پوسٹ تلاش کریں

پاکستان کی نظریاتی ریاست ( حقائق کے تناظرمیں)

quaid-e-azam-congress-party-habib-jalib-abdul-sattar-khan-niazi-mqm-taliban-bhutto-sharab-par-pabandi

پاکستان کے دامن میں خلوص کے سوا کچھ نہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح نے کانگریس کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کیا۔ ہندوؤں کا متعصبانہ رویہ دیکھ کر مسلم لیگ کی کیمپ میں شامل ہوگئے۔ مسلم لیگ کیا تھی؟۔ نفرت پھیلانے میں انگریز سرکار کی ایک وفادار کٹھ پتلی جماعت!۔ البتہ اس میں نظرےۂ خلافت کے علم بردار محمد علی جوہر اور علامہ اقبال جیسے جدوجہد کرنے والے مخلص لوگ بھی تھے۔ قائداعظم نے بھی کانگریس چھوڑ کر مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں کے حقوق کیلئے جدوجہد شروع کردی۔ فرقہ وارانہ اور سیاسی مذہبی جماعتوں نے کھل کر پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ کے نعرے کی زبردست مخالفت شروع کی۔
اگرچہ بت ہیں جماعت کے آستینوں میں مجھے ہے حکمِ اذاں لاالہ الااللہ
مشرقی اور مغربی پاکستان وجود میں آگیا، کیونکہ ایک طرف ایک قومی نظریہ تھا جو متحدہ ہندوستان کا تقاضہ کررہاتھا اور دوسری طرف دوقومی نظریہ تھا، ہندومسلم دو الگ الگ ملتیں ہیں جو ہندوستان کی تقسیم اور نظریۂ پاکستان کا تقاضہ کررہاتھا۔ 2013ء کے الیکشن پر تحریک انصاف کا الزام تھا کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور چوہدری افتخار کی قیادت میں فوج اور عدلیہ نے مل کر ن لیگ کو دھاندلی سے جتوایا اور اب ن لیگ الزام لگارہی ہے کہ فوج اور عدلیہ مل کر ن لیگ کو آؤٹ اور تحریکِ انصاف کو اقتدار میں اِن کررہی ہے۔ 2013ء میں دونوں میں کانٹے کا مقابلہ ہورہاتھا اسلئے پتہ نہیں چل رہاتھا کہ اقتدار ن لیگ کو ملے گا یاتحریک انصاف کو مگر دونوں اسٹیبلشمنٹ کی منظورِنظر جماعتیں تھیں۔ طالبان کے جگری یار وں میں پتہ نہیں چل رہاتھا کہ اسٹیبلشمنٹ کا گودی بچہ کون بنے گا؟۔ ایم کیوایم، پیپلزپارٹی، اے این پی اور طالبان کی سرپرست سمجھی جانے والی مذہبی جماعتوں جمعیت علماء اسلام اور جماعتِ اسلامی کی قیادت بھی دہشت گردوں کے نشانے پر تھیں۔
پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ مخالف اور اسٹیبلشمنٹ کٹھ پتلی بیانیہ ہمیشہ رہاہے مگر اس کو حقائق کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جب پاکستان بن گیا تو سیاسی قیادت محمد علی جناح، فاطمہ جناح، نوابزادہ لیاقت علی خان اور بیگم راعنا لیاقت علی خان پر مشتمل تھی۔ قائد اعظم فوت ہوگئے۔ لیاقت علی خان کو شہید کردیا گیا۔ پاکستان پر سول بیوروکریسی کی حکومت تھی۔پہلے دو آرمی چیف انگریز تھے۔ مہاجر بڑی تعداد میں بھارت سے آئے تھے، بعض نے محسوس کیا کہ اسلام محض دھوکہ تھا اور جنکے پاس باہر جانے کی گنجائش تھی وہ پاکستان چھوڑ کر چلے گئے۔ ہندؤں کی جگہ زمین و مکان کے غلط کلیموں و قبضہ نے پاکستان میں بے ایمانی ، بے انصافی اور دھوکہ بازی کی بنیاد رکھ دی۔انگریز کی بدترین غلام سول وملٹری بیوروکریسی کو اقتدار مل گیا، نااہل لوگ بڑی پوسٹوں پرآئے جسکے نتیجے میں سیاسی ، نظریاتی اور اسلامی لوگوں کو ان حالات کا سامنا کرنا پڑا کہ انگریز نے بھی وہ مظالم نہ کئے ۔ ختم نبوت کی تحریک میں شامل لوگوں کو غیرمسلم و غدار قرار دیا گیا ۔ مولانا عبدالستار خان نیازی کو خوف کے مارے داڑھی منڈوانی پڑگئی۔ لیگی علماء ومفتیان نے ختم نبوت والوں کو کانگریس کا ایجنٹ، ملک اور اسلام کا غدار کہنا شروع کیا تھا۔
حبیب جالب اور مولانا عبدالستار خان نیازی کی دوستی تھی، حبیب جالب کی آپ بیتی میں لکھا ہے کہ ’’ مولانا عبدالستار خان نیازی میرے پاس آتے تھے اور کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے خواب میں فرمایا کہ’’ جالب کو میرا سلام دینا‘‘۔ حبیب جالب نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’ بھٹو نے سب سے بڑی غلطی یہ کی تھی کہ شراب پر پابندی لگائی تھی اور اس کی سزا اس کو مل گئی، کیونکہ شراب واحد وسیلہ تھا کہ جو پی کر آمروں اور ظالموں کے سامنے حق کی آواز بلند کی جاسکتی تھی‘‘۔ جبکہ قرآن میں شراب کے اندر منافع کا ذکر ہے اور ابتدائے اسلام میں اس پر پابندی نہیں تھی اور ظلم کے خلاف آواز اُٹھانے سے بڑا فائدہ شراب کا نہیں ہوسکتا ۔
جب پاکستان میں سول بیوروکریسی نے انصاف اور اسلام کا کباڑہ کیا تھا تو جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت ہے لیکن اگر وہ اقتدار پر قابض ہوں تو اچھی ریاست ، سیاست اور صحافت کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ فاطمہ جناح پر بھی ایجنٹ کے الزامات لگے۔ سول بیوروکریسی میں مہاجرین اکثریت تھی اور سیاست ولی خان، غوث بخش بزنجو، عبدالصمد خان اچکزئی شہید، عطاء اللہ مینگل ، حاکم علی زرداری ، جالب اور نوابزادہ نصر اللہ خان ومفتی محمود جیسے قائدین کے ہاتھوں میں تھی۔جنرل ایوب کی طرف سے ذوالفقار علی بھٹو کو میدان میں لایا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پنجاب کی فوجی اسٹیبلشمنٹ اور مہاجرین کی سول اسٹیبلشمنٹ کا ناطہ توڑ کر سندھ اور پنجاب کا گٹھ جوڑ کرادیا۔ مہاجروں کی سول بیوروکریسی کو بڑے پیمانے پر اقتدار سے باہر کیا۔ بھٹونے غلام سول بیوروکریسی کے قبضے سے اقتدار چھڑانے کیلئے میرٹ کا بھی خاتمہ کردیا۔ کوٹہ سسٹم سے نالائق طبقوں کو اقتدار میں آنے کا موقع دیا۔ پھر بنگلہ دیش نے آزادی حاصل کرلی اور بھٹو نے سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھالا، بڑی تعداد میں قید ہونے والی پاک فوج کو بھارت کی قید سے آزادی دلائی گئی۔
قائداعظم کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کو قائدِعوام کا خطاب ملا۔ بھٹونے قادیانی کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا، اسلامی کانفرنس سے اُمہ کو اکٹھا کرنے کا آغاز کیا، اتوار کی جگہ جمعہ کی سرکاری چھٹی کی، افغانستان میں روس کیخلاف مجاہدین کی تربیت شروع کی، ایٹم بنانے کا اقدام اورسیاست کو ڈرائنگ روم سے نکال کر عوام کی دہلیزتک پہنچاکر دم لیا مگر ایک آمر کا تربیت یافتہ جمہوری کیسے بن سکتاتھا؟، الیکشن میں لاڑکانہ سے اپنے خلاف کاغذاتِ نامزدگی داخل کرانے پر جماعت اسلامی کے جان محمد عباسی کو ڈپٹی کمشنر لاڑکانہ خالد کھرل کے ذریعے اٹھاکر بند کرادیا ۔
جب جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کا تختہ اُلٹ دیا تو تمام سیاسی جماعتوں کے قائد بغاوت کے مقدمے میں قیدو بند کی زندگی گزار رہے تھے۔ جنرل ضیاء نے رہائی دلائی تو جنرل ضیاء الحق نے قائد جمہوریت کے نام پر محمد خان جونیجو کو وزیراعظم بنا دیا اور پھر خود ہی اس کی حکومت کو تحلیل بھی کردیا۔ سیاسی جماعتوں نے ایم آر ڈی بحالی جمہوریت کی تحریک چلائی۔ جنرل ضیاء حادثی موت کا شکار ہوگئے تو بینظیر بھٹو کو اقتدار مل گیا لیکن اس نے صدارتی امیدوار کیلئے نوابزادہ نصراللہ خان کے مقابلے میں غلام اسحاق خان کو نوازشریف کیساتھ مل کر سپورٹ کیا۔ غلام اسحاق نے پہلے بینظیر بھٹو اورپھر اسلامی جمہوری اتحاد کے نواز شریف کی حکومت کو چلتا کردیا، پھر پیپلزپارٹی کی حکومت آئی تو اپنے صدر فاروق لغاری نے بینظیر کو چلتا کردیا اور پھر دو تہائی اکثریت سے ن لیگ کی حکومت آئی تو جنرل مشرف کو ہٹایا گیا لیکن جنرل ضیاء الدین بٹ کو گرفتار کرکے ن لیگ کی حکومت ختم کردی گئی۔
پھر جنرل پرویز مشرف کے ریفرینڈم نے عمران خان کا تحفہ پاکستان کو دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے میرٹ کی تباہی اور کوٹہ سسٹم سے مہاجر تحریک کی بنیاد رکھ دی، جنرل پرویزمشرف نے امریکہ کی حمایت کرکے طالبان دہشت گردوں کی بنیاد رکھ دی۔ ضیاء الحق نے افغان مجاہدین اور نصیراللہ بابر نے طالبان بنائے تھے۔

پاکستان میں پانی کے بحران کا ہنگامی بنیاد پر آسان حل

kalabagh-dam-tharparkar-karachi-rivers-of-pakistan-bhains-colony-karachi-Jam-Kando-Karachi

مدیر مسؤل نوشتۂ دیوار نادرشاہ نے کہا چیف جسٹس ثاقب نثارنے پانی کا مسئلہ تو اٹھادیا، اسکے حل کیلئے معروضی حقائق سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سندھ کویہ خوف ہے کہ پنجاب کالاباغ ڈیم سے صحراؤں کو آباد کرکے سندھ کو پانی سے محروم کریگا اسلئے اسے زندگی موت کا مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ غیراسلامی جاگیرداری نظام ختم کیا جائے، صوبہ سندھ میں دریا کے مختلف مقامات پر رکاوٹیں کھڑی کی جائیں، جس سے پانی دریامیں رُکے۔گھوٹکی سے ٹھٹھہ تک مختلف مقامات پر چھوٹے بڑے ڈیم بنائیں اور کراچی وتھرپارکر کیلئے خصوصًا اور سندھ کی باقی آبادی کیلئے بالعموم نہری نظام بنائیں ، یہ آسان اور سستا ہے۔ پہاڑی ومیدانی علاقے کے بچے ندی نالوں میں رکاوٹیں کھڑی کرکے پانی کی سطح بلندکرتے ہیں، جب پانی نہ ہو تو یہ پانی پینے اور مویشی کے کام آتاہے۔ ندی یا پہاڑیوں سے پتھر اٹھا کر لوہے کے جال سے سہارا دیا جائے۔ دریا میں ہمہ وقت وافر پانی کی گنجائش ہے اوراسکا فائدہ اُٹھایاجائے تو زمین کے اندر بھی پانی کی سطح بلند اور کھاری کی جگہ میٹھا پانی آجائیگا اور چھوٹے ڈیموں پر بجلی کے منصوبے بھی لگ سکتے ہیں۔ بحریہ ٹاؤن کی زمینوں پر سرکاری محکموں سے مل کر قبضہ کیا جارہاہے ۔کراچی کا پانی بھی چھین لیا۔اگر حیدر آباد کراچی کی راہ میں ڈیم بنا تو ملیراور لیاری ندیاں پانی سے مالامال ہوں گی۔
کراچی میں جہاں بارش کے پانی سے ذخیرہ بناکر زیرِ زمین پانی کا بندوبست کیا جاتا تھا اسکا راستہ بند کردیا گیا۔ جس کی ایک مثال بھینس کالونی موڑ سے آگے جام کنڈو راستہ میں سورتی کمپنی کے پاس خشک ندی ہے۔ جب سندھ وکراچی کو بڑی مقدار میں پانی ملے تو کالاباغ ڈیم، دریائے سندھ اور باقی دریاؤں سے پانی کے ذخائر کا موقع ملے گا۔ پانی وبجلی کا محکمہ وفاقی ہے ،وفاق سندھ سے ابتداء کرے تو مسائل کے حل میں مشکل کا سامنا نہ ہوگا۔ بلوچستان تربت بلیدی میں MPA نے سرکاری فنڈز سے بارش کے پانی سے کئی ڈیم بنائے، علاقہ سرسبزوشاداب کردیا جو قابلِ تقلیدتھا مگر ہماری سیاست، صحافت ریاست ، عدالت کے دھندے اور لگن جدا ہیں ۔ سندھ کبھی کربلا،کبھی طوفان نوح کا منظر پیش کرتاہے مگر وفاق کو صرف پنجاب کی فکر اسلئے ہے کہ مریم نواز اور ن لیگیوں نے صحرائیں خرید لی ہیں۔ کراچی میں پانی کے مسئلہ پر بلاول بھٹو پر لیاری میں پتھراؤ ہوا، سیاستدان یہ اڑا رہے ہیں کہ رینجرز نے پانی کا مسئلہ بنایا ہے، زرعی زمین کے کنوؤں سے بھی میٹھا پانی ٹینکروں کو نہیں اٹھانے دیا جارہا ہے ۔ ایسا تو یزید ، چنگیز ، فرعون اور نمرود نے بھی نہ کیا ۔ درندوں کا پیٹ بھرتا ہے مگر حکمران کا پیسے سے نہیں ۔

Nadir-Shah-Map-River

پی ٹی ایم نے کبھی ریاست اور اسکے اداروں کیخلاف بات نہیں کی اور نہ کرے گی. منظور پشتین

manzoor-pashtoon-zaid-hamid-lal-topi-wala-dumkata-ayub-masood-halala-maulana-noor-muhammad-shaheed-

Asif-Manzoor

کوئٹہ( عبدالعزیز)کالم نگار نوشتۂ دیوار امین اللہ یوسفزئی نےPTMکے منظور پشتین کوخراج تحسین پیش کیا کہ پختون قوم میں شعوروبیداری کا اعزاز تیری قسمت میں لکھا تھا، جان پر کھیل کر دنیا کی آنکھیں کھول دیں۔ فوج نے خیر مقدم کیا اور کافی مطالبات بھی مان لئے۔ جب کسی میں کھل کر یہ پوزیشن لینے کی جرأت نہیں تھی کہ ناروا سلوک پر ہلکا سااحتجاج بھی کرسکے تو منظور پشتین نے قیادت کا حق ادا کردیا ہے۔
لال ٹوپی سے انقلاب آتا تو زید حامد لاچکا ہوتا، جس کو اللہ تعالیٰ ایک لمبی دُم سے نواز دیتا تو عوام اس کی حماقت سے بے خبر نہ ہوتے مگر اللہ تعالیٰ ستارالعیوب ہے۔ PTM کا یہ فیصلہ اچھا تھا کہ پارلیمانی سیاست میں حصہ نہ لے گی اور وجہ یہ نہ تھی کہ جمہوری نہیں بلکہ انقلابی جدوجہد کرنی ہے بلکہ وجہ یہ تھی کہ پارٹیوں کو PTM نے خفا نہیں کرنا ۔PTM کا ورکراپنی اپنی پارٹی کو سپورٹ کررہاہے۔ عمران خان نے علی وزیر کو اسلئے ٹکٹ کی پیشکش کی اور PTMکا منشور درست اور حقائق کے مطابق قرار دیا کہ اس تحریک کے ورکروں کی حمایت لینی تھی۔
جب جنگ اخبار میں لسانی فساد کو تقویت دی جارہی تھی تو یہ سرخیاں چھپ گئیں کہ ’’اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘‘۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ ’’ سرکار ﷺ کا لحاظ تھا ورنہ قرآن بھی اردو میں اتارا جاتا‘‘۔ یہ لسانی ،قومی اور ملکی جذبہ انسانی فطرت ہے۔ اس میں محبت کی چاشنی ایمان اور تعصبات کی بیماری کفر کے مترادف ہے۔ پشتو شاعر نے کہا: ’’ لوگ کہیں کہ دوزخ کی زباں ہے ، میں جنت میں پشتو کیساتھ جاؤنگا‘‘۔ پختون کے علاوہ پاکستان کی تمام قوموں بلوچ، پنجابی، سندھی، سرائیکی، مہاجر اور کشمیری سب میں لامحدود خوبیاں ہیں۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ بھی انشاء اللہ پاکستان سے ہوگی۔ کسی بزرگ نے مچھر کی تعریف کی کہ میں اس کو دل سے پسند کرتا ہوں، پہلے ایک کان میں سائرن بجاتا ہے، پھر دوسرے کان میں بجاتا ہے پھر پاؤں پر بیٹھ کر ہلکا کاٹ لیتا ہے، پھر بازو پر کاٹ لیتا ہے، پھر چہرے کو بھی کاٹنا شروع کردیتا ہے۔ جب تک تہجد کیلئے اُٹھ نہ جاؤں وہ میرا پیچھا نہیں چھوڑتا ۔ ادیب نے جس وقت مچھر پر یہ مضمون لکھا اسوقت ڈینگی نہ تھا ورنہ تعریف میں احتیاط کرتا۔ بہر حال مضمون نگار نے لکھا کہ مچھر نے بزرگ کا قصہ سناتے ہوئے اپنی شرمندگی کا اظہار کیا کہ جب وہ نماز پڑھتا ہے تب بھی اس کی ٹانگوں پر کاٹنے کا سلسلہ بھی جاری رکھتا ہوں۔
رسول اللہ ﷺ کا تعلق قریش سے تھا۔ اسماعیل ؑ اصلی عرب عرب عاربہ نہیں مستعاربہ تھے۔ عرب وعجم میں نسلی امتیاز ہے مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام عجم تھے ، بنی اسرائیل و بنی اسماعیل نسلاً ایک البتہ قریش عرب کا حصہ بن گئے ۔ اللہ تعالیٰ نبیﷺ کے آباواجداد کو پاکستان میں بھی آباد کرسکتا تھا لیکن عربی زبان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے عربوں میں آباد کیا ۔ مشرقی ومغربی پاکستان میں کوئی مقامی زبان ایسی نہ تھی جسے قومی زبان قرار دیا جاتاتو اللہ نے چند سوسال پہلے لشکری زباں اردو کو وجود بخشا۔ عربی گرائمر دیکھنے کے بعدیہ اندازہ مشکل نہیں کہ اتنی فصیح و بلیغ زبان انسانی دسترس میں نہیں بن سکتی۔ اگر نبیﷺ وزیرستان کے محسود ایریا میں مبعوث ہوتے تو پختونوں کیلئے بھی وہ پشتو بہت مشکل ہے۔ ایک عالمی دین کیلئے ضروری تھا کہ عربی میں نازل ہوتا۔ اردو تو اس وقت دنیا میں موجود بھی نہیں تھی لیکن اردو کیلئے یہ اعزاز کی بات ہے کہ پاکستان میں مقامی زبانوں کو چھوڑکر اسی کو قومی زبان قرار دیا ۔ یہ سرکار کی نالائقی ہے کہ اب تک اس کو سرکاری زباں میں تبدیل کرنے کی کوشش نہ ہوئی۔
محسوداور پاکستانی قوم میں موجودہ عربوں کے مقابلے میں زیادہ خوبیاں ہیں۔ اللہ نے سورۂ محمد میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا : ثم لایکون امثالکم ’’ وہ پھر تمہارے جیسے نہ ہونگے‘‘۔جب طالبان نے وہاں کے شریف لوگوں کوقتل کرنا شروع کیا اور فوج کے جوانوں کو نشانہ بنایا تو اس وقت یہ قوم خلعتِ افغانیت سے بقول اقبال کے عاری تھی۔ منظور پشتین کو یاد نہ ہوگا لیکن اسکے علاقے میں فوج کی پوری کانوائی کو قتل کیا گیا جس میں ایک فوجی شعبان بچ سکا تھا۔ جب حملے کی وجہ سے اس علاقے کو خالی کرالیا گیا تو ایوب نامی ایک شخص جٹہ قلعہ علاقہ گومل میں عتیق گیلانی کے کزن کی بیٹھک میں بچوں کیساتھ آیا تھا۔ کہا جاتا تھا کہ اسکا بھائی حملے میں شریک تھا۔ ایوب محسود نے بتایا کہ میری ہمدردیاں طالبان کیساتھ تھیں لیکن فوجیوں کیساتھ ظلم وستم دیکھ کر ان سے نفرت ہوگئی۔ شعبان نے پنجابی میں اپنے ماموں سے کہا تھا کہ میری ماں کو نہیں بتانا کہ میں گرفتار ہوا ہوں تو کلیجہ پھٹ رہا تھا۔ چینیوں کو اغواء کیا گیا تو اس آپریشن میں شعبان رہا ہواتھا۔
اس وقت قوم چند طالبان کو پکڑ لیتی تو یہ بیماری بڑھتی اور نہ قوم کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا۔ عتیق گیلانی کے گھر پر حملہ ہوا تو ایک طرف فوج کی بھرمار میں طالبان اسلحہ بردار گھومتے تھے۔ دوسری طرف کچھ عرصہ بعد فوج نے عتیق گیلانی کے عزیزکے گھر پر چھاپہ مارا اور طالبان کی پک اپ برآمد کرکے بارود سے اڑادی۔ آئی ایس آئی کے اہلکار نے خبر دی کہ اس کو خود کش کیلئے تیارکیا گیا تھا۔ عتیق گیلانی پر جب فائرنگ ہوئی تب بھی اس کو جلاوطن ہونا پڑا مگر بھائیوں اور رشتہ داروں نے طالبان کیساتھ مراسم بحال رکھے۔پاک فوج نے بہت غلطیاں کی ہونگی لیکن سب کو اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا پڑیگا۔ پاک فوج کے جوان اپنی غربت کی وجہ سے معمولی تنخواہوں پر کام کرکے جان کا خطرہ مول لیتے ہیں۔ وزیرستان ، پختون خواہ اور پاکستان میں امن کی بحالی پاک فوج کی نڈر قیادت جنرل راحیل شریف وجنرل باجوہ کی وجہ سے ممکن ہوسکی ۔ جنرل مشرف اور کیانی کے دورکی بات بھی چھڑجائے تو طالبان کیلئے پختون قوم کوہی قتل کرنا پڑتا، اور پختون ہی نہیں سب ہی طالبان کے بھر پور حامی تھے۔
وانا میں عوام مولانا نور محمد شہیدؒ کے خاندان کو پہلے سے فی کریٹ سبزی اور پھلوں پر ٹیکس دیتے تھے۔ اس گھرانہ کی زکوٰۃ نکال لی جائے تو وزیروں میں غریب نہیں رہے گا۔ امن کمیٹی کے افراد نہ ہوں تو فوج مقامی لوگوں میں امن کا قیام ممکن نہیں بناسکتی ہے اسلئے کہ دور دراز سے آئے ہوئے مسافر اہلکاروں کو کیا پتہ چلتا ہے کہ کون دہشت گرد ہے ؟ اور کون امن پسند؟۔ منظور پشتین نے اپنے بیان میں محسود ایریا میں موبائل نہ ہونے اور مشکلات کا ذکر کیا مگر جب لونڈا طبقہ غریب سپاہیوں کے چیک پوسٹوں پر نعرہ لگائیں کہ ’’یہ جو دہشت گردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے‘‘ تو اپنے لئے وہ مزید مسائل پیدا کرینگے۔ محسود ایریا میں پھر سے شرپسندی نے سر اٹھالیا اور فوج کے سپاہیوں کو سختی کرنے کا آرڈر مل گیا۔ منظور پشتین ساتھیوں کیساتھ ایسا ماحول بنائیں کہ مہمان اور غریب سپاہیوں کے دل جیت لیں۔ فوج کو عوام کا خیال نہ ہو تو پاگل کتوں نے نہیں کاٹا ہے کہ غریب سپاہیوں کو ایک جنگلی، خطرناک اور پہاڑی علاقہ میں سڑکوں پر بٹھادیں۔ نوجوان بے دریغ پاک فوج زندہ باد کے فلک شگاف نعروں سے ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ پھر امن کمیٹی کے نام پر سرنڈر طالبان کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔ جو عوام کے خوف و ہراس اور فوج سے بداعتمادی کی فضاء کا فائدہ اٹھاکر لوٹ مار کرتے ہیں۔ اگر اپنی قوم کی مشکلات میں اضافہ کیا تو منظور پشتین اور PTMسے نفرت کی فضاء بنے گی۔ جو عوام کو سہولت دینے نکلے تھے اور مشکلات سے دوچار کیا تو فائدہ کیا ہوگا؟۔
ایوب محسود جٹہ قلعہ سے گیا تو ایک دن حلالے کا کیس مولانا شبیر برمی کے پاس لایا۔ عتیق گیلانی نے کہا کہ حلالہ سے عورت پہلے شوہر کیلئے جائز نہیں ہوسکتی یہ حرامکاری ہے ورنہ مولوی نے حلالہ کا فتویٰ دیا تھا۔ پھر شاید حلالہ کروایا بھی ہوگا لیکن حلالہ کی وجہ سے جو تکلیف اس خاندان کو پہنچی ہوگی ، یقیناًیہ تکلیف گیلانی خاندان کو قتل وغارت سے نہیں پہنچی۔ کاش! اسوقت گیلانی نے حلالہ کا مسئلہ حل کیا ہوتا۔ اب بھی اسلام سے معاشرتی نظام کے انتہائی ظالمانہ اور بھیانک معاملات کا رخ بدلا جاسکتا ہے اور اس کیلئے بفضل تعالیٰ ہم غرباء کو کافی حد تک کامیابی مل گئی ہے۔

وانا جنوبی وزیرستان میں امن کمیٹی اور پی ٹی ایم کے درمیان فوج نے لڑائی روکی. آصف غفور

ispr-major-general-asif-ghafoor-good-taliban-ptm-manzoor-pashtoon-adiala-jail-baba-farid-imran-khan-murgha

Asif-Manzoor

دارہ اعلاء کلمۃ الحق کے جنرل سیکرٹری محمد فاروق شیخ نے کہا سوشل میڈیا پر برپا انقلاب کا راستہ روکنا ممکن نہیں۔ رمضان میں وانا وزیرستان کے عوام نے فوج کو دھکے دئیے، فائرنگ کرنیوالے گڈ طالبان کی طرف دھکیلا، پشتو میں گالی دے کر کہا کہ ہمیں گولی مارو۔گڈ طالبان کے دفاتر کو آگ لگادی، وردی والوں کے سامنے جنرل باجوہ اور آصف غفور ، کرنل جنرل سب کو دہشتگرد قرار دیا۔ نیٹ پر عجیب وغریب مناظر کی ویڈیوکلپ چل رہی ہیں۔ دنیا بھر میں اسلام آباد سے گرفتار PTM کے کارکنوں کی رہائی کیلئے مظاہرے اور سوالات اٹھائے گئے کہ سوات سے وزیرستان تک طالبان نے قتل وغارت کا بازار گرم کیا، ملا فضل اللہ فوج کو کافر قرار دیتا ، عدلیہ اور جمہوری نظام کو کفر قرار دیتا، میڈیا میں خبروں کی بھرمار ہوتی، FM ریڈیو چلتا، سکولوں کو اڑایا جاتا اور بچیوں کی تعلیم پر پابندی لگادی مگر ریاست نے ان کو غدار نہیں کہا، پروپیگنڈہ نہیں کیا، میڈیا پر پابندی نہیں لگائی اور دوسری طرف PTMاور اسکے قائد منظور پشتین کا چہرہ ہے جس نے امن کا جھنڈا اٹھایا، آئین کی بات کرتا ہے۔ تحفظ دینے کا مطالبہ کررہاہے۔ کوئی گولی، لاٹھی، پتھر اور ہاتھوں میں مٹی کے کنکر تک نہیں اٹھائے ۔ پھر بھی غدار، را کا ایجنٹ، کافر قرار دیا جارہاہے۔ منظور پشتین نے کہا کہ جو کام طالبان دہشت گرد کرتے تھے ،یہ وہی کررہے ہیں ،دونوں دہشت گرد ہیں۔ جیل میں جاتے اور نکلتے وقت قیدیوں کے حوصلے بلند اور خوش تھے۔ بلوچوں نے ریاست کیخلاف ہتھیار اٹھائے، ایم کیوایم اقتدار کی دہلیز تک بار بار پہنچی مگر PTM نے کالے سفید جھنڈوں سے جس پر امن انداز میں پذیرائی حاصل کرلی۔ اسکا راستہ تشدد سے روکا گیا تو بہت مشکل کا سامنا کرنا پڑیگا۔یہ عوام کی بہادری، جرأت، جسارت اور دلیری کا ایک ایسا تاریخی کارنامہ ہے کہ اس کی مثال ڈھونڈنے سے نہیں ملتی ۔ اگر فوج کرفیو نہ لگاتی تو گڈ طالبان کے خلاف سرتاپا احتجاج عوام سب کا قلع قمع کردیتے۔ سوال ہے کہ 27افراد کورہا کیا جو بغاوت اور غداری کے سخت ترین مقدمے میں قید تھے لیکن وہ باہر آکر بتارہے تھے کہ اڈیالہ جیل میں 5ہزار قیدیوں کا بہت برا حال تھا جن میں 3500پٹھان تھے جو معمولی معمولی دفعات کے تحت قید تھے لیکن ان کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔ اب یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ جنہوں نے پارلیمنٹ کا دروازہ توڑ دیا، PTV قبضہ پر مبارکباد کا تبادلہ کیا، پولیس کی درگت بنائی اور تھانے سے زبردستی ساتھی چھڑالئے ۔ ان کو اڈیالہ جیل ایک رات کیلئے بھی نہ بھیجا۔ عمران اپنی بیگم کیساتھ بابا فریدؒ کے مزار پر مرغا بننے کے بجائے یہ اعلان کرے کہ مجھ سے اور PTMکے ورکرز سے جو امتیازی سلوک ریاست نے کیا ، بھرپور مذمت کرتا ہوں اور ہم ریاست کی اس ذہنیت کو بدل ڈالیں گے۔ صرف علی وزیر کی حمایت کرنے پر معاملہ کبھی درست سمت نہیں جائیگا۔

Asif--Ghafoor-Pic

میجرجنرل آصف غفور نے کہا: ’’کچھ نے فوج کے خلاف نعرہ لگایا، جس پر مقامی افراد نے ان کو طلب کیا، دونوں فریق کے درمیان جھگڑا شروع ہوا۔ فوج نے لڑائی کو روکنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ اس میں کوئی بچی نہیں مری ۔ کہا جارہاہے کہ فوج یا طالبان نے فائرنگ کرکے بندے مارے ۔ ہم اس نبیﷺ کے امتی ہیں جو خود پر سہہ کر معاف کردیتے تھے۔ فوجی وردی پہننے سے کوئی پاک نہیں ہوجاتا ، ان کی بھی غلطی ہوسکتی ہے‘‘۔ قتل وغارتگری کرنیوالے کس کے پیڈ لوگ تھے ؟ ۔ پتہ پریس کانفرنس بتارہی ہے۔ حقائق کے تناظر میں اس نعرے سے نہیں روکا جا سکتا کہ ’’یہ جو دہشت گردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے‘‘۔ ISPR کی پریس کانفرنس غلط فہمی کا ازالہ نہیں بلکہ اعترافِ جرم ہے۔ انگوراڈا سے شکئی تک وزیرستان کی چار تحصیلوں کے وسیع علاقہ میں کرفیو نافذ رہا مگر الیکٹرانک و پریس میڈیا سے عوام کو خبر بھی نہ پہنچنے دی گئی۔ پریس کانفرنس میں بھی نہیں بتایا تو عوام اس نتیجے تک پہنچنے پر مجبورہونگے کہ’’ دال ہی کالی ہے‘‘۔
سوشل میڈیا پر ویڈیوز میں پختونوں نے احتجاج کا جو انداز اپنایا ، اسکا دنیا پر کیا اثر مرتب ہوگا؟۔ کشمیر، فلسطین، افغانستان اور دنیا کے کسی کونے کھانچے میں اس خوبصورتی کیساتھ آزادی، ریاست سے تصادم اور فوج کے خلاف نعرے نہیں لگے ہیں۔ اگرچہ ان کی تعداد تھوڑی ہے لیکن کوئی حادثہ پورے خطے کا نقشہ بدلنے میں زیادہ دیر نہیں لگائے گا۔ یہ کون لوگ ہیں؟۔ گھربار، افراد، قبیلہ اور علاقہ کی قربانی دینے والے سالوں سال سے در درکی ٹھوکر کھانے والے قبائلی عوام ۔ انگریز کے دور میں بھی اور آزادی کا جھونکا آنے کے 70سال بعدبھی ریاستی قوانین اور ڈسپلن کے دائرے سے آزاد قبائل ۔ محراب گل افغان کے نام سے علامہ اقبال نے محسود، وزیر اور شیرشاہ سوری کا تذکرہ کیا اور انقلاب کی نوید سنائی ہے۔ پاکستان اسلام کیلئے بناتھا۔ جنرل اشفاق کیانی کے بھائی کو انٹر پول سے اپنی دولت سمیت لایا جاتا تو زرداری اور نوازشریف کی دولت بھی بیرون ملک سے لانے میں دشواری نہ ہوتی۔ زرداری نے کتنی بڑی بات صرف میڈیا ٹرائیل پر کہی کہ اینٹ سے اینٹ بجا دینگے۔ نوازشریف کتنی دولت لوٹ کر لے گیا؟۔ پارلیمنٹ اور میڈیا میں اپنی جھوٹی صفائی پیش کردی اور عدالت میں رپورٹ دینے کا چیلنج مخالفین کو دیا۔ جب عدالتوں میں کیس چلا، ثبوت نہیں ملا تو فوج پر غلط پشت پناہی کا الزام لگادیا اور بنگلہ دیش کی طرح پنجاب الگ کرنے کی دھمکی دے ڈالی۔ قبائل نے کھایا پیا کچھ نہیں، قربانیوں پر قرنیاں دیں۔ تذلیل پر تذلیل برداشت کی۔ ایک علاقہ میں آپریشن کا اعلان ہوتا، عوام دربدر ہوتے۔ طالبان دوسرے علاقے میں منتقل ہوتے، علاقہ کلیئر قرار دیا جاتا تو عوام کیساتھ طالبان بھی پہنچتے۔ زیادہ تر عوام ہی آپریشن میں جیٹ طیاروں کی زد میں آتے۔ یہ سلسلہ لمبے عرصے تک چلا۔ عوام کی تکلیف پر منظور پشتین نے تحریک شروع کردی جو مقبول ہوگئی۔
منظور پشتین کے خاندان کو نہ فوج نے نقصان پہنچایا ہے نہ طالبان نے۔ وہ عوام اور اپنی قوم کے درد کیلئے اٹھا ہے۔ البتہ علی وزیر کے بڑے جوان بھائی فاروق کو طالبان نے شہید کیا۔ پھر انکے والد کو شہید کیا پھر خاندان کے 17 افراد کو شہید کیا گیا۔ پاک فوج نے بھی انکی مارکیٹوں کو مسمار کردیا۔ شریف خاندان ہے، کسی قسم کی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث نہیں رہے۔ اپنا پیٹرول پمپ تھا۔ کاروبار تھا اور بڑی جائیداد کے مالک ہیں۔ شرافت جرم بن گئی ۔ فوج اور طالبان نے خوامخواہ دشمن سمجھ لیا۔
منظور پشتین کا تعلق غریب گھرانے سے ہے۔ علی وزیرنے محسود تحفظ موومنٹ کا ساتھ دیا تھا تاکہ وزیروں کے محسود بھائی تاریخ کے بدترین جبروظلم سے نکل سکیں۔ علی وزیر نے خود یہ درد محسوس کیا تھا۔ جہانگیرترین اور عمران خان کی جوڑی جدا ہوسکتی ہے ۔ عمران خان بیگم بدلنے میں شرم محسوس نہیں کرتا تو رہنما ء کی تبدیلی کوئی بات نہیں۔ علی وزیر اور منظورپشتین ایک ہیں۔ اگر اس تحریک کو کالے سفید جھنڈوں کیساتھ دنیا میں پذیرائی مل گئی تو کشمیر سے فلسطین کی آزادی تک دنیا کے مسائل حل ہونگے۔ کاش ! ہمارا برسر اقتدار طبقہ اور یہ لوگ ایک اور نیک ہوجائیں۔

پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ مخالف اور کٹھ پتلی سیاسی جماعتوں کیلئے عدل و انصاف کے پیمانے الگ الگ ہیں

imran-khan-general-kayani-justice-iftikhar-chaudhry-nawaz-sharif-nazaryati-hijra

نوشتۂ دیوارکے ایڈیٹر اجمل ملک نے کہا: کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ مخالف اور کٹھ پتلی بیانیہ رکھنے والی جماعتوں کے درمیان عدل وانصاف کے پیمانے مختلف ہیں۔ نوازشریف نے ساری زندگی کٹھ پتلی کی طرح گزاری، اب بھی شہباز شریف کو ن لیگ کا صدر بناکر کٹھ پتلی بننے کی راہ ہی ہموار کررہا ہے۔ 2013کے الیکشن میں ٹی وی چینل پرNA1پشاور سے دھاندلی کی خبر آئی اور گھر کے بھیدی نے لنکا ڈھائی تمام جماعتیں کہتی تھیں کہ کھلا دھاندلا ہوا۔ اب تو انتخابات سے قبل ہی شور برپاہے۔ شہبازشریف طالبان سے کہتا کہ پنجاب میں دھماکے نہ کرو، ہم تمہارے ساتھی ہیں اور عمران خان ضرب عضب کے بعد تک پنجاب پولیس کو طالبان کے حوالہ کرنے کی بات کرتا تھا۔ بڑی مشکل سے آرمی پبلک سکول واقعہ پرشمالی وزیرستان آپریشن کیلئے اتفاق رائے پیدا ہوا۔ اور اب بے شرمی سے دہشتگردی کے خاتمے کا کریڈٹ لیتے ہیں۔ جنکو دہشتگردوں کی حمایت پر چوکوں پر لٹکانا چاہیے تھا انکو باری باری اقتدار دیا جارہاہے۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کا کمال ہے جو بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی کٹھ پتلی ہے۔ ’’یہ جوسیاست گردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے‘‘۔ بلوچوں کے بعد پختونوں کو کھودیا گیا تو پاکستان کا نقشہ بدل جائیگا۔ جبر کی زنجیر سے امریکہ بھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ آزادی کے بعد سول وملٹری اسٹیبلشمنٹ نے نالائق سیاستدانوں کے ذریعے سے ملک وقوم کا بیڑہ غرق کردیا ۔بیویوں سے وفا نہ کرنیوالا پاکستان سے کیا وفا کرے گا؟۔ مخلص کارکنوں، جماعت کے رہنماؤں اور قائدین سے جس نے وفا نہیں کی وہ ملک وقوم کا کیسے وفادار ہوسکتا ہے؟۔ووٹ اور نوٹ کی خاطر کونسا ڈرامہ نہیں رچایا ہے؟۔ غریب کارکنوں ، نظریاتی قائدین اور اے ٹی ایم مشینوں تک سے کوئی طبقہ وہ نہیں ہے جس سے بے وفائی کا مظاہرہ نہیں کیا ہو؟۔ وزیراعظم بننے کیلئے طالبان سے وہ بریلوی مکتب کی طرف بھی یوٹرن لے لیتا ہے۔ لوٹوں کے طوفان میں لٹو بننے والا نظریاتی نہیں ہوسکتا ہے۔ ہر الیکشن میں اس نے نظریے سے یوٹرن لیا ہے اور پھر پشیمانی کا اظہار بھی کرتا رہاہے۔ میجر رجنرل ظہیر الاسلام عباسی سیدعتیق الرحمن گیلانی کے پاس گومل گئے تھے تو وہاں ایوب خان بیٹنی سے ملاقات ہوئی۔ عباسی صاحب نے ایوب بیٹنی سے کہاکہ آپ نے عمران یہودی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا؟۔ عتیق گیلانی نے عباسی صاحب سے کہا کہ ضلع ٹانک میں JUIکا سب سے بڑا مرکز مولانا فتح خان کی جامع مسجد ہے اور جو دونوں کا مشترکہ مرکز تھا۔ مشکل حالات میں ایوب بیٹنی نے عمران خان کا ساتھ دیا تھا ،اگر آزاد حیثیت سے وہ الیکشن لڑتے تو جیت جاتے مگر عمران خان کیلئے خود کو ہرادیا۔ پھر ٹانک سے تحریک انصاف نے پیپلزپارٹی کے دیرینہ کارکن داور خان کو ٹکٹ دیدیا اور ایوب بیٹنی سے ناطہ توڑ لیا۔داورخان کنڈی بھی شریف انسان ہیں مگر اسٹیبلشمنٹ کی کٹھ پتلی سیاستدانوں کی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں۔ نوازشریف70سالہ عمر میں محمود خان اچکزئی کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے کہ ’’اب میں بھی 100%نظریاتی ہوگیا ہوں‘‘۔ 70سالہ ہجڑا کہے اب میں پیٹ سے ہوں تو ممکن ہے کہ ہو مگر کٹھ پتلی 70بار جنم بھومی کے عقیدے کے مطابق بھی کبھی نظریاتی نہیں بن سکتاہے۔ البتہ نظریاتی لوگوں کو خراب کرنے کی بیماری لگا سکتاہے۔

خلائی مخلوق بیت الخلائی لوٹوں کے ذریعے نجاست اسمبلی میں لارہی ہے

khalai-makhlooq-bait-ul-khala-lota-tarian-imran-khan-daughter-bagal-baccha-nawaz-sharif-iqama-issue-

نوشتۂ دیوار کے پبلیشر اشرف میمن نے کہا امریکہ وبرطانیہ کا کھیل ٹی وی چینلوں پر نظر آتاہے، خلائی مخلوق کرشمے دکھارہی ہے۔ مستقبل میں عمران خان روتا نظر آئیگا کہ میں صادق و امین نہیں،میری امریکن بچی ٹیرن سیتا اور برطانوی بچے سلیمان و قاسم صادق وامین ہیں۔ ان کو اقتدار دیا جائے۔ ریحام CIA کی سازش کا نتیجہ تھی توآنیوالی جمہوریت میں مریم نواز کا مقابلہ ٹیرن عمران سے ہوگا ۔ سیاستدانوں نے قومی اخلاقیات کا جنازہ نکالا۔ آئین کو بدلا جائے یاان سیاسی قائدین، رہنماؤں اور الیکٹ یبل کو جو آئین کے دفعات پر بالکل بھی پورے نہیں اترتے ہیں۔ بیت الخلاء کے لوٹوں کے پاس زبان نہیں اور موجودہ دور میں شیخ سعدی جیسا دانشور بھی نہیں جو لوٹوں کو زبان دیکر بات کرے۔ ورنہ لوٹے بھی کہتے کہ ہم ناچیز ضرور ہیں لیکن کام کتنا عمدہ انجام دیتے ہیں؟۔ قدرتی طور پر انسان سے نکلنے والی نجاست کو ہم صاف نہ کریں تو مقتدی کی نماز ہو اور نہ امام امامت کے قابل ہو۔ اب تو دنیا مسلم شاور کا نام دیتی ہے۔ یہ جو سیاستدان ہیں یہ تو ڈسٹ بین اور کچرا کنڈی سے بھی بدتر ہیں اسلئے کہ معاشرہ ان کی ضرورت سمجھتا ہے۔ عمران خان رسول اللہ ﷺ کا نام لیتا ہے مگر کام سب الٹے کرتا ہے۔ یتیموں نے مسجد نبوی کیلئے اپنی زمین دی تو نبی ﷺ نے نہیں لی۔ شوکت خاتم کیلئے ڈیفنس فیز 9کراچی میں جنرل راحیل نے جو زمین دی ہے وہ فوج کے شہدا کے بچوں کو لوٹادیں ۔ ڈیفنس کے پلاٹ سب سے پہلے افواج پاکستان کو منتقل ہوتے ہیں پھر اسکی فائل دوسرے خرید سکتے ہیں ، ڈیفنس کے پورے فیز 9کو شہدا کے بچوں کو دینا چاہیے تھا۔

imran-khan-cartoon

ہمارے علاقہ ٹانک کے عتیق گیلانی حق گوئی میں اپنی مثال آپ ہیں. مولانا مفتی گل حلیم شاہ

district-tank-jui-mufti-gul-haleem-shah-makkah-madina-akora-khattak-nowshera-allama-iqbal-mashriq

نوشہرہ(نادرشاہ،جاویدصدیقی) سابقہ ممبر صوبائی جنرل کونسل J.U.I وجنرل سیکریٹری J.U.I نوشہرہ، مہتمم دارالعلوم ذکریا گنڈیری رسالپور مفتی گل حلیم شاہ نے نمائندہ نوشتہ دیوار سے گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ میں آپ کا اخبار ضرب حق اور نوشتہ دیوار عرصہ دراز سے پڑھ رہاہوں ۔ آپ لوگ بہت اچھے انداز میں حق کی آواز بلندکررہے ہیں ۔ گیلانی صاحب کے حوالے سے میں یہی کہوں گا کہ دارالعلوم اکوڑہ خٹک کے مفتی محمد فریدنے کتاب سلسلہ نقشبندیہ کی ساتویں فصل میں لکھاہے کہ ایسے لوگ اقتدارکے لائق ہیں جوکسی بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ لوگ کیاکہیں گے، ملامت کریں گے یا مشکلات سے دوچارہوں گے بس وہ اپنی بات پورے زوراور سچائی کے ساتھ بیان کردیتے ہیں اوریہی بات مجھے اورمیرے رفقاء کوضرب حق کی بہت پسندتھی کہ گیلانی صاحب حق بات ببانگ دہل بیان کردیتے ہیں ۔ ہم اپنی مجالس میں یہ بات کہتے تھے کہ ہمارے علاقے ٹانک کے مولاناعتیق گیلانی حق گوئی میں اپنی مثال آپ ہیں ۔ میں نے تیرہ سال جمعیت علماء اسلام (ف) میں خدمات دیں ہیں اسکے علاوہ تحریری میدان میں نجات کے نام سے پرچہ نکالتے تھے ، مولانا عبدالوہاب فاروقی کی زیرادارت ، ہمارامقصدبھی تمام استحصالی نظاموں سے نجات تھا۔ J.U.I نے صدسالہ جشن دیوبندکا پروگرام کیاتوہم نے اپنے حوالے سے ایک کتاب تیارکی ، مولانا فضل الرحمن کو دکھایا کہ یہ ہم چھاپناچاہتے ہیں ، مولانا نے وہ مسودہ ہم سے لیکراپنے نام سے شائع کردیا، اس پر ہم لوگوں نے جمعیت کو چھوڑدیا کیوں کہ یہ مفادپرستوں کا ٹولہ ہے جو جمہوریت کے نام پر اسلام دشمنی کررہاہے ۔ موجودہ جمہوریت بہترین طرزکا کاروباربن چکاہے۔ مفتی صاحب نے ایک سوال پرکہاکہ خلافت اسلامیہ کاقیام ہی مسلمانوں کیلئے نجات کا ذریعہ ہے ۔ احادیث مبارکہ میں سیاہ جھنڈوں والے لشکرکا ذکرہے توسیاہ جھنڈے والاوقت قریب آگیاہے ۔ میں2011 ؁ میں حرمین شریفین گیا، میں نے مکہ ، مدینہ کے پہاڑ ، گھاس پھوس، فصلیں ، مٹی دیکھی ، میں بالکل وثوق کے ساتھ یہ بات کہہ رہاہوں کہ بعینی یہ علاقے ڈیرہ اسمٰعیل خان، ٹانک ، قرب وجوار کے علاقے مکہ ومدینہ جیسے ہیں ، یہاں کے پہاڑ، گھاس، مٹی وغیرہ بالکل ویسے ہی ہیں ۔ نبی کریم ﷺ کو مشرق کے انہی علاقوں سے ٹھنڈی ہوا اور انقلاب کی خوشبو آئی ہے جسکا ذکراقبال نے اپنے اشعارمیں کیاہے ۔ آخر میں درس نظامی کے حوالے سے کہاکہ صرف ونحو وغیرہ رہنے چاہیے لیکن لایعنی سوالات جواٹھاتے ہیں اورفضول بحث ہیں ان کو یکسرختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے طالب علم کا ذہن منتشر ہوتا ہے اوروہ اصل یعنی قرآن و حدیث سے رہ جاتاہے۔ بحرحال درس نظامی کونئے سرے سے درستگی کی ضرورت ہے۔

مغرب کیلئے قابلِ قبول اسلام کا درست معاشرتی تصور

rajam-sangsar-karna-women-harassment-zina-bil-jabr-minimize-jahangir-kot-lakhpat-jail-habil-qabil-shah-turab-ul-haq-qadri-phool-bari-aant-dawat-e-islami-pichkari

اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ سے فرمایا کہ لن ترضیٰ عنک الیہود و لا النصاریٰ حتی تتبع ملتھم’’یہود ونصاریٰ آپ سے کبھی بھی راضی نہ ہونگے یہاں تک کہ آپ ان کے دین کے تابع بن جائیں‘‘۔ قرآن رسول اللہﷺ کے دور میں نازل ہورہا تھا تو ایک ایک کرکے مسخ شدہ حکم کو اللہ تعالیٰ اپنی اصلی حالت میں زندہ کررہاتھا۔ مثلاً توراۃ میں بوڑھے اور بوڑھی کیلئے زنا پر رجم کرنے کا ذکر تھا اور یہودو نصاریٰ کی شریعت میں شادی شدہ کیلئے سنگساری اور غیرشادی شدہ کیلئے 100کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی کی سزا تھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے انجیل میں کسی شرعی حد کا ذکر نہ تھا۔ سنگساری کے غیر فطری حکم سے بچنے کیلئے حضرت عیسیٰ نے یہ تجویز ی حکم دیا کہ ’’ جس نے خود زنانہ کیا ہو ، وہ پتھرماریگا‘‘۔ رسول ﷺ پر جب تک حکم نازل نہ ہوتا تھا تو اہل کتاب کے احکام پر عمل کرتے۔ جیسے بیت المقدس قبلہ اوّل تھا۔ یہود اپنے شرعی حدود پر عمل درآمد نہ کرتے تھے مگر اس خود ساختہ شریعت پر بضد بھی تھے۔ ایک آدمی کے بیٹے نے دوسرے کی بیوی سے زنا کیا اور بھیڑ بکریاں دینے پر فیصلہ کیا۔ پھر علماء نے اس کو بتایا کہ کنوارے بیٹے کی سزا 100کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے جبکہ اسکی بیوی کی سنگسار ہوگی۔ اسلئے رسول اللہ ﷺ کے پاس فیصلے کیلئے آگیا۔ نبیﷺ سے یہود ی عالم نے توراۃ میں رجم کا حکم چھپایا لیکن اسکی نشاندہی ہوئی تو اس پر عمل درآمد کیا گیا۔ جب مسلمان مرد اور عورت نے اپنے خلاف زنا کی گواہی دی تو آپﷺ ان کو پہلے ٹالتے رہے اور پھر سنگسار کرنے کا حکم دیدیا۔ احادیث کے واقعات یہی ہیں جبکہ مختلف روایات میں انکا مختلف انداز میں تذکرے کی وجہ سے زیادہ لگتے ہیں، ان سے ایک اہم سبق یہ ملتاہے کہ نبیﷺ نے مسلمانوں اور غیر مسلموں میں کوئی فرق روا نہیں رکھا تھا اور مرد و عورت کے اوپر بھی یکساں طور پر حد نافذکی تھی۔
قرآن میں سورۂ النساء کے اندر خواتین کیساتھ نکاح کا بھی ذکر ہے اور متعہ و ایگریمنٹ کا بھی ذکر ہے۔ آیت:15 النساء میں بدکاری میں مبتلا عورت کو گھر میں نظر بند کرنے کا حکم ہے یہاں تک کہ موت سے مرجائیں یا اللہ ان کیلئے کوئی سبیل نکال دے۔ بدکار عورت پر گواہی کیلئے چار افراد کی گواہی بھی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ حکم ایسا ہے کہ دنیا کا کوئی معاشرہ بھی اسکی افادیت سے انکار نہیں کرسکتا۔ ایک عورت خراب ہوجائے تو دنیا بھر کا گند وہاں جمع ہوجاتا ہے۔ مسلمان غیر مسلم اور مردو خواتین سب ہی اس برائی کو روکنے کے حق میں ہوتے ہیں۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ مرد اور عورت میں درجہ بندی کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہوتا تو وہی لوگ یہ تحریک بھی چلاتے ہیں کہ خواتین کی ہراسمنٹ کے خلاف سخت قوانین بنائیں اور اس پرعمل بھی کرائیں۔ دونوں کا درجہ ایک ہے تو ہراسمنٹ کی چیخ وپکار کیوں؟۔
قرآن میں خواتین کو ہراساں کرنے والوں کو قتل کرنے کا حکم ہے اور حدیث میں گواہی کے بغیر جب خاتون کیساتھ جبری زیادتی کرنے کا نبیﷺ کو یقین ہوا تو زنا بالجر والے کو سنگسار کرنے کا حکم دیا تھا۔ ابوداؤد شریف میں اسکا ذکر ہے لیکن بعض علماء ومفتیان نے اس میں بھی ڈنڈی ماری ۔ کتاب ’’موت کا منظر ‘‘ میں بھی زنا بالجبر کیلئے سنگساری کے حکم کا ذکر ہے۔ پرویزمشرف نے زنا بالجبر کو تعزیزات میں اسلئے شامل کرنے کی کوشش کی تھی کہ جو عورت شکایت لیکر تھانہ میں جاتی ،اسی کو چار گواہ نہ ہونے کی صورت میں قید کرلیا جاتا تھا۔ منیزے جہانگیر نے کوٹ لکھپت جیل میں ایسی خواتین سے ملاقات کی تھی جن کو شکایت کرنے پر قید کیا گیا تھا۔
زرداری کے دور میں یہ قانون بدل دیا گیا۔ سورہ النساء کی آیت16میں دو مردوں کو بدکاری پر اذیت دینے کی سزا کا حکم ہے، پھر جب وہ توبہ کرلیں اور اپنی اصلاح کرلیں تو معاملہ رفع دفع کرنے کا ذکرہے۔ قرآن کے اس واضح حکم پر بھی فقہ کی کتابوں میں لکھا گیا ہے کہ لواطت کا حکم واضح نہیں ، کسی نے آگ سے جلانا اور کسی نے پہاڑ سے گرانے کی سزا کا حکم دیا ہے۔ حالانکہ مدارس اور معاشرے کا ہرطبقہ اس آسان حکم پر عمل کرسکتا ہے۔ قرآن کی طرف توجہ دینے کے بجائے ہمارا سارا زور فقہ اور علماء کے خرافات کی طرف ہوتا ہے۔ تفسیر عثمانی وغیرہ میں لکھاہے کہ ’’سورۂ بقرہ آیت:15میں بدکاری پر چار گواہ مقرر کرنے کے بعد گھر میں نظر بند کرنے کا حکم اسوقت تھا جب قرآن کی سورۂ نور میں زنا کا حکم نازل نہ ہواتھا اور غیرشادی کیلئے 100کوڑے اور سال بھر جلاوطنی اور شادی شدہ کیلئے سنگساری کا حکم نازل ہونے کے بعد گھر میں نظر بند کرنے کا حکم منسوخ ہوگیا‘‘۔ حالانکہ اس تفسیر کی کوئی گنجائش نہیں ۔1: قرآن میں سنگساری کا کوئی حکم نہیں ۔ 2: بخاری میں ہے کہ سورۂ نور کے بعد سنگساری پر عمل کرنے کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیاتھا۔ 3:سورۂ النساء میں متعہ والی یا لونڈی سے شادی کے بعد کھلی فحاشی پر عام عورت کی بہ نسبت آدھی سزا کاحکم ہے جس کے ساتھ یہ وضاحت بھی ہے کہ پہلے لوگوں کیلئے بھی یہی سنت رائج رہی ہے اور یہ بھی کہ اللہ چاہتاہے کہ تم پر تخفیف کرے اسلئے کہ انسان کمزور ہے۔4:سورۂ النساء میں یہ وضاحت بھی ہے کہ اگر پہلوں کیلئے قتل انفس(سنگساری) یا جلاوطنی کی سزا کا حکم ہوتا تو اس پر عمل نہ کرتے لیکن بہت کم لوگ۔ جسکا مطلب سنگساری اور جلاوطنی کا حکم پہلے بھی اللہ نے نہیں دیا۔
سورۂ النساء کے بعد سورۂ المائدہ میں بڑی تفصیل ہے۔ 1: علماء و مشائخ کی طرف کتاب اللہ کی حفاظت کی نسبت ہے، پھر تھوڑے مول کے بدلے آیات کو بیچنے کی بات ہے اور اللہ کے حکم پر فیصلہ نہ کرنے والوں کو کافرقرار دیا گیا ہے۔ پھرجان کے بدلے جان ، آنکھ، ناک، دانت کے بدلے آنکھ، ناک، دانت اور زخموں کے بدلے کا ذکر ہے جو حکمرانوں سے متعلق ہے اور اللہ کے حکم پر فیصلہ نہ کرنے والوں کو ظالم قرار دیا گیا ہے۔ پھر اہل انجیل یعنی عوام کا ذکر ہے جن کو اللہ کے حکم پر فیصلہ نہ کرنے پر فاسق قرار دیا گیا ہے۔ علماء کے فیصلے سے شریعت بدل جاتی ہے اسلئے ان پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا ہے، حکمرانوں کے غلط فیصلے سے انصاف کا قتل ہوتا ہے اسلئے ان کو ظالم قرار دیا گیاہے اور عوام کوفاسق قرار دیا گیا ہے۔
2: سورۂ مائدہ میں یہ وضاحت ہے کہ یہود نے توراۃ میں تحریف کی ہے، ان کے پاس جو احکام محفوظ ہیں ان پر بھی عمل نہیں کرتے۔ محفوظ وہی احکام ہیں جن کا ذکر قرآن میں بھی ہے۔ توراۃ کے حوالے سے ہی حکمرانوں سے متعلق احکام کا ذکر قرآن میں کیا گیا۔ یہود نے بعض احکام میں ردوبدل سے تحریف کی ہے اور نبیﷺ سے کہاگیاہے کہ اگر آپ انکے درمیان فیصلہ نہ کریں تو یہ آپ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے ہیں۔ جو قرآن میں ہے وہی محفوظ ہے اور اگر وہ فیصلہ کرانا چاہتے ہیں تو اپنی کتاب سے ہی کردیں۔ اگر وہ اپنی کتاب سے فیصلہ کرانا چاہیں تو آپ ان کی کتاب سے فیصلہ نہ کریں کیونکہ اس طرح یہ آپ کو بعض ان احکام سے فتنہ میں ڈال دینگے جو آپ پر نازل ہوئے ہیں۔ اے ایمان والو! یہود ونصاریٰ کو اپنا سرپرست نہ بناؤ(فیصلے کااختیار مت دو)۔ جو ان کو (اپنے فیصلے کا اختیار دیکر) سرپرست بناتا ہے وہ انہی میں سے ہے۔ المائدہ میں مکمل تفصیل ہے، جو بہت سے حقائق سے پردہ اٹھانے کیلئے وانزلناالکتاب تبیاناً لکل شئی ہے۔
سورۂ النساء میں تفصیلی مضامین کا یہاں موقع نہیں ہے لیکن اس بات کیلئے یہ بھی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہرہر آیت کا اپنی جگہ فصلت آیاتہ کہا ہے۔جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ اپنی جگہ پر کوئی نقص نہیں رہ گیا ہے۔ اب آئیے ، اس بات کا ثبوت قرآن کریم کی ایک ایک آیت نے خود بھی دیا ہے۔البتہ قرآن کی بعض آیات بعض کیلئے تفسیر کی حیثیت بھی رکھتی ہیں اسلئے کہ ان میں تضاد نہیں۔
سورۂ النساء کی آیت 15 میں بدکارعورت پر چار گواہوں کی شہادت کے بعد گھر میں نظر بند کرنے کا حکم ہے۔ یہاں تک کہ وہ مرجائے یا اللہ اسکے لئے کوئی سبیل پیدا کردے۔ اس حکم میں مارنے کا حکم نہیں ہے۔ البتہ خود مرجائے یا کوئی سبیل نکل آئے اللہ کی طرف سے۔ سبیل نکلنے کی دوصورتیں ہیں ایک یہ کہ شادی ہوجائے اور دوسرا یہ کہ شادی کیلئے کوئی میسر نہ ہو تو متعہ یا ایگریمنٹ کی راہ نکل آئے۔ عورت کی نسوانی خواہش کا جائز راستہ فطری طور پر بند نہیں ہوسکتا تھا۔ کسی بدکار عورت سے مستقل نکاح کیلئے کوئی تیار نہ ہو تو قرآن وسنت میں متعہ کی راہ کا بھی ذکر ہے۔ اگلے رکوع میں محرمات کے بعد پانچویں پارہ کی ابتداء میں ہی اس کی بھرپور وضاحت ہے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ نے فماستمتعتم کیساتھ الی اجل مسمیٰ کا بھی اپنی تفسیر میں واضح کیا تھا۔یعنی جس نے متعہ کیا ایک مقررہ مدت تک۔ اہلسنت کی تفاسیر میں اس کو غلط طور سے قرأت کا نام دیا گیا۔ امام شافعیؒ کے نزدیک کوئی خبر واحد حدیث تو معتبر ہوسکتی ہے لیکن کسی شاذ قرأت کو ماننا قرآن میں تحریف ہے۔ احناف اس کو الگ آیت کے حکم میں لیتے ہیں جو غلط ہے۔ جسطرح جلالین وغیرہ کی تفاسیر میں اضافوں کو قرآن نہیں قرار دیاجاتا ہے ،اسی طرح سے صحابہ کرامؓ کی تفسیری اضافوں کو بھی اسی حد تک رہنا چاہیے۔
قرآن اور اسلام کا سب سے بڑا کمال یہ بھی ہے کہ غلام اور لونڈی کیلئے ایک تو مستقل نکاح کی وضاحت بھی کردی ہے اور دوسرے اس تعلق کو مالک ومملوک سے بدل کر ایگریمنٹ میں تبدیل کردیا تھا۔ ایک شخص نے ایک لاکھ روپے میں لونڈی خرید لی اور دوسرے نے کفارہ کے طور پر یا زکوٰۃ کی مد میں غلام آزاد کرنا ہو تو اس رقم میں وہ غلام یا لونڈی آزاد کرسکتا ہے۔ غلام اور لونڈی کی حیثیت معاہدہ کی رہ گئی تھی۔ غلام کا آزاد عورت اور لونڈی کا آزاد مرد سے نکاح بھی ہوسکتا تھا۔ فتح مکہ کے موقع پر نبیﷺ نے ابوسفیانؓ وغیرہ کی بیگمات ، بیٹیوں اور بہنوں میں سے کسی کو بھی لونڈی نہیں بنایا البتہ متعہ کی اجازت دی گئی۔ یہی وجہ تھی کہ یزید کے لشکر نے حضرت حسینؓ کے خانوادے کو کربلا میں شہید کیا مگر کسی کو لونڈی نہیں بنایا گیا۔ جزاء الاحسان الا الاحسان ’’ نیکی کا بدلہ صرف نیکی ہے‘‘۔
اللہ نے فرمایا’’ مشرکوں سے نکاح نہ کرو، مؤمن غلام مشرک سے بہتر ہے، اگرچہ وہ تمہیں اچھا لگے، اور مؤمن لونڈی مشرکہ سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمہیں بہتر لگے‘‘۔ البتہ اگر مشرک سے بھی نکاح کرلیا تو یہ حرامکاری نہیں ہوگی۔ فتح مکہ تک حضرت علیؓ کی ہمشیرہ ام ہانیؓ اپنے مشرک شوہر کیساتھ رہیں۔ اللہ و رسولﷺ نے آپؓ پر حرامکاری کا اطلاق نہیں کیا۔ کوئی بدکار عورت ہو تو اللہ نے یہ وضاحت کی کہ’’ زانی نکاح نہیں کرتا مگر زانیہ یا مشرکہ سے اور زانیہ کا نکاح نہیں کرایا جاتا ہے مگر زانی یا مشرک سے اور مؤمنوں پر یہ حرام کردیا گیا ہے‘‘۔ (سورۂ النور) جب کوئی عورت معاشرے میں بگاڑ کا ذریعہ بن رہی ہو تو اس کیلئے زانی جوڑی دار ہو یا مشرک بہرحال اسکے مسئلے کا حل ڈھونڈنے کی بھی ترغیب ہے۔ یہ حکم بالکل عام طور سے فطری بھی ہے۔ معاشرے میں ایسے افراد کو ایک طرف کیا جانا چاہیے۔
اگر قرآنی احکام پر غور کیا جائے تو کوئی حکم ایسا نہیں، جس کو ناقابل عمل کہہ دیا جائے یا معاشرے میں معطل کرکے رکھا جائے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے اس پر کبھی غور کیا نہیں ہے۔ اگر زنا کار مرد اور عورت کیلئے یکساں طور پر 100،100 کوڑے کی سزا مقرر ہوتی تو بدفعلی بھی رُک جاتی اور سزاؤں پر عمل بھی آسان ہوتا لیکن افسوس کہ مسلمان بھی پہلے امتوں کے نقشِ قدم پر ہوبہو چل کر بے عمل بنے ہیں۔ یہود ونصاریٰ ہمارے رسول اللہﷺ سے اسلئے راضی نہ ہوسکتے تھے کہ ان کے دین میں قرآن کے برعکس سنگساری کی سزا تھی اور ایک سال جلاوطنی کی بھی۔ قرآن نے ان کو مسترد کردیا تھا۔ آج حالات بالکل بدل گئے ہیں، اگر آج ہمارا نظام قرآن وسنت کے مطابق غیرفطری سزاؤں سے ہٹ کر بن جائے تو یہود اور نصاریٰ کیلئے قابلِ قبول ہوں گی لیکن ہم وہاں پر کھڑے ہوگئے ہیں جہاں کل وہ کھڑے تھے۔ عملی طور پر تو کچھ کرنا کرانا ہے نہیں بس کتابوں قرآن کے خلاف غیرفطری سزاؤں پر ایک غلط رٹ لگائے بیٹھے ہیں۔ یہ جاہل علماء ومشائخ ہیں۔
قرآن میں بھی اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ سے فرمایا: عسیٰ ان یبعثک مقامًا محمودًا’’ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی بعثت مقام محمود کردے‘‘۔ یہ دعا آذان کے بعد بھی پڑھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نبیﷺ کو مقام محمودعطاء کرے۔ حامد کا معنی ہے تعریف کرنے والا۔ محمود کا معنی ہے جس کی تعریف کی جائے۔ اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کہ معراج میں بھی نبیﷺ نے تمام انبیاء کرام کو نماز کی امامت کرائی تھی اور قیامت میں بھی آپﷺ کے ہی چرچے ہونگے تو اس دعا کا مقصد کیا ہے اور آیت میں کس بات کی نشاندہی ہے؟۔ جب دنیا میں وہ خلافت قائم ہوگی جس سے آسمان وزمین والے دونوں کے دونوں خوش ہونگے۔ یہ اسی دورمیں ہوگا کہ اپنے تو اپنے بلکہ دشمن اور نہ ماننے والے بھی آپﷺ کی تعریف کرینگے۔ دنیا میںیہی مقام محمود لگتا ہے اور اس کیلئے عملی کوشش بھی کرنی چاہیے۔ جب اللہ نے روئے زمین پر اس خلافت کا وعدہ کیا تھا تو یہ بھی مقام محمود ہی ہے۔
ہر گلی کوچے کا ہر شخص آذان نہیں دے سکتا ہے، ایک مسجد میں ایک شخص نے ہی آذان دینی ہوتی ہے ،جس طرح حضرت سیدنا بلالؓ نے اپنے دور میں آذان دی البتہ اس آذان کیساتھ اس دعا اور تگ ودو میں ہر شخص خودکو شامل کرسکتاہے۔ قرآن میں بار بار بے حیائی، چھپی یاری اور فحاشی کی ممانعت ہے اور اس کی بہت زیادہ آبیاری بھی معاشرے میں ہورہی ہے۔ دنیا بھر میں نکاح اور کھلے عام جس ایگریمنٹ کا تصور موجود ہے اگر ایران کے متعہ اور سعودی عرب کے مسیار سے ہٹ کر ہم قرآن وسنت کی روشنی میں عالم اسلام اور عالم انسانیت کے مسائل حل کرنا شروع کریں تو دنیا اسلام کی طرف چل کر نہیں، دوڑ کر بھی نہیں اُڑ کر بھی نہیں بلکہ آن ایئر لائیو نشریات کی طرح آئے گی۔ راتوں رات ایک ایسا انقلاب برپا ہوگا جس کو دنیا کی کوئی طاقت روکنے کا سوچے گی بھی نہیں۔یہ خوشخبری بھی ہے۔
جنت بھی حضرت آدم علیہ السلام کیلئے بغیر حضرت حواء علیہا السلام کے سکون کا ذریعہ نہیں تھا۔ قابیل نے حضرت ہابیل کو قتل کرکے انسانیت میں ہوس اور قتل کا بیچ بودیا تھا۔ ایک نبی کے بیٹے سے بڑھ کر ولی اور عالم کے بیٹے بھی نہیں ہیں۔ صاحبزادگی اس وقت ٹھیک ہے جب وہ صلاحیت، کردار اور صفات کا مالک ہو۔ خلافت راشدہ کے بعد بنوامیہ ، بنوعباس اور خلافت عثمانیہ نے خاندانی بنیادوں پر اقتدار پر قبضہ کئے رکھا۔ بادشاہوں کے علاوہ علماء اور صوفیاء کے خانوادوں نے بھی بے تاج بادشاہی کی ہے۔ قرآن اور عترت کی تلقین نبیﷺ نے حجۃ الوداع میں کی تھی۔امت مسلمہ کا صرف یہ مسئلہ نہیں رہاہے کہ عترت رسول کو چھوڑ رکھا تھا بلکہ قرآن سے بھی تمسک نہیں رہاہے۔ قرآن میں حدث اکبر کیلئے نہانے اور حدث اصغر کیلئے وضو کا ذکر ہے۔ انواع واقسام کے عجیب وغریب فرائض گھڑے گئے۔ جنکا نہ سر ہے نہ پیر۔ کراچی کے مشہور عالم دین علامہ شاہ تراب الحق قادریؒ نے روزے کیلئے مسئلہ بیان کیا تھا کہ’’ لیٹرین کرتے وقت آنت نکلتی ہے ۔ جس کو پھول کہتے ہیں۔ اس پھول کو دھویا جائے اور اندر جانے سے پہلے اس کو کپڑے سے سکھادیا جائے۔ اگر کپڑے سے سکھائے بغیر وہ پھول واپس اندر گیا تو روزہ ٹوٹ جائیگا۔ تکلف کرکے اس پھول کو باہر رکھنا ہے جب تک سکھایا نہ جائے‘‘۔ حالانکہ یہ انسان کے اختیار میں نہیں ہوتا ہے اور قرآن وسنت میں روزہ ٹوٹنے کی ایسی کوئی مثال نہیں ہے۔ اب دعوتِ اسلامی کے مفتیان نے اس سے بھی بڑھ کر کہا ہے’’ کہ استنجے کیلئے کھل کر نہ بیٹھیں ورنہ مقعد کے ذریعے معدہ تک پانی پہنچ سکتا ہے اور روزہ ٹوٹ جائیگا، اسی طرح سانس لینے میں بھی احتیاط کی جائے۔ ورنہ اس سے بھی پانی معدہ میں مقعد کے راستے پہنچ کر روزہ ٹوٹ جائیگا‘‘۔
فقہ کا مسئلہ یہ تھا کہ اگر پچکاری کے پریشر سے پانی مقعد کے راستے پانی پہنچ جائے تو روزہ ٹوٹے گا یا نہیں؟۔ اگرچہ اب یہ ممکن ہوا ہے کہ الٹراساؤنڈ سے اس بات کو ثابت کرکے دکھایا جائے کہ پچکاری کے ذریعے بھی معدہ تک پانی پہنچنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ جب کسی بیمار کو یہ نوبت پہنچے تو پچکاری کے ذریعے سترکھلنا بھی نہیں چاہیے، اللہ تعالیٰ نے مریض کیلئے روزہ معاف کرکے کہا ہے کہ کسی اور دنوں میں رکھا جائے ، اللہ تعالیٰ تمہارے آسانی چاہتا ہے اور مشکل نہیں چاہتاہے جو اللہ کی بات کو نہ سمجھے اور خود کو گولی کھانے کے بجائے پچکاری کیلئے مجبور کرے تو اس گدھے کو حقائق سے آگاہ کرنے کی بہت سخت ضرورت ہے۔
فقہ کی کتابوں میں کتاب الطہارت سے لیکر کتاب الصلوٰۃ، کتاب النکاح، کتاب الطلاق ، کتاب البیوع اور کتاب الحدود تک ایک ایک چیز میں اسلام کو اجنبیت کی طرف دھکیل دیا گیا ۔ جہری نمازوں میں سورتوں سے پہلے بسم اللہ تک نہیں پڑھی جاتی ہے۔ احادیث کی کتابوں میں رفع الیدین کی بہت کثرت کے باوجود اس پر عمل کرنے کو گمراہی سمجھا جاتا ہے۔ قرآن ، احادیث اور فقہ کسی چیز کی بھی درحقیقت کوئی سمجھ نہیں رکھتے ہیں۔ بس اندھوں کی بھیڑ چال چل رہی ہے۔
دنیا میں نکاح کا قانون موجود ہے لیکن اس میں اتنی سختی ہے کہ مغرب والے نکاح سے زیادہ گرل وبوائے فرینڈ کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ قرآن وسنت کے برعکس نکاح و طلاق کا تصور اتنا بھیانک بنادیا گیا ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ملک، مذہب اور معاشرہ اس گھناونے تصورات کو قبول کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ہے۔ جس دن قرآن وسنت میں واضح کردہ نکاح و طلاق کے قوانین سامنے آگئے تو مسلمان ہی نہیں دنیا کا ہر مذہب اور ملک اسی کو اپنے ہاں رائج کردیگا۔
نکاح کیلئے حق مہر کا تصور ہے۔ غریب وامیر اپنی اپنی استعداد کے مطابق ہی اس کو عملی جامہ پہناسکتے ہیں۔ ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی تو مقرر کردہ حق مہر کا نصف دینا ہوگا۔ اور اگر حق مہر مقرر نہ کیا ہو تو غریب اپنی وسعت کے مطابق اور امیر اپنی وسعت کے مطابق دیگا اور باہمی رضامندی سے ایکدوسرے سے بھلائی بھی کی جاسکتی ہے بلکہ اللہ نے فرمایا کہ آپس میں بھلائی کو مت بھولو۔اس سے یہ واضح ہے کہ ہاتھ لگانے کے بعد پورے کا پورا حق مہر فرض بن جاتا ہے۔ کوئی بہت ہی کم عقل یا ڈھیٹ قسم کا مولوی اس بات کا انکار کرسکتا ہے۔ اگر اتنی سی بات کو دنیا پر واضح کردیں اور مسلمان اس پر عمل پیرا ہوجائیں تو خواتین کے حقوق کو بہت بڑی بنیاد مل جائے گی جو قرآن نے بہر صورت واضح بھی کی ہے۔
حق مہر کی مقرر کردہ مقدار کا قانون متعارف ہوجائے تو دنیا میں گرل فرینڈ رکھنے کا تصور کافی حد تک ختم ہوجائیگا۔ امریکہ وغیرہ میں طلاق مرد کی طرف سے ہو یا عورت کی طرف سے آدھی جائیداد سے محروم ہونا پڑتا ہے اسلئے لوگ نکاح کو ترجیحات میں نہیں رکھ سکتے ہیں۔ ایک انتہاء یہ ہوتی ہے کہ نکاح کی صورت میں آدھی جائیداد جانے کا خطرہ ہوتا ہے اور دوسری انتہاء یہ ہوتی ہے کہ لڑکی سے ہر قسم کے مراسم اور فائدے اُٹھانے کے باوجودکوئی چیز بھی نہ دی جائے تو اسکا حق نہیں سمجھا جاتا ہے۔ پھر نکاح کی دلدل میں کون خود کو پھنسائے گا؟۔ جبکہ اسلام نے نکاح کے علاوہ استمتاع کی صورت میں بھی معاوضہ دینے کا پابند بنایاہے۔
نکاح کی صورت میں عورت خلع لے یا مرد طلاق دے، دونوں صورتوں میں ذمہ داری مرد پر پڑتی ہے۔ حق مہر تو عورت ہی کا حق بہر صورت ہوتا ہے لیکن خلع کی صورت میں گھر بار اور جائیداد چھوڑ کر عورت کو نکلنا پڑتا ہے۔ طلاق کی صورت میں عورت کو مکان ، جائیداد اور کسی بھی چیز سے بے دخل نہیں کرسکتے ہیں چاہے اس کو حق مہر کے بہت سے خزانے کیوں نہیں دئیے ہوں۔ سورہ النساء آیت :19 میں خلع کی وضاحت ہے اور آیت:20،21میں طلاق کی وضاحت ہے۔خلع میں بھی دی ہوئی چیزوں میں سے بعض چیزوں کو بھی ساتھ لیجانے سے محروم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ مگر یہ وہ کھلی ہوئی فحاشی کی مرتکب پائی جائے۔ الزام تراشی سے منع کیا گیا ہے اور لُعان کے بغیر اس کو حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا ہے۔
الزام کی بنیاد پر بیوی کے قتل کا معاملہ پہلے بھی عام تھا۔اسلام نے توچشم دید گواہی پر بھی قتل کی اجازت روا نہیں رکھی۔ انصار کے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ نے کہا کہ میں لعان نہیں کروں گا بلکہ قتل کروں گا۔ نبیﷺ نے انصارؓ سے کہاکہ یہ تمہارا صاحب کیا کہتاہے؟۔ انصارؓ نے عرض کیا کہ اس سے در گزر کیجئے،یہ بڑی غیرت والا ہے، اس نے طلاق شدہ و بیوہ سے کبھی شادی نہیں کی، جسے طلاق دی اس کو کسی اور سے نکاح نہیں کرنے دیا۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ میں اس سے زیادہ غیرت والا ہوں، اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیرت والا ہے۔ (بخاری) نبیﷺ نے سچ فرمایا تھا اسلئے کہ بیوی تو دور کی بات ہے ،اپنی لونڈی ماریہ قبطیہؓ کیساتھ اسکے ایک ہم زباں پر شک گزرا تھا تو حضرت علیؓ سے کہا کہ اسے قتل کردو۔حضرت علیؓؓ حکم کی تعمیل کیلئے گئے اور اس کو ایک کنویں میں نہاتا ہوا پایا، جب اس کو باہر نکالا تو وہ مقطوع الذکر تھا جس پر اس کو چھوڑ بھی دیا۔اللہ تعالیٰ نے قرآن میں حکم دیا کہ آپ ﷺ کی ازواج سے کبھی نکاح نہ کریں اس سے آپ کو اذیت ہوتی ہے۔
لے پالک کی طلاق شدہ بیوی سے نکاح کو معاشرے میں حرام سمجھا جاتا تھا تو اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کا نکاح کرادیا تاکہ آئندہ مؤمنوں کو اس میں مشکل نہ ہو کسی رسم ورایت کو توڑنا بہت بڑی قربانی ہے۔ رسول اللہﷺ کا درجہ بہت بلند ان روحانی آزمائشوں کی وجہ سے تھا۔ یو ٹیوب کی جس گستاخانہ فلم کی وجہ سے شور مچا تھا، اس میں سورۂ تحریم کے قصے کا مذاق اڑایا گیا تھا۔ آج بھی انواع واقسام کی اذیتناک باتیں سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ یہ سلسلہ حمد وتعریف میں اس وقت ہی بدل سکتا ہے جب اسلام کا درست چہرہ عوام کے سامنے لایا جائے۔ دین ابراہیم ؑ سب کے نزدیک محترم ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت سارا ؑ کی وجہ سے لونڈی حضرت حاجرہ ؑ کو مکہ کے وادی غیر ذی زرع میں اللہ کے حکم سے چھوڑ دیا تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت حفصہؓ کے حجرے میں حضرت ماریہ قبطیہؓ کیساتھ مباشرت کی تو حضرت حفصہؓ نے شدید شورواحتجاج کیا کہ مجھے کمتر سمجھا گیا۔ جس پر نبیﷺ نے فرمایا کہ چپ کرو، بس حضرت عائشہؓ سے بات چھپاؤ، میں نے اسے اپنے اوپر حرام کردیا ۔ حضرت حفصہؓ نے اس کو خوشخبری اور اپنی جیت سمجھ کر حضرت عائشہؓ کو بتادیا۔ انہوں نے مل کر ایک چال چلی اور دیگر ازواجؓ سے کہا کہ جسکے پاس نبیﷺ تشریف لائیں تو کہنا کہ منہ سے برگد کی بوآرہی ہے۔اس بات کو متعدد مرتبہ دوسری ازواجؓ نے دھرایا جسکے جواب میں نبیﷺ کہتے رہے کہ میں نے شہید کھایا ہے تو پھر وہ کہتیں کہ مکھیوں نے برگد گھایا ہوگا۔ بالآخر اس مآجرے کے نتیجے میں نبیﷺ نے فرمایا کہ مجھ پر شہد حرام ہے۔ حضرت عائشہؓ اور حضرت حفصہؓ نے سمجھا کہ ہم نے اس لڑائی میں نبیﷺ کو شکست سے دوچار کردیا ہے۔ اس پر سورۂ تحریم نازل ہوئی ۔ نبیﷺ سے فرمایا گیاکہ اپنی بیگمات کی رضا کیلئے اپنے اوپر کیوں حرام کرتے ہو اسے جسے اللہ نے آپ کیلئے حلال کیا ہے۔ یہ دونوں خواتین نبیﷺ پر غالب نہیں آسکتیں۔ اگر یہ توبہ نہ کرلیں تو اللہ ان سے بہتر ازواج بھی نبیﷺ کو دے سکتاہے جن میں کنواری و غیرکنواری کوئی بھی ہوسکتی ہے۔ حضرت لوط ؑ اورحضرت نوحؑ کی بیگمات کافر تھیں اور حضرت مریمؑ و فرعون کی بیگم مؤمنہ تھیں۔ سورۂ تحریم میں حکم ہے جاہدالکفار و المنافقین واغلظ علیھم ’’ کافروں اور منافقوں کے خلاف جہاد کرو اور ان پر سختی کرو‘‘ ۔ یہ بھی معلوم ہے کہ انبیاء ؑ حضرت نوح ؑ ولوطؑ نے اپنی کافر ومنافق بیگمات پر کس قسم کی سختی کی اور فرعون کی بیگمؓ و حضرت مریمؓ نے کس قسم کا جہاد کیا تھا۔ بارود سے اڑا دیا ، گلہ گھونٹ دیا ، زہر دیا ؟۔ یہ صرف مسلمانوں کو اعتدال کی راہ دکھانی تھی۔
حضرت نوح ؑ کوساڑھے نوسوسال تک کافروں کے پتھر کھانے پڑے۔جبکہ طائف میں نبیﷺ کو بھی پتھر مارے گئے۔ طائف کے میدان سے زیادہ سخت آزمائش نبیﷺ پر حضرت عائشہؓ کے بہتان کے حوالے سے تھی۔ ایک غیرتمند انسان کو ایسی آزمائش کا سامنا کرنا پڑے تو اس سے بڑا امتحان نہیں ہوسکتاہے۔ اس اذیت کی وجہ سے نبیﷺ کی شان کا اندازہ لگایا جاسکتاہے، عالم انسانیت کو قرآن وسنت کا درست ادراک ہوجائے تو خلافت علی منہاج النبوۃ کے قیام سے سب اتفاق کرینگے۔ حضرت ابراہیمؑ کے دور میں ممکن نہیں تھا کہ بیوی کسی لونڈی کو برابر سمجھے۔ نبیﷺ کی وجہ سے دنیا کو اللہ نے لونڈی وغلامی کے نظام سے ہی نجات دلانی تھی ،اسلئے قرآن میں وضاحت ہے کہ یہ اہل فرعون کا وظیفہ تھا جوبنی اسرائیل کو سخت آزمائش میں مبتلا کرتے تھے۔اللہ نے انسانیت کو عروج وکمال کا آخری درجہ عطاء کرنا تھا۔ معراج اس کا مشاہدہ تھا۔ عالمی خلافت اسکامنبع تھا۔
رسول اللہﷺ کو حضرت عائشہؓ پر بہتان لگانے والوں نے کس قدر اذیت دی تھی؟۔اس کی سزا کیا تھی؟، ایک عام غریب و بے بس خاتون پر بہتان لگانے کی سزا بھی وہی 80کوڑے ہے۔ یہ مساوات انسانی کا کمال ہے۔ اسلام کے نظام انصاف ومساوات اور شریعت کو ایسا شخص لیڈ نہیں کرسکتا ہے جسکا اپنا خمیرہی اسٹیٹس کو سے ملوث ہو۔ سیاستدانو! کروڑوں اربوں میں ہتک عزت کا دعویٰ کرو لیکن انسان کی عزت برائے فروخت ہے اور نہ اسکا کوئی مول ہوتاہے۔ سورہ نور میں چار گواہ کا ذکر فحاشی کے ثبوت کیلئے نہیں بلکہ پاکدامن خواتین پر بہتان سے روکنے اور سزا دینے کیلئے ہیں۔ کسی معاشرے میں بہتان لگانے والے کیلئے یہ ممکن نہیں کہ کسی شریف خاتون پر چار گواہ لاسکے۔علماء اور مذہبی سیاسی جماعتوں کی مت ماری گئی ہے۔ اسلام کو اجنبیت میں دھکیلنے والا فقہ بیان کیا جاتاہے لیکن نظام کے حوالے سے حقائق سامنے نہیں لائے جاتے ہیں۔ سورۂ نور میں اللہ نے افواہ پھیلانے والے گروہ کو بہت اچھے انداز میں تنبیہ فرمائی اور یہاں تک کہا کہ ’’اس بہتان عظیم کو اپنے لئے شر نہ سمجھو بلکہ اس میں تمہارے خیر ہے‘‘۔ ان قرآنی آیات پر قربان ہوجائیے کہ جب حضرت ابوبکرؓ نے بہتان میں شریک مسطحؓ پر احسان نہ کرنے کی قسم کھائی تواللہ نے فرمایا کہ ’’مؤمنوں کیلئے مناسب نہیں جب وہ مالدار ہوں کہ کسی پر احسان نہ کرنے کی قسم کھائیں‘‘۔ اسلام جس سپرٹ سے دنیا میں نازل ہوا تھا ،قرآن نبی ﷺ کااسوۂ حسنہ ہے۔
دنیا کو پتہ چلے کہ اسلام کا نظام معاشرت، نظام معیشت اورنظام حکومت ہی سب سے بہترین ہے تو قابل ترین لوگ قرآن وسنت کی طرف توجہ کرینگے۔ جس مذہبی طبقہ نے اسلام کو صرف اپنے کاروبار اور پیشے تک اسلام کو محدود کرکے رکھا ہے اس کی بھی آنکھیں کھل جائیں گی۔جن علماء ومشائخ میں خلوص ہے مگر سمجھ کی نعمت سے محروم ہیں جب ان کو نظر آئیگاکہ سورۂ جمعہ کی پیش گوئی کے مطابق آخر ی جماعت اہل فارس کی امامت میں حقائق سے پردہ اٹھارہی ہے۔ علم،ایمان اور دین کو ثریا سے واپس لایا جارہاہے تو وہ بلاامتیاز مسلک وفرقہ حق کی حمایت کریں گے۔ دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث اور اہل تشیع کے علماء اور دانشور عرصہ سے اس جماعت کی حمایت کررہے ہیں۔ ٹانک کے تمام معروف دیوبندی علماء کرام نے تحریری اور تقریری حمایت سے نوازا تھا جن میں مولانا فتح خانؒ نائب صوبائی امیر وضلعی سرپرست جمعیت علماء اسلام (ف) ، مولانا عبدالرؤفؒ گل امام ضلعی امیر جے یو آئی (ف) مولانا عصام الدین محسودؒ ضلعی جنرل سیکرٹری جے یوآئی (ف) مولانا غلام محمدؒ ضلعی امیر ختم نبوت،مولانا قاری محمد حسن شکوی شہیدؒ خطیب گودام مسجد، مولانا شیخ محمد شفیع ضلعی امیر جمعیت علماء اسلام (س) وغیرہ شامل تھے۔
اسکے باوجود طالبان دہشت گردوں نے علماء کرام کی حمایت کا خیال بھی نہیں رکھا تھا۔ پروفیسرغفور، ڈاکٹر اسرار ، مولانا نورانی ،علامہ طالب جوہری، مولاناشاہ فریدالحق،مولانا عبدالرحمن سلفی کے علاوہ ملک بھر سے تمام مذہبی فرقوں ومسالک اور شخصیات کی طرف سے تائیدات کا ایک لامتناہی سلسلہ تھا۔ اتحادالعلماء کراچی کے صدر مولانا عبدالرؤف،جمعیت علماء اسلام (ف) کے مرکزی امیر مولانا عبد الکریم بیرشریف، تربت کے مولانا عبدالحق بلوچ امیر جماعت اسلامی بلوچستان اور کشمیر سے کوئٹہ اور پشاور سے کراچی تک ہرمکتبۂ فکر کے افراد اس میں شامل تھے لیکن اسکے باوجود مسلکوں اور فرقوں کے خوگروں نے عملی طور پر کچھ نہیں کیا، ہاں یہ ایک حقیقت ہے کہ فرقہ واریت کو ختم کرنے میں بنیادی کردار اسی جماعت کا ہے اور اب بھی امید کی یہ ایک ایسی کرن ہے جس سے جاہلیت کے تمام اندھیروں کو دور کیا جاسکتا ہے۔ مساجد ومدارس کے ارباب اہتمام ومساجد کو توجہ دینی ہوگی۔
حضرت مولانا حسام اللہ شریفی مدظلہ دارلعلوم دیوبند کے مولانا رسول خانؒ و علامہ سید سلیمان ندویؒ کے بھی شاگرد رہے ہیں۔ مولانا رسول خان کا تعلق ہزارہ سے تھا اور وہ مولانا قاری طیب ؒ دارلعلوم دیوبند کے مہتمم کے بھی استاذ رہے ہیں ، مولانا احمد علی لاہوریؒ نے مولانا حسام اللہ شریفی کو سوالات کے جواب دینے کی اجازت دی تھی۔برصغیر میں دار العلوم دیوبند کے سب سے بڑے اور مستند عالم دین کا اعزاز اس دور میں حضرت شریفی صاحب مدظلہ العالی کو حاصل ہے۔ آپ شریعت کورٹ و سپریم کورٹ کے مشیراور رابطہ عالم اسلامی کے رکن ہیں۔ عتیق

کوئی ان پڑھ، بیوقوف اور بچہ بھی ایسی حرکت کرنے کی حماقت نہیں کرسکتا ہے.

quran-book-mulla-jiwan-dars-e-nizami-noor-ul-anwar-lafz -nuqoosh-naqsh-fatawa-shami-fatawa-qazi-khan-mufti-muhammad-saeed-khan-mufti-taqi-usmani-sura-fatiha

سید ارشاد نقوی مدیر خصوصی نوشتۂ دیوار نے کہا کہ علماء ومفتیان بار بار متنبہ ہونے کے باوجود ڈھیٹ ہوگئے ہیں۔ اصولِ فقہ کی کتاب ’’نورالانوار: ملاجیونؒ ‘‘ نصاب کا حصہ ہے اور معمولی معمولی باتوں پر طوفان کھڑے کرنے والوں کو اتنی موٹی بات بھی کیوں سمجھ میں نہیں آرہی کہ کتاب اللہ سے متعلق بالکل لغو تعلیم دی جاتی ہے کہ المکتوب فی المصاحف المنقول عنہ نقلا متواتر بلاشہ ’’ کتاب اللہ سے مراد مصاحف میں لکھاہوا قرآن ہے جونبیﷺ سے متواتر بلاشبہ نقل ہواہے‘‘۔ اس کی تشریح میں ہے کہ’’لکھاہوا سے مراد لکھا ہوانہیں ، کیونکہ یہ لفظ ہے اور نہ معنیٰ۔ بلکہ لکھائی محض نقوش ہیں‘‘۔ کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ لکھا ہوا سے مراد لکھائی نہیں ہے؟۔ کوئی ان پڑھ جاہل ،کم عقل ، بچہ بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ کتاب اللہ مصاحف میں لکھا ہوا قرآن ہے مگر لکھے سے مراد لکھا ہوا نہیں ۔ یہ علم الکلام کی گمراہی ہے جس سے امام ابوحنیفہؒ نے توبہ کی تھی۔ آیات کا حوالہ ذیل میں دیا گیا، تاکہ علماء ومفتیا ن کیلئے یہ نصاب بدلنے میں آسانی ہو ۔ جس طرح تعلیم یافتہ ہندو بت کی کیمسٹری سمجھنے کے باوجوداسکو پوجتا ہے، اسی طرح اندھی تقلیدسے عقیدت میں علماء ومفتیان اپنے نصاب کے حوالہ سمجھنے پر غور نہیں کرتے ۔ نورالانوار ملا جیونؒ نے لکھی۔ جو شہرت یافتہ سادہ تھے اورانکے انواع واقسام کے لطیفے ہیں۔ یہ بڑی حماقت ہے کہ کتاب سے مراد مصاحف میں لکھا ہواقرآن ہو مگر لکھاہوا کے کلام اللہ ہونے سے انکار ہو۔ اسکے بھیانک نتائج یہ نکلے کہ فتاویٰ شامیہ، قاضی خان اور صاحب ہدایہ نے لکھا ہے کہ ’’سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے علاج کیلئے لکھنا جائز ہے‘‘۔ مفتی تقی عثمانی نے عوام کے دباؤ پراپنی کتابوں تکملہ فتح الملہم و فقہی مقالات سے نکالا مگرتحریک انصاف کے رہنما مفتی محمدسعید خان نے پھر بھی اپنی کتاب ’’ ریزہ الماس‘‘ میں پیشاب سے سورۂفاتحہ کو لکھنے کے جواز کا دفاع کیا لیکن جب درسِ نظامی کے بنیادی نصاب میں یہ شامل ہو کہ لکھائی کی شکل محض نقوش ہیں جو الفاظ ومعانی نہیں اور نہ اللہ کا کلام ہے تو پھر پیشاب سے لکھنے میں کیا حرج ہے؟۔ اور اصولِ فقہ کی بنیادی غلطی کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں قرآن کی شکل ہی بدل جاتی ہے۔
علماء پڑھتے پڑھاتے ہیں کہ نقل متواتر کی قید سے غیرمتواتر آیات نکل گئیں۔ اگر یہ تعلیم ہو تو پھر قرآن کی حفاظت کا عقیدہ نہیں رہتا۔ یہ بھی پڑھا یا جاتا ہے کہ بلاشہ کی قید سے بسم اللہ نکل گئی ، کیونکہ صحیح بات یہ ہے کہ بسم اللہ قرآن ہے مگر اس میں شبہ ہے اور شبہ کے قوی ہونے کی وجہ سے اسکا منکر کافر نہیں۔ علاوہ ازیں یہ تعلیم ہے کہ آخری 2سورتوں کو عبداللہ ابن مسعودؓ قرآن نہیں مانتے تھے۔ حالانکہ اللہ نے یہ واضح کردیا کہ قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے لیا، شیطان اسکے آگے پیچھے حملہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ کسی نے کئی سوسال بعد عبداللہ ابن مسعودؓکے مصحف کو دیکھاجسکی آخری دو سورتیں اور فاتحہ پھٹ کر ضائع تھے تویہ افسانۂ کفر گھڑ دیا زیبِ داستاں کیلئے۔
تفسیر عثمانی میں علامہ شبیر احمد عثمانی نے لکھا ہے کہ ابن مسعودؓ ان آخری دوسورتوں کے نزول کے منکر نہ تھے مگر قرآن کا حصہ نہ سمجھتے تھے اسلئے قرآن میں درج نہ کیا۔ کسی نے یہ بھی لکھ دیا کہ نماز میں بھی پڑھنے کو جائز نہ سمجھتے تھے، یہ محض دم تعویذ کیلئے اتری تھیں۔ بریلوی مکتبہ فکر کے علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی تفسیر’’ تبیان القرآن‘‘ میں طویل بحث میں لکھا کہ ’’ صحیح روایات سے ثابت ہے کہ عبداللہ بن مسعودؓ نے اپنے مصحف میں آخری دو سورتوں کو نہیں لکھااور اسکا انکار ممکن نہیں۔ اسکا حل یہ ہے کہ صحابہؓ کے دور میں قرآن پر اجماع نہیں ہوا تھا، اس وقت قرآن کی ان دو سورتوں کا منکر کافر نہیں تھا جبکہ اب اجماع ہوچکا ہے اور اب اس اجماع سے انکار پر وہ شخص کافر ہوگا جو ان دو سورتوں کو نہ مانے گا‘‘۔یہ عقل دیکھ لو کہ قرآن کا منکر کافر نہیں مگر اجماع کا منکر کافر بن جائیگا؟۔ علامہ غلام رسول سعیدی نے لکھا کہ ’’ شیخ انور شاہ کشمیری نے فیض الباری میں لکھاہے کہ قرآن میں معنوی تحریف تو بہت ہوئی لیکن لفظی تحریف بھی ہوئی ہے، انہوں نے جان بوجھ کی ہے یا مغالطہ سے ایسا ہواہے۔ اس عبارت کا حوالہ دئیے بغیر ہم نے دارالعلوم کراچی کورنگی سے فتویٰ لیا تو وہاں سے اس پر کافر کا فتویٰ لگایا گیا‘‘۔ جبکہ قاضی عبدالکریم کلاچی نے یہ عبارت لکھ کر اکوڑہ خٹک کے مفتی اعظم مفتی فرید صاحب کو لکھ دیا کہ عبارت پڑھ کر پاؤں سے زمین نکل گئی ۔ مفتی فرید صاحبؒ نے اسکا غیر تسلی بخش جواب دیا جو انکے ’’فتاویٰ دیوبند پاکستان ‘‘ میں شائع ہوچکا ہے۔
ایک وقت تھا برطانیہ کی حکومت پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا، اب سوشل میڈیا کے ذریعے حکومت کے بغیربھی کسی پیغام کو عام کرنے کا مسئلہ نہیں رہاہے۔ علماء ومفتیان تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ نوجون اور پڑھا لکھا طبقہ بے دینی کی طرف جارہا ہے ۔ ان کو یہ احساس نہیں ہے کہ روڈ پر کھڑے ہوکر گدھے کی طرح آنکھیں بند کرنے سے کوئی کمزور گدھا لاری کی ٹکر سے بچ سکے گا یا ٹکر سے ملیا میٹ ہوجائیگا؟۔ درسِ نظامی کی کتابوں میں قرآن کے متعلق اصولِ فقہ کی بنیادی تعلیم میں اس طرح کا کفر کب تک عوام کی نظروں سے پوشیدہ رکھا جاسکے گا؟۔ ایک دن کسی بڑے انقلاب کی شکل میں کوئی طاقت ان کو دبوچ لے گی تو دفاع کا موقع بھی نہیں مل سکے گا۔ لوگ بہت بے حس ہیں مگر جب کوئی احساس دلانے والا احساس دلائے گا تو مدارس کو صرف ذریعہ معاش سمجھنے والے سنبھل بھی نہیں سکیں گے۔ اسلئے اللہ کا خوف کا کھانے کیساتھ اپنا بھی خیال رکھیں۔ سورۂ اعراف کی متعلقہ آیات کوغور سے تلاوت کریں اور سمجھیں جن میں آگے یہ بھی ہے کہ درجہ بدرجہ اللہ تعالیٰ ان کو وہاں تک لے جاتا ہے کہ وہ سمجھ نہیں سکتے ہیں اور پھر اللہ اچانک دبوچ لیتا ہے۔ قرآن کی سمجھ اور اس کو دستور العمل بنانے سے ہی ہمارا بیڑہ پار ہوگا۔
فویل اللذین یکتبون الکتاب بایدیھم ثم یقولون ھذا من عند اللہ لیشتروا بہٖ ثمنا قلیلا فویل اللھم مما کتبت ایدیھم وویل اللھم مما یکسبونO تباہی ہے ان لوگوں کیلئے جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں پھر لوگوں سے کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے ذریعے تھوڑا سا کما لیں۔ پس تباہی ہے ان لوگوں کیلئے اس تحریر کی وجہ سے جو ان کے ہاتھوں نے لکھی اور اس وجہ سے جو انہوں نے کمایا(البقرہ: آیت:79)
ولو نزلنا علیک کتاباً فی قرطاس فلمسوہ بایدیھم لقال الذین کفروا ان ھذا الا سحر مبین Oاگر ہم آپ پر کوئی ایسی کتاب نازل کردیتے جو کاغذ پر لکھی ہوئی ہوتی پھر یہ اسے ہاتھوں سے چھو کر بھی دیکھ لیتے تو جو لوگ کافر ہیں وہ کہتے کہ یہ کھلا ہوا جادو ہے۔ (الانعام: آیت:7)
قرآن سے واضح ہے کہ کتاب کاغذپر لکھی چیز ہے، بچہ بھی جانتاہے ،اصول فقہ کی کتابوں سے گمراہانہ تعلیم کو نہ نکالا گیا تو علماء ومفتیان پرشدید عذاب آسکتاہے۔
و الذین اٰتینٰھم الکتاب یعلمون انہ منزل من ربک بالحق اور جن کو ہم نے کتاب دی ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے حق کیساتھ نازل ہوئی ہے ۔ (الانعام: آیت: 114)
الذی یجدونہ مکتوباً عندھم فی التورٰۃ و الانجیلOجس کو وہ لکھا ہوا پاتے ہیں اپنے پاس تورات اور انجیل میں ۔ (الاعراف: آیت:157)
الرOکتاب انزلناہ الیک لتخرج الناس من الظلمٰت الی النور کتاب ہم نے تیری طرف نازل کی تاکہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے نور کی طرف نکالیں ۔ (ابراہیم: آیت: 1)
والذین یمسکون بالکتاب و اقاموا الصلوٰۃ انا لا نضیع اجر االصٰلحینO اور جو کتاب سے تمسک کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں تو ہم ان کا اجر ضائع نہیں کرتے ہیں۔( الاعراف: 170)
قرآنی آیات میں بار ہا مکتوب (لکھت : لکھائی )کواللہ کا کلام قرار دیاگیاہے۔
فسئل الذین یقرؤن الکتاب من قبلکOاور پوچھ لیں ان لوگوں سے جو آپ سے پہلے کتاب پڑھتے ہیں ( یونس:آیت:94)
ن و القلم وما یسطرون ما انت بنعمۃ ربک بمجنون Oن قسم ہے قلم کی اور جو کچھ سطروں میں ہے اس کی ، کہ آپ اپنے رب کی نعمت سے مجنون نہیں ہیں۔ (القلم: آیت:1)
اقرا و ربک الاکرم الذی علم بالقلم پڑھ اور تیرے عزت والے رب کی قسم جس نے قلم کے ذریعے سے سکھایا ۔ (العلق: آیت:4)
وقطعنٰھم فی الارض اُمما، منھم الصالحون منھم دون ذٰلک… فخلف من بعدھم خلف ورثوا الکتٰب ےأخذون عرض ہٰذہ الادنیٰ و یقولون سیغفرلناوان ےأتھم عرض مثلہ ےأخذوہ، الم ےؤخذ علیھم میثاق الکتٰب ان لا یقولوا علی اللہ الا الحق و درسوا مافیہ(اعراف کی ان آیات سے علماء ومفتیان کو پورا پورا سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے)
واتل علیھم نبأ الذی اٰتینٰہ آیٰتنا ۔۔۔ من لغٰوینOولو شئنالرفعنٰہ ۔۔۔ فمثلہ کمثل الکلب ان تحمل علیہ یلھث او تترکہ یلھث۔۔۔ لعلھم یتفکرونOولقد ذرأنا لجنھم کثیر من الجن والانس لھم قلوب لایفقھون بھا ولھم اعین لا پبصرون بھاولھم اٰذان لا یسمعون بھا ،اولٰئک کالانعام بل ھم اضل ،اولٰئک ھم الغٰفلونOاور ان کو اس کی خبر بتاؤ،جس کو ہم نے اپنی آیات دیں پھر وہ انسے نیچے اترا،پھر شیطان نے اس کو دھر لیا اور وہ بھٹکنے والوں میں شامل ہوا،اور اگر ہم چاہتے تو اسے بلندی پر انکے ذریعے پہنچاتے مگر اس نے زمین میں ہمیشہ رہنے کو ترجیح دی اور نفسانی خواہش کا تابع بنا، اس کی مثال کتے کی سی ہے، اگر اس پر بوجھ لادو تب بھی ہانپے اور چھوڑ دے تب بھی ہانپے، ۔۔۔ جہنم کیلئے بہت جن وانس میں سے تیار کررکھے ہیں،انکے دل ہیں مگر انسے سمجھتے نہیں، آنکھیں ہیں مگر انسے دیکھتے نہیں، انکے کان ہیں مگرانسے سنتے نہیںیہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ زیادہ بدتر(اعراف)

مولاناعتیق گیلانی قرآنی علوم و معارف میں گہری بصیرت رکھتے ہیں. مفتی محمد حسام اللہ شریفی

mufti-hussam-ullah-sharifi-daily-jang-news-paper-Federal-Shariat-Court-shariat-appellate-bench-supreme-court-Shajar-e-Mamnooa-qissa-adam-o-iblees

روزنامہ جنگ کراچی حضرت مولانا مفتی محمد حسام اللہ شریفی صاحب مدظلہ العالی و دامت برکاتہم العالیہ
*رکن مجلس تحقیقات علوم قرآن و سنت رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ * ایڈیٹر ماہنامہ قرآن الہدیٰ کراچی اُردو انگریزی میں شائع ہونیوالا بین الاقوامی جریدہ *مشیر وفاقی شرعی عدالت حکومت پاکستان *مشیر شریعت اپیلٹ بنچ سپریم کورٹ پاکستان * رجسٹرڈ پروف ریڈر برائے قرآن حکیم مقرر کردہ وزارت امور مذہبی پاکستان * خطیب جامع مسجد قیادت کراچی پورٹ ٹرسٹ ہیڈ آفس *کتاب و سنت کی روشنی میں ہفت روزہ اخبار جہاں کراچی جنگ گروپ
نے تحریر فرمایاکہ( ۱۳ رمضان المبارک ۱۴۳۹، 29-5-18) اللہ رب العزت نے اس دنیا میں مختلف انسان پیدا کرکے ان میں مختلف صلاحیتیں رکھی ہیں۔ یہ انسان کسی کارخانے اور فیکٹری میں نہیں ڈھلے اور تیار نہیں ہوئے کہ ایک ہی مشین میں ڈھلے ڈھلائے برآمد ہوئے ہوں اور ہر انسان تمام معاملات میں بالکل یکساں ہو۔ یہ انسان اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں اور ان میں مختلف استعداد اور صلاحیتیں رکھی ہیں تاکہ دنیا کا کاروبار چل سکے۔ کوئی شخص تحقیق اور ریسرچ کے کام میں مہارت رکھتا ہے، کوئی تصنیف و تالیف میں دلچسپی رکھتا ہے، کسی کو درس و تدریس سے شغف ہوتا ہے، کسی کو شعر و شاعری سے لگاؤ ہوتا ہے۔ غرض مختلف لوگ مختلف کاموں میں دلچسپی لیتے ہیں۔ مولانا عتیق الرحمن گیلانی قرآنی علوم و معارف میں گہری بصیرت رکھتے ہیں اور کتاب و سنت کے معارف میں تحقیق اور ریسرچ کے کام میں اپنے شب و روز بسر کرتے ہیں اور قرآن و حدیث سے انتہائی قیمتی اور گراں قدر معارف تلاش کرکے عامۃ المسلمین کے استفادے کے لئے پیش کرتے رہتے ہیں۔ پہلے بھی بہت سی ایسی تحقیقات عام لوگوں کے سامنے لائے ہیں جن پر کسی بھی عالم کی پہلے نظر نہیں پڑی تھی اور جسے عام علماء نظر انداز کردیتے تھے۔ اب پھر انہوں نے نہایت قیمتی اور گراں قدر گوہر قرآن و سنت پر تدبر و تفکر کرکے برآمد کیا ہے۔ قصہ آدم و ابلیس قرآن حکیم میں بہت سے مقامات پر اللہ رب العزت نے بیان کیا ہے اور تفصیل کے ساتھ ابلیس لعین کے سازشی ذہن کا ذکر کیا ہے کہ اس نے انسانوں کے جد امجد حضرت آدم اور اماں حوا کو کس طرح ایک شجر کے پھل سے لذت آشنا کیا۔ یہ’’شجر‘‘ کون سا تھا اس ’’شجر‘‘ کی حقیقت سے مولانا عتیق الرحمن گیلانی نے پردہ اٹھایا ہے۔ اور اپنی تحقیق سے اہل علم و دانش کو چونکا دیا ہے۔
یہ سعادت اللہ رب العزت نے مولانا عتیق الرحمن گیلانی کیلئے مقدر کی تھی کہ وہ اس حقیقت سے پردہ اٹھائیں اور عامۃ المسلمین کے غور و خوض کیلئے ایک اہم پیش رفت کریں کہ وہ ’’شجر‘‘ جس کا ذکر خالق کائنات نے اس دنیا کی پیدائش کے سلسلے میں کیا ہے وہ کون سا ’’شجر ممنوعہ‘‘ ہے۔
مولانا عتیق الرحمن گیلانی کے ذہن رسا نے وہ کام کیا ہے جس پر دوسروں کے ذہن کی رسائی نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ مولانا گیلانی کی صلاحیتوں میں مزید اضافہ فرمائے اور ہم عام لوگوں کو ان سے زیادہ سے زیادہ استفادے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین