پوسٹ تلاش کریں

سینٹ الیکشن سے جمہوریت ناکام ہوئی ہے مولانا فضل الرحمن کے بیان پر فیروز چھیپا کا تبصرہ

senate-elections-2018-molana-fazal-ur-rehman-azam-swati-mandi-jui-blackmailing-changa-manga-ghulam-ishaq-khan-nawabzada-nasrullah-baghal-geer-shirin-rehman

ڈائریکٹر فنانس نوشتۂ دیوار فیروز چھیپا نے مولانا فضل الرحمن کے بیان پر تبصرہ کیا کہ مولانا فضل الرحمن کے ساتھیوں نے وقت پر احتجاج کیا کہ ہمیں ڈپٹی اسپیکر کے عہدے پر نظر انداز کیا گیا اسلئے سینٹ الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے۔ تین مولانا کے نام پکارے گئے لیکن وہ غیر حاضر تھے، جس پر ن لیگی رہنما پریشان ہوکر تلاش میں نکلے اور فون کرنے لگے، پھر مولانا صاحبان تشریف لائے اور اپنا ووٹ بھی کاسٹ کیا۔ جب زیادہ تعداد میں اپوزیشن کے نامزد چیئر مین کو ووٹ مل گئے تو یہ چہ مگوئیاں شروع ہوئیں کہ کس نے دغا کیا ہے؟۔ کچھ لوگ ن لیگ کے اپنے ارکان کی طرف انگلی اٹھانے لگے اور کچھ نے مولانا کی عزت افزائی کی۔ مولانا نے کہا کہ ’’میں بھی حیران ہوا کہ یہ کیسے ہوا؟۔ میں اپنے ارکان کے بارے میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا‘‘۔ گرچہ مولانا فضل الرحمن اپنی حکمت عملی اور طریقہ کار کے مطابق سرخیوں میں رہتے ہیں اور میڈیا ان سے بغض رکھتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ مولانا فضل الرحمن کے بغیر پاکستان کی سیاست کا باب نہیں کھلتا ہے۔ ایم آر ڈی کی تحریک میں بہت زیادہ قربانیاں مولانا نے دیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے علاوہ علماء کرام کے فتوؤں کی زد میں بھی رہتے تھے۔ جب 1988ء کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو پہلی مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوئیں تو پہلے مولانا ان کے اتحادی تھے۔ تحریک عدم اعتماد پیش کرنیوالے موسم لیگی تھے۔ نواز شریف نے چھانگا مانگا میں منڈی لگائی تھی اور اپنے جانوروں کو حصار میں بند کیا تھا۔ بینظیر بھٹو نے اپنے ممبروں کو بچانے کیلئے سوات میں قید کیا تھا۔ عمران خان کی موجودہ بیگم کا سسر غلام محمد مانیکا اور ایک دوسرا لیگی پیپلز پارٹی والوں کا شکار ہوا جسکی وجہ سے تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگئی۔ مولانا فضل الرحمن کا یہ کہنا سو فیصد درست تھا کہ ان کے ممبروں کی کوئی قیمت نہیں لگا سکتا۔ یہ حقیقت ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے جانشین غلام اسحاق خان کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں نے بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان کے مقابلے میں جتوایا۔ جس کی وجہ سے دونوں کے منہ کو اسٹیبلشمنٹ کی تاریخی کالک لگ گئی، لیکن مولانا فضل الرحمن نے جمہوریت کی کمان سنبھالی رکھی تھی۔
جب متحدہ مجلس عمل کے تحت ڈھیر سارے علماء جیت گئے تو اکرم خان درانی کوداڑھی رکھوا کروزیر اعلیٰ کا منصب دیا گیاتھا ۔ جس میں پیسہ بنانے کی صلاحیت زیادہ تھی۔ پھر علماء نے بھی یہ صلاحیت پیدا کرلی اور تحریک انصاف کے موجودہ رہنما اعظم سواتی کو اپنا ووٹ بیچ کر سینیٹر منتخب کروایا۔ اعظم سواتی کو تجارت لن تبور کا پتہ چلا تو وہ جمعیت علماء اسلام میں شامل ہوا۔ مولانا کو اپنی تاریخ کا اتنا بھی پتہ نہیں تو یہ بڑھاپے کی وجہ سے حافظے کی کمزوری ہے یا دولت گنتی سے باہر ہوگئی ہے؟۔ مولانا فضل خود قومی اسمبلی کے ممبر ہیں ، ایک بھائی سینیٹر اور دوسرا صوبائی اسمبلی میں لیڈر آف اپوزیشن ۔ بیٹے کو بھی ٹکٹ دیا تھا مگر کامیاب نہیں ہوسکا۔ ایک بھائی ٹیلیفون کے محکمے میں بھرتی ہوا جو نیم سرکاری ادارہ تھا ، پھر کونسے اصول کی چھڑی چلائی کہ پی ایم ایس کے افسروں میں شامل کیا گیا۔ پھر سی ایس ایس کے افسروں میں شامل ہوکر میرٹ کو روندتا ہوا کمشنر تک پہنچ گیا۔ لگتا ہے کہ مسلم لیگ ن کو بلیک میل کرنے کیلئے سینٹ کے انتخابات کے عین موقع پر ڈرامہ رچایا اور شاید پھر مسلم لیگیوں کی طرف سے بلیک میلنگ میں آنے کے بجائے چٹہ بٹہ کھولنے کی دھمکی سے اپنے مقام پر آگیا۔ اسلئے مولانا کی حیرت پر شک نہیں کرنا چاہیے۔
سیاستدانوں کی ان حرکات کی وجہ سے سیاست بدنام ہوگئی ہے، سینٹ کے ڈپٹی چیئر مین سلیم مانڈی والا نے اسلامی آئین کا حلف اٹھایا تو شیریں رحمان نے مبارکبادی کیلئے اس سے بغل گیر ہوگئی۔ مجھے نہیں معلوم کہ شیریں رحمن کا سلیم مانڈی والا سے کیا رشتہ ہے؟۔ اور ان کی رسم و روایت کیا ہے؟ لیکن یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر سلیم مانڈی والا کے بجائے تھر کی ہندو سینٹر کرشنا کماری ہوتی تو وہ کسی مرد کو اس طرح بغل غیر نہ ہوتی، بلکہ ہاتھ بھی نہ ملاتی۔ ہمارے ہاں تو گوہ کا نام لو حلوہ رکھ دو اور شراب کا زم زم ، سودکا زکوٰۃ یا سودی بینکاری کا اسلامی بینکاری تو سب کچھ اسلام کے نام پر جائز بن جاتا ہے۔ فضل الرحمن نہ جانے کیوں یہ بات کہہ رہے ہیں کہ جو زرداری پر بھاری ہے، اس نے صادق سنجرانی کو منتخب کروایا۔ اگر اپنے ارکان پر شبہ نہیں تو بلوچستان کی حکومت کو بدلنے میں مرکزی کردار انہی کا تھا؟۔

سینٹ الیکشن میں تحریک انصاف و پیپلز پارٹی کا اتحاد بالکل فطری تھا. حنیف عباسی

ppp-pti-fitri-ittehad-mian-ateeq-raza-rabbani-social-media-jaali-jihad-zia-ul-haq-geo-tv-londi-saleem-mandi-wala

منتظم خصوصی نوشتہ دیوارحنیف عباسی نے کہا : مجھے حیرت ہوتی ہے کہ صحافی و سیاستدان اتنی موٹی بات کو کیوں نہیں سمجھ رہے ہیں جبکہ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی جماعتیں ہیں۔ قومی اسمبلی کی طرح سینٹ میں بھی دونوں جماعتوں نے ہی اصل اپوزیشن کا کردار ادا کرنا تھا۔ اگر دونوں جماعتیں رضا ربانی پر متحد ہوجاتی تھیں تو اس کو نوازشریف اور حکومت کی کامیابی قرار دیا جاتا لیکن دونوں نے مل کر حکومت کی سازش ناکام بنادی۔ وزیرخارجہ خواجہ آصف نے کہا تحریک انصاف نے سینٹ میں پیپلزپارٹی کا ساتھ دیا اور خود کو بدنام کردیا ہے۔ حالانکہ ن لیگ خود تو پیپلزپارٹی کی دُم کو بھی اپنی پگ بنانے کیلئے تیار بیٹھی ہوئی تھی۔ یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ خود پیپلزپارٹی سے اتحاد کیلئے مررہے ہوں اور تحریک انصاف کو اتحاد کے طعنے دیں؟، مگر سچ کہا تھا کہ کوئی شرم بھی ہوتی ہے کوئی حیا بھی ہوتی۔جبکہ پکار تھی کہ ہمیں تحریک انصاف نہیں پیپلزپارٹی سے ہی گلہ ہے۔
ن لیگ نے نااہلی کے خاتمے کیلئے اسمبلی میں ترمیمی بل ایک سازش سے منظور کروایا تھا جس میں صرف ایک ووٹ کی برتری تھی ۔ وہ بھی ایم کیوایم کے میاں عتیق نے کہا تھا کہ ’’ خواجہ سعد رفیق نے بتایا کہ فاروق بھائی سے بات ہوگئی ہے۔ مجھے دھوکہ نہ دیا جاتا تو اپنی جماعت کے حکم کی خلاف ورزی نہ کرتا‘‘۔ اس ترمیم کو پھر سینٹ نے بھاری اکثریت سے مسترد بھی کیا تھاجس کے بعد اصولی طور پر حکومت کو چاہیے تھا کہ ترمیم کو واپس لیتی۔ لیکن ن لیگ نے سازش میں کمال کرکے جمہوری نظام کو چت کردیا تھا۔ سینٹ میں اقلیت ہوتے ہوئے بھی اپنے مقصد کی ترمیم پاس کر ڈالی تھی۔ رضاربانی کے جمہوری اقدامات سے ن لیگ کو پیار ہوتا تو اپنی پارٹی میں بھی کسی صاحبِ کردار کو تلاش کرتے لیکن وہ تو پرویز رشید کو بے گناہ سمجھ کر بھی ڈان لیکس میں قربانی کی بھینٹ چڑھا چکے تھے۔ رضاربانی کی یہی ادا ان کو بھاگئی تھی کہ ترمیمی بل پاس کرنے میں اپنے بڑھاپے کیوجہ سے کوئی فعال کردار ادا نہیں کرسکے۔ جمہوریت کا تقاضہ تھا کہ اس ترمیم سے پہلے حکومت اخبارات میں اشہتار شائع کرتی۔پھر سب پارٹیوں کو اعتماد میں لیکر اپنا گول کرنے کی کوشش کرتی۔
ایسی سازش تو ڈکٹیٹر شپ کے لبادے میں بھی نہیں ہوتی کہ ووٹ ڈالنے والوں کو بھی پتہ نہ ہو کہ اس کی جماعت کا کیا حکم تھا اور اس بھونڈے طریقے سے سینٹ ترمیمی بل منظور کردے جو سینٹ کی بھاری اکثریت کیلئے قابلِ قبول ہی نہ ہو۔ رضا ربانی کو اپنی اس کمزوری کا کھل کر اعتراف کرنا چاہیے ۔ نوشتہ دیوار کا پیغام سوشل میڈیا کے ذریعے سے بروقت ہم نہ پہنچاتے تو ممکن بھی نہ ہوتا کہ پیپلزپارٹی رضا ربانی کو چیئرمین بنانے کی پیشکش کو مسترد کرتی۔ اخبار آنے میں دیر تھی اسلئے ایک صفحہ کے ذریعہ پیغام کو ہم نے پہنچادیا ۔ جب خواجہ آصف جیسے نااہل انسان بھی وزیرخارجہ بن گیا ہے تو خفیہ ایجنسیوں کا کونسا کردار باقی رہ جاتا ہے؟۔ خواجہ آصف نے درست کہا کہ ’’ جنرل ضیاء الحق نے جعلی جہادکے ذریعے قوم کو دھوکہ دیا تھا‘‘ لیکن یہ آدھا سچ ہے۔ پورا سچ یہ ہے کہ’’ جنرل ضیاء الحق نے جعلی سیاست کے ذریعے بھی ریاست کا بیڑہ غرق کیا۔ نوازشریف کے جھڑے ہوئے بالوں کو چھوڑ کر کیونکہ وہ شروع میں تحریکِ استقلال اصغر خان کے کارکن تھے، باقی سراپا نوازشریف جنرل ضیاء کا رہین منت تھا، خواجہ آصف کا والد جنرل ضیاء کی شوریٰ کا چیئرمین تھا جبکہ احسن اقبال کی والدہ محترمہ جنرل ضیاء الحق کے محافل کی نعت خواں تھی اور جنرل ضیاء الحق کے علاوہ پرویزمشرف کی باقیات بھی اب نااہل لیگ کا حصہ ہیں۔خواجہ آصف کی قابلیت کا یہ عالم ہے کہ جیو ٹی وی چینل پر حامد میر سے کہا کہ ’’ برما کے لاکھوں پناہ گزین مسلمانوں کو بنگلہ دیش سے پاکستان لانے کیلئے ہماری طرف سے طیارے تیار کھڑے ہیں بس صرف اجازت مل جائے‘‘۔ یہ بات جیو نیوز پر کسی اور وزیرخارجہ کی طرف سے ہوتی تو خوب مہم جوئی کی جاتی مگر زر خرید لونڈی کا کردار ادا کرنے والی اس صحافت نے صحافت کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے۔
زرداری نے ربانی کو مسترد کرکے سلیم مانڈی والا کو ڈپٹی بنایا تو یہ بہت زبردست قدم اٹھایا اور تحریک انصاف نے زبردست قدم اٹھاتے ہوئے ڈپٹی چیئرمین بھی حکومت کا نہیں آنے دیا تو یہ بالکل فطری جمہوریت کا تقاضہ تھا۔ دونوں لڑتے تو حکومت کو کامیابی ملتی اور دونوں خود ہی مرتے، فطری اتحاد ضروری تھا۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے منظور پشتین کو وزیر اعظم بنایا جائے، سید عتیق الرحمن گیلانی

pashtun-tahaffuz-movement-ptm--prime-minister-of-pakistan--manzoor-pashtoon--gullu-batt--sadiq-sanjrani--tablighi-jamaat--taliban--hindu--che-kalme--mehsood

چیف ایڈیٹر نوشتہ دیوارسید عتیق الرحمن گیلانی نے کہا ہے کہ پاکستان میں جو قیادتیں ریاست نے پال رکھی ہیں ان کٹھ پتلی قیادتوں نے پوری قوم اور ریاست کو تباہی کے دہانے پہنچادیا ہے۔ جنرل ایوب خان کے بغل سے نکل کر ذو الفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کے بغل سے نکل کر نواز شریف قائد بن گئے، یہی وجہ ہے کہ ریاست کے فوائد عوام تک نہیں پہنچے اور آج عوام اور ریاست کے درمیان بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے۔ منظور پشتون نے محسود قبائل کی دہلیز سے نکل کر سوات سے کوئٹہ تک بہت بڑی جگہ اپنے لئے بنالی ہے۔ محسود تحفظ موومنٹ کو پشتون تحفظ موومنٹ سے بدلا ہے اور یہ اب مظلوم تحفظ موومنٹ بھی بن سکتی ہے جس کے پیچھے پاکستان کی تمام قومیں کھڑی ہوں۔ اس میں تعصب نہیں درد ہے۔
عدالت ، فوج ، حکومت اور صحافت سب کا اپنا اپنا دائرہ کار ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی سیاسی قیادت کے گرد سب ہی گھوم رہے ہیں لیکن اگر سیاسی قیادت بندوق کی نالی میں گولی کی طرح کسی پر مسلط کی جائے تو قوم کبھی قوم نہیں بن سکتی ہے۔ 70سال سے ہماری تاریخ اسلئے نہیں بدلی کہ جس اسلام کے نام پر پاکستان بنا تھا ، اس اسلام سے سیاسی قیادت خود بھی آشنا نہیں تھی۔ تبلیغی جماعت کا مشہور لطیفہ ہے کہ کسی مولانا نے کہا کہ جس نے ایک ہندو کو مسلمان بنادیا تو اس کو اتنا اتنا اجر ملے گا اور ایک پٹھان نے یہ فضیلت سن لی تو ہندو کو تلوار کے زور پر ہی مسلمان کرنے کیلئے نکل پڑا۔ کہیں اس کو راستے میں ہندو مل گیا تو خوش ہوا کہ فضیلت حاصل کرنے کیلئے شکار مل گیا۔ ہندو کو زمین پر پٹخ کر اس پر تلوار تان لی کہ خو کلمہ پڑھو۔ ہندو نے جب جان کا خطرہ محسوس کیا تو کہا کہ خان صاحب مجھے کلمہ پڑھاؤ ۔ خان صاحب کو خود بھی کلمہ پڑھنا نہیں آتا تھا تو ہندو سے کہہ دیا کہ منحوس جاؤ تم نے مجھ سے بھی بھلادیا۔ یہی حال پاکستان کی تشکیل دینے والوں کا بھی تھا۔ جس اسلام کے نام پر ملک بنایا تھا وہ خود بھی اس اسلام سے واقف نہ تھے۔ جب فوجیوں نے وزیرستان میں پڑاؤ ڈالا تھا تو عوام سے چھ کلمے پوچھتے تھے اور لوگ کہتے کہ اگر ایک کلمہ سے جاں بخشی ہوسکتی ہے تو ایک کلمہ آتا ہے مگر چھ نہیں آتے۔ فوجی سپاہی ماں بہن کی گالیاں بکتے کہ تم اسلام کا نام لیتے ہو اور چھ کلمے پڑھنے بھی نہیں آتے؟۔
اس شرمندگی کے بعد عوام کی بڑی تعداد نے تبلیغی جماعت کا رُخ کرنا شروع کیا۔ وہاں جنرل جاوید ناصر سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور جنرل محمود جیسے لوگ بڑی داڑھیاں رکھ کر طالبان بنانے کی فیکٹریاں بنائے بیٹھے تھے۔ جمال خان لغاری نے یہ منظر نامہ ایک میڈیا ٹاک شو پر پیش کیا تھا۔ اب لوگ اس قدر اعتماد کھو بیٹھے ہیں کہ منظور پشتون پر بھی شک کرتے ہیں کہ کسی سازش کا حصہ تو نہیں جو کھلم کھلا ریاست کیخلاف بول رہے ہیں اور غلطی عوام کی اسلئے نہیں ہے کہ جو فوج کیخلاف لڑ رہے تھے ان کو بھی تعلیم و تربیت دینے والے فوجی ادارے ہی تھے۔
منظور پشتون سے میری ملاقات تک نہیں ہوئی مگر مجھے اس بات کا یقین ہے کہ فوج سیاسی قیادتیں ، مجاہدین جنتے جنتے اور پیدا کرتے کرتے بیزار ہوچکی۔ وہ اب منظور پشتون کو بھی ایک غنیمت سمجھ کر برداشت کررہی ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ پاک فوج کی تاریخ کے سب سے نرم خو آرمی چیف لگتے ہیں اور یہ منظور پشتون اور اسکے ساتھیوں کی بھی بڑی خوش قسمتی ہے۔ اگر سینٹ کے چیئر مین صادق سنجرانی بن سکتے ہیں جو پھر بھی نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے ہاں گھسے ہوئے ہیں اور ان پر اسٹیبلشمنٹ سے قربت کا الزام سب سے بڑا الزام ہے۔ اس الزام کو عائد کرنے والے بھی وہی لوگ ہیں جو خود اسٹیبلشمنٹ ہی کی پیداوار ہیں۔ سیاست کیلئے سب سے بڑی مصیبت اسکا کٹھ پتلی ہونا ہے۔منظور پشتون کا سب سے بڑا کمال کٹھ پتلی نہ ہونا ہے۔ وہ ایک نوجوان ہے، درد، جذبے اور شعور کیساتھ جو بات کرتاہے اس میں بناوٹ نہیں ہوتی۔ سیاسی قیادتیں بناوٹی انداز سے اپنا وقار، اپنی عزت اور اپنا اعتماد کھو بیٹھی ہیں۔ جب ان کو تکلیف ہوتی ہے تو چوتڑ سے عوام کے درد کی آوازیں نکالنا شروع کردیتے ہیں۔ جذبات کو اشتعال دلاکر عوام سے روز روز بیوقوف بننے کی توقع رکھتے ہیں، منظور پشتون حقیقی قائد ہے

تھرکی کرشنا کماری کا سینٹ میں انتخاب سیاسی جماعت کیلئے قابل تحسین ہے. اجمل ملک

Krishna-Kumari-Kolhi-moinuddin-qureshi-prime-minister-tribal-voting-rights-dictator-pervez-musharraf

ایڈیٹر نوشتہ دیوار محمد اجمل ملک نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا اقدام بہت ہی قابل تحسین ہے جس نے سندھ کے پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والی ہندو خاتون کو سینیٹر بنادیا ہے جو ایک سوشل ورکر بھی ہیں۔ حکومت ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے علاوہ مذہبی جماعتیں بھی ایک ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی طرف سے اسمبلی میں خواتین کے کوٹے کو سراہتے ہیں۔ اگر یہ سب ملکر کرشنا کماری کو متفقہ طور پر سینٹ کی چیئر پرسن بنادیتیں تو کوئی اچھا کام ان کے کھاتے میں بھی آتا۔ قبائل میں بالغ رائے دہی کا حق کسی سیاسی جماعت نے نہیں دیا تھا۔ چند ملکان اپنے ووٹوں کے ذریعے سے اسمبلی کا ممبر منتخب کرتے تھے۔ جبکہ عبوری وزیر اعظم معین قریشی نے چند ماہ کیلئے اقتدار سنبھالا تھا تو قبائل کو بالغ رائے دہی کا حق دیدیا۔ ہماری سیاسی جماعتیں اپنے خاندانوں کے علاوہ کسی کا نہیں سوچتیں۔ بھٹو کے اصل جانشین مرتضیٰ بھٹو کے فرزند ذوالفقار جونیئر کے ناچ گانے کی ویڈیوز دیکھنے سے عبرت پکڑنا چاہیے۔

جماعت اسلامی اسٹیبلشمنٹ کی وہ نشانی ہے جس کا انکار ممکن نہیں. فاروق شیخ

jamaat-e-islami-pakistan-establishment-muttahida-majlis-e-amal-sirajul-haq-labbaik-ya-rasool-allah-mumtaz-qadri-sheikh-rasheed-raja-zafar-ul-haq-article-62-and-63

مدیر مسؤل نوشتہ دیوار فاروق شیخ نے کہا: اللہ کی مہربانی سے جماعت اسلامی نے بالکل آخری وقت میں راجہ ظفرالحق کی تائید کردی۔ اسٹیبلشمنٹ کا موڈ معلوم کرنے کیلئے جماعت اسلامی کا ترازو بہت اچھا پیمانہ ہے۔ جس کا انکار وہ خود بھی نہیں کرتے ہیں اور اچھی بات بھی یہی ہے کہ حقائق کا اعتراف کیا جائے۔ خواجہ آصف نے انکشاف کیا تھا کہ سراج الحق نے مجھ سے کہا کہ ’’فوج تو آپکے ساتھ ہے ‘‘، اگر اسٹیبلشمنٹ کی چاہت ہوتی تب بھی اس بات کا امکان نہیں تھا کہ جماعت اسلامی اپنی حمایت حکومت کے پلڑے میں ڈالتی۔لیکن جب اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار تھی تو سراج الحق نے ن لیگ کو ووٹ دینا اسلئے مناسب سمجھا تھا کہ وہ ضمنی الیکشن میں دیکھ چکے تھے کہ ن لیگ کی حمایت نہ ہونے کے بعد کی پوزیشن کا کیا حال تھا؟۔ جماعت اسلامی نے ممتاز قادری کی شہادت کو سیاسی حربے کے طور پر استعمال کیا لیکن تحریک لبیک یارسولﷺوالوں نے اپنی سیاست شروع کردی ۔
جمعیت علماء اسلام س اور جماعت اسلامی نے مذہب کوزندہ رکھنے کیلئے ممتازقادری کی شہادت کو سیاسی حربے طور پر اسلئے استعمال کیا کہ عوام کے پاس جانے کیلئے ان کو دوسرا کوئی ایشو نہیں مل رہا تھا۔ سلمان تاثیر نے توہین رسالت کے قانون میں تبدیلی کی بات اسلئے کی تھی کہ کوئی بے گناہ سزا کی زد میں آنے سے بچ جائے۔ تبدیلی کی تجویز رکھنے اور تبدیلی کیلئے اقدامات اٹھانے میں بھی بڑا فرق ہے۔ ختم نبوت کے حلف نامے میں ترمیم ایک مذہبی مسئلہ تھا تو پالیمنٹ میں شیخ رشید واحد آدمی تھا جو اس مسئلے کو اجاگر کررہا تھا۔ سینٹ میں جمعیت علماء اسلام کے حافظ حمد اللہ نے بھی اس مسئلے کو اٹھایاتھا۔ پھر لبیک پاکستان کی طرف سے فیض آباد دھرنا اور ملک گیر سطح پر احتجاج ہوا تو حکومتی وزیر زاہد حامد کوسازش میں ملوث ہونے کے جرم پر برطرف کیا گیا۔ حکومت اور اسکے نمائندوں نے وعدہ کیا تھا کہ جو لوگ بھی اس سازش میں ملوث قرار پائے ان کو قرار واقعی سزا دی جائیگی لیکن تاحال وہ وعدہ جمہوری حکومت نے پورا نہیں کیا۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جو ترمیم کی گئی تھی اس کو راجہ ظفر الحق نے باہوش و حواس ایک سوچی سمجھی سازش قرار دیا۔ لیکن کمیٹی کی رپورٹ راجہ صاحب نے نواز شریف کو دے دی۔ عدالت میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ نواز شریف سے اس رپورٹ کو طلب کرسکے۔ علاوہ ازیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ختم نبوت کے حلف نامے کے علاوہ پارلیمنٹ کی تمام جماعتوں نے دیگر حلف نامے بھی تبدیل کردئیے ہیں۔ پہلے ضروری تھا کہ الیکشن میں حصہ لینے والا حلف نامہ تحریر کرتا کہ اس نے کوئی قرض نہیں لیا ہے جو معاف کرایا ہو۔ بیرونی و اندرونی ممالک میں اس کی یہ جائیداد ہے ۔ اسکے پاس دوہری شہریت نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔
نواز شریف کو بھی وزارت عظمیٰ سے اسلئے نااہل قرار دیا گیا تھا کہ اس نے اپنے اقامے کا ذکر نہیں کیا تھا۔ اپنے اقامے کا ذکر نہ کرنا آئین کی دفعہ 62، 63کی اتنی خلاف ورزی نہیں ہے جتنی دوہری شہریت دفعہ 62،63کی خلاف ورزی ہے۔ نواز شریف کو اقامہ چھپانے پر نا اہل قرار دیا گیا تو وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی بہن اور دیگر سینٹ کے ممبران کو دوہری شہریت چھپانے پر زیادہ نا اہل قرار دینا چاہیے تھا۔ صادق اور امین کا تعلق اس سے نہیں ہے کہ عوامی بیت الخلاء میں کوئی بندہ پدو مارے اور جھوٹ بولے کہ ساتھ والے نے مارا ہے۔ بلکہ اس کا تعلق حلف نامے کے ساتھ درج کئے جانے والے حلف نامے کے ساتھ ہے۔ جب حلف نامہ نہیں رہا تو آئین کی یہ دفعات بھی خود بخود غیر مؤثر ہوگئی ہیں۔ چیف جسٹس بابا رحمتے اگر ریٹائرڈ ہوگئے تو اپنے بال بچوں کی روزی کیلئے پھر وکالت کرنے لگیں اور نواز شریف نے ان کو وکیل کرلیا تو یقیناًعدالت میں اس کیس کی وکالت کریں گے کہ اب حلف نامے سے تمام پارٹیوں نے متفقہ طور پر قانون پاس کردیا ہے کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ کسی کے پاس اقامہ ہے یا نہیں ، اسی طرح کوئی جائیداد ہے یا نہیں اور سچ جھوٹ کا بھی اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لہٰذا جس بنیاد پر نواز شریف کو نا اہل قرار دیا گیا تھا اب وہ بنیاد ہی ختم کردی گئی ہے لہٰذا اس کی نااہلی بھی ختم کی جائے۔ پچھلی مرتبہ محترم عبد القدوس بلوچ نے بھی اس نکتے کو اٹھایا تھا جس کی شہ سرخی شاید میڈیا کی نظروں میں نہ آئی ہو اور بعض لوگ تو کہہ رہے تھے کہ یہ دفعات ختم نہیں ہوئیں ہیں۔

سینٹ الیکشن میں‌جمہوری نظام کی زبردست اور عالیشان فتح ہوئی ہے. اشرف میمن

horse-trading-raza-rabbani-jamiat-ulama-islam-establishment-balochistan-assembly--mehmood-khan-achakzai--saleem-bukhari--javed-hashmi-baghi-

پبلشرنوشتۂ دیوار اشرف میمن نے کہاکہ سینٹ الیکشن میں جمہوریت کی زبردست اور عالیشان فتح ہوئی ہے۔ رضا ربانی نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ ’’ ارکان کے بیلٹ پیپر پر اسکا نام لکھ دیا جائے۔ پھر اگر جماعت کے سربراہ کو اپنے کسی رکن پر شک ہو کہ اس نے جماعت کے خلاف ووٹ دیا ہے تو اس پر ضابطہ کے مطابق کاروائی کی جائے، ہارس ٹریڈنگ اس طرح سے روکی جا سکتی ہے‘‘۔ تمام جماعتوں نے متفقہ طور پر محترم رضا ربانی کی تجویز مسترد کردی کہ ’’ اس طرح رکن کی رازداری قائم نہ رہے گی اور اس کی آزادی پرحرج آئیگا‘‘۔کیا سینٹ الیکشن میں جمہوریت کا بھرپور تقاضہ پورا نہیں ہوا؟۔ مولانا فضل الرحمن کی جماعت بلوچستان میں اپوزشن میں تھی اور بلوچستان کی حکومت کو جمعیت علماء اسلام بچانا چاہتی تو وہ بچاسکتی تھی۔ اسٹیبلشمنٹ کے حوالہ سے واویلا کرنیوالے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ جسکا بنیادی کردار ہے وہ مولانافضل الرحمن تو نوازشریف کے بغل میں بیٹھا اتحادی ہے۔
نااہل نوازشریف اور اسکے بگڑے ہوئے بے غیرت ٹولے میں کوئی غیرت ہوتی تو دوسروں کو گالی گلوچ سے نوازنے کے بجائے مولانا فضل الرحمن کو بھگادیتے کہ اسٹیبلشمنٹ کا کھیل تم ہی نے کامیاب بنایا ہے۔ اگر بلوچستان میں آپ ہمارا ساتھ دیتے تو یہ کھیل کامیاب نہ ہوتا اور عین موقع پر تمہارے ارکان احتجاج نوٹ کرانے کیلئے باہر نہ جاتے تو ہمارے اپنے ارکان کے دل بھی نہ بیٹھتے ۔ پچھلی مرتبہ بھی تمہارا کوئی حق نہیں تھا لیکن بلوچستان کیلئے زکوٰۃ کے طور پر ڈپٹی چیئرمین کا قرعہ تمہارے نام نکلا تھا۔ اس دفعہ اگر محمود خان اچکزئی کی پارٹی کو زکوٰہ دینے کا فیصلہ کیا گیا تو وہ مضبوط اتحادی تھے۔ تمہاری طرح دگرگوں نہیں تھے کہ فیصلہ بھی نہ کریں پائیں کہ جانا کس کیساتھ ہے؟۔
ن یا ش لیگ کی حکومت اور اسکے اتحادی جو لڑائی دوسروں کی بساط پر لڑ رہے ہیں ،پہلے اپنے اندرونی معاملات پر تو حقائق پر فیصلہ کرلیں۔ مولانا فضل الرحمن نے جمہوریت کا ایک لمبا سفر طے کیا ہے اور اسکے پاس ہر ایک کا معروضی حقیقت کے وسیع تر تناظر میں ایک معقول جواب ہوتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کہہ سکتے ہیں کہ بلوچستان کی ہر حکومت میں ہم حصہ دار رہے ہیں حتیٰ کہ پرویزمشرف کے دور میں اپوزیش لیڈری بھی میرے حصہ میں آئی تھی پھر بھی سینئر وزیر مولانا عبدالواسع تھا۔ جب ہمیں تم نے مرکزی حکومت اور کشمیر کمیٹی کا چیئرمین رکھا لیکن بلوچستان میں تمہاری ضد تھی کہ ہمیں اپوزیشن کا مزہ پہلی مرتبہ چکھایا۔ اس میں محمود خان اچکزئی کی بہت بڑی خواہش ہوسکتی تھی لیکن ہمارا خیال تم نے نہیں رکھا۔ جب ن لیگ کے اپنے ارکان باغی بنے تو جمعیت علماء اسلام کی اپوزیشن سے بلوچستان کی حکومت کیلئے سہارا بننا غیرت و حمیت کے بھی منافی تھا۔ اگر ہم اپنے ارکان کو بھی مجبور کرتے تو پھر ہمارے ارکان بھی تمہارے ارکان جیسے باغی بنتے۔ جاوید ہاشمی ایک شریف آدمی تھا لیکن تمہاری روش نے باغی اور داغی کے مختلف مراحل سے گزار کر کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے؟۔اپنی دُم کا بوجھ اپنی پیٹھ پر رکھ کر اس بڑھاپے میں بھی وہ مسلم نواز کو دوبارہ شمولیت کی دعوتِ گناہ دے رہاہے لیکن پھر بھی ن لیگ دوبارہ رسک لینے کی ہمت نہیں کررہی ہے
یہی تو جمہوریت کی روح ہے کہ مرکز، صوبے، سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے لیکر اقتداراپنے مطلق العنان قائد کی دستر س سے باہر رہنے کیلئے خفیہ رائے شماری تک آزادی سے ضمیر کے مطابق فیصلہ کرنیکا اختیار ہر ایک کو حاصل ہو۔ بلوچستان میں اگر اسٹیبلمشنٹ کا ہاتھ تھا تو صوبائی سطح کی تبدیلی سے لیکر مرکز میں سینٹ کے الیکشن کے آخری لمحات تک مولانافضل الرحمن کو بنیادی حیثیت حاصل رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن ان کیساتھ کھڑے ہیں جو تبدیلی کیلئے زرداری پر بھی بھاری قوت کا نعرہ لگارہے ہیں۔ شکر ہے کہ ن لیگ کے یعقوب ناصر پزائیڈنگ افسر تھے ورنہ تو سینٹ میں بھی خفیہ والوں پر دھاندلی کا الزام لگنا تھا۔ن لیگ کے وزیروں اور رہنماؤں نے الیکشن کے موقع پر ووٹ پول کرنے کے وقت بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ اگر وہ اپنی فتح یقینی سمجھتے تو بہت پہلے کسی کو نامزد کردیتے۔ جمہوریت کو ن لیگ ایک ایسا کھلواڑ سمجھتی ہے کہ اس میں بھڑوی عورت کی طرح سب کچھ جائز قرار دیتی ہے ۔صحافی سلیم بخاری نے کہا تھا کہ ’’ پارلیمنٹ بھڑوں سے بھری ہوئی ہے‘‘۔ جمہوریت کے نام پر جمہوریت کے خلاف سازش ہورہی ہ

منظور پشتون کی قیادت میں سب پختون متحدمگر

pakistan-sazish-mehsood-qaum-imamat-wazeeristan-maqam-manzoor-pashtoon-qayadat-maulana-akram-awan-doctor-tahir-ul-qadri-4

امریکہ نے گڈ اور بیڈ طالبان کا تصور پیش کیا تھا۔ تاپی گیس پائپ لائن پر پاکستان ، افغانستان ، طالبان اور بھارت کا امریکہ کی قیادت میں مشترکہ معاہدہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ جب تک پختون قوم کی قیادت باشعور لوگوں میں نہیں آئے گی اس خطے کے مسائل کا حل ممکن نہیں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے جمہوری قیادت کو گھوڑے سے خچر بنادیا اور جن گدھیڑوں کو قیادت کیلئے میدان میں اُتارا تھا وہ جب باغی بن گئے تو زیادہ سے زیادہ گھوڑوں کے ملاپ سے وہ بھی خچر بن گئے۔ خچروں میں وزن اٹھانے کی صلاحیت ہوتی ہے مگر قیادت کی نہیں۔ قیادت کی صلاحیت اللہ کی طرف سے فضل اور مہربانی کے نتیجے میں ملے تو حقیقی قیادت ہوتی ہے۔ اگر کسی اور کی طرف سے مداخلت ہو تو اپنی فطری صلاحیت بھی کھودی جاتی ہے۔ صحافت کیلئے بنیادی قانون غیر جانبدارانہ تجزئے ہیں ۔ سردار امان الدین خان کی قیادت میں شمن خیل قوم نے چھوٹے پیمانے پر ایک تحریک اٹھائی تو پختونخواہ کے مقبول ترین اخبار روزنامہ مشرق پشاور میں ہردلعزیز کالم میں مریم گیلانی نے اس تحریک کو پاکستان میں تبدیلی کی نوید کا نام دیا تھا۔ ایک مرتبہ اس کے زیر اہتمام مولانا اکرم اعوان ، مولانا نور محمد وزیر ایم این اے جنوبی وزیرستان اور مجھے (سید عتیق الرحمن گیلانی) کو بھی ایک جلسے میں مدعو کیا تھا۔
مولانا اکرم اعوان نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ’’میں ایک کسان ہوں اور کاشتکاری کے فن کو جانتا ہوں ، جب ہم فصل اٹھاتے ہیں تو کچھ فصل زمیندار بیچ دیتا ہے ، کچھ اپنی گزر بسر کیلئے رکھتا ہے اور کچھ آئندہ فصل کیلئے محفوظ رکھتا ہے۔ جو سب سے بہترین گندم ہوتی ہے اس کو بیج کیلئے محفوظ رکھا جاتا ہے۔ اس خطہ کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے قیادت کیلئے بیج کی طرح محفوظ رکھ دیا ہے‘‘۔ جب محسود قوم گو خان ، گلسا خان اور علماء و قبائلی عمائدین کی قیادت قبول کرسکتی ہے تو منظور کی قیادت بصد چشم اسلئے قبول ہونی چاہئے کہ پوری پختون قوم نے بھی منظور پشتون کو اپنا قائد تسلیم کرلیا ہے۔ محمود خان اچکزئی ، اسفندیار ولی ، مولانا فضل الرحمن اور دیگر رہنماؤں کو چاہئے کہ وہ بھی اس قیادت کو نہ صرف اپنے لئے بلکہ پشتون قوم اور پاکستان کیلئے دل کی گہرائیوں سے قبول کرلیں۔ اکرم خان درانی کو اس وقت وزیر اعلیٰ بنایا گیا جب علماء سے پختونخواہ اسمبلی بھری پڑی تھی۔ مال ٹال بنانے میں جن کو مہارت حاصل ہو اگر یہی قیادت کا معیار ہے تو ایسے جاہلوں کو سلام کرنا چاہئے۔ جو لوگ اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کے نام پر نواز شریف کاساتھ دے رہے ہیں ان میں ذرا بھی غیرت کی رمق ہو تو اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار کو کبھی اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کے نام پر سپورٹ نہ کریں۔ اسلئے سیاست کو منافقت کہاجاتا ہے۔
جب پختون قوم نہ صرف منظور کی قیادت پر متحد ہوگی بلکہ پورے پختونخواہ اور بلوچستان کے پختون علاقے سے غریب اور پڑھے لکھے تعلیم یافتہ طبقے کو ہی اسمبلی میں کامیاب کروائے گی تو نہ صرف پختون کی تقدیر بدلے گی بلکہ دوسری قوموں کے اندر بھی شعور پیدا ہوگا اور پاکستان کی سطح پر ایک بڑی تبدیلی آجائے گی۔ بلوچ ، سرائیکی ، پنجابی ، سندھی، مہاجر ، کشمیری، گلگت و بلتستانی ، چترالی اور ہزاروی سب کے سب باشعور تعلیم یافتہ قیادت کو میدان میں لائینگے تو ہمارے سیاسی میدان سے منافقت و تجارت اور بد اخلاقی و بدکرداری کا صفایا ہوگا۔
پاکستان کو تعصب نہیں انتظامی اعتبار سے متوازن بنانے کی ضرورت ہے۔ جہاز کا سر ، دُم، پیٹ ، پر اور کچھ بھی توازن کے خلاف ہو تو وہ پرواز نہیں کرسکتا ہے اور پاکستان میں انتظامی اعتبار سے کوئی توازن نہیں۔ پنجاب کا وزیر اعلیٰ پورے ملک کے وزیر اعظم سے اس وقت زیادہ طاقتور ہوتا ہے جب وزیر اعظم کا تعلق دیگر صوبوں سے ہو۔ کیونکہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ 60%کا حکمران ہوتا ہے اور وزیر اعظم 40%کا حکمران ہوتا ہے۔ پورے ملک سے 40%کے 75سینیٹر منتخب ہوتے ہیں اور پنجاب کے 60%سے صرف 25سینیٹر منتخب ہوتے ہیں، پنجاب میں سرائیکی علاقہ کے لوگ ایسی زندگی گزارتے ہیں جیسے ہندوؤں میں اچھوت، یہی صوتحال اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی طرف سے دیگر صوبوں کے ساتھ روا رکھی جاتی ہے۔ گلگت بلتستان کو الگ صوبے کا صرف نام دینا مسئلے کا حل نہیں تھا۔ سینما کے ٹکٹوں کو بلیک سے بیچنے والوں کو ملک چلانا نہیں آتا۔ نہ لوہے کی بھٹیوں سے کسی میں ملک چلانے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور نہ کرکٹ کھیلنے سے۔
ملتان کو نہ صرف الگ صوبے کی حیثیت دینا ضروری ہے بلکہ سرائیکیوں کو یہ حق دینا بھی ضروری ہے کہ 25سینیٹر وہ بھی اپنی مرضی سے منتخب کرسکیں۔ علاوہ ازیں پہلے کراچی پاکستان کا دارالخلافہ تھا اور پھر جنرل ایوب خان اسکو اسلام آباد منتقل کرگیا۔ میرٹ کا تقاضہ یہ ہے کہ ملتان کو دنیا کا جدید ترین شہر اور پاکستان کا دار الخلافہ بنانے سے پاکستان کی ترقی کا آغاز کیا جائے۔ GHQکو راولپنڈی سے ڈیرہ غازیخان کے کوہ سلیمان میں منتقل کیا جائے۔ جو لاہور، کوئٹہ، کراچی اور پشاور کے درمیان سب کیلئے مرکزی مقام ہے۔ پھر پورے پاکستان کے تمام ہی شہروں کو بالکل دنیا کے جدید سے جدید ترین طرز پر بنایا جائے۔ ایک شخص ملک ریاض اسلام آباد ، لاہور اور کراچی میں جدید شہر بحریہ ٹاؤن آباد کرسکتا ہے تو ہماری ریاست میں اتنی صلاحیت بھی نہیں؟۔ ریاست اپنی سرپرستی میں بڑی بلڈنگوں کی تعمیر کرواتی ہے اور پھر آباد ہونے کے بعد مسماری کا حکم دیتی ہے۔ کوئی بنانے پر پیسے بناتا ہے اور کوئی گرانے میں بلیک میل کرتا ہے شرم تم کو مگر نہیں آتی۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں نقیب اللہ محسود کے کزن آفتاب محسود کے قتل پر آئی جی خیبر پختونخواہ صلاح الدین محسود نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’یہ ذاتی دشمنی کا نتیجہ لگتا ہے‘‘۔ بعض لوگ جھوٹی افواہوں کے ذریعے سے اس کو ISIکے کھاتے میں ڈالتے ہیں۔ اس طرح کی افواہوں سے شیطان اور ابلیسی ٹولے کو فائدہ ہوسکتا ہے لیکن یہ پختون قوم ، ریاست اور پاکستان کے ساتھ زیادتی ہے۔ طالبان سے وابستگی ملک اور دنیا کی سطح پر ایک منافقانہ کھیل تھا۔ جسکے نتائج سب نے بھگتے ہیں لیکن منظور پختون کے زیر قیادت تعلیم یافتہ باشعور نوجوانوں کی تحریک بہت مثبت ہے۔ جب پاک فوج اور پاکستان کی عوام کو حقائق کی بنیاد پر مظلوم قوموں کا صحیح احساس اور ادراک ہوجائے تو یہ ملک و قوم اور ریاست کی بڑی خدمت ہے۔ بڑا عرصہ ہوا کہ پاک فوج کے جوان اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں اور جب بھی کوئی ناخوشگوار صورتحال ہوتی ہے تو فوج کو بلایا جاتا ہے اگر مستقل تعیناتی مسائل کا حل ہوتی تو پولیس کو بھی فوجی تربیت دی جاتی۔ گلے شکوے کا اظہار ہوگا تو اس کا ازالہ بھی ہوسکے گا۔ اس تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنا ہوگا۔ سید عتیق گیلانی

وزیرستان تاریخی آئینہ میں ایک بڑے مقام پر

pakistan-sazish-mehsood-qaum-imamat-wazeeristan-maqam-manzoor-pashtoon-qayadat-maulana-akram-awan-doctor-tahir-ul-qadri-3

فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی    یا بندۂ صحرائی یا مردِ کہستانی
علامہ اقبال نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کیلئے وزیرستان کے محسود اور وزیر قبائل کا نام لیکر پیشگوئی کی ہے کہ کوئی ایک شخص بھی ان میں ایسا پیدا ہوسکتا ہے جو دنیا کے حالات کو بدل کر رکھ دے۔ علامہ اقبال نے بندۂ صحرائی سے رسول اللہ ﷺ کی طرف اشارہ کیا ہے اور مرد کہستانی سے آنیوالی شخصیت کا نقشہ پیش کیا ہے۔
پیر روشان بایزید انصاری کا تعلق کانیگرم جنوبی وزیرستان سے تھا۔ مغل اعظم اکبر بادشاہ کے دور میں شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی نے سجدۂ تعظیمی سے انکار کیا تھا اور پیر روشان نے عملی جہاد کیا تھا۔ بیربل اور مُلا دوپیازہ بھی اس معرکے میں مارے گئے تھے جس پر اکبر بادشاہ نے چند وقت کھانا تک نہ کھایا۔ مغل سلطنت کے بعد جب پنجاب پر سکھ رہنما راجا رنجیت سنگھ نے حکومت کی تھی تو بھی قبائل ان کی دسترس سے باہر رہے۔ پورے برصغیر پاک و ہند میں انگریز کو اتنی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا جتنا وزیرستان کی سرزمین پر کرنا پڑا۔ امریکہ کی دشمنی سب کی خواہش تھی اور خواہش تک رہی مگر وزیرستان نے اپنی خواہش کو عملی جامہ بھی پہنایا۔ راؤ انوار نے ایم کیو ایم سندھ اسمبلی کے پارلیمانی لیڈر خواجہ اظہار الحسن کیساتھ بدتمیزی کی اور پیپلز پارٹی نے بھی ایم کیو ایم کا ساتھ دیا لیکن راؤ انوار کو کوئی اپنی جگہ سے نہیں ہلا سکا۔ محسود قوم نے اس کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
محسود قوم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ جھگڑے میں پہلے زباں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہی اسلام ، شریعت اور فطرت کا تقاضہ بھی ہے۔ قرآن میں ایک قانون یہ بھی ہے کہ مرد کے بدلے مرد ، عورت کے بدلے عورت اور غلام کے بدلے غلام کو قتل کیا جائے گا۔ اس قانون کو صرف قبائل کے لوگ ہی بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ اگر قتل پر صرف مجرم ہی سے بدلہ لیا جائے تو لوگ اپنے بیکار افراد سے دوسروں کے کار آمد افراد کو قتل کروائیں گے اور یوں زمین میں فساد کا سلسلہ ایک دوسرے سے بدلہ چکانے کیلئے جاری رہے گا ، لیکن جب قبائل اس قانون پر اس کی روح کے مطابق عمل کرتے ہیں تو زمین فسادات سے بچی رہتی ہے۔ ہر ایک پر یہ خوف طاری رہتا ہے کہ کسی قبیلے کا کوئی فرد قتل ہوجائے تو مجرم کو نہیں پکڑا جائے گا بلکہ کسی ذمہ دار فرد کو نشانہ بنایا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ قبائل کو امن کا گہوارہ سمجھا جاتا تھا۔ اگر ماڈل ٹاؤن کے واقعے پر شہباز شریف کی پکڑ ہوتی تو پولیس والوں میں اتنی جرأت کبھی نہ ہوتی کہ کھلے عام بندوں کو مارا جاتا۔
محسود قبائل نے پیر آف وانہ کی سرکردگی میں کشمیر کا جہاد بھی کیا ہے۔ گو خان بدمعاش کی قیادت میں جمع ہوکر قومی تحریک بھی چلائی ہے۔ گل سا خان کی قیادت میں جمع ہوکر بھی بڑی مہم جوئی کی ہے۔ اگر منظور پشتون کی قیادت میں محسود قبائل اکھٹے ہوجائیں تو اس میں کوئی نام نہاد ملک اور قبائلی عمائدین ٹانگ نہیں اڑا سکتے ہیں۔ جب طالبان کا ٹائم تھا تو بہلول زئی اور منزئی نے جو تیر مارنا تھا وہ مارلیا۔ اب سیاست کا ٹائم ہے تو منظور پشتون کو ہی قیادت سونپ دینی چاہئے۔ کچھ افراد منظور پشتون کی جرأتمندانہ اور دانشمندانہ قیادت سے خوفزدہ نہ ہوں۔ جب محسود قوم منظور پشتون کو قومی اسمبلی میں بھیجنے کا متفقہ کرے گی تو پاکستان بھر سے پڑھا لکھا طبقہ قیادت کیلئے منتخب ہوکر آئے گا اور اس کا سہرا محسود کے سربندھے گا۔
جب برصغیر پاک و ہند آزاد ہواتھا تو افغانستان کے بادشاہ امیر امان اللہ خان کا بیٹا مدراس جیل سے دوسرے قیدیوں کے ساتھ آزاد ہوا۔ جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے شیخ اتار ڈبرہ گومل ٹانک کے رہنے والے عبد الرزاق بھٹی نے بتایا کہ میں اس کو فقیر آف بٹنی کے پاس لیکر گیا ، فقیر صاحب نے کہا کہ ہماری یہ اوقات نہیں کہ اس کو پناہ دے سکیں۔ افغانستان اور پاکستان دونوں کی حکومتوں کیلئے امیر امان اللہ خان کا بیٹا مطلوب ہے۔ یہ صرف محسود قوم کے پاس کریڈٹ ہے کہ اس کو پناہ دے اور افغانستان و پاکستان کی حکومتوں کو حوالے نہ کرے۔ یہ ذہن بننے کے بعد وہ شمن خیل قبیلے کے سردار رمضان خان کے پاس لیکر گئے تو وہ پناہ دینے پر بخوشی اور اعزاز سمجھ کر راضی ہوئے۔ تاریخ کے دوراہے میں بڑے واقعات ہیں لیکن 1991ء کا واقعہ ہے کہ جب تحریک انصاف کے موجودہ ایم این اے داور خان کنڈی کے والد امان اللہ کنڈی کو کراچی میں ہیروئن کیس پر پکڑ لیا تھا تو وہ ڈی آئی خان جیل سے ہسپتال اور ہسپتال سے وزیرستان فرار ہونے میں کامیاب ہوا۔ جب سیکورٹی فورسز نے اس گاؤں کا گھیراؤ کیا اور مطالبہ کیا کہ امان اللہ کنڈی کو حوالے کردو ورنہ سارے گاؤں کو مسمار کردیں گے۔
محسود قبائل کے جوان ڈھول کی تھاپ پر رقص کرنے لگے اور امان اللہ کنڈی کو دوسری جگہ منتقل کردیا۔ وزیر قبائل کے افراد تبصرے کررہے تھے کہ محسود قوم کی بہادری میں کوئی شبہ اسلئے نہیں ہے کہ مسلح دستوں کی موجودگی میں اپنے مہمان کو نکالنے میں کامیاب ہوگئے۔ سیکورٹی فورسز کے جوانوں سے کہا گیا کہ دن میں آپ ہمارے مہمان ہو لیکن رات کو مہمان اور چور کاپتہ نہیں چلتا۔ اسلئے تمہارے لئے بہتر ہے کہ اپنی راہ لو۔ سیکورٹی فورسز کے جوان بھی محسود قبائل کو داد دئیے بغیر نہ رہ سکے کہ جہاں ہمیں ایکشن کرتے ہوئے کوئی دیکھتے ہیں تو ان کی شلواریں گیلی ہوجاتی ہیں اور یہ جواں مرد ڈھول کی تھاپ پر رقص کررہے ہیں۔
حکومت پاکستان سے قبائلی عمائدین نے تاریخی مذاکرات کئے اور آخر کار اس نتیجے پر پہنچے کہ اخبارات میں سرخیاں لگیں کہ ’’رشدی ہمارے حوالے کردو اور کنڈی تمہارے حوالے کردیں گے‘‘جس پر حکومت نے بی بی سی کے نمائندے سیلاب محسود کو رپورٹنگ پر ڈی آئی خان جیل بھیج دیا۔ مولانا محمد خان شیرانی نے اپنے ایک بیان میں ایک عالمی منصوبے کا انکشاف کیا ہے کہ محسود قوم کو تباہ و برباد کرکے صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے اور پھر وہاں عالمی دہشتگردوں کو آباد کرکے اس خطے میں عظیم جنگیں برپا کی جائیں۔ وزیرستان میں جو کچھ ہورہا ہے اس کا واحد حل یہی ہے کہ پاک فوج محسود قبائل کو اعتماد میں لیکر ساری بارودی سرنگوں سے وزیرستان کو صاف کردے اور قدیم طرز پر ان کو آباد کرنیکا موقع فراہم کرے۔
اس قوم کے ہوتے ہوئے کوئی عالمی منصوبہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوگا جب تک ریاست پاکستان کیساتھ ایک اعتماد والی فضا موجود ہو۔ اب بہت ہوچکا اور اس میں شک نہیں کہ فوج سے زیادہ محسود قوم کی اپنی غلطیاں ہیں ، چور ، ڈکیت اور بیکار لوگوں کو طالبان کمانڈر کی حیثیت سے بزدلی کے ساتھ برداشت کیا اور اس کے نتائج بھگت لئے۔ یہ قوم نہ صرف اپنے علاقے ، ملک ، قوم اور خطے سے لا قانونیت ختم کرسکتی ہے بلکہ عالم اسلام و انسانیت کی امامت بھی کرسکتی ہے۔

محسود قوم میں امامت کی صلاحیت پیدا ہوگئی مگر

pakistan-sazish-mehsood-qaum-imamat-wazeeristan-maqam-manzoor-pashtoon-qayadat-maulana-akram-awan-doctor-tahir-ul-qadri-2

محسود ایک دانشور، محنت کش، بہادر، انسانیت کی علمبردار، فطرت کی شاہکار، اسلام سے محبت رکھنے والی، وطن سے پیار کرنے والی اور زبردست صفات سے مزین آزاد منش قوم ہے۔ بے پناہ خوبیوں کیساتھ ساتھ انتہائی پستی والی صفات بھی اس قوم میں موجود تھیں۔ سب سے بری اور بدترین صفت اس میں بے پناہ کی فرعونیت تھی۔ روئے زمین پر محسود خود کو گویا دوسرا امریکہ سمجھتے تھے۔ ہر خاندان اور ہر فرد اپنی اپنی جگہ فرعون بناہوتا تھا۔ طالبان اور فوج نے سب سے بڑا کمال یہ کرکے دکھایا کہ اسکی فرعونیت کو شکست سے دوچار کردیا، یہ اس قوم کی فرعونیت کا جنازہ تھا جو بڑی دھوم سے نکلا کہ ’’ایک ماڈل بننے کے خواہشمند نقیب اللہ محسود کی شہادت پر تاریخی احتجاج کیا، ورنہ یہ وہ قوم تھی کہ اس قسم کے حلیہ اور کردار کو اپنے لئے باعثِ شرم تصور کرتی تھی‘‘۔ جیوکی پٹھان صحافی رابعہ انعم جو اپنی ثقافت سے کسی طرح پختون نہیں لگتی ہے لیکن جب وہ نقیب اللہ محسود کے تعزیتی جرگے میں گئی توپتہ چلا کہ وہ خود بھی ایک پختون ہے۔ پشتو زبان میں انٹرویو لیتے ہوئے نقیب کے والد سے پوچھا کہ ایک پختون معاشرے میں اپنے لڑکے کو اسطرح کاحلیہ بنانیکی اجازت نہیں دی جاتی تو آپ اس حلیہ کی وجہ سے نقیب سے ناراض نہیں تھے؟ نقیب کے والد نے پریس کانفرسوں میں بھی بتایا کہ میرا بیٹا ماڈل تھا۔
جس طرح ڈاکٹر طاہر القادری کو کاندھے پر غارِ حراء چڑھانے والے نواز کا یہ حال ہواہے کہ مریم نواز کو شوہر سے چھڑا کر عوامی جلسوں کو پرکشش بنانے کی مہم جوئی میں مصروف ہیں جو کسی دور میں بینظیر بھٹو پر بے پردگی اور بے غیرتی کا الزام لگاتے تھے اور وہ خود کو اب آخری حد تک گرا رہے ہیں، اسی طرح طالبان کو اپنااثاثہ سمجھنے والے محسود قبائل نقیب اللہ کی تصاویر اٹھانے پر بھی نہیں شرمارتے۔ اگر نواز شریف کی فیملی دبے الفاظ میں شکریہ ادا کرتی کہ وقت نے اسٹیبلشمنٹ کی چاکری سے ان کی جان چھڑادی ہے تو ممکن تھا کہ یہ لوگ آئندہ نسل میں قائدانہ کردار ادا کرتے۔ شہباز شریف گیارہ برس قید کاٹنے والے زرداری پر گرج برس رہا تھا کہ چوکوں پر لٹکائیں گے، سڑکوں پر گھسیٹیں گے اور نشان عبرت بنائیں گے، لیکن جب نواز شریف کی پانامہ لیکس کا معاملہ آیا، جمہوریت کی سب سے بڑی مسند پارلیمنٹ میں وزیر اعظم کی حیثیت سے غلط بیانی کی اور پھر عدالتوں پر تہمت لگادی کہ فوج نے ہمارے خلاف فیصلے پر مجبور کیا ہے تو یہ نہ صرف شریف برادری کیلئے انتہائی گراوٹ کا مقام تھا بلکہ پاکستان کی بھی ناک کٹ گئی ہے۔
اس کے برعکس محسود قوم نے افغانستان میں امریکہ کو شکست دینے کیلئے قدم اٹھایا اور وہ طالبان جس کی حمایت سب ہی کررہے تھے ، امریکہ کیخلاف سب سے زیادہ اور بڑی قربانی محسود قوم نے اپنی غیرت ، فطرت اور انسانیت کیلئے دی جو اسلام اور ایمان کا عین تقاضہ تھا۔ ان کو پتہ تھاکہ جس قوت سے مضبوط افواج کو بھی ٹکر لینے کی ہمت نہیں وہ ہماری نسلوں کو تباہ کرسکتی ہے۔ پاک فوج پر امریکہ نے جو خرچہ کیا ہے اس کا واویلا اب بھی امریکہ مچارہا ہے۔ افغان حکومت پر بھی امریکہ نے خرچہ کیا لیکن محسود قوم نے صرف قربانی ہی قربانی دی ہے۔ اپنے لئے نہیں عالم اسلام ، پاکستان اور اس خطے کو امریکہ کی دسترس سے بچانے کیلئے دی ہے۔ اس کے صلے میں محسود قوم کو کیا ملا؟ ۔ باہر سے آئے ہوئے دہشتگردوں کے ساتھ ملکر طالبان نے محسود قوم کا بیڑا غرق کیا ، فوج نے ان کی تذلیل میں تمام تر حدوں کو پار کرلیا اور جان مال، عزت و آبرو اور گھر بار ، وطن اور ایمان سب کچھ کا بیڑا غرق ہوگیا۔ قربانی کے بدلے میں جو ثمرات ملے وہ سب کے سامنے ہیں۔
کمال کی بات یہ ہے کہ محسود قوم نے اس قربانی اور اس کے نتائج کو منفی انداز میں لینے کے بجائے بہت مثبت انداز میں لیا۔ محسود قوم کہتی ہے کہ پہلے ہم بڑی مشکل سے کما کر لاتے تھے ، تھوڑے سے پیسے مل جاتے تھے تو اڑوس پڑوس اور رشتہ داروں کیساتھ اس کے بدلے میں دشمنیاں مول لیتے تھے ، پیسے بھی جاتے تھے ، جانیں بھی ضائع ہوجاتی تھیں اور نصیب میں جہالتیں بھی ختم نہ ہوتی تھیں ۔ جب سے ہم مصائب کا شکار ہوگئے ، ہم نے تہذیب و تمدن ، تعلیم و تربیت اور وہ سب کچھ حاصل کرلیا جو کسی قوم کی ترقی و عروج کیلئے معیار ہوتا ہے۔ جاپان نے بادشاہت کے خاتمے کو مثبت انداز میں لیا تو جاپانی قوم نے دوبارہ دنیا میں ترقی کرلی۔ محسود قوم اس آزمائش کے نتیجے میں دنیا میں امامت کے قابل ہوگئی مگر
اب کچھ معروضی حقائق کی طرف آنا ہوگا ۔ اس میں شک نہیں کہ محسودوں کی تین برادریوں میں بہادری اور جرأت کے لحاظ سے بہلول زئی اور منزئی زیادہ اہمیت رکھتے ہیں اور اب اس میں بھی شک نہیں کہ طالبان اور فوج کی چکی میں جو پس کر رہ گئے ہیں ان کے ذہنوں سے فرعونیت کا خمیر نکل گیا ہے۔ ترقی و عروج کا تقاضہ یہی تھا کہ ان میں جاہلانہ تکبر اور رعونت کا خاتمہ ہوجائے۔ شمن خیل محسود کو سیاسی سمجھا جاتا ہے اور طالبان میں انہوں نے خاطر خواہ کردار ادا نہیں کیا۔ جب بندوق اور بارود کا دور تھا تو محسودوں کی دو شاخوں بہلول زئی اور منزئی نے بہت نام کمایا ۔ پوری دنیا کی سطح پر وزیرستان کا نام متعارف کرادیا۔ اگر پاک فوج ان کو اپنی ڈگر پر چلنے دیتی تو امریکہ کی رہی سہی افواج بھی افغانستان میں نہیں ٹک سکتی تھیں۔ اگرمحسود قوم کو پاک فوج کی طرف سے حوصلہ ملے تو امریکہ و دہشتگردوں کو کبھی وزیرستان میں پاؤں جمانے کا موقع نہ ملے۔ فوج نے یکے بعد دیگرے جو کھدڑی سیاسی قیادت پاکستان پر مسلط کی ہے اس کا فطرت میں کوئی جواز نہ تھا۔
وزیرستان میں طالبان کی وبا آنے سے قبل امریکہ کے آزاد شہریوں کی طرح انواع و اقسام کا اسلحہ موجود تھا، لیکن امریکہ میں جس طرح پے درپے روز روز دہشتگردیاں ہوتی ہیں وزیرستان اور قبائلی علاقہ جات میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔ پاکستان کی ریاست کی ناک کے نیچے جس طرح کے جرائم پیشہ لوگ رہتے ہیں ان کا بھی قبائلی علاقہ جات میں کوئی تصور نہیں تھا۔ قبائل نے بلا معاوضہ ایک ایک انچ کی حفاظت کی ہے، عدالتوں اور پٹواریوں کے چکر میں جس طرح شہروں کی زمینوں پر قبضے ہوجاتے ہیں اور طاقتور لینڈ مافیا ظلم و جبر کی داستانیں رقم کررہی ہے اسکا کوئی تصور قبائلی علاقہ جات میں نہیں تھا۔ سندھ کے شہری علاقوں میں مہاجر قوم کو ایک عرصے تک سیاسی نمائندگی مل گئی لیکن بجائے فائدہ اٹھانے کے الٹا یہ تصور اجاگر کیا گیا کہ حکیم سعید جیسی محسن انسانیت شخصیات کی جگہ دوسروں نے لے لی یا ہتھیالی ۔ پیر پگارا اور پیپلز پارٹی نے سندھ کی غریب عوام کی تقدیر کو نہیں بدلا۔ مسلم لیگ کے مختلف روپ نے پنجاب کی غیرت کو بھی بگاڑ کر رکھ دیا۔ بلوچستان کے بلوچ قوم پرستوں نے اپنی قوم کو باہر بیٹھ کر مشکلات میں ڈال دیا۔