پوسٹ تلاش کریں

شیعہ پر کفر کے فتوؤں کے دلائل اور انکے محرکات کی حقیقت

shai-per-kufur-k-fatwon-k-dalail-aur-un-k-muhharekaat

ایران کے قائد امام خمینی محتاج تعارف نہیں اور مولانا محمد منظور نعمانی بھی بھارت کے مشہور عالم دین تھے۔ معارف الحدیث اور اسلام کیا ہے؟،وغیرہ انکی کتابیں ہیں۔ مولانا مودوی سے علیحدگی کے وجوہات بھی مولانا منظور نعمانی نے یہ لکھے ہیں کہ ’’جماعتِ اسلامی کے بانی کا الہ کا تصور عقیدے کی بنیاد پر غلط تھا‘‘۔
شیعہ مخالف تنظیم اہلسنت والجماعۃاور حقوق اہلسنت والجماعۃ کے خطیب اور مناظر میدان میں تھے۔ مولانا حق نواز جھنگوی شہید نے پھر ’’انجمن سپاہ صحابہ‘‘ بنائی تو ایرانی لٹریچر کا بہت زور تھا۔ پھر کراچی میں سواداعظم اہلسنت نے بھی شیعہ کے خلاف تحریک شروع کردی تھی۔
سپاہِ صحابہ نے مولانا حق نواز جھنگوی شہید کی تقریر شائع کی، اس میں وضاحت ہے کہ ’’شیعہ سے اختلاف قرآن کی بنیاد پر نہیں ، صحابہؓ کی بنیاد پر بھی نہیں، ہمارا اصل اختلاف شیعوں سے عقیدۂ امامت پر ہے‘‘۔
اس میں شبہ نہیں کہ مولانا حق نواز جھنگویؒ کا مؤقف 100فیصد درست تھا۔ سپاہ صحابہ نے بہت قربانیاں دیں، قیادت اور کارکن شہادت اور جیلوں سے نہ گھبرائے۔ کافر کافر شیعہ کافر کا نعرہ ہر دہلیز، چوکٹ، چوہراہا، ہرقیمت پر لگایا۔
شیعہ خود بھی سمجھتے ہیں کہ اصل اختلاف یہی تھا، علامہ شہنشاہ حسین نقوی نے حضرت صالحؑ کی اونٹنی ناقۃ اللہ اور علیؓ کے ہاتھ، پیر، اعضاء کو اہل اللہ اور اہل رسول قرار دیکر کہا کہ ’’یاعلی مدد اللہ ورسول سے مدد ہے۔ بدبخت ترین علیؓ اور صالح کے قاتل تھے‘‘۔ میری تقریر نیٹ پر ہے جس میں کہا کہ’’اللہ مظلوم نہیں ہوتا‘‘۔یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ مذکر و مؤنث کے عضوء سے پاک ہے، اسے کسی نے جناہے اور نہ اس نے کسی کوجناہے۔مظہرِ نور خداداتا گنج بخشؒ کو بھی سمجھا جاتاہے۔ کعبہ 360 بتوں سے بھرا تھااور داتا کی نگری میں ہیرہ منڈی ہے۔ دین میں زبردستی نہیں۔ اربابِ اقتدار کا کام نظام کی درستگی ہے ۔ اچھی فضاء بہت ضروری ہے۔
نہ تیرا خدا کوئی اور ہے نہ میرا خدا کوئی اور ہے
یہ جو راستے ہیں جدا جدا یہ معاملہ کوئی اور ہے
سواد اعظم اہلسنت کی ابتداء ہوئی تو کراچی کے اکابر علماء مولانا سلیم اللہ خان، مولانا اسفند یار خان ، مفتی احمد الرحمن ، مولانا زکریا تحریک کی قیادت کررہے تھے۔ مولانا زکریا کی مولانا سلیم اللہ اور مولانا اسفندیار نے پٹائی لگادی۔ مولانا زکریا لنگڑے جامعہ انوار العلوم گلبرک کراچی کے مہتمم معذور ڈنڈے سے پٹے تو کیا کرتے؟۔ البتہ اخبارات میں رازوں سے پردہ اٹھادیا کہ مولانا سلیم اللہ خان و مولانا اسفندیارخان نے سواداعظم کے نام پر رقوم، جائیداد ومفادات لئے ہیں۔ وہی مولانا زکریا صاحب سپاہ صحابہ کے مستقبل کے قائد مولانا اعظم طارق کے سوتیلے باپ تھے۔
سواداعظم کی قیادت میں لالو کھیت کے اندر اہل تشیع کی دکانیں جلائی جا چکی تھیں، پختون ایمانی جذبے میں پیش پیش تھے، جس کا خمیازہ مہاجر پختون فسادات میں بھگتنا پڑا ۔ میں نے جامعہ بنوری ٹاؤن میں داخلہ لیا تو سواد اعظم کے تحت مزیدفسادات اُڑان کی موڈ میں تھے، مولانا زکریا چند ماہ پہلے علیحدہ ہوچکے تھے۔ 10محرم کے جلوس کو روکنے کیلئے مولانا سلیم اللہ خان، مولانا اسفندیار خان اوردیگرمدارس کے علماء و طلبہ جامعہ بنوری ٹاؤن پہنچے تھے۔ تقریروں میں کہہ رہے تھے کہ ہم شیعوں کو اس مدرسہ مادر علمی کے دروازے کے سامنے جلوس گزارنے نہیں دینگے۔ پولیس کی ذمہ داری تھی کہ وہ مقررہ راستے سے جلوس گزارتی۔جب سواد اعظم و پولیس میں مذاکرات ناکام ہوگئے تو خوف اور تشویش کی فضاء پیدا ہوگئی۔
جامعہ بنوری ٹاؤن کے علماء ومفتیان نہیں چاہتے تھے کہ فساد ہو، جامعہ بنوری ٹاؤن کے اندر تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری تھا، علماء کے علاوہ ایڈوکیٹ عبدالعزیز خلجی بھی پیش پیش تھا ہم طلبہ بڑوں کے معاملے سے واقف نہ تھے۔ جامعہ کے ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر اسوقت ناظم تعلیمات تھے جواب پرنسپل ہیں۔ آپ نے ہمیں درس دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’باہر فسادی آئے ہیں۔ ان کی باتوں میں نہ آؤ، انکا مقصد فساد پھیلانا ہے۔ شیعہ کے جلوس یہاں سے گزرتا تھا تو مولانا بنوریؒ مسجد نیوٹاؤ ن کے مٹکے صاف ستھرے کرکے بھروا کر رکھتے تھے۔ مسجد کامین گیٹ کھلا رہتا تھا۔ جلوس کے شرکاء پانی پیا کرتے اور واش روم استعمال کرتے‘‘۔
پھر جب جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کے طلبہ نے جلوس پر پتھراؤکیا اور پولیس نے آنسو گیس کی سخت شیلنگ کی تو کئی بیہوش ہوگئے۔ میں نے بھی زخمیوں کی مدد میں حصہ لیا۔ درسگاہ میں دوسرے دن استاذ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے مجھے خصو صی طور پر مخاطب کرکے فرمایا کہ ’’ تمہیں احساس نہیں، ہمارے بال بچے ہیں، آنسو گیس کی جس مصیبت کا سامنا کیا، وہ ہم اور ہمارے بچے جانتے ہیں۔تمہیں کیا ہے‘‘۔ مجھے شدید احساس ہوا کہ استاذ کی بات میں وزن ہے مگر مجھ سے یہ غلطی نہیں ہوئی تھی اسلئے معافی مانگنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی ۔
ایک گھمبیر صورتحال میں مولانا منظور نعمانی کا استفتاء اور مفتی ولی حسن ٹونکی مفتی اعظم کے جوابات شائع کردئیے گئے۔ استفتاء میں تین سوالات تھے جنکا جواب دینے کی ضرورت نہ تھی کیونکہ سوالات جوابات بھی خود ہی تھے۔
پہلا سوال تھا کہ شیعہ قرآن میں تحریف کا عقیدہ رکھتے ہیں۔کئی سارے حوالہ جات سے ثابت کیا کہ شیعہ قرآن پر ایمان نہیں رکھتے اور اگر شیعہ قرآن کو مانتے ہیں تو یہ تقیہ ہے۔ ظاہر ہے کہ جسکا قرآن پر ایمان نہیں ہو تو اس سے بڑا کافر کون ہوسکتا ہے؟۔سوال کا جواب دینا بھی محض ایک خوامخواہ کا تکلف ہی تھا۔
دوسرا سوال تھا کہ اہل تشیع صحابہؓ کے بارے میں یہ اعقتاد رکھتے ہیں کہ وہ کافر ہیں، حضرت ابوبکرؓ کی صحابیت قرآن سے ثابت ہے اور باقی صحابہؓ سنت اور اجماع سے ثابت ہیں اسکا انکار کرنے کی بنیاد پر اہل تشیع بذاتِ خود کافر ہیں، ان کے کفر کے ثبوتوں کے حوالہ جات کے انبار ہیں جس کی کوئی تردید نہیں کرسکتا ہے۔
تیسرا سوال تھا کہ شیعہ کا عقیدۂ امامت در ا صل ختم نبوت کا انکار ہے، وہ اپنے ائمہ کو انبیاء سے بڑھ کر سمجھتے ہیں، ڈھیر ساری کتابوں کے حوالہ جات موجود ہیں ، جس کی تردید کوئی نہیں کرسکتا اور اس وجہ سے بھی اہل تشیع اسلام سے خارج ہیں اور ان پر کفر کا فتویٰ لگتاہے۔
3 سوالات کی تفصیل پھرمزید حوالہ جات جوابات میں درج ہیں جو شیعہ کے کفر کو یقینی بناتے ہیں۔ پھر پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے ڈھیر علماء و مفتیان اور بہت سارے معروف مدارس کی تصدیقی تحریرو مہر تھے، البتہ جامعہ بنوری ٹاؤن کے اس فتوے کی تائید مفتی تقی، مفتی رفیع عثمانی دارالعلوم کراچی کورنگی کے ایریا نے نہ کی۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ ’’وہ عذر پیش کررہے ہیں کہ ہم سرکاری تانگے ہیں،اگر ریاست کا اشارہ نہ ملے تو ہم شیعہ کو کافر نہیں قرار دے سکتے ‘‘۔ اس فتویٰ میں واضح طورپر لکھا گیا کہ ’’قادیانی ختم نبوت کی آیت میں تأویل کرتے ہیں مگر نماز، روزہ، زکوٰۃ اور دیگر تمام معاملات اہلسنت کے عین مطابق ہیں، قرآن و سنت اور صحابہؓ ،اسماعیل شہیدوا کابر دیوبند اور فقہی مسائل بھی ایک ہیں اور شیعہ کا ہر چیز میں اہلسنت سے عقیدت اور عقیدے کے مسئلے پر شدیداختلاف ہے۔لہٰذا شیعہ قادیانیوں سے بدتر کافر ہیں‘‘۔
یہ کتاب اور اس طرح کی دیگر کتابیں بازار میں دستیاب ہیں۔ سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار نے سلیم صافی کو انٹرویو دیا کہ ’’ علماء کرام کا معاشرے میں بہت اہم مقام ہے، ایک چھوٹا سا اقلیتی فرقہ ہے جو علماء کا نام سن کر آگ بگولہ ہوجاتا ہے ، ہم اسکے اس رویہ کی وجہ سے علماء کرام کی قدر کم نہیں کرسکتے۔ کالعدم تنظیم کے مولانا احمد لدھیانوی ملتے تھے تو کیا حرج تھا؟، میں سب کا وزیر داخلہ تھا اور سب کیساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ کالعدم تنظیمیں الیکشن میں بھی حصہ لیتی ہیں، تمام پارٹیوں کے اہم رہنما ان سے ملتے ہیں۔ علماء کرام نے بہت تعاون بھی کیا اور انہوں نے میری بات کافی حد تک مان لی۔ اس کا مجھے کریڈٹ بھی ملنا چاہیے تھا‘‘۔
وہ وقت بھی آیا کہ علماء ومفتیان نے بھی سپاہِ صحابہ سے اعراض کیا۔ ایم کیوایم کا دباؤ کافی بڑھ گیا، مولانا سلیم اللہ خان نے بنوری ٹاؤن کے ایک اجلاس میں مولانا اعظم طارق سے کہا کہ شیعہ پر کفر کا فتویٰ غلط ہے، یہ مشن چھوڑ دو، کوئی دوسرا راستہ اختیار کرلو۔ متحدہ مجلس عمل بنی تو شیعہ سنی کی اتحادتنظیمات المدارس بھی بنی۔ جامعہ بنوری ٹاؤن نے اتحاد کیلئے فتویٰ جاری کیا تو ہم نے اپنے اخبار ضرب حق میں بات اٹھائی کہ یہ بھی بتایا جائے کہ شیعہ تائب ہوگئے یا تم نے غلط فہمی کی بنیاد پر فتویٰ دیا تھا؟۔
ایک طرف شیعوں پر فتویٰ تو دوسری طرف اتحادالمدارس شیعہ سنی اتحاد ہے ، آخر کیوں؟۔ تحریف قرآن کی بنیاد پر شیعہ کو کافر قرار دیا تو علامہ انورشاہ کشمیری نے بھی ’’فیض الباری‘‘ میں لکھا کہ ’’قرآن میں معنوی تحریف تو بہت ہوئی، بلکہ لفظی تحریف بھی ہوئی ، مغالطہ سے یہ کیا ہے یا پھر جان بوجھ کر ‘‘۔ مولانا عبدالکریم کلاچوی نے مفتی فرید اکوڑہ سے جواب مانگا۔ علامہ غلام رسول سعیدی نے دارالعلوم کراچی سے حوالہ دئیے بغیر اس عبارت پر فتویٰ مانگا تو مفتی تقی عثمانی نے کفر کا فتویٰ لگادیا تھا۔ میرا خلیفہ عبدالقیوم و سپاہ صحابہ کے کارکنوں سے یہ طے ہوا تھا کہ مدارس کے نصاب پر بات ہوگی لیکن علماء نے ایسی فضاء بنادی کہ حکومت نے 16ایم پی او کے تحت گرفتاری کا حکم دیا تھا۔

مذہبی معاملات میں اعتدال کا سیدھا راستہ: عتیق گیلانی

mazhabi-maamlat-me-aitadal-ka-seedha-rasta-(General-(R)-Ehsan-ul-Haq-Altaf-Hussain

مذہبی معاملات میں اعتدال کا سیدھاراستہ

مولانا عبد الرحمن کیلانی نے ’’خلافت و جمہوریت‘‘ نامی کتاب لکھ دی جو 1981 ؁ء اور پھر 1985 ؁ء کو شائع ہوئی ہے۔ کتاب کے کچھ دلائل اور مندرجات دیکھنے سے اس نتیجے پر آسانی کیساتھ پہنچا جاسکتا ہے کہ خلافت پر خلفاء راشدینؓ کے دور میں بھی اتنا اچھا خاصہ افتراق تھا کہ کسی دلیل کو شرعی کہنا دشوار نہیں بلکہ سراسر غلط بھی ہے۔ حضرت ابوبکرؓ کی خلافت ہنگامی طور پر منعقد ہوئی اور حضرت عمرؓ کو نامزد کیا گیا، حضرت عثمانؓ کو کثرت رائے سے شوریٰ نے بنایا ، حضرت علیؓ کی خلافت متنازعہ ہونے کے باوجود قابل اعتبار قرار پائی، اور حضرت حسنؓ سے تنہا ایک شخص نے بیعت کی تو خلیفہ بن گئے۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ کو خلیفہ بنانا چاہا تو حضرت عمرؓ نے رکاوٹ ڈال دی اور حضرت امیر معاویہؓ کے حق میں حضرت حسنؓ دستبردار ہوئے۔ دونوں معاملات اپنی اپنی جگہ پر مستحسن تھے لیکن رسول ﷺ کے بعد خلافت راشدہ کا نظام قائم ہوا اور حضرت امیر معاویہؓ کی وجہ سے خلافت کا نظام امارت میں بدل گیا۔ ایک طرف رسول اللہ ﷺ کی رائے سے اختلاف اور دوسری طرف حضرت امیر معاویہؓ کے حق میں دستبرداری سے خلافت و امارت کے معاملے میں اسلام کا ظرف اتنا وسیع ہے کہ اسکے طول و عرض اور گہرائی و بلندی تک پہنچنے کیلئے بڑی بڑی قد آور شخصیات بھی انتہائی پستی کا شکار دکھائی دیتی ہیں۔بس سمندری طوفان کے طلاطم خیز موجوں میں تیرنے والے کبھی جنرل ضیاء کی ڈکٹیٹر شپ کو امیر المؤمنین کا نام دیتے ہیں، کبھی امام خمینی کو شرعی امام بنالیتے ہیں اور کبھی عرب ریاستوں کے متفرق بادشاہوں کو اپنے اپنے دائرہ کار میں شرعی خلیفہ و امام کا درجہ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے پنجاب کے ایک خطیب کی تقریر سوشل میڈیا پر چل رہی ہے جو حضرت امام حسنؓ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کسی کو ان کا یوم وفات معلوم نہیں اسلئے کہ شیعہ مُلا باقر مجلسی نے لکھ دیا کہ ’’امام حسنؓ خلافت سے امیر معاویہؓ کے حق میں دستبرداری کے بعد اس طرح سے امام نہ رہے جسطرح ان کے والد حضرت علیؓ نے ثالثوں کو اختیار دیا تھا اور وہ امام نہ رہے‘‘۔ اہل تشیع صرف امام حسینؓ کو مانتے ہیں باقی کسی کو نہیں مانتے۔ اگر مانتے تو امام حسنؓ کی شہادت کو کیوں اس طرح سے نہیں مناتے؟۔ اس خطیب نے لوگوں کو اہل تشیع کیخلاف خوب اکسا کر خوش کردیا اور امام حسنؓ کے فضائل سنانا بھی ان کی بڑی مہربانی ہے کہ اتحاد کی بات کررہے ہیں۔ لیکن تمام تقریر کے خلاصے کا یہ جواب ہے کہ شیعہ کلمہ و اذان میں علیؓ کا نام لیتے ہیں امام حسینؓ کا نہیں۔ اسلئے کہیں بھول تو نہیں ہوئی؟۔ دوسرا یہ کہ اگر امام حسنؓ کو خلافت سے دستبرداری کے بعد اپنی بیگم نے زہر کھلادیا تھا تو ان کی شہادت اور امام حسینؓ کی شہادت میں بہت فرق ہے۔بقول فیض
جس دھج سے جو مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
امام حسنؓ کے مشن کا حق تب ادا ہوگا جب انتشارنہیں اتحاد کی دعوت دیجائے۔ کربلا کے ذاکر و خطیبوں سے سنا کہ امام حسینؓ جہاد کررہے تھے تو کوئی لڑنے کی ہمت نہ کرسکتا تھا۔ مگر جب سجدے میں گئے تو ظالموں نے شہید کیا۔ قصہ گو ذاکرین سے علامہ اقبال تک نہ جانے کیوں قرآن اور فطری تعلیم بھول کر کہتے ہیں کہ آگیا عین لڑائی میں جب وقت نماز ، قبلہ رو ہوکے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز، ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز، نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ لڑائی کے وقت نماز پڑھنے کا طریقہ عام حالات کے مطابق رکوع و سجود والا نہیں ، جس سے آگے پیچھے وار کرکے دشمن نقصان پہنچائے بلکہ فرجالاً او رکباناً ’’چلتے چلتے اور سوار ہوتے ہوئے نماز پڑھو‘‘۔ اگر ہندی یا پنجابی اقبال شعری جذبات میں مبالغہ آمیزی کررہے تھے تو قرآن کی آیت پر نگاہ نہیں گئی ہوگی لیکن امام حسینؓ نے یقیناًقرآن کی طرف زبردست توجہ دی ہوگی۔
عن سعد بن ابی وقاص قال قال رسول اللہ ﷺ لا یزال اہل الغرب ظاہرین علی الحق حتیٰ تقوم الساعۃ (کتاب الامارۃ، صحیح مسلم)
’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اہل مغرب ہمیشہ حق پر رہیں گے یہاں تک کہ قیامت آجائے‘‘۔ صحیح مسلم کی اس روایت کا تعلق خلافت و امارت کے نظام سے ہے اسی لئے اس کو اس کتاب میں درج کیا گیا ہے۔ کم عقل قسم کے مولوی اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے جس بات کو شرعی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں حقائق اسکے بالکل منافی ہوتے ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے قرآن میں نبی ﷺ سے فرمایا کہ ’’اگر آپ زمین میں اکثریت کے پیچھے چلیں تو یہ آپ کو اپنی راہ سے گمراہ کردیں گے‘‘۔ صلح حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ نے اکثریت کے فیصلے کو مسترد کرکے معاہدہ کیا تو اللہ نے اس کو فتح مبین قرار دیا۔ اور بدری قیدیوں پر فدیہ کا مسئلہ آیا جب اکثریت کی رائے پر نبی ﷺ نے فیصلہ فرمایا تو اللہ نے اس کو غیر مناسب قرار دیا اور اقلیت کو چھوڑ کر اکثریت کیلئے عذاب کی وعید بھی اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی۔
ان آیات اور واقعات کا مقصد ہرگز یہ نہیں تھا کہ اکثریت گمراہ ہوتی ہے اور اقلیت حق پر ہوتی ہے بلکہ ان میں اہل حق کیلئے یہ حوصلہ ضرور ہے کہ اقلیت میں ہونے کے باوجود اپنی بات پر ڈٹے رہیں اور محض اسلئے حق کو نہ چھوڑیں کہ اکثریت مخالف ہے۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کا اقتدار اسلئے کامیاب رہا کہ اکثریت ان کے ساتھ تھی۔ حضرت عثمانؓ کو خلافت شوریٰ میں اکثریت کی بنیاد پر ملی اور جب اکثر لوگ مخالف ہوگئے تو تخت خلافت پر شہید کردئیے گئے۔ جس سے آج تک اُمت اختلاف و انتشار کی کیفیت سے نہیں نکل سکی ۔ حضرت علیؓ کی خلافت کو اکثریت نے قبول نہیں کیا تو با صلاحیت ہونے کے باوجود خلافت کامیاب نہیں رہی۔حضرت حسنؓ نے اکثریت کی وجہ سے امیر معاویہؓ کو خلافت سپرد کردی۔ رسول اللہْ ﷺ نے امارت کے حوالے سے مغرب کے جمہوری نظام کی ہی تائید فرمائی ہے اور پیشین گوئیوں میں پہلی خلافت کا امام مہدی کے حوالے سے مغربِ اقصیٰ کا ذکر ہے۔ جمہوری طرز عمل سے وجود میں آنے والی خلافت سے ہی زمین و آسمان والے دونوں کے دونوں خوش ہوسکتے ہیں۔ اگر خلافت راشدہ کے دورسے جمہوری نظام رائج ہوتا تو ہماری اسلامی خلافت بدترین خاندانی بادشاہتوں میں تبدیل نہ ہوتی۔ درباری اور پیشہ ور مولویوں اور شیخ الاسلاموں نے بہت کم تعداد میں حق کی آواز بلند کی ہے۔ آنیوالے بارہ خلفاء قریش پر اُمت اکھٹی ہوگی لیکن بڑے بڑوں نے حقائق کو جان بوجھ کر مسخ کرکے رکھا دیا ہے۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے 22اگست کے اعلان لا تعلقی سے قبل کہا تھا کہ اگر جنرل(ر) احسان کو الطاف بھائی کے پاس جائے تو الطاف بھائی ہر بات مانیں گے اور اب بھی مختلف رہنماؤں کو جنرل احسان کیساتھ بھیج دیا جائے تو الطاف حسین واپس آجائیگا، اگر الطاف اس ناراضگی کی حالت میں مر گیا تو کم عقل عقیدتمند مہاجروں کے دلوں کو صاف نہ کیا جاسکے گا۔

فوج اور عدلیہ کیلئے خصوصی استثناء مگر کیوں؟ عتیق گیلانی

Fauj-Aur-Adlia-k-liye-khususi-istesna-magar-kiun

فوج اور عدلیہ کیلئے خصوصی استثناء مگر کیوں؟

مشکل وقت آئے توقومی اتحاد سے بڑی نعمت اور انتشار سے بڑی بیماری کوئی نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ گالی بن گئی، اسٹیبلٹی استحکام ہے، ریاست مستحکم نہ ہوتو بہت بڑی بدنصیبی ہے۔ رسول اللہﷺ کے دور میں حضرت خالد بن ولیدؓ نے استحکام کیلئے قتل وغارت کی تو نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’اے اللہ! میں خالد کے فعل سے بری ہوں‘‘۔ ریاستی استحکام کیلئے فوجی اہلکار حدود سے بھی تجاوز کرلیتے ہیں مگر ان سے رعایت برتنا فطرت اور سنت کے مطابق ہے۔
خالد بن ولیدؓ سپاہ سالار تھے ، رسول اللہﷺ نے غلط اقدام و ظلم پر بری الذمہ ہونے سے زبردست حوصلہ شکنی فرمائی۔ عدلیہ کا جج اور قاضی جو فیصلہ کرے وہ 100 فیصد غلط بھی ہوسکتاہے ۔غلطی پر سزا دی جائے تو کوئی منصف نہ بنے۔ حضرت خالدؓ کی غلطی سے نبیﷺ نے برأت کرکے بتادیا کہ دنیا میں پکڑ سے محفوظ ہے تو آخرت کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ جبکہ قاضی اور جج کیلئے واضح کیاکہ ’’اگر وہ اجتہاد کرکے درست فیصلہ دیگا تو2نیکیاں ملیں گی ایک اجتہاد کی، دوسری ٹھیک بات تک رسائی کی۔ اگر غلطی کرلی تو اس کو ایک نیکی ملے گی ‘‘۔ اگر یہ ضمانت نہ ملتی تو کوئی اچھا ، تقویٰ دار آدمی قاضی اور جج بننے پر آمادہ نہیں ہوسکتا تھا۔
حضرت ابوبکرؓ نے منصبِ خلافت سنبھالاتو ریاست کو شدید عدمِ استحکام کا سامنا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے زکوٰۃ دینے سے انکار کرنیوالوں کی سر کوبی کیلئے حضرت خالد بن ولیدؓ کی قیادت میں لشکر بھیجا، اس موقع پر حضرت خالد بن ولیدؓ سے یہ زبردست غلطی سرزد ہوگئی کہ مالک بن نویرہ کو قتل کرکے اس کی خوبصورت بیگم سے جبری شادی بھی رچالی۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ ’’اس جرم پر خالد بن ولیدؓ کو سنگسار کردیا جائے‘‘۔حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ ’’ ان کی اس وقت ہمیں ضرورت ہے، اسلئے سزا دینے کے بجائے تنبیہ پر اکتفاء کرلیتے ہیں ‘‘۔
قرآن وسنت کی سمجھ نہیں اسلئے صحابہؓ کے واقعات سے مذہبی طبقے قاصر اور فرقہ وارانہ عصبیت کا شکار ہیں۔ بدری قیدیوں سے فدیہ لینے پر مشاورت ہوئی تو حضرت ابوبکرؓ کی رائے فرمان نبویﷺ ارحم امتی بامتی ابی ابکر’’ میری امت میں سب سے زیادہ امت پررحم کرنیوالے ابوبکر ہیں‘‘ کے مطابق دشمن مشرکینِ مکہ کیلئے بھی رحم کی اپیل تھی جبکہ حضرت عمرؓ نے مشورہ دیا کہ ’’جو میرا قریبی رشتہ دار ہے، اس کو میں قتل کروں ، علیؓ، ابوبکرؓ اور عثمانؓ سب اپنے اپنے قریبی رشتہ داروں کو قتل کریں، کوئی زندہ نہ جائے ‘‘۔ نبیﷺ نے فرمایا :واشدھم فی امر اللہ عمر’’ صحابہؓ میں سب سے زیادہ اللہ کے حکموں میں سخت عمرہیں‘‘۔ مشاورت مکمل ہوئی تو نبی ﷺ نے فرمایا کہ ابوبکرؓ کی رائے ابراہیم ؑ کی طرح ہے ، یعنی کفار کیلئے رحم کی اپیل اور عمرؓ کی رائے نوح ؑ کی طرح ہے ۔فرمایا کہ ’’ روئے زمین پر کوئی کافر باقی نہ رہے‘‘۔ ابراہیم ؑ کی رائے پسند ہے اسلئے رحم کا فیصلہ ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ ’’ نبی کیلئے مناسب نہ تھا کہ اسکے پاس قیدی ہوں یہانتک کہ زمین میں خوب خونریزی کرتے۔ تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے، اگر پہلے سے اللہ لکھ نہ چکا ہوتا تو تمہیں سخت عذاب دیدیتا۔ جن سے تم نے فدیہ لیا ہے اگر انکے دل میں خیرہے تو اس فدیہ کے بدلے اللہ اور زیادہ دے گا۔ اور جن کے دل میں خیانت ہے تو اللہ پھر بھی ان سے نمٹ لے گا‘‘۔
نبیﷺ کو علم تھا کہ اللہ نے حضرت نوحؑ کی بات کو قبولیت بخشی اور حضرت ابراہیم ؑ کی اپیل قبول نہیں کی مگر پھر بھی حضرت ابراہیم ؑ کی بات کو ترجیح دی، جب طائف میں نبیﷺ کے خون بہانے پر اللہ ذوالجلال کا غضب جوش میں آیا تو بھی نبیﷺ نے ان کیلئے ہدایت کی دعا فرمائی اور یہ بھی فرمایا کہ اگر ان کی تقدیر میں ہدایت نہیں تو ان کی اولاد کو ہدایت عطاء فرمانا۔ بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ باپ کی قسمت میں ہدایت نہیں ہوتی تو اللہ بیٹے کو ہدایت دیتا ہے۔ ابوجہل بدر میں مارا گیا تو اس کا بیٹا عکرمہؓ بن ابی جہل ایک مخلص صحابی بن گیا۔ حضرت امیر حمزہ کو شہید کرنیوالا وحشیؓ اور کلیجہ چبانے والی ہندہؓ کو بھی ہدایت مل گئی۔ جن کیلئے نبیﷺ نے چاہا کہ انہیں ہدایت ملے مگر نبیﷺ کے ہاتھ میں اپنی چاہت پوری کرنا نہ تھی۔ انک لا تھدی من احببت ’’بیشک آپؐ جس کو چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے‘‘۔
قرآن میں اللہ نے واضح طور پر فرمایا کہ ’’ بدری قیدیوں پر فدیہ لینا مناسب نہ تھا‘‘ ۔ لیکن جو فیصلہ ہوگیا اس پر عمل در آمد روکنے کا حکم نہ دیا بلکہ تنبیہ کے باوجود اس پرعمل در آمد ہی کروایا۔ یہ اللہ کا حکم تھا: وشاورھم فی الامر واذا عزمت فتوکل علی اللہ ’’ کسی خاص بات میں مشاورت کریں، جب عزم کرلیں تو اللہ پر بھروسہ کریں‘‘۔ نظام زندگی میں کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ ’’ مشاروت کے نتیجے میں کوئی عزم اور فیصلہ کیا جائے تو گومگو کی کیفیت میں مبتلاء رہنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ غلطیوں سے سبق سیکھا جاسکتا ہے‘‘۔ بدری قیدیوں پر مفسرین کی رائے دیکھ لی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ حقائق سے انحراف کرتے ہوئے معاملات بالکل غلط سمت لے گئے ہیں۔ قرآنی آیات اپنی جگہ مفصل ہیں، ہر چیز کی تفصیل بھی ان میں موجود ہے۔ان میں کوئی تضاد نہیں بلکہ ایکدسرے کیلئے تفسیر کی حیثیت بھی رکھتے ہیں۔اگر نبیﷺ کا فیصلہ غلط یا غیر مناسب تھا تو نبیﷺ کی معصومیت پر سوال اٹھے گا۔جس کا جواب بعض بہت معتبر مفسرین نے یہ دیا ہے کہ یہاں نبی سے مراد کوئی اور ہے اسلئے کہ نبی ﷺ کا ہر قول وفعل حکم الٰہی تھا تو اس کو غیرمناسب کیسے قرار دیاسکتا تھا؟۔
مفسرین نے یہ توجیہ بہت غلط کی بلکہ قرآن کی واضح آیت کا انکار کیا کہ نبی سے مراد نبیﷺ نہیں تھے تو نعوذ باللہ اور کس کو نبی کہا گیاہے؟۔ نبیﷺ نے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کا جنازہ پڑھایا تو اللہ نے منع فرمایا۔ کوئی اور اتنی جرأت نہ کرتا کہ اس کھلے گستاخ کا جنازہ پڑھنے کی ہمت کرتا۔ نبیﷺ نے ثابت کیا کہ جب اللہ منافقین کو جہنم کا سب سے نچلا درجہ دیتا ہے تو رئیس المنافقین کیلئے مرنے کے بعد بھی نبیﷺ کا دل مبارک رحم کرنے کی اپیل سے نہیں چوکا بلکہ اللہ کو کہنا پڑا کہ اگر 70مرتبہ بھی استغفار کرو گے تو اللہ نے اس کو نہیں بخشنا ہے،یہ دنیا کے سامنے نبیﷺ کی رحمت للعالمین ہونے کی بہت بڑی سند ہے۔ جب آیت سے ثابت ہو جائے کہ نبیﷺ ہی مراد تھے تو کیا اس سے یہ ثبوت مہیا ہوتاہے کہ نبیﷺ کا اسوۂ حسنہ بہترین نمونہ نہیں تھا؟۔ یہ اقدام غلط تھا اور درست وہی تھا جو بدر کے قیدیوں کو معاف کرنے کے بجائے ان کا زمین میں خون بہادیا جاتا؟؟؟؟؟؟؟۔
نبیﷺ کا اسوۂ حسنہ بیشک بہترین نمونہ تھا ، وہ جو زمین میں خدا بنے پھرتے ہیں ان کا تعلق فوج، عدلیہ ، سیاستدان، علماء اور صوفیاء جس طبقے سے بھی ہو اور غلطی کے امکان کو اپنی توہین سمجھتے ہیں ان کیلئے ڈوب مرنے کامقام ہے کہ نبیﷺ کی سیرت طیبہ کو اللہ نے بطور نمونہ پیش کیا۔ صحابہ کرامؓ کی بھاری اکثریت کا مشورہ رحم کی اپیل کا تھا اور حضرت عمرؓ و سعدؓ کی رائے مختلف تھی تو اللہ نے اکثریت کے مشورے پر عمل بھی ہونے دیا مگر اقلیت کی بات کو درست کہنے کی مثال قائم کردی۔ کیا اس سے ڈکٹیٹر شپ کی راہ ہموار ہوسکتی تھی ؟، کیا اس سے جمہوری اکثریت کاقائد دوسروں کی تضحیک کا حق رکھتا ہے؟۔ حقیقی مسئلہ یہ نہ تھا کہ کافر نے جہاد کے دوران خوف سے کلمہ پڑھ لیا اور حضرت عمرؓ نے ناقابلِ قبول قرار دیکر قتل کردیا بلکہ مدینہ سے بدر کی بڑی مسافت کا راستہ تھا، 70قیدیوں کو لانے میں بہت وقت لگ گیا، ہم ہوتے تو اللہ سے شکوہ کرتے کہ وحی نازل نہ کی اور جب اللہ کے حکم مشاورت پر عمل کیا تو اسکو غیر مناسب قرار دیکر عذاب کی وعید بھی سنادی۔ ایسا اسلام ہمیں بالکل نہیں چاہیے۔
مسلمان شام سے آنیوالے قافلے کی لالچ میں گئے تو مشرکوں کا بہت بڑا لشکر آیا ، اللہ نے فرشتوں کی مدد سے مسلمانوں کو فتح سے نوازا، مسلمان اتنے نمک حرام نہ تھے کہ اللہ کی طرف سے تنبیہ پر برا مناتے۔ نبیﷺ کا فیصلہ بالکل 100فیصد درست تھا، اللہ کو بھی یہی منظور تھا تب ہی مشاورت اور فیصلے سے پہلے وحی بھی نازل نہیں کی اور ان آیات کے ذریعہ مسلمانوں کی تعلیم وتربیت کا اہتمام کیا کہ قیامت تک وحی کا سلسلہ بند ہوگا۔ جب ٹی وی اسکرین پر 2پیسے کمانے والے ریاستوں کے اہم معاملات پر بک بک کرنا شروع کریں تو ان میں اس بات کا شعور ہونا چاہیے کہ مصلحت کی کار گزاری پر زیادہ سوالات اٹھانے سے تمہاری قابلیت نہیں بلکہ تعلیم وتربیت کا فقدان نظر آئیگا۔بک بک کرنیوالا اپنا جائزہ لے۔
غزوہ احد میں مسلمانوں کوشکست ہوئی تو نبیﷺ اور صحابہؓ نے سخت انتقام کی بات کہہ دی۔ اللہ نے فرمایا کہ کیا ہوا ؟، اگر تمہیں زخم لگا ہے تواس سے پہلے ان کو بھی زخم لگ چکا ہے۔ کسی کے انتقام کا جذبہ اس حد تک نہ اُبھارے کہ اعتدال سے ہٹ جاؤ۔ جتنا انہوں نے کیا ہے تم بھی اتنا ہی کرو، اگر معاف کردو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے بلکہ معاف ہی کردو، اور ان کو معاف کرنا بھی اللہ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے خود ہی بدر کے قیدیوں پر فدیہ لینے کے فیصلے کو غیرمناسب کہا اور خوب خونریزی کی خواہش ظاہر کی، جسکے نتیجے میں اُحد کی شکست پر انتقام کا جذبہ ابھرنا تھا۔ صحابہؓ نے معاف کرنے کا مشورہ دیا تو اللہ نے خون بہانے کی بات کہی اور صحابہؓ انتقام لینے پر آمادہ ہوئے تو اللہ نے معاف کرنے کا حکم دیا۔ دونوں آیات میں تضاد نہیں اعتدال کا راستہ تھا۔ چنانچہ پھر اللہ نے یہ وضاحت بھی کردی کہ جنگی قیدیوں کو فدیہ کے بدلے چھوڑ دو یا بغیر فدیہ کے ، تمہیں اسکا اختیار ہے۔ اولی الامر کی حیثیت سے نبیﷺ نے جو فیصلے فرمائے تھے ان واقعات کے ذریعے سے قیامت تک قرآن میں تمام اولی الامر کیلئے بہترین مثالیں قائم کرنی تھیں۔
حضرت عمرؓ کی طرف سے حضرت خالد بن ولیدؓ کو اس غلطی پر سنگسار کرنے کا مشورہ بھی قرآن وسنت کی تعلیم و تربیت کے نتیجے میں درست تھا اور حضرت ابوبکرؓ نے بھی درگزر سے کوئی غلط فیصلہ نہیں کیا ۔ کوئی کہہ سکتاہے کہ پھر بھی معاملہ خلط ملط نظر آتاہے ،قرآن نے کوئی واضح سمت متعین نہیں کی ؟ لیکن یہ بالکل غلط ہے۔ بدر کے قیدیوں میں اقرباء پروری کا جذبہ پنہاں تھا ، قریبی رشتہ داروں کو قتل کرنا بہت بڑے دل گردے کا کام ہے ، یہ حقیقت ہے کہ حضرت نوح ؑ نے سب کافروں کیلئے موت مانگی اور دعا قبول ہوئی تو بیٹے کے کفر پر دھیان نہ گیا۔ حضرت ابراہیمؑ نے اپنے مشرک باپ کیلئے بھی مرنے کے بعد دعا کی تھی۔ اُحد کے انتقام میں بھی اقرباء کے انتقام کا جذبہ تھااسلئے اللہ نے معاف کرنے کا حکم دیا تھا۔ حضرت علیؓ کے چہرے مبارک پر دشمن نے تھوک دیا تو سینے سے اترگئے کہ اب ذاتی انتقام کا جذبہ بھی شامل ہوگیاہے۔ صحابہؓ سے محبت اور دشمنی کی بنیاد پر فرقہ وارانہ تعصبات کو انتشار کا ذریعہ اور اپنے مفادات حاصل کرنیوالے غلیظ طبقات کو اپنی اصلاح پربھی توجہ دینی ہوگی۔
بڑا مسئلہ یہ ہے کہ خالد بن ولیدؓنے ہنگامی حالت میں قتل وغارت کی تھی تو فوجی کیلئے کرفیو کے دوران گولی مارنے کی اجازت سمجھ میں آتی ہے مگر جبری شادی پر معافی کیسے ملی اور اللہ کی بارگاہ میں حضرت خالدبن ولیدؓ کیلئے اتنی بڑی فحاشی والی حرکت کے باوجود ہم کیسے صحابیت کے تقدس کا تصور رکھ سکتے ہیں؟۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بہت بڑا گناہ تھا اور حضرت عمرؓ نے ٹھیک مشورہ دیا تھا کہ اس پر سنگسار کردیا جائے لیکن یہ ایک اضطراری کیفیت کی بات تھی ، خالد بن ولیدؓ کا یہی مشغلہ نہ تھا۔ اللہ نے فرمایا : الذین یجتبون کبائرا لاثم والفواحش الا اللمم ’’ جو اجتناب کرتے ہیں بڑے گناہوں اور بڑی فحاشیوں سے مگر کبھی کبھار‘‘۔ حضرت آدم ؑ کا شجرہ کے قریب جانے سے مشاجرات صحابہؓ تک اللمم کبھی کبھارکی ایک لمبی داستان ہے۔ جب خوشحالی کادور آتا ہے تو حضرت داؤد ؑ کے بارے 99بیگمات کے باوجود اپنے مجاہد اوریا کی بیگم سے شادی کی خواہش پر واضح تنبیہ آتی ہے کہ لی نعجۃ ولہ تسع وتسعون نعجۃ ’’ میرے پاس ایک دنبی ہے اور اسکے پاس 99دنبیاں ہیں‘‘ جس پر حضرت داؤد ؑ نے اللہ سے مغفرت طلب کی اور معاف کیا گیا، رسول اللہﷺ کے دل میں حضرت زیدؓ کی بیگم حضرت زینبؓ سے طلاق کے بعد شادی کی خواہش تھی مگر نبیﷺ نے عوام کے خوف سے اس خواہش کو چھپایا۔ اللہ نے فرمایا کہ’’ جس چیز کو آپ چھپارہے تھے ، اللہ نے اس کو ظاہر کرنا تھا‘‘۔کسی انسان کا دل اسکے اپنے اختیار میں نہیں ہوتا ، جائز اور ناجائز خواہش کسی کے دل میں بھی داخل ہوسکتی ہے۔ نبیؐ نے ایک خوبرو خاتون کو دیکھا اور نفسانی جذبہ ابھرا تو اپنی بیگم سے شہوت پوری کرلی اور فرمایا کہ جس کی نظر ناجائز جگہ پڑے اور خواہش ابھرے تو اپنی بیگم سے خواہش پوری کرلے اسلئے کہ جو چیز اسکے پاس ہے جس سے خواہش ابھری ہو تووہی اس کی بیوی کے پاس بھی موجود ہے۔
اللہ واضح طور پر کہتاہے کہ ’’ اپنے نفسوں کی پاکی بیان مت کرو، اللہ جانتا ہے کہ کون کتنا پاکی رکھتا ہے‘‘۔ اللہ کی ذات ہی نفسانی خواہش سے پاک ہے اسلئے کہ وہ بیوی، بیٹے اور بیٹیوں کے تصور سے بالکل پاک ذات ہے۔ انبیاء کرام ؑ اور صحابہ کرامؓ فرشتے نہیں تھے بلکہ حضرت آدم ؑ کی آل ا ولاد تھے۔حضرت یوسف علیہ السلام کے پیچھے آقا کی بیگم پڑی توفرمایا کہ میں نفس کو بری نہیں کرتا مگر اللہ نے میری حفاظت کردی۔ جو نفس نہیں رکھتا وہ کھدڑا بھی خدا کا بندہ ہے مگر نفسانی خواہش سے بچنے میں یہ کمال نہیں۔ حضرات انبیاء ؑ کمالات والے انسان تھے۔ بعض صوفیاء اور علماء نے اپنے کرتوت پر پردہ ڈالنے کیلئے لکھ دیا کہ ’’ حضرت زیدؓ نے نبیﷺ کی خواہش کیلئے غیرت کی قربانی دی اور داؤد ؑ نے اپنے مجاہد کی بیگم سے بدکاری کا جرم کیا‘‘ ۔یہ انتہائی گھناؤنے الزام ہیں اور ان تہمتوں کا اللہ کو حساب دیدیا ہوگا۔
حضرت داؤد ؑ نبی اوربادشاہ وخلیفہ تھے۔ اجتہادکا تقاضہ پورا کرکے دو قوموں کے درمیان فیصلہ کیا ، وہ انصاف کا تقاضہ پورا سمجھ رہے تھے مگر آپ ؑ کے صاحبزادے حضرت سلیمان ؑ نے کہا کہ ’’ اس سے ایک قوم کو انصاف ملے گا مگر دوسری قوم محروم ہوگی اور پھر خود ہی دونوں قوموں کے درمیان فیصلہ کردیا‘‘۔ داؤد ؑ نے فیصلہ کیا تھا کہ کھیت والوں کو نقصان کی قیمت میں جانور دئیے جائیں ۔ سلیمان ؑ نے فیصلہ دیا کہ کھیت جانور والوں کے ذمہ لگایا جائے جب تک وہ اپنی پوزیشن پر بحال نہ ہو اس وقت تک جانوروں سے کھیت والے اپنا فائدہ اٹھائیں۔ حضرت سلیمان ؑ کے بارے میں اللہ نے واضح کیا کہ ہم نے اس کو زیادہ فہم دیا تھا۔ حضرت داؤد ؑ اور حضرت سلیمان ؑ ہر ایک ہدایت پر تھے۔حضرت آدم ؑ کو اس شجرہ کے قریب جانے سے منع کیاگیا، جس سے آدمی بھوکا اور ننگا ہوجاتاہے۔ شیطان نے کہا تھا کہ میں تمہیں ہمیشہ رہنے والے شجرہ کی نشاندہی کردوں؟۔ پھر بیوی سے مباشرت کا طریقہ بتایا اور حضرت آدم ؑ نے جذبہ سے بے بس ہوکر اسکے قریب نہ جانے کے حکم کی خلاف ورزی کی مگر اللہ سے کہا کہ میں نے اپنے اختیار سے نہیں کیا ۔ حکم عدولی پر اللہ نے معافی دیدی مگر اسکے نتیجے میں قابیل پیدا ہوا، جس نے ہابیل کو اپنی نفسانی خواہش کی تکمیل کیلئے قتل کیا تھا۔

جماعت اسلامی کے بانی مولانا ابو اعلیٰ مودودی نے درس نظامی کی تعلیم حاصل نہیں کی تھی.

maulana-maududi-ne-ulmaa-k-dabao-pr-dharhi-rakhi

جماعت اسلامی کے بانی ابواعلیٰ موددی نے درسِ نظامی کی تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی، مولانا محمد منظور نعمانی اور دانشور طبقے نے جماعت کی آبیاری کی۔ علماء کے دباؤ پر داڑھی رکھی اور بتدریج اسی دباؤ کے نتیجے میں اتنی بڑھائی کہ پہلے کے مودودی اور بعد کے مودودی میں یہ واضح فرق نظر آیا جو تصویر میں دیکھ سکتے ہیں۔
علماء داڑھی رکھوانے کے بعد علیحدہ بھی ہوگئے۔ ایک عرصہ تک جماعت اسلامی اور علماء کرام کے درمیان شدید اختلاف بھی رہا اور مولانا مودودی نے یہ بھی کہا کہ ’’ اگر علماء نے مجھے قبول کرلیا تو سمجھ لو کہ علماء جیت گئے اور میں مشن ہار گیا ہوں‘‘۔ مولانا مودودی سے الگ ہونیوالے بڑے علماء نے ’’ الہ‘‘ کے تصور پر بنیادی اختلاف کا ذکر کیا۔
مولانا مودودی نے حق حکمرانی پر اقتدار کے حوالہ سے ایک الٰہ کا تصور پیش کیا۔ اسلام اور اقتدار کو لازم وملزوم قرار دیا ۔ شاہ ولی اللہ کے نعرے فک النظام اور للہ الامر کو بلند کیا ، جس کو بعد میں جمعیت علماء اسلام اور جمعیت طلبہ اسلام نے اپنا ’’ماٹو‘‘ بنالیاہے۔ مودودی نے درسِ نظامی پڑھا ہوتاتو نصاب کی اصلاح پر توجہ دیتے۔ درسِ نظامی وقرآن وحدیث کی تعلیم سے عاری مولانا مودودی کی صلاحیت قابلِ رشک تھی مگر وہ درختوں سے زرد پتے جھاڑتے رہے، شاخوں اور تنوں کی طرف توجہ نہ دے سکے۔ سیدمودودی نے کہا کہ حج نہ کرنیوالا کافر ومرتد ہے اسلئے کہ حدیث ہے کہ ’’جو حج کی استطاعت رکھتا ہے اور حج نہیں کرتا تو اس کی مرضی ہے کہ یہود بن کر مرے یا عیسائی‘‘۔ علماء نے کہا کہ فقہ میں حج نہ کرنیوالے کو کافر کہا گیاہے تو سید مودودی نے کہا کہ ’’حدیث کے مقابلہ میں کسی فقہ اور اصول فقہ کو نہیں مانتا‘‘۔ علماء نے فتویٰ لگادیا کہ ’’مولانا مودودی گمراہ ہے، کیونکہ فقہ کو نہیں مانتا‘‘، حالانکہ فقہ میں نمازنہ پڑھنے پر کافر ہونے کا اختلاف فقہی اماموں کے درمیان موجود ہے مگر فتویٰ نہیں لگایاگیا۔
مولانا مودودی کمیونزم کیخلاف لڑے مگر جہاں سے مولانا نے الہ کا تصور شروع کیاتھا، جس اللہ نے سود کو اللہ اور اسکے رسول ﷺ سے اعلانِ جنگ قرار دیا، اس سودی نظام کی گود میں روس کے خلاف جہاد کا آغاز ہوا تو منافقانہ طرزِ سیاست مجبوری بن گئی جس سے جماعت نکل نہ سکی۔ ضیاء الحق، نوازشریف کو اسلامی جمہوری اتحاد میں کندھا دیا گیا۔ متحدہ مجلس عمل و ملی یکجہتی کونسل کے ڈرامے رچائے گئے۔ نظریاتی جماعتِ اسلامی کی تبرکات بھی نہیں رہی ہیں۔ قاضی حسین احمد ڈھولک اور سراج الحق نے یوم مئی پر لال ٹوپی پہن لی مگر وہ سمجھتے ہیں کہ گناہ کیوں معاف نہیں ہوتا؟ ۔ وہ اپنے اصل کی طرف آئیں تو بات بنے!۔
حدیث میں مزارعت کو سودقرار دیاگیا۔ امام ابوحنیفہؒ ، مالکؒ و شافعیؒ نے متفقہ ناجائز کہا۔ نبی ﷺ نے اڑھت کی دلالی اور ذخیرہ اندوزی کی ممانعت فرمائی جو ساری کمائی کھا جاتے ہیں۔ مدارس کا نصاب درست ہونا چاہیے۔جماعت اسلامی مقصد کی طرف سفر شروع کرے تو اسکے پروں میں طاقتِ پرواز آسکتی ہے۔ مہرے کی طرح استعمال ہونے کا انجام ٹشوپیپر کی طرح ڈسٹ بین ہوتاہے اور جماعت اسلامی اپنی آنکھیں کھول لے۔

عالم اسلام کے سیاسی مذہبی مسائل کا حل کیا ہے؟

alam-e-islam-k-siasi-mazhabi-masail-ka-hal-kya-hai

رسول اللہﷺ نے 25سال کی عمر میں 40سال کی حضرت خدیجہؓ سے نکاح کیا اور آپﷺ بچپن سے بتوں سے بیزارتھے۔ بتوں سے بھرے کعبہ کو چھوڑ کر غارِ حراء کو مسکن بنایا تو پہلی وحی نازل ہوئی ۔ ’’پڑھ اللہ کے نام سے جس نے پیدا کیا، انسان کو لٹکے عضوء سے پیدا کیا۔ پڑھ تیرے عزت والے ربّ کی قسم ! جس نے قلم کے ذریعے سکھایا۔ انسان کو سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا‘‘۔ پہلی وحی میں انسان کو اسکے پیدائش کے اوقات بتادئیے۔ اللہ رب العزت کا مقام باورکرایا کہ انسان کی حقارت پیدائش کا آلۂ تناسل ہے ۔ اللہ رب العزت جس نے قلم سے وہ سکھادیا، جو وہ نہیں جانتاتھا
جاہل ابوجہل وابولہب انکار نہ کرسکتے کہ جہالت کے باوجود اپنے مقام کا دعویٰ کرنے والے جس چیز سے پیدا کئے گئے۔ کوئی معزز بات نہیں، عضوء کا نام تک لینا گوارا نہیں۔ مگر کیسے باور کریں کہ قلم کی طاقت سے کوئی غلام بھی اپنے سردار سے زیادہ معزز بن سکتاہے۔ آخر کار جہالت نے تمام تر بدمعاشی، دہشت گردی اور منافقت کی انتہاء کرنے کے باوجود اس مدرسہ کے اصحابؓ کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے جس کا آغاز اقراء کے لفظ سے ہوا تھا۔ مشرکینِ مکہ کے جاہل قلم اور علم سے عوام کو ڈراتے تھے،اب جاہلوں کے جانشینوں نے اسلامی لبادہ اوڑھ کر جاہلوں کا وہی کام کیا۔
اب کون دیکھتا ہے تیرے شمس کی طرف
سورج مکھی کے پھول شعاعوں سے ڈر گئے
مکہ فتح ہواتو رسول ﷺ نے حضرت علیؓ کی بہن اُم ہانیؓ کے مشرک شوہر کو پناہ دی۔ کیا مشرک شوہر مؤمنہ کو نکاح میں رکھ سکتا تھا؟۔ حضرت علیؓ نے قتل کا فیصلہ کیا اور اُم ہانیؓ اپنے شوہر کو زندہ رکھنا چاہتی تھیں، فیصلہ رسولﷺ نے حضرت اُمّ ہانیؓ کے حق میں کردیا۔ کیا یہ حضرت علیؓ کی شکست اور اُمّ ہانی کی جیت تھی ؟ رائے کی غلطی یا صواب فتح اور شکست نہیں بلکہ تحقیق ہے۔ سورۂ مجادلہ دیکھ لیجئے ، اللہ نے رسول ﷺ سے بحث وتکرار کرنیوالی حضرت خولہ بنت ثعلبہؓ کے حق میں وحی اُتاردی۔ نبیﷺ نے مشاورت کرکے بدر کے قیدیوں پر فدیہ لینے کا فیصلہ فرمایا تو اللہ نے کہا کہ’’ نبی کیلئے مناسب نہ تھا کہ آپکے پاس قیدی ہوں، یہانتک کہ زمین میں خوب خونریزی کریں‘‘۔ آےۃ آئینہ ہے کہ نبیﷺ نے جب مشاورت کے بعد فیصلہ کیا مگر وحی بر عکس نازل ہوئی تو اسے انا کا مسئلہ نہیں بنایا بلکہ زارو قطار روئے، اللہ نے مسلم امہ کی تربیت کرنی تھی تاکہ روشن خیالی دل ودماغ میں سرایت کرجائے کہ وحی نے نبیﷺ کی رہنمائی کی تو کوئی اپنے آپ کو مولائے کل نہ سمجھے۔ مولانا اور علامہ نے ہٹ دھرمی چھوڑ کر حقائق کو قبول کرنا ہوگا۔
مولانا فضل الرحمن اور علامہ ساجد نقوی کو ایک جگہ بیٹھ کر پوری قوم کو سمجھانا ہوگا کہ ہم مرد ہیں اور مرادنگی کو پسند کرتے ہیں۔ قرآن میں موجود آیات اور سیرت طیبہ کے واقعات اگر عوام اور دنیا کو سمجھائے گئے تو اسلامی انقلاب کی آمد میں کوئی دیر نہیں لگے گی۔ اپنی بلّیوں کو اپنی تھیلیوں میں چھپانا مسائل کا حل نہیں۔
اُمّ ہانیؓ نے شروع میں اسلام قبول کیا مگر ہجرت نہیں کی۔ فتح مکہ کے بعد اسکا شوہر چھوڑ کر گیا تو نبیﷺ نے بجائے طعن کے شادی کی پیشکش کردی۔اُمّ ہانیؓ نے عرض کیا کہ یہ میرے بچوں پر گراں گزریگااور معذرت کرلی تو نبیﷺ اس خاتونؓ کی تعریف فرمائی۔ پھر اللہ نے آیات نازل کیں کہ رشتہ داروں میں جن خواتین نے ہجرت نہیں کی،ان سے نکاح نہ کریں۔پھر فرمایا کہ ’’آج کے بعد کوئی پسند آئے تب بھی اس سے نکاح نہ کریں‘‘۔
رسول ﷺ نے لونڈی ماریہ قبطیہؓسے حرمت کی قسم کھائی تو اللہ نے وحی نازل کی کہ ’’جسے اللہ نے تیرے لئے حلال کیا ،اسے خود پر کیوں حرام کرتے ہو، اپنی ازواج کی مرضی کیلئے‘‘۔ چندآیات ، سیرت طیبہ کے واقعات کو دنیا کے سامنے رکھا جائے تو کئی پیچیدہ فقہی مسئلے، فرقہ وارانہ عقائد، بین الاقوامی مسائل حل ہوجائیں گے۔ قانونی نکاح پر زنا کا فتوی نہ لگایا جائیگا۔کسی مؤقف پر ہٹ دھرمی کا جواز نہ رہیگا، ہتک آمیزکارٹون ختم ہونگے،مسلک سازی، فرقہ بندی ، جدّت طرازی ختم ہوگی۔
شیعہ سنی نے ایکدوسرے کو قرآن کا منکر اور تحریف کا قائل قرار دیا مگر اپنے نصاب کی اصلاح نہ کی۔ شدت پسندوں نے قربانیاں دیں اور جبہ ودستار فرشوں نے ہمیشہ مزے ہی اڑائے، اب حقائق کی طرف آنا پڑے گا۔

بریلوی مکتب نے مولانا طارق جمیل پر تنقید سے اپنائیت کا مظاہرہ کیا مگر یہ تنقید غلط ہے

Imam-of-Bohri-community-Mufaddal-Saif-Uddin-sahab-first-time-ever-with-Maulana-Tariq-Jameel-sahab
تبلیغی جماعت کے مولانا طارق جمیل ،مفتی زبیر وغیرہ وفد نے داؤدی بوہرہ جماعت کے سربراہ سے ملاقات اور تحائف کا تبادلہ کیا، جسکی ویڈیو سوشل میڈیا پر عام ہوئی۔ بریلوی مکتب نے تنقید سے اپنائیت کا مظاہرہ کیا،مگر یہ تنقید غلط ہے۔ قائداعظم آغا خانی تھے، جنازہ علامہ شبیر احمد عثمانی نے پڑھایا۔

حور وں کا مذہبی جنون اور خواتین کا احساس کمتری

angels-heaven-women-hoor-molana-masood-azhar-javed-ahmed-ghamdi-molana-khalid-mehmood
دنیا میں خواتین کی اکثریت شوہرکی محبت میں بے حال رہتی ہے مگر سوکن کاخوف رہتا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ سے نبی کریمﷺ کی ازواج مطہرات امہات المؤمنینؓ تک سوکن سے خواتین متأثر رہی ہیں۔
یہ دنیا دارالامتحان اور آخرت کی کھیتی ہے۔ اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے، مرکے بھی چھین نہ پایا تو کدھر جائیں گے؟۔ حوروں سے خواتین کو کتنی تکلیف ہے؟ یہ تو وہ جانیں اور انکا کام جانے۔ کتنے صوفی حوروں کی تمنا میں راہب بن گئے، تبلیغی جماعت، دعوت اسلامی اور مذہبی لوگ قربانی پر قربانی دے رہے ہیں،جنت کی دیگر ساری نعمتیں بھی شاندار ہیں لیکن موٹی آنکھوں والی حوروں نے انہیں جنون کی حد تک پہنچادیا۔ نوجوان خوبرو جوان بیگمات کو پیشاب کی تھیلیاں قرار دیتے دیتے سال سال، ڈیڑھ ڈیڑھ سال کیلئے جماعتوں میں حوروں کی ادا پانے کی قیمت پر نکل جاتے ہیں۔ کوئی ذوق میں جسم پر بارود باندھ کر سمجھ رہاہے کہ نمرود کی آگ عبور کرکے جب دوسری پار پہنچیں گے تو حوروں کا بے تاب جھرمٹ استقبال کررہا ہوگا۔
اللہ نے فرمایاکہ ’’جو اس دنیامیں اندھا تھا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی ہوگا‘‘۔ حوروں کی اندھی محبت میں حقوق العباد کی دھجیاں اُڑانے والے نہیں سوچتے کہ دنیا میں اپنی بیگمات کے حق کا خیال نہیں رکھا تو ایسا نہ ہو کہ آخرت کی فضاء میں بھاگ رہے ہوں تونامراد مردوں کو اپنی بیگمات بھی چھوڑ دیں ۔ فرعون کی دنیاوی بیگم کا نکاح آخرت میں رسول اللہﷺ سے ہوگا۔ یہ نہ ہوکہ جو حوروں کے متلاشی ہوں ان کو حوروں کا ملنا تو کجا اپنی بیگمات سے بھی ہاتھ دھونا پڑ جائیں۔ جن خواتین میں فطری غیرت ہو اور نیک وبد کی درمیانی زندگی گزاری ہوں تو ان کا مقام بھی وہاں پر اعراف ہوسکتاہے۔
حضرت آدم علیہ السلام جنت میں اپنی ہم جنس حضرت حواء کے بغیر حوروں کی جھرمٹ میں بھی پریشان تھے۔ جنس کے معانی ہم نسل کے بھی ہیں، منطق میں انسان بھی حیوان کی جنس ہے، اردو زباں میں خواتین ومرد کیلئے الگ الگ جنس کا تصورہے مگر حقیقت کی زباں میں انسان ایک جنس ہے جس میں مردو خاتون شامل ہیں۔ جاوید غامدی نے اپنی صلاحیت کو استعمال کرکے قرار دیا کہ حور کا الگ سے وجود نہیں بلکہ دنیا میں موجود خواتین کو قرآن میں حور کہا گیا۔ حالانکہ یہ غلط ہے کیونکہ حوروں کی صفات بیان کی گئیں ، یہ بھی ہے کہ کسی آنکھ نے ان کو دیکھا تک نہیں ہوگا تو جاوید غامدی کی مجلس میں ٹی وی اسکرین پر نمودار ہونے والی خواتین کیسے وہ حوریں ہوسکتی ہیں؟۔بڑی آنکھوں والی خیموں کی زینت ہوں گی۔
اسلام دین فطرت ہے، اگر خواتین کو یقین ہوجائے تو زنجیروں سے باندھ کر کرینوں کی مدد سے بھی ان کو جنت میں ڈالنا مشکل ہوگا۔ وہ سب کچھ برداشت کرسکتی ہیں مگر اپنی ایسی سوکنیں برداشت کرنا انکے بس کا کام نہیں ۔ مفتی نظام الدین شامزئی کے مرید مولانا خالد محمود مجلس علمی لائبریری جمشید روڈ کے منتظم تھے۔ نماز کی امامت کیلئے کوشش کے باوجود آگے نہیں ہوتے تھے۔ ایک دن مجھے کہا کہ میں اللہ کی ذات اور اسلام کا منکر بنا ہوں، میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ ایک سائنس کی کتاب پڑھی ہے جس میں جہاد کی جگہ اب روبوٹ نے لی اور قرآن میں ہے کہ سورج کا سفر جاری ہے جبکہ سائنس نے ثابت کیا کہ زمین ہی اپنے گرد اور سورج کے گرد گھومتی ہے اور معاملات سارے الٹے ہوگئے۔ جس نے سائنس اور اسلام کے حوالہ سے’’ پاکستان اور جدید دور کے تقاضے ‘‘ لکھے ، وہ ایم اے تھا جو سائنس اور اسلام دونوں سے بالکل جاہل تھا۔
بہرحال میں نے مولانا خالد محمود سے کہہ دیا کہ اگر آخرت نہیں، آپ محض ایک مادہ ہو پھر آپکے قتل سے بھی کوئی فرق نہ پڑیگا؟، اس نے کہا کہ میری تو یہی دنیا ہے، اگر یہ بھی خراب ہوگئی تو میرے ساتھ ظلم ہوگا۔خواتین حوروں کی باتیں سنتی ہیں تو اکثریت سمجھ رہی ہے کہ ان کی یہی دنیا ہے، جنت میں کیا بنے گا؟۔ مولانا خالد محمود کو میں نے فوری طور سے بتادیا کہ آپ نے جس کتاب کا مطالعہ کیا اس کا علم سے تعلق نہیں ۔ قرآن میں سورج کے جس سفر کا ذکر ہے ، سائنس اس کی قائل ہے،اسلئے کہ کائنات تسلسل کیساتھ سفر میں ہے تو سورج بھی اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ پھروہ مطمئن ہوگئے اور کہا کہ میں نماز پڑھ رہا ہوں اور آپ قیامت میں گواہی دینا کہ میں اسلام پر ایمان رکھتا تھا۔ میں نے کہا: آپ نماز نہ بھی پڑھیں تو بھی آپکے اسلام کی گواہی دوں گا۔ نبیﷺ نے اس کا جنازہ پڑھانے سے انکار فرمایا جسکے ذمہ قرضہ تھا۔ اور جس پر حقوق العباد کا معاملہ نہ تھا لیکن نماز، روزہ، حج اور دیگر احکام کا کوئی عمل کسی نے نہ دیکھا تھا اور ایک آدمی نے گواہی دی کہ وہ مسلمان تھا اور ایک رات اس نے جہاد کے دوران بھی چوکیداری کی ہے تو نبیﷺ نے نہ صرف اسکا جنازہ پڑھایا بلکہ جنت کی خوشخبری بھی سنادی کیونکہ حقوق العباد کی شکایت نہ تھی ۔
میری بات سن کر مولانا خالد محمود زار وقطار رونے لگے اور کہا کہ رسول اللہﷺ کتنی عظیم شخصیت کے مالک تھے، ایک موقع پر اونٹ کی رسی اٹک گئی اور اونٹ مشکل سے نظر آیا تو کچھ نے مذاق اڑایا کہ ’’ نبیﷺ کوکس طرح سات آسمانوں سے عرش کی خبر ملتی ہے اور یہاں قریب میں اونٹ کا پتہ نہیں چلتا‘‘۔ اس وقت آپﷺ چاہتے تو ان لوگوں سے سخت انتقام لیتے کیونکہ آپ ﷺ کے صحابہؓ ہر بات مان لیتے تھے مگر نبیﷺ نے درگزر سے کام لیا۔ کہاں نبیﷺ کی عظیم شخصیت ،کہاں انبیاء کے وارث کہلانے والوں کا اخلاق اور بدترین رویہ؟۔ یہ علماء ومفتیان آخرت کا یقین نہیں رکھتے، بس اپنی دنیا بنانے کیلئے مذہب کا لبادہ اوڑھ رکھاہے، کہیں اور مفاد مل جائے تو اسکے پیچھے جائیں گے۔ مولانا خالد محمود نے جن اشکبار آنکھوں سے رسول اللہﷺ سے اپنی محبت کا اظہار کیا تھا ، اس نے علماء حق کے ارواح کو بے چین کردیا اور ان کا بلاوا آگیاتھا اور شہادت حق کی منزل پر فائز ہوگئے تھے۔
مسلمان خواتین مطمئن رہیں کہ حوروں سے ان کو قطعی طور سے کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ کیونکہ جنسی تعلق آدم زاد کا صرف آدم زاد سے قائم ہوسکتاہے۔ فقہ حنفی کے اصول کی کتاب ’’نورالانوار‘‘ میں لکھاہے کہ انسان کا ہم جنس کے علاوہ کسی سے نکاح جائز نہیں ۔ جنات اور سمندری انسانوں سے نکاح کرنا شریعت میں جائز نہیں۔ جنات سمندری مخلوق کے مقابلہ میں الگ ہیں، اصول فقہ میں سمندری انسان بحری مخلوق ہے لیکن عام انسان کی طرح ہے ۔
جب ہمیں مولانا بدیع الزمانؒ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں اصول فقہ پڑھارہے تھے تو بتایا کہ ایک شخص سمندر کے کنارے کھڑا دیکھ رہا تھا کہ اچانک سمندری آدمی نمودار ہوا، جس کو اس نے پکڑلیا۔ ابھی پکڑ رکھا تھا کہ سمندر سے ایک عورت بھی باہر نمودار ہوگئی۔ اس کو بھی پکڑ نا چاہا کہ مرد بھی ہاتھ سے چھوٹ گیا ، اور وہ عورت بھی پکڑنے سے پہلے سمندر میں کود گئی اور غائب ہوگئی۔ اس وقت ہمیں یقین آیا اور تمنا بھی پیدا ہوئی کہ یہ منظر نظر آجائے۔
تحقیقاتی اداروں نے سمندر کی کھوج لگائی مگر سمندری انسان کا وجود نہیں جو فقہاء کی خواہشات نے تراش رکھاتھا آج مدارس میں پڑھایا جاتاہے کہ سمندری انسان سے شادی جائز نہیں اسلئے اس کی جنس دوسری ہے۔
جانور، پرندے اور درخت کی فیملی اور جنس میں قدر مشترک ہو تو تعلق قائم ہوسکتا۔حوروں کا کام رونق ، جلوہ ،انسیت اور کھیل تماشہ ہے حوریں آدم زاد نہیں،ان سے جنسی تعلق قائم کرنا شریعت کیخلاف نہ ہو تو انسانی فطرت کیخلاف ضرور ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ مرد جب حوروں سے جنسی تسکین حاصل کرینگے تو کیا خواتین غلمان سے چشم پوشی کرسکیں گی؟۔ اسلئے غیرت کا تقاضہ ہے جو اللہ نے خواتین کی فطرت میں بھی ڈالا ہے کہ حوروں اور غلمان سے جنسی تسکین کا گمان نہ رکھاجائے بعض بے غیرت و بدفطرت قسم کے ملاؤں کو غلمان سے غیرفطری حرکتوں کی خواہش بھی رہتی ہے۔ جسکاپشتو کے نامور شاعر غنی خان نے ذکر کیا۔ جب جنت کے درست تصورات کا علم ہوجائیگا تو بعید نہیں کہ دنیا میں حالات سدھارنے کیلئے مذہبی طبقات ٹھیک سمت سفر کرنا شروع کریں اور بہت بڑا اسلامی انقلاب برپا ہوجائے۔
مولانا امیر بجلی گھر جمعیت علماء اسلام کے صوبائی نائب امیر تھے مگر مایوس ہوگئے تھے۔ مجھ سے کہاکہ ’’ آپ جوان ہیں ، جوانی میں خون کا جوش کام کرنے کا ہوتاہے، آپ اچھی سمت محنت کرتے ہیں مگر دوسروں کا اتحاد تو بہت دور کی بات ہے، مولانا سمیع الحق و مولانا فضل الرحمن کو بھی اکٹھا نہ کرسکوگے‘‘۔ انہوں نے خطاب میں کہا کہ ’’ افغانستان میں صحابہؓ کے مزاروں کو روس نے تباہ کیا تواللہ نے روس کو تباہ کردیا، عراق میں اہلبیت کے مزارات امریکہ تباہ کررہاہے، اللہ امریکہ کو تباہ کریگا، عراق کی پیٹھ پرعبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ لڑ رہے ہیں، امریکہ نہیں جیت سکتا‘‘۔ میں نے لکھ دیا کہ بجلی گھر مولانا دیوبندی ہیں مگر عقیدہ بریلویوں کاہے۔ بریلویوں کا عقیدہ درست ہورہاہے اور بڑے مولانا کا عقیدہ خراب ہے اور جہاد کا حکم اللہ نے زندوں کو دیا ہے ، مولانا اس کو مردوں کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں، جب تک ہم درست اسلام کی طرف نہ آئیں ہمارے ملکوں کو غیروں کی دسترس سے بچا نہیں سکیں گے۔درسِ نظامی میں فقہ حنفی والوں کے اصول اچھے ہیں مگر کم عقلوں کا قبضہ ہے۔ کعبہ میں 360بتوں کے مجسمے رکھ دئیے ہیں۔ جس دن اصول فقہ کے اصولوں اور قرآن وسنت کے مطابق ایک فضا قائم کی گئی تو مدارس کے علماء ومفتیان ملت کی سیاسی باگ ڈور بھی سنبھالیں گے مگر ضروری ہے کہ نصاب سے اقسام و انواع کی غلطیاں نکال لیں۔ علماء کے بدلنے کی دیر ہے ، پھر انقلاب کا ترانہ گایا جائیگا۔ اگر میں شیعہ، بریلوی ، اہلحدیث ہوتا تو پذیرائی ملتی مگر علماء دیوبند کا میرے ساتھ سلوک وہ رہاجو یزید کاحضرت حسینؓ کیساتھ تھا۔ ہندو شاعرہ دیوی روپ کمار نے کہا کہ
بے دین ہوں ، بے پیر ہوں
ہندو ہوں ، قاتلِ شبیرؑ نہیں
حسینؑ اگر بھارت میں اُتارا جاتا
یوں چاند محمدؐ کا ، نہ دھوکے میں مارا جاتا
نہ بازو قلم ہوتے ، نہ پانی بند ہوتا
گنگا کے کنارے غازیؑ کا علم ہوتا
ہم پوچا کرتے اُس کی صبح و شام
ہندو بھاشا میں وہ بھگوان پکارا جاتا

قرآن کا غلط ترجمہ و تفسیر فرقہ واریت کی بنیاد ہے. محمد منیر مُلا

qatar-nawaz-sharif-ashraf-ali-thanvi-ahmad-raza-khan-barelvi-surah-fatah-syed-atiq-ur-rehman-gailani

کراچی نمائندۂ نوشتہ دیوار محمد منیر ملا نے کہا کہ قرآن کا غلط ترجمہ و تفسیر فرقہ واریت کی بنیاد ہے عرصہ ہوا کہ میڈیا متضاد بیانات، شواہد اور ججوں کے فیصلے و ریمارکس سے وزیراعظم نوازشریف اور اسکے خاندان کی دھجیاں اڑا رہا ہے، پانچ ججوں نے متفقہ طور سے آزادنہ ٹرائیل کا موقع دینے کے بعد نااہل قرار دیدیا مگر اپنا کوئی گناہ ماننے کیلئے وہ تیار نہیں ہیں، پھر کیسے نبیﷺ کے بارے میں یہ تصور مانا جائے کہ اللہ نے اگلے پچھلے گناہ کا کہا؟۔ بریلوی مکتب کے علامہ غلام رسول سعیدیؒ نے مولانااحمد رضا خان بریلویؒ کے ترجمہ سے اختلاف کیا تو مفتی شاہ حسین گردیزی نے اس پربڑی کتاب لکھی۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ کواس ترجمہ پر کافر قراردیاگیا مگر پھر بریلوی مکتب کا آپس میں بھی اس آیت کے ترجمہ پر شدید اختلاف سامنے آیا۔ رسول ﷺ کی طرف گناہ کی نسبت اور آپﷺ کے والدین پر گناہ کی تہمت غلط ہے۔ قرآن کا درست ترجمہ و مفہوم فرقہ واریت کاحل ہے۔ قرآن کے مفہوم پرنبیﷺ کی ذات اور والدین کریمین پر فرقہ واریت، انانیت، خود غرضی کا مظاہرہ کرنے سے بڑی گمراہی کیاہوسکتی ہے؟ ۔ حضرت جنید بغدادیؒ نے تو اپنی شہرت، دولت اور بادشاہ کی قربت کی قربانی دیکر ایک سید کو جتوایا تھاجسکے گھر کی ضروریات نہیں چل رہی تھیں تو بڑی ولایت مل گئی۔ سید عتیق الرحمن گیلانی اپنی ذات کیلئے نہیں بلکہ لازوال قربانیوں کی تاریخ رقم کرکے اس قرآن کی دعوت دے رہا ہے جو عزت کا لٹیرا نہیں محافظ ہے۔ جس سے دور ہوکر مسلم اُمہ خوار ہوگئی ہے، قومی ایکشن پلان پر عمل کی غرض سے حکومت، عدلیہ اور فوج مل کر اکابر علماء سے نکاح، طلاق، حلالہ اور قرآن کے ترجمے پرصرف تفتیش کر لیں۔ صوبائی حکومتیں بھی یہ کام کرسکتی ہیں ۔اسی سے تعصبات اور جہالتوں کا خاتمہ ہوگا۔
علماء ومفتیان، مذہبی سیاسی جماعتوں کا ہی یہ کام تھا مگران کو فرصت نہیں ملتی ہے، جب فرقہ وارانہ تعصب نہ رہے گا تو علماء سیاسی پلیٹ فارم پربھی اکٹھے ہوسکیں گے، حکمران کرپشن میں ڈھیٹ ہیں، اکابر علماء جہالت پر ڈھیٹ ہیں، دونوں اپنا کردار اور نظریہ ٹھیک کریں۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی نے حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ’’ دجال سے زیادہ خطرناک چیز حکمران اور لیڈر ہیں‘‘۔ (علامات قیامت و نزول مسیحؑ : مفتی رفیع)
مولانا فضل الرحمن نے حضرت ابوبکرؓ سے منقول رسولﷺ کی حدیث طالبان اور انکے امیر پرفٹ کی تھی، خراسان سے دجال اور اسکے لشکر کا حدیث میں ذکرہے، لیکن اگر ملا عمرخراسان کا دجال اور طالبان اسکا لشکر تھا تو کیا حکمران اور علماء کے کردار کو حدیث کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت نہیں ؟۔ خراسان سے ایک مہدی نکلنے کا بھی ذکر ہے، بعض علماء نے ملاعمرؒ کو مہدی قرار دیاہے۔ ایک ایسے اسلامی انقلاب کی بھی نوید ہے جس میں زورو جبر کا تصور بھی ختم ہوگا۔ قرآن وسنت کا حقیقی خاکہ دنیا کے سامنے پیش ہوجائے تو پاکستان کو یہ سعادت مل سکتی ہے۔
حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ نے اپنی کتاب ’’ عصر حاضر حدیث نبویﷺ کے آئینہ‘‘ میں علماء، مفتیان، عوام، حکام سبھی کی تصویر پیش کردی ہے۔ مولانا یوسف لدھیانویؒ ختم نبوت کے مرکزی رہنما بھی تھے اور جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے ماہنامہ البینات کے مدیر بھی تھے۔ جن علماء و مفتیان نے حاجی عثمانؒ پر فتوے لگائے ، ان میں مولانا یوسف لدھیانویؒ کا نام بھی شامل کیا گیا تھا۔ حاجی عثمانؒ نے اپنی وفات سے پہلے سید عتیق الرحمن گیلانی کو وصیت کی کہ مولانا یوسف لدھیانوی کا مؤقف ضرور پوچھ لینا۔ مولانا یوسف لدھیانویؒ کے پاس ہمارا وفد گیا تو انہوں نے بات ٹالنے کی کوشش کی مگر جب سید گیلانی نے فتوے پر شرعی نکتے سے تنقید کی تو مولانا لدھیانویؒ نے فرمایا کہ ’’میں نے یہ نہیں لکھا، مفتی جمیل خان نے لکھ کر میری طرف منسوب کیا، مجھے حاجی عثمانؒ سے بڑی عقیدت ہے، انکے طفیل اپنی مغفرت کی دعا کرتا ہوں، یہ ساری مفتی رشید لدھیانوی کی خباثت تھی، جس طرح امام مالکؒ کا نام دنیا میں روشن ہے اور ان پر فتوے لگانے والوں کو کوئی نہیں جانتا، اسی طرح حاجی عثمانؒ کا نام زندہ رہے گا اور فتوے لگانے والے تاریخ سے مٹ جائیں گے‘‘۔ مولانا یوسف لدھیانویؒ نہ صرف خود بلکہ اپنے دامادوں کو بھی حاجی عثمانؒ کے مزار پر لے جایا کرتے تھے۔
حاجی عثمانؒ پر فتوے میں سب زیادہ جاندار اعتراض یہ تھا کہ ’’ نبیﷺ کی طرف منسوب اس حدیث کا انکار کیا ہے جس میں حضرت عائشہؓ نے آپﷺ سے عرض کیا تھا کہ اللہ نے آپکے اگلے پچھلے گناہ معاف کئے تو اتنی مشقت کیوں کرتے ہیں؟۔جس پر نبیﷺ نے فرمایا کہ’’ کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں‘‘۔ حاجی عثمانؒ نے مشاہدات دیکھنے والے خلیفہ سے کہاتھا کہ اس حدیث کے بارے میں رسول اللہﷺ سے پوچھ لو۔ خلیفہ ابراہیم نے بتایا کہ ’’رسول ﷺ نے فرمایا کہ حدیث تو میری ہے لیکن الفاظ میں ردو بدل ہے‘‘۔ ان الفاظ میں بنیادی بات رسول اللہﷺ کی طرف گناہ کی نسبت تھی اور یہ الفاظ قرآن کی آیت کا ترجمہ کرکے لئے گئے تھے۔ حاجی عثمانؒ کو گناہ کی نسبت کا معاملہ رسول اللہﷺ کی طرف قبول اسلئے نہیں تھا کہ پھر معصومیت پر اثر پڑتاتھا۔ اس حوالہ سے اہل علم کے ترجمے اور تفاسیر میں بھی زبردست بحث کی گئی ہے۔ حاجی عثمانؒ کو سید عتیق الرحمن گیلانی نے ہی ایک موقع پر بتایا کہ یہ قرآن کی آیت ہے اور اس کی مختلف توجیہات بیان کی گئی ہیں۔حاجی عثمانؒ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہتاہے کہ یا موسیٰ مگر ہم تو ادب سے نام لیں گے۔ حاجی عثمانؒ نے جو مؤقف اپنایا تھا وہ اکابر علماء کی مستند کتابوں میں بھی موجود تھا۔
یہ مسلم اُمہ کیلئے کتنی بڑی خوشخبری ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے قرآن کا فارسی میں ترجمہ کیا تو ان علماء ومفتیان نے کفر اور واجب القتل کے فتوے لگائے جو فارسی میں نماز پڑھنے کو امام ابوحنیفہؒ کی طرف سے نہ صرف جائز بلکہ عربی سے زیادہ مناسب قرار دے رہے تھے۔ اپنے نصاب کو ہی نہ سمجھنے والوں نے شاہ ولی اللہؒ کیلئے مشکلات پیدا کردی تھیں۔آج شاہ ولی اللہؒ کے مشن پر فخر کیا جاتا ہے اور دنیا کی بہت سی زبانوں میں قرآن کے تراجم عام ہیں۔ پھر اردو میں ترجمہ کیا گیا توسورۂ فتح کی اس آیت کا ترجمہ فرقہ وارانہ تعصبات و مسلکی اختلافات کو ہوا دینے کا ذریعہ بنا اور آج سید عتیق الرحمن گیلانی کی طرف سے ایسا ترجمہ جو سیاق وسباق کے مطابق ہے۔ جس پر کسی فرقے، مسلک ، جماعت اور کسی بھی نظرئیے کا کوئی بھی آدمی اختلاف نہیں کرسکتا۔ کیا اس کاوش کا یہ نتیجہ نکلنا چاہیے کہ جس طرح شاہ ولی اللہؒ دوسال تک قتل کے خوف سے روپوش رہے اور جاہل قتل کرنے کے درپے رہے؟۔کیا عتیق گیلانی بھی چھپتے پھریں؟۔ جو لوگ آپ پر بزدلی کا الزام آج لگارہے ہیں تو مشرکین مکہ کے جاہل ابولہب، ابوجہل وغیرہ نے بھی تو نبیﷺ پر اس طرح ہجرت کے حوالہ سے یہ الزامات لگائے ہونگے؟،کون کس کی راہ پر چل رہا ہے؟۔ ضلع ٹانک کے تمام اکابر علماء کرام نے تحریری اور جلسۂ عام میں تائید کی ، مولانا نور محمد وانا اور مولانا معراج الدین کو کیوں شہید کیا گیا؟۔
اللہ کا شکر ہے کہ ہر مکتبۂ فکر کے اکابر علماء سے لیکر اصاغر تک نے دل و جان سے ہمارے مشن کی تائید کردی جس پر الگ سے کتابچہ مرتب ہوسکتاہے، اخبار ضرب حق میں جو سرخیاں لگتی تھیں، اس نے تاریخ کا دھارا بدل دیا ۔سید گیلانی کی ہمت اتنی ہے کہ جب انکے تعاقب میں گھر پر دجالی لشکر نے حملہ کرکے13افرادکو شہید کیا تو اطلاع ملتے ہی فیصلہ کیا کہ میدان میں نکلے مگر بھائی نے منع کیا اور پھر اسی وقت تسلی دیتے ہوئے کہاکہ اب تو خلافت قائم ہو گی۔ جواب میں کہاگیا کہ اب ایسی خلافت کو کیا کرینگے؟۔ اپنے ساتھیوں کے پاس خود ہی مختلف علاقے میں گئے۔ ملاقات میں میرے رونے پر تسلی لینے کے بجائے تسلی دینے کے انداز میں فرمایاکہ’’ عورتیں روتی ہیں، مرد نہیں رویا کرتے‘‘۔ اتنے بڑے حادثے کے بعد دوبارہ سب کو چیلنج کرنے کی ہمت اللہ کا بڑافضل ہے۔ دین خیر خواہی کا نام ہے۔ شاہ صاحب ان مظلوموں ، بے کسوں اور فریاد کرنے والے بے بسوں کی آواز ہیں جن کو کوئی نہیں پوچھتا، جن سے ریاستیں ڈرتی ہیں ان کو بھی ببانگ دہل چیلنج کررکھا ہے۔
رات جل اٹھتی ہے شدتِ ظلمت سے ندیم
لوگ اس وقفۂ ماتم کو سحر کہتے ہیں
طوفان کر رہا تھا میرے عزم کا طواف
دنیا سمجھ رہی تھی کہ کشتی بھنور میں ہے

جاوید غامدی کا بیان قرآن نہیں بکواس ہے. اجمل ملک

hazrat-nooh-mufti-taqi-molana-fazal-ur-rehman-maulana-maududi-javed-ahmed-ghamidi-ghulam-ahmed-pervez-ghulam-ahmed-qadiani-islamic-scholars-triple-talaq-quran-syed-atiq-ur-rehman-gailani

نوشتۂ دیوار کے ایڈیٹر محمداجمل ملک نے کہا ہے کہ ہماری کوشش ہے کہ کسی طرح سے حقائق واضح ہوجائیں۔ مساجد کے علماء کرام جو درسِ نظامی کے فاضل ہوتے ہیں،ان کو حق بات کا اعتراف کرنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی۔اسکے برعکس مذہب کے نام پر اپنی دکانیں چمکانے والوں نے بھی لگتاہے کہ مذہب کو معاش کا ذریعہ بنالیا۔اجمل ملک نے جاوید غامدی کے ویڈیو لنک کے ذریعے بیان کا تعاقب کرتے ہوئے پڑھے لکھے جاہلوں کو اس حقیقت سے آگاہ کرنے پر زور دیاہے کہ جاوید غامدی کو ہماری میڈیا میں بڑی حیثیت دی جاتی ہے۔ قرآن پر اسکی معلومات کو سند سمجھا جاتاہے مگر اسکا بیان حقیقت کے کس قدر منافی ہے کہ ’’اور میں محض تفنن طبع کیلئے نہیں کہہ رہا ۔قرآن مجیدکہتا ہے تلک ایام ندالہا بین الناس ہم دنیا کے اقتدار کو ایک لائن میں کھڑا کرکے ایک کے بعد دوسری قوم کو دے رہے ہیں۔ یہ آخری زمانہ ہے، قرآن نے بتایا ہے کہ حضرت نوحؑ کے تیسرے بیٹے یافس کے پاس حکمرانی ہوگی۔ پہلے انکے پہلے بیٹے حام کی نسلوں افریقی اقوام کے پاس حکمرانی رہی۔ دوسرے دور میں دوسرے بیٹے سام سمیٹک نیشن کے پاس اقتدار رہاہے اور اب یہ یافس کی اولاد ہے جو امریکہ آسٹریلیا ، یورپ،وسط ایشیاء میں اور ہندوستان میں بڑی حد تک آباد ہیں۔ تو اللہ نے اپنے اسٹیج پر اب ان کو موقع دے رکھاہے، مسلمان قومیں اپنا وقت لے چکی ہیں،یہ آپکے سوال کے ایک حصے کا جواب‘‘۔
جاوید غامدی کو ہم سازشی ، ایجنٹ اور دغا باز نہیں کہتے۔ ریٹائرڈ کی عمر تک پہنچنے کے بعد اچھے اچھوں کی دماغی صلاحیت بھی ختم ہوجاتی ہے۔ یہ قرآن ہی کی بات ہے۔ اگر دنیا میں ہندوؤں کو بھرپور غلبہ ملتا تو پھر جاوید غامدی یہ بھی کہتا تھا کہ حضرت نوحؑ کا جو بیٹا کنعان دریا میں غرق ہوا تھا، یہ ہندو اسی کی اولاد ہیں ، جس کی نئی جنم سے اللہ نے اقتدار کا وعدہ پورا کردیا، یہ قیامت تک اقتدار میں رہیں گے، ہم اچھوتوں کا کام یہ نہیں کہ اقتدار کی منزل تک پہنچیں بلکہ ہم اپنے نام کیساتھ عربی قبیلہ غامدیہ کی طرح غامدی لگادیں اس سے زیادہ کچھ نہ ہوگا۔یہ پست ذہنیت کی علامت ہے۔
جہاں تک قرآن کی بات ہے تو نوحؑ کی اولاد میں نمایاں حضرت ابراہیم ؑ تھے، جن کی اولاد کیلئے امامت کی دعااور ظالم نہ ہونے کی شرط پر دعا کی قبولیت کا ذکر قرآن میں ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کے ایک بیٹے اسحاقؑ سے بنی اسرائیل تھے، یوسف ؑ کو بھی اقتدار ملا تھا۔
حضرت داؤدؑ اور حضرت سلیمانؑ کو اقتدار ملا تھا اور قریش مکہ نبیﷺ کی بعثت ہوئی ، دنیا کی سپر طاقتوں کو خلافت نے شکست دیدی تھی اور یہ سب حضرت ابراہیمؑ کی اولاد تھے۔ایک بادشاہ جو لوگوں سے زبردستی بیوی چھین لیتاتھا وہ حضرت نوحؑ کے کسی اور بیٹے کی اولاد تھا۔ جواہل فرعون بنی اسرائیل کے مردوں کو ذبح کرتے تھے وہ کوئی اور نسل تھی۔ بنی اسرائیل کو بنی اسماعیل سے بھی جدا کرنا بھی غلط ہے۔
کوئی جھوٹ بولے تو بھی کسی ڈھنگ سے بولے۔ مذہب ایک ایسا حربہ ہے کہ اس میں جھوٹ کی بھی کوئی حد اور ڈھنگ نہیں۔ جاوید غامدی کا بے ڈھنگے جھوٹ میں اس طرح بڑی ڈھٹائی سے اظہار اور میڈیا کا اس کو کوریج دینا انتہائی افسوسناک ہے۔ سیاسی لوگ بے ڈھنگے لگتے ہیں جب سندھی اجرک، بلوچی وپٹھانی پگڑی اور چترالی ٹوپی عوام کو مانوس کرنے کیلئے پہنتے ہیں۔ شہباز شریف پیٹرول کی آگ میں جلنے والوں کے پاس بھی انگریزی ہیڈ پہن کر اسلئے گیا کہ جاویدغامدی کے بیان سے خود کو یافس کی اولاد سمجھتا ہوگا۔ مریم نواز بھی کہتی ہے کہ ’’ ہم حکمران خاندان ہیں‘‘۔
جاوید غامدی نے مزید کہاہے کہ ’’پاکستان پر اللہ نے جن کو حکومت کیلئے منتخب کیاہے۔ وہ تین چار سو خاندان ہیں اور ان کی اولادہیں۔ ایک لمبے عرصے تک یہی رہنا ہے، جب تک ایجوکیشن نہیں بڑھے گی، بہت سے حالات نہ ہونگے تو کوشش کریں کہ یہ کچھ تھوڑے دیندار ہوجائیں، کچھ اخلاقی چیزوں کو مان لیں، لیکن لوگ الٹی کوشش کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ مسجد کے مولوی کو ایوانِ اقتدار میں پہچانا ہے‘‘۔
حالانکہ جاوید غامدی یہ سب کچھ غلط بول رہا ہے۔ مفتی محمودصاحب مسجد کے مولوی تھے مگر اپنی صلاحیتوں سے وزارت اعلیٰ کے منصب پر پہنچ گئے، نوازشریف کا باپ صنعتکار تھااگروہ جنرل ضیاء الحق کی ڈکیٹیر شپ کا سہارا نہ لیتا تو اقتدار کی اہلیت بھی اس میں نہیں تھی، آج بھی اس سے لوٹی ہوئی دولت واپس لی جائے تووہ اور اس کی اولاد اور خاندان میں کچھ صلاحیت نہیں ہے۔جنرل ضیاء الحق، پرویزمشرف اور بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح وغیرہ کا کونسا اقتدار والا خاندانی بیک گراؤنڈ تھا؟۔
جاید غامدی قرآن اور جمہوریت کے نام پر درس دینے کے بجائے پہلے اپنے دماغی علاج کا کوئی بندوبست کریں۔ قرآن اور تاریخ کی موٹی موٹی باتوں کا بھی اس کو علم نہیں ہے اور جمہوریت سے بھی واقف نہیں۔ کسی ادارہ میں پروفیسری کی اور پھر شاید ریٹائرمنٹ کا دکھ لیکر بیٹھ گئے۔ قرآن کہتاہے کہ انسان ایسی عمر کو پہنچ جاتاہے کہ جب وہ علم کے بعد کچھ نہیں سمجھتا۔ ومنھم من یرد الی ارذل العمر لکی لا یعلم بعد علم شئیاً ’’ اور ان میں سے بعض اس رذیل عمر تک پہنچتے ہیں کہ علم کے بعد کچھ سمجھ نہیں رکھتے‘‘۔ افراد ریٹائر ہوتے ہیں، مر جاتے ہیں اور نیست ونابود ہوجاتے ہیں مگر قوموں کے عروج وزوال کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہتاہے جبتک دنیا میں موجود ہوں۔ قرآن مایوس لوگوں کو کافر قراردیتا ہے قرآن مردہ قوموں کو زندگی کی نعمت عطا کرتا ہے، قرآن گری ہوئی قوموں کو عروج بخشتا ہے ۔قرآن دنیا وآخرت کی کامیابی کا ضامن ہے۔ قرآن اللہ پر ایمان دیتا ہے، قرآن موسیٰ کو فرعون سے ٹکرانے کی دعوت دیتاہے تاکہ بنی اسرائیل کو غلامی سے بچائے ، ظالموں کے سامنے لیٹنے کی دعوت قرآن نے نہیں دی ہے، قرآن نے مکہ مکرمہ کے غلاموں حضرت بلالؓ وغیرہ کو ابوجہلوں اور ابولہبوں سے ٹکرایا تھا۔
بدر واحدکے غزوے اور صلح حدیبیہ کا معاہدہ گواہ ہے کہ جاوید غامدی پرلے درجہ کا جاہل ، مکار اور بکواسیہ ہے۔ اگر حکومت اسکے ساتھ ملی ہوئی نہ ہو تو میڈیا پر اس سے درست وضاحت طلب کی جائے، اگر وہ معذور ہو تو یہ غلط درس دینے سے توبہ کرلے۔اس دور میں اسلام کو اجنبیت سے نکالنا مسائل کا حل ہے۔

اجنبی کا تعارف حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں

قال رسول اللہ ﷺ: اذا حضر الغریبَ فالتفتُ عن یمینہٖ و عن شمالہٖ فلم یرالا غریباً فتنفس کتٰب اللہ لہ بکل نفس تنفس الفی الف حسنۃ و خط عنہ الفی الف السیءۃ فاذا مات مات شہیداً(الفتن: نعیم بن حماد)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب اجنبی کو میرے پاس حاضر کیا گیا تو میں نے اس کی طرف دائیں جانب سے التفات کیا اور بائیں جانب سے التفات کیا ، وہ نظر نہیں آتا تھا مگر اجنبی، پس اللہ کی کتاب پوری عظمت کیساتھ اسکے سامنے روشن ہوگئی ، اس کو ہزارہا ہزار نیکیاں ملیں اور ہزار ہا ہزار گناہیں اسکی معاف کی گئیں۔ پس جب وہ فوت ہوا تو شہادت (گواہی) کی منزل پاکر فوت ہوا۔
یہ حدیث امام بخاری کے استاذ نعیم بن حماد ؒ نے اپنی کتاب الفتن میں نمبر 2002 درج کی ہے، یہ اجنبی کا تعارف بتایا گیاہے