حضرت عمرؓ نے سفر میں جنابت کی وجہ سے نماز چھوڑ ی اور نبیﷺ کو بتادیا۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’آپ نے ٹھیک کیا ‘‘۔ حضرت عمارؓ نے مٹی میں لوٹ پوٹ ہوکرتیمم کیا اور نبیﷺ کو بتادیا تو نبیﷺ نے فرمایا کہ’’ تمہارے لئے یہ کافی تھا کہ منہ اور ہاتھوں پر مسح کرلیتے‘‘۔ حضرت عمرؓ کا عمل قرآن کے مطابق تھااسلئے نبیﷺ نے تصدیق کی اور حضرت عمارؓ نے قرآنی حکم سے تجاوز کیا اسلئے آپؓ کی درستگی بھی فرمادی۔ قرآن میں وضو و جنابت کیلئے تیمم کا ایک حکم ہے۔ حضرت عمارؓ نے سمجھا کہ وضو کے مقابلے میں غسل کیلئے مٹی میں لوٹ پوٹ ہونا دین کا تقاضہ یا مبالغہ ہے۔ حالانکہ یہ غلو تھا اور اہل کتاب کو بھی اللہ نے دین میں غلو سے منع کیا تھا لیکن آج مسلم اُمہ ہر معاملے میں گدھے کی طرح لوٹ پوٹ ہوکر مٹی میں رگڑ کھا رہی ہے اور اتنی لت پت ہے کہ اس کی اپنی اصل پہچان بھی ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ قرآن وسنت سے تجاوز کا راستہ روکنا ہوگا۔ ابوموسیٰ اشعریؓ اور عبداللہ بن مسعودؓ کے درمیان بخاری میں حضرت عمرؓ اور عمارؓ کے واقعے پر مناظرہ نقل کیا گیا، قرآن وسنت میں دونوں کی اجازت ہے تو اختلاف کو ہوادینا غلط ہے جبکہ بعض لوگوں کا مزاج ایسا ہوتا ہے جیسے حضرت عمرؓ نے جنابت میں تیمم سے نماز نہ پڑھی، پاک و ستھرے انداز میں اللہ کی عبادت سے کس کو انکار ہوسکتا ہے لیکن بعض کی طبیعت ہوتی ہے کہ ہر حالت میں نماز قضاء کرنے کا تصورنہیں رکھتے اور ان کیلئے جنابت میں قرآن نے سفر میں تیمم سے نماز پڑھنے کی اجازت واضح کردی ۔ نبی کریم ﷺ سے ایک نے عرض کیا کہ رات کو غسل واجب ہوا، پانی ٹھنڈا تھا اور صبح کی نماز تیمم سے پڑھ لی ۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ اچھا کیا۔ دوسرے نے کہا کہ رات کو غسل واجب ہوا، پانی ٹھنڈا تھا، تیمم سے نماز دل نہیں مان رہا تھا تو نماز قضاء کرلی اور دن چڑھنے کے بعد پانی گرم کیا ،غسل کیا اور پھر نماز پڑھ لی ۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ اچھا کیا ۔ صحابیؓپر سفر میں غسل واجب ہوا، پانی ٹھنڈا تھا، وہ نہانا نہ چاہتا تھا۔ صحابہؓ نے کہا کہ ’’ اللہ نے فرمایا کہ جب پانی نہ ملے تو تیمم کرو‘‘۔ پانی ٹھنڈا ہے تو کیا ہوا،غسل کے بغیر نماز نہ ہوگی۔ اس نے نہایا تو بیمار ہوا اور فوت ہوگیا، نبیﷺ کو پتہ چلا تو فرمایا کہ اللہ تمہیں ہلاک کردے، تم نے اس کو مار ڈالا ۔ دعوت اسلامی کے مولانا الیاس قادری کا کتابچہ ’’ غسل کا طریقہ‘‘ ہے، اس میں امام غزالی ؒ کے حوالہ سے جاہل کا قصہ ہے کہ ’’ اگر نفس غسل میں سستی کا سوچے تو سزا کے طور پر ٹھنڈی رات میں ٹھنڈے پانی سے کپڑوں سمیت نہالو اور پھرپوری رات اس میں سوجاؤ‘‘۔ دعوت اسلامی کی اس ترغیب نے کتنے جاہلوں کو ٹھنڈا کیا ہوگا؟۔ حالانکہ نبیﷺ بسا اوقات حالتِ جنابت میں صرف وضو کرکے رات کو سوجایا کرتے تھے۔ جاہلوں کی دسترس میں جاہل جہالتوں سے کھیل رہے ہیں۔ وضو میں حکم ہے کہ وامسحوا برؤسکم ’’ اور سروں کا مسح کرو‘‘۔ اس میں ’’ب‘‘ کے حرف سے اختلافات پیدا ہوگئے۔ اسکے کئی معانی ہیں۔ الصاق کے معنی ہاتھ لگانے کے ہیں۔ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک ب یہاں الصاق کے معنی میں ہے یعنی ہاتھ لگانا۔ ہاتھ سر کے چوتھائی کے برابر ہے اسلئے چوتھائی سر کامسح فرض ہے۔ امام شافعیؒ کے ہاں بعض کے معنی میں ہے اسلئے ایک بال کا مسح بھی کافی ہے۔ امام مالکؒ کے نزدیک ب زائدہ ہے ،پورے سر کا مسح فرض ہے ،اگر ایک بال رہ گیا توفرض پورا نہ ہوگا۔ فرائض اوراس اختلاف کی اہمیت کتنی ہے؟۔ اللہ نے پانی نہ ملنے کی صورت میں چہروں پر مسح کا حکم دیا ہے، وامسحوا بوجوھکم ’’ اور مسح کرو اپنے چہروں کا ‘‘ ۔ ب کا ذکر ہے مگر تیمم میں چہروں پر مسح کے فرائض اور اختلافات کی گنجائش نہیں۔ ایک چوتھائی، بال برابر وغیرہ ۔ ایک عام آدمی بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ جب ہاتھوں کو کہنیوں تک دھویا جائے ،چہرے کو اور پاؤں کو ٹخنوں تک دھویا جائے تو اللہ کا حکم نہ ہوتا توبھی آدمیوں کے گیلے ہاتھ اپنے سروں پرپھیرنے کیلئے خود بخودہی اُٹھ جاتے۔ علماء وطلبہ اور مذہبی طبقات کو ان مشقتوں سے نکالنے کی کوشش کارگر ہوگی تو ایک اچھا معاشرہ وجود میں آئیگا۔ اجتہادبیوقوفی کا بدترین نمونہ ہے توپھر تقلید کیاہوگی ؟۔ اللہ معاف کرے۔ اچھے اچھے کہتے ہیں کہ تقلیدکا اگر قلادہ گلے سے نکل گیا تو بہت دور کی گمراہی میں پڑینگے۔ ارے، تم نے گمراہی سر مول لینے کی کوئی کسر چھوڑی ؟۔ رسول اللہﷺ آخرت میں اللہ کی بارگاہ میں شکایت فرمائیں گے : وقال الرسول یا ربّ ان قومی اتخذوا ہذا القرآن مھجورا ’’ اور رسول(ﷺ) کہیں گے کہ اے میرے ربّ! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘۔ دعوتِ اسلامی اور تبلیغی جماعت کے جاہل روروکر بے حال ہوجاتے ہیں مگرقرآن کے احکام کیلئے ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ انہوں نے عیش وعشرت کیلئے نئے طرزِ عمل کی سنت ایجاد کررکھی ہے۔ شیطان ان کو دنیا میں رُلاتا رہتا ہے اور آخرت میں بھی انسے یہ کہا جائیگا کہ فلیضحکوا قلیلا والیبکوا کثیرا ’’ کم ہنسو اور زیادہ رؤو‘‘۔ کیونکہ یہاں جس طرح کا ناٹک کیا جاتا ہے ، آخرت میں بھی اسکے مستحق ہیں۔ علماء ومفتیان طلاق سے رجوع کا مسئلہ سمجھ چکے ہیں مگرتبلیغی جماعت و دعوتِ اسلامی کے کارکنوں کی عزتوں سے حلالہ کے نام پر کھیلتے ہیں۔ علماء ومفتیان ان سے کہتے ہیں کہ ’’قرآن کی طرف نہ دیکھو۔ اجتہادی فیصلہ ہوچکا کہ اکٹھی تین طلاق واقع ہوتی ہیں، رجوع کی گنجائش نہیں، حلالہ کے بغیر چارہ نہیں‘‘ ۔حالانکہ قرآن میں عدت کے اندر اصلاح کیساتھ رجوع کی گنجائش ہے اور قرآن میں تضاد ممکن نہیں کہ عدت میں صلح کی شرط پر گنجائش بھی دے اور پھر صلح کی شرط کے باوجود عدت میں رجوع پر بھی پابندی لگادے۔ قرآن وسنت اور فطرت وعقل کی دھجیاں بکھیرنے والے غلط فقہی معاشرتی مسائل کا اسلامی دنیا سے جنازہ نہ نکالا جائے تو مسلمان کبھی بھی ترقی ، عروج اور خلافت کی منزل نہیں پاسکتے ہیں۔حلالہ کے خلاف ہم نے کوئی ایسا اجتہاد نہیں کیا جیسے سود کے جواز کیلئے علماء نے کیا ہے۔ حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ ایک ایسی شخصیت تھی جن کو دیوبندی بریلوی اکابر مانتے تھے۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ نے درسِ نظامی سے بڑے شاگرد پیدا کئے۔ مولانا عبیداللہ سندھیؒ ، مولانا حسین احمد مدنیؒ ، مولانا انورشاہ کشمیریؒ ، مولانا اشرف علی تھانویؒ ، مولانا الیاسؒ ، مفتی کفایت اللہؒ ، مولانا شبیراحمد عثمانیؒ ، وغیرہ مگر مالٹا سے رہائی کے بعد قرآن کی طرف رجوع کی فکر دامن گیر ہوئی۔ مولانا سندھیؒ نے مشن پر کام کیا، مولانا کشمیریؒ نے آخر میں کہاکہ زندگی مسلک کی وکالت میں ضائع کی۔ مولانا الیاسؒ نے مدارس سے ہٹ کر جماعت بنائی، مولانا تھانویؒ نے شیخ الہندؒ کے کشف پر اعتماد کرکے کہا خراسان کے مہدی نے معاملہ کرنا ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ اسلام میں اجتہاد کا دروازہ بند ہے یا نہیں؟۔ شاہ ولی اللہؒ کے پوتے شاہ اسماعیل شہیدؒ نے لکھا کہ ’’ خیر القرون کا زمانہ تیسری صدی ہجری تک تھا۔ چوتھی صدی ہجری میں تقلید کی عملی بدعت آئی۔ جس کو ختم کرنا ہوگا‘‘۔ اکابرِ دیوبند شاہ اسماعیل شہیدؒ کے حامی تھے مگر مولانا احمد رضا بریلویؒ نے ’’ حسام الحرمین‘‘ فتویٰ شائع کیا تو اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹ گئے۔ ’’ المہند علی المفند‘‘ کے نام سے خود کو حنفی مقلد اور تمام مسالک کو برحق، اسی طرح تمام سلاسل تصوف کو برحق اور خود کو چشتی مشرب سے تعلق رکھنے والا قرار دیا۔ علامہ یوسف بنوریؒ نے ایک طرف ’’بدعت کی حقیقت: مصنف شاہ اسماعیل شہید‘‘ پر تقریظ لکھ دی اور دوسری طرف مولانا یوسف بنوریؒ کے والد مولانا زکریا بنوریؒ نے مولانا احمد رضا خان بریلویؒ کو حنفی مسلک بچانے کا ہندوستان میں سب سے بڑا کریڈٹ دیا۔ یہ تضادات تدریس سے سمجھا ئے جاسکتے ہیں۔ المہند علی المفند عربی کتاب پر اکابر دیوبندؒ کے دستخط تھے۔ شاہ اسماعیل شہیدؒ نے تقلید کو عملی بدعت قرار دیکر واضح کیا کہ عقیدے کی بدعت اور عملی بدعت میں فرق ہے، عقیدے کا منافق کافر اور عمل کا منافق مسلمان ہوتا ہے جس میں تین علامات پائی جاتی ہیں۔ جھوٹ ، وعدہ خلافی اور گالی بکنا۔ حدیث میں اسے منافق قرار دیا گیا، عملی منافق کے ساتھ رشتہ داری، معاشرتی معاملات اور اسکا جنازہ پڑھنا وغیرہ جائز ہے لیکن عقیدے کا منافق کافر ہے اوراسکے ساتھ مسلمانوں کا سا معاملہ بالکل جائز نہیں ۔ المہند علی المفند پر علماء دیوبند کے سابقہ اکابرینؒ کے دستخط تھے، انہوں نے شاہ اسماعیل شہیدؒ کی کتاب سے مکمل طور پر برأت کا اعلان کیا اور جسے عملی بدعت قرار دیا، اس میں خود کو ملوث قرار دیدیا۔ اس وقت شریفِ مکہ کی حکومت تھی اور حرمین شریفین کے ائمہ مقلد تھے اسلئے مولانا احمد رضا بریلویؒ کے فتویٰ ’’ حسام الحرمین‘‘ نے اپنا کام دکھا دیا ۔ کافی عرصہ بعد دوسرے درجے کے اکابر دیوبند نے المہند علی المفند کا اردو ترجمہ کرکے دستخط کئے اور ’’ عقائد علماء دیوبند‘‘ کا نام دیا۔ گویا جس کو شاہ اسماعیل شہیدؒ نے عملی بدعت قرار دیا تھا تو اس سے ایک طبق مزید بڑھ کراپنا عقیدہ بھی قرار دے دیا تھا۔ گوجرانوالہ کے بریلوی مفتی مجددی نے مجھ سے کہا کہ ’’ بریلوی قبر پرست ہیں اور دیوبندی اکابرپرست ہیں‘‘۔ عام طور پر یہ سمجھا جارہاہے کہ بریلوی نبی کریم ﷺ کی بشریت کا انکار کرتے ہیں اور دیوبندی نبی کریم ﷺ کے نور ہونے کے منکر ہیں ۔ حالانکہ دونوں الزام غلط اور عبث ہیں۔ بریلوی مکتبۂ فکر کی سب سے مشہور کتاب ’’ بہار شریعت‘‘ ہے اور اس میں بنیادی عقیدہ لکھا ہے کہ ’’ انبیاء کرامؑ بشر ہوتے ہیں‘‘۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اپنی کتاب ’’ نشر طیب فی ذکر حبیبﷺ‘‘ میں پہلا فصل نبیﷺ کے نور کے حوالہ سے لکھا ہے کہ’’ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ کے نور کو اپنے نور (فیض ) سے پیدا کیا ‘‘۔ (حدیث)بالکل فضول کی فرقہ واریت ہے۔ تقلید اجتہاد کی ہوتی ہے۔ اللہ نے اپنادین رسول اللہﷺ کی حیات طیبہ میں مکمل فرمایا۔ صحابہ کرامؓ اور مدینہ کے سات فقہاء ؒ میں غسل اور نماز وغیرہ کے فرائض اور ان پر اختلاف کا کوئی تصور نہ تھا۔کیا ائمہ اربعہ کو اجازت تھی کہ غسل ، وضو اور نماز میں فرائض ایجاد کرکے ان پر اختلافات کی ایک عظیم المرتبت بلڈنگ کھڑی کردیں؟۔ تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی کے بزرگ ، ادھیڑ عمر، جوان اور بچے مرے جارہے ہیں کہ دنیا کے کونے کونے کو ان فرائض، واجبات، سنن، مستحبات اور آداب سے آگاہ کریں جو اسلام کی اصل ،جڑ اوربہترین بنیاد ہیں۔ علماء کتابیں پڑھ کر بھول جاتے ہیں کہ کس چیز میں کیا فرائض، کیا اختلافات ہیں۔ البتہ تبلیغی جماعت یا دعوتِ اسلامی کے علماء جاہلوں سے تکرار کی وجہ سے ان فرائض، واجبات، سنن، مستحبات اور آداب کو خوب یاد رکھتے ہیں اور اس کی وجہ سے وہ ان جماعتوں میں وقت لگانے کی افادیت کو بھی بخوبی سمجھ لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’ نماز کے قریب نہ جاؤ، جب تم نشے کی حالت میں ہو، یہانتک کہ تم سمجھو، جو کہتے ہو اور نہ حالتِ جنابت میں نماز کے قریب جاؤ مگر یہ کہ کوئی مسافر یہانتک کہ تم نہالو‘‘۔ اس آیت سے حالت جنابت سے نہانا ضروری قرار پایا۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نہانے کا کوئی خصوصی طریقہ نہیں بتایا بلکہ جس طرح اسلام سے پہلے لوگ نہاتے تھے ، اسی طرح نہانے کا حکم دیا۔ نہانا مشرک، یہودی، عیسائی اور دنیا کے تمام انسان سمجھتے ہیں بلکہ جانور، پرندے اور جاندار چیزیں بھی نہانا جانتے ہیں۔ دوسری آیت میں اللہ نے فرمایا کہ’’ جب تم نماز کیلئے کھڑے ہوجاؤ، تو اپنے چہروں کو دھو لو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک دھولو اور مسح کرو اپنے سروں کا اور اپنے پاؤں کو (دھولو) اگر تم حالت جنابت میں ہو تو پھر اچھی طرح سے پاکی حاصل کرلو‘‘۔ اچھی طرح پاکی حاصل کرنا کے معانی صحابہ کرامؓ نے نبیﷺ سے معلوم کرنے کی ضرورت اسلئے محسوس نہیں کی کہ وضو کے مقابلے میں نہانا اچھی طرح پاکی حاصل کرنا تھا، یہ گزشتہ آیت سے معلوم تھا۔ امام ابوحنیفہؒ نے غسل کے تین فرائض دریافت کئے۔1: کلی کرنا۔2: ناک کی نرم ہڈی تک پانی پہنچانا۔3: پورے جسم پر ایک بار پانی بہانا۔ امام شافعیؒ کے نزدیک کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا وضو کی طرح غسل میں بھی فرض نہیں ۔ تین فرائض میں سے پہلے دوفرائض پر اتفاق نہیں۔ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک وضو کے مقابلے میں غسل میں مبالغہ ہے اسلئے ناک اور منہ پانی ڈالنا غسل میں فرض ہے تاکہ اچھی طہارت کے حکم پر عمل ہوجائے۔ رہ گیا تیسرا فرض کہ پورے جسم پر ایک مرتبہ پانی بہایا جائے۔ تو امام مالکؒ کے نزدیک اس سے فرض ادا نہ ہوگا، جب تک کہ مَل مَل کر پورے جسم کو نہ دھویا جائے۔ ایک فرض پر بھی ائمہ کرام کا اتفاق نہ تھا اور خود ساختہ فرائض کی کوئی ضرورت اسلئے نہیں تھی کہ صحابہ کرامؓ کے دور میں ایسی مغزماری کا وجود نہیں تھا۔لایعنی مسائل کو فرائض کا نام دینا غلط ہے۔ نشہ کی حالت میں نماز کے قریب جانے سے روکا گیا، نماز میں سورۂ فاتحہ، سورتیں، تسبیحات، التحیات، دورد شریف اور دعا کے معانی سمجھنے ہونگے اسلئے کہ سمجھے بغیر کی نماز پر نشے کی حالت کا اطلاق ہوتا ہے۔ سات سال سے ستر سال کی عمر تک پابندی سے پانچ وقت کی کئی رکعتوں میں بار بار دھرائے جانے والے الفاظ کے معانی نہ آئے تو ویسے بھی قابلِ افسوس ہے۔ ہندو جن بتوں سے مانگتے ہیں ، ہمارا عقیدہ ہے کہ وہ نہیں سنتے لیکن وہ بتوں سے اپنی ضروریات مانگتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ کیا مانگ رہے ہیں، ہمارا المیہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں عقیدہ ہے کہ وہ سنتا اور سمجھتا ہے، سمیع و علیم ہے مگر ہم خود نہیں سمجھتے ہیں کہ سمیع و علیم سے ہم کیاکیا مانگتے ہیں؟،کیاکیا کہتے ہیں؟۔مسلمان و ہندو کا معاملہ برابرہے۔ آیت میں اللہ نے نشے میں نماز کے قریب جانے سے منع کیا اور پھر جنابت کی حالت میں بھی منع کیا مگر مسافر کو مستثنیٰ قرار دیا یہاں تک کہ نہالیا جائے۔ اس آیت کا واضح مطلب یہ ہے کہ نماز سمجھ کر پڑھی جائے اور جب جنابت کی حالت ہو تو نماز کے قریب جانے کی اجازت نہیں مگر مسافر کو یہانتک کہ نہالیا جائے۔ یعنی مسافر کو نہائے بغیر تیمم کیساتھ بھی نماز پڑھنے کا حکم نہیں بلکہ اجازت ہے۔ کیونکہ جنابت میں نماز پڑھنے سے منع ہے مگر مسافر کو صرف اجازت ہے۔ حکم اور اجازت میں واضح فرق ہے جواس جملے سے سمجھ میں آتا ہے۔اس کی مثال یہ ہے کہ اگر باغ سے پھل کھانے کو منع کیا جائے اور پھر کسی مخصوص فرد کو اجازت دی جائے تو اس پر پھل کھانے کے حکم کا نہیں بلکہ اجازت کا اطلاق ہوتا ہے۔
کیا اس میں پڑھایا جارہا ہے جس ملک میں 3لاکھ سے زیادہ مدرسے چل رہے ہوں جس ملک میں 2لاکھ سے زیادہ مسجدیں ہوں دن رات بول رہے ہیں لا الہ الا اللہ ، پانچ بار بولتے ہیں اور پانچ بار نماز پڑھی جاتی ہے اور شروعات ہی اسی سے کرتے ہیں کہ کوئی نہیں ہے لا معنی نہیں ہے کوئی بھی اللہ کے جیسا اور محمد رسول اللہ محمد ہی اس اللہ کا رسول ہے ان دو کے علاوہ اور کسی کو ہم پوجیں گے نہیں مانیں گے نہیں۔ اب یہ بتادو جس انسان کو پانچ بار یہی بتایا جارہا ہو دن میں تو اس کی مینٹیلٹی کیا بنے گی۔ وہ سیدھے آپ کے اوپر تلوار لے کر کھڑا ہوگا۔ اور یہ صرف آذان ہے نماز الگ ہوتی ہے ۔ یہ آذان ہے آؤ آؤ اپنی نیند کو چھوڑ کربیٹھو یہاں اس کے بعد ایک مولوی بولتا ہے ، ایک مولوی کے اشارے پر سب جھکتے ہیں کھڑے ہوتے ہیں اس کے بعد وہاں آیتوں کا پاٹ( ورد) ہوتا ہے ۔ آیتیں ۔۔۔۔ ہم کیا سمجھتے ہیں جیسے ہم مندر میں گھنٹا بجاتے ہیں ویسے ان کی نمازیں چل رہی ہیں بالکل غلط سوچ ہے، وہ نماز اسی لئے پڑھ رہا ہے کہ ہمارا وناش (ہمیں ختم) کرنا ہے۔ اگر ہمیں ختم کرنے کیلئے کوئی دن میں پانچ بار تیاری کرتا ہو او رہر پڑوسی تیاری کررہا ہو دن میں پانچ بار اور ہماری نیند نہ کھلے تو یاد رکھو ہم نے ہمارا ریموٹ کنٹرول ان کے ہاتھوں میں دے دیا ہے۔ ان کو پروبلم ہماری گائے سے نہیں ہے ان کو پرابلم ہماری ماتاؤں بہنوں سے بھی نہیں ہے ان کو پرابلم ہے صرف ہمارے وجود سے۔ جب تک ایک بھی ہندو بچا ہوا ہے تب تک ان کو پرابلم ہے۔ ان کو تب تک لگاتار جہا د کرنے کیلئے کہا گیا ہے۔اور لگاتار ہماری ماتاؤں (ماؤں) بہنوں کے ساتھ ظلم اور زنا کرنے کیلئے کہا گیا ہے۔ کوئی پڑھ کر تو دیکھے انہیں وہ روزہ کس لئے رکھتے ہیں۔ روزہ کوئی نوراترو (ہندو عورت شوہر کی زندگی کیلئے) جیسا ورت (روزہ) نہیں ہے ۔ آج ہم روزے کو نوراترو کے ساتھ جوڑ رہے ہیں۔ ہم نوراترو میں اپنی ماں دُرگا (ہندوؤں کا ایک بت) کا تصور کرتے ہیں اس کو اپنی زندگی میں اتارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جتنی محمد نے لڑائی لڑی تھی ساری روزے کے ٹائم پر لڑی تھی۔ اور ساری تیاری روزے میں کی تھی۔ روزہ اسلئے رکھا جاتا ہے کہ آپ لڑائی لڑو گے جنگ لڑو گے تو بھوکا رہنا پڑے گا تو اب اس بھوک اور پیاس کو کیسے برداشت کرو گے ۔ آپ روزے کے اصلی معنی ڈھونڈ کر لائیے ۔ ان کی عربی میں اس کے ایک معنی گھوڑے کو ہنکانے کے ہیں۔ گھوڑے بھی تیار کرنا اور خود اپنے جسم کو مضبوط کرنا۔ اگر اس روزے کی افطار پارٹی میں سارے کے سارے ہندو جاکر بیٹھتے ہیں ۔۔۔ آسچنیو ہوتا ہے ۔۔۔ جب لکھنؤ کے مندر کے ۔۔۔ مٹھادی شیوجا ۔۔۔ کرکے روزے کی افطار پارٹی مندر کے اندر کراتے ہیں اور ہم سب صرف فیس بک پر غصہ نکال کر رہ جاتے ہیں۔ میں آپ سب سے درخواست کرنا چاہتی ہوں یاد رکھو ان کے پانچ ۔۔۔ استنبھ ۔۔۔۔۔۔ ایک ہی ایشور ہے ایک اللہ ہے اس کے علاوہ ہم کسی کو مانتے ہی نہیں۔ہم کہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارے لعنت ہے ہمارے اوپر 14سو سال سے جنہوں نے صرف قتل عام کیا ہو آج بھی ہم ان کو ۔۔۔۔۔۔دھارمک ۔۔۔۔۔۔ کہتے ہیں۔ وہ اللہ کے علاوہ او رکسی کو نہیں مانیں گے۔ وہ ہر ۔۔۔ استپل ۔۔۔ کریں گے وہ داڑھی رکھ کر بھی کریں گے ، وہ پینٹ شرٹ پہن کر بھی کریں گے وہ عربی بول کر کے کریں گے وہ ہندی بولیں گے وہ انگلش بولیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ہے جب تک ایک بھی کافر زندہ ہے اللہ کا کام رکے گا نہیں۔ اور جو لوگ کہتے ہیں جنہوں نے بولا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لعنت ہے ہمارے اوپر ہم نے کبھی پڑھ کر کے نہیں دیکھا اللہ کہتے کس کو ہیں ۔ ہم نے ایشور کے برابر اللہ کو رکھ دیا۔ ارے ہمارا ایشور دیالو ہے۔ ۔۔۔۔۔۔کرپا ۔۔۔ کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔پرنتو ۔۔۔۔۔۔ اللہ کا آدیش ہے۔۔ کہاں پڑھو گے قرآن پڑھو گے ۔ اللہ کا صاف ۔۔۔آدیش ۔۔۔ ہے جو میرے کو نہیں مانتا جبرائیل میکائیل کو نہیں مانتا جو محمد کو نہیں مانتا وہ کافر ہے۔ اور کافر واجب القتل ہے۔ وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے ۔ اتنا ہی نہیں جہاں تک رمضان کا مہینہ ختم ہوجائے ان کو گھات لگا کر کے مارو۔ پڑھو سورہ توبہ پڑھو سورہ البقرہ ۔ ساری کی ساری قرآن کی یہ آیتیں پڑھ کر کے دیکھو آپ کو صاف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پتا چل جائے گا ۔ ہم سوچتے ہیں کہ ان کی ہر عبادت ہماری ہر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عبادت جیسی ہے۔ ارے پڑھو بھائیو! اگر ان کی ہر عبادت ہماری ۔۔۔۔۔۔ جیسی ہوتی تو وہاں پر سب لوگ جاسکتے تھے۔ صرف مسلمان ہی کیوں جاتے ہیں۔ آج وہ ان کے اوپر ہمارے پاس پیسہ بھیجتے ہیں اور وہاں سے وہ اپنی ۔۔۔۔۔۔ کو بھیجتے ہیں۔ ان کو کوئی ایمبسی میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں ہے کہ بھارت میں آپ ہمارے عربی کلچر کی تشہیر کیجئے۔ یہ سارے بڑھائے ہوئے داڑھی یہ سارے اونچا پاجامہ اور نیچا کرتا پہن کر کے سارے وہاں سے سیکھ کر کے آتے ہیں اور اپنے آپ یہاں آکر کے سکھاتے ہیں۔ یاد رکھو! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کا یہ دھرم اور آبرو بھی جائے گی تمہارے نام سے دنیا کو شرم آئے گی۔ اگر آج نہیں جاگے تو کوئی ہمیں بچانے والا نہیں ہے۔ یہ نماز خلافت کا منی ٹرائل ہے۔ یہ نماز اسلئے کہتا ہے کہ ایک خلیفہ بٹھائیں گے۔ اور اس کا راج چلے گا۔ پہلے بھی ہمارا ملک آزادی کیلئے ۔۔۔۔۔۔ رہا تھا اور ساری مسلم دنیا خلافت کیلئے ۔۔۔۔۔۔ رہی تھی۔ تاریخ پڑھ کر دیکھو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں جو معرکہ ہوا ہمارے لوگ تو مارے گئے ہماری عورتوں کے ساتھ۔ کیونکہ خلافت ۔۔۔۔۔۔ فیل ہوگیا ۔ ترکی میں خلیفہ تھا اس کی خلافت چلی گئی خلیفہ چھوڑ کر انگلینڈ بھاگ گیا۔ وہاں سے ان کو غصہ آیا ۔۔۔۔۔۔ہماری ہندو ماں بہنوں کے اوپرنکالا۔ وہ جو لیڈی ریڈنگ کو خط لکھا تھا ہماری ہندو عورتوں نے کبھی پڑھ کر دیکھو۔ انہوں نے لکھا ہماری کتنی ۔۔۔۔۔۔ درگشا۔۔۔۔۔۔ہوئی ہے۔ ہمارے سامنے ہمارے دودھ پیتے بچوں کو بھالے کے سامنے اچھال کر اوپر ٹانگ دیا گیا۔ ہماری بیٹیوں ماؤں کے ساتھ بے پناہ ۔۔۔۔۔۔ ہوئے ۔ ایک ایک ماں کے ساتھ زنا کرنے کیلئے دس دس جہادی تھے۔ اور وہ دس دس جہادی کے بیچ میں پھنسی ہوئی عورت یہ سوچ رہی تھی کہ کس کیلئے دکھ برداشت کروں اپنے بیٹے کیلئے یا اپنے جسم کیلئے۔ کس کیلئے روئیں گے۔ درد کو بھی درد آئے گا۔ وہ ایسی خوفناک ۔۔۔۔۔۔ استتی ۔۔۔۔۔۔ ہے۔ اور یہ صرف ایک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں ہیں یہ سب اوپر سے سکھایا ہوا ہے۔ بھائیو! آپ سب لوگ جو فیس بک میں اس کو ریکارڈ کررہے ہیں یا اپنے موبائل میں ریکارڈ کررہے ہیں یہ موبائل میں ریکارڈ کرنے کی چیز نہیں ہے دل میں ریکارڈ کیجئے۔ اس کو اپنی بہنوں ماؤں اور بچیوں بچوں کو بتائیے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہتا ہے۔
اسلام دہشتگردی کا راستہ روکتا ہے
متعصبانہ تقریر کا مثبت جواب۔ از سید عتیق الرحمن گیلانی
یہ بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ اسلام کی حقیقت کو نہیں سمجھا جارہاہے۔ جمہوری نظام کی روح اسلام نے دنیا میں پھونکی۔ بنی اسرائیل کے پیر دریا سے خوش نہ ہوئے کہ سامری کی سازش سے بچھڑے کو معبود بنا ڈالا ۔ جس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت ہارون علیہ السلام کو داڑھی اور سر کے بالوں سے پکڑلیا۔ حضرت ہارون علیہ السلام نے عرض کیا کہ میں نے اسلئے ایک نئے معبود بنانے اور پوچنے سے نہیں روکا، تاکہ بنی اسرائیل میں تفریق پیدا نہ ہوجائے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بہت جلالی مزاج کے تھے۔تفرتق وانتشار کا ماحول پیدا کرنابھی بڑا جرم ہے۔ یہودونصاریٰ کی مشرک خواتین سے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں مسلمانوں کو نکاح کرنے کی اجازت دی ۔ مارنااور قتل کرنا تو بہت دور کی بات ہے ، دین اور مذہب میں کسی قسم کے جبرواکراہ نہیں ۔ جہاد اور غصہ کرنا انسانی فطرت ہے۔ فرمایا: جاہدالکفار والمنافقین واغلظ علیھم’’کفاراور منافقوں سے جہاد کرو اور ان پر سختی کرو‘‘۔ نبی ﷺ رحمت للعالین تھے ۔ منافقوں اور کافروں کیساتھ آپ ﷺ کا برتاؤ کیا تھا؟۔ آپﷺ کو جو حکم سورۂ تحریم کی اس آیت میں دیا گیا ، اسکا پسِ منظر کیا ہے اور سیاق وسباق سے اس جہاد کے حدودوقیود کیا ہیں؟۔ حضرت عائشہؓو حضرت حفصہؓ نے دوسری ازواج مطہراتؓسے مل کر نبی ﷺ سے حضرت ماریہ قبطیہؓ اور شہد کے حوالے سے ناگوار قسم کا مذاق کیا۔ لونڈی اور شہد اپنی ازواجؓ کی خواہش پر اپنے اوپر حرام کرنے سے منع فرمایا اور دونوں ازواج مطہراتؓ کو ڈانٹ کر فرمایا کہ تم سے بہتر ازواج نبی کو مل سکتی ہیں۔ اس پس منظر میں کافروں کی مثال حضرت لوطؑ اور حضرت نوحؑ کی ازواج کا ذکرکیا، دونوں کافر تھیں۔مؤمنات کی مثال حضرت مریم اور فرعون کی بیوی تھیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت نوحؑ اور حضرت لوطؑ نے اپنی بیگمات پر کس قسم کی سختی کی اور کس قسم کا جہاد کیا؟۔ حضرت مریم اور فرعون کی بیوی نے کیا سختی کی اور کس قسم کا جہاد کیا؟۔ پسِ منظر، سیاق وسباق اور نتائج کو چھوڑ کر آیات کے ایک جملے سے غلط نتائج مرتب کرنے سے مجاہدین دہشت گردی کے دھانے پر پہنچ گئے ہیں۔ اگر ازواج مطہراتؓ کے مذاق کو سنجیدہ نہ لیا جاتا تو معاشرے میں سنجیدہ گھریلو ماحول کے بجائے مذاق کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا بھی سنت بن جاتی۔اسلام متوازن ، معتدل اور سنجیدہ نظام کے ذریعے سے دنیامیں گھراور معاشرے کو جنت نظیر بناتاہے افسوس کہ ہم نے اسلامی تعلیمات کو بالکل پیشہ ور مذہبی طبقے کے سپرد کیا۔ ایک ہندو لڑکی کی تقریر مودی سرکار کی شاہکار ہے لیکن اس سے ہندوستان بالکل تباہ ہوجائیگا۔ اسلام کے نام پر حکمرانوں اور دہشتگردوں نے جو کچھ بھی کیا، اسکا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ ہندو لڑکی نے سورۂ توبہ اور البقرہ کا حوالہ دیا کہ اس میں دوسرے مذاہب والوں کو قتل کرنا اللہ کا حکم ہے۔ حالانکہ سورۂ توبہ میں ان مہینوں کا ذکر ہے جن میں دشمن ایکدوسرے کیخلاف لڑنے سے گریز کرتے تھے اور اس کی تائید سورۂ توبہ میں ہے۔ دورانِ جنگ دشمن ایکدوسرے کو قتل کرتے تھے۔ سورۂ توبہ میں لڑائی کے دوران گھات لگاکر محاصرے کی ترغیب دی گئی ہے اور پھر ایمان لانے ،نماز اور زکوۃ دینے پر چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔ سورۂ محمد میں قیدیوں کو فدیہ اور بغیر فدیہ چھوڑنے کی وضاحت ہے۔ سورۂ توبہ میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اگر مشرکوں میں سے کوئی پناہ لینے کیلئے خود آئے تو اس کو پناہ دو، یہاں تک کہ اللہ کے کلام کو سن لے کیونکہ یہ جاہل قوم ہے اور پھر اس کو وہاں پہنچادو، جہاں اسکے اپنے وامان کے ٹھکانے ہیں۔ خواتین ، بچوں اور بوڑھوں پر جنگ کے دوران بھی اسلام ہاتھ اٹھانے سے منع کرتا ہے۔ ہندو لڑکی کو اسلام سمجھنے کیلئے قرآن کا مطالعہ کرنا چاہیے۔سورۂ بقرہ کی آیت62 میں ہے کہ ان الذین اٰمنواوالذین ہادوا والنصٰریٰ وصائبین من امن باللہ والیوم اٰخر و عمل صالحًا فلھم اجر ولاخوف علیھم ولاھم یحزنون ’’بیشک جو لوگ مسلمان ہیں، اور جو یہودی ہیں اور جو نصاریٰ ہیں اور جو صائبین ہیں۔ جو بھی ایمان لایا اللہ پر اور آخرت کے دن پر تو ان کیلئے اجر ہے اورنہ ان پر خوف ہوگا اور نہ وہ غم کھائیں گے‘‘۔ مسلمانوں نے اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ جو انبیاء کو نہیں مانتے وہ صائبین ہیں اور بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ ہندو صائبین ہیں جو حضرت نوح علیہ اسلام کی قوم ہیں۔ دنیا میں کوئی ایسا مذہب نہیں کہ آخرت میں دوسرے مذاہب کے ایماندار اور نیک لوگوں کو بشارت دیتا ہو۔ یہودونصاریٰ کو اسلام نے ان خیالات سے منع کیا جو صرف اپنے لئے جنت کا خیالی تصور رکھتے تھے۔ مسلمانوں میں جو گمراہ لوگ ہیں وہ یہودونصاریٰ کے ان مذہبی طبقوں کے نقشِ قدم پر چل پڑے ہیں جن کی قرآن نے مذمت کی تھی۔آخرت کے حوالے سے دوسرے مذاہب کیلئے قرآن نے بڑی بات کہی جس کے مسلمان فرقے بھی ایکدوسرے کیلئے روادار نہیں ۔ اس سے بھی بڑھ کردوسروں کی عبادتگاہوں کو بھی محفوظ بنانے اور ان میں اللہ کے نام کو یاد کرنے کی گارنٹی دی ۔ ولولادفع اللہ الناس بعضھم ببعض لھدمت صوامع وبیع وصلوٰت ومسٰجد یذکرفیھااسم اللہ فیہ کثیرا’’اگر اللہ بعض لوگوں کو بعض کے ذریعے نہ ہٹاتا تو مجوسی، یہودی، عیسائی اور مسلمانوں کی عبادتگاہوں کو گرا دیتے جن میں اللہ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے‘‘ سورۃ الحج آیت40 دنیا کو مذہبی جنونیوں سے بچانے کیلئے اللہ تعالیٰ نے اسلام نازل کیا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا تھا کہ ’’اے اللہ ! میری قبر کو سجدہ گاہ نہ بنانا‘‘۔ اللہ نے یہ دعا قبول کرلی۔ ہمارے ہاں درگاہوں پر جبینِ نیاز جھکانے کی عادت ہندوؤں سے آئی تھی۔ عمران خان نے روضہ رسول ﷺ پر سجدے کی شکل نہیں بنائی اور اگر نبیﷺ دعا نہ فرماتے تو تحریک انصاف کے رہنماء صف در صف بشریٰ پنکی کی امامت میں سب سے پہلے روضہ رسولﷺ پر جبینِ نیاز جھکا تے۔مشرکینِ مکہ نے اجتماعی طور پر اسلام قبول کرلیا اور دہشتگردی سے بچاؤ کی خاطر شرپسندوں کو اللہ نے کعبہ سے روکا ہے۔ مشرکینِ مکہ نے بت شکن ابراہیم ؑ کی طرف سے اللہ کے بنائے ہوئے گھر کو بتوں سے بھردیا۔ ہندو گائے کی پوجا کرتے ہیں، دنیا کے لوگ گائے کو کھا جاتے ہیں۔ ہندو کس کس سے نبرد آزما ہونگے؟۔ سورہ بقرہ میں بنی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کے حکم میں معجزے کا ذکرہے اور انہوں نے نقلی بچھرے کو پوجا تھا۔ اسلام دنیا کیلئے امن وسلامتی کا ضامن ہے۔البتہ مسلمان قرآن کی تعلیم سے بالکل بہت دور ہٹ گئے ، اسلام مسلمانوں کے گمراہ عقائد کا نام نہیں ۔اسلام دہشتگردی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔مسلمانوں نے مشرکینِ مکہ سے جانوں کی حفاظت کیلئے مال ومتاع ، گھر باراور جائیدادسب کچھ چھوڑ کر ہجرت کی مگر مشرکینِ مکہ نے پھر بھی پیچھا نہیں چھوڑا۔ بدر کا غزوہ بھی شام سے آنیوالے مال بردار قافلے سے اپنا حق چھین لینے کی مجبوری تھی۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے نہ چاہتے ہوئے بھی وہ قافلہ ہاتھوں سے نکالا اور اپنے سے کئی گنا زیادہ لڑائی کیلئے آنیوالے لشکر سے سامنا کردیا پھر لڑائی میں جیت بھی دی۔ 70قیدیوں کو قتل کرنے کے بجائے فدیہ ، تعلیم کے بدلے اور کسی کو مفت میں رہا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے جاہلوں کو ڈرانے کیلئے آیات نازل کیں کہ ’’نبی کیلئے مناسب نہیں کہ اسکے پاس قیدی ہوں یہاں تک کہ زمین میں خوب خونریزی کرے، تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے‘‘۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کا مقصد قیدیوں کو قتل کرنا ہوتا تو ایک بھی بچ کر نہیں جاتا۔ اللہ نے مشرکینِ مکہ کو اپنی حکمتِ عملی سے ڈرایا کہ دوبارہ لڑائی میں فدیہ سے چھوٹ جانے کو خاطر میں نہیں لانا۔ پھر بھی ان قیدیوں میں سے بعض غزوہ احد کی صورت میں مدینہ پر حملہ کرنے آئے جن میں وہ شخص بھی شامل تھا جس کو فدیہ کے بغیر چھوڑ دیا گیا تھا اور پھر اس کو قتل بھی کردیا گیا۔ مسلمانوں نے سمجھا کہ ہم نے غزوہ بدر کے قیدیوں کو چھوڑ کر غلطی کی اور سخت بدلہ لینے کا فیصلہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے واضح کیا کہ حدود سے آگے نہ بڑھو، اگر تمہیں زخم پہنچا ہے تو پہلے ان کو بھی زخم پہنچا ۔ کسی قوم کے انتقام کا جذبہ تمہیں اعتدال سے نہ ہٹائے۔ جتنا انہوں نے کیا ہے اتنا تم بھی کرسکتے ہو اور اگر معاف کردو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے، بلکہ معاف ہی کردو اور یہ معاف کرنا بھی اللہ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں۔ صلح حدیبیہ کا معاہدہ اور میثاقِ مدینہ اس بات کے بین ثبوت ہیں کہ داخلی اور خارجی معاملات میں مسلمان غیرمسلموں کیساتھ امن وسلامتی کی زندگی کے پابند ہیں، فتح مکہ کے وقت مسلمانوں کا رویہ عالیشان تھا، دشمنوں کے سردار ابوسفیانؓ سے عزت کا سلوک روا رکھا۔ کسی کو ریپ نہ کیا گیا، کسی کو لونڈی اور غلام نہیں بنایا گیا۔ اسلام نے زمانوں کے دستور ، انسانوں کی خصلتیں اور جاہلانہ رسوم ورواج کو اپنے اعلیٰ اقدار سے بدلا ہے لیکن کسی پر عقیدہ بدلنے کی زبردستی نہیں کی۔ امریکہ کو اپنی نالائقی کی سزا مسلم ممالک اور مسلمانوں کو دینی تھی۔ افغانستان، عراق، لیبیا اور شام کا کیا حال کیا؟ جدید ترین ہتھیاروں سے تباہی وبربادی پھیلانے کا مقابلہ خود کش حملوں کے علاوہ کسی اور طریقے سے ممکن نہیں تھا ۔ روس کو جہاد کے ذریعے روکنے کے بعد نیٹو کا مقابلہ بھی افغانستان میں مجاہدین نے کیا۔ ہمارے حکمرانوں کی مجبوری تھی اور بڑے نقصان سے بچنے کیلئے امریکی سی آئی اے کا پلان قبول کرکے آپس میں بھی قتل وغارتگری کا بازار گرم کرنے میں اپنی ایجنسیو ں نے غلط کردار ادا کیا۔ پاکستان نے فرقہ واریت، دہشتگردی اور عالمی ایجنسیوں کے کردار کو جس خوش اسلوبی سے برداشت کیا یہ اللہ کی مہربانی ہے ورنہ کوئی اورملک ہوتا،کسی دوسری قوم پر یہ آزمائش پڑتی اور کسی دوسرے مذہب کو اس سے واسطہ پڑتا تو کب کا ملیامیٹ ہوچکا ہوتا۔ پاکستان سے اللہ نے دنیا کی امامت کا کام لینا ہے اسلئے تمام سازشوں کے باوجود بڑی تیزی سے دلدل سے نکل گیا۔ بھارت کو 65ء کی جنگ میں شکست دی 71ء میں بھارت سے شکست کھائی۔ غزوہ بدر پر اللہ نے اترانے کی اجازت دی اور نہ غزوہ احد میں شکست کھانے پر طعنہ دیا۔ صلح حدیبیہ کے شرائط قبول کرنے کیلئے آج بھی ہم تیار ہیں۔پاکستان کے شدت پسند مسلمانوں کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ ہم اور ہماری ریاست مظلوم کشمیریوں کیلئے کچھ نہیں کرسکے اور اگر خدانخواستہ جاہل ہندوں کی طرف سے کروڑوں مسلمانوں کو بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بناکر اپنی بڑھتی ہوئی آبادی اور وسائل ، مال اور جائیدادوں پر قبضہ کرلیا تو اسکے نتائج بہت خطرناک ہونگے۔ دنیا بھر میں ہندو مسلم فسادات عرب وعجم کی زمین کو خون سے بھر دینگے اور مغرب ہماری اس لڑائی کا فائدہ اٹھائیگا۔کئی مسلم ممالک ہیں اسلئے مسلمانوں کا خاتمہ ممکن نہیں، بھارت کے ہندوؤں کو عرب ممالک سے جس قدرسپورٹ ملتی ہے اگر اسکا رستہ بھی بند ہوگیا تو انڈیا میں بھوک وافلاس کی تباہی مچے گی۔ عمران خان سے سعودیہ کے حکمران پاک پتن کے مزار پر جبینِ نیاز جھکانے پر ناراض نہیں تواپنی ضروریات کیلئے بھارت ایران گیس پائپ لائن پر ناراض نہ ہوگا۔ ایران سے بھارت گیس پائپ لائن گئی تو بھارت امریکہ کے سامنے ڈٹ سکتا ہے۔ کھربوں ڈالر بھارت امریکہ کو دے رہا ہے ہماری طرح یوایس ایڈ کی زکوٰۃ امریکہ سے نہیں لے رہاہے۔ پیٹرول کی ناجائز سپلائی بلوچستان کی مجبوری ہے لیکن ہم جائز طریقے سے پورے پاکستان میں ایران کے تیل کا فائدہ اٹھائیں اور بھارت کی سرحدوں پر سمگلنگ کے ذریعے جن بھوکوں کا پیٹ بھرناہو بھریں۔ بھارت بھی اپنی عوام کو سستے گیس وتیل کی فراہمی پر خوش ہوگا اور ہم نالائقوں کو کشمیر بنے بنائے ڈیم سمیت دینے پر بخوشی راضی ہوگا۔کسی کی نالائقی پر قیمت وصول کرکے کرایے کاکام چھوڑنا ہوگا۔ امریکہ نے بہت مدد بھی کی اور کام بھی بہت لیا ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا ڈومور سے انکار اس وقت مؤثر ثابت ہوسکتا ہے کہ جب ہم اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کیلئے متبادل بھی تلاش کریں۔ساری غیرملکی امداد اور قرضے مقتدر طبقات کی طرف سے بیرون ملک منی لانڈرنگ کی نذر ہوگئے ہیں۔ دفاعی بجٹ سے زیادہ قرضوں پر سود کی ادائیگی کا معاملہ آگیا ۔ عمران خان نے کنٹینر پر چڑھ کر جمہوریت کو ختم کرنے کی سازش کی لیکن قومی اسمبلی سے استعفیٰ تک نہیں دے سکا تھا۔ اب وزیراعظم بن کر کیا تیرماریگا؟۔ یہ اس کے بس کی بات نہیں۔ پاکستان میں ایگزیٹ اور عمران خان کے ذریعے بہت پیسہ باہر سے آگیا لیکن ایک جیل میں ہے اور دوسرا سیاسی کھیل میں ہے۔سیاسی جماعتوں نے جس طرح دھاندلی اور مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے سے جمہوریت کو یرغمال بنار کھا تھا اور عوام کا جمہوریت کے ذریعے تبدیلی کا خواب بھی نہیں رہا تھا، یہ عمران خان کا نہیں اس کو استعمال کرنے والی طاقت کا کمال ہے کہ یرغمال شدہ جمہوریت کو بازیاب کرایا ہے۔پہلے حکومتوں کا رونا ہوتا تھا کہ خزانے خالی ہیں اور اب قرضوں کا بوجھ رونا بن گیا ہے۔ سودی قرضے اور سازشی امداد جاری رہے گی اور آخر یہ حال ہوگا کہ ہزاروں سے لاکھوں کامقروض ہونے سے فرق نہیں پڑتا تو کروڑوں سے بھی فرق نہیں پڑتا ہے۔ مقتدر قوتیں اپنے اہل وعیال کیساتھ باہر ہیں اور غریب عوام اور غریب ملازمین کو رگڑنے کا سلسلہ جاری ہے۔ عابد شیر علی نے جعل سازی کا امتحان دینے پر محکمہ تعلیم کے افسر ڈاکٹرنعیم باجوہ کی میڈیا پر تذلیل اور سرزنش کی تھی اور اب فیصل واوڈا نے الیکشن میں دوبارہ گنتی کے سوال پر کامران شاہد کے پروگرام دنیا نیوز میں مظہر عباس کی توہین و تذلیل کردی۔ میاں شاہد لطیف نے کہا کہ عزیز ہم وطنو! والے اپنا رستہ ہموار کرنے کیلئے تحریک انصاف کو لائے۔ جمہوری حکومت ناکام ہوگی اور فوج آجائے گی۔ ہمارے سیاستدانوں کے رویے فوجی ڈکٹیتروں کی نسبت زیادہ بدتر ہیں۔ جس طرح عمران خان کیلئے سعید مراد اپنی ماں بہن کی گالیاں بھی کھاتا ہے، فوج کے ٹاؤٹ لوگ اس حد تک اپنے باس کیلئے گری ہوئی حرکت نہیں کیا کرتے ہیں۔ یہ ملک اور قوم زیادہ جھٹکوں کا متحمل نہیں ہوگا اور اگر قرضوں اور امداد کے بجائے ملک وقوم کو اپنے پیر پر کھڑا کیا گیا تو شریف لوگ آگے آئیں گے اور جن کو تعلیم وتربیت کے ذریعے سدھارنے یا سزاؤں کے ذریعے ان کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے یہ لوگ اہم قومی معاملات پر بات کرنے کیلئے کتوں کی طرح ٹی وی اسکرین پر نہیں چھوڑے جائیں گے۔ جمہوریت کا تقاضہ ہے کہ بہت ہی خوش اسلوبی کیساتھ اخلاقیات کا ایسا مظاہرہ کیا جائے کہ کارکنوں اور عوام کے دل ودماغ ٹھنڈے رہیں۔ نوبت یہ آگئی ہے کہ صدر زرداری کو پشاور، لاہور، کوئٹہ اور کراچی کی سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں کرنے والے شہباشریف اب اپوزیشن لیڈر بن جائیگا اور عمران خان وزیراعظم۔ خوب چلے گی مل جائیں گے جب اخلاقیات کے دیوالیے دو۔ بھارت سے تعلقات بہتر کرنے میں ایرانی گیس کا بڑا کردار ہوگا۔ سعودیہ کی امداد سے زیادہ بہتر عوام کیلئے سستے گیس و تیل کی ضرورت ہے۔ بھارت وایران سے بہتر تعلق امریکہ وافغانستان کے بحران میں کام آئے گا۔
کراچی (ڈاکٹر احمد جمال) علامہ عباس کمیلی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ گذشتہ عرصہ میں اسلام دنیا میں سب سے زیادہ پھیلنے والا مذہب تھا اسی سے بوکھلا کر دنیائے کفر نے سازش کی اور مسلمانوں میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکائی۔ کفر اور قتل و غارت گری کے فتوے دئیے گئے جو قرآن و سنت کے سراسر خلاف تھے نتیجے میں بعض اسلامی ممالک اور بالخصوص پاکستان میں خون کے دریا بہے ہزاروں مسلمان مسلمانوں کے ہاتھوں ہی قتل ہوئے اور شدت پسندی اور انتہا پسندی ہر طرف پھیل گئی۔ اس سے اسلام کو شدید نقصان پہنچا اس صورتحال کو بھانپتے ہوئے چند درد دل رکھنے والے فرقہ واریت کی اس آگ کو بجھانے میں پیش پیش رہے۔ جس میں سید عتیق الرحمن گیلانی صاحب صف اول میں ہیں۔ بہر حال خوش آئند بات یہ ہے کہ حکومت کی کوششوں سے تمام مکاتب فکر نے شدت پسندی اور قتل و غارت گری کے خلاف متفقہ فتویٰ جاری کیا ہے جس کے خوشگوار اثرات ہورہے ہیں۔ بڑی حد تک قتل و غارت گری رک گئی ہے۔ اب متفقہ فتوے کی زیادہ سے زیادہ تشہیر اور تبلیغ کی ضرورت ہے تاکہ دہشتگردی کا مستقل انسداد ہو سکے اور پاکستان امن کا گہوارہ بن جائے۔
پاکستان میں معاشرتی تبدیلی کے آغاز کیلئے تمام مکاتبِ فکر کے علماء کرام و مفتیانِ عظام کا ایک نمائندہ اجلاس بلایا جائے۔ درسِ نظامی کا تعلیمی نصاب ایک مرتبہ دیکھ لیا جائے اور اگر یہ معلوم ہوجائے کہ قرآن سے دوری کا یہ سب سے بڑا ذریعہ ہے تو اسکے نصاب کو فوری طور پر تبدیلی کے اقدامات کئے جائیں۔ نصابِ تعلیم ایک بنیاد ہے ۔ علماء ومفتیان اعتراف بھی کررہے ہیں کہ اب اس کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ بڑے علماء کرام میں علماء ومفتیان کے سرخیل حضرت مولانا مفتی محمد حسام اللہ شریفی مدظلہ العالی اور دیگر حضرات کھل کر اظہار کررہے ہیں اور کچھ بڑے بڑے اظہار کی جرأت نہیں رکھتے لیکن وہ درونِ خانہ کہتے ہیں کہ اس کافرانہ، گمراہانہ ، بے ایمانہ اور غیرفطری نصابِ تعلیم کو تبدیل کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ جو بلاسوچے سمجھے عرصۂ دراز سے پڑھایا جارہا ہے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو مدارس کے اس نصاب تعلیم کو منافع بخش کاروبار سمجھتے ہیں اور نسل در نسل امت مسلمہ کو قرآن کریم سے دور رکھنے کو اپنی مجبوری سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب امام مہدی علیہ السلام تشریف لائیں گے تو وہ درست کرنے کا کام کرینگے۔ ایسے میں اگر چیئرمین سینٹ قانون سازی کیلئے چند واضح آیات کو اپنے ایجنڈے پر رکھیں، پاک فوج کے کورکمانڈرز کانفرنس میں بھی اس کوواضح انداز میں اعتماد میں لیا جائے تاکہ پاکستان کو اسلامی مملکت بنانے کا آغاز ہوسکے اور پھر قرآن وسنت کے مطابق جلد سے جلدعدل و انصاف کو یقینی بنانے کیلئے بھی قانون سازی کی جائے۔ جس سے ملک وقوم کی تقدیر بدل جائے گی۔ پارلیمنٹ کی سیاست روایتی انداز میں ایک سیاسی جنگ سے آگے کچھ نہیں کرتی ہے ،جب قرآن وسنت کے واضح قوانین عوام کے سامنے آجائیں گے تو پارلیمنٹ سے بھی ان کی تائید وتوثیق کی جائے گی۔ جب اسلام کے واضح قوانین اور دینِ فطرت کو ملحد اور سیکولر طبقہ بھی قبول کرلے گا تو دنیا میں اس کی گونج سنائی دے گی۔ داعش و طالبان اور دیگر شدت پسند تنظیمیں بھی مدہوشی سے ہوش میںآجائیں گی۔ پاک پولیس،پاک فوج، پاک ایف سی، پاک لیویز، پاک ملیشیا، سب ہی ایجنسیاں اور ادارے شدت پسندی کے خوف سے نکل جائیں گے اور ہماری اپنی ریاست عالمی قوتوں کیلئے کھلونہ نہیں بہترین ماڈل بن جائے گی۔ سیاسی ، مذہبی، سماجی، فلاحی اور مختلف نوعیت کی تنظیمیں اور جماعتیں مثبت سرگرمیوں اور خدمات میں ایکدوسرے سے سبقت لے جانے کے چکر میں پڑجائیں گی۔ منفی سیاست اور مذہبی بنیادوں پر منفی پروپیگنڈوں کا قلع قمع ہوجائیگا۔ ریاستی اخراجات کے بچت میں ایک پرامن وپر سکون ماحول زبردست کردار ادا کریگا۔ جدید اور دینی تعلیمات اور تربیت کیلئے بہترین مواقع پیدا ہوسکتے ہیں۔ تبلیغی جماعت اور دعوتِ اسلامی میں سالوں سال ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں نکلنے والی جماعتیں فضول کے فرائض، واجبات، سنتیں اور آداب سیکھنے اور سکھانے کے بجائے اپنے وقت ، اپنی تعلیم، اپنے تجربے ، اپنی صلاحیت اور اپنی استعداد کو قوم کی ترقی پر خرچ کرینگے تو پاکستان سے جہالت کے اندھیرے بالکل ختم ہوجائیں گے۔ قرآن وسنت میں صرف قول اور فعل کا فرق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نماز قائم اور زکوٰۃ دینے کا حکم دیا ہے۔ یہ قول ہے اور نبیﷺ نے اس پر عمل کرکے دکھایا ہے اور یہ فعل وعمل ہے۔ قرآن میں بار بار اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی اطاعت کا حکم ہے۔ اور اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ یعنی دونوں میں کوئی فرق نہیں ۔ علماء ومفتیان نے قرآن وسنت کو جدا جدا کرکے دین کو اجنبیت کی طرف دھکیلا، خود ساختہ فرائض ایجاد کرکے اپنی حدود وقیود سے تجاوز کیا۔ غسل اور وضو کے فرائض کے بنانے اور ان پر انواع واقسام کے اختلافات کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ وضو اور غسل میں فرق سب ہی جانتے ہیں اور اس سے زیادہ صحابہؓ فرائض ، واجبات اور سنن نہیں جانتے تھے۔ نماز میں فرائض کے علاوہ سنتوں کی تعلیم دی جاتی ہے ، فقہ حنفی میں سب سے بڑے درجہ کے فقیہ قدوری کے مصنف تھے۔ قدوری کے مصنف نے ان فرائض کے علاوہ نمازوں کو سنن کے بجائے نوافل ہی لکھ دیا ہے۔ نماز اصل باجماعت تھی اور اللہ نے وارکعوا مع الراکعین ’’ رکوع کرنے والوں کیساتھ رکوع کرو‘‘ کا حکم دیا ہے۔ باجماعت نماز سے پہلے کوئی مسجد میں پہنچے تو بیٹھے رہنے سے زیادہ اچھا یہی ہے کہ نوافل ادا کرے، اسی طرح فرائض کے بعد بھی نفل پڑھے۔ اس کو ثواب بھی ملے گا اور اطمینان وسکون بھی حاصل ہوگا۔ لیکن جب ایک ساتھ زیادہ سے زیادہ رکعتوں کو مسلط کیا جائیگا تو نماز بھی نماز کی طرح نہیں پڑھے گا اور بوجھ بھی محسوس کریگا۔ اللہ تعالیٰ نے آسانیاں پیدا کرنے کا حکم دیا ہے اور علماء نے ہم کو مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ کسی فقہی مسلک میں بے نمازی کی سزا قتل ہے اور کسی کے نزدیک بے نمازی مرتد ہونے کی وجہ سے قتل کا مستحق بنتا ہے، کسی کے نزدیک کوڑے مارنا اور کسی کے نزدیک زدو کوب کرکے قید رکھنابے نمازی کی سزا ہے۔ حالانکہ قرآن وسنت میں ایسی کسی سزا کا دور دور تک ذکر نہیں ۔ اگر ہوتی تو اتنے سارے اختلافات کیسے بنتے؟۔ زبردستی سے نماز پر مجبور کیا جائے تو بے وضو اور غسل جنابت میں بھی لوگ نماز پڑھنے پر مجبور ہونگے۔ دین میں زبردستی کا کوئی تصور نہیں ہے ۔ جب لوگوں کے خوف سے نماز پڑھی جائے تو یہ عمران خان کے سجدۂ زن مریدی یا فرشِ راہ بوسی سے بھی بہت زیادہ بدتر ہوگا۔ داعش میں بہت سے شدت پسند نظامِ خلافت کے نام پر مسلمانوں کو قتل کرنا جرم نہیں فرض سمجھتے ہیں، دوسری طرف سے طبقاتی تقسیم کی وجہ سے عوام کو انصاف نہیں ملتا ہے تو وہ معاشرے سے انتقام لینے کیلئے داعش کے نظرئیے سے ایمان و دل وجان سے متفق ہوجاتے ہیں اور خود کش کے ذریعے حور کی آغوش میں چلے جانے کو ایک غنیمت سمجھتے ہیں۔ ریاست نے دین اسلام کو مفادپرستوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے بلکہ اپنے مفادات کیلئے بھی ان کو استعمال کیا جاتا ہے جس کا پہلے بھی خطرناک نتیجہ ہماری ریاست خود بھی بھگت چکی ہے۔پاکستان کے پاس اب بہت زیادہ وقت نہیں ہے۔ لسانی،فرقہ وارانہ ، سیاسی جماعتوں کے نام نہاد نظریاتی ، محب وطن وغدار اور اسلام دوست ومذہب دشمن قوتوں کے درمیان کبھی لڑائی چھڑ گئی تو اس آگ پر قابو پانا بہت مشکل ہوگا۔ خون خرابے کی کیفیت کے خدشات بڑھتے جارہے ہیں اور انارکی میں سب کا دماغ خراب ہوجائیگا۔ مجھے امید ہے کہ اسلام دوست، محب وطن، پاسدارانِ ریاست اور اہل دانش سب کے سب نظام کی تبدیلی کی طرف آئیں گے۔ 9/11کا واقعہ امریکہ میں ہوا اور اسلامی دنیا کو تخت وتاراج کیا گیا۔ ایک طرف امریکہ سے مجبوری کی سہی مگر ہمدردی ہے اور دوسری طرف شدت پسندوں کے انتقام کا خوف ہے ،اس دو رنگی نے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈال دیا ہے اور جب بھی بلیک لسٹ تک پہنچے تو ہماری تقدیر کی الٹی گنتی خدانخواستہ شروع ہوسکتی ہے۔ مارا ماری، خون خرابے سے پہلے پہلے ہمارے اصحابِ حل وعقد کو معروضی حقائق کی طرف آجانا چاہیے، بس۔
اللہ نے فرمایا: ’’عصر کی قسم! کہ انسان خسارے میں ہے مگر وہ لوگ جو ایمان لائے، اور نیک عمل کئے اور حق کی تلقین کی اور صبر کی تلقین کی‘‘۔ (سورۃ العصر) ایمان کیا ہے؟۔ ہرفرقہ ومسلک کے علماء ومفتیان نے اپنے پیروکاروں کو یہ سمجھایا ہے کہ تمہارا عقیدہ درست ہے اور دوسروں کا عقیدہ درست نہیں۔کسی کے عمل کی طرف دیکھنے کی نوبت اسلئے نہیں آتی کہ جب پہلی شرط ایمان موجود نہ ہو توعمل صالح، حق بات کی تلقین اور صبر کی تلقین سب بے بنیاد اور بیکار ہیں۔ مولانا لوگوں کی یہ تنگ نظری ایک مخصوص ماحول کا نتیجہ ہے۔ بریلوی دیوبندی، شیعہ اور اہلحدیث کے علاوہ جماعت المسلمین ، حزب اللہ اور توحیدی وغیرہ فرقوں نے جنم لیا ہے۔ یہاں اکثریت دیوبندی بریلوی مکاتبِ فکر کی ہے جو ایک نصاب تعلیم درسِ نظامی پڑھارہے ہیں۔ درسِ نظامی میں قرآن واحادیث کے علاوہ فقہ اور اصولِ فقہ کی تعلیم بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ اصولِ فقہ میں شریعت کے بنیادی چار اصولوں کا ذکر ہے۔1: کتاب،2: سنت، 3:اجماع اور4: قیاس۔ کتاب سے مراد پورا قرآن نہیں بلکہ 5سوآیات جو احکام سے متعلق ہیں۔ باقی آیتیں وعظ، نصیحت ، قصے ہیں جو اصولِ فقہ کی بحث سے خارج ہیں۔ اگر علماء کرام ومفتیان عظام احکام سے متعلق ان500آیات کو باقاعدہ عنوانات کے تحت درج کرکے پڑھانا شروع کردیتے تو اسلام اجنبیت سے محفوظ ہوجاتا۔یہ حقیقت ہے کہ علماء ومفتیان اس بات سے قطعاً بے خبر ہیں کہ کسی عنوان کے تحت کتنی اور کون کونسی آیات درج کرکے ان 5سو آیات کی گنتی پوری ہوسکتی ہے۔ اگر کسی ایک موضوع پر تسلسل کیساتھ چند آیات پیش کی جاتیں تو بھی استاذ وطالب علم دونوں کو سیاق وسباق سے حقائق کا ادراک ہوتا اور اختلافات کا معاملہ بالکل کالعدم ہوجاتا۔ کسی بھی موضوع پر آیات دیکھنے کے بعد شرح صدر ہوجاتاہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ ’’ طلاق دومرتبہ ہے، پھر معروف طریقے سے روک لینا ہے یا احسان کیساتھ رخصت کرنا۔ اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے ،اس میں سے کچھ بھی واپس لو مگر یہ کہ دونوں کو خوف ہو کہ اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے، اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ دونوں اللہ کے حدودپر قائم نہ رہ سکیں گے تو دونوں پر کوئی حرج نہیں کہ عورت اس میں جو فدیہ دے اور یہ اللہ کے حدود ہیں،ان سے تجاوز مت کرو اور جو اللہ کی حدود سے تجاوزکرتا ہے تو بیشک وہی لوگ ظالم ہیں‘‘۔( البقرہ آیت:229)۔ حدیث میں آتاہے کہ صحابیؓ نے عرض کیا کہ قرآن میں تیسری طلاق کا ذکر کہاں ہے؟۔ رسول ﷺ نے فرمایا: تسریح باحسان احسان کیساتھ تیسرے مرحلے میں چھوڑنا تیسری طلاق ہے‘‘ اس آیت میں دو مرتبہ طلاق کے بعد کیا خلع کا کوئی تصور ہوسکتا ہے؟۔ جبکہ خلع کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ عورت کے مطالبے پر شوہر اس کو چھوڑ دے۔ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ خلع کی صورت میں عورت کی عدت ایک حیض ہے۔ جبکہ مرد ایک مرتبہ خلع کی طلاق دے تو دوسری مرتبہ طلاق کی نوبت نہیں آتی ۔یہ معمہ کھڑا ہی نہ ہوتا جو اصولِ فقہ کی کتابوں میں موجود ہے کہ دومرتبہ طلاق اورپھر تیسری مرتبہ طلاق سے پہلے خلع کی بات تسلسل سے ہے یا جملہ معترضہ ہے؟ جبکہ اصولِ فقہ میں یہ احمقانہ بحث ومباحثے اور پاگل پنے کے دلائل دئیے گئے ہیں۔ مسلک حنفی کی دلیل یہ ہے کہ اگلی آیت میں فان طلقھا کا ذکرہے جس میں ف کا تعقیبِ بلامہلت کاتقاضہ یہ ہے کہ فدیہ کیساتھ اس کاتعلق متصل طور پر ہو۔جہاں تک اس بات کا تقاضہ ہے کہ دومرتبہ طلاق کے بعد خلع تیسری طلاق ہے تو چوتھی طلاق کا تصور لازم آئیگا تو اسکا جواب یہ ہے کہ خلع مستقل طلاق نہیں بلکہ ضمنی چیز ہے اسلئے دومرتبہ طلاق کے بعد خلع ہو تو تیسری طلاق واقع کرنا جائز ہے۔ شافعیؒ اور جمہور کے نزدیک خلع مستقل ہے اسلئے آیت میں یہ جملہ معترضہ ہے تاکہ دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ طلاق کی گنجائش رہے۔(نورالانوار ملا جیونؒ ) حالانکہ آیت کا مطلب بالکل واضح ہے، دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسری طلاق کیلئے تیسرے مرحلے میں احسان کیساتھ چھوڑنے کی وضاحت ہے۔ جسکے بعد یہ بھی واضح ہے کہ تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیاہے اس میں سے کچھ بھی واپس لو الایہ کہ دونوں کو خوف ہو کہ اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکیں۔۔۔ یہ باہوش واحواس ایک ایسی جدائی کا فیصلہ ہے کہ آئندہ رابطے کا کوئی ذریعہ بھی نہ رہے اور فیصلہ کرنے والے بھی یہی قرار دیں۔ اس کے بعد سوال یہ پیدا نہیں ہوتا کہ رجوع ہوسکتا ہے یا نہیں بلکہ یہ شوہر کی غیرت کا تقاضہ ہوتا ہے کہ وہ عورت طلاق کے بعد کسی دوسرے سے شادی نہ کرے اور اگر کسی اور سے شادی کرے تو اس میں شوہر کی مرضی کا بھی لحاظ رکھے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو مرد کی اس خصلت سے تحفظ دیا کہ عورت مرضی سے دوسرے شوہر سے نکاح کرلے۔ اس صورت کی طلاق کے بعد اللہ نے فرمایا کہ ’’ اگر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے سے نکاح کرلے‘‘۔ ایک عورت میں خود یہ غیرت ہوتی ہے کہ باہوش وحواس طلاق کے بعد بھی دوسری جگہ شادی کرنا اپنی غیرت کے خلاف سمجھ رہی ہوتی ہے اور شوہر بھی اس کو مرضی سے نکاح نہیں کرنے دیتا ہے۔ قرآن کے سیاق وسباق کو دیکھ کر عالمِ انسانیت کیلئے یہ آےۃ ہدایت کا ذریعہ بن سکتی ہے کیونکہ اس آیت نے انسانوں کو انسانیت سکھادی ہے اور حیوانوں اور جذبہ حیوانیت سے انسانیت کو قرآن نے بالکل ممتاز کردیاہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اگر دونوں رجوع کرنا چاہتے ہوں تو اللہ نے اگلی دونوں آیات میں وضاحت کردی کہ عدت کی تکمیل کے فوراً بعد بھی اس نے رجوع کا دروازہ کھلا رکھا ہے اور کافی عرصہ گزرنے کے بعد بھی بغیر کسی تأمل کے نہ صرف رجوع کا دروازہ کھلا رکھا ہے بلکہ رکاوٹ نہ ڈالنے کی ہدایت بھی اللہ نے بہت واضح الفاظ میں جاری کی ہے۔ اگر قرآنی آیات و احادیث صحیحہ کی تعلیم کا درس نصاب میں پڑھایا جاتا تو ہرطالب علم اور عالم دین راشدو مہدی بنتا۔ جو ایکدوسرے پر گمراہی کا فتویٰ لگاتے ہیں وہ ایکدوسرے کو نجومِ ہدایت قرار دیتے قرآن نے بہت سلیس انداز میں بتایا ہے کہ عدت کے تین ادوار ہیں ۔ ان میں اصلاح کی شرط پر رجوع ہوسکتا ہے۔ پھر ان تین مراحل میں تین مرتبہ طلاق کی وضاحت کی ہے۔ پھر طلاق کی تین اقسام کی تین آیات میں وضاحت کردی ہے۔ نبی ﷺ نے بھی قرآنی آیات کو پاکی کے ایام و حیض کے حوالے سے واضح کیا ہے لیکن درسِ نظامی میں قرآن کو احادیث سے ٹکرانے کی تعلیم دی جاتی ہے۔ قرآن میں بار بار بتایا گیا ہے کہ طلاق سے رجوع کا تعلق عدت سے ہے۔ عدت کی تکمیل پر بار بار معروف طریقے سے رجوع یا چھوڑنا واضح ہے۔عدت کی تکمیل پر چھوڑنے کا معروف طریقے سے فیصلہ کرنے کے بعد دو عادل گواہ مقرر کرنے کا حکم بھی ہے۔ ساری دنیا نکاح و طلاق کے قوانین کوقرآن وسنت کے مطابق بنانے کیلئے تیار ہے لیکن ہمارے ہاں جہالت ہی جہالت کا دور دورہ ہے اور اس سے نکلنے کیلئے بڑے اور معروف علماء ومفتیان کو حقائق پر مجبور کرنا ہوگا۔
پا کستان میں جس ظلم وجبر کا نظام ہے یہ مغرب و مشرق، شمال و جنوب دنیا پر مسلط ہے۔ اسلام نے جمہوریت کی بنیاد رکھ دی ۔ خلافت کا نظام جمہوریت کا مرہونِ منت تھا۔ اس سے زیادہ جمہوریت کیا ہوگی کہ حضرت خولہ بنت ثعلبہؓ نے سرکارِدوعالم ﷺ کی بارگاہ میں مجادلہ کیا اور وحی عورت کے حق میں نازل ہوئی؟۔ رسول اللہ ﷺ نے حدیث قرطاس میں اپنے بعد کیلئے ایک ایسی وصیت کا فرمایا کہ ’’ آپﷺ کے بعد اُمت ہلاک نہ ہو‘‘۔حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے۔ جسکے بعد صحابہؓ کے دوگروہ نے ایکدوسرے کیخلاف شور مچایا اور نبیﷺ نے اپنے ہاں سے سب کو نکل جانے کا حکم دے دیا تھا۔ یہ وصیت خلیفہ کے حوالہ سے تھی اسلئے کہ رسول اللہ ﷺ نے حج کے عظیم اجتماع میں فرمایا کہ’’ میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑے جارہاہوں ایک قرآن اور دوسری میری عترت، خبردار جب تک ان کو مضبوطی سے تھاموگے تو میرے بعد گمراہ نہ ہوگے‘‘۔اور یہ بھی فرمایا تھا کہ ’’ میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایکدوسرے کی گردنیں مارنے لگو‘‘۔ خلافت کے مسئلہ پر حضرت عثمانؓکو شہید کیا گیا اور پھر یہ سلسلہ حضرت علیؓ کے دور میں حضرت علیؓ کی شہادت تک کافی بڑھ گیا، پھر حضرت امام حسنؓ نے مسلمانوں کی دوبڑی جماعتوں میں صلح کرادی اور پھر بنی امیہ کے دور میں خلافت کا سلسلہ امارت میں بدل گیا اور یزید کے دور میں حضرت امام حسینؓ کی شہادت کا سانحہ پیش آیا۔ شاعرنے خوب کہا تھا کہ قتل حسین ہے اصل میں مرگِ یزید اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد مگر حقیقت یہ ہے کہ اسلام تسلسل کیساتھ ہردور میں پھر بھی اجنبیت کا شکار ہوتا رہاہے، درباری شیخ الاسلاموں نے ہردور میں بتدریج اسلام کا بیڑہ غرق کیا ہے غدیرخم میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’جس کا میں مولیٰ ہوں یہ علی اس کا مولیٰ ہے‘‘۔ رسول اللہﷺ کو وصیت نہ لکھنے دی تو آپﷺ کے وصال فرمانے کے بعدقریب تھا کہ خلافت کے مسئلہ پر انصارؓ ومہاجرینؓ اور قریشؓ واہلبیتؓ کے درمیان زبردست تنازعہ کھڑا ہوجاتا مگر صحابہ کرامؓ کی جمہوری ذہنیت نے اس پر قابو پالیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا کہ اتبعوا سواد الاعظم’’زیادہ عظمت والے گروہ کا ساتھ دو‘‘۔ اعظم کا معنی اکثر نہیں بلکہ زیادہ عظمت والی جماعت ہے اور یہ جمہوریت کیلئے سب سے بڑی بنیاد ہے۔حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں برسراقتدار تو وہی جماعت آئے گی جس کی اکثریت ہو لیکن جب عظمت والی کو ترجیح دی جائے گی تو ایک دن اکثریت بھی حق کی طرف مائل ہوگی۔ رسول اللہﷺ نے غزوہ بدر کے موقع پر فدیہ لینے کا فیصلہ اکثریت کی بنیاد پر کیا لیکن حضرت عمر فاروق اعظمؓ اور حضرت سعدؓ نے اقلیت سے مشورہ دیاتھا اور اللہ تعالیٰ نے اقلیت کے مشورے کو قرآن میں اعظم کا درجہ دیا تھا اسلئے وصیت بھی نبی کریمﷺ نے حضرت فاروق اعظمؓ کی رائے سے لکھنا چھوڑدی۔ اہل تشیع کی آذانوں میں حضرت علیؓ کیلئے ولی اللہ، وصی رسول اللہ و خلیفتہ بلافصل کی صدائیں اسلئے بلند کی جاتی ہیں۔ ہماری اہل تشیع سے استدعا ہے کہ حضرت علیؓ کے بعد اگر آپ کا حضرت حسنؓ، حضرت حسینؓ کے بعد بتدریج مہدئ غائب تک بارہ خلفاء پر ایمان ہے تو کلمہ وآذان میں ہر دور کے ہر امام کیساتھ تبدیلی کی ضرورت تھی۔ ولی کے عربی میں کئی معانی ہیں ۔ آقا ،غلام، حکمران، سرپرست اور دوست کو بھی کہتے ہیں۔ ہم قرآن کی آیت میں اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ انت مولانا آپ ہمارے مولا ہیں تو اس کا معنی غلام نہیں لیتے، یہ نہیں کہتے کہ آپ ہمارے غلام ہیں ورنہ تو اس سے بڑھ کر کافری کیا ہوگی؟، قرآن میں عبد کا لفظ بندے اور غلام دونوں کیلئے آیا ہے لیکن غلام کو اپنا بندہ عبودیت کے اعتبار سے کہنا کفر ہے اسلئے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ جب علماء کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ کے بارے میں نبیﷺ نے فرمایا کہ وہ تمہارا مولی ہے اور مولانا سے دوست مراد ہے تو کیا بڑے بڑے مولانا صاحبان اپنے لئے مولا کے معنی دوست کے ہی لیتے ہیں؟۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ ’’یہودونصاریٰ کو اپنا ولی مت بناؤ ‘‘ تو اس سے مراد دوست بنانا نہیں بلکہ فیصلے کیلئے اختیار دینا اور سرپرستی مراد ہے۔ جب ان کی خواتین سے نکاح جائز ہے تو بیوی سے بڑھ کر دوستی کیا ہوسکتی ہے۔ لڑکی کا ولی اسکا سرپرست ہوتا ہے دوست نہیں ہوتا ہے۔مولانا طارق جمیل بھی بدل گئے۔ عربی میں ذنب دُم، گناہ اور بوجھ کو بھی کہتے ہیں۔نبیﷺ گناہوں سے معصوم اور محفوظ تھے۔ نبیﷺ کی پیٹھ نبوت کے بوجھ نے توڑ کر رکھ دی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ الم نشرح لک صدرک و وضعناعنک وزک الذی انقض ظہرک ’’ کیا ہم نے تیرا سینہ نہیں کھولاہے؟ اور تجھ سے وہ بوجھ اٹھادیا جس نے آپ کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی‘‘۔ اللہ تعالیٰ فرمائے کہ ذنب کے بدلے جہنم رسید کردونگا، یا ذنب کے بدلے مشکل میں ڈال دونگا تو ذنب کا معنیٰ گناہ کے ہونگے لیکن جب اللہ تعالیٰ یہ فرمائے کہ انا فتحنا لک فتحًا مبینًا لیغفراللہ ماتقدم من ذنبک و ما تأخر ’’اور ہم نے تجھے کھلی ہوئی فتح دیدی تاکہ تجھ سے تیرا اگلا اور پچھلا بوجھ ہٹادے‘‘ تو اس میں ذنب کا معنیٰ گناہ نہیں ہوسکتا ہے بلکہ بوجھ ہی ہوسکتا ہے۔ صحیح بخاری کی روایت کا بھی یہی ترجمہ بنتا ہے کہ جب نبیﷺ دیر تک عبادت میں مشغول رہتے توحضرت عائشہؓ نے عرض کیا کہ جب آپ کا اگلا پچھلا بوجھ ہلکا کردیا ہے، پھر آپ خود کو کیوں مشقت میں ڈالتے ہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟‘‘۔ حضرت حاجی محمد عثمان ؒ کے ایک مرید کا کہنا تھاکہ نبیﷺ کو مشاہدے میں دیکھتا ہے۔ حاجی عثمانؒ کے علم میں بات آئی کہ بخاری میں نبیﷺ کے اگلے پچھلے گناہوں کو معاف کرنے کی بات ہے تو گناہ والی بات دل نے نہیں مانی اور مرید سے کہا کہ پوچھ لو۔ مرید نے بتایا کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ حدیث درست ہے مگر اسکے الفاظ میں ردوبدل ہے ۔ یعنی گناہوں والا ترجمہ درست نہیں ہے۔ حاجی عثمانؒ کے حلقہ ارادت میں بڑے مدارس کے بڑے علماء ومفتیان ، فوجی افسران ، بڑی تعداد میں تبلیغی جماعت میں وقت لگانے والے اور عام تعلیم یافتہ لوگ ہزاروں کی تعداد میں شامل تھے۔ا لائنس موٹرز کی آزمائش آئی تو حاجی محمد عثمان ؒ کو گمراہ قرار دینے کا سب سے بڑا ہتھیار یہ مشاہدہ تھا۔ خانقاہ کی دیوار پر لکھا ہوا تھا کہ نبی کریمﷺ تشریف لائے اور فرمایا کہ ’’ حاجی عثمان کا کوئی مرید ضائع نہ ہوگا مگر جو اخلاص کیساتھ نہیں جڑا‘‘۔ مشاہدات والے ہزاروں میں تھے لیکن الائنس موٹرز کے جال میں پھنسنے کی وجہ سے اکثر وبیشتر بھاگ گئے۔ نبیﷺ نے جبری دورحکومتوں کے بعد دوبارہ طرزِ نبوت کی خلافت کی خبر دی ہے۔ اسلام کو مدارس کے علماء ومفتیان نے بگاڑ دیا لیکن وہ غلطی پر ہونے کے باوجود معذور تھے اسلئے کہ حق کا ادراک نہ ہو تو اللہ تعالیٰ بھی نہیں پکڑتا البتہ اتمامِ حجت کے بعد ہٹ دھرمی سے وہ اپنے آپ کو ذلت کی انتہاء تک پہنچاسکتے ہیں۔ ہم پر یہ فرض اور قرض ہے کہ حقائق کو پیش کرکے اپنے ضمیر کے بوجھ کو ہلکا کریں۔
سید ارشاد نقوی مدیر خصوصی نوشتۂ دیوار نے کہا کہ علماء ومفتیان بار بار متنبہ ہونے کے باوجود ڈھیٹ ہوگئے ہیں۔ اصولِ فقہ کی کتاب ’’نورالانوار: ملاجیونؒ ‘‘ نصاب کا حصہ ہے اور معمولی معمولی باتوں پر طوفان کھڑے کرنے والوں کو اتنی موٹی بات بھی کیوں سمجھ میں نہیں آرہی کہ کتاب اللہ سے متعلق بالکل لغو تعلیم دی جاتی ہے کہ المکتوب فی المصاحف المنقول عنہ نقلا متواتر بلاشہ ’’ کتاب اللہ سے مراد مصاحف میں لکھاہوا قرآن ہے جونبیﷺ سے متواتر بلاشبہ نقل ہواہے‘‘۔ اس کی تشریح میں ہے کہ’’لکھاہوا سے مراد لکھا ہوانہیں ، کیونکہ یہ لفظ ہے اور نہ معنیٰ۔ بلکہ لکھائی محض نقوش ہیں‘‘۔ کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ لکھا ہوا سے مراد لکھائی نہیں ہے؟۔ کوئی ان پڑھ جاہل ،کم عقل ، بچہ بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ کتاب اللہ مصاحف میں لکھا ہوا قرآن ہے مگر لکھے سے مراد لکھا ہوا نہیں ۔ یہ علم الکلام کی گمراہی ہے جس سے امام ابوحنیفہؒ نے توبہ کی تھی۔ آیات کا حوالہ ذیل میں دیا گیا، تاکہ علماء ومفتیا ن کیلئے یہ نصاب بدلنے میں آسانی ہو ۔ جس طرح تعلیم یافتہ ہندو بت کی کیمسٹری سمجھنے کے باوجوداسکو پوجتا ہے، اسی طرح اندھی تقلیدسے عقیدت میں علماء ومفتیان اپنے نصاب کے حوالہ سمجھنے پر غور نہیں کرتے ۔ نورالانوار ملا جیونؒ نے لکھی۔ جو شہرت یافتہ سادہ تھے اورانکے انواع واقسام کے لطیفے ہیں۔ یہ بڑی حماقت ہے کہ کتاب سے مراد مصاحف میں لکھا ہواقرآن ہو مگر لکھاہوا کے کلام اللہ ہونے سے انکار ہو۔ اسکے بھیانک نتائج یہ نکلے کہ فتاویٰ شامیہ، قاضی خان اور صاحب ہدایہ نے لکھا ہے کہ ’’سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے علاج کیلئے لکھنا جائز ہے‘‘۔ مفتی تقی عثمانی نے عوام کے دباؤ پراپنی کتابوں تکملہ فتح الملہم و فقہی مقالات سے نکالا مگرتحریک انصاف کے رہنما مفتی محمدسعید خان نے پھر بھی اپنی کتاب ’’ ریزہ الماس‘‘ میں پیشاب سے سورۂفاتحہ کو لکھنے کے جواز کا دفاع کیا لیکن جب درسِ نظامی کے بنیادی نصاب میں یہ شامل ہو کہ لکھائی کی شکل محض نقوش ہیں جو الفاظ ومعانی نہیں اور نہ اللہ کا کلام ہے تو پھر پیشاب سے لکھنے میں کیا حرج ہے؟۔ اور اصولِ فقہ کی بنیادی غلطی کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں قرآن کی شکل ہی بدل جاتی ہے۔ علماء پڑھتے پڑھاتے ہیں کہ نقل متواتر کی قید سے غیرمتواتر آیات نکل گئیں۔ اگر یہ تعلیم ہو تو پھر قرآن کی حفاظت کا عقیدہ نہیں رہتا۔ یہ بھی پڑھا یا جاتا ہے کہ بلاشہ کی قید سے بسم اللہ نکل گئی ، کیونکہ صحیح بات یہ ہے کہ بسم اللہ قرآن ہے مگر اس میں شبہ ہے اور شبہ کے قوی ہونے کی وجہ سے اسکا منکر کافر نہیں۔ علاوہ ازیں یہ تعلیم ہے کہ آخری 2سورتوں کو عبداللہ ابن مسعودؓ قرآن نہیں مانتے تھے۔ حالانکہ اللہ نے یہ واضح کردیا کہ قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے لیا، شیطان اسکے آگے پیچھے حملہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ کسی نے کئی سوسال بعد عبداللہ ابن مسعودؓکے مصحف کو دیکھاجسکی آخری دو سورتیں اور فاتحہ پھٹ کر ضائع تھے تویہ افسانۂ کفر گھڑ دیا زیبِ داستاں کیلئے۔ تفسیر عثمانی میں علامہ شبیر احمد عثمانی نے لکھا ہے کہ ابن مسعودؓ ان آخری دوسورتوں کے نزول کے منکر نہ تھے مگر قرآن کا حصہ نہ سمجھتے تھے اسلئے قرآن میں درج نہ کیا۔ کسی نے یہ بھی لکھ دیا کہ نماز میں بھی پڑھنے کو جائز نہ سمجھتے تھے، یہ محض دم تعویذ کیلئے اتری تھیں۔ بریلوی مکتبہ فکر کے علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی تفسیر’’ تبیان القرآن‘‘ میں طویل بحث میں لکھا کہ ’’ صحیح روایات سے ثابت ہے کہ عبداللہ بن مسعودؓ نے اپنے مصحف میں آخری دو سورتوں کو نہیں لکھااور اسکا انکار ممکن نہیں۔ اسکا حل یہ ہے کہ صحابہؓ کے دور میں قرآن پر اجماع نہیں ہوا تھا، اس وقت قرآن کی ان دو سورتوں کا منکر کافر نہیں تھا جبکہ اب اجماع ہوچکا ہے اور اب اس اجماع سے انکار پر وہ شخص کافر ہوگا جو ان دو سورتوں کو نہ مانے گا‘‘۔یہ عقل دیکھ لو کہ قرآن کا منکر کافر نہیں مگر اجماع کا منکر کافر بن جائیگا؟۔ علامہ غلام رسول سعیدی نے لکھا کہ ’’ شیخ انور شاہ کشمیری نے فیض الباری میں لکھاہے کہ قرآن میں معنوی تحریف تو بہت ہوئی لیکن لفظی تحریف بھی ہوئی ہے، انہوں نے جان بوجھ کی ہے یا مغالطہ سے ایسا ہواہے۔ اس عبارت کا حوالہ دئیے بغیر ہم نے دارالعلوم کراچی کورنگی سے فتویٰ لیا تو وہاں سے اس پر کافر کا فتویٰ لگایا گیا‘‘۔ جبکہ قاضی عبدالکریم کلاچی نے یہ عبارت لکھ کر اکوڑہ خٹک کے مفتی اعظم مفتی فرید صاحب کو لکھ دیا کہ عبارت پڑھ کر پاؤں سے زمین نکل گئی ۔ مفتی فرید صاحبؒ نے اسکا غیر تسلی بخش جواب دیا جو انکے ’’فتاویٰ دیوبند پاکستان ‘‘ میں شائع ہوچکا ہے۔ ایک وقت تھا برطانیہ کی حکومت پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا، اب سوشل میڈیا کے ذریعے حکومت کے بغیربھی کسی پیغام کو عام کرنے کا مسئلہ نہیں رہاہے۔ علماء ومفتیان تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ نوجون اور پڑھا لکھا طبقہ بے دینی کی طرف جارہا ہے ۔ ان کو یہ احساس نہیں ہے کہ روڈ پر کھڑے ہوکر گدھے کی طرح آنکھیں بند کرنے سے کوئی کمزور گدھا لاری کی ٹکر سے بچ سکے گا یا ٹکر سے ملیا میٹ ہوجائیگا؟۔ درسِ نظامی کی کتابوں میں قرآن کے متعلق اصولِ فقہ کی بنیادی تعلیم میں اس طرح کا کفر کب تک عوام کی نظروں سے پوشیدہ رکھا جاسکے گا؟۔ ایک دن کسی بڑے انقلاب کی شکل میں کوئی طاقت ان کو دبوچ لے گی تو دفاع کا موقع بھی نہیں مل سکے گا۔ لوگ بہت بے حس ہیں مگر جب کوئی احساس دلانے والا احساس دلائے گا تو مدارس کو صرف ذریعہ معاش سمجھنے والے سنبھل بھی نہیں سکیں گے۔ اسلئے اللہ کا خوف کا کھانے کیساتھ اپنا بھی خیال رکھیں۔ سورۂ اعراف کی متعلقہ آیات کوغور سے تلاوت کریں اور سمجھیں جن میں آگے یہ بھی ہے کہ درجہ بدرجہ اللہ تعالیٰ ان کو وہاں تک لے جاتا ہے کہ وہ سمجھ نہیں سکتے ہیں اور پھر اللہ اچانک دبوچ لیتا ہے۔ قرآن کی سمجھ اور اس کو دستور العمل بنانے سے ہی ہمارا بیڑہ پار ہوگا۔ فویل اللذین یکتبون الکتاب بایدیھم ثم یقولون ھذا من عند اللہ لیشتروا بہٖ ثمنا قلیلا فویل اللھم مما کتبت ایدیھم وویل اللھم مما یکسبونO تباہی ہے ان لوگوں کیلئے جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں پھر لوگوں سے کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے ذریعے تھوڑا سا کما لیں۔ پس تباہی ہے ان لوگوں کیلئے اس تحریر کی وجہ سے جو ان کے ہاتھوں نے لکھی اور اس وجہ سے جو انہوں نے کمایا(البقرہ: آیت:79) ولو نزلنا علیک کتاباً فی قرطاس فلمسوہ بایدیھم لقال الذین کفروا ان ھذا الا سحر مبین Oاگر ہم آپ پر کوئی ایسی کتاب نازل کردیتے جو کاغذ پر لکھی ہوئی ہوتی پھر یہ اسے ہاتھوں سے چھو کر بھی دیکھ لیتے تو جو لوگ کافر ہیں وہ کہتے کہ یہ کھلا ہوا جادو ہے۔ (الانعام: آیت:7) قرآن سے واضح ہے کہ کتاب کاغذپر لکھی چیز ہے، بچہ بھی جانتاہے ،اصول فقہ کی کتابوں سے گمراہانہ تعلیم کو نہ نکالا گیا تو علماء ومفتیان پرشدید عذاب آسکتاہے۔ و الذین اٰتینٰھم الکتاب یعلمون انہ منزل من ربک بالحق اور جن کو ہم نے کتاب دی ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے حق کیساتھ نازل ہوئی ہے ۔ (الانعام: آیت: 114) الذی یجدونہ مکتوباً عندھم فی التورٰۃ و الانجیلOجس کو وہ لکھا ہوا پاتے ہیں اپنے پاس تورات اور انجیل میں ۔ (الاعراف: آیت:157) الرOکتاب انزلناہ الیک لتخرج الناس من الظلمٰت الی النور کتاب ہم نے تیری طرف نازل کی تاکہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے نور کی طرف نکالیں ۔ (ابراہیم: آیت: 1) والذین یمسکون بالکتاب و اقاموا الصلوٰۃ انا لا نضیع اجر االصٰلحینO اور جو کتاب سے تمسک کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں تو ہم ان کا اجر ضائع نہیں کرتے ہیں۔( الاعراف: 170) قرآنی آیات میں بار ہا مکتوب (لکھت : لکھائی )کواللہ کا کلام قرار دیاگیاہے۔ فسئل الذین یقرؤن الکتاب من قبلکOاور پوچھ لیں ان لوگوں سے جو آپ سے پہلے کتاب پڑھتے ہیں ( یونس:آیت:94) ن و القلم وما یسطرون ما انت بنعمۃ ربک بمجنون Oن قسم ہے قلم کی اور جو کچھ سطروں میں ہے اس کی ، کہ آپ اپنے رب کی نعمت سے مجنون نہیں ہیں۔ (القلم: آیت:1) اقرا و ربک الاکرم الذی علم بالقلم پڑھ اور تیرے عزت والے رب کی قسم جس نے قلم کے ذریعے سے سکھایا ۔ (العلق: آیت:4) وقطعنٰھم فی الارض اُمما، منھم الصالحون منھم دون ذٰلک… فخلف من بعدھم خلف ورثوا الکتٰب ےأخذون عرض ہٰذہ الادنیٰ و یقولون سیغفرلناوان ےأتھم عرض مثلہ ےأخذوہ، الم ےؤخذ علیھم میثاق الکتٰب ان لا یقولوا علی اللہ الا الحق و درسوا مافیہ(اعراف کی ان آیات سے علماء ومفتیان کو پورا پورا سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے) واتل علیھم نبأ الذی اٰتینٰہ آیٰتنا ۔۔۔ من لغٰوینOولو شئنالرفعنٰہ ۔۔۔ فمثلہ کمثل الکلب ان تحمل علیہ یلھث او تترکہ یلھث۔۔۔ لعلھم یتفکرونOولقد ذرأنا لجنھم کثیر من الجن والانس لھم قلوب لایفقھون بھا ولھم اعین لا پبصرون بھاولھم اٰذان لا یسمعون بھا ،اولٰئک کالانعام بل ھم اضل ،اولٰئک ھم الغٰفلونOاور ان کو اس کی خبر بتاؤ،جس کو ہم نے اپنی آیات دیں پھر وہ انسے نیچے اترا،پھر شیطان نے اس کو دھر لیا اور وہ بھٹکنے والوں میں شامل ہوا،اور اگر ہم چاہتے تو اسے بلندی پر انکے ذریعے پہنچاتے مگر اس نے زمین میں ہمیشہ رہنے کو ترجیح دی اور نفسانی خواہش کا تابع بنا، اس کی مثال کتے کی سی ہے، اگر اس پر بوجھ لادو تب بھی ہانپے اور چھوڑ دے تب بھی ہانپے، ۔۔۔ جہنم کیلئے بہت جن وانس میں سے تیار کررکھے ہیں،انکے دل ہیں مگر انسے سمجھتے نہیں، آنکھیں ہیں مگر انسے دیکھتے نہیں، انکے کان ہیں مگرانسے سنتے نہیںیہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ زیادہ بدتر(اعراف)
نوشتۂ دیوار کے پچھلے شمارے میں قرآنی آیات کے حوالے سے جو حقائق سامنے آئے ہیں ان کو عام فہم اور اچھے انداز میں علماء و مفتیانِ عظام کو میڈیا پر لانیکی ضرورت ہے ،تاکہ متحدہ مجلس عمل کا مذہبی سیاسی اتحاد معاشرتی بنیادوں پر بھی درست لائحہ عمل اور بیانیہ تشکیل دینے میں سرخرو ہوجائے۔ قرآن میں نکاح وایگریمنٹ کا تصور اور غلامی ولونڈی سسٹم کا خاتمہ وہ بڑا بریک تھرو ہے جس سے دنیا میں ایک عظیم و پرامن انقلاب آسکتا ہے۔ ماہرالقادری مرحوم نے قرآن کی فریاد لکھ دی تھی مگر افسوس کہ ارباب علم وتقویٰ علماء ومشائخ نے کان نہ دھرا تھا مگر دھر بھی نہیں سکتے تھے کہ قرآن کو اجنبیت کے غلاف میں لپیٹنے کا یہی نتیجہ نکلتا تھا کہ طوطا مینا کی طرح کچھ بول سکھائے جاتے۔ پہلی اہم بات یہ ہے کہ قرآن میں دوجگہ پر چار گواہوں کی شہادت کا ذکر ہے۔ سورہ النساء میں چار گواہوں کا یہ تصور دیا گیا ہے کہ ’’عورتوں میں فحاشی کی مرتکب پر چار گواہ اپنے میں سے طلب کرو، اگر وہ گواہی دیں توانکو گھروں میں روکے رکھو ۔ یہاں تک کہ موت سے وہ فوت ہوجائیں یا اللہ ان کیلئے سبیل نکال دےOاور تم میں سے جو دومرد بدکاری کے مرتکب ہوں تو ان دونوں کو اذیت دو، اور اگر وہ توبہ کرلیں اور اصلاح کرلیں تو ان کا پیچھا چھوڑ دیں ، بیشک اللہ توبہ قبول کرنیوالا رحیم ہےO (سورہ النساء آیت:15،16)۔ ان آیات میں عورت کیلئے فحاشی کرنے پر اس گواہی کا کوئی تصور نہیں جو فقہا نے کتابوں میں عجیب وغریب قسم کے شرائط کا ذکر کیا ہے۔ جب تک انسان کا وجود گوشت پوست کے بجائے شفاف آئینے کی طرح نہ بنایا جائے ،اس طرح کی گواہی کا تصور نہیں ہوسکتا ہے۔ معاشرے میں کوئی ایک عورت خراب ہو تو گندی مچھلی کی طرح سارا تالاب اور معاشرہ خراب کردیتی ہے۔اس کو نظر بند کرنے پر تمام خواتین و حضرات متفق ہونگے اور اس پر ایسی گواہی کی بھی ضرورت نہیں جو عملی طور پر ممکن نہ ہو، افسوس کہ قرآن کی من گھڑت تشریح سے حقائق بگاڑ دئیے گئے۔فحاشی میں مبتلاء عورت کیلئے معاشرے میں گواہوں کا ملنا کوئی مسئلہ نہیں اور ان خواتین کو گھروں میں بند رکھنے کا حکم بھی ایک بالکل فطری بات ہے البتہ مرتے دم تک بند رکھنا تو سمجھ میں آتاہے مگر کوئی سبیل نکلنے کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟۔ فاحشہ عورت کا نکاح کسی زانی مرد یا مشرک سے کرانا بھی مسئلہ کاحل ہے اسلئے کہ قرآن میں ہے والزانیۃ لا ینکحھا الا الزانی او مشرک وحرم ذٰلک علی المؤمنین ’’اور زانیہ عورت کا نکاح نہیں کرایا جاتا مگر زانی مرد یا مشرک سے اور مؤمنوں پر یہ حرام کردیا گیا ‘‘۔ایک حل یہ آیت ہے۔ دوسرا یہ کہ مفسرین نے لکھ دیا کہ’’ آئندہ اللہ نے کوئی حل واضح کرنا ہے‘‘ تو زیادہ دور سورۂ نور میں جانے کی ضرورت نہیں۔ سورۂ النساء میں ہی اگلے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے حل پیش کردیا ، جہاں نکاح کے علاوہ متعہ کا ذکر ہے۔ متعہ والی عورتوں کو مستقل نکاح کیلئے پسندیدہ نہیں سمجھاجاتا البتہ ایگریمنٹ تک میں کوئی مسئلہ نہیں سمجھتا ۔ جب اللہ نے سورۂ النساء کے ابتداء میں فرمایا کہ ’’ نکاح کروعورتوں میں جوچاہو تم! دودو، تین تین، چار چار سے۔ اگر تم خوف کرو کہ عدل نہ کرسکوگے تو پھرایک یا جن سے تمہارا معاہدہ ہواہے‘‘۔ جب سورۂ النساء میں اللہ نے واضح کیا کہ فان خفتم ان لا تعدلوا فواحدہ او ماملکت ایمانکم جب انصاف نہ کرسکنے کی صورت میں ایک کا حکم ہو یا بے شمار ایگریمنٹ والی کی اجازت ہو۔ تو کیسے ممکن ہے کہ اللہ اپنے قرآن میں تضادکی بات کرے کہ اگر آزاد عورت سے نکاح کی استطاعت نہ ہو تو متعہ والی سے نکاح کرو؟۔ اس میں تضاد کی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ لونڈی یا متعہ کرنے والی سے ایگریمنٹ یا متعہ کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا ہے لیکن اسکے ساتھ نکاح کرنے میں فطری طور پر کراہت ہوتی ہے اور قرآن نے اسی انسانی فطرت کی نشاندہی کردی ہے۔ ایگریمنٹ اور نکاح میں بہت فرق ہے۔ مغرب میں رائج بھی ہیں لیکن ہم نے قرآن وسنت کی طرف دیکھنے کی کوشش بھی نہیں کی ہے۔ ایگریمنٹ کیلئے ملکت ایمانکم کا لفظ بہت موزوں ہے۔ قرآن نے یہی الفاظ استعمال کئے ۔ متعوھن کا لفظ بھی استعمال کیا ہے۔ غلام احمد پرویز نے بہت بڑے طبقے کو قرآن وسنت اور تفاسیر سے بدظن کرنے میں اسی لئے کامیاب کردار ادا کیا کہ علماء کے نصاب اور ذہنیت میں تضادات تھے۔ عورت کے اندر نفسانی خواہش کا جذبہ فطری ہوتا ہے اسلئے اس کا رستہ کھلا رکھا ہے لیکن ماحول خراب کرنے کے پیش نظر حکم ہے کہ اس کو گھروں میں روکے رکھا جائے۔ البتہ دو مردوں کے حوالے سے حکم بالکل جدا ہے کہ ان کو اذیت دی جائے کیونکہ اس بدفطری کے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں جو معاشرے میں بہت زیادہ خرابیوں کا باعث ہونگے۔ دونوں مردتوبہ و اصلاح کرلیں تو انکے پیچھے پڑنے کی ضرورت نہیں اللہ رحیم ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ قرآن میں واضح حکم ہونے کے باوجود اس کے حکم کو واضح نہیں سمجھا گیا اور طرح طرح کی سزائیں تجویز کی گئیں ہیں لیکن مذہبی طبقے ان پر عمل کرنے میں زیروہیں۔ قرآن میں فاحشہ عورت کو ماحول خراب کرنے سے روکنے کیلئے چار گواہوں کا ذکر بالکل جدا ہے اور یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے اور سورۂ نور میں پاکدامن خواتین پر بہتان لگانے کا معاملہ بالکل جدا ہے ۔ پاکدامن عورت پر بہتان کی سزا80 کوڑے ہے۔ پاکدامن خواتین کو بہتان سے بچانے کیلئے چار گواہ کے مطالبے کا مسئلہ بھی بالکل واضح ہے۔ معاشرے کے اندر فحاشی و پاکدامنی کا واضح پتہ چلتا ہے اور چار گواہوں کے ذریعے فرق و امتیاز بہت آسان حل ہے۔ فاحشہ کو جرم سے روکنا مقصد ہے۔ محصنہ کو بہتان سے بچانا مقصد ہے۔دنیا کیلئے قرآنی آیات کا مفہوم بالکل فطری ہے۔ مولوی کو اپنے بگاڑ سے دستبردار ہونے کی ضرورت ہے۔ بڑے مدارس کے علماء ومفتیان ایک ماحول کی وجہ سے اپنی گمراہی پر ڈٹ گئے ،جب علماء ومفتیان اپنے معمولی مفادکو قربان نہ کرسکتے ہوں تو سیاستدان ، بیوروکریٹ، مضبوط ادارے ظلم وجبر کے نظام سے کیسے دستبردار ہونگے؟۔ سعودی عرب میں پانی سرسے گزر ا تو مسیار کے نام پر متعہ کو جائز قرار دیا ۔پاکستان میں قانون کی حکمرانی نہیں اسلئے جبری زنااور قتل کی لرزہ خیز وارداتوں سے عرش ہل رہاہے۔ امریکہ و اسرائیل اور بھارت ہم پر مسلط نہ بھی ہوئے کہ ہم نے جھوٹ کو ڈھال بناکر عوام کو اطمینان دلادیا ہے کہ ہمارا دفاع مضبوط ہے تو آپس کے عذاب سے ہم چھٹکارا نہیں پا سکتے۔ ہمارا مذہب، ہماری سیاست اور ہماری ریاست جھوٹ کے سہارے کھڑے ہیں۔ سچ کو برداشت نہ کرنے کا دور بھی گزر چکاہے اسلئے کہ یہ مسائل اب ڈھکے چھپے نہیں بلکہ سب ڈھیٹ بن چکے ہیں۔ جب کسی ایک طبقے کی وکالت کی جاتی ہے تو ڈھیٹ پن کے شکار ہوکر رہ جاتے ہیں۔ کراچی کی فضاؤں سے رستا ہوا خون ، بلوچوں کی ریاست کیخلاف شدت پسندی اور طالبان کا شدت پسندانہ رویہ ابھی ختم نہ ہوا کہ پختون تحفظ موومنٹ نے سر اٹھالیا ہے۔ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ عدم تشد اور دستورِ پاکستان کے اندر رہتے ہوئے یہ لوگ سیاسی جدوجہدکی بات کررہے ہیں۔ ایم کیوایم سے زیادہ بیزار کراچی کے مہاجر عوام ہوگئے ، اسلئے کہ بھتہ، زبردستی کی زکوٰۃ، فطرہ اور قربانی کی کھال مہاجر بھگت رہے تھے۔روز ہڑتال سے نقصان بھی انہی کا ہوتاتھا۔ بلوچ شدت پسندوں نے بلوچ عوام کا جینا دوبھر کردیا تھا اور پھر طالبان نے سب سے زیادہ پختونوں کو متأثر کیا تھا۔ اب پھر اگرپختون تحفظ موومنٹ کے نام سے فوج سے لڑائی مول لی گئی تو عوام میں اتنی ہمت نہیں رہی ہے کہ پھر کوئی رسک لے سکیں۔ مسلم لیگ ن جب اپوزیشن میں ہوتی ہے تو پختون و بلوچ کے حقوق پامال کرنیوالے فوجیوں پر اسمبلی اور عام جلسوں میں تنقید کرتے ہیں لیکن جب حکومت میں ہوتے ہیں تو افواج کی پیٹھ پر ہاتھ رکھتے ہیں کہ ’’ہم تمہارے ساتھ ہیں ،مزیدبھی کرو‘‘ اور عمران خان میں تو غیرت کی کوئی چنگاری بھی نظر نہیں آتی ہے کیونکہ پل پل میں ابن الوقت کا کردار ادا کرتا ہے۔ اسفند یار خان ، محمود اچکزئی ، مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق دُم چھلوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے، ایم کیوایم بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ بلوچ ، سندھی اورپنجاب کے بے غیرت موسمی سیاستدان کسی کام کے نہیں۔ پیپلزپارٹی کا تو آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ سیاسی جدوجہد میں منظور پشتون نے مشکل حالات میں جو قد کاٹ بنالیا ، یہی اصل قیادت ہے، انسان غلطی کا پتلا ہوتا ہے۔ منظور پشتین اور انکے ساتھیوں میں ہزاروں غلطیاں ہوسکتی ہیں لیکن اب پاکستان سیاسی قیادت کے بحران سے گزر رہاہے اور یہ بہت خطرناک صورتحال ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت میں کوئی خوبی نہیں تھی بس سیاسی لوٹوں کو بے غیرت قرار دیکر خبر کی حد تک زندہ رہنے کی سیاست کی اور پھر پرویزمشرف کو اسوقت چپک گئے جب فوجی امریت کا ریفرینڈم بھی بڑا بدنام ہوچکا تھا۔ طالبان کی حمایت اسلئے نہیں کررہا تھا کہ ’’یہ کوئی نظریاتی اتحاد تھا‘‘ بلکہ امریکہ ،اسرائیل اور پاک فوج کو اسی سے خوش کیا جاسکتا تھا۔ اس خطے میں صرف پختون نہیں بلکہ جو بھی خوشحالی کی زندگی بسر کرتا تھا ،اسے بدحالی پر مجبور کیا گیا تھا۔ منظور پشتون اپنے محسود اور پختون سے محبت کریں یہ ایمان کی علامت ہے لیکن تعصب کفر وبے ایمانی کی بات ہے۔ اس ایمان وکفر میں امتیاز بھی مشکل نہیں۔ سوشل میڈیا کے علاوہ عام لوگوں میں جتنا فکروشعور ظالمانہ اور جابرانہ نظام نے بیدار کردیا ہے اسکا بڑے لوگ جس طبقہ سے بھی تعلق رکھتے ہوں کوئی تصور بھی نہیں کرسکتے۔ نصیراللہ بابر پختون نے ہی طالبان کا تحفہ دیا، ایم کیوایم نے طالبان سے زیادہ خون نہ بہایا اور نہ کراچی علاقہ غیر تھا مگر نصیراللہ بابر نے ماورائے عدالت قتل کا آغاز کیا ،اسکی ایک یادگارراؤانوار اور دوسراچوہدری اسلم تھا۔ حقائق و اعتدال ضروری ہیں اورحقیقت پسند قائدکی پوری قوم کو ضرورت ہے۔
خیر القرون قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم (الحدیث) نبی ﷺ نے فرمایا: بہترین دور میرا ہے، پھر ساتھ والوں کا، پھر انکے ساتھ والوں کا۔ صحابہؓ، تابعینؒ اور تبع تابعین ؒ مرادلئے جاتے ہیں مگرشاہ ولی اللہؒ نے لکھا کہ ’’ نبیﷺ کے بعد ابوبکرؓ و عمرؓ کا دور تھا اورپھر حضرت عثمانؓ کا دور تھا جبکہ علیؓ کے دور پر خیر کا اطلاق نہیں ہوتا ‘‘۔یہ فکر کتابوں میں ہے۔ پھر شاہ ولی اللہؒ کے پوتے شاہ اسماعیل شہیدؒ نے لکھا کہ ’’ نبیﷺ نے تین ادوار کو خیر کہا ۔ تیسری صدی ہجری تک تقلید نہ تھا۔چوتھی صدی ہجری میں تقلید کی بدعت ایجاد ہوئی اسلئے تقلید سے امت کو چھٹکارا دلانا فرض ہے‘‘۔ مولانا یوسف بنوریؒ نے ان کی اس کتاب ’’بدعت کی حقیقت ‘‘ کے اردو ترجمہ پرتقریظ لکھ دی اور ان کی ایک اور کتاب ’’منصبِ امامت ‘‘ کی بڑی تعریف کی ۔ علماء دیوبند نے مولانا احمد رضا خان بریلویؒ کی کتاب ’’حسام الحرمین ‘‘ سے گھبراکر شاہ اسماعیل شہیدؒ کا بیانیہ مسترد کیاتھا اور مولانا یوسف بنوریؒ کے والد مولانا زکریا بنوریؒ نے کہا تھا کہ’’ ہند میں حنفی مسلک کی حفاظت کاکریڈٹ مولانا احمد رضا خان بریلویؒ کو جاتا ہے‘‘۔ شاہ ولی اللہؒ نے لکھاکہ ’’نبیﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ شیعہ عقیدۂ امامت کی وجہ سے گمراہ ہیں۔جسکا میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ انکے عقیدۂ امامت کی وجہ سے ختم نبوت کا انکار لازم آتا ہے‘‘۔ شاہ عبدالعزیزؒ نے جو کتاب ’’تحفہ اثناعشریہ‘‘ کے عنوان سے لکھ دی تھی اس سے شیعہ کیخلاف کفر کے فتوے کی راہ ہموار ہوئی ۔ سپاہ صحابہ کے قائد مولانا حق نوازجھنگوی شہیدؒ کی تقریر شائع ہوئی کہ ’’ہمارا اختلاف شیعہ سے قرآن پر نہیں ، صحابہ پر نہیں بلکہ اصل اختلاف عقیدۂ امامت پر ہے‘‘۔ شیعہ خود سمجھتے ہیں کہ عقیدۂ امامت کی وجہ سے سنی گمراہ ہیں۔ شاہ ولی اللہؒ بڑے عالم تھے، مشاہدہ کی بنیاد پرفتویٰ سے گریز کرنا چاہیے۔ صوفیاء نے مشاہدات کی بنیاد پر پتہ نہیں کس کس کو گمراہ قرار دیاتھا۔حضرت سید عبدالقادر جیلانیؒ بھی امام ابوحنیفہؒ کو گمراہ سمجھتے تھے۔ گمراہ اور کافر میں فرق ہے۔ نبیﷺ نے عقیدۂ امامت کی بنیاد پر شیعہ کو گمراہ کہا تو کفر کا فتویٰ لگانا بھی درست نہ تھا۔ یہی نتیجہ نکالتے کہ صحابہؓ اور اجماع امت سے شیعہ بدظن ہوکر گمراہ ہوگئے۔علاوہ ازیں اہلسنت کہتے ہیں کہ امام کا تقرر امت پر فرض ہے اور شیعہ کہتے ہیں کہ امام اللہ کی جانب سے ہوتا ہے۔ اگر اس میں کفر اور ختم نبوت کا مسئلہ ہے تو شاہ اسماعیل شہیدؒ نے اپنی کتاب ’’منصبِ امامت ‘‘ میں شیعہ بیانیہ کو تسلیم کیا ہے اور لگتا یہ ہے مرزا غلام احمد قادیانی بھی اسی وجہ سے ختم نبوت کا منکر بن گیااور اس میں مشاہدات کا بھی دخل تھا۔ متحدہ مجلس عمل کا سیاسی اتحاد اس وقت کامیاب ہوگا جب وہ جہالتوں کا بھی خاتمہ کرنے میں ایک اعلامیہ جاری کریگا۔ ورنہ یہ مکڑی کا جالا ثابت ہوگا۔ جب عقیدۂ امامت میں شاہ اسماعیل شہیدؒ اور شیعہ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں اور دونوں اس نتیجے پر نہیں پہنچے کہ اس کی وجہ سے ختم نبوت کا انکار کریں تو ایک علمی محفل میں سنجیدہ علماء کرام اور مفتیانِ عظام کو اکٹھا کرکے اعلامیہ بھی جاری کردیں۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کی کتاب ’’البینات کا خصوصی شیعہ نمبر‘‘ موجود ہو، جس میں سینکڑوں مدارس اور علماء کرام نے شیعہ پر تین وجوہات کی بنیاد پر کفر کا فتویٰ لگایا کہ ’’صحابہ کرامؓ کو نہیں مانتے۔قرآن کو نہیں مانتے اور عقیدۂ امامت کیوجہ سے ختم نبوت کے منکر، قادیانیوں سے بدتر کافر ہیں کیونکہ قادیانیوں صرف ختم نبوت کی آیت میں تأویل کرتے ہیں باقی ان کی نماز، زکوٰۃ اور اکابر سب کے سب ہمارے ساتھ مشترکہ ہیں‘‘۔ جب تک حقائق کا انکشاف نہ کیا جائے تب تک امت میں اتحاد واتفاق اور وحدت کی راہ ہموار نہیں ہوگی۔ شاہ ولی اللہؒ سے لیکر شاہ اسماعیل شہیدؒ اور مولانا عبیداللہ سندھیؒ تک کے نام پر کام کرنیوالوں میں اتنی صلاحیت نہیں کہ ان تضادات کو ختم کریں لیکن اہل حق کے سلسلے کا تسلسل رکھنے کے دعویدار ہیں۔ مولانا سندھیؒ نے لکھا کہ ’’ حضرت عمرؓ کے دور میں فرقِ مراتب کے لحاظ سے وظائف مقرر ہوئے،جو سرمایہ دارانہ نظام کی ابتداء تھی اور حضرت عثمانؓ کے دور میں سرمایہ دارانہ نظام نے رائج ہوگیا جس سے حضرت ابوذر غفاریؓ نے نبیﷺ سے انحراف قرار دیا اور علیحدہ ہوگئے‘‘۔ مولانا عبیداللہ سندھی ؒ کی تفسیر ’’الہام الرحمن کے مقدمہ میں ناشر نے لکھا ہے کہ ’’پہلی منزل: پہلا دور نبیﷺ وابوبکرؓ کا دور تھا جن میں حبشہ و ایران اور عرب وعجم میں امتیاز نہ تھا۔ دوسرا دور حضرت عمرؓ سے شروع ہوا، جس میں عرب قومیت کو کسی درجہ فوقیت حاصل ہوئی۔ تیسرا دور حضرت عثمانؓ سے شروع ہوا۔جس کا ابتدائی حصہ فاروقی دور کی طرح تھا مگر آخری دور قدرے اترا ہوا تھا۔ جس میں نیم عربی قومیت کا رنگ آگیا، جسے امیرشام حضرت معاویہؓ نے قانونی شکل میں منظم کردیا۔اسلام کی پہلی منزل حضرت ابوبکرؓ سے تحکیم کے فیصلے تک خلافت راشدہ کا دور ختم ہوا۔دوسری منزل: الغرض السابقین الاولین کی مثالی حکومت اور عربی قومیت (جس کی بنیاد امیر شام نے رکھی، حضرت علیؓ حضرات شیخین کے دور کے متمنی تھے۔ ۔۔۔ حضرت عمرؓ کی شہادت سے عجمیوں پر عربوں کا اعتماد اُٹھ چکا تھا اور اسلام کے اصل دشمن بدطینت یہودی اپنی تخریب کاریوں کا آغاز حضرت عثمانؓ کے آخری دور سے کرچکے تھے اسلئے حضرت امیرمعاویہؓ نے عربوں کا قومی مسئلہ بناکر اسلام کی اجتماعیت کو مستحکم کردیا۔ جبکہ حضرت علیؓ اولی العزمی کیساتھ آخری وقت تک ڈٹے رہے۔ آل علی کا بھی بعد میں یہی رحجان رہا۔ اسلئے ان کو عربوں کے بجائے ہمیشہ غیر عرب مدد گار ملے۔ آخر میں جب ایرانیوں میں قومی شعور بیدار ہو ا ،اور اسلام کو بھی انہوں نے قومی رنگ دیدیا تو اسلام کی ایسی تعبیر کی جس میں عربیت کا اثر کم سے کم تھا بلکہ ایک حد تک عربوں سے متنفر کا جذبہ موجود تھا۔ شیعیت اسلام کی ایرانی تعبیر ہے۔ حضرت معاویہؓ نے جس قومی حکومت کی بنیاد ڈالی ،اس کا انتہائی عروج ولید بن عبدالملک کی سلطنت میں تھا اور خلیفہ ہارون الرشید پر عربوں کی سیادت کا دور ختم ہوتاہے ۔یہاں اسلام کی بین الاقوامی دوسری منزل ختم ہوتی ہے۔تیسری منزل: ہارون الرشید کی خلافت کے بعد زوالِ بغداد تک عجمی قومیں عباسی خلافت کے زیر سایہ برسر اقتدار آتی ہیں۔ یہ بنی عباس کا دور ہے جس کی بنیاد حضرت علیؓ نے ڈالی تھی۔ یہاں اسلام کے تیسرے بین الاقوامی انقلاب کی منزل ختم ہوتی ہے۔ گویا ہارون الرشید تک بارہ خلفا ختم ہوتے ہیں۔ابوبکرؓ ، عمرؓ، عثمانؓ، علیؓکی خلافت راشدہ اور معاویہؓ، عبدالملک، ولید، سلیمان ،ہشام، منصور، مہدی، ہارون الرشید 8خلفا کی حکومت بین الاقوامی نہیں قومی تھی مگر اپنا تفوق جتانے کے باوجودماتحت قوموں کو راضی رکھا اور بغاوت نہ ہوئی۔ زوال بغداد پر عربی قومیت کے دورکا خاتمہ ہوا،خلافت عثمانیہ سے عجمی قومیت کی چوتھی منزل کا آغاز ہوا۔ مصطفی کمال اتاترک کے انقلاب کے بعد خلافت عثمانیہ کا بھی ہوا‘‘۔ بارہ خلفاء قریش کا ذکر ہے جن پر امت کا اجماع ہوگا۔ شیعہ سمجھتے ہیں کہ بارہ خلفاء میں ایک باقی ہیں جبکہ سنی شیعہ کا اتفاق ہوگا کہ یہ بارہ خلفاء آئندہ آئیں ۔