پوسٹ تلاش کریں

پاکستان کا وجود اسلام کیلئے لیکن سازش کا جال

pakistan-sazish-mehsood-qaum-imamat-wazeeristan-maqam-manzoor-pashtoon-qayadat-maulana-akram-awan-doctor-tahir-ul-qadri

جب دنیا میں برطانوی اقتدار پر سورج غروب نہ ہوتا، برصغیر پاک وہند پر بھی انگریز کی حکومت تھی۔ روس بھی یورپ میں واقع ہے اور ایک دور میں روس کو سب سے بڑا خطرہ سمجھا جاتا تھا۔ مفکرِ پاکستان علامہ اقبال نے کہا کہ’’ ماسکو سے آذان کی آواز آئے گی‘‘۔ علامہ اقبال نے یہ پیش گوئی بھی کی تھی کہ ابلیس کو خطرہ کمیونزم نہیں اسلام سے ہے ۔ ’’مزدوکیت فتنہ فردا نہیں اسلام ہے‘‘۔ایک بڑے اعلیٰ سطح ابلیسی دماغ نے باقاعدہ منصوبہ بندی کی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے بھی فرمایا: انھم یکیدون کیدا واکیدکیدا ’’ بیشک وہ اپنا منصوبہ بناتے ہیں اور میں اپنا منصوبہ تشکیل دیتا ہوں‘‘۔ برصغیر پاک وہند میں گانگریس سے پہلے خلافت کی بحالی کیلئے تحریک چلی تو ہندو اور مسلمان شانہ بشانہ تھے، پھر آزادی کیلئے گانکریس نے تحریک شروع کردی تو ہندوپیش پیش تھے اور مسلمان بھی شانہ بشانہ تھے۔
مولانا محمد علی جوہر کا اخبار کامریڈ ہو، یا مولانا ظفر علی خان کا اخبارزمیندار ہو، علامہ اقبال کی طرف سے فرشتوں کا گیت ہو’’ جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی ، اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو‘‘ یا قائد اعظم محمد علی جناح کی گانگریس سے سیاست کا آغاز ہو، یا مولانا حسرت موہانی جیسے مسلم کمیونسٹ ہوں، سب ہی کی ہمدرددیاں اورتعلق کپٹل ازم کے مخالف سیاسی نظام کے مالک روس سے تھیں انگریز نے ہندو مسلم اتحاد میں منافرت کا بیج بونے کیلئے مشرقی بنگال کو علیحدہ صوبہ بنادیا تو ہندوؤں نے اسکا برامنایا، اگر ہندو بڑے دل کا مظاہرہ کرتے تو مسلمان ایک الگ جماعت مسلم لیگ نہ بناتے۔ انگریز کے وفادار سر آغا خان اور نواب وقارالملک نے 1906ء مسلم لیگ( مسلم تحفظ موومنٹ)کی بنیاد رکھ دی اور پھر یہی تحریک پاکستان اور تقسیم ہند کا فارمولہ بن گیا۔ ابلیس کا اصل منصوبہ یہ تھا کہ جو برصغیرہندوپاک کے سیاسی زعماء اور علماء دنیا میں ابھرتی ہوئی دو سپر طاقتوں کے درمیان روس سے تعلق رکھتے ہیں وہ آپس میں تقسیم ہوں۔ ایک ٹولہ ایسا ہو جو اس برِ صغیر پاک وہند کو روس کے بلاک میں شامل ہونے سے روک لے۔
اگر اسوقت پاکستان ایک آزاد مملکت نہ بنتا تو برصغرپاک وہند پورے کا پورا روسی بلاک کا حصہ ہوتا۔ یوں امریکہ اور دائیں بازو میں شامل بلاک کیلئے ممکن نہ ہوتا کہ افغانستان کی سر زمین پر روس کو ایسی شکست دیتے کہ وہ سپرطاقت بننے کا خواب بھول کر سمٹنے پر مجبور ہوتا۔ جو اسلام اسلام اور جہاد جہاد کھیل رہے تھے ان کا نمائندہ پاکستان کا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ میونخ جرمنی میں برملا کہہ رہا ہے کہ’’ 40سال پہلے روس کیخلاف جہاد کے نام پر جو کچھ ہم نے بویاتھا، اسی کو کاٹ رہے ہیں‘‘۔یہی نہیں بلکہ شروع سے ابلیس کی منصوبہ بندی پر کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ تحریک پاکستان کاآغازاصل میں مشرقی پاکستان کے صوبہ بنگال سے ہوا تھا اور ہندوستان کی ان آبادیوں سے یہ آواز اٹھی تھی جہاں پر مسلمانوں کی اقلیت اور ہندوؤں کی اکثریت تھی۔ اگربنگال پاکستان نہ بنتا تو بھی ابلیس کو فرق نہ پڑتا تھا اسلئے کہ مغربی پاکستان کی پٹی ہی برصغرپاک وہنداور روس کے درمیان اصل رکاوٹ تھی۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بناتو روس کو امریکہ نے مغربی پاکستان کے ذریعے سے شکست سے دوچار کردیا ۔ ابلیس اپنے منصوبہ کو تکمیل تک پہنچنے میں بظاہر کامیاب نظر آتا ہے۔ امریکہ افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کو ہندوستان کے ذریعے تباہ کرنا چاہتا ہے اور ہماری مدد روس کرے بھی تو کچھ نہیں ہوسکتا ہے۔ اسلام کے نام پر قربانیاں دینے والے مجاہدین کو بھی پاکستان سے کوئی ہمدردی نہیں رہی ہے۔ پاکستان اپنے بال وپر کاٹ چکا ہے۔
ابلیس کی منصوبہ بندی پر ایک تفصیلی بحث ہوسکتی ہے لیکن کچھ ذکر اسکا بھی ہو، جو اللہ نے منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھیؒ کا تعلق کانگریس سے تھا،وہ پاکستان بننے سے پہلے وفات پاگئے ، وہ تفسیر’’ المقام المحمود‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ سندھ، بلوچستان، پنجاب، فرنٹےئر، کشمیر اور افغانستان میں جس قدر قومیں بستی ہیں، یہ سب امامت کی حقدار ہیں، اسلام کی نشاۃ ثانیہ اس علاقے سے ہوگی۔ یہ تمام دنیا کے مسلمانوں کا مرکز ہے، اگر ہندو پوری دنیا کو ہمارے مقابلہ میں لے آئیں تو ہم اس خطے سے تب بھی دستبردار نہ ہونگے‘‘۔ سورہ القدر کے ضمن میں یہ تفسیر لکھ دی ہے۔ اس کو اللہ کی طرف سے منصوبہ بندی کا حصہ قرار دیا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ پاکستان بننے کے بعد ہندوستان سے آنے والے اردو اسپیکنگ مہاجر یہاں کے رولر کلاس تھے۔ قبائل نے مغل بادشاہ اکبر، راجہ رنجیت سنگھ اورانگریزکی حکومت کو تسلیم نہیں کیا لیکن جب پاکستان بن گیا تو قائداعظم کے حکم پر 1948ء میں کشمیر کے اندر بھی جہاد کیا اور مظفر نگر تک فتح کے جھنڈے بھی گاڑھ دئیے تھے۔ بیگم رعنا لیاقت علی خان کو ایک بااختیار فوجی افسر کا اعزاز حاصل تھا اور اس کی ہندوانہ ذہنیت نے ہندوستان سے سازباز کرکے اقوام متحدہ کے بہانے قبائل کو کشمیر سے نکالنے کی چال چلی تھی۔
قبائل پاکستان کے بہت وفادار شہری ہیں۔ طالبان کی حمایت کرنیوالی تمام سیاسی جماعتوں کو اسٹیبلشمنٹ کا ایجنٹ سمجھا جاتا تھا۔ نوازشریف، شہباز شریف، جماعت اسلامی ، عمران خان وغیرہ وغیرہ کھل کر طالبان کی حمایت کرتے تھے اور قبائل سمجھتے تھے کہ طالبان کو پاکستان کی ریاست کی اشیرباد حاصل ہے۔ طالبان کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان قبائل اور خاص طور پر محسود قبائل نے اٹھایاہے لیکن محسود قبائل نے کبھی اُف تک نہیں کیا۔ ایک مشہور واقعہ ہے کہ فوج کے سپاہی نے ایک محسود کو پکڑ کر کہا کہ سچ بتاؤ کہ تمہاری ہمدردی فوج کیساتھ ہے یاطالبان کیساتھ؟۔ محسود نے کہا کہ سچ بتاؤں گا تو آپ مجھے پیٹھ ڈالوگے، فوجی نے کہا کہ میرا وعدہ کہ بالکل بھی کچھ نہیں کہوں گا۔ محسود نے کہا : ’’صاحب! سچی بات پوچھتے ہو تو اس کا جواب سن لو۔ تم فوجی انبیاء کرام ہو اور طالبان صحابہ کرام ہیں، بس کافر ہم عوام ہیں، جن کو دونوں طرف سے مارپڑ رہی ہے‘‘۔
محسود دقوم میں تین قبیلے بہلول زئی، منزئی اور شمل خیل ہیں۔ بہلول زئی و منزئی بہادر، جرأتمند ، بے باک جبکہ شمن خیل سیاسی تصور ہوتے ہیں۔ طالبان میں بہلول زئی ومنزئی نے بڑا حصہ لیا جبکہ شمن خیل پیچھے رہے۔ طالبان کے عروج میں شمن خیلوں کو لدھا طلب کرکے کہاگیا کہ ’’تم محسود نہیں ہو، تمہارے اندر غیرت اور ایڈونچر کا جذبہ نہیں، سب نے طالبان میں اپنا حصہ ڈالا،اور تم پیچھے رہ گئے، تم پختون بھی نہیں ہو‘‘۔ ایک شمن خیل نے جواب دیا کہ’’ یہ تم غلط کہہ رہے ہو، ہم پختون بھی ہیں محسود بھی ہیں، غیرتمند اور جرأتمند بھی ہیں۔ البتہ ہمارے اندر کوئی چور نہیں ہے‘‘۔مقصد یہ تھا کہ طالبان چوروں کا ایک ٹولہ ہے۔

طلاق ثلاثہ پر حلالہ کا فتویٰ قرآن و سنت کیخلاف ہے. فاضل دار العلوم دیوبند مولانا حسین مبارک

talaq-e-salasa-maulana-husain-mubarak-fazil-darul-uloom-deo-band

کراچی (امیر حسین، قاری سلیم اللہ، طارق مدنی) فاضل دار العلوم دیوبند یوپی بھارت مولانا سید حسین مبارک ( خادم اعلیٰ مدرسہ فاطمۃ الزھرہ جامع مسجد مبارکیہ علی اکبر شاہ گوٹھ کورنگی ) نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ طلاق ثلاثہ کے بارے میں گیلانی صاحب نے جو قدم اٹھایا ہے بہت ہی قابل ستائش اور بہت ہی بہترین کام ہے کیونکہ موجودہ دور میں جن دار الافتاء سے طلاق ثلاثہ کے بارے میں فتویٰ جاری ہوتا ہے یہ قرآن و سنت کے بھی خلاف ہے اور فطرت و غیرت کے بھی خلاف ہے۔ قرآن و سنت میں کہیں بھی حلالے کا تصور اور جواز موجود نہیں حضرت عمرؓ نے جو فیصلہ صادر فرمایا وہ وقت اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے تعزیراً ایک فیصلہ صادر فرمایا وہ بھی لوگ عورتوں کو طلاق دیتے اور پھر ان کو ستانے کی غرض سے اور ان عورتوں کی بغیر رضامندی ان سے رجوع کرلیتے تھے میں آج سے تقریباً تیس سال سے طلاق کا مسئلہ حل کررہا ہوں جو دونوں فریقین کی باتوں کو سن کر فیصلہ یا فتویٰ دیتا ہوں اگر دونوں رجوع کرنے کیلئے رضامندی کا اظہار کرتے ہیں تو رجوع کا فیصلہ سناتا ہوں اور اگر دونوں میں تنازع نظر آتا ہے تو ان کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے مطابق فیصلہ سناتا ہوں قرآن و سنت کا بھی یہی فیصلہ ہے۔ اتحاد کے بارے میں انہوں نے کہا اس وقت علماء کرام تمام چھوٹے بڑے دینی مدارس ، یونیورسٹی کے دانشور حضرات کا مل بیٹھ کر گیلانی صاحب کے اس مشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا فرض عین سمجھتا ہوں۔صرف کاغذی اتحاد نہیں بلکہ عملی طور سے عوام کو سمجھانا بھی ضروری سمجھتا ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ علماء کرام طلاق کے بارے میں اصل حقائق عوام کے سامنے لائیں گونگا شیطان نہ بنیں اللہ تعالیٰ شاہ صاحب اور تمام ساتھیوں کی حفاظت فرمائے اور تمام اُمت مسلمہ کو قرآن و سنت اوردین کی سمجھ عطا فرمائے۔

حلالہ پر جو مسئلہ دوران تعلیم میری سمجھ میں آیا وہ غلطی پر تھا. مولانا شاہ عالم فاضل احسن العلوم گلشن اقبال

halala-maulana-shah-aalam-ahsan-ul-uloom-gulshan

کراچی (قاری سلیم ، محمد طارق) مولانا شاہ عالم فاضل جامعہ احسن العلوم گلشن اقبال کراچی ، مہتمم مدرسہ عمر فاروقؓ و خطیب جامع مسجد مہران ٹاؤن انڈسٹریل ایریا نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ حضرت علامہ سید عتیق الرحمن گیلانی صاحب کا لٹریچر طلاق ثلاثہ و حلالہ کے حوالے سے مطالعہ کیا اور بغور جائزہ لینے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ حضرت علامہ صاحب کی تمام تحقیقات بحوالہ حلالہ و تین طلاق کے ساتھ اتفاق کرتا ہوں جو مسئلہ میری سمجھ میں دوران تعلیم آتاتھا وہ غلطی پر مبنی تھا ۔
الحمد للہ حضرت کے تمام رسالے پڑھ کر سورۃ البقرہ کی آیت الطلا ق مرتان الخ والی آیت سے شرح صدد ہوچکا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ علامہ صاحب کی کاوشوں کو قبول اور منظور فرمائے اور امت پر سید صاحب کا سایہ تادیر قائم رکھے۔ آمین ثم آمین۔

ختم نبوت کیخلاف سازش پر جسٹس شوکت صدیقی نے کیا کارنامہ انجام دیا؟ ارشاد نقوی

khatam-e-nabuwat-justice-shaukat-siddiqui-raja-zafar-ul-haq-ghq

نوشتۂ دیوار کے خصوصی ایڈیٹر سیدارشاد نقوی نے کہا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی نے کہا تھا کہ ختم نبوت کیلئے احتجاج کرنیوالوں نے GHQ کے سامنے دھرنا کیوں نہیں دیا؟۔ اگر سازش فوج کی طرف ہوتی تو ریمارکس ٹھیک ہوتے۔
کمیٹی کا سربراہ راجہ ظفر الحق کہے کہ بہت ہوشیاری سے پارلیمنٹ میں ختم نبوت کیخلاف سازش ہوئی۔ اور اس کی رپورٹ بناکر نواز شریف کو دیدی مگر سوال فوج کے کردار پر اٹھایا جائے تو مناسب نہیں ہے۔
جسٹس شوکت صدیقی اگر صدیق اکبر حضرت ابوبکرؓ کی اولاد ہیں تو صداقت سے نواز شریف یا راجہ ظفر الحق کو طلب کرکے فوراً رپورٹ لیں اور ملوث لوگوں کو قرار واقعی سزا دے دیں تاکہ دوبارہ مسئلہ نہ اٹھے۔
ختم نبوت پر حقائق کو نظر اندازکیا گیا ، اگر اچھے ماحول میں ذمہ دار عناصر کے چہرے سے نقاب کھیچ لیا جائے تو عوام احتجاج نہ کریں مگر حکومت کو احساس نہیں۔
پارلیمنٹ میں 20ترامیم کا تعلق بھی عوامی مفاد کے خلاف تھا۔ 19ترامیم میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبروں کیلئے یہ ترامیم کی گئیں کہ الیکشن کے فارم سے ممبروں کے بارے میں تمام ضروری معلومات کا خاتمہ کردیا گیا۔عوام اور عدالت کو ان کی کانوں کان خبر تک نہیں ہوئی ۔ ختم نبوت کے مسئلہ پر مذہب کی وجہ سے شور ہوا تو باقی تمام جماعتوں نے اپنی بے خبری ظاہر کردی مگر اصل گھناؤنے جرم میں سب ہی شریک تھے۔ میڈیا میں پیپلزپارٹی کی رہنما سسی پلیجو نے حلف نامے کے حوالہ سے جمعیت علماء اسلام کے حافظ حمداللہ کی قرارداد پر اختلافِ رائے کو بڑا کریڈٹ قرار دیا تھا،مگر اس کو یہ رنگ دیدیا تھا کہ غیرمسلم کس طرح قرآن پر حلف لیں گے؟۔ ختم نبوت کے حلف میں ترمیم کی کوئی بات بھی ذکر نہیں کی گئی تھی۔
جب پارلیمنٹ ہی سازش کی آماجگاہ بن جائے اور عوام سے حقائق کو چھپایا جائے تو پھر کس پر اعتماد کیا جائے؟۔ ختم نبوت کا مسئلہ حل ہوگیا لیکن سازش کرنے والوں کو قرار واقعی سزا کیوں نہیں دی جارہی ہے؟۔ اور سازش نہیں کی گئی تھی تو راجہ ظفر الحق نے جھوٹ بولا تھا؟۔ سچ ٹی وی کے نصرت مرزا صاحب کو بھی راجہ ظفر الحق نے فون پر ختم نبوت کیخلاف سازش کا انکشا ف کیا تھا۔ جمعیت علماء اسلام، جمعیت علماء پاکستان، اہلحدیث، اہل تشیع اور جماعت اسلامی متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے ختم نبوت کیخلاف سازش کو بے نقاب کریں اور خادم حسین رضوی اور پیر حمیدالدین سیالوی کو بھی ساتھ لیکر چلیں تو روز روز سازشوں کے دروازے بند ہوجائیں گے۔ جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی کے فرزند فاروق حیدر مودودی نے محترمہ عاصمہ جہانگیر کا جنازہ پڑھایا ، جماعت اسلامی کے ادنیٰ کارکن پروپیگنڈہ کررہے ہیں کہ عاصمہ جہانگیر کا والد قادیانی تھا ،جنازہ پڑھانے والے کو اصل رشتہ داری کا پتہ ہوگا۔

مولانا فضل الرحمن کا سورج مکھی رومال چڑھتے سورج کا پجاری ہے. فیروز چھیپا

moulana-fazl-ur-rehman-feroz-chhipa-ptcl-dmg-commissioner-sargodha-corruption

نوشتۂ دیوار ڈئریکٹر فنانس فیروز چھیپانے کہاہے کہ قصور مولانا فضل الرحمن کا نہیں اس پیلے رومال ہے جوسورج مکھی کی طرح اپنے سر پر لپیٹا ہواہے، دماغ کو گھیرا ہواہے اور اس کوہر چڑھتے سورج کا پجاری بنادیا ہے۔ اب مولانافضل الرحمن مہربانی کرکے اس مخصوص شناخت سے اپنی جان چھڑائیں ۔اب مولانا الیاس قادری جیسے تنگ نظر جماعت کے بانی نے بھی اپنی محدود شناخت کا قصہ ختم کردیاہے جو دوسروں کو اس شناخت کی اجازت بھی نہیں دے رہے تھے، یہاں تک کہ سنی تحریک کو بھی ہری پگڑی پہنے سے منع کردیا تھا۔ میڈیا نے عوام کے شعور میں بہت اضافہ کردیا اور علماء کو چاہیے کہ اپنے عقیدتمندوں کو باشعور بنائیں۔ سیاست اور فرقوں کی بہت خدمت ہوچکی ہے اب دین کی بھی خدمت ہو۔
علماء کرام ، مفتیانِ عظام،مذہبی جماعتوں اور مشائخ عظام کا امت پر بڑا احسان ہے۔ دین اسلام کی جو شکل وصورت محفوظ ہے یہ انہی حضرات کا کرشمہ ہے۔ عوام میں ان کی قدرومنزلت کابڑا مقام ہے۔اپنے مقام کا ان کو خیال رکھنا چاہیے۔ کردار کا ایک اثر ہے جس کی وجہ سے قوموں کی تقدیر بدل جاتی ہے۔
جب بیوروکریٹ احد چیمہ کونیب نے گرفتار کیا تو پنجاب میں طوفان کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی۔ کیا نیب نے یہ پہلی مرتبہ کیا ہے؟۔ یا دوسرے صوبوں میں اس کا یہی معمول رہاہے؟۔ جو بلوچستان میں کروڑوں روپے بار بار دکھائے گئے تو احد چیمہ کی جائیداد کم گناہ ہے؟۔ باقاعدہ بینک ٹرانزکشن کیساتھ معاملہ تھا تو نیب کا ہاتھ ڈالنا قانون کی خلاف ورزی تھی؟۔ بلوچستان اور سندھ میں بھی یہ ہوتا رہاہے بلکہ اس سے بڑھ کر بہت کچھ ہوا۔
مولانا فضل الرحمن جمعیت علماء اسلام ف اورمتحدہ مجلس عمل کا امیر ہے، ن لیگ اور پیپلزپارٹی پر کرپشن کے الزامات سے اس کو خوش ہونا چاہیے تھا کہ مذہبی سیاسی جماعتوں اور اتحاد کیلئے یہ راہ ہموار ہورہی ہے لیکن بیوروکریٹ کی پکڑ پر پیٹ میں مروڑ کیوں اٹھا؟۔ سوشل میڈیا پر معلومات ہیں کہ مولانا فضل الرحمن کا ایک بھائی سرگودا پنجاب کا کمشنر ہے جو PTCLمیں ملازم بھرتی ہوا تھا، یہ قصہ سامنے لایا جائے کہ ٹیلیفون کے محکمہ میں جو لوئر گریڈ کا ملازم تھا وہDMGگروپ میں کیسے چلا گیا؟۔ اس طرح دوسرے بااثر سیاستدانوں اور افسروں کے رشتہ داروں کی بھی کوئی فہرست ہے یا یہ پیلے رومال اور سورج مکھی کا کمال ہے؟۔ غریب باصلاحیت تعلیم یافتہ طبقے کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا ان بے ضمیر لوگوں کا وطیرہ بن چکا ہے ، میرٹ کیلئے اٹھنا ہوگا۔
مولانا فضل الرحمن پرویز مشرف کے بلدیاتی انتخابات کو ہی ملک توڑنے کی سازش قرار دے رہا تھا، بائیکاٹ کے باوجود وہ الیکشن میں گروپ تشکیل دینے میں ملوث تھا۔ پھر اسکے ماموں کو ناظم کی حیثیت سے کھلے عام بڑی کرپشن پر پکڑا گیا اوراقتدار کا فائدہ اٹھاکر کیس کو ختم کروادیا گیا۔ مولانا فضل الرحمن پہلے اپنی سیاست کو پیغمبروں کی امانت قرار دیتا تھا اور دوسروں کو فرعون کہا کرتا تھا مگر اب ہرحکومت کے ساتھ ہوتاہے اور قصور اسکانہیں بلکہ سورج مکھی جیسے رومال کی اسکے سر پر گرفت ہے۔ قرآن کی آیات میں پیغمبروں کے مقابلے میں جن ملاء القوم کا ذکر ہے ان سے مراد قوم کے سردار اور مذہبی مشیرملاء ہیں۔ جب تک یہ لوگ درست راستے پر نہیں آتے ہیں قوم کی تقدیر نہ بدلے گی۔
اگر سیاستدان کہے کہ بیوروکریسی نے ملک کو کھالیا تو ہم کھا جائیں، فوج کہے کہ سیاستدان نے کھالیا تو ہم کھا جائیں، اور علماء ومذہبی طبقہ کہے کہ دوسروں نے کھالیا تو ہم کھا جائیں پھر ملک کا بنے گا کیا؟، غریب عوام اور بے بس طبقہ کہاں جائیگا؟۔ ملک میں چوری ہے اور سینہ زوری ہے جو جتنا بڑا چور ہے اتناہی اس میں زور ہے۔ نوازشریف کہتاہے کہ مجھے چور کہا گیا تو کیا تم بھول گئے کہ صدر زرداری کو کیا کیا نہیں کہا جاتاتھا؟۔ ایوان کے مہمان خانے میں جاؤ اور پارلیمنٹ میں جو تقریر کی تھی اسی کو واضح کرو، کوئی چور نہ کہے گا، عدالت کا مقدمہ بھی ختم ہوجائیگا۔
مولانا فضل الرحمن ہی دلائل کیساتھ حقائق کے تناظر میں جیو ٹی وی چینل پر شاہ زیب خانزدہ یا طلعت حسین کیساتھ اعداد اور شمار کیساتھ واضح کردے۔ صحافت، سیاست کیساتھ ملائیت بھی مل جائے تو نوازشریف کی صفائی نہیں دی جاسکتی ہے۔

محسود تحفظ موومنٹ کے قائد منظور پشتون کو وزیر اعظم بنایا جائے. اجمل ملک

mehssod-tahaffuz-movement-manzoor-pashtoor-wazeer-e-azam-malik-ajmal-jambhooriat-imran-khan-pervaiz

طاقتور راؤ انوار کو کنارے لگانے میں محسود قوم کا کردار

طالبان اور فوج کے درمیان چکی دو پاٹوں میں پسنی والی محسوداور پختون قوم نے نقیب اللہ کے بارے میں شروع سے احتجاج نہ کیا اسلئے کہ اس کی بے گناہی کا پتہ نہ تھا۔ پختون کی بڑی خوبی یہی ہے کہ محسود(پختون) تحفظ موومنٹ کی ابتداء اس بات سے کی کہ کسی گناہگار کو کسی طرح بھی تحفظ نہیں دینگے لیکن بے گناہ نقیب اللہ محسود کیلئے جب وہ اُٹھ گئے تو کراچی پولیس و ریاست اور حکومتی سیاسی جماعت کے سب سے بڑے ڈان کو کنارے لگادیا۔ اگر محسود قوم گناہگاروں کو تحفظ دینے میں اپنی صلاحیت ضائع کر دیتی تو نقیب کی شہادت پر بھی کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکتی تھی۔
صلح حدیبیہ میں جھوٹی افواہ آئی تو رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرامؓ سے حضرت عثمانؓ کی شہادت کا بدلہ لینے کی بیعت لی، یہ بیعت رضوان صحابہؓ سے اللہ کے راضی ہونے کا تمغہ تھا۔ پھر نبیﷺ نے صلح حدیبیہ کا معاہدہ کیا، جب مشرکین نے معاہدہ توڑ ا تو پھر اس معاہدے کو قائم رکھنے کی کوشش بھی کرلی مگر نبیﷺ نے دوبارہ اس معاہدے کو قائم رکھنے کا کوئی وعدہ نہیں فرمایا اور پھر مکہ فتح ہوا۔
امریکہ نے جنگ مسلط کی توافغانستان وپاکستان کی عوام ، پختون قوم، خاص طور پر قبائل نے قربانی دی ، بدلے میں عزت ملتی مگر اچھے نتائج تو درکنار اُلٹا بدترین ذلت سے بھی دوچار ہونا پڑا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا: و لنبلونکم بشئی من الخوف والجوع والنقص من الاموال والانفس والثمرات فبشر الصٰبرین’’اور ہم تمہیں آزمائیں گے، کچھ خوف سے، کچھ بھوک سے، کچھ اموال کی کمی سے اور جانوں کی کمی سے اور نتائج برآمد ہونے سے ،پس خوشخبری ہے صبر کرنے والوں کو‘‘۔ قبائل، پختون اور خاص طور پر محسود قوم کو جن آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا، اس کی تاریخ میں مشکل سے کوئی مثال ملے گی۔ لیکن جس صبر وتحمل سے محسود قوم نے وہ تمام مصائب برداشت کرلئے، خندہ پیشانی سے حالات گزار لئے، شکوہ نہ شکایت، کوئی بغاوت نہیں کی، کوئی اونچے بول نہیں بولے، ملک وقوم سے کوئی غداری نہیں کی، کبھی پیشانی پر بل نہیں آیا۔ قربانیوں کے نتیجے میں قوموں کو امام بنایاجاتاہے، یہی بشارت مشکلات کے بعد قوموں کو صبر میں ملتی ہے۔ آیت کو غور سے دیکھا جائے اور پھر محسود قوم کی قربانی کو ملاحظہ کیا جائے۔ علماء نے آیت کے ایک لفظ کا ترجمہ غلط کیا ۔ ثمرات سے مراد میوے نہیں، میوے اموال میں شامل ہیں بلکہ ثمرات اردو میں بھی اسی طرح سے استعمال ہوتا ہے، کسی اچھے عمل کا نتیجہ بظاہراچھا نہ ملے تو یہ ثمرات کا امتحان ہے۔اللہ نے فرمایا: ونرید ان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض ان نجعلھم ائمۃ وان نجعلھم الوارثین’’اور ہمارا ارادہ ہے کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنایاجارہاہے کہ ان کو امام بنائیں اور ان کو زمین کا وارث بنائیں‘‘۔علامہ اقبالؒ نے محسود اور وزیر کا ضرب کلیم میں ’’ محراب گل افغان‘‘ کے عنوان سے ذکر کیاہے، آزمائش کے بعد یہ امامت کے قابل ماشاء اللہ بن گئے۔
دینا پڑے کچھ ہی ہرجانہ سچ ہی لکھتے جانا
مت گھبرانا مت ڈر جانا سچ ہی لکھتے جانا
باطل کی منہ زور ہوا سے جو نہ کبھی بجھ پائیں
وہ شمعیں روشن کرجانا سچ ہی لکھتے جانا
پل دو پل کے عیش کی خاطر کیا جینا کیا جھکنا
آخر سب کو ہے مرجانا سچ ہی لکھتے جانا
لوح جہاں پر نام تمہارا لکھا رہے گا یونہی
جالب سچ کا دم بھرجانا سچ ہی لکھتے جانا

منظور پشتون اور نوازشریف و عمران خان میں بڑا فرق

منظور پشتون کا تعلق محسود قبیلے کے غریب گھرانے سے ہے۔غریب کا درد غریب سمجھ سکتا ہے۔ پاکستان کی جمہورعوام غریب ہے۔قومی اسمبلی اور سینٹ میں ممبروں کا تعلق امیراقلیت سے ہے۔ ایوب آفریدی کو ٹکٹ اسلئے نہ دیا کہ تحریک انصاف کا کارکن تھا بلکہ اپنے ٹکٹ کی خاطر خواہ قیمت ادا کی ہوگی ۔ نظریہ نہیں دولت اور سیاسی لوٹوں کی ہیرا پھیری سے ایوان چلتے ہیں اسلئے قوم کی تقدیر نہیں بدلتی۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے پارلیمنٹ کا دروازہ توڑا، پی ٹی وی پر قبضہ کرلیا، پولیس افسر کی پٹائی لگادی، تھانہ سے ساتھی چھڑ لے گئے ، یہی نوازشریف نے بھی عدلیہ کیساتھ کیا۔ مولانا سمیع الحق کو سینٹ کا ٹکٹ دینے سے مکر گیا تو حکومت کے فنڈز سے مزید27کروڑ روپے مدرسہ کو دیدئیے۔ یہ سینٹ کی سیٹ کی قیمت بڑھ جانے کے بعد سرکار کے فنڈز سے جرمانہ تھا۔
پارلیمنٹ میں گھوڑوں کے خریدو فروخت کی اصطلاح بالکل عام ہے۔ جمہوریت کے علمبردار گھوڑے تو ڈکٹیٹر شپ کی پیداوار گدھے ہیں۔ گھوڑے اور گدھوں کے ملاپ سے خچر بنتے ہیں۔ جس رہنما کی بنیاد جمہوریت ہو اور ڈکٹیٹر شپ کے ملاپ سے تنزلی ہوجائے تو وہ خچر ہے اور اگر اس کی ابتداء ڈکٹیٹر شپ سے ہو اور پھر ترقی کی منزل طے کرکے اس کا ملاپ گھوڑے سے ہو تب بھی وہ خچر بنتا ہے۔ نوازشریف اور عمران خان دونوں کا تعلق درمیانے درجے سے ہے۔ جنرل ضیاء الحق کی پیداوار کون تھا ؟۔ اور جنرل پرویزمشرف کے ریفرینڈم کا حامی کون تھا؟۔
خچر کی حیثیت انسانوں میں تیسری جنس کھدڑے کی ہوتی ہے۔ کھدڑی قیادت کا تجربہ ہوگیا۔ نوازشریف کو معلوم ہے کہ منظور پشتون اور اس کی قوم نے برسوں سے کن مشکلات کا سامنا کیا ہے؟ لیکن زبان سے کسی نے اُف تک بھی سنا ہے۔ نوازشریف کو اتنی سزا ہوئی ہوگی کہ جتنا کھدڑے کو ختنہ کرنے سے ہوتی ہوگی لیکن شور مچاکر زمین وآسمان کی قلابیں ملادی ہیں۔ یہی حال عمران خان کا بھی ہوگا۔ اگر پاکستان بھر سے منظور پشتون کی طرح قوم کا درد رکھنے والے غرباء کو قومی اسمبلی میں منتخب کرکے بھیج دیا گیا تو پاکستان کی 70سالہ تاریخ بدلنے میں دیر نہیں لگے گی۔
پاکستان کے تمام قومی و صوبائی حلقوں سے باشعور نوجوانوں کی منظم تحریک سے ایک ایسی قیادت مہیا کرنی ہوگی کہ ریاست کے فوائد غریب، مظلوم اور بے بس عوام تک پہنچ سکیں۔ عوام، سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں اور رہنماؤں کی اکثریت موجودہ سیاسی نظام اور خانوادوں سے بہت تنگ آچکے ہیں۔ کوئی متبادل کے بجائے وہی لوگ پارٹیاں بدل بدل کر پھر سیاسی اُفق پر نمودار ہوجاتے ہیں جس سے نجات کیلئے ایک ہی راستہ ہے کہ ہر جگہ منظور جیسے کوہی کامیاب کیا جائے۔
دنیا ہے کتنی ظالم ہنستی ہے دل دکھا کے
پھر بھی نہیں بجھائے ہم نے دئیے وفا کے
ہم نے سلوک یاراں دیکھا جو دشمنوں سا
بھر آیا دل ہمارا روئے ہیں منہ چھپا کے
کیونکر نہ ہم بٹھائیں پلکوں پہ ان غموں کو
شام و سحر یہی تو ملتے ہیں مسکرا کے
تا عمر اس ہنر سے اپنی نہ جان چھوٹی
کھاتے رہے ہیں پتھر ہم آئینہ دکھا کے
اس زلف خم بہ خم کا سر سے گیا نہ سودا
دنیا نے ہم کو دیکھا سو بار آزما کے
جالب ہوا قفس میں یہ راز آشکارا
اہل جنوں کے بھی تھے کیا حوصلے بلا کے

راؤ انوار بہانہ تھا مگر اصل نشانہ فوج کی کارگردگی ہی تھی

پاک فوج کے سپاہی بدلتے رہتے ہیں اور پاک فوج کی پالیسی بھی بدلتی رہی ہے۔ ایک وقت تھا کہ ریاست کی پالیسی یہ تھی کہ طالبان کو بہت رعایت دے رکھی تھی اور پھر سخت آپریش بھی ہوجاتا تھا۔ عوام کی سمجھ بات نہیں آتی تھی کہ وہ کریں تو کیا کریں؟۔ بہرحال ریاست اپنی حکمت عملی کو بہتر سمجھ سکتی ہے۔ وزیرستان کی عوام خاص طور پر محسود قوم نے اس سلسلے میں بہت مصائب کا سامنا کیا، قبائل میں پولیس کا نظام نہیں ، فوج کو اپنے فرائض انجام دینے پڑتے ہیں۔پختونخواہ کی حکومتوں میں اتنی صلاحیت بھی نہیں تھی کہ سیٹل ایریا میں پولیس کے ذریعے حالات کو کنٹرول کرتی، لیکن جب حالات قدرے بہتر ہوئے تب بھی عمران خان کی حکومت نے پولیس کے بجائے اپنی عوام کو فوج کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے۔ فوج چیک پوسٹوں پر چیکنگ کے دوران پولیس سے ذرا مختلف رویہ رکھتی ہے جو عادت سے مجبوری بھی ہے کیونکہ فوج پولیس جیسی بن جائے تو فوج نہیں۔
قبائل کو چوکیوں پر فوج کے سپاہیوں کی طرف سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاتھا تو وہ سمجھتے تھے کہ ہم اسکے مستحق ہیں، خود کش حملوں سے بچنے کی اسکے علاوہ کوئی تدبیر نہ تھی۔ البتہ حالات معمول پر آنے کے بعد قبائل کو درپیش مشکلات سے چھٹکارا دلانے کی ضرورت تھی مگرکسی نے اس احساس کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ عمران خان تو حکومت اور عوام سے اس طرح سے دستبردار ہوگئے تھے جیسے ریحام خان اورجمائماخان سے دست بردار ہوئے ہیں۔ کسی بھی روک ٹوک اور پرسان حال کا خیال کبھی نہیں آیا۔ محمود خان اچکزئی، مولانا فضل الرحمن اور اسفندیار ولی نے بھی کبھی حال تک نہیں پوچھا تھا۔ منظور پشتون کے اندر اپنی قوم کا درد اُٹھا۔ راؤ انوار کا بہانہ مل گیا لیکن اپنی جنگ کیلئے قانون اور دستور کے اندر رہتے ہوئے شرافت کیساتھ لڑنے کا اظہار کیا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے فوج کی شکایات حل کرنے کا وعدہ کرنے کے بجائے اپنا رونا شروع کردیا۔ آئی ایس پی آر نے جی ایچ کیو بلایا تو پاک فوج کے افسر نے کہا کہ ’’ ہمیں فوج سے معلوم ہوا ہے کہ تم لوگوں کی طرف سے کوئی دھرنا دیا گیا ہے اور وہاں دہشتگردی کے پیچھے وردی کا نعرہ بھی لگا ہے‘‘۔ نوجوانوں نے ملاقات کے بعد محسوس کیا کہ جب اسلام آباد میں کئی دنوں کے دھرنے کے باوجود بھی ہمارے حال سے پاک فوج بے خبر ہے تو وزیرستان اور پختونخواہ کے چیک پوسٹوں کا کیا حال معلوم ہوگا؟ اور پھر جب مولانا فضل الرحمن نے معصوم لوگوں کو سمجھایا تو امیرمقام کے کہنے پر بھی دھرنا ختم کیا۔
پاک فوج نے جب دیکھ لیا کہ اتنے مہذب طریقے سے اسلام آباد میں اپنا احتجاج نوٹ کروایا اور امیرمقام جیسے فارمی بیل کے کہنے سے احتجاجی دھرنے کو ختم کردیا تو جو رعایتیں مانگیں تھیں ،ان سب کو منظور کرنے کاپاک فوج کے ترجمان آئی ایس پی آر نے خود ہی اعلان کردیا۔جالب نے کہا
فرنگی کا جو میں دربان ہوتا
تو جینا کس قدر آسان ہوتا
مرے بچے بھی امریکہ میں پڑھتے
میں ہر گرمی میں انگلستان ہوتا
مری انگلش بلا کی چست ہوتی
بلا سے جو نہ اُردو دان ہوتا
جھکا کے سر کو ہوجاتا جو سر میں
تو لیڈر بھی عظیم الشان ہوتا
زمینیں میری ہر صوبے میں ہوتیں
میں واللہ صدر پاکستان ہوتا

منظور پشتون کا ٹکراؤ فوج کے بجائے نظام سے ہوگا

منظور پشتون نے سوشل میڈیا پر اپنے ابتدائی بیان میں کہاہے کہ ’’ ہم اپنی جنگ پاکستان کے دستور کے نیچے لڑیں گے، ہم کوئی بغاوت نہیں کررہے ہیں ، ہم ملک اور قوم کے وفادار ہیں‘‘۔ اس بیان کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاک فوج کو عام عدالتوں میں گھسیٹا جاسکتا ہے؟، راؤ انوار کو توعدالت نے طلب کرکے رکھا ہے لیکن اگر فوج کے خلاف شکایت کی جائے تو کیا عدالت اس پر مقدمہ دائر کرسکتی ہے؟۔ اس کا جواب یہی ہے کہ پاکستان کے دستور میں ایسی کوئی شق نہیں ہے۔
جب نصیر اللہ بابر کی سرپرستی میں فیصلہ ہوا کہ ایم کیوایم کے دہشت گرد عدالتوں سے چھوٹ جاتے ہیں اسلئے پولیس مقابلے میں ان کو ماردیا جائے۔ اس وقت کے آئی جی پولیس افضل شگری نے پولیس سے اس قسم کا غیر قانونی کام کروانے کی مخالفت کی۔ باقی ریاست کے تمام اداروں کی طرف سے اس فیصلے کی توثیق کردی گئی۔ جیو اور جنگ کے معروف صحافی مظہر عباس نے میڈیا پر یہ بتایا کہ ’’ اس آپریشن میں ایک فوجی افسر نے عوام پر بے جا مظالم کئے تو اس کا کورٹ مارشل ہوا۔ اور فوجی عدالت نے اسے پھانسی کی سزا دی اور اس سزا پر عمل در آمد بھی ہوا، اس کو پھانسی پر لٹکایا گیا ‘‘۔
جب قبائل اور پشتونوں کی یہ تحریک دستور کے مطابق مظلوم کی مدد کیلئے اٹھے گی تو پاک فوج کو بھی اسکے جائز مطالبات ماننے میں کوئی انکار نہ ہوگا۔ جب اس تحریک کے فوج سے تعلقات بہتر ہونگے تو فوج پوری قوم کو ریلیف دینے میں بالکل بھی دیر نہیں لگائے گی۔ پھر طالبان کی شکل میں بدمعاش مافیا پالنے کی ضرورت بھی نہ رہے گی۔ فوج کے سپاہیوں اور افسروں کاتبادلہ ہوتا رہتا ہے اور جب ایک قوم یا قبیلے میں دہشتگرد پائے جاتے ہوں تو ان کو اپنی حفاظت کیلئے انہی میں سے کچھ لوگوں کو رکھنا پڑتا ہے اور جو لوگ اس طرح سے کٹھ پتلی بنتے ہیں تو وہ اس کا فائدہ بھی اٹھالیتے ہیں۔ جب اس تحریک کیساتھ پوری قوم کا فوج سے اعتماد بحال ہوجائیگا تو پھر پاکستان کی سطح پر بھی ان کو امامت دینے میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوگی۔طالبان کی حمایت پوری قوم کررہی تھی مگر پختون اور عام طور پر قبائل اور خاص طور پر محسود قربانی کے بکرے بن گئے۔ بعض لوگوں کے دل میں فوج سے بغض تھا اور وہ پھر سے اس تحریک کو قربانی کا بکرا بنانا چاہتے تھے لیکن تحریک کی قیادت تعلیم یافتہ جوان اور اسکے باشعور ساتھیوں کے ہاتھ میں تھی اسلئے یہ نہ ہوسکا۔ محمود خان اچکزئی کا پورا خاندان حکومت کی مراعات لیتا ہے لیکن وہ محسود قوم کے غریب کو تباہ شدہ گھروں کیلئے 4لاکھ نہ لینے کا حکم دے رہاتھا۔ مولانا زر ولی خان کے احسن العلوم گلشن اقبال میں مولانا فضل الرحمن نے مدارس کے علماء وطلباء کے جلسے کئے لیکن حکومت کی امداد منع کرنے پرشیخ الحدیث مولانازرولی نے مولانافضل الرحمن کی خوب خبرلی۔خود حکومتی امداد کے پیچھے دُم اٹھانے والے دوسروں کو منع کرینگے تو یہی ہوگا۔
جانا ہے تمہیں دہر سے ایمان ہے اپنا
ہم آکے نہیں جائیں گے اعلان ہے اپنا
انسان سے جو نفرت کرے انسان نہیں ہے
ہر رنگ کا ہر نسل کا انسان ہے اپنا
تم امن کے دشمن ہو محبت کے ہوقاتل
دنیا سے مٹانا تمہیں ارمان ہے اپنا
کیوں اپنے رفیقوں کو پریشان کریں ہم
حالات سے دل لاکھ پریشان ہے اپنا
اس شاہ کے بھی ہم نے قصیدے نہیں لکھے
پاس اپنے گواہی کو یہ دیوان ہے اپنا

ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کے بعد عمران خان اسٹیبلشمنٹ کا تیسرا بچہ جمورا ہے. اشرف میمن

talibanization-bushraization-insaf-justice-zulfiqar-ali-bhutto-nawaz-sharif-imran-khan-bacha-jamura-ashraf-memon-khatm-e-nabuwat-sheikh-rasheed-blame-jali-peer-ticket-hand-cuff-jmaat-e-islamiنوشتۂ دیوار کے پبلشر اشرف میمن نے کہا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو جنرل ایوب خان نے دریافت کیا تھا، ایک ڈکٹیٹر کی گود سے بھٹونے جمہوری لیڈر نہیں ڈکٹیٹرہی بنناتھا۔ اس سے زیادہ ڈکٹیٹر شپ کیا ہوگی کہ جماعت اسلامی کے جان محمد عباسی کو اپنے مقابلے میں لاڑکانہ سے الیکشن کے کاغذات جمع کرنے پر اغواء کیا گیا تھا۔ بلوچستان کی جمہوری حکومت کو ختم کیا اور تمام سیاسی لیڈر شپ پر بغاوت کا مقدمہ کیا اور سب کو جیل میں ڈال دیاتھا؟۔ بھٹو حکومت کا خاتمہ ہوا تو مارشل لاء میں سیاسی قائدین کو رہائی مل گئی۔ڈکٹیٹر کی پیداوارنوازشریف نے زندگی ڈکٹیٹر کے مشن کیلئے وقف کردی اور ایسا ڈکٹیٹر بن گیاکہ اداروں کو بھی تباہ وبرباد کرنے کی دھمکی دے رہاہے۔ قصور نوازشریف کا نہیں بلکہ اس تربیت کا ہے۔
پاک فوج نے ذوالفقار علی بھٹو کو بنایالیکن پھر اس کی ڈکٹیٹر شپ سے نبرد آزما ہونے میں اپنی صلاحیتں خرچ کر ڈالیں تھیں اور ان کوششوں کے نتیجے میں پاکستان کا بیڑہ غرق کردیا۔ ایک طرف مسلح جمعیت طلبہ کے بگڑے ہوئے کارکنوں سے کالجزاور یونیورسٹیوں کا ماحول تباہ کردیا اور ساتھ میں جماعت اسلامی کو بھی بگاڑ کر تباہ کیا،دوسری طرف ایم کیوایم سے قتل وغارتگری کا بازار گرم کروایا، سندھ میں لسانی تنظیموں کو پروان چڑھایا۔ جبکہ اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے اسلام اور جمہوریت دونوں کو بدنام کرکے رکھ دیا تھا۔ پیپلزپارٹی اور جمہوری پارٹیوں کو کمزور کرنے کیلئے جن کٹھ پتلی جماعتوں کو استعمال کیا گیا، انہی کے سربراہ نوازشریف اب حلق میں پھنسی ہڈی بن چکے ہیں۔
نوازشریف کو اپنے جرائم اور کرپشن کی قرارِ واقعی سزا ملے گی اور اسکے اثاثہ جات بحقِ سرکار ضبط ہوں توببانگِ دہل کہے کہ
جن کی راہوں میں بچھادی تھی اپنی آبروئے عزت           parliment-all-parties-amendment-section-62-63-waive-juditiary-media-channels-justice-saqib-nisar talibanization-bushraization-insaf-justice-zulfiqar-ali-bhutto-nawaz-sharif-imran-khan-bacha-jamura-ashraf-memon-khatm-e-nabuwat-sheikh-rasheed-blame-jali-peer-ticket-hand-cuff-jmaat-e-islami ان ہی کی بے وفائی نے مجھے مار دیاذلت کی موت
نوازشریف نے گدھے کی طرح ڈاکٹر طاہرالقادری کو غار حرا کی پہاڑی پر اپنی پیٹھ پر لاد کر چڑھایا تھا، پیر حمیدالدین سیالوی وغیرہ کو عمران خان کی طرف سے وہ عزت و توقیر نہیں مل سکتی جو نوازشریف نے دی کیونکہ پیرنی کو توعمران خان نے بیگم بنالیا، اب اس کو پیرانِ پیر بناکر پسماندہ گدی نشینوں اور جعلی پیروں کو اکٹھاکرکے عمران خان کیلئے گراؤنڈ تیار کیا جارہاہے۔ پنجاب میں جعلی پیروں کا کاروبار عروج پر ہے اور اس کاروبار میں کردار کی کوئی اہمیت نہیں ۔ کوئی روپ دھار کے بیٹھ جائے تو نفسانی خواہشات پوری کرنے کیساتھ ساتھ اپنے عقیدتمندوں کی بھیڑ میں بھی بے پناہ اضافہ کرے۔ARY نیوز کی سرِ عام کی ٹیم نے بہت سی جگہوں پر چھاپے مارے ۔ اگر عمران خان کی بیگم بشریٰ بی بی کی سرپرستی میں ایک نیا کھلواڑ قوم کیساتھ ہوجائے تو تصوف کے نام پر ایک نیا فتنہ کھڑا ہوگا۔ شدت پسندوں اور جہادیوں سے جان چھڑانے کاعالمی منصوبہ ہو تو قوم کو آگاہ کیا جائے اور یہ نئی سردردی اور بدنامی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ فوج کے خفیہ اداروں کے پاس سب کچھ ہے مگر دماغ نہیں۔ سیاسی قیادتوں کی تشکیل اس بھونڈے طریقے سے ہوگی تو روز روز کے نئے نئے تجربہ سے ملک کا بیڑہ غرق ہوگا۔
ختم نبوت کے مسئلہ پر عمران خان کی جماعت شریک مجرم تھی لیکن کتنی بے شرمی سے نوازشریف کو اکیلا مجرم قرار دیا جارہا تھا؟ اور اس کمیٹی ، قومی اسمبلی اور سینٹ کا سب سے بڑا جرم یہ بھی تھا کہ ’’ الیکشن کے فارم سے چوری کا راستہ روکنے کی ساری شقیں ختم کردی گئی ہیں‘‘۔ شیخ رشید بار بار پکار رہاہے لیکن عمران خان بھیگی بلی بن گیا ہے۔ اگر قوم اُٹھ گئی کہ کیا جمہوریت اسلئے ہے کہ سیاسی پارٹیاں ایوانوں کو عیاشی اور تجارت کا ذریعہ بنائیں؟ اور گھوڑے، خچر اور گدھے راج کریں؟۔ عمران خان کو موقع مل رہاہے لیکن وہ بھی الیکشن کی ترامیم میں پوری طرح ملوث ہے۔
جس طرح بچیوں کے روزانہ کی بنیاد پر ریپ اور قتل ہورہے ہیں اور سیاسی قائدین اپنے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں ، کسی کو بھی ظلم وجبر کا نظام بدلنے کا خیال نہیں آرہاہے۔ اس کی بنیاد پر پوری قوم بغاوت کیلئے اٹھ کھڑی ہوگی تو معاملہ کسی سے بھی نہیں سنبھل پائیگا۔ قائد انہ صلاحیت والے آگے بڑھیں۔قائد بنایا نہیں جاتا بلکہ اللہ خود قائدپیدا کرتاہے ،بس قوم قدر کرے۔

پارلیمنٹ کی تمام جماعتوں نے متفقہ ترامیم کے ذریعے دفعہ 62-63 کو ختم کردیا. قدوس بلوچ

parliment-all-parties-amendment-section-62-63-waive-juditiary-media-channels-justice-saqib-nisar

عدالت ، پارلیمنٹ اور ٹی وی چینلوں نے ریاستِ پاکستان کو رجواڑہ بنا دیا اور قانون کی حکمرانی کے نام پر لاقانونیت کا طوفان اٹھا ہوا ہے۔ عوام کی آنکھوں کی بینائی ہی نہیں سوچ وفکر کی بنیادیں ہی ختم کردی گئیں ۔ سیاست کی دہلیز پرجھوٹ ، چوری ،تمام حربوں کو اپنا قانونی اخلاقی اور شرعی حق سمجھا جاتا ہے۔ تُف ہے جو کچھ ہورہا ہے اس پر ۔ سپریم کورٹ نے نواز شریف کو جماعت کی صدارت سے روکا تو نا اہل لیگ نے ش سے شیرلیگ کی قیادت ان کو سونپ دی ۔چشم بد دور! اقامہ کا الیکشن کے فارم میں ذکر نہ کرنے پر نااہل قرار دیا گیا تھا تو پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر الیکشن کے فارم سے ہی اس کو نکال باہر کیا ہے۔ اگر ثاقب نثار آج پھر نوازشریف کے وکیل بنے تو سپریم کورٹ میں کیس لڑینگے کہ وزیراعظم کیلئے نااہل قرار دینے کی بنیاد بھی اب نہ رہی لہٰذا پارٹی امارت نا اہل وزیر اعظم کیلئے اہل ہے۔ واہ واہ !

دعوت اسلامی اور تبلیغی جماعت میں کون رشید؟

tablighi-jamaat-dawat-e-islami-sabz-gumbad-molana-ubaidullah-sindhi-muttahida-majlis-e-amal-haji-muhammad-usman-talaq-in-quran

دار العلوم دیوبند کے اکابر نے پہلے فتویٰ دیا تھا کہ ’’لاؤڈ اسپیکر پر نماز و اذان نہیں ہوتی ہے‘‘۔ جس پر آج تک تبلیغی جماعت کے مراکز عمل پیراہیں۔ علماء کی طرف سے آہستہ آہستہ کھسک کھسک کر فتوے سے غیر اعلانیہ رجوع کیا گیا ۔ پہلے اس کو حرام قرار دیا گیا تھا، پھر مکروہ تحریمی قرار دیا گیا ، پھر مکرہ تنزیہی تک بات پہنچی اور پھر خلاف اولیٰ تک بات آئی۔ جس کی تبلیغی جماعت کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوئی۔ علماء و مفتیان اعلانیہ طور پر اپنی غلطی تسلیم کرتے تو تبلیغی جماعت نے بھی کوئی افیون نہیں کھایا تھا کہ اس صورتحال سے نکل نہ پاتے۔ تصویر پر علماء و مفتیان کا رویہ بھی قابل قدر انداز میں نہیں بدلا۔ پہلے علامہ سید سلیمان ندویؒ اور آزادؒ کو رجوع کرنے پر مجبور کیا گیا ، پھر ہوش آیا تو تجارت اور سفر کیلئے اجازت دی گئی ۔
اب صورتحال واضح طور پر ہماری کتاب ’’جوہری دھماکہ‘‘ سے بدل گئی تو پھر مولانا طارق جمیل نے بھی میڈیا پر آنا شروع کردیا۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ امیر تبلیغی جماعت حاجی عبد الوہاب صاحب بھی میڈیا کی زینت بنتے۔ دعوت اسلامی کے مولانا الیاس قادری انتہائی سیدھے سادے اور علم سے عاری انسان لگتے ہیں مگر جب ان کو تصویر کے بارے میں معلومات حاصل ہوئیں تو فوراً میڈیا پر آگئے اور اب ان کو پتہ چل گیا کہ احادیث میں سنت عمامہ سیاہ اور سفید رنگ کا بھی ہے تو وہ اپنی شناخت پر بضد رہنے کے بجائے تبدیل کرنے کے عملی مظاہرے پر آگئے۔
اہل تصوف کا یہ کمال ہوتا ہے کہ وہ دل کو شیشے کی طرح صاف کردیتے ہیں۔ جب کوئی حق بات ان کے سامنے آتی ہے تو اس کو فوری طور پر قبول کرلیتے ہیں۔ اہل کتاب میں یہود اہل علم تھے اور نصاریٰ اصحاف تصوف اور رہبانیت والے۔ قرآن میں یہود کے مقابلے میں نصاریٰ کو اسی لئے مسلمانوں کیلئے نرم گوشے والا قرار دیا گیا ہے۔ مولانا عبید اللہ سندھیؒ حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ کے مشن پر تھے اور درس نظامی کو خیر باد کہہ کر اُمت مسلمہ کو قرآن کی طرف متوجہ کرنا چاہتے تھے۔ مولانا سندھیؒ نے سورہ فاتحہ کے ترجمے کی تفسیر میں لکھ دیا ہے کہ جن پر اللہ کا غضب تھا وہ یہود تھے جن کے پاس علم تھا مگر عمل سے محروم تھے اور گمراہ سے مراد نصاریٰ تھے جن کے پاس علم نہیں تھا مگر عملی طور سے وہ گمراہی کا شکار تھے۔ حضرت سندھیؒ بریلوی مکتبہ فکر کو نصاریٰ کی طرح گمراہ اور دیوبندیوں کو یہود کی طرح وہ سمجھتے تھے جن پر اللہ کا غضب ہے۔ جو سمجھ بوجھ کے باوجود بھی قرآن کی طرف رجوع کرنے پر آمادہ نہیں ہورہے تھے۔ آج طلاق سے حلالہ کے بغیر رجوع کا مسئلہ ہے اور دیکھتے ہیں کہ حضرت مولانا سندھیؒ کی بات درست تھی یا نہیں؟۔
اگر تبلیغی جماعت کے دل اپنی جماعت کی محنت سے صاف ستھرے ثابت ہوئے اور انہوں نے پہلے قرآن کی آیات پر عمل کرکے حلالہ کے غیر فطری فعل کو ناجائز قرار دیا تو مولانا سندھیؒ کی بات غلط ثابت ہوگی اور اگر دعوت اسلامی نے قرآنی آیات کی طرف رجوع کرکے حلالہ کی لعنت کو ناجائز قرار دیا اور رجوع کی گنجائش قرآنی آیات کے مطابق عدت کے حوالے سے مان لی تو مولانا سندھیؒ کی بات ہو بہو 100%درست ثابت ہوگی۔ دعوت اسلامی اور تبلیغی جماعت کی منظم جماعتیں اتحاد و اتفاق اور وحدت کی منزل طے کرنے میں بہت آسانی کے ساتھ اُمت کی کشتی کو درست راستے پر گامزن کرسکتی ہیں۔
ہم نے سب سے پہلے جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ میں حاضری دی اور ایک خٹک صاحب کو اپنی کتابیں بھی دے دیں۔ مگر افسوس کہ خٹک صاحب نے فون اٹینڈ کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئر مین مولانا محمد خان شیرانی کے سامنے بھی بار بار طلاق و حلالہ کے حوالے سے گزارشات رکھیں مگر معاملہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ متحدہ مجلس عمل کی پہلی تشکیل بھی ہماری محنتوں سے ممکن ہوسکی تھی ورنہ کسی میں مختلف فرقوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کی جرأت بھی نہیں تھی۔ متحدہ مجلس عمل نے اگر اسلامی احکامات کے حوالے سے علماء و مفتیان کو اکھٹا کیا اور ان کی درست سرپرستی کی تو اسلامی انقلاب کا اچھے انداز میں آغاز ہوگا اور اگر مذہب کے نام پر سیاست اور مفادات کے چکر رہے تو سب کیلئے رسوائی کا خدشہ ہے۔ مولانا فضل الرحمن ذاتی طور سے مجھے جانتے ہیں اور جب ان پر کفر کا فتویٰ ایم آر ڈی کی وجہ سے لگا تھا تو اس کا دفاع میرے اشعار سے ہی ہوا تھا۔
جب علماء و مفتیان نے ہمارے مرشد حضرت حاجی محمد عثمانؒ پر انتہائی غلط اور گمراہ کن فتوے لگائے اور پھر ہمارے پاس بدلا لینے کا موقع بھی تھا اور مولانا فضل الرحمن نے بدلا لینے کی تلقین بھی کی تھی تب بھی ہم نے بدلا نہیں لیا پھر جب علماء و مفتیان نے حاجی عثمان صاحبؒ کے عقیدتمندوں کا اپنے عقیدتمندوں سے بھی نکاح کرنے کو ناجائز ، عمر بھر کی حرامکاری اور اولاد الزنا قرار دیا تب بھی ہمارا دامن انتہاء پسندی اور شدت پسندی سے داغدار نہیں ہوا۔ درشت لہجے میں بات تک نہیں کی البتہ مدارس کی مساجد میں جاکر فتوؤں کو چیلنج کیا ۔ اب جب حلالے کی ناجائز صورتحال پر وہ اپنے عقیدتمندوں کی عزتوں کو لوٹ رہے ہیں تو پھر لہجہ سخت سے سخت ہوتا جارہا ہے۔ اس کی ضرورت نہ رہے تو بہت اچھا رہے گا۔
مقتدر طبقات جس طرح سے پارلیمنٹ لاجز سے غریب بچیوں کی عزتوں کو لوٹنے والوں تک سب کو نظر میں رکھتے ہیں اسی طرح سے حلالہ کی لعنت کسی طرح بھی دوسرے جرائم سے کم نہیں ہے۔ جب اسلام کے نام پر اتنا بڑا فراڈ ہورہا ہے تو ہم قیامت میں اللہ کو کیا منہ دکھائیں گے؟۔ ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ قرآن میں بار بار یہ وضاحت موجود ہے کہ طلاق کے بعد باہمی رضامندی سے عدت میں رجوع ہوسکتا ہے ، عدت کی تکمیل پر بھی رجوع ہوسکتا ہے اور عدت کے عرصہ بعد بھی رجوع ہوسکتا ہے۔ صرف اس صورت میں دوسری جگہ شادی کا ذکر ہے جب میاں بیوی اور معاشرہ دونوں کو الگ کرنے پر باہوش و حواس مصرہو۔ جس کی بھر پور وضاحت قرآن کی آیات 229، 230البقرہ میں موجود ہے۔ یہ وہ صورت ہے کہ جب مسئلہ یہ نہیں رہتا کہ رجوع ہوسکتا ہے کہ نہیں بلکہ دونوں جدا ہونے پر بضد ہوں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عورت اپنی مرضی سے دوسری جگہ شادی کرسکتی ہے یا نہیں؟۔ شوہر عام طور سے حلالہ تو کرواتا ہے مگر اپنی مرضی سے طلاق کے بعد شادی نہیں کرنے دیتا۔ اس فطری مسئلے کو اللہ تعالیٰ نے حل کیا ہے۔ ایک ہی حدیث میں یہ ذکر ہے کہ نبی ﷺ نے رفاعہ القرظیؓ سے مرحلہ وار تین طلاقوں کے بعد جب عبد الرحمن القرظیؓ سے شادی ہوئی اور انہوں نے ایک دوسرے کو میاں بیوی کی طرح دیکھ بھی لیا جس میں یہ بھی ضروری نہیں تھا کہ پہلا شوہر دوبارہ بھی شادی پر راضی ہوگا اور اس میں بھی حلالہ کروانے کا کوئی تصور نہیں بنتا ہے۔ عتیق

دہشتگردی کا خاتمہ خلافت کے قیام سے ممکن ہے

dehshat-gardi-misaq-e-madina-mufti-rafi-usmani-zina-bil-jabr-daish-khilafat-daily-jang-newspaper

جب امریکہ نے پہلی مرتبہ اُسامہ بن لادن پر کروز میزائلوں سے حملہ کیا اور اس میں ڈیڑھ سو کے قریب پاکستانی بھی شہید ہوگئے تو اس وقت ہم نے اپنے ہی اخبار ماہنامہ ضرب حق کراچی میں اس کی شدید الفاظ میں مذمت اور سازش کو بے نقاب کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتا ، اسلام خلافت کے قیام کے بعد اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتا ہے ، پھر جزیہ کا مطالبہ کرتا ہے اور اسکے بعد جہاد کا مسئلہ آتا ہے۔ جب مدینہ منورہ میں خلافت کا قیام عمل میں آیا تھا تو میثاق مدینہ میں یہود بھی شامل تھے اور نصاریٰ بھی۔ منافق بھی اپنے سردار عبد اللہ ابن اُبی کی صورت میں موجود تھے۔ نبوت کا دعویٰ کرنے والا ابن صائد بھی مدینہ منورہ کی گلیوں میں کھلے عام بلا خوف و خطر گھومتا تھا۔
دہشت گردی کی بنیاد انتہا پسندی ہے ، انتہا پسندی انسان کی ذہنیت و فطرت سے ایک مخصوص ماحول کے نتیجے میں پروان چڑھتی ہے۔ جانور اور پرندوں میں بھی یہ غیرت ہوتی ہے کہ اپنی مادی کیساتھ کسی کو قابل اعتراض حالت میں دیکھ کر دہشت گردی پر اتر آتے ہیں۔ انسان کیلئے برداشت کی اس سے بڑھ کر کوئی بات نہیں ہوسکتی کہ اپنی زوجہ کو کسی دوسرے کے ساتھ کھلی ہوئی فحاشی کی صورت میں دیکھ لے۔ قرآن نے کھلی ہوئی فحاشی پر بیوی کو گھر سے نکالنے اور نکلنے کا مسئلہ واضح کیا ہے۔ اور عدالت میں لعان کی صورت پیش کرکے مقدمہ دائر کرنے کی تلقین کی ہے۔ انصار کے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ سے لیکر موجودہ دور تک ہم قرآن کی ان آیات کو عملی طور پر قبول کرنے سے گریزاں رہے ہیں۔ بد قسمتی سے جو لوگ قرآن کی واضح آیات کو بھی قابل عمل سمجھنے سے انکاری رہے ہیں وہ اپنی بیگمات حلالہ کیلئے بہت ہی بے غیرتی کے ساتھ خود ہی پیش کردیتے ہیں۔
جس دن قرآن کریم کی آیات کو توجہ سے پڑھنے کی کوشش کی اور معاشرے کی جان حلالے کی لعنت سے قرآن و سنت کے مطابق چھڑائی تو بہت معاملات حل ہوجائیں گے۔ عالم انسانیت کے سامنے مسلمانوں کا قرآن کیخلاف بالکل غیر فطری رویہ قطعاً قابل قبول نہیں ہے۔ صحابہ کرامؓ کی اکثریت نے اپنے خلاف گواہی دیکر اپنے اوپر حد جاری کروائی لیکن شدت پسندوں نے خود پر حد جاری کرنے کے بجائے دوسروں پر خودکش حملوں سے اسلام کو بدنام کردیا۔ مفتی اعظم مفتی محمد رفیع عثمانی سے میڈیا نے رجوع بھی کیا تھا لیکن خود کش حملوں کو حرام نہیں قرار دیا۔ آج علماء و مفتیان کا معاشرے میں بہت بڑا مقام ہوتا جب دہشتگردی کیخلاف ریاست کی طرف سے دُم اٹھانے سے پہلے یہ خود ہی مخلص نوجوانوں کو اسلام کا حقیقی آئینہ دکھادیتے۔ قرآن و سنت میں شرعی حدود کی وضاحت بالکل واضح طور پر موجود ہے۔ سورہ نور میں زنا کی حد 100کوڑے اور بہتان کی حد 80کوڑے واضح کئے گئے ہیں۔ سورہ نساء میں شادی شدہ لونڈی کی حد آدھی اور دوسری جگہ نبی ﷺ کی ازواج پر کھلی فحاشی کیلئے دوگنی ذکر کی گئی ہے، سورہ احزاب میں زنا بالجبر کی حد قتل اور حدیث میں سنگساری ہے۔ جس میں گواہ ضروری نہیں۔
رسول اللہ ﷺ نابینا صحابی عبد اللہ ابن مکتومؓ کی آمد پر چیں بہ جبیں ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ نازل ہوئی اور نبی ﷺ فرماتے تھے کہ مجھے اس کی وجہ سے ڈانٹ پڑی ہے۔ ایک شخص کو رسول اللہ ﷺ کی دعا سے بڑی دولت ملی تو اس نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا۔ نبی ﷺ نے اس کیخلاف کوئی جہاد نہیں کیا۔ رسول اللہ ﷺ کے بعد وحی کا سلسلہ بند ہوا ، حضرت ابوبکرؓ خلیفہ اول نے زکوٰۃ نہ دینے پر قتال کا حکم جاری کیا تو پہلے حضرت عمرؓ نے اختلاف کیامگر پھر ساتھ دیا۔ اہل سنت کے چاروں امام حضرت امام ابو حنیفہؒ ، حضرت امام مالکؒ ، حضرت امام شافعیؒ اور حضرت امام احمد بن حنبلؒ نے حکمران کی طرف سے زکوٰۃ زبردستی لینے اور اس پر قتال کرنے کو شرعاً ناجائز قرار دیا تھا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے مالک بن نویرہ کو قتل کرکے اس کی خوبصورت بیگم سے عدت میں ہی زبردستی شادی کرلی تو حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ کو مشورہ دیا کہ حضرت خالدؓ کو اس جرم میں سنگسار کیا جائے۔ لیکن حضرت ابوبکرؓ نے تنبیہ پر اکتفاء کیا کہ ہمیں خالدؓ کی ضرورت ہے۔
حضرت عمرؓ کے دور میں بصرہ کے گورنر حضرت مغیرہ ابن شعبہؓ کیخلاف زنا کی گواہی آئی۔ سنگسار کرنے کی روایت قرآن کی آیات سے منسوخ ہوچکی تھیں مگر اللہ کے اوامر میں سب سے زیادہ سخت حضرت عمرؓ کے دل و دماغ میں سنگساری کا سودا سمایا ہوا تھا۔ حضرت مغیرہؓ کی آزمائش نے اس غیر فطری سزا کو ہمیشہ کیلئے دفن کردیا۔ چار اماموں میں سے دو اماموں نے بے نمازی کو واجب القتل اور دیگر دو نے زدو کوب اور قید و بند کی سزا کا مسلک ایجاد کیا۔ یوں اسلام بتدریج اجنبی بنتا چلا گیا۔ خلافت کا قیام اگر مغرب کے کینیڈا میں بھی کسی علاقے میں قائم ہو تو پوری دنیا اسلامی نظام خلافت کی دلدادہ ہوجائے گی۔
ہم نے 1984میں جمعیت اعلاء کلمۃ الحق کے نام سے وزیرستان کے طلبہ کی ایک تنظیم بنائی تھی اور پھر 1991میں وزیرستان سے خلافت کے آغاز کیلئے روزنامہ جنگ کراچی ، لاہوراور کوئٹہ یا راولپنڈی میں ایک اشتہار بھی دیا تھا۔ کسی ایک ایڈیشن میں شائع نہیں ہوا تھا۔ پورے پاکستان سے تمام مکاتب فکر کے اہم اور بڑے علماء کرام نے تحریری شکل میں ہماری باربار تائید فرمائی ہے۔ یہ زبردستی اور جبر کا معاملہ نہیں ہے۔ القاعدہ سے نکلنے والے داعش نے اپنی خلافت کا قیام عالم اسلام کیلئے شروع نہیں کیا بلکہ دولت اسلامیہ عراق و شام کے نام سے ایک ریاست کے قیام کا آغاز کیا۔ جس پر القاعدہ سے ان کے اختلافات ہوئے۔
مدینہ میں خلافت کے قیام کیلئے کسی طور سے رسول اللہ ﷺ نے دہشتگردی کا کبھی تصور بھی نہیں دیا۔ القاعدہ سے نکلنے والے داعش اور طالبان کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عالمی اسلامی خلافت کے قیام کیلئے احادیث صحیحہ میں جو پیش گوئیاں کی گئی ہیں اس میں یہ بشارت بھی ہے کہ آسمان اور زمین والے دونوں کے دونوں اس سے خوش ہوں گے۔ یہ بھی یاد رہے کہ پیش گوئی میں مشرق سے اٹھنے والی جماعت کا بھی ذکر ہے اور مغرب میں خلافت قائم کرنے والی جماعت کا بھی ذکر ہے۔ طلاق و نکاح کے مسائل علماء و فقہاء نے جس طرح سے بہت غلط انداز میں الجھادئیے ہیں اگر ان کو سلجھادیا جائے تو بھی اسلامی انقلاب کیلئے کافی ہیں۔ مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام اور مفتیان عظام ہماری طرف سے تحریر کردہ کتابوں سے متفق ہیں یا خاموش ہیں اور خاموشی بھی نیم رضامندی ہے جو ہماری خوش بختی ہے۔ جب اکابر علماء و مفتیان طلاق سے رجوع پر قرآن کی واضح آیات کو سمجھ کر لوگوں کو فتویٰ دینا شروع کرینگے تو ہمارا لہجہ شیریں ہوگا۔