پوسٹ تلاش کریں

مزارعت کے بجائے زمین کو مفت دینے کے چند فوائد


1: اللہ تعالیٰ نے سودی نظام کو قرآن میں اللہ اور اسکے رسول ﷺ سے اعلان جنگ قرار دیا اور احادیث صحیحہ میں نبیﷺ نے زمین کو کرایہ، مزارعت، ٹھیکہ اور بٹائی پر دینے کی تمام صورتوں کو حرام وناجائز اور سود قرار دیا ہے۔ کوئی جاگیر دار بھی خود کاشتکاری کرتا ہے اور نہ ہی اپنے بچوں سے کاشتکاری کراتاہے۔ جب شاہ محمود قریشی، عمران خان، نوازشریف، زرداری ، مریم نواز، بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمن ومولانا اسد محمود وغیرہ تمام سیاستدانوں ، فوجی جرنیلوں اور بڑے بیوروکریٹوں اور انکے بچوں کو کاشتکاری پر لگایا جائے تو انکی صحت بھی ٹھیک ہوجائے گی اور اگر یہ لوگ خود نہ کرسکتے ہوں تو کسان کے بچوں کو نہ صرف اپنی روزی ملے گی بلکہ ان کی قابل اولاد میں بہترین تعلیم کے ذریعے فوجی جرنیل اور بیوروکریٹ،ڈاکٹر وسائنسدان ، انجنئیر اور سیاستدان بھی پیدا ہوں گے۔
بلاول، بختاور ، حسن وحسین اور مریم جیسے لوگوں کی اچھے تعلیمی اداروں میں پڑھنے کے باوجود اپنے اندر صلاحیت پیدا کرنے کے بجائے کام کے نہ کاج کے دشمن اناج کے سے زیادہ حیثیت پیدا نہیں کی ۔ فارمی و برائلر ٹائپ کے مرغے اور مرغیاں اقتدار میں اور بااثر عہدوں پر براجمان ہوتے جارہے ہیں مگر دیسی اور اصلی مرغے اور مرغیاں غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارتے ہوں ،پھر اس ملک کا انجام کیا ہوگا؟۔ ایک ناگوار انقلا ب سے بچت کیسے ہوسکے گی؟۔
2: زیادہ سے زیادہ یہ خدشہ ہوگا کہ تیار خور طبقہ بھوک کی موت مرے گالیکن اس کیلئے فکر کی ضرورت نہیں ، مولوی حضرات کے بعد بڑے بڑے ادارے بھی جب بھیک اور زکوٰۃ پر چل رہے ہیں تو چند جاگیرداروں کوبھی زکوٰۃ سے پالا جاسکتا ہے۔ زمین کو مفت کاشت پر دینے سے مزدور طبقے کی دہاڑی بھی بہت بڑھے گی اور غریب وامیر طبقات کے درمیان فاصلہ بہت کم ہوجائیگا۔ جس کو بھی اپنی محنت سے زمین کے ذریعے مالدار بننے کا موقع ملے گا تو وہ زمین کی کاشت کو چھوڑ کر کسی سہل کام میں اپنا سرمایہ لگائے گا۔ یوں باہر سے سرمایہ کار لانے کیلئے ہمیں ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔ روس اور چین بھی اس نظام کو قبول کرنے میں بہت خوشی محسوس کرینگے۔ سرمایہ دارانہ نظام اور کمیونزم کے درمیان اعتدال سے صراطِ مستقیم کی نشاندہی ہوگی تو ابلیس فساد فی الارض کی سازش میں ناکام ہوگا۔
3: برصغیر پاک وہند کی زر خیز زمینوں میں کاشتکاری کے ذریعے غربت کے خاتمہ میں مدد ملے گی تو بھارت پاکستان کیلئے رام ہوجائیگا۔ میدانی علاقوں میں بڑے پیمانے پرکاشتکاری سے چین وروس کے پہاڑی علاقوں میں سپلائی کا کام ہوگا تو نسلی اور طبقاتی تقسیم کا بھی خاتمہ ہوگا۔ رسول اللہﷺ نے کالے گورے، عرب وعجم اور تمام نسلی امتیازات کا خاتمہ کردیا تھا۔ ابوجہل وابولہب اور ابوسفیان کا غرور توڑ کر بلالِ حبشیؓ، صہیب رومیؓ اور سلمان فارسیؓ کی عزت افزائی ہوئی تھی۔ ہمارے ہاں کرپشن سے جاگیردار اور سرمایہ دار پیدا کرکے طبقاتی تقسیم کا بیج بویا گیا ہے۔ کاشتکار شودر اور جاگیردار برہمن بن گئے ہیں۔اسلامی اقتصادی نظام کے ذریعے پاکستان میں کرپشن کے سردار پھر اپنی جگہ اور اوقات پر آسکتے ہیں۔

اسلامی اقتصاد کے چند پوشیدہ گوشے: علامہ محمد طاسین ؒ


مندرجہ بالاکتاب کی طباعت سن 2002ء میں ہوئی ہے۔ ناشر : فضلی سنز (پرائیویٹ) لمیٹیڈ کراچی۔ ترتیب وپیشکش :ڈاکٹرمحمدعامرطاسین وفاقی مدرسہ بورڈ کے چیئرمین رہے۔ پتہ: گوشہ علم و تحقیق : 20.A، کتیانہ سینٹر ، بنوری ٹاؤن، ای میل: gosha elmo tahqeeq hotmail. com
آج امریکہ نے افغانستان، عراق اور لیبیا کو تباہ کرنے کے بعد شام کی خانہ جنگی سے ابھی تشفی نہیں پائی ہے کہ پاکستان، سعودی عرب اور ایران کے خلاف سازش کو عملی جامہ پہنانے کی ترکیب کررہا ہے۔ ایران کی تیل پر پابندی کو روس، چین اور بھارت نے مسترد کیا ہے جس کو امریکہ نے قبول بھی کرلیا ہے۔ اگر ہم امریکہ کے بجائے روس اور چین کیساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش میں لگے ہیں تو اسلامی نظام کی طرف ہی آنا ہوگا۔ آئی ایم ایف کی شرائط غریب کو آخری حد تک غربت کی لکیر سے ماردیگی جس کا حکمران اور بڑے طبقے پر اثر نہ ہوگالیکن جب غریب اُٹھ کھڑا ہوگا تو پاکستان کی ریاست بھی بچ نہیں سکے گی۔ فوجی سپاہی کا تعلق غریب گھرانے سے ہوتا ہے، پولیس اور تمام اداروں کے غریب ملازمین کی ہمدردیاں اپنے بڑوں کے بجائے اپنے گھرانوں سے ہوں گی۔ یہ وقتی طور پر مذہبی اشتعال انگیزی کا مسئلہ نہیں ہوگا کہ مولانا سمیع الحق کو قتل کرکے علامہ خادم حسین رضوی کو رام کیا جائے بلکہ بھوکی عوام وحشی درندوں کی طرح انقلاب برپا کردینگے۔ جانیں، عزتیں، محلات، بازار، قلعے، چھاونیاں، عدالتیں اور مدرسے کچھ بھی محفوظ نہ رہ سکیں گی۔ سابق صدر زرداری نے حامد میر کو جیو ٹی چینل پر بتایا ہے کہ ’’ عمران خان کے اپنے تعلقات سعودیہ سے اتنے اچھے نہیں کہ اتنا بڑا پیکج مل سکتا تھا، چین بھی بڑی مدد کریگا، اسکے علاوہ ابوظہبی بھی مدد کریگا‘‘۔
زرداری کا واضح اشارہ اسرائیل کی طرف تھا اسلئے کہ اسرائیلی خاتون وزیر نے ابوظہبی کی بڑی مسجد کا دورہ کیا تھا جس کی میڈیا میں تشہیر بھی ہوئی ۔ ممکن ہے کہ اسرائیل سے مسقط اور اسلام آباد آنے والے طیارے میں بھی صداقت ہو اور کسی نے فیصل مسجد اسلام آباد کے بجائے اصحاب اقتدار سے اہم ملاقاتیں بھی کی ہوں۔ پاکستان میں امریکہ کو دئیے جانے والے ائرپورٹوں کو بھی خفیہ رکھا گیا تھا۔ ریاست اور عوام کے اندر اعتماد کا فقدان اپنی جگہ ہے۔ طالبان کی دہشت کا راج ابھی عوام کے دِلوں سے ختم نہیں ہوا ہے کہ کوئی دوسرا فتنہ کھڑا نہ ہوجائے۔
لگتاہے کہ عالمی قوتیں پاکستان کو قدرت کا بڑا ڈھیٹ شاہکار سمجھ کر صفحۂ ہستی سے مٹانے کے درپے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین جناب قبلہ ایاز صاحب کو چاہیے کہ علامہ طاسینؒ کی مندرجہ بالا کتاب کو اقتدار کے ایوانِ بالا تک پہنچائیں تاکہ بڑے پیمانے پر زمین کی کاشت ممکن ہوسکے ۔ علامہ اقبالؒ نے فرشتوں کے گیت کے عنوان سے کیا خوب کہاتھا کہ جو مخلص مسلمان تھے۔
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو
اشتراکیت نے بھی پنجے گاڑ رکھے تھے جسکے اثرات سے علماء محفوظ نہیں رہ سکے تھے ۔ دوسری طرف سودی نظام کو بھی جواز بخشنے تک بات پہنچی، اسلام اعتدال ہے

امریکہ کی سعودیہ عربیہ کو دھمکی اور پاکستان کی صورتحال

امریکی صدر ٹرمپ نے سعودی عرب کے شاہ سلیمان کو ہتک آمیزلہجے میں دھمکی دی ہے کہ ’’ ہمارے بغیر تمہاری حکومت دوہفتے بھی نہیں چل سکتی ہے۔ فوجی اخراجات ہمیں دو، ورنہ ہم تمہاری مدد نہیں کرینگے‘‘۔ یورپی یونین امریکہ کا ساتھ ایران کے معاملے میں نہیں دے رہا ہے۔پہلے جرمنی، ترکی اور جاپان آپس میں متحد تھے۔ برطانیہ، امریکہ، فرانس نے اس اتحاد کو پارہ پارہ کرکے تہس نہس کردیا اور برصغیر کی تقسیم میں بھی انگریز کو اسلئے دلچسپی تھی کہ روس، چین، ایران، برصغیر پاک وہند، ترکی ، جرمنی، جاپان وغیرہ ایک پیج پر جمع ہوکر مغرب کی امامت کوکبھی کسی طرح سے چیلنج نہ کرسکیں۔ مشرقی ممالک کے اتحاد میں پاکستان و مسئلہ کشمیر مخل رہے اور عرب ممالک کیخلاف اسرائیل کا خودکاشتہ پودا کام جاری رکھے۔
عراق اور لیبیا کی تباہی کے بعد ترکی ، ایران ، سعودیہ اور پاکستان کو شکنجے کی نذر کرنے میں باری کا انتظار کیا جارہاہے کہ پہلے کس کو نشانہ بنایا جائے۔ بھارت بھی محفوظ نہیں رہے گا اور چین وروس کو بھی نہیں چھوڑا جائے گا۔ مغل بادشاہ ٹیپو سلطان کی بات ٹھیک ہے کہ ’’ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘۔ غزوہ بدر و اُحد کے بعد صلح حدیبیہ کرنے میں بھی حرج نہیں ہے مگر ہم اپنی تقدیر بدلنے کی صلاحیت خود رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جھوٹ نہیں بولا ہے کہ ’’ اللہ اس قوم کی حالت نہیں بدلتا ہے جو اپنی حالت خود نہ بدلے‘‘۔
سعودیہ کو امریکی دھمکی سے آزاد کرنے کیلئے پاکستان ایران اور بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے۔ دشمنی نہیں دوستی میں بھی کشمیر ہمیں مل جائیگا۔ جب بھارت اور پاکستان کو بڑے پیمانے پر ایران سے تیل وگیس کی سپلائی شروع ہو تو پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل بن جائیگا۔ بیرون ملک قرضوں سے نجات مل جائے گی تو یہ قوم سودی قرضوں کی ادائیگی کیلئے بھاری بھرکم ٹیکسوں کے نیچے نہیں مرے گی۔ امداد لینے کے بجائے امداد دینے والا ملک ہم بن جائیں گے اور بھارت ہمیں گیس وتیل کی رائلٹی دیگا۔ بھارت سے گائے کا گوشت روس اور نوآزاد مسلم ممالک وافغانستان سپلائی کرینگے تو بھی ہمارا بہت سا قرضہ اُترجائیگا۔ بھارت کو ایران اور افغانستان کی راہداری مل جائے گی تو کشمیر اور پانی کا مسئلہ حل کرنے میں بخل سے کام نہیں لے گا۔ دشمنی کی فضاء نہیں رہے گی تو دفاعی بجٹ دونوں ممالک اپنے غریب باسیوں پر خرچ کرینگے۔ برصغیر پاک وہند کا وسیع تر میدانی اور افغانستان سے روس تک پہاڑی علاقہ ایکدوسرے کی ضروریات پورا کرنے کیلئے کافی ہیں۔ ایران ،ترکی کے راستے یورپ تک تیز رفتار ٹرین کے ذریعے بھارت،بنگلہ دیش اور مشرقی ممالک تک سفر وتجارت کا سلسلہ شروع ہوگا تو دنیا کی تقدیر بدل جائے گی۔ پاکستان اس کیلئے شہہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔
پاکستان خطے کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کرے گا تو اسرائیل خود مسلم ممالک کو دعوت دیگا کہ قبلہ اول پر تمہارا حق ہے لیکن مسلم فتح کے جھنڈے گاڑھ لینے کے بعد بیت المقدس کو قتل گاہ نہیں بنائیں گے بلکہ یہود، نصاریٰ اور مسلمانوں کو پوری آزادی حاصل ہوگی کہ اس میں اپنے اپنے دن مکمل عبادت کریں۔ جمعہ، ہفتہ اور اتوار کو ایک ہی عبادتگاہ باری باری سب کے حوالے ہوگی تو مذہبی شدت پسندی کا ناسور دنیا سے خود بخود ختم ہوجائیگا جسکے پیچھے اسلحہ بیچنے اور ہیروئن کا کاروبار کرنے والا مافیا ہے۔ پاکستانی قوم کو شعور کون دیتا ؟۔ جبکہ قائداعظم کی زبان اور علامہ سر محمد اقبال کے اشعار ونظریات سمجھنے سے بھی یہ قوم قاصر تھی۔
قرآن وسنت آئین کا حصہ ہے اور اسلام کے نام پر یہ مملکتِ خداد اد وجود میں لائی گئی ہے لیکن اسلام کا نام لینے والے مذہبی طبقات ، مدارس ومساجد نے ہی قرآن وسنت کی تعلیمات کو سب سے زیادہ زیروزبر کرکے رکھ دیا ہے۔ دنیا کو سمجھ آگئی ہے کہ سودی نظام نے عالم انسانیت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے مگر ہمارا شیوخ الاسلام طبقہ سودی نظام کو بھی اسلامی قرار دینے کی جسارت کررہاہے جسکے نتیجے میں عام بینکوں میں بھی قرآنی آیت احل اللہ البیع وحرّم الربوٰ ’’اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کردیا ہے‘‘ جلی حروف سے لکھنے کی زحمت کی گئی ہے۔ معیشت، سیاست، معاشرت اور ہرچیز میں اسلام کے نام پر دھوکہ کیا جارہاہے۔ بقول اقبال : ؂ تم مسلمان ہو جسے دیکھ کر شرمائے یہود؟۔
ایرانی تیل کی سملنگ میں سیاستدان، سول وملٹری بیوروکریٹ اور سمگلرسب ملوث ہیں۔ اگر اس کی جگہ پر قانونی ٹیکس وصول کرکے حکومت کا بوجھ کم کیا جائے تو نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کی عوام میں بڑے پیمانے پر تبدیلی آئے گی۔ لوگوں کو کم قیمت میں تیل وگیس کی فراہمی اور حکومت کو ضرورت سے زیادہ ٹیکس ملے گا اور پاکستان میں زندگی کی طاقت دوڑ جائے گی۔ پاکستان کے ائرپورٹوں پر سستا تیل بین الاقوامی جہازوں کو فراہم کیا جائیگا تو مسافروں اور سیاحوں کی ریل پیل شروع ہوگی۔ ائرپورٹ دنیا بھر کے جہازوں سے آباد ہوجائیں گے۔ پاکستان کو دنیا بھر میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جائیگا۔ پاکستان کی کرنسی ڈالر سے کئی گنا بڑھ جائے گی۔ پاکستان میں تجارت اور کاروبارِ زندگی سے اعلیٰ اخلاقی معیار اور اقدار دنیا کے سامنے آجائیں گے۔ پھر عرب اور یورپی ممالک کے لوگ روزگار کیلئے پاکستان آئیں گے، پاکستانیوں کو روزگار کیلئے کہیں جانا نہیں پڑے گا۔ جھوٹے و بے بنیاد افواہوں اور پروپیگنڈوں کی ایکدوسرے کیخلاف ضرورت نہ پڑیگی۔
سعودی عرب کو امریکہ دھمکی نہیں دے سکے گا۔ ایران اور سعودیہ شیعہ سنی کی منافرت بھی نہیں رہے گی۔ خانہ کعبہ کو مسلم ممالک جدید سے جدید تر انداز میں وہ مرکز بنائیں گے کہ تیز رفتار روشنی کی مدد سے خانہ کعبہ رات کے وقت آسمان کو چھو رہا ہوگا۔ جدید ترین نظام سے فاصلے پر بھی قریبی مسافت کی طرح طواف کیا جاسکے گا۔ خانہ کعبہ ،مدینہ منورہ اور بیت المقدس کی عبادتگاہوں میں سہولت اور آسانی سے رسائی ممکن بنائی جائے گی۔ تمام انسان قرآن کے مخاطب ہیں اور ہر زبان میں قرآن کا سلیس ترجمہ کرکے مذہبی طبقات کی خرافات کو عقلی ونقلی دلائل سے ملیامیٹ کردیا جائیگا تاکہ قیامت کے دن رسولﷺ نے امت کے خلاف جس شکایت کا اظہار کرنا ہے کہ یارب ان قومی اتخذوا ہذالقراٰن مھجورًا ’’اے میرے ربّ! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ سے اسکا ازالہ پاکستان سے شروع کردیا جائے۔
پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا، سود اسلامی تعلیمات کے برعکس ہے ، سودی نظام سے جتنی رقم دوسروں کے حوالے کردی جاتی ہے اس سے زیادہ کرپشن بھی نہیں ہوتی ہے۔ پہلے ایک احمق نوازشریف نے بے تحاشا قرضے لیکر ملک کو ڈبویا اور اب دوسرے احمق نے مزید بے تحاشا رقم حاصل کرنے کیلئے ٹیکسوں کی بھرمار سے پوری قوم کی غریب وامیر عوام کا جینا دوبھر کرنے کیلئے اقدامات شروع کئے ہیں۔ پاکستان کو ایٹم نہیں بچاسکتا ہے لیکن غربت اس کو مارے بغیر بھی موت کی نیند سلادے گا۔ دنیا بھر کی سازشیں پاکستان اور پاکستانی عوام کے خلاف نبرد آزما ہیں اور ہمارے اقتدار والا طبقہ جھوٹی تسلیاں دے رہاہے۔ سید عتیق گیلانی

کے الیکٹرک پرعوام کی اشیاء کوکم یا زیادہ وولٹیج کی وجہ سے نقصان پہنچنے پر جرمانہ ہونا چاہیے تھا۔

shaheen-air-k-electric-meter-complaint-low-and-high-voltage-steel-mill-pakistan-army-chief-qamar-javed-bajwa-civil-aviation-authority-fbr-khalid-sehbai-air-force-pakistan-captain

کراچی (نمائندہ خصوصی)پبلشرنوشتۂ دیوار اشرف میمن سابق سینئر نائب صدر سندھ پی ٹی آئی نے اپنے بیان میں کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے وعدہ کیاتھا کہ ایک کروڑ نوکریاں دینگے لیکن شاہین ایئر لائن کا حکومت کے ہاتھوں دیوالیہ ہوجانا سوالیہ نشان ہے۔ پاکستان اسٹیل مل کے ملازمین کو عرصہ سے تنخواہیں نہیں مل رہی ہیں۔ باقی پرائیویٹ اداروں کے الیکٹرک وغیرہ کو اربوں روپے کی مدد فراہم کی جاتی ہے۔ حالانکہ تیز ترین میٹرز ، حد سے زیادہ بل اور درست فریضہ انجام نہ دینے کے باوجود حکومت کافرض تھا کہ لوڈ شیڈنگ ، غلط ریڈنگ اور عوام کی اشیاء کو کم وولٹیج یا زیادہ وولٹیج کی وجہ سے نقصان پہنچنے سے ان پر خاطر خواہ جرمانہ ہونا چاہیے تھا۔ حکومت کا کام تھا کہ ان اداروں سے غریب عوام کو تحفظ دیتے، میٹر چیک کئے جاتے ، غلط بلنگ پر کے الیکٹرک کو جرمانہ کیا جاتا اور لوڈ شیڈنگ وغیرہ پر کے الیکٹرک کو سزا بھگتنی پڑتی اور عوام کو ریلیف دینے پر مجبور کیا جاتا۔
شاہین ایئر لائن کے ہزاروں ملازمین اور متعلقہ افراد کی بیروزگاری کا کریڈٹ بھی موجودہ حکومت کو جائیگا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کسی ایک کو ملازمت دیدی تو بڑی پذیرائی ملی لیکن یہاں کافی تعداد میں لوگ بیروزگار ہوجائیں گے تو ریاست کو اسکا احساس ہونا چاہیے ۔ سول ایوی ایشن ، کسٹم اور ایف بی آر کے اپنے فائدے میں بھی یہی ہے کہ وہ اتنی بڑی آرگنائزیشن کو چلنے دیں۔ جرمنی وغیرہ میں جب کوئی ادارہ اس طرح ناکام ہوتا ہے تو حکومت اس کو سہارا دیتی ہے۔ اپنا نمائندہ مقرر کرکے اس کو چلنے دیتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ حکومت کے بقایا جات بھی وصول کئے جاتے ہیں۔
شاہین ایئر لائن کے خالد صہبائی ایئر فورس کے کیپٹن تھے ، جب شاہین دیوالیہ ہونے لگی تو انہوں نے کینیڈا سے آکر اس میں اپنا سرمایہ لگایا۔ وہ صرف ملازمین کو بیروزگار دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ جب یہ ادارہ دن دوگنی اور رات چگنی ترقی کرنے لگا تو ان کا اچانک انتقال ہوگیا۔ انکے دونوں بیٹے یہاں کے ماحول سے واقف نہیں تھے اور رفتہ رفتہ ادارے نے بحران کی شکل اختیار کرلی۔ اب وقت آگیا ہے کہ یہ ادارہ کسی اہل انتظامیہ کے سپرد کرکے اس کو بحران سے نکالنے میں مدد دی جائے۔ اسکے اندر صلاحیت ہے کہ چند مہینوں میں نہ صرف اپنے پاؤں پر کھڑا ہو بلکہ ایک بہت منافع بخش ادارے کی حیثیت سے یہ اپنی ساکھ منوالے گا، ارباب اختیار اس پر رحم کھائیں

قرآن میں‌قدرتی اور پاکستان میں مصنوعی پانی کے ذخائر کا بہترین طریقہ کار موجود ہے.

bore-well-recharge-under-water-recharge-dam-alternatives-underground-water-leve-recharge-flood-water-storage-supreme-court-dam-fund-malik-riaz-bahria-town-pakistan-and-quran-rain-water-storage

بھارت، آسٹریلیا و دیگر ممالک میں جدید طریقے سے بارش کے پانی کو کنویں کے ذریعے زیر زمین ذخائر 1980ء سے بنائے جارہے ہیں۔ انٹرنیٹ پر سرچ کرکے معلومات بھی دستیاب ہیں۔ وسعت اللہ خان نے اپنے کالم میں بھی دنیا میں اس جدید طریقے کو سب زیادہ اہم ، سستا اور بہترین قرار دیا ہے۔ کراچی میں ملیر ندی سے ملحق اور گڈاپ میں برساتی نالوں کے ذریعے زیرِ زمین پانی کے ذخائر پر کچھ محدود طریقے سے عمل بھی ہورہاہے۔ خشک سالی میں سندھ کے پانی کو پنجاب چوری کرتاہے ، سیلاب کے وقت سندھ ڈوب رہا ہوتاہے، یہ مخاصمت کا ماحول بہت آسانی سے ختم ہوسکتا ہے۔ جدید کنوؤں کے ذریعے پاکستان نے زیرِ زمین پانی کوذخیرہ کرنا شروع کیا تو بھارت کی طرف سے سیلابی پانی چھوڑنے پر تباہی اور بربادی پھیلانے کا خطرہ نہیں رہے گا اور طوفانی بارشوں سے بڑے بڑے شہر اور کھیت وباغات متاثر نہ ہونگے، کراچی کے چھتوں پر برسنے والاپانی قریبی کنوؤں میں ڈالاگیا توکھارا پانی میٹھا ہونے کیساتھ شہر بھی تباہ نہ ہوگا۔ ڈیفنس کراچی میں پانی نہیں ہے لیکن ملک ریاض کا بحریہ ٹاؤن چوری کے پانی سے مالامال ہے، اگر ملک ریاض بااثر اور ذمہ دار افرادکی مٹھی گرم کرتا تو نمونہ کے طور پر بارش کے پانی کیلئے کنویں بھی کھودیتا۔
ملک ریاض کی طرف سے بارش کے پانی کو مصنوعی کنوؤں کے ذریعے زمین کے اندر پانی کے طریقۂ کار سے ہمارے ارباب اقتدار کی آنکھیں بھی کھل جاتیں اور ملک بھر میں سیلابی ریلوں کے پانی کو زیرِ زمین ذخائر تک پہنچادیا جاتا ۔ جسکے بعد شمسی توانائی کے ذریعے پورے ملک میں پانی کی بہتات ہوجاتی۔ اللہ بار بار قرآن میں پانی کے ذریعے مردہ زمین کو زندہ کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ جس طرح آسمانی بجلی سے آئیڈیا لیکر ساری زمین مصنوعی بجلی سے آباد کی گئی اورعروج کی طرف عالمِ انسانیت نے زبردست پیشقدمی کی ہے۔اسی طرح پاکستان میں زیرِ زمین پانی کے محفوظ ذخائز اور نہری نظام کے ذریعے پاکستان کے مُردہ بدن میں زندگی کی روح پھونکی جاسکتی ہے۔ کشمیر، سوات،خیبر،کرم ،وزیرستان اور بلوچستان کے پہاڑوں سے پنجاب وسندھ کے میدانوں اور صحراؤں تک قدرتی اور مصنوعی طریقے سے پانی کے وسیع ذخائز کے مواقع مملکتِ خداداد پاکستان کی سرزمین پر موجود ہیں۔ قرآن نے عبرت کیلئے بتایا کہ قابیل نے ہابیل کو شہید کیا اور پھر کوا دیکھ کر دفن کا طریقہ سیکھا۔ ہم بچوں کو اپنے اردو اور انگریزی کے نصاب میں ’’پیاسا کوا‘‘ کی کہانی پڑھاتے ہیں،جس کا منہ پانی تک نہیں پہنچ رہا تھا تو اس نے کنکریاں پھینک پھینک کر پانی کی سطح کو بلند کردیا مگر خود اپنی عقل سے کام لیکر سیلابی پانی کے ذریعے زیرِ زمین ذخائر کو میٹھا اور اس کی سطح بلند کرنے کا کوئی کام نہیں انجام دیتے ہیں، تمام ٹی وی چینل اور اخبارات انٹر نیٹ سے پانی کے جدید طریقوں پر پروگرام کریں تو گوادر سے تھرپارکر تک پانی کی محرومیاں ختم کرنے کا حکمران اہتمام کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے اور اپنی مدد آپ کے تحت بھی بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ جس سے ’’پاک سرزمین شاد باد ہوگی اور کشورِ حسین شاد باد‘‘ کا عملی مظاہرہ دیکھنے کو ملے گا۔ پاکستان کے وسیع علاقے میں صحراؤں کے ذریعے پانی کو فلٹرکرکے صاف کرنے کا اہتمام بھی کیا جاسکتا ہے ، جس سے ریت میں مٹی مکس ہوگی تو صحرائیں بھی سرسبز وشاداب ہوجائیں گی۔ قدرت نے جن نعمتوں سے پاکستان کو نواز دیا ہے ، اگر ہم اپنی مرضی سے اپنے لئے اپنے ملک کو ڈیزائن کرنا چاہتے تب بھی ہم ایسا ملک نہیں بناسکتے تھے۔ پانی کا بہاؤ، ہوا، سورج اور سارے موسموں کے ذریعے لطف اندوز ہونے کے علاوہ ہر طرح کے کھیت، پھل اور بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے، ہرطرح کے جانور پالے جاسکتے ہیں۔

مجھے بھیک مانگنے پر شرم آتی ہے، وزیر اعظم عمران خان: واہ بھئی واہ سچ مچ؟ اشرف میمن

imran-khan-amir-liaquat-jemima-bushra-bibi-khawar-manika-shaukat-khanum-bheek-mangna-abdul-sattar-edhi-dr-tahir-ul-qadri-ptv-attack-case

کراچی (نمائندہ خصوصی )نوشتۂ دیوار کے پبلیشرتحریک انصاف سندھ کے سابق سینئر نائب صدر وامیدواربرائے قومی اسمبلی محمداشرف میمن نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کو یہ کہتے ہوئے غیرت، شرم اور حیاء نہیں آئی کہ ’’ مجھے بھیک مانگتے ہوئے شرم آتی ہے‘‘۔ واہ بھئی واہ سچ مچ ایسا ہے تواس خوشگوار تبدیلی کو خوش آئند کہا جائے یا نہیں؟ اپنی ماں شوکت خانم کے نام پر بھیک مانگتے ہوئے شرم نہ آئی، تو ریاست بڑی ماں ہوتی ہے ،اس کیلئے بھیک مانگتے ہوئے کیوں شرم آئے گی؟۔ عمران خان نے تو میڈیا پر کہا تھا کہ میں وزیراعظم بنوں گا تو قرضہ اُتارنے کیلئے فنڈز اکٹھے کرکے دکھاؤں گا۔ قوم نے سوچا کہ دوسرے کرپٹ ہیں، ان کو بھیک نہیں قرضہ بھی نہیں ملے گا، عمران خان کنگال ہے، شوکت خانم کے نام پر بھیک مانگ کر دکھائی ، پارٹی کیلئے بھیک مانگ کر دکھائی، دھرنوں کیلئے بھیک مانگ کر دکھائی، الیکشن مہم کیلئے بھیک مانگ کردکھائی تو قرضہ اتارنے کیلئے بھی بھیک مانگ کر دکھائے گا، اپنے بچے بھی اپنے یہودی ننھیال کی بھیک سے پرورش پارہے ہیں۔ اگر عمران خان کو اپنی اماں سے عقیدت تھی تو اس کی نافرمانی کرکے جمائماسے شادی اسلئے کی کہ مالدار تھی، پھر بھیک مانگ کر ہسپتال اسلئے تو نہ بنایا کہ اس کی بھیک سے خود بھی پلتا رہے؟۔ پھر پارٹی میں کرپٹ اور سرمایہ دارکو شامل کیا تاکہ ان کی بھیک سے پلتا رہے، اب اسلئے تو وزیراعظم نہیں بنا کہ کرپٹ ساتھیوں کے ذریعے اس ملک کو لوٹنے کی باری لے؟۔
ہماری قوم بڑی سیدھی سادی ہے۔ عمران خان کی اس بات پر بھی خوش ہوئی کہ بھیک مانگنے پر شرم آنے کی بات کردی، حالانکہ یہ تو سب جانتے ہیں کہ کرکٹ سے زیادہ یہ شخص بھیک مانگنے میں عالمی شہرت یافتہ ہے، اگر بھیک پر ایوارڈ ملتا تو ستار ایدھی اسکے مقابلے میں ہار جاتا،اتنی مہارت اس کو بھیک مانگنے میں حاصل ہے۔ یہی ادا تو ریاست اور قوم کو پسند آئی تھی اسلئے کہ قوم کو بھیک مانگنے کی ضرورت پہنچ گئی تھی۔ عمران خان کے پاس اور کیا عقل، دانشمندی، فلسفہ ، نظریہ اور منطق ہے؟۔ اپنے مفاد کی خاطر خاور مانیکا سے بیگم بشریٰ پنکی چھین لی۔ اسکے بچوں کی عزتِ نفس کا بھی خیال نہیں رکھا، وہ چیختے اور چلاتے رہے کہ ہماری ماں نے کوئی شادی نہیں کی ، ہماری بے عزتی نہ کی جائے۔ عامر لیاقت نے کہا کہ قرآن کے خلاف عدت میں شادی کی ہے تو اس کو پارٹی میں شامل کیا اور ٹکٹ بھی دیدیا۔ جو بیویوں کو بھی جوتوں کی طرح بدلے اس پر کارکنوں ، رہنماؤں اور قوم کا کیا اعتماد ہوسکتاہے؟۔ یہ جمہوریت ، قوم اور اس نظام کے خاتمے کی نشانی ہے کہ ایک ایسا شخص وزیراعظم بن گیا جس کو اقدار، روایات اور مذہب کا کوئی خیال نہیں۔ اُمت کا کوئی فرقہ تو بہت دور کی بات ہے،کوئی غیرمسلم بھی ایسا نہیں کہ کسی مزار کی راہداری کو چاٹے۔ دہشتگردی کا عروج تھا تو اس نے دہشتگردوں کی حمایت سے اسلام و مسلمانوں کوبدنام کیا، دہشتگردی کازور ٹوٹا تو مزار کی دہلیز چاٹنے سے اسلام اور مسلمانوں کا مسخ چہرہ دنیا کو دکھایا جا رہاہے۔ دنیا کو دکھایا گیا کہ پاکستانی مسلمانوں کے اقدار ہیں کہ سبھی کوبے غیرتی کا طعنے دینے والے کا اپنا چہرہ کیا۔ بیگمات ہتھیالینے ، دہشتگردوں کی حمایت ، مزار پر سجدے، پردے و بے پردگی، قول وفعل میں بدترین تضادات کے شکار شخص کو حکمران بنایا جائے تو چڑھتے سورج کے پجاری اسکی قیادت کو تسلیم کرنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے، اگر خدانخواستہ عالمی قوت نے افغانستان میں رہائش پذیر دہشتگردوں یا بھارت کے ہندؤوں کو پاکستان پر مسلط کیا تو قوم قبول کریگی۔ عمران خان اس کی سرپرستی حاصل ہے جو اللہ کے اقتداراعلیٰ کے مقابلے میں مہرہ مسلط کرتی ہے، وہ قوت مخالف ہوئی تو قندیل بلوچ کے قتل پر عمران خان کو پکڑا جائیگا کہ اس نے بشریٰ پنکی سے تعلق کا انکشاف کیا ۔
طاہر القادری جہاز سے نہیں اتر رہاتھا کہ ماراجاؤنگا مگر پھر پارلیمنٹ کا دروازہ توڑا،PTV پر قبضہ کیا، قبرکھودی اور کفن لہراکرڈرامہ کیا۔ عمران نے یہ کہہ کر ذلت افزائی کی کہ’’ میں نے طاہرالقادری سے رشتہ تو نہیں مانگا تھا‘‘۔ یہ سازشیں ہیں جن سے قرآن کیمطابق پہاڑ ہل جائیں۔

اگر حکومت پاکستان ایمانداری کا مظاہرہ کرے تو عوام سے چندے مندے کی بھی کوئی ضرورت نہ ہوگی

sewerage-system-in-pakistan-shahra-e-faisal-defence-of-pakistan-economic-hub

ادارہ اعلاء کلۃ الحق رنچھوڑ لائن کراچی کے امیرابوبکر جاوید نے کہا کہ پاک فوج کے سپاہیوں کی طرف سے ایک دن، افسر طبقہ کی دو دن ، آرمی چیف کی طرف سے ایک ماہ کی تنخواہ کا پانی کے ذخائر کیلئے چندہ دینا خوش آئند ہے۔ ریاستی اداروں اور پرائیوٹ لوگ اپنی آمدن کی کچھ مخصوص رقم پانی کے ذخائز اور سیورج کے مسائل کیلئے وقف کردیں تو انسانی جسم کی مانند پاکستان کو زندہ ،توانا، تندرست اور خوشحال رکھ سکتے ہیں۔ دوبئی میں کھربوں روپے گئے ہیں اگر سندھ میں پانی بجلی اور سیورج کے نظام کو درست کیا جائے تو یہاں سے باہر گیا ہوا جائز وناجائز پیسہ واپس آسکتا ہے لیکن سب سے پہلے حکمران طبقے کو جاگنے کی ضرورت ہے۔ شارع فیصل کراچی کو وسیع کیا جائے تو عوام کی سہولت کے علاوہ نیوی وفضایہ کے علاقے معاشی حب بنیں گے۔ دفاع کیلئے خود انحصاری کا بہترین ذریعہ ہوگا۔ چندے مسائل کا حل نہیں۔

ملک ریاض نے 50 لاکھ چندہ دیا چیف جسٹس کو چندوں پر لگادیا بتی کے پیچھے لگانے کا یہ داؤ ہے

malik-riaz-50-lakhs-donation-chief-justice-saqib-nisar-chanda-lena-bahria-town-justice-asif-khosa-abdul-sattar-edhi-ramzan-chhipa

ادارہ اعلاء کلمۃ الحق سوشل میڈیا کے ایکٹیوسٹ یوسف صدیقی نے کہا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض ایک دیومالائی شخصیت ہے۔ حکومت سندھ کے اداروں سے زمین کے مالکان کو نوٹس جاری کرواتا ہے کہ تمہارے کاغذات درست نہیں، پھر مالکان مجبوری میں بحریہ ٹاؤن کو بیچ دیتے ہیں اور کاغذات درست ہوجاتے ہیں۔ چیف جسٹس ثاقب کے بارے میں خبریں آرہی تھیں کہ ملک ریاض کو بھی دائرہ کار میں لے لیاپھر 5 لاکھ کا چندہ مانگنے پر ملک ریاض نے50لاکھ روپے دئیے تو اس کی تعریف بھی چیف جسٹس ثاقب نثار نے کردی۔ بلکہ ڈیموں کے چندے کرنے کے دھندے پر لگادیا۔ چیف جسٹس کو اپنا کام چھوڑ کر چندہ کرنا ہے تو آصف کھوسہ کیلئے سیٹ خالی کرکے عبدالستار ایدھی یا رمضان چھیپا کی طرح نام کمائیں۔ اس کی تنخواہ کا بوجھ بھی خزانہ پر نہیں پڑیگا بلکہ چندے کی رقم سے اپنا گھر بھی چلالے گا۔

گومل ڈیم بن گیا مگر ٹانک کو بجلی اور پانی میسر نہیں. اس پر جے آئی ٹی بنانے کی ضرورت ہے

khawaja-asif-defence-minister-gomal-dam-district-tank-joint-investigation-team-jit-pervez-musharraf-american-aid-wapda-electricity-shortfall

نمائندہ خصوصی نوشتہ دیوار پختونخواہ شاہ وزیر سرحدی نے کہا کہ ٹانک شہر میں لوگ پانی کی بوند بوند کوترس رہے تھے۔ علاقہ گومل کے لوگ کہہ رہے تھے کہ جب گومل ڈیم نہ بناتھا تو علاقے میں وپڈا کی بجلی تھی، گومل ڈیم بن گیا تو بجلی کی تاریں ہیں لیکن ان میں کرنٹ نہیں ہے۔ وہ لوگ جو پی ٹی ایم سے کوئی تعلق نہیں رکھتے بلکہ جب پشتون تحفظ موومنٹ کا دور دور تک وجود نہیں تھا اور نہ اسکے کوئی آثار تھے توبھی کہا جاتا تھا کہ جنرل پرویزمشرف کراچی کا مہاجر تھا اسلئے یو ایس ایڈ امریکی امداد کی رقم سے گومل ڈیم بنایا۔ اگر پنجابی حکمران ہوتا تو یہ رقم پنجاب میں ہی خرچ کردیتا۔
گومل ڈیم بننے کے بعد بڑے پیمانے پر بجلی کی پیداوار ہوسکتی تھی لیکن چینی،فوجی اور واپڈا حکام نے مل جل کر رقم کھائی ہے یا رقم کھانے میں کسی ایک کا کردار ہے؟۔ اس پر بھی تیزرفتار جے آئی ٹی جسٹس کو بنانی چاہیے۔ بنے بنائے گومل ڈیم بہت وافر مقدار میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وزیر پانی وبجلی خواجہ آصف اس وقت وزیردفاع بھی تھا۔ عمران خان نے بونیر میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے مقامی سطح پر سستی بجلی پیدا کرکے علاقہ کے لوگوں کو خوشحال بناناہے۔ وہ جو جھوٹ کی بنیاد پر اشتہارات چلارہاہے کہ پختونخواہ میں تبدیلی آگئی، اس کو چاہیے تھا کہ لالی لپے دینے کے بجائے بونیر میں بجلی پیداوار کے چالو منصوبے پر تقریر کرتا کہ ہم نے یہ روشنی دی ہے۔ یہ سستی بجلی ہے۔ پاکستان میں پہلے پنجاب اور دیگر صوبوں میں ایک حکومت اور اپوزیشن کا توازن رہتا تھا اب تو حکومت اور اپوزیشن دونوں پنجاب ہی سے ہیں۔ فوج میں بھرتی ہونے کیلئے کوئی اچھی ذہنی صلاحیت رکھنے والا جاتا نہیں اور نوازشریف نے درست کہاہے کہ مٹھی بھر لوگوں نے پورے پاکستانی عوام کا اختیار چھین رکھا ہے۔ منظور پشتین نے حق نواز پارک ڈیرہ اسماعیل خان کے جلسے میں کہا کہ یہ بندوق کے زور پرلڑسکتے ہیں مگر ہم عدم تشدد کے نظریہ سے خالی ہاتھ بھی جنگ کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک لمحہ بندوق کے بغیر لڑنے کی صلاحیت نہ رکھنے والے ہار جاتے ہیں۔ پاکستان کی ریاست نے اگر عوام کی فلاح وبہبود کیلئے کام کرنا ہے تو ٹانک شہر کیلئے گومل ڈیم سے بندوبست کر دیں، یہ ایم این اے اورایم پی اے کے بس کی بات نہیں۔ ٹانک شہر تمام سرکاری دفاتر اور عوام کا مرکزہے۔ گومل کو کہیں اور سے نہیں گومل ڈیم سے بجلی مہیا کی جائے۔ زیادتی کے نتائج سے بغاوت کے جذبات پھیلتے ہیں اور فوج کا یہ کام نہیں کہ لڑکوں سے ان کی مرضی کی لال ٹوپی چھین لیں۔ عوام کو سہولت میسر ہوگی اور احساس ہوگا کہ ہمارا حکمران طبقہ ہم پر مہربان ہے تو پاک فوج اور سیاستدانوں سے دل کھول کر محبت کی جائے گی۔ بھٹو، نوازشریف کے بعد ایک دور میں عمران خان بھی فوج سے باغی بن جائیگا۔ حقیقی لیڈر شپ کو آنے دیا جائے۔

سیاست ناکام، ریاست نامراد ، علماء کرام شادآبادنہیں

maulana-maududi-communism-akbar-badshah-sajda-e-tazeemi-mufti-taqi-article-62-and-63-garib-kisan-zina-haiz-and-iddat

مولانا محمد علی جوہر، شوکت علی، مولانا حسرت موہانی، مولانا ظفرعلی خان لیگی کامریڈتھے اور علامہ اقبال نے بھی ’’فرشتوں کے گیت‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا :
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
کانگریس کے منشور میںیہ تھا کہ’’ انگریز نے خانوں، نوابوں ،سرداروں اور دلّالوں کو جو جاگیریں دی ہیں ان کو آزادی کے بعد بحقِ سرکار ضبط کردیا جائیگا‘‘۔ قائد اعظم محمد علی جناح کانگریس کے اس منشور سے متفق تھے۔ پاکستان کیلئے محرک ہندوؤں کا تعصب تھا۔ مسلمان قادیانیوں کو اس وقت بھی ہندو سے زیادہ اسلام کا دشمن سمجھتے تھے ،قائداعظم میں مذہبی تعصب نہ تھا۔ انگریز کی باقیات سول وملٹری بیوروکریسی اور پاکستان کی آڑ میں نوابوں اور جاگیرداروں نے اپنی دلالی سے حاصل کرنے والی جاگیروں کو تحفظ دینا شروع کیااور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے اسلام کی آڑ میں کمیونزم کی مخالفت کے نام پر اس ناجائز ملکیت کو اسلام کے نام پر جواز بخشا تھا تو یہ پاکستان کے اندر طبقاتی نظام کی بقا کے سب سے بڑے محرکات ہیں۔ اب تو سودی بینکاری کا بھی نام اسلامی بینکاری میں بدلا گیاتو مندروں کو مساجد اور سومنات کو کعبہ کہنے میں ان مولوی نما لوگوں کیلئے کیا مشکل ہے؟۔
اکبر بادشاہ نے اپنے لئے سجدۂ تعظیمی کا جواز اسلئے پیش کیا کہ بنی اسرائیل کے حضرت یوسف علیہ السلام سے مغل اعظم کی حیثیت کو کم نہیں قرار دیا، علماء کرام نے درباری بن کر اکبر بادشاہ کا ساتھ دیا۔ حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی نے جرأت کرکے کہا کہ ’’ سجدہ تعظیمی اسلام میں حرام ہے‘‘۔ جنہوں نے آوازِحق بلند نہیں کی ،وہ ریاست کے وفادار ٹھہرے۔ کیونکہ وہ بادشاہ کو ظلِ الٰہی قرار دیتے تھے اور بادشاہ کو سجدہ درحقیقت خدا کو سجدہ قرار دیا جاتا۔ جمعہ کے خطبے میں اس حدیث کی تحقیق ضروری ہے السلطان ظل اللہ فی الارض من اہان سلطان اللہ فقد اہان اللہ ’’ بادشاہ زمین پر اللہ کا سایہ ہوتا ہے، جس نے اللہ کے بادشاہ کی توہین کی تو اس نے اللہ کی توہین کی‘‘۔ جب اللہ زمین و آسمان کا نور ہے تو نور کا سایہ نہیں ہوتا ہے۔ جب نبیﷺ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپؑ کا سایہ نہیں تھا تو اللہ تعالیٰ کا سایہ کہاں سے آئے گا؟۔ اور وہ بھی مغل بادشاہوں اور انگریز حکمرانوں کی صورت میں؟۔ تحقیق اور شعور کی بہت ضرورت ہے۔
تنکے والے سرکار ننگے تڑنگے بابا سے نوازشریف اور بینظیر بھٹو ڈنڈیاں کھاکر اقتدار کا عقیدہ رکھتے تھے اور اب اقتدار کی دہلیز پر پہنچنے سے قبل تحریک انصاف کی تیسری اماں جی بابافریدؒ کے مزار کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوگئی، خود کو خوب رگڑا کہ اقتدارملے اور عمران خان نے بھی اس کی اقتداء میں سجدہ کرلیا۔ آرے چومنا تھاتوقبرکو چومتے،کعبہ کی چوکھٹ نہیں حجراسود کو چوما جاتا ہے۔سرکاردوعالمﷺ کی گنبد پر حاضری میں یہ عقیدت کیوں بھول گئے؟۔ طالبان عمران خان کواسلئے بہتر سمجھتے تھے کہ ایاک نعبد وایاک نستعین کے وردسے مغالطہ کھایا تھا اور ریحام خان سے محرم کے عاشورے میں نکاح کیا تھا،ریحام خان سے نکاح کے چھپانے کے بعدبشریٰ بے بی سے نکاح چھپانے کی کوئی گنجائش نہیں تھی مگر چونکہ عدت میں نکاح کا مسئلہ آگیا اسلئے پھر چھپانے کا المیہ پیش آیا۔ حدیث میں ہے کہ خلع کی عدت ایک حیض ہے اسلئے اس نکاح کو حرامکاری قرار دینا عامر لیاقت کی جہالت تھی البتہ حنفی اس حدیث کو قرآن کیخلاف سمجھتے ہیں، تحقیق وشعور کی بہت ضرورت ہے ۔ آئین پاکستان میں پارلیمانی ممبر کیلئے دفعات واضح ہیں۔
احادیث صحیحہ میں مزارعت کو ناجائز اور سود قرار دیا گیا ہے۔امام بوحنیفہؒ اور باقی تمام ائمہ کرامؒ اس پر متفق تھے کہ ’’مزارعت جائز نہیں ‘‘۔ بعد میں آنے والے علماء وفقہاء نے یہ حیلہ نکالا تھا کہ ’’ مزارعت کی وجہ سے غلامی جیسا ماحول پیدا ہوتا تھا اسلئے اس کو ناجائز اور سودقرار دیا گیا‘‘۔ حالانکہ آج بھی مزارعت سے غلامی کا ماحول پیدا ہورہاہے۔ پشتو میں بیع وال کا لفظ مزارع اپنے جاگیردار اور جاگیردار اپنے مزارع کیلئے استعمال کرتا ہے، جیسے عربی میں مولیٰ کا لفظ غلام اور آقا دونوں کیلئے آتا ہے۔ اُردو ، سندھی اور پنجابی میں مزارع کا لفظ مزارع سے خاص ہے۔ کسی بھی پلیٹ فارم سے مزارع کو غلامی کے قائم مقام قرار دیا جاتاہے۔ سیاسی جماعت کا باغی کہتا ہے کہ’’ میں اپنے قائد کا مزارع نہیں ہوں‘‘۔ سیشن کورٹ جج کی توہین پر چیف جسٹس ثاقب نثار سے کراچی بار نے کہا کہ ’’ ماتحت عدلیہ سے مزارع والا سلوک نہ کیا جائے‘‘۔ کیا مزارع انسانیت سے بالکل خارج ہیں؟۔
سندھ، پنجاب اور پورے پاکستان میں مزارعین کے حالات بد سے بدتر اور غلامی سے کم نہیں ہیں۔ جب علاقہ گومل میں یہ افواہ پھیل گئی کہ روس چڑھ دوڑرہا ہے تو ہمارے ایک مزارع کے چھوٹے بیٹے گل زرین نے اپنے باپ کا نام لیاکہ ’’اس کے کونسے(زمین کے) مربعے ہیں، روس آئے تو بھی ہم نے پرائی زمین میں مزارعت کرنی ہے اور نہ آئے تو بھی ہم نے یہی مزارعت ہی کرنی ہے‘‘۔ بھٹو نے روٹی، کپڑا، مکان اور اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگایا مگر خاطرخواہ اسلامی تعلیمات سے اچھے خاصے دارالافتاء کے مفتی اور بڑے مدارس کے مدرسین بھی بہرہ مند نہ تھے۔ مولانا مودودی صاحب کو اگر جماعتِ اسلامی کے علماء زبردستی داڑھی نہیں رکھواتے تو نہ انکے ساتھ مولانا لکھا جاتا اور نہ وہ عالمِ دین ہونے کا دعویٰ کرتے۔
جاگیردار سیاستدانوں پر اسمبلی کا دروازہ بند کیا جائے تو وہ مزارعین کی مجبوری سے پھر بھی فائدہ اٹھائیں گے۔ آئین کے مطابق اسمبلی ممبر کیلئے خاطر خواہ اسلام کی تعلیمات ضروری ہیں، وہ فرائض کا پابندہو اور گناہ کبیرہ کا مرتکب نہ ہو۔ سودی نظام سے بڑھ کر گناہِ کبیرہ کیا ہے؟۔ حدیث میں اسکے 70سے زیادہ گناہ، وبال اورنحوستوں کا ذکر ہے جس میں سے کم ازکم گناہ اپنی ماں سے زنا کے برابر ہے۔ دارالعلوم کراچی کے شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی عبدالرؤف سکھروی نے لکھا ہے کہ ’’ شادی بیاہ میں نیوتہ کی رسم بھی سود ہے اور اسکے70سے زیادہ گناہ میں کم ازکم گناہ اپنی ماں کیساتھ زنا کے برابر ہے‘‘۔ مفتی تقی سراپا تقویٰ ہے اسلئے اس نے سودی بینکاری کو معاوضہ لیکراسلامی بینکاری قرار دیا ہے یا جہالت ولالچ کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ مولانا فضل الرحمن پہلے ایم آر ڈی کیساتھ تھے تووہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی حنفی کا مؤقف اپنا مشن قرار دیتے تھے کہ اقتدار مل جائے گا تو مزارعت کو ناجائز قرار دیکر ختم کردینگے مگر اب تو لگتا ہے کہ موصوف خود بھی نواز شریف کے مزارع بن گئے ہیں۔ سیاستدانوں اور سول وملٹری بیوروکریسی سے عوام کا اعتماد اُٹھ چکاہے۔ علماء ومفتیان اجنبی اسلام کا ازسرِ نو جائزہ لیں اور عوام کو اعتماد میں لیکر اسلام کے معاشرتی نظام کا آغازکریں۔بغاوتوں کا سلسلہ جاری ہے اور عدالتوں کیلئے ممکن نہیں کہ مزارعین کو جاگیرداروں اور عوام کو ریاستی غنڈہ گردوں سے انصاف دلاسکیں۔ یہ عدالتیں نوازشریف نے پہلے بھی تاراج کیں، جنرل پرویزمشرف نے ججوں کو قید کردیا اور اب بھی سابقہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے دانیال عزیز سے زیادہ سخت لہجے میں عدالت کے جج کی توہین کا بیڑہ اُٹھایا۔ آئین کی دفعہ62اور63پر کوئی بھی نہیں اتر رہاہے، منافقت چھوڑ دو۔