پوسٹ تلاش کریں

سورۂ الدہر میں دنیا کے اندر ایک خوشحال انقلاب کا ذکر ہے۔ کرونا کی بیماری نے اس کو واضح کیا ہے۔

جنت میں بہ آسانی نہریں بنانے، نذریں پوری کرنے اور مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلانے کا تصور نہیں ہوگا۔ دنیا ہی میں چوبیس گھنٹے ڈیوٹی دینے والے لڑکے ویٹرہونگے اور نعمت ہی نعمت، بڑے ملک کا زبردست تصور ہوگا!

سورۂ الدہر میں دنیا کے اندر ایک خوشحال انقلاب کا ذکر ہے ۔ پاکستان اور دنیا میں کرونا کی بیماری نے اس کو زبردست طریقے سے واضح کیا ہے۔ علماء اور دانشور حقائق ضرور بتائیں!

جب قرآن کی سورۂ جمعہ ، سورۂ واقعہ اور سورۂ محمد میں آخرین کا ذکر ہے جو دنیا میں طرزِ نبوت کی خلافت قائم کرینگے تو اس انقلاب کے حالات بھی زمانے کے اعتبار سے نقل کئے گئے ہیں۔

سورۂ جمعہ میں ایک صحابہ کرام کی جماعت کا ذکر ہے اور دوسری آخر ین کی جماعت کا ذکر ہے جو پہلوں والوں سے مل جائیںگے۔ سورہ ٔواقعہ میں السابقین کی دو جماعتوں کا ذکر ہے پہلے میں بہت اور آخر میں تھوڑے سے لوگ ہونگے۔ اور دائیں جانب والوں کی بڑی جماعت پہلوں میں سے بھی ہوگی اور آخر والوں میں سے بھی بڑی جماعت ہوگی۔

قرآن میں پہلی جماعت صحابہ کے ذریعے دنیا میں جو انقلاب آیااسکے اثرات (1924ئ) تک خلافت عثمانیہ کی صورت میں موجود تھے۔ اب ترکی وہ اسلامی ملک ہے جس نے سب سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کیا۔ طیب اردگان نے فرانس کے سربراہ مملکت سے ہاتھ نہیں ملایالیکن فرانس کا سفیر اپنے ملک سے نہیں نکالا۔ پہلے اسرائیل کا سفیر ناراض تھا اور اب وہ بھی ترکی کے دارالخلافہ استنبول میں اسرائیلی سفارت خانے میں بیٹھ گیا ہے۔

ایران نے اپنی جمہوری حکومت قائم کررکھی ہے۔ ایران اسلامی ممالک میں سب سے زیادہ طاقتور ملک بھی خود کو سمجھتا ہے جو امریکہ کے حملوں کا بھی جواب دیتا ہے۔ اگر انکے بارویں امام مہدی غائب نے ایران کو دنیا کا جنیوا بنادیا تو اسلامی دنیا خیرمقدم کریگی۔ امام اور انکے ماننے والا طبقہ دوسروں کے جبر اور دسترس سے آزاد ہیں۔ اہل تشیع امامیہ کا عقیدہ ہے کہ امام کی بعثت اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ جب تک امام کا ظہور نہ ہو اپنے عقائد پر مضبوطی سے جمے رہیں۔ اگر انکا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت علی اور دیگر ائمہ سے خلافت کا حق چھین لیا گیا تھا تو ان کو یہ عقیدہ رکھنے کا بھرپور حق ہے۔ اگر بنوامیہ ، بنوعباس اور خلافت عثمانیہ کی جگہ ائمہ اہلبیت کو امامت کا حقدار سمجھتے تھے تو اس میںکچھ براکیا ہے؟۔ اگر وہ خلافت راشدہ کیلئے بھی یہی تصور رکھتے ہیں کہ ان سے انکا حق چھین لیا گیا تھا تو یہ اہل تشیع کی طرح اہلسنت کیلئے بھی زیادہ مفید اسلئے ہے کہ سنی سمجھتے ہیں کہ شیعہ حضرت علی کے حوالے سے شرکیہ عقیدہ رکھتے ہیں۔ جاہل شیعہ کے عقائد کو درست کرنا اہل تشیع کے علمی طبقے کی اپنی ذمہ داری ہے لیکن حضرت علی کیلئے مظلومیت کا عقیدہ رکھنا شرک کے برعکس صحتمند عقیدہ ہے۔ حضرت سعد بن عبادہ انصارکے سردار بھی خود کو خلافت کا حقدار سمجھتے تھے اور ابوبکرو عمر سے ناراض تھے ،یہاں تک کہ انکے پیچھے نماز تک نہیں پڑھتے تھے۔

سورۂ الدھر میں جس انقلاب کا ذکر ہے اس میں نظامِ شمسی کی تپش سے اور سردی کی سختی سے بچنے کی خوشخبری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جنت اور ریشم کا ذکر کیا ہے۔ پاکستان میں زراعت کی کتابوں میں ریشمی کیڑوں کا تعارف ہے اور جب پاکستان میں بڑے پیمانے پر زراعت کی ترقی کیلئے راہ ہموار ہوگی تو بڑے پیمانے پرباغات اور کیڑوں سے ریشمی انڈسٹریاں بھی کھلیں گی۔جس سے خوشحالی کا سفر شروع ہوگا۔ کانیگرم میں ماما پیر کے باغ میں سورج نظر نہیں آتا تھا۔ باغ میں ہوا کم لگنے کی وجہ سے سردی کی زیادہ سختی محسوس نہیں ہوتی ۔ پاکستان کے زیادہ تر لوگوں نے ویسے بھی ایسے باغ نہیں دیکھے ہیں۔ اگر ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہوں تو پورے پاکستان میں باغات کے جال بچھاسکتے ہیں۔ پنجاب اور سندھ کی سرحد سے ہندوستان میں جنگلی نیل گائے، ہرن اور دیگر جانور نظر آتے ہیں۔ درندوں کو آسان شکار فارمی یا گھریلو گائے مل جائیں تو وہ تیز رفتار ہرن، نیل گائے اور مارخور کے پیچھے بھاگنے میں وقت ضائع نہیں کرتے۔ جب قرآن میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کے معبودوں کو بھی برا بھلا کہنے سے منع فرمایا ہے تاکہ وہ ہمارے معبودِ برحق کو برا نہ کہیں تو گائے ہندوؤں کی معبود ہے۔ ہم انکے جذبات کا خیال رکھ کر انکے دل جیت سکتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ گائے کو شہروں اور جنگلوں میں چھوڑ کر جنگلی درندوں سے قیمتی جنگلی جانوروں مارخور وغیرہ کی حفاظت کا سامان کرسکتے ہیں۔ شیروں کا پیٹ گائے وغیرہ کے گوشت سے بھرا ہوگا تو بکری اور شیر ایک گھاٹ پر پانی پئیں گے اور انسانوں کے علاوہ جنگل کے جانوربھی اس نظام سے خوش ہونگے۔

جنگلی جانوروں کی حفاظت اورافزائش نسل کیلئے بڑے پیمانے پر حفاظتی تدابیر کا انتظام بھی کیا جاسکتا ہے۔ ایسی مصنوعی خندقیں، سوراخ اور تعمیرات کا اہتمام ہوسکتا ہے جس میں ہر نوع کے جانوروں کی حفاظت کا اپنے دشمن سے ٹھیک طریقے سے انتظام ہو۔ جب پاکستان ایک امیر ملک بن جائیگا تو اس میں شیشوں اور چاندی کے برتنوں کا استعمال ایک معمول بن جائیگا۔ بادی بھی ایک انسانی کمزوری ہے ۔اللہ نے فرمایا کہ ” آپس میں لڑو مت ، ورنہ تمہاری ہوا خارج ہوجائے گی”۔ قرآن میں ایسے پیالوں کی بات جسکے زنجبیل والے مزاج سے بادی کم ہو یا اس کا اخراج کھلے عام تنگ کرنے کے خلاف مددگار ثابت ہو، اسکا تعلق بھی دنیا ہی کی زندگی سے ہوسکتا ہے۔ ایک ایسا چشمہ جس کا نام سلسبیل رکھا جائے۔ ہوسکتا ہے کہ آب زم زم سے یا خاص نوعیت کا کوئی مصنوعی چشمہ بنایا جائے اور اس میں کوئی خصوصیت بھی ہو تاکہ عوام اور خواص کو مخصوص بیماری ، ہاضمے یا کسی صورت میں کام آئے۔

ویطوف علیھم ولدان مخلدون اذا رأیتھم حسبتھم لؤلؤًا منثورًا ” اور ان کے گرد لڑکے ہمہ وقت گھوم رہے ہوں گے اور جب آپ ان کو دیکھ لیں گے تو ان پر منتشر موتیوں کا گمان ہوگا”۔ انقلاب کے بعد پاکستان میں دنیا بھر سے لڑکی نہیں لڑکے ویٹروں کو نوکری ملے گی ۔ بھارت،عرب، یورپ ، امریکہ ، چین ، آسٹریلیا، روس ، کوریااور دنیا بھر سے غریبوں کو نہ صرف نوکریاں ملیںگی بلکہ انکی اعلیٰ تعلیم وتربیت اور آرام کا بھی مکمل خیال رکھا جائیگا۔ دنیا کو بتایا جائیگا کہ تہذیب وتمدن اور انسانیت کس چیز کا نا م ہے؟ اور پاکستان دنیا کی امامت کے قابل کیوں ہے؟۔ کچرے کے ڈھیر پر کام کرنے والے ہمارے افغانی بھائی بچوں کو صاف ستھرا کرکے ایک مثالی معاشرہ بنایا جائے گا۔ انشاء اللہ وتعالیٰ عزوجل ۔

جب پاکستان صحیح ٹریک پر چڑھ جائیگا تو تمام اسلامی ممالک اور دنیا بھر کے غیراسلامی ممالک بھی انتظامی اعتبار سے جمہوری بنیادوں پر پاکستان سے الحاق کریںگے۔ ایران ، افغانستان کے علاوہ بھارت اور بنگلہ دیش بھی اس کا حصہ بننے کیلئے درخواست دیںگے۔ پاکستان وزیراعظم عمران اور ن لیگ وپیپلزپارٹی کا تجربہ کرچکا ہے۔ امریکہ نے ٹرمپ اور بھارت نے مودی کی بداخلاقی دیکھ لی ہے۔ پاکستان میں اچھی طرزِ حکمرانی سے دنیا میں بڑی خوشگوار تبدیلی آئے گی۔ بھارت سے ہندوانہ رسم وراج کا خاتمہ وہاں کے ہندو خود ہی کردیںگے۔ اچھی نسلوں کے ہندو مسلمان بن جائیںگے تو اس کے زبردست اثرات مرتب ہونگے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ” لوگوں کی مثال معدنیات کی طرح ہے۔ جو لوگ اسلام قبول کرنے سے پہلے سونا اور چاندی کی طرح تھے وہ اسلام قبول کرنے کے بعد بھی ایسی اچھی صفات کے مالک ہیں اور جو لوگ اسلام قبول کرنے سے پہلے بھی خراب تھے تو وہ اسلام قبول کرنے کے بعد بھی ویسے ہی ہونگے”۔ نبیۖ نے حاتم طائی کی بیٹی کو عزت دی تھی اور مروان بن حکم کو اپنے باپ کیساتھ جلاوطن کیا تھا۔

جن لوگوں نے مسلمانوں کے خوف ، رعب ودبدبہ اور لالچ کی وجہ سے برصغیر پاک وہند میں اسلام قبول کیا تھا، ان کی اولادوں نے علماء ومشائخ اور مجاہدین بن کر بھی اعلیٰ اخلاقی معیارات قائم کرنے کی بجائے اسلام کو خیر نہیں پہنچائی۔ کم اصل ہندو بنیوں کی اولادوں نے غریبوں کی زکوٰة اور خیرات پر بھی اپنے اللے تللے اور بہت ساری دولت کا سامان کرلیا ۔ کراچی کے جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے بانی حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری نے ان لوگوں کے کرتوت دیکھ کر اپنے اوپر ہدیہ کی رقم بھی حرام کی تھی۔ ایک سال سے زیادہ زکوٰة کی رقم مدرسے کیلئے نہیں لیتے تھے اور قربانی کی کھالوں کو سب سے اچھا مال سمجھتے تھے لیکن طالب علموں کو کھالوں کیلئے پھر بھی نہیں بھیجتے تھے۔ ہم نے گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے دیکھے ہیں لیکن اپنی ذات کو ان سے بھی کم تر اسلئے سمجھتے ہیں کہ ہر انسان اپنی خامیوں کو دوسروں سے زیادہ سمجھتا اور دیکھتا ہے۔ تعریف صرف اللہ ہی کیلئے ہے۔

ایسی عاجزی اور مروت بھی بیکار ہے کہ جب مخلوقِ خدا کیساتھ ظلم وستم کی انتہاء کی جاتی ہو اور ظالم اپنے کرتوت سے باز نہیں آتے ہوں اور ان کو اپنے سے بہتر قرار دے کر ایک درست سمت کی جدوجہد سے پہلو تہی برتی جائے۔ مدارس میں جانتے بوجھتے اسلام کے نام پر حلالہ کی لعنت کا کاروبار ہورہاہو۔ اللہ نے ایک جان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے تو ایک عورت کی عزت لوٹنے کو قتل سے بھی بڑا جرم قرار دیاہے۔ اگر معلوم ہوجائے کہ قرآن و سنت سے حلالہ نہیں بنتا تب بھی اپنے معتقدین اور عوام الناس کی عزتوںکو لوٹا جائے تو اس سے بڑا جرم روئے زمین پر کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا ہے۔

پاکستان کی ریاست اور حکومتوں کی نالائقی، نااہلی اور کرپشن کی داستان 73سالوں سے بلاشبہ اپنی انتہاء کو پہنچی ہوئی ہے جس میں بہت لوگوں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے لیکن اسلام کے نام پر بہت کچھ ہورہاہے اور خلافت راشدہ کے دور میں حضرت عثمان کی شہادت اور اس سے پہلے اور بعد کے ناسازگار حالات و واقعات سے موجودہ دور تک بتدریج مختلف ادوار میں جو کچھ ہوتا رہاہے وہ بھی بہت افسوسناک ہے۔ مسلکوں اور فرقوں کے نام پر جس طرح اسلام کو باقی رکھا گیا ہے اسی طرح پاکستان کے ساتھ بھی سلوک روا رکھا گیا ہے۔ عالم اسلام میں ایٹم بم اور بہت سی خوبیوں کیساتھ پاکستان ممتاز ہے تو یہاں کے علماء ومشائخ کا بھی ممتاز مقام ہے۔

جس طرح بدترین جمہوریت بہترین امریت سے بہتر کہلاتی ہے اسی طرح اچھے سرکاری علماء سے چندوں پر گزارہ کرنے والے علماء ومشائخ کا اخلاق وکردار بہت بہترین ہے۔ ہمارا مقصد دل سے کسی کی برائی نہیں ہے۔ صرف جمود توڑنا چاہتے ہیں۔ علمائ، سیاستدان، فوجی اور مجاہدین سب میں ہم سے زیادہ اچھائیاں اور صلاحتیںہیں اور جب انقلاب آئے گا تو سب کو عزت ہی ملے گی۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

سورۃ الدہر میں زمانے کا انقلاب، نہروں سے پانی کی ترسیل کا نظام اور پاکستان

سورة الدہر میں زمانے کا انقلاب ، سہولت کے ساتھ نہروںسے پانی کی ترسیل کا نظام اور پاکستان میں اس پر عمل سے عالمِ اسلام کی اخلاقیات اورپوری دنیا کی تقدیر بدلنے اور طرزنبوت کی خلافت کا زبردست انداز میں آغاز

پاکستان جیسی بہترین قوم پوری دنیا میں کہیں بھی نہیں ،جب اسکی اقتصادی حیثیت مستحکم ہوجائیگی تو انسانیت اور اسلام کی روح پر عمل کرنے میں ہم بہت بہترین رول ماڈل ہوں گے!

مولانا فضل الرحمن اور اس کی جماعت محترم محمود خان اچکزئی سے زیادہ جمہوری ہیں اور محترم محمود خان اچکزئی اور اس کی جماعت مولانا فضل الرحمن سے زیادہ انقلابی اور اسلامی ہیں!

اللہ تعالیٰ نے سورۂ دہر میں جن معاملات کا ذکر کیا ہے ان کو نہ صرف مؤمن مانیںگے بلکہ دہری بھی قبول کرلیںگے اور یہ اتفاق الرائے کی پہلی بڑی بنیاد ہے۔ پاکستان میں مؤمن تبلیغی، جہادی ،سیاسی مختلف حوالے سے بٹے ہوئے ہیں لیکن دہریوں کا الگ ٹولہ ہے جو مذہب سے نفرت کرتا ہے۔

ھل اتٰی علی الانسان حین من الدھر لم یکن شیئًا مذکورًا ” کیا انسان پر ایسا لمحہ زمانے میں گزرا، جب وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہیں تھا”۔ سورۂ دہر کی اس پہلی آیت میں ملحدین سے صرف سوال ہے۔ کیونکہ اللہ کو پتہ تھا کہ مذہبی لوگوں کی احمقانہ حرکتوں کی وجہ سے کبھی وہ دور بھی آئے گا کہ جب اچھے بھلے لوگ الحاد اختیار کرکے اس قدر ہٹ دھرم بن جائیں گے کہ قرآن کی ہر بات کو بالکل منفی طریقے سے لیں گے۔ اللہ نے یہاں سوال اٹھایا ہے کہ کبھی کوئی ایسالمحہ گزرا ہے جب انسان قابلِ ذکر چیز نہ تھا؟۔پھرفرمایا کہ ”بیشک ہم نے انسان کو نطفۂ امشاج (ماں باپ) سے پیدا کیا ، ہم نے آزمائش میں ڈالااور اس کو سننے والا ، دیکھنے والا بنایا ۔بیشک ہم نے راستہ بتایا اس کی مرضی ہے کہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا بنے۔ بیشک ہم نے کافروں کیلئے زنجیریں، طوق اور بھڑکتی آگ تیار کررکھی ہے ، بیشک نیک لوگ ایسے پیالوں سے پئیں گے جن کا مزاج کافوری ہوگا۔ ایسا چشمہ جس سے اللہ کے بندوں کو پانی پلایا جائیگا ، جہاں چاہیں گے اس کی شاخیں نکالیں گے۔ یہ لوگ اپنی نذریں پوری کرینگے اور اس دن سے ڈریں گے جس کا شر ہر جانب پھیلا ہوا ہوگا اور کھانا کھلائیں گے اپنی چاہت سے مسکین، یتیم اور قیدی کو ۔ (کہیں گے) کہ ہم تمہیں اللہ کی رضا کیلئے کھلاتے ہیں، ہم آپ سے کوئی بدلہ اور شکریہ نہیں چاہتے ہیں۔ ہم اپنے رب سے ڈرتے ہیں جو دن سخت مصیبت کا طویل ہوگا۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کو اس دن کے شر سے محفوظ رکھے گا۔ اور انہیں تازگی اور سرور بخشے گا۔ اور ان کو بدلہ دے گا جو انہوں نے صبر کیا باغ اور ریشم۔ جس میں وہ تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے اُونچی مسندوں پر۔ اس میں ان کو سورج نظر آئے گا اور نہ سردی کی سختی اور ان پر اسکے سائے جھک رہے ہوں گے اور ان کے پھل انتہائی دسترس میں نیچے ہوں گے اور ان پر چاندی کے برتن اور شیشوں کے پیالے پھرائے جائیں گے۔ شیشوں کو بھی چاندی سے مرصع کرکے بہترین انداز میں بنایا ہوا ہوگا۔ جس میں ان کو ایسے مشروب پلائے جائیں گے جس کا مزاج ادرک کا ہوگا۔ ایک چشمے کا اس میںنام سلسبیل رکھا جائیگا۔اور ان پر ہمیشہ (چوبیس گھنٹہ فل ٹائم) ویٹرلڑکے خدمات انجام دینگے۔ جب آپ اس کو دیکھیں تو سمجھیں کہ موتی ہیں جو بکھیر دئیے گئے ہیں۔ جب آپ اسے دیکھ لیں اور پھر دیکھ لیں تو نعمتیں ہی نعمتیں ہوں گی اور بہت بڑا ملک ہوگا۔ ان پر باریک ریشم کے سبز اور موٹے ریشم کے کپڑے ہونگے اور زیبِ تن کرائی جائیں گی چاندی کی گھڑیاں اور ان کو انکا رب پاکیزہ مشروب پلائے گا۔ بیشک یہ تمہارا بدلہ ہے اور تمہاری محنت آخر کار رنگ لائی ۔ بیشک ہم نے نازل کیا آپ پر یہ قرآن تھوڑا تھوڑا کرکے۔ پس آپ صبر کریں اپنے رب کے حکم کیلئے اور ان میں کسی کی اطاعت نہ کریں گناہگار اور ناشکراہوکر اور اپنے رب کا نام یاد کریںسویرے اور شام کو۔ اور رات کو اس کو سجدہ کرو اور رات گئے تک لمبے وقت تک اس کی پاکی بیان کریں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو جلدی حاصل ہونیوالی چیز سے محبت کرتے ہیں لیکن چھوڑ دیتے ہیں پیچھے لمبے دن کے انجام کار کو۔ ہم نے ان کو پیدا کیا ہے اور ان کو استحکام بخش دیا ہے اور جب ہم چاہیں گے تو ان کو ان جیسوں کی طرح تبدیل کرکے رکھ دیں گے۔ بیشک یہ ایک نصیحت ہے۔ پس جو چاہے اپنے رب کی طرف جانے والا رستہ اختیار کرے اور تم نہیں چاہتے ہو مگر جو اللہ چاہے۔ بیشک اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ جس کو چاہتا ہے رحمت میں داخل کرتا ہے اور ظالموں کیلئے اس نے درد ناک عذاب تیار کررکھا ہے”۔ (سورہ الدہر۔پارہ نمبر29)

سورہ ٔ دہر سے پہلے سورۂ قیامت کا ذکر ہے۔ سورۂ دہر میں قیامت نہیں دنیا اور زمانے کا ذکر ہے۔ آج دنیا نے اللہ سے بغاوت کرنے کے بعد اپنے لئے زنجیروں، طوق اور بھڑکتی ہوئی آگ کا سامان کرلیا ہے۔ اسلامی ممالک کیساتھ جو کچھ ہوا اور جو ہورہاہے اور جو ہونے جارہاہے اور انسانیت کیساتھ جو کچھ ہورہاہے کیا اس سے بڑھ کر مزید تباہی وبربادی کے بعد انسانیت کے ہوش ٹھکانے آئیں گے؟۔ شاکر شجاع آبادی کہتا ہے کہ ” میری سخاوت بھی حاتم طائی سے کم نہیں جب صبح قلم کی خیرات چلاتا ہوں تو شام ہوجاتی ہے”۔

جب سعودیہ پاکستان کے کام نہ ّئے تو ہماری سوشل میڈیا کے کتے چوبیس گھنٹے عربوں کی برائی کرنے لگتے ہیں اور جب تعلقات بہتر ہوتے ہیں تو چپ ہوجاتے ہیں۔ ہمارا قبلہ اور کعبہ تو اقتصادیات ہیں۔اگر ہماری اقتصادی حالت بہتر ہوتی تو بھونکنے کی ضرورت نہیں پڑتی اور ہمارا اسلام اور ہمارے اخلاقیات بھی بہتر ہوجاتے۔

سعودی عرب میں تیل کے چشمے ہیں اور پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے پانیوں کے پاک چشموں سے مالا مال کیا ہے لیکن ہمیں صاف اور پاک پانی پینے کو بھی نہیں ملتا ہے، جتنے منرل واٹر پر ہمارا اشرافیہ خرچ کرتا ہے ،اگر انہیں پینے کا صاف پانی ملتا اور منرل واٹر کے خرچے مسکین ، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلانے پر صرف ہوتے تو پاکستان میں بدحالی نہیں خوشحالی کا زبردست طوفان آجاتا۔ جنت میں کافوری اور ادرکی مزاج کے پیالوں کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ جراثیم کش کافوری مزاج کے پیالوں اور بادی وغیرہ کے علاج کیلئے ادرک کے مزاج کی مشروبات کی ضرورت اس دنیا میں ہے۔ با آسانی پانی پہنچانے کے طریقے اُخروی جنت نہیں بلکہ دنیا کی جنت کی ضرورت ہیں۔ مولانا مودودی نے لکھا ہے کہ ”جنت میں پھاوڑے اور کدال نہیں ہونگے” لیکن اگر آپ زندہ رہتے اور سہراب گوٹھ میں میلوں کھڑی بھاری مشنری دیکھ لیتے اور پاکستان میں بہترین نہری نظام کا آغاز ہوجاتا تو اپنی تفسیر کی رائے بھی بدل لیتے۔ آسانی کیساتھ نہری نظام کے علاوہ نذریں پوری کرنے اور ایسے دن کے شر سے ڈرنا جس کا شر ہر جانب پھیلا ہوا ہے، اس کا تعلق بھی دنیا سے ہی ہے اور موجودہ کرونا کی بیماری اس کی زبردست مثال ہے۔ جب کبھی خوشحالی کا دور آئے گا تو لوگ نذریں پوری کرینگے کہ ہر اچھے انسان کے خیال میں ایک خواہش ہوتی ہے کہ اگر میرا کاروبار چل گیا تو یہ یہ خدمت غریبوں کی ضرور کروں گا۔ پاکستان کی مثال لے لیجئے ،اگر آج کاروبار چل گیا تو لوگ اس پر عمل کرنا بھی شروع کردیں گے۔ وہ لوگ کاروبار چلنے کے بعد اپنی ہی محبت سے مسکینوں ، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلانا شروع کردیںگے اور کہیں گے کہ ہم اللہ کیلئے کھلاتے ہیں آپ سے کسی ووٹ اور زندہ باد کا نعرہ لگوانے سے ہماری کوئی غرض نہیں ہے۔ ہمیں تو اپنے رب سے ڈر لگتا ہے جو دن بہت سخت اور لمبا ہے اور یہ دنیا میں کرونا کی نئی لہریں ہوسکتی ہیں۔ پھر اللہ ان کو اس دن کے شر سے محفوظ رکھے گا اور ان کو تازگی اور خوشی بخشے گا۔

پاکستان میں نہری نظام سے ایک تو کاروبار بہت بڑے پیمانے پر چمکے گا اور دوسراسستی بجلی پیدا کرنے سے سردی گرمی میں بجلی کی کھپت بہت زیادہ ہوگی۔ پاکستان زرعی ملک ہے، یہاں انواع واقسام کے باغات ہونگے اور نہری نظام سے سستی بجلی پیدا ہوگی تو کھانے پینے اور رہن سہن کی مشکلات کا خاتمہ ہوجائیگا۔ سردی گرمی میں درخت کام آئیںگے۔ پھلوں کی بہتات اور ترقی یافتہ ممالک کا پاکستان بہت ہی اعلیٰ نمونہ بن جائیگا۔

بنوں شہر میں انگریز کے دور سے پانی کی ایک ایسی ٹنکی ہے جو ڈیم سے بھرتی ہے۔ گڈوبیراج میں کتنی بجلی پیدا ہوتی ہے؟۔ حیدرآباد اور کراچی کے درمیان پانی کی نہریں بناکر ایک تو اتنی سستی بجلی پیدا کرسکتے ہیں کہ دونوں ہی شہروں کو بہت کم قیمت پر بڑے پیمانے پر بجلی پہنچ سکتی ہے۔ جہاں غریب اور فیکٹری مالکان چوری کے بغیر سستے بلوں کو ادا کرسکیںگے اور کراچی میں پانی کا نظام بھی بغیر بجلی کے نوری آباد میں ڈیم بناکر اونچی سے اونچی بلڈنگ تک پہنچ سکتا ہے۔ گھروں میں زیادہ بل پانی کی موٹر کیوجہ سے آتا ہے۔ ماحولیاتی آلودگیوں سے پاکستان کو بچانے کیلئے بھی قدرتی نظام کا سہارااچھا رہے گا۔ پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کیلئے کوئی پالیسی نہیں بناتا ہے۔

عمران خان نے الیکشن میں دو جھوٹ بولے۔ ایک یہ کہ پختونخواہ کی پولیس بہت بہتر کردی۔ حالانکہ پختونخواہ کی پولیس پہلے سے نسبتًا بہتر تھی اور دوسرا یہ جھوٹ بولا کہ تین سو (300)ڈیموں سے پختونخواہ کی تقدیر بدل ڈالی ۔ یہ بھی بالکل جھوٹ تھا۔ ہمیں اس سے غرض نہیں کہ صدر، وزیراعظم کون ہو؟۔ ہم پاکستان کی تقدیر بدلنے کی خواہش رکھتے ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ اس کی تقدیر بدلنے میں اللہ تعالیٰ زیادہ وقت نہیں لگائے گا۔ وزیراعظم عمران خان، نوازشریف، شہبازشریف ، پیپلزپارٹی اور مولانا فضل الرحمن نے اپنی بساط کے مطابق ایکدوسرے سے انتقام لینا ہے یا قوم کی خدمت کرنی ہے؟۔ اگر قوم کی خدمت کرنی ہے تو اقتدار میں رہتے ہوئے اور اقتدار سے باہر انہوں نے اپنی اپنی ترجیحات کو بدلنا ہوگا۔ اپنی خوب تعریف اور مخالفین کوبہت ذلیل کر کے یہ کہنا نہیں بنتا کہ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العٰلمین ”ہماری آخری بات یہ ہے کہ سب تعریفیں اللہ کیلئے ہیںجو جہانوں کا پالنے والا ہے”۔ یہ تو اس وقت ہوگا کہ جب پاکستان کو جنت بنائیں گے اور آپس میں ایکدوسرے کا خیرمقدم سلام سے کرینگے۔محمود اچکزئی مولانا فضل الرحمن سے زیادہ اسلامی اور انقلابی اور مولانا ان سے زیادہ جمہوریت پسند ہیں۔لیکن بے بسی کے نتیجے میں محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن اپنی اپنی چال بھول گئے ہیں اور اگر افراتفری پھیل گئی تو پھر سنجیدہ لوگ بھی غیر سنجیدہ ہی بن جائیں گے۔بنیادی تبدیلیوں کی طرف آنا ہوگا۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

پاکستان میں چوراور چوروں کاتعاقب براڈشیٹ اور فارن فنڈنگ میں عیاں!

مشہور تھا کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔اب پاکستان کی ریاست، سیاست اور صحافت سے پردہ اُٹھ چکا ہے۔ جو حال اسلامی جمہوریہ پاکستان کا اصحاب حل وعقد نے کیا ہے،اس سے زیادہ بُرا حال علماء نے اسلام کا کیا ہے

تاہم جس طرح پاکستان واحد ایٹمی ریاست ہے جس کا کریڈٹ سیاست، ریاست اور صحافت کو جاتا ہے اور تمام نااہلیوں کے باوجود اہل پاکستان کی یہ سب سے بڑی خوش قسمتی ہے۔

اسی طرح پاکستان کے علماء ومشائخ نے قرآن وسنت اور اصولِ فقہ کے علاوہ دین اسلام کی روح کو زندہ رکھنے میں بہت زبردست اور بنیادی کردار ادا کیا ہے جو بہت خوش آئند ہے

اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے درمیان طلاق یعنی جدائی کا جواز رکھا ہے۔ جس انداز میں عورت کو تحفظ دیا ہے وہ بھی بہت مثالی ہے اور جس انداز میں صلح واصلاح اور باہمی رضامندی کی شرط پر رجوع کی وضاحت فرمائی ہے وہ بھی بہت مثالی ہے اور جس انداز میں باہمی رضا مندی کے بغیر صلح کی گنجائش کا خاتمہ اور یکطرفہ رجوع کو حرام قرار دیا ہے وہ بھی مثالی ہے اور جس تفصیل و ترتیب کیساتھ وضاحتیں کی ہیں وہ بھی بہت مثالی اور لاجواب ہیں لیکن اسکے باوجود جس کم عقلی، ڈھیٹ پن، ہڈحرامی کا مظاہرہ مذہبی طبقے کررہے ہیں ان کو بھی اس مستقل مزاجی اور استقامت پر بہت زبردست داد اور خراج تحسین پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں جس طرح براڈ شیٹ اور فارن فنڈنگ کیس پر بہت زیادہ بے شرمی، بے حیائی اور بے غیرتی کا مظاہرہ کرنے میں اصحاب حل وعقد اپنی مثال آپ ہیں اسی طرح طلاق کے مسئلے میں علماء ومفتیان اور مذہبی طبقے کی حالت بھی ان سے بالکل مختلف نہیں ہے۔جس طرح براڈ شیٹ میں لندن کی حکومت ،عدالت اور وکالت نے پیسے بھی بٹور لئے ہیں، شرمندہ بھی کردیا اور لٹکتی ہوئی تلوار بھی سر پر رکھی ہوئی ہے اسی طرح سے علماء ومفتیان حلالے کی دنیا میں اپنے عقیدت مندوں سے ناجائز متعہ کرکے بیڑہ غرق کررہے ہیں۔

براڈ شیٹ کمپنی کے سکینڈل نے بڑے پیسے کماکر اس طرح سے سب کو بے نقاب کردیا جس طرح علماء ومفتیان نے حلالہ کی لعنت سے اسلام کی تعلیم پر مذہب میں جعل سازی کوبڑے طریقے سے بے نقاب کردیا ہے۔

میڈیا میں سیاستدانوں اور نیب دانوں کی وکالت کرنے والی صحافت کو بے نقاب کرنے کیلئے لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ دنیا بھر کے میڈیا چینلوں کے سامنے کھڑا کرکے جھوٹ بولنے والے صحافیوں سے پہلے جھوٹ بولنے کی وضاحت مانگی جائے ،اگر وہ معقول وضاحت پیش نہ کرسکیں تو ان کو ایسے کوڑے مارے جائیں کہ پھر وہ بھول کر بھی جھوٹ بولنے کی کوئی ہمت نہ کرسکیں۔ اسی طرح جن سیاستدانوں نے کرپشن کی ہے ان کو بھی جرم کے اعتراف کیلئے میڈیا پر لایاجائے اور سچ نہ بولنے پر کوڑے مارے جائیں۔ اسی طرح نیب اور اسکے سرپرستوں کو غلط پالیسی اختیار کرنے پر سرِ عام کوڑے مارے جائیں۔ پاکستان کی عزت بننا شروع ہوجائے گی تو افغانستان اور ایران کو دعوت دی جائے کہ ہم ایک مشترکہ ریاستی نظام بناتے ہیں۔ پھر ترکی اور عرب ممالک سمیت پوری دنیا کے اسلامی ممالک کو ایک کیا جائے۔

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے

نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر

پاکستان میں بھی جتنے ریاستی ادارے ہیں، سب کی کارکردگی صفر ہے مگر عوام کی نظروں میں صرف سیاستدان و آرمی والے کرپٹ ہیں۔عدلیہ، محکمہ ٔ جنگلات، زراعت، ریلوے، پی آئی اے، تعلیم، صحت، تجارت،میڈیا، انکم ٹیکس، کسٹم،پبلک سروس کمیشن،واپڈا، سول وملٹری بیوروکریسی اور جتنے بھی حکومت ، ریاست اور عوام سے تعلق رکھنے والے ادارے اور افراد ہیں ،سب کی حالت ایکدوسرے سے بدتر ہے لیکن کیا یہ سب ٹھیک نہیں ہوسکتے ہیں؟۔

اللہ تعالیٰ دِ لوں کو پھیرنے والا ہے۔ مشرکینِ مکہ کی جہالت اور کفر کا کیا حال تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو اسلام اور ایمان کی دولت سے نواز کر دنیا میں خلافتِ راشدہ کو سپرطاقت بنادیا تھا۔جب وحی کا سلسلہ اور نبوت ورحمت کا دور تکمیل کو پہنچ گیا تو خلافت پر انصار و قریش اور قریش واہلبیت میں اختلاف تھا لیکن انہوں نے پھر بھی اتفاق سے اسلام کی شوکت کو دنیا میں ایسا دوام بخشاتھا کہ بنوامیہ ،بنوعباس،سلطنت عثمانیہ نے بھی بڑی سپرطاقت کی شکل اختیار کرلی تھی۔ رسول اللہ ۖ کی زندگی میں مختلف موقع پر صحابہ کرام نے اختلاف کیا تھا۔ غزوۂ بدر کے قیدی، سورۂ مجادلہ میں عورت کا مجادلہ اور حدیث قرطاس کے معاملات بہت واضح ہیں ۔آج ہمارا ایکدوسرے سے اختلاف بالکل بنتا ہے لیکن افہام وتفہیم کا راستہ اپنانا ہوگا۔

پاکستان کا دارالخلافہ کراچی تھا لیکن اس کو اسلام آباد منتقل کردیا گیا۔ پھر مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ اب ملتان اور ڈیرہ غازی خان پاکستان کے مراکز ہیں۔ ڈیرہ غازی خان میں جی ایچ کیو (GHQ) اور ملتان میںدارالخلافہ منتقل کیا جائے۔کرپشن کی رقم حق حلال کی کمائی ہوتی تب بھی اس پر اتنی زکوٰة بنتی تھی جتنی رقم پر براڈ شیٹ سے نیب کا معاہدہ ہوا ۔ پاکستان کمزور نہ ہوتا تو برطانیہ سے تاوان وصول کیا جاتا کہ فراڈ کرنے والوں کی کمپنی رجسٹرڈکیوں کی تھی؟۔ پھر فراڈ کرنے والے کو دوبارہ کیسے اس نام پر دوسری کمپنی رجسٹرڈ کرنے دی؟۔ اس وقت نیب کے چیئرمین جنرل ر امجد شعیب نے غلطی کی تو اس کی سزا بھی ملنی چاہیے لیکن اگر اس نے مغالطہ کھایا اور اسکا اعتراف کیا تو پھر دوسرے چیئرمینِ نیب نے یہ تسلسل کیوں جاری رکھا تھا؟۔ پھر پرویز مشرف نے کیوں رعایت دیدی تھی؟۔

جتنے فوج سے متعلقہ لوگوں نے کرپشن کرکے مال بیرونِ ملک منتقل کیا تھا وہ سب ایک سال کی زکوٰة یا براڈ شیٹ سے طے ہونے والی رقم کے مطابق اپنابیس فیصد ( 20%) رکھ کر باقی ساری رقم پاکستان کے حوالے کریں اور اس سے ڈیرہ غازی خان میں جدیدترین جی ایچ کیو (GHQ)بنایا جائے۔ سیاستدانوں اور سول بیوروکریٹوں کو بھی بیس فیصد ( 20%)دیکر ملتان میں ایک جدید ترین دارالخلافہ بنایا جائے۔

نہری سسٹم اور سستی بجلی پیدا کرنے سے پاکستان کی تعمیرِ نو کی جائے۔ پاکستان کا سقوط خدانخواستہ ہوگیا تو پھر افغانستان، عراق ، لیبیا اور شام کو بھی دنیا بھول جائے گی کیونکہ یہاں فرقہ واریت، طبقاتی اور نظریاتی بنیادوں پر ایک دوسرے سے نفرت بھڑکائی جاسکتی ہے۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

غلامی کے نظام کا سب سے بڑا انسٹیٹیوٹ مزارعت؟

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

جب سود کی حرمت کے بارے میں قرآنی آیات نازل ہوئیں تو رسولۖ نے مزارعت کو بھی سود قرار دیکر اس پر پابندی لگادی۔ائمہ مجتہدین حضرت امام ابوحنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی سب متفق تھے کہ مزارعت سود اور ناجائز ہے لیکن بعد میں احناف کے کچھ فقہاء نے اس کو جواز بخش دیا اور رفتہ رفتہ یہ تصور بھی ختم ہوگیا کہ ”مزارعت ناجائز ہے”۔ جس طرح آج سودی بینکاری کو اسلام کے نام سے جواز بخشا گیا ہے اور ایک وقت آئے گا کہ لوگوں کے ذہن میں یہ تصور بھی نہیں ہوگا کہ سود ناجائز تھا۔ مزارعت سے خاندان کے خاندان غلام بن رہے تھے اور سودی نظام سے ریاستوں کو غلام بنایا جارہاہے۔ پاکستان کے مصور علامہ اقبال نے کہا تھا کہ
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو
آج سندھ اور پنجاب کے مزارع غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جاگیردار ان پر بے تحاشا تشدد کریں، ان کے جسمانی اعضاء کاٹ ڈالیں۔ ان کی عزتیں بھی لوٹ لیں مگر ان میں مزاحمت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ پاکستان زرعی ملک ہے اور ہمارا مزارع طبقہ بھوک وافلاس کی آخری حدوں تک پہنچ چکا ہے۔ جسکے پاس کاشت کی زمین ہو ، تو وہ اپنا پیٹ پال سکتا ہے۔ عشر سے کسی غریب کی مدد بھی کرسکتا ہے۔ اپنے بچوں کی تعلیم، خوراک ، پوشاک اور آسائش والی زندگی تک بھی اپنی محنت سے پہنچ سکتا ہے لیکن ہمارا محنت کش طبقہ سب سے زیادہ بری حالت سے دوچار ہے۔ اسلام کا معاشی نظام سود اور مزارعت سے پاک ہے ۔ ہماری ریاست بھی گروی ہے اور ہمارا کاشتکار طبقہ بھی گروی ہے تو خوشحالی کون کس کو دے سکتا ہے؟۔ مولانا فضل الرحمن نے جب سیاست میں قدم رکھا تھا تو مزارعت کا سودی نظام درست کرنے کی خواہش رکھتا تھا۔ سودی نظام سے زکوٰة کی کٹوتی کے خلاف بیانات دیتا تھا لیکن شاید ا ب خود جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی صفوں میں شامل ہوگیا ہے۔
ہم نے دنیا کو یہ باور کرانا ہوگا کہ کسی کو غلام اور لونڈی بنانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ ہم مزارعت کا وہ نظام ختم کررہے ہیں جس کو اسلام نے اسلئے ختم کیا تھا کہ یہ غلامی کا سب سے بڑا انسٹیٹیوٹ ہے۔ آج سودی نظام نے ریاستوں کو بھی غلام بنانے کا نیا حربہ شروع کردیا ہے۔ جب ہم مزارع کو خاندانی غلامی اور ریاست کو عالمی غلامی سے نکالنے کا قصد رکھتے ہوں تو اس سے پہلے اسلام کا معاشرتی نظام بھی ہم نے ٹھیک کرنا ہوگا۔ جب نبیۖ نے آخری خطبہ پڑھا تو سود کے خاتمے کا اعلان کردیا اور سب سے پہلے اپنے چاچا عباس کا سود معاف کردیا اور جاہلیت کے قتل میں سب سے پہلے اپنے خاندان کے فرد کا خون معاف کردیا۔
آج مغرب نے عورت کو طلاق کے بعد زبردست حقوق دئیے ہیں لیکن ہم نے عورت سے بچے جنوانے کے بعد نہ صرف بچے چھین لینے ہیں بلکہ ان کو مالی حقوق سے بھی بالکل محروم کرنا ہوتا ہے۔ حالانکہ قرآن نے مغرب سے زیادہ حقوق عورت کو دئیے تھے۔ ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں بھی شوہر کی قدرت کے مطابق عورت کا معروف طریقے سے خرچہ دنیا فرض کیا تھا۔ غریب اور امیر دونوں اپنی اپنی طاقت کے مطابق خرچہ دینے کے پابند تھے۔ ہاتھ لگانے سے پہلے نصف حق مہر دینے کی قرآن میں وضاحت ہے۔ اگر ایک ارب پتی شخص چند ہزار یا چند لاکھ حق مہر کے نام پر دیتا ہے تو یہ وسعت اور معروف طریقے کے منافی ہے۔ ہمارا مذہبی طبقہ جس کلچر سے وابستہ ہوتا ہے وہی کرتا ہے۔ پنجاب میں جہیز کی لعنت اورپختونخواہ میں حق مہر کھاجانے کی رسم ہے لیکن مولوی اپنی فیس کھری کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں واضح کیا کہ نصف حق مہر فرض ہے۔ لیکن عورتیں چاہیں تو معاف کرسکتی ہیں اور جن کے ہاتھ میں نکاح کا گرہ ہے وہ بھی درگزر سے کام لے سکتے ہیں اور اگر مرد درگزر سے کام لیں تو یہ تقویٰ کے قریب ہے۔ یعنی مردوں کو ترغیب دی ہے کہ عورتوں سے معاف کرانے کی توقع یا لالچ رکھنے کے بجائے تم ہی درگزر سے کام لو اور پورا حق مہر دو۔ کیونکہ طلاق تم نے دی اسلئے جن کے ہاتھ میں”نکاح کا گرہ” سے ایک احساس دلادیا۔
مولوی نے اس لفظ کو پکڑ کر انسانی فطرت کے آخری کناروں کو بھی پار کردیا اور یہاں تک فتوؤں کی شریعت بناڈالی ہے کہ ” ایک آدمی نے بیوی سے کہا کہ تجھے تین طلاق۔ پھر مکر گیا۔ طلاق ہوگئی اور بیوی حرام ہے لیکن بیوی کو دوگواہ عدالت میں لانے پڑیںگے ۔اگر نہیں تو وہ اس کی بیوی ہے اور بیوی کو چاہیے کہ ہر قیمت پر خلع لے لیکن اگر شوہر خلع نہیں دیتا ہے تو پھر وہ بدکاری اور حرامکاری پر مجبور ہے۔ یہ فقہ کی کتابوں کے خفیہ اور ناقابل عمل مسائل نہیں ہیں بلکہ آج بھی مدارس سے فتویٰ دیا جارہاہے اور اس پر عمل بھی ہورہاہے۔ حالانکہ جس آیت سے علماء خلع مراد لیتے ہیں آیت 229البقرہ ۔ اس سے خلع مراد نہیں ہوسکتاہے بلکہ آیت19النساء میں خلع کو واضح کردیا گیا ہے۔ آیت20، 21 النساء میں طلاق کی صورت میں عورت کے حق کی وضاحت ہے۔ قرآن نے نہ صرف خلع کی اجازت دی بلکہ عورت کو شوہر کی طرف سے دی ہوئی تمام منقولہ اثاثہ جات ساتھ لے جانے کی بھی اجازت دی اور بعض اشیاء بھی واپس لینے کی ممانعت کی ہے اسلئے کہ یہ اس کا اپنا حق ہے۔ اگر شوہر خوش نہیں رکھ سکا یا وہ خود خوش نہ رہ سکی تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ قرآن نے پھر حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے اور اللہ کی طرف سے اس میں بہت ساراخیر بنانے کو بھی واضح کیا ہے۔
جبکہ طلاق کی صورت میں تمام منقولہ وغیرمنقولہ اشیاء خواہ خزانے کیوں نہیں دئیے ہوں ،کسی ایک چیز کے بھی واپس لینے کی گنجائش نہیں دی ہے اور بہتان لگاکر حق سے محروم کرنے کی بھی عار دلائی ہے۔ جب ہمارے معاشرے میں عورت کے حقوق بحال ہونگے تو اسلامی انقلاب کا راستہ ہموار ہوسکتا ہے۔ عورت کو آزادی بھی قرآن نے دی تھی۔ آج جاہلیت کے دور سے بھی عورت کا برا حال ہے۔ جبری جنسی زیادتیاں ہورہی ہیں اور اسلام نے جبری جنسی زیادتی پر گواہ کا مطالبہ نہیں کیا ہے بلکہ قرآن میں ان کو ملعون قرار دیکر جہاں پائے جائیں پکڑکر قتل کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور حدیث میں نبیۖ نے عورت کی گواہی قبول کرتے ہوئے سنگساری کا حکم جاری کیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نیب کے نوٹس پر ریاست کا حال امریکہ جیسا کرنے کی دھمکی دے سکتے ہیں لیکن عورتوں کی عصمت دری پر اسلامی قانون کی وضاحت نہیں کرسکتے ہیں تو اسکے ذریعے سے کونسا اسلامی انقلاب آسکتا ہے؟۔
ملکت ایمانکم کا مفہوم وسیع ہے۔عورت برابری کا معاہدہ کرسکتی ہے۔ ام ہانی نے ام المؤمنین بننا قبول نہ کیا تو ملکت ایمانکم کا استفادہ ملا۔ علامہ بدرالدین عینی نے ان کو 28ازواج مطہرات میں شمار کیا ۔ حضرت صفیہ جنگ کے نتیجے میں آئی مگر مجبوری نہیں خوشی سے ام المؤمنین کا شرف مل گیا۔ حضرت ہاشم کے بیٹے حضرت عبدالمطلب کو مکہ والے بڑے بھائی کا غلام سمجھتے تھے۔ حضرت اسماعیل کی شان کم نہیں تھی کہ اماں حاجرہ لونڈی تھیں۔ اسلام نے غلامی کا نظام ختم کیا۔ ابولعلاء معریٰ نے لکھاکہ ”عرب بادشاہوں نے یورپ کی سرخ وسفید عورتوں کو دیکھا تو لونڈی کو پھرجواز بخش دیا”۔ عورت کو اسلا م نے حقو ق دئیے مگر چراغ تلے اندھیرا ہے۔عورت کے حقوق پر کتاب اسلئے لکھ دی ہے ۔ جب لوگوں میںحقائق کا علم عام ہوجائے تو پھر معاشرے کا ہر جھول جلد بدل سکتا ہے ۔

ریاست مدینہ کرونا حقائق کے تناظرمیں

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ” جہاں وبائی مرض ہو تو وہاں سے کوئی دوسری جگہ نہ جائے اور نہ کوئی وہاں جائے”۔ چین کو پتہ چلا کہ ”ووہان میں وبائی مرض کرونا پھیل گیا ہے تو وہاں سے نکلنے اور وہاں جانے پر پابندی لگادی”۔ ساڑھے چودہ سو سال پہلے ریاستِ مدینہ نے جس کی نشاندہی کی تھی چین نے موجودہ دور میں اس پر عمل کرکے نجأت حاصل کرلی۔ ایران نے اپنی زیارات کو شفاء کا ذریعہ سمجھا اور حدیث کو نظر انداز کردیا تو تباہی مول لے لی ۔ ٹرمپ کو مذاق سوجھا تو اس کی شلوار بقول عمران خان نیازی کے گیلی ہوگئی ہے۔ اٹلی،اسپین، فرانس اور جن ممالک نے اس کو سنجیدہ نہیں لیا تو اس کی بہت بڑی سزا بھی بھگت رہے ہیں۔
قرآن نے سود کو اللہ اور اسکے رسولۖ سے اعلانِ جنگ قرار دیا ۔ کافرممالک میںشرح سود بالکل زیرو ہورہی ہے اور مسلم ممالک میں شرح سود خاص طور پر پاکستان میں سب سے زیادہ ہے۔ یہ عمران خان مسلمان ہے جسے دیکھ کر شرمائے ریاستِ مدینہ کا یہود؟۔پاکستان میں جس طرح سیاست میں سرمایہ کاری کرکے بہت زیادہ شرحِ سود اٹھایا جاتا ہے اس کی مثال ہماری پیشہ وارانہ جمہوریت ہے۔ پہلے ہندو بنیے کا سود مشہور تھا۔ اسی طرح مشرکینِ مکہ بھی سودخوری میں مبتلا تھے۔ریاستِ مدینہ میں یہود کا سود اپنی انتہاء کو پہنچا ہوا تھا۔ آج ریاستِ مدینہ میں صادق وامین رسول اللہ ۖ کی نہیں بلکہ ریاستِ مدینہ کے یہودکی یاد تازہ کی جارہی ہے۔
اسلامی انقلاب عقائد نہیں نظام کیخلاف تھا۔ مدینہ میں رسول اللہۖ پر سود کی حرمت والی آیت نازل ہوئی تو آپۖ نے زمین کو مزارعت اور کرایہ پر دینا سود قرار دیا۔ مکہ فتح ہوا تو پہلے اپنے چچا عباس کا سود، جاہلیت کے خون میں پہلے چچا کا خون معاف کردیا۔پاکستان میں اسلامی انقلاب جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کیخلاف آئیگا اور محنت کشوں کی چاندنی ہوگی۔

کورونا خودکش حملے کی طرح دہشتگردی ہے ؟

جب نبیۖ نے فرمایا کہ متعدی مرض وبا سے ایسے بھاگو جیسے جنگلی شیر سے بھاگتے ہو تو پھر کورونا وائرس میں غفلت کا مظاہرہ کرنا خود کش حملوں کی طرح دہشت گردی ہے۔ امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو امت مسلمہ کے جذبات طالبان کے حق میں اور امریکہ کے خلاف تھے۔جنرل پرویزمشرف نے مجبوری میں امریکہ کا ساتھ دیا تو پاک فوج کی اکثریت کا جذبہ عوام کی طرح امریکہ کے خلاف اور طالبان کی حمایت میں تھا۔ ریاست کا حکم امریکہ کیساتھ تھا اور ریاست کا جذبہ طالبان کیساتھ تھا۔ جس کی وجہ سے جی ایچ کیو پر قبضہ سمیت پورے ملک کو بہت نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ 70ہزار سے زیادہ پاکستانی لوگ جان سے گئے۔
آج پاک فوج کورونا وائرس کے خلاف دل وجان سے عوام کیساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ کورونا وائرس دہشتگردی سے زیادہ مہلک و خطرناک ہے۔ امریکہ نے افغانستان، عراق اور لیبیا کا بیڑہ غرق کیا تو دنیا کو دہشت گردی نے اپنی لپیٹ میں لیا۔ دہشت گردی ظلم وجبر کانتیجہ تھی اور کورونا وائرس کے خلاف دہشتگردی نہیں ہمدردی کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ عالمِ انسانیت کو اس زریںموقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شَر کی قوتوں کو شرمندہ کرنا چاہیے۔اگر پاکستان میں کوئی اچھا حکمران ہوتا تو سب سے پہلے تمام گھروں کو راشن اور علاج کی سہولت فراہم کرکے اپنی حدود میں رہنے کی تلقین کرتالیکن لگتاہے کہ پاکستان میں وائرس پھیلانے کی دانستہ کوشش ہورہی ہے اور خاندانی منصوبہ بندی کی جگہ کرونا وائرس سے آبادی کم کرنے کا منصوبہ زیرِ غور ہے۔ چین سے طلبہ واپس لائے جاتے مگر چین نے خود واپس نہیں کئے۔ ایران میں زائرین کو رکھا جاسکتا تھا مگر زائرین کو واپس لایا گیا۔جب تک وائرس پھیل نہ جائے عمران خان اطمینان کا سانس نہ لے گا اسلئے قرضہ معاف کرانے اور چندہ بٹورنے کا یہ واحد ذریعہ ہے۔

 

علماء کے انوکھے اور نوکیلے فتوؤں کی یہ بھرمار؟
علامہ اشرف جلالی بریلوی بمقابلہ پیر ذوالفقاردیوبندی

جب کوروناوائرس کیوجہ سے تبلیغی جماعت مشکل میں آئی تو بریلوی مکتب کے مولانا اشرف جلالی کی ویڈیو سامنے آئی کہ علامہ ابن سرین نے بدعقیدہ افراد کی طرف سے روایت و آیت کو بھی سننے سے انکار کردیا تھا، ہم اہلسنت ٹھیک کرتے ہیں کہ تبلیغی جماعت اور دیوبندیوں سے قرآن وسنت کی تبلیغ نہیں سنتے۔ دیوبند مکتب کے پیرذوالفقار نے ایک حدیث تبلیغی جماعت پر چسپاں کردی کہ نبیۖ نے فرمایا کہ ایسے لوگ ہونگے جو انبیاء اور شہداء نہیں ہونگے مگر ان پر انبیاء اور شہداء بھی رشک کرینگے۔ یہ وہ ہونگے جو عوام کے دلوں میں اللہ کی محبت ڈالیںگے اور اللہ میں لوگوں کی محبت ڈالیںگے، ان کو معاصی ترک کرنے کی دعوت دیکر۔ یہ تبلیغ والے ہیں اور وہ سب علماء ومشائخ بھی اس میں داخل ہیں جو یہ کام کررہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن وسنت کے ذریعے مسلمانوں کو ہٹ دھرمی کی تعلیم نہیں دی ۔ بدر کے قیدیوں پر مشاورت کے بعد فیصلہ ہوا تو اللہ نے قرآن میں تنبیہ فرمائی، احد کے بعد جذباتیت کے مظاہرے پر اللہ نے برعکس فیصلہ دیا۔ سورۂ مجادلہ میں عام فتوے کے برعکس وحی نازل ہوئی ۔ صلح حدیبیہ میں نبیۖ نے زبردست حوصلے کا مظاہرہ کیا۔ اگر تبلیغی جماعت کی شوریٰ فیصلہ کرتی اور اپنے ترجمان کے ذریعے عوام کو مطلع کرتی کہ” ہم سے غلطی ہوئی ہے، دین اور دنیا سے ہم جاہل ہیں۔ حکومت کی بات مان کر ہمیں اجتماع نہیں کرنا چاہیے تھا اور پھر اجتماع کے بعد جماعتوں کی تشکیل ہماری غلطی اور ہٹ دھرمی تھی جس کا ہم نے خمیازہ بھگت لیا ”۔ تو سب لوگ تبلیغی جماعت کی تعریف کرتے لیکن مولانا نعیم بٹ نے ہٹ دھرمی سے ترجمانی کرتے ہوئے اپنی اصلیت واضح کردی۔ بریلوی، دیوبندی ،شیعہ،اہلحدیث اور جماعت اسلامی روایتی ہٹ دھرمی چھوڑ کر قرآن وسنت کے واضح احکام پر عمل کریں۔

 

پاکستان کی ریاست شوگر مافیا کی لونڈی ہے؟
کیا ہم اپنی حالت بدلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے؟

پاکستان نازک موڑ پر کھڑا ہے، کچھ لوگوں کو ن لیگ نے خرید لیا ہے جو یہ چاہتے ہیں کہ اس حکومت کو چلتا کرکے ن لیگ، ق لیگ اور تحریک انصاف کے لوٹے مل کر ایک بار پھر مشترکہ حکومت قائم کریں۔ چاہے نئے انتخابات کے ذریعے ہو یا اسی سیٹ اپ میں تبدیلی کا تقاضہ پورا کیا جائے۔ جب جہانگیر ترین اور عمران خان کو نکال باہر کیا جائیگا تو تختِ لاہور ، پنجابی اور اسٹیبلشمنٹ کی تثلیث کو وہ لوگ صلیب کی طرح پوجنا شروع کردینگے جو فوج کی سخت مخالفت کرکے نوازشریف کیلئے کام کررہے ہیں مگر دوسری طرف پاکستان توڑنے کیلئے یہ سازش کافی ہوگی اسلئے کہ عمران خان نیازی اور جہانگیر ترین کوسائیڈ لگانے پر لسانی طاقتوں کو تقویت ملے گی۔ جب الیکشن کی سیاست کرنے والوں کی اکثریت مفادپرست ہے اور فوج کے کندھے پر چڑھ کر سب حکومت میں آتے ہیں تو ایک ایمرجنسی حکومت کے ذریعے سے مخلص عوام کو ہی اعتماد میں لیا جائے۔ قرآن وسنت کی طرف توجہ کی جائے، مساجد سے نیک لوگوں کو اسلام کی درست تعلیم سمجھائی جائے ، علماء ومفتیان کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے۔ سماجی کارکنوں کی زبردست سرپرستی کی جائے اور ملک کی تقدیر بدلی جائے۔
کسی کا کوئی ذاتی ایجنڈہ کامیاب نہیں ہوسکتا ہے۔ سول وملٹری اور عدالتی بیوروکریسی کے علاوہ صحافت اور سیاست کے میدان سے اچھے لوگوں کو پاکستان میں نظام کی تبدیلی پر لگانے سے ہی انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔ کورونا وائرس ہمیں ایک قوم اور جماعت بن کر رہنے کیلئے ہی رحمت بن کر آیا ہے۔ وحی کا سلسلہ بند ہوچکا ہے، سب میں خوبیاں اور کمزوریاں ہیں اورسب کو ایک پلیٹ فارم سے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان اپنی پارٹی کو خوش رکھنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا ہے تو نالائق قوم کو کس طرح متحد کرسکتا ہے؟۔

تیل کی قیمت کم کردی تو بحران قابو میں آئیگا

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

بین الاقوامی منڈی میں 20ڈالر فی بیرل تیل کی قیمت آگئی، یہ سنہرا موقع ہے کہ پاکستان میں کسی بھی چیز پر سبسڈی دینے کے بجائے تیل کو ٹیکس فری کردیا جائے۔ جس سے بجلی ،گیس کے علاوہ آمدورفت اور تمام اشیاء کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی آئے گی۔ پاکستان کا مزدور طبقہ اور فیکٹری ومل مالکان سستے تیل سے قوم وملت ،حکومت وریاست میں نئی روح پھونک دینگے۔
سبسڈی کے نام پرمخصوص سیاسی مقاصد کی خاطر سرمایہ داروںاور جاگیرداروں کو فائدے پہنچائے جاتے ہیں۔ ایک گاڑی میں دو سے تین افراد کیلئے سفر کی گنجائش ہے لیکن مہنگے تیل کی وجہ سے لوگ اس پر عمل نہیں کرسکتے ہیںاسلئے ٹرکوں میں چھپ کر سفر کررہے ہیں، جب تیل کو سستا کیا جائیگا تو قانون کی پاسداری کرتے ہوئے عوام سفر کی سہولت سے فائدہ اٹھا سکیںگے اور کرونا وائرس پھیلنے کے خدشات بھی کم سے کم ہونگے۔ جب تیل سستا ہوگا تو فیکٹری وملوں میں معاوضہ بھی زیادہ دیا جاسکے گا اور جب مزدور طبقہ اپنے پیٹ پالنے سے زیادہ کماسکے گا تو پھر اس میں شعور بھی آئیگا، جب شعور آئیگا تو اپنی جانوں کو بچانے کا سلیقہ بھی آئے گا۔
وزیراعظم عمران خان عقلمند شخص نہیں لیکن جراثیم سے بچنے کیلئے پہلے بھی کسی سے ہاتھ نہیں ملاتا تھا اور جب کسی سے ہاتھ ملانا پڑجاتا تو فوراًہاتھ دھولیتا تھا۔گدھا گاڑی چلانے اور مزدور طبقے کی اکثریت میں عمران خان نیازی سے زیادہ عقل ہے مگر غربت نے ان میں اپنی زندگی بچانے کا احساس کم کردیا ہے۔ جب ملک میں روزگار سے کچھ ملے گا تو ریاست کے سپاہیوں کا بوجھ بھی ریاست کو نہیں اٹھانا پڑیگا۔لوگ محنت مزدوری کرکے اپنے مقدر کوجگانے کی کوشش میں کامیاب ہونگے۔ لندن کاپاکستانی مسلمان مئیر ٹیکسی ڈرائیور کا بیٹا تھا،جس نے گولڈسمتھ کے امیرترین خاندان کو شکست دیدی، حالانکہ عمران خان نے بھی سسرال کا ساتھ دیا تھا۔

گائے ہندوؤں کا کاروبار،ہندوستان میں گئو ماتا کی حقیقت اور پس پردہ حقائق

گائے ہندوؤں کا کاروبار

یہ جو لنگ چنگ کی باتیں تھیں تو ہمیشہ میرے من میں آتا تھا کہ یہ کہاں سے وہ راکشس پیدا ہوجاتا ہے کہ آپ کسی کو مارڈالتے ہو۔ تو میں گجرات میں قریب تین ساڑھے تین مہینے سے رفیق قریشی نام سے رہ رہا تھا اور پہلے احمد آباد میں جو کیٹل ٹریڈنگ کرتے تھے جو قصائی تھے ان کے ساتھ دوستی کی۔ پھر انہوں نے ہی مجھے یہ نام دیا رفیق قریشی، ، راجھستان میں الگ الگ گاؤں میں اور گجرات کے بھی بیسا میں ان غیر قانونی مویشی منڈیاں چلتی ہیں۔۔۔ میں نے خود32 ٹرکوں میں بیٹھ کر الگ الگ دنوں میں سفر کیا اور بیچ راستے میں کس طرح سے بجرنگ دل اسٹارچیکنگ کرتا ہے، گائے کا ٹرک اگر آپ کو لانا ہے تو ساڑھے 14یا 15ہزار روپے، بھینس کے ٹرک کے ساڑھے 6ہزار روپے ،بھیڑ کا ٹرک اگر لارہے ہو تو 5ہزار دینے پڑتے ہیں۔ اور وہ پالن پور میں چوہدری نام کے ہیں بجرنگ دل کے وہ یہ پورا نیٹ ورک چلاتے ہیں۔ میں تیس بتیس ٹرک لایا تھا اور اس دوران میں ایک بار انکے پاس بھی گیا ان کو ملنے کیلئے کہ مجھے دھندہ بڑھانا ہے تھوڑے پیسے کم کرو۔ اور میں باقاعدہ اسکل کیپ پہن کر گیا۔ پٹھانی ڈریسزوغیرہ پہن کر ہی میں گھومتا اور رہتا تھا۔ تو میں انکے پاس چلاگیا کہ آپ تھوڑا سا فیس کم کرو مجھے دھندا بڑھانا ہے۔ وہ بولے کتنا کریگا؟۔ میں نے کہا میں روز 40 ٹرک لے کر آؤں گا۔ اور مجھے بمبئی تک لیکر جانا ہے۔ تو انہوں نے کہا نہیں نہیں میری ذمہ داری گجرات تک کی ہے آپ کو اگر بمبئی لے جانا ہے تو بلساڑ میں بابو بھائی ڈیسائی نام کا دوسرا شخص ہے ہمارا،اس کو مہاراشٹرا بارڈر کراس کرنے کیلئے الگ سے پیسہ دینا پڑیگا۔ اسکا ریٹ الگ ہے میرا بلساڑ تک کی ذمہ داری ہے۔ تو وہ آپ کو کرنا پڑیگا۔ اور انکا ایک رول ہے کہ چمڑا ان کو دینا پڑتا ہے۔ مطلب جانور کاٹنے کے بعد مفت میں چمڑا ان کو دینا ہے وہ ایکسپورٹ کرتے ہیں۔ میں نے ان کو یہ پوچھا کہ آپکے دھرم میں تو یہ الاؤ ہی نہیں تو انہوں نے کہا کہ تو ابھی آیا نا بیٹھ کر چائے پی تو میں اسکے سامنے بیٹھ گیا۔ تو انہوں نے کہا کہ ہاں ہمارے دھرم میں الاؤ نہیں تو میں نے کہا کہ آپ پھر یہ گائے کے چمڑے کا بیوپار کیوں کرتے ہو؟۔ وہاں دیوار پر لکشمی کی مورتی تھی، تو اس نے پوچھا یہ کیا ؟۔ میں نے کہا کہ کوئی بھگوان ہے۔ تو اس نے کہا کہ میں اس کی پوجا کروں یا چمڑے کی پوجا کروں؟۔ تو میں نے کہا کہ صاحب ہم بھی تو وہی چاہتے ہیں ہم کو بھی دو پیسہ مل جائیگا۔ تو اس نے کہا کہ تمہارا پیٹ بھرنے کیلئے اتنا کافی ہے جتنا مل رہا ہے نا!۔ اس سے زیادہ جو ہے وہ ہمارا ہے۔ پھر کافی باتیں اس نے بتائیں کہ روز ڈیڑھ کروڑ روپیہ پالن پور کے وہ جو امیر گڑھ کا چیک پوسٹ ہے وہاں پر روز ایک دن میں ڈیڑھ کروڑ روپیہ اکھٹا ہوتا ہے، عید کے بعد آنا تب شاید کچھ تھوڑا بہت کم کرینگے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ بیچ بیچ میں ہم کو لوگوں کو مارتے رہنا پڑتا ہے کیونکہ جب کسی کو مارتے ہیں تو دس پندرہ ہزار بیس ہزار لوگ ڈر جاتے ہیں اور وہ ڈر برقرار رکھنا ہے تو بیچ بیچ میں مارتے رہنا پڑتا ہے۔ تو تو اچانک الگ نمبر کے ٹرک میں ٹریول مت کر کہیں پھنس جائیگا ایک آدھ دن۔ میں نے کہا کیا کرینگے ،سر پیٹ بھرنے کیلئے تو کرنا ہی پڑیگا۔ جب تک زندہ ہیں تب تک یہ کرنا ہے، آپ نے اگر مار ڈالا تو کہاں پیٹ بھرنے کی نوبت آئیگی۔ تو یہ ساری باتیں ہوئی تھی، ہم سوچتے ہیں کہ گاؤ رکشا وغیرہ یہ دھرم کی باتیں وہ کرتے ہیں لیکن وہ بزنس ماڈل ہے اور اس بزنس ماڈل کی انوسٹمنٹ ڈر ہے۔ اور ڈر یہ انوسٹمنٹ بنیادی طور پر فاشزم کی انوسٹمنٹ ہے۔ چاہے آپ کسی بھی فیلڈ میں دیکھو۔ جو ڈی مونیٹرائزیشن کے بعد انہوں نے کہا تھا کی معاشی طور پر ہر آدمی کو گھٹنوں کے بل لاکر رکھ دیا اور آرچک آدھار پر کوئی بھی انسان گھٹنوں کے بل ٹک جاتا ہے تو وہ کسی بھی فاسی وادی حکم کو ماننے کیلئے تیار ہوجاتا ہے۔ اور وہی ہم نے دیکھا کہ اسکے بعد کیا کیا ہوا، کچھ نہیں۔ اربن مڈل کلاس میں inferiority complex (احساس کمتری) ہوتا ہے، اربن مڈل کلاس کو ہمیشہ ایسا لگتا ہے کہ ہم دیش کیلئے کچھ نہیں کررہے۔ تو ان میں یہ وہم پیدا کردیا کہ آپ لائن میں کھڑا ہوکر بہت کچھ دیش کیلئے کررہے ہو اور وہ کھڑے ہوگئے اور وہ کھڑے رہنے کی وجہ سے جب ہم جیسے لوگ criticise (تنقید) کرنے لگے تو وہ ہم کو گالیاں دینے لگے کہ بارڈر پر دیکھو کہ جوان کیسے مررہے ہیں؟ ہم چار گھنٹے لائن میں کھڑے نہیں رہ سکتے کیا؟۔ اور یہ اسلئے ہوتا ہے کہ انکا جو احساس کمتری ہے انہوں نے اس کو ٹریٹ کرنے کی کوشش کی اس کوسمجھانے کی کوشش کی۔ اور اسلئے یہ پورا اربن مڈل کلاس انکے پیچھے دوڑ رہا تھا۔ یہ جاکر کوئی دیکھتا نہیں کہ واقعی میں یہ کیا ہورہا ہے یہ کس طرح سے ہورہا ہے۔

شاہین ایئر لائن کے ادارے کو بھی سیمی گورنمنٹ بنایا جائے: اجمل ملک

پاکستان کا بہترین ادارہ پی آئی اے سیاستدانوں نے تباہ کردیا۔ اسٹیل مل کو بھی تباہ کیا گیا۔جنرل صبیح الزمان نے چارج سنبھالا تھا تو 16ارب تک بچت کی تھی اور پھر اس کا بیڑہ غرق کیا گیا اور پرویزمشرف نے کرنل افضل کو چارج دیا، وہ نااہل مگر ایماندار تھا، اسٹیل مل کو منافع بخش بنادیا۔
پی آئی اے میں فوجی تعینات کرنے کا پروگرام ٹھیک ہے۔ شاہین ائرلائن کو بھی سیمی گورنمنٹ بنایا جائے اور اس میں آن ڈیوٹی دیانتدار فوجی افسران تعینات کئے جائیں۔ دونوں ائرلائنوں کو ایک دوسرے سے سبقت لیجانے کا ٹاسک دیا جائے اور پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جائے۔ سول ایوی ایشن نے ایروایشا کا بھی بٹہ بٹھادیاتھا، کراچی ائرپورٹ شاہین کو حوالہ کیا جائے۔ اچھے اقدامات ضروری ہیں۔ شاہین کو کھڑا کرنے سے تبدیلی آئے گی۔

کروڑ نوکریاں اور 50لاکھ گھر کا کہا مگر رانگ وے پر یوٹرن سے لوگوں کچلا. قدوس بلوچ

امیرادارہ اعلاء کلمۃ الحق عبدالقدوس بلوچ نے کہا کہ لوگ قانون کی پاسداری کرکے یوٹرن لیکر اپنی سمت پر چلتے ہیں مگر وزیراعظم عمران خان یوٹرن رانگ وے پر لیتاہے۔ کروڑ نوکریاں اور50 لاکھ گھر کا کہا مگر رانگ وے پر یوٹرن سے لوگوں کو بیروز گار و بے گھر کرکے کچلا گیا ہے۔ برطانیہ کی خواہش پر ایمپریس مارکیٹ کی لیز شدہ مارکیٹوں کو گرایا ؟۔ پاکستان بھرکی غیرقانونی بلڈنگوں کو مسمار کرو اور آغاز بنی گالہ عمران خان کی رہائشگاہ ہو۔ عوام کو پہلے روز گارو متبادل جگہ دی جائے۔کسی کے بچے یہودی پالتے ہیں اور نہ خرچہ بیگم اٹھاتی ہے ،کرپٹ دوست وسیاستدان اور نہ چندہ سے خاندان پالتا ہے۔ملا کہتا کہ کعبہ کی طرف پیشاب پر بیوی طلاق ہے، ملا نے خود کیا تو کہاکہ میں نے رُخ موڑا۔ علیمہ خان کی دوبئی رقم پر جرمانہ کافی نہیں، حکومتی رقم سے زیادہ چندہ کھانے پر سزادی جائے۔ حسن نثار کے حسن فروش خاندان پر کتاب لکھی گئی، ذوالفقارعلی بھٹو کی داشتہ اسکی پھوپھی تھی۔ پرویز خٹک کی کہانی ہے مگر دوسروں کو گالی دینے والا اپنا گریبان نہیں دیکھتا۔ ان سیاستدانوں صحافیوں اور جرنیلوں کو سزا دو، جولاقانونیت کے حامی تھے، صرف مہروں کا قصور نہیں ۔ بدامنی، قتل وغارتگری، فتنہ و فساد،تفریق وانتشار میں ملوث مجرم عناصر کو بے نقاب کرو لیکن مسلمانوں کی غلطی پر اسلام ، جرنیل کی غلطی پر پاک فوج ، سرکاری اداروں کی غلطی پر پاکستان کو گالی مت دو۔ پاکستان کو اسلام کا حقیقی قلعہ بنانے سے ہی انقلاب آئیگا۔

احادیث میں زمین کو بٹائی اور کرائے پر دینے کی ممانعت ہے مفت دینے کا حکم ہے

مولانا مودودیؒ نے قرآن وسنت کی نہیں سرمایہ دارانہ نظام کی خدمت کی

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں نبی کریم ﷺ کو حکم دیا تھاکہ اقم الصلوٰۃ لدلوک الشمس الی غسق الیل وقرآن الفجر ان القرآن الفجر کان مشہودا O ومن الیل فتہجد بہ نافلۃ لک O عسیٰ ان یبعثک مقاما محموداO’’نماز قائم کرو، سورج کے غروب سے رات کا اندھیرا چھا جانے تک اور فجر کا قرآن بیشک فجر کا قرآن مشہود ہے اور تہجد کی نماز تیرے لئے نفل ہے۔ہوسکتا ہے کہ اللہ تجھے مقام محمود عطاء کرے‘‘۔
یہ آیات اُمت مسلمہ کیلئے دعوتِ فکر ہیں۔ سارا دن کام کاج کرکے مغرب سے عشاء تک تھکاوٹ ہوتی ہے۔ ٹی وی کے ٹاک شوز ، مقررین کی تقریریں اور مذہبی وعظ کا دور اس وقت شروع ہوتا ہے جب انسان کے دل ودماغ کوتازگی میسر نہیں ہوتی ۔ اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ کو حکم دیا کہ مغرب سے رات گئے تک نماز قائم کرو۔ نبیﷺ نے اس پر عمل بھی کیا ہے لیکن افسوس کہ کسی نے بھی قرآن کے اس حکم اور نبیﷺ کے اس عمل کو سنت نہیں قرار دیا ہے اسلئے کہ اگر یہ سنت بن جائے تو واعظین اور مقررین پھر اس وقت میں کیسے لوگوں کواپنی خرافات سنا سکیں گے؟۔ فرمایا کہ انا ارسلنٰک شاہدا ومبشرا ونذیرا ’’بیشک ہم نے آپ کو شاہد، بشارت دینے اور ڈرانے والا بناکر بھیجا ہے‘‘۔ نبیﷺ شاہد تو قرآن مشہود ہے جس کی گواہی دی گئی ۔ صبح کے وقت انسان کا دل ودماغ تازہ، صاف اورسمجھنے سمجھانے کے قابل ہوتا ہے ، اسلئے صبح کے وقت کے قرآن کا خصوصی طور پر اہمیت کا ذکر فرمایا ہے۔
پھر ان آیات میں تہجد کی نماز کو نبیﷺ کیلئے نفل قرار دیا، جس کا پڑھنا ضروری نہیں اسلئے کہ یہ ایک انفرادی عمل ہے جبکہ قرآن اجتماعی اور اہم فریضہ ہے۔مغرب اور رات گئے تک تسلسل سے نماز قائم کرنے کی سنت کا حکم بھی نبیﷺ کی ذات مبارکہ کو مخاطب کرکے دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مقام محمود کی توقع بھی دلائی ہے اور اس کیلئے اگلی آیات میں مکہ سے نکلنے اور مدینہ میں داخل ہونے اور اقتدار کو مددگار بنانیکی دعا کا حکم ہے اور حق کے آنے اور باطل کے مٹ جانے اور قرآن کو مومنین کے شفاء اور رحمت کا ذکر ہے اور یہ کہ ظالم نہیں بڑھیں گے مگر خسارہ میں کی بھرپور وضاحت ہے۔ مولانا مودودیؒ سرمایہ دارانہ نظام کوتحفظ نہ دیتے تو بندۂ مزدور کے اوقات آج بہت تلخ نہ ہوتے۔ یہ بدترین المیہ آج بھی قرآن وسنت سے حل ہوسکتا ہے۔
یہ آیات اسلئے پیش کی ہیں تاکہ لوگ قرآن کے اہم معاشرتی مسائل کو سمجھنے کیلئے خاص طور پر فجر کے وقت کا انتخاب کریں۔ جب امت مسلمہ کی طرف سے قرآنی احکام کو سمجھنے کا سلسلہ شروع ہوگا تو دنیا پر اسلام کی حکمرانی قائم ہو گی۔ یہ نبیﷺ کامقام محمود ہوگا۔ دنیا میں دوبارہ طرزِ نبوت کی خلافت قائم ہونے کی پیش گوئی صرف احادیث میں نہیں بلکہ قرآن میں بھی ہے لیکن جب تک قرآن کے مسخ شدہ احکام دنیا کے سامنے ہونگے ،اسلامی خلافت کا قائم ہونے کا تصور تو بہت دور کی بات ہے، دنیا ہمارااور اسلام کا مذاق اُڑائے گی اور ہم توہینِ رسالت کے مرتکب افراد کا محض تماشہ دیکھتے رہیں گے۔ آسیہ بی بی کیس ہمارے سامنے ہے۔ سلمان تاثیر، شہباز بھٹی، ممتاز قادری، احتجاج میں تبلیغی جماعت کے کارکن اور مولانا سمیع الحق کی جان گئی مگر معمہ حل ابھی تک نہیں ہوسکا ہے۔
جب خواتین کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دئیے ہوئے حقوق سے محروم کیا جائیگا۔ حلالے کے نام پر گھروں کو تباہ، عصمتوں کو لوٹنے اور بچوں کو والدین کے سایائے عاطفت سے محروم کیا جائیگا تو اس معاشرے کے کمزور طبقات نے حکمرانوں اور بڑے علماء ومفتیان کو بد دعائیں دینی ہیں ۔ ایک ایک کا انجام عبرتناک ہوگا۔ جو لوگ ریاست کیلئے وفا رکھتے ہیں اور پاکستان کی افواج کا تحفظ کرتے ہیں ان کو پشتون تحفظ موومنٹ والے ’’ گل خانوں‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ مولانا سمیع الحق کی ساری زندگی ریاست ہی کا تحفظ کرتے کرتے گزری ہے۔ شریعت بل، مارشل لاء کا دفاع، مجاہدین کی سرپرستی،اسلامی جمہوری اتحاد میں کردار اور طالبان کا تحفظ کرنے کیساتھ ساتھ وہ پاکستان، افواج پاکستان کا ہر موقع پردفاع کرتے ۔اُن کی موت بھی بڑے پیمانے پر ریاست کو نقصان پہنچانے کا سدِ باب بن گئی۔ ریاست کے خلاف طوفان برپا ہورہاتھا، دیوبندی بریلوی فسادات کا خدشہ بھی تھا اور ایک بڑی افراتفری کی فضاء قائم ہونے کاخطرہ بھی تھا۔ نیک لوگ تماشۂ حیات کی طرف دیکھتے نہیں، بدی کی قیادت بدعنوانی سے ہورہی ہے مگر ایک طرف شعور بیدار ہورہاہے اور دوسری طرف باطل کے منہ سے نقاب اُٹھ رہاہے، ہنگامۂ خیز اور ہیجانی صورت پیدا کرنے کی خواہش بہت سے لوگوں کے دِ لوں میں موجزن ہے۔تبلیغی جماعت اور دعوتِ اسلامی کا طرزِ عمل مروجہ احتجاج کا نہیں ورنہ طوفان برپا ہوسکتا تھا۔

ہماری عدلیہ آزادہوتی تو کم ازکم ڈاکٹر عافیہ کی طرح آسیہ کوقید کی سزا دیتی
اگرسورۂ نورمیں بہتانِ عظیم کا معاملہ واضح کیا جاتا توعظیم نتائج نکل جاتے

علماء کرام کا سب سے بڑا کمال ہے کہ قرآن وسنت کاتحفظ کررہے ہیں۔ غلام احمدپرویز اور اسکے کارندوں کی فکر نے بیوروکریسی، جدید تعلیم یافتہ اور پڑھے لکھے لوگوں میں جاہلیت کی روح پھونک دی ،سورۂ نور میں بہتان عظیم کا واقعہ ہے۔ حضرت عائشہؓ کے حوالے سے بہتان سیرت رسول اور اسوۂ حسنہ کا سب سے بڑا ، بہت ہی اذیت ناک واقعہ تھا۔ غلام احمد پرویز نے احادیث صحیحہ کا انکار کرکے یہ لکھ دیا ہے کہ ’’ یہ کسی عام عورت کا واقعہ تھا، اگر نبیﷺ کی زوجہ مطہرہؓ پر یہ بہتان لگتا تو مسلمان اس کو قتل کردیتے، یہ اہل تشیع نے حضرت عائشہ صدیقہؓ کی عصمت وعزت کو داغدار کرنے کیلئے ایرانی عجم کی سازش سے ہماری کتب احادیث میں گھڑ دیا ہے‘‘۔ غلام احمد پرویز کی اس فکر نے ایک طرف فرقہ واریت کا بیج بویا ہے تو دوسری طرف جس مذہبی انتہاء پسندی کو مذہبی لبادے میں نہیں بلکہ جدید تعلیم یافتہ لوگوں کی شکل میں پروان چڑھایا ہے،اسکے نتائج بھی میڈیا پر عوام کے سامنے مرتب ہورہے ہیں۔حامدمیر نے ایک کلپ میں انصار عباسی سے مذہبی و لامذہبی انتہاپسندی کی تعریف پوچھی ہے تو انصار عباسی نے سلمان تاثیر کا قتل درست اسلئے قرار دیا ہے کہ ’’ مملکتِ پاکستان میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں ، عدالتوں سے انصاف کی توقع نہیں اور اسکے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ عوام قانون کو ہاتھ میں لیں‘‘۔


انصار عباسی کے ذاتی گھر کیلئے ایک لمبی سڑک سرکار کے خرچے پر ن لیگ نے بنائی تھی جس کا انکشاف اسوقت لوگوں پر ہوا، جب ان کی والدہ محترمہ کا انتقال ہوا تھا، عوام تعزیت کیلئے وہاں پہنچی تھی۔ معروف صحافی رؤف کلاسرا کی کتاب ’’ ایک قتل جو نہ ہوسکا‘‘ میں یہ انکشاف ہے کہ ایک سازش کے تحت انصار عباسی نے اپنے کالم میں انکشاف یہ کیا کہ پنجاب کے چیف جسٹس خواجہ شریف کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے ، جس میں صدر زرداری، سلمان تاثیر کا مرکزی کردار ہے۔ لیکن پنجاب پولیس کے ایک اہم سپاہی نے اس سارے کھیل کو ناکام بنادیا تھا۔ ورنہ تو انصارعباسی نے اس گھٹیا خدمت کیلئے اپنی خدمات انجام دیں۔ کسی موقع پر جنگ کے معروف صحافی نذیر ناجی نے کہا کہ’’ مجھے معلوم ہے ،یہ کتے کے بچے انصار عباسی نے کیا ہے ‘‘۔
ہماری خواہش تھی کہ طلاق کے مسئلے کو میڈیا تک پہنچا دیا جائے، تاکہ مذہب کے نام پر خواتین کی عصمت دری کا سلسلہ رک جائے۔ عمر چیمہ نے ایک بچے سے زیادتی کا کیس اٹھایا تھا، اوکاڑہ کے مضافات میں حجرہ شاہ مقیم سے ایک گاؤں میں جس بچے کیساتھ یہ واقع ہوا تھا، اسکے والد سے ہم نے ملاقات بھی کی۔ جس کرب سے گزررہاہے یہ ناقابلِ بیان ہے۔ ایک امیر، بلدیہ ذمہ دار، ن لیگ سے تعلق رکھنے والے بااثر سیاسی رہنماکے بیٹے نے جسطرح کی زیادتی کی ہے۔ پنجاب ،مرکزی حکومت اور عدلیہ نے اگر زینب کیس کی طرح اس کو اہمیت دی اور غریب کی داد رسی ہوئی اور ظالم انجام تک پہنچا تو آگ بجھانے کی کوشش میں ریاست کا یہ کردار بھی ایک چڑیا کی طرح ہی ہوگا۔
ہم عمر چیمہ سے ملنے گئے ۔ طلاق وحلالہ کوسمجھنے و میڈیا پراٹھانے کی استدعا کی۔ عمر چیمہ نے بات سننے کے بعد کہا کہ آپ لوگ انصار عباسی سے ملیں وہ قرآن وسنت کی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ ہم انصار عباسی سے ملنے گئے تو معاملہ ان کو سمجھ آیا یا نہیں آیا لیکن ان کا مشورہ تھا کہ ایسے موضوعات کو اہل علم کی مجالس تک محدود رہنا چاہیے اور یہ میری ذاتی رائے ہے، تاکہ کوئی مسئلہ انتشار کا باعث نہ بنے۔ ہم نے انصار عباسی سے مزارعت کا مسئلہ بھی ذکر کیا کہ ’’ احادیث میں زمین کو بٹائی اور کرایہ پر دینے کی ممانعت ہے، مفت دینے کا حکم ہے۔ امام ابوحنیفہؒ ، امام مالکؒ ، امام شافعیؒ ، امام داؤد ظاہری سب اسکی حرمت پر متفق ہیں‘‘۔مگر انصار عباسی نے کہا کہ میں نے بخاری میں ایک حدیث پڑھی ،جسمیں رسول اللہ ﷺ نے زمین کو بٹائی پر دینے کا حکم فرمایاہے‘‘۔
علامہ طاسین صاحبؒ نے ’’ مروجہ نظام زمینداری‘‘ پر بڑا تحقیقی کام کیا اور ان خفیہ گوشوں سے پردہ اٹھایاہے کہ جن کی وجہ سے علامہ اقبال ؒ نے کہاتھا کہ ’’ وہی سرمایہ داری ہے بندۂ مؤمن کا دین‘‘۔بخاری میں ایسی حدیث نہیں کہ رسول اللہﷺ نے اپنے اقوال کے منافی زمین کو بٹائی پر دینے کا حکم دیا ہو۔ البتہ آل عمر، آل عثمان،آل علی کیلئے روایت ہے مگر ان سے بھی صحابہؓ مراد نہیں بلکہ کوئی اورہے۔
9ھ میں سود کی حرمت کا قرآن میں حکم نازل ہوا،پھر رسول اللہﷺ نے زمین کو بٹائی، کرایہ پر دینے کو بھی حرام اور سود قرار دیا۔ امام ابوحنیفہؒ ، امام مالک ؒ اورامام شافعی ؒ تک مزارعت کو سود قرار دیتے رہے جو حکمرانوں کے زیرِعتاب رہے۔ امام ابوحنیفہؒ نے جیل میں وفات پائی۔ شاگردامام ابویوسف قاضی القضاۃ( چیف جسٹس) شیخ الاسلام تھے۔ جس نے مزارعت کو جائز قرار دیا۔ آج مفتی تقی عثمانی شیخ الاسلام اور مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن بینکاری کو اسلامی قرار دے رہے ہیں حالانکہ یہی اپنے اساتذہ کرام کی مخالفت ، قرآن سے انحراف ،دین کی بدترین تحریف ہے اور علامہ اقبالؒ نے اسلئے بندہ مؤمن کے دین کوسرمایہ داری قرار دیا ہے۔ سودی نظام کو قرآن میں اللہ اور اسکے رسولﷺ سے اعلانِ جنگ قرار دیا گیا ہے اور پاکستان کا آئین قرآن وسنت کا پابند ہے۔ جب علماء ومفتیان نے سودی نظام کو بھی اسلامی قرار دیا ہے تو بھارت، اسرائیل یا امریکہ کا نام بھی اسلام کیوں نہیں رکھا جاتا ہے تاکہ اسلامی اور غیر اسلامی کی دردِ سری کا معمہ حل ہوجائے اور ابلیس کی اپنے مشیروں سے خطاب کی ضرورت بھی نہ رہے؟۔
سورۂ نور میں ام المؤمنین حضرت عائشہؓ پر بہتان کی بات احادیث میں غلط ہے تو علماء ومشائخ پرویزی مذہب اختیار کرلیں اور درست ہے تو اللہ نے فرمایا: ’’ اسے اپنے لئے شر نہ سمجھو بلکہ اس میں تمہارے لئے خیر ہے ‘‘۔ آج یہ آیات دنیا کے سامنے پیش کرکے نام نہاد عاشقانِ رسولؐ، سیاسی مفادات، مذہبی جنونیت کی آڑ میں توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کرنے والوں کا ہی راستہ نہیں روکا جاسکتاہے بلکہ اسلام کے ذریعے دنیا بھر کے اسٹیٹس کو بھی توڑا جاسکتاہے۔ ایک طرف ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کا مقام اور دوسری طرف آپ پر بہتان کی وہی سزا جو ایک عام غریب، بے بس اور نادار پر بہتان لگانے کی ہے،دونوں میں برابری مساوات اور یکساں سلوک انصاف کے تقاضوں کو نہ صرف پورا کرتا ہے بلکہ نام نہاد اسلامی اور غیر اسلامی ریاستوں کے اندر موجود باطل نظام کے مگر مچھوں سے انسانی حیات کو تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔ علامہ طاسین صاحبؒ نے انقلابی تحقیق کی تھی۔ مولانا بنوریؒ کے بڑے داماد ہونے کے بھی باوجود ’’ ماہنامہ البینات، جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی‘‘ میں انکا ایک مضمون پورا شائع نہ ہوسکا تھا۔مولانا فضل الرحمن بھی مولانا طاسینؒ ہی کو آئیڈیل شخصیت مانتے ہیں لیکن…