عبادات Archives - Page 8 of 14 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

پگڑی کے رنگ طوطوں کی وجہ سے بدلے گئے،سیدمحمد شاہ

dawat-e-islami-chicken-chick-colorful-green-and-colorful-parrot-molana-ilyas-asri-ahle-hadees-gujranwala-farmi-choozee-zarbehaqtv

سفید اور کالے عمامے کو دیکھ کر خوشی ہوئی تھی کہ سنت بھرے اجتماع کے نام نے کام دکھادیا

اب پتہ چلا کہ ہرے طوطوں نے بین الاقوامی طوطوں کے رنگ دیکھ کر اپنا رویہ بدل دیاہے

کراچی( نمائندہ خصوصی) ضرب حق ڈاٹ ٹی وی کے ایڈٹنگ ایڈیٹر سید محمد شاہ گیلانی نے کہا کہ دعوت اسلامی سنتوں بھرا اجتماع سے پہچانی جاتی ہے۔یہاں لوگ اپنی اصلاح کرلیتے ہیں، تبلیغی جماعت کی یہ فسٹ کاپی ہے، اہلحدیث کے مولانا الیاس اثری نے گجرانوالہ سے اس کی سیکنڈ کاپی بھی تیار کرلی ہے۔ قرآن کا حکم اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی اطاعت ۔ ان جماعتوں نے نظامِ خلافت کا متبادل پیش کیا۔اللہ کی حدود سے اجتناب اور وقت لگانے اور لبادے میں جرائم کو چھپانے پر توجہ ہے۔اچھا ہوتا کہ دعوتِ اسلامی سنت کا نام لیتی کہ سفید وسیاہ عماموں کے علاوہ لباس کی سنت بے تکلفی ہے۔ خصائل نبویﷺ میں ہے کہ لباس میں نبیﷺ کوئی تکلف نہیں کرتے تھے۔ صحابہؓ نے اسی پر عمل کیاتھا اور رنگ برنگی طوطوں کی بہار سے عوام کو تماشہ نہیں دکھایا۔
دعوت اسلامی نے سنی تحریک کو اپنی شناخت ہرے عمامے سے منع کیا تھااور اب رنگ برنگے عماموں سے یہ فرق نہ آئے کہ پہلے طوطے لگتے تھے اور اب فارمی چوزوں کا منظر پیش کریں۔ یہ ایک مخلصانہ مشورہ ہے باقی عمل کرنا نہ کرنا سب کا اپنا کام ہے۔ محمد گیلانی ، ایڈیٹر ضرب حق ٹی وی

hen-chick-colorfull

دعوت اسلامی اور تبلیغی جماعت میں کون رشید؟

tablighi-jamaat-dawat-e-islami-sabz-gumbad-molana-ubaidullah-sindhi-muttahida-majlis-e-amal-haji-muhammad-usman-talaq-in-quran

دار العلوم دیوبند کے اکابر نے پہلے فتویٰ دیا تھا کہ ’’لاؤڈ اسپیکر پر نماز و اذان نہیں ہوتی ہے‘‘۔ جس پر آج تک تبلیغی جماعت کے مراکز عمل پیراہیں۔ علماء کی طرف سے آہستہ آہستہ کھسک کھسک کر فتوے سے غیر اعلانیہ رجوع کیا گیا ۔ پہلے اس کو حرام قرار دیا گیا تھا، پھر مکروہ تحریمی قرار دیا گیا ، پھر مکرہ تنزیہی تک بات پہنچی اور پھر خلاف اولیٰ تک بات آئی۔ جس کی تبلیغی جماعت کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوئی۔ علماء و مفتیان اعلانیہ طور پر اپنی غلطی تسلیم کرتے تو تبلیغی جماعت نے بھی کوئی افیون نہیں کھایا تھا کہ اس صورتحال سے نکل نہ پاتے۔ تصویر پر علماء و مفتیان کا رویہ بھی قابل قدر انداز میں نہیں بدلا۔ پہلے علامہ سید سلیمان ندویؒ اور آزادؒ کو رجوع کرنے پر مجبور کیا گیا ، پھر ہوش آیا تو تجارت اور سفر کیلئے اجازت دی گئی ۔
اب صورتحال واضح طور پر ہماری کتاب ’’جوہری دھماکہ‘‘ سے بدل گئی تو پھر مولانا طارق جمیل نے بھی میڈیا پر آنا شروع کردیا۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ امیر تبلیغی جماعت حاجی عبد الوہاب صاحب بھی میڈیا کی زینت بنتے۔ دعوت اسلامی کے مولانا الیاس قادری انتہائی سیدھے سادے اور علم سے عاری انسان لگتے ہیں مگر جب ان کو تصویر کے بارے میں معلومات حاصل ہوئیں تو فوراً میڈیا پر آگئے اور اب ان کو پتہ چل گیا کہ احادیث میں سنت عمامہ سیاہ اور سفید رنگ کا بھی ہے تو وہ اپنی شناخت پر بضد رہنے کے بجائے تبدیل کرنے کے عملی مظاہرے پر آگئے۔
اہل تصوف کا یہ کمال ہوتا ہے کہ وہ دل کو شیشے کی طرح صاف کردیتے ہیں۔ جب کوئی حق بات ان کے سامنے آتی ہے تو اس کو فوری طور پر قبول کرلیتے ہیں۔ اہل کتاب میں یہود اہل علم تھے اور نصاریٰ اصحاف تصوف اور رہبانیت والے۔ قرآن میں یہود کے مقابلے میں نصاریٰ کو اسی لئے مسلمانوں کیلئے نرم گوشے والا قرار دیا گیا ہے۔ مولانا عبید اللہ سندھیؒ حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ کے مشن پر تھے اور درس نظامی کو خیر باد کہہ کر اُمت مسلمہ کو قرآن کی طرف متوجہ کرنا چاہتے تھے۔ مولانا سندھیؒ نے سورہ فاتحہ کے ترجمے کی تفسیر میں لکھ دیا ہے کہ جن پر اللہ کا غضب تھا وہ یہود تھے جن کے پاس علم تھا مگر عمل سے محروم تھے اور گمراہ سے مراد نصاریٰ تھے جن کے پاس علم نہیں تھا مگر عملی طور سے وہ گمراہی کا شکار تھے۔ حضرت سندھیؒ بریلوی مکتبہ فکر کو نصاریٰ کی طرح گمراہ اور دیوبندیوں کو یہود کی طرح وہ سمجھتے تھے جن پر اللہ کا غضب ہے۔ جو سمجھ بوجھ کے باوجود بھی قرآن کی طرف رجوع کرنے پر آمادہ نہیں ہورہے تھے۔ آج طلاق سے حلالہ کے بغیر رجوع کا مسئلہ ہے اور دیکھتے ہیں کہ حضرت مولانا سندھیؒ کی بات درست تھی یا نہیں؟۔
اگر تبلیغی جماعت کے دل اپنی جماعت کی محنت سے صاف ستھرے ثابت ہوئے اور انہوں نے پہلے قرآن کی آیات پر عمل کرکے حلالہ کے غیر فطری فعل کو ناجائز قرار دیا تو مولانا سندھیؒ کی بات غلط ثابت ہوگی اور اگر دعوت اسلامی نے قرآنی آیات کی طرف رجوع کرکے حلالہ کی لعنت کو ناجائز قرار دیا اور رجوع کی گنجائش قرآنی آیات کے مطابق عدت کے حوالے سے مان لی تو مولانا سندھیؒ کی بات ہو بہو 100%درست ثابت ہوگی۔ دعوت اسلامی اور تبلیغی جماعت کی منظم جماعتیں اتحاد و اتفاق اور وحدت کی منزل طے کرنے میں بہت آسانی کے ساتھ اُمت کی کشتی کو درست راستے پر گامزن کرسکتی ہیں۔
ہم نے سب سے پہلے جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ میں حاضری دی اور ایک خٹک صاحب کو اپنی کتابیں بھی دے دیں۔ مگر افسوس کہ خٹک صاحب نے فون اٹینڈ کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئر مین مولانا محمد خان شیرانی کے سامنے بھی بار بار طلاق و حلالہ کے حوالے سے گزارشات رکھیں مگر معاملہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ متحدہ مجلس عمل کی پہلی تشکیل بھی ہماری محنتوں سے ممکن ہوسکی تھی ورنہ کسی میں مختلف فرقوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کی جرأت بھی نہیں تھی۔ متحدہ مجلس عمل نے اگر اسلامی احکامات کے حوالے سے علماء و مفتیان کو اکھٹا کیا اور ان کی درست سرپرستی کی تو اسلامی انقلاب کا اچھے انداز میں آغاز ہوگا اور اگر مذہب کے نام پر سیاست اور مفادات کے چکر رہے تو سب کیلئے رسوائی کا خدشہ ہے۔ مولانا فضل الرحمن ذاتی طور سے مجھے جانتے ہیں اور جب ان پر کفر کا فتویٰ ایم آر ڈی کی وجہ سے لگا تھا تو اس کا دفاع میرے اشعار سے ہی ہوا تھا۔
جب علماء و مفتیان نے ہمارے مرشد حضرت حاجی محمد عثمانؒ پر انتہائی غلط اور گمراہ کن فتوے لگائے اور پھر ہمارے پاس بدلا لینے کا موقع بھی تھا اور مولانا فضل الرحمن نے بدلا لینے کی تلقین بھی کی تھی تب بھی ہم نے بدلا نہیں لیا پھر جب علماء و مفتیان نے حاجی عثمان صاحبؒ کے عقیدتمندوں کا اپنے عقیدتمندوں سے بھی نکاح کرنے کو ناجائز ، عمر بھر کی حرامکاری اور اولاد الزنا قرار دیا تب بھی ہمارا دامن انتہاء پسندی اور شدت پسندی سے داغدار نہیں ہوا۔ درشت لہجے میں بات تک نہیں کی البتہ مدارس کی مساجد میں جاکر فتوؤں کو چیلنج کیا ۔ اب جب حلالے کی ناجائز صورتحال پر وہ اپنے عقیدتمندوں کی عزتوں کو لوٹ رہے ہیں تو پھر لہجہ سخت سے سخت ہوتا جارہا ہے۔ اس کی ضرورت نہ رہے تو بہت اچھا رہے گا۔
مقتدر طبقات جس طرح سے پارلیمنٹ لاجز سے غریب بچیوں کی عزتوں کو لوٹنے والوں تک سب کو نظر میں رکھتے ہیں اسی طرح سے حلالہ کی لعنت کسی طرح بھی دوسرے جرائم سے کم نہیں ہے۔ جب اسلام کے نام پر اتنا بڑا فراڈ ہورہا ہے تو ہم قیامت میں اللہ کو کیا منہ دکھائیں گے؟۔ ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ قرآن میں بار بار یہ وضاحت موجود ہے کہ طلاق کے بعد باہمی رضامندی سے عدت میں رجوع ہوسکتا ہے ، عدت کی تکمیل پر بھی رجوع ہوسکتا ہے اور عدت کے عرصہ بعد بھی رجوع ہوسکتا ہے۔ صرف اس صورت میں دوسری جگہ شادی کا ذکر ہے جب میاں بیوی اور معاشرہ دونوں کو الگ کرنے پر باہوش و حواس مصرہو۔ جس کی بھر پور وضاحت قرآن کی آیات 229، 230البقرہ میں موجود ہے۔ یہ وہ صورت ہے کہ جب مسئلہ یہ نہیں رہتا کہ رجوع ہوسکتا ہے کہ نہیں بلکہ دونوں جدا ہونے پر بضد ہوں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عورت اپنی مرضی سے دوسری جگہ شادی کرسکتی ہے یا نہیں؟۔ شوہر عام طور سے حلالہ تو کرواتا ہے مگر اپنی مرضی سے طلاق کے بعد شادی نہیں کرنے دیتا۔ اس فطری مسئلے کو اللہ تعالیٰ نے حل کیا ہے۔ ایک ہی حدیث میں یہ ذکر ہے کہ نبی ﷺ نے رفاعہ القرظیؓ سے مرحلہ وار تین طلاقوں کے بعد جب عبد الرحمن القرظیؓ سے شادی ہوئی اور انہوں نے ایک دوسرے کو میاں بیوی کی طرح دیکھ بھی لیا جس میں یہ بھی ضروری نہیں تھا کہ پہلا شوہر دوبارہ بھی شادی پر راضی ہوگا اور اس میں بھی حلالہ کروانے کا کوئی تصور نہیں بنتا ہے۔ عتیق

خواتین کی شمولیت پر اعتراض کرنے والوں نے کبھی دانت نہ کھولے کہ حجر اسود کو چومتے ہوئے نا محرم لوگوں کے ساتھ خواتین کیسے رگڑا کھاتی ہیں یہ ناجائز ہے

sami-ibrahim-on-bol-tv-asma-jahangir-ka-janaza-mufti-naeem-jamia-binoria-karachi-khawateen-hijr-e-aswad-2

عاصمہ جہانگیر عالمگیر شخصیت تھیں، بلا خوف و خطر ہر کمزور مظلوم کی آواز ظالم و جابر کیخلاف بلند کرنا محترمہ کا بڑامشغلہ تھا۔ پاکستان، پاک فوج، خفیہ اداروں اور مذہبی طبقات کیلئے محترمہ عاصمہ جہانگیر کا کردار قابلِ فخر ہے۔ ضمیر کی آوازبلند کرنے میں یکتائے روزگار شخصیت محترمہ کی مثال ڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔ طالبانِ سوات ، بلوچ انتہاپسند ، وزیرستان کی عوام اور کراچی کے الطاف حسین سب کے انسانی حقوق کیلئے ایسے وقت میں آواز اٹھانا جب کسی میں ہمت نہ تھی محترمہ نے پاکستان اور مسلمانوں کا چہرہ روشن کیا۔ فتنہ گری کے گڑھ جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی کے بیٹے فاروق مودودی نے جنازہ پڑھایا ۔ خواتین کی شمولیت پر اعتراض کرنے والوں نے کبھی دانت نہ کھولے کہ حجر اسود کو چومتے ہوئے نا محرم لوگوں کیساتھ خواتین کیسے رگڑا کھاتی ہیںیہ ناجائزہے، جب چوہوں کو بھی دہشتگردی کا پتہ چل گیا تو اب ان علماء و مفتیان کے دل ودماغ کی شریعت جاگ اٹھی ہے ،حالانکہ وقت پر فتویٰ دے دینا تھا۔ عتیق گیلانی

قرآنی آیت میں جاہلوں کو بھی مخاطب کے لفظ سے سلام کرنے کا ذکر ہے، جاہل سے مراد کھلے کافر ہیں۔ عتیق گیلانی

Quran-mein-jahil-(Kafir)-ko-mukhatib-kr-ke-Salam-karne-ka-Zikr-hei-Atiq-Gilani

فقہاء نے کہا تھا کہ داڑھی منڈھے فاسق ہیں، ان کو سلام کرناجائز نہیں۔ شروع میں فقہی مسئلہ کو شریعت سمجھتے ہوئے اس پر عمل کیا ، اسوقت غالباً ہمارے خاندان میں کم ہی لوگوں کی داڑھی تھی،کسی دن میرے کزن ڈاکٹر آفتاب نے پوچھ لیا کہ میں نے محسوس کیا ہے یہ غلط ہے یا درست کہ آپ سلام کرتے ہو اور نہ جواب دیتے ہو؟۔ میں نے بتایا کہ فقہی مسئلہ ہے کہ داڑھی منڈھے کو سلام نہیں کرسکتے، وہ کہنے لگے کہ شرعی مسئلہ ہے تو ٹھیک ہے۔ کافی عرصہ بعد میں نے سوچا کہ سلام عام کرنے کا حکم ہے، جب فقہاء کی طرف سے یہ مسئلہ آیا ہوگا تو اسوقت کم ہی لوگ داڑھی نہیں رکھتے ہونگے ، اب تو سلام کا رواج بھی ختم ہوجائیگا۔ اسلئے سلام کرنا شروع کیا تو ڈاکٹر افتاب کو وجہ بھی بتادی۔ اب مندرجہ بالا قرآنی آیت میں جاہلوں کو بھی مخاطب کے لفظ سے سلام کرنے کا ذکر ہے، جاہل سے مراد کھلے کافر ہیں۔ نبی ﷺ نے حضرت عائشہؓ کو سلام نہیں سام کا جواب دینے سے روکا تھا۔ قرآن کی مندرجہ بالا آیت میں بھی برائی کے جواب کو اچھائی سے ترغیب ہے۔ اگر یہودی سلام کرتا تو نبیﷺ سلام کا جواب دینے سے نہ روکتے۔ مولوی زدہ مذہبی طبقہ کا مسئلہ قرآن نے حل کیا ہے اور ایکدوسرے کو سلام میں مسلک وعقیدہ کا خیال ہرگز نہ رکھنا۔ عتیق گیلانی

1400 سو سال پہلے سورہ حج میں اللہ نے مشینی ذبیحہ کو روز روشن کی طرح‌ واضح کیا: عتیق گیلانی

1400-saal-pehle-Allah-ne-surah-hajj-mein-machini-zibah-roz-e-roshan-ki-tarah-wazeh-kia

شیخ العرب و العجم حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ نے لکھا ہے کہ’’ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ومن یشتری لھو الحدیث (جو لغو باتوں کو خریدتے ہیں)جس وقت قرآن نازل ہوا تھا تو اس دور میں لغو باتیں خریدنے کے حوالے سے کوئی آثار بھی نہیں تھے۔ آڈیو ریکارڈ بہت بعد کی پیداوار ہے۔ موجودہ دور میں فحش گانے ، فلمیں و دیگر اشیاء پر اس آیت کا اطلاق ہوتا ہے۔ یہ قرآن کی صداقت اور کلام الٰہی ہونے کی دلیل ہے کہ 14سو سال پہلے جس چیز کا کوئی وجود نہیں تھا اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس کا ذکر کردیا‘‘۔ قرآن میں کتاب ینطق بولنے والی کتاب کا بھی ذکر ہے۔ نظریہ اضافیت کا بھی قرآن میں ذکر ہے۔ یہاں کے ایک دن اور چڑھنے کے 50ہزار سال کی مقدار کے برابری سے واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال پہلے نظریہ اضافیت نہ صرف واضح کردیا تھا بلکہ معراج کے اندر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو مشاہدہ بھی کروایا تھا۔ البرٹ آئین اسٹائن نے بہت بعد میں نظریہ اضافیت کو ریاضی اور سائنسی بنیاد پر دریافت کیا۔ حج کے دوران مشینی ذبح پر علماء و مفتیان اجتہادات کی رٹ لگاتے رہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے 14سو سال پہلے سورہ حج میں مشینی ذبح کو روز روشن کی طرح واضح کیا۔
اس آیت کی تفسیر میں فقہاء کے اختلافات دیکھ کر ہنس ہنس کر پیٹ میں بل پڑ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے مذہبی قربانی پر اللہ کا نام لینے کا ذکر کیا ہے کیونکہ مشرکین اپنے بتوں کا نام لیتے تھے۔ قرآن میں ان ذبیحوں کو جن پر بت کا نام لیا جائے حرام قرار دیا گیا ہے۔ شکاری کتے اور باز جن کو شکار کی تعلیم دی جائے ان کے شکار کردہ جانوروں یا پرندوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے۔ اہل کتاب کے طعام کو بھی حلال قرار دیا ہے۔ اہل کتاب میں مشرکوں کی طرح غیروں کے نذرانے اور بتوں کے آستانے پر ذبح کرنے کا رواج نہیں تھا۔قرآن کو سمجھنے کی کوشش کیجئے

ایک اجنبی کے بارے میں‌رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب اجنبی کو میرے پاس حاضر کیا گیا تو میں نے اس کی طرف دائیں جانب سے التفات کیا اور بائیں جانب سے التفات کیا، وہ نظر نہیں آتا تھا مگر اجنبی، پس اللہ کی کتاب پوری عظمت کے ساتھ اس کے سامنے روشن ہوگئی، اس کو ہزار ہا ہزار نیکیاں ملیں اور ہزار ہا ہزار گناہیں اس کی معاف کی گئیں، پس جب وہ فوت ہوا تو شہید (گواہی) کی منزل پاکر فوت ہوا۔ (کتاب الفتن، حدیث نمبر 2002، نعیم بن حماد اُستاذ بخری)

نقش انقلاب کو بڑا کرنے کیلئے تصویر پر کلک کریں۔

mere-baad-khulfa-honge-phir-un-ke-baad-ameer-honge-phir-badshah-honge-phir-jabir-badshah-honge-phir-mere-ehl-e-bait-me-se-aik-shaksh-nikle-ga-al-hadees(M)

 

 

حاجی عثمان مجدد تھے اور ہم نے تجدیدی کارنامہ کردکھایا. عتیق گیلانی

haji-usman-tabligi-jamat-ke-akabir-or-tariqat-k-khalifa-thhe-mujjadid-thhe-hum-ne-tajdidi-karnam-kr-dikhaya

حاجی محمد عثمانؒ پر فتویٰ لگنے سے پہلے دیوبندی،اہلحدیث اور خاص طور پر تبلیغی بڑی تعداد میں بیعت تھے۔ حاجی عثمانؒ تصوف کو ولایت صغریٰ اور شریعت و تبلیغ علماء ونظام خلافت کو خلافت کبریٰ سے تعبیر کرتے۔ مسجدنور جوبلی کراچی میں بریلوی مکتب فکر کے مولانا شفیع اوکاڑی امام وخطیب تھے۔ ایک مرتبہ متولی نے ان کو منبر سے اُتارا، حاجی عثمانؒ کو منبر پر بٹھادیا اور مولانا اوکاڑی سے کہا کہ سنو، تقریر ایسی ہوتی ہے۔ حاجی عثمانؒ نے دین کو زندہ کرنیکا احساس جگایا۔ تصوف کے شہسوارکی زباں میں ایمان کی روشنی، یقین کا کمال، تقویٰ پرہیزگاری کا چراغ اور اللہ سے تعلق کی مضبوط رسی، دنیا سے بے نیازی اور بہت کچھ ہوتا ہے جو حال سے محسوس کیا جاسکتا مگر الفاظ میں اسے بیان کرنا ممکن نہیں ۔ہر صدی پر مجددآئیگا تو حاجی امداد اللہ ؒ نے تجدیدی کارنامہ انجام دیا ۔ مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ کے مرید مولانا الیاسؒ نے تبلیغ کا کام شروع کیا۔ مولانا احتشام الحسنؒ انکے ساتھی اور خلیفہ تھے۔اگر ان کو امیر بنایا جاتا تو آج حاجی عبد الوہاب اور مولانا الیاسؒ کے پڑ پوتے میں اختلاف نہ ہوتا۔ حاجی عثمانؒ حاجی عبد الوہاب سے بھی پہلے کے اکابرین میں شمار ہوتے تھے۔
تبلیغی جماعت کی بڑی خوبی یہ ہے کہ اسٹیٹس کو اس میں ٹوٹتی ہے۔ بڑے افسر، تاجر، حکمران، مولانا اور پیرطریقت کو اپنا بستر پیٹھ پر لاد کر گلی، کوچے، محلے، شہر، بستی، ملک و بیرون ملک سردی وگرمی میں گھومنا پڑتاہے۔ اصلاح کیلئے سہ روزہ، عشرہ ، چلہ اور چارماہ لگانے کی مشق کارگر ہے۔ دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث اس غیرمتنازعہ تبلیغی کام سے بڑی محبت رکھتے تھے۔ حضرت جی مولانا یوسفؒ کی یادگار تقریروں میں وفات سے 3 دن پہلے کی آخری تقریر’’ اُمت کے جوڑ‘‘پرکہاکہ’’ حضرت سعد بن عبادہؓ جو ایک جلیل القدر صحابی اور انصار کے سردار تھے مگرخلافت کے مسئلہ پر ناراض تھے اور امت کیلئے توڑ کا باعث بنے، اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی نہیں بخشا اور جنات نے ان کو قتل کردیا تھا‘‘۔
مولانا سید سلیمان ندویؒ کے خلیفہ مولانا اشرفؒ اسلامک ڈیپارٹمٹ پشاور یونیورسٹی کے چیئرمین تبلیغی جماعت کی سر گرمی میں حصہ لیتے تھے۔ ان کی3 باتوں سے حقائق کھلیں گے 1: کہا ’’ اب تو تبلیغی جماعت کے لنگر کی دال اچھی ہے۔ پہلے ایک من پانی میں ایک کلو دال ڈالتے تھے اور لوگ روٹیوں کے ٹکڑوں سے کشتیاں بناکر دانوں کا شکار کرتے تھے‘‘۔عوام وخواص کی اصلاح کیلئے اس لنگرکا کھانا بھی کافی تھا ،پھر خواص کیلئے الگ کھانے کا اہتمام کیا گیا۔ 2: مولانا اشرفؒ نے کہاکہ’’ ایک مرتبہ ہماری جماعت پنجاب میں بریلوی کی مسجد میں گئی۔ وہاں کے امام نے کچھ لوگ بٹھا دئیے اور جب میں رسول اللہﷺ کی شان بیان کررہاتھا تو امام صاحب کہہ رہے تھے کہ بندہ ٹھیک جارہا ہے۔طائف کے واقعہ کو بیان کیا اور جب یہ کہا کہ اللہ کو اپنا دین اتناپسند ہے کہ طائف میں نبیؐ کے خون کو بھی بہادیا۔ تو امام صاحب نے کہا کہ اب یہ پٹری سے اترگیااور انکو مسجد سے باہر پھینک دو، تو ہمیں بستروں سمیت مسجد سے باہر پھینکا گیا‘‘ یہ واقعہ دیوبندی بریلوی چپقلش کا شاخسانہ ہے۔ یہ نکتہ بھی بیان ہوسکتا تھا کہ کعبہ بتوں سے بھرا تھا، طائف کے لوگ شرک میں عرصہ سے ملوث تھے لیکن اللہ نے عذاب کا فیصلہ نہیں کیا مگر جب طائف والوں نے نبیﷺکا خون بہادیا تو اللہ نے طرح طرح کے عذاب نازل کرنے کیلئے فرشتے بھیج دئیے۔ شرک کی بات پر اللہ نے نہیں پکڑا مگر نبیﷺ کا خون بہانازیادہ برا لگا۔ حضرت حاجی محمد عثمانؒ فرقہ واریت کا ناسور زبردست اندازمیں ختم کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ دیوبندی بریلوی توحیدو رسالت کو اس انداز سے بیان کرتے ہیں جیسے اللہ و رسولﷺ میں جھگڑا ہو رہاہے اور یہ وکالت کررہے ہوں۔ توحید کو اسطرح بیان کرنا کہ شانِ رسالت ﷺ میں گستاخی ہو ، غلط ہے۔ بے ادبی توحید نہیں اور شانِ رسالت ﷺ کو ایسا بیان کرنا غلط ہے کہ توحید میں شرک کی آمیزش ہوجائے،شرک کوئی ادب نہیں ہے۔ 3:مولانا اشرفؒ نے کہا ’’ تبلیغی جماعت میں وقت لگانے والا کہہ رہاتھا کہ میں نے چار ماہ میں وہ کمایا جوسید عبدالقادر جیلانی نے زندگی بھر میں نہیں کمایا، جو خواجہ معین الدین چشتی نے نہیں کمایا۔۔۔ ۔۔۔بڑے بڑے اولیاء اور علماء نے نہیں کمایا۔جب وہ یہ کہہ رہاتھا تو میں نے اس کو زبان سے کچھ نہیں کہا مگر دل میں سوچا کہ ان میں کسی نے اتنا تکبر نہیں کمایا جتنا تم نے کمایا‘‘۔ بس تبلیغی جماعت کو اس رویہ سے حاجی عثمانؒ روکتے رہے ہیں۔
ایک طرف انسان اپنی تدبیر کرتے ہیں اور دوسری طرف اللہ بھی اپنی تدبیر کرتاہے۔ جمعہ کے دن چھٹی تھی ، جمعرات کے دن تبلیغی جماعت کا شب جمعہ ہوتاتھا۔ حاجی عثمانؒ نے مریدوں کے اجتماع کیلئے اتوار کا دن رکھا، تاکہ مقابلہ کی بات نہ ہو۔ جمعہ کے دن مسجدنور جوبلی میں عوام سے وعظ ہوتا تھا جس میں لوگوں کو تبلیغی جماعت کی باقاعدہ دعوت دیتے تھے۔ پھر تبلیغی جماعت کے بعض افراد کی طرف سے غلط پروپیگنڈے کا نتیجہ تصادم کی صورت اختیار کرنے لگا تو حاجی عثمانؒ نے اعلان کردیا کہ اس کشمش سے بچنا ضروری ہے۔ جو تبلیغی جماعت ہی میں کام کرنا چاہے ، میری طرف سے مریدی کی بیعت توڑنے کی اجازت ہے اور میں ناراض نہ ہونگا تاکہ یکسوئی کیساتھ وہ وہاں اصلاح کا کام کرسکے۔ جو مرید بن کے رہے گا تو وہ وہاں نہیں جائیگا۔ میں کچھ لوگوں کو تیار کرکے رائیونڈ بھیج دوں گا تاکہ ان کو پتہ چلے کہ اصلاح کیسی ہوتی ہے۔ اس اعلان کے بعد کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو حاجی عثمانؒ کے بہت عقیدتمند مریدتھے مگر سخت مخالفت پر اُتر آئے۔ تبلیغی جماعت میں مخالف عناصر کو بڑا موقع ہاتھ آیا کہ حاجی عثمانؒ کے خلاف خوب کھل کرکھیل کھیلیں۔
اس سے پہلے حاجی عثمانؒ کے مریدوں طیب، جاوید اور ابراہیم نے 1500روپے سے مشترکہ چائے کا کیبن شروع کیا توحاجی عثمانؒ کی دعا سے کاروبار خوب چمک گیا،کچھ بیواؤں اور یتیموں کو بھی شریک کیا گیا توکاروبار میں مزید برکت ہوئی۔یہ دیکھ کر علماء ومفتیان نے بھی شرکت کی تمنا کردی۔ حاجی عثمانؒ نے کہا کہ علماء ومفتیان کی رہنمائی پر شرعی کاروبار کیا جائے اور کاروبار سے ملنے والے منافع کودین کیلئے وقف کرنے کی نیت کی جائے۔ ٹی، جے ، ابراہیم کے نام سے یہ مضاربہ کمپنی عوام وخواص میں بہت مقبول ہوئی۔ یہانتک کہ اس کاسودی نظام کے متبادل کے طور پر خواب دیکھا جانے لگا۔ تبلیغی جماعت نے اخبار میں اشتہار دیدیا کہ ’’ ہمارا اس کاروبار سے تعلق نہیں ‘‘۔ لیکن کراچی کے بڑے مدارس کے بڑے علماء ومفتیان بڑے پیمانے پر اس کیلئے کام کررہے تھے۔ جنکے نام پر کمپنی تھی ان کا بھی تبلیغی جماعت سے کوئی تعلق بھی نہ تھا۔
حاجی عثمانؒ نے اشتہار دیکھ کر حکم دیا کہ یہ کاروبار بند کردیا جائے، اسلئے کہ تبلیغی جماعت کی ناراضگی قبول نہ تھی اور کاروبار کیلئے سب اپنا اپنا راستہ ناپ سکتے تھے۔ یتیموں و بیواؤں کا اللہ رازق ہے ۔ علماء ومفتیان نے مشورہ دیا کہ تمہارا مرشد اللہ والا آدمی ہے، تبلیغی جماعت والے کون ہیں؟۔ نام کو بدل کر یہ کاروبار جاری رکھیں۔ چنانچہ کاروبار کا نام ’’الائنس موٹرز‘‘ رکھ دیا گیا۔ اللہ کا کرنا تھا کہ جب تبلیغی جماعت سے روکنے پر بعض تبلیغی عناصر نے زبردست پروپیگنڈہ شروع کیا تو علماء ومفتیان نے کھل کر حاجی عثمانؒ ہی کا ساتھ دیا۔ دارالعلوم کراچی اور مفتی رشید احمد لدھیانویؒ نے تبلیغی اکابر کی طرف سے کشتئ نوح قرار دینے وغیرہ پر بھی فتوے لگائے۔ مولانا حکیم اخترؒ نے 1986 ؁ء میں تبلیغی جماعت کے خلاف بنگلہ دیش میں تقریر کی تھی جو کتابی شکل میں شائع ہوچکی ہے۔جس میں تحریر ہے کہ علماء کرام حفظ کیساتھ تعلیم مکمل کرکے 13سال کا چلہ لگاتے ہیں، اگر تبلیغی یہ کہتے ہیں کہ اب اللہ کی راہ میں عملی طور سے نکلنا چاہیے تو یہ علماء کی توہین ہے اور اس پر کفر کا فتویٰ ہے۔ پھر اسی کتاب میں حکیم اختر ؒ نے خودبھی علماء کی توہین کی ہے۔ کہا کہ’’علماء بیعت ہوں میں شرماؤں گا بھی نہیں اور گھبراؤں گا بھی نہیں۔ قیمتی عطر کیلئے وہ بوتل نہیں لیا جاتا ، جس پر کتے بلی کی پوٹی لگی ہو‘‘۔حاجی عثمانؒ کی وجہ سے حکیم اخترؒ میں جرأت پیدا ہوئی تو علماء کی بجانے لگے۔
حکیم اختر ؒ باقاعدہ عالمِ دین نہ تھے اور حاجی عثمانؒ بھی عالم نہیں تھے۔ یہ فرق تھا کہ حاجی عثمانؒ ہر بات میں علماء کی رہنمائی ضروری سمجھتے تھے اور حکیم اختر خود ہی مولانا بن گئے تھے اور اس بنیادی وجہ سے حاجی عثمانؒ کے اندر کوئی ایسی بات نہ تھی جس کی وجہ سے ان پر گمراہی کا فتویٰ لگایا جاتا۔ حکیم اخترؒ کی اس کتاب میں ایک انتہائی گھناونی بات ہے، کسی جاہل کا شعر نقل کیاہے کہ ’’ اگر مجلس میں ایک بھی منافق ہو تو نبی کا فیض بھی نہیں پہنچتا ہے‘‘۔ حالانکہ نبیﷺ کے دور میں رئیس المنافقین اور منافقوں کی ایک فہرست موجود تھی۔ پشتو کے معروف عالم شاعر رحمان باباؒ نے پشتو میں ایک شعر کہاہے کہ’’ اگر علم کے بغیر فقیری (پیری مریدی) کروگے تواپنی کھوپڑی کو ہی آگ لگادوگے‘‘۔
اگرحضرت حاجی محمد عثمانؒ پر فتوؤں کی داستان سامنے لائی جائے تو علامہ اقبالؒ کے مشہور اشعار اس پر صادق آتے ہیں۔
اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار سے ہوتی ہے سحر پیدا
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ کی ایک کتاب ’’عصر حدیث نبویﷺ کے آئینہ میں‘‘ عرصہ سے مارکیٹ میں دستیاب نہیں، اگر ناشر نے شائع نہ کی تو ہم اس کو بھی احادیث کے درست ترجمہ و مفہوم کیساتھ انشاء اللہ شائع کردینگے۔ کتاب کی حدیث نمبر4کا عنوان یہ ہے ’’ بدکاری عقلمندی کا نشان‘‘۔ عن ابی ھریرہؓ قال: قال رسول ﷺ یاتی علی الناس زمان یخیّر الرجل بین العجزوالفجور فمن ادرک ذٰلک الزمان فلیخیر العجز علی الفجور (مستدرک حاکم، کنزالعمال ج۱۴، ص۲۱۸)
ترجمہ:۔۔۔ ’’ لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا، جس میں آدمی کو مجبور کیا جائے گا کہ یا تو وہ احمق (ملا) کہلائے یا بدکاری کو اختیار کرے پس جو شخص یہ زمانہ پائے اُسے چاہیے کہ بدکاری اختیار کرنے کے بجائے ’’نکو‘‘ کہلانے کو پسند کرے‘‘۔
حدیث میں ایک طرف عجز اور دوسری طرف فجور کی بات ہے۔مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ نے کتاب پہلے لکھ دی تھی اور پھر جب علماء ومفتیان کی طرف سے بڑے دلیرانہ انداز طریقے سے الحاد، گمراہی ، زندقہ کے فتوے لگادئیے۔ پھر عقیدتمندوں کا آپس میں نکاح کرنے کو بھی ناجائز قرار دیا گیا اور لکھ دیاکہ اس نکاح کا انجام کیا ہوگا؟۔ عمر بھرکی حرامکاری اور اولادالزنا‘‘۔مگر مولانا یوسف لدھیانویؒ کو ان فتوؤں سے سخت اختلاف تھا۔ پھر بھی ان کی جانب بھی فتویٰ منسوب کیا گیا۔ انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ ’’ یہ سب مفتی رشیداحمد لدھیانوی کی خباثت تھی ، میں نے کوئی فتویٰ نہیں لکھا تھا، مفتی جمیل خان نے لکھ کر میری طرف منسوب کیا تھا‘‘۔ ہم نے عرض کیا کہ ’’ آپ اپنی طرف منسوب فتوے سے برأت کا اعلان کریں‘‘ تومولانا یوسف لدھیانوی کا کہنا تھا کہ ’’وہ مجبور اور معذور ہیں اسلئے یہ نہیں کرسکتے‘‘۔
حدیث کے الفاظ میں ایک طرف ان علماء ومفتیان کا چہرہ ہے جو طاقت اور پیسے کے نشے میں ایک مؤمن پر کفر گمراہی اور نکاح کی حرامکاری کے فتوے لگاکر فجور کے مرتکب تھے ، دوسری طرف مولانا یوسف لدھیانویؒ کے عاجز ہونے کی تصویرہے۔ حاجی عثمانؒ کی قبر پر بھی مولانا یوسف لدھیانویؒ جاتے رہے اور یہ بھی فرمایا تھا کہ امام مالکؒ کے خلاف فتوی دینے والوں کو جس طرح آج کوئی نہیں جانتا اور امام مالکؒ کو سب جانتے ہیں،اس طرح وقت آئیگا کہ حاجی عثمانؒ کا نام زندہ ہوگا اور مخالفت کرنے والے علماء ومفتیان کا تاریخ میں کوئی نام اور نشان نہ رہے گا۔
مجدد کا کام ہوتاہے کہ لوگوں میں دین کی تجدید کرے اور دین کی تجدید سے مراد ایمان کی تجدید ہے۔ کیفیت کے اعتبار سے ایمان میں اضافے کو تجدید کہہ سکتے ہیں۔ وقت کے مجدد تو ہمیشہ اہل اللہ رہے ہیں۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ وقت کے مجدد تھے اور اکابر دیوبند آپؒ کے مرید۔ سید احمدبریلوی ہی مجدد تھے اور شاہ اسماعیل شہید انکے مرید، حضرت شاہ ولی اللہؒ کے والد شاہ عبدالرحیم مجدد تھے ۔شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانیؒ کے پیر حضرت خواجہ باقی باللہؒ ہی دراصل مجدد تھے۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے تقلید کی باگیں ڈھیلی کردیں ۔ شاہ اسماعیل شہید نے تقلید پر وار کردیا، پہلے علماء دیوبند حامی تھے، پھر مولانا احمدرضا خان بریلویؒ نے ان پر ’’حسام الحرمین‘‘ سے وار کردیا اور پیچھے دھکیل دیا۔ وضاحت کیلئے المہند علی المفند (عقائد علماء دیوبند) کتاب لکھ دی۔قرآن وسنت کا احیاء نہیں ہوسکا تھا۔
آج دیوبندی بریلوی اتحاد،اتفاق اور وحدت کی فکر پیدا ہوگئی ہے۔مجدد اولیاء عظام کے مریدعلماء کرام کی تاریخ موجود ہے جنہوں نے حدیث کے مطابق ہمیشہ دین میں غلو کرنیوالوں اور دین کو باطل قرار دینے کا اپنے اپنے وقت میں بڑازبردست مقابلہ کیا۔ عمر بن عبدالعزیز ؒ سے سید عبدالقادر جیلانیؒ ،عبدالحق محدث دہلویؒ ، مجدد الف ثانیؒ ، شاہ ولی اللہؒ ، حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ اور حاجی محمد عثمانؒ تک اہل حق کا ایک سلسلہ موجود ہے ۔شاہ ولی اللہؒ نے قرآن کا ترجمہ کیا تو واجب القتل کے فتوؤں سے2 سال تک روپوش رہنا پڑا۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ نے مالٹاکی قید سے رہائی کے بعد اُمہ کے زوال کے 2اسباب قرار دئیے۔ ایک قرآن سے دوری ، دوسرا فرقہ واریت۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیعؒ نے لکھ دیا کہ قرآن سے دوری ہی فرقہ واریت کی بنیاد ہے، لہٰذا دراصل اُمہ کے زوال کاایک ہی سبب ہے۔اللہ نے قرآن میں بھی قیامت کے حوالہ سے نبیﷺ کی یہ شکایت بتادی ہے وقال الرسول رب ان قومی اتخذوا ہذالقرآن مھجورا ’’رسول کہے گا کہ اے میرے رب! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘۔ (القرآن)۔
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیعؒ نے مولانا انورشاہ کشمیریؒ کا لکھا کہ فرمایا:’’ میں نے ساری زندگی ضائع کردی‘‘ ہم نے عرض کیا کہ ’’ حضرت آپ نے ساری زندگی قرآن وحدیث کی خدمت کی، ضائع نہیں کی ‘‘۔ مولانا کشمیریؒ نے فرمایا:’’ میں نے قرآن وسنت کی کوئی خدمت نہیں کی بلکہ فقہی مسلک کی وکالت کی ہے اور اس کا کوئی فائدہ نہیں ‘‘۔ شیخ الہندؒ کے اکثر شاگرد بہت ممتاز تھے، مولانا اشرف علی تھانویؒ ، مولانا عبیداللہ سندھیؒ ، مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہؒ ، مولانا حسین احمد مدنیؒ ، مولانا شبیر احمد عثمانیؒ ، مولانا الیاس ؒ ، مولاناحفظ الرحمن سیوہاویؒ ، مولانا پیرمبارک شاہ گیلانیؒ ، مولانا خیل احمد انبیٹویؒ وغیرہ وغیرہ۔
جب میں ساتویں جماعت میں تھا تو پیرمبارک شاہ گیلانیؒ سے کانیگرم میں ملاقات ہوئی، معلوم تھا کہ دارالعلوم دیوبندکے فاضل ہیں، مجھ سے پوچھا کہ کیا بننے کا ارادہ ہے۔میں نے کہا کہ دارلعلوم دیوبند کا فاضل بننا چاہتا ہوں۔ مجھے آپکے چہرے پر توقع کے خلاف خوشی کے آثار نظر نہیں آئے۔ مجھے ہر نمازکے بعد 10مرتبہ درود شریف پڑھنے کے وظیفے کی تلقین بھی کردی۔
پیرمبارک شاہؒ نے 1923 ؁ء میں نوراسلام پبلک سکول کھولا تھا جو کانیگرم جنوبی وزیرستان میں پاکستان بننے کے بعد حکومت کو حوالہ کیا گیا تھا۔ جس میں رہنے کیلئے ہاسٹل بھی تھا اور گومل یونیورسٹی میں ڈیرہ اسماعیل خان میں جدید تعلیم کے حوالہ سے پیرمبارک شاہ گیلانیؒ کا دن منایا جاتاہے۔مولانا سندھیؒ زندگی بھر مولانا اشرف علی تھانویؒ ، مولانا انور شاہ کشمیریؒ ، مفتی کفایت اللہ ؒ اور مولانا حسین احمد مدنیؒ سے لڑتے رہے کہ درسِ نظامی اور فقہی مسلکوں کو چھوڑ کر قرآن کی طرف دعوت دی جائے مگروہ لوگ کہتے رہے کہ امام مہدی جب آئیگا تو اصلاح کا کام کرلے گا۔ مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے لکھ دیا کہ’’ آپ استاذ کی بات نہیں مان رہے ہو تو امام مہدی آئیں گے تو بھی مخالفین کی صفوں میں تم لوگ کھڑے ہوگئے‘‘۔
حضرت حاجی محمد عثمانؒ کے حلقہ ارادت میں بڑے علماء و مفتیان، فوجی افسران، پولیس افسر، سعودی عرب مدینہ اور شام وغیرہ سے تعلق رکھنے والے عرب بھی شامل تھے۔ آپ نے کہا تھا کہ ’’میرے کالے بال والے مرید امام مہدی کو دیکھ لیں گے اور میرے حلقے والے اس میں اپنا کردار ادا کرینگے۔ خانقاہ بھی امام مہدی کے حوالے ہوگی‘‘۔ جن لوگوں نے مشاہدات دیکھے تھے ان کو مشاہدات کھلے عام بیان کرنے کی اجازت دی گئی۔ ایک مرید نے بتایا کہ’’ شیخ الہندؒ نے مولانا الیاسؒ کو تاج دیا جو حاجی عثمانؒ کے سر پر رکھ دیا‘‘۔ تبلیغی جماعت کی وجہ سے مدارس آباد ہوگئے ہیں لیکن مدارس میں قرآن وسنت کے بجائے ایسی تعلیم دی جارہی ہے جس کو زندگی ضائع کرنے کے برابرہی کہا جاسکتاہے۔ حضرت حاجی محمد عثمانؒ کا پروگرام تھا کہ مدرسہ کو جدید خطوط پر استوار کیا جائیگا۔ فٹ بال وغیرہ کا کھیل بھی رکھا جائیگا۔ مدرسہ، مسجد، خانقاہ، خدمت گاہ اور یتیم خانہ کے نام ہی مسلم اُمہ کے جوڑ کیلئے رکھے گئے تھے۔
حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ کے مریدوں میں اختلا فات تھے اور آپ نے فیصلہ ہفت مسئلہ لکھ کرامت مسلمہ کے اختلافات ختم کرنے کی کوشش فرمائی۔مگر وہ پھر بھی اس قدر زوال کا دور نہیں تھا۔ حاجی عثمانؒ کے دوست علماء ومفتیان، مرید خلفاء و عوام اور ہمدردوں کی ہمدردیاں بھی عجیب تھیں۔ ڈاکٹر شکیل اوج شہیدؒ نے مجھے بتایا کہ ایک مرتبہ حاجی عثمانؒ کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع ملا اور مصافحہ کرنے کی سعادت مل گئی۔ میرے مشکوٰۃ کے استاذ مولانا انیس الرحمن درخواستی شہیدؒ علماء ومفتیان کا فتویٰ لگنے کے بعد بیعت ہوگئے تھے۔ یہ داستان بھی لکھنے کے قابل ہے۔
مجدد ایمان کی تجدید کیسے کرتاہے۔ بس انسان کا حدیث کے مطابق وہ حال ہوجاتا ہے کہ گویا اللہ کو وہ دیکھ رہاہے اور یہ نہیں تو کیفیت یہ بن جاتی ہے کہ اللہ اس کو دیکھ رہاہے۔ احسان کا یہ درجہ مجدد کی صحبت سے بہت جلد مل جاتاہے۔جب حضرت حاجی محمد عثمانؒ کی مقبولیت ، عظمت اور توقیر کو لوگوں نے دیکھ لیا تو جو علماء ومفتیان پیر نہ بھی تھے مگرپیری کا لبادہ اُوڑھ بیٹھے ۔ جب میں نے بنوری ٹاؤن میں داخلہ لیا تو پیری مریدی کو توجہ دلانے کا باعث بن گیا۔ جب گھر میں بھابھی، مامی اور ماموں زاد اور خالہ زاد سے شرعی پردہ شروع کیا تو بھائی حیران تھے کہ کسی سے یہ پردہ نہیں سنا ہے مگر علماء نے تصدیق کردی کہ شریعت یہی ہے اور پھر ہمارے بڑوں کو میرے آگے بے بس ہونا پڑا تھا۔
مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے لکھاہے کہ معاشرے میں صرف نمائشی پردہ ہے جس سے قوم لوطؑ کے عمل میں لوگ مبتلا ہیں، اگر شریعت کی بات ہو تو شرفاء کے خاندانوں میں بھی شرعی پردے کا کوئی تصور نہیں ہے۔ آپؒ رسمی پردہ بھی ختم کرنا چاہتے تھے۔
ہم نے دین اس کو سمجھا جو علماء کی کتابوں میں تھا اور سب کا یہ حال عرصہ سے تھا۔ دین پر عمل کرنا اسلئے ہاتھ میں انگارے پکڑنے کی طرح سخت لگتاتھامگر حقائق بہت مسخ کئے گئے تھے ۔ اللہ نے قرآن میں پردے کے احکام کی سورۂ نور میں بہت واضح تفصیل سے بتادی ۔ پھر بتایا کہ ’’ اندھے پر حرج نہیں، نہ پاؤں سے معذورپر حرج اور نہ مریض پر حرج اور نہ خود تم پر حرج کہ کھاؤ اپنے گھروں سے یا اپنے باپ کے گھر وں سے،یااپنی ماؤں کے گھروں سے یااپنے بھائیوں کے گھروں،یا اپنی بہنوں کے گھر وں سے،یااپنے چاچوں کے گھروں سے یااپنے پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے یا جن کی کنجیاں تمہارے ہاتھ میں ہوں یااپنے دوستوں کے گھروں سے اور اس میں کوئی حرج نہیں کہ سب مل کر کھاؤ یا الگ الگ۔ اور جب تم گھروں داخل ہو جایا کرو،تو خود سے سلام کیا کرو، یہ اللہ کی طرف سے آداب بجالانے کا مبارک اور پاکیزہ طریقہ ہے۔ اس طرح اللہ اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتاہے‘‘۔
ان آیات میں شرعی پردے کا جو تصور بیان کیا گیاہے وہ مذہبی شدت اور فقہی جنون کا علاج کرنے کیلئے بہت کافی ہے۔ سارے رشتہ داروں کے علاوہ اندھے، لنگڑے اور مریض کیلئے بھی گھروں میں کھانے کے حوالے سے خصوصی گنجائش رکھ دی گئی ہے کیونکہ اجنبی افراد کسی کوگھر میں کھانا کھاتے نظر آئیں تو شکوک وشبہات جنم لے سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ پردے کے حوالے سے روشن تصور دنیا کے کسی خطے اور قوم میں ممکن بھی نہیں ہے۔ عام طور سے لوگ یہی کرتے ہیں جو قرآن میں لکھ دیا گیا مگر وہ دین فطرت کی تعلیم سے واقف بھی نہیں ہوتے۔ مذہبی طبقے کی جہالت کو داد اسلئے دینی چاہیے کہ ان کا جذبہ درست تھا اور ہم خود بھی نیک نیتی سے اسکے شکار بن گئے تھے۔
مجدد وقت حضرت حاجی محمد عثمانؒ نے ایمان کی تجدید نہیں کی ہوتی تو ہم شرعی پردے کی جھنجٹ میں بھی نہ پڑتے۔ اب ہمارا فرض ہے کہ درست راستہ مل جائے توخود کو غلط پگڈنڈیوں پر لگائے رکھنے کے بجائے اسی کو اپنالیں۔ ہر نماز کی ہر رکعت میں اللہ سے صراط مستقیم کی دعا مانگتے ہیں اور جب سیدھی راہ مل جائے تو اس پر عمل کرنا بھی شروع کردیں۔ تصویر، طلاق اور شرعی پردے کے علاوہ بہت سارے معاملات میں جو ہم نے حل کردئیے ہیں مگر اس میں ہمارا نہیں بلکہ قرآن وسنت کا کمال ہے ۔ اللہ نے فرمایا کہ ’’ جو میرے احکام میں جدوجہد کرتے ہیں ان کیلئے ضرور بضرور راستے کھول دینگے‘‘۔ حاجی محمد عثمانؒ کی ایک تقریر کا آغاز اسی آیت سے تھا۔ ہمیں موقع ملا توانشاء اللہ اپنے مرکز سے قرآن وسنت، دین ودنیا کے حسین امتزاج کا وہ تعلیمی نصاب متعارف کرائیں گے جس سے ایک بڑا انقلاب برپا ہوگا۔ مدارس کے طلبہ واساتذہ میں صلاحیت کی خوشبو آئے گی۔ مولانا آزادؒ وزیرتعلیم تھے تو علماء سے فرمایا کہ ’’ شکایت ہے کہ علماء میں استعداد نہیں، حالانکہ نصاب تعلیم ہی کوڑھ دماغ بنانے کیلئے کافی ہے، جو ان کتابوں پر مشتمل ہے جو زوال کے دور ساتویں صدی ہجری میں لکھی گئی ہیں‘‘۔ مفتی شفیعؒ نے کہاتھا کہ ’’ عرصہ سے مدارس بانجھ ہیں جو مولوی پیدا نہیں کررہے‘‘۔ نصاب ٹھیک ہوگا تو مدارس بانجھ نہیں رہیں گے ۔سید عتیق گیلانی

مرزا غلام احمد قادیانی اور تبلیغی جماعت کے بانی میں بہت فرق تھا

mirza-ghulam-ahmad-qadiani-aur-tablighi-jamaat-k-baani-mein-boht-farq-thha

غلام احمد قادیانی نے شاہ اسماعیل شہیدکی کتابیں’’منصبِ امامت‘‘اور ’’الاربعین فی احوال المہدیین‘‘سے امام و مہدی اور مجدد کا دعوی کیا ۔منصب امامت کے ترجمہ پر مولانامحمد یوسف بنوریؒ کامقدمہ موجود ہے ۔ تلاش کے باجود ’’احوال المہدیین‘‘ کا سراغ نہیں ملا۔ نیٹ پر قادیانیوں کے مرکزربوہ سے شاہ اسماعیل شہید کی کتاب کا عکس دیا گیاہے۔ کتاب کی چند سطریں پڑھنے سے معلوم ہوا کہ عجمی سازش سے عربی لکھ دی گئی ہے۔کتاب کی اصل تو صفحۂ ہستی سے غائب ہے ، نقل بھی موجود نہیں۔اس کتاب میں مشہور بزرگ شاہ نعمت اللہ ولی کی پیش گوئیاں بھی ہیں۔ جس کا ایک شعر یہ ہے کہ ’’ اس شخصیت میں مہدی اور مسیح دونوں جھلک رہے ہونگے‘‘۔
شاہ نعمت اللہ کی پیش گوئیاں دستیاب ہیں۔ یہ شعر بھی اس میں موجود ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے اس شعر کی بنیاد پر دعویٰ کیا تھا کہ وہ مہدی ومسیح ہے۔ بعض علماء نے فتویٰ دیا کہ ہندوستان دارالحرب ہے، جو ہجرت نہ کریگا، کافرہو گا اور بیوی بھی طلاق ہو گی۔ بانی خدائی خدمتگار عبدالغفار خان نے لکھاکہ ’’ ہم نے طلاق کے خوف سے ہی افغانستان ہجرت کی تو بیگمات آگے بھاگ رہی تھیں‘‘۔ ہجرت ناکام ہوئی تو طلاق کا فتویٰ زیر بحث آیا اور انگریز کے تسلط میں جہاد کرنا مشکل تھا۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجرؒ کے زیرِ امامت علماء نے جہاد کا ارادہ کیا مگر نہیں کرسکے ۔دارالعلوم دیوبندسے اسلامی علوم کی حفاظت کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوا۔ پہلے علماء کی سرپرستی حکمران کرتے تھے۔ اکبر بادشاہ کے دربار میں ہندوستان کے مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی نے کلمۂ حق بلند کیا، قبائلی علاقہ کانیگرم جنوبی وزیرستان کے بایزید انصاری عرف پیرروشان نے اکبر بادشاہ کے خلاف باقاعدہ جہاد کیا اور اپنے بیٹوں سمیت افغانی قبائلی علاقے جلال آباد میں 1601ء میں شہید ہوگئے۔ مغلوں سے بغاوت کا جذبہ انگریز کے خلاف جہاد کرنے میں بھی کام آیا۔ پاکستان کیلئے عملی جہاد قبائلی علاقوں سے ہوا۔
پاکستان کی آزادی کے بعد 1948ء میں آرمی چیف انگریزاور وزیراعظم کے خواہشمند نوابزادہ لیاقت علی خان کی کشمیر سے دلچسپی نہیں تھی تو قائداعظم محمد علی جناح نے قبائل سے کہا کہ ’’تم کشمیر کی آزادی کیلئے آؤ‘‘۔ بیگم راعنا لیاقت علی خان ہندو تھی۔ قبائل نے سرینگر تک کشمیر فتح کیا تھا۔ جیسے کلبھوشن کو بچانے کیلئے عالمی عدالت میں کیس لیجایا گیا، ویسے کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ کو حوالہ کردیا ،جماعت اسلامی کے مولانا مودودی نے فتویٰ دیا کہ ’’کشمیر میں جہاد نہیں ہورہاہے بلکہ کٹ مررہے ہیں ‘‘۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ مسلم لیگ کے مخالف و جمعیت علماء ہند کے حامی مگر فتویٰ دیا کہ ’’کشمیر میں شرعی جہاد ہے، اگرمولانا حسین احمد مدنی سے بھی کشمیر پر سامنا ہوا تو انکے احترام کے باوجود انکے سینے میں گولیاں اتار دوں گا‘‘۔ میرے خاندان کے پیرمحمد امین شاہ نے کشمیر کے جہاد میں حصہ لیا، جو وزیرستان سے تبلیغی جماعت کے پہلے فرد تھے۔ کانیگرم و علاقہ گومل کے اکثرپڑوسی تبلیغی جماعت کے خلاف تھے۔ مفتی کفایت اللہ مفتی اعظم ہند نے ’’سنت کے بعد دعا بدعت ‘‘پر کتاب لکھی۔ مولانا شاد زمان عرف مولوی شاداجان نے سنت کے بعد دعا کو بدعت کہا تو وہاں کے مشہور علمی گھرانے کے سربراہ مولانا محمد زمان نے ان پر قادیانیت کا فتویٰ لگایا۔ میرے والد انکے ساتھ کھڑے تھے۔ ہماری مسجد میں مناظرے کا اہتمام ہوا، نتیجہ فارسی میں سنایا گیا، دونوں طرف کے حامیوں نے ڈھول کی تھاپ پراپنی اپنی فتح کا جشن منایا۔ عمائدین میں مشہور شخصیت حاجی میرول خان مرحوم آخرتک تبلیغی جماعت کے سخت مخالف تھے۔ ہماری مسجد کو ’’ درس‘‘ اسلئے کہا جاتا کہ یہاں طلبہ علم سے استفادہ کرنے آتے ۔ مفتی محمود مفتی اعظم کہتے تھے کہ ’’ پٹھان مسلکاً دیوبندی اور طبعاً بریلوی ہوتے ہیں‘‘۔ سنت کے بعد دعا کو لازم کہا جاتا اور آذان میں صلوٰۃ و سلام نہیں پڑھی جاتی۔ سہراب گوٹھ میں جنت گل کی مسجد میں یہ حال اور میرا کردار تھا۔
انگریز ی دور میں مرزا غلام احمد قادیانی نے جہاد کو منسوخ کرنے فتویٰ دیا، علامہ اقبال نے مجذوب فرنگی قرار دیتے ہوئے کہا کہ’’ اس کا یہ فتویٰ بے اثر ہے۔ مہدی کے بدنام تخیل سے مایوس نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ پاکستان بنا تو فوج پر مرزائیوں کا تسلط قائم ہوا۔ جہاد کو منسوخ قرار دینے والوں کی گرفت سے کشمیر کے بعد مشرقی پاکستان بھی گیا، ذوالفقار علی بھٹو نے قادیانی طاقت سے جان چھڑانے کیلئے کافر قرار دینے کی چھوٹ دیدی تو وہ لوگ بھی میدان آئے جو قادیانیوں کیساتھ مل کرختم نبوت سے تعاون نہ کرتے تھے۔ شورش کاشمیری ذوالفقار علی بھٹو کا سخت ترین مخالف تھا مگر قادیانیوں کو آئینی کافر قرار دینے پر بھٹو کی عظمت کو سلام کرنے لگا۔
چند سال پہلے اردو ڈائجسٹ میں دیوبند ی بزرگوں پاکستان و ہندوستان کے شیخ الاسلام کا مکالمہ شائع ہوا۔’’ کانگریس کے حامی نے کہا کہ مسلم لیگ کی حمایت انگریز سرکار کرتی ہے اور مسلم لیگ کے حامی عالمِ دین نے جواب دیا کہ انگریزسرکار تبلیغی جماعت کی بھی حمایت کر رہی ہے تو کیا اس وجہ سے تبلیغی جماعت کا کام غلط قرار دیا جائے؟‘‘۔ تبلیغی جماعت عملی جہادنہیں کررہی تھی مگر جہاد کو منسوخ نہ سمجھ رہی تھی۔ جب روس کیخلاف افغانستان میں جہاد کا سلسلہ جاری تھا تو قبائل، پٹھانوں اور تبلیغی جماعت نے اس میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ جب نصیراللہ بابر نے امریکہ کے کہنے پر طالبان کی حکومت قائم کردی تو تبلیغی جماعت افغانستان جاتی تھی ، میرے دوست مولانا دین محمد گئے تھے اور یہ شکایت کی تھی کہ افغانستان میں کھلے عام مزارات پر شرک ہورہاہے۔تبلیغیوں کی نگاہیں نظام پر نہیں مسلک اور عقیدے پر تھیں، بعض لوگ ملا عمر کو خراسان کے مہدی سمجھتے تھے مگر جب امریکہ نے اسامہ کا بہانہ بناکر حملہ کیا تو طالبان کی مزاحمتی تحریک کو جہاد کہنے میں کسی کو شبہ نہیں رہاتھا، خود امریکہ بھی اسکا قائل تھا۔ تبلیغی جماعت نے اس قبولیت عامہ میں جہاد کا ساتھ دیا۔ طالبان اور تبلیغی بزرگ شیر وشکر ہوگئے۔ جرائم پیشہ عناصر جہاد میں جانے سے پہلے حلیہ بدلنے کیلئے رائیونڈ کا رخ کرتے تھے اور پھر داڑھی کیساتھ چوتڑ تک عورتوں کی طرح بال بھی رکھتے تھے۔ بد کاری و بے حیائی کے حدود پار کئے بغیرکوئی شریف یہ حلیہ اختیار نہیں کرسکتا تھا۔ جرائم پیشہ لوگوں نے جہاد کو خوب بدنام کیا اور بہت شریف بھی اسکی نذر ہوگئے۔
سلیم صافی نے جیو پر مولانا طارق جمیل سے خود کش حملوں کیخلاف جملہ کہلانے کی کوشش کی مولانا نے کہاکہ ’’ہماری راہیں جدا ہیں، منزل ایک ہے‘‘۔اب مولانا طارق جمیل نے بوہرہ داؤدی کے سربراہ سے پرجوش ملاقات کی ہے اور یہ معمولی بات ہے مگر جب پاکستان پر جہاد کا معاملہ آرہاہے تو میرے بیٹے محمدعمرنے بتایا کہ ’’کمپنی کا ملازم کہتا ہے کہ کشمیر اور ہندوستان کی لڑائی وطن کیلئے ہے جو جہاد نہیں، چاچا فوج میں ہیں اور ماموں مولوی ہیں‘‘۔ مدارس تک میں دہشتگردی ہورہی تھی تو مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی نے اس کو خلافِ اسلام قرار نہ دیا اور اب امریکہ اور انڈیا نے حملہ کیا تو یہ فتویٰ کہ ’’پاکستان کی طرف سے مدافعت جہاد نہیں ایک سازش ، جہالت اور بے غیرتی ہے‘‘۔
صلح حدیبیہ میں مسلمانوں کا حلیف قبیلہ بنو خزاعہ کافر تھا لیکن مشرکینِ مکہ نے بنوبکر کی مدد کرتے ہوئے بنوخزاعہ کو نقصان پہنچایا توصلح حدیبیہ کا معاہدہ بھی نبیﷺ نے توڑ کر مکہ کو فتح کرلیا۔ اگر برما کے بدھ مت پاکستان کو حلیف بنالیں اور بنگلہ دیش کے مسلمان یا بھارت کے ہندو برماکے بدھ مت پر حملہ آور ہوں تو یہ فرض ہوگا کہ ’’ہم برما کے بدھ مت کی مدد کریں‘‘۔
اقوام متحدہ نے سوڈان کے ٹکڑے کردئیے اور عراق کے کردستان میں ریفرینڈم کرادیا مگر 70 سال سے کشمیریوں کو حق سے محروم رکھا۔ کیا یہ انصاف ہے لیکن جب تک اقوام متحدہ کا خاتمہ نہیں ہوجاتا یا ہم اسکے معاہدے سے باہر نہیں نکلتے ، ہم اسکی تابعداری کے پابند ہیں۔ نبیﷺ نے جاہلیت کے’’ حلف افضول‘‘ کی تعریف میں فرمایا: ’’ مجھے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ پسند ہے کہ میں اس میں شامل تھا‘‘۔
اسلام امن و سلامتی کا دین ہے، فتنے فساد کو رفع دفع کرتاہے مگر ظالم کے آگے لیٹنے کی تعلیم بھی نہیں دیتا۔ پاکستان ایک ریاست نہیں بلکہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا مرکز بھی ہے۔پاکستان کا مستقبل روشن بنانے کیلئے کوشش کی ضرورت ہے۔ ملاعمر مجاہد جس سازش کا شکار ہوا، وہ سمجھ سے بالاتر تھی۔ ایک ملا، مولوی اور مولانا کو آج دنیا کے اختیارات مل جائیں تو اسلام کا نفاذ اسکے بس میں نہ ہوگا اور یہ اسلئے نہیں کہ اسلام کاروبار بن گیا بلکہ اسلئے کہ اسلام اجنبی ہے۔ خلافت راشدہ کا آخری دور حضرت عمرؓ کے بعد فتنوں کا دور تھا۔ نبیﷺ کے خانوادہ کو اقتدار نہ دیا گیا لیکن بنی امیہ کے یزید اور بنی عباس وبنی فاطمہ کے بعد خلافت عثمانیہ اور مغل سلطنت خاندانی بنیاد پر رہی۔ علماء رکاوٹ نہ بن جائیں ، تبلیغی جماعت کے کارندے مثبت کردار ادا کریں تو پاکستان میں کب کااسلامی انقلاب آچکا ہے۔ بس حقائق کو قبول کرناپڑیگا ، ورنہ افراتفری پھیل گئی تو کوئی بھی کسی کی بات نہ سنے گا۔ امن کی فضاء سے فائدہ اٹھائیں۔
تبلیغی جماعت کے اکابر ، بزرگ اور علماء کا کردار اس وقت اہمیت اختیار کریگا کہ جب یہ اللہ کے احکام اور نبیﷺ کے طریقے کا ایک معاشرتی نظام اپنے کارکنوں اورعوام کو دیں۔

اہلسنت کے نظریۂ خلافت اوراہل تشیع کے عقیدۂ امامت کا فرق

ahl-e-sunnat-k-nazaria-e-khilafat-aur-ahle-tashi-k-aqeeda-e-imamat-ka-farq

درسِ نظامی کی کتاب ’’ شرح العقائد‘‘ میں ہے کہ ’’خلافت کا قیام واجب ہے ، سنی کے نزدیک خلیفہ کا تقرر مخلوق پر واجب ہے ، شیعہ کے نزد خلیفہ کا تقرر اللہ پر واجب ہے۔ درست عقیدہ ہے کہ اللہ پر کوئی واجب نہیں ۔ شیعہ کا عقیدہ غلط ہے کہ اللہ پر کوئی بات واجب ہے‘‘
علم الکلام کا دوسرا نام علم العقائد ہے جس کا تعلق فلسفہ سے ہے۔ امام ابوحنیفہؒ نے جوانی اس میں کھپادی ،آخر توبہ کی ،اس کو گمراہی قرار دیکر فقہ کی طرف توجہ کی۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمود بڑے قابل عالمِ دین تھے، مگر انہوں نے زیادہ تر توجہ سیاست کی طرف دی۔ شرح العقائداور دیگر چند کتابوں کے بارے میں وہ کہتے تھے کہ یہ شیعہ کی سازش ہے، ان کو اپنے نصاب سے الگ کرنے کی ضرورت ہے۔
اصول فقہ میں قرآن کی تعریف علم العقائد سے پڑھائی جاتی ہے۔ جس میں قرآن کی تحریر کومحض نقش قرار دیا گیاہے جو الفاظ ہیں اور نہ معنیٰ۔ حالانکہ قرآن کی بہت سی آیات سے یہ ثابت ہے کہ قلم کے ذریعہ علم، جو سطروں میں ہے ، جو ہاتھ سے لکھی جاتی ہے، یہ کتاب ہے، جاہل مشرک بھی سمجھتے تھے کہ جو صبح شام لکھوائی جاتی ہے یہ کتاب ہے۔ ایک بچہ، ان پڑھ اور جاہل بھی کتاب کی کتابت کا انکار نہیں کرسکتا۔
علم العقائد کی گمراہی میں حقائق کی شکل مسخ کی گئی ہے اسلئے امام ابوحنیفہؒ نے اس سے توبہ کی مگر اہل تشیع کے بڑے لوگوں نے مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کو باقی رکھا اور اپنے نادان علماء ومفتیان بھی اس کا شکار ہوگئے۔ یہ حقیقت ہے کہ درباری علماء ومفتیان کا ہر دور میں راج رہا ہے جن کی وجہ سے اسلام اجنبی بنتا چلا گیا۔ قادیانیوں کیخلاف تحریک چل رہی تھی تو جب پاکستان کی ریاست نے نہیں چاہا کہ مرزائیوں پر کفر کا فتویٰ لگے تو ہماری عدالت و حکومت نے ’’ختم نبوت زندہ باد‘‘ کے نعرے پر پابندی لگادی۔ آج ریاست کا من چاہے تو مولویوں کو کھڑا کرکے آغا خانیوں پر نہ صرف کفر کے فتوے لگادے بلکہ انکے ہسپتال ، تعلیمی اداروں اور آبادیوں کا بھی بیڑہ غرق کردے۔
قادیانیوں پر کفر کا فتویٰ لگانا ریاست کا موڈ نہ تھا تو ختم نبوت کی تحریک پر مشکلات کا سامنا تھا۔ مولانا عبدالستارخان نیازی نے داڑھی مونڈھ ڈالی ، مفتی محمد شفیع مفتی اعظم پاکستان ، مولانا احتشام الحق تھانوی درپردہ قادیانیوں کیساتھ تھے، تاریخ کے اوراق مٹ نہیں سکتے، ذوالفقار علی بھٹو نے قادیانیوں کی کم تعداد کے باجود فوج میں انکی طاقت سے جان چھڑانے کیلئے تحریک ختم نبوت کو آزاد ی دی۔ تو قادیانی کافر قرار دئیے گئے۔ بھٹو کا تختہ الٹنے میں فوج کے اندرقادیانی اور باہر سے تحریک نظام مصطفی کے قادیانی ائر مارشل اصغر خان نے بڑا کردار ادا کیا اور جنرل ضیاء نے مرزائیوں سے مراسم بنانے کیلئے اعجازالحق کی شادی مشہور قادیانی جنرل رحیم کی بیٹی سے کرادی۔ مفتی تقی عثمانی نے اس کا نکاح پڑھانے کیلئے اپنے مرشد اور مولانا اشرف علی تھانوی کے خلیفہ ڈاکٹر عبدالحی کو استعمال کیا جس پرہمارے استاذ جمعیت علماء اسلام کراچی کے امیر مولانا شیر محمد بہت برہم تھے۔ اگرریاست کی طرف سے اشارہ یا پیسہ ملتا تو شیعہ کیخلاف مفتی تقی عثمانی دوسروں کا ساتھ دیتے، جیسے حاجی عثمانؒ پر فتویٰ لگایا تھا۔
قرآن کیخلاف شیعہ سنی کتابوں میں موجود تمام مواد کی نشاندہی کرکے فرقہ واریت کی سازش کو ناکام بنایا جاسکتاہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی نبی و مہدی تو دور کی بات، قابل مولوی بھی ہوتا تو درسِ نظامی کی خامیوں کی نشاندہی کرتا۔ مولوی نصاب ٹھیک کریں تو قادیانیوں کی بھی آنکھ کھول دینگے اور انکے مربی توبہ کرکے حقائق کوقبول کرینگے۔ شیعہ مخمصے سے نکلیں گے کہ قرآن کو درست مانیں یا نہیں؟ بریلوی بھی علامہ انور شاہ کشمیری کی قرآن کے بارے میں تحریف کے عقیدے کی رٹ کوچھوڑ کر خود راہِ راست پر آئینگے اور دیوبند کے علماء بھی بدترین منافقانہ فضاؤں سے نکل آئینگے۔
شیعہ کہتے ہیں کہ جیسے اللہ انبیاء کو مبعوث کرتاہے،ویسے ائمہ مبعوث کرتا ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ ’’میں زمین میں خلیفہ بنانیوالا ہوں‘‘۔ اللہ نے آدم ؑ کونبی و خلیفہ بنایا۔ بعثت کے لفظ سے نبوت ورسالت کا ہونا لازم نہیں آتا۔ قابیل نے بھائی کو قتل کردیا تو اللہ نے فرمایا : فبعث اللہ غرابا’’ اللہ نے کوا بھیج دیا‘‘۔ بعثت سے کوا نبی نہ بنا۔ ابراہیمؑ سے فرمایا: ’’میں تجھے لوگوں کا امام بناؤں گا۔ عرض کیا کہ میری اولاد میں سے بھی۔ فرمایا : میرا وعدہ ظالموں کو نہ پہنچے گا‘‘۔مفسرین نے لکھا ہے کہ ’’اللہ نے جن الفاظ میں جواب دیا ، یہ دعا کی قبولیت ہے اور جب تک نبوت کا سلسلہ جاری رہا اللہ نے بنی اسرائیل اور پھر آخر میں حضرت محمدﷺ کی بعثت سے یہ وعدہ پورا کردیا۔ نبوت کا سلسلہ ختم ہوا تو قریش کیساتھ قیامت تک وعدہ ہے‘‘۔صحیح مسلم کی کتاب الامارۃ اور صحیح بخاری کی کتاب الفتن میں نبیﷺ کی حدیث ہے کہ قیامت تک ائمہ قریش میں سے ہونگے چاہے 2 آدمی باقی ہوں۔
خلافت راشدہ کے بعدبنو امیہ وبنوعباس تک خلافت قریش میں رہی اور خلافت عثمانیہ کے ترک خلفاء قریش نہ تھے۔ شیعہ مکتب کا کہنا ہے کہ عثمانی خلفاء کی طرح جو قابض بنوامیہ و بنوعباس خاندان تھے وہ شرعی خلفاء نہ تھے۔ بریلوی مکتب کے اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی نے خلافت عثمانیہ کی غیر قریشی خلفاء کو غیر شرعی قرار دیا تھا۔
جنرل ضیاء دور میں سید جمال الدین کاظمی نے دیوبندی بریلوی مشہور مدارس سے خلیفہ کی تقرری پر فتویٰ مانگا تھا تو دیوبندیوں نے جواب دینے سے گریز کیا۔ بریلوی کے علامہ عطاء محمد بندھیالوی نے تفصیلی جواب دیا تھا۔ ایرانی انقلاب کے بعد شیعہ کے رویہ میں بھی بہت بڑی تبدیلی آئی ، مہدی غائب کے غَیبت کبریٰ میں وہ مخلوق کی طرف سے امام کی تقرری کا فریضہ ادا کرنے کے قائل ہوگئے۔
شاہ ولی اللہؒ نے لکھا: ’’مشاہدہ میں نبیﷺ نے فرمایا کہ شیعوں کی گمراہی کی بنیاد امامت کا عقیدہ ہے‘‘۔بیشک اگرشیعہ عقیدۂ امامت نہ رکھتے تو صحابہؓ سے لیکر موجودہ دور تک وہ قرآن سمیت بہت سی باتوں سے بدظن نہ ہوتے۔ شاہ ولی اللہؒ نے لکھا کہ ’’میں اس مشاہدہ کی وجہ سے اس نتیجے پر پہنچا کہ عقیدۂ امامت در اصل ختم نبوت کا انکار ہے‘‘۔ اگریہ صحیح ہو توشاہ ولی اللہؒ کے پوتے شاہ اسماعیل شہیدؒ نے سید احمد بریلویؒ کو خراسان کا مہدی ثابت کرنے کی غرض سے ’’منصبِ امامت ‘‘ کتاب لکھ دی تھی اور اس میں بھی امام کیلئے بعثت کا عقیدہ ہے۔
شاہ اسماعیل شہیدؒ کے خلوص میں کوئی شک نہ تھا مگر انگریز نے ان کو راستہ اسلئے دیا تھا کہ پنجاب میں راجہ رنجیت سنگھ کااقتدار ختم ہو۔
مولانا اشرف علی تھانوی نے لکھا کہ شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے کہا: ’’ جب تک امام مہدی کا ظہور نہ ہوگا، امت کی اصلاح نہ ہوگی اور مہدی میں اس قدر روحانی طاقت ہوگی کہ پوری دنیا کے حالات کو بدل دیگا‘‘۔ ایسا کوئی نبی اور رسول بھی نہیں آیا ۔ یہ عقیدہ قادیانیت سے بھی زیادہ خطرناک ہے اسلئے کہ کہاں ظلی و بروزی نبی اور کہاں تمام انبیاء سے بھی طاقتور ہونے کا دعویٰ؟۔ شیعہ ،سنی اور قادیانی وغیرہ کتابوں کے مندرجات کی تبلیغ کرتے ہیں ۔ سب کوخوش فہمی ہے اور مذہب کے نام پر پیٹ پوچا کا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں۔
شیعہ علیؓ کی خلافت کی ’’عید غدیر‘‘ منائیں تو یہ اس کی نفی ہے کہ امام کا تقرر اللہ کی طرف سے ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ مان لیا ، نبیﷺ کی طرف سے حضرت علیؓ کو امام و خلیفہ اور امیر بنایا تو صحابہؓ نے ارتداد کا راستہ اختیار کیا،علیؓ کے بعد 10امام مزید آئے ، ان کا طرزِ عمل اتنا جدا تھا کہ شیعوں میں بھی فرقے بن گئے۔ امامیہ کا 12واں امام مہدی غائب ہے ، ایرانی اقتدار حاضر خدمت ہے لیکن امام مہدی کا ظہور نہیں ہورہاہے۔ سخت مخالفین میں جینے والے شیعہ کے 11امام عوام کے اندر موجود رہے تھے۔
مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی نے بھی کہاکہ مہدی آئیگا تو اختلافی مسائل کی اصلاح کردیگا۔ قادیانی کہتے ہیں کہ مرزا صاحب وہ مہدی اور مسیح تھا جس کا انتظار تھا۔ حضرت عیسیٰ ؑ طبعی موت مرچکے ۔مسیح اور مہدی دونوں ایک شخصیت ہے۔ مہلک ہتھیا روں کی موجودگی میں مرزا نے جہاد کو منسوخ کردیا اور مولوی بھی ریاست کے بغیر جہاد کا فتویٰ دینے کی جرأت نہیں کرسکتے۔ یونیورسٹی کے طلبہ میں خلافت کا شعور حزب التحریر اجاگر کرتی ہے جو برطانیہ میں وجود میں آئی ۔ وہاں اس پر پابندی نہیں ۔ اوراس کی تحریر کا کوئی سر پیر بھی نہیں ہوتا ہے۔
اگر ریاستِ پاکستان ہمیں کینیڈا بھیجے تو ہم اسلام کے سفیر بن کر مسلمانوں کے گمراہ لوگوں کو خلیفہ وامام کی درست راہ دکھا دینگے، جس پر سب ہی متفق ہونگے بلکہ مغرب کی سازشوں کو مغرب میں ہی بے نقاب کرینگے۔ مغرب کی سازش سے زیادہ ہمارے اپنے پیچیدہ اور الجھے مسائل کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ جہادمدافعت اور ظالم کو ظلم سے روکنے کا فطری راستہ ہے ،قیامت تک اسکا انکار ممکن نہیں۔
ہزار سال قبل الماوردی کی کتاب ’’ الاحکام سلطانیہ‘‘ سے مدارس کے علماء وطلبہ واقف نہیں اور یونیورسٹیوں میں اس کا تعارف ہے۔ امام کا تقرر پہلے افراد کا کام تھا، اب ریاستوں نے مل کر اس فریضہ کو ادا کرنا ہے۔ خمینی فرانس میں بیٹھ کر امام بن گئے تو ایرانی انقلاب آیا۔ تمام مسلم ممالک کو متفقہ امام دینا ضروری ہے۔اور پاکستان، افغانستان اور ایران آغاز کریں۔

شیعہ سنی کا قرآن پر ایمان اور اس کیلئے عملی اقدام کی ضرورت

علامہ احمد لدھیانوی اورعلامہ حسن ظفر نقوی لوگوں کو دلیل سے ایک پلیٹ فارم پر لا ئیں تو قتل وغارت گری کا سلسلہ رُک جائیگا۔ جب برما کےshia-sunni-ka-quran-per-emaan-aur-us-k-liye-amli-iqdaam-ki-zarurat مسلمانوں پر مظالم کی انتہا کی گئی تو ایک جلوس نکالا گیا جس میں ایران اور اسرائیل کی حکومتوں کو ذمہ دار قرار دیا گیا، سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر اس خبر کی خوب تضحیک ہوئی اور اہلسنت (سپاہِ صحابہ) والے کا مذاق اڑاگیا مگرسوچنے کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں کتنی برائیاں ہیں؟۔ زنا بالجبر، بدکاری کے بعد بچوں اور بچیوں کو قتل کردیا جاتاہے ، انواع و اقسام کی بدمعاشی ، مظالم ، رشوت، بے حیائی اور چوری ڈکیتیوں کا بازار گرم ہے کیا یہ سب اسرائیل و امریکہ کی سازش ہے؟۔
بے شعور عوام کو ہم کیا دے رہے ہیں؟، اگر کبھی امریکہ ، اسرائیل اور بھارت نے سازش کی اور شیعہ سنی ایکدوسرے سے لڑے تو کسی کاکردار ہو یا نہ ہو مگر ہم اپنی بداعمالیوں کی سزا ضرور کھائیں گے۔ افغانستان، عراق، لیبیا اور شام کے بعد اللہ نہ کرے کہ پاکستان کی باری آجائے۔ قرآن کہتا ہے کہ ظھر الفساد فی البر و البحر بماکسبت ایدی الناس ’’ خوشکی اورسمندر میں فساد برپا ہوگیا بسبب جو لوگوں نے ہاتھوں سے کمایا ہے‘‘ ۔
ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم باقاعدہ سکالر اور عالم نہ تھے۔ البتہ قرآن کا ترجمہ سمجھانے کی بڑی خدمت کی۔ بڑے آدمی تھے اور بڑے کی غلطی بڑی ہوتی ہے۔ میرے ایک مہربان جماعت اسلامی کے عبدالرزاق بھٹی کا تعلق شیخ اتار گومل ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان سے تھا جوایک بڑے تاریخی کردار تھے۔ پاکستان بننے سے پہلے وہ کمیونسٹ تھے، پھر جیل میں مولانا مودودی کی کتابیں پڑھ کر مسلمان بن گئے تھے۔ سید منور حسن گذشتہ امیر جماعت اسلامی بھی کالج کے دور میں کمیونسٹ تھے۔ اسلامی جمعیت طلبہ نے کالجوں میں کمیونسٹوں کا راستہ روکنے کی قربانی دی ہے مگر پہلے جو امریکہ جہادی فلسفہ پھیلارہا تھا ،اب خلافت، جہاد اور مذہب کی مخالفت کو شعار بنارکھا ہے۔عبدالرزاق بھٹی نے بتایا تھا کہ ڈاکٹر اسراراحمدنے لکھا کہ’’ اگرچہ شیعہ کا موجودہ قرآن پرایمان نہیں مگر مہدی غائب تک اہل تشیع نے موجودہ قرآن کو قبول کیا ہے تو اس بنیاد پر ہم ان کو مسلمان کہہ سکتے ہیں‘‘۔
ڈاکٹر اسرار احمد نے شیعوں کیلئے اس نرمی کا مظاہرہ اسلئے کیا تھا کہ وہ خود بھی موجودہ قرآن کو مصحف عثمانی کہتے تھے ،جس کو اصل نہیں نقل سمجھتے تھے۔ جس میں کمی وبیشی کا تصور ہے اور برملا اس بات کا اظہار کیا تھا کہ ’’ اللہ تعالی نے قرآن میں کہا کہ اس قرآن کو نہیں چھوسکتے مگر پاک لوگ۔ موجودہ قرآن کو ناپاک بھی چھو سکتے ہیں اسلئے یہ اصل قرآن نہیں بلکہ نقل اور فوٹو کاپی ہے ۔ اصل قرآن لوحِ محفوظ میں ہے جس کو ملائکہ کے علاوہ کوئی نہیں چھوسکتا‘‘۔
ڈاکٹر اسرار احمد اچھے انسان تھے ، مجھے انکے اپنے نظریات کا زیادہ پتہ نہیں تھا، انہوں نے میری کھل کر نہ صرف حمایت کی بلکہ کانفرنسوں میں بھی دعوت دی۔ میں نے سوچا کہ میڈیا کی سطح پر آواز پہنچانے کیلئے ان سے مدد لوں اور میں نے انکے سامنے یہ بات رکھ دی کہ مدارس میں قرآن کریم کے بارے میں تحریف کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اگر آپ میرا ساتھ دیں تو بہت اچھے نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں کھل کر ساتھ نہیں دے سکتا لیکن میری خاموش حمایت آپ کے ساتھ ہوگی، جیسے امام ابوحنیفہؒ نے ائمہ اہلبیت کی خاموش حمایت کر دی تھی مگر زباں سے کھل کر اظہارنہیں کیاتھا‘‘۔
جب مجھے پتہ چلا کہ ڈاکٹر اسرار احمد نے یہ تشہیر بھی عام لوگوں میں کی ہے کہ اصل قرآن لوح محفوظ میں ہے ، ہمارے پاس نقل ہے تویہ منافقت میں نہیں کرسکتا تھا کہ اپنے حامی کیلئے نرم گوشہ رکھوں۔ اپنے ضرب حق اخبار اور اپنی کتاب’’ آتش فشاں‘‘ میں اس کا کھل اظہار کیا جو ڈاکٹر اسرار احمد کو ناگوار بھی گزرا۔ مجھے اپنے اساتذہ کرام کی بھی حق بات کے سلسلے میں کوئی پرواہ نہیں تھی تو کسی اور کیا کرتا؟۔ قرآن واحد ذریعہ ہے جو اس امت کا بیڑہ پار کرسکتاہے مگر ہمارے مذہبی طبقات قرآن کی خدمت کرنے کا دعویٰ کرنے کے باوجود حقائق نہیں مانتے۔
شیعہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’ میں تمہیں دو بھاری چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک قرآن اور دوسری میری عترت۔اگر تم ان دونوں کو مضبوطی سے تھام لوگے تو گمراہ نہ ہوگے‘‘۔ یہ حدیث صرف شیعہ نہیں سنیوں کی کتابوں میں بھی ہے، صحیح مسلم ، ترمذی وغیرہ صحاح ستہ میں شامل کتابوں میں بھی یہ حدیث موجودہے۔ اہل تشیع کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ و امام جعفر صادقؒ کا تعلق ائمہ اہلبیت سے تھا اور ہم حدیث کی پیروی کرتے ہوئے اپنے ائمہ اہل بیت کے مسلک پر گامزن ہیں۔ اہلسنت حضرت ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ اور معاویہؓ کو مان کر یہ حدیث نہیں مانتے۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ ، امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کو مانتے ہیں مگر امام جعفر صادق ؒ کو نہیں مانتے۔
اہلسنت کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ’’دو بھاری چیزیں چھوڑے جار ہا ہوں قرآن اور میری سنت ‘‘۔ موطا مالک کی اس حدیث کا تقاضہ ہے کہ قرآن و سنت کو ہی اطاعت کیلئے اپنامحور بنالیا جائے۔قرآن کا بار بار حکم ہے کہ ’’اطاعت کرو اللہ کی اور اسکے رسول کی ‘‘۔ ایک جگہ یہ ہے کہ ’’ جس نے رسول کی اطاعت کی تو بیشک اس نے اللہ کی اطاعت کی‘‘۔ قرآن اللہ کی وحی ہے ، اس وحی پر عمل وکردار کی مثالی شخصیت رسول ﷺ خود ہیں۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کا حکم قرآن میں ہے اور عملی کردار نبیﷺ کی سیرت طیبہ کو ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ رکوع وسجدہ ، روزہ اور طواف وحج کا حکم اللہ نے دیا مگر لوگوں کو خود کرکے نہیں دکھایا۔ رسول ﷺ نے احکام پر عمل کرکے دکھایا اور نبیﷺ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔ ایک جگہ اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’ اللہ کی اطاعت کرو، رسول کی اطاعت کرو اور تم میں سے جو اولی الامر ہیں ان کی اطاعت کرو، اگر کسی بات پر تمہارا تنازع ہوتو اللہ اور رسول کی طرف اس کو لوٹادو‘‘۔ اگرشیعہ کہیں کہ اولی الامر سے مراد ائمہ اہلبیت ہیں، آیت میں اولی الامر سے اختلاف کی گنجائش ہے توانہیں ماننا پڑیگا کہ ائمہ اہلبیت سے اختلاف رکھنے کی گنجائش انکے ا دوار میں بھی تھی، آج بھی ہے۔ حضرت علیؓ نے مسند پر بیٹھنے والے خلفاء کرامؓ سے اچھے تعلقات رکھے، امام حسنؓ نے معاویہؓ کے حق میں دستبرداری کا معاہدہ کیا، کربلا میں حضرت امام حسینؓ کو واپس جانے دیا جاتا تویہ سانحہ پیش نہ آتا اور مہدی غائب تک باقی ائمہ نے شہیدکربلا کا راستہ نہیں اپنایا بلکہ ایک امام تو کسی عباسی خلیفہ کے جانشین بھی مقرر ہوئے۔ پھر اختلاف و افتراق کی شدت کوکم کرنا پڑیگا۔ ائمہ اہلبیت سے زیادہ باایمان اور تقویٰ وکردار رکھنے والا کوئی علامہ اور ذاکر نہیں ہوسکتا ہے۔
مفتی تقی عثمانی نے ’’ تقلیدکی شرعی حیثیت‘‘ کتاب میں قرآن کی آیت پرلکھا: ’’ اولی الامر سے مراد ائمہ مجتہدین ہیں،اختلاف سے مراد یہ نہیں کہ ان سے اختلاف ہوسکتا ہے بلکہ فان تنازعتم فی شئی سے علماء کے آپس کا اختلاف مراد ہے۔ احادیث میں علماء کے اٹھ جانے کی خبر ہے۔ ان ائمہ کے بعدجاہل علماء ہیں جو خود بھی گمراہ ہونگے اور دوسروں کو بھی وہ گمراہ کرینگے۔ علماء کا کام ائمہ کی تقلید کرنا ہے، اور عوام کا کام براہِ راست قرآن و حدیث کے احکام کی پیروی کرنا نہیں بلکہ علماء ومفتیان کے توسط سے قرآن و رسولﷺ کی پیروی ہے۔ عوام کی غلط رہنمائی ہوتو انکا مواخذہ نہ ہوگا‘‘۔
جس طرح شیعہ مسلک و اعتقاد میں قرآن کے حوالہ سے تضادات ہیں ، مہدی نے قرآن غائب نہیں کیا مگر اپنی منطق سے گمراہی کا شکار ہیں۔اسی طرح ہر دور کے درباری شیخ الاسلام نے مسلم اُمہ کو قرآن سے دور لے جانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ امام ابوحنیفہؒ نے جیل کی زندگی میں زہرکھاکر شہید ہونا قبول کیامگر اپنے فتوے سے رجوع نہ کیا کہ لونڈی کو بادشاہ کے باپ نے استعمال کیا ہو اور پھر بیٹا اس کیساتھ ازدواجی تعلق قائم کرسکے۔ جبکہ شیخ الاسلام کی طرف سے حیلہ بنالیا گیا کہ ’’ عورت کی گواہی کا انکار کرکے یہ تعلق قائم کرسکتا ہے ‘‘۔ اس پر بڑا معاوضہ بھی حاصل کیا گیا۔ مفتی تقی عثمانی کی طرف سے اپنے جاہل عوام کو کہا گیا کہ ’’ شادی بیاہ کی رسم میں لفافے کی لین دین سود ہے اور اسکے ستر سے زیادہ گناہ، وبال اور برائی میں کم از کم گناہ اپنی سگی ماں کیساتھ زنا کے برابر ہے‘‘ دوسری طرف معاوضہ لیکر سودکو جواز بھی فراہم کردیا ہے۔ تبلیغی جماعت کے کارکن اور رہنما شادی بیاہ کی رسم میں مفتی تقی عثمانی کے فتوے پر عمل نہیں کرتے مگرسود کادفاع کررہے ہیں۔
قرآن وسنت کے جھوٹے پیروکاروں کے منہ پر اللہ نے خوب طمانچہ مارا ہے۔ چاہے جو جس فرقہ ، جماعت اور مسلک کا لبادہ اُوڑھے وقال الرسول ربی ان قومی اتخذوا ھذا القرآن مھجورا ’’ اور رسول کہے گا کہ میرے ربّ! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘۔ درسِ نظامی میں علماء ومفتیان قرآن پر حملہ آور ہوکر پڑھاتے ہیں کہ ’’ تحریری قرآن اللہ کا کلام نہیں، یہ الفاظ اور معانی نہیں صرف نقوش ہیں‘‘۔ اسی وجہ سے صاحبِ ہدایہ ، شامی اور فتاویٰ قاضی خان میں لکھ دیاکہ’’ علاج کیلئے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے‘‘۔ علماء نے تردید کرنے کے بجائے تائیدکا سلسلہ اب بھی جاری رکھا ہواہے۔علامہ اقبالؒ نے کہا:
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق