پوسٹ تلاش کریں

سورہ بقرہ میں طلاق کے بعد حلال نہ ہونے کا مشروط ذکر …..

surah-talaq-me-iddat-k-khatmey-per-2-gawah-or-hamishah-ruju-ki-wazahat

سورۂ بقرہ میں آیت 224سے232تک پورا پورا زور دیا گیاہے کہ طلاق کے بعدباہمی صلح سے رجوع ہے۔

اکٹھی تین طلاق پر دورِ جاہلیت میں حلالہ کا تصور سورۂ بقرہ کی ان آیات سے حرفِ غلط کی طرح بالکل مٹ گیا

سورۂ بقرہ کی آیات 224سے 232تک جس مقصد کیلئے اللہ نے نازل کیں تھیں وہ مقصد ہی فقہ وتفسیراور احادیث کی کتابوں کے اندر بالکل فوت نظر آتاہے۔ بخاری کی ایک روایت کا عنوان ’’ برتنوں کا استعمال‘‘ ہے۔ جس میں دولہا دلہن نے نبیﷺ اور صحابہ کرامؓ کی دعوت ولیمہ میں خدمت کی تھی۔ حقیقت کی مناسبت سے عنوان’’ دولہا اور دلہن کی خدمت‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ آج کہیں اس حدیث پر عمل ہوتو مذہبی لوگ حیرت سے نڈھال ہوجائیں کہ یہ بھی اسلام ہے؟۔ جس طرح حدیث کا عنوان بالکل غلط اور لایعنی درج کیا گیاہے اسی طرح قرآنی آیات کے مفہوم کو بھی عوام سے بالکل دور کردیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مفہوم: ’’اندھے پر حرج نہیں ، اور نہ لنگڑے اور مریض پر اور نہ تم پر کہ کھانا کھاؤ اپنے گھر میں …باپ ، بھائی، بہن، ماموں، خالہ،چاچا وغیرہ اور جن کی چابیاں تمہارے لئے کھلی ہیں اور جو تمہارے دوست ہیں کہ اکھٹے کھانا کھاؤ یا الگ الگ…سورہ نور: آیت61‘‘۔ لیکن تفسیرعثمانی جس کو علامہ یوسف بنوریؒ نے بھی بہترین قرار دیا ہے، اس میں لکھا ہے کہ ’’معذوروں اور مریضوں کو جہاد کرنے سے استثناء دیا گیاہے‘‘۔ بات کیاہے اور تفسیر کیا لکھ دی گئی ہے؟۔ دوسرے معاملات میں بھی ایساہی ہے۔ قرآن کا متن چھوڑ کرکیا تفسیر ہوسکتی ہے؟ ۔ البتہ جہاں تفسیر کی ضرورت ہو تو وہاں کرنی چاہئے۔
سورۂ جمعہ کی آیات میں نبیﷺ کی بعثت سے صحابہؓ کے سامنے تلاوت آیات، ان کا تزکیہ اور کتاب و حکمت کی تعلیم کے بعد وآخرین منہم لمایلحقوابہم ’’اور ان میں سے آخرین جو پہلوں سے ابھی نہیں ملے ہیں‘‘ کے بارے صحابہؓ نے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟۔ نبیﷺ نے حضرت سلمان فارسیؓ کے کندھے پر اپنادست مبارک رکھ کر فرمایا کہ’’ اس کی قوم کا ایک شخص یا افراد ہیں اگر علم(دین، ایمان) ثریا پر پہنچ جائے تب بھی وہاں سے یہ لوگ واپس لائیں گے‘‘۔ (بخاری ومسلم وغیرہ)
نبیﷺ نے صحابہؓ سے پوچھا: ایمان کے اعتبار سے زیادہ عجیب قوم کون ہے؟ توصحابہؓ نے عرض کیا کہ فرشتے۔ آپﷺ نے فرمایا: وہ کیوں عجیب ہیں جبکہ سب کچھ وہ دیکھتے ہیں، عرض کیا گیا: پھر انبیاء ہیں۔ فرمایا: ان پر تو وحی نازل ہوتی ہے۔ عرض کیا گیا: پھر ہم ہیں یارسول اللہ!۔ فرمایا: تم کیسے ہوجبکہ میں تمہارے درمیان میں موجود ہوں۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ پھر اللہ اور اسکے رسول ﷺ کو علم ہے۔ فرمایا: ایمان کے اعتبار سے سب سے زیادہ عجیب وہ ہیں ، جن کے پاس قرآن کی آیات کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوگا مگر ان کا قرآن پر ایسا ہی ایمان ہوگا جیسا تمہاراہے۔ان میں سے ایک کو 50افرد کے برابر اجر ملے گا۔ صحابہؓ نے پوچھا کہ ان میں سے 50 افراد کے برابریا ہم میں سے؟، نبی ﷺ نے فرمایا کہ انمیں سے نہیں بلکہ تم میں سے 50افراد کے برابر ایک کو ثواب ملے گا۔
کعبہ کی المسجد الحرام میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ کے برابر ہے، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ میں ایک نماز کا ثواب 50 ہزار کے برابر ہے۔ تبلیغی جماعت و دعوت اسلامی کے مراکز اور ذیلی شاخوں49اور79کروڑ کی خوشخبری سنائی جاتی ہے۔
سورۂ بقرہ کی آیات کا خلاصہ یہ تھا کہ اللہ کو صلح کے درمیان رکاوٹ کیلئے ڈھال کے طور پر استعمال مت کرو۔ منع کرنے کیلئے اَیمانکم کے تمام اقسام میں لغو الفاظ پر کوئی پکڑنہیں، دلوں کے گناہ پر اللہ پکرتاہے۔ طلاق کا اظہار نہ کرنے کی صورت پر عورت کی عدت 4ماہ ہے اور اظہار کی صورت میں 3ادوار یا 3ماہ ہے۔ عدت کے دوران اور عدت کے بعد باہمی رضامندی سے اللہ نے رجوع کا دروازہ کھلا رکھ دیا ہے اور عدت کے دوران صلح واصلاح کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا۔ طلاق کا تعلق بھی عدت کے ادوار سے ہے۔ پہلی اور دوسری مرتبہ کی طلاق کے بعد تیسرے فیصلہ کن مرحلے کا ذکر صرف اسلئے ہے کہ عدت کے بعد عورت دوسری جگہ شادی کرسکتی ہے اور اس میں بھی معروف رجوع کا مطلب باہمی رضامندی سے رجوع ہے۔ علیحدہ کرنے کا فیصلہ کیا تو شوہر کیلئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی اس کو دیا ہو اس میں سے کچھ بھی واپس لے۔ البتہ دونوں اور معاشرہ میں فیصلہ کرنے والوں کویہ خوف ہو کہ اس کے بغیر دونوں اللہ کے حدود کو پامال کردینگے تو پھر وہ چیز فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں۔ یہ معاشرے کی روایت تھی اور آج بھی ہے کہ بیوی کو طلاق دینے کے بعد اپنی مرضی سے کسی اور سے شادی کی اجازت نہیں دیتے ۔ اسلئے اللہ نے یہ وضاحت بھی کردی کہ ’’اگر پھر طلاق دیدی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ کسی اور سے نکاح کرلے‘‘۔ آیت230سے پہلے 229میں دی گئی صورتحال کو دیکھنے کی ضرورت ہے اور خطرہ تھا کہ علماء وفقہاء کہیں گے کہ 228اور229کے احکام منسوخ ہوگئے، اسلئے اللہ نے 231اور232آیات میں پھر وضاحت کردی کہ عدت کی تکمیل کے بعد بھی اللہ نے معروف طریقے سے باہمی رضامندی سے صلح کا راستہ نہیں روکا اور کسی کو بھی ان کی راہ میں روکاٹ ڈالنے کی اجازت نہیں ہے۔
رسول اللہﷺ کے وصال فرمانے کے بعد ازواج مطہراتؓ سے نکاح کرنے کو اسلئے روکا گیا تھا کہ اس سے نبیﷺ کو اذیت ہوتی ہے۔ چرند، پرند اور انسانوں کے درمیان یہ قدرِ مشترک ہے کہ جوڑی بن جانے کے بعد نر نہیں چاہتا کہ اسکی مادہ کسی اور سے جفت ہو۔ حضرت علیؓ کی ہمشیرہ حضرت ام ہانیؓ کو فتح مکہ کے بعد اس کا شوہر چھوڑ کر چلا گیا تو نبیﷺ نے شرف زوجیت بخشنے کی پیشکش کردی۔ حضرت ام ہانیؓ نے اپنی نسوانی غیرت کی وجہ سے اس شرف کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس سے زیادہ انسانی فطرت کی مثال کیا ہوسکتی ہے؟۔ نبیﷺ سے پھر اللہ نے فرمایا: اگر اسکے بعد کوئی خاتون پسند آئے تب بھی اس سے نکاح نہ کریں۔ (القرآن)
مروجہ حلالہ کی لعنت کا قرآن وحدیث ، صحابہ کرامؓ اور ائمہ اربعہ کے ادوار میں کوئی وجود نہیں تھا۔ شوہر ایک ساتھ تین طلاق دے تو رجوع کا حق نہیں ہے بلکہ اگر ایک طلاق بھی دو تو رجوع کا حق نہیں ہے ورنہ حدیث بیکار ہے کہ طلاق سنجیدگی اور مذاق میں ہوجاتی ہے۔ اسلئے تین طلاق کے بعد شوہر کیلئے طلاق کا حق بالکل غلط تھا اور آج بھی ہے لیکن باہمی صلح سے رجوع کی گنجائش اور شوہر کے یکطرفہ حق میں بڑا فرق ہے اوریہ حقیقت نظر انداز ہوئی اسلئے قرآن پر ایمان واقعی بڑا عجیب ہے۔

سورۂ طلاق میں عدت کے خاتمے پر رجوع یاتفریق اور اس پر دو عادل گواہ اور ہمیشہ کیلئے رجوع کو واضح کیا گیا
قرآن کی آیات سے حلالہ کا بالکل غلط تصور پیش کیا جاتاہے تو احادیث صحیحہ سے بھی غلط ثبوت پیش کیا جاتاہے

جب اللہ تعالیٰ نے دیکھ لیا کہ امت مسلمہ کیلئے ایک طرف یہ ضروری ہے کہ جو خواتین کو طلاق دینے کے بعد اپنی مرضی سے دوسری جگہ شادی کی اجازت نہیں دی جاتی اور خواتین خود بھی طلاق کے بعد دوسری جگہ شادی کرنے کو اپنی غیرت کیخلاف سمجھ لیتی ہیں اور اس غلط رسم وروایت اور انسانی فطرت کو معقول طریقے سے دھکیل دیا اور حلالہ کی رسم جاہلیت کو حرفِ غلط کی طرح مٹادیا۔ تو پھر سورۂ طلاق میں واضح طور سے سمجھایا کہ جب تم عورتوں کو طلاق دو تو عدت کیلئے دو۔ عربی میں علیحدگی کیلئے طلاق کا لفظ استعمال ہوتاہے۔ آیت کا معنی یہ ہے کہ اگر عورت کو چھوڑنا ہو تو عدت تک کیلئے چھوڑ دو۔ مذہبی دنیا میں طلاق کا تصور اس قدر بگاڑ دیا گیا ہے کہ قرآن کی کسی آیت کا درست ترجمہ بھی مسلکی زبان میں نہیں ہوسکتا ہے۔
ایک طلاق دیدی تو یہ کسی وقت کیلئے نہیں ہوسکتی بلکہ ہمیشہ کیلئے ہوگی، پھر زندگی میں دو طلاق باقی رہیں گے۔ اگر رجوع نہیں کیا تو عورت دوسری جگہ شادی کرلے تب بھی باقی رہیں گے۔ پھر عورت نے دوسرے سے طلاق لے کر پہلے والے سے دوبارہ شادی کرلی تو مذہبی دنیا میں بڑے بڑوں کی طرف یہ اختلاف منسوب ہے کہ پہلا شوہر نئے سرے سے تین طلاق کا مالک ہوگا یا پہلے سے موجود 2 طلاق کا۔ جمہور کے نزدیک نئے سرے سے 3طلاق کا مالک نہیں ہوگا۔ امام ابو حنیفہؒ اور انکے شاگردوں کا بھی آپس میں اس بات پر اختلاف نقل کیا جاتا ہے کہ پہلے سے موجود طلاقوں کا مالک ہوگا یا نئے سرے سے 3طلاق کا؟۔ عورت دس آدمیوں سے شادی کرکے ایک ایک طلاق لے تو اس پر سب کے 2، 2طلاق کی ملکیت کا حق باقی ہوگا اور عورت پر مجموعی طور سے 20طلاقوں کی بلڈنگ بنی ہوئی ہوگی۔
شوہر نے کہہ دیا کہ 3طلاق اور عورت نے سن لیا تو شرعاً اس پر 3طلاق واقع ہوں گی لیکن اگر شوہر انکار کرے اور عورت کے پاس گواہ نہ ہو تو عورت خلع بھی لینا چاہے اور شوہر خلع نہ دے تو عورت حرامکاری پر مجبور ہوگی۔ طلاق کے حوالے سے جو عجیب و غریب مسائل اسلام کے نام پر گھڑے گئے ہیں انکے ہوتے ہوئے کوئی بھی معقول قوم ، معقول ملک اور معقول افراد اسلام کو قبول کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ جو مسلمان پیدائشی طور پر مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہوتے ہیں اسلام کو وہ شعوری طور پر قبول نہیں کرتے بلکہ جس طرح ہندوؤں کے گھر میں پیدا ہونے والے افراد گاؤ ماتا کے پجاری اور گائے کے پیشاب پینے تک کو برا نہیں سمجھتے ، اسی طرح مسلمان بھی دیکھا دیکھی اندھی تقلید ، اندھی عقیدت اور اندھا لگاؤ رکھتے ہیں۔
اسلام دین فطرت ہے اور قرآن و سنت کے درست تصورات عالم انسانیت کی توجہ حاصل کرنے کیلئے زبردست ہیں ، یہی وجہ تھی کہ بہت کم وقت میں اس دور میں سپر طاقتیں روم اور ایران کو مسلمانوں نے فتح کرلیا۔ حالانکہ حضرت عثمانؓ ، حضرت علیؓ کی شہادتوں کے بعد مسلمانوں کو بڑی مشکل سے حضرت امام حسنؓ نے اکھٹا کیا تھا۔ احادیث صحیحہ میں 3طلاق کے حوالے سے صحابہؓ کے جتنے واقعات ہیں ان کی تفصیلات دیکھی جائیں تو ان میں الگ الگ 3طلاق دینا طہر و حیض کے حوالہ سے ہی مراد ہیں۔ حضرت رفاعہ القرظیؓ ، حضرت فاطمہ بنت قیسؓ وغیرہ کے حوالے سے احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ عدت میں قرآن و سنت کے لحاظ سے الگ الگ 3 طلاقیں دی گئیں مگر پھر بھی بعض لوگوں نے من گھڑت روایات بنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ لفظ واحد سے حضرت فاطمہ بنت قیسؓ کو ایک ساتھ 3طلاقیں دی گئیں۔ احادیث کے پورے ذخیرے اور ائمہ اربعہؒ کے ہاں صرف 2 واقعات ہیں جن میں ایک ساتھ 3طلاق کا ذکر ہے۔ ایک حضرت عویمر عجلانیؓ جس نے لعان کرنے کے بعد ایک ساتھ3طلاق کا اظہار کیا۔ دوسری روایت حضرت محمود بن لبیدؓ کی ہے جس میں ایک ساتھ 3طلاق پر نبی ﷺ نے ناراضگی کا اظہار فرمایا تھا۔
امام شافعیؒ عویمر عجلانیؓ کے واقعہ سے استدلال پیش کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ان پر ناراضگی کا اظہار نہیں کیا اسلئے ایک ساتھ تین طلاق دینا سنت ہے۔ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک محمود بن لبیدؓ کی روایت سے ایک ساتھ 3طلاق دینا خلاف سنت اور گناہ ہے۔ قرآن میں فحاشی کی صورت پر عدت کے دوران بھی عورت کا نکالنا اور اس کا خود سے نکلنا جائز قرار دیا گیا ہے۔ حضرت عویمر عجلانیؓ کی روایت کا تعلق بھی لعان سے تھا۔ حضرت محمود بن لبیدؓ کی روایت میں نبی ﷺ کی ناراضگی کا اظہار اس بات کیلئے کافی نہیں کہ رجوع نہیں ہوسکتا۔ اسلئے کہ اسی طرح سے رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابن عمرؓ پر بھی حالت حیض میں طلاق دینے پر غضب کا اظہار فرمایا تھا۔ جس کا ذکر کتاب التفسیر سورۂ طلاق صحیح بخاری میں ہے۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی ﷺ نے رسم جاہلیت کی وجہ سے اللہ کی کتاب کو نہ سمجھنے پر سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا تھا۔ جہاں تک رجوع کی گنجائش کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بار بار فرمایا ہے کہ عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل پر باہمی رضامندی سے معروف طریقے پر رجوع کا دروازہ اللہ تعالیٰ نے کھلا رکھا ہے۔ اسلئے نبی ﷺ کوباقاعدہ طور پر یہ وضاحت پیش کرنے کی کبھی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔
سورہ طلاق میں عدت کی تکمیل پر معروف طریقے پررجوع یا معروف طریقے پر الگ کرنے کی وضاحت اور دو عادل گواہوں کا تقررانتہائی جاہل سے جاہل اور کم عقل سے کم عقل انسان کیلئے بھی کافی ہے کہ ایک ساتھ 3طلاق پر اللہ تعالیٰ نے رجوع کا دروازہ بند نہیں کیا گیا۔ پھر سورۂ طلاق میں مزید یہانتک گنجائش کا ذکر ہے کہ جو اللہ سے ڈرا ، اس کیلئے اللہ تعالیٰ راستہ کھول دیگا۔ کاش علماء و مفتیان اپنے ذاتی خیالات کو چھوڑ کر قرآن کریم کی طرف متوجہ ہوجائیں اور مساجد میں عوام کو یہ آیات اور مسائل سمجھانا بھی شروع کردیں۔ اصل معاملہ قرآن و سنت میں حقوق کا ہے۔ شوہر طلاق دیتا ہے تو حقوق کا معاملہ کچھ بنتا ہے اور عورت خلع لے تو حقوق کا معاملہ کچھ اور بنتا ہے۔ جب دونوں آپس میں رہنے پر راضی ہوں تو حلالہ کی رسم کو زندہ رکھنے کا فائدہ صرف ان لوگوں کو ہے جنہوں نے اس لعنت کو کاروبار بنایا ہوا ہے۔ جب تک حکومت کو ان کو ڈنڈا نہ کرے اس وقت تک یہ جاہل عوام کی عزتوں سے کھیلنا بند نہیں کریں گے۔ قومی اسمبلی و سینٹ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

حلال نہ ہونے سے مراد ہے کہ طلاق کے بعد دوسرے شوہر سے نکاح کیلئے رکاوٹ نہ ڈالے

phir-agr-is-ne-talaq-di-to-us-ke-liye-halal-nahi-teen-talaq-se-ruju-ka-kushgawar-hal

ان کیلئے حلال نہیں کہ چھپائیں جواللہ نے انکے رحموں میں پیدا کیا آیت228البقرہ ’’ تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو تم نے انکو دیا، اس میں کچھ لے لو‘‘۔ آیت229البقرہ اللہ نے اسی تسلسل سے فرمایاکہ باہوش وحواس فیصلہ کے بعد’’ پھرطلاق کے بعد اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور سے نکاح کرلے‘‘۔ یعنی شوہر دوسری جگہ نکاح میں رکاوٹ کا حق نہیں رکھتا۔ جو معاشرے میں آج بھی رائج ہے۔ مغربی تہذیب وتمدن کے پروردہ عمران خان و ریحام خان بھی اس کی ایک مثال ہیں۔ ریحام خان کا طلاق کے بعد لندن سے جان پرکھیل کر آنابڑی بات تھی۔ ریحام خان پہلے سے طلاق یافتہ بھی تھی۔
تہذیب وتمدن میں جب رسم وروایت ٹھوس قدروں کی حیثیت اختیار کرلیتی ہے تو اس کو توڑنے کیلئے شدت کے الفاظ کا استعمال ناگزیر ہوتاہے۔بنیادی بات یہ ہے کہ علیحدگی کا فیصلہ اکثر وبیشترشوہر کی طرف سے ہوتاہے جس کو عربی میں طلاق کہتے ہیں۔ کبھی بیوی کی طرف سے ہوتا ہے جس کو خلع کہتے ہیں۔ سورۂ النساء آیت :19میں خلع کی صورت اور آیت :20 اور21میں طلاق کی صریح وضاحت کا ذکر ہے اور اس میں مختصر الفاظ میں پورا معمہ حل کردیا گیاہے۔ سورۂ البقرہ میں 228اور229میں طلاق اور اسکے تین مراحل کی تفصیل واضح ہے اور ساتھ ہی 229آیت کے آخری حصے میں بہت وضاحت کیساتھ بتایا گیاہے کہ میاں بیوی کی باہوش وحواس علیحدگی اور معاشرے کی طرف سے فیصلہ کن کردار بھی ادا کیا گیا ہو۔ یہ تو بہت ہی بیوقوفی اور کم عقلی کی بات ہے کہ دو مرتبہ طلاق کے بعد کسی خلع کو تیسری طلاق کیلئے بیچ میں لایا جائے، البتہ قرآن میں جو صورت فدیہ دینے کی بیان ہوئی ہے اس پر فقہ حنفی اور علامہ ابن قیم کی طرف سے حضرت ابن عباسؓ کے درمیان بالکل اتفاق ہے کہ قرآن کی اس طلاق آیت:230کا تعلق اسی صورت سے ہے جس میں اللہ کا حکم ہے کہ اللہ کی حدود سے تجاوز مت کرو۔ چونکہ شوہر رکاوٹ بنتاتھا اور بنتاہے اسلئے بیوی کو اس طلاق کے بعد مرضی سے دوسری جگہ شادی کرنے کی اجازت دی گئی ہے ، اگر ولی کی طرف سے رکاوٹ کو جائز قرار دیا گیاہے تو بھی حنفی اس رکاوٹ کو نہیں مانتے۔ جب اسکے بعد پھر آیت231 اور232میں عدت کی تکمیل کے بعد معروف طریقے سے رجوع کیلئے اجازت دیدی تو پھر حلالہ کی لعنت کا کیا جواز بنتاہے؟۔ رسولﷺکی شکایت کا کیا جواب ہوگا؟۔ وقال الرسول رب ان قومی اتخذوا ہٰذا القرآن مھجوراالقرآن)

قرآن و سنت کے مطابق طلاق کوئی مذہبی مسئلہ نہیں بلکہ طلاق ایک اہم ترین معاشرتی معاملہ ہے

mufti-abdul-jalil-qasmi-masail-e-talaq-talaq-se-ruju-ki-sharamnak-surtains

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ طلاق والی خواتین عدت کے تین مراحل تک اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں، اور ان کیلئے حلال نہیں کہ جو اللہ نے انکے رحموں میں پیدا کیا ہے کہ اس کو چھپائیں۔اور انکے شوہر اس مدت میں اصلاح کی شرط پر لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں‘‘۔(سورۂ بقرہ آیت: 228)۔ ایک بہت بڑا مغالطہ یہ ہے کہ شوہر کو آیت میں غیرمشروط رجوع کا حق دیا گیاہے ، حالانکہ ایسا نہیں ۔ شوہر کیلئے طلاق کا حق اور شوہر کیلئے رجوع کی گنجائش میں بہت نمایاں فرق ہے۔ عورت کا حق سلب کرنا بہت بڑی زیادتی ہے۔اگر شوہر کو رجوع کی گنجائش دینے کے بجائے غیرمشروط رجوع کا حق دیا جائے تو یہ عورتوں کا حق سلب کرناہے۔ میاں بیوی دونوں طلاق کے بعد آپس میں صلح و اصلاح پر رضامند ہوں تو یہ رجوع کی گنجائش ہے ، یکطرفہ ہو تو پھر شوہر کاحق ہے۔ وان خفتم شقاق بیھما فابعثوا حکمامن اہلہ وحکما من اہلہاوان یریدا اصلاحا یوفق اللہ بیھما ’’ اگر تمہیں انکے درمیاں جدائی کا خوف ہو تو ایک حکم شوہر کے خاندان سے اورایک حکم بیوی کے خاندان سے تشکیل دو، اگر وہ دونوں صلح چاہتے ہوں تو اللہ دونوں میں موافقت پیدا کردیگا‘‘۔ دونوں کی چاہت نہ ہو توساتھ رہنے پر دنیا کی کوئی طاقت مجبور نہیں کرسکتی اور دونوں کی چاہت ہو تو انکے درمیان میں کوئی طاقت رکاوٹ نہیں بن سکتی ہے۔ یہ معاشرتی مسئلہ ہے اور قرآن نے اس کو معاشرتی بنیادوں پر حل کرنے کا پورا نصاب بتایاہے اور احادیث صحیحہ مزید وضاحتوں سے بھرپور ہیں۔ سورہ بقرۂ آیت: 224 سے 232تک اور سورۂ طلاق کی پہلی دوآیات میں مسئلہ طلاق کے تمام معاشرتی پہلوؤں کی بھر پور نشاندہی کی گئی ہے۔
یہ بہت بڑی بد قسمتی ہے کہ فقہاء نے اپنی منطقوں میں الجھ کر ہزاروں مسائل اور اختلافات گھڑنے کی عجیب وغریب صورتیں ایجاد کرلی ہیں۔ ہم نے بہت ہلکے پھلکے انداز میں ان حضرات کومسائل کے دلدل سے نکالنے کی کوشش کی ہے اور جب تک حلالہ کی لعنت کے نام اپنی مذموم حرکتوں سے یہ باز نہیں آئیں گے اور ہم زندہ رہیں تو سخت لہجے میں بھی حقائق کھول کر ضربِ حق لگانے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ انشاء اللہ العزیز الرحمن الرحیم المٰلک القدوس السلام الجبارالمتکبر الخاق الوہاب الرزاق الفتاح الودود
رجعت بالفعل کی جو صورتیں لکھ دی ہیں اگر ہم بتاتے تو شکایت ہوتی اسلئے کتاب سے ’’ فوٹو اسٹیٹ ‘‘ کرکے علماء ومفتیان اور عوام کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔جن خواتین کی عزتیں حلالہ کے نام پر برباد کردی جاتی ہیں ، ان لوگوں کا دکھ، درد ، تکلیف اور بے عزتی کے احساس نے ہمیں مجبور کردیاہے کہ کھل کر اور بہت ہی کھول کرمعاشرے سے اس برائی کو ختم کرنے میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔

اگر کسی مفتی کی صاحبزادی اور داماد کو ڈرامہ میں پیش کرکے رجعت بالفعل کی صورتیں ٹی وی پر سمجھانا شروع کی جائیں تو مفتی صاحبان مجبور ہوکر عوام کی جان حلالہ سے چھڑانے پر راضی ہونگے۔ شہوت کی شرط پر مباشرت،دخول بالدبر، فرج کو اندر سے شہوت کیساتھ دیکھ لینا جب وہ تکیہ لگاکر بیٹھی ہو۔اور نیند میں بھی رجوع معتبر ہے۔ عورت بھی شہوت سے ہاتھ لگاکر رجوع کا حربہ استعمال کرسکتی ہے مگر اس کیلئے شرط یہ ہے کہ مرد یہ اقرار کرے کہ عورت میں شہوت تھی۔ عجب حماقت ہے کہ عورت کی شہوت ہوتو اسکا اقرار مرد کرے۔ جب ڈرامہ میں رجعت بالفعل کے انواع واقسام کی صورتیں سامنے آئیں گی تو علماء خود چیخ اٹھیں گے کہ ’’ قرآن کا معروف رجوع ٹھیک ہے۔ یہ بکواس کوئی دین و فقہ نہیں ہے، ہم کبھی حلالہ کی لعنت کا فتویٰ نہیں دینگے مگر ہمیں شرمندہ کرکے ہماری پولیں نہ کھولیں! ‘‘۔

mufti-abdul-jalil-qasmi-masail-e-talaq-talaq-se-ruju-ki-sharamnak-surtains-1

mufti-abdul-jalil-qasmi-masail-e-talaq-talaq-se-ruju-ki-sharamnak-surtains-2

mufti-abdul-jalil-qasmi-masail-e-talaq-talaq-se-ruju-ki-sharamnak-surtains-3

مفتی شفیع کے نالائق نواسے کا حاملہ عورت کو تین طلاق پر حلالے کا فتویٰ

darul-uloom-karachi-korangi-hamla-aurat-ko-talaq-per-halala-ka-fatwa

جامعہ دار العلوم کراچی کورنگی سے مفتی محمد شفیعٌ کے نالائق نواسے حسان سکھروی نے پھر حاملہ عورت کو تین طلاق پر حلالے کا فتویٰ دیا

دور جاہلیت کے حلالہ سے قرآ و سنت میں چھٹکارے کا پہلا طرز عمل

درسِ نظامی اصول فقہ کی کتاب ’’نورالانوار‘‘ میں واضح ہے کہ ’’ جس طلاق میں حلال نہ ہونے کا ذکر ہے وہ اپنے ماقبل فدیہ دینے کی صورت سے حنفی مسلک کے نزدیک خاص ہے ‘‘۔

علامہ ابن قیم نے زادالمعاد میں ابن عباسؓ کایہ قول نقل کیا ہے کہ ’’طلاق کے بعد حلال نہ ہونے کی صورت دومرتبہ طلاق اور فدیہ سے خاص ہے‘‘۔

جاہلیت کا ایک غلط رواج ایک ساتھ تین طلاق پر حلالہ اور عدت کے اندر تاحیات باربار رجوع کی گنجائش تھی ۔ اس پر تفصیل کیساتھ اللہ نے سمجھایاہے کہ رجوع باہمی صلح سے مشروط ہے۔

اللہ نے تین طلاق کو الفاظ کے بجائے عدت کے تین ادوار میں طہرو حیض کیساتھ خاص کیا۔ رجوع کیلئے عدت رکھی اور حلالہ کی خاص صورت واضح کی

طلاق معاشرتی مسئلہ تھا اور قرآن نے معاشرتی انداز میں اسے حل کیا ہے۔ ایک طرف عورت کو طلاق کی صورت میں بھی اپنی مرضی سے شادی نہ کرنے دیجاتی تھی تو دوسری طرف رجوع کیلئے باہمی رضا مندی کے باوجود ان کورجوع نہیں کرنے دیا جاتا تھا اور حلالہ پر مجبور کیا جاتا تھا۔ سورہ بقرہ کی آیات میں بہت واضح انداز میں بھرپور وضاحتیں ہیں۔ پہلی وضاحت یہ کہ طلاق سے رجوع کا تعلق باہمی صلح اور رضامندی سے ہے۔ دوسری وضاحت یہ ہے کہ عورت پرعدت تک انتظار لازم ہے اورحمل کی عدت بچے کی پیدائش اور حیض کی عدت طہرو حیض کے تین ادوار ہیں۔ طہرو حیض کے تین ادوار کے دروان شوہر صلح کی شرط پررجوع کا زیادہ حقدار ہے ۔ سوال پیدا ہوگا کہ زیادہ حقدار کیوں کہا؟۔ جس کا جواب یہ ہے کہ خلع کی صورت میں نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’عورت ایک حیض کے بعد شادی کرسکتی ہے‘‘۔ شوہر اپنے حق سے دستبردار ہوجائے تو عورت تین حیض نہیں ایک حیض کے بعد شادی کرسکتی ہے، جب شوہر غلام ہو تو حدیث میں آتاہے کہ شوہر کی طلاقیں دو اور بیوی لونڈی ہو تو اس کی عدت دو حیض ہے۔ عورت 3حیض سے عدت پوری کرے اور شوہر طہرمیں پرہیز سے3 مرتبہ طلاق دے۔یہ قرآن و سنت میں بالکل واضح ہے۔ کوئی آیت، حدیث ، صحابہؓ اور اماموں کاایسا قول نہیں کہ تین طلاق پرعدت تک انتظارکے بعد حلالہ کرنے کا حکم ہو۔ قرآن میں 2مرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ طلاق کے بعد شوہر کی طرف سے دی گئی کوئی چیز واپس لینا حلال نہیں۔ جب دونوں اور فیصلہ کرنیوالے با ہوش و حواس فیصلہ کریں تو پھر وہ چیز فدیہ کرنے میں حرج نہیں اور یہ اللہ کے حدود ہیں ان سے تجاوزکرنیوالے ظالم ہیں۔ پھر طلاق دی جائے توعورت کیلئے دوسری جگہ مستقل شادی کا حکم ہے ، شوہر کیلئے رکاوٹ ڈالنا حلال نہیں ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے اسکے بعد سورہ بقرہ کی آیت نمبر 231اور 232میں تسلسل کیساتھ پھر وضاحت فرمائی ہے کہ عدت کی تکمیل کے بعد بھی معروف طریقے سے جب دونوں باہمی رضامندی سے صلح کرنا چاہتے ہوں تو رجوع کرسکتے ہیں۔
قرآن میں باہمی رضامندی کی صلح کو ہی معروف طریقے کی رجوع قرار دیا گیا ہے۔ فقہ کی کتابوں میں اسکے بالکل برعکس منکر طریقے سے رجوع کو انتہائی بیوقوفی سے اُمت مسلمہ میں رائج کرنے کی بڑی بدعت ڈالی گئی ہے۔ حنفی مسلک کے کتب میں رجوع کیلئے نیت شرط نہیں، اگر شوہر رجوع نہیں کرنا چاہتا ہو مگر بے دھیانی میں شہوت کی نظر بیوی پر پڑ گئی تو رجوع ہوگا۔ اس سے بڑی بات یہ کہ نیند کی حالت میں بھی شوہر کا ہاتھ لگ جائے تو رجوع ہوگا۔ اس سے بڑی بات یہ کہ نیند میں ہاتھ لگنے کی صورت میں بیوی کی شہوت بھی معتبر ہوگی۔ فقہی کتابیں عجائبات سے بھری ہیں

دور جاہلیت کے حلالہ سے قرآ و سنت میں چھٹکارے کا دوسرا طرز عمل

سورۂ طلاق کی میں عدت کے اندر ہی رجوع کی تفصیل بتادی اور عدت کی تکمیل کے بعد معروف رجوع اور ہمیشہ رجوع کا دروازہ کھلا رہنا واضح کردیا

ابوداؤد کی روایت میں مرحلہ وار تین طلاق کے بعد بھی اُم رکانہؓ سے ابورکانہؓ کو سورۂ طلاق کا حوالہ دیکر حلالہ کے بغیر رجوع کرنیکا نبیﷺ نے حکم فرمادیا

عدت کی وضاحت کیساتھ باہمی صلح سے بار بار قرآن کی اجازت سے خود کو زبردستی سے اندھا کرنیوالے قیامت کو نابینا بن کر اٹھ سکتے ہیں العیاذ باللہ

اللہ نے فرمایا کہ ’’جو یہاں اندھا تھا وہ قیامت میں بھی اندھا رہے گا‘‘ ،خودکو اندھا بنانیوالا کہے گا کہ ’’ مجھے کیا ہوا کہ دیکھ نہیں رہا اور میں تو دیکھتا تھا‘‘۔

جب اللہ نے سورۂ بقرہ کی آیات میں بہت تفصیل سے واضح کردیا کہ تین طلاق کا تعلق طہرو حیض کی عدت میں تین مراحل سے ہے۔ ان مراحل میں صلح سے رجوع کا دروازہ بالکل کھلاہے۔ معروف طریقے سے رجوع کا مطلب بھی باہمی صلح ہے اور قرآن میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ حلالہ کے تعلق کو عدت کے دوران دومراحل میں دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسرے مرحلے تیسری مرتبہ رجوع کرنے کے بجائے طلاق کے فیصلے کو برقرار رکھنے کی حدتک بھی محدود نہ کیا بلکہ مزید وضاحت بھی کردی کہ دونوں اور معاشرے نے باہوش و حواس یہ فیصلہ کردیا تو فدیہ دینے میں حرج نہیں اور ان حدود سے تجاوز کرنا جائز نہیں، اسی صورت طلاق دینے کے بعد شوہر کیلئے یہ اجازت نہیں کہ عورت کا نکاح کسی اور سے کرانے میں رکاوٹ ڈالے۔ اس کو اپنی مرضی سے دوسری جگہ نکاح کرنے دیا جائے۔ سورہ بقرہ کی آیت 230سے پہلے اور بعد میں خوب وضاحت ہے کہ عدت سے پہلے اور عدت کے بعد باہمی صلح سے رجوع ہوسکتا ہے۔ 228،229اور231،232 کی آیات میں واضح ہیں۔ صاحبِ ہدایہ ، فتاویٰ شامیہ ، قاضی خان ودیگر فقہاء نے جس طرح سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا جواز لکھا تھا اور100فیصد غلط تھا، اسی طرح حلالہ کیلئے بھی تمام حیلے بہانوں کے حوالے قرآن وسنت اور شریعت و عقل کے منافی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ علماء وفقہاء نے حیلوں سے عوام کی عزتوں کو حلالہ کے نام پر تار تار کرناہے۔ خاندانوں کو تباہ وبرباد کرنا ہے۔ اسلئے سورۂ طلاق میں مزید وضاحت سے بتادیا کہ طلاق کا تعلق عدت کے مراحل سے ہے۔ تکمیل عدت پر رجوع کرو اور طلاق کا حتمی فیصلہ کرنے کی صورت میں دوعادل گواہ مقرر کرو۔ جو اللہ سے ڈرا، اللہ اس کیلئے نکلنے کا راستہ بنادیگا۔ سورۂ طلاق بھرپور وضاحت کرتاہے مگر حلالہ والوں کو نشہ لگ گیاہے۔
حلالے کی لعنت نے فقہی کتابیں لکھنے والوں کے دماغ کو اتنا خراب کردیا ہے کہ قرآن کے روشن دلائل ان کے حلق سے نہیں اترتے۔ لیکن غیر فطری طلاقوں کے عجیب و غریب قسم کے مسائل پر ان کو یہی یقین ہے کہ جو کچھ لکھا گیا ہے وہ سب کا سب درست ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔
قرآن میں وضاحت ہے کہ شوہر کا بیوی پر عدت کا حق ہے اور بیوی کو عدت میں انتظار کا حکم ہے۔ احادیث صحیحہ میں بھی اس کی بھرپور وضاحت ہے۔ انسان کی فطرت بھی اس کو قبول کرتی ہے لیکن یہ فقہاء اور محدثین کا کمال ہے کہ کسی ضعیف روایت پر عجیب و غریب خلاء تک بلڈنگ تعمیر کرلی۔ ایک عورت کو شوہر ایک طلاق دیتا ہے اور دو اپنی جیب میں رکھ لیتا ہے۔ پھر دوسری ، تیسری ، چوتھی ، پانچویں سے ہزار اور ہزار سے زیادہ شادیوں تک نکاح کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو سب کی دو ، دو طلاقوں کی ملکیت عورت پر باقی ہونگی۔

کیا طلاق واقع ہونے کے بعد غیر محرم شوہر حلالہ کرسکا ہے، اُم معظم

kia-talaq-hone-k-baad-gair-mehram-shoher-halalah-kr-sakta-hai

اوکاڑہ : میں آپ کے بیانات کچھ عرصہ سے پڑھ رہی ہوں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں آپ نے جو حلالہ اور طلاق کے نقطہ کو واضح کیا ہے اس سے بہت سے لوگ مستفید ہورہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کام میں اور کامیابی عطا فرمائے۔ آمین
میرا سوال یہ ہے کہ کیا طلاق واقع ہونے کے بعد حلالہ شوہر سے کرنے کی اجازت ہے ؟ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اپنے بیان میں ایک واضح الفاظ میں کہا کہ طلاق واقع ہونے کے بعد شوہر نا محرم ہے تو حلالہ شوہر سے کرنے کی اجازت ہے۔ آپ اس بارے میں بتائیں کہ کیا ایسا کیا جاسکتا ہے؟ کیا یہ بات قرآن و حدیث کی روشنی سے ثابت ہے؟۔ اُم معظم اوکاڑہ پنجاب
جواب : قرآن میں جہاں شوہر کے علاوہ کسی اور سے نکاح کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے وہاں تو مروجہ حلالے کا کوئی تصور نہیں۔ میاں بیوی اور معاشرے میں موجود افراد کی طرف سے باہوش و حواس عدت کے مراحل میں دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسری دفعہ علیحدگی کا فیصلہ ہو اور سب کا اتفاق ہو کہ آئندہ دونوں کے ملنے کی کوئی صورت باقی نہ رہے جس سے اللہ کے حدود پامال ہوں اور سب اتفاق سے فیصلہ کریں کہ آئندہ خاتون کی سابقہ شوہر سے کوئی تعلق نہ جڑے تو پھر ایسی صورت پر ہی طلاق کے بعد شوہر کو حلال نہ ہونے کا اسلئے کہا گیا ہے تاکہ سابقہ شوہر اس عورت کی شادی میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالے۔ تفصیل صفحہ نمبر 6پر دیکھئے

طلاق کو علمائ نے اس قدر مشکل بنادیا کہ رجوع کی گنجائش بھی ختم کردی، ڈاکٹر ہما بقائی

dr-huma-baqai-teen-talaq-halala-ashraf-ali-thanvi-ahmad-raza-khan-barelvi-syed-atiq-ur-rehman-gailani

کراچی (ڈاکٹر احمد جمال)معروف اسکالر ڈاکٹر ہما بقائی صاحبہ نے کہا

: طلاق کے مسئلہ پر بالخصوص سنی مسالک میں جس طرح عمل کیا جارہا ہے اسے زحمت بنادیا گیا ہے۔ اسلام ایسا مذہب ہے کہ آسانی پیدا کرتا ہے۔ طلاق نا پسندیدہ ضرور ہے لیکن اس کی اجازت دی ہے اور معافی کا راستہ بھی ہے۔ اسے کچھ علماء نے اس قدر مشکل بنادیا ہے کہ رجوع کی گنجائش بھی ختم کردی ہے جبکہ اسلام میں بغیر حلالہ کے رجوع کی گنجائش موجود ہے۔ بہت ساری خواتین سے جب میں نے یہ بات کی جو اس مشکل مرحلہ سے گزر رہی ہیں

انہوں نے یہ بات آشکار کی کہ جس مولوی سے فتویٰ لینے جاؤ وہ اپنے آپ کو حلالے کیلئے پیش کردیتا ہے۔

اس معاملے میں تحقیق کی بھی ضرورت ہے تاکہ اس کا غلط استعمال نہ کیا جاسکے اور مردوں کو اور عورتوں کو نا کردہ جرم کی اتنی بڑی سزا ملے۔ معافی تو اللہ بھی دیتا ہے بڑے بڑے گناہ کرنے کے بعد اگر اللہ کی طرف رجوع کیا جائے تو وہ بھی گناہ معاف فرمادیتا ہے۔
یہ اچھا ہے کہ آپ کا ادارہ اس حوالے سے تحقیق کر رہا ہے اور آگاہی کے عمل کو آگے بڑھا رہا ہے۔ سید عتیق الرحمن گیلانی صاحب کافی عرصہ سے اس حوالے سے تحقیق کررہے ہیں اور اس کے نتیجے میں یہ کتابچہ (تین طلاق سے رجوع کا خوشگوار حل) سامنے آیا ہے اور اچھا ہو کہ مزید تحقیق ہو۔

پنچایت کا 17 سالہ لڑکی کے ریپ کے فیصلے سے بدتر حلالہ کے فتوے ہیں. عتیق گیلانی

-mufti-taqi-molana-fazal-ur-rehman-maulana-maududi-Multan-on-panchayat's-orders-syed-atiq-ur-rehman-gailani

درجہ بالا تصویر میں مظفر گڑہ کا واقعہ ہے، 17سالہ لڑکی سے پنچایت نے بطور بدلہ ریپ کا فیصلہ کیا، چیچہ وطنی میں بھی 14سالہ لڑکی کا نکاح اس شخص سے بدلے میں کروایا جس کی بیوی سے زیادتی کی گئی۔ بادی النظر میں پنچایت کے فیصلے کا انسانیت کی توہین ہونا روزِ روشن کی طرح واضح ہے مگر اس کی وجوہات تک پہنچنا بھی ضروری ہے کہ آخر انسانیت کی روپ میں اتنا بڑا ظلم پنچایت کے فیصلے میں کیسے ممکن ہے کہ ایک انسان کے جرم کی سزا دوسری بے گناہ خاتون کو دی جائے؟۔
شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی اور مولانا فضل الرحمن کو میڈیا میں چیلنج دیتا ہوں کہ قرآن و سنت ،درسِ نظامی اور فقہ حنفی کی واضح تعلیمات کے مطابق ایک ساتھ تین طلاق کے باوجود باہمی رضامندی سے رجوع کی گنجائش ہے حلالہ کی نہیں لیکن پھر بھی حلالہ کا ناجائز فتویٰ دیا جاتاہے۔ جو معاشرہ قرآن اور سنت کا پابند ہو ، پاکستان کے آئین میں بھی اس کی وضاحت ہو اور قرآن وسنت میں بار بار باہمی رضامندی سے رجوع کا حکم دیا گیا ہو مگر قرآن وسنت واضح ہوجانے کے بعد بھی کوئی ہٹ دھرمی پر قائم ہو اور جاہل لوگوں کو حلالے کا فتویٰ دے تو اس کا کیا علاج ہونا چاہیے؟۔ برما کے مظالم پر آواز اٹھانے والے یہ نہیں جانتے کہ دارالعلوم کراچی سے عزت کی تباہی کا سلسلہ کیوں نہیں رک رہاہے؟۔ مولانا فضل الرحمن قرآن اور سنت کے علاوہ عزتوں کو تحفظ دینے میں اپنا کردار ادا کرے، چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب اور جسٹس آصف سعید کھوسہ حلالے کے گھناؤنے فتوؤں کا نوٹس لیں۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی آیاہے کہ’’ طلاق کا تعلق الفاظ نہیں پراسیس کیساتھ ہے‘‘۔ یہ دین، انسانیت اور سپریم کورٹ کی بھی توہین ہے۔

ترجمان اسلام میں سیٹھو سے رقم لیکر حلالہ کرنیوالے مولویوں کے نام شائع ہوئے. قاری گل رحمان

qari-gul-rahman-maulana-ghulam-ghaus-bakhsh-hazarvi-molana-diesel-jamiat-ulema-e-islam-tarjuman-e-islam
کراچی (عبد الکریم ، محمد منیر) قاری گل رحمان ، سابق ایم این اے متحدہ مجلس عمل نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ آپ کا رسالہ ’’تین طلاق سے رجوع کا خوشگوار حل‘‘ اور اخبار نوشتۂ دیوار پڑھ کر دل صاف ہوتا ہے اور دماغ خوشگوار ہوتا ہے۔ میں کوئی عالم تو نہیں ہوں مگر علماء کی خدمت میں رہا ہوں۔ علماء بڑے لوگوں کیلئے اسپیڈ بریکر ہیں جسے چاہتے ہیں ٹھوکر مار دیتے ہیں۔ علامہ غلام غوث ہزاروی صاحبؒ فرمایا کرتے تھے اور کراچی کے بڑے بڑے مولویوں کے نام بتایا کرتے تھے کہ وہ بڑے سیٹھوں سے رقم وصول کرکے ان کی بیویوں سے خود حلالہ کرتے تھے۔
اور دو دو تین تین دن اپنے پاس رکھ کر اچھی خاصی رقم بٹورتے تھے۔ ہفت روزہ ’’ترجمان اسلام‘‘ کے پرانے رسالوں میں ان مولوی حضرات کے نام بھی انہوں نے شائع کئے ہیں جو کہ جمعیت علماء اسلام کا رسالہ ہے۔ حلالے کی رقم وصول کرنا مولویوں کا ایک زبرست ٹوٹکا ہے۔ شاہ صاحب اور آپ لوگ میدان میں آئے ہیں جس سے دل بہت خوش ہوتا ہے۔ آج کل کے مولوی مہینے کے مہینے تنخواہ لیتے ہیں ان کو پڑھنے پڑھانے سے کوئی غرض نہیں اور جو مولوی پڑھاتے ہیں وہ کسی حد تک علم سیکھنے سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ حلالہ پیسے والے لوگ اور پیسے والے مولویوں کا کھیل ہے۔ درمیانہ اور غریب طبقے کا آدمی حلالہ کرانے پر کبھی راضی نہیں ہوتا۔ آپ کے اخبار جو کہ ماہوار ہیں اسے ہفت روزہ ہونا چاہیے۔ جس میں زیادہ لمبی چوڑی تفصیلات لکھنے سے گریز کرتے ہوئے مختصر اور جامع طریقے سے بات سمجھانے کی کوشش ہو تو بہتر ہوگا۔ میں نے آپ کے اخبار اور رسالے کے ذریعے سے کافی گھروں کو طلاق کی صورت میں جدا ہونے سے بچایا ہے۔

طلاق سے رجوع کیسے ہوسکتاہے؟،مفتی صاحب!

mufti-taqi-ruju-fatwa-hazrat-umer-hazrat-ali-imam-abu-hanifa-halala-teen-talaq-triple-talaq-quran-syed-atiq-ur-rehman-gailani
اس بات کی وضاحت کردیتا ہوں کہ شوہر نے اگر اکٹھی تین طلاق دیں تو میرا یہی فتویٰ ہوگا کہ طلاق واقع ہوچکی اور شوہر کو یکطرفہ رجوع کا حق نہیں، اسکے برعکس فتویٰ دینا بالکل 100فیصدغلط ہوگا کہ شوہر رجوع کرسکتا ہے اسلئے کہ قرآن وسنت ، خلفاء راشدینؓ، صحابہ کرامؓ، ائمہ مجتہدینؒ اورعلماءِ حق کا یہ متفقہ فیصلہ بھی ہے اور فتویٰ بھی ہے کہ شوہریکطرفہ رجوع کا حق کھودیتاہے۔
مگر کیا ایک ساتھ تین طلاق کے بعد حلالہ کی شرط پر رجوع ہوسکتا ہے؟۔ اگر قرآن وسنت اور خلفاء رشدینؓ، صحابہؓ و ائمہ مجتہدینؒ کی طرف سے کوئی ہلکا سااشارہ بھی کوئی بتادے تو میں اس کاقائل ہوجاؤں گا۔کسی آیت میں نہیں کہ ایک ساتھ تین طلاقیں دیدیں تو عدت تک انتظار کرنا پڑے گا اور پھر حلالہ کی خدمات کیلئے فتویٰ اور اس لعنت میں منہ کالا کرنے کی ضرورت پڑے گی۔
بلکہ اسکے بالکل برعکس اللہ تعالیٰ نے ڈھیر ساری آیات میں وضاحت کردی ہے کہ عدت میں باہمی صلح کی شرط اور معروف طریقے سے رجوع ہے۔ ایک طرف قرآن میں بار بار وضاحت ہو کہ صلح کی شرط پر عدت میں رجوع ہوسکتا ہے ، عدت کی تکمیل پر معروف طریقے سے رجوع ہوسکتا ہے، معروف طریقے سے رجوع کرو، معروف طریقے سے رجوع کرسکتے ہو اور معروف طریقے سے رجوع کرسکتے ہو لیکن دوسری طرف قرآن کی ڈھیر ساری آیات کے واضح مطلب کو چھوڑ کر کسی کی منکوحہ کو مفتی اپنے فتویٰ کے ذریعے شکار کرنا چاہتا ہو۔ حنفی مسلک کے اندر عدت میں نکاح باقی رہتاہے لیکن حنفی مسلک کے مفاد پرست علماء ومفتیان قرآن کے برعکس فتویٰ دیں کہ صلح اور معروف طریقے سے بھی رجوع نہیں ہوسکتاہے تو یہ قرآن سے بہت بڑی اور کھلی بغاوت ہے ۔
جہاں تک احادیث صحیحہ کا تعلق ہے تو احادیث کے ذخیرے میں کوئی ایک بھی ایسی حدیث نہیں کہ جس میں یہ فتویٰ دیا گیا ہو کہ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد حلالہ کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا۔ کوئی حدیث قرآن کیخلاف کیوں ہوتی؟ اور اگر بالفرض ہوتو بھی قرآن کے مقابلہ میں ناقابلِ عمل ۔ یہی تو درسِ نظامی کی تعلیم ہے۔ جب ذخیرۂ احادیث میں ایسی حدیث نہیں کہ جس میں ایک ساتھ کی تین طلاق کو ناقابلِ رجوع قرار دیا گیا ہو یا حلالہ کے ذریعے رجوع کا حکم ہو تو پھر کتنا بڑا ظلم ہے کہ اسکے برعکس فتویٰ دیاجائے کہ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد حدیث کی رو سے حلالہ کرنا لازم ہے؟۔
اصولِ فقہ کی تعلیم کا بنیادی تقاضہ ہے کہ فتویٰ قرآن وحدیث کے مطابق دیا جائے۔ صحابہؓ نے قرآن وسنت کو اپنی پہلی ترجیح بنالیا تواللہ نے چند سوسال تک مسلمانوں کو دنیا کے اقتدار کے قابل بنادیا۔ بنی امیہ و بنی عباس کے بعد خلافت عثمانیہ بڑے عرصہ تک چلی۔1924ء میں خلافت کا خاتمہ کرکے کمال اتاترک نے نئی ریاست کی بنیاد رکھ دی۔بنی امیہ، بنی عباس اور خلافت عثمانیہ کے علاوہ مغلیہ سلطنت ، عرب بادشاہت اور جمہوری ادوار میں کبھی کوئی عالم ومفتی حکمران نہ بن سکا ، اس کی بنیادی وجہ مُلاؤں کی قرآن وسنت کے احکام سے روگردانی ہے۔علماء درباری بن کر قرآن وسنت کا حلیہ نہ بگاڑتے تو مسلم اُمہ کبھی زوال کا ایسا شکار نہ بنتی۔ دوبارہ عالمی خلافت قائم ہوگی ۔قرآن وسنت کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ اگر علماء ومفتیان جانے بوجھے بھی قرآن وسنت کیخلاف فتوے دینگے اور لوگوں کی عزتوں سے کھیلیں گے تو خود بھی ذلت سے دوچار ہونگے اور امت مسلمہ کو بھی دوچار کردیں گے۔ اللہ نے استدراج کا ذکر بھی فرمایا، اپنی ظاہری ترقی کو انعام نہ سمجھیں۔ مفتی تقی عثمانی کے گھر کی خواتین کو بھی سکون نہیں ملا ہے۔وممن خلقنا اُمۃ یھدون بالحق وبہ یعدلونOوالذین کذبوا باٰ ےٰتنا سنستدرجھم من حیث لایعلمونOواُملی لھم ان کیدی متینOاولم یتفکروا مابصاحبہم من جِنۃ ان ھو الا نذیر مبینO اولم ینظروا فی ملکوت السمٰوٰت والارض وماخلق اللہ من شئی وان عسٰی ان یکون قد اقترب اجلھم فبای حدیث بعد یؤمنونOمن یضلل اللہ فلا ھادی لہ ویذرھم فی طغانھم یعمھونO ’’اورجن کو ہم نے پیدا کیا ،ان میں ایک جماعت حق سے ہدایت لیتے ہیں اور اسی سے فیصلہ کرتے ہیں اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا، ہم بتدریج لے جائیں گے کہ ان کو خبر بھی نہیں ہوگی۔ اور میں ان کو ڈھیل دوں گا اور میرا داؤ مضبوط ہے۔ کیا وہ غور نہیں کرتے کہ ان کے صاحب (ﷺ) کو کچھ جنون نہیں مگر وہ کھلا ڈرانے والاہے۔کیا وہ نہیں دیکھتے کہ زمیں و آسمان کی بادشاہی اور جو اللہ نے پیدا کیا ہے اس میں کوئی چیز؟۔ اور شاید قریب آگیا ہے ان کے وعدے کاو قت۔ پھر اس کے بعد وہ کس حدیث(بات) پر ایمان لائیں گے؟۔ جس کو اللہ گمراہ کردے، تو اس کیلئے ہدایت دینے والا کوئی نہیں ہے۔ اللہ نے چھوڑ رکھا ہے، کہ وہ اپنی سرکشی کے اندھے پن میں ہچکولے کھائیں‘‘۔
جب مشرکینِ مکہ نے اپنی جہالت کا تسلسل کیساتھ مظاہرہ کیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈھیل کا وقت ختم ہوگیا اور فتح مکہ کے بعد خلافت راشدہؓ اور اسکے بعد آج تک انکا نام ونشان بھی مٹ گیا۔ صحابہ کرامؓ اور خلفاء راشدینؓ نے حق اور ہدایت کی رہنمائی سے دنیا کو فتح کرلیا۔ اسلام سے پہلے عورت غلامی سے بھی بدتر زندگی گزارتی تھی۔ قرآن وسنت میں بیوی کو خلع کا حق دیا گیا، طلاق کے بعد بھی صلح کی شرط پر معروف رجوع کا حق دیا گیا۔ حضرت عمر فاروق اعظمؓ جب مسندِ خلافت پر جلوہ افروز تھے تو اس سے پہلے یہ معمول تھا کہ تین طلاق کا تعلق عدت کے تین مراحل طہرو حیض سے ہوتا تھا۔ جس کی قرآن وسنت میں وضاحت تھی۔ کوئی ایک ساتھ تین طلاق دیتا تب بھی ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھی۔ قرآن وسنت کے مطابق یہ معمول تھا کہ عدت تک عورت انتظار کرنے کی پابند تھی اور باہمی رضامندی سے رجوع کا دروازہ کھلا رہتا تھا۔
جب میاں بیوی آپس میں باہمی رضامندی سے صلح کریں یا رشتہ دار ان کو صلح پر آمادہ کرلیں تو خوش اسلوبی اور معروف طریقے سے رجوع کرنے پر کوئی کس طرح سے اعتراض کرسکتا تھا۔ ایک خاتون نے تین طہرو حیض کے آخری حیض میں شوہر کا گھر چھوڑ دیا تو اعتراض ہوا کہ اس نے غلطی کی ہے۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ ’’ اس نے ٹھیک کیا ہے ، انتظار کے تین قروء سے مراد اطہار یعنی پاکی کے ایام کی تین مدتیں مراد ہیں‘‘۔ طلاق سے رجوع کیلئے فتویٰ فروش نہیں بیٹھے تھے جن سے رہنمائی طلب کی جاتی بلکہ قرآن وسنت صحابہ کرامؓ کے ماحول ہی کا اہم حصہ تھا۔زندگی کا محور قرآن وسنت کا منشور تھا۔
جب میاں بیوی کے درمیان علیحدگی طلاق کا مسئلہ چل رہا ہو تو سب سے زیادہ اہمیت میاں بیوی کی اپنی رائے، چاہت اور لائحہ عمل کی ہوتی ہے لیکن جب معاشرے کو یہ احساس ہوجائے کہ ان دونوں کے درمیان تفریق کا خطرہ ہو تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ایک فیصل شوہر کے خاندان سے اور ایک فیصل بیوی کے خاندان سے تشکیل دو، اگر ان دونوں کا ارادہ اصلاح کرنے کا ہو تو اللہ ان دونوں میں موافقت پیدا کر دے گا۔ جب تک معاملہ صلح اور اصلاح کی حد تک رہتا ہے تو اس کا تعلق معاشرتی معاملات سے ہوتا ہے۔ میاں بیوی صلح کریں یا معاشرہ اس میں کردار ادا کرے تو بات حکومت تک نہیں پہنچتی ہے۔
اسلام دینِ فطرت ہے ، قرآن وسنت نے صحابہ کرامؓ کو اس فطری دین کی بدولت تاریخ ساز عروج عطا فرمایا جس کی بازگشت ابھی تک دنیاکے اندر موجود ہے۔ قرآن وسنت اور مسلمانوں کی بدولت عورت کے معاملے میں دنیا بدل گئی اور’’ میاں بیوی راضی تو کیا کریگا قاضی‘‘ کی کہاوت نے حقیقت اور قانون کا روپ دھارلیا۔ جب حضرت عمرؓ کے دربار میں ایک شخص نے فریاد کی کہ اس نے تین طلاق ایک ساتھ دئیے ہیں ، اپنی بیوی کو واپس لوٹانا چاہتاہے تو سب سے واضح بات یہ ہے کہ اگر میاں بیوی آپس میں راضی ہوتے تو پھر وہ حضرت عمرؓ کے پاس کیوں آتا؟۔ ظاہر بات ہے کہ عورت صلح کیلئے راضی نہ تھی اور تمام حربے آزمانے کے بعد بات حکومتِ وقت سے مدد لینے تک پہنچی تھی۔
حضرت عمرؓ نے قرآن وسنت اور عقل وفطرت کے خلاف فیصلہ نہیں دینا تھا اور آج بھی دنیا کی ہر عدالت وہی فیصلہ دے گی جو قرآن وسنت اور حضرت عمرؓ نے دیا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ وبعولتھن احق بردھن فی ذلک ان ارادوا اصلاحا ’’ اور انکے شوہر ہی اس مدت میں ان کو لوٹانے کا حق رکھتے ہیں بشرط یہ کہ اصلاح کرنا چاہتے ہوں‘‘۔ جب تنازعہ چل رہا ہو تو اصلاح کی کیا بات ہوسکتی ہے۔ جب قرآن تنازع کی صورت میں رجوع کا حق شوہر کو نہیں دیتاہے تو حضرت عمرؓ نے کیسے دینا تھا؟۔ حضرت عمرؓ نے نہ صرف قرآن کی بات پر عمل کرکے شوہر کو رجوع کا حق نہیں دیا بلکہ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد جو رنجیدہ صورتحال پیدا ہوئی تھی اس پر بھی فرمایا کہ آئندہ کوئی ایک ساتھ تین طلاق دے گا تو اس کو سخت سزابھی دی جائے گی۔
جب حضرت عمرؓ نے یہ فیصلہ کردیا تو حضرت علیؓ نے اس کی تائید فرمادی کہ حضرت عمرؓ کا فیصلہ درست ہے، کوئی شخص ایک ساتھ تین طلاق دیتاہے تو وہ اپنا حق کھو دیتاہے، پھر عورت رجوع پر راضی نہیں ہو تو وہ رجوع نہیں کرسکتاہے۔ اور ساتھ میں یہ وضاحت بھی کردی کہ ’’ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد باہمی صلح سے رجوع کا دروازہ بند نہیں ہوتا بلکہ قرآن کے مطابق رجوع کرسکتے ہیں‘‘۔ افسوس کہ کم عقل علماء ومفتیان اور حلالہ کی ہوس میں مبتلاء رہبروں نے سمجھا تھا کہ حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کے درمیان کوئی تضاد پایا جاتاہے بلکہ حضرت علیؓ کے اپنے مؤقف میں بھی کھلا تضاد سمجھتے تھے، حالانکہ حقیقت میں تضاد نہ تھا۔
دنیا کی کسی قوم کیلئے بھی قرآن وسنت اور خلفاء راشدینؓ کا یہ قانون بہت زبردست ہے کہ طلاق کے بعد عدت میں باہمی رضا اور صلح کے بغیر رجوع کا دروازہ بند ہو۔ البتہ جن معاملات کی وجہ سے بگاڑ پیدا ہورہاہو، جو علیحدگی کے باعث ہوں، شکایات کے ازالے اور اصلاح کی شرط پر رجوع کی گنجائش ہو۔
اللہ نے اہل کتاب کو مخاطب کیا کہ ’’دین میں غلو نہ کرو‘‘۔ علامہ تراب الحق قادریؒ نے رمضان میں تقریر کی تھی ’’ روزے میں جب لیٹرین کیا جائے تو مقعد کے اندر کا حصہ نکلتاہے جو پھول کی طرح ہوتاہے، وہ پھول دھویا جائے تو کپڑے سے خشک کیا جائے ، خشک کئے بغیر اگر وہ پھول اندر داخل ہوا تو روزہ ٹوٹ جائیگا‘‘۔ ہم نے یہ خبر اپنے اخبار میں لگائی تھی، دعوتِ اسلامی کے مبلغ کی ویڈیو دستیاب ہے کہ ’’ روزے میں استنجاء کرتے ہوئے کھل کر نہ بیٹھو اور سانس زورسے نہیں آہستہ لو، ورنہ پانی اندر داخل ہوگا، روزہ ٹوٹ جائیگا‘‘۔
الم ےأن للذین اٰمنوا ان تخشع قلوبھم لذکر اللہ وماانزل من الحق ولا یکونوا کالذین اوتواالکتٰب من قبل فطال علیھم الامد فقست قلوبھم وکثیر منہم فٰسقونO اعلمواان اللہ یحی الارض بعدموتھا قد بیّیّنا لکم الاٰےٰت لعلم تعقلونO ان المصدقین والصدقٰت واقرضوا اللہ قرضاًحسناً یضٰعف لہم و لھم اجر کریمOوالذین اٰمنواباللہ و رسلہ اولئک ھم الصدیقون الشہداء عند ربھم لھم اجرھم ونورھم والذین کفروا و کذبوا باٰےٰتنا اولئک اصحاب الجحیمO ۔۔۔ ۔۔۔
’’ کیا وہ وقت نہیں آیا کہ ایمان والوں کے دل اللہ کی یاد میں گڑ گڑائیں؟۔ اور جو اللہ نے حق نازل کیا ( اس کی طرف متوجہ ہوکر اس کو قبول کرلیں)؟۔ اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوں جن کو کتاب میں ملی تھی پہلے۔ پھر ان پر بڑی عمر گزر گئی ،تو سخت ہوگئے ان کے دل ، اور ان میں اکثر فاسق تھے۔ جان رکھو کہ بیشک اللہ زندہ کرتا ہے زمین کو اسکے مرجانے کے بعد۔ ہم تمہارے لئے کھول کرواضح کرتے ہیں آیات تاکہ تم عقل سے کام لو۔ بیشک قربانی دینے والے مردوں اور خواتین اور جو اللہ کو قرضِ حسنہ دیتے ہیں اللہ تعالیٰ اس کو ضرب دیکر بڑھاتا ہے اور ان کیلئے عزت کا بدلہ ہے۔ جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں ، یہی لوگ صدیقین اور شہداء ہیں اللہ کے نزدیک۔ ان کیلئے ان کا اجر بھی ہے اور ان کا نور بھی ہے۔ اور جولوگ کفر کریں اور ہماری آیتوں کو جھٹلا دیں تو وہ لوگ جہنم والے۔ جان رکھو کہ بیشک دنیا کی زندگی کھیل ، لہو ، زینت اور آپس میں ایکدوسرے پر تفاخر اور اموال واولاد میں بہتات کی باتیں ہیں، اس کی مثال بارش کی ہے جو اچھی لگتی ہے کفار کو، اس کا سبزہ ہے، پھر زور پکڑتاہے، پھر آپ دیکھتے ہو کہ زرد ہوگیا اور پھر ہوجاتا ہے روندا ہوا گھاس۔ اور آخرت میں سخت عذاب ہے اوراللہ کی طرف سے مغفرت اور رضامندی۔ اور دنیا کی زندگی کیا ہے مگر غرور کی گزر بسر۔ دوڑو، اپنے رب کی معافی کی طرف اور جنت کی طرف جس کا عرض آسمان وزمین کے عرض کی طرح ہے۔ جو تیار کی گئی ہے ،ان لوگوں کیلئے جو اللہ اور اسکے رسولوں پر ایمان لائے۔ یہ اللہ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے ،دیدیتاہے اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔ کوئی مصیبت نہیں پڑتی زمین میں اور نہ تمہاری جانوں میں مگر پہلے سے کتاب میں ہے جس کو ہم صورتحال میں پیدا کردیتے ہیں۔ اور یہ اللہ پر آسان ہے۔ یہ اسلئے تاکہ تم افسوس نہ کرو کہ جس کو تم کھو چکے ہواورتاکہ فخر نہ کرو جو اللہ نے دیا ہے۔اور اللہ پسند نہیں کرتا ہے ہر فخر کرکے اترانے والے کو ۔جو خود بھی بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو بھی بخل کرنے کا حکم دیتے ہیں‘‘۔(سورہ الحدید)
ان آیات میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی نشاندہی ہے۔ جس وقت تمام مسلمان اللہ کے احکام کی طرف متوجہ ہوئے اور دنیاوی زندگی کی لہوولعب، زینت اور آپس کے تفاخر کو چھوڑ کر اللہ کی طرف متوجہ ہوئے۔ اہل کتاب کی روش کو چھوڑ دیا تو مسلمانوں کی دواقسام ہوں گی۔ ایک قسم وہ ہوگی جن کے ذریعے اللہ نے اپنے دین کو زندہ کیا ہو اور دوسرے وہ ہوں گے جنہوں نے بعد میں اس مشن کو اپنایا ہو۔ دونوں میں سے سبقت لے جانے والوں کو بھی اپنے کردار پر فخر کی ضرورت اسلئے نہیں کہ اس میں ان کا کوئی ذاتی کمال نہیں، محض اللہ کی عطا ہے، جس کا فیصلہ پہلے سے تقدیرالٰہی میں ہوچکا تھا۔ اور جن لوگوں نے پہلے کردار ادا نہیں کیا وہ بھی اس پر افسوس نہ کریں جو وہ کھوچکے ہیں۔ دونوں طبقات میں کوئی چیز قابلِ فخر اور اترانے کی نہیں ہے۔ رائٹر نے جو اسکرپ لکھ دی تھی اس کو اللہ نے منصہ شہود پر لانا تھا۔ مخالفین کی طرف سے مخالفت کا حق ادا نہ کیا ہوتا اور حق کا علمبردار طبقہ اپنے مؤقف پر ڈٹا نہ رہتا تو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کیلئے دنیا میں حالات کبھی نہ بنتے۔ یہ اللہ کی اپنی حکمتِ عملی تھی جس کا ظہور ہوگیا۔مگر جولوگ فخر سے اتراتے ہیں اور خود بھی بخل سے کام لیتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخل کا حکم دیتے ہیں۔ یہ لوگ ناپسندیدہ اور اسلام کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے سورۂ واقعہ میں بھی اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی خبر دی۔ لوگوں کی تین اقسام کا ذکر فرمایا ہے، دائیں جانب والے،بائیں جانب والے اور سبقت لے جانے والے۔سبقت لے جانوں والے پہلوں میں بہت اور نشاۃ ثانیہ میں کم ہونگے۔ دائیں جانب والے پہلے میں بھی بڑی جماعت ہوگی اور آخر والوں میں بھی بڑی جماعت ہوگی۔ تینوں کی تفصیلات بھی بیان کی گئی ہیں۔ سورۂ الحدید میں پہلے وضاحت فرمائی ہے کہ لایستوی منکم من انفق من القبل الفتح وقٰتل اولئک اعظم درجۃ من الذین انفقوا من بعد وقٰقلوا وکل وعداللہ الحسنٰی واللہ بماتعلون خبیرO ’’ برابر نہیں جنہوں نے فتح سے قبل خرچ کیا اور لڑائی لڑی ، ان لوگوں کا بڑا درجہ ہے ان لوگوں سے جنہوں نے فتح کے بعد خرچ کیا اور لڑے اور ہر ایک کے ساتھ اللہ نے اچھا وعدہ کیا ہے اور جو تم کرتے ہو اللہ اس کو جانتاہے‘‘۔ پھر دعوت دیتے دیتے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی طرف متوجہ کیا ہے۔ کاش فتوحات کے دروازے کھلنے سے پہلے جوق در جوق مسلمان اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی طرف آجائیں اور اجر پالیں۔
پھر سورہ حدید کے آخرمیں فرمایا: لقد ارسلنا رسلنا بالبینٰت وانزلنا معھم الکتٰب والمیزان لیقوم الناس بالقسط وانزلنا الحدید فیہ بأس شدید ومنافع للناس ولیعلم اللہ من ینصرہ و رسلہ بالغیب ان اللہ لقوی عزیزO ولقد ارسلنا نوحاً وابراھیم وجعلنا فی ذریتھما النبوۃ والکتٰب فمنھم مھتد وکثیرمنھم فٰسقونO
’’ ہم نے اپنے رسولوں کو نشانیوں کیساتھ بھیجا، ہم نے انکے ساتھ کتاب نازل کی اور میزان ، تاکہ لوگ انصاف کیساتھ کھڑے ہوں،ہم نے لوہا اتارا، اس میں سخت معاملہ ہے اور لوگوں کیلئے منافع۔ تاکہ اللہ جان لے کہ کون اسکی مدد کرتاہے اوراسکے رسولوں کی، غیب پر ایمان رکھ کر۔ بیشک اللہ زبردست طاقتور ہے۔ بیشک ہم نے نوح کو بھیجا اور ابراہیم کواور ان کی اولاد میں نبوت رکھ دی۔ ان میں سے ہدایت والے بھی ہیں اور اکثر ان میں فاسق ہیں‘‘۔
ہدایت کیلئے دوباتوں کا ہونا ضروری ہے۔ اللہ کی نازل کردہ کتاب اور اس کی دی ہوئی میزان، جو انسانی فطرت میں ودیعت ہوتی ہے۔ جب انسان کا توازن بگڑ جائے تو وہ مرفوع القلم ہوتاہے۔ فہم وفراست کیلئے انسانی ذہن اور دل کی ساخت بھی قدرت کی عظیم عطاء ہے ۔والسماء رفعھا ووضع المیزانO الا تطعوا فی المیزان O واقیموا الوزن بالقسط و لاتخسرواالمیزانO نظام کائنات کے بارے میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ اگر بہت ہی معمولی قسم کا توازن بگڑ جائے تو ایک خوفناک تصادم سے سب کچھ ختم ہوجائے۔ ناپ تول کے ہر پیمانے سے معاشی نظام چل رہاہے۔ پیٹرول بجلی ، گیس، ٹیکسی کے میٹر، موبائل کے بیلنس، ادویات کی اجزاء ، روڈ و بلڈنگ میں ناقص کارکردگی سب کچھ میزان میں خسارہ ہے اور جس قوم کا معاشی سسٹم درست ہوتو اس کا معاشرتی اور عدالتی نظام پر بھی اثر پڑتا ہے ، معاشرتی اور عدالتی نظام میں بھی فطری تقاضا میزان ہی ہے۔ درسِ نظامی کے نصاب کی اصلاح شدت سے محسوس کی جارہی ہے، حکمرانوں کی کرپشن سے پہلے اسلام کی درست تصویر عوام کے سامنے لائی جائے۔ علماء حق کا احسان ہے کہ قرآن وسنت کی زبردست حفاظت کی مگراب سب کو اس پر عمل بھی کرنا پڑے گا۔
دنیا میں کرنسی کی قیمت میں بھی توازن ضروری ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اپنی کرنسی کو متوازن رکھنا ضروری سمجھتے ہیں۔ امپورٹ و ایکسپورٹ کے کاروبار کا دارومدار کرنسی کی مقامی قیمت پر ہوتاہے۔ پاکستان میں عرصہ سے ماہرین کی رائے میں پاکستانی روپیہ کی قیمت جبری طور پر اپنی اوقات سے زیادہ رکھی گئی ہے۔ نوازشریف کے خلاف فیصلہ آنے سے دس دن پہلے آئی ایم ایف نے کہا کہ ’’ پاکستان اپنی کرنسی کی قیمت کم کردے‘‘۔ کرنسی کی مصنوعی قیمت بڑھانے سے ایکسپورٹ کا کاروبار ٹھپ ہوگیاہے، ملکوں کی ترقی میں ایکسپورٹ زیادہ اہم کردار ادا کرتاہے، اسلئے دوسرے ممالک اپنی کرنسی کی قیمت مصنوعی طور پر بڑھانے سے پرہیز کرتے ہیں۔ روپے کی قیمت کم کردی جائے تو مہنگائی بڑھ جائے گی لیکن ملکوں کو دھوکے اور فراڈ سے چلانے کا خمیازہ بھگتنا پڑتاہے۔ اس وجہ سے حکمران کا دھوکہ باز اور فراڈیہ ہونا خطرناک اور فطری بات ہے۔
نااہل وزیراعظم کی موجودہ حکومت سے پہلے پاکستان کا مجموعی قرضہ 30 ارب ڈالر تھا اور اب 48ارب ڈالر تک پہنچ چکا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا دامن صاف تھا،گرچہ بھائیوں کو غلے میں پیسے لوٹادئیے ۔ زلیخانے جھوٹا الزام لگایا، حضرت یوسفؑ نے کہا کہ ’’میں اپنے نفس کوبری نہیں سمجھتااللہ نے بچایا‘‘ حضرت موسیٰ علیہ اسلام پر الزام لگا کہ خصیہ نہیں اسلئے چھپ کر نہاتاہے، پتھر نے کپڑے اٹھائے اور لوگوں نے موسیٰ علیہ السلام کو ننگا دیکھ کر الزام واپس لیا، الزام ختم ہونے کی جوقیمت چکائی جائے تو سودا سستا ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ سے قتل بھی ہوا تھا لیکن اس کا مقدمہ نہیں چلا۔ ضمیر مطمئن نہیں تھا جبھی تو معجزات کے باوجود جانے سے ڈر لگ رہا تھا۔ اگر نوازشریف کو پاکدامنی کا دعویٰ ہے تو ٹرائل کورٹ کو اپنی بے عزتی نہ سمجھے اور اگر عزت کا خیال ہے تو اپنے تمام اثاثہ جات ظاہر کرکے قوم کو لوٹادے، زرداری بھی یہ کریگا، سول وملٹری بیوروکریسی بھی اپنی ساری دولت پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے پیش کردیں۔ عتیق گیلانی

تین طلاق کے حوالہ سے حقائق کا ایک واضح آئینہ

انسانوں کے دلوں اور سننے پر مہریں لگ جائیں اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ جائے تو رحمت للعالمین ﷺ کااُسوہ حسنہ اور قرآن کی وحی بھی اثرانداز نہ ہو ان الذین کفروا سواء علیھم اانذرتھم ام لم تنذرھم لایؤمنوں Oختم اللہ علی قلوببھم وعلی سمعھم وعلی ابصارھم غشاوۃ
’’ بیشک جن لوگوں نے کفر کیا، ان کیلئے برابر ہے کہ ان کو آپ ڈرائیں یا نہ ڈرائیں،وہ ایمان نہیں لائیں گے، انکے دلوں اور قوت سماعت پر اللہ نے مہر لگادی اور ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ‘‘۔ انسان کی سمجھ میں بات نہیں آتی کہ دلوں اور سننے پر مہر کا کیا مطلب ہے؟۔ آنکھوں پر پردہ کیسے ہوسکتاہے؟۔ جب کوئی حق بات سمجھنے کے باوجود مفاد پرستی، ہٹ دھرمی، ڈھیٹ پن اور بے غیرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کا انکار کرتاہے تو یہ بات خود بخود سمجھ میں آتی ہے کہ دلوں اور کانوں پر مہر اور آنکھوں پر پردہ سے کیا مراد ہے!۔
قرآن میں اسلام کی نشاۃ اول کے بعد مختلف سورتوں و آیات میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا کردار ادا کرنے والوں کاذکراوراحادیث صحیحہ میں وضاحت ہے ۔ فارس وخراسان اور سندھ وہند کی پاک سرزمین کے ہاتھوں فتح ہند کی بشارت سے لیکر بیت المقدس کی فتح تک کی تفصیل ہے، یہ سب نظر انداز ہو توبھی کوئی مسئلہ نہیں، پیش گوئی وقت پر پوری ہوتی ہے ، چاہے کوئی مانے یا نہیں مانے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم اللہ کی کتاب قرآن کریم کو محفوظ سمجھتے ہیں تو اس پر عمل کرنے کیلئے عوام کو صحیح دعوت کیوں نہیں دیتے؟۔ صحابہ کرامؓ نے قرآن کی حاکمیت کو مانا تو دنیا کے امام بن گئے ۔ہم خوار ہوئے ہیں تارک قرآن ہوکر۔
حضرت عمر فاروق اعظمؓ کا فیصلہ اور حضرت علیؓ کا فتویٰ قرآنی تعلیمات کے عین مطابق تھا۔ میاں بیوی میں لڑائی، جھگڑا، طلاق، علیحدگی اور جدائی کا مسئلہ جہاں تک بھی جس نام سے پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے عورت کیلئے عدت رکھ دی ہے اور اس عدت کے دوران باہمی رضامندی ، صلح اور معروف طریقے سے رجوع کا راستہ کھلا رکھاہے۔ میاں بیوی آپس میں راضی ہوگئے تو بھی یہ صلح ومعروف رجوع ہے اور معاملہ ہاتھ سے نکلنے کا اندیشہ ہو تو ایک ایک رشتہ دار دونوں کے خاندان سے فیصل مقرر کرکے بھی صلح و رجوع کا دروازہ کھلا ہے۔
قرآن میں عدت کے تین مراحل میں دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسرے مرحلہ میں معروف رجوع یا احسان کیساتھ رخصت کرنے کی وضاحت ہے۔ اگراس تیسرے مرحلہ میں طلاق کا فیصلہ برقرار رہے لیکن آخری لمحے جب تک عدت پوری نہ ہو، عورت دوسری جگہ شادی نہ کرنے کی پابند رہتی ہے بلکہ شوہر ہی اس کو صلح کی شرط پر لوٹانے کا حق رکھتاہے۔ وبعولتھن احق بردھن فی ذلک ان ارادوا اصلاحا (البقرہ:228)۔ رجوع کیلئے صلح شرط ہے۔ صلح اس صورت میں ہی ہوتی ہے جب دونوں فریق کو اختیار حاصل ہو۔ اللہ نے اسی لئے فرمایا کہ وان ارادا اصلاحا یوفق اللہ بینھما ’’اگر دونوں صلح چاہتے ہوں تو اللہ انکے درمیان موافقت پیدا کردیگا‘‘۔ معروف رجوع کا تعلق بھی باہمی صلح اور فریقین کی رضامندی کیساتھ ہے۔ اللہ نے طلاق کے بارے میں فتویٰ دیدیا کہ ’’عدت میں عورت انتظار کی پابند ہے اور شوہر ہی صلح کی شرط پر عدت کے دوران رجوع کرسکتاہے‘‘۔ جب مولوی دعویٰ کرے کہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت قرآن کے اندر ہم نے محصور کرکے رکھی ہے، کوئی مسلمان بھی یہ جرأت نہیں کرسکتاکہ مُلا کی اجازت اور فتویٰ کے بغیر اپنی بیوی سے رجوع کرسکے اور عوام اسکے سامنے خود بھی لیٹ جائیں اور اپنی بیگمات کو بھی حلالہ کیلئے اسکے سامنے لٹا دیں تو ایسی بے غیرت قوم کی اللہ بھی پرواہ نہیں کرتا۔
بہت سے علماء ومشائخ ڈھیٹ نہیں بلکہ وہ اپنے مذہبی ماحول کی وجہ سے سمجھ رہے ہیں کہ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد حلالہ کرنا اللہ اور اسکے رسولﷺ کا حکم ہے، حضرت عمرؓ نے ایک ساتھ تین طلاق کا حکم نافذ کرکے قرآن و سنت کو نظر انداز کیا ہوتا تو صحابہ کرامؓ کیسے اس پر خاموش رہ سکتے تھے؟۔بلاشبہ حضرت عمرؓ نے قرآن کے ہوتے ہوئے اجتہاد ی حکم ایجاد کرنے کی جسارت نہیں کی ۔ اہلحدیث اورشیعہ بکتے ہیں کہ ’’حضرت عمرؓ نے اجتہاد کیایابدعت اختیار کی‘‘۔ جب قرآن کا واضح حکم موجود ہو تو اجتہاد شریعت نہیں کفر کا درجہ رکھتاہے۔ جبکہ حضرت عمرؓ نے اسی اصول پر عمل کیا کہ پہلے قرآن میں مسئلے کا حل دیکھا، قرآن میں مسئلے کا حل نہ نکلا تو نبیﷺ کی سنت میں تلاش کیا اور سنت میں نہیں ملا پھر اپنے طور سے اجتہاد کیا یا مشاورت سے مسئلہ حل کرنے کی طرف توجہ کردی۔
ایک شخص اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دیتا ہے، بیوی ناراض ہوکر گھر چلی جاتی ہے، عدت کے دوران اللہ نے صلح کی شرط پر رجوع کا راستہ کھلا رکھا ہے لیکن عورت رجوع پر آمادہ نہیں ، اسکے گھر والے بھی رجوع کیلئے کوئی کردار ادا کرنے کیلئے تیار نہیں ، وہ برملا کہتے ہیں کہ آج ایک ساتھ تین طلاق دیدی ، کل کوئی حادثہ بھی پیش آسکتاہے، اس جذباتی سے رشتہ ناطہ جوڑنا نہیں چاہتے اور پورا خاندان صلح کے حق میں نہی۔ اگر شوہر زبردستی کرکے بیوی کو میکے سے نیزے و تلوار یا پستول و بندوق کے زور پر لانا چاہے تو فساد کا خدشہ ہوگا۔وہ بیوی کو لانے کے بجائے خود بھی موت کا شکار ہوسکتاہے۔ ایسی صورت میں شوہر حکمران سے فیصلے اور مدد کی توقع پر پہنچتا ہے۔ حکمران کا کام ہی عدل و انصاف کی فراہمی ہے۔ خلافت راشدہ میں فیصلے عدل ہی سے ہوتے تھے۔ حضرت عمرؓ کے سامنے ایک نئی صورتحال سامنے آئی۔ معاملہ ایک ساتھ تین طلاق کا تھا اور عورت رجوع کرنے پر آمادہ نہیں تھی۔ اگر وہ خود راضی ہوتی یا اسکے خاندان والے صلح کیلئے رضامند ہوتے تو حضرت عمرؓ تک بات نہ پہنچتی بلکہ آپس میں رضامندی و صلح سے معاملہ طے کرلیا جاتا۔
اس واقعہ سے پہلے کوئی ایک ساتھ تین طلاق بھی دیتا تھا تو ایک طلاق قرار دی جاتی تھی، عدت کے تین مراحل میں تین طلاق کا تصور بالکل عام تھا، اب شوہر کی طرف سے ایک ساتھ تین طلاق کے بعدعورت کی طرف سے صلح نہیں ہورہی تھی تو مسندِ خلافت نے پہلے قرآن ،پھر سنت، پھر اپنے اجتہاد سے فیصلہ کرنا تھا۔ حضرت عمرؓ کی آنکھوں سے فقہ واصول فقہ اور فتاویٰ کی کتابوں نے نہ تو قرآن چھپایا تھا اور نہ ہی سنت چھپائی تھی۔ قرآن میں اس معاملے کا بھرپور حل موجود تھا۔ اللہ نے شوہر کو صلح کی شرط پر رجوع کرنے کا حق دیا ، جبکہ عورت صلح پر رضامند نہیں تھی اسلئے حضرت عمرؓ نے عورت کے حق میں ہی فیصلہ دیدیا، اور ایسی ناچاکی کی صورت سے پھر بچنے کیلئے ارشاد فرمایا کہ ’’جب کوئی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دے گا تو ہم اس پر تین ہی نافذ کر دیں گے، جس چیز کی اللہ نے وسعت دی تھی اس کا غلط فائدہ اٹھایا جارہاہے‘‘۔ اگر حضرت عمرؓ کے علاوہ دنیا کی کوئی بھی منصف عدالت ہوتی تو یہ یہی فیصلہ جج نے کرنا تھا، اسلئے کہ جب عورت صلح پر رضامند نہ ہواور کوئی بھی جج اس کو مجبور کرے تو یہ قرآن و سنت ، عقل و فطرت اور عدل وانصاف کی خلاف ورزی ہوگی۔ دنیا کو عورت کا حق اور عدل وانصاف کا تقاضہ قرآن وسنت اور خلافتِ راشدہ نے سکھایاتھا۔
حضرت عمرؓ نے دارالافتاء کی مسند پر بیٹھ کر فتویٰ نہیں دینا تھا بلکہ مسندِ اقتدار سے عدل وانصاف کیلئے قرآن و سنت سے فیصلہ کرنا تھا، اگر عورت ایک طلاق کے بعد بھی صلح پر آمادہ نہ ہوتی تو قرآن کے مطابق حضرت عمرؓ نے یہی فیصلہ دینا تھا کہ شوہر یک طرفہ رجوع نہیں کرسکتا، اسلئے کہ قرآن میں مشروط رجوع کا حق ہی شوہر کو دیا گیاہے، طلاق کے بعد صلح کے بغیر شوہر کو رجوع کا حق نہیں دیا گیا۔ حضرت عمرؓ کا یہ فیصلہ قرآن پر عمل کرانے کی بہترین مثال تھا۔ پھر وقت کے شیخ الاسلام، مفتی اعظم اور سب سے بڑے قاضی حضرت علیؓ نے فتویٰ دیا جو قرآنی آیات کے عین مطابق تھا کہ ’’ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد بھی باہمی رضا اور صلح سے رجوع ہوسکتاہے‘‘ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب کوئی شخص حضرت علیؓ کے پاس فریاد لیکر آتا کہ اس نے ایک ساتھ تین طلاقیں دی ہیں تو حضرت علیؓ اس کی داد رسی اس انداز میں فرماتے کہ’’ تونے اپنا حق کھودیا ہے اور وہ تجھ پر طلاق ہوچکی ہے‘‘۔ وجہ یہ تھی کہ اگر حضرت علیؓ نے فتویٰ دیا ہوتا کہ وہ رجوع کرسکتاہے تو وہ صلح کئے بغیر بھی رجوع کرلیتا، پھر عورت دوسری جگہ شادی نہیں کرسکتی تھی۔فیصلے کے برعکس فتویٰ دینا بڑے درجہ کی جہالت ہوتی۔
حضرت عمرؓ نے صلح نہ ہونے کی صورت میں طلاق کا فیصلہ برقرار رکھا ، شوہر کو غیر مشروط رجوع کا حق نہیں دیااور حضرت علیؓ نے صلح کی شرط پر رجوع کے فتوے کی وضاحت فرمادی اور انہوں بھی غیرمشروط رجوع کا حق نہیں دیا تھا۔ اگر بالفرض محال حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ دونوں متفق ہوجاتے کہ صلح کی شرط پر رجوع نہیں ہوسکتاہے تو قرآن پر پھر بھی عمل ہوجاتا اور دونوں کی بات بالکل رد کردی جاتی۔ قرآن کے واضح الفاظ کے مقابلہ میں کوئی واضح وصریح حدیث ہو تب بھی اس حدیث کو بھی رد کردیا جائے گا۔ درسِ نظامیں اسی بات کی ساری ٹریننگ دی جاتی ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ ، امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ نے ٹھیک اتفاق کیا کہ حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کا مؤقف درست تھا۔ اگر شوہر کو صلح کے بغیر کسی بھی طلاق کے بعد یک طرفہ رجوع کا حق دیا جائے تو یہ قرآن کے خلاف اور عورت کے ساتھ بدترین ظلم ہوگا۔
ائمہ اربعہ نے حکمرانوں کے ہاتھوں بہت مشکلات کی زندگی گزاری۔ آج بھی ان کا درست مؤقف عوام کے سامنے موجود نہیں۔ وہ مزارعت کو سود اور ناجائز قرار دیتے تھے،قرآن کی تعلیم اور عبادات پر معاوضہ ناجائز سمجھتے تھے لیکن بعد والوں نے درباری بن کر اسلام کا حلیہ بگاڑنے میں کردارادا کیا تھا۔ ان بیچاروں کو پتہ ہی نہ ہوگا کہ جب میاں بیوی صلح کرنا چاہتے ہوں تب بھی حلالہ کا فتویٰ میاں بیوی کے درمیان رکاوٹ بنے گا۔ قرآن کی جس آیت میں طلاق کے بعد حلال نہ ہونے کا ذکر ہے ، اس سے پہلے متصل تفصیل کیساتھ یہ وضاحت بھی ہے کہ دومرتبہ طلاق پھرمعروف رجوع یا احسان کیساتھ رخصت کرنے کا فیصلہ کرنا ہے۔ اگر رخصت کرنے کا فیصلہ کیا تو پھر تمہارے لئے جوکچھ بھی ان کو دیا ہے اس میں سے واپس لینا جائز نہیں مگر یہ کہ دونوں یہ خوف رکھتے ہوں کہ اگر وہ چیز واپس نہ کی گئی تو اللہ کی حدود پر دونوں قائم نہیں رہ سکیں گے اور فیصلہ کرنے والوں کو بھی یہ خوف ہو کہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو اس چیز کو عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں، یہ اللہ کی حدود ہیں ،ان سے تجاوز نہ کرو اور جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرتاہے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔پھر اگر اس نے طلاق دیدی تو اس کیلئے جائز نہیں یہاں تک کہ کسی اور شوہر سے شادی نہ کرلے۔۔۔‘‘۔
درسِ نظامی میں اصولِ فقہ کی کتاب ’’نورالانوار‘‘ میں حنفی مؤقف واضح ہے کہ اس طلاق کا تعلق متصل فدیہ کی صورت سے ہے۔ یہ اس طلاق کی ضمنی شئی ہے، دو مرتبہ طلاق سے اس طلاق کا براہِ راست تعلق نہیں ہوسکتا۔ رسول ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ دو مرتبہ طلاق کے بعد اوتسریح باحسان ہی تیسری طلاق ہے۔ علامہ ابن قیمؒ نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی تفسیر نقل کی ہے کہ ’’اس طلاق کا تعلق مرحلہ وار دو طلاقوں کے بعد تیسری مرتبہ طلاق میں بھی اس صورتحال کیساتھ خاص ہے کہ جب دونوں میاں بیوی اور فیصلہ کرنے والوں نے مل کر فدیہ دینے کا فیصلہ بھی کیا ہو اور قرآن کا حکم اپنے سیاق وسباق سے ہٹانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ( زادالمعاد: علامہ ابن قیمؒ )۔
قرآن کی ایک آیت کو سیاق وسباق سے ہٹایا گیا تو باقی آیات سے رہنمائی بھی حاصل نہیں کی گئی۔ مفتی حسام اللہ شریفی کا نام مولانا حسین احمد مدنیؒ نے رکھا تھا، مولانا احمد علی لاہوریؒ نے ان کوشرعی مسائل کا جواب لکھنے کا حکم دیا تھا۔ کئی دہائیوں سے اخبارِ جہاں میں قرآن وسنت کی روشنی میں طلاق کا فتویٰ عام کتابوں کے مطابق دے رہے تھے مگر قرآنی احکام کو پہچانتے ہیں ،ان میں تکبر نام کی کوئی چیز نہیں۔ ضعیفی میں بھی غربت کی زندگی ہے، مکان بھی بالکل دب چکاہے ،پانی کے نکاس کا مسئلہ ہوگا، انکے بیٹے کو حیدر عباس رضوی نے بڑا بلیک میل کیا، یہانتک مکان بیچنے تک نوبت پہنچ چکی تھی۔سپریم کورٹ کے شرعی اپلٹ بینچ اور شرعی کورٹ کے مشیردیوبندی مکتب کے مفتی حسام اللہ شریفی بریلوی مکتب کے ابومسعود مفتی خالدحسن مجددی ، اہلحدیث کے علامہ ارشد وزیر آبادی، جماعت اسلامی کے مفتی علی زمان کشمیری اور اہل تشیع کے ڈاکٹر محمد حسن رضوی وغیرہ کی تائیدات حق کی حمایت میں تاریخ کی بہت بڑی مثال ہے، بریلوی اور دیوبندی علماء ومشائخ کھل تائیدات کررہے ہیں۔
حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ کے حکم کی کھل کر خلاف ورزی کی تھی لیکن وہ جان بوجھ کر اپنے عزم کیساتھ اس میں خطاء کار نہ تھے جبکہ ابلیس نے تکبر اور جان بوجھ کر اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کی تھی،یہ فرق ملحوظِ خاطر رہنا چاہئے۔
بھنور آنے کو ہے اے اہل کشتی ناخدا چن لیں
چٹانوں سے جو ٹکرائے وہ ساحل آشنا چن لیں
زمانہ کہہ رہاہے میں نئی کروٹ بدلتا ہوں
انوکھی منزلیں ہیں کچھ نرالے رہنما چن لیں
اگر شمس و قمرکی روشنی پر کچھ اجارہ ہے
کسی بیدار ماتھے سے کوئی تارِ ضیاء چن لیں
یقیناًاب عوامی عدل کی زنجیر چھنکے گی
یہ بہتر ہے کہ مجرم خود ہی جرموں کی سزا چن لیں
جفا و جور کی دنیا سنوردی ہم نے
زہے نصیب کہ ہنس کر گزار دی ہم نے
کلی کلی ہمیں حیرانیوں سے تکتی ہے
کہ پت جھڑوں میں صدائے بہار دی ہم نے
شریعت کی راہ میں بھول بھلیاں نہیں
دینِ حق کی عظمت نکھار دی ہم نے
علماء کرام و مشائخ عظام کو کھل کر میدان میں آنا چاہیے۔ سید عتیق الرحمن گیلانی