پوسٹ تلاش کریں

قرآن میں حلالہ کی لعنت کا خاتمہ ہے لیکن علماء اورفقہاء نے قرآن چھوڑ کر معاملہ اُلٹ دیا

قرآن میں حلالہ کی لعنت کا خاتمہ ہے لیکن علماء اورفقہاء نے قرآن چھوڑ کر معاملہ اُلٹ دیا

عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح طور پرفرمایا کہ ”طلاق دو مرتبہ ہے ، پھر معروف طریقے سے روکنا ہے یا احسان کیساتھ چھوڑنا ہے ”۔ (البقرہ آیت229)پھر نبی ۖ نے فرمایا کہ ” دو مرتبہ طلاق کے بعد قرآن میں تیسری طلاق اسی آیت میں یہی احسان کیساتھ چھوڑنا ہے”۔اور پھر نبی ۖ حضرت ابن عمر پرحیض میں طلاق دینے پر بہت غضبناک ہوئے اور حکم دیا کہ ” رجوع کرلو۔ پھر پاکی کے دنوں میں طلاق دے دو، یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر پاکی کے دنوں میں اپنے پاس رکھو یہاں تک کہ حیض آجائے اور پھر پاکی کے دنوں میں چاہو تو رجوع کرلو اور چاہو تو ہاتھ لگائے بغیر طلاق دیدو۔ یہی وہ عدت ہے جس میں اللہ نے اس طرح طلاق کا حکم دیا ہے”۔( بخاری)
قرآن و حدیث میں ہے کہ ایک سے زیادہ مرتبہ طلاق کا تعلق عدت میں پاکی کے دنوں سے ہے۔جب حیض آتا ہو۔ آیت228میں عدت کے تین ادوار کا تعلق حیض وطہر سے جڑا ہوا ہے۔ اللہ نے فرمایا: ” عدت میں انکے شوہر ان کو باہمی اصلاح کی شرط پر لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں”۔(228البقرہ)
ایک مرتبہ میں3طلاق دیدئیے جائیں یا الگ الگ مراحل میں ، بہرحال اللہ نے واضح طور پر صلح کی شرط پر عدت کے دوران ان کے شوہروں کو ہی رجوع کا زیادہ حق دار قرار دیا ہے۔ البتہ جب عدت گزر جائے تو پھر اگرچہ وہی شوہر بھی معروف طریقے سے یعنی صلح کی شرط پر رجوع کا حق رکھتا ہے لیکن کسی اور کو بھی نکاح کرنے کا پورا پورا حق مل جاتا ہے۔ اگر شوہر نے ایک مرتبہ طلاق دے دی تو عدت تک عورت پہلے شوہر کے نکاح میں رہنے کی پابند ہے اور صلح کی شرط پر وہی شوہر زیادہ حق رکھتا ہے کہ وہ اس کو لوٹائے لیکن صلح کی شرط نہ ہو تو عورت کو مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے اور وہ عدت گزارنے کے بعد کسی اور شوہر سے بھی نکاح کرنے کا پورا پورا حق رکھتی ہے۔ قرآن کے الفاظ میں معانی اور حقائق کا توازن موجود ہے لیکن افسوس کہ اس طرف آج تک امت نے کوئی اجتماعی توجہ نہیں کی۔ جس کی شکایت اللہ نے قرآن میں درج کی کہ ” رسول کہیں گے کہ اے میرے ربّ! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔ (سورة الفرقان )
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عمر اتنے جذباتی تھے کہ قرآن کے واضح احکام کو پسِ پشت ڈال کر ایک ساتھ تین طلاق کے بعد رجوع نہ کرنے کا فیصلہ جاری کردیا؟۔ اتنی بڑی طلاق بدعت کے مرتکب ہوگئے؟۔ قرآن وسنت سے امت مسلمہ کو انحراف کی راہ پر ڈال دیا ؟۔ امت مسلمہ کے اختلافات اور گمراہی کا سبب بن گئے؟۔ اہل تشیع بیچاروں کو تو غمِ حسین سے اتنی فرصت نہیں تھی کہ یزید کو چھوڑ کر حضرت عمر کے خلاف بکنے کی جسارت کرتے لیکن اہل سنت نے خود ایک جلیل القدر صحابی حضرت عمر فاروق اعظم کی طرف طلاق بدعت کو منسوب کیا اور قرآن وسنت سے انحراف کا ذمہ دار قرار دے دیا۔ جب قرآن وسنت میں طلاق کا حکم اور طریقہ الگ تھا اور حضرت عمر نے اس سے انحراف کرکے امت کو بدعت پر ڈال دیا تو بہت سارے لوگ اہل سنت کے مسلک کو چھوڑ کر اہل تشیع بن گئے۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے داماد علامہ زعیم قادری بھی بدترین شیعہ بن گیا تھا۔
حنفی مسلک یہ ہے کہ” اگر کوئی صحیح حدیث بھی قرآن سے متصادم ہو تو اس کو چھوڑ دو۔ البتہ اگر تطبیق ہوسکے تو پھر دو ضعیف احادیث میں تطبیق کرو”۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ حضرت عمر کی وجہ سے قرآن کی واضح آیات اور احادیث صحیحہ سے انحراف کیا جائے؟۔ فقہ کی کتابوں میں بہت سارے معاملات کے اندر حضرت عمر سے فقہ حنفی نے بھرپور اختلاف کیا ہے جو بالکل اور بہت زیادہ عیاں ہیں۔
طلاق کے مسئلے میں حلالہ کے شوقین حضرات نے گنگا کو الٹا بہانے کی کوشش کی ہے۔ جب قرآن میں واضح ہے کہ صلح کی شرط پر عدت میں رجوع ہوسکتا ہے اور ایک بار میں بھی دو طلاقیں نہیں ہوسکتی ہیں ایک ساتھ تین طلاق تو بہت دور کی بات ہے تو چاہیے تھا کہ حنفی اصول فقہ کے مطابق نہ صرف حضرت عمر کے فیصلے کو بلکہ اگر اس سلسلے میں کوئی صحیح حدیث بھی ملتی تو اس کی فقہ کی کتابوں میں تردید کی جاتی۔ لیکن افسوس کہ شافعی فقہاء نے حضرت عمر کے قول کو سنت اور حنفی فقہاء نے بدعت قرار دیکر قبول کیا۔ شافعی فقہاء نے حدیث سے اپنا مسلک ثابت کرنے کی کوشش کی اور حنفی فقہاء نے بھی حدیث سے اپنا مسلک ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اور ساتھ میں قرآنی آیات کی تفسیر میں بہت بری طرح توڑ مروڑ کی ناکام کوشش فرمائی۔ یہ بھی نہ دیکھا کہ قرآنی آیات میں بھرپور وضاحتوں کے باوجود اس سے معنوی تحریف کا ارتکاب کتنا زیادہ بدترین خطرناک ہتھکنڈہ ہے؟۔
اگر حلالہ کی لعنت سے جنسی لذات کا فائدہ اٹھانے والے قرآن کے ٹھوس ، واضح اور فیصلہ کن آیات کو دیکھتے تو حضرت عمر کی طرف بھی یہ بڑی غلطی منسوب کرنے کی جسارت نہ کرتے۔ شارٹ کٹ میں یہ فیصلہ کرتے کہ جب اللہ نے عدت میں باہمی اصلاح وصلح کی بنیاد پر رجوع کی اجازت دی ہے تو پھراس کے مقابلے حضرت عمر کا فیصلہ تو بہت دور کی بات ہے کوئی صحیح حدیث بھی قابل قبول نہیں ہے۔ تفصیلی فیصلہ میں لکھ دیتے کہ حضرت عمر اتنے کم عقل نہیں تھے کہ اس طرح قرآنی آیات کے منافی واضح فیصلہ کرتے۔ حضرت عمر کے دربار میں شوہر فیصلہ اسلئے لایا تھا کہ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی۔ اگر وہ راضی ہوتی تو فیصلہ کرنے کیلئے حضرت عمر کے دربار تک بات پہنچنے کی ہرگزضرورت پیش نہ آتی۔ جب عورت راضی نہیں تھی تو قرآن کا یہ فیصلہ ہے کہ صلح واصلاح کے بغیر ایک طلاق کے بعد بھی شوہر کو رجوع کا حق حاصل نہیں ہے ،اسلئے بلاشبہ حضرت عمر کا فیصلہ قرآن کے عین مطابق100%درست تھا ۔
حضرت ابن عباس کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ۖ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے ابتدائی دوتین سالوں تک ایک ساتھ تین طلاق ایک شمار ہوتی تھی اور پھر حضرت عمر نے ایک ساتھ تین کا فیصلہ جاری کردیا۔ صحیح مسلم کی اس روایت میں قرآنی آیات کے مطابق یہ تطبیق ہے کہ پہلے اکٹھی تین طلاق پر جھگڑارہتا تھا لیکن عدت میں رجوع کا دروازہ بھی کھلا ہوتا تھا اور جب حضرت عمر تک معاملہ پہنچادیا گیا تو آپ نے علیحدگی کا فیصلہ دے دیا۔ اگر اس سے پہلے بھی جھگڑا کسی حکمران کے دربار یا مفتی کے دارالافتاء میں پہنچتا تو یہی فیصلہ اور فتویٰ ملنا تھا لیکن اتفاق سے حضرت عمر کے دور میں یہ معاملہ پیش آیا۔ باقی فسانہ بعد میں بنایا گیا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عدالتی فیصلہ2/3نہیں3/4کا ہے تو پھر اس حکومت نے مختلف قراردادیں پیش کرنے کی منافقت کیوں کی ہے؟

عدالتی فیصلہ2/3نہیں3/4کا ہے تو پھر اس حکومت نے مختلف قراردادیں پیش کرنے کی منافقت کیوں کی ہے؟

مذاکراتی ٹیموں کو صلیب پر چڑھانے والی لیڈر شپ تثلیث کھل کر خود سامنے کیوں نہیں آتی ہے؟۔ کوئی خفیہ وفیہ ہاتھ نہیں بلکہ سوار ، سواری اور ہنکانے والی قیادت کا آئینہ سامنے ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قومی اتحاد کی قیادت مفتی محمود نے تحریک نظام مصطفی کے نام سے کی تھی۔ مارشل لاء لگنے کے بعد جمعیت علماء اسلام نے بھی رجعت پسند قوتوں کے ساتھ کچھ وزارتیں ہتھیا لی تھیں۔ پھر مولانا فضل الرحمن نے بینظیر بھٹو کے ساتھ ایم آر ڈی کی تحریک چلائی۔ کیا عمران خان سے جان چھوٹ جائے گی تو مولانا اسعد محمود ٹیرن وائٹ کے ساتھ تحریک چلائے گا؟۔ جتنی نفرت آج عمران خان سے ہورہی ہے اس سے زیادہ ذو الفقار علی بھٹو کے خلاف پیدا کی گئی تھی۔ نیولے اور سانپ کی لڑائی میں چڑیوں کاکام نہیں ۔ عوام چڑیوں کی طرح ہیں ۔نیولے اور سانپ میں لڑائی بھڑائی ہو، مار کٹائی ہو، چھیڑ چھڑائی ہو،کھیل تماشائی ہو لیکن خیرچڑیوں کی بھی نہیں ہوتی۔
مولانا فضل الرحمن پر جس طرح کے کارٹون ہیں۔ مذہبی طبقہ بھی سیاسی طبقے کیساتھ شانہ بشانہ مخالفت میں لگا ہوا ہے۔ پشاور اور چارسدہ میں تمام پارٹیوں اورمذہبی و لسانی تعصبات اُبھارنے کے باوجود عمران خان سے بدترین شکست کھائی تو الیکشن کا بائیکاٹ کرنا اسی وقت سے شروع کیا۔ جمہوریت رائے عامہ ہموار کرنے کا نام ہے ۔13پارٹیوں کا متحد ہوکر الیکشن اور آئین سے جنگلی گدھوں کی طرح بدکنا اس بات کا کھلا اعلان ہے کہ حکومت الیکشن سے راہ فرار اختیار کررہی ہے۔ہم پہلے سے کہتے تھے کہ جس نوازشریف نے اسٹیبلشمنٹ کی گود میں جنم لیا ہے اور ساری زندگی فوج کی ٹانگوں میں گھس کرگزاری ہے تو کیا70سالوں تک فوجی پتلونوں کے اندر اپنے سروں کے بال گھسانے والے انقلابی بن سکتے ہیں؟۔ کھریاں کھریاں کے راشد مراد نوازشریف کے مخالفین کو جرنیلی سیاست ہزار بار کہے لیکن کینگرو کے بچے کا سب کو پتہ ہے کہ کون ہے؟۔
مولانا فضل الرحمن نے اپنے نظریاتی ساتھیوں کو سائیڈ لائن لگادیا ہے جن کے خلاف لڑنا تھا ،ان کی پیٹھ پر سوار ہیں۔ نواز شریف نے علامہ طاہرالقادری کو غارِ حرا پیٹھ پر لاد کر چڑھایا تھا لیکن پھر ماڈل ٹاؤن لاہور میں اسکے14بندے مار دئیے اور بہت سارے زخمی کردئیے۔ مولانا سمیع الحق کو اسلامی جمہوری اتحاد میں سود کے خلاف آواز اٹھانے پر میڈم طاہرہ کے سکینڈل کا شکار کردیا۔ ایک موقع پر مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ”نوازشریف نے میرے ساتھ وعدے پورے نہیں کئے تو مجھے کب سے اتنا سادا سمجھ لیا ہے کہ نوازشریف پر اعتبار کروں؟۔ جب لوگ جمعیت علماء اسلام کو بڑے پیمانے پر اسمبلی میں بھیجیں گے تب ہی اسلام نافذہوسکے گا”۔ جو نظر آرہاہے وہ آئینہ مولانا کو دکھارہے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی کی سودی بینکاری اور اسحاق ڈار کی سودی بینکاری میں کیا فرق ہے؟۔مولانا کو ایسی جعلی سیاست، جعلی جمہوریت، جعلی اسلام کے گدھے سے اترنا پڑے گا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

حسنہ بیگم کی قومی تعلیم کی خاطر امریکہ سے آمد

حسنہ بیگم کی قومی تعلیم کی خاطر امریکہ سے آمد

اسلامیہ کالج کراچی کی بلڈنگ اس کے مالک قریشی صاحب نے تعلیم کیلئے وقف کررکھی تھی!

مالک کی پوتی حسنہ بیگم غاصبوں کیخلاف جنگ لڑرہی ہیں ،انکا ساتھ دینا سب کابڑا فرض ہے

اسلامیہ کالج سے اس شہر کے لاکھوں طلباء نے تعلیم حاصل کی ہے۔ایڈیٹر نوشتہ دیوار ملک محمد اجمل اور نمائندہ نوشتہ دیوار اور ماہر معیشت شاہد علی اسلامیہ کالج کے مالک قریشی صاحب کی پوتی حسنہ بیگم کیساتھ بیٹھے ہیں۔ حسنہ بیگم آج کل امریکہ سے پاکستان آکر ان غاصب قوتوں سے لڑ رہی ہیں جو اسلامیہ کالج میں جاری تعلیمی سرگرمیوں کو بند کر کے اسے فروخت کرنا چاہ رہی ہیں۔
اسلامیہ کالج کراچی شہر کے اہم ترین مقام پر واقع ہے اور اس سے شعبہ تعلیم کی اہم ترین تاریخ وابستہ ہے۔ حسنہ بیگم کے جد امجد قریشی صاحب نے یہ جگہ اسلامیہ کالج کیلئے وقف کی تھی۔ جب حسنہ بیگم کو امریکہ میں پتہ چلا کہ یہاں کراچی میں اسلامیہ کالج کو ایک ساز ش کے تحت عدالتی حکم کے ذریعے طلباء سے خالی کیا گیا ہے تو وہ دستاویزات لے کر پاکستان تشریف لائی ہیں۔
ایک صحافی نے حسنہ بیگم سے10لاکھ روپے کوریج کیلئے مانگ کر صحافیوں کی ناک کٹادی لیکن ایڈیٹر نوشتۂ دیوار ملک محمد اجمل نے اس کو جھڑک دیا کہ یہ کیا کررہے ہو؟۔ اسلامیہ کالج کراچی کے متوسط طبقے کیلئے وہ علمی درسگاہ ہے جس سے ایک طویل تاریخ وابستہ ہے۔ اس سے طلبہ اور تعلیمی سلسلے کو بے دخل کیا گیا ہے ۔ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالتوں کے اندر موجود باضمیر ججوں کو مفاد پرستی سے آزاد عدلیہ کے ذریعے سے ہی عزت وتوقیر مل سکتی ہے۔
ججوں اور جرنیلوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔ سیاستدانوں کو بھی اپنی غلطی دوسروں کے کھاتے میں نہیں ڈالنی چاہیے۔ نوازشریف نے پارلیمنٹ میں بیان جاری کیا کہ لندن ایون فیلڈ کے فلیٹ2005میں سعودیہ کی وسیع اراضی اور دوبئی مل بیچ کر2006میں خریدے۔ جس میں کچھ اور دوستوں نے بھی مدد کی اور پھر قطری خط عدالت میں لیکر آگئے اور پھر اس سے بھی مکر گئے۔ مریم نواز نے عدالتوں سے ریلیف حاصل کرلیا لیکن عدالتوں کے خلاف مسلسل بلیک میلنگ کا بیانیہ جاری ہے۔ عدالتوں نے جھوٹ اور لوٹ کھسوٹ کو تحفظ دینا ہے تو یہ ان کی مرضی ہے یا مجبوری لیکن قوم، ملک اور سلطنت کروٹ بدل رہاہے اور سب تاریخ میں یاد رکھے جائیںگے۔ عدالت کو آزادانہ فیصلے نہیں کرنے دئیے گئے۔ آئین کا قلع قمع کیا گیا تو پھر آنے والے وقت میں فوج کو بھی نکیل ڈال دی جائے گی۔
ہمیں ایسے اشرافیہ سے کوئی ہمدردی نہیں جو ایکدوسرے کیلئے سہولت کار کا کردار ادا کرتے ہوں لیکن پاکستان میں جتنے بھی ریاستی ادارے ہیں ان کا ایک آزاد اور مثبت کردار ملک وقوم کی سخت ضرورت ہے۔ جمہوری سیاسی جماعتیں آئین، عدالت اور الیکشن سے بھاگ رہی ہیں لیکن بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ عمران خان ایک بے سدھ اور بے اعتبار انسان ہے ۔ پارلیمنٹ اور جمہوریت کو جتنی گالیاں عمران خان اور شیخ رشید نے دی ہیں وہ تاریخ میں ایک بہت بڑی مثال ہیں لیکن آج اپنے تھوکے ہوئے کو چاٹنے پر مجبور ہیں اور یہی تو جمہوریت کی خوبی ہے۔ تحریک انصاف کا سارا سوشل میڈیا چوہدری پرویز الٰہی کو گالیاں دیتا تھا لیکن کسی میں اتنی جرأت نہیں تھی کہ وہ عمران خان کو بول سکے کہ تم نے چوہدری کیساتھ دھوکہ کیا ہے۔ اسلئے کہ جب اس کوPDMنے وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کا تہیہ کرلیا تو آپ نے اس پر ہلہ بول دیا۔ پھر اس کو اسمبلی توڑنے پر بھی مجبور کردیا اور جنرل قمر جاوید باجوہ کو برا بھلا کہنا تھا تو اپنے ساتھ بٹھانے کی کیا ضرورت تھی؟۔ یہ چوہدری پرویز الٰہی کی شرافت تھی کہ اس نے پنجاب میں اپنی حکومت کو عمران خان کی امانت قرار دیا۔ حالانکہ یہ عمران خان کی خیانت تھی کہ چوہدریوں کے درمیان بھی دراڑ ڈال دی اور حکومت کو بھی ختم کرادیا۔
چوہدریوں کے گھر کی بے عزتی کے پیچھے اگر مریم نواز اور نوازشریف نہیں تھے تو اس کی مذمت کیوں نہیں کی؟۔ ہماری قوم اس قدر بے حس بن چکی ہے کہ ایک کھلاڑی کو سب سے مقبول سیاستدان بنادیا لیکن اس میں ایک طرف موجودہ سیاسی جماعتوں کا منافقانہ کردار ہے تو دوسری طرف کرکٹ کے چھکے اور چوکے پر لوگ دورۂ قلب سے موت کی دہلیز تک پہنچ جاتے ہیں لیکن کسی عزتدار عورت کی عزت لٹ جانے سے ان بے غیرتوں اور بے ضمیروں کو دورے نہیں پڑتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حلالہ کی لعنت کے نام پر بھی عزتیں لٹتی ہیں اور شیخ الاسلام سود کو اپنی اماں سے زنا کے برابر گناہ کہہ کر بھی عالمی سودی نظام کو چند ٹکوں کی خاطر جواز فراہم کردیتا ہے۔ نبی ۖ نے دجال سے زیادہ خطرناک ایسے قائدین اور حکمرانوں کو قرار دیا ۔ جس کا حوالہ مفتی رفیع عثمانی کی کتاب ” علامات قیامت اور نزول مسیح ”میں موجود ہے۔ ہمارا مقصد زور دار طریقے سے دستک دینا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

یہاںکیاالٹی گنگا بہہ رہی ہے،جماعت اسلامی شگاگو کے شہیدو!سرخ سلام کہہ رہی ہے

یہاںکیاالٹی گنگا بہہ رہی ہے،جماعت اسلامی شگاگو کے شہیدو!سرخ سلام کہہ رہی ہے

جماعت اسلامی کو سرمایہ دارانہ نظام ، امریکہ اور جنرل ضیاء الحق کا ٹاؤٹ سمجھا جاتا تھا۔ مولانا مودودی مزدوروں کے یوم یکم مئی کے مقابلے میں شہدائے بدر کا دن منانے کا کھیل کھیلتے تھے۔ جب سراج الحق نے پہلی مرتبہ سرخ ٹوپی پہن کر یومِ مزدور میں ریلوے کے ملازمین کے ساتھ شرکت کی تھی تو ہم نے ٹوپی ڈرامے کو علامات قیامت کی ایک نشانی قرار دیا تھا۔ آج جماعت اسلامی شکا گو کے شہیدو کو سلام پیش کررہی ہے۔
اب اشارہ مل جائے تو جماعت اسلامی سقوط افغانستان اور یوم فتح افغانستان منانا شروع کردے لیکن انجینئرگلبدین حکمت یاراپنے مشن میں کامیاب نہ ہوسکاتھا۔ جماعت اسلامی افغانستان میں بالکل دفن ہوگئی ہے۔ جہادِ کشمیر، جہاد افغانستان، جہاد فلسطین اور جہاد اسلام سب کچھ بھول بھال کر جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان اب قوم پرستی کی سیاست پر اتر آئے ہیں۔ محسن داوڑپر ایک مہمان کی حیثیت سے جوکرسیاں چلائی گئی تھیں ،اس پر پیپلزپارٹی کے اخونزادہ چٹان نے بہت شرمندگی سے معافی مانگی تھی اور ساری جماعتوں کی طرف سے جماعت اسلامی کے معافی مانگنے تک بائیکاٹ اور اپنے اتحاد سے خارج کرنے کا اعلان کیا تھا اور وہ صاحبزادہ ہارون الرشید آج بھی جماعت اسلامی کا اثاثہ ہیں جس نے یہ گھناؤنی حرکت کی تھی۔
جب پرویزمشرف کے دور میں وکلاء تحریک نے سپریم کورٹ کے ججوں کی بحالی کیلئے قربانی دینا شروع کی تھی تو سیاستدان بھی میدان میں نکلے تھے۔ عمران خان کو وکلاء تحریک کے دوران اسلامی جمعیت طلبہ نے یرغمال بنایا تھا اور جماعت اسلامی لاہور کے امیرالعظیم کی طرف سے اپیلیں کرنے اور انتہائی شرمندگی کے اظہار کے باوجود بھی جمعیت کے طلبہ عمران خان کو نہیں چھوڑ رہے تھے، جماعت اسلامی کا سب سے بڑا کمال بھی یہ ہے کہ کالج اور یونیورسٹیوں کے طلبہ سے ان کو قیادت مل رہی ہے لیکن سب سے بڑا زوال بھی یہ ہے کہ طلبہ تنظیم کے وقت سے جو تشدد ، فریب، ڈکٹیٹر شپ اور غیر جمہوری رویہ دل ودماغ میں بیٹھا ہوتا ہے تو وہ سیاست کے میدان میں بھی چل رہا ہوتا ہے۔ جاوید ہاشمی ایک اچھی طبیعت کی قابلِ قدر شخصیت ہیں مگر جن ڈرامہ بازیوںکو طلبہ کے وقت میں جماعت اسلامی سے سیکھا تھا وہ بڑھاپے میں ان میں لوٹ رہی ہیں۔ مسلم لیگ ن کے خواجہ سعد رفیق نے جاوید ہاشمی کو تحریک انصاف میں جانے سے بہت روکا تھا لیکن پھر بھی وہ گئے تھے۔ پھر تحریک انصاف سے یہ کہہ کر جاوید ہاشمی نکلا تھا کہ ” اسٹیبلشمنٹ اور عدالت کی توقع پر عمران خان کو نہیں رہنا چاہیے۔ مجھے ان کے مزاج کا پتہ ہے وہ کوئی مدد نہیں کریںگے۔ میں استعفیٰ دیتا ہوں لیکن کوئی دوسرا استعفیٰ نہیں دے گا۔ میری بات یاد رکھیں”۔ پھر جاوید ہاشمی کہتا تھا کہ جو میں نے کہا تھا ، عمران خان کے ساتھ آخر وہی ہوا ہے۔ آج جاوید ہاشمی کہتا ہے کہ ” عمران خان کو میں نے روکا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ اور عدالت کا سہارا مت لینا ، یہ بہت نقصان دہ ہے”۔ حالانکہ ہوا یہی تھا کہ جب عمران خان کو توقع تھی تو اسٹیبلشمنٹ نے مدد نہیں کی اور اس کی وجہ سے جاوید ہاشمی نے تحریک انصاف چھوڑ دی۔ جب تحریک انصاف کو مقبولیت مل گئی تو اسٹیبلشمنٹ نے بھی ساتھ دیا لیکن پھر جاوید ہاشمی ساتھ نہیں رہے تھے۔
اسلامی جمعیت طلبہ کی اصلاح کے بغیر جماعت اسلامی کے کسی قول ، فعل، جمہوریت، اسلام، جہاد اور قوم پرستی پر یقین کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ دنیا کے ہر کونے میں بہت باصلاحیت لوگ اپنی زندگی کا اصل مقصد جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے ہاتھوں گنوا بیٹھے ہیں۔ ابن الوقتی ، بدمعاشی، منافقت اور درجن بھر ایسی صفات جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے ذریعے پیدا ہوجاتی ہیں جن کو اسلام اور جمہوری سیاست کا نام دیا جاتا ہے لیکن وہ اسلام اور جمہوریت سے بالکل عاری ہوتی ہیں۔ مولانا مودودی نے تعلیم وتربیت کیلئے مدارس اور خانقاہوں کو ایک اضافی چیز قرار دیا تھا لیکن مدارس اور خانقاہیں اسلام کیلئے زبردست تربیت گاہیں تھیں اور اپنی جماعت اور اسلامی جمعیت طلبہ کی تربیت کو پھر بدعت نہیں سنت قرار دیا تھا لیکن ان میں علم وعمل ، اخلاص وتربیت اور ایمان واسلام کی جگہ دوسری چیزیں ڈالی جاتی ہیںجن میں ایک سیاسی قوت کا حاصل کرنا ہے۔ حالانکہ جب غلط طریقے سے قوت حاصل کی جائے تو اسلام وایمان کے علاوہ اس کو کچھ بھی کہا جاسکتا ہے۔ جماعت اسلامی کی سرشست میں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت اور قوم پرستوں کی سخت مخالفت ہے لیکن فضاؤں کا رُخ دیکھ کرجماعت اسلامی بھی اپنا مذہب تبدیل کررہی ہے۔
مدارس کے علماء کرام اور خانقاہوں کے مشائخ عظام نے ہمیشہ عوام و خواص کی تعلیم وتربیت کا اہتمام کیا ہے۔ جو دیوبندی بریلوی مدارس میں بہت احترام کیساتھ حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی مسلک پڑھاتے ہیں اب ان میں فرقہ واریت میں مبتلاء جاہل طبقہ آپس کے معمولی معمولی اختلافات کو بھی پہاڑ بناکر پیش کرتا ہے۔ حالانکہ قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کے درمیان جس طرح اختلافات سے دونوں میں تفریق ہوئی تھی تو اس سے زیادہ علماء ومشائخ میں بھی نہیں ہے اور دیوبندی بریلوی ایکدوسرے کو اعتدال پر لانے میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔دونوں اطراف میں جہالت کے باعث شدت پسندی بھی ہے اور دونوں اطراف میں اعتدال پسند بھی ہیں۔ اگر دونوں اسلام کی نشاة ثانیہ کی طرف متوجہ ہوں اور اہل حدیث واہل تشیع کو بھی اپنے ساتھ شامل کریں تو بہت سارے معاملات میں ایک پرامن جمہوری انقلاب برپا کرسکتے ہیں۔ اختلافات اور اجتہادی غلطیاں کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ جمعیت علماء اسلام و جمعیت علماء پاکستان نے اسلامی جمہوری محاذ کے نام سے اتحاد کیا تھا جس میں مولانا فضل الرحمن اور علامہ شاہ احمد نورانی کی قیادت میں خاطر خواہ نتائج اسلئے برآمد نہیں ہوسکے کہ ان کے پیچھے علمی اور عملی طاقت نہیں تھی۔
جماعت اسلامی کے بانی مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی نے ان اغلاط کو سلیس انداز میں ”تفہیم القرآن” کے ترجمہ وتفسیر میں پیش کیا ہے جو علماء ومشائخ سے اجتہادی غلطیاں ہوئی ہیں۔ علماء ومشائخ کیلئے اجتہادی غلطیوں سے اعلانیہ توبہ کرنے میں کوئی عار نہیں ہے لیکن جماعت اسلامی نے مولانا مودودی کی اجتہادی غلط تفسیر اور ترجمہ سے بھی توبہ نہیں کرنا ہے اسلئے کہ جماعت اسلامی کے علماء کی حیثیت ملازمین کی ہے اور باقی جماعت اسلامی مولانا مودودی کی پوجا کرتی ہے۔ جس شخصیت مولانا مودودی نے یہ سکھایا تھا کہ قرآن اور سنت کے مقابلے میں کوئی بڑے سے بڑا شخص بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہے اس کی اپنی جماعت کا اس طرح شخصیت پرستی کا شکار ہونا بہت بڑا المیہ ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علماء اسلام پر1970میں فتوے لگے تھے تو اس میں جماعت اسلامی ، دارالعلوم کراچی کے مفتی تقی عثمانی ، جامعة الرشید کے بانی مفتی رشیداحمد لدھیانوی اور مسلم لیگی قیادت سرِ فہرست تھی۔ مولانا فضل الرحمن اپنے باپ مفتی محمود کی طرح ان قوتوںکے آلۂ کار بن گئے ہیں۔ مفتی محمود نے توبہ کرکے جنرل ضیاء الحق کی مخالفت شروع کردی تھی لیکن زکوٰة کے مسئلہ پر مفتی تقی عثمانی کے جبری پان اور مفتی رفیع عثمانی کی طرف سے لائی ہوئی دورۂ قلب کی گولی کا نشانہ بن گئے۔ مفتی تقی عثمانی کے سودی زکوٰة کو شراب کی بوتل پر آب زم زم کا لیبل قرار دینے والا مولانا فضل الرحمن اب اس کی سودی بینکاری کو بھی مشرف بہ اسلام قرار دے رہاہے۔ جب اسلام دین اکبری والا ہو اورنواز شریف کی مغل سلطنت کیلئے مولانا فضل الرحمن اپنا سیاسی کردار ادا کررہے ہوں تو انصار الاسلام کے نام سے جھنڈے اٹھانے والوں کو خبردار ہونا چاہیے۔ میں نے کبھی جمعیت علماء اسلام و طلباء اسلام کی رکن سازی کا فارم نہیں بھرا ہے مگر جب مولانا پر فتوے لگ رہے تھے تو انکا دفاع کیا ہے اور جمعیت کا زیبرائی جھنڈا لے کر ایک مرتبہ تمام انصار الاسلام کا کردار بھی ادا کیا ، جب مولانا لیبیا سے آئے تھے اور مدارس کے علماء و طلبہ نے استقبال کیا تھا۔ مولانا نے مجھے رات کو اپنے ہاں عبدالخیل میں رُکنے کا کہا تھا کہ ” ذکر اور مراقبہ کراؤ”۔ میں نے کہا تھا کہ ”صوفی نہیں سیاسی مراقبے کراؤں گا”۔ پیر ذوالفقار اچھا مگر کم عقل آدمی ہے اسلئے سیاست اور فرقہ واریت کی تبلیغ کرتا پھر رہاہے اور یہ تصوف کا بہت بڑازوال ہے جو روحانیت نہیں دولت کی چمک ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پاک فوج کے سپاہیوں کوسبز سلام

پاک فوج کے سپاہیوں کوسبز سلام
یوم مئی کے مزدوروں کو سرخ سلام

عید پر چھٹی نہ ملنے پر رینجرز کے جوان نے گھر والوں کی یاد میں کمال نظم لکھ دی۔

صحافی حنا نیازی اور سپاہی زکریا
سپاہی سے محبت ایمان کا تقاضا؟
اس وقت میرے ساتھ موجود ہیں سپاہی زکریا۔ انہوں نے ایک بہت ہی خوبصورت نظم لکھی ہے۔ پہلے تو پس منظر جانتے ہیں کہ کیوں لکھی ہے یہ نظم؟۔
حنا نیازی سنو نیوز: السلام علیکم! کیسے ہیں آپ؟۔
وعلیکم السلام! الحمد للہ میں ٹھیک ہوں۔
حنا نیازی : مجھے یہ بتائیں کہ جو نظم آپ نے لکھی ہے وہ کیوں لکھی اور کب لکھی؟۔
سپاہی زکریا: یہ ایسا ہے کہ جب بھی کوئی تہوار آتا ہے عید کا موقع آتا ہے یا کوئی خوشی کا موقع آتا ہے تو ہمارا بھی دل کرتا ہے کہ ہم لوگ بھی گھر جائیں۔ گھر والوں کے ساتھ اپنی خوشیاں شیئر کریں۔ ان کے ساتھ خوشیاں بانٹیں۔ تو ایسا ہی کچھ ہوا پچھلے سال میرے ساتھ میری چھٹی نہیں ہوسکی کسی وجہ سے۔ میں ڈیوٹی پر بیٹھا ہوا تھا تو ہمارے بھی جذبات ہوتے ہیں تو ہمارے ساتھ ایسا واقعہ ہوا تو وہاں بیٹھ کر میں نے یہ نظم لکھی تھی۔
حنا نیازی سنو نیوز: اچھا چھٹی نہ ملنے کی وجہ سے لگاتار دو بار آپ کو چھٹی نہیں ملی تو آپ تو آپ تھوڑے سے اموشنل ہوگئے اور آپ نے یہ پوئم لکھی؟۔
سپاہی زکریا: جی بالکل ، یہ نظم اس طرح ہے کہ جیسے میں بیٹھا ہوا تھا ادھر اور ایک سولجر چھٹی پر نہیں گیا تو کوئی بندہ جاکر اس کا حال پوچھتا ہے کہ کیا حال ہے کیسا محسوس کررہے ہیں؟۔ کیسے عید گزر رہی ہے؟۔ تو میں نے وہ اس موضوع پر لکھی تھی کہ
کیا پوچھتے ہو ہم سے
کیسے گزری عید ہماری
صبح سویرے نکالی وردی
ڈیوٹی کی کی تیاری
دل میں ارمان بہت تھے
اس بار تو گھر چھٹی جاؤ ں گا
ماں باپ بہن بھائی عزیزوں کے ساتھ عید مناؤ ں گا
دل میں ارمان بہت تھے
مگر یہ فرض بھی نبھانا تھا
سرحد پہ تھی میری ضرورت بہت
آخر مجھے جانا تھا
وردی پہن کر کی تیاری
رائفل کو سینے سے لگایا
آنکھوں پہ نمی لبوں پہ ہنسی لے کر
سرحد پر چلاآیا
اب کیا بتاؤں یارو کہ کیسے گزری یہ عیدہماری
ہم کھڑے رہے سرحدوں پہ
خوشیاں مناتی رہی دنیا ساری
سدا سلامت رہے تو اے وطن
تیرا اونچا مقام کرجاؤں گا
ایک عید کیا اے وطن
لاکھوں عیدیں تجھ پر قربان کر جاؤں گا
حنا نیازی: واہ واہ واہ۔ زبردست۔ بہت خوبصورت نظم لکھی۔ اس میں جو آپ کے اموشنز تھے اور بہت ہی زبردست آپ کی پوئٹری تھی اور ہم بھی وہ اموشنز محسوس کررہے تھے۔ اچھا مجھے یہ بتائیں اس بار چھٹی ملی ہے؟۔
سپاہی زکریا: نہیں۔ اس بار بھی چھٹی نہیں ملی۔
حنا نیازی: اوئے ہوئے ہوئے ہوئے۔ یہ تو ہیٹ ٹرک ہوگئی ہے بھئی۔
جواب: نہیں ایسی کوئی بات نہیں یہاں بھی گھر کے جیسا ماحول ہوتا ہے۔ ہم آپس میں بھائی بھائی ہیں بہت پیار سے بہت خلوص سے ہم یہاں رہتے ہیں۔ اور ہمیں یہاں پر بھی بہت زیادہ مزا آتا ہے۔ اور زیادہ فیل نہیں ہوتا بس دل میں ارمان ہوتے ہیں لیکن یہاں پر جب ہم آپس میں گپے شپے لگاتے ہیں تو ہمارا ماحول گھریلو جیسا ہوجاتا ہے پھر ہمیں کچھ زیادہ محسوس نہیں ہوتا۔ ہم یہاں پر مل کر رہتے ہیں پھر گھر والوں کے ساتھ بھی بات ہوتی ہے۔ کال پر ان کو وش کرتے ہیں۔
حنا نیازی: تو اس دفعہ کوئی نظم لکھنے کا ارادہ ہے؟۔
سپاہی : اس دفعہ ہم ایک اور نظم لکھیں گے انشاء اللہ۔
حنا نیازی: چلیں جب میں اگلی بار آؤں گی تو میں آپ سے یہ نظم سنوں گی۔ ویسے کہا جاتا ہے کہ درد میں آپ اچھا کچھ لکھ سکتے ہیں تو کیا جب وہ اموشن ہوتے ہیں جب وہ درد ہوتا ہے تکلیف ہوتی ہے تو آپ اچھا لکھتے ہیں؟۔
سپاہی زکریا: ایسا ہی ہوتا ہے۔ کوئی بھی لکھنے والا ہوتا ہے تو الفاظ اس کی کیفیت بیان کرتے ہیں۔
حنا نیازی: ارے واہ واہ الفاظ کیفیت بیان کرتے ہیں بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ ۔ تو تیسری دفعہ آپ کچھ غمگین ہی لکھنے والے ہیں؟۔
سپاہی زکریا:نہیں انشاء اللہ اچھا بھی لکھیں گے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عمران خان سے حکومت میں شامل13جماعتیں اور مقتدر طبقات کیوں اتنا زیادہ خوفزدہ ہیں؟

عمران خان سے حکومت میں شامل13جماعتیں اور مقتدر طبقات کیوں اتنا زیادہ خوفزدہ ہیں؟

پاکستان میں لوگ کرکٹ میچ کے اندر چوکے چھکے کی وجہ سے تڑپ کر مر جاتے ہیں مگر کبھی ریپ ، قتل و غارت ، دنگا فساد اور باقی کرتوت سے نہیں مرتے

چلو کسی بھی بہانے سے ملک و قوم میں ایک سیاسی بیداری کی فضاء پیدا ہوئی ہے تو اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے عوام چاول کی پلیٹوں پر ووٹ دیتے ہیں۔

شہباز شریف اور تمام سیاستدان غریبوں کو ورغلانے کیلئے حبیب جالب کے اشعار پڑھتے اور ذوالفقار علی بھٹو کی نقلیں اتارتے تھے۔ الیکشن کے دوران چاول کی پلیٹوں پر غریبوں کو دھوکہ دیا جاتا تھا۔ اب لوگوں کو پتہ چلا ہے کہ اتنی مہنگائی ہماری اشرافیہ کی وجہ سے ہے جو باہر سے بڑے پیمانے پر سودی قرضے لیکر عوام پر اس کا سارا بوجھ ڈالتے ہیں۔ شہباز شریف بھی زرداری کا پیٹ چاک کرنے ، بازاروں میں گھمانے اور چوکوں پر لٹکانے کی تقریریں کرتا تھا۔ اب وہ سب ایک پلیٹ فارم پر نظر آتے ہیں تو عوام کو حقائق کا پتہ چل رہا ہے۔ عمران خان ایک ایسے موقع پر عوام کے دکھ درد کا فائدہ اٹھارہا ہے کہ جب حکمران اور مقتدر طبقات ناکامی کے آخری کنارے پر کھڑے ہیں۔ اگر سازش کے تحت یہ کھیل کھیلا گیا کہ اگلی باری بلاول بھٹو زرداری کو دی گئی تو نظام کے ساتھ عوام کا بھی ستیاناس ہوسکتا ہے۔ مریم نواز کو ایک جمہوری سیاستدان کا کردار ادا کرنا ہے تو عمران خان کی راہ میں کسی رکاوٹ اور سازش کا حصہ نہ بنے۔ جمہوریت میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے۔ آج عمران خان کیلئے بچے ، نوجوان اور بچیاں انقلابی گیت گارہے ہیں تو آنے والے کل اسی عمران خان پر تھو تھو کریں گے اور مریم نواز کے گن گائیں گے۔ جمہوریت میں جب تک قوم کی آنکھ نہ کھلے سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ ہماری قوم فی الحال کرکٹ کی عاشق ہے۔ چوکے اور چھکوں سے عوام کو دل کے دورے پڑتے ہیں۔ عمران خان نے کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتا ہے اور آج تک قوم کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔10کلو آٹے کیلئے لوگ شہید ہوئے۔ بچیوں کے ساتھ ریپ ہوئے۔ ملک میں ڈرون حملوں سے آبادیوں کو برباد کیا گیا۔ افغانستان ، عراق، شام، فلسطین، سوڈان اور لیبیا میں بڑے مظالم کا عوام کو سامنا کرنا پڑا لیکن کسی پر دل کا دورہ نہیں پڑا۔ جب قوم کا مزاج بدلے گا تو امریکی صدر بل کلنٹن اسلام آباد میں بچوں کیساتھ کرکٹ کھیلنے کے بجائے ان غریبوں کا دورہ کرے گا جن کی موت10کلو آٹے کی طلب کیلئے ہوئی اور شاید اسلامی بینکاری والے تو رحم نہ کریں مگر دیگر بینک سود کو بھی معاف کردیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

20ارب سے زیادہ کی کرپشن ہوئی۔ شاہد خاقان عباسی۔ کیا21ارب الیکشن کیلئے نہیں ہیں؟۔

20ارب سے زیادہ کی کرپشن ہوئی۔ شاہد خاقان عباسی۔ کیا21ارب الیکشن کیلئے نہیں ہیں؟۔

ابھی84ارب روپے آٹے کی تقسیم ہوئی ہے۔ میں معذرت سے کہوں گا کہ اس میں20ارب سے زیادہ چوری ہوئی ہے۔ آپ کسی طرح سے بھی دیکھ لیں۔ کیا ملا ہے اس غریب کو جس کیلئے آپ نے84ارب روپیہ خرچ کیا ہے؟۔ آپ اس نظام کے اندر ڈیلوری نہیں کرسکتے آپ کو اس کو پوری طرح ری ڈیفائن کرنا ہوگا ۔ اتنا کرپٹ ہوچکا ہے اتنا فرسودہ ہوچکا ہے کہ یہ آج ڈیلور نہیں کرسکتا۔ چاہے وفاق میں ہو چاہے صوبے میں۔ یہ بات سمجھ لیں کہ اس نظام میں نہ پالیٹیشن کے پاس کپیسٹی ہے اور نہ بیوروکریسی کے پاس۔
پھر شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اگر کسی کو میرے اس بیان سے تکلیف پہنچی ہو تو میں اس پر معذرت کرتا ہوں ۔ وزیر اعظم نے نیک نیتی سے غریب کیلئے فنڈ جاری کیا لیکن اس میں چوری ہوئی ہے۔ میں نے یہ نہیں کہا کہ وفاقی حکومت اس کی ذمہ دار ہے یا صوبائی۔ میں نے نظام کا کہا ہے کہ یہ نظام کرپٹ ہوچکا ہے۔
تبصرہ نوشتہ دیوار: سیاستدان سچ بولنا شروع کریں تو ملک کے مسائل حل ہونے میں بالکل بھی دیر نہیں لگے گی۔ اگر دوسروں پر تنقید کے نشتر برسانے کے بجائے اپنی اصلاح اور نظام کی اصلاح کی طرف آئیں تو بہتر ہوگا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

تین طلاق اور حلالہ کی لعنت

تین طلاق اور حلالہ کی لعنت

پاکستان اورہندوستان کے اندرجس درسِ نظامی میں دیوبندی بریلوی حنفی مسلک کی تعلیم دیتے ہیں وہ دنیا بھر میں3طلاق اور حلالہ کی لعنت کی وجہ سے بدنام ہے۔ دبنگ مسلم لیگی سینیٹر مشاہداللہ خان نے کہا تھا کہ ”اسلام میں حلالہ کی لعنت کا کوئی تصور نہیں ہے لیکن یہاں کے لوگ قوالی سن کر مسلمان ہوئے ہیں اسلئے حلالہ کی لعنت اور بہت ساری غلط رسموں کا اسلام کے نام پر رواج ہے”۔ اگر اسلامی نظریاتی کونسل ، مین اسٹریم میڈیا اور پارلیمان میں3طلاق اور حلالہ کی لعنت کا مسئلہ زیرِ بحث لایا جائے تو پاکستان اور دنیا بھر سے حلالہ اور اس کی برکت سے سود کا خاتمہ بھی ہوسکتا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

کتنی بار چھوٹی نفری غالب آتی ہے بڑی نفری پر اللہ کی اجازت سے؟

کم من فئة قلیلة غلبت فئة کثیرة باذن اللہ
کتنی بار چھوٹی نفری غالب آتی ہے بڑی نفری پر اللہ کی اجازت سے؟
آرمی چیف حافظ سید عاصم منیر
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

پاکستان لاالہ الااللہ کے نام پر بنا لیکن یہاں جھوٹ، بہتان، جبر، ظلم، فسق اور کفرکا راج ہے

جن سیاستدانوں کے سروں پر حکمرانی، عدالتوں پر عدل اور فوجیوں پر طاقت کا تاج ہے وہ عوام کی لاج نہیں رکھ سکے ۔دنیا بھر میں پاکستان آج اناج کی بھیک مانگ رہاہے؟

متحدہ ہندوستان میں ہندو بن کر رہتے اور گائے ماتا کا پیشاب پیتے تو بھی اس رسوائی سے بہتر تھا جو آج ہم دنیا کے سامنے ایڑیاں رگڑ رگڑ کراپنی مراعات کیلئے کشکول لے کر گھومتے ہیں

اسماعیل نے ایڑیاں رگڑیں تو آب زم زم نکلا، کربلا میں یزیدکے لشکر نے حسین پر پانی بند کیا تو سپہ سالار حر نے کمزور حق کا ساتھ دیا یہاں تو ولایزید الظالمین الا خسارا کا مظاہرہ ہے

قرآن اللہ کی نعمت ہے ۔پاکستان بھی اللہ کی نعمت ہے۔ دونوں نعمتوں کے ساتھ سیاستدانوں، عدالتوں، سول وملٹری بیوروکریسی اور ہمارے مذہبی طبقات نے جو سلوک کیا اور عوام نے ان کے بہکاؤے پر جس طرح لبیک کہا ۔ہم اسی عذاب ، لعنت ، ظلم ، جبر ، تنگدستی اور بے بسی کے مستحق ہیں جہاں کھڑے ہیں۔
نام حسین کا لیتے ہیں اور کردار یزید کا ادا کرتے ہیں،نام آزادی کا لیتے ہیں اور کردار جبر کا ادا کرتے ہیں ، نام عدل کا لیتے ہیں اور کردار ظلم کا ادا کرتے ہیں۔ نام قرآن کا لیتے ہیں اور کردار فرعون، قارون اور ہامان کا ادا کرتے ہیں۔
ہندو بتوں کی پوجا کر رہے ہیںاور ہمIMFاور دنیا کے آگے ایڑیاں رگڑ کر بھیک مانگتے ہیں۔ عمران خان نے ٹھیک کہا تھا کہ سولی پر لٹک جاؤں گا لیکنIMFمیں نہیں جاؤں گااور پھر مجبوری میں جانا پڑا تھا۔ طالبان خان بننے کیلئے ایاک نعبد وایاک نستعینکا نعرہ لگایا اور پھر پیرنی کا زن مرید بن کر پاکپتن کی راہداری پر سجدہ ریز ہوا تھا۔حالانکہ مولانا شاہ احمد نورانی نے فرمایا کہ ”قبر کے سامنے سجدہ کرنا، جھکنا اور اس کو چومنا جائز نہیں حرام ہے اور عبادت کی نیت سے سجدہ کفر ہے”۔ آرمی چیف حافظ سید عاصم منیر نے بھارت کے مقابلے میں قرآن کی آیت کا حوالہ دیا کہ ” کتنی بار چھوٹی نفری غالب آتی ہے بڑی نفری پر اللہ کی اجازت سے”۔ بے شک بدر میں مسلمانوں نے کم تعداد کے باوجود فتح پائی اور اُحد میں شکست کھائی ۔ حدیبیہ میں صلح کی اور مکہ میں فتح پائی ۔ کم تعداد اور زیادہ تعداد معیار نہیں، فتح وشکست اہل حق ہوتی رہتی ہے لیکن اپنے کردار پر نظر کرنی چاہیے۔ منافقت، ظلم، جبر، جھوٹ ، خیانت، مفاد پرستی ، فریب، دھوکہ دہی بری صفات کا وہ کونساکالا، لال، سفید ، لاہوری ، سمندری، سندھی پنجابی پختون نمک ہے جو ہمارے آٹے ، سالن اور تمام اشیاء خور د ونوش میں شامل نہیں؟۔
سندھ میں پہلی مرتبہ اسلام آیا تو اہل بیت نے بنی امیہ سے ہجرت کی تھی۔ محمد بن قاسم نے راجہ داہر کو شکست دی تو حجاج بن یوسف جیسے فرعون کا دور تھا۔ پھر بھارت میں اسلام تین سوسال بعد داخل ہوا جب اسلام کا فرقہ واریت اور مسلکوں میں بٹوارہ ہوچکا تھا۔پاک وہند سے رسول اللہ ۖ کو جس اسلام کی خوشبو آئی تھی اس اسلام کا خواب آج تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا ہے۔ آئیے ہم اس کا آغاز کردیتے ہیں۔ انشاء اللہ پاکستان نہ صرف عالم اسلام کیلئے بلکہ پوری دنیا کیلئے اسلام کی نشاة ثانیہ کا ذریعہ بنے گا لیکن ریاست کو بھی ساتھ دینا پڑے گا سب سے پہلے علماء کرام ، مفتیان عظام اور مذہبی طبقات کی چھوٹی بڑی غلطیوں کو قرآن و سنت کے مطابق درست کرنا ہوگا۔ آج تک سیاسی پلیٹ فارموں سے لیکر مساجد کے ممبر و محراب تک اور مذہبی اسٹیجوں سے پارلیمنٹ کے ایوانوں تک کسی نے یہ نہیں سنا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ نور میں کیا کیا احکام نازل کئے؟۔
جب اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ پر بہتان عظیم لگا جو اُمت مسلمہ کی ماں ، رسول اللہ ۖ کی زوجہ محترمہ اور حضرت ابوبکر صدیق کی دختر نیک اختر تھیں تو قرآن میں بہتان لگانے والوں پر80،80کوڑوں کی سزا کا حکم ہوا۔ بہتان لگانے والوں میں حضرت ابوبکر کے قریبی عزیز حضرت مسطح ، حضرت حمنہ نبی ۖ کی سالی اور مشہور نعت خوان حضرت حسان شامل تھے۔ اگر ایک غریب اور کمزور خاتون پر بہتان لگایا جائے تو بھی قرآن میں اس کی یہی سزا ہے۔ دنیا کو اگر معلوم ہوجائے کہ اسلام میں اتنی مساوات ہے تو اسلام قبول کرلے۔
آج جمہوریت کے دور میں بھی ہم اسلام کا پیغام گلی کوچوں سے لیکر بین الاقوامی دنیا تک عام نہیں کرسکے ہیں۔ دنیا میں اسٹیٹس کو کے خاتمے کیلئے اسلام ایک واحد ذریعہ ہے۔ غریب کی بیٹی بھوک سے مرسکتی ہے لیکن کروڑوں روپے کے عوض مردوں کے سامنے اسٹیج پر چڑھ کر نخروں سے تقریر نہیں کرسکتی۔ غریب کی ہتک عزت پر عدالت میں اتنا پیسہ بھی نہیں مل سکتا جس سے وکیل اور عدالت کی فیس بھری جاسکے۔ امیر کی ہتک عزت اربوں میں ہوتی ہے۔ پھر غریب کیلئے یہ بھی بڑی سزا ہے کہ وہ چند ہزار کا جرمانہ بھرے۔ اور امیر کیلئے لاکھوں کی فیس بھی کوئی سزا نہیں ہے۔ کوڑوں کی سزا امیر غریب سب کیلئے یکساں ہے۔
اللہ نے فرمایا ہے کہ ”ہم قرآن میں سے نازل کرتے ہیں جو لوگوں کیلئے شفاء اور رحمت ہے اور ظالم نہیں بڑھتے مگر خسارے میں”۔ پاکستان خسارے کی طرف بڑھ رہا ہے لیکن ظلم سے رک نہیں رہا ہے۔ پہلی مرتبہ آرمی چیف حافظ بھی ہیں اور سید بھی۔ کرپشن کے بھی ان پر کوئی الزامات نہیں۔ لیکن ملکی حالات سیاسی اور عدالتی حساب سے انتہائی خطرناک نہج پر پہنچ چکے ہیں۔ پاک فوج ایک بڑا ادارہ ہے جس میں کور کمانڈروں کی ایک بڑی تعداد ہے اور بہت بڑے پیمانے پر اس میں جفاکش سپاہی اور افسران ہیں۔ اگر مشاورتی عمل سے اپنے اندر پہلے اصلاح کا کام شروع کریں اور پھر اس کا دائرہ کار پورے ملک تک پھیلائیں تو یہ صورت ملک و قوم کو اس مخدوش حالات سے نکالنے کا سبب بن سکتی ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv