پوسٹ تلاش کریں

سندھ اور کراچی میں پانی کے مسائل اور ہمارے وسائل

بلوچستان، سندھ اور کراچی میں پینے کا پانی بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ کالاباغ ڈیم کے ذریعے پانی کو ذخیرہ کئے بغیر سندھ اور اسکے دارالخلافہ کراچی (جو پہلے پاکستان کا دارالخلافہ تھا ) کے پانی کامسئلہ حل نہیں ہوگا۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کا سب سے بڑا مسئلہ پینے کاپانی ہے۔ کالا باغ ڈیم کے ذریعے اگر نوشہرہ جھوٹ سے بنجر بھی بنتاہے تو نوشہرہ کے باسیوں کو متبادل جگہ فراہم کی جائے۔ سندھ کے باسیوں کو سمجھایا جائے کہ پانی ذخیرہ نہ ہو تو سندھ کبھی طوفان اور کبھی کربلا کا منظر پیش کریگا۔ کالاباغ کے ذریعے نہ صرف سستی بجلی پیدا کرنا ہوگی بلکہ سندھ کی بنجر زمینوں اور شہروں کو نہری نظام سے پانی فراہم کرنے کا انتظام کرنا ہوگا۔حیدر آباد اور کراچی کے درمیاں بحریہ ٹاؤن بن سکتاہے تو اس پہاڑی زمین میں مصنوعی ڈیم بھی بن سکتاہے۔ کراچی شہر پنجاب میں ہوتا تو اس میں ملیر اور لیاری ندیوں میں گند کے بجائے پینے کا شفاف پانی نہروں کی شکل میں بہہ رہا ہوتا۔ جنرل ایوب نے کراچی سے مرکزیت چھین کر ہزارہ کے کنارے پہنچادی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پنجابی اسٹبلیشمنٹ سے مہاجروں کا ناطہ توڑااور سندھیوں کا ناطہ جوڑدیا۔

موٹر سائیکل امپورٹ نہ ہوتا تو بھی معیشت مضبوط ہوتی

ذوالفقار علی بھٹو میاں شریف برادری کی اتفاق فونڈری اور دوسری پرائیویٹ انڈسڑی کو تباہ نہ کرتا اور جنرل ضیاء الحق شریف برادری کو کاروبار سے نکال کر سیاست میں نہ لاتا تو آج شریف فیملی کو پانامہ لیکس کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ ایٹم بم بنانا ریاست اور سائنسدانوں کا کام تھا۔ نوازشریف اور شہباز شریف کا تعلق لوہے کی صنعت سے تھا۔ صرف موٹر سائیکل بنانے میں پاکستان کو خود کفیل بناتے تو آج اس ملک کی معیشت بہت مضبوط ہوتی۔ جب پرویزمشرف نے گوادر پورٹ چین کو دیا اور طالبان و بلوچ شدت پسند پاکستانی فوج اور چینیوں کو ماررہے تھے تو نوازشریف انکے ساتھ کھڑے تھے۔ تقریریں کرتے تھے کہ سوئی گیس سے پنجاب نے بلوچستان کی عوام کو محروم کیا ، اسکا ہم ازالہ کرینگے۔ پھر سی پیک سے کوئٹہ کو محروم کرکے لاہور کو نواز دیا۔ دنیا صنعتی علاقہ اس کو بناتی ہے جہاں آبادی نہ ہو، دنیا آلودگی کے خاتمے کیلئے منصوبہ بندی کررہی ہے اور ہمارے ملک میں لوہے کی صنعت سے وابستہ شریف برادری کے ہاتھ میں سیاست آئی تو ساہیوال جیسی زرخیز زمین کو کوئلے کی پلانٹ سے آلودہ کرنے کیلئے سلیمانی ٹوپی کے بجائے انگریزی ہیڈ پہن لیا۔ عوام کو یہ بھی بتادیا کہ بجلی کا وعدہ ہم نے پورا کرلیاہے ، اب اگلی مرتبہ ووٹ دو گے تو استعمال کا طریقہ بھی بتادیں گے۔ عدلیہ شریف فیملی کی ساری دولت اور خاندان کو باہر سے لاکر لوہے کی صنعت لگانے پر مجبور کردے تو پاکستان ترقی کی منزل طے کریگا۔ حضرت عمرؓ اپنے عروج کے دور میں عوام کو پیشہ بدلنے سے جبراً منع کرتے تھے۔ ریاست مذہب اور سیاست کو پیشہ بنانے پر سخت پابندی لگادے۔
ملت اسلامیہ کے داخلی مسائل کا جب تک حل نہیں نکالا جاتا ہے ،اس وقت تک سیاست اور مذہب محض تجارت اور مفاد پرستی کا شاخسانہ ہے۔عوام کے مسائل کے حل کی طرف توجہ کرنا ہوگی۔

پاکستان کی ریاست کے استحکام کیلئے اقدام کیا ہو؟

مجھے کارٹون سے کوئی دلچسپی نہیں لیکن بچوں کے محبوب شغل کی وجہ سے ٹام اینڈ جیری کا نام جانتا ہوں۔ سیاسی ٹاک شوز سے بڑی دلچسپی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ملک میں سیاست کی وہی حیثیت بن گئی ہے جو بچوں کے کارٹون کی ہے۔ بہت دور جانے کی ضرورت نہیں ۔ پیپلز پارٹی کی گذشتہ دور حکومت میں نواز شریف اور شہباز شریف دن رات آصف زرداری کی کرپشن کا واویلا مچاتے تھے۔ کراچی ، لاڑکانہ ، نوابشاہ اور لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں ، پیٹ چاک کرکے لوٹی ہوئی رقم واپس لوٹانے کے بیانات اور چوکوں پر لٹکانے کے عہد و پیمان سے میڈیا گونج رہا ہوتا تھا۔ جب ن لیگ کو عوام نے اقتدار سونپ دیا یا کسی اور چینل سے ان کو جتوایا گیا تو سب وعدے وعید بھول گئے اور پانامہ لیکس سے ان کی اپنی بلی تھیلی سے باہر آئی۔ متضاد بیانات میڈیا کی زینت بنے لیکن ڈھیٹ آہنی اعصاب کے ٹھیٹ مالک ٹس سے مس نہیں ہوتے۔
مذہبی دہشت گرد ریاستی اداروں کے پلے ہوئے قربانی کے بکرے تھے، جنکو جنرل راحیل شریف نے قابل قدر کارنامہ انجام دے کر ٹھکانے لگادیا۔ بلوچ قوم پرست تعصبات کے شکار تھے اور کراچی کی ایم کیو ایم اپنی قوم کیلئے ہی عذاب جان بن گئی تھی۔ اسلئے ان سب کو سہولت کے ساتھ قابو کیا گیا۔ بینظیر انکم سپورٹ کا نام بدل کر خوشحال پاکستان رکھ دیا گیا لیکن غریبوں کی تھوڑی بہت امداد بھی روک دی گئی۔ ہوسکتا ہے کہ مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی کو معاہدے

mustafa-kamal-ishrat-ul-ibad-2-

کے تحت یہ ڈھیل دی ہو کہ کچھ غریبوں میں ان کی مقبولیت کا گراف پھر بڑھ جائے۔ ابو ظہبی نے جو مفت پاور پلانٹ دیا تھا اس کے بارے میں سید تنویر الحسن زیدی نے میرے سامنے ایم کیو ایم کے رہنما سلمان مجاہد بلوچ کو گوادر کے پی سی ہوٹل میں بتایا کہ ’’مجھ سے کہا گیا کہ اگر ایم کیو ایم کو کچھ چاہیے تو ان کو بھی دے دیتے ہیں۔ اس وقت مصطفی کمال ناظم تھے ، جب مصطفی کمال نے بتایا کہ ہمیں کچھ نہیں چاہیے بس کراچی کے لوگوں کی مدد ہو تو میں خوشی سے پھولے نہ سمارہا تھا کہ ہماری ایم کیو ایم کتنی اچھی ہے۔ پھر گورنر عشرت العباد کے پاس بھی ہم گئے ، انہوں نے بھی یہی کہا مگر کسی نے بعد میں بتایا کہ اگر مصطفی کمال نہ ہوتے تو ڈاکٹر عشرت العباد کچھ لے لیتا۔ پھر وہ پاور پلانٹ پرویز مشرف کی حکومت کے جانے کے بعد صدر زرداری نے کراچی میں نہیں لگنے دیا۔ وہ پلانٹ پھر فیصل آباد میں لگایا گیا‘‘۔ چیئر مین سینٹ رضا ربانی وضاحت طلب کریں۔
عوام سوچتی ہے کہ یہ پاور پلانٹ عوام کیلئے تھا مگر کراچی اور فیصل آباد کی عوام کو براہ راست اس کا کیا فائدہ پہنچتا؟ ۔ اور کچھ نہیں تو لوڈ شیڈنگ اور بجلی کی کمی کا مسئلہ حل ہوسکتا تھا۔ دنیا بھر میں اتنی سستی بجلی کہیں پیدا نہیں ہوسکتی جتنی پاکستان میں پانی کے قدرتی بہاؤ سے پیدا ہوسکتی ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ آبشاروں سے دنیا روشن ہوسکتی ہے۔ محمود خان اچکزئی الیکٹریکل انجینئر ہیں ۔ وہ کہا کرتے تھے کہ سوات کے آبشاروں سے کئی ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہوسکتی ہے۔ اپنے دوست نواز شریف کو سمجھاتے کہ لوہے کے کاروبار سے بجلی کا کاروبار زیادہ منافع بخش ہے اور عوام کیلئے سستی بجلی کا بندوبست ہوجاتا تو پختونخواہ اور پاکستان کی عوام کا بہت بھلا ہوجاتا۔ کراچی میں جب ایرانی پیٹرول پکڑا جاتا ہے تو ریاست ، حکومت اور سیاست کا سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے۔ بلوچستان کے راستے میں دور دور تک کوسٹل ہائی وے پر آبادی ہے اور نہ ہی پیٹرول پمپ، گوادر میں ایرانی پیٹرول ہی فروخت ہوتا ہے۔ حکومت اپنوں و ریاستی عناصر کو نوازنے کیلئے اسمگلنگ کا کاروبار جاری رکھے ہوئی ہے۔
ایران سے گیس اور پیٹرول حکومت خریدتی اور عوام کو ریلیف مل جاتا ، اس طرح آبشاروں سے وسیع پیمانے پر سستی بجلی پیدا کی جاتی تو عوام کو خوشحال بنایا جاسکتا تھا۔ قدرتی پانی کے باوجود پاکستان کی آبادیاں صاف و شفاف پانی سے اسلئے محروم ہیں کہ منرل واٹر پر پلنے والے غریبوں کا احساس اور دکھ درد نہیں سمجھ سکتے۔ برفیلے پہاڑوں سے اللہ تعالیٰ شفاف پانی کو عوام تک پہنچاتا ہے اور حکمرانوں کی ناقص منصوبہ بندیوں سے غریب عوام آلودہ پانی و انواع و اقسام کی بیماریوں کے شکار بنتے ہیں۔حکمران سبسڈی کے نام پر کمپنیوں کو نواز کر اپنا اُلو سیدھا کرتے ہیں۔ یہ ملک قدرت نے دنیا پر امامت کیلئے بنایا ہے ، بلوچستان انڈسٹریل زون بنتا اور پنجاب و پختونخواہ اور سندھ کی آبادیوں میں قدرتی شفاف پانیوں کی حفاظت ہوتی ، زراعت و باغات ہوتے ، آلودگی سے حفاظت ہوتی اور کراچی سے گوادر تک سمندر کے کنارے کوسٹل ہائی وے پر انڈسٹریل زون ہوتا تو دنیا حسین پاکستان کا نظارہ کرنے کیلئے امنڈ آتی۔ ذو الفقار علی بھٹو کو ایوب خان لایا ، آدھا تیتر آدھا بٹیر بھٹو نے اسلامی سوشلزم کے نام پر ملک کا بیڑہ غرق کیا ، جنرل ضیاء نے بھٹیوں سے نواز شریف کو نکال کر قوم پر مسلط کیا جس نے ملک کو قرضوں تلے دبا کر عوام کو غلام بنادیا۔

ملیر اور لیاری ندی شفاف پانی سے بہہ سکتے ہیں. ابرار صدیقی

K4منصوبے پر اربوں روپے خرچ کرنے کے بجائے حیدر آباد کے پاس ڈیم بنا کر سندھ کے دار الخلافہ کراچی کو نہری سسٹم سے آباد کیا جائے

سیلابوں، طوفانوں، بارشوں اور دریائے سندھ پر ڈیموں کے ذریعے اتنا پانی جمع ہوسکتاہے کہ کراچی میٹھے پانی سے بہت مالا مال ہوگا پاکستان میں اللہ کی بہت بڑی نعمت پانی کا بہاؤ ہے لیکن حکمرانوں کی نااہلی کے سبب عوام کبھی طوفانِ نوح میں غرق اور کبھی کربلا کی پیاس مرتے ہیں

کراچی (پ ر) نوشتۂ دیوار لانڈھی کراچی کے نمائندے ابرار صدیقی نے کہاہے کہ ہمارا ملک وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود مسائل کا شکار اسلئے ہے کہ حکمران جھوٹے، مفاد پرست اور بہت نااہل ہیں۔سندھ میں طوفانی بارشوں اور سیلابوں سے بچنے کیلئے بھی ڈیموں کا سلسلہ شروع کیا جاتا تو آج ہمارے ملک کا نقشہ ہی مختلف ہوتا۔K4 پر اربوں روپے خرچ ہورہے ہیں اور بجلی کے ذریعے سے کراچی کو پانی کی سپلائی ہوگی۔ اگر سمجھدار دیہاتی ملک کے حکمران ہوتے تو حیدر آباد سے مغرب کی طرف قدرتی ڈیم کو دریائے سندھ سے مصنوعی کنکشن دیدیتے اور کراچی کو پانی کے قدرتی بہاؤ سے مالامال کردیتے۔ حکمرانوں کی ہر منصوبے میں زیادہ سے زیادہ کرپشن پر نظر ہوتی ہے۔ کالاباغ ڈیم کے علاوہ ہمارے ملک میں بہت سارے ڈیموں کا سلسلہ ہونا چاہیے تھا،پہاڑی علاقوں سے سستی بجلی پیدا کرتے تو دنیا بھر کے مارکیٹوں پر ہماری اندسٹریوں کا قبضہ ہوتا۔پانی کے ذخائر سے انواع و اقسام کے باغ سبزیاں اور اناج اگاسکتے تھے، افغانستان اور نوآزاد مسلم ممالک کی مارکیٹ بھی ہمارے پاس تھی۔
سندھ کے تھرپارکر میں انسان اور پرندوں کے بادشاہ جنگلی مور پانی نہ ہونے کی وجہ سے موت کا شکار ہورہے ہیں۔ پنجاب وسندھ اور بلوچستان میں پانی کی قلت سے زمینیں بنجر ہیں اور حکمرانوں کے بچے پاکستان کو لوٹ کر اپنے بچوں کو بیرون ملک آباد کررہے ہیں۔علاج و تعلیم ، رہائش وآسائش اور بال بچے باہر ہوں تو ان کو اس ملک کے باسیوں کی کیا فکر ہوگی؟۔
ملک ریاض ایک شخص ہے اور کراچی سے دبئی بنانے میں پیسہ بھی کمارہا ہے اور پاکستان کو ترقی کی راہ پر بھی ڈال رہاہے۔ ہمارا حکمران طبقہ کام کا ہوتا تو کراچی سے حیدر آباد تک پورا علاقہ بحریہ ٹاؤن سے زیادہ ترقی یافتہ بن جاتا۔ کراچی کی آبادی خستہ حالی کا شکار ہے ، پانی کی قلت سے بے حال کراچی کے مکین میٹھے پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ حیدرآباد سے جو نوری آباد کے مغربی جانب بارش کیلئے ڈیم بنایا گیاہے ، یہ بھی بڑا کارنامہ ہے لیکن اس کو دریا کے پانی سے کنکشن دیا جاتا اور سیلاب کے پانی سے بھر دیا جاتا تو پائپ لائن اور بجلی کے ذریعہ نہیں بلکہ نہروں کے ذریعہ سے کراچی میں پانی داخل ہوتا۔ جب بہترین منصوبہ بندی سے نہر کے ذریعے پانی آتا تو لیاری اور ملیر ندی صاف اور شفاف پانی سے بھرے رہتے۔ پنجاب کے اندر زمینوں کیلئے دور دراز علاقوں میں نہروں کا سلسلہ موجود ہے تو ملک کے پرانے دارالخلافہ اور سندھ کے صدرمقام کراچی کیلئے بھی ایک نہر بنادی جاتی۔ اب بھی یہ سب کچھ ہوسکتاہے لیکن نیت اور ہمت کی ضرورت ہے۔

بلوچستان ایران سے گیس خرید کر باقی صوبوں کو سپلائی شروع کردے، اجمل ملک

وزیراعظم نوازشریف نے پاکستان کے مفاد میں ایران سے گیس لینے کے بجائے قطر سے اپنے ذاتی مفاد کیلئے معاہدہ کیا جس سے ملک پھر گیس کے بحران کا شکارہوگا

ن لیگ کے وزیراعلیٰ ثناء اللہ زہری اور محمود اچکزئی کے بھائی گورنر بلوچستان اپنے صوبے کی پسماندگی دور کرنے کیلئے ایران کی گیس سے پاکستان کو فائدہ پہنچاسکتے ہیں

پنجاب چین،ترکی اور دیگر ممالک سے صوبائی مفاد میں معاہدے کرسکتاہے تو بلوچستان اپنے صوبے اور قومی مفاد کی خاطر فیصلے کرنے میں کسی دوسرے کا غلام کیوں؟۔

نوشتۂ دیوار کے ایڈیٹر محمداجمل ملک نے پاکستان کی تعمیر وترقی، بلوچستان کومحرومی سے نجات دلانے کیلئے تجویز پیش کی ہے کہ جنرل راحیل شریف کے کردار سے اسلئے ملک و قوم کو فائدہ پہنچاہے کہ اختیارات کو اپنے ہاتھ میں لینے کے بجائے قومی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھا ۔ بلوچستان حکومت اگر ایران سے گیس خرید کر صوبوں کو فروخت کرے تو پاکستان تیزی کیساتھ ترقی کا سفر طے کریگا،شریفوں کی رشتہ داری پر بھی اثر نہ پڑیگا۔ پاکستان میں مارشل لاؤں کی بہتات سے بڑی گندی ذہنیت کے لوگ کرپشن کے ذریعے سے ملک کے سیاسی نظام پر قابض ہوچکے ہیں۔جنرل راحیل شریف کا سب سے بڑا کارنامہ یہی تھا کہ مزید کرپٹ لوگوں کو اپنی پیداوار نہیں بنایا۔ عمران خان اور علامہ طاہرالقادری وغیرہ نے بہت دم ہلائے لیکن جنرل راحیل نے کوئی لفٹ نہ دی۔ یہی وجہ ہے کہ احتجاجی دھرنوں میں جتے ہوئے فسٹ کزن ایک دوسرے پر بروقت احتجاج نہ کرنے کا الزام لگارہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ کتا کچھ تو مالک کیلئے بھونکتاہے اور کچھ اپنے لئے بھی بھونکتاہے۔ سیاستدان ہر اسی ایشو پر ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے اور اپنے قدم جمانے کی کوشش کرتے ہیں جس میں قوم کیساتھ ساتھ اپنا مفاد بھی ہو۔
قوم گلی محلوں ، شہروں اور دیہاتوں میں کتوں کے بھونکنے کی طرح سیاستدانوں اور صحافیوں کا گلہ پھاڑ پھاڑ کر آواز یں سننے کی عادی بن چکی ہے۔ جنرل ایوب خان کا قوم کیلئے بڑا تحفہ ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق کا نوازشریف، جنرل پرویزمشرف کا ق لیگ کے علاوہ چھوٹی بڑی خوبی و خامی اپنی جگہ پر ہیں،سب ہی میں انسان ہونے کے ناطے اچھائیاں اور برائیاں ہوتی ہیں۔ اب اس ملک خداداد پاکستان کیلئے بھی کچھ کرنے کا وقت آگیاہے۔ قوم پرستوں کو بلوچستان میں دبایا گیاہے تو یہ مسئلے کا بنیادی حل نہیں ہے۔ مسلمان مکہ سے حبشہ اور مدینہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے لیکن ایک دن ایسا بھی آیا کہ دبے ہوئے مسلمان پھر ابھر کر نہ صرف مکہ کو فتح کرنے میں کامیاب ہوئے بلکہ جزیرہ نما عرب کے بعد دنیامیں اپنے دور کی سپر طاقتوں کو بھی شکست سے دوچار کردیا۔
بلوچ اور پٹھان ایک باعزت اور غیرتمند قوم ہے، بلوچستان سے افتخار چوہدری، جاوید اقبال اور دیگر پنجابی بیورکریٹ کو عزت ملنے سے بلوچستان کی پسماندگی کا حل نہیں ہے اور بلوچ رجمنٹ سے آرمی چیف کا انتخاب بھی اطمینان کا باعث نہیں بن سکتاہے۔ کرپٹ بلوچ قیادت کو کرپشن کی آزادی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف ترکی اور چین کیساتھ صوبہ کی سطح پر معاہدے کرسکتا ہے تو ن لیگ کا وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری اورمحمود خان اچکزئی کے بھائی گورنر بلوچستان کو بھی صوبائی سطح پر بڑے معاہدوں کی اجازت ہونی چاہیے۔ بلوچستان حکومت کی اپوزشن جمعیت علماء اسلام ف بھی اس کارِ خیر میں بھرپور طریقے سے مدد فراہم کرے گی اور بلوچوں کی قوم پرست پارٹیاں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گی جس سے اٹھاروین ترمیم پر بھی عمل کرنے میں زبردست مدد ملے گی۔ صوبائی خود مختاری کو قومی یکجہتی اور مرکز کو کمزور کرنے کیلئے سازش کے طور پر استعمال کیا جائے تو یہ پاکستان سے غداری کے مساوی گردانے جانے میں حرج نہیں ہے۔
پورے پاکستان میں گیس کی شدید قلت ہے، قطر سے گیس لانے میں ملک وقوم دونوں کے مفادات کو بہت نقصان پہنچ رہاہے۔ پنجاب کی سرحد سے ایران ملتا تو پنجاب اپنے اور ملک کیلئے ضرور گیس پائپ لائن کے معاہدے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کرتا لیکن بلوچستان کی سرحد پر موجود ایران کی طرف ن لیگ کی سیاسی لیڈر شپ کا دماغ نہیں جاتاہے، پرویزمشرف سے پہلے نوازشریف دومرتبہ وزیراعظم رہ چکے تھے لیکن گوادر اور سی پیک کی طرف اس کا دماغ نہیں گیاتھا، ایران سے گیس لانے کیلئے بھی کیا کسی جرنیل کی ضرورت ہوگی جو وزیراعظم نوازشریف کو جلاوطن کرکے سعودی عرب بھیج دے ؟۔بلوچستان ایران سے گیس اپنے لئے بھی خرید لے ، کسی کو ضرورت نہ بھی ہو تو سستے گیس کی وجہ سے پاکستان اور بیرون ملک سے بڑے پیمانے پر سرمایہ کار اپنے مفاد کی خاطر انڈسٹریاں لگانے میں دیر نہیں لگائیں گے۔
بلوچستان کے خزانہ میں گیس کے ذریعہ سے اتنی آمدن آئے گی کہ وہ اپنے سیکیورٹی کیلئے بھی مرکز سے کچھ لینے کے بجائے بہت کچھ دینگے۔ چین کے علاوہ روس سے آزاد ہونیوالی ریاستوں کو بھی اپنی مدد آپ کے تحت گوادر کی بندرگارہ سے ملادینگے۔ جنرل راحیل شریف نے قومی خدمت کی ہے لیکن اختیارات پر قبضہ نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے قوم مثبت رحجانات کی جانب بڑھی ہے۔ سیاسی قیادت کو بھی ہوش کے ناخن لیکر دوسرے کے اختیارات پر ناجائز قبضے کے خواب ترک کرنا ہونگے۔ بلدیاتی انتخابات کے حوالہ سے قومی سیاسی پارٹیوں کا کردار انتہائی قابلِ نفرت رہاہے۔
بلدیات اور صوبوں کو اختیارات دینے سے ہی پاکستان بہت مضبوط ہوگا۔ وزیراعلی پنجاب شہبازشریف اور وزیراعظم نوازشریف کی پوری توجہ لاہور ہی پر مرکوز ہے۔ پورا ملک تو دور کی بات پورے پنجاب کا بھی خیال نہیں ہے۔ یہ شکرہے کہ فوجی قیادت کے چناؤ میں انکے پاس بڑے ہی محدود اختیارات ہیں ورنہ صدرمملکت ممنون حسین، گورنر سندھ سعیدالزمان صدیقی ، گورنر پنجاب رفیق رجوانہ اور گورنر پختونخواہ اقبال ظفر جھگڑا کی طرح چہرے اور کردارتلاش کئے جاتے۔ صدر کو دوسروں کے چہرے منحوس اور اپنے معصوم لگتے ہیں تو یہ ان کا جمہوری حق ہے لیکن جمہوری ماحول میں اختلاف رائے کی گنجائش ہوتی ہے۔ کسی ذوالفقار بھٹو اور کسی کو جنرل ضیاء کا چہرہ اچھالگتا تھا اور اب اللہ کرے کہ جنرل راحیل شریف اور ان کے بعد آنے والے جرنیلوں کے چہرے اچھے ہی لگیں۔ جب پنجاب میں گیس کی قلت کے خلاف احتجاج ہو تو ایران سے گیس لیکر مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ اصحابِ اقتدار ملک کو مالامال کرنے میں بالکل کوئی دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔

بلوچستان و پختونخواہ انڈسٹریل زون بن سکتے ہیں، فاروق شیخ

دنیا بھر میں مستقبل کا سب سے بڑا مسئلہ ماحولیاتی آلودگی کا ہے، پنجاب اور سندھ انسانی ، حیوانی اور نباتاتی حیات کیلئے قدرتی وسائل کے حامل ہیں

پختونخواہ اور خاص طور پر بلوچستان کے سنگلاغ پہاڑ ومیدان، دشت وصحرا انڈسڑیل علاقے کیلئے زبردست ہیں، گھر کے صحن اور بلڈنگ کو سمجھنا ہوگا

کراچی (پ ر) نوشتۂ دیوار نمائندۂ کورنگی فاروق شیخ نے اپنے بیان میں کہاہے کہ کراچی کورنگی میں رہائشی اور انڈسریل ایریا دونوں کا وجود ہے۔پاکستان کے وسیع نقشہ کے تناظر میں دیکھا جائے تو رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑا اور آبادی کے لحاظ چھوٹا صوبہ بلوچستان کا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں پاکستان کا شمار انشاء اللہ ہونیوالا ہے۔ پنجاب اور سندھ کی زرخیز زمینوں میں سہولتوں کی ضرورت ہے، جہاں دنیا بھر سے لوگ اپنے کاروباری مقاصد کیلئے آئیں تو ان کو رہائش کی بہترین سہولتیں میسر ہوں۔ پاکستان ایک گھر کی طرح ہے جس میں بلڈنگ اور صحن ہوتاہے، کوئی صحن کی جگہ پر بلڈنگ اور بلڈنگ کی جگہ صحن والے کام نہیں کرتا۔ پنجاب میں بڑے پیمانے پر کارخانے لگ جائیں تو پنجاب رہائش کے قابل بھی نہیں رہے گا۔ سابق صدر مملکت آصف زرداری نے کہاتھا کہ شریف برادران کے سر وں میں لوہار کا دماغ ہے جس کا وہ بہت برا مانے لیکن لوہار ایک محنت کش کو کہتے ہیں۔ حق حلال کی کمائی والا لوہار ہو یا کوئی بھی محنت کش ،اسکو خفت محسوس کرنیکی ضرورت نہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا تھا الکاسب حبیب اللہ ’’محنت کرکے کمانے ولا اللہ کا دوست ہے‘‘، حضرت داؤد علیہ السلام اور آپکے فرزند حضرت سلیمان علیہ السلام تو انبیاء کرام کیساتھ وقت کے خلفاء اور بادشاہ بھی تھے ، جن کو اللہ نے لوہے کی صنعت ذرے بنانا سکھایا ۔ اگر شریف برادران کو بھٹو کے دور میں اس صنعت سے ہٹنے پر مجبور نہ کیا جاتا اور یہ لوگ جنرل ضیاء الحق کے ہتھے چڑھ کرگندی سیاست کے عادی نہیں بنتے تو صورتحال بالکل مختلف ہوتی۔ اگر کسی کو وراثت میں قابلیت ملے تب بھی اسمیں کوئی برائی نہیں ہے بلکہ بہت اچھی بات ہے، داؤدؑ سے زیادہ قابلیت حضرت سلیمانؑ میں تھی جس کا قرآن و حدیث میں ذکر ہے۔ ایسی قابلیت کی بنیاد پر وراثت ملتی ہو تو کون اعتراض کرسکتاہے لیکن بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز کے بجائے کوئی روبوٹ لایا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔ جنرل ایوب خان ذوالفقار علی بھٹو کو وزیر خارجہ نہ بناتے تویہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج ہم دنیا کے صنعتی ترقی میں عروج پر پہنچے ہوئے ہوتے۔
پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے ملک کی قیادت نہیں کی ہے بلکہ اپنی تجوریاں بھری ہیں۔ اگر ان میں خلوص ہوتا تو سی پیک اور ایرانی گیس کا مسئلہ کب کا حل ہوچکا ہوتا۔ بجلی اور گیس سے محروم عوام کا سیاستدانوں کے پاس احساس بھی نہیں ہے۔ عدالت عظمیٰ دونوں خاندانوں کے احتساب کو یقینی بناکر ملک وقوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں۔ کرپشن تحریک انصاف کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ہمارا قومی مسئلہ ہے ۔ دانشوروں کو چاہیے کہ قومی سیاست پر خاندانی تجارت کے راستے کو روکنے میں عوام اور ریاستی اداروں کا شعور بیدار کریں۔ کھلے ڈھلے الفاظ میں ان کو سمجھائیں کہ کیا نوازشریف عمرہ جاتی کے محل پر بلڈنگ میں صحن والے کام انجام دے گا اورصحن میں بیڈروم کے اشیاء ڈالے گا؟۔ کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے پر پنجاب کے دل ساہیوال کا بیڑہ غرق کر رہاہے۔ لاہور کے آس پاس علاقوں میں غریب کے بچے صنعتی زہریلی گیس سے ہی معذور ہورہے ہیں، میڈیا کو اشتہارات دیکر خریدا گیاہے۔ان مہلک امراض سے بچاؤ کی ذمہ داری کس کی ہے؟۔ غریب کے بچے منرل واٹر کیا پینے کے صاف پانی سے پنجاب میں بھی محروم ہیں۔ زہریلے مادوں کے اخراج سے جو نقصان پنجاب کی عوام کو پہنچ سکتاہے ، بھارت کو ہمیں مارنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
کراچی میں زیرزمین سمندر کا پانی ہے لیکن یہاں سے بھی صنعتی علاقوں کو انسانی آبادیوں سے بہت دور لے جانے کی ضرورت ہے، اور پنجاب میں تو زیادہ تر زیرزمین پانی ہی استعمال ہوتاہے ، پاکستان میں صنعتی آلودگی کیلئے موثر اقدامات نہیں کئے گئے تو دشمن کو مارنے کی بھی ہمیں ضرورت نہیں رہے گی۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن نے بدمعاش کلچر متعارف کروا رکھاہے جس کی ایک جھلک میڈیا پر ڈاکٹر نعیم باجوہ کے حوالہ سے عوام نے دیکھی تھی۔ اس بیچارے کا یہ قصور تھا کہ ن لیگ کے ایم این اے کی جگہ پر اس کا بھتیجا امتحان دیتے ہوئے پکڑا تھا۔ پرویز خان سے استعفیٰ لینے کی بات سے زیادہ اہمیت کا معاملہ یہ تھا کہ نوازشریف اور شہبازشریف کو اپنے بدمعاش بھتیجے عابد شیرعلی کو سیاست سے آوٹ کرنا چاہیے تھا، اس سے زیادہ بدمعاشی تو ایم کیوایم اور طالبان نے بھی نہیں کی ہے۔

مفتی تقی عثمانی کے نام خط

الحمد للہ و کفیٰ و سلام علیٰ عبادہ الذین الصطفیٰ و بعد
احقر کو علم و فضل کے اعتبار سے جناب سے کوئی نسبت نہیں ہے، علم و فضل سے ہے ہی نہیں تو نسبت کیا ہوگی؟ البتہ اللہ نے ایمان نصیب کیا ہے، دعا کرتا رہتا ہوں کہ اللہ یہ زندگی ایمان والی زندگی اور کلمہ والی موت پر ختم فرمائے۔
۱۔ اسلامی بینکاری کے حوالے سے تشویش و اضطراب عام ہے، علماء ، عوام، بینکنگ سے متعلق افراد، تاجر و غیرہ سب موجودہ اسلامی بینکاری کو اسلامی تعلیمات کے خلاف سمجھتے ہیں۔
۲۔ جتنے معتبر اور معروف دار الافتاء ہیں سب میں اس سلسلے کے استفتاء ہوتے ہیں اور جواز و عدم جواز سے متعلق سوالات کئے جاتے ہیں۔
۳۔ پاکستان کے علاوہ دوسرے ملکوں میں بھی یہ اضطراب موجود ہے، وہ بھی سوالات کرتے ہیں۔
۴۔ اس صورت حال سے دوسروں کی نسبت جناب کو زیادہ سابقہ رہتا ہوگا، کیونکہ آپ ہی پاکستان میں اس کے موجد ہیں۔
۵۔ علم و ضل کے اعتبار سے جو آپ کا مقام ہے وہ محتاج بیان نہیں، لیکن عصمت حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ خاص ہے، دوسرا کوئی معصوم نہیں، اس کا امکان بہر حال موجود ہے اسلامی بینک کا نظام جاری کرنے میں آپ سے غلطی ہوئی ہے۔
نمبر۱، نمبر۲، نمبر۳ پر جو باتیں کہی گئی ہیں، اس غلطی کے ارتکاب کیلئے واضح دلیل ہیں، اضطراب غلطی پر ہی ہوتا ہے اور وہ بھی ایسا اضطراب جس نے تمام طبقات کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، صحیح بات پر اضطراب نہیں ہوتا اور کوئی معاند مضطرب ہوتا ہے تو اس کی وجہ عناد ہوتی ہے، جبکہ موجودہ صورت میں امت کے تمام طبقات اس اسلامی بینکاری پر تشویش و اضطراب میں مبتلاء ہیں، یہاں عناد کا سرے سے کوئی احتمال موجود نہیں ہے، ان کا اضطراب اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی پر مبنی ہے۔
۶۔ ’’ربا‘‘ کا معاملہ انتہائی نازک و سنگین معاملہ ہے، اس سلسلے کی وعیدوں سے آپ ہرگز بے خبر نہیں ہیں، چنانچہ احتیاط واجب و لازم ہے۔
۷۔ ’’ربا‘‘ میں ’’شبھۃ الرباا‘‘ بھی حرام ہے، اگر حقیقت ’’ربا‘‘ کو قبول نہیں کیا جاسکتا تو ’’شبھۃ الربا‘‘سے تو انکار ممکن نہیں۔
۸۔ ارباب فتویٰ کے بیانات اور دوسرے طبقات جو بینکنگ کے امور سے باخبر ہیں، ان کے بیانات مسلسل اخبارات و رسائل میں چھپتے رہتے ہیں، جس میں وہ اسلامی بینکاری کو اسلام کے خلاف قرار دیتے ہیں، اپنے دلائل بھی پیش کرتے ہیں، یقیناًیہ تمام بیانات آپ حضرات کے علم میں بھی آتے ہوں گے، ضروری تھا کہ آپ ان حضرات کو مطمئن کرتے اور ان کی طرح اپنے جوابات شائع کرتے اور نہیں تو ارباب فتویٰ جو آپ ہی کے حلقے کے حضرات ہیں ان سے رابطہ کرکے ان کی تسلی کا انتظام کیا جاتا جو نہیں کیا گیا، اگر کبھی کوئی مشاورت ہوئی ہے تو اس کے نتیجے میں اختلاف ختم نہیں ہوا، اعتراضات بدستور موجود ہیں اور تشویش و اضطراب برقرار ہے۔
۹۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ بینکاری کے حوالے سے آپ اپنے آپ کو ’’اعلم الناس‘‘ سمجھتے ہیں، اور دوسروں کے معلومات کو ناقص فرماتے ہیں، مجھے تو آپ کی طرف سے اس قول کی نسبت درست معلوم نہیں ہوتی، اگر آپ کا یہ دعویٰ نہیں تو پھر وہی سوال ہوگا کہ آپ نے اشکال کرنے والوں کو مطمئن کیوں نہیں کیا؟ تاکہ اضطراب رفع ہوتا اور اگر آپ واقعی اپنے آپ کو عالم اور دوسروں کو ’’ناقص العلم‘‘ سمجھتے ہیں ’’فھو کما تراہ‘‘ یہ اپنے منہ میاں مٹھو بننے والی بات ہوگی، سورۂ جاثیہ میں: افرایت من اتخذ الٰھہ ھواہ و اضلہ اللہ علیٰ علم و ختم علیٰ سمعہٖ و قلبہٖ و جعل علیٰ بصرہٖ غشٰوہ فمن یھدیہ من بعد اللہ افلا تذکرونO ’’کیا تو نے دیکھا ہے جس نے اپنی نفسانی خواہش کو اپنا معبود بنالیا اور اس کو اللہ نے گمراہ کردیا علم کے باوجود۔ اور اسکے کان اور دل پر مہر لگادی ہے اور آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے تو کون ہے اللہ کے بعد اس کو ہدایت دینے والا، کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے؟‘‘۔
ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس اضطراب و تشویش کو دور کرنے کیلئے علماء اور اہل فتویٰ سے وسیع مشاورت کے بعد ایک فتویٰ اسلامی بینکاری کے ’’عدم جواز‘‘ پر جاری کیا جائے اور اس کا پورے ملک میں تشہیر کا اہتمام کیا جائے، ہم ہرگز تصادم کے خواہاں نہیں ہیں، ہم تو دل و جان سے آپ کے ساتھ رہتے ہیں اور آپ کا احترام کرتے ہیں، امت کو ’’ربا‘‘ کی لعنت سے بچانے کیلئے اپنا شرعی فرض ادا کرنا چاہتے ہیں، اس میں ذرا بھی تردد نہیں کہ فرض کی ذمہ داری ہم پر لازم اور ضروری ہے اور اب تک جو کوتاہی ہم سے ہوئی ہے اس پر ہم استغفار کرتے ہیں، آپ کیلئے بھی دنیا و آخرت کی فلاح کا واضح تقاضہ ہے کہ ہمارے ساتھ تعاون فرمائیں اور غلط مفادات کیلئے اس پر مشورہ دینے والوں سے اپنے آپ کو بچائیں۔ ’’ان فی ذٰلک لذکریٰ لمن کان لہ قلب او القیٰ السمع و ھو شھید‘‘۔

تبصرہ

حضرت مولانا سلیم اللہ خان وفاق المدارس کے صدر اور مولانا مفتی تقی عثمانی و مفتی رفیع عثمانی کے اُستاذ ہیں۔ مفتی زر ولی خان نے کوشش کرکے ان کو مفتی تقی عثمانی کی طرف سے سُود کے جواز کیلئے فتوؤں کیخلاف پاکستان بھر کے علماء کو منظم کرنے کی دعوت دی۔ پاکستان بھر سے بڑا اجلاس بلایا گیا جس میں بڑے بڑے علماء نے شرکت کی اور پھر مولانا سلیم اللہ خان نے مفتی تقی عثمانی کو خط لکھ کر سُود کے جواز کے اقدام سے روکنے کی کوشش کی۔ مفتی تقی عثمانی اور ان کے خاندان کے حوالے سے اس معاملے میں ناجائز ملوث ہونے کے خلاف مفتی زر ولی خان نے اچھے انداز میں لکھا۔ اس سے قبل جامعہ بنوری ٹاؤن کے مفتی عبد السلام چاڈگامی ، مولانا حبیب اللہ شیخ وغیرہ نے بھی بڑی کاوشیں کیں۔ ایک مرتبہ حاجی عثمان کے ہاں مولانا عبد اللہ ؒ لال مسجد اسلام آباد ، علامہ خالد محمود پی ایچ ڈی لندن اور دیگر علماء تشریف لائے اور مجھ سے کہا کہ اکابر علماء مفتی ولی حسن ٹونکی ؒ ، مفتی احمد الرحمنؒ اور دیگر حضرات حاجی عثمان صاحب کی بہت تعریف کرتے ہیں مگر مولانا زر ولی خان کہتے ہیں کہ حاجی عثمان اپنے مجالس میں مولانا فقیر محمد صاحب کو بد دعائیں دیتے ہیں۔ مجھے لگا کہ مولانا زر ولی نے بہتان لگایا ہے اور اس جوش و جذبے سے ان کی شان میں کچھ گستاخی بھی کر ڈالی۔ پھر مولانا مسعود اظہر نے بتایا کہ مولانا زر ولی خان نے مولانا یوسف لدھیانوی کے ساتھ بھی برا سلوک کیا ہے یہ آپ نے اچھا کارنامہ انجام دیا۔ جب حاجی عثمان صاحب پر دوست علماء نے الائنس موٹرز کی خاطر فتوے لگائے تو مفتی زر ولی خان کا پتہ چلا کہ وہ علماء کی مخالفت کررہے ہیں جس پر میں نے وہاں حاضری دی اور انہوں نے پہچان کر واپس جانے کا حکم فرمایا۔ میں نے سوچا اچھا ہوا حساب برابر ہوگیا۔ حاجی عثمان ؒ نے فرمایا تھا کہ میرے مریدوں میں سے دنیا دار کھدڑے عنقریب خانقاہ چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ مفتی زرولی خان مرید ہوتے تو ایسے مشکل وقت میں مردوں کا کردار ادا کرتے ۔کھدڑا صفت قسم کے علماء مفتیان نے بالکل بے ضمیری کا ثبوت دیتے ہوئے امتحان کے وقت میں حاجی عثمانؒ کو چھوڑا تھا۔ عتیق الرحمن گیلانی

اداریہ نوشتہ دیوار ، ماہ اکتوبر 2016

درباری ملاؤں اور علماءِ حق کے درمیان ہمیشہ سے بہت بڑا فاصلہ رہا ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک طرف علماءِ حق نے اپنی استعداداورصلاحیت کے مطابق کسی بھی مصلحت کا لحاظ رکھتے ہوئے کلمۂ حق بلند کیا ہے، حق کی آواز اُٹھائی ہے ، دین اور ایمان کی پاسداری کی ہے تو دوسری طرف علماءِ سوء نے ہر دور میں باطل کا ساتھ دیکر اسلام کا حلیہ بگاڑنے میں تاریخ کے ہر دور میں اپنا بدترین کردار ادا کیا ہے۔ اسلام کا حلیہ بگاڑنے میں ہمیشہ مسلمان ریاستوں اور حکمرانوں نے ہی اپنے مفادات کے تحت اپنا کردار ادا کیا ہے اور علماءِ سوء نے درباری بن کر چند ٹکوں کی خاطر انکا ساتھ دیا ہے، علماء حق نے مزاحمت کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور ہر دور میں عتاب میں رہے ہیں لیکن جیت علماءِ سوء کی اسلئے رہی ہے کہ ریاست اور حکمران ان کیساتھ تھے اور یوں اسلام بتدریج ہردور میں نبیﷺ کی پیشگوئی کے مطابق اجنبی بنتا گیا ہے۔
مسلکی اختلاف حق اور باطل کی بنیاد پر نہیں رہے ہیں۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ ، حضرت امام مالکؒ ،حضرت امام شافعیؒ ، حضرت امام احمد بن حنبلؒ ، حضرت امام جعفر صادقؒ ، امام اوزاعیؒ ، محدثینؒ ، امام ابن تیمیہؒ اور دیگر ائمہ مجتہدینؒ کے درمیان مسلکی اختلاف حق وباطل اورعلماء حق وعلماء سوء کا اختلاف ہرگز نہیں تھا۔آج مملکت خداداد پاکستان میں فرقہ وارانہ اور مسلکی اختلاف میں عقائد ومسالک کو ماحول کے تناظر میں جس طرح دیکھا جاتا ہے، اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جب تک حقائق کو نہ سمجھا جائے ،عالم اسلام کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا اور اختلافات کے دلدل اور بیرونی سازشوں بدترین بھنور سے ہم نکل نہیں سکتے۔
اس مرتبہ عیدالاضحی کے موقع پر تین عیدیں منائی گئیں، اہل تشیع کے بوہری فرقہ نے سعودیہ عرب سے ایک دن پہلے عید کے اجتماعات منعقد کئے۔ دوسرے دن عالمِ اسلام کے سب سے بڑے اجتماع ’’حج‘‘ کے دوران سعودیہ اور عرب ممالک کی عید تھی اور تیسرے دن پاکستان اور دنیا بھر میں پاکستان کے مطابق امریکی صدر اوباما وغیرہ نے مسلمانوں کو عید منانے پر مبارکباد دی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ایران، پاکستان اور امریکہ ، برطانیہ اور یورپ میں ایک عیدالاضحی ایک دن میں شرعی طور سے منائی جاتی ہے تو کیا عرب کیساتھ ایک دن میں عیدمنانا شریعت اور مسلک کیخلاف ہے یا اسکے پیچھے کوئی دوسرے عوامل ہیں؟۔ وزیراعظم نوازشریف نے عیدالفظرتو پاکستان سے ایک دن پہلے لندن میں سعودیہ کیساتھ منائی تھی اور عید الاضحی امریکہ میں سعودیہ کی بجائے ایک دن بعد پاکستان کیساتھ منائی۔آخر ایسا کیوں ہے؟۔
دوماہ دس دن بعد وزیراعظم نوازشریف کا عقیدہ و مسلک بدل گیا؟۔ یا یہ ایک اتفاق تھا اور یا پھر اسکے پیچھے معروضی حقائق کچھ اور ہیں؟۔ امریکی پارلیمنٹ نے بل منظور کیا کہ ’’ 9/11کا مقدمہ ورثاء کے مطالبہ پر سعودی حکومت پر چلایا جائے ‘‘۔ جس کو اوباما نے ویٹو کردیا، امریکی صدارتی امیداوار ڈونلڈ ٹرمپ کا تو ایجنڈہ ہی مسلمانوں کیخلاف ہے لیکن ہیلری کلنٹن نے بھی بالکل واضح کردیا کہ’’ اگر میں صدر ہوتی تو اس بل کو ویٹو نہ کرتی‘‘۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ’’ اسامہ بن لادن کی طرح ابوبکر البغدادی کا پیچھا کرکے ہمیں ماردینا چاہیے تھا‘‘۔ اسامہ بن لادن پر سب سے پہلا حملہ بھی کروز میزائل کے ذریعہ سے صدرکلنٹن کے زمانے میں ہوا تھا، سعودی حکومت ، داعش اور دیگر معاملات کے حوالہ سے امریکہ کا متوقع لائحۂ عمل کیا ہے؟۔ اس کا اندازہ سعودیہ کے علماء کونسل کی طرف سے یہ فیصلہ کہ ’’ کسی مسلمان فرقے کو کافر قرار دینا جائز نہیں اور تکفیری لوگوں کی بھرپور مذمت ہے‘‘۔ اگرکہہ دیا جائے ’’دیر آید درست آید‘‘ تو بھی ٹھیک ہے مگر ایک عمر گزاردی انتظار انتظار کرتے۔
سعودیہ کی ریاست چاہتی تو یہ اقدام بہت پہلے ہوسکتا تھا۔ پہلے شیعہ سنی اور دیگر اختلافات کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ بھی کارفرما تھا، آج مسلم ریاستوں کے ڈھانچوں کو تباہ کرکے مسلمانوں کے بچے، بوڑھے، جوان، خواتین وحضرات کو در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ افغانستان، عراق ، لیبیا، سوڈان اور شام وغیرہ سے جو لوگ پناہ گزین بن کر تباہ وبرباد ہورہے ہیں، اس کا سب سے بڑا ذمہ دار امریکہ اور مسلمانوں کے داخلی مسلکانہ، فرقہ وارنہ اور نظریاتی اختلافات ہیں۔ شیعہ سنی،حنفی اہلحدیث اور دیوبندی بریلوی اختلافات کے علاوہ القاعدہ اور داعش کے اختلاف کو ختم کرنا وقت کا تقاضہ اور مسلمانوں اور انسانیت کے بہترین مفاد میں ہے۔موجودہ دور میں مسلم ریاستوں کے اصحابِ حل و عقد کا سب بڑا فرض یہ بنتا ہے کہ گماشتہ علماء سوء کو استعمال کرکے جتنا اب مزید اسلام کا حلیہ بگاڑنے کیلئے علماء سوء کو ٹشو پیپر کی طرح سے استعمال کرنا چھوڑ دیں۔ علماء حق اور علماء سوء کے کردار کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کے بجائے حق کو حق اور باطل کو باطل قرار دیا جائے۔
موجودہ اسلامی بینکاری کو مفتی تقی عثمانی، مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی نے اسلامی قرار دیا اور جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی ، جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی ، احسن المدارس گلشن اقبال کراچی کے علماء و مفتیان سمیت دیگر علماء ومفتیان نے اس کو سود اور ناجائز قرار دیا ہے۔ پاکستان اور دیگر ملکوں کی ریاستی پالیسی یہ ہے کہ وہ ہمیشہ کی طرح آج کے دور میں بھی درباری علماء سوء کو سپورٹ کررہے ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی بڑی خبر اخبارات میں شہ سرخی بن کر عیدالاضحی کے دن سامنے آئی کہ ’’ اسٹیٹ بینک نے اسلامی بینکاری کو سود سے پاک کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘‘۔ درباری علماء سوء کے چہرے پر لگتا ہے کہ’’ ناک نہیں ہے، ورنہ کٹ جاتی، یہ اسٹیٹ بینک نے ان کی ناک پر مکا رسید کیا ہے ‘‘۔ وہ صرف اپنے معاوضہ کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔ ان کو عزت بھی کوئی چیز نہیں لگتی ہے۔
پہلے اسلامی بینکنگ نے حکومت سے اسلام آباد،لاہور موٹروےM”2 کی بجائے جناح انٹرنیشنل ائرپورٹ کراچی سودی قرضہ پر لیا تھا، اب موٹروےM”2 کے بدلے امریکہ میں ایک ارب ڈالر اسلامی بانڈز کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سودی نظام کو اسلام کا نام دینے کی آخر ضرورت کیا ہے؟، جب انمیں کوئی فرق بھی نہیں ہے۔ ہماری شرعی عدالت سپریم کورٹ کے تابع ہے اور سودی نظام کو عالمی سطح پر اسلام کے نام سے سودی نظام کے تابع کرنے کی ضرورت کیا تھی،جبکہ یہ کسی بحران کے نتیجے میں بھی نہیں ہے، پھر کیوں لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اسلام کا حلیہ بگاڑا جارہاہے۔ یہ شیعہ سنی، بریلوی دیوبندی اور حنفی اہلحدیث کے مسائل نہیں بلکہ نام نہاد شیوخ الاسلام اور مفتیان اعظم اپنے مکروہ چہروں کو مسلکوں کا سہارا لیکر چھپانے کی مذموم کوشش کررہے ہیں۔
دارالعلوم کراچی سے شائع ہونے والی کتابوں میں شادی کے رسوم میں لفافہ کو سود، احادیث کے مطابق 70گناہ،70وبال اور70وعیدوں کے معاملات گنوا دئیے گئے ہیں ، جن میں کم ازکم گناہ اپنی ماں سے زنا کے برابر ہے۔ پورے کراچی کا ستیاناس ہے جو شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی اور مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی سے یہ نہیں پوچھتا ہے کہ عوام پر شادی کے رسم میں لفافہ لینے دینے کے معاملہ پر اپنی ماں سے زنا کا فتویٰ لگانے والو! تم نے دنیا بھر میں سودی بینکاری کو اسلامی قرار دیکر عوام سے بڑا گناہ نہیں کیا ؟۔ کیا کراچی کے دیگر دیوبندی مدارس کی کوئی اوقات نہیں ہے؟۔ جو سب مل کر تمہارے خلاف یک زباں و سربکف ہیں؟۔فرقہ پرستی کا نقاب کب تک اور کس طرح سے چلتا رہے گا، یہ سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔پہلے درباری مفتیان ہوا کرتے تھے اب مولانافضل الرحمن بھی درباری بن گئے ہیں۔

اسلامی انقلاب یا سوشلزم کی جدوجہد؟ نادر شاہ

سوشلزم کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ ذاتی ملکیت اور دولت کا خاتمہ کرکے ہر چیز سرکار کی تحویل میں ہو، ایران کے ایک بادشاہ نے ’’زر، زمین اور زن‘‘ کو فتنہ قرار دیکر فیصلہ کیا کہ ہرچیز ریاست کی ہوگی۔ لوگ اپنے اوقات کار میں اپنی استعداد اور صلاحیت کیمطابق جو زندگی گزاریں گے وہ سرکاری ہوگی۔ یہ نظام اس وقت کامیاب ہوسکتا تھاجب انسان کی مرغیوں کی طرح کچھ نسلیں ہی ہوتی ۔ ان میں زیادہ تر برائلر باقی انڈے دینے والی، جنگجو اور فینسی وغیرہ کی انواع واقسام۔ اس طرح سے وہ حدود وقیود میں رہ کر زندگی گزارتے۔
علامہ اقبال نے ’’فرشتوں کا گیت ‘‘ کے عنوان سے اس نظام کی تائید کی،جسکا ایک شعر’ جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو‘ ہے اور اقبال نے کارل مارکس کا کہا کہ ’’وہ پیغمبر نہیں مگر اسکے ہاتھ میں کتاب ہے‘‘۔ اس نظام کا یہ خلاصہ ہے کہ جس طرح اسلام نے سودی نظام میں مال کے ذریعہ مال کمانے کو بدترین کہا ہے ، صرف قرض رقم نہیں بلکہ نقد سونا چاندی اور خوراک کے مختلف اشیاء کا نام لیکر اسمیں زیادتی کو سود کہا ہے۔ اسی طرح وہ تمام ذرائع اور وسائل جسکے ذریعہ سے مزدور کی محنت کا استحصال ہو، یا کسی بھی مالی ذریعہ سے زائد منافع کمایا جائے وہ سب کا سب سود اور ناجائز ہے۔ مثلاً ایک آدمی کسی کو دس لاکھ روپیہ دے اور دس ہزار ماہانہ سود لے یا اس دس لاکھ پر مکان خریدے اور اس کا ماہانہ دس ہزار کرایہ لے دونوں ہی سود ہے۔
جس طرح سے موجودہ سودی بینکاری کو اسلام سے بدل دیا گیا ہے، اسی طرح سے مکان کا کرایہ بھی سود کے جواز کیلئے ایک حیلہ ہے۔ اسکا فیصلہ کن حل کارل مارکس نے نکالا ہے کہ مزدور جو محنت کرتا ہے ، سرمایہ دار اس کی محنت کا غلط فائدہ اٹھاتا ہے اسلئے زر کا نظام ہی ختم ہونا چاہیے۔ روس اور چین میں مزدوروں کی فلاح والا نظام تھا اور یورپ اور مغربی ممالک اورآسٹریلیا ، جاپان وغیرہ میں سرمایہ دارانہ نظام ہے لیکن ہمارا مزدور اور وہ محنت کش طبقہ جس کو حکومت چھین لینے کی دعوت دی جاری ہے ،سرمایہ دارانہ نظام والے ممالک کی طرف بھاگتا ہے ، روس و چین کی طرف باندھ کر بھی لے جایا جائے تو نہیں جاتا اور اگر وہاں انکے حالات بدلتے یا عقیدت ومحبت رکھتے تو پھر وہاں جانے میں کیا تھا؟۔
محترم لال خان صاحب اور دیگر محنت کشوں کا علمبردار طبقہ اپنے خلوص سے سوچنے پر مجبور ہیں کہ سوشلسٹ انقلاب مسائل کا حل ہے،اگر محنت اور صلاحیت کی بنیاد پر انسان کو معاوضے کی تلاش ہو تو سرمایہ دار اور جاگیردار سے یہ امید رکھی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے ہی مفاد کیلئے محنت اور صلاحیت کا پورا پورا معاوضہ دے لیکن اگر ریاست ہی مالک بن جائے تو پھر حکومت سے لڑنا معمولی بات نہیں ، ناممکن نہیں تو مشکل ضرورہے۔ مزدوروں اور محنت کشوں کو قربانی کا بکرا بناکر نظام کی تبدیلی کیلئے استعمال کیا جائے اور پھر بھی اس کی قسمت نہ بدلے تو کون کس کا کیا بگاڑ سکتا ہے، آخرت میں مواخذے کا خوف بھی گارگر ہوتا ہے اور یہ بھی اس نظام میں بالکل مفقود ہوجاتا ہے۔طبقاتی تقسیم میں ایک دوسرے کیخلاف اکسانے کے کام سے اصلاح ہوسکتی ہو تو یہ قوتِ مدافعت کو بیدار کرنے کا ذریعہ ہے اور مقابلے میں ترقی کا عمل جاری رہتا ہے اور اس قسم کی کاوشیں ہونی چاہئیں۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے غلام کو عبد قرار دیا، اور یہ بھی بتادیا کہ عبدیت(غلامی) کسی اور کی نہیں صرف اللہ کی ہی ہوسکتی ہے۔ غلامی کی جو جراثیم ہڈیوں اور رگوں میں سرائیت کر چکے تھے ، اللہ تعالیٰ نے نسل در نسل غلام رہنے والی قوموں کوبہت محدود وقت میں بڑی زبردست حکمت سے نکالا۔ مشرک رشتہ داروں کی نسبت سے عبدمؤمن اور مؤمن لونڈی سے شادی کو بہتر قرار دیا۔ فیض احمد فیض بہت بڑے انقلابی تھے لیکن کسی غریب گھرانے کی خاتون سے بھی شادی نہ کی لونڈی سے شادی تو بہت دور کی بات ہے۔ اللہ نے قرآن میں طلاق شدہ، بیواؤں کی شادی کرانے کا حکم دیا،تو صالح غلاموں اور لونڈیوں کی شادی کرانے کا بھی حکم دیا ۔ اللہ نے قرآن میں لونڈی بنانے کے رسم کو اہل فرعون کا وظیفہ قرار دیا اور اس رسمِ بد کو ختم کرنے میں اسلام نے بہترین کردار ادا کیا ،کسی غلام کو آقا سے نفرت یا مارکھلانے کی بجائے حسنِ سلوک اور سہولت سے آزادی دلائی ۔کالے حبشی غلام حضرت بلالؓ نے وہ عزت پائی کہ بڑے بڑے بادشاہوں کے تاج کو انکے پاؤں کی خاک کے برابرنہیں سمجھا جاتا ۔بڑے بڑے لوگ ان کا نام گرامی رکھنے پر بھی فخر محسوس کرتے ہیں۔
سرمایہ دار ملکوں میں محنت اور صلاحیت کی وہ ناقدری نہیں ہوتی جوسوشلسٹ نظام میں ہوتی ہے۔ دنیا کے امیر ترین افراد میں سے کچھ نے اپنی صلاحیتوں کا صلہ پایا اور پھر اپنی دولت کو غریبوں کیلئے وقف کردیا۔ ہمارے ایک ساتھی شاہ وزیرخان بنیرسوات کا رہاشی ہے، پہلے داڑھی لمبی تھی اور پھر چھوٹی کرلی۔ لوگوں نے کہا کہ افسوس تم نے داڑھی چھوٹی کرلی ہے؟۔ اس نے کہا :’’ جب میری داڑھی بڑی تھی تو کونسا تم میرے پیچھے بوتل لیکر گھومتے تھے کہ اس کو دم کردو، پہلے بھی یہی شاوزیرتھا اور اب بھی وہی شاہ وزیرہوں‘‘۔
ایک مزدور طبقے سے تعلق رکھنے والے کی حالت اپنی صلاحیت کیوجہ سے بڑی مشکل سے بدل سکتی ہے۔ برائلر مرغے کولڑنے والے اصیل مرغے سے لڑادیا تو اسکا کام کردیا۔ اچھی شکل، اچھی ذہنیت اور اچھی صلاحیت کوئی جرم نہیں اور نہ بدشکل، ذہنی غباوت اور کم صلاحیت کوئی جرم ہے، دوافراد ایک طرح کی صلاحیت رکھتے ہوں ایک کم محنت کرے اور دوسرا زیادہ۔ اگر زیادہ محنت کرنے والے کا فائدہ اسکے بچوں کو پہنچے تو یہ قدر زایدکے فارمولے سے متصادم نہ ہونا چاہیے ورنہ کوئی اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر معاشرے کی ترقی و عروج میں بھی کوئی کردار ادا کرنے کے کام نہ آئیگا،ترقی وعروج کی فضاء اسوقت ہی قائم ہوسکتی ہے جو افراد کے اجتماع میں انفرادی طور پر ایک دوسرے سے بڑھنے ،آگے نکلنے ،زیادہ سے زیادہ آسانی وسہولت اور فوقیت حاصل کرنے کا ایک ماحول بھی موجود ہو۔ سکول میں پڑھنے والے بچے ہوں یاسڑک پر چلنے والی گاڑیاں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کیفیت ایک فطری عمل ہے اور پھر بعض معاملات میں ایک دوسرے کیلئے قربانی دینے کا ماحول اعلیٰ درجے کی اخلاقیات کی وجہ سے پیدا ہوتاہے ،ایک سری گھروں میں گھوم کر واپس آنا اور میدان قتال میں مرنے سے بچنے کیلئے پانی مانگتے ہوئے پھر کسی کو ترجیح دینا وہ روحانی اقدار ہیں جو مذہب پیدا کردیتاہے ےؤثروں علی انفسھم ولوکان بھم الخصاصۃ ’’وہ اپنی جانوں کو دوسروں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود انہی کو ضرورت بھی ہو‘‘۔ تعصب بھرنے سے اعلیٰ اخلاقی قدریں پیدا نہیں ہوسکتی ہیں۔
فتح مکہ کے بعد کسی کو غلام بنایا اور نہ لونڈی انتم طلقاء لاتثریب علیکم الیوم ’’تم آزاد ہو، آج تم پر کوئی ملامت نہیں‘‘۔یہود ومنافقین کیساتھ میثاقِ مدینہ اور مشرکین سے صلح حدیبیہ کی عہدشکنی کے بعد فتح مکہ کے موقع پر بہترین سلوک ریاضی کا کلیہ نہ تھا، تاہم اہل فکر ودانش میں ریاضی کے قانون میں دو اور دوچار کی طرح معاشی اور معاشرتی نظام سمیت سائنسی معاملات میں بھی مکالمے کی ضرورت ہے، اسلام چیلنج میں پورا اترنے میں ناکام نہیں عقلی بنیادوں پر زیادہ قابل ترجیح نہ سمجھا جائے تو پھینک دینے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ ہونا چاہیے۔ اسلام کو فرقہ وارانہ مسالک نے اجنبی بنا دیا ہے، کمیونسٹ پارٹیاں کس وجہ سے انتشار اور ایک دوسرے سے عناد کا شکار ہیں؟۔اگر مارکسی نظریہ ایک ریاضی ہے تو ریاضی میں اختلاف، تفریق اور انتشار کیساہوسکتاہے؟۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا : ارض اللہ واسعۃ ’’اللہ کی زمین وسیع ہے‘‘۔ اور احادیث میں آتا ہے کہ زمین کومزارعت پر دینا سود ہے، زمین کو مفت نہ دے سکو تونہ دو، بٹائی ، کرایہ اور ٹھیکہ پر دینا جائز نہیں ۔ مزارعہ اپنی محنت کامالک بنے تو مزدور کا معاوضہ بڑھ جائیگا بلکہ مارکیٹ میں بھی اپنی مرضی کا معاوضہ حاصل کریگا۔ جاگیردار خود کھیتی باڑی میں لگ جائے تو وہ بھی محنت کش ہوگا۔ امام ابوحنیفہؒ ، امام مالک ؒ اور امام شافعیؒ نے بھی مزارعت کو سود قرار دیامگر علماء سوء کو ہردورکا جاگیر داراور سرمایہ دار خرید لیتا ہے جو شریعت کا خودساختہ فتویٰ اپنے ذاتی مفاد کیلئے کشید کرلیتا ہے، آج بینکاری کے سودی نظام کو بھی معاوضہ لیکر سندِ جواز دیا جارہاہے۔ جن علماء سوء نے احادیث اور اماموں سے انحراف کیا تھا، انہوں نے یہ علت بتائی تھی کہ ’’مزارعت کی وجہ سے لوگ غلامی کی زندگی بسر کررہے تھے، اسلئے اسکو سود و ناجائز قرار دیا گیا ‘‘۔ چلو ان کی بات مان لی لیکن آج بھی مزارعہ تو غلامی کی زندگی ہی بسر کررہے ہیں۔رسول اللہ ﷺ نے جس صحابی کو زمین کا مالک بنادیا تھا،جب اس کو آباد نہ کیاتو حضرت عمرؓنے چھین لی۔ آج مزارعین کو اپنی محنت کا مالک بنادیا جائے اور جو لوگ خود زمینوں میں کھیتی باڑی کرکے آباد نہیں کرسکتے اور نہ دوسروں کو دیں ،انکی زمین چھین لی جائے تو پاکستان میں خوشحالی اور اسلام کا انقلاب آجائیگا۔
عوام، غریب، پسماندہ طبقات اور پسے ہوئے انسانوں کے حقوق کیلئے یہ جائز آواز اٹھائی جائے اور حکمران اور بااثر طبقہ یہ دینے کیلئے تیار نہ ہو تو کوئی بھی غریب کے حقوق یا اسلام کے نام پر ڈھونگ رچانے کے قابل نہ رہیگا سیاسی قائدین میں شامل جاگیردار طبقہ مزارعین کو ان کا جائز حق دینگے تو بھی معاشرے میں بہت بڑی تبدیلی کا آغاز ہوجائیگااور غریب اپنے پاؤں پر کھڑے ہوکر کارل مارکس کے نظریات کو سمجھنے کے قابل بھی بن سکے گا، اب تویہ بدھوطبقہ کامریڈلال خان کی زبان میں بات سمجھنے کی صلاحیت سے بھی عاری ہے اور جب عملی طور سے بدلتی ہوئی قسمت لال خان کو نظر آئیگی تو اسلام کو سلام کرینگے۔
لعل خان جیسے سمجھدار، بہادر اور انسانیت سے محبت رکھنے والے اسلام کی بنیاد پر مخلص عوام کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے جو بیچارے بیوی کو حلالہ کیلئے بھی پیش کردیتے ہیں اور مفاد پرست مذہبی طبقے کی اجارہ داری ختم ہوجاتی تو مؤثر انقلاب میں دیر نہ لگتی۔

پندرہ روزہ ’’طبقاتی جد وجہد‘‘ کی کچھ ’’جھلکیاں.. محنت نے دولت کو للکارا ہے!

مئی1886ء کو امریکی سرمایہ دار ریاست کے ہاتھوں شکاگو میں جب مزدوروں کے پرامن جلسے کو خون میں ڈبو دیا گیا۔ مزدوروں کے ریاستی قتلِ عام کے بعد انکے قتل کا مقدمہ مزدور رہنماؤں پر چلاکر ان کو پھانسی دیدی گئی۔۔۔ ایک مزدور کو زندگی کی سہولیات حاصل کرنے کیلئے ایک دن میں کئی جگہ گھنٹہ دو گھنٹہ کام کرنا پڑتا ہے تب زندگی رواں دواں رہ سکتی ہے… معلوم دنیا کی تاریخ’’ طبقاتی کشمکش ‘‘ کی ہے، غلام کی آقا، مزارعہ کی جاگیردار، مظلوم کی ظالم اور مزدور کی سرمایہ دار کے خلاف… یومِ مئی مزدوروں کا عالمی دن، ناقابلِ مصالحت طبقاتی کشمکش کاعلمبردار
تحریر۔قمرزمان خان:اگرچہ محنت کش طبقہ اپنی جدوجہد سے اپنی منزل تک نہیں پہنچا مگرشکستوں اور فتوحات کی مختلف لہروں سے نظر آتا ہے کہ اس کشمکش نے ظلم سے کافی …
فوجی اداروں میں بدعنوانی: فوج میں تطہیر کی حدود…21اپریل کو فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کے حوالے سے منظر عام پر آنیوالی کاروائی میں لیفٹیننٹ جنرل ایک میجر جنرل3بریگڈئیرزایک کرنل اور 12افسران کو برطرف کیا گیاہے لیکن ابھی واضح نہیں ہواہے کہ کیا ان کا کورٹ مارشل بھی ہوگا یاانکو اس کرپشن میں سزائیں بھی ملیں گی کہ نہیں؟
تحریر: لال خان۔ ویسے تو یہاں میڈیا معمولی واقعات ، خصوصاً معمول بن جانیوالی کرپشن کی خبروں اور افواہوں ہی سے چائے کے کپ میں طوفان کھڑا کردیتا ہے لیکن جنرل راحیل شریف کی جانب سے فوج میں تطہیر کے تأثر سے تو سونامی برپا ہوجائیگا۔۔۔
جنرل راحیل کا یہ بیان تھا کہ ’’ ہرطرف مکمل احتساب کیا جانا لازم ہے….اگر ہم بد عنوانی کی غلاظت کا خاتمہ نہیں کرینگے تو دہشت گردی کیخلاف جنگ نہیں جیتی جاسکتی ہے‘‘ عمومی طور پر حزبِ اختلاف نے اس بیان کو نوازشریف اور انکے خاندان کے حالیہ پانامہ لیکس سکینڈل سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔لیکن چونکہ اس پیسے کی سیاست کے تمام دھڑے کسی نظریاتی بنیاد سے عاری ہیں اسلئے انکے تجزئے و بیان بڑے ہی سطحی اور محدود ہوتے ہیںیہی وجہ ہے کہ یہ سیاستدان کسی دوررس تناظر یا پروگرام یا لائحۂ عمل سے بھی عاری ہیں، انکی چونکہ ساری دلچسپی مال بٹورنے میں ہوتی ہے، اسلئے انکی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اقتدار کے ذریعہ اس لوٹ میں زیادہ حصہ داری رکھنے والے سیاسی دھڑوں کو کسی طریقے سے پچھاڑا جائے ، چاہے فوجی کاروائی کے ذریعہ ہی سے کیوں نہ ہو۔ جمہوریت کے یہ چمپئن تو بوقتِ ضرورت فوجی حکومتوں میں بھی حصہ داری حاصل کرلیتے ہیں اور اس وقت کوئی بھی حاوی سیاسی پارٹی ایسی نہیں ہے جو کسی نہ کسی فوجی اقتدار میں کسی نہ کسی قسم کی شراکت اور مراعات حاصل نہ کرتی ہو۔
جنرل راحیل شریف کی غیرمعمولی کاروائی کسی اور ہی مسئلے اور تشویش کی غمازی کرتی ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اور اسکی ریاست میں کسی نہ کسی سطح پر کرپشن موجود ہوتی ہے۔ کچھ اداروں میں کرپشن کم اور کچھ میں زیادہ ہوتی ہے لیکن پاکستان کی موجودہ فوج جس کے بنیادی ڈھانچے انگریز سامراج کی برصغیر میں کھڑی کی جانے والی فوج پر مبنی اور انہی کا تسلسل ہیں اس میں کرپشن کی گنجائش کم ازکم انگریز سامراج نے بہت کم چھوڑی تھی، اسلئے نہیں برطانوی سامراج بڑا دیانتدار اور نیک تھا بلکہ اسلئے کہ ریاست کے فوج جیسے کلیدی ادارے میں کرپشن کا بڑے پیمانے پر پھیل جانا پوری حاکمیت کیلئے زہرِ قاتل ثابت ہوسکتا ہے۔ انگریز سامراج نے مارکس کے الفاظ میں’’ ہندوستان پر قبضہ ہندوستان(برصغیر) کی فوجوں کے ذریعہ ہی کیا تھا۔‘‘۔ یہاں تک کہ 1857ء کی جنگِ آزادی میں سکھوں، کشمیر کے مہاراجہ اور دوسرے مقامی قبائلی ، علاقائی اور نسلی لشکروں کی حمایت انگریز کو نہ ملتی تو ان کو یہاں کے مقامی فوجیوں اور عوام نے شکست دے دینا تھی ۔ اور ان کو ہندوستان پر مکمل قبضہ کی بجائے یہاں سے فرار ہونا پڑتا۔انہوں نے بنگال سے آغاز کیا،اور تقسیم اور لالچ کے ذریعے مقامی راجاؤں، مہاراجاؤں کو غداریوں پر راغب کرکے انہیں استعمال بھی کیا اور نوازا بھی۔ پھر یہ پالیسی ہرطرف جاری رکھی۔لیکن پھر انہوں نے یہاں کی برادریوں، نسلوں، ذاتوں کی اقسام اور انکے سماجی کرداروں کی پرکھ بھی حاصل کی اور انہیں استعمال کرنے کی پالیسی بھی اختیار کی۔ اس طرح جغرافیائی لحاظ سے بکھرے ہوئے معاشروں کی معاشی وسماجی خصوصیات اور حتی کہ مختلف خطوں کے افراد کی جسمانی ساخت کی بنیاد پر برٹش انڈین آرمی تشکیل دی۔ ان میں خصوصاً شمال مغربی پنجاب کے سنگلاخ علاقوں اور وادیوں سے ( سنگ دل افرادکی) زیادہ بھرتیاں کی گئیں۔ یہ کوئی حادثاتی امر نہ تھا کہ برطانوی فوج کے عروج میں بھاری نفری سکھ جاٹوں،راجپوتوں اور دھن، بھون،دنہار، کالا چٹاوغیرہ جیسے دوسرے علاقوں سے تعلق رکھتی تھی۔ اسکے ساتھ ساتھ انہوں نے فوجیوں کو سویلین آبادیوں سے الگ سخت ڈسپلن کے تحت چھاؤنیوں میں ہی محدود رکھا، اگر کسی فوجی کو کنٹومنٹ کی حدود سے شہر میں کسی نہایت ضروری کام سے بھی جانا ہوتاتھا تو اس کیلئے نائٹ پاس حاصل کرنا ضروری ہوتا تھا۔ دوسری جانب فوجی سپاہی اور افسران دہقانوں، چھوٹے کسانوں یا درمیانے درجے کے زمیندار گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے اور ان میں نسل در نسل مغرب سے برصغیر آنے والے حملہ آوروں کیلئے لڑنے کی روایات بھی موجود تھیں اور پھر انکے خلاف بغاوتوں کی ریت بھی پائی جاتی تھی۔
پاکستان بننے کے بعد یہاں کا حکمران طبقہ اپنی تاریخی نااہلی، مالیاتی کمزوری،تکنیکی پسماندگی کے تحت جدید صنعتی سماج، سرمایہ دارانہ ریاست اور پارلیمانی جمہوریت قائم کرنے سے قاصر تھااور نظام کو برقرار رکھنے اور اسے چلانے کیلئے روزِ اول سے ہی اقتدار میں فوج کا کلیدی کردار رہا۔ اقتدار میں آکر فوج اور بالخصوص فوجی اشرافیہ یا جرنیلوں کی دو لت اور طاقت کے باہمی رشتے میں شمولیت ناگزیر ہوجاتی ہے۔جوں جوں فوجی اقتدار کی شرح بڑھتی گئی، فوج کا سرمایہ اور کاروبار امور میں کردار بھی بڑھتا چلاگیا۔ اسی طرح یہاں کے سرمایہ دار طبقے کا وجود ہی کرپشن اور چوری سے مشروط ہے، چنانچہ وقت کیساتھ بدعنوانی ریاست کے ہر ادارے میں پھیلتی چلی گئی ضیاء الحق کے دور میں یہ عمل تیز تر ہوگیا۔
جنرل راحیل شریف کا یہ اقدام کرپشن اور کالے دھن کے اس پھیلتے ہوئے زہر کے تریاق کی کوشش معلوم ہوتا ہے جس سے ادارے کے ڈھانچوں اوروجود تک کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ ایسے میں یہ ادارہ نہ اس ریاست کے کسی کام کا رہیگا اور نہ اسکا وجود اور ساکھ برقرار رہ سکے گی۔ فوج کے کرپشن میں ملوث ہونے کی داستانوں کی کتابیں ڈھیروں ہیں لیکن یہ واقعہ حکمرانوں کی شدید تشویش اور سنگین کیفیت کی عکاسی کرتا ہے۔ریاستی نقطہ نظر سے بھی دیکھا جائے تو یہ قدم بہت چھوٹا ہے اور بہت تاخیر سے اٹھایا گیا ہے، تاہم حکمران طبقات کے دانشور ، تجزیہ نگار اور درمیانے طبقے کے کچھ افراد اس سے بھی خوش ہیں کہ چلو کچھ تو ہواہے!۔ راحیل شریف کی اُبھاری گئی ساکھ کا بھی شاید ان کے شعور پر بوجھ ہوگا۔ اس اقدام سے اس ادراک کا یہی کردار ہوسکتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ کرپشن اس بحران کی وجہ نہیں بلکہ اسکی ناگزیر پیداوار ہے۔ریاست ، معیشت اور سیاست کے اس بحران کی دو بنیادی وجوہات ہیں پہلے تو پاکستان کے بوسیدہ سرمایہ دارانہ نظام اور سرمایہ دار طبقے میں اتنی سکت ہی نہیں کہ یہاں کے سرمایہ دار ٹیکس اور بل ادا کریں، محنت کشوں کو انسانی اجرت اور سہولیات بھی دیں، ہر کام جائز طریقے سے کریں اور ساتھ ہی اپنا شرح منافع بھی برقرار رکھ سکیں۔دوسری جانب بدترین استحصال ، نابرابری اور غربت سے ذلت اورمحرومی اتنی بڑھ چکی ہے کہ اس میں ہر سطح اور ہر ادارے میں دو نمبری کے بغیر گزارہ نہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اقدام ایک بے قابو ہوتے ہوئے عمل کے خلاف صرف ایک وارننگ ہے لیکن جب بدعنوانی نظام کا ناگزیر جزو بن جائے اور اُوپر سے نیچے تک سماج اور ریاستی مشینری کے رگ وپے میں رچ بس جائے تو جرنیلوں،افسر شاہی اور سیاستدانوں وغیرہ کے خلاف انفرادی کاروائیاں ختم نہیں ہوسکتی۔سوال پھر پورے نظام پر آتا ہے۔ بدعنوانی ختم کرنے کیلئے ذاتی ملکیت اور دولت کا خاتمہ درکار ہے۔ یہ کسی جرنیل کا نہیں سوشلسٹ انقلاب کا فریضہ ہے۔(کامریڈلال خان صاحب)۔
اوکاڑہ میں انجمن مزارعین پر فوجی آپریشن: محافظ یا غاصب؟۔تحریر امان اللہ مستوئی: ایک آپریشن جو پچھلے چندروز میں دوبارہ جاری کیا گیا وہ وسطی پنجاب میں انجمن مزارعین کیخلاف ہے۔ یہ غریب کسان نہ دہشت گرد ہیں نہ بھتہ خوراور سب سے بڑھ کر یہ غیر مسلح ہیں لیکن ان پر بھی ’’نیشنل ایکشن پلان‘‘ کے تحت ’’دہشت گردی‘‘ کے مقدمے ہی درج ہورہے ہیں اور ریاستی جبر پوری وحشت سے کیا جارہا ہے۔ انجمن کے 13کارکنوں کوکئی دنوں سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے ۔ ان میں دو خواتین بھی شامل ہیں۔(جدوجہد)