پوسٹ تلاش کریں

پاکستان کے ماہرین معیشت دلے سمجھتے نہیں یا جان بوجھ کر دلال بن گئے؟ شاہد علی

پاکستان کے ماہرین معیشت دلے سمجھتے نہیں یا جان بوجھ کر دلال بن گئے؟ شاہد علی

مہنگائی سے سودکی شرح بڑھتی ہے ۔ مہنگائی کم ہو تو عالمی مالیاتی نظام سودی شرح کم کرتاہے، پیٹرول و ملازمین کوٹیکس پرریلیف دیا توسود کم ہوکر 1ہزار ارب روپے کا مالی خسارہ بہت آسانی سے کم ہوگا۔

پاکستانی بجٹ سال2024-25کا کل خرچہ26315ارب لگایا گیا۔FBRکی آمدنی12970ارب اور غیرFBRکی آمدنی4845ارب ہے اور خرچہ پورا کرنے کیلئے8500ارب قرضہ لینا ہوگا۔ پاکستان کا یہ سالانہ خسارہ ہے۔
FBRکی آمدنی میں تنخواہ داروں پر ٹیکس بڑھا کر70ارب جمع ہوں گے ۔واضح ہے کہ اگر کوئی بھی خرچہ کم کردیتے تو کروڑوں لوگ تکلیف سے بچتے۔ اسلئے کہ26315 خرچہ میں70ارب بچانا کوئی مشکل کام نہیں۔ پھر پٹرولیم کی مد میں60روپے فی لیٹر سے سال2023-24میں کل900ارب جمع ہوئے لیکن اس کی وجہ سے جو مہنگائی ہوئی تو اسٹیٹ بینک نے شرح سود بڑھادی اگر پٹرولیم لیوی کو ختم کیا جائے تو900ارب کم آمدنی ہوگی لیکن بغیر پیٹرولیم لیوی کے مہنگائی میں کمی آئے گی اور سود کا ریٹ کم ہوجائیگا اور حکومت کو سود کی مد میں جو اس وقت9775ارب رکھے گئے ہیں اس میں بچت ہوگی اسلئے کہ صرف 1فیصد ریٹ کم کرنے سے440ارب سود کم ہوجاتا ہے۔ چونکہ ہمارا لوکل قرضہ44000ارب ہے اور ہر ایک پرسنٹ سے440ارب سود کی رقم کم ہوجاتی ہے۔ اگر مہنگائی میں کمی لائی جائے جیسے کہ پیٹرول اور ڈیزل کی لیوی ختم کردی جائے تو مہنگائی میں2سے ڈھائی فیصد کمی ہوگی۔ اس طرح تقریباً1000ارب سود کا خرچہ کم ہوجائے گا۔
دوسری طرف صوبوں کو رقمNFCایوارڈ کی مد میں دینے ہوں گے وہ12970کا58%ہے جو7440ارب بنتا ہے۔ پنجاب52.5%اور سندھ24.5%،خیبر پختونخواہ14%اور بلوچستان کو9%ملے گا۔ صوبوں کی اپنی آمدنی بھی ہے۔پنجاب کا2024-25بجٹ5500ارب ہے اور سندھ کا3000ارب ہے اور خیبر پختونخواہ کا بجٹ1700ارب اور بلوچستان کا بجٹ900ارب ہے۔ اس طرح اس سال پاکستان کا کل بجٹ31000ارب کے برابر ہے۔
صوبے اتنا پیسہ کہاں خرچ کرتے ہیں کوئی حساب نہیں دیا جاتا اور بہت سا پیسہ چوری ہوجاتا ہے۔ جس کی وجہ سے غریب مزید غریب ہورہے ہیں اور کرپٹ لوگوں کے مزے ہیں۔
پنجاب، سندھ ، پختونخواہ اور بلوچستان کی سیاسی جماعتیں مافیاز ہیں۔ ان کو یہ فکر نہیں ہے کہ ملک سودی قرضوں میں ڈوب جائے گا بلکہ جس کی اپنی دکان چل رہی ہو ،وہ فٹ پاتھ پر بھی جھاڑو دیتا ہے۔ جس کی دکان نہیں چلتی وہ جھاڑو اٹھاکریہ ٹھیک نہیں وہ ٹھیک نہیں شور کرتا رہتا ہے ۔بھوکی عوام تماشا ئی ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جولائی 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

70سال کے گناہ ایک لمحہ میں ختم ، قلم پھیر دیا نامہ اعمال میں موجود نہیں!مفتی تقی عثمانی

70سال کے گناہ ایک لمحہ میں ختم ، قلم پھیر دیا نامہ اعمال میں موجود نہیں!مفتی تقی عثمانی

لوگ کہتے ہیں کہ اللہ میاں نے خوامخواہ اس قسم کی مخلوق پیدا کردی ،وہ ہروقت ہمیشہ ہمیں بہکاتی ہے، غلط کاموں پر آمادہ کرتی ہے ۔ ارے اسلئے پیدا کیا کہ تم استغفار کو استعمال کرو!
یہ استغفار بڑی عظیم چیز ہے یہ اللہ تبارک و تعالی کی خاص رحمت ہے جو بندوں کو عطا ہوئی ہے استغفار اے اللہ معاف کر دے یا اللہ معاف کر دے یہ جملہ بڑا زبردست جملہ ہے اس سے70سالہ گناہ ایک لمحے میں معاف ہو جاتے ہیں ایک لمحے میں ختم بس اسکے اوپر قلم پھیر دیا گیا اب اس کے نامۂ اعمال میں بھی موجود نہیں آدمی استغفار کرے تو بھائی یہ اللہ میاں نے اتنا آسان بنا دیا کتنا آسان بنا دیا کہ لوگ کہتے ہیں بھئی اللہ میاں نے خوامخواہ اس قسم کی مخلوق پیدا کر دی وہ ہر وقت ہمیشہ آ کے ہمیں بہکاتی ہے غلط کاموں پر آمادہ کرتی ہے ارے اسلئے پیدا کیا ہے تاکہ تم استغفار کو استعمال کرو اللہ تعالی اپنی غفاری کا اپنی ستاری کا مظاہرہ فرمائیں۔ تمہارے غلطیوں کے اوپر غلطی تم سے ضرور ہوگی لیکن اسکے ساتھ استغفار کو اپنے لیے لازم کر لو لازم کر لو کوئی بھی غلطی ہو فوراً استغفر اللہ تو اللہ تبارک و تعالی نے اتنا آسان نسخہ بتا رکھا ہے نبی کریم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں سارے دن میں70مرتبہ استغفار کرتا ہوں جو ذات گناہوں سے پاک معصوم غلطی سرزد ہو ہی نہیں سکتی اگر ہو بھی ان سب کچھ معاف کرنے کا اعلان کر دیا ۔ لیغفر اللہ ماتقدم من ذنبک وماتأخر منہ تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے اگلے پچھلے سب گناہ معاف فرمادے۔
(سوشل میڈیا کی آڈیو میں پورا بیان ریکارڈ پر موجود ہے)

مفتی تقی عثمانی کے بیان پر تبصرہ

1970ء میں جمعیت علماء اسلام کے اکابر پر کفر کا فتویٰ لگایا، وقف مدرسہ کے مال پر ناجائز مکان خریدا۔ سودی بینکاری کو جواز بخشا۔ یہ نسخہ بڑی حماقت ہے
رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ” اللہ کو وہ بندہ بہت پسند ہے جس سے گناہ کاارتکاب ہوجاتا ہے تو وہ بار بار توبہ کرتا ہے”۔
جب حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ نے شجرے کے قریب جانے سے منع کیا پھر آپ سے غلطی کا ارتکاب ہوگیا تواللہ نے فرمایا:ولم نجد لہ عزمًا ” اور ہم نے اس کا عزم نہیں پایا”۔
شیطان نے اپنی غلطی پر اصرار کیا اسلئے اس کا عزم بھی تھا۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ” وہ شخص بڑا احمق ہے کہ جو گناہ کا ارتکاب اسلئے کرے کہ اللہ غفور رحیم ہے”۔ مفتی تقی عثمانی نے اپنے باپ کیساتھ مل کر پورے مشرق ومغربی پاکستان کے علماء سے مفتی محمود ، مولانا عبداللہ درخواستی ، مولانا غلام غوث ہزاروی وغیرہ جمعیت علماء اسلام کے اکابرین پر کفر کا فتویٰ لگادیا ۔ پھر1988میں حاجی محمد عثمان پر اپنے دنیاوی مفادات کیلئے کفر وگمراہی کے انتہائی بیہودہ فتوے لگادئیے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ ”یہ سن70کا فتویٰ لگتا ہے۔ اس پر علماء ومفتیان نے پھر سرمایہ داروں سے پیسے لئے ہوں گے”۔
پہلے بینکوں کی زکوٰة سے مدارس اور غریبوں کے معاملات چلتے تھے۔ پھر مفتی تقی عثمانی نے جنرل ضیاء الحق سے تعاون کیا اور سودی مال کی کٹوتی کو زکوٰة قرار دیا۔ مفتی محمود پان میں زہر اور دورہ قلب کی خصوصی گولی حلق میں لئے شہیدہو گئے اور پھر عالمی سودی بینکاری نظام کو اسلامی قرار دیا۔ شہیر سیالوی مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن سے جہاد فرض قرار دینے کا مطالبہ نہ کرے بلکہ اسرائیل کے سودی نظام کو جوازبخشنے کو واپس لینے کا مطالبہ کرے۔ مولانا طارق جمیل کا بیان چھاپا کہ اسلامی بینکاری سود ہے تو مولانا طارق جمیل کو دارالعلوم کراچی جمعہ کے بیان کیلئے بلالیا اور پھر حاجی عثمان کی وجہ سے تبلیغی جماعت کے فتوے کا حوالہ دیا تو کچھ دن بعد مفتی تقی عثمانی رائیونڈ پہنچ گیا۔ ہم چاہیں تو بڑے بڑے گھٹنے ٹیک دیں۔انشاء اللہ۔ ہم کسی کی عزت نفس کو مجروح نہیں کرتے لیکن حق کو قبول کرنا پڑے گا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جولائی 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

ہندو سینیٹر نے سود سے متعلق اللہ کا حکم سناکر حکمران اور علماء کو پانی پانی کردیا؟

ہندو سینیٹر نے سود سے متعلق اللہ کا حکم سناکر حکمران اور علماء کو پانی پانی کردیا؟

سینیٹر رمیش کمار نے سینیٹ اجلاس میں کہا کہ سخت افسوس کہ حکومت سود پر سود لے رہی ہے۔ دنیا سے سود پر پیسے لے رہے ہیں ۔ وفاق سود پر صوبوں کو پیسے دے رہا ہے۔ میں آپ کو ترجمہ سناتا ہوں۔ سورہ بقرہ آیت278میں ہے ”اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو”۔ اسی طرح سے سورہ بقرہ279میں ہے ”پھر اگرآپ اس پر پھر بھی عمل نہیں کرو گے اور سود پر سود لیتے رہو گے اور دیتے رہو گے تو علی الاعلان سن لو کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جنگ اور اللہ کے رسول کے خلاف جنگ ہے۔ اور اگر تم توبہ کرلو گے تو تم کو تمہارے اصل اموال مل جائیں گے۔ نا ہی تم کسی پر ظلم کرپاؤ گے اور نا ہی کوئی تم پر ظلم کر پائے گا ”۔ سر ! جب قرآن شریف کہتا ہے جب اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ سود حرام ہے اللہ تعالیٰ سے جنگ ہے مگر یہاں پر سود لیا بھی جارہا ہے اور دیا بھی جارہا ہے۔ تو مجھے بتائیں ہمارا ملک خاک ترقی کرے گا؟۔ اور آپ کہتے ہیں کہ آپ کا قانون قرآن و سنت سے ہٹ کر نہیں ہے۔ بحیثیت غیر مسلم بھی مجھے شرم آتی ہے کہ آپ یہ منافقت کا کام کررہے ہیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جولائی 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

آپریشن کے ہاتھ عدم استحکام کا شکارہیں مولانا فضل الرحمن

آپریشن کے ہاتھ عدم استحکام کا شکارہیں مولانا فضل الرحمن

مولانا فضل الرحمن نے قومی اسمبلی میں خطاب کیا:آپ نے عزم استحکام آپریشن کے نام سے کیا چیز کردی۔ ہم2010سے مار کھارہے ہیں انہی آپریشنوں کے ہاتھ سے دہشتگردی کیخلاف جنگ، کیا دہشتگردی کیخلاف جنگ یہ بین الاقوامی ایجنڈا نہیں؟ ۔ یہ پہلو ہم کیوں نظر انداز کررہے ہیں؟۔ باجوہ صاحب نے کہا کہ میں نے باڑ لگادیا۔ کسی کا باپ افغانستان جاسکتا ہے اور نہ آسکتا ہے۔ کوئی دہشتگرد نہیں آسکتے ۔40،50ہزار آچکے۔ معاف کیجئے بہت درد اور دکھ سے کہہ رہا ہوں، محسوس ہورہا ہے کہ اگلے دو چار مہینوں میں ڈیرہ اسماعیل خان، وزیرستان، لکی مروت، بنوں اورکرک میں امارات اسلامیہ قائم ہو ۔ پاکستان کی رٹ نظر نہیں آرہی۔ مغرب ہوتے ہی تمام تھانے بند ہوجاتے ہیں۔ انکو حکم ہے کہ گشت پرنہیں جانا۔ یہ ہے اپ ڈیٹ۔ کہاں کھڑے ہیں ہم؟۔ فکر کی بات ہے حضرت۔ پہلے عرض کیا آج بھی کہتا ہوں یہ عزم استحکام نہیں یہ چین کو جواب دے رہے ہیں کہ جس عزم استحکام کی بات کی تھی آپ نے۔ ہم وہ استحکام لانا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ عدم استحکام کی طرف ہم جارہے ہیں۔
اگر قوم کو حقوق نہیں دے سکتے توپھر کیا آپ قوم سے ٹیکس وصول کرنے کا حق رکھتے ہیں؟۔ قوم آپ سے دو چیزیں مانگتی ہے۔ ایک امن جان ، مال اور عزت و آبرو، انسانی حقوق کا تحفظ اور دوسرا معاشی خوشحالی۔ عام آدمی کو یہ اطمینان ہو کہ میرے بچوں کیلئے اگلے ہفتے اور مہینے کیلئے خوراک موجود ہے۔ اس کا انتظام ہوسکتا ہے لیکن کیا ہم نہیں سمجھتے ۔ آج کئی جگہ لوگوں کی حالت فاقہ کشی تک پہنچ گئی ہے۔

تبصرہ نوشتۂ دیوار

احادیث میں مزارعت کو سود قرار دیا۔ علماء نے سودی بینکاری کو اسلامی قرار دیا۔ سودکی ادائیگی کی رقم ملکی ٹیکس سے بھی زیادہ ہے۔ جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ سودی نظام کو تبدیل کرنا مسئلے کا حل تھا، عوام اورریاست کا حلالہ ہورہاہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جولائی 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پشتوزبان کا عظیم اور مقبول انقلابی شاعر گلامن وزیر شہید کا شعر اُردو ترجمہ:اگر مظلوم کی خاطرمیرا خون بہہ گیا تو اپنوں اور پرایوں کا افتخار بن جاؤں گا۔

پشتوزبان کا عظیم اور مقبول انقلابی شاعر
گلامن وزیر شہید کا شعر اُردو ترجمہ:اگر مظلوم کی خاطرمیرا خون بہہ گیا تو اپنوں اور پرایوں کا افتخار بن جاؤں گا۔

گلامن شاعر کی المناک موت
ایک جوان پشتون شاعر گلامن وزیر کی المناک موت بہت بڑا سانحہ ہے۔ شاعر برائے شاعر قومی اثاثہ ہے۔ جب شاعر تحریک سے وابستہ ہو تو اس کا روحِ رواں ہوتا ہے۔PTMکے منظور پشتین، علی وزیر سمیت تمام رہنماؤں اور کارکنوں سے دلی ہمدردی اورتعزیت کا اظہار کرتے ہیں، ہم تمہارے غم میں برابر کے شریک ہیں ۔ جانثار ساتھی دنیا سے جاتا ہے تو اسکا غم ، دکھ اور تکلیف خونی رشتوں سے کم نہیں ہوتا۔ ایک ایک ساتھی کی داغ مفارقت پر پتہ ہے کہ دل کس طرح توے پر کباب بن جاتا ہے۔ عبدالقدوس بلوچ، حنیف عباسی ، جی ایم اور کئی وہ ساتھی جو ہمارے ارمانوں پر پانی پھیر کر دنیا سے گزرگئے تو ان کی یادیں آج بھی موسم خزاں کی طرح دلوں کو ویران کئے ہیں لیکن یہ دنیا تو چند دنوں کا قید خانہ ہے اور سب کو رہائی ملے گی۔
گلامن وزیراپنی چھ بہنوں کا چھوٹا بھائی اور چھوٹے بچوں کا جوان باپ اور سب سے بڑھ کر بوڑھی والدہ کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا۔ دونوں بھائی خاندان کاایک ایک فرد بیوہ سمیت بڑی آزمائش سے گزررہے ہیں۔ اللہ تعالی سب کو صبر جمیل اور متبادل ایسی خوشیاں عطاء فرمائے کہ اس غم کو بھول جائیں۔
مزاحمتی تحریک والے اپنی لاش زندگی میں اپنے کاندھے پر اٹھائے لئے گھومتے ہیں ،جب کوئی ان کی لاش کو کندھا دیتا ہے تو سارے غم عمر بھر کیلئے دماغ سے اتر جاتے ہیں۔ قرآن میں انعام یافتہ لوگوں کی فہرست میں پہلے انبیاء پھر صدیقین پھر شہداء اور پھر صالحین کا ذکر ہے تاکہ لوگ اس بات کو سمجھ لیں کہ شہید بڑا رتبہ پالیتا ہے اور زندگی بھر صالح ونیک رہنے والوں سے آگے نکل جاتا ہے لیکن صدیق کا درجہ شہید سے زیادہ ہوتا ہے اسلئے کہ اس کی زندگی کا لمحہ لمحہ شہادت سے گزرتاہے۔
گلامن وزیر میں اپنی قوم سے محبت کا فطری جذبہ تھا اور یہ ایمان کا عین تقاضا ہے۔ اس کو اپنی قوم کے غموں سے فراغت اور فرصت نہیں تھی کہ دوسری قوموں کے بارے میں سوچتا اور دنیا نے دیکھا کہ جب ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے میدان میں اپنی بہادری کا مظاہرہ کیا توPTMکی قیادت، پشتون شعراء اور سیاستدانوں نے یہ نہیں دیکھا کہ وہ بلوچ ہے بلکہ بہت کھل کر اپنی بے پناہ عقیدت ومحبت سے نواز دیا۔ گلامن وزیر شہید کے قتل میں جو ملوث ہو اللہ تعالیٰ اس سوچ اور قوت کو تباہ کردے۔
PTMنے پشتون نوجوانوں میں سیاسی شعور کی ایک نئی لہر دوڑادی ہے۔ گلامن کی شاعری جب تک پشتون قوم اور پشتو زبان دنیا میں موجود ہے وہ لوگوں کا لہو گرماتی رہے گی۔ میرے پاس الفاظ نہیں کہ کس طرح شہید کو خراج تحسین پیش کروں؟۔
حبیب جالب نے زندگی جیلوں اور مشکلات میں گزاری۔ فیض احمد فیض اور سبھی انقلابی شاعروں نے قربانیاں دی ہیں۔ پشتون معاشرے میں تشدد اور انتشار ہے۔ اپنی غلطی کو دوسروں کے کاندھے پر ڈالنا آسان ہے مگر خاطر خواہ نتائج نہیں نکلتے۔ محسن داوڑ و علی وزیر کو کس سازش نے جدا کیا؟۔ گلامن وزیر اور آزاد داوڑ میں اختلاف تھا یا نہیں؟۔ ہمارا معاشرہ جنونی ہے۔ پنجابیوں نے جہاد کیا مگر اپنا صوبہ تباہ نہ کیا۔ پشتون معاشرے میں تشدد کا انکار پشتون قوم کی نفی ہے۔ جوانوں کو تشدد سے روکنا ہیPTMکا کارنامہ ہے۔ سوات سے کوئٹہ تک نوجوانوں اور مسنگ پرسن کے لواحقین کو وزیرستان لانے لیجانے پرخرچہ ہوا ہوگا؟۔ اگر بلوچ، سندھی یا پنجابی کے ہاں جانے پر خرچہ کرتے تو سمجھ میں آتا لیکن وزیرستان کے جلسے کیلئے جہاں کوئی دوسری قوم نہیں،اتنا خرچہ بہت فضول قسم کا تکلف ہے۔ اگر تحریک کے رہنماؤں نے اسلام آباد ، پشاور اور بڑے شہروں میں اپنا شغل لگانے کیلئے رہائشوں کا اہتمام کیا ہے تو مزہ ہے مگر فائدہ نہیں۔ ایکدوسرے سے حسد ہوگی اور ڈنڈے مارمار کر ہلاک کروگے تو پشتون قوم اپنے قیمتی جوانوں کا بہت بڑا اثاثہ کھو دے گی۔
ملا کو اکابر پرستی اور چندوں سے فرصت نہیں۔ ہماری تحریک اسلام کے بنیادی حقوق کے حوالے سے ہے جس سے کسی قوم کا اجتماعی نظام وابستہ ہو تو تقدیر بدل جائے گی۔ منظور پشتین نے ایک اجتماع میں کہا تھا کہ” ہم من حیث القوم ایک اجتماعی ظلم کا شکار ہیں۔ بہن بیٹی پر پیسہ کھا جانا بہت بڑا اجتماعی ظلم ہے ۔ دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں، جس کا اجتماعی ظلم پر اتفاق ہو۔ آج میں اعلان کرتا ہوں کہ یہ اجتماعی ظلم کو پشتون قوم سے ختم کریں گے اور میں خود اپنی بہنوں اور بیٹیوں کا ایک پیسہ نہیں لوں گا۔بلکہ جتنی میرے اندر استطاعت ہے تو اپنی طرف سے خریداری بھی کرکے دوں گا”۔ منظور پشین کی تقریر ہوا ؤںکی نذر ہوئی۔
پشتون قوم میں ایسے عناصر کی کمی نہیں کہ اگر یہ پتہ چلے کہ مفت میں بیوی ملے گی تو چار چار کریں گے اور سبقت کے چکر میں ایکدوسرے کے سر توڑیں گے۔ پھر پالنے کیلئے وہ روزگار نہ ہو تاکہ بچے پالیں تو مدارس میں ڈالیں گے اور معاشرے پر بوجھ بڑھتا جائے گا۔ پہلے لوگ مسالک چھوڑنے پر واجب القتل کا فتویٰ لگادیتے تھے اور اب خوش ہوتے ہیں کہ ایک کا بوجھ تو کسی دوسرے فرقہ کے کاندھے پر پڑگیا ہے۔
عورت کو پشتون اور پنجابی کے علاوہ دنیا کے مسلمانوں کسی ملک، قوم، فرقے، مسلک اور مذہبی معاشرے میں کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ عورت کو اسلام نے خلع کا نہ صرف حق دیا بلکہ بھرپورمالی تحفظ بھی فراہم کیا ۔ قرآن کا غلط ترجمہ اور مفہوم نکال کر عورت کو نہ صرف خلع کے حق سے محروم رکھا گیا ہے بلکہ اس کو جہاں اللہ نے واضح مالی تحفظ دیا ،وہاں علماء نے انتہائی غلط ترجمہ کرکے عورت کے مالی استحصال کا حق بھی شوہر کو دیا ہے۔
پشتون معاشرے میں مقتدر علماء و مفتیان موجود ہیں جن کو پشتون تحفظ موومنٹ کی حمایت حاصل ہو تو نہ صرف پشتون عورت کو ظلم واستحصال سے بچانے میں اپنا کردار ادا کریں گے بلکہ افغانستان ، پاکستان ، سعودی عرب اور دنیا بھر کے اسلامی ممالک کی قیادت کریں گے اور پوری دنیا کے ممالک کے لوگ اسلام کے ان بنیادی حقوق کی بنیاد پر نئی دنیا آباد کریں گے۔ عورت استحصال سے نکلے گی تو اس کا شوہر، بچے، بھائی اور تمام مقدس رشتوں کا ووٹ بینک صحیح استعمال ہوگا۔
عمران خان سے جن کی جنونی وابستگی ہے اگر9مئی کے واقعات مزید ہوجائیں تو ان کی تعداد میں بہت اضافہ ہوگا۔ طالبان کے تشدد اور نفرت کو لوگ بھول جائیں گے اور ایک نہیں ہزاروں گلامن کے سر ٹوٹیں گے۔ جب نظام نہیں ہوتا توMQM، سپاہ صحابہ، سپاہ محمد، سنی تحریک ، تحریک لبیک اور تحریک طالبان جیسی تنظیموں کو وجود میں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ مولانا فضل الرحمن جذباتی الفاظ استعمال کرکے اس کو گھمانے کا گر جانتا ہے۔ ایک عرصہ سے نعرہ تھا کہ قائدا شارہ کوا بیا ئے تماشا کوا” قائد اشارہ کرو،پھر تماشا کرو”۔ مولانا فضل الرحمن نے محسوس کیا کہ اب یہ نعرہ اہمیت نہیں رکھتا تو پشتو میں کہا کہ ”اوس اشارے نہ خبر تیرے سوا اوس بہ برید کوو”۔ اشارے سے اب بات آگے نکلی، اب حملہ کرنا ہے۔ انقلاب لانا ہے ۔ جس پر سامعین اور شرکاء خوش ہوگئے کہ منزل قریب آگئی لیکن مولانا فضل الرحمن نے پھر مہارت سے وہ کہا کہ رہتی دنیا تک انقلاب نہیںآسکتا ۔” سمندر نے مچھلی سے پوچھا کہ تمہارے اندر تیرنے کی کتنی ہمت ہے؟۔ مچھلی نے کہا کہ جتنی تمہارے اندر موجیں ہیں اتنی مجھ میں تیرنے کی ہمت ہے”۔ سامعین کو یہ پتہ نہیں چلا کہ ان کے انقلاب کیساتھ کیا ہاتھ ہوگیا؟۔
مفتی منیر شاکر نےPTMکے پروگرام میں اچھی تقریر کی لیکن جب پولیس والے ان کو جلسہ گاہ تک نہیں چھوڑتے تو بھی وہ نہیں جاسکتا ۔PTMکے جوانوں میں اتنی ہمت ہے کہ پولیس کیساتھ اپنی جوانی کی طاقت سے کھیل کر جان چھڑاسکتے ہیں اور یہ بھی بہت بڑی بات ہے ۔ لیکن اگر طالبان نے ناکہ لگایا ہو تو پھر وہاں سے نہیں گزر سکتے ہیں اسلئے ان کو اعلان کرنا پڑا کہ گڈ طالبان ہوں یا بیڈ سب ہمارے ہیں۔ مسنگ پرسن کا رونا بھی طالبان کے حق میں ہی رویا جاتا ہے جو اچھی بات ہے لیکن جب ان کو آزاد کیا جاتا ہے تو بھی اعتراض ہوتا ہے کہ تم نے دہشت گردوں کو رہاکرکے ہمارے اوپر چھوڑ دیا ہے۔
جب تک معاشرے کی بنیادی حقوق کی بحالی نہیں ہوگی تو ہم حق کیلئے آواز اٹھانے کے قابل بھی نہیں رہیں گے۔ مغرب نے جتنے حقوق دئیے ہیں تو اتنی آزادی اور امن بھی قائم ہے۔ ہمارے ہاں امن اور آزادی دونوں کیلئے خطرات ہیں اسلئے کہ ہمارا جہاں بس چلتا ہے تو وہاں اصلاح نہیں کرتے اور جہاں بس نہیں چلتا ہے وہاں چلو بھر کر سمندر کو پہاڑوں پر لانے کے عمل کا جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں۔ انسان نفسانی خواہشات رکھتا ہے ۔ ضروریات رکھتا ہے ، اچھی بری صفت خصلت رکھتا ہے۔ اللہ نے بھی فرمایا کہ ”اپنی پاکیزگی بیان مت کرو، اللہ جس کو پاک کرنا چاہتا ہے یہ اس کی مرضی ہے”۔ یہ سب سے بڑی اور بنیادی سچائی ہے۔ اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ” جو لوگ فحاشی اور بڑے گناہوں سے اجتناب کرتے ہیں مگر…….. اللمم کا لفظی ترجمہ نہیں ہے۔ یہ ایک خالی جگہ ہے جہاں انسان اپنے اپنے ماحول کے مطابق اس کو پورا کرتا ہے۔
اگر عورت کو خلع کا اسلامی حق مل جائے۔حق مہر اور خرچہ شوہر کی استطاعت کے مطابق ہو۔ طلاق اور خلع کے حقوق کی وضاحت کرکے پشتون معاشرے میں رائج کیا جائے۔ حلالہ کی لعنت سے پشتون اور عالم اسلام کو چھٹکارا دلایا جائے۔ اور ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں بھی عورت کو آدھا حق مہر دیا جائے ۔ ہاتھ لگانے کے بعد کی طلاق میں بھی وہ تمام حقوق مل جائیں جو قرآن دیتا ہے تو ایک پشتون عورت ریحام خان کی مجال نہیں تھی کہ عمران خان کے خلاف کتاب لکھ دیتی۔ جب وہ حقوق نہیں ملتے جو فطرت اور اسلام نے دئیے ہیں تو پھر معاملہ بالکل بدل جاتا ہے۔ ایک عورت کو استعمال کرکے جب چاہو پھینک دو اور اس کے کوئی ایسے مالی حقوق نہ ہوں جس سے اس کے شوہر پر کوئی اثر پڑتا ہو تو عورت کے پاس ایک ہی ہتھیار رہ جاتا ہے کہ اپنے سابق شوہر سے جیسے ممکن ہو انتقام لے۔
اللہ تعالیٰ نے عورت کو کمزور اور صنف نازک ضرور بنایا ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس کو طلاق دینے پر عرش ہل جائے بلکہ وہ شوہر ہل جاتا ہے جو اس کو طلاق دیتا ہے اسلئے کہ طلاق کے بعد شوہر کو وہ گھر عورت کے حوالے کرنا پڑتا ہے۔ اس کو خزانے بھی دئیے ہوں تو واپس نہیں لے سکتا ہے۔ جب شوہر بیوی کو چھوڑ کر دوسری جگہ منتقل ہوجائے اور وہ بیوی کسی اور شوہر سے اسی گھر میں شادی کرلے تو آسمان شوہر پر گرے گا۔ سورۂ طلاق میں اللہ نے فرمایا ہے لاتخرجوھن من بیوتھن ولایخرجن الا ان یأتین بفاحشة مبینة ”ان کو انکے گھروں سے مت نکالو اور نہ وہ خود نکلیں مگر جب وہ کھلی فحاشی کا ارتکاب کریں”۔ طلاق سے پہلے بھی گھر عورت کا ہے ، طلاق کے بعد بھی گھر عورت کا ہے۔ ابورکانہ نے ام رکانہ 3طلاق سے الگ کردی۔ ابورکانہ نے اپنے لئے ددسری عورت اور گھر تلاش کیا۔ دوسری کو طلاق دی تو نبی ۖ نے فرمایا کہ ام رکانہ سے رجوع کیوں نہیں کرتے؟۔ انہوں نے کہا کہ وہ تو 3 طلاق دے چکا ہے ۔ نبی ۖنے فرمایا کہ مجھے معلوم ہے اور سورہ طلاق کی ابتدائی آیات تلاوت فرمائی۔ (ابوداؤد شریف)
خلع میں عورت کو گھر اور غیر منقولہ جائیداد سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ سورہ النساء آیت19میں اس کی بھرپور وضاحت ہے۔ لیکن منقولہ اشیاء کپڑے، زیورات، نقدی ، گاڑی اور تمام وہ چیزیں جو لے جائی جاسکتی ہیں شوہر کی دی ہوئی وہ چیزیں لے جاسکتی ہیں۔ خلع کے باوجود شوہر کو حسن سلوک کا حکم ہے۔ اور خلع کی عدت بھی ایک ماہ ہے۔ جب شوہر نے استطاعت کے مطابق حق مہر دیا ہو اور اس کے علاوہ بھی چیزیں دلائی ہوں اور عورت خوش نہ ہو تو پھر علیحدگی میں بھی مشکل نہیں ہے۔ لیکن طلاق کی صورت میں تو منقولہ اور غیر منقولہ اشیاء سب دی ہوئی چیزوں سے شوہر کو دستبردار ہونا پڑے گا۔ یہ سورہ ٔ النساء کی آیات20،21میں یہ واضح ہے۔ حلالہ کی لعنت کے بغیر قرآن نے رجوع کی اجازت دی ہےPTMغیرت کرے۔
قرآن کی متعلقہ آیات میں معاشرے کو حلالہ کی لعنت سے بچانے کی مہم چلائی گئی ہے کہ عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد باہمی رضامندی سے رجوع کی گنجائش ہے اور عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعدباہمی اصلاح اور معروف طریقے کے بغیر رجوع کی گنجائش نہیں ہے۔آیت230البقرہ سے پہلے کی دو آیات اور بعد کی دوآیات میں بالکل واضح ہے اور آیت230البقرہ کا تعلق آیت229البقرہ سے ہے جس میں یہ واضح ہے کہ تین مرتبہ طلاق کا تعلق عدت کے تین مراحل سے ہے اور اگلی آیت میں عورت کو اس طلاق کے بعدپابندی سے بچانے کیلئے یہ حکم لگایاہے۔ اگر پشتونوں کو حلالہ سے بچایا تو یہ انقلاب ہوگا۔اور اس کے اثرات افغانستان کے طالبان پر بھی پڑیں گے اور پشتون قوم بے غیرتی کو خیر باد کہہ دے گی۔ جس کا مثبت اثر بلوچ، پنجابی،سندھی ، مہاجر سب پر پڑے گا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جولائی 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اہل نظر کی خوشخبری۔۔لمبے قد ، چھوٹی داڑھی کا آدمی جس کے ہاتھوں پاکستان کی تقدیر بدلنے والی ہے!!

اہل نظر کی خوشخبری۔۔لمبے قد ، چھوٹی داڑھی کا آدمی جس کے ہاتھوں پاکستان کی تقدیر بدلنے والی ہے!!

پاکستان اور افغانستان دنیا کے نقشے پر ایک بہت بڑی فیڈریشن کے طور پر ظاہر ہونگے۔ اوریا مقبول جان

پاکستان کی3خصوصیات۔
1:جوانوں میںمنافقت ختم ہوگئی ۔2:کھل کر بات کرنے کی صفت پیدا ہوگئی ہے۔
گورے سسٹم نے بہت منافقت میں ہمیں رکھاتھا ۔3:قوم نے8فروری کو ثابت کیا کہ کام کرسکتی ہے

گذشتہ تقریباً کوئی15،20دن سے کچھ اہل نظر کچھ باتیں کررہے ہیں۔ پاکستان میں اہل نظر کے حوالے سے جو گفتگو ہوتی ہے اس کو مذاق میں اڑادیا جاتا ہے۔ مثلاً جنرل باجوہ کے بارے میں جس پروفیسر شہزاد صاحب نے خواب دیکھا تھا پروفیسر شہزاد صاحب کہتے تھے میں اس خواب کو دیکھ کر کانپ گیا تھا کیونکہ اسکے اندر ایک وارننگ بتائی ہوئی تھی انہوں نے بایاں ہاتھ بڑھا یاتھا رسول اللہ ۖسے کوئی چیز لینے کیلئے تو یہ علامت تھی کہ اس شخص سے نقصان بہت پہنچے گا۔ لیکن ہم تو سمجھتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ کا خواب ہے تو وہ پوزیٹیو خواب ہوگا ۔ کیونکہ وہ رسول اللہ ۖ وارننگ کیلئے بھی آتے ہیں بشیر اور نذیر۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے اندر تین خصوصیات پیدا ہوگئی ہیں اور یہ سارے اہل نظر کہتے ہیں۔ پاکستان کی جو65%نوجوان نسل ہے اس کے اندر منافقت ختم ہوگئی ہے۔ اس کے ساتھ ہیں تو ساتھ ہیں۔ یہ نہیں ہے کہ کام کروانا ہے تو چلو بینظیر کے ساتھ ہوجاتے ہیں، نواز شریف کے ساتھ ہوجاتے ہیں، نہیں ۔ دوسری خوبی وہ کہتے ہیں یہ پیدا ہوگئی ہے کہ قولاً سدیداکھل کر بات کرتے ہیں۔ دوسری خوبی ہے۔ میری نسل منافق نسل تھی کیونکہ میری نسل نے گورے کو دیکھا ہوا ہے میرے والدین نے بھی گورے کے سسٹم کو دیکھا ہوا تھا۔ بہت منافقت میں ہم رہے ہیں۔ تیسری جو اہم ترین بات ہے وہ یہ ہے کہ اس قوم نے باقاعدہ8فروری کے دن ثابت کیا کہ وہ کام کرسکتی ہے۔ تو ہم گذشتہ کافی طویل عرصے سے نعمت شاہ ولی سے لیکر اب تک دیکھ رہے ہیں کہ یہ جو معرکہ اب سال دوسال میں برپا ہونے والا ہے اس معرکے کے اندر ایک بات پاکستان اور افغانستان دنیا کے نقشے پر ایک بہت بڑی فیڈریشن کے طور پر ظاہر ہوں گے۔ اب یہ اللہ جانے کہ یہ کیا بات ہے اور اس خطے کی ساری کی ساری صورتحال کو بہتر کرنے کیلئے، کیونکہ ہونا یہ ہے کہ اس کرائسس کے اندر امریکن انڈین جو ہیں وہ بیچ میں کودتے ہیں تو مدد افغانوں کی طرف سے آئے گی اور وہ کہتے یہ ہیں کہ جن صاحب نے مدد کرنی ہے اس عمران خان والے سارے معاملے کے اندر یا جو بھی قائد بنے گا چھوٹی چھوٹی اس کی داڑھی ہے قد مجھ سے کافی لمبا ہے ، یہ نہ ہو کہ میرے کھاتے میں ڈال دیں۔ جو دکھائی گئی ہے شکل ہمارے صوفیا اور بزرگوں کو۔ اور وہWellVersedہے دنیا کے مختلف نظاموں سے تو دن کوئی زیادہ دور نہیں ہے۔ البتہ ایک بات ہے کہ صفائی بہت زبردست ہونے والی ہے ، ایسی ہونے والی ہے کہ رہے نام مولیٰ کااور یہ بہت نزدیک ہے اور بہت بڑی خوشخبری ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جولائی 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

قال رسول اللہ ۖ المہدی منا اہل البیت یصلحہ اللہ فی لیلة قال ابن کثیر ان یتوب علیہ و وفقہ ویلہمہ و یرشدہ بعد ان لم یکن کذالک

قال رسول اللہ ۖ المہدی منا اہل البیت یصلحہ اللہ فی لیلة قال ابن کثیر ان یتوب علیہ و وفقہ ویلہمہ و یرشدہ بعد ان لم یکن کذالک
فرمایاۖ” مہدی ہم اہل بیت میں سے ہوگا جس کی اللہ ایک رات میں اصلاح کریگا ”۔ ابن کثیر نے کہا :اس پر توبہ کریگا اور اس کو موافقت ، الہام اور رشددے گااور اس سے پہلے ایسا نہیں ہوگا۔

شجرہ سید محمد ابراہیم خلیل شہرکانیگرم وزیرستان بدست سید ایوب شاہ آغا بزبان سید محمد امیر شاہ بابا

سید ایوب شاہ عرف ”آغا”ابن سید احمد شاہ عرف ”گلا” بن سید محمد حسن شاہ عرف ”بابو” بن سید اسماعیل شاہ بن سید ابراہیم خلیل بن سید یوسف شاہ الخ سید شاہ محمد کبیرالاولیائ…سید عبدالقادر جیلانی۔
اسماعیل شاہ کا عرف ”پیاؤ شاہ ” تھا۔ بنوں میں کچھ سادات ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمارا نسب کانیگرم کے سید پیاؤ شاہ سے ملتا ہے۔ اگر وہ ہمارے شجرہ کی طرف اپنی نسبت کا دعویٰ کریں تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ ہمارے پاس شجرہ ہے اور مرکز میں بیٹھے ہیں۔ اسی طرح تنگی بادینزئی میں ”یوسف خیل” قبیلہ ہے اور اگر ان کا شجرہ ہمارے ”سیدمحمد یوسف شاہ ” سے ملتا ہے تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن اگر وہ کسی اور یوسف کی اولاد ہیں تو ہمیں اس کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ سید احمد شاہ عرف گلا کا ایک ہاتھ مسلسل ہلتا رہتا تھا جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس نے اپنے باپ ”بابو” کی کرامت دیکھ کر کچھ بولا تو ”بابو” نے اسکے ہاتھ کو اپنے ہاتھ سے مارا تھا جس کی وجہ سے ہلنا شروع ہوا اور پھر وہ ہلتا ہی رہا کہ ”بابو” کے ضرب کی کرامت تھی اور اس کی نااہلی کا یہ ثبوت تھا کہ جس چیز کو چھپانا تھا تواس میں چھپاکر سنبھالنے کی صلاحیت نہیں تھی۔ اسلئے کہا جاتا ہے کہ ”بابو” کا جانشین پھر سید محمد امیر شاہ بابا بن گئے۔ کانیگرم شہر انگریز کے خلاف بغاوت کا بڑا مرکز تھا۔1898ء میں انگریز نے جہاز سے پرچی کی شکل میں نوٹس گرائے تھے کہ شہر سے نکل جاؤ ،ہم اس کو بمباری کے ذریعے مسمار کریں گے۔
میرے نانا سلطان اکبر شاہ پوتا سبحان شاہ کا پورا خاندان اس وقت میران شاہ منتقل ہوا تھا اسلئے کہ ان کے انگریز سے اچھے تعلقات تھے ۔ میرے دادا سید امیرشاہ بابا کے خاندان نے انگریز کی دھمکی کا مقابلہ ثابت قدمی سے کیا تھا اور شہر خالی کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ان کی ایک بہن پر جہاز کا گولہ بھی گرا تھا جو پھٹ نہیں سکا تھا لیکن زخمی ہوگئی تھیں اور فیروز شاہ کی والدہ تھیں۔ جس کے بیٹے اقبال شاہ اورعبدالرزاق شاہ ہیں۔پیر عبدالغفار شاہ ، حاجی لطیف ،پیر عبدالمنان اور پیر عبدالجبار شاہ فیروز شاہ کے پوتے ہیں۔ فیروز شاہ کے والد سید مظفر شاہ اور اس کا بھائی سید منور شاہ اپر کانیگرم میں چوروں کے خلاف لشکر میں قتل ہوگئے تھے۔ منور شاہ کا بیٹا نعیم اورپوتا پیرخالام تھا جسکے بیٹے عبدالرشید اور گوہر علی ہیں اور مظفر شاہ کے چار بیٹے تھے ۔میر محمد شاہ، فیروز شاہ،سرور شاہ ، پیر کرم حیدر شاہ۔مظفر شاہ مولانا عبد اللہ درخواستی کا پیر بھائی تھا۔ مولانا درخواستی نے پیر عبدالجبار کو دیکھ کرپوچھا تھا کہ مظفر شاہ کا کیا لگتا ہے؟۔ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ مظفرشاہ قبائلی جنگ میں قتل نہیں ہوا ہے بلکہ اس کو شہید کردیا گیا ہے۔
تیسرے بھائی صنوبر شاہ کا بھی قتل ہوا، جسکے تین بیٹے سلطان اکبر شاہ ، حسین شاہ اور محمد امین تھے۔ چوتھے سیداکبر شاہ کا انگریز کی کتابوں میںتذکرہ ہے اور یہ سید سبحان شاہ کی اولاد تھے۔ سید سبحان شاہ کی والدہ شاید کانیگرم کی سید اور دوسرے کزن یوسف خیل کی والدہ محسود ہوگی۔ سید اکبرشاہ کی بیوی کانیگرم کے ”خان” کی بیٹی تھی اور باقی تین بھائیوں منور شاہ، مظفر شاہ اور صنوبر شاہ سید حسن شاہ بابو کے داماد تھے۔ جن کے قتل کے بعد ان کی اولاد کانیگرم منتقل ہوگئی۔ سید حسن شاہ نے رہائش کیلئے مکانات اور کھیتی باڑی کیلئے زمینیں دیں اور ساتھ ساتھ اپنے نواسوں کو اپنا بھتیجا بھی قرار دیا اسلئے کہ کانیگرم میں پہاڑوں کی ملکیت کیلئے بہنوئی اور اس کی اولاد کو وراثت میں شریک نہیں کیا جاسکتا تھا اسلئے سید حسن شاہ کو سید سبحان شاہ بھائی اور اسکے بیٹوں کو بھتیجا قرار دینا پڑاتھا۔ لوئر کانیگرم کے تمام قبائل سید حسن شاہ سے عقیدت رکھتے تھے۔سب نے ایک ایک دو دو خاندان کو اپنے ساتھ قبول کیا ۔ سید حسن شاہ نے ”مرئی غلام قوم” کو بھی جائیداد کا حصہ دار بنادیا تھا۔یہ تو پھر نواسے اور جگر کا ٹکڑا تھے۔
سید سبحان شاہ کا ٹانک میں گھر تھا، حسین شاہ کی پیدائش جہاں1872ء کو ہوئی تھی۔ لارڈ میکالے کا سید سبحان شاہ سے اچھا تعلق تھا اور پھر سید سبحان شاہ اور سید اکبرشاہ پر بھروسہ نہیں رہا تھا۔ شاید اسلئے کہ باقی رشتے سید حسن شاہ بابو کی بیٹیوں سے ہوگئے تھے؟جو انگریز کا حامی کبھی ہوہی نہیں سکتاتھا؟۔

تنگی بادینزئی کے یوسف خیل اور کانیگرم کے سبحان ویل کا شجرہ ملتا ہے؟۔سبحان ویل حقائق کی روشنی میں

تنگی بادینزئی کے یوسف خیل کے ہاں یہ بات ہے کہ وہ اور کانیگرم کے سبحان ویل دو بھائیوں کی اولاد ہیں۔ ان کا تعلق کانیگرم کے ”یوسف” سے ہے۔ اگر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ ان کا تعلق شاہ محمد کبیر الاولیائ کی اولاد میں ”سید محمد یوسف ” سے ہے تو پھر یہ دونوں سادات ہیں مگر بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تنگی کے یوسف خیل اپنے آپ کو بادینزئی محسود سمجھتے ہیں اور اپنے عزیز سبحان ویل کو بھی بادینزئی سمجھتے ہیں۔ کانیگرم کے برکی قبائل اور سادات اور پیر بھی ان کو بادینزئی محسود سمجھتے ہیں اور علاقہ گومل کے پڑوسی اور عام لوگ بھی ان کو سادات نہیں سمجھتے ہیں۔ جب کانیگرم کے لاوارث ”خان” کی نوکری پرنقب لگائی تو شمن خیلMNAکل قبائلی ایجنسیوں نے مدد کی پھر مظفر شاہ و منور شاہ کواپر کانیگرم لشکر میں قتل کیا گیا اورصنوبر شاہ عورت کے الزام میں قتل ہوا۔
جب گومل میں جائیداد کی تقسیم ہوئی تو بڑے بھائی صنوبر شاہ کے تین بیٹوں کو پورے تین حصے دئیے گئے ۔ مظفر شاہ کے چار بیٹوں کو مجموعی طور پر چار کی جگہ دو حصے دئیے گئے اور یہ کہا گیا کہ ان بھائیوں کو بہنوں کی طرح شمار کیا گیا۔ حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ جائیداد کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ایک حصہ ایک بھائی کے چار بیٹوں کو دیا جاتا۔ دوسرا حصہ دوسرے بھائی کے تین بیٹوں کو دیا جاتا۔ اس تقسیم نے نفاق کی بنیاد ڈال دی۔ کیونکہ شریعت اور پشتو میں کہیں اس طرح کی تقسیم نہیں ہے۔
کمزور بھائیوں نے ہندو کی زمین آباد کی تھی تو طاقتوروں نے بندوق کے زور سے قبضہ جمالیا۔ کمزوروں کو اپنی حیثیت انتہائی تذلیل آمیز لگنے لگی اور طاقت کے گھمنڈ نے طاقتوروں کو کبھی یہ احساس نہیں دلایا کہ اپنے عزیزوں سے معمولی مفادات کی وجہ سے ہتک آمیز سلوک روا رکھنا اور طاقت کی بنیاد پر ان کو اپنے حقوق سے محروم کرنا بری بات ہے۔
پیر غفار ولد عبد الرزاق شاہ ولد فیروز شاہ جب کانیگرم سے بلدیاتی انتخابات کیلئے کھڑا کیا گیا تو ایک طرف برکی قبائل تھے جن کی بھاری اکثریت تھی اور دوسری طرف پیر تھے جو اقلیت میں تھے۔ وانا کی طرف سے جاتے ہوئے25کلومیٹر راستہ برفباری کی وجہ سے بند تھا۔ الیکشن میں بہت کم لوگ پہنچے اور پیروں کی عزت رہ گئی۔ ضیاء الدین اور منہاج الدین نے اپنے چاچا سعد الدین لالا کے ساتھ بیٹھ کر مجھے اور ڈاکٹر ظفر علی کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ پیر غفار اپنی جائیداد اور گھر وغیرہ کو بیچے اور اس میں زور زبردستی کیساتھ اس کو مجبور کرنا ہوگا۔ میں نے کہا کہ یہ بالکل غلط ہے، پیر غفار ایڈوکیٹ نہ ہوتا تو اپنے بھائی کیلئے بھی برف میں اتنا لمبا سفر نہ کرتا۔ وہ ہر خدمت میں پیش پیش ہوتا ہے اور یہ بات اسلئے ریکارڈ پر لارہا ہوں کہ ضیاء الدین کہتا ہے کہ چاچا کا دماغ بھانجوں نے خراب کیا ہے جو اس کی ہر بات پر ہاں میں ہاں ملاتے ہیںلیکن یہ بات100%غلط ہے اسلئے کہ دوسرے مواقع پر بھی میں نے ماموں سعد الدین لالا کو روکا تھا تو اس نے میری بات بھی مان لی۔ نسل در نسل بیماری منتقل ہوکر فطرت بنتی ہے اسلئے حدیث میں آتا ہے کہ اگر پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو مان لو مگر انسان اپنی فطرت سے نہیں ہٹ سکتا۔
ہمارے اپنے عزیزوں کیساتھ رشتے چٹائی کے پتوں کی طرح بُنے ہوئے ہیں۔ ہماری فطرت تحمل و بردباری ہے ۔ہمارے عزیز سمجھتے ہیں کہ ہمیں اپنے اجداد کی طرف سے مصلہ ملا ہے اور ان کے حصے میں بہادری اور تلوار آئی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہمارا شجرہ نسب بھی دور دور تک نہ ملتا ہو اسلئے کہ حضرت امام حسن نے امیر معاویہ کیلئے خلافت کی مسند چھوڑ دی تھی اور امام حسین نے یزید کے خلاف کربلا میں جدوجہد کی تھی۔ ہم حسنی اور یہ حسینی سید ہوں۔ لیکن اگر ہمارے اجداد نے ان کے اجداد کو کانیگرم میں جائیداد کیلئے بالکل غلط اقدام کرکے اپنے بھتیجے کے درجے پر فائز کیا ہو تو ہم اپنے اجداد کی غلطی کا ازالہ کرنے کیلئے ہر ممکن طریقہ اپنا سکتے ہیں۔
جب ڈیورنڈلائن سے افغان بادشاہ نے کانیگرم میں قلعہ تعمیر کرنے کی اجازت مانگی تھی تو ہمارے اجداد نے کہا تھا کہ مشورہ کرکے جواب دیں گے اور پھر افغان بادشاہ کو منع کردیا تھا۔اب پاک فوج کو کانیگرم کی بڑی زمین دیدی گئی ہے اور وہ زبردستی بھی شہر کے مختلف جگہوں پر قبضہ کررہی ہے۔
جب جنگ بدر میں قریش مکہ کی طرف سے ہندہ کے باپ ، چاچا اور بھائی میدان میں نکلے تو دوسری طرف سے رسول اللہ ۖ نے اپنے دو چاچا حمزہ و حارث اور چچا زاد علی کو میدان میں اتارا۔ جب ان تین مسلمانوں نے تین کفار مکہ کو ٹھکانے لگادیا تو پھر عمومی جنگ چھڑ گئی لیکن اس کی وجہ سے کفار مکہ کے حوصلے پست ہوگئے اور اللہ نے فتح عطا فرمائی لیکن مسلمانوں نے قیدیوں کو فدیہ لے کر معاف کردیا۔ ان قیدیوں میں نبی ۖ کے چچا حضرت عباس بھی شامل تھے۔ عبد اللہ ابن اُبی نے اپنی قمیص دی تھی تو بدلے میں نبی ۖ نے عبد اللہ ابن اُبی کو اپنا کرتا کفن کیلئے دیا تھا۔ اللہ نے قیدیوں کو فدیہ لے کر معاف کرنے پر ناپسندیدگی کا بھی قرآن میں اظہار فرمایا ہے اور پھر فتح مکہ کے موقع پر نبی ۖ نے ابو سفیان کو نہ صرف معاف کیا بلکہ بہت بڑی عزت سے بھی نواز دیا۔
اگر ابوسفیان کی عزت افزائی نہ ہوتی اور عباس کو غزوہ بدر میں تہ تیغ کردیا جاتا تو اسلام پر بنو اُمیہ اور بنو عباس کا خاندانی قبضہ نہ ہوتا۔ اسلام کی نشاة ثانیہ درمیانہ زمانے کے مہدی کے ہاتھوں ہوگی۔ اس کی صفات میں مسلسل ضربوں سے باطل کو نہ صرف پریشان کرنا ہوگا بلکہ عام فطری اخلاقی حدود سے نکل کر مجرموں کی وہ نقاب کشائی کرے گا جس کو لوگ عام طور سے گناہ اور بداخلاقی سمجھ لیں گے اور واقعتا یہ نیکی بھی نہ ہوگی۔ اسلئے انقلاب کی رات اس کی اصلاح ہوجائے گی۔ جتنے خفا لوگ ہوں گے کچھ تو اسلئے خوش ہوں گے کہ وہ انتقام نہیں لے گا اور کچھ اسلئے کہ پہلے سے ان کا حال بھی ایسا کردیا ہوگا کہ مزید ضرب کی گنجائش نہیں ہوگی۔
رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ جب اسلام کی نشاة ثانیہ ہوگی تو اسلام زمین میں جڑ پکڑ لے گا۔ اسلئے کہ مجرموں کیلئے اپنا منہ چھپانے کی کوئی گنجائش بھی نہ ہوگی۔ حضرت ابوبکر نے حضرت عمر کو خلیفہ نامزد کیا تو صحابہ نے عرض کیا تھا کہ کیا خدا کا تجھے خوف نہیں کہ سخت گیرعمر ہم پر مسلط کرکے جارہے ہو؟۔ حضرت ابوبکر نے کہا کہ خلافت کا بوجھ پڑے گا تو یہ خود بخود نرم ہوجائے گا۔ شاید درمیانہ زمانے کے مہدی پر خلافت کا بوجھ پڑے تو مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر ضرب لگانے کی فرصت نہ ملے گی کیونکہ دنیا کے نظام میں محرومیوں کے شکار لوگوں کی داد رسی سے اس کو فرصت نہیں ملے گی اور احادیث صحیحہ کے نقشے میں یہ حقیقت ہے۔ ویسے بھی نیک سیرت اور اخلاق وکردار کا اچھا نہیں ہوگا بلکہ ایک رات میں اس کی اصلاح ہوجائے گی۔
آخری امیر اُمت محمد ۖ نیک سیرت مہدی ہوگا جس کو نشانیوں سے اللہ کے ولی اور علماء پہچان کر منصب امامت پر فائز کریں گے۔ اس کی پہلے سے اصلاح ہوئی ہوگی۔ البتہ یہ بات سمجھنے کی سخت ضرورت ہے کہ درمیانہ زمانے کے مہدی کو ناک ، دانت اور جسم کے نشانیوں سے پہنچاننے کے بجائے وہ اپنا تعارف باطل پر شدید ضربوں سے کرے گا۔ یہاں تک کہ وہ حق کی طرف رجوع کرلیں۔
مفتی نور ولی محسود امیر تحریک طالبان پاکستان جب طالبان کے قاضی تھے تو اس نے کہا تھا کہ ہم سے غلطی ہوئی ہے13افراد ہم نے مارے ہیں اور2موقع پر ہمارے مارے گئے تھے ۔ ہم باقی11کی نفری بھی پوری کردیں گے لیکن ان میں کچھ تمہارے اپنے عزیز بھی ہیں جنہوںنے ہمیں غلط گائیڈ کیا تھا۔ اب ان مجرموں تک پہنچنے کیلئے اللہ کی طرف سے کوئی راستہ نکلے تو جنگ کی تمنا نہیں کرنی چاہیے اسلئے کہ عورتوں کو بیوہ اور بچوں کو یتیم بنانا بڑا تکلیف دہ عمل ہے لیکن اگر کہیں مجبوری میں ایسی ٹکر ہوجائے کہ جہاں3افراد مخالفین سے اور3میں اپنے بیٹوں کو میدان میں اتار دوں تو ہوسکتا ہے کہ طالبان کے سہولت کاروں کو بھی ٹھکانے لگانا ہماری قسمت میں آجائے۔ عنوان خواہ کچھ اور ہو ۔
اگر میرے3بیٹے قتل بھی ہوجائیں تو باقی اپنے دشمنوں سے انشاء اللہ حساب لیں گے اور شہداء کے بدلے میں مجرموں کو ٹھکانے لگانے میں دیر نہ لگے گی۔ میرا ایک پرانا شعر ہے ذرا تبدیلی کیساتھ
یا ایھا الجیش من نساء آل سبحان
ان کنتم رجال فتعالو االی المیدان
ترجمہ:” اے سبحان کی اولاد کے عورتوں کا لشکر اگر تم مرد ہو تو پھر میدان میں آجاؤ”۔جنہوں نے چھپ کر طالبان کو گمراہ کیا تو کھل کر مردوں کی طرح میدان میں کیوں نہ آئے؟۔ طالبان کے بڑے دشمن انکے وہ دوست تھے جنہوں نے حقائق جاننے کے باوجود حقائق سے آگاہ نہیں کیا تھا۔علی نے فرمایا
ان القلوب اذا تنافر ودّھا
مثل الزجاج کسرھا لا یجبر
بیشک دلوں کی جب محبت نفرت میں بدلتی ہے
شیشہ ٹوٹنے کی طرح ہے پلاسٹر نہیں ہوسکتا

مجرموں کے چہروں سے نقاب کشائی کیسے ہوگی اور ان کی معافی کیلئے کیا طریقہ ٔ واردات ہوگا؟

طالبان کے حملے کے بعد شہداء کی لاشیں اُٹھائی جارہی تھیں سب عزیز واقارب شریک تھے۔ خطرہ تھا کہ دوبارہ طالبان حملہ اور جنازے پر خود کش نہیں کریں ۔ مولانا فضل الرحمن کے بھائی مولانا عطاء الرحمن نے نہ صر ف جنازہ پڑھایا بلکہ مسلسل3دنوں تک تعزیت کیلئے دعا میں ساتھ بیٹھے رہے۔ مولانا فضل الرحمن اگرچہ کچھ مہینے بعد دیر سے آگئے لیکن انہوں نے ٹانک سفیدجامع مسجد (سپین جماعت) میں جمعہ کی تقریر کرتے ہوئے طالبان دہشتگردوں کو ”خراسان کے دجال ”کا لشکر قرار دیا تھا۔
یہ مئی2007ء کی آخری تاریخ رات ایک بجے کے بعد کا واقعہ تھا اور یکم جون2007ء کو بڑی بڑی سرخیاں اخبارات میں لگی تھیں۔ طالبان نے کوڑ میں میٹنگ کا چند دن اہتمام کیا۔ پیرکریم کے بیٹے عثمان نے بتایا کہ پیر عبدالرزاق کے بیٹے ملوث تھے جو پیر عبدالغفار کے سوتیلے بھائی ہیں۔ پیر عبدالغفار واقعہ کے بعد مسلسل ہمارے ساتھ تھا۔ عبدالرزاق کے بیٹوں کی طرح طالبان بھی تقسیم تھے۔بیت اللہ محسود امیر تحریک طالبان کی پوری چاہت تھی کہ اس واقعہ میں ملوث قاری حسین اور حکیم اللہ محسود کو بدلہ میں قصاص کی بنیاد پر قتل کیا جائے۔ اگر طالبان یہ کرلیتے تو سرحد میں ان کی حکومت قائم ہوسکتی تھی۔
متحدہ مجلس عمل کی حکومت بالکل برائے نام تھی ۔ جب وزیراعلی اکرم خان درانی پر طالبان نے حملہ کیا تھا تو اخبار میں وزیراعلیٰ اکرم درانی نے بیان دیا تھا کہ کوئی صحافی یہ کہے کہ طالبان نے ہم پر حملہ کیا ہے تو اس کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کروں گا۔
پیر رفیق شاہ شہید ولد پیر عالم شاہ خان بابا کے بارے میں ڈاکٹر آدم شاہ کے بھائی پیر ہاشم نے مولانا فتح خان سے پوچھا کہ ”لاش کو غسل دینے کی ضرورت ہے؟ ۔” جس پر مولانا فتح خان نے فرمایا کہ ” یہ اتنے اونچے درجہ کے شہداء ہیں کہ غسل دینا تو دور کی بات ہے ،انکے چہروں سے گرد وغبار بھی مت ہٹائیں”۔ مولانا فتح خان، مولانا عبدالروف، قاری محمد حسن شکوی شہیدگودام مسجد ٹانک ،مولانا عصام الدین محسود، مولانا غلام محمد مکی مسجد امیر ضلع ٹانک مجلس تحفظ ختم نبوت، شاہ حسین محسود سپاہ صحابہ اور شیخ محمد شفیع شہید شیخ گرہ امیرجمعیت علماء اسلام ضلع ٹانک مولانا سمیع الحق گروپ سمیت تمام علماء کرام اور اکابرین ہماری حمایت کرتے تھے۔
انگریز کے نمک خوار اور پولیٹیکل انتظامیہ کے لفافہ خور پیر منہاج الدین اور سادات خان لنگر خیل عوامی سطح پر سب حقائق سے واقف تھے لیکن جب ریاست طالبان کیساتھ کھڑی تھی تو یہ لوگ بھی اپنا قبلہ نما طالبان کو سمجھتے تھے۔ ان لوگوں میں ضمیر نام کی کوئی چیز ہوتی تو اپنے دوست طالبان سے کہتے کہ ”تم نے ظلم کیا ہے اور غلط اقدام اٹھایا ہے”۔
مجھے خوشی ہے کہ یہ میرے دشمنوں کے دوست تھے اور کوئی قابل ذکر کردار ادا نہیں کرسکے۔ ورنہ جب ہمیں اللہ کوئی عزت دیتا تو سب سے پہلے کسی بڑی تقریب میں یہ بھی بیٹھتے۔ میں نے اپنا تعلق تو اب بھی برقرار رکھا ہے اور آئندہ بھی برقرار رکھ سکتا ہوں لیکن اپنے ساتھیوں، بھتیجوں اور بیٹوں کے دل ودماغ میں یہ بات بٹھادوں گا کہ ایسے لوگوں کے ساتھ عزت وتوقیر سے پیش آنے کا نتیجہ آنے والی نسلوں میں خطرناک نکل سکتا ہے۔ حسن نے اقتدار امیر معاویہ کیلئے چھوڑ کر اچھا کیا اور امام حسین نے یزید کے کردار کو نمایاں کرکے بہت اچھا کیا تھا لیکن بنوامیہ اور بنوعباس نے اقتدار پر موروثی قبضہ کیا۔
پیر کریم کے بیٹے عثمان نے ضیاء الحق پر گواہی تو دیدی مگر کیا اس کا اپنا بھائی اس میں ملوث نہ تھا؟۔ مجھے100%یہ یقین ہے کہ اب اگر وہ ہاتھ پیر بھی باندھ کر ہمارے پاس لائیںگے تو ہمارا اپنا طبقہ بھی معاف کردے گا۔ البتہ ماموں سعد الدین لالا2مجرموں کو قتل کریں گے کیونکہ اس نے کہا تھا کہ میں اپنے بھتیجے حسام الدین وبھانجے اورنگزیب کا بدلہ لوں گا۔قتل کیلئے ماموں نے استعمال بھی اورنگزیب کے بیٹوں کو کرنا تھا اسلئے کہ اپنے بیٹے اور بھتیجے دن رات طالبان کی خدمت کرتے رہتے تھے۔ جب تک پاک فوج ضیاء الدین کو پکڑکر لے نہیں گئی اور طالبان کی گاڑی کو بارود سے نہیں اڑا دیا تو بہت بے شرمی ، بے ضمیری ، بے حیائی اور بے غیرتی کے ساتھ نہ صرف مجرم طالبان کیساتھ کھڑے تھے بلکہ ان کے دفاع کیلئے بھی ہرممکن کوشش بڑی بے غیرتی کیساتھ کی۔ اگر ان پر فائرنگ ہوتی اور واقعہ رونما ہوتا اور میں اپنے گھر میں ان کے دشمنوں کو رکھتا اور ان کی سپورٹ جاری رکھتا تو سیدھا سیدھا مجھے اپنا دشمن قرار دیتے لیکن ان کی رگوں میں پتہ نہیں کونسا خون گردش کررہاتھا کہ جنازہ کے فوراً بعد بھی دشمن انکے گھر پر آئے اورپھر منہاج نے اسرار کیا کہ دعا کیلئے ہمارے گھر پر بیٹھیں گے۔جو طالبان گڑھ تھا اور انہوں نے کبھی احساس نہیں کیا کہ یہ غلطی ہے۔
ظلم اور ظالموں کی داستانیں ایک جیسی رہتی ہیں ،صرف شکلیں مختلف زمانوں میں بدلتی رہتی ہیں اور پھر وہ تاریخ کے پردوں میںگم ہوجاتی ہیں۔
سیدا کبر شاہ ولد سبحان شاہ نے انگریز کیلئے اپنا کردار اداکیا اور کانیگرم کے خان کی بیٹی سے شادی بھی رچائی۔ اس کے کرتوت کا خمیازہ باقی بھائیوں کو بھگتنا پڑگیا تھا۔ تینوں ساز ش سے قتل ہوئے۔ یہ کتنی مغمو م اور مذموم فضائیں تھیں کہ سبحان شاہ کے تین بیٹوں کا سایہ اپنے بچوں سے اُٹھ گیا تھا؟۔
پھر سیداکبر شاہ کے کردار کا فائدہ سلطان اکبر شاہ نے اپنے بیٹے محمود کی وجہ سے اٹھایا جو سیداکبر شاہ کا نواسہ تھا۔ محمود چوروں کے ہاتھ قتل ہوا تو پھر سلطان اکبرشاہ نے ”خان ” کی نوکری سنبھال لی۔
دوسرے چچازاد پیر فیروز شاہ ، میر محمد شاہ، سرور شاہ اور کرم حیدر شاہ کو اس پر بھی تحفظات تھے لیکن سلطان اکبر شاہ ، حسین شاہ اور محمد امین شاہ کا کھل کر مقابلہ نہیں کرسکتے تھے۔ پولیس کی دو نوکریاں جو انگریز نے سبحان شاہ اور سیداکبر شاہ کو دی تھیں ایک مظفر شاہ کے توسط سے میر محمدشاہ اور اس کی اولاد کو منتقل ہوئی اور دوسری صنوبر شاہ کے توسط سے محمد امین شاہ اور فہیم شاہ تک منتقل ہوئی۔ سرور شاہ کے بیٹے یعقوب شاہ کی نوکری تھی اور ان کا گزر بسر بھی مناسب تھا۔ کرم حیدر شاہ کی بھی نوکری تھی اور گزر بسر اچھی تھی اور بیٹے بھی چھوٹی بڑی نوکری پر لگے۔
فیروز شاہ کے بیٹے اقبال شاہ کی بھی اچھی نوکری اور اچھا رشتہ تھا۔ پیر عبدالرزاق کی شادی اور بچے تو بیٹھ گئے اپنے ماموں کیساتھ۔ پیر عبدالرزاق نے دوسری شادی کی اور بچے بڑے ہوگئے۔ مجھے بھی کہا تھا کہ ایک بیٹا دوبئی بھیج دو۔ میں نے اپنے بھتیجے کامران کو بھی نہیں بھیجا اسلئے کہ کام چور لگتا تھا ، سچ بات ہے کہ عبدالرزاق پر رحم بھی آیا لیکن اس کے بچے بھی زیادہ قابل اعتماد نہیں تھے۔ پھر ساجد کیلئے اورنگزیب بھائی نے کہا کہ میں قرضہ لیکر بھیج دوں گا تو میں نے ساتھی کو دوبئی میں پیغام بھجوادیا کہ ایک بندہ لگانا ہے اور پھر ساجد چھوڑ کر بھی آگیا۔ ہوسکتا ہے کہ عبدالرزاق کے بچوں نے یہ بغض دماغ میں بٹھادیا ہو کہ نالائق کو بھیج دیا اور ہمیں نہیں بھیجاہے۔
عبدالرزاق نے اپنے باپ کیساتھ ہونے والی زیادتیاں بھی دل میں بٹھائی ہوں گی اور بڑی اولاد کا غم بھی دل میں رکھا ہوگا۔ جس کا ذکر اپنے بچوں سے کیا ہوگا۔ جب کانیگرم میں پیر کرم شاہ کے بیٹے اور حاجی عبدالرزاق کے بیٹے ایک دوسرے کیساتھ اسلحہ اور بموں سے لڑائی کے موڈ میں تھے تو میں اور اشرف علی گئے اور ان کو سمجھایا کہ ”اللہ نے والدین اور اقارب کیساتھ انصاف کا حکم نہیں دیا ہے بلکہ احسان کا حکم دیا ہے”۔ اگر انصاف پر عمل کا مطالبہ ہو تو ایٹم کی تقسیم بھی کرنا ہوگا جس سے ایٹم بم پٹھے گا اور پھر کسی کی بھی خیر نہیں ہوگی۔ جس پر دونوں راضی ہوگئے۔ ہم نے کہا کہ اب یہ لڑائی عدالت میں لڑو۔ جس سے فتنہ وفساد کا اندیشہ نہیں ہوگا۔ پھر الیاس کی طرف سے یہ بات آئی کہ اگر ماموں نے کیس جیتا تو اعلیٰ عدلیہ میں وہ لوگ اپیل نہیں کریں گے۔ میں نے کہا کہ ”جس پر بات ہوئی ، مزید شرائط نہیں لگائیں ، اگر قانون میں اپیل کی اجازت ہے تو پھر اپیل کی اجازت ہوگی”۔ جس پر الیاس نے کہا کہ آپ ان کی وکالت کررہے ہیں۔ مجھے پہلے منان لوگوں نے کہا تھا کہ الیاس چلا جائے تو لڑائی نہیں ہوگی۔ پھر میرا دل کٹھا ہوا ، جب لڑائی ہوئی تو موقع پر ہم پہنچ گئے۔ پیر سجاد کوزور سے تھپڑ لگائے تو ہوسکتا ہے کہ یہ بھی ایک سبب بن گیا ہو کہ عبدالرزاق کے بیٹوں نے سمجھا ہو ”میری ہمدردیاں انکے دشمنوں کیساتھ ہیں اوربات دل میں بیٹھ گئی ہو”۔ جب فاروق شاہ کی زمین پر قبضہ ہورہاتھا تو بھی میرے والد نے فاروق شاہ کو تھپڑ مارے اور گالیاں دیں کہ نہیں جاؤگے ورنہ تو ماردیا جاتا۔
عین جنگ کے موقع پر گولیوں کی بوچھاڑ میں آنے والے بدخواہ نہیں خیر خواہ ہی ہوسکتے ہیں اور میرے اندر بھی صرف خیر خواہی کا جذبہ تھا۔ مجھے ان پر اعتماد تھا کہ پیر فاورق شاہ کے بیٹے کا دل کھلا ہے۔ حاجی عبدالرزاق کے بڑے بیٹوں پر بھی اعتماد تھا۔ بہر حال ہوسکتا ہے کہ چھوٹوں کے دماغ میں بات بیٹھ گئی ہو۔ جب کانیگرم میں دو خاندانوں میں ایسی لڑائی چل رہی تھی کہ پورے شہر میں بھی گولیاں برس رہی تھیں۔ مساجد میں لاؤڈ سپیکر پر اعلانا ت کئے گئے اور پورے شہر کے علماء اور بڑے پہاڑ کی اوٹ میں چھپ کر جنگ بندی کا انتظار کررہے تھے تو میں ایک فریق کے مورچے کی طرف گیا ، سب نے منع کیا کہ گولیاں لگ جائیں گی لیکن میں مورچے تک پہنچ گیا اور اسلحہ چلانے والوں کو گھسیٹ کر منع کیا تو ان کے رک جانے سے دوسرا فریق بھی منع ہوگیا۔ ظاہر ہے کہ میرے مکے یا لاتیں مارنے سے یہ نہیں سمجھا ہوگا کہ ہمارے ساتھ کوئی دشمنی ہے۔
یہ1991ء کی بات ہے۔ کانیگرم کے علماء اور تبلیغی جماعت کے کردار کو بھی تفصیل سے لکھ دوں گا تو بات سمجھ میں آئے گی۔ میں تبلیغی جماعت کیساتھ مکین بھی گیا تھا۔ علماء کیساتھ بھی رعایت رکھی اور افہام وتفہیم کے آخری حدود تک پہنچادیا تھا لیکن ماموں نے سرکاری انٹیلی ایجنسیہ کا کردار ادا کرتے ہوئے مجھے جیل میں پہنچادیا تھا۔ اس نے میرے بھائیوں سے کہا تھا کہ محسود قبائل حملہ کرکے ہمیں وزیرستان میں تباہ کردیں گے۔ حالانکہ مولانا حفیظ اللہ محسود ( مکین مولانا عصام الدین کے والد) نے علماء سے کہا تھا کہ سید ہیں ، ان کے پیچھے لوگ پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ یہ گمراہ نہیں ہوسکتا ہے۔ پھر میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا ، بہت خوش ہوگئے اور جن علماء نے مجھے آکر پہلے بتایا تھا تو ایک مولانا محمد ولی گر ڑائی لدھاتھا اور دوسرا مولانا محمددین تھا۔ اور دونوں فاضل جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک تھے۔ ایک میرا کراچی میں کلاس فیلو رہاتھا اور دوسرا مولانا محمد دین نرسیس میں جعلم برکی لوگوں کا امام تھا۔ مولانا حفیظ اللہ پہلے کٹر تبلیغی تھا اور بعد میں سیف الرحمن کی بیعت کرکے تبلیغی جماعت کا مخالف بن گیا۔ انکے مرید آتے تھے۔ مولانا محمد دین بھی تبلیغی جماعت کا سخت مخالف تھا۔ اس کی عقل اتنی تھی کہ مجھے کہتا تھا کہ فٹ بال مت کھیلو۔ انگریز نے امام حسین کو شہید کیا تھا اورپھر اس کے سر سے فٹ بال کھیلا تھا اور اب کربلا کی توہین کیلئے یہ کھیل ایجاد کیا گیا ہے۔
مجھے کہتا تھا کہ انگریز تمہیں پیسہ بھیجتا ہے کہ فٹ بال کھیلو اور تم سید ہوکر بھی غلط کرتے ہو۔ عربی لغت کا مولانا محمد دین بہت ماہر تھا۔ اس نے18سال تعلیم حاصل کی تھی۔ میں نے ایک دن مذاق میں کہا کہ میرے دسترخوان پر بیٹھے ہو اور انگریز نے پیسہ بھیجا ہے؟۔ تو کہنے لگا کہ دسترخواں تمہارے باپ کا ہے۔ مجھے اس پر بہت خوشی ہوئی کہ میرے خاندان پر کتنا اعتماد ہے؟۔ وہ مفتی فرید کے شاگرد تھے۔
کانیگرم میں ہمارے گھر کی چھت پھٹ گئی تھی۔ جس کی وجہ سے تہ خانہ بھی نکل آیا تھا، تہ خانے کی چھت کو بھی بارشوں اور برف باریوں نے گرایا تھا۔ ایک مرتبہ میں چھت کی لیکیج بند کررہاتھا کہ ایک شخص مدد کرنے آگیا۔ میں نے چائے کیلئے کہا۔ جب چائے پی کر وہ نکل گیا تو پھر لوٹ آیا۔ تہ خانے کے بارے میں معلومات لیں ۔ اس کو بتایا کہ شاید انگریز کی بمباری سے بچنے کیلئے بنایا گیا تھا اور پھر اس کو بند کردیا گیا تھا ، میں نے بھی نہیں دیکھا تھا۔ تو اس نے بتایا کہ یہاں کچھ لوگوں نے آپ کا کہا کہ یہ قادیانی ہے۔ تو میں نے کہا کہ اگر قادیانی ہے تو بھی تم سے اچھا ہے اسلئے کہ اس کا دادا ہے اور تمہارا کوئی دادا نہیں ہے۔ پھر میں نے پوچھ لیا کہ قادیانی کیا ہوتے ہیں؟۔ تو مجھے بتایا گیا کہ ” یہ آدم خور ہیں اور جب لوگ ان کے پاس جاتے ہیں تو پکڑ کر ذبح کردیتے ہیں، گوشت کھالیتے ہیں، ایک کنواں کھود رکھا ہے جس میں ہڈیاں ڈال دیتے ہیں”۔ پہلے تو مجھے یقین نہ آیا لیکن جب چائے پیتے وقت کنویں پر نظر پڑ گئی تو بہت گھبرا گیا۔ جب زندہ سلامت نکل گیا تو پھر خیال آیا کہ یہ لوگ آدم خور نہیں لگتے اسلئے تسلی کرنے کیلئے آگیا کہ یہ کنواں کس چیز کا ہے؟۔
کانیگرم میں ایک ایک گز زمین اور درخت کا پودا بہت قیمتی سمجھا جاتا ہے۔ اپر کانیگرم میں محسود عورت نے لکڑیاں کاٹی تھیں۔ جھگڑے میں سیدم مارا گیا۔ صلح کے باوجود سیدم کے باپ نے موقع پاتے ہی فائرنگ کی تو آخر کار وہ سامنے آگیا تھا کہ مجھے ماردو تو پھر سیدم کے والد نے معاف کردیا۔
ہمارے ہاں قتل کی معافی ایسی ہوتی ہے کہ قاتل سرنڈر ہوکر موقع فراہم کردے تو پھر معاف ہوسکتا ہے اور قتل بھی لیکن اصل معافی یہی ہوتی ہے۔ ان محسودوں کیساتھ فائرنگ ہوئی تھی تو برکیوں کا ایک بندہ قتل ہوا تھا ۔ میرے والد سمیت کانیگرم شہر کے بڑوں نے مردہ اٹھانے کیلئے جانا چاہا تو انہوں نے فائرنگ کردی اور سب کو پیچھے بھاگنا پڑگیا تھا۔ اس وقت کانیگرم کے قومی جرنیل شادی خان نے لاش اٹھائی تھی۔ والد صاحب کہتے تھے کہ یہ میراثی نہیں ہیں بلکہ اصل درانی ہیں۔ میراثی کی خواتین ڈھول بجانے اور دیگر خدمات کیلئے مشہور ہوتی ہیں لیکن یہ خاندان سب سے زیادہ عزت دار ہے۔ ہمارا کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن اگر ان کو اختیار دیا جائے کہ سبحان شاہ کے خاندان میں ہوتے تو زیادہ پسند تھا ؟۔ تو وہ یقینا کہیں گے کہ ہماری قومی جرنیلی اعزا ز ہے۔
ڈھول کی تھاپ پر جنگیں لڑی جاتی تھیں اور فوج میں بھی ڈھول کا کردار ادا کرنے والے ہوتے ہیں لیکن ان کی عزت وتوقیر کا مجھے نہیں معلوم ہے البتہ میں کانیگرم کے اس درانی خاندان کی عزت ، غیرت اور حیاء کی اعلیٰ ترین روایات واقدار کو جانتا ہوں ۔ اور آئندہ کی نسل میں ان کے ساتھ رشتوں کے لین دین کو بھی اپنا اعزاز سمجھوں گا۔ حالانکہ کسی اور کیلئے یہ بات میں قطعی طور پر بھی نہیں کرسکتا ہوں۔
میرا باپ یہ دلی خواہش رکھتا تھا کہ اپنے بیٹوں کیلئے کانیگرم کے برکیوں سے رشتہ لے مگر عورتوں کی طرف سے رشتے طے ہوگئے تو باپ غصہ تھا کہ انڈیا کی جنتا پارٹی نے ہمارے گھر پر رشتوں کا قبضہ جمالیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میری اس بات سے ان کی روح کو تسکین ملے گی اور میرا یہ بھی یقین ہے کہ درانی خاندان نے ہمارے اجداد کی وجہ سے ہی یہ خدمت انجام دینے کا فیصلہ کیا ہوگا۔ اس کا ازالہ کرنا بھی میں اپنا فرض منصبی سمجھتا ہوں۔
جب اسلام کی نشاة اول ہوئی تھی تونبی ۖ نے حضرت زید کے عقد میں اپنی کزن حضرت زینب کا رشتہ دیا تھا۔ لیکن پھر وہ کامیاب نہیں ہوسکا اسلئے کہ اس پر غلامی کا نام تھا۔ قرآن میں صرف حضر ت زید ہی کا نام ہے۔ میری تحریک میں کانیگرم کے صرف بادشاہ خان قومی جرنیل کا نام ہوگا۔ باقی لوگ بھی یہ سمجھ سکتے ہیں کہ میرے نزدیک کانیگرم ، محسود،وزیر اور پختون کی قدر ومنزلت ہے اور کسی کی تحقیر نہیں۔
سب آدم کی اولاد ہیں ۔ ہابیل قابیل میں کردار کا فرق تھا اور نسل عربی عجمی میں سب برابر ہیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون اسپیشل ایڈیشن2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عدت کی علت کیا ہے؟ جاوید احمد غامدی

عدت کی علت کیا ہے؟ جاوید احمد غامدی
تبصرہ: جاوید غامدی کی فضول بکواس
جاویداحمد غامدی نے کہا کہ ”عدت کی علت استبراء رحم ہے اور قرآن نے واضح کیا ہے کہ اگر ملاقات سے پہلے طلاق دی تو عدت نہیں ہے، اس طرح بچے کی پیدائش دو دن بعد ہوگئی توپھر عدت نہیں ۔ جہاں تک رجوع کا تعلق ہے تو اس میں فائدہ ہے کہ رجوع ہوسکتا ہے لیکن یہ علت نہیں ہے۔ پہلے ایسے ذرائع نہیں تھے کہ حمل کا پتہ چلتا اسلئے تین حیض کی عدت رکھ دی تاکہ اطمینان ہوجائے کہ بچہ نہیں اور بیوہ کیلئے4ماہ10دن ہیں تاکہ اچھی طرح سے اطمینان ہوجائے۔ اب اگر کوئی ایسے ذرائع آگئے جس سے حمل کا پتہ چلے تو عدت کی ضرورت نہیں ہے ”۔

جاوید غامدی کی فضول بکواس

قرآن میں بیوہ کی عدت4ماہ10دن بالکل واضح ہے۔ حضرت علی نے اس حدیث کو مسترد کردیا ،جس میںحمل کے اندر بیوہ کی عدت4ماہ10دن سے کم چنددن بیان کی گئی ہے۔ بیوہ اور طلاق شدہ کی عدت میں اللہ نے ایک مہینہ دس دن کا فرق رکھا ہے۔ طلاق کے احکام میں وضع حمل بچے کی پیدائش ہے۔ بیوہ کی عدت کیلئے وضع بچے کی پیدائش قرآن سے ثابت نہیں۔
حضرت علی نے قرآن کے مقابلے میں حدیث کو مسترد کیا تو مقصد حدیث کی مخالفت نہیں تھی بلکہ قرآن کا تحفظ تھا۔ یہ بہت عجب اتفاق ہے کہ حنفی قرآن کے مقابلے میں حدیث کی مخالفت کریں تو پھر حدیث ناقابلِ اعتماد ہو۔ پرویز اور غامدی حدیث کو قرآن سے متصادم قرار دیں تو وہ قرآن کے تحفظ کی بات ہے لیکن علی کے مسلک کو حدیث کا مخالف قرار دیا جائے؟۔
مجھے شیعہ کی فقہ جعفریہ سے کوئی ہمدردی نہیں ہے اسلئے کہ مجھے کچھ معاملات قرآن کے خلاف ان میں لگتے ہیں لیکن پیمانہ عدل کیساتھ رکھا جائے تو لوگ دین کی سمجھ حاصل کرسکیں گے۔
جاوید غامدی کا لگتا ہے کہ اب دماغ بھی کام کرنا چھوڑ گیا۔ اللہ نے کہا کہ جن عورتوں کو حیض نہیں آتا ہے یا انکے بارے میں تمہیں ارتیاب ہے تو پھر3مہینے کی عدت ہے۔ غامدی نے کہا کہ وان ارتبتم کی صورت میں بھی عدت نہیں ہے۔ حالانکہ جس عورت کو حیض نہ آتا ہو تو وہ معلوم ہے کہ اس کو بچہ نہیں ہوسکتا ہے۔ پھر بھی اس کی عدت تین ماہ ہے اور جس کے حیض میں کمی بیشی کا معاملہ ہو تو پھر اس کے بھی تین ماہ ہیں۔ کیونکہ اگر ایک مہینے میں تین حیض آگئے تو رجوع کی مہلت کے ساتھ زیادتی ہوگی اور اگر زیادہ عرصہ بعد حیض آتا ہو تو عورت کیساتھ انتظار کی مدت میں زیادتی ہوگی۔ ہمارے ہاں قرآن میں تدبر کی جگہ فقہ کے مسائل رٹائے جاتے ہیں۔ جن میں تضادات ہی تضادات ہیں اور پھر ان کا فائدہ اٹھاکر نئے نام نہاداسکالرکھود تے ہیں۔
جہاں صحابہ کرام اور احادیث صحیحہ کے ماننے کی بات ہوتی ہے تو وہاں احادیث اور صحابہ کرام کی بات بھی نہیں مانتے ہیں۔

قرآن وحدیث میں عدت کی اقسام : علت کی وجوہات مولانا فضل الرحمن علم وسمجھ رکھنے والے علماء کرام کو لائیں!

عمران خان کو وزیراعظم بنانے سے زیادہ اہم عدت میں نکاح کے کیس کا حل نکالنا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے تحریری طلاق کے بعد جو نکاح کیا ہے وہ پاکستان کے عائلی قوانین کے مطابق درست نہیں ہے اور پھر عمران خان نے دوبارہ بھی نکاح کرلیا ہے۔ جھوٹ کے بجائے سچ کا راستہ اختیار کیا جائے تو قوم کی اصلاح ہوگی۔
قرآن میں ایلاء یا ناراضگی کی عدت4ماہ ہے۔ سب سے پہلے یہی عدت آیت226البقرہ میں واضح ہے۔ اگر طلاق کا عزم تھا تو پھر اس کا دل گناہ گار ہوگا اسلئے کہ عورت کی ایک ماہ اضافی عدت ہو گی۔ طلاق کے اظہار پر عدت3ادوار یا3ماہ ہے۔ جو آیت228البقرہ میں واضح ہے۔ آیت225،226،227اور228البقرہ میں معاملہ بالکل واضح ہے۔ قرآن کی سب سے پہلے اور اہم ترین عدت کو بھی بالکل چھوڑ دیا گیا ہے ، جب بنیاد خراب ہوگی تو اس پر بلڈنگ کی تعمیر کہاں درست بیٹھ سکتی ہے؟۔
چونکہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو قرآن میں تحفظ دیا ہے ۔ جب اس تحفظ کو نظر انداز کردیا گیا تو معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ تمام فرقے کسی ایک بات پر متفق نہیں ہوسکے ہیں بلکہ سب نے اپنے لئے جدا جدا گھروندے بنالئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے طلاق اور خلع کے حقوق میں فرق رکھ دیا ہے۔ ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں مرد کو مالی وسعت کے مطابق آدھا حق مہر دینے کا حکم دیا ۔ ہاتھ لگانے کے بعد کی طلاق میں عورت کو گھر سمیت بہت ساری دی ہوئی اشیاء منقولہ وغیر منقولہ جائیداد کا حق دار قرار دیا گیا ۔اسلئے تین ادوار (طہروحیض) کی عدت رکھی گئی ہے۔ عورت کے تمام حقوق کو پامال کرکے صرف مرد کے حق کی بات ہوگی تو پھر اسلام اجنبیت کی وجہ سے کبھی سمجھ میں نہیں آسکتا ہے۔
اگر معاشرے میں یہ رائج ہو کہ عائشہ احد کو حمزہ شہباز طلاق دے۔ حمزہ شہباز مالی وسعت کے مطابق حق مہر اور گھر وغیرہ کا پابند ہو تو پھر عائشہ احد کو عدت تک انتظار کا پابند بنانا بھی سمجھ میں آجائیگا۔اگر عائشہ احد نے خلع لیا ہو تو پھر اسکے مالی حقوق بھی طلاق سے بہت کم ہوں گے۔ صرف دیا ہوامکمل حق مہراور منقولہ اشیاء کو اپنے ساتھ لے جاسکے گی ۔ طلاق میں منقولہ اورغیرمنقولہ تمام دی ہوئی چیزوں سے شوہر کو دستبردار ہونا پڑے گا۔سورہ النساء کی آیت19،20اور21میں دونوں چیزیں واضح ہیں۔
جس دن افغان طالبان یا پاکستان کے مسلمانوں کی سمجھ میں یہ بات آگئی اور قرآن وسنت کے مطابق قانون سازی کرلی تو پوری دنیا اسلام قبول کرے یا نہیںکرے مگر مغرب، مشرق، شمال اور جنوب کی ساری دنیا اسلام کے معاشرتی نظام پر متفق ہوجائے گی۔ خلع کی عدت ایک ماہ ہے۔ خاور مانیکا سے بشریٰ بی بی نے طلاق مانگی تھی اور یہی خلع ہے۔ سعودی عرب میں بھی خلع کی عدت ایک ماہ ہے لیکن ہمارے نام نہاد حنفی فقہاء نے خلع اور طلاق کی عدت میں حدیث صحیح کے فرق کو مسترد کرتے ہوئے قرآن کے منافی قرار دیا ہے ۔ حالانکہ خلع اور طلاق دوبالکل ہی الگ الگ معاملات ہیں۔مالی حقوق میں بھی فرق ہے اور عدت میں بھی فرق ہے۔ حنفی مسلک کی سب سے بڑی بنیاد یہی ہے کہ پہلے قرآن وحدیث میں تطبیق کی جائے۔ قرآن و حدیث میں تضادات نہیں ہیں لیکن حنفی فقہاء نے کم عقلی کی بنیاد پر تراش خراش کرکے نکالے ہیں۔
امام اعظم ابوحنیفہ زندگی میں جیل کے اندر تھے اور پھر ان کو زہر دے کر شہید کردیا گیا۔ اگر نبی ۖ نے کسی بھی عورت کو بیوہ ہونے کے چند دن بعد نکاح کی اجازت دی ہے تو پھر اس کو خلع کا حق دیا ہے ، جس میں مالی حقوق بھی کم ہوتے ہیں۔ قرآن میں4ماہ10دن کی عدت طلاق کے حقوق کیلئے ہوگی جس میں عورت کے حقوق زیادہ ہیں۔
اسلام اور انسانیت کا فطری دائرہ بالکل ایک ہے۔ جب پیرعلاء الدین کی بیوہ عورت نے دوسری جگہ شادی کی اجازت مانگی تو اس سے کہا گیا کہ علاء الدین کا کچھ قرضہ ہے وہ اتارنا ہوگا۔ اس کی بیوہ پر پابندی لگائی گئی کہ برکی قبائل سے وہ شادی نہیں کرسکتی ہے۔ جبکہ میرے بھتیجے سید ارشد حسین شاہ گیلانی شہید نے بھی پیر علاء الدین کی بیٹی سے شادی کی تھی۔ اس کی بیوہ کونہ صرف اجازت دی تھی بلکہ اس کے حقوق سے زیادہ مال واسباب کا مالک بنادیا۔
جب تک عورت کے اسلامی حقوق سمجھ میں نہیں آئیں گے اور اس پر عمل نہیں ہوگا تو مسلمان غلامی کی زندگی سے آزادی کبھی حاصل نہیں کرسکیں گے۔ جن کی عورتوں کو بھی آزادی حاصل نہ ہو تو لونڈیوں کی اولاد کہاں سے آزاد پیدا ہوسکتی ہے؟۔ اللہ تعالیٰ نے طلاق سے رجوع کی علت بھی باہمی رضامندی اور معروف طریقے کی بار بار وضاحت کی ہے لیکن علماء کے دماغ میں ”حتی تنکح زوجًا غیرہ ” اٹک گیا ہے۔ کئی کتابوں اور مضامین کے باوجود بھی ان کا دماغ نہیں کھل رہاہے۔ حالانکہ قرآن بالکل واضح ہے۔
قرآن نے حلالہ کی لعنت سے نکالا ہے اس میں کسی کو دھکیلا نہیں ہے۔ صرف اس صورت میں رجوع نہیں ہوسکتا ہے کہ جب یہ طے ہوجائے کہ دونوں نے رجوع کرنا ہی نہیں ہے لیکن جب لیڈی ڈیانا سے لیکر بیوہ عورتوں پر بھی پابندی لگائی جائے کہ اپنی مرضی سے نکاح نہیں کرسکتی ہیں تو اللہ کی طرف سے یہ آیت عورت کیلئے بہت بڑی نعمت تھی جس کوناسمجھ علماء ومفتیان نے زحمت بنادیا ہے۔ مسلمان حلالہ کی وجہ سے غیرتمند اور بے غیرتوں میں تقسیم ہونگے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون اسپیشل ایڈیشن2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

میں مدینہ چلی گاگاکراورباریش ہجڑہ ابوہریرہ ،دوپٹہ اوڑھے تلاش سید چمن علی شاہ تبلیغی جماعت نام نہاد سنت زندہ کرتے ہوئے اپنے انجام کی طرف رواں دواں

میں مدینہ چلی گاگاکراورباریش ہجڑہ ابوہریرہ ،دوپٹہ اوڑھے تلاش سید چمن علی شاہ تبلیغی جماعت نام نہاد سنت زندہ کرتے ہوئے اپنے انجام کی طرف رواں دواں

تبلیغی جماعت کے بانی مولانا محمد الیاس اور ان کے فرزند مولانا محمد یوسف بہت اللہ والے لوگ تھے۔ مدارس، خانقاہیں اور جہادی مراکز اس جماعت کے جگائے ہوئے جذبے کی وجہ سے آباد ہیں۔ مدارس برقی نظام ہیں جہاں سے قرآن ، احادیث، فقہی مسائل ، عربی، ناظرہ ، ترجمہ اور قرآن کے درس کا اہتمام ہوتا ہے۔ جس طرح بجلی سے گھر کے بلب، پنکھے، فرج ، ائیرکنڈیشن ، پانی کی موٹر، استری، جوسر اوراو ون چلتے ہیں۔ کارخانے ، فیکٹریاں اور مل چلتے ہیں ، الیکٹرانک اور مواصلاتی نظام میں اسکے بغیر چارہ نہیں ہے اسی طرح مدارس کی افادیت ہرشعبہ میں ہے ۔ سیاست، عقائد کا تحفظ،دین کے ہر شعبے کی رہنمائی مدارس کے علماء کرام ہی کرتے ہیں۔
خانقاہوں کی مثال ہاتھ کے ٹارچ کی طرح ہے جس کی افادیت اپنی جگہ بالکل مسلمہ ہے۔اسکا باطن روشن اور ظاہر بالکل پراسرار ہے۔ بڑے بڑے لوگوں کی معجزاتی اصلاح ہوجاتی ہے یہاںتک کہ علماء بھی بے علم لوگوں کے ہاتھوں بیعت ہوجاتے ہیں۔ صوفی برکت علی لدھیانوی، بابا دھنکا، بابا فرید کے دربارپرسیاسی و ریاستی شخصیات بھرپور حاضری لگانے کو اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔ اورنگزیب بادشاہ کے دربار میں500علماء نے فتاویٰ عالمگیریہ مرتب کیا جن میں شاہ ولی اللہ کے والد شاہ عبدالرحیم بھی شامل تھے۔ ایک مرتبہ بہروپیہ نے اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ مجھے بھی دربار میں رکھ لو۔ اورنگزیب بادشاہ نے کہا کہ پہلے مجھے آزمائش سے دھوکہ دے دو،پھر رکھ لوں گا۔ متعدد مرتبہ بہروپیہ اپنے لباس واطوار بدلتا مگر اورنگزیب اس کی شناخت بتادیتا۔ ایک مرتبہ کئی خدام اپنے پاس رکھ لئے اور حکمت کی ڈھیر ساری ادویات کے ساتھ اپنا روپ بدل کر اورنگزیب بادشاہ سے کہا کہ فلاں بادشاہ نے مجھے خدمت کیلئے بھیج دیا ہے لیکن اورنگزیب نے فٹ سے پہچان لیا۔ پھر اورنگزیب کو یقین ہوگیا کہ اس ناکامی کے بعد دوبارہ یہ کوشش بھی نہیں کرے گا۔ پھر اورنگزیب محاذ جنگ پر جارہا تھا تو اس کو بتایا گیا کہ اللہ والا ہے۔ اس غار میں عرصہ سے رہتا ہے۔ زاہد اور تارک دنیا ہے، بس عبادت میں مشغول ہے۔ کسی سے کوئی کام غرض نہیں رکھتا۔ جو چل کر آجائے تو اس کو بھی مشکل سے فرصت کے لمحات میں کچھ دیر کیلئے اپنا جلیس بنانے کی اجازت دیتا ہے۔ اورنگزیب بادشاہ نے سوچا کہ بادشاہ کا سن کر خود ہی اپنی اوقات بدل دے گا اور ایک اشرفیوں کا تھیلہ بھی ساتھ لیا جس کے آگے پیروں، علماء اور مجاہدین کی آنکھوں میں چمک آتی ہے۔ اگرچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ روزی روٹی کا نتیجہ بہت بدبودار کھاد کی صورت میں نکلتا ہے لیکن زندگی اسی سے قائم ہے کہ آدمی کھا د کی مشین بنارہے۔ اورنگزیب بادشاہ نے اللہ والے کے در پر حاضری دی تو خدام نے بتایا کہ کسی سے بھی نہیں ملتے۔ بادشاہ کا اعتقاد مزید مضبوط ہوا کہ یہ واقعی اللہ والے ہیں۔ پھر جب حاضری دی تو گٹھنے پر سررکھ دیا کہ دعا دیجئے اور اشرفیاں بھی پیش کیں۔ اس نے اشرفیاں واپس کیں اور بتایا کہ وہی بہروپیہ ہوں۔ بادشاہ نے کہا کہ میں نے نوکری پر رکھ لیا ہے تو اس نے کہا کہ نوکری نہیں چاہیے، یہ بہروپ میں اتنی عزت ہے تو اصل کی کتنی عزت ہوگی؟۔ ملاجیون اور مولانا عبدالرحیم بھی موجود تھے لیکن اورنگزیب بادشاہ کسی سے بھی عقیدت نہیں رکھ سکتاتھا اسلئے کہ فتاویٰ عالمگیریہ میں سب کا ایمان دیکھ چکا تھا کہ کس طرح بادشاہ کیلئے قتل، چوری ، زنا اور ڈکیتی کی شرعی سزا معاف کی؟۔
تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی چراغ سے چراغ جلانے کا کام کرتے ہیں۔ خود مٹی کے تیل کی بدبوکی طرح جہالت سے بھرے ہوتے ہیں لیکن لوگوں کو اندھیر نگری کی جگہ دین سے روشناس کرتے ہیں۔
ان میں سب سے بے نفس اور بے غرض ہجڑے ہی ہوسکتے ہیں اسلئے کہ وہ جنسی خواہشات اور اولاد کی فکر سے آزاد ہوتے ہیں۔ چراغ سے زیادہ ان میں ترقی کی کوئی صلاحیت بھی نہیں۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی نے اپنی کتاب ”عصر حاضر حدیث نبوی ۖ کے آئینہ میں” میں لکھا ہے کہ ” پانچواں عالمگیر فتنہ ہوگا جو لوگوں میںپانی کی طرح سرایت کر جائیگا جواس کو چھوڑ دے گا تو کہیں گے کہ اس نے سنت چھوڑ دی۔ حالانکہ وہ سنت پر نہیں ہونگے”۔
طالبان لوگوں کوقتل کررہے تھے تو تبلیغی جماعت نے سپورٹ کیا۔ مولانا طارق جمیل نے سلیم صافی سے کہا کہ طالبان اور ہم ایک ہیں ،راستے جدا مگر منزل ایک ہے لیکن طالبان کو بھی ذولخویصرہ کی اس اولاد نے گمراہ کیا ۔ سعودی عرب کی پابندی تو اپنی جگہ انہوں نے رائیونڈ اور بستی نظام میں ایکدوسرے پر پابندی لگائی ہے اوراللہ کے احکام کو نہیں سمجھتے۔بس حلالہ کی لعنت کی سپلائی کرتے ہیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون اسپیشل ایڈیشن2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv