہ کی زمین وسیع ہے‘‘۔ اور احادیث میں آتا ہے کہ زمین کومزارعت پر دینا سود ہے، زمین کو مفت نہ دے سکو تونہ دو، بٹائی ، کرایہ اور ٹھیکہ پر دینا جائز نہیں ۔ مزارعہ اپنی محنت کامالک بنے تو مزدور کا معاوضہ بڑھ جائیگا بلکہ مارکیٹ میں بھی اپنی مرضی کا معاوضہ حاصل کریگا۔ جاگیردار خود کھیتی باڑی میں لگ جائے تو وہ بھی محنت کش ہوگا۔ امام ابوحنیفہؒ ، امام مالک ؒ اور امام شافعیؒ نے بھی مزارعت کو سود قرار دیامگر علماء سوء کو ہردورکا جاگیر داراور سرمایہ دار خرید لیتا ہے جو شریعت کا خودساختہ فتویٰ اپنے ذاتی مفاد کیلئے کشید کرلیتا ہے، آج بینکاری کے سودی نظام کو بھی معاوضہ لیکر سندِ جواز دیا جارہاہے۔ جن علماء سوء نے احادیث اور اماموں سے انحراف کیا تھا، انہوں نے یہ علت بتائی تھی کہ ’’مزارعت کی وجہ سے لوگ غلامی کی زندگی بسر کررہے تھے، اسلئے اسکو سود و ناجائز قرار دیا گیا ‘‘۔ چلو ان کی بات مان لی لیکن آج بھی مزارعہ تو غلامی کی زندگی ہی بسر کررہے ہیں۔رسول اللہ ﷺ نے جس صحابی کو زمین کا مالک بنادیا تھا،جب اس کو آباد نہ کیاتو حضرت عمرؓنے چھین لی۔ آج مزارعین کو اپنی محنت کا مالک بنادیا جائے اور جو لوگ خود زمینوں میں کھیتی باڑی کرکے آباد نہیں کرسکتے اور نہ دوسروں کو دیں ،انکی زمین چھین لی جائے تو پاکستان میں خوشحالی اور اسلام کا انقلاب آجائیگا۔
عوام، غریب، پسماندہ طبقات اور پسے ہوئے انسانوں کے حقوق کیلئے یہ جائز آواز اٹھائی جائے اور حکمران اور بااثر طبقہ یہ دینے کیلئے تیار نہ ہو تو کوئی بھی غریب کے حقوق یا اسلام کے نام پر ڈھونگ رچانے کے قابل نہ رہیگا سیاسی قائدین میں شامل جاگیردار طبقہ مزارعین کو ان کا جائز حق دینگے تو بھی معاشرے میں بہت بڑی تبدیلی کا آغاز ہوجائیگااور غریب اپنے پاؤں پر کھڑے ہوکر کارل مارکس کے نظریات کو سمجھنے کے قابل بھی بن سکے گا، اب تویہ بدھوطبقہ کامریڈلال خان کی زبان میں بات سمجھنے کی صلاحیت سے بھی عاری ہے اور جب عملی طور سے بدلتی ہوئی قسمت لال خان کو نظر آئیگی تو اسلام کو سلام کرینگے۔
لعل خان جیسے سمجھدار، بہادر اور انسانیت سے محبت رکھنے والے اسلام کی بنیاد پر مخلص عوام کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے جو بیچارے بیوی کو حلالہ کیلئے بھی پیش کردیتے ہیں اور مفاد پرست مذہبی طبقے کی اجارہ داری ختم ہوجاتی تو مؤثر انقلاب میں دیر نہ لگتی۔

کیا کمی ہے انمیں، کیا شکایت ہے ان سے؟ راحیل شریف کے چاہنے والے…. وہ کرپٹ نہیں ہے اور وہ خوشامدی نہیں ہے، نواز شریف کے چاہنے والے

8th_Coloumn_August2016

بعض لوگ چاہتے ہیں کہ جنرل راحیل شریف زیادہ حقدار ہیں کہ اشفاق کیانی کیطرح مزید 3سال ایکسٹینشن ملے ۔ اور بعض لوگ نواز شریف کی خواہش کیمطابق نہیں چاہتے کہ انکو مزید وقت ملے۔ دونوں کا مکالمہ دیکھ لیجئے

نواز شریف نے چوہدری سرور کو امپورٹ کیا اور پھر عدالت کے حکم پر مجبور ہوکر رفیق رجوانہ کو گورنر بنایا کیسی جمہوریت ہے پنجاب کے بارہ کروڑ عوام میں ن لیگ کیلئے ایک بے ضرر تابعدار سا گورنر مشکل ؟ پرویز مشرف کو بھی تو تم نے ہی نامزد کیا تھا اور آخر کار جس پر اعتماد کرو گے وہ بھی تو بستر گول کرسکتاہے۔ جیو کے خبرناک میں ترکی کی فوج کو عبرتناک بناکر اپنی فوج کی بڑی توہین کردی ہے میڈیا پر خرچہ کیا ہے

فوج کیلئے باہر سے سربراہ لانے کیلئے قانون سازی ہوسکتی ہے اور رفیق رجوانڑاں جیسا کوئی مل سکتا ہے رفیق تارڑکے ہم نام رفیق رجوانہ پر بہ مشکل اعتماد کیا ، چوہدری سرور کے بعد کس پر کیسے اعتماد کرتے؟ یار تم نے مشکل میں ڈالا ، تمہارے خلاف ہی قانون سازی کرنی پڑ رہی ہے نہیں تو وزیر اعظم لندن جائیگا جنرل راحیل نے بھی تو سعودیہ کی حمایت یافتہ اور مصر کی فاتح فوج سے ملکر دھمکانے کا سلسلہ جاری رکھا

جنرل کیانی کا اپنے بھائی کامران کیانی ، نوازشریف کا اپنے بچوں سے کیاتعلق؟۔ حالانکہ یہ قیامت میں ہوگا: یوم یفرالمرء من اخیہ وامہ وابیہ و صاحبہ و بنیہ ’’اس دن فرار ہوگا آدمی اپنے بھائی ، اپنی ماں،اپنے باپ ، اپنی بیوی سے‘‘(القرآن)۔
خلیفہ سوم حضرت عثمانؓ بذاتِ خود بہت مالدار تھے لیکن حکومت میں آنے کے بعد ان پر اقرباء پروری کے الزام لگے اور بات مسندِ خلافت پر شہادت تک پہنچی، داڑھی میں پہلا ہاتھ حضرت ابوبکرؓ کے بیٹے نے ڈالا ۔نبیﷺ زکوٰۃاسلئے قبول نہ کرنا چاہتے تھے کہ انسان انہ لحب الخیر لشدید’’مال کی محبت میں سخت ہے‘‘۔ اللہ نے حکم دیا تونبیﷺ نے اپنے اقارب پر زکوٰ ۃ حرام کردی۔ حضرت عثمانؓ اللہ کا حکم سمجھ کر اقارب پر احسان کرتے ۔ سیاستدان ، جرنیل اور بیوروکریٹ یہ اعتراف کرلیں کہ وہ مال چاہتے ہیں اور اقرباء کے نوازنے کی بات فطری ہے، اللہ نے فرمایا: لاتزکوا انفسکم ’’ اپنی پاکی بیان نہ کرو‘‘۔
چھوڑدیں کہ کس سیاستدان، جرنیل اوربیوروکریٹ نے کیا کیا؟۔ہرن مملکت بچے دیتی ہے۔ شیر، چیتے اوربھیڑئیے اسی پر پل رہے ہیں،قرآن میں سدھائے ہوئے جانور کا شکارحلال ہے مگر افسوس ہے کہ تعلیم وتربیت کا معیار نہیں اسلئے سب ہی بے سدھ ہیں۔ تربیت یافتہ کتے اور باز کا شکارحلال مگر آوارہ کتے اور گدھ کاراج ہوتو پاکستان کا کیا ہوگا؟، بڑے لوگوں کے بچے باہر اور ویزہ لگنے میں دیر بھی نہیں لگتی، عوام کی کمزوری پر حکمرانی ہے۔ قرضہ بے تحاشہ بڑھتا جارہا ہے، غریب کا بچہ باہر سے کماکربھیج رہا ہے، کرپٹ مافیہ دولت منتقل کررہاہے، عالمی منڈی میں تیل کی قیمت گرنے سے جو سہارا ملا، اسکا فائدہ نہیں اٹھایا غیرملکی بینک موجودہیں، پیسہ باہر منتقل کرنا مسئلہ نہیں رہا۔سرکاری اثاثے بیچ کر اور اندرونی بے تحاشہ اور بھاری سود پر قرضہ لیکر آئی ائم ایف سے وقتی طور پر جان چھڑانا مسئلہ کا حل نہیں بحران کھڑا ہواتو مشکل پڑیگی بلکہ دیوالیہ ملک کو قرضہ بھی نہ مل سکے گا۔ سید عتیق گیلانی

ایم کیو ایم کی طرح کسی سیاسی جماعت سے رویہ رکھا گیا تو نظر نہیں آئیگی، اجمل ملک

Ajmal_Malik_August2016

مسلم لیگ (ن)سے یہ رویہ رکھا گیا تو اس مرتبہ شہباز شریف کا وہی کردار ہوگا جو سید مصطفی کمال کا ہے، 12مئی کے واقعہ پر پرویز مشرف نے مکا دکھایا اگر ہاتھ مروڑا ..

پاکستان میں ریاستی اداروں کی نظر کرم ہوجائے یا نظر بد لگ جائے تو اس کی مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے سوات کے طالبان سے لیکر کراچی کے ایم کیو ایم تک …

چیف جسٹس سندھ کے بیٹے کی بازیابی بہت خوش آئند لیکن گدا گری کے پیشے کیلئے اغواء کئے جانے والے غریب کے بچے اور بچیاں بھی انسان ہیں کتے کے بچے نہیں ہیں

ایم کیو ایم نے اپنے خلاف لوگوں سے بولنے کا حق نہ چھینا ہوتا اور کراچی میں قانون کے ذریعے سے سزا دلانے کی روایت کو فروغ ملتا تو آج یہ دن انکو دیکھنے نہ پڑتے

کراچی (نمائندہ خصوصی) ماہنامہ ضرب حق کراچی ، کتاب جوہری دھماکہ اور ابر رحمت کے پبلشر اجمل ملک نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ایم کیو ایم کی پالیسی ، نظرئیے اور رویوں سے سب کو اختلاف ہوسکتا ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ آجکل جس عتاب کی ایم کیو ایم شکار ہے اگر کسی اور جماعت سے یہ رویہ رکھا گیا تو اسکے آثار قدیمہ بھی نظر نہیں آئینگے۔ رینجرز کی نگرانی میں میڈیا کی پرزور مخالفت کے باوجود بلدیاتی انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئی۔ ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کا نوزایدہ امیدوار ایم کیو ایم میں شامل ہوگیا، ن لیگ کی حکومت کا خاتمہ کیا گیا تو نواز شریف معاہدہ کرکے بھاگا۔ واپسی پر کارکنوں نے استقبال میں نعرے لگائے تو برا مان گئے اور کہا کہ ’’چپ کرو ! جب مجھے ہتھکڑی پہنا کر لیجایا جارہا تھا اور پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی ایک بھی نہیں تھا‘‘۔ چوہدری شجاعت ، شیخ رشید ، دانیال عزیز سے لیکر عطا ء مانیکا تک کتنے بدل گئے؟۔ جبکہ اسحٰق ڈار نے عدالت کے سامنے بیان دیا ’’میں نے نواز شریف کیلئے منی لانڈرنگ کی ہے‘‘۔
میڈیا میں اس بحث اور بکواس کا سلسلہ جاری رہتا ہے کہ نواز شریف نے کرپشن کی یا نہیں؟ ، یہ ایسا ہے جیسے کوئی سورج یا چاند تاروں پر بحث کرے کہ ہیں یا نہیں؟۔ کوئی حقیقی انقلاب آئے تو سب سے پہلے بکواس کرنے والوں کو میڈیا کے اوپر ہی عوام کے سامنے مرغا بنایا جائے۔ ایم کیو ایم کی طرح اگر مسلم لیگ (ن) سے برتاؤ کیا گیا تو مصطفی کمال کیطرح شہباز شریف بھی کردار ادا کریگا۔ 12مئی کو پرویز مشرف نے مکا دکھایا تھا اسکا بازو مروڑ دیا جاتا تو بھی انصاف نظر آتا تھا، ایم کیو ایم اپنے اعمال اور روئیے کی خود جوابدہ ہے، اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے انبیاء ؑ کی رہنمائی کرتا ہے تو کسی بھی عام انسان کو جو خود کو مسلمان کہتاہو یہ قطعاً نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ غلطی کا ارتکاب نہیں کرسکتا۔ مثلاً کراچی کے سابق ناظم پاکستان سر زمین پارٹی کے قائد سید مصطفی کمال کو ہی لے لیجئے ۔ پہلے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کیلئے جن جذبات کا اظہار کرتے تھے اب اس کا بالکل ہی برعکس رویہ ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سید ضعیم قادری جسکی سرکاری ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ دوسرا کوئی بولے تو یہ بھی بکنا شروع کردے تاکہ دوسرے کی بات کوئی سن نہ سکے۔ جب اس نے ایم کیو ایم کے قائد کیخلاف کچھ بولا تو سید مصطفی کمال نے کہا کہ تمہیں لاہور میں بھی گھر سے نہیں نکلنے دینگے۔ سید مصطفی کمال پر ڈاکٹر عامر لیاقت نے فتویٰ لگایا کہ وہ تجدید ایمان کرلے ، اس لئے کہ مصطفی کمال نے اقرار کیا ہے کہ ہم الطاف حسین کو خدا مانتے تھے۔ حالانکہ فرشتوں نے بھی جنت میں اللہ سے حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش پر سوال اٹھادیا مگر مصطفی کمال اپنے قائد کیلئے سوال اٹھانے کو بھی برداشت نہ کرتے تھے، اسلئے خدا کا لفظ بھی کم تھا۔ ڈاکٹر فاروق ستار جو بہت معتدل مزاج سمجھے جاتے ہیں جب مولانا فضل الرحمن نے اجمل پہاڑی کا صرف نام لیا تو ڈاکٹر صاحب نے مولانا ڈیزل سے لیکر اسکی ایسی کم تیسی کرکے وہ حال کردیا کہ اللہ کی پناہ۔ یہ تو مولانا کا دل گردہ تھا کہ پھر بھی نائن زیرو گئے ورنہ تو کوئی چھوٹے دل والا کبھی وہاں جانے نہ پاتا۔
کوئی عتاب میں ہو تو مرے پر سو دُرے لگانا انتہائی بے غیرتی اور بے ضمیری ہے۔ تاہم اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ ایم کیو ایم کو دیوار سے لگانے کے محرکات کیا ہیں؟۔ بلدیاتی انتخاب میں جمہوریت کی بنیاد کا پتہ چلتا ہے ، پاکستان کی ساری برسر اقتدار سیاسی جماعتیں بلدیاتی الیکشن کی علمبردار نہیں ، اسلئے کہ وزیر اعلیٰ بننے میں بھی قائدین کو دلچسپی نہیں ہوتی، وہ تو صرف وزیر اعظم کا خواب ہی دیکھتے ہیں البتہ پیپلز پارٹی نے سندھ اور مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں اپنا بیس بنانے کیلئے مستقل قبضہ جما رکھا ہے۔ ایم کیو ایم بلدیاتی انتخابات کے علاوہ پاکستان میں ساری قومیتوں کو متحد کرکے انقلاب کی صلاحیت رکھتی تھی جو لوگ ایم کیو ایم کے مظالم پر سینہ کوبی کررہے ہیں انکی اکثریت دہشت گردی پھیلانے والے طالبان کی حامی تھی جیسے مسلم لیگ (ن) ، تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام وغیرہ۔ طالبان ریاستی اداروں کے اہل کاروں کو بھی حصہ دیتے تھے مگر ایم کیو ایم کا بھتے میں کوئی حصہ دار نہیں تھا۔
ریاستی ادارے بیورو کریسی انتظامیہ ، عدلیہ ، پولیس اور فوج کی نظرکرم ہوجائے تو اُلو بھی تیتر اور چکور بن جائے اور کائیں کائیں کرنے والے کوے شاہین بن جائیں اور نظر بد ہوجائے تو ہیرو بھی زیرو بن جائیں۔ سوات کے طالبان سے کراچی کے ایم کیو ایم اور گوادر سے لاہور تک ایک ایک معاملہ دیکھا جائے تو متضاد پالیسیوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ ایسے میں ریاستی اہلکاروں کا کوئی بھروسہ اور اعتبار نہیں ہوتا کہ کب کیا سے کیا ہوجائے؟۔ وزیر اعظم کبھی لندن سے واپس ہوتا دکھائی نہیں دیتا اور کبھی لاہور سے اسلام آباد جانے میں خدشات کے انبار لگتے ہیں۔ ایسے ملک کا وزیر اعظم بننا بھی بہت بڑے درجے کی رسوائی سے کم نہیں۔ نواز شریف نے تو انتہائی نااہلی کے باوجود اپنے اور اپنے خاندان کی اوقات بدلے ہیں اسلئے بار بار وزیر اعظم بننے کی قربانی بھی دیتے ہیں۔ اسکے باپ کا نام شریف تھا ورنہ شرافت رکھنے والا کوئی شریف اتنی ذلت کے بعد کاروبار کیلئے یہ قربانی کب دے سکتا تھا؟۔ ایم کیو ایم وہ جماعت ہے جس نے مہاجر قوم اور پاکستان کی تبدیلی کا نعرہ لگایا۔ اسی نعرے کی گونج میں پاک سر زمین پارٹی کے رہنماؤں کی پرورش ہوئی۔ مصطفی کمال یہ کہہ دیتے کہ’’ ایک مرتبہ مجھے سرزنش ہوئی تو آسمان کے تارے نظر آنے لگے۔ سوچا کہ دوسروں پر مظالم، ذلت، رسوائی کے پہاڑتوڑ دیتے تھے، قتل وغارتگری کے مرتکب ہوجاتے تھے، زبردستی کی بنیاد پر جلسوں میں لے جاتے تھے، 12مئی کو ساری پارٹیوں کے برعکس چیف جسٹس کو ائرپورٹ سے نہ نکلنے دیا،معمولی گستاخانہ لہجہ برداشت نہیں کرتے تھے۔ ساری قوموں سے بھڑے ، اپنوں سے لڑے اور مہاجر سے متحدہ تک کا طویل سفر بچپن سے جوانی تک جس طرح سے طے کیا اور پھر ایک محفل میں بپھرے ہوئے کارکنوں کے روئیے سے نالاں ہوکر بھاگے ، یہ ہم پر قرض تھا کہ اپنی قوم سے معافی مانگتے ، ریاستی اداروں سے بھی معافی مانگتے اور دوسروں سے بھی معافی مانگتے تاکہ دنیا تو جو برباد ہونا تھی سو ہوئی مگر آخرت میں مغفرت کی کوئی سبیل نکلے‘‘ ۔اس طرح کے بیانات کے کوئی خاطر خواہ نتائج بھی نکلتے۔ یہ کونسی بات ہے کہ الطاف حسین اور اس کی جماعت را کی ایجنٹ ہے ، کہنے والا سابقہ راکا ایجنٹ۔ اگر ایم کیو ایم اور اسکی متاثرین کی اصلاح کرنی ہو تو اسکا یہ طریقہ نہیں کہ دوسرے ذرائع سے ان پر الزام لگایا جائے اور کل ماحول بدل جائے تو عامر خان کی طرح ایم کیو ایم کے زانوں میں اپنا سر دیدے۔ ایم کیو ایم کی اصل غلطی یہی تھی کہ مخالفین کو بولنے بھی نہ دیتے تھے۔ مخالفین کے بولنے سے کچھ بگڑتا نہیں بلکہ قیادت اور جماعت کی اصلاح ہوجاتی ہے۔ آج بھی مکا چوک کے قریب لٹنے والوں کو ایم کیو ایم سے ہی گلہ ہے ، کراچی میں ایک کرائم سے پاک معاشرہ وجود میں آتا تو اسکا سارا کریڈٹ ایم کیو ایم کو جاتا۔ زبردستی سے تبدیلی کی ذلت میں کوئی اچھا پہلو ہوتا تو کراچی سے وزیرستان تک لوگ خوشیاں بانٹنے کیلئے جوق درجوق آتے۔

قرآن میں اہم ترین معاشرتی مسائل کا حل اور امت کا اس سے کھل کر انحراف

دنیا میں ایک طرف امریکہ اور اتحادی ریاستیں ہیں جو دہشت گردی کی روک تھام کیلئے ایک ہی نعرہ لگارہی ہیں تودوسری طرف دہشت گردی ختم نہیں ہورہی ہے بلکہ پھیل رہی ہے۔ ریاستوں کی منافقت یا مجبوری کی یہ حالت ہے کہ سب ایک دوسرے پر الزامات بھی لگارہے ہیں، اچھے اور برے دہشت گردوں کے بھی تصورات موجودہیں اور دہشت گردوں کی شر سے بچنے کیلئے دہشت گردوں کا ہی سہارا لیا جاتا ہے۔اس گھناؤنے کھیل میں ہیروئن اور اسلحہ کا کاروبار کرنے والے جو فائدہ حاصل کررہے ہیں انہوں نے اس کو جاری وساری رکھنا ہے۔ امریکہ ڈرون حملے سے ایران سے آنے والے طالبان کے امیر ملااختر منصور شہید کرتا ہے یا ہلاک کردیتا ہے، جہنم رسید یا جنت کو پارسل کردیتا ہے؟۔ یہ فیصلہ کرایہ کے جہادکے بانی امریکہ کے ایماء پر ہمارے ریاستی اداروں اور میڈیا کے کرتا دھرتا لوگوں نے کرنا ہے۔ جنرل راحیل شریف نے کہا کہ ’’ پاکستان کی سرزمین پر یہ ڈرون حملہ قبول نہیں اور اس کیلئے مذمت کے الفاظ بہت معمولی ہیں‘‘۔ اگر ہمارے پاس قیادت کا فقدان نہ ہوتا تو جنرل راحیل شریف کو اس طرح کے بیان کی ضرورت نہ پڑتی۔ ضربِ عضب کے دوران بھی شمالی وزیرستان میں ڈرون ہوتے تھے، ایران پاکستان کی طرح امریکہ کا نہیں کھاتا۔
جنرل راحیل شریف نے شمالی وزیرستان سے دہشت گردوں کے بڑے اڈے کو ختم کرکے دنیا کو دکھا دیا کہ اسکے پیچھے ہم نہیں افغانستان میں موجود نیٹوکی افواج دہشت گردوں کو پال کر اپنے مقاصد حاصل کررہی ہیں۔ میڈیا کو سوال کرنا تھا کہ نیٹو افغانستان کی سرزمین پر کیا کررہا ہے؟۔ دہشت گردوں کو پال رہا ہے، ہیروئن کی اسمگلنگ کررہا ہے یا اس خطہ میں حالتِ جنگ کو دوام دیکر دنیا بھر کی طرح یہاں امریکہ کو اسلحہ فروخت کرنے کا ریکارڈ توڑنے کا موقع فراہم کررہا ہے؟۔ اسلام امن وسلامتی کا دین ہے اور دنیا بھر میں دہشت گردی کا فلسفہ امریکی سی آئی اے کی سرپرستی میں ہمارے ریاستی ڈھانچوں کے ذریعہ سے عام کیا گیا ۔ عوام کے جذبات کو امریکہ بھڑکارہا ہے اور اس کی آلۂ کار قوتیں دہشت گردی کی آبیاری کررہی ہیں۔یہ اتفاق نہیں کہ ملامنصور کو امریکہ نے ڈرون حملے سے مارا اور افغانی عمر متین کو امریکیوں سے بدلہ لینے کا موقع ملا بلکہ یہ اس جنگ کو جاری رکھنے کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔شیطان خوفزدہ ہے بقول علامہ اقبالؒ کے
الحذر آئینِ پیغمبرؐ سے سوبار الحذر حافظِ ناموسِ زن مرد آزما مرد آفرین
اگر یہ آشکارا ہوا تو سب کچھ دھرا کا دھرا رہ جائیگا۔ اسلئے اس امت کو ذکر صبح گاہی میں مست رکھو اور مزاج خانقاہی میں پختہ تر کردو‘‘۔( شیطان کا اپنی مجلسِ شوریٰ سے خطاب: علامہ اقبالؒ )۔
ہمارا حال یہ ہے کہ پرویزمشرف کے دور میں عورتوں کو جبری جنسی تشدد سے بچانے کا قانون لایا گیا کہ ’’اس کو حدود سے نکال کر تعزیرات میں شامل کیا جائے،اسلئے کہ چارمرد گواہوں کو اکٹھے لانا بہت مشکل کام ہے، جس کی وجہ سے کوئی مجرم سزا نہیں پاسکتا ‘‘۔ اس پر مفتی محمد تقی عثمانی نے مخالفت میں ایک بہت ہی بھونڈی تحریر لکھ دی جس کو جماعتِ اسلامی نے پملفٹ کی شکل میں بانٹا، اسکے جواب میں سید عتیق الرحمن گیلانی نے بہت مدلل انداز میں تردیدلکھ دی جو ہم نے شائع کردی لیکن اس کو مذہبی حلقوں، ہماری ریاستی اداروں اور حکومت واپوزیشن نے کوئی اہمیت بھی نہ دی۔
مفتی تقی عثمانی کی تحریر کا خلاصہ یہ تھا کہ’’ اللہ نے سورۂ نور میں زنا کی حد بیان کی ہے اس میں جبری زنا اور زنا برضا کی کوئی قید نہیں‘‘۔ حالانکہ یہ سراسر بکواس ہے، اللہ نے زنا برضا کی وضاحت کی ہے’’مرد یا عورت میں سے کوئی بھی زنا کا ارتکاب کرے تو اس کو 100کوڑے کی سزا ہے‘‘۔ علماء ومفتیان کا وطیرہ ،تعلیم اور تربیت ہی یہ ہوتی ہے کہ اپنی مرضی سے جہاں چاہیں وہاں کہہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ مطلق حکم بیان کیا ہے، اس میں کوئی قید نہیں ہے، حالانکہ وہ یہ دھوکہ منافقوں کی طرح خود کو بھی دیتے ہیں اور اپنے عقیدتمندوں اور عوام کو بھی دیتے ہیں۔
قرآن میں بالکل واضح ہے کہ جو مردیا عورت فحاشی کا ارتکاب کرے، یہ جبری نہیں بلکہ برضا ورغبت کی بات ہے۔ جہاں تک جبر کی بات ہے تو اللہ نے واضح کردیا ہے کہ جو لونڈی زبردستی سے بدکاری پر مجبور کی جائے تو اس پر اسکی پکڑ نہ ہوگی بلکہ اگر کلمۂ کفر پرکسی کو مجبور کیا جائے تو بھی اللہ نے اس کو مستثنیٰ قرار دیا ۔ البتہ اللہ تعالیٰ نے خواتین کو زبردستی سے تنگ کرنے والوں کو مدینہ سے قریب کے دور میں نکالنے کی خبر دیتے ہوئے فرمایا کہ پہلے بھی ایسے لوگ ہوا کرتے تھے، فاینما ثقفوا فقتلوا تقتیلاً ’’ پھر جہاں بھی پائے گئے،تو وہ پھر قتل کئے گئے‘‘۔خاتون نے رسول اللہﷺ کو شکایت کردی کہ ایک شخص نے زبردستی سے اس کی عزت لوٹی ہے،نبیﷺ نے اس شخص کو پکڑ لانے اور سنگسار کرنے کا حکم دیا۔ وائل ابن حجرؓ کی یہ روایت ابوداؤد کے حوالہ سے مشہور کتاب ’’موت کا منظر‘‘ میں زنا بالجبر کی سزا کے عنوان سے ہے۔بعض روایتوں میںیہ اضافہ ہے کہ ایک دوسرا شخص کھڑا ہوا کہ’’ اس نے نہیں میں نے یہ کام کیا ہے تو نبی ﷺ نے پہلے کو چھوڑ کر اس کو سزا کا حکم دیا۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت اور قرآن سے یہ واضح ہے کہ زنا بالجبر کی سزا 100 کوڑے نہیں بلکہ قتل ہے اور یہ کہ جج یا قاضی کوچار گواہوں کی بجائے دل کا اطمینان ہونا چاہیے کہ یہ جرم ہوا ہے۔ کوئی بھی کسی عورت سے زبردستی جنسی زیادتی کی اس سزا کو فطرت کے منافی نہ قرار دیگا جو قرآن وسنت میں موجود ہے۔ علماء ومفتیان ایک طرف غیرت کے نام پر عورت کے قتل کو جائز سمجھ رہے ہیں اور معاشرے میں اس کو سپورٹ کرتے ہیں تو دوسری طرف زبردستی سے جنسی تشدد کیلئے شرعی حدود اور چار گواہوں کو لازم قرار دیتے ہیں جو قرآن وسنت کے بالکل سراسر منافی ہے۔
مفتی محمد تقی عثمانی نے پرویزمشرف کے دور میں زنا بالجبر کیلئے اسی حدیث کا حوالہ دیا جس میں ایک عورت کی ہی گواہی قبول کی گئی۔ سید عتیق گیلانی کی حق بات قبول کی جاتی توآج جنرل راحیل کو اس قدر مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑتا بلکہ دنیا بھر میں مسلمان سکون، عزت اور ایک فعال کردار کی زندگی گزارتے۔ گیلانی صاحب نے مفتی عثمانی کو حدیث کے کھلے مفہوم سے انحراف پر مرغا بننے کا مشورہ دیا تھا۔ جماعتِ اسلامی اپنی منافقانہ کردار کی وجہ سے پسِ منظر میں جارہی ہے۔ ڈاکٹر فرید پراچہ جماعتِ اسلامی کے اہم رہنما ہیں، وہ میڈیا پر قرآن کی اس آیت کو رسول اللہ ﷺ کی اذیت سے جوڑ رہے تھے جس میں خواتین کو تنگ کرنے کے حوالہ سے قتل کی وضاحت ہے۔حالانکہ نبیﷺ کی اذیت کا ذکر اس سے پہلے والے رکوع میں ہے، جس میں قتل کا کوئی حکم نہیں ہے، لعنت کا مستحق تو جھوٹے کو بھی قرار دیا گیا ہے۔ حضرت عائشہؓ پر بہتان سے بڑھ کر نبیﷺ کو کیا اذیت ہوسکتی تھی؟ مگر بہتان لگانے والے صحابہؓ حضرت حسانؓ، حضرت مسطح ؓ اور حضرت حمناؓ وغیرہ میں سے کسی کو قتل نہ کیا گیا بلکہ جب حضرت ابوبکرؓ نے قسم کھائی کہ آئندہ اس اذیت کی وجہ سے اپنے عزیز مسطح کی مالی اعانت کا احسان نہ کروں گا تو اللہ تعالیٰ نے سورۂ نور میں ایسا کرنا مؤمنوں کی شان کے منافی قرار دیتے ہوئے روکا اور حکم دیا کہ احسانات کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔
البتہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ نور میں زناکار مرد وعورت کیلئے شادی شدہ یاغیر شادی شدہ کی قید کے بغیر 100کوڑے سزا کا حکم دیا ، جس پردل میں رحم کھانے سے روکا گیا اور مؤمنوں کے ایک گروہ کو گواہ بنانے کا حکم بھی دیا ہے۔ اسکے برعکس توراۃ میں شادی شدہ بوڑھے مردو عورت کو زنا پر سنگسار کرنے کا ذکر ہے۔ علامہ مناظر احسن گیلانی ؒ نے قرآن کے مقابلہ میں توراۃ کے تحریف شدہ حکم کو مسترد کردیا ہے اور ان کی کتاب ’’تدوین القرآن‘‘ پر بنوری ٹاؤن کراچی کے عالم نے حاشیہ لکھ دیا ہے جوبازار میں دستیاب ہے۔ توراۃ کا حکم لفظی اور معنوی اعتبار سے بہت ناقص اور ناکارہ ہے۔ اگر جوان شادی شدہ بھی زنا کریں تو اس کی زد میں نہیں آتے اور بوڑھے شادی شدہ نہ ہوں تب بھی زد میں آتے ہیں،جو بوڑھے نکاح کے قابل نہیں رہتے تو زنا کہاں سے کریں گے؟۔ صحیح بخاری میں ایک صحابیؓ سے پوچھا گیا کہ ’’سورۂ نور کی آیات کے بعد کسی زناکار کو سنگسار کیا گیا؟۔ تو جواب دیا کہ میرے علم میں نہیں کہ اسکے بعد کسی کو بھی سنگسار کیا گیا ہو‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں شادی شدہ لونڈی کیلئے آدھی سزا کا حکم دیا ہے تو سنگسار ی میں آدھی سزا نہیں ہوسکتی۔ البتہ 100 کی جگہ 50 کوڑے ہیں، امہات المؤمنین ازواج مطہراتؓ کو مخاطب کرکے دوہری سزا سے قرآن میں ڈرایا گیا ہے تو 100کا دگنا200ہیں، سنگساری میں ڈبل سزا کا تصور نہیں ہوسکتا۔
یہود کے ہاں شادی شدہ کیلئے سنگساری اور غیرشادی شدہ کیلئے 100کوڑے اور ایک سال جلاوطنی کی سزا تھی۔ قرآن میں قتل اور جلاوطنی کی سزا کا سورۂ نور میں کوئی تذکرہ نہیں بلکہ بہت تاکید کیساتھ صرف 100کوڑے کی سزا سے یہود کے ہاں رائج قتل اور جلاوطنی کی سزاؤں کی تردید ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لونڈی کو آدھی سزا کے پسِ منظر میں ہی یہ وضاحت بھی قرآن میں کردی ہے کہ ہم نے پہلے والوں کو قتل نفس اور جلاوطنی کی کوئی سزا نہیں دی تھی۔یعنی یہ ان کی طرف سے گھڑی ہوئی سزائیں تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ سے فرمایا کہ’’ اگر یہ اہل کتاب اپنی بات کا فیصلہ کرانے کیلئے آپکے پاس آجائیں اور آپ انکے درمیان فیصلہ کرنے سے انکار کردیں تو یہ آپکو نقصان نہیں پہنچا سکتے ہیں‘‘۔ پھر فرمایاکہ ’’ انہوں نے اپنی کتاب میں تحریف کی ہے اور آپکے پاس جو حکم ہے وہ محفوظ ہے۔ ان کو فیصلہ کرکے دینا ہو تو ان کی کتاب سے نہیں اپنی کتاب کے مطابق فیصلہ کرو۔ اگر ان کو انکی کتاب سے فیصلہ کرکے دیا ،تب یہ آپ کو اپنی کتاب سے بھی فتنہ میں ڈال دیں گے‘‘۔ اور پھر اسی تناظر میں اللہ نے فرمایا کہ ’’ اے ایمان والو! یہود ونصاریٰ کو اپنے اولیاء مت بناؤ، جو انکو ولی بنائے تو وہ انہی میں سے ہے‘‘۔ ولی سے مراد عام دوستی نہیں بلکہ مذہبی معاملہ وحدود میں ان کو اختیار سپرد کرنا مراد ہے۔ جیسے حدیث میں ہے کہ ’’جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکا ح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے باطل ہے باطل ہے‘‘۔ علماء ومفتیان ومذہبی بہروپیوں نے مشہور کیا کہ’’ یہود ونصاریٰ سے دوستی قرآن میں منع ہے‘‘۔ پاکستان کی فوج ، حکومت، ریاست اور سعودیہ سے بڑھ کر امریکہ کے دوست بلکہ چاکری کرنے والے کون ہوسکتے ہیں؟۔ مگر مذہبی بہروپیوں نے کبھی بھی یہ فتویٰ نہیں لگایا ہے کہ یہ ان کے دوست ہیں اور انہی میں سے ہیں۔ بلکہ روس کیخلاف جہاد کے نام پر استعمال ہونے والے امریکیوں کو اہل کتاب کہتے تھے اور روس کے بارے میں کہتے تھے کہ وہ ملحد اور ماں ، بہن ، بیٹی کو نہیں پہچانتے ہیں، حالانکہ چین بھی روس ہی کا نظریہ رکھتا تھا لیکن وہ پھر امریکہ سے بھی زیادہ اچھا دوست تھا۔
جب یہود ونصاریٰ کی پاکدامن خواتین سے قرآن نے شادی کی اجازت دی ہے تو دوستی کی کیوں نہیں؟۔ کیا بیوی سے بڑھ کر دوستی کا کوئی تصور ہوسکتا ہے؟۔ جس بات سے قرآن نے منع کیا تھا کہ ان کو ولی مت بناؤ، اس کی وجہ تو صاف ظاہر تھی کہ انہوں نے اللہ کے احکام کو بدل دیا تھا، اگر ایک مؤمن اپنی بیوی یا کسی دوسرے کو سنگسار کرنا چاہتا تو اللہ کے قرآن میں اسکی اجازت نہ تھی اور توراۃ میں یہ تحریف شدہ حکم موجود تھا۔اللہ نے ان سے فیصلہ کروانے کیلئے یہودونصاریٰ کو ولی اور حاکم بنانے سے منع کردیا۔ اب تو یہودونصاریٰ کو ولی بنانے سے منع کرنے کی ضرورت ہی باقی نہ رہی ، اسلئے کہ مسلمانوں نے انہی کے نقشِ قدم پر چل کر قرآن کے حکم میں توراۃ کے ذریعہ مذہبی نصاب میں تبدیلی کردی ہے۔ مذہبی طبقات کی حکومت قائم ہوگئی تو سنگسار کرنے پر ہی عمل ہوگا۔
حالانکہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ طلاق میں بیوی کو کھلی ہوئی فحاشی کے ارتکاب پر قتل کرنے کا حکم نہ دیا بلکہ گھر سے نکالنے اور اس کو نکلنے کی اجازت دی، اس کے خلاف گواہی دینے پر لعان کا حکم دیاتھا جس پر نبیﷺکے دور میں ایک مرتبہ عمل بھی ہوا۔ انصار کے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ کا کھل اس آیت کے خلاف عمل کرنے کے اعلان کا بھی بخاری شریف میں ذکر ہے۔ مذہبی طبقہ کو شرم بھی نہیں آتی ہے کہ کھل کر اللہ کے حکموں سے انحراف کو عوام کے سامنے بیان کرنے سے ڈرتا ہے۔ غیرت کے نام پر قتل کی حمایت قرآن کا حکم نہیں بلکہ جاہلانہ غیرت کا نتیجہ ہے۔ مذہبی طبقہ نے پرائے گو پر پاد مارنے کے کارنامے ہمیشہ انجام دئیے ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل کی اجازت ہو تو پھر مدارس اور مساجد میں بچوں کیساتھ جبری جنسی زیادتی پر قتل کا فتویٰ دیا جائے۔ مفتی محمدتقی عثمانی کے دوست شیخ الحدیث مفتی نذیر احمد جامعہ امدادالعلوم فیصل آباد کیخلاف کئی طلبہ نے روتے ہوئے جبری جنسی تشدد کا نشانہ بننے کا مسجد میں اعلان کیا۔ علماء وفقہاء نے یہ بکواس لکھ دی ہے کہ لواطت کی سزا کا ذکر قرآن وسنت میں نہیں، اسلئے اس پر آگ میں جلاکر مارنے یا دیوار گرانے کے ذریعہ سزا پر اختلاف ہے۔ حالانکہ قرآن میں اذیت دینے کا ذکر ہے، البتہ زبردستی سے زیادتی کی سزا تو کسی خاتون کے مقابلہ میں بچے یا مرد کیلئے بھی قتل ہی ہونی چاہیے۔ علماء ومفتیان نے اسلام کو اپنے گھر کی کھیتی سمجھ کر کھانے یا اجاڑنے کو اپنا حق سمجھ رکھا ہے،جس کی جتنی مذمت کی جائے بہت کم ہے۔
اللہ تعالیٰ نے وضاحت کردی ہے کہ طلاق کے بعد عدت میں بھی شوہر کو مشروط رجوع کا حق حاصل ہے، صلح کی شرط پر ہی رجوع ہوسکتا ہے۔ اسکے بعد کوئی کم عقل انسان بھی یہ تصور نہیں کرسکتا کہ ’’عدت کی تکمیل پر شوہر کو غیرمشروط رجوع کا حق دے‘‘۔ جہاں ایک طرف رجوع کیلئے صلح کی شرط واضح کرنے کے بعد کہاگیا ہے کہ عدت کی تکمیل پرشوہر معروف طریقہ پر رجوع کرے یا اس کومعروف طریقہ سے چھوڑدے۔ علماء ومفتیان عقل کے اندھوں بلکہ دل کے اندھوں نے کہا ہے کہ شوہر کو مطلق رجوع کا حق حاصل ہے لیکن عدت میں باہمی رضامندی سے بھی یہ مطلق رجوع کا حق ان کو اس وقت نظر نہیں آتا جب حلالہ کروانے کی بات آرہی ہو۔ لوگوں کو حقائق کا پتہ چلے تو یہ نہیں کہ دوسرے لوگ بلکہ اپنے عقیدتمند ہی قرآنی آیات کو جھٹلانے والوں سے حساب لیں گے۔
ایک عرصہ سے ہم نے طلاق کے مسئلہ پر حقائق عوام اور علماء کرام کے سامنے رکھے، بہتوں کی سمجھ میں بات بھی آئی لیکن محض ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کررہے ہیں، جو بے وقوف ،کم علم ، جاہل اور بے خبر ہیں ان کا کوئی قصور بھی نہیں ہے لیکن لگتا یہ ہے کہ بڑے بڑوں کا یومِ حساب قریب ہے، ان کو بہت ڈھیل مل چکی ہے اور درجہ بدرجہ استدراج کا عمل ان کو گرفت سے بچانے کیلئے نہیں ، اللہ کو اپنی مخلوق سے بہت محبت ہے، کافر، مشرک، ہٹ دھرم اور سب ہی لوگ اللہ کی مخلوق ہیں، ایک طبقہ کواتمامِ حجت کے بعد بھی اچھی خاصی ڈھیل دینا اللہ کی ہمیشہ سنت رہی ہے۔ اگر وہ وقت پر حق کا ساتھ دے کر خود کو بچالیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ مغفرت اور بہت رحم کرنے والا ہے۔مگر دین کے نام پر لوگوں کے گھروں کو تباہ کرنے، بلاجواز حلالہ کی لعنت پر مجبور کرنا اور قرآن وسنت کے مقابلہ میں ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنا بہت سنگین جرم ہے، ایسے لوگوں کے چہروں سے نقاب ہٹانا ضروری ہے اور یہ ہماری مجبوری ہے، اپنی دنیا اور آخرت کو تباہ کرکے جینے سے مرجانا مہنگا سودا نہیں ہے۔
1: یہ بات ذہن نشیں بلکہ دل نشین رہے کہ اللہ تعالیٰ نے ازواجی تعلق قائم ہونے کے بعد طلاق کیلئے عدت کا لازمی تصور رکھا ہے۔ عدت کا یہ حکم صرف صلح ورجوع کی گنجائش کیلئے ہی ہے جس کی اللہ نے بار بار قرآن کی مختلف سورتوں کی بہت سی آیات میں کھل کر وضاحت فرمائی ہے۔ شوہر اور بیوی دونوں کے ایک دوسرے پر برابر حقوق کی وضاحت ہے البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ ہے۔ یہ درجہ بالکل واضح ہے اسلئے کہ شوہر طلاق دیتا ہے اور بیوی عدت گزارتی ہے، اس سے بڑھ کر اور کیا درجہ ہوسکتا ہے؟۔ شوہر کو صلح کی شرط پر ہی رجوع کا حق دیا گیا ہے، بیوی راضی نہ ہو تو شوہر اس کو عدت میں بھی رجوع پر مجبور نہیں کرسکتا ہے۔ عدت میں رجوع کے حق کی وضاحت اسلئے ہوئی ہے کہ عدت کے بعد عورت دوسری جگہ بھی شادی کرسکتی ہے لیکن باہمی رضامندی سے عدت کے بعد بھی رجوع اور ازدواجی تعلق کو معروف طریقہ سے قائم رکھنے کی اجازت اللہ نے واضح کردی ہے بلکہ رکاوٹ ڈالنے سے منع کیا گیا ہے اسی میں معاشرے کیلئے تزکیہ اور پاکی کا ماحول ہے۔یہ وضاحتیں قرآن کی سورۂ بقرہ اور سورۂ طلاق میں تفصیل سے دیکھی جاسکتی ہیں۔
2: طلاق مرد کا حق ہے اور خلع عورت کا حق ہے۔ طلاق اور خلع دونوں میں زبردست مغالطہ مذہبی طبقات نے کھایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ میں صرف طلاق ہی کا ذکر کیا ہے مگر افسوس کہ مغالطہ سے وہاں خلع مراد لیا گیا۔ جس کی وجہ سے قرآن کی واضح آیات کے مفہوم کو توڑ مروڑ کر ایسا پیش کیا گیا ہے، جس کا سیاق وسباق سے معنوی اور لفظی اعتبار سے کوئی تعلق بن ہی نہیں سکتا ہے۔
سورہ بقرہ کی آیت نمبر229الطلاق مرتان فامساک بمعروف اوتسریح باحسان ، ولایحل لکم ان تأخذوا ممااتیتموھن شئی الا ان یخافا الا یقیما حدود اللہ فان خفتم الا یقیما حدوداللہ شئی فلا جناح علیھما فیمافتدت بہ تلک حدود اللہ فل تعتدوھا ومن یتعد حدوداللہ فأولئک ھم الظٰلمون
(طلاق دو مرتبہ ہے ، پھر معروف طریقہ سے روکنا یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے)۔ اس آیت کا یہ حصہ اس سے قبل آیت نمبر228کی ہی تفسیر ہے، جس میں عدت کے تین مرحلوں کی وضاحت ہے۔ اللہ نے اس میں فرمایا کہ حمل کی صورت نہ ہو تو عدت کے تین مراحل ہیں، حمل کی صورت میں عدت حمل ہوتی ہے، حمل کا تین مراحل سے تعلق نہیں ۔ عدت کا تعلق حمل سے ہو یا طہر وحیض کے تین مراحل سے بہرحال اللہ تعالیٰ نے اس میں رجوع کو صلح کی شرط پر شوہر ہی کا حق قرار دیا ہے۔ بخاری کی احادیث میں رسول اللہ ﷺ کی طرف سے وضاحت ہے کہ تین مرتبہ طلاق کا تعلق طہرو حیض کی عدت میں طلاق کے عمل سے ہی ہے۔طلاق کے الفاظ اور اس میں اختلاف کا گورکھ دھندہ قرآن وسنت نہیں بعد کے ادوار کی پیداوار ہے جس میں اختلافات کے انبار ہیں۔
اگر شوہر نے عدت کے تین مراحل میں رجوع کا فیصلہ کرلیا تو مسئلہ نہیں اوراگر طلاق کا فیصلہ کیا تو پھر اس صورت میں آیت کے دوسرے حصہ میں اس کی مکمل تفصیل ہے جس کا خلع سے کوئی تعلق نہیں ۔ اللہ نے فرمایا کہ ’’ اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے، اس میں سے کچھ بھی واپس لو مگر یہ دونوں کو خوف ہو کہ اگر وہ چیز واپس نہ کی گئی تو اللہ کی حدود پر قائم نہ رہیں گے اوراگر تمہیں( اے فیصلہ کرنے والو!) یہ خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہیں گے تو پھر دونوں پر کوئی حرج نہیں جو عورت کی طرف سے وہ چیز فدیہ کی جائے، یہ اللہ کی حدود ہیں،ان سے تجاوز مت کرو، جو اس سے تجاوز کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں‘‘۔ آیت کا یہ دوسرا حصہ مقدمہ ہے اس طلاق کی صورت کیلئے جس کا ذکر اور وضاحت آیت نمبر230میں فوراً ہے کہ فان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ ’’ اگر پھر اس کو طلاق دی تو اس کیلئے اس کے بعد حلال نہیں ، یہاں تک کہ کسی دوسرے سے نکاح کرلے۔۔۔‘‘۔ شوہرایسا ظالم ہوتا ہے کہ جب ایسی طلاق ہوجائے جس میں آئندہ ملنے کی کوئی راہ نہ چھوڑی جائے تب شوہر عورت کو مرضی سے دوسرے شوہر کا حق نہیں دیتا، سعد بن عبادہؓ تو انصار کے سردار تھے،جو طلاق کے بعد بھی بیوی کو شادی نہ ہونے دیتے تھے، برطانیہ کے شہزادہ چارلس نے لیڈی ڈیانا کو قتل کروایا، جبکہ ریحام خان نے عمران خان سے طلاق کے بعد برملا کہا کہ’’ پٹھان کو جان پر کھیلناآتاہے ،پاکستان آئی ہوں‘‘۔ عمران خان نیازی ضرورہیں مگر روایتی غیرتمند نہیں، اگر ریحام کسی مخالف سے شادی کرنا چاہتی اوربنی گالہ کے محل میں عمران خان نے ایک کمرہ دیا ہوتا اور اگر عمران خان کہتا کہ میں کنگلا ہوں تو طلاق کے حتمی فیصلہ پر وہ کمرہ ریحام کی طرف سے فدیہ کرنے پر دونوں اور سب کا اتفاق ضرور ہوجاتااسلئے کہ آئندہ ملنے جلنے اور ساتھ رہنے پر دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہنے سے ڈرتے۔
3:اللہ نے سورہ النساء میں خلع کا ذکر فرمایا : لاترثوا النساء کرھا فلا تعضلوھن۔۔۔ ’’اور عورتوں کے زبردستی سے مالک مت بن بیٹھو اوران کو مت روکو(جانے سے) تاکہ بعض وہ چیزیں ان سے واپس لے لو جو تم نے ان کودی ہیں مگر یہ وہ کھلی ہوئی فحاشی کی مرتکب ہوں۔۔۔‘‘۔ اس آیت میں علماء ومفتیان جس فریب ودجل سے کام لیا ہے، اللہ کی پناہ۔النساء سے مرادیہاں اپنی بیویاں ہی ہیں، اللہ تعالیٰ نے بار بار النساء سے آیات میں بیویوں کا ذکر کیاہے، دوسری مراد ہوتی تو پھر کیونکر کہاجاتا کہ اسلئے ان کو مت روکے رکھو کہ جوتم نے ان کو دیا ہے، اس میں سے بعض واپس لو مگر اس صورت میں واپس لے سکتے ہو جب کھلی ہوئی فحاشی میں مبتلا ہوں۔خلع کے مسائل اور احادیث کو اس آیت کے ضمن میں لکھا جاتا تو قرآنی وضاحت سے معاشرتی مسئلے حل ہوتے۔
پاکستان واحد وہ نظریاتی ، اسلامی اور جمہوری ملک ہے جہاں مسلک، قرآن کی درست تعبیر اور فکر کی مکمل آزادی ہے لیکن افسوس کہ اسکا فائدہ نہیں اٹھایاگیابلکہ عوام کو دام فریب میں الجھایاگیا اور اسلام کے نام پر ریاست اور معاشرے کو دھوکہ دیاگیا، اس میں سب سے زیادہ قصور ہٹ دھرم علماء ومفتیان کا ہے۔جنرل راحیل شریف نے عوامی سطح پر اگر علماء حق کو ٹی وی اسکرین پر موقع دیا تو عوام کا ٹھاٹھے مارتا ہوا سمندر تمام سیاسی قیادتوں اور مذہبی بہروپیوں کو بہا لے جائیگا۔ پاکستان اور اُمت کی قسمت جاگے گی، سیاسی اشرافیہ سے نجات کے دن بہت ہی قریب لگتے ہیں۔ اجمل ملک

پاکستان لیلۃ القدر میں اپنے حریف بھارت کے ساتھ بنا تھا ، ڈاکٹر سید وقار حیدر شاہ سیالکوٹی

مولانا عبید اللہ سندھیؒ نے ’’المقام المحمود‘‘سورۃ القدر کی تفسیر میں سندھ پنجاب فرنٹیئر بلوچستان ، کشمیر افغانستان میں بسنے والوں کو امامت کا حقدار قرار دیا

پاکستان اور افغانستان میں پہلے ایک سپر طاقت روس اور پھر دوسری سپر طاقت امریکہ کو نیٹو سمیت بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ، کچھ کھویا ہے توپایا بھی

علاقہ غیرمیں 40FCR کا قانون تھا ، چھ سات ہزار بارود کی فیکٹریاں تباہ کی گئیں تو ضرب عضب میں وزیرستان کو تاریخ کی بڑی سزا کا سامنا کرنا پڑا

پوری دنیا کو خود کش بمباروں نے خوف و ہراس میں مبتلا کیا ہے جسکے حل کیلئے پاکستان کی باشعور قیادت ہی زبردست ذہنی اور عملی کردار ادا کرسکتی ہے

دوسروں سے پہلے اپنی اصلاح کرنی ہوگی اور جب پاکستان امن و سلامتی ، دیانت و امانت اور عدل و انصاف کا گہوارہ بنے گا تو دنیا کی امامت کریگا

قرآن کریم اور احادیث صحیحہ کے ذریعہ سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا مرکزی کردار ادا کیا جائیگا تو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے مسلمان اٹھ کھڑے ہونگے

پاکستان اسلام کی بنیاد پر بنا ، علماء نے فرقہ بندی سے اسلام کو اجنبیت کی طرف دھکیل کر منفی کردار ادا کیا ، اب مثبت رویہ اپنانا ہوگا،ڈاکٹر سیدوقارشاہ

 

مولانا عبید اللہ سندھیؒ سورۃ القدر مکیہ کے ضمن میں لکھتے ہیں:
*قرآن مجید کی پہلی سورت ’’اقراء باسم ربک الذی خلق‘‘ لیلۃ القدر میں نازل ہوئی ۔ لیلۃ القدر کا اگر آج کی زبان میں ترجمہ کیا جائے تو کہا جائیگا کہ بجٹ کی میٹنگ میں خطیرۃ القدس میں ایک کام پیش ہوتا ہے، پھر اس پر فیصلہ ہوتا ہے تو یہ کام جو خطیرۃ القدس میں پیش ہوا ایک ہزار ماہ کیلئے ہوا ۔ غرض اس مجلس میں (خطیرۃ القدس) قرآن کے نازل ہونے کا فیصلہ ہوا تو قرآن مجید کا اثر شخصی (لفظی یعنی صورت کا اثر) ایک ہزار ماہ تک دنیا میں قطعی طور پر کامل ہوکر رہیگا(یعنی یوں تو یہ کتاب ہمیشہ کیلئے دنیا میں رہیگی مگر صحیح لفظوں میں اس پر عمل ایک ہزار ماہ تک کامل ہوکر رہیگا)۔ ہماری سمجھ میں ایک سال دس ماہ کا ہوتا ہے ۔ رمضان اور ذی الحج کے دو ماہ شمار میں نہیں آتے، انہیں چھٹی کے دو ماہ سمجھنے چاہئیں اور سال میں عملی مہینے دس ماہ سمجھنے چاہئیں تو اس طرح ایک ہزار مہینے ایک سو سال کے برابرہوجائیں گے۔ جیسا کہ سورۃ ق و القرآن المجید میں پہلے بیان کیا جاچکا ہے، اور اسی کی مساوی یوں سمجھئے کہ ۸۶ ؁ھ میں یہ سو برس پورے ہوتے ہیں۔ اسی سال ولید نے عمر بن عبد العزیزؒ کو مدینہ منورہ کا حاکم مقرر کیا اور انہوں نے مدینہ کے علماء کو جمع کرکے سنت (حدیث) لکھنے کی بنیاد ڈالی۔ اس وقت تک مسلمانوں کے پاس قرآن مجید کے سوا کوئی اور قانون نہیں تھا۔ اب یہ قانون اقصائے چین سے لیکر مغرب تک پہنچ گیا متمدن اقوام عالم میں اس قانون کو اپنا دستور العمل بنالیا اور اپنا سمجھا۔(مسلم امہ نے قرآن کی شکل مسخ کی ہے)
شروع میں سنت کو قرآن کا ایک شارح (Bye.Laws) بنایا گیا ،اساسی قانون قرآن اور سنت اسکی شارح، مگر آگے چل کر قرآن کا صرف اتنا حصہ مسلمانوں میں باقی رہا جواس سنت کے مطابق تھا اور بہت سا حصہ چھوٹ گیا۔ اس سنت میں عربی قومیت کے خواص خاص طور پر نمایاں ہیں۔ دوسری صدی میں قرآن عربی قومیت کا ایک قسم کا قانون تھا اور سنت اسکی پوری شارح۔ قرآن مجید کی بین الاقوامی روح اس دوسری صدی میں اتنی نمایاں نہیں رہی جتنی پہلی صدی میں تھی۔ تیسری صدی میں جب بنو ہاشم کی سرپرستی میں عجمی قومیں آگے بڑھیں تو قرآن مجید کی انٹرنیشنل روح زیادہ نمایاں ہونے لگی۔(آج سادہ ترجمہ سمجھ میں آئے تو بات بنے)
* آیت انا انزالناہ فی لیلۃ القدر ہم نے قرآن کو لیلۃ القدر میں نازل کیا یعنی جس رات انسانیت کی فطرت کا بجٹ تیار ہوا ،اس رات یہ پروگرام منظور ہوا ہے۔ وماادراک ما لیلۃ القدر القدر کی تفصیل ہے۔ لیلۃ القدر خیر من الف شہر لیلۃ القدر ایک ہزار مہینہ سے بہتر ہے ۔ انسان کسی کام کے کرنے کا مصمم ارادہ کرلے تو وہ کام نصف سے زیادہ ہوجاتا ہے۔ اب صحیح فیصلہ کے بعد اس کا صحیح دور شروع ہوگا تو آدھے سے بھی کم کام رہ جائیگا۔ ہمارا خیال ہے کہ اس لیلۃ القدر کی رات میں سو سال کے کام کا فیصلہ تھا تو فیصلہ کی رات اس زمانہ سے بہتر ہونی چاہیے۔ یعنی پروگرام بنانے والی رات اس زمانہ سے تو اچھی ہے جس زمانہ میں یہ کام عملی طور پر شروع کردیا جائے۔ (کیونکہ مصمم ارادہ کرنے سے آدھے سے زیادہ کام ہوجاتا ہے) غرض کہ جس وقت یہ فیصلہ رسول کریم ﷺ پر نازل ہوا تو آپ نے اپنی فطرت کے مطابق عمل کیا، آپﷺ کی فطرت تھی کہ جب علم ہوجائے کہ اللہ کی طرف سے فلاں فیصلہ ہے تو آپ اپنی پوری قوت اس کام کے سر انجام دینے میں صرف کردیتے تھے اور پوری طرح اللہ تعالیٰ کے حکم کے آگے جھک جاتے تھے۔ غرض یہ رات زمین پر بھی ہزار مہینے سے بہتر ہے کیونکہ رسول ﷺ کا فیصلہ بھی اسی طرح مکمل ہے جس طرح ملاء اعلیٰ میں مکمل فیصلہ ہوا۔
*آیت تنزل الملٰئکۃ و الروح فیھا باذن ربھم من کل امرٍ مصمم فیصلہ کا یہ اثر ہوتا ہے کہ ہرقسم کا کام کرنے والے فرشتے اور روح اس ہزار مہینے کا کام کرنے کیلئے اسی وقت نازل ہوجاتے ہیں اور وہ اللہ کے حکم سے اس کام کی بنیاد ڈالنی شروع کردیتے ہیں اور تمام شعبوں میں کام کرنے لگ جاتے ہیں اور اس کام کے مبادی شروط اور علل کے مہیا کرنے میں وہ فوراً اپنا کام شرو ع کردیتے ہیں، اور وہ کام ایک ہزار ماہ میں پوری طرح مکمل ہوجاتا ہے، جیسا کہ فیصلہ ہوا تھا۔ سلام ھی حتی مطلع الفجر اس رات جس کام کی بنیاد رکھی جاتی ہے اس میں کامیابی ہی کامیابی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کام میں ناکام بنانے والے کوئی طاقت آہی نہیں سکتی۔ اگر ادنیٰ آدمی کو بھی اس کام پر مأمورکیا جائے تو بھی صحیح سلامت کام ہوجائیگا اسلئے کہ لوگوں (انسانیت) میں روحانیت اور ملکیت کی تشنگی اس رات نازل کی گئی ۔ اب آنحضرت ﷺ کو اس کام کے چلانے میں تکلیف نہ ہوگی۔ سورۃ العلق میں آیت ۱۹ کل لا تطع میں جو ذکر ہے کہ تم مخالفوں سے صلح نہ کرو ، اسکے متعلق اس سورۃ میں یقین دلایا گیا ہے کہ اس سو برس کے عرصہ میں کوئی چیز تم کو ناکام نہ بناسکے گی۔ اس واسطے تم کو ڈٹ کر اپنا کام کرنا چاہیے۔ اگر کوئی مخالفت کریگا تو اس کا ہم سر توڑ دیں گے۔ مطلع الفجر سے اگر قیامت مراد لی جائے تو معنیٰ ہوں گے کہ تشنگی ، ملکیت اور روحانیت انسانوں میں نازل ہوتی رہیں گی۔ ملکیت کا تقاضہ ہے نظام احسن ، طہارت اور عدالت ۔ روحانیت کا تقاضہ ہے تعلق باللہ اور اس کے نور میں فنائیت۔ اگر روحانیت فقط ہے تو رہبانیت ہے۔
* دنیا کا انٹرنیشنل مرکز سو برس میں مضبوط ہو تو اسکے بعد کیا پروگرام دیا جائے اسکے متعلق ذکرکرنے کی ضرورت نہیں ،دوسری نسل والے خود سوچیں گے اور اس پر وقت کے اقتضاء کیمطابق کام کرینگے، اس واسطے اسکے متعلق ذکر کرنے کی حاجت نہیں ۔ بعض لوگ عمر بن عبد العزیزؒ کو مجدد مانتے ہیں اور وہ 100 ؁ھ میں خلیفہ اسلام ہوئے تو اس زمانہ کو ان کی تجدید کا زمانہ کہتے ہیں کہ دوسری صدی کے سر پر ایک مجدد آگیا۔ مگر ہم اس کی تجدید 87 ؁ھ سے گنتے ہیں جو نبوت کے 100 برس بعد ہوئی اور 14 برس مسلسل رہی۔ یہاں تک کہ خلافت پر پہنچے، خلافت کا کام صرف دو سال کے قریب انہوں نے سر انجام دیا، مگر ان کا کام درحقیقت نبوت کی صدی سے شروع ہوتا ہے ۔ انہوں نے انٹرنیشنل روح قائم کرنے کیلئے آیت ان اللہ یامر بالعد ل و الاحسان الاٰیۃ کا خطبہ جمعہ میں داخل کردیا جس کا مسلمانوں کے خطبہ میں آج تک اعلان ہوتا ہے۔ عمر بن عبد العزیز ؒ کی تجدید کا جو دور ہے اسکے متعلق ہمیں خوشی ہے کہ اسی زمانہ میں سندھ فتح ہوا۔ آپ کی خلافت کے زمانہ میں جو دو سال کے قریب رہی سندھ کا اکثر حصہ اسلام میں داخل ہوگیا۔ ہندوستان میں اسلام کا یہ اول بیج ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ پنجاب ، کشمیر ، سندھ ، فرنٹیئر اور افغانستان وغیرہ میں جس قدر قومیں بستی ہیں یہ ہندوستان کے مسلمانوں کی مرکزی جماعتیں ہیں اور یہی امامت کی حقدار ہیں۔ دریائے سیحون درحقیقت یہی دریائے سندھ ہے جس کا حدیث میں ذکر آتا ہے ، ہندی میں اس کا نام سے سین ۔اور رسول کریم ﷺ نے اس کانام سیحون ذکر کیا ہے یہ زیادہ اختلاف نہیں ہے ملکی زبانوں میں ایسے اختلافات عموماً ہوتے ہیں۔ پنجاب کے پانچوں دریا اور کابل کا دریا وغیرہ دریائے سندھ کا احاطہ ہیں۔ ہندوستان ہم تمام ہندوؤں کے لئے چھوڑ سکتے ہیں مگر اس علاقہ یعنی پنجاب ، کشمیر ، سندھ ، فرنٹیئر ، بلوچستان اور افغانستان سے ہم کبھی دستبردار نہیں ہوسکتے خواہ وہ تمام دنیا کو ہمارے مقابلے پر لے آئیں۔ غرض مسلمانوں کا مرکزی حصہ یہی ہے ۔ اس طرح عربی قوموں کا مرکز نیل اور فرات کا درمیانی حصہ ہے۔ اور عجمی قوموں کا مرکزی حصہ جیحون اور سندھ کا درمیانی حصہ ہے۔ امام ابو حنیفہؒ اس عجمی سرزمین سے تعلق رکھنے والے تھے ۔
*عمر بن عبد العزیزؒ نے قرآن کے ماتحت عربی ذہنیت کو مہذب کردیا ہمارا خیال ہے کہ عجمی ذہنیت کو امام ابو حنیفہؒ نے زندہ اور مہذب کردیا۔ آپ بہت بڑے امام ہیں۔ آپ عجمی قوم کو قرآن مجید اور فقہ کے مطابق اور حدیث پر عمل کرانے کیلئے عجمی ذہنیت مدنظر رکھتے ہیں۔ مثلاً ایک عورت ہے اس کو حمل ہے ۔ اس کی شادی نہیں ہوئی اور وہ زنا کی بھی قائل نہیں اور اسکے خلاف شہادت میسر نہیں، حضرت عمرؓ اسکو رجم کی سزا دیتے مگر امام ابو حنیفہؒ اس کو رد کرتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ جب وہ زناکی مرتکب ہونے کی قائل نہیں اور اسکے خلاف ثبوت بھی نہیں ملتا تو اس حالت میں اسے کیسے رجم کیا جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر حضرت مریم علیہا السلام کا واقعہ لیجئے کہ آپکو حمل تھا اور آپ زنا کی بھی مرتکب نہیں ہوئیں، آپکی دینداری کی دنیاگواہ ہے۔ غرض اسی طرح اس عورت کا بھی معاملہ ہے، شک کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو دینا چاہیے۔امام ابوحنیفہؒ نے نہ امامت کا دعویٰ کیا، نہ حکومت سے منصب لیا اور نہ کسی سے کوئی پیسہ لیا بلکہ اپنا تمام علم مسلمانوں کو دیدیا۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی آیات میں سے ایک آیت تھی کہ اس نے عجمی قوموں کی ہدایت کیلئے ابوحنیفہؒ جیسے برگزیدہ انسان پیدا کیا، جس نے قرآن کو سمجھنے کیلئے عجمی لوگوں کی ذہنیت بدل دی، ہم امام ابوحنیفہؒ کے فقہ کی تقلید اسلئے نہیں کرتے کہ ہمارے آباواجداد اسکے مقلد تھے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان ،ایران، افغانستان اور ترکستان میں ابوحنیفہ کے فقہ کے سوا کوئی حکومت قائم نہیں ہوسکتی اس میں اگر اختلاف ہے تو صرف ایران کے شیعوں کا۔ مگر ہم امام ابوحنیفہؒ کے فقہ کو ائمہ اہلبیت کیساتھ ملاسکتے ہیں۔شیعوں کے دو فرقے ہیں، ایک زیدی اور دوسرا امامیہ، زیدی فرقہ کے امام حضرت زیدؒ ہیں اور امامیہ فرقہ کے امام حضرت امام جعفر صادق ہیں۔ اور امام ابوحنیفہ ؒ ان دونوں بزرگوں کے براہِ راست شاگرد ہیں، اسکے علاوہ امام ابوحنیفہؒ امام باقرؒ کے بھی شاگرد ہیں۔
*ان بزرگوں کے علاوہ دو حسنی امام ہیں (ا) : محمد بن عبداللہ بن حسن(۲):ابراہیم بن عبداللہ بن حسن بن حسن بن علیؓ۔ انہیں حسن مثنیٰ کہتے ہیں۔ یہ دونوں بزرگ خلیفہ منصورسے لڑتے ہیں اور امام ابوحنیفہؒ ان دونوں کے شاگرد اور ان دونوں بزرگوں کی تحریکِ خلافت کے مؤید ومعاون ہیں اور ان کو مدددیتے رہے۔ان دونوں اماموں کے والدعبداللہ بن حسن بھی امام ابوحنیفہؒ کے استاذ تھے۔ غرض حضرت علیؓ کی اولاد میں جتنے امام گزرے ہیں امام ابوحنیفہؒ کا تعلق ان تمام اماموں سے ثابت ہے۔ اسی طرح عبداللہ بن مسعودؓ کی اولاد میں جتنے امام پیدا ہوئے، امام ابوحنیفہؒ کا ان تمام کیساتھ تعلق تھا۔اور یہ تمام ائمہ اہلبیت ظالم مسلمان بادشاہ سے لڑنا فرض سمجھتے تھے۔ اسی واسطے آپ خلیفہ منصور کے خلاف سید حسن مثنیٰ کی تحریک کے مؤید تھے۔ امام مالکؒ بھی مدینہ میں امام ابو حنیفہؒ کی مانند اس تحریک خلافت کے مؤید تھے۔ منصور کے نائب مدینہ نے امام مالکؒ کو تو خود سزا دی اور خلیفہ منصور نے امام ابو حنیفہؒ کو جیل میں ڈال کر کوڑے کی سزا دلائی۔ حتیٰ کہ آپ جیل ہی میں فوت ہوگئے۔تفسیر المقام محمود ( آخری پارہ)تفسیر سورۃ القدر۔ مولانا سندھیؒ
مولانا عبید اللہ سندھی ؒ پاکستان بننے سے پہلے فوت ہوئے، وہ کانگریس کے رکن بھی تھے۔ اسلام کی نشاۃ اول عرب سے ہوئی تھی،اس کی نشاۃ ثانیہ کی پیشگوئی عجم سے ہے، جس کا ذکر قرآن کے سورۂ محمد ، سورۂ واقعہ اور سورۂ جمعہ میں بھی ہے۔ جب ایرانی انقلاب آیا تو قرآن کے الفاظ ثم لایکون امثالکم ’’ پھر وہ تمہارے جیسے نہ ہونگے‘‘۔ کی تفسیر میں مغالطہ کھاکر خمینی نے کہا کہ ’’ میرے ساتھی اصحاب محمدؐ سے افضل ہیں‘‘ حالانکہ آیت سے مراد نشاۃ اول کے مقابلہ میں نشاۃ ثانیہ کے افراد نہ تھے ۔ سورۂ جمعہ میں وضاحت ہے کہ نبیﷺ کی بعثت اولین کے مسلمانوں کیلئے بھی ہے اور آخرین کیلئے بھی۔ آخرین کا اعزاز ہوگا کہ پہلوں سے مل جائیں۔ جب پہلے والوں سے بدظنی ہوگی تو انکے نقشِ قدم پرچلنے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے۔ حالانکہ اللہ کی طرف سے کھل کر وضاحت ہے کہ السابقون اولون من المھاجرین والانصار والذین اتبعوھم باحسان سبقت لے جانے والوں میں سے پہلے مہاجرینؓ و انصارؓ میں سے اور جن لوگوں نے نیکی کیساتھ انکی اتباع کی۔ سورۂ واقعہ میں سبقت لے جانے والوں میں سے پہلوں میں بڑی جماعت اور آخر میں تھوڑوں کا ذکر ہے۔ ثلۃ من الاولین وقلیل من اٰخرین یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک عظیم قائد ہوں ۔ آپﷺ کی جماعت میں سے کم لوگ سبقت لے جانے والے ہوں اور آخر میں آپ ﷺ کی طرف منسوب کسی قائد کی جماعت میں زیادہ اکثریت والی بڑی جماعت نے سبقت حاصل کی ہو؟۔پاکستان کا قومی ترانہ بھی حقائق کا ترجمان ہے۔
ایران کے انقلاب نے شیعہ سنی کے درمیان تفریق وانتشار کی فضاء کو مزید بڑھا دیا، حالانکہ بانی انقلاب کا یہ نعرہ تھا کہ شیعہ سنی کو لڑانے والے طاغوت کے ایجنٹ ہیں۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اہل تشیع کے بڑے عالم دین علامہ طالب جوہری نے اپنی کتاب ’’ظہور مہدی‘‘ میں اپنے ائمہ اہلبیت کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ’’ ہمارے قیام قائم سے پہلے اگرہم میں سے کسی نے قیام کیا تو وہ طاغوت کا ایجنٹ اور دوسروں کے ہاتھوں کاپلا ہوا پرندہ ہوگا‘‘۔ اہل تشیع کے ائمہ اہلبیت کا تعلق حسینی سادات سے ہے، انکے نزدیک مہدی غائب سے قبل حسینی خاندان کیلئے خروج اور قیام کی کوشش یقیناًقابل غور ہے۔ حضرت حسنؓ کی اولاد میں پہلے جس نے خروج کی کوشش کی ہے، ان پر اس پیشگوئی کا اطلاق نہیں ہوتا۔ علامہ طالب جوہری نے مہدی غائب سے پہلے کئی قیام قائم کا ذکر بھی کیا ہے۔جس میں ایک مشرق سے دجال اور اسکے مقابلہ میں سید حسنی کا ذکر ہے جو علامہ طالب جوہری کی وضاحت کے مطابق ’’سید گیلانی بھی مراد ہوسکتے ہیں‘‘۔ یہ تفصیل ان سے معلوم کی جاسکتی ہے کہ طاغوت کے ایجنٹ اور سید حسنی سے کون کیسے مراد ہوسکتے ہیں؟۔
پاکستان میں جو سیاسی، مذہبی اور کارکردگی کی آزادی ہے کسی دوسرے مسلم ملک میں اس کا تصور بھی نہیں ہوسکتا۔ رسول اللہ ﷺ اور اسلام کو تقویت بخشنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر فاروق اعظمؓ کی شخصیت عطاء کردی تھی، جس نے کھلم کھلا آذان دی، کھل کر مکہ سے مدینہ ہجرت کی، بدر کے قیدیوں پر فدیہ لینے،صلح حدیبیہ، حدیث قرطاس میں اختلاف کا کردار ادا کیا۔ رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے مردوں میں کسی کا والد نہیں بنایا، ایک بچے کا بچپن میں وصال ہوا، حضرت علیؓ چچازاد اور داماد تھے لیکن خلافت کی مسند پر حضرت ابوبکرؓ بیٹھ گئے۔ انصار کے سردار نے نبیﷺ اور مسلمانوں کو مدینہ میں پناہ دی لیکن وہ خود کو منصب کا حقدار سمجھنے کے باوجود محروم رہے۔
حضرت عمر فاروقؓ ایک طاقتور انسان تھے جس میں بے پناہ صلاحیتیں تھیں، حضرت ابوبکرؓ خلوص کا مرقع تھے لیکن اتنی صلاحیتوں کے مالک نہ تھے۔ جب قیامت میں لوگوں کی طرف سے اللہ سے سوال کیا جائیگا کہ صلاحیت دینا تمہارا کام تھا، ہم پیچھے رہ گئے تو ہمارا کوئی قصور نہیں۔ تو ابوبکرؓ و عمرؓ سامنے ہونگے۔ خلوص والا ابوبکرؓ حضرت عمرؓ سے آگے ہوگا، حضرت ابوبکرؓ پر جتنا اعتماد خلوص کے مرقع ہونے کی وجہ سے تھاحضرت عمرؓ کی صلاحیت پر اتنا صحابہؓ کو نہیں تھا۔ حضرت عثمانؓ نے نبیﷺ پر اپنا بہت مال خرچ کیا لیکن اللہ نے عمرؓ کی صلاحیتوں کو مالی احسانات پر ترجیح دی، حضرت علیؓ کی رشتہ داری بہت قریب تھی لیکن اللہ نے علیؓ کو بالکل آخر میں اپنی صلاحیتیں منوانے کا موقع دیا۔ وجہ اس کی ظاہر ہے کہ خلافت راشدہؓ کے زمانہ میں آئندہ آنے والے مسلمانوں کیلئے مشعل راہ بننا تھا، آج خانقاہوں و مدارس پرناخلف صاحبزادوں اور دامادوں کا قبضہ اسلام کے نام پر کیا جاتا ہے جو خلافت راشدہ کے منافی اور استعداد نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کو اندھیر نگری کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہے۔ جب ناخلف صاحبزادگان اور داماد جانشینی کے منصب سے دستبردار ہونگے تو خلافت علی منہاج النبوۃ کے دور کا آغاز ہوجائیگا،اصل شیعہ تو یہی لوگ ہیں۔
بانئ پاکستان کی ایک بہن اور ایک بیٹی تھی، پاکستان میں اللہ نے موروثی نظام قائم نہیں کرنا تھا، اسلئے بیٹی اور نواسے کے نام سے پارٹی بازی کی گنجائش یہاں موجود نہ تھی۔ مدارس اور خانقاہوں والے اہل تشیع سے بدتر اسلئے ہیں کہ وہ تو حسینؓ کے مقابلہ پر یزید کو برا بھلا کہتے ہیں، یہ تو خود یزید بن کر وقف شدہ مدارس ، مساجد اور خانقاہوں پر قبضہ کرکے بیٹھ گئے ہیں۔ مسلمانوں نے اپنی قیمتی سرمایہ سے دینی اداروں کو چندے اسلئے نہیں دئیے ہیں کہ کوئی ذاتی اور موروثی سمجھ کر اپنی دنیا سنوارلے اور آخرت بگاڑ دے۔مفتی سعید خان نے بھی اس پر بڑا اچھا لکھا ہے۔
پاکستان نے مشکل ترین دور میں جس طرح اپنی حکمت عملی سے دنیا کی سپر طاقتوں کو شکست دی ۔ یہ کسی فرد ، جماعت ، ادارے اور مذہبی فتوؤں کا کریڈٹ نہیں بلکہ محض اللہ کا فضل ہے۔ دنیا میں پاکستان کے خطے کی حیثیت ہی کیا ہے؟ ۔ ایسے بڑے مقاصد کیلئے کام کرنا چھوٹی بات نہیں۔ رو س کیخلاف جہاد میں عتیق گیلانی نے شرکت کی اور بتایا ہے کہ ’’روسی ٹینکوں کی گولہ باری ایسی لگتی تھی جیسے یہ زندگی اور موت کا کھیل نہیں ہو بلکہ کسی فلم کیلئے شوٹنگ ہورہی ہو۔ حرکت الجہاد الاسلامی کے خالد زبیر شہید وغیرہ اس وقت بھی روس سے زیادہ امریکہ سے نفرت کا اظہار کررہے تھے۔‘‘ جس طرح مجاہدین میں اللہ کیلئے کام کرنے والے موجود تھے اسی طرح پاک فوج میں بھی اسلام کی سربلندی کا جذبہ تھا۔ کسی کے جذباتی عمل سے اختلاف کرنا ہی رحمت ہے لیکن اختلاف کی وجہ سے کسی کے خلوص پر دھبہ لگانا اور بدظنی کا اظہار کرنا کوئی درست رویہ نہیں ہے۔
آج ہماری ریاست نازک موڑ پر کھڑی ہے اس پر صرف تنقید نہیں بلکہ حوصلہ دلانے کی ضرورت ہے،قوم کو ریاست کیساتھ کھڑا ہونے کی ضرورت ہے،اگر یہ اغیار کی سازش سے بکھیر دی گئی تو پھرہماری عزتیں،اقدار، آزادی اور سب کچھ پامال ہوجائے گا۔۔۔۔
تاریخ میں قوموں نے وہ دور بھی دیکھے ہیں لمحوں نے خطاء کی ہے صدیوں نے سزا پائی
پختون، بلوچ، سندھی اور مہاجر کے دلوں میں اس نظام سے گلہ شکوہ اور بغاوت کے رحجانات ، جذبات اورولولے موجود ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ہو، جمہوری حکومت ہو یا اپوزیشن پنجاب ہی پنجاب سے کھیل رہا ہے۔ عوام کی خواہشات کے برعکس جن جن کو اقتدار ، میڈیا اور اپوزیشن میں لایا جاتا ہے یہ سب مخصوص ہاتھوں کا کھیل ہے، حکومت کبھی کمزوراور کبھی توانا بنتی ہے تو اس میں عوام کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ ماڈل ٹاؤن کے واقعہ پر ڈاکٹر طاہرالقادری شہداء کے جنازوں پر بھی نہیں آئے، گرم خون ٹھنڈا ہوجائے تو سیدالشہداء حضرت امیرحمزہؓ کا کلیجہ نکالنے اور چبانے والوں سے بھی انتقام کا جذبہ وہ نہیں رہتا،جسکے بدلہ میں سرکار دوجہاں ﷺ نے 70افراد کیساتھ ایسا سلوک کرنے کی قسم کھائی تھی۔ یہ سیاست کا کرشمہ ہے اور اسکے پیچھے کھیل اور کھلواڑ کرنے والوں کی رسی ہل رہی ہے کہ پہلی برسی پر سال گرے منائے گئے اور دوسرے سال حالات کا فائدہ اٹھانا ضروری سمجھا گیا یا کسی نے ڈور ہلا کر حکومت گرانے کا تماشہ لگانے کی ڈیوٹی لگادی۔ پاکستان میں اس قسم کی سیاست سے ملک کو نقصان ہی ہوسکتا ہے۔
چراغ تلے اندھیرا، پنجاب پورے ملک کو شعور، سیاست، حکمرانی، انسانی حقوق اور انواع واقسام کی حب الوطنی، اسلام دوستی اور اخلاقیات کے درس وتدریس کا مرکزومحور ، منبع ومینار سمجھا جاتا ہے، اس میں کوئی شک وشبہ بھی نہیں کہ پنجاب کے لوگ وسیع القلب، خلوص کا مرقع، وفا شعار، محنت کش، تہذیب یافتہ اور بہت سے ان صفات سے متصف ، مزین اور آراستہ ہوتے ہیں جن کی مجموعی حیثیت تک دوسری کوئی قوم نہیں پہنچ سکتی ہے مگر ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پنجاب میں بدمعاشی، بداخلاقی، بد تہذیبی ، زبردستی سے عزتیں لوٹنے کے واقعات ، دھوکہ بازی، فراڈ اور بہت ساری وہ خرابیاں ہیں جن کی ہوا سے بھی اللہ تعالیٰ دوسرے صوبوں کو اپنی حفظ وامان میں رکھے۔ وجہ اس کی یہی ہے کہ نظام کی تبدیلی کیلئے جہاں حبیب جالب، مولانا سیدعطاء اللہ شاہ بخاری، شورش کاشمیری، علامہ عنایت اللہ مشرقی،شاہ احمدنورانی اور انکے والدشاہ عبدالعلیم صدیقی ،غلام احمد پرویز، مولانا سید مودودی،مولانا احمدعلی لاہوری، مفتی محمود،اصغر خان،نواب زادہ نصر اللہ خان، ڈاکٹر مبشرحسن،مہدی حسن،ڈاکٹر اسرار،اکرم اعوان، صوفی برکت علی لدھیانوی وغیرہ کی ایک فہرست ہونی چاہیے تھی وہاں نوازشریف، شہبازشریف،چوہدری شجاعت، شیخ رشید، ڈاکڑطاہرالقادری، عمران خان کی ایک لمبی لائن کی ایک فہرست اپنے اکابرین جنرل ضیاء الحق، اخترعبدالرحمن،جنرل پاشا سے ہوتی ہوئی وہاں پہنچتی ہے جن کی وجہ سے پاکستان کا بیڑہ غرق ہوا ہے۔میڈیا پر اچھے لوگوں کو سامنے بھی لانے نہیں دیا جاتا تو عوام بک بک کرنے والوں کے واعظ، تقریراور ٹاک شوز سے ڈھیٹ ہوگی یا سدھرے گی؟۔
شہبازشریف جس لہجہ میں زرداری کیخلاف بات کرتا تھا ، اسی لہجے میں پانالیکس پر تقریریں کرے تو قوم کو پتہ چل جائے کہ واقعی جالب کی ناراض روح شوبازمیں جاگ گئی ہے، یہ زیادہ مکروہ اور گھناؤنی بات ہے کہ دوسروں کو چوکوں پر لٹکانے والوں کا اپنا دامن اس قدر داغدار ہو اور اپنے جرائم کو چھپانے کیلئے دوسروں کو اوقات میں رہنے کی بات کیجائے، سیدعتیق گیلانی میڈیا پر آجائے تو انقلاب آئے،قوموں کی اصلاح کیلئے بنیادی نظریے اور قربانی کی ضرورت ہوتی ہے اس میں کٹھ پتلی لوگوں کو قائد بناکر کھڑا کرنے سے بات نہیں بنتی۔ ڈاکٹرسیدوقار حیدر شاہ سیالکوٹی