current news Archives - Page 3 of 5 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

جنرل راحیل شریف نے مولانا فتح ..

جنرل راحیل شریف نے ستار ایدھی کو کراچی میں عزت دی۔ ٹانک کے بے لوث مولانا ، امن وامان کے ضامن کو بھی زبردست عزت دینی چاہیے ۔
میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی نے تحریک انصاف کے ایوب بیٹنی سے کہا ’’ یہودی کے ٹکٹ پر کھڑے تھے؟‘‘ ہم نے بتایا مولانا فتح خان کی مسجد دفتر تھا
جب خانہ کعبہ پر مہدی کے نام سے قبضہ ہوا، تو ٹانک شہر میں علماء، لیڈر اور رہنما مشن ہسپتال ٹانک کو لوٹنے کیلئے بپھرے تھے، مولانا فتح خان ؒ نے روکا

جنرل راحیل نے ستار ایدھی کو انسانیت کی بلاامتیاز خدمت پر قومی اعزاز سے دفنانے کی عزت بخشی ، عمران خان کو کراچی کے ڈیفنس میں پلاٹ دیا تو ان کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ حضرت مولانا فتح خان صاحبؒ کا انتقال ہوا ، جنوبی وزیرستان اور ضلع کیلئے ٹانک شہر مرکزی حیثیت کا حامل ہے اگر مولانا فتح خان صاحبؒ نہ ہوتے تو ٹانک روز روز بلوؤں کا شکار ہوتا، مختلف ادوار میں مختلف مواقع پر بلوائی آتے اور شہر کے امن ومان کو خراب کردیتے، اقلیتوں کا فرقہ واریت، مذہب اور قوم قبیلہ کے نام پر جینا دوبھر کردیا جاتا، لوٹ مار ہوتی اور لوگوں کو دہشتگردی کا عام نشانہ بنایا جاتا لیکن سب تخریبی قوتوں کے سامنے مولانا فتح خان کی شخصیت ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح حائل رہی ہے۔ مولانا مفتی محمودؒ کے دور سے مولانا فضل الرحمن تک ٹانک میں جمعیت کے ووٹوں کی اکثریت رہی۔ مگر جمعیت کی مرکزی قیادت نے کبھی تومولانا فتح خانؒ کو ایک مرتبہ جیتوانے اپنا کردار ادا کیا ہوتا۔ مولانا فضل الرحمن نے حکومت کی اشیرباد حاصل کی تو سرکاری سطح پر ڈسٹریکٹ خطیب کا عہدہ مولانا فتح خان سے چھین کر غیرمعروف ملا کو دینے میں بھی شرم وحیاء اور غیرت و حمیت سے کام نہ لیا، اپنے باپ کی دوستی کا بھی کوئی لحاظ نہ کیا۔اپنی اخلاقی حیثیت کھونے کے بعد مولانا فتح خانؒ کو سامنے لایا۔
مولانا فتح خان ؒ نے مولانا فضل الرحمن کی منافقانہ چال چلن کو بھرپور طریقہ سے سمجھا مگر حدیث کے مصداق کہ المؤمن غر کریم ’’مؤمن دھوکہ کھانے والا معاف کرنے والا ہوتا ہے‘‘ ہمیشہ عفو و درگزر ، چشم پوشی اور غلطیوں پر گرفت کرنے کے بجائے صرف نظر سے کام لیا۔ ٹانک میں بریلوی، اہل تشیع ، اہلحدیث اقلیت اور دیوبندی مکتبۂ فکر والے اکثریت میں ہیں، عیسائی بھی ہیں۔ اگر مولانا فتح خان تخریب کاری والی ذہنیت رکھتے یا تخریب کارانہ ذہنیت کیخلاف ایک مضبوط بند کی طرح سے زبردست رکاوٹ نہ ہوتے تو ٹانک میں اقلیتوں کیساتھ وہ سلوک ہوتا کہ کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے شیعہ اور پنجاب میں عیسائیوں کی بستیاں جلانے کو دنیا بھول جاتی۔ شرو خیر کا مادہ ماحول میں گھٹتا اور بڑھتا ر ہتا ہے، ہرجگہ خیرکے نمائندے اور شر کے عناصر موجود ہیں مگر جب قیادت خیر کے نمائندوں کو نہیں شر کے عناصر کو مل جاتی ہے تو ماحول میں دنگا وفساد اور شرو فتنے کا بازار گرم ہوجاتا ہے۔
ڈیڑھ سوسال پہلے اپرکانیگرم جنوبی وزیرستان میں شرپسند قیادت نے ہلا بول کر ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے اہل تشیع کے تمام افراد کو مرد، خواتین، بوڑھے، جون اور بچے سب کو قتل کردیا تھا اور اتفاق سے ایکا دکا شیر خوار بچے رہ گئے تھے جن کی وجہ سے آج انکے ایک دو گھرانے موجود ہیں۔ لوگ سمجھتے ہونگے کہ ماتمی جلوس اور کالے کپڑوں کی وجہ سے کانیگرم کے باشندوں نے ایسا کیا ہوگا، لیکن یہ بات بالکل بھی نہ تھی، اسلئے کہ مارنے والوں نے کافی عرصہ بعد تک ماتم اور کالی قمیصوں کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔ یہ صرف ایک برادری کو لوٹ مار کے بہانے قتل کرنے کا جذبہ تھا ۔ عوام سمجھے گی کہ کانیگرم جنوبی وزیرستان کے لوگوں نے کیا اپنا اجتماعی ضمیر کھو دیا تھا؟۔ نہیں نہیں ہرگز نہیں، میرے والد پیرمقیم شاہؒ نے تقسیم ہند کے وقت بھی بنوں تک سے آنے والے ہندو خاندانوں کو لوئرکانیگرم شہر جنوبی وزیرستان میں کافی عرصہ تک پناہ دی تھی۔ جب حالات ٹھیک ہوگئے تو وہ لوگ بحفاظت گئے اور ابھی قریب کے دور میں کوئی غریب ہندو بسوں میں سفر کرکے میرے والد صاحبؒ سے ملنے آیا، جس کی ملاقات بڑے بھائی پیر جلال شاہ مرحوم سے ہوئی، دور کے مسافر کی دوسرے بھائیوں کو پتہ نہ چلنے کی وجہ سے خاطر خواہی مہمان نوازی نہیں ہوسکی جس کا سب کو بہت افسوس ہوا۔ بھارت جاکر بھی معذرت کرلیں تو سکون نہ ملے گا، اللہ یہ موقع پھر فراہم کردے تاکہ اس کا گلہ دور کردیں۔
وزیرستان اور ٹانک بڑی معتبر شخصیات اور ان کی عمدہ روایات کی وجہ سے امن وامان ، سکون و خوشحالی اور بھائی چارے و رواداری کی آماجگاہ رہے ہیں۔ ٹانک کے ڈگری کالج میں کسی پروفیسر کا پتہ چلا کہ وہ مرزائی ہے تو بڑی مشکل سے وہ جان بچانے میں کامیاب ہوا، ٹانک کے جذباتی عوام کی رہنمائی کیلئے بڑی شخصیات نہ ہوتیں تو پاکستان بھر میں اس کی شہرت فتنہ وفساد، جنگ وجدل اور ہنگامی آرائی کے حوالہ سے پہلے نمبر پر ہوتی۔ مولانا فتح خان ؒ ایک عرصۂ دراز سے ایک بلند مینار ، تناور اور پھلدار درخت کی طرح تھے۔ علمی اعتبار سے میں نے کوئٹہ سے لاہور، سوات سے کراچی تک سفر کرکے بڑے نامی گرامی علماء کرام کی زیارت، ملاقات اور شرفِ تلمذ حاصل کیا ہے ، مدینہ یونیورسٹی میں تخصص( اسپشلائزیشن) پڑھانے والوں کی علمی حیثیت کو ملاقات کرکے بھی دیکھا ہے مگر مولانا فتح خان نوراللہ مرقدہ کی طرح کسی میں علمی قابلیت، معلومات کا وسیع ذخیرہ اور سمجھ بوجھ نہیں دیکھی۔ انکی وفات کے دن نمائندہ نوشتۂ دیوار خیبر پختونخواہ شاہ وزیرخان کافی عرصہ بعد خوش قسمتی سے وہاں تھے اور جنازہ میں بھی شریک ہوئے۔ اسکے فون پر صاحبزادے سے تعزیت بھی کرلی ، نیٹ پر ان کا کوئی نام اور تصویر نہ تھی۔مولانا فضل الرحمن پر رقم قربان کرنے کا اعلان نوازشریف نے کیا تھا جس کا افتتاح کرتے وقت مولانا فتح خانؒ کو بھی اپنی ساکھ کیلئے ساتھ لیا ہوگا، بہرحال قارئین کے ساتھ اخبار کی خوش قسمتی ہے کہ مولانا مرحومؒ کی ایک تصویر مل گئی جو مولاناؒ کی شخصیت کی ایک جھلک ہے۔
مولانا فتح خانؒ سے بہت یادیں وابستہ ہیں، راز ونیاز کی گفتگو ہے، جس سے بہت گوشوں کی نقاب کشائی ہوتی ہے، حوصلہ افزاء ہیں، مولاناؒ کے توسط سے علماء حقانی سے عقیدت ومحبت بڑھتی اور علم وسمجھ کے ابواب کھلتے ہیں۔ مولاناؒ کا دور ایک طویل عرصہ پر محیط ہے، مولاناؒ نے ایک واقعہ کا ذکر کئی مرتبہ کیا کہ ’’بہت عرصہ ہوا، میں ٹانک سے کانیگرم گیاتھا، والد صاحب مرحوم پیر مقیم شاہ نے کہا کہ ہم یہ دوست بیٹھے ہیں، دعوتوں میں یہ موجودافراد سب شریک ہونگے، سات دنوں کایہ شیڈول ہے، میں نے کہا کہ کل مجھے واپس جانا ہے، تو پیرصاحب نے فی البدیہہ کہا کہ اللہ آپ کو زندگی بھر نہ ٹھہرائے، ہمارے شغل کو خراب کردیا۔ وہ دن تھا اور آج کے دن تک کہ پھر کانیگرم میں رات نہیں گزاری ہے‘‘۔

pir_muqeem_shahنیٹ پرہمارے پڑوسی فہیم محسودولد خیربادشاہ مرحوم نے اپنے دادا اور ہمارے والد کی بہت پرانے دور کی تصویر لگائی ۔ بیچ میں دائیں سے بائیں جانب ان کی اور بائیں سے دائیں عصا ء اور گھڑی والی والد مرحوم کی تصویر ہے۔یہ وہ لوگ تھے جن کی وجہ سے علاقے کی عزت اور امن قائم رہنے کا سکہ چلتا تھا، مولانا فتح خان کی مسجد متحدہ مجلس عمل کے وقت تحریک انصاف کا بھی آفس رہاتھا جب لوگ یہودی کہاکرتے تھے۔ وزیراعلیٰ خٹک ٹانک کا نام ’’فتح آباد‘‘ رکھ دے تو بہتر ہوگا۔

ڈاکٹر طاہر القادری پر تبصرہ

قرآن میں مشاورت کے بعد اللہ پر توکل کرنے کا حکم ہے،طاہرالقادری نے کہا کہ راحیل سے بھیک نہ مانگونگا

پھر یورپ سے بھیگ مانگنے نکلا، عمران خان سے پہلے رائیونڈ کا اعلان کیا پھر شریعت و جمہوریت کیخلاف قراردیا

پھر کہا عمران نے مشاورت نہ کی تھی،پھر کہا کہ ہم شرکت کرسکتے ہیں، پھر کہا علامتی شرکت بھی نہ کرینگے۔ واہ واہ

عقل ہوتی تو کہتا کہ ’’ عمرہ جاتی میں چائے کی دعوت قبول کرنے کا اعلان کرکے ہمارے حوصلے کوشکست دیدی‘‘

’’ رائیونڈ طالبان کا نظریاتی قبلہ رہاوہاں ہم نہیں جاسکتے‘‘۔ اتنی گلاٹیاں تو پاکستانی سرکس میں چینی بھی نہ کھا تا ۔

 

ڈاکٹر طاہرالقادری نے دنیا دیکھی ، ایک منظم جماعت ’’پاکستان عوامی تحریک‘‘ اور تحریک منہاج القرآن کے بانی ہیں اور بہت ساری کتابوں کے مصنف ہیں، اس کے باوجود انقلاب کو بدنام کرنے کیلئے جو تماشہ طالبان نے لگا رکھا تھا، آخر کار وہ تو شاہ ولی اللہؒ کے پوتے شاہ اسماعیل شہیدؒ و سیدا حمدبریلوی شہیدؒ کے پیروکار تھے اس لئے قربانی بھی دی لیکن اسلام کو عملی طور پر نافذ کرنے سے بھی بدنام کردیا، اب ڈاکٹر طاہرالقادری اسلامی انقلاب کے نظریہ کو بھی داؤ پر لگانے کیلئے میدان میں اتراتھا، ہربات میں قلابازی کھانے کو انقلاب کہنا عوام میں سلگتی ہوئی چنگاری کو بھجانے کے مترادف تھا۔ طلاق کے مسئلہ پر میڈیا میں تحریک منہاج القرآن والے عوام کو آگاہ کریں تو بھی لوگوں میں بڑی تبدیلی آئے اور ڈاکٹرطاہرالقادری کے سچے یا جھوٹے خوابوں کی تعبیر عمل میں آسکتی ہے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری یہ قضیہ بیان کرتا کہ تحریک انصاف کے ترجمان نعیم الحق کا جاتی عمرہ کے بجائے رائیونڈجانے اور پھر نوازشریف کے گھرچائے پینے کی دعوت کا اعلان ہمیں اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور کرگیا۔ اگر نوازشریف کے گھر نہیں جانا تھا اور نواز شریف چائے کی دعوت دیتاتو پھر ہم کہاں کھڑے ہوتے؟۔ رائیونڈ تو طالبان کے اکابرین کا مرکز ہے، عمران خان کیلئے کوئی خطرہ نہیں لیکن ڈاکٹر طاہرالقادری نے اسی تبلیغی جماعت کی وجہ سے طالبان پر بھی یہ فتویٰ لگادیا کہ ’’ جہنم کے کتے ہیں انکومارنا انسانیت اور شریعت کی خدمت ہے‘‘ ۔
ہماری ریاست، حکومت اور عوام کی قیادت جبتک اچھے ہاتھوں میں منتقل نہ ہو، ہر مداری اورجوکرقائدبالکل بازاروں میں منجن فروش،سنیاسی باوا اور بنگالی باباوغیرہ کے روپ میں اپنی سیاسی دکان چمکانے کی پریکٹس جاری رکھے گا۔ تاہم جسطرح بھٹو نے فیکٹریوں اور ملوں کو بحقِ سرکار ضبط کیا، جس سے قوم وملک کو بہت نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس طرح سیاسی مداریوں پر پابندی لگانے سے قوم وملک کو نقصان پہنچ جائیگا۔ تاہم ریاستی اداروں کو کرپشن وغیرہ میں ڈاکٹر عاصم حسین و اسحاق ڈار اور نواز شریف و زرداری میں تفریق چھوڑنی ہوگی اور جس دن بڑے بڑوں پر یکساں گرفت کی گئی تو پوری قوم ساتھ ہوگی، فوج کو نواز شریف سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے

عمران خان کی رائیونڈ مارچ پر تبصرہ

گوجرانوالہ میں لیگی غنڈوں نے گھیرا تو جاوید ہاشمی کی بہادری کام آئی، یہ شیخ رشید کو جگہ پر چھوڑکر بھاگ نکلا تھا

شیخ رشید اسلئے ڈاکٹر طاہرالقادری اور انکے ساتھیوں کی تعریف کرتا تھا، عمران کا امپائر سے بھی اعتماد اُٹھ گیا

جنرل راحیل شریف نے اپنا موڈ نہ دیکر بڑا اچھا کیا ہے،جس کتیا کوا قتدار کا جھانسہ دیاگیا ریلہ پیچھے لگتاہے

قائدین کو ماحول کی برائی نے لیڈر بنادیا ہے، تخریب کار پیسوں پر اورماحول کا فائدہ اٹھاکر اپنا رنگ بدلتے ہیں

عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی گردن اور دُم امپائر کی انگلی اُٹھنے کی خواہش میں بڑی ہلتی رہیں مگرجنرل راحیل نے ان کو اپنا موڈ نہیں دیا اور بہت اچھا کیا۔ اس کی وجہ سے پہلے بھی معاشرے میں خرابیاں جنم لیتی رہی ہیں۔ پنجاب کے سمجھداروغیرتمند و بہادر لوگوں میں یہ شعور بیدار کرنے کی سخت ضرورت ہے کہ عوامی جذبے کا فائدہ اٹھاکر فرقہ واریت، طالبان کو کھلے عام سپورٹ کیا گیا لیکن پھر منہ موڑا گیا، خیر یہ قائدین میں شعور کا فقدان ہوسکتا ہے، وہ بھی عوام ہی تو ہیں، ماحول کی برائیوں نے ان کو لیڈر بنادیا تو یہ الگ بات ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے جس کو حکومت دینے کا جھانسہ دیا، وہ بے نسل کتیا کی طرح کتوں کے ریلوں کی قیادت کرنے لگی، یہی قائدین کی قیادت کا اصلی راز ہے کم عقلوں میں اورکوئی صلاحیت نہیں ہے۔
کیا نواز اورشہبازنے زرداری کے سوئس اکاؤنٹ میں60کروڑ ڈالرکیخلاف آواز ISIکے کہنے سے اٹھائی؟۔ جیو جنگ کے صحافی سہیل وڑائچ سے یہی کہا تھا، اپنے بچوں کا پتہ بھی نہیں کہ پانامہ لیکس میں کتنی رقم ہے؟۔ سیاستدانوں کے چہرے پر شرم و حیاء کے کوئی آثار نہیں ہیں، دولت مابدولت کے کھیل سے عوام کا بیڑہ غرق کردیں۔ پورا ملک انتہاپسندی ، شدت پسندی ، دہشتگردی کی زد میں تھانوازشریف ،عمران خان اسکی حمایت میں پیش پیش تھے، پیپلزپارٹی کے وزیراعلیٰ بلوچستان نے دھماکے کے متأثرین سے کہا تھا کہ ’’ آنسو پونجھنے کیلئے ٹشو پیپر کے ٹرک بھیج دوں؟‘‘۔ سیاستدان اپنا چہرہ اور تخریب کار اپنا رویہ بدلتے رہتے ہیں۔
افغانستان میں روس آیا تو تخریب کار خاد کے ایجنٹ بن کر دھماکے کرتے رہے ۔ جنوبی وزریرستان کے مرکزی شہر کانیگرم کو عمران خان اپنا ننھیال قرار دیتا ہے، جہاں برکی قبیلہ رہتا ہے،جہاں کسی ملکی وغیرملکی کا کردار نہ تھا، تخریب کار پھر بھی رات کو بارود نصب کردیتے، صبح نماز کیلئے اٹھنے والے اور پانی لانے والی خواتین وحضرات کو خوامخواہ میں دھماکوں کا شکار کرنا چاہتے تھے۔ پھر شہر کی ٹینکی بن گئی تو اس میں ڈی ٹی ٹی ڈال دی اور پھر چوریاں بڑھ گئیں، پھر ڈکیتی اور اغواء کی واردتیں شروع ہوئیں۔ پھر طالبان کے دور میں تخریب کاروں، چوروں ، ڈکیتوں کا روپ بدلا اور طالبان بن گئے۔ کرایہ کے یہ ٹٹو اب اسکے ہیں جو انکو پیسہ دے، کتیا کتوں کا کھیل ختم کرکے انسانیت ہونی چاہیے۔

ایڈیٹر اجمل ملک کی تحریر

اللہ تعالیٰ نے ہمیں دنیا کی سب سے بڑی نعمت اپنی کتاب ’’ قرآن مجید‘‘ اور اسے عملی جامہ پہنانے کیلئے رسول اللہ ﷺ کی اسوۂ حسنہ ’’سنت‘‘ کا تحفہ دیا ہے۔ علماء کرام اور مذہبی طبقات کی یہ بہت بڑی مہربانی ہے کہ مختلف ادوار میں آندھی آئے یا طوفان انہوں نے بڑا زبردست کارنامہ انجام دیا ہے کہ’’ہر دور میں ایمان کے ٹمٹاتے ہوئے دیا کو جلائے رکھنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے‘‘۔ جس طرح رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ’’ عرب سے تین وجوہات کی وجہ سے محبت رکھو، ایک یہ کہ قرآن عربی میں ہے، دوسرا یہ کہ میں عربی ہوں اور تیسرا یہ کہ جنت کی زبان عربی میں ہے‘‘۔ نبیﷺ کی وجہ سے صحابہؓ اوراہلبیت سے محبت بھی احادیث میں ایمان کا تقاضہ قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح سے مذہبی طبقات سے انسیت اور محبت رکھنا بھی ایمان کا اولین تقاضہ ہے۔ خواہ یہ مذہبی طبقات ایک دوسرے سے تعصب، نفرت، عداوت اور انسانیت و اسلام کے منافی کتنے ہی جذبات واحساسات رکھتے ہوں۔ ان کی اپنے مسلک و فرقہ سے محبت ایمان اور دوسرے سے عداوت رکھنا اپنے ماحول میں تو ایمان واسلام ہی کا تقاضہ ہوتا ہے۔ یہی تو ان کی اصل ،بنیادی اور جوہری خوبی ہے۔ اللہ ہی کیلئے محبت وعداوت ہو تو اس سے بڑا ایمان کیا ہوسکتا ہے؟۔ صحابہ کرامؓ میں بھی اختلاف رہا ہے، جنگیں برپا ہوئی ہیں، ہزاروں لوگ ان میں قتل ہوئے ،رسول اللہﷺ نے فرمایاتھا کہ ’’ میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کو قتل کرو‘‘۔ جن عظیم لوگوںؓ نے اپنے کانوں سے حجۃ الوداع کی یہ نصیحت سنی ، وہ بھی ایک ماحول کی وجہ سے خود پر قابو نہ پاسکے۔ جن دس صحابہؓ نے جنت کی بشارت پائی تھی، حضرت علیؓ ، حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ نے بھی جنگوں میں ایک دوسرے کیخلاف حصہ لیا۔ حضرت طلحہؓ و حضرت زبیرؓ نے اسی میں شہادت پائی۔

cartoon-nawaz-sharif-Octob2016
ہمارے ہاں انتہا پسند اور شدت پسند مذہبی طبقات کو حقائق کی طرف متوجہ کیا جائے توپھر یہی لوگ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا ذریعہ بنیں گے۔ مذہبی طبقات کو عوام میں پذیرائی بھی اسلئے نہیں ملتی کہ ان لوگوں میں مثبت سوچ کا فقدان اور منفی سوچ کا رحجان ہے۔ جبکہ سیاستدان عوام کو شعور دینے کی بجائے مفادات کی سیاست کرتے ہیں۔ سیاسی لیڈر شپ مذہبی جذبہ اپنے مفاد کیلئے استعمال کرتی ہے۔افغانستان نیٹو کی افواج نے قبضہ کرلیا، طالبان اور عوام کو دربدر کردیا، خاندان تباہ ہوئے۔ بچوں، خواتین، بوڑھوں اور سب ہی بموں، دھماکوں اور بمباری کا نشانہ بنے یا بارود کی گن گرج سے لرزے، ترسے اور بدحال ہوئے۔ بے شعور اور عقل سے عاری عوام نے جانوں اور عزتوں کی تباہی اور بربادی کا احساس کرکے کبھی تواپنا بھرپور احتجاج ریکارڈ کرایاہوتا مگر نہیں لیکن کسی افغانی کے مرتد ہونے کی خبر سے تمام افغان نے زبردست احتجاج کیا۔ اگر پاکستان کے علماء اور مذہبی طبقات عمران خان کی سابقہ بیگم جمائماخان کیخلاف ارتداد یا غیرمسلم سے شادی کے نام پر تحریک چلاتے تو تحریک انصاف کا نام لینے والا بھی کوئی نہ ملتا۔ افغانستان میں نیٹو افواج کو سپلائی دینے والی کمپنیوں کو 75% کی رعایت پر مال ملتا تھا اور بعض کمپنیاں نیٹو کو سپلائی دینے کی بجائے مارکیٹ میں بڑا منافع رکھ کر وہ مال فروخت کردیتی تھی اور انکے کارندے نہیں چاہتے تھے کہ جن کمپنیوں سے مال لیا ہے اس کی معائنہ ٹیم افغانستان جاکر صورتحال کا پتہ لگائے، اسلئے عوام کو اکسانے کیلئے یہ ڈرامہ بھی رچایا جاسکتا تھا کہ کوئی مرتد ہوگیا ہے یا قرآن جلایا گیا ہے، یا گستاخی کی گئی ہے۔
مذہبی جذبے اور سیاست کو اپنے مالی اور تجارتی مفادات کیلئے استعمال کرنا بہت بڑا المیہ ہے۔ قرآن کریم نے اس کی جڑیں کاٹی ہیں۔ ایسے لوگوں کو بدترین جانور کتااور گدھا قرار دیا ہے۔ نوازشریف نے مذہبی جذبے سے ڈاکٹر طاہرالقادری کو غارِ حرا تک کندھے پر اٹھایا اور شہبازشریف نے طاہرالقادری کے جوتوں کے تسمے باندھنے اور کھولنے تک امریکہ کے سفر میں خدمت انجام دی تھی، یہ مذہبی جذبے اور خوبیوں کی بہترین دلیل ہے۔ اگرچہ شعور بیدار ہونے کے بعد اس جذبے کو بے شعوری ، جہالت اور اندھیر نگری کا اب نتیجہ کہا جائے، مولانا فضل الرحمن نے اپنی سیاست کی شروعات اپوزیشن سے کی تھی اور اب سوشل میڈیا پر اس کی تصویر کیساتھ یہ مذاق چل رہا ہے کہ ’’ ہر حکومت اپنے ورثہ میں دوسری حکومت کیلئے غربت، بے روگاری اور مولانا فضل الرحمن کو چھوڑ کر جاتی ہے‘‘۔یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ ’’ہماری سیاست سے متأثر ہوکر امریکی تاجر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی صدارتی امیدوار ی سے ثبوت دیا ہے کہ سیاست کے ذریعہ سے بہترین تجارت بھی ہوسکتی ہے‘‘۔ بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان ؒ نے کہا کہ ’’پاکستان میں نظریاتی سیاست کو تجارت میں بدلنے کا اصل بانی نوازشریف ہے‘‘۔ اب توماشاء اللہ مولانا فضل الرحمن بھی شانہ بشانہ ہیں جب مولانا فضل الرحمن اپوزیشن میں ہوتے تھے تو ان کو امت میں شعور بیدار کرنے کے سوا ملتا کیا تھا؟۔ آخر ان کی بھی ماشاء اللہ جان ہے، کسی کریانہ سٹور میں کھانے ، پینے کی اشیاء و اجناس ملتی ہیں۔ بطور مثال چوہا اگر دکان میں ایک معزز مقام رکھتا ہو، اور اس کیلئے کھانے کے تمام راستے بند ہوں اور صرف ترازو میں وزن ڈالنے کی اس کو اجازت ہو تو اپوزشن میں جانے کی مثال ایسی ہو ، جیسے لوہے کے وٹے میں چوہا اپناوزن ڈالے،حکومت کے پلڑے میں جان ڈالنے کی مثال اشیاء خورد ونوش کے پلڑے میں جانے کی طرح ہو تو چوہا بلکہ کوئی بھی جاندار، جانور اور انسان کس پلڑے میں اپنا وزن ڈالے گا؟۔ اگر لوہے کے وٹے کے پلڑے میں جانے سے دکاندار کا نقصان ہو اور کھانے پینے کی اشیاء میں وزن ڈالنے سے حکومت اور موصوف دونوں کا فائدہ ہو تو باڑ میں جائے عوام کی ایسی کی تیسی، انکے مفاد کا کیا ہے اور کس نے خیال رکھنا ہے؟۔ حکومت اپنے مفاد کی خاطر تگڑے قسم کے لوگوں اور بڑی ہستیوں کو اپنے ساتھ رکھے تو یہ مذہب اور سیاست کی سوداگری ہوگی جو ہوتی رہی ہے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ’’ علماء امت میں دین کی حفاظت کے امین اور محافظ ہیں جو دین کی حفاظت کی ذمہ داری ادا کرتے ہیں جبتک یہ دنیا گھس نہ جائیں اور حکمرانوں سے خلط ملط نہ ہوجائیں، جب یہ دنیا میں گھس گئے اور حکمرانوں سے مل گئے تو انہوں نے اللہ سے خیانت کی۔ (عصر حاضر حدیث نبویﷺ کے آئینہ میں : مولانا محمدیوسف لدھیانویؒ )
سید عتیق الرحمن گیلانی نے جس طرح سے درسِ نظامی کے نصاب میں قرآن کی تعریف اور طلاق کے مسئلہ میں حقائق سے پردہ اٹھایا ہے ، اگر عتیق گیلانی کے پاس حکومت، مدرسہ یا دنیاوی کوئی بڑا منصب ہوتا تو بڑے بڑے لوگ یقیناًاسلام ، قرآن و سنت، شریعت وفطرت اور وقت کے تقاضوں اور دنیا کے ماحول کو سمجھ کر پاکستان سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز کرنا ایک مذہبی فرض قرار دیتے۔ عتیق گیلانی کے خاندان نے اپنے دور میں کربلا کی قربانی دی۔ عتیق گیلانی نے فرقہ وارانہ تصورات کی کامیابی سے بیخ کنی کرکے قرآن وسنت کو جس انداز میں اجاگر کیا ، مدارس عربیہ، بنوری ٹاؤن ،مکتبِ دیوبند اور فقہ حنفیہ کے اکابراور اصاغرکیلئے یہ باعثِ فخر ہونا چاہیے تھا کہ ہماری فضائیں اس عظیم شخصیت کی گزر گائیں رہی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جمعیت علماء اسلام (ف) کے مرکزی امیر مولانا عبدالکریمؒ بیرشریف لاڑکانہ سے لیکر جمعیت علماء اسلام ٹانک تک کے بہت سے اکابر واصاغر نے سید گیلانی کی تائید کی تھی، جمعیت علماء پاکستان کے پروفیسر شاہ فریدالحقؒ سے لیکر بہت سے بریلوی مکتب کے اکابر واصاغر نے سنی تحریک کے ثروت اعجاز قادری تک نے تائید کی ہے۔پروفیسر غفور احمدؒ ، مولانا عبدالرؤف اتحادالعلماء کے صدر ، جماعت اسلامی بلوچستان کے صوبائی صدر مولانا عبدالحق بلوچؒ سے مفتی علی زمان تک بہت لوگوں کی تائید حاصل رہی ہے۔ پروفیسر غفور احمدؒ کا بیان ضربِ حق کی زینت بنا تھا کہ سید عتیق گیلانی نے فرقہ پرستی کا مسئلہ حل کردیا، اب فرقہ پرست گدھ کی طرح پہاڑوں کی چوٹی پر بیٹھ کر اس کی مردار لاش کو نوچتے رہیں۔
اہلحدیث کے بہت سے اکابرین مولانا عبدالرحمن سلفی، مفتی عبدالرشیدؒ ، مولانا ارشد وزیر آبادی اور مولانا محمد سلفی سمیت بڑی تعدادمیں تائید کرتے ہیں۔ اہل تشیع کے علامہ طالب جوہری، علامہ حسن ظفر نقوی، علامہ عباس کمیلی، علامہ حسن ترابیؒ ، ڈاکٹر حسن رضوی، علامہ کرار نقوی وغیرہ بڑی تعداد میں اکابر واصاغر تائید کررہے ہیں۔ کالعدم سپاہ صحابہ اہلسنت و الجماعت کے مرکز جامع مسجد صدیق اکبر کے خطیب اور کراچی کے امیر علامہ ربنوازحنفی اور پشاور کے رہنماؤں تک کی تائیدات شائع ہوئی ہیں اور ہوتی رہی ہیں۔
اصل مسئلہ عتیق گیلانی کی تائید یا تردید کا نہیں ہے بلکہ قرآن و سنت کے مطابق عائلی اور معاشرتی قوانین سے لیکر ملکی و بین الاقوامی میں اسلام اور فطرت کے مطابق روح پھونکنے کا ہے۔ اگر میاں بیوی کے تعلقات، حقوق، نکاح اور خلع و طلاق کے حوالہ سے قرآن و سنت کے واضح احکامات سے روگردانی ہے ، خاندانوں کو تباہ کرنے اور حلالہ کی لعنتوں سے قرآن وسنت کے مطابق علماء ومفتیان اور دانشور و سیاستدان اور جج و ریاستدان اپنی عوام کا خیال نہیں رکھ سکتے ہیں تو ان سے کیا خیر کی توقع رکھی جائے گی؟۔ عمران خان نے جیسے باہوش و حواس قانونی پراسس سے جمائما خان کو طلاق دی ، ویسے ریحام خان کا معاملہ ہوتا تو عوام کو رہنمائی ملتی، ریحام خان نے کہا کہ ’’میری طلاق شرعی نہیں ‘‘ ، مسیج پر لندن میں اترتے وقت طلاق طلاق طلاق کے الفاظ کو شہرت ملی۔ مریم نواز کے حوالہ سے افواہوں کی گردش ہے ،یہ مسئلہ مفتیان کی وجہ سے بگڑا یا حکمران قانون اور شریعت کی پاسداری نہیں کرتے؟، اسے گھر کا مسئلہ کہنا غلط ہے۔ طلاق کے گھمبیر مسئلہ کی قرآن و سنت سے وضاحت بڑا کارنامہ ہے۔

سید عتیق الرحمن گیلانی کی ایک تحریر

supreme_court_oct2016

سپریم کورٹ کے فیصلے اور علماء ومفتیان کے فتوے میں اتنا بڑا تضاد کیوں ہے؟ ، قائدین قرآن وسنت کے مطابق عوام کیلئے عملی طور سے رول ماڈل کیوں نہیں بنتے ہیں؟
قرآن میں کفرواسلام اور بہت بڑے معاملے میں بھی درجہ بہ درجہ ، مرحلہ وار، باقاعدہ عدت اور پروسیس کا ایسا تصور نہیں جو اللہ تعالی نے طلاق کے حوالہ سے واضح کیاہے
ایلاء و ناراضگی میں چار ماہ کی عدت کا حکم دیا، جس میں باہمی رضامندی سے صلح و رجوع ہوسکتا ہے، اس سے زیادہ عورت کی تکلیف کے باعث انتظار کاپابند نہیں بنایا گیا،
طلاق کے اظہار کی صورت میں عدت کے تین مراحل یاماہ کا پابند بنایا جسمیں صلح کی شرط پر شوہر ہی رجوع کا حقدار قرار دیا، عدت تک کیلئے طلاق اور اسکو گننے کا حکم دیا،
بیوی کو اسکے گھر سے نکالنے اور نکلنے کو منع کیاالا یہ کہ وہ کھلی فحاشی کی مرتکب ہو، عدت کی تکمیل پر رجوع نہ ہوتوالگ کرنے کے فیصلہ پر دو عادل گواہ مقرر کرنے کا حکم دیا،

6column(2)-octboer2016

کوئی بھی طلاق دینے کے بعد شوہر کو یکطرفہ رجوع کا حق حاصل نہیں تھا، مصالحت کیلئے ایک ایک رشتہ دار مقرر کرنا اسوقت ممکن ہے جب بیوی کو صلح نہ کرنے کااختیار ہو۔
قرآن وسنت کو ہر سلیم الفطرت انسان قبول کررہا ہے، مذہبی طبقہ بھی اسکو قبول کریگا۔ صفحہ:2

مزید تفصیل کیلئے اس لنک پر کلک کریں

سید عتیق الرحمن گیلانی کی ایک تحریر

یہ اقوام متحدہ اوردنیا کے سامنے وزیراعظم نوازشریف کو کشمیر کے مسئلے پر بات کرنے پر دبانے،اپنی دہشت گردی سے توجہ ہٹانے اور پاک فوج کو دنیا اوراپنی کرپٹ جمہوریت کے سامنے جھکانے کا بے دھوتی ننگا ڈرامہ ہے
ڈاکٹر بابراعوان نے ٹی وی چینل پر پاکستان سے بھارت میں ڈالروں کا پرنالہ کہہ کر بتایا کہ سن 20سو15,14,13کے تین سال میں پاکستان کے دفاعی بجٹ کے برابررقم بینک کے ذریعہ بھارت 14ارب ڈالرمنتقل ہوئے
اعوان نے چوہدری نثار کی ماتحت FIAسے 14ارب ڈالرکی وضاحت مانگی۔ وزیراعظم قوم کی امانت سوئس اکاونٹ میں 60کروڑڈالر اور پانامہ لیکس کی رقم لوٹادے۔ سرجیکل سٹرائیک کی گالی سے بھارت نے پدو مارا ہے

8th_coloumn_heading_pic_Octob2016

 

مزید تفصیل کیلئے اس لنک پر کلک کریں۔

تیز و تند عبد القدوس بلوچ

یوسف رضا گیلانی کو صدر مملکت کیخلاف خط نہ بھیجنے پر نااہل قرار دیا، اصغر خان کیس جرم میں نوازشریف اور شریک دیگر تمام افراد اور جماعتوں کوبھی نااہل قرار دیا جائے
پاکستان میں کرپشن، سیاسی ناہمواری اور فرقہ وارانہ تشدد کا خاتمہ کرکے نہ صرف کشمیر بلکہ بھارت کے 20کروڑ مسلمانوں کے ذریعہ غزوہ ہند برپا کیا جاسکتاہے
شریف برادارن پنجاب کو مضبوط نہیں بنارہے پاکستان کو توڑنے کا بیج بورہے ہیں، فوج کمزور اور لوگ بدظن ہونگے تو پاکستان کوبھی خطرہ ہوگا ، عبدالقدوس بلوچ صفحہ:3

پاکستان میں ایک ڈرامہ شروع ہوتا ہے اور وہ ابھی ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا شروع ہوجاتا ہے۔ عدالت نے 16سال بعد اصغر خان کیس کا فیصلہ جاری کیا لیکن سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے ایک طرف پیپلزپارٹی کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو محض اس بات پر نااہل قرار دیا تھا کہ ’’وہ صدرکیخلاف آئینی طور پر تحفظ سمجھ کر خط بھیجنے کا عذر پیش کررہاتھا‘‘، دوسری طرف اصغر خان کیس کے مجرموں کی سزا کو لٹکائے رکھا تاکہ شاید نوازشریف اقتدار میں آکر آخر نوکری میں توسیع دیدیں۔ شریف بردران نے حضرت علیؓ کی طرف منسوب سچا یا جھوٹا قول اپنے پلے باندھ دیا ہے کہ ’’کسی پر احسان کے بعد اسکے شر سے بھی بچو‘‘۔ یہی وجہ تھی کہ جلاوطنی کے دوران جاوید ہاشمی نے باغی بن کر سزائیں کاٹیں، ان کی صاحبزادی میمونہ ہاشمی کاحامد میر کے پروگرام میں جسطرح سے مذاق اڑایا گیا، اس خاندانی عورت ذات کی بے بسی کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا تھا مگر نوازشریف نے یہ خوف کھایا کہ جاویدہاشمی کیساتھ احسان کے بدلے میں بھی کوئی اچھائی کا برتاؤ کیا تو گلے پڑسکے گا، اسلئے اپنے کارکنوں اور رہنماؤں کی بجائے برطانیہ سے چوہدری سرور کو لیکر آیا۔ چوہدری سرور نے بھی پنجاب کی گورنری کو لات ماری، اسلئے کہ کوئی انسانیت کا کام کرنے ہی نہیں دیتا تھا۔ تو شکریہ ادا کرنے کے بجائے ازخود گورنری سے علیحدہ ہونے پر احسان فراموشی کے طعنے شروع کردئیے۔
جنرل پرویز مشرف پر نوازشریف نے کوئی احسان نہیں کیا تھا بلکہ اپنی اہلیت کے مطابق مگر اپنے مقاصد کیلئے اپنی ترجیحات میں شامل کرکے چیف آف آرمی سٹاف کیلئے نامزد کیا، پھر مدتِ ملازمت سے پہلے ان کی غیرموجودگی میں برطرف کیا، جس پر پاک فوج نے اس کا تختہ الٹ دیا۔ آج بھی عدالت میں درست کیس چلے تو نوازشریف کو قصوروار قرار دیا جائیگا۔ نوازشریف نے سبق نہ سیکھاہوتا تو جنرل راحیل شریف ہی نہیں جنرنیلوں کو لات لگاگر نکالنے کی لائن لگی ہوتی، جو جہانگیر کرامت کیساتھ ہوا، سنا ہے وہ شیخ برادری سے تعلق رکھنے والا کوئی بزدل جرنیل تھا جس کوڈرا دھمکاکر فارغ کیا گیا۔ کہتے ہیں کہ ’’ اللہ گنجے کو ناخن نہ دے‘‘۔ نوازشریف کو ناخن مل گئے تو دور کی کہانی چھوڑیں، ماڈل ٹاؤن میں ڈاکٹر طاہرالقادری کو ڈرانے کیلئے وہ کیا جو کشمیر میں انڈیا کی فوج کررہی ہے۔ سندھ سے واحد قومی اسمبلی کے ممبر عبدالحکیم بلوچ نے وزارت، قومی اسمبلی ، ن لیگ کو کیوں چھوڑا۔ شریف برادران نے اپنے قریبی دوستوں اور رشتہ داروں کے علاوہ کسی کو اختیارات دئیے ہی نہیں ہیں۔ جو لوگ اسٹیبلیشمنٹ سے تنگ ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ نوازشریف اچھا ہے یا برا مگر یہ واحد راستہ ہے کہ پنجاب کے اس جمہوری حکومت کو مستحکم کرکے فوج کو سیاسی مداخلت سے روکنا ممکن ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جمہوری تجربوں سے قوم میں شعور بیدار ہوگا اور ووٹ کے ذریعہ سے ہی تبدیلی لانے کی روایت کو مستحکم کیا جائے، ورنہ ہر طالع آزما لٹھ کر میدان میں اترے گا اور کٹھ پتلی قسم کے لوگوں کو لیڈر بناکر ایک تماشہ جاری رہے گا۔
اس میں شک نہیں ہے کہ پاک فوج کی تربیت حکومت کیلئے نہیں ہوئی ہے، اور جب عوام کیلئے ان کو کردار دیا جائیگا تو بہت ساری غلطیاں سرزد ہوں گی، ظلم و زیادتی اور بربریت کا مظاہرہ ہوگااور اس کی وجہ سے عوام سیاسی حکومتوں کو زیادہ قابل ترجیح سمجھتے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فوج کے بارے میں عوام مثبت یا منفی جیسے پروپیگنڈہ کرنا چاہیں تو انکے خلاف پروپیگنڈہ بھی کامیاب ہوجاتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ ’’یہ مذموم پروپیگنڈہ بھی کامیاب تھا کہ وہ اپنی خواتین کے ذریعہ ترقی کا راستہ ڈھوندتے ہیں اور بے غیرتی ، اغیار سے منظوری کے بغیر ان کی ترقی ممکن نہیں ہوتی ہے‘‘۔ یہ سب بکواسات کسی کی طرف سے اپنے مذموم مقاصد پورے کرنے کا نتیجہ معلوم ہوتے ہیں۔ جو غیرت فوجی جرنیلوں میں ہوتی ہے وہ سیاسی قائدین میں بھی نظر نہیں آتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹوؒ ، زرداری، نواشریف اور عمران خان کے مقابلے میں جنرل ایوب ؒ ، جنرل ضیاء الحقؒ ، پرویزمشرف اور جنرل احیل شریف زیادہ غیرتمند نظر آتے ہیں۔ جنرل پرویزمشرف نے تربت بلوچستان میں ڈیم اور روڈ بنائے، گوادر کو چین کے حوالہ کرنے کا اقدام کیا، ڈیرہ اسماعیل خان ٹانک میں گومل ڈیم اور سڑکوں کی تعمیر کا سلسلہ جنوبی وشمالی وزیرستان تک پھیلایا، اشفاق کیانی کو بھی بڑا کریڈت جاتا ہے ۔ شریف برادارن اپنی تجارت کیلئے پنجاب کو مضبوط نہیں پاکستان کو توڑ رہے ہیں۔
گومل ڈیم کا سب سے قریبی شہر ٹانک اور اس ضلع کے علاقہ گومل، عمر اڈا، ملازئی وغیرہ ہیں، ڈیم سے 17میگاواٹ بجلی کی سپلائی بڑی مشکل سے خدا خدا کرکے اب شروع ہوئی ہے مگر ٹانک شہر اور اسکے ملحقہ علاقوں کو وہاں سے بجلی پیدا ہونے کی سخت سزا دی جاری ہے۔ ملازئی فیڈر، گومل کوٹ اعظم،عمراڈا سمیت بجلی کے تمام فیڈر ناکارہ ہیں، ٹانک شہر میں بھی بجلی کا بہت برا حال ہے، مولانا فضل الرحمن نوازشریف سے ملکرداورکنڈی کوجتوانے کی سزا دے رہا ہے۔ فیڈر کے افتتاح کے مسئلہ پرجمعیت علماء اسلام ٹانک کے ضلعی صدر مولانا عبدالرؤف ؒ گل امام نے ٹانک آنے پر دھمکی دے کر روکا تھا۔ عتیق گیلانی نے مولانا عبدالرؤفؒ کو نہ روکا ہوتا تو مولانا فضل الرحمن کیساتھ بہت برا ہوتا۔ ایک خاندانی اور اچھے آدمی کی یہ نشانی ہوتی ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے دوسروں کو اکسایا، ڈیرہ اسماعیل خان میں خلیفہ عبدالقیوم نے لڑائی کے دن ہی کہا تھا کہ ہمارے ساتھی کسی کے ورغلانے میں آگئے ہیں۔ مولانافضل الرحمن نے بھرپور مشن چلانے کے بعد جب ناکامی ہوئی اور ہمارا مشن جاری رہا تو عتیق گیلانی کے گھر پر آکر کہا کہ ’’میں ہمیشہ حمایت کرتا ہوں‘‘۔
یہ کہانیاں عوام کے سامنے آئیں تو جمہوریت کے علمبرداروں کے چہروں سے نقاب اٹھے گا۔ سید عتیق گیلانی نے کبھی نیٹو اور امریکی افواج کی حمایت نہ کی بلکہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ وہ اپنوں کے روپ میں ہمارے امن وامان کو خراب نہ کریں، مولانا معراج الدین شہیدؒ ایم این اے کے پرسنل سیکرٹری اختر گل محسود کے سامنے طالبان کے ترجمان مولوی محمد امیر گلشئی شمن خیل محسود سے کہا تھا کہ ’’ ہماری اپنی عوام امریکہ کیلئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے، ان سے اسلحہ اکٹھاکرکے تم کس کی خدمت کررہے ہو؟۔ اس نے کہا کہ ہم آئی ایس آئی والے نہیں ہیں، عتیق گیلانی نے کہا کہ آئی ایس آئی کا ہونا مسئلہ نہیں ، میں بھی تمہارا ساتھ دوں گا لیکن جو تم کررہے ہو، اس سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ کے مقاصد پورے ہورہے ہیں،پھر طالبان کے امیر بیت اللہ محسود سے ملاقات کی بات طے ہوئی مگر چند دن بعد عتیق گیلانی پر فائرنگ کی گئی،پھر جب دوبارہ کچھ عرصہ بعد بھائی کی وفات پر جانا ہوا ، تو گھر سے نکلنے کے چند گھنٹے بعد حملہ کرکے طالبان نے کئی افراد کو شہید کیا۔
کافی عرصہ بعد مولانا فضل الرحمن نے تعزیت کیلئے گئے تو ٹانک کی مسجد میں صحاح ستہ کی وہ حدیث سنائی جسکے راوی حضرت ابوبکرؓ ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ’’ خراسان کی طرف سے ایک دجال کا لشکر آئے گا، جس میں ڈھال کی طرح گول چہرے والے اور ہتھوڑے کی طرح لمبوترے چہرے والے اقوام کے افراد ہونگے‘‘۔( جیسے ازبک اور پٹھان ہیں)۔ مولانا فضل الرحمن نے یہ روایت طالبان پر فٹ کردی، پھر عتیق گیلانی کے بھائی سے بھی اس روایت کا ذکر کیا، عتیق گیلانی کے بھائی پیرنثار نے کہا کہ ’’تم لوگوں کے پاس متحدہ مجلس عمل کی حکومت ہے، یہ تمہاری ذمہ داری بنتی ہے کہ لوگوں کی حفاظت کرو، اگر یہ نہیں کرسکتے تو حکومت چھوڑ دو‘‘۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ’’مجھے پتہ ہے میں نے آنے میں دیر لگادی ، اس وجہ سے آپ ناراض ہیں‘‘۔ پیرنثار نے کہا کہ ناراضگی کا بالکل سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، مولانا عطاء الرحمن صاحب آپ کے بھائی ہیں، جنازہ بھی انہوں نے پڑھایا، پھر مسلسل کئی دنوں تک تشریف لاتے رہے، اس سے زیادہ اور کیا ہوسکتا تھا یہ بھی اپنے حق اور حدود سے زیادہ کیا۔ کسی نے پیرنثار سے کہا کہ آپ کی بات ٹھیک ہے لیکن اب اس موقع پر یہ بات نہ کرتے تو اچھا تھا، مولانا فضل الرحمن کے مدرسہ کے مہتمم مولانا سید عطاء اللہ شاہ نے کہا کہ ’’بالکل صحیح وقت پر اور صحیح موقع پر ٹھیک بات کی ہے‘‘۔ آخرسید توپھر سید ہوتاہے۔
زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ ایک طرف مولانا فضل الرحمن کا وہ بیان صحافیوں نے شائع نہ کیا تو دوسری طرف یہ خبر مولانا عطاء الرحمن کی طرف سے شائع ہوئی کہ ’’ سیکیورٹی فورسس کا شرعی اور حکومتی فرض ہے کہ دہشت گردوں کو قتل کریں‘‘۔ اس سے زیادہ تعجب اس بات پر تھا کہ طالبان اس واقعہ کی وجہ سے اختلافات کا شکار تھے، آپس میں لڑنے مرنے اور مارنے تک بات پہنچی ہوئی تھی، تو مولانا فضل الرحمن نے ان دونوں کو متحد کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔ سب سے بڑی تعجب کی بات یہ تھی کہ مولانا عطاء الرحمن بھی اپنے بھائی کے مشن سے بے خبر رہے ورنہ وہ کیوں جوشیلا بیان جاری کرتے۔ قوم مذہبی رہنماؤں اور سیاسی قائدین کی نااہلی اور ناعاقبت اندیشی دیکھ رہی ہے۔
فرقہ واریت ، شدت پسندی، انتہاپسندی اور دہشت گردی کی مقبولیت کے دور میں ہم نے اللہ کے فضل وکرم سے آندھی اور طوفان میں عدل واعتدال، میانہ روی اور صراطِ مستقیم پر گامزنی کا راستہ چن کر قوم میں علم وکردار کی روشنی دوسروں کو بھی مہیا کی ہے۔ سیاسی جماعتیں عوام نہیں کرپشن کا پیسہ ایک دوسرے سے لڑارہے ہیں ، قومی اسمبلی کیلئے قانونی طور پر پندرہ لاکھ سے زیادہ رقم خرچ کرنا غلط ہے مگر علیم خان و ایاز صادق اور صدیق بلوچ و جہانگیر ترین کے درمیان مقابلے میں میڈیا پرکروڑوں و اربوں کا تخمینہ لگایا گیا، گری قیادت پولیس اور دیگر ریاستی اداروں میں کیا اخلاقیات کا کوئی معیار قائم کرسکے گی؟ ۔اگراسلام کو معاشرتی طور سے اپنایا گیا ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا مسئلہ حل کیا گیا اور سیاست میں کرپشن اور ناہمواری کی فضاء ختم کی گئی تو پاکستان ناقابلِ تسخیر ہوسکتا ہے بلکہ بھارت کے مسلمانوں کی نظر میں بھی پاکستان اور پاکستانی مسلمانوں کا وقار اتنا بڑھ جائیگا کہ نہ صرف کشمیر کی آزادہوگا بلکہ حدیث کیمطابق بھارتی حکمران کو قید کر نے کی صلاحیت بھی پیدا ہوگی۔

مسئلہ کشمیر اور سیون سٹار جنرل راحیل شریف کی عزت کیوں ؟

بھارت خود کوجب دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے تو اسکے دماغ پر مظلوم کشمیریوں کا بھوت سوار ہوجاتا ہے۔اس کو ڈراؤنے خواب آنا شروع ہوجاتے ہیں، اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر کشمیریوں کی خود ارادیت اور استصوابِ رائے کے خوفناک مناظرسامنے آجاتے ہیں، اقوام متحدہ نے سوڈان کو بھی تقسیم کردیا، پنجاب میں راجہ رنجیت سنگھ اور کشمیر میں بھی سکھوں کی حکومت رہی ہے اور سکھ بھارت کے ہندؤں سے بالکل بھی خوش نہیں ہیں۔ کشمیر کے ساتھ ساتھ مشرقی پنجاب کے علاوہ مسلمانوں کی اکثریت اور بنگلہ دیش کے آزاد مملکت بن جانے کے بعد بھارتی بنگال بھی بنگلہ دیش سے مل سکتا ہے۔ ہندو فطری طور پر متعصب اور مسلمان محبت کرنے والا ہوتا ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا مفاد اپنے پڑوسی ملک بھارت کیساتھ دوستی کرنے میں ہے، پاکستان انڈیا کے ذریعہ ایشاء کا سب سے بڑا ٹائیگر بن سکتا ہے،روس اور اس سے آزاد ہونے والی ریاستوں ،افغانستان، ایران، ترکی اورعرب ویورپ تک بھارت کیلئے پاکستان زمینی اور سمندری حدود کا راستہ ہے جس سے بھارت بھی بخوبی فائدہ اٹھا سکتا ہے اور پاکستان کو بھی بہترین راداری کے ذریعہ بڑی آمدن مل سکتی ہے۔ ایک کشمیر تو بھارت کو بالکل تحفہ میں بھی پیش کردینا چاہیے۔ بنگلہ دیش کی علیحدگی ایک فطری عمل تھا لیکن بھارت نے خود کو خوامخواہ بدنام کردیاتھا۔
مجلس احرار کے قائدمولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے انگریز کے خلاف زندگی جیل اور ریل میں گزاری، ان کی تقریریں ریکارڈ پر ہیں، وہ سرِ عام لوگوں کو پاکستان کا نقشہ سمجھاتے تھے کہ اتنی دور ہماری فوجیں ایک دوسرے کی مدد بھی نہیں کرسکیں گی، اسلئے بنگلہ دیش کو الگ آزاد ہونے دو، اس پر ہندوؤں کا قبضہ نہیں ہوسکتا، وہ اپنی آزادی خود حاصل کریں گے۔ ہمارے لئے سب بڑا مسئلہ کشمیر کا ہے اور انگریز کے جانے سے پہلے اس مسئلہ کا حل ضروری ہے، ورنہ انگریز نے پہلے بھی ’’لڑاؤ اور حکومت کرو ‘‘ کی پالیسی اپنا کر ہمیں محکوم بنایا تھا، یہ مسئلہ کشمیر دوبارہ اس خطے میں انگریز کی مداخلت کا ذریعہ بن جائیگا۔ اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ایک کشمیر ہے لیکن حالات اور واقعات کا فائدہ اٹھاکر عالمی قوتیں پاکستان کے علاوہ بھارت، چین، ایران اور افغانستان سمیت پورے خطے میں تبدیلی کے خواہاں ہیں اور نئے انداز میں نئی صف بندی کے ذریعہ وہ کھیل کھیلنا چاہتی ہیں جس کی طرف ہم خود کو بھی خود ہی دکھیل رہے ہیں۔
بھارت کو دانشمندی کا مظاہرہ کرکے کشمیر سے اپنی جان ہی نہیں چھڑانی چاہیے بلکہ جنرل راحیل شریف کی خدمت میں خاص تحفہ کے طور پر پیش کرنا چاہیے، جس نے اس خطے میں دہشت گردی اور علیحدگی پسندی کے عالمی خوابوں کا چکناچور کیا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ جنرل راحیل کو 7سٹار جنرل بناکر کم ازکم اگلے پانچ سالوں کیلئے نہ صرف چیف آف آرمی سٹاف بلکہ چیف آف جوائنٹ اسٹاف کا عہدہ بھی ان کے سپرد کریں۔ نوازشریف کے قریبی ساتھی طلال چوہدری کو یہ کہتے ہوئے شرم بھی نہیں آتی ہے کہ ’’فوج پہلے منہ چھپاتی پھر رہی تھی، ہماری وجہ سے اس قابل ہوئی ہے کہ سامنے آسکے‘‘۔ ٹی وی ٹاک شوز میں اسکے یہ تأثرات سن کر بہت افسوس ہوا تھا۔
جنرل راحیل شریف کیوجہ سے بلوچستان کے بلوچ، پختونخواہ کے پختون، کراچی کے مہاجر اور پورے پاکستان کے تمام شہریوں نے سکھ کا سانس لیاہے ۔ جمہوریت کو بچانے کیلئے فوج سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔جمہوریت کیلئے سب سے بڑا خطرہ خود جمہوری جماعتیں ہیں، جن کا اپنا ایجنڈہ اپنی جماعتوں میں بادشاہت اور ڈکٹیٹر شپ ہے۔ ایم کیوایم کے بانی الطاف حسین سے بڑا ڈکٹیٹر ، ظالم اور جاہل متکبر عمران خان ہے۔ جس طرح طالبان دہشت گردوں کی بے ضمیری اور بے غیرتی سے حمایت کررہا تھا، اس میں عقیدے اور نظرئیے کے کوئی عمل دخل نہیں تھا بلکہ غیرت کا فقدان تھا۔ عمران خان کیلئے برکی بوٹ ہاؤس ٹانک کے مالک گل شاہ عالم خان برکی نے بہت ہی زیادہ جدوجہد کی تھی لیکن جب طالبان نے اس کو زندہ غائب کردیا تو اس پر اظہارِ مذمت تو بہت دور کی بات ہے اظہارِ افسوس بھی نہ کیا۔ کراچی میں زہرہ شاہد کے قتل کے بعد عمران خان کافی عرصے بعد خصوصی ہیلی کاپٹر سے کراچی آئے ، بڑے جلسہ عام سے خطاب کیا ، دو لفظ کی مذمت تک نہ کی اور تعزیت کیلئے بھی نہ گئے۔ یہ بہادری ہے یا بے غیرتی؟۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے نواز شریف کو چیلنج کیا ہے کہ بھارت نے اس کو پاکستان میں برسر اقتدار لانے کیلئے سرمایہ کاری کی ہے۔ قادری صاحب کے سچ اور جھوٹ کو پنجاب والے جانیں لیکن ایم کیو ایم کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ن لیگ کی حکومت لڑانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ دو چار اس طرح کے اور ایشوز کھڑے کئے جائیں گے اور پھر جنرل راحیل شریف کو رخصت کردیا جائیگا۔ جنرل راحیل شریف خود اقتدار کے بھوکے ہوتے تو انکے حق میں کوئی بھی آواز نہ اٹھاتا۔ اس شخص نے پوری قوم پر امن و سلامتی کے حوالے سے بڑا احسان کیا ہے اور نواز شریف پانامہ لیکس کی وجہ سے خوفزدہ ہیں۔ اسلئے جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کبھی نہیں کریں گے۔
پرویز مشرف نے آخر کار نواز شریف کی پالیسی پر عمل پیرا ہوکر کشمیر کا سمجھوتہ ایکسپریس کرنا تھا اور اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے اپنی وردی کو اپنی کھال بھی قرار دیا تھا۔ عمران خان سمیت مفاد پرست قسم کے لوگوں کو بھی پرویز مشرف نے اپنے لئے استعمال کیا تھا۔ وہی مفاد پرست لوگ اب عمران خان اور نواز شریف کی پارٹیوں میں کلیدی کردار ادا کررہے ہیں۔
پاکستان کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے کرنی ہے ، جنرل راحیل شریف عزت کے ساتھ رخصت ہوجائے تب بھی ان بدبخت سیاستدانوں اور جرنیلوں کا قلع قمع ہونا ہے جنہوں نے مملکت خداداد پاکستان کو اپنے ذاتی مفادات کیلئے ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا ہے۔ جنرل راحیل شریف نے ہر جگہ سے شدت پسندوں اور دہشت گردوں کو ختم کرکے چھوڑا ہے۔ جو مذہبی اور سیاسی جماعتیں ان کے بل بوتے پر عوام کے سامنے کھڑی رہ سکتی تھیں انکے خاتمے کے بعد نہتے عوام حکمرانوں کا بخوبی مقابلہ کرسکتے ہیں۔ ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کو اپنی فتح سمجھنے والے شہباز شریف اور نواز شریف اس بات کو یاد رکھ لیں کہ اب لشکر جھنگوی کے سیدھے سادے لوگ تمہاری حفاظت نہیں کرینگے۔
شہباز شریف نے پنجاب میں مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی کی بیساکھیوں پر کھڑی حکومت کے خاتمے پر جس طرح کا احتجاج کیا تھا ، اتنے جذبات سے تو ملا فضل اللہ کے سسر صوفی محمد نے بھی ریاست کے خلاف بغاوت کی آواز نہیں اٹھائی ہے۔ جنرل راحیل شریف نے سارے محاذ فتح کرلئے ہیں مگر پنجاب ابھی باقی ہے۔ جہاں عصمت دری کے سب سے زیادہ واقعات ہوتے ہیں جو فرقہ پرستی اور شدت پسندانہ نظریات کیلئے گڑھ کی حیثیت رکھتا ہے ، جنرل راحیل شریف کے جانے کے بعد یہ لوگ طالبان ، لشکر جھنگوی ، ایم کیو ایم ، بلوچ شدت پسند، پیپلز پارٹی اور دیگر لوگوں سے معافی تلافی کرلیں گے کہ ہم مجبور اور معذور تھے اسلئے معافی چاہتے ہیں۔
اگر جمہوریت اور سسٹم کو بچانے کی فکر ہو تو سب سے پہلے نواز شریف اپنے بچوں کے سب اثاثے بیرون ملک سے پاکستان منتقل کردے۔ ماڈل ایان علی کی طرح پورے خاندان پر جب تک کورٹ فیصلہ نہ کرلے بیرون ملک جانے پر پابندی لگائی جائے۔ مسلم لیگ ن کے سابق وزیر صدیق کانجو کے بیٹے مصطفی کانجو نے بیوہ کے اکلوتے بیٹے کو قتل کردیا اور پھر اس پر دہشت گردی کا دفعہ ختم کرکے ریمنڈ ڈیوس کی طرح بیرون ملک بھیج دیا۔
اصغر خان کیس کے جرم کا بھی فوری طور پر فیصلہ سنا کر نواز شریف اور دوسرے ملوث لوگوں کو قرار واقعی سزا دی جائے اور نہ اہل قرار دے کر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی طرح گھر نہیں بلکہ جیل بھیج دیا جائے۔ وہاں اس کو پتہ چلے گا کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے کہ نہیں؟۔ ہر معاملے پر جھوٹ اور پیسوں اور میڈیا پر اشتہارات کی بھرمار سے خوشحالی کا جشن منایا جارہا ہے مگر قرضہ لے لے کر ملک کا دیوالیہ کردیا ہے۔ اقتصادی راہداری اور موٹر وے کو ملانے کیلئے نام وسطی ایشیائی ریاستوں کا لیا جارہا ہے اور افتتاح اسکے بالکل برعکس لاہور سے سیالکوٹ بھارت کی طرف کیا جارہا ہے۔ عمران خان اور پرویز خٹک بھی عقل سے عاری ہیں ، سوات موٹروے کے بجائے پشاور سے ڈیرہ اسماعیل خان موٹر وے بنائی جاتی تو ملتان سے ڈیرہ اسماعیل خان تک کوئٹہ ، گوادر ، کراچی کا ٹریفک اسی شارٹ کٹ کی طرف منتقل ہوجاتا۔ پختونخواہ کے عوام کو کراچی ، جنوبی پنجاب ، کوئٹہ اور گوادر کیلئے سہولت سے ایک بہترین شاہراہ کا اہتمام بھی ہوجاتا۔ سوات میں موٹروے بنانے سے پہلے بڑے پیمانے پر پن بجلی سے نہ صرف پختونخواہ بلکہ پورے پاکستان کو روشن کیا جاسکتا ہے سیاستدان صرف شہرت اور تجارت کا تجربہ رکھتے ہیں باقی کچھ نہیں۔ عبد القدوس بلوچ

بگڑے الطاف حسین کے سدھرنے کا راستہ کیا ہے؟

الطاف حسین کی جو باغیانہ ویڈیو دکھائی جارہی ہے اس میں وہ کہتا ہے کہ اللہ اور اسکے نبیﷺ کے نام پر یہ ملک انگریز نے دھوکے سے بنوایاتھا۔ پھر وہ پاکستان توڑنے کیلئے اسرائیل، بھارت اور امریکہ وغیرہ سے مدد لینے کی باتیں کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جن لوگوں نے برصغیر کی آزادی کیلئے قربانیاں دی تھیں وہ تو تقسیم ہند اور آزادی کے بعد غدار ٹھہرے مگر ان کے وفادار سردار، نواب ، وڈیرے ، بیروکریٹ اور فوج اس ملک کے محبِ وطن قرار دئیے گئے۔ برطانیہ آج بھی ہمارا منہ چڑا رہا ہے کہ 70سال کی آزادی کے بعد بھی ہمارے بنائے گئے ادارے اور ان کی اولادیں تم پر حکمرانی کررہی ہیں۔ یہ مشہور بات ہے کہ گورے چلے گئے اور ان کی جگہ نااہل کالوں نے اقتدار سنبھالا ہے۔
الطاف حسین سیاستدانوں کیخلاف اس قسم کے درس وتدریس دیتا رہتا ہے اور اس میں وزن بھی ہے۔ یہ باتیں دوسرے بھی کرتے ہیں،البتہ یہ بہت ہوچکی ہیں، انگریز گیا، اب یہ ہمارا اپنا ملک ہے، اپنا نظام ہے، اسلام کو نافذ کرنے میں بھی بالکل دیر نہ لگتی مگراسلام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مذہبی طبقہ ہے، اس نے اسلام نہیں خود ساختہ غیرفطری فرقہ کا نام اسلام رکھ دیاہے جو کوئی اور بلاہے، جس دن علماء نے اسلام قبول کیا اور عوام کو فرقہ واریت کی لعنت سے نکالا تو اسلام رائج ہونے میں دیر نہ لگے گی۔ جب علماء اور مذہبی طبقہ اسلام نہیں چاہتا تو ریاستی اداروں کا یہ کام ہی نہیں ہے۔ اسلام معاشرے کے ہر چول کو سیدھا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
الطاف بھائی جان اور بہت لوگوں کے دل ودماغ میںیہ بات بیٹھی کہ مہاجرین بانیانِ پاکستان کی اولاد ہیں۔ ہوں گے مگر حقائق دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے انسان کو احسن تقویم قرار دیاہے توساتھ میں یہ بھی یاد دلایا کہ ’’ انسان کو منی کے قطرے سے پیدا کیا ہے‘‘۔ انسان اس حقیقت کا ادراک کرلے تو وہ احسن تقویم پر اترائے گانہیں،اپنی اوقات مشکل میں نہیں سہولت میں بھی یاد رہے گی۔
اصل بات یہ ہے کہ مہاجرین ہجرت نہ کرتے تو پاکستان کا ادھورا رہ جانا غلط فہمی ہے۔ جن علاقوں کی اکثریت نے پاکستان کو ووٹ دیا، ان کی وجہ سے پاکستان بنا، پاکستان پہلے بنا اور ہجرت بعد میں ہوئی، اسلئے یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ مہاجروں کے آبا واجداد نے ہجرت کرکے پاکستان بنایا ہے۔پاکستان مہاجرین کیلئے بہترین پناہ گاہ تھا، پاکستان کے مہاجرین پر احسانات ہیں، جنرل راحیل شریف اور نوازشریف بھی مہاجر کی اولاد ہیں، عزت ، دولت ، شہرت اور اقتدار پاکستان کا کمال ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان بننے پر قربانیوں کا سامنا موجودہ مہاجرین کے آبا واجداد کو کرنا پڑا، خاندان تقسیم ہوگئے، راستے میں قافلے لٹ گئے، آبادیوں پر حملوں سے عوام کو نقصان پہنچا۔ تاہم اگر وہ اپنے پڑوسیوں کیساتھ بناکر رکھتے، اچھے انداز میں طرزِ زندگی گزارتے تو ان کیلئے اس طرح کی مشکلات کا بھی سامنا نہ کرنا پڑتا، بٹ کے رہے گا ہندوستان ، لے کے رہیں گے پاکستان کا نعرہ لگانے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ اب یہ غلطی دوبارہ دہرائی جائے کہ بٹ کے رہے گا پاکستان لے کے رہیں گے ۔۔۔ تو یہ غلطی کا ازالہ نہ ہوگابلکہ غلطی پر غلطی اسلئے ہوگی کہ کراچی پاکستان کا دارالخلافہ تھا، اب سندھ کا دارالخلافہ ہے ، اسکو کاندھے پر اٹھاکے تو نہیں لائے تھے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں غریب مسلمان مہاجرین کو بڑے امیرقسم کے ہندؤں کی جائیدادوں کا مالک بنایا گیا، متحدہ ہندوستان میں بیوروکریسی اور دیگر شعبوں میں اتنی آسانی کیساتھ نوکریاں نہیں مل سکتی تھیں جتنی پاکستان میں ملی تھیں۔
میرا ایک دوست ہے جنکے والد صاحب ؒ سے بھی زبردست تعلق تھا، انہوں نے بتایا تھا کہ ہندوستان میں شکار کرکے پرندوں کا کچا گوشت کھاتے تھے۔ آج بھارت کے مقابلہ میں مسلمان مہاجرین کی حالت ماشاء اللہ بہت بہتر ہے۔ ناسمجھ عوام کو یہ شعور دینے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کوئی بستر نہیں جو اٹھاکر لایا گیا ،کچھ کھویا نہیں پایاتھا، پاکستان پر نہیں پاکستان کا احسان ہے۔ بنگالی اردو کی وجہ سے دور ہوئے، مہاجرین نے بنگالیوں پر ریاست کیساتھ مل کر ظلم کیا۔ایم کیوایم کیساتھ ریاست نہ ملی ہوتی تو مسلمانوں کا سب سے بڑا شہر سب سے بڑی قتل گاہ نہ بنتا،ریاست نے اپنا خفیہ ہاتھ ہٹالیا تو سرِ عام کھلی بدمعاشی کرنے والوں کی عاجزی سب کو قابل رحم نظر آتی ہے۔محمودالرحمن کمیشن میں آرمی چیف یحییٰ خان ، ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن کو بنگلہ دیش کی علیحدگی کا ذمہ دار ٹھہرا یا گیا ہے۔
پاکستان آج اردو زباں سے جڑا ہوا ہے، اردو کو سرکاری اور دفتری زباں بنانے کیلئے سب سے پہلے متحدہ مجلس عمل کی حکومت نے پختونخواہ میں اعلان کیا مگر پرویز مشرف کے سابقہ جگری یار چوہدری افتخار نے اس میں رکاوٹ ڈالی حالانکہ بیچارے کو خود بھی انگریزی لگتاہے کہ بالکل نہ آتی تھی۔ اگر یہ ملک اللہ اور اسکے رسول ﷺ کے نام پر بنا ، الطاف بھائی جان کے آباو اجداد نے اسی وجہ سے یہاں ہجرت کی تھی تو کم ازکم موٹی موٹی باتوں کا خیال رکھنا پڑیگا۔ اللہ نے زمین میں خلیفہ پیدا کرنے کی بات فرمائی تو فرشتوں نے اعتراض کیا کہ کیا ان کو پیدا کروگے جو زمین میں فساد پھیلائیں اور خون بہائیں؟۔ اللہ نے فرمایا کہ میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ اللہ نے غصہ نہیں کیا کہ تم کون ہوتے ہو؟۔ بابر غوری نے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا تو الطاف بھائی نے کہا کہ تم کون ہوتے ہو، جب میں نے مردہ باد کا نعرہ لگایا ہے۔ یہ طرز عمل اسلام اور مسلمانیت کے منافی ہے اور جب غزوہ احد میں بعض لوگوں نے سمجھا کہ رسول اللہﷺ کو شہید کیا گیا تو وہ بھاگے ، اللہ نے فرمایا: ومامحمد الا رسول قد خلت من قبلہ رسل أفان مات او قتل انقلبتم علیٰ اعقابکم ’’ اور محمد کیا ہیں؟ ، مگر ایک رسول ، بیشک آپؐ سے پہلے بھی رسول گزرچکے ہیں، اگر آپ فوت ہو جائیں یا شہید کردئیے جائیں تو تم کیا الٹے پاؤں پھر جاؤگے؟‘‘۔
ایم کیوایم کا یہ نعرہ کہ منزل نہیں رہنما چاہیے، ایک انتہائی لغو بات ہے، نبیﷺ سے ایک خاتونؓ کے بارے میں سورۂ مجادلہ کے اندر اختلاف کا ذکر ہے۔ حضرت عمرؓ نے بدر کے قیدیوں اور دوسرے معاملات پر اختلاف کیا تھا، حدیث قرطاس کا واقعہ بھی مشہور ہے۔ الطاف بھائی جان کو کھل کر اعلان کرنا چاہیے کہ بابر غوری، فیصل سبز واری اور جن خواتین نے میری وجہ سے طیش میں آکر پولیس اور میڈیا پر حملہ کیا ان سب سے اور اپنے تمام عقیدتمندوں سے معافی مانگتا ہوں۔ پاکستان کے تمام وہ افراد جن کو جسمانی، ذہنی اور روحانی تکلیف پہنچی ہو، وہ معاف کردیں، مجھے پکایقین ہے کہ الطاف بھائی مصطفی کمال سے بڑھ کر روئیں گے ۔الطاف بھائی کامعاملہ بڑا نہیں ،قرآن وسنت سامنے ہو تو توبہ کرنے میں دیر نہ لگے ، بغاوت کرنے والے بھی جی حضوری کی سزا کھا رہے ہیں۔ جبراورکبر نہیں پیار محبت سے ہی اصلاح ممکن ہے۔
نوازشریف نے جلاوطنی میں الزام لگایا کہ زرداری کیخلاف مقدمات پر ISI نے مجبور کیا تھا۔ جس کا ذکر سہیل وڑائچ کی کتاب میں ہے۔ نوازشریف جسکے بھی مجرم ہوں وہ آسانی سے معافی مانگنے والے نہیں لگتے ہیں۔ کراچی کی اکثریت فوجی سپاہیوں کی طرح ہیں، ان کو آرڈر پر ہی لبیک کہنا آتا ہے۔ غریب آبادیاں قربانی کے عید میں بھی گوشت سے محروم ہوتی ہیں اور کھالیں جمع کرنے والے اگر غریبوں کو گوشت پہنچانے پر بھی لگادئیے جاتے اور کھالیں انہی کو دیدی جاتیں تو شاید زمین والوں پر رحم کرنے سے آسمان والا ہم پر بھی رحم کرتا۔ جنرل نیازی کے پیچھے انڈیا میں لوگ اتنے نہ پڑے ، جتنے ڈاکٹر فاروق ستار کے پیچھے ہاتھ دھوکے پڑگئے ہیں ۔ بعض صحافی توصحافت نہیں گدھوں کے سلوتری ہونے کے قابل لگتے ہیں۔ عتیق گیلانی

عبرت آموزتاریخی اور معروضی حقائق کو نظرا نداز نہ کریں

صلح حدیبیہ کے معاہدے پر صحابہ کرامؓ جذباتی ہورہے تھے لیکن رسول اللہﷺ نے اپنی صوابدید پر فراخ دلی کا مظاہرہ کرکے عالم انسانیت کو حوصلے کا زبردست سبق سکھایا، فتح مکہ کے موقع پر دشمن زیردست تھے مگر رسول اللہﷺ نے دشمن سردار ابوسفیانؓ کو عزت بخشی، حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ کاش ! نبی ﷺ کے پاس پہنچنے سے پہلے میرے ہاتھ لگ جاتا تو اسکی گردن اڑا دیتا، جب حضرت ابوبکرؓ کی خلافت قائم ہوئی تو حضرت ابوسفیانؓ نے حضرت علیؓ سے کہا کہ ’’ ابوبکرؓ ایک کمزور قبیلہ سے تعلق رکھتا ہے، اسکو مل کرہٹاتے ہیں، آپ خلیفہ بن جائیں، میں تمہاری مدد کرتا ہوں‘‘۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ ’’ابھی تک تمہارے دل سے اسلام کی دشمنی نہیں نکلی ہے؟‘‘۔ حضرت عمرؓ نے امیرمعاویہؓ کی صلاحیت کی وجہ سے وہ ذمہ داری سپرد کردی ،جس پر پہلے سے ایک مکی صحابیؓ مأمور تھے، جن کو رسول اللہﷺ نے مقرر کیا تھا۔
حضرت عکرمہؓ بن ابوجہل نے اسلام قبول کیا تو دل میں بھی باپ کی شکست پر خفا نہ ہوئے اور نہ اپنی اولاد میں دشمنی کا کوئی خواب چھوڑا، اسلئے کہ ابوجہل مردانہ وار لڑا اور بدر میں قتل ہوا، لڑنے میں کوئی مارا جائے یا دوسرے کو مار دے، اس میں عزت کی خرابی کا مسئلہ نہیں ہوتا ہے، اسکے برعکس ابوسفیانؓ کے قصے روایات کا حصہ ہیں، یزید نے بھی ضرور سنے ہونگے، اسلئے کربلا کے واقعہ کے باوجود اس کا دل ٹھنڈا نہ ہوا، اس کے علاوہ روایات میں اہلبیت کے مقابلے میں بھی سفیانی کا ذکر ہے ایک روایت میں تین سفیانی کے مقابلے میں تین مہدیوں کا ذکرہے۔
جنرل ایوب نے میر جعفر کے پوتے سکندر مرزاکو صدارت سے ہٹاکر بنگال کو علیحدہ کرنے کی بنیاد ڈالی، ذوالفقار علی بھٹو نے لسانیت کو ہوا دینے کی بنیاد رکھ دی ۔ جنرل ضیاء نے فرقہ واریت و لسانیت کی آبیاری کی، پرویزمشرف نے تناور درختوں کے پھل کھائے، دنیا نیوز کے اینکرکامران شاہدنے ایک پروگرام میں دکھایا کہ ISI ذوالفقار علی بھٹو کے مرنے پر اس کے ختنہ کی تصویر لے رہے تھے تاکہ اس کو ہندو اور کافر ثابت کیا جاسکے۔ یہ بھونڈی حرکت اس قائد عوام سے روا رکھی گئی جس نے بڑی تعداد میں انڈیا سے گرفتار فوج کو آزادی دلائی تھی اور کراچی میں ہتھیار ڈالنے والے جنرل نیازی کا شاندار استقبال کروایا تھا۔ جنرل ضیاء کے سیاسی فرزند اور پاک فوج کے خود ساختہ رہبر صحافی ہارون الرشید میں قربانی کااتنا جذبہ تھا کہ کامران شاہد کو کہہ سکتے تھے کہ کیمرہ مین نے اصل میں انکے دماغ کا ایکسرے کیا ہے ، یہ ا سکے سر کی تصویر تھی، ہارون الرشید تو اب بھی کہے گا کہ’’ ختنہ سے کیا ہوتا ہے ،بھٹو تو ہندو تھا‘‘۔
کامران شاہد کے پروگرام میں جوابدہ کے افتخاراحمد نے جنرل راحیل شریف کی تعریف شروع کی تو ہارون الرشید کا فق چہرہ دیکھنے کے قابل تھا، عجیب قسم کی آہ بھی نکلی مگر جب افتخاراحمد نے کہا کہ جنرل راحیل کو توسیع نہیں لینی چاہیے تو ہارون کی جان میں جان آئی۔ شہبازشریف کامران کیانی کے ساتھ کرپشن کرپشن کھیلتا تھالیکن ہارون الرشید اور شریف برادران کو صرف زرداری کی کرپشن کا وایلا مچانا آتاتھا۔ اگر عوام کو شعور نہیں دیا گیا تو کینسر کی حیثیت رکھنے والے سیاستدان اور چاپلوس صحافی پاکستان کو ہر محاذ پرکافی اور ناقابلِ تلافی نقصان پہنچائیں گے۔ جو صحافی ہیجڑوں کی طرح حرکات کرتے ہیں ان کی وجہ سے عوام میں کبھی شعور بیدار نہ ہوگا۔
جب جنرل نیازی مرحوم نے ہتھیار ڈال کرانڈیا کے سامنے پاکستان کی ناک کاٹ دی تو حکومت اور ریاست اس کو اپنے ملک میں لانے کی بجائے بھارت سے سیدھا کسی دوسرے ملک میں بھیج دیتے، کراچی میں استقبال کی بجائے چند ٹماٹر کے وار بچوں سے بھی کروادئیے جاتے تو عوام کا شعور اجاگر ہوتا۔جنرل نیازی کے استقبال کیلئے کراچی کے جو بے شعور عوام نکلے تھے ،یہی تو الطاف حسین کے مرید ہیں؟۔ آدھا ملک ڈبونے سے زیادہ کیا نشہ کے نعروں کا حساب ہوسکتا ہے؟۔جب ریاست شعور بڑھانے کا اہتمام کریگی پھر پیروں، فقیروں اور لیڈروں کے جھانسے میں بھی لوگ نہیں آئیں گے۔ صحافیوں نے پیسہ نہیں کھایا ہے تو کچھ اس طرح کا سوالنامہ مرتب کریں کہ ایم کیوایم کے لوگوں کو عدل واعتدال نظر آئے۔
طالبان نے پورے پاکستان میں قتل وغارتگری کا بازار گرم کرکے جی ایچ کیو، آئی ایس آئی ملتان، مہران کراچی سے لیکر کیا کچھ نہیں کیا؟۔ اس وقت پاکستان کا درد رکھنے والے وہ رہنما کہاں تھے جو ہاتھ میں تسبیح لیکراداکارہ کی طرح میک اپ کرکے سج دھج کر ٹاک شوز میں بیٹھتے ہیں؟۔ ڈاکٹر عامر لیاقت پر رحم آرہا تھاجب یہ منظر دکھایا جاتا تھا کہ صحافی اس کا چھلکا اتار رہے ہیں، اسی سے مجبور ہوکر اعلان کردیا کہ ’’میں نے سیاست چھوڑ دی ہے‘‘۔ اگر وہ اتنی بات کرتا کہ میں فوج اور ایم کیوایم کے درمیان دوریاں ختم کرنا چاہتا تھا لیکن یہ میرے بس میں نہیں،یہ میری اوقات نہیں کہ کردار ادا کرسکوں تو بہتر ہوتا۔ اس نے ایک آنکھ ایم کیوایم کے کارکنوں کو ماری کہ ’’ میں غدار ہوں، اپنی اوقات دیکھ لی، تمہارے لئے کام نہیں کرسکتا‘‘تو دوسری اسٹیبلشمنٹ کو ماری کہ ’’بول نہیں سکتا لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا، ایم کیوایم الطاف کے بغیر چل نہیں سکتی اور رابطہ نہ رکھنا بس میں نہیں‘‘۔
اب تو لوگوں کو یقین ہوگیا ہے کہ ڈاکٹر عامر لیاقت پر دباؤ پڑجائے کہ تم مذہب کا نام کیوں لیتے ہو؟۔ عالم آن لائن پروگرام کیوں کیا؟۔ تو بیگم نواز ش علی کی طرح خاتون کا کردار ادا کر کے بہترین ڈانس بھی دکھائے گا اور کہے گا کہ میں تو مذہب کو بھی اسی پیشے کی طرف ہی لارہا تھا۔ اگر صحافی اسکے پیچھے نہ پڑتے تو ایم کیوایم میں رہ کر اچھا کردار ادا کرسکتا تھا۔ خواجہ اظہار سے ترجمانی کی اس میں زیادہ صلاحیت ہے مگر صحافیوں نے اس کو نہ ادھر کا چھوڑا نہ ادھرکا، حالانکہ دونوں کو ضرورت تھی۔
نوازشریف نے بھارت میں جاکر کھلے عام اپنے فوج کی مخالفت کی تھی، کیا یہ رویہ الطاف حسین کی طرف سے اپنے کارکنوں میں نشہ سے دھت ہوکر بکواس کرنے سے کم ہے؟۔ عمران خان نے اسوقت جب ضرب عضب آپریشن ابتدائی مرحلہ میں تھا، دھرنے کے دوران کہا کہ ’’پنجاب پولیس کو ہم طالبان کے حوالہ کردینگے‘‘۔ حکیم اللہ محسود کی ویڈیو کلپ ’’سلیم صافی‘‘ نے جرگہ میں دکھائی تھی جب وہ قاضی حسین کو مسلمان نہیں قوم پرست قرار دے رہا تھا، اسلئے کہ امریکہ کے اتحادی افغان فوج اور پاک فوج میں تفریق کرنا اسلام نہیں قوم پرستی ہے لیکن طالبان قیادت سے شہباز اور چوہدری نثار کی ہمدردیاں کسی تعارف کی محتاج نہ تھیں۔ چوہدری نثار نے بار بار میڈیا پر اس بات کو دہرایا کہ پرویزمشرف چیف آف آرمی سٹاف تھے تو لندن میں الطاف بھائی کو مروانے کا منصوبہ بنارہے تھے مگر میں نے روکا کہ ریاست بدنام ہوگی۔
کراچی میں پولیس اور میڈیا پر ایم کیوایم کے کارکنوں نے حملہ کیا اور اسلام آباد میں دھرنے کے دوران پولیس کے افسر اور پی ٹی وی پر بھی حملہ کروایا گیا لیکن عمران خان اور ڈاکٹرطاہرالقادری پر انگلیاں نہیں اٹھائی گئیں۔ الطاف حسین کا دماغ بہت خراب ہے اسلئے اپنوں نے بھی اس سے دستبرداری کا اعلان کیا لیکن وہ سیاست میں نوازشریف ، عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی طرح نہیں ۔ ڈاکٹر فاروق ستار کو دیکھ لیں ، جس کا شمار ایم کیوایم کے بانیوں میں ہوتا ہے، مشکل حالات میں متوازن فیصلے کرکے پاکستان میں سیاست کی نئی بنیاد رکھ دی ہے۔
اگر جنرل راحیل شریف الطاف حسین کو پیار سے پاکستان لائیں تو اس کو ایسا ہی ماحول مل جائیگا جس سے نہ صرف سندھ کے شہری علاقوں بلکہ پاکستان میں بھی نئے انداز کی سیاست کا آغاز ہوجائیگا۔ جب طالبان کو موقع دیا گیا تو ایم کیوایم کے قائد کو بھی ضرور یہ موقع ملنا چاہیے۔ امید ہے کہ مثبت تبدیلیاں اسکے ذریعہ آئیں گی۔عتیق گیلانی