پوسٹ تلاش کریں

حور وں کا مذہبی جنون اور خواتین کا احساس کمتری

angels-heaven-women-hoor-molana-masood-azhar-javed-ahmed-ghamdi-molana-khalid-mehmood
دنیا میں خواتین کی اکثریت شوہرکی محبت میں بے حال رہتی ہے مگر سوکن کاخوف رہتا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ سے نبی کریمﷺ کی ازواج مطہرات امہات المؤمنینؓ تک سوکن سے خواتین متأثر رہی ہیں۔
یہ دنیا دارالامتحان اور آخرت کی کھیتی ہے۔ اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے، مرکے بھی چھین نہ پایا تو کدھر جائیں گے؟۔ حوروں سے خواتین کو کتنی تکلیف ہے؟ یہ تو وہ جانیں اور انکا کام جانے۔ کتنے صوفی حوروں کی تمنا میں راہب بن گئے، تبلیغی جماعت، دعوت اسلامی اور مذہبی لوگ قربانی پر قربانی دے رہے ہیں،جنت کی دیگر ساری نعمتیں بھی شاندار ہیں لیکن موٹی آنکھوں والی حوروں نے انہیں جنون کی حد تک پہنچادیا۔ نوجوان خوبرو جوان بیگمات کو پیشاب کی تھیلیاں قرار دیتے دیتے سال سال، ڈیڑھ ڈیڑھ سال کیلئے جماعتوں میں حوروں کی ادا پانے کی قیمت پر نکل جاتے ہیں۔ کوئی ذوق میں جسم پر بارود باندھ کر سمجھ رہاہے کہ نمرود کی آگ عبور کرکے جب دوسری پار پہنچیں گے تو حوروں کا بے تاب جھرمٹ استقبال کررہا ہوگا۔
اللہ نے فرمایاکہ ’’جو اس دنیامیں اندھا تھا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی ہوگا‘‘۔ حوروں کی اندھی محبت میں حقوق العباد کی دھجیاں اُڑانے والے نہیں سوچتے کہ دنیا میں اپنی بیگمات کے حق کا خیال نہیں رکھا تو ایسا نہ ہو کہ آخرت کی فضاء میں بھاگ رہے ہوں تونامراد مردوں کو اپنی بیگمات بھی چھوڑ دیں ۔ فرعون کی دنیاوی بیگم کا نکاح آخرت میں رسول اللہﷺ سے ہوگا۔ یہ نہ ہوکہ جو حوروں کے متلاشی ہوں ان کو حوروں کا ملنا تو کجا اپنی بیگمات سے بھی ہاتھ دھونا پڑ جائیں۔ جن خواتین میں فطری غیرت ہو اور نیک وبد کی درمیانی زندگی گزاری ہوں تو ان کا مقام بھی وہاں پر اعراف ہوسکتاہے۔
حضرت آدم علیہ السلام جنت میں اپنی ہم جنس حضرت حواء کے بغیر حوروں کی جھرمٹ میں بھی پریشان تھے۔ جنس کے معانی ہم نسل کے بھی ہیں، منطق میں انسان بھی حیوان کی جنس ہے، اردو زباں میں خواتین ومرد کیلئے الگ الگ جنس کا تصورہے مگر حقیقت کی زباں میں انسان ایک جنس ہے جس میں مردو خاتون شامل ہیں۔ جاوید غامدی نے اپنی صلاحیت کو استعمال کرکے قرار دیا کہ حور کا الگ سے وجود نہیں بلکہ دنیا میں موجود خواتین کو قرآن میں حور کہا گیا۔ حالانکہ یہ غلط ہے کیونکہ حوروں کی صفات بیان کی گئیں ، یہ بھی ہے کہ کسی آنکھ نے ان کو دیکھا تک نہیں ہوگا تو جاوید غامدی کی مجلس میں ٹی وی اسکرین پر نمودار ہونے والی خواتین کیسے وہ حوریں ہوسکتی ہیں؟۔بڑی آنکھوں والی خیموں کی زینت ہوں گی۔
اسلام دین فطرت ہے، اگر خواتین کو یقین ہوجائے تو زنجیروں سے باندھ کر کرینوں کی مدد سے بھی ان کو جنت میں ڈالنا مشکل ہوگا۔ وہ سب کچھ برداشت کرسکتی ہیں مگر اپنی ایسی سوکنیں برداشت کرنا انکے بس کا کام نہیں ۔ مفتی نظام الدین شامزئی کے مرید مولانا خالد محمود مجلس علمی لائبریری جمشید روڈ کے منتظم تھے۔ نماز کی امامت کیلئے کوشش کے باوجود آگے نہیں ہوتے تھے۔ ایک دن مجھے کہا کہ میں اللہ کی ذات اور اسلام کا منکر بنا ہوں، میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ ایک سائنس کی کتاب پڑھی ہے جس میں جہاد کی جگہ اب روبوٹ نے لی اور قرآن میں ہے کہ سورج کا سفر جاری ہے جبکہ سائنس نے ثابت کیا کہ زمین ہی اپنے گرد اور سورج کے گرد گھومتی ہے اور معاملات سارے الٹے ہوگئے۔ جس نے سائنس اور اسلام کے حوالہ سے’’ پاکستان اور جدید دور کے تقاضے ‘‘ لکھے ، وہ ایم اے تھا جو سائنس اور اسلام دونوں سے بالکل جاہل تھا۔
بہرحال میں نے مولانا خالد محمود سے کہہ دیا کہ اگر آخرت نہیں، آپ محض ایک مادہ ہو پھر آپکے قتل سے بھی کوئی فرق نہ پڑیگا؟، اس نے کہا کہ میری تو یہی دنیا ہے، اگر یہ بھی خراب ہوگئی تو میرے ساتھ ظلم ہوگا۔خواتین حوروں کی باتیں سنتی ہیں تو اکثریت سمجھ رہی ہے کہ ان کی یہی دنیا ہے، جنت میں کیا بنے گا؟۔ مولانا خالد محمود کو میں نے فوری طور سے بتادیا کہ آپ نے جس کتاب کا مطالعہ کیا اس کا علم سے تعلق نہیں ۔ قرآن میں سورج کے جس سفر کا ذکر ہے ، سائنس اس کی قائل ہے،اسلئے کہ کائنات تسلسل کیساتھ سفر میں ہے تو سورج بھی اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ پھروہ مطمئن ہوگئے اور کہا کہ میں نماز پڑھ رہا ہوں اور آپ قیامت میں گواہی دینا کہ میں اسلام پر ایمان رکھتا تھا۔ میں نے کہا: آپ نماز نہ بھی پڑھیں تو بھی آپکے اسلام کی گواہی دوں گا۔ نبیﷺ نے اس کا جنازہ پڑھانے سے انکار فرمایا جسکے ذمہ قرضہ تھا۔ اور جس پر حقوق العباد کا معاملہ نہ تھا لیکن نماز، روزہ، حج اور دیگر احکام کا کوئی عمل کسی نے نہ دیکھا تھا اور ایک آدمی نے گواہی دی کہ وہ مسلمان تھا اور ایک رات اس نے جہاد کے دوران بھی چوکیداری کی ہے تو نبیﷺ نے نہ صرف اسکا جنازہ پڑھایا بلکہ جنت کی خوشخبری بھی سنادی کیونکہ حقوق العباد کی شکایت نہ تھی ۔
میری بات سن کر مولانا خالد محمود زار وقطار رونے لگے اور کہا کہ رسول اللہﷺ کتنی عظیم شخصیت کے مالک تھے، ایک موقع پر اونٹ کی رسی اٹک گئی اور اونٹ مشکل سے نظر آیا تو کچھ نے مذاق اڑایا کہ ’’ نبیﷺ کوکس طرح سات آسمانوں سے عرش کی خبر ملتی ہے اور یہاں قریب میں اونٹ کا پتہ نہیں چلتا‘‘۔ اس وقت آپﷺ چاہتے تو ان لوگوں سے سخت انتقام لیتے کیونکہ آپ ﷺ کے صحابہؓ ہر بات مان لیتے تھے مگر نبیﷺ نے درگزر سے کام لیا۔ کہاں نبیﷺ کی عظیم شخصیت ،کہاں انبیاء کے وارث کہلانے والوں کا اخلاق اور بدترین رویہ؟۔ یہ علماء ومفتیان آخرت کا یقین نہیں رکھتے، بس اپنی دنیا بنانے کیلئے مذہب کا لبادہ اوڑھ رکھاہے، کہیں اور مفاد مل جائے تو اسکے پیچھے جائیں گے۔ مولانا خالد محمود نے جن اشکبار آنکھوں سے رسول اللہﷺ سے اپنی محبت کا اظہار کیا تھا ، اس نے علماء حق کے ارواح کو بے چین کردیا اور ان کا بلاوا آگیاتھا اور شہادت حق کی منزل پر فائز ہوگئے تھے۔
مسلمان خواتین مطمئن رہیں کہ حوروں سے ان کو قطعی طور سے کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ کیونکہ جنسی تعلق آدم زاد کا صرف آدم زاد سے قائم ہوسکتاہے۔ فقہ حنفی کے اصول کی کتاب ’’نورالانوار‘‘ میں لکھاہے کہ انسان کا ہم جنس کے علاوہ کسی سے نکاح جائز نہیں ۔ جنات اور سمندری انسانوں سے نکاح کرنا شریعت میں جائز نہیں۔ جنات سمندری مخلوق کے مقابلہ میں الگ ہیں، اصول فقہ میں سمندری انسان بحری مخلوق ہے لیکن عام انسان کی طرح ہے ۔
جب ہمیں مولانا بدیع الزمانؒ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں اصول فقہ پڑھارہے تھے تو بتایا کہ ایک شخص سمندر کے کنارے کھڑا دیکھ رہا تھا کہ اچانک سمندری آدمی نمودار ہوا، جس کو اس نے پکڑلیا۔ ابھی پکڑ رکھا تھا کہ سمندر سے ایک عورت بھی باہر نمودار ہوگئی۔ اس کو بھی پکڑ نا چاہا کہ مرد بھی ہاتھ سے چھوٹ گیا ، اور وہ عورت بھی پکڑنے سے پہلے سمندر میں کود گئی اور غائب ہوگئی۔ اس وقت ہمیں یقین آیا اور تمنا بھی پیدا ہوئی کہ یہ منظر نظر آجائے۔
تحقیقاتی اداروں نے سمندر کی کھوج لگائی مگر سمندری انسان کا وجود نہیں جو فقہاء کی خواہشات نے تراش رکھاتھا آج مدارس میں پڑھایا جاتاہے کہ سمندری انسان سے شادی جائز نہیں اسلئے اس کی جنس دوسری ہے۔
جانور، پرندے اور درخت کی فیملی اور جنس میں قدر مشترک ہو تو تعلق قائم ہوسکتا۔حوروں کا کام رونق ، جلوہ ،انسیت اور کھیل تماشہ ہے حوریں آدم زاد نہیں،ان سے جنسی تعلق قائم کرنا شریعت کیخلاف نہ ہو تو انسانی فطرت کیخلاف ضرور ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ مرد جب حوروں سے جنسی تسکین حاصل کرینگے تو کیا خواتین غلمان سے چشم پوشی کرسکیں گی؟۔ اسلئے غیرت کا تقاضہ ہے جو اللہ نے خواتین کی فطرت میں بھی ڈالا ہے کہ حوروں اور غلمان سے جنسی تسکین کا گمان نہ رکھاجائے بعض بے غیرت و بدفطرت قسم کے ملاؤں کو غلمان سے غیرفطری حرکتوں کی خواہش بھی رہتی ہے۔ جسکاپشتو کے نامور شاعر غنی خان نے ذکر کیا۔ جب جنت کے درست تصورات کا علم ہوجائیگا تو بعید نہیں کہ دنیا میں حالات سدھارنے کیلئے مذہبی طبقات ٹھیک سمت سفر کرنا شروع کریں اور بہت بڑا اسلامی انقلاب برپا ہوجائے۔
مولانا امیر بجلی گھر جمعیت علماء اسلام کے صوبائی نائب امیر تھے مگر مایوس ہوگئے تھے۔ مجھ سے کہاکہ ’’ آپ جوان ہیں ، جوانی میں خون کا جوش کام کرنے کا ہوتاہے، آپ اچھی سمت محنت کرتے ہیں مگر دوسروں کا اتحاد تو بہت دور کی بات ہے، مولانا سمیع الحق و مولانا فضل الرحمن کو بھی اکٹھا نہ کرسکوگے‘‘۔ انہوں نے خطاب میں کہا کہ ’’ افغانستان میں صحابہؓ کے مزاروں کو روس نے تباہ کیا تواللہ نے روس کو تباہ کردیا، عراق میں اہلبیت کے مزارات امریکہ تباہ کررہاہے، اللہ امریکہ کو تباہ کریگا، عراق کی پیٹھ پرعبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ لڑ رہے ہیں، امریکہ نہیں جیت سکتا‘‘۔ میں نے لکھ دیا کہ بجلی گھر مولانا دیوبندی ہیں مگر عقیدہ بریلویوں کاہے۔ بریلویوں کا عقیدہ درست ہورہاہے اور بڑے مولانا کا عقیدہ خراب ہے اور جہاد کا حکم اللہ نے زندوں کو دیا ہے ، مولانا اس کو مردوں کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں، جب تک ہم درست اسلام کی طرف نہ آئیں ہمارے ملکوں کو غیروں کی دسترس سے بچا نہیں سکیں گے۔درسِ نظامی میں فقہ حنفی والوں کے اصول اچھے ہیں مگر کم عقلوں کا قبضہ ہے۔ کعبہ میں 360بتوں کے مجسمے رکھ دئیے ہیں۔ جس دن اصول فقہ کے اصولوں اور قرآن وسنت کے مطابق ایک فضا قائم کی گئی تو مدارس کے علماء ومفتیان ملت کی سیاسی باگ ڈور بھی سنبھالیں گے مگر ضروری ہے کہ نصاب سے اقسام و انواع کی غلطیاں نکال لیں۔ علماء کے بدلنے کی دیر ہے ، پھر انقلاب کا ترانہ گایا جائیگا۔ اگر میں شیعہ، بریلوی ، اہلحدیث ہوتا تو پذیرائی ملتی مگر علماء دیوبند کا میرے ساتھ سلوک وہ رہاجو یزید کاحضرت حسینؓ کیساتھ تھا۔ ہندو شاعرہ دیوی روپ کمار نے کہا کہ
بے دین ہوں ، بے پیر ہوں
ہندو ہوں ، قاتلِ شبیرؑ نہیں
حسینؑ اگر بھارت میں اُتارا جاتا
یوں چاند محمدؐ کا ، نہ دھوکے میں مارا جاتا
نہ بازو قلم ہوتے ، نہ پانی بند ہوتا
گنگا کے کنارے غازیؑ کا علم ہوتا
ہم پوچا کرتے اُس کی صبح و شام
ہندو بھاشا میں وہ بھگوان پکارا جاتا

قرآن کا غلط ترجمہ و تفسیر فرقہ واریت کی بنیاد ہے. محمد منیر مُلا

qatar-nawaz-sharif-ashraf-ali-thanvi-ahmad-raza-khan-barelvi-surah-fatah-syed-atiq-ur-rehman-gailani

کراچی نمائندۂ نوشتہ دیوار محمد منیر ملا نے کہا کہ قرآن کا غلط ترجمہ و تفسیر فرقہ واریت کی بنیاد ہے عرصہ ہوا کہ میڈیا متضاد بیانات، شواہد اور ججوں کے فیصلے و ریمارکس سے وزیراعظم نوازشریف اور اسکے خاندان کی دھجیاں اڑا رہا ہے، پانچ ججوں نے متفقہ طور سے آزادنہ ٹرائیل کا موقع دینے کے بعد نااہل قرار دیدیا مگر اپنا کوئی گناہ ماننے کیلئے وہ تیار نہیں ہیں، پھر کیسے نبیﷺ کے بارے میں یہ تصور مانا جائے کہ اللہ نے اگلے پچھلے گناہ کا کہا؟۔ بریلوی مکتب کے علامہ غلام رسول سعیدیؒ نے مولانااحمد رضا خان بریلویؒ کے ترجمہ سے اختلاف کیا تو مفتی شاہ حسین گردیزی نے اس پربڑی کتاب لکھی۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ کواس ترجمہ پر کافر قراردیاگیا مگر پھر بریلوی مکتب کا آپس میں بھی اس آیت کے ترجمہ پر شدید اختلاف سامنے آیا۔ رسول ﷺ کی طرف گناہ کی نسبت اور آپﷺ کے والدین پر گناہ کی تہمت غلط ہے۔ قرآن کا درست ترجمہ و مفہوم فرقہ واریت کاحل ہے۔ قرآن کے مفہوم پرنبیﷺ کی ذات اور والدین کریمین پر فرقہ واریت، انانیت، خود غرضی کا مظاہرہ کرنے سے بڑی گمراہی کیاہوسکتی ہے؟ ۔ حضرت جنید بغدادیؒ نے تو اپنی شہرت، دولت اور بادشاہ کی قربت کی قربانی دیکر ایک سید کو جتوایا تھاجسکے گھر کی ضروریات نہیں چل رہی تھیں تو بڑی ولایت مل گئی۔ سید عتیق الرحمن گیلانی اپنی ذات کیلئے نہیں بلکہ لازوال قربانیوں کی تاریخ رقم کرکے اس قرآن کی دعوت دے رہا ہے جو عزت کا لٹیرا نہیں محافظ ہے۔ جس سے دور ہوکر مسلم اُمہ خوار ہوگئی ہے، قومی ایکشن پلان پر عمل کی غرض سے حکومت، عدلیہ اور فوج مل کر اکابر علماء سے نکاح، طلاق، حلالہ اور قرآن کے ترجمے پرصرف تفتیش کر لیں۔ صوبائی حکومتیں بھی یہ کام کرسکتی ہیں ۔اسی سے تعصبات اور جہالتوں کا خاتمہ ہوگا۔
علماء ومفتیان، مذہبی سیاسی جماعتوں کا ہی یہ کام تھا مگران کو فرصت نہیں ملتی ہے، جب فرقہ وارانہ تعصب نہ رہے گا تو علماء سیاسی پلیٹ فارم پربھی اکٹھے ہوسکیں گے، حکمران کرپشن میں ڈھیٹ ہیں، اکابر علماء جہالت پر ڈھیٹ ہیں، دونوں اپنا کردار اور نظریہ ٹھیک کریں۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی نے حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ’’ دجال سے زیادہ خطرناک چیز حکمران اور لیڈر ہیں‘‘۔ (علامات قیامت و نزول مسیحؑ : مفتی رفیع)
مولانا فضل الرحمن نے حضرت ابوبکرؓ سے منقول رسولﷺ کی حدیث طالبان اور انکے امیر پرفٹ کی تھی، خراسان سے دجال اور اسکے لشکر کا حدیث میں ذکرہے، لیکن اگر ملا عمرخراسان کا دجال اور طالبان اسکا لشکر تھا تو کیا حکمران اور علماء کے کردار کو حدیث کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت نہیں ؟۔ خراسان سے ایک مہدی نکلنے کا بھی ذکر ہے، بعض علماء نے ملاعمرؒ کو مہدی قرار دیاہے۔ ایک ایسے اسلامی انقلاب کی بھی نوید ہے جس میں زورو جبر کا تصور بھی ختم ہوگا۔ قرآن وسنت کا حقیقی خاکہ دنیا کے سامنے پیش ہوجائے تو پاکستان کو یہ سعادت مل سکتی ہے۔
حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ نے اپنی کتاب ’’ عصر حاضر حدیث نبویﷺ کے آئینہ‘‘ میں علماء، مفتیان، عوام، حکام سبھی کی تصویر پیش کردی ہے۔ مولانا یوسف لدھیانویؒ ختم نبوت کے مرکزی رہنما بھی تھے اور جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے ماہنامہ البینات کے مدیر بھی تھے۔ جن علماء و مفتیان نے حاجی عثمانؒ پر فتوے لگائے ، ان میں مولانا یوسف لدھیانویؒ کا نام بھی شامل کیا گیا تھا۔ حاجی عثمانؒ نے اپنی وفات سے پہلے سید عتیق الرحمن گیلانی کو وصیت کی کہ مولانا یوسف لدھیانوی کا مؤقف ضرور پوچھ لینا۔ مولانا یوسف لدھیانویؒ کے پاس ہمارا وفد گیا تو انہوں نے بات ٹالنے کی کوشش کی مگر جب سید گیلانی نے فتوے پر شرعی نکتے سے تنقید کی تو مولانا لدھیانویؒ نے فرمایا کہ ’’میں نے یہ نہیں لکھا، مفتی جمیل خان نے لکھ کر میری طرف منسوب کیا، مجھے حاجی عثمانؒ سے بڑی عقیدت ہے، انکے طفیل اپنی مغفرت کی دعا کرتا ہوں، یہ ساری مفتی رشید لدھیانوی کی خباثت تھی، جس طرح امام مالکؒ کا نام دنیا میں روشن ہے اور ان پر فتوے لگانے والوں کو کوئی نہیں جانتا، اسی طرح حاجی عثمانؒ کا نام زندہ رہے گا اور فتوے لگانے والے تاریخ سے مٹ جائیں گے‘‘۔ مولانا یوسف لدھیانویؒ نہ صرف خود بلکہ اپنے دامادوں کو بھی حاجی عثمانؒ کے مزار پر لے جایا کرتے تھے۔
حاجی عثمانؒ پر فتوے میں سب زیادہ جاندار اعتراض یہ تھا کہ ’’ نبیﷺ کی طرف منسوب اس حدیث کا انکار کیا ہے جس میں حضرت عائشہؓ نے آپﷺ سے عرض کیا تھا کہ اللہ نے آپکے اگلے پچھلے گناہ معاف کئے تو اتنی مشقت کیوں کرتے ہیں؟۔جس پر نبیﷺ نے فرمایا کہ’’ کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں‘‘۔ حاجی عثمانؒ نے مشاہدات دیکھنے والے خلیفہ سے کہاتھا کہ اس حدیث کے بارے میں رسول اللہﷺ سے پوچھ لو۔ خلیفہ ابراہیم نے بتایا کہ ’’رسول ﷺ نے فرمایا کہ حدیث تو میری ہے لیکن الفاظ میں ردو بدل ہے‘‘۔ ان الفاظ میں بنیادی بات رسول اللہﷺ کی طرف گناہ کی نسبت تھی اور یہ الفاظ قرآن کی آیت کا ترجمہ کرکے لئے گئے تھے۔ حاجی عثمانؒ کو گناہ کی نسبت کا معاملہ رسول اللہﷺ کی طرف قبول اسلئے نہیں تھا کہ پھر معصومیت پر اثر پڑتاتھا۔ اس حوالہ سے اہل علم کے ترجمے اور تفاسیر میں بھی زبردست بحث کی گئی ہے۔ حاجی عثمانؒ کو سید عتیق الرحمن گیلانی نے ہی ایک موقع پر بتایا کہ یہ قرآن کی آیت ہے اور اس کی مختلف توجیہات بیان کی گئی ہیں۔حاجی عثمانؒ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہتاہے کہ یا موسیٰ مگر ہم تو ادب سے نام لیں گے۔ حاجی عثمانؒ نے جو مؤقف اپنایا تھا وہ اکابر علماء کی مستند کتابوں میں بھی موجود تھا۔
یہ مسلم اُمہ کیلئے کتنی بڑی خوشخبری ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے قرآن کا فارسی میں ترجمہ کیا تو ان علماء ومفتیان نے کفر اور واجب القتل کے فتوے لگائے جو فارسی میں نماز پڑھنے کو امام ابوحنیفہؒ کی طرف سے نہ صرف جائز بلکہ عربی سے زیادہ مناسب قرار دے رہے تھے۔ اپنے نصاب کو ہی نہ سمجھنے والوں نے شاہ ولی اللہؒ کیلئے مشکلات پیدا کردی تھیں۔آج شاہ ولی اللہؒ کے مشن پر فخر کیا جاتا ہے اور دنیا کی بہت سی زبانوں میں قرآن کے تراجم عام ہیں۔ پھر اردو میں ترجمہ کیا گیا توسورۂ فتح کی اس آیت کا ترجمہ فرقہ وارانہ تعصبات و مسلکی اختلافات کو ہوا دینے کا ذریعہ بنا اور آج سید عتیق الرحمن گیلانی کی طرف سے ایسا ترجمہ جو سیاق وسباق کے مطابق ہے۔ جس پر کسی فرقے، مسلک ، جماعت اور کسی بھی نظرئیے کا کوئی بھی آدمی اختلاف نہیں کرسکتا۔ کیا اس کاوش کا یہ نتیجہ نکلنا چاہیے کہ جس طرح شاہ ولی اللہؒ دوسال تک قتل کے خوف سے روپوش رہے اور جاہل قتل کرنے کے درپے رہے؟۔کیا عتیق گیلانی بھی چھپتے پھریں؟۔ جو لوگ آپ پر بزدلی کا الزام آج لگارہے ہیں تو مشرکین مکہ کے جاہل ابولہب، ابوجہل وغیرہ نے بھی تو نبیﷺ پر اس طرح ہجرت کے حوالہ سے یہ الزامات لگائے ہونگے؟،کون کس کی راہ پر چل رہا ہے؟۔ ضلع ٹانک کے تمام اکابر علماء کرام نے تحریری اور جلسۂ عام میں تائید کی ، مولانا نور محمد وانا اور مولانا معراج الدین کو کیوں شہید کیا گیا؟۔
اللہ کا شکر ہے کہ ہر مکتبۂ فکر کے اکابر علماء سے لیکر اصاغر تک نے دل و جان سے ہمارے مشن کی تائید کردی جس پر الگ سے کتابچہ مرتب ہوسکتاہے، اخبار ضرب حق میں جو سرخیاں لگتی تھیں، اس نے تاریخ کا دھارا بدل دیا ۔سید گیلانی کی ہمت اتنی ہے کہ جب انکے تعاقب میں گھر پر دجالی لشکر نے حملہ کرکے13افرادکو شہید کیا تو اطلاع ملتے ہی فیصلہ کیا کہ میدان میں نکلے مگر بھائی نے منع کیا اور پھر اسی وقت تسلی دیتے ہوئے کہاکہ اب تو خلافت قائم ہو گی۔ جواب میں کہاگیا کہ اب ایسی خلافت کو کیا کرینگے؟۔ اپنے ساتھیوں کے پاس خود ہی مختلف علاقے میں گئے۔ ملاقات میں میرے رونے پر تسلی لینے کے بجائے تسلی دینے کے انداز میں فرمایاکہ’’ عورتیں روتی ہیں، مرد نہیں رویا کرتے‘‘۔ اتنے بڑے حادثے کے بعد دوبارہ سب کو چیلنج کرنے کی ہمت اللہ کا بڑافضل ہے۔ دین خیر خواہی کا نام ہے۔ شاہ صاحب ان مظلوموں ، بے کسوں اور فریاد کرنے والے بے بسوں کی آواز ہیں جن کو کوئی نہیں پوچھتا، جن سے ریاستیں ڈرتی ہیں ان کو بھی ببانگ دہل چیلنج کررکھا ہے۔
رات جل اٹھتی ہے شدتِ ظلمت سے ندیم
لوگ اس وقفۂ ماتم کو سحر کہتے ہیں
طوفان کر رہا تھا میرے عزم کا طواف
دنیا سمجھ رہی تھی کہ کشتی بھنور میں ہے

جاوید غامدی کا بیان قرآن نہیں بکواس ہے. اجمل ملک

hazrat-nooh-mufti-taqi-molana-fazal-ur-rehman-maulana-maududi-javed-ahmed-ghamidi-ghulam-ahmed-pervez-ghulam-ahmed-qadiani-islamic-scholars-triple-talaq-quran-syed-atiq-ur-rehman-gailani

نوشتۂ دیوار کے ایڈیٹر محمداجمل ملک نے کہا ہے کہ ہماری کوشش ہے کہ کسی طرح سے حقائق واضح ہوجائیں۔ مساجد کے علماء کرام جو درسِ نظامی کے فاضل ہوتے ہیں،ان کو حق بات کا اعتراف کرنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی۔اسکے برعکس مذہب کے نام پر اپنی دکانیں چمکانے والوں نے بھی لگتاہے کہ مذہب کو معاش کا ذریعہ بنالیا۔اجمل ملک نے جاوید غامدی کے ویڈیو لنک کے ذریعے بیان کا تعاقب کرتے ہوئے پڑھے لکھے جاہلوں کو اس حقیقت سے آگاہ کرنے پر زور دیاہے کہ جاوید غامدی کو ہماری میڈیا میں بڑی حیثیت دی جاتی ہے۔ قرآن پر اسکی معلومات کو سند سمجھا جاتاہے مگر اسکا بیان حقیقت کے کس قدر منافی ہے کہ ’’اور میں محض تفنن طبع کیلئے نہیں کہہ رہا ۔قرآن مجیدکہتا ہے تلک ایام ندالہا بین الناس ہم دنیا کے اقتدار کو ایک لائن میں کھڑا کرکے ایک کے بعد دوسری قوم کو دے رہے ہیں۔ یہ آخری زمانہ ہے، قرآن نے بتایا ہے کہ حضرت نوحؑ کے تیسرے بیٹے یافس کے پاس حکمرانی ہوگی۔ پہلے انکے پہلے بیٹے حام کی نسلوں افریقی اقوام کے پاس حکمرانی رہی۔ دوسرے دور میں دوسرے بیٹے سام سمیٹک نیشن کے پاس اقتدار رہاہے اور اب یہ یافس کی اولاد ہے جو امریکہ آسٹریلیا ، یورپ،وسط ایشیاء میں اور ہندوستان میں بڑی حد تک آباد ہیں۔ تو اللہ نے اپنے اسٹیج پر اب ان کو موقع دے رکھاہے، مسلمان قومیں اپنا وقت لے چکی ہیں،یہ آپکے سوال کے ایک حصے کا جواب‘‘۔
جاوید غامدی کو ہم سازشی ، ایجنٹ اور دغا باز نہیں کہتے۔ ریٹائرڈ کی عمر تک پہنچنے کے بعد اچھے اچھوں کی دماغی صلاحیت بھی ختم ہوجاتی ہے۔ یہ قرآن ہی کی بات ہے۔ اگر دنیا میں ہندوؤں کو بھرپور غلبہ ملتا تو پھر جاوید غامدی یہ بھی کہتا تھا کہ حضرت نوحؑ کا جو بیٹا کنعان دریا میں غرق ہوا تھا، یہ ہندو اسی کی اولاد ہیں ، جس کی نئی جنم سے اللہ نے اقتدار کا وعدہ پورا کردیا، یہ قیامت تک اقتدار میں رہیں گے، ہم اچھوتوں کا کام یہ نہیں کہ اقتدار کی منزل تک پہنچیں بلکہ ہم اپنے نام کیساتھ عربی قبیلہ غامدیہ کی طرح غامدی لگادیں اس سے زیادہ کچھ نہ ہوگا۔یہ پست ذہنیت کی علامت ہے۔
جہاں تک قرآن کی بات ہے تو نوحؑ کی اولاد میں نمایاں حضرت ابراہیم ؑ تھے، جن کی اولاد کیلئے امامت کی دعااور ظالم نہ ہونے کی شرط پر دعا کی قبولیت کا ذکر قرآن میں ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کے ایک بیٹے اسحاقؑ سے بنی اسرائیل تھے، یوسف ؑ کو بھی اقتدار ملا تھا۔
حضرت داؤدؑ اور حضرت سلیمانؑ کو اقتدار ملا تھا اور قریش مکہ نبیﷺ کی بعثت ہوئی ، دنیا کی سپر طاقتوں کو خلافت نے شکست دیدی تھی اور یہ سب حضرت ابراہیمؑ کی اولاد تھے۔ایک بادشاہ جو لوگوں سے زبردستی بیوی چھین لیتاتھا وہ حضرت نوحؑ کے کسی اور بیٹے کی اولاد تھا۔ جواہل فرعون بنی اسرائیل کے مردوں کو ذبح کرتے تھے وہ کوئی اور نسل تھی۔ بنی اسرائیل کو بنی اسماعیل سے بھی جدا کرنا بھی غلط ہے۔
کوئی جھوٹ بولے تو بھی کسی ڈھنگ سے بولے۔ مذہب ایک ایسا حربہ ہے کہ اس میں جھوٹ کی بھی کوئی حد اور ڈھنگ نہیں۔ جاوید غامدی کا بے ڈھنگے جھوٹ میں اس طرح بڑی ڈھٹائی سے اظہار اور میڈیا کا اس کو کوریج دینا انتہائی افسوسناک ہے۔ سیاسی لوگ بے ڈھنگے لگتے ہیں جب سندھی اجرک، بلوچی وپٹھانی پگڑی اور چترالی ٹوپی عوام کو مانوس کرنے کیلئے پہنتے ہیں۔ شہباز شریف پیٹرول کی آگ میں جلنے والوں کے پاس بھی انگریزی ہیڈ پہن کر اسلئے گیا کہ جاویدغامدی کے بیان سے خود کو یافس کی اولاد سمجھتا ہوگا۔ مریم نواز بھی کہتی ہے کہ ’’ ہم حکمران خاندان ہیں‘‘۔
جاوید غامدی نے مزید کہاہے کہ ’’پاکستان پر اللہ نے جن کو حکومت کیلئے منتخب کیاہے۔ وہ تین چار سو خاندان ہیں اور ان کی اولادہیں۔ ایک لمبے عرصے تک یہی رہنا ہے، جب تک ایجوکیشن نہیں بڑھے گی، بہت سے حالات نہ ہونگے تو کوشش کریں کہ یہ کچھ تھوڑے دیندار ہوجائیں، کچھ اخلاقی چیزوں کو مان لیں، لیکن لوگ الٹی کوشش کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ مسجد کے مولوی کو ایوانِ اقتدار میں پہچانا ہے‘‘۔
حالانکہ جاوید غامدی یہ سب کچھ غلط بول رہا ہے۔ مفتی محمودصاحب مسجد کے مولوی تھے مگر اپنی صلاحیتوں سے وزارت اعلیٰ کے منصب پر پہنچ گئے، نوازشریف کا باپ صنعتکار تھااگروہ جنرل ضیاء الحق کی ڈکیٹیر شپ کا سہارا نہ لیتا تو اقتدار کی اہلیت بھی اس میں نہیں تھی، آج بھی اس سے لوٹی ہوئی دولت واپس لی جائے تووہ اور اس کی اولاد اور خاندان میں کچھ صلاحیت نہیں ہے۔جنرل ضیاء الحق، پرویزمشرف اور بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح وغیرہ کا کونسا اقتدار والا خاندانی بیک گراؤنڈ تھا؟۔
جاید غامدی قرآن اور جمہوریت کے نام پر درس دینے کے بجائے پہلے اپنے دماغی علاج کا کوئی بندوبست کریں۔ قرآن اور تاریخ کی موٹی موٹی باتوں کا بھی اس کو علم نہیں ہے اور جمہوریت سے بھی واقف نہیں۔ کسی ادارہ میں پروفیسری کی اور پھر شاید ریٹائرمنٹ کا دکھ لیکر بیٹھ گئے۔ قرآن کہتاہے کہ انسان ایسی عمر کو پہنچ جاتاہے کہ جب وہ علم کے بعد کچھ نہیں سمجھتا۔ ومنھم من یرد الی ارذل العمر لکی لا یعلم بعد علم شئیاً ’’ اور ان میں سے بعض اس رذیل عمر تک پہنچتے ہیں کہ علم کے بعد کچھ سمجھ نہیں رکھتے‘‘۔ افراد ریٹائر ہوتے ہیں، مر جاتے ہیں اور نیست ونابود ہوجاتے ہیں مگر قوموں کے عروج وزوال کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہتاہے جبتک دنیا میں موجود ہوں۔ قرآن مایوس لوگوں کو کافر قراردیتا ہے قرآن مردہ قوموں کو زندگی کی نعمت عطا کرتا ہے، قرآن گری ہوئی قوموں کو عروج بخشتا ہے ۔قرآن دنیا وآخرت کی کامیابی کا ضامن ہے۔ قرآن اللہ پر ایمان دیتا ہے، قرآن موسیٰ کو فرعون سے ٹکرانے کی دعوت دیتاہے تاکہ بنی اسرائیل کو غلامی سے بچائے ، ظالموں کے سامنے لیٹنے کی دعوت قرآن نے نہیں دی ہے، قرآن نے مکہ مکرمہ کے غلاموں حضرت بلالؓ وغیرہ کو ابوجہلوں اور ابولہبوں سے ٹکرایا تھا۔
بدر واحدکے غزوے اور صلح حدیبیہ کا معاہدہ گواہ ہے کہ جاوید غامدی پرلے درجہ کا جاہل ، مکار اور بکواسیہ ہے۔ اگر حکومت اسکے ساتھ ملی ہوئی نہ ہو تو میڈیا پر اس سے درست وضاحت طلب کی جائے، اگر وہ معذور ہو تو یہ غلط درس دینے سے توبہ کرلے۔اس دور میں اسلام کو اجنبیت سے نکالنا مسائل کا حل ہے۔

اجنبی کا تعارف حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں

قال رسول اللہ ﷺ: اذا حضر الغریبَ فالتفتُ عن یمینہٖ و عن شمالہٖ فلم یرالا غریباً فتنفس کتٰب اللہ لہ بکل نفس تنفس الفی الف حسنۃ و خط عنہ الفی الف السیءۃ فاذا مات مات شہیداً(الفتن: نعیم بن حماد)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب اجنبی کو میرے پاس حاضر کیا گیا تو میں نے اس کی طرف دائیں جانب سے التفات کیا اور بائیں جانب سے التفات کیا ، وہ نظر نہیں آتا تھا مگر اجنبی، پس اللہ کی کتاب پوری عظمت کیساتھ اسکے سامنے روشن ہوگئی ، اس کو ہزارہا ہزار نیکیاں ملیں اور ہزار ہا ہزار گناہیں اسکی معاف کی گئیں۔ پس جب وہ فوت ہوا تو شہادت (گواہی) کی منزل پاکر فوت ہوا۔
یہ حدیث امام بخاری کے استاذ نعیم بن حماد ؒ نے اپنی کتاب الفتن میں نمبر 2002 درج کی ہے، یہ اجنبی کا تعارف بتایا گیاہے

جاوید غامدی کا قرآن کے بارے میں سراسر جھوٹا بیان اور حلوے میں زہر کی ملاوٹ اور ملمع سازی

نوشتۂ دیوار کے منتظم اعلیٰ فیروز چھیپا علمدار نے ڈاکٹر جاوید غامدی کے حالیہ بیان پریہ تبصرہ کیا کہ جاوید غامدی مسلمانوں کو قرآن کی آیت کا غلط مفہوم پیش کرکے مٹھائی کے اندر زہر کھلاتا ہے۔ قرآن مردہ قوموں میں زندگی کی روح پھونک کر دورِ جاہلیت سے علم وعمل، بلندی وعروج اور بڑے اعلیٰ درجے کے اقتدار کی منزل پر پہنچاتاہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ایک اچھوت نسل سے تعلق کی بنیاد پر آدمی وہی سوچے گا جو اسکے ماحول کیمطابق ہوگا، لیکن قرآنی تعلیمات کو غلط رنگ میں پیش کرنا بڑی زیادتی ہے۔ واقعۂ کربلا کے بعد ائمہ اہلبیتؒ بھی مھدی کے انتظار میں بیٹھ گئے مگر قرآن کو نہ بدلا۔ انبیاء کرامؑ نے مشکل حالات میں قوم کو بدلنے کی مثالیں قائم کیں۔ جاوید غامدی کے بیان پر تبصرہ صفحہ2میں اداریہ پر دیکھ لیجئے۔

جاوید غامدی کا قرآن کے بارے میں سراسر جھوٹا بیان اور حلوے میں زہر کی ملاوٹ اور ملمع سازی

یہ سوال ہے کہ یورپ کی جو عیسائی قومیں ہیں وہ پچھلے تین سو سالوں سے They have been rolling the planet. مسلمانوں کی باری کب آئیگی؟۔

غامدی: مسلمان اپنی باری لے چکے۔

سوال: اب دوبارہ نہیں آئیگی؟۔

غامدی: اور یہ میں محض تفنن طبع کیلئے نہیں کہہ رہا۔ قرآن مجید کہتا ہے، تلِکَ ایام نداولہا بین الناس ہم اس دنیا کے اقتدار کو اسی طرح ایک لائن میں ایک کے بعد دوسری قوم کو دے رہے ہیں اور یہ ایام اسی طرح اُلٹتے پلٹتے رہتے ہیں بلکہ مزید یہ کہتا ہے کہ دنیا کی قوموں کو ایک لائن میں رکھکر ہم ایک کے بعد دوسری قوم کو اسٹیج پر لارہے ہیں۔ یہ آخری زمانہ ہے، قرآن نے بتایا ہے کہ حضرت نوح کے تیسرے بیٹے یَافِس کی اولاد کے پاس حکمرانی ہو گی۔ پہلے دور میں انکے پہلے بیٹے حام کی نسلوں افریقی اقوام کے پاس دنیا کی حکمرانی رہی۔ دوسرے دور میں انکے دوسرے بیٹے سام کی سمیٹک نیشن کے پاس اقتدار رہا ہے اور اب یہ یافِس کی اولاد ہے جو امریکہ میں، آسٹریلیا میں، یورپ میں، وسط ایشیاء میں اور اسی طرح ہندوستان میں بھی بڑی حد تک آباد ہیں تو اللہ نے اپنے اسٹیج پر اب ان کو موقع دے رکھا ہے۔ مسلمان قومیں اپنا وقت لے چکی ہیں۔ یہ ہے آپکے سوال کے ایک حصے کا جواب۔دوسرا یہ کہ مسلمان سے ہٹ کے اسلام کو ذرا زیر بحث لائیں تو اسلام تو کسی قوم کا مذہب نہیں، آپکے اندر جذبہ یہ نہیں پیدا ہونا چاہئے کہ وہ پٹی ہوئی مسلمان قومیں دوبارہ اقتدارحاصل کر لیں، پوری طاقت سے اٹھئے اور جنکے حق میں اقتدار کا فیصلہ ہو چکا ہے ان کو مشرف بہ اسلام کریں۔ اسلام کسی قوم کا نام نہیں میسج، پیغام ایک عالمگیر صداقت ہے تو آپ اٹھیں اور پیغام انکے پاس پہنچائیں جنکے حق میں اقتدار کا فیصلہ ہو چکا ۔میں کئی مرتبہ پاکستان میں لوگوں سے کہتا ہوں کہ پاکستان پر جن کو اللہ نے حکومت کیلئے منتخب کیا، وہ تین چار سو خاندان ہیں اور انکی اولادیں ہیں ایک لمبے عرصے تک یہی رہنا ہے کیونکہ جب تک ایجوکیشن نہیں بڑھے گی بہت سے حالات نہیں ہونگے تو کوشش کریں کہ یہ کچھ تھوڑے سے دیندار ہو جائیں کچھ اخلاقی چیزوں کو مان لیں، لیکن لوگ الٹی کوشش کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ مسجد کے مولوی صاحب کو ایوان اقتدار پر پہنچانا ہے۔ مسلمانوں کو اقتدار تک لیجانے میں بڑی مشکلات ہیں اسلئے کہ قدرت کا نظام تو اپنا فیصلہ کر چکا لیکن یہ موقع ہمارے پاس موجود ہے کہ ہم اپنے میسج کو ان قوموں تک پہنچا دیں اور کیا بعید ہے آپ کو معلوم کہ ایک زمانے میں یافِس کی اولاد حملہ آور ہوئی، عرب کی سلطنت کا خاتمہ کر دیا اور آپکے علم میں ہے کہ بغداد کا سکوت ہوا اور سعدی نے اس موقع پر بڑا ہی درد انگیز مرثیہ کہا ، پوری مسلمان امت رو رہی تھی اور ترک چنگیزخان کی اولاد وہ حملہ آور ہو گئی آخری خلیفہ کو ٹاٹ میں اور قالین میں بند کر کے مار دیا گیا،اسکے بعد ہوا کیا؟۔ اسلام کی طاقت آگے بڑھی اقبال نے کہا کہ پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے۔ ترک مسلمان ہو گئے، سلطنت عثمانیہ وجود میں آئی اور پانچ سو سال تک مسلمانوں کی حکومت رہی۔ میرے نزدیک اب یہ صحیح راستہ وہ نہیں، جسکی وجہ سے لوگ ایکدوسرے کو مار رہے ہیں، صحیح یہ ہے، اسکو اختیار کرنا چاہیے کیونکہ میسج میں بڑی طاقت ہے۔

سوال: سر ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ امام مہدی اور حضرت عیسیٰ نے آنا ہے وہ ہمیں دوبارہ سے ریوائیو کرینگے اور اینڈ آف ٹائم میں مسلمانوں کا غلبہ ہو گا۔

غامدی: اگر انھوں نے آنا ہے اور آکر یہ کام کرنا ہے تو تشویش کی کیا بات ہے؟

سوال: آ نہیں رہے یہ تو ابھی تک آ نہیں رہے؟۔

غامدی: پھر اطمینان کیساتھ سوتے ہیں۔ میں تو کئی بار یہ کہتا ہوں کہ بھئی کوئی اچھا کھانا وانا بنا کر فریج میں رکھ لیتے ہیں تاکہ انکی خدمت میں پیش کیا جائے۔ میرے نزدیک مسلمانوں کو ان افسانوں سے اب نکلنا چاہیے اور اس حقیقت کی زمین پر کھڑے ہونا چاہیے، مسلمان قومیں عالمی اقتدار کا خواب نہ دیکھیں۔ ان کیلئے پہلا کام یہ ہے کہ وہ اپنی جہالت دور کریں۔ سچا علم پھیلائیں۔پانچ سو سال سے ہم نے دنیا کو کچھ نہیں دیا۔ اچھا جمہوری نظام اور جمہوری کلچر پروان چڑھائیں لوگوں کو اس طرح تربیت کریں کہ وہ اعلی اخلاق کیساتھ جینا سیکھیں۔ اپنے گریبان میں اپنا منہ ڈال کر دیکھیں تو ہم جھوٹ بولتے بد دیانتی کرتے ہیں دھوکا دیتے ہیں، ہماری بنائی ہوئی دواؤں پر کوئی اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ تو اپنے آپ کو علم اور اخلاق کے لحاظ سے بلند کریں۔ جن ملکوں نے کچھ ہمت دکھائی توانکے حالات بدلے ۔ یعنی عالمی اقتدار الگ چیز ہے لیکن اپنی قوم کی حالت بدلنا، زندگی کی سہولتیں فراہم کرنا، علم کے دروازے کھولنا۔ میں جلا وطنی کی زندگی بسر کر رہا ہوں اس قوم نے اپنے آپ کو بہتر جگہ پر کھڑا کر لیا ۔ باقی عالمی سطح پر اقتدار کا فیصلہ اب انکے حق میں ہو گا جن کا میں نے ذکر کر دیا۔ یہ بات خود قرآن نے واضح کر دی ہے۔ ایک ہی راستہ ہے جیسے ہمارے جلیل قدر علماء نے بہت صبر کیساتھ اسلام کی دعوت پیش کی اور ترک مسلمان ہو گئے ایسے ہی آپ کو ان قوموں تک خدا کا پیغام پہنچانا ہے اور سب سے بڑا موقع آپ لوگوں کو ملا ہے جو ان قوموں کے اندر آ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔

بلال قطب کی دوجہتوں سے جہالتوں کا پول کھل گیا ۔بول کا تول ومول کھل گیا: ارشاد نقوی

نوشتۂ دیوار کے مدیر خصوصی سید ارشاد نقوی نے دوجہتوں سے سید بلال قطب کی جہالتوں کا تعاقب کرتے ہوئے کہا کہ نام نہاد اسلامی اسکالر اور علاج معالجے کے نام سے جعلسازی کا مرتکب ہے۔ بڑا بچپن کے دودھ دودھ کی رٹ لگانیوالے نے اگر بچپن میں گدھی کا نہیں کسی انسان کا دودھ پیا ہو تو اعترافِ جرم کرنے میں دیر نہیں لگائے۔ جب نام نہاد اسلامی اسکالر کومحرمات کا بھی پتہ نہیں اور جس جبہ پوش اور دین فروش ذاکر کو اتنی بڑی بات کا بھی معلوم نہیں تو ایسوں کو علامہ بن کر بیٹھنے سے عوام کا بیڑہ غرق ہوسکتاہے۔مولانا طارق جمیل کی نقل اتارنیوالے کاپول کھل گیا مگر پھر بھی بول ٹی وی نے موقع فراہم کئے رکھا۔ جس سے میڈیا کا تول اور مول کھل گیاجنہوں نے لمبے چوڑے قصے اور دلفریب جملے ازبر کئے ہوں مگر ان کی جہالت کا حال یہ ہو کہ قرآن میں واضح اور عوام کو معلوم محرمات کا بھی پتہ نہ ہو۔ بہو کے بیوہ بن جانے کے بعد اس کی سسر سے شادی کرائیں کہ اگر کوئی دوسرا رشتہ دار نہ ہو تو بہو کی سسر سے شادی ہوسکتی ہے۔ کوئی سنجیدہ ملک ہوتا تو آزاد جمیل کی داڑھی مونڈھ کر اس کا چہرہ سیاہ کرکے عوام کے سامنے گدھے پر گھماتا اور ساتھ میں بیٹھے بلال قطب اور جبہ پوش ذاکر سے بھی یہی سلوک روارکھتا۔ اسلام کے حوالہ سے علم کا حال تو ان سب کا معلوم ہوگیا جن کو میڈیا میں ایک سازش کے تحت اسلام کی بدنامی کا باعث بنایا جا رہا ہے۔ دوسری طرف بلال قطب روحانیت کے نام پر بھی ٹی وی پر بیٹھ کر مستقل جعلسازی کادھندہ کررہاہے۔ اے آر وائی کے سید وقار الحسن کو ایک دن اس پر بھی چھاپہ مار کاروائی کی ضرورت ہے۔
بلال قطب کی چکنی چپڑی باتیں سن کر کتنے لوگ مغالطہ کھاتے ہوں؟۔ شاہین ائر لائن کا ایک گارڈ نوید نے اپنی ضعیف والدہ کیلئے بڑی مشکل سے بلال قطب کا فون نمبر حاصل کیا تاکہ اس سے بات کرنے کا اعزاز حاصل ہو۔ بلال قطب نے جب اسے کہا کہ ’’تمہارے اوپر کالا جادو ہوا ہے‘‘ تو خاتون حیران ہوگئی کہ مجھ پر کون اور کس لئے جادو کرے گا؟۔ پھر بلال قطب کو برا بھلا کہنے لگی۔ کتنے لوگوں کو اس طرح ٹی وی کے ذریعے نفسیاتی مریض بنانے میں کامیاب ہوگا۔ حکومت کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ ہمارے مرشد حاجی عثمانؒ نے بھی روحانی علاج کا سلسلہ جاری کیا تھامگر کاروبار نہیں بنایا تھا۔ مسجدو مدرسہ اور خانقاہ کیلئے کبھی کوئی چندہ تک نہیں کیا۔ جن مریدوں نے کچھ دیا تو اس پر ہی گزارہ چلایا، اب نااہل قسم کے لوگوں نے اس مرکز کو بھی چندہ اور جنگ وجدل کا میدان بنالیا۔
جب سید عتیق الرحمن گیلانی مسجد کے امام اور خانقاہ کے منتظم تھے تو حاجی عثمانؒ نے فرمایا تھا کہ ہماری مسجد کو الحمد للہ مسجد نبوی ﷺ کے قرون اولیٰ کا اعزاز حاصل ہے، اس دور میں بھی تنخواہ دار کوئی امام نہ تھا اور آج اس سنت کو زندہ کیا گیا۔ حاجی عثمانؒ کے مخالفین درپردہ سازشوں کے پیچھے کھڑے ہیں لیکن جس کو اللہ رکھے اس کو کون چکے۔ وہ دور زیادہ دور نہیں کہ خانقاہ چشتیہ، مدرسہ محمدیہ، خدمتگاہ قادریہ، مسجد الٰہیہ اور یتیم خانہ اصغر بن حسینؓ کے تمام شعبہ جات کو فعال بناکر بہت پرانی یادیں پھر سے تازہ کردی جائیں گی ۔انشاء اللہ ۔ حضرت حاجی محمد عثمان اپنے وقت کے عظیم مجددتھے ، جو ایک نالائق طبقے کے باعث مفاد پرستی اور جہالت پر مبنی فتوؤں کے شکار ہوئے۔ شیطان کو خوف تھا کہ یہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا مرکز تباہ وبرباد نہیں کیا گیا تو یہاں سے دین حق کو ایک نئی زندگی مل سکتی ہے۔
مرکز رشد وہدایت منبع انوارِ حق
یا مدینہ پاک ہے یا خانقاہ چشتیہ

حاجی محمد عثمانؒ نے فرمایا کہ مسجدالہٰیہ نام توحید کی وجہ سے رکھا، تاکہ دیوبندی مکتبۂ فکر مانوس رہے۔ خدمتگاہ قادریہ سے بریلوی مکتبۂ فکر ، مدرسہ محمدیہ سے اہلحدیث اور یتیم خانہ اصغر بن حسینؓ سے اہل تشیع مانوس رہیں۔حاجی عثمانؒ کے مشن کی تکمیل پر تمام مکاتب فکر کے بڑے علماء کرام کی طرف سے ہماری تحریک کی تائید نے مخالفین کے حوصلے پست کردئیے ہیں ۔ ہمارا مقصد نہ کسی کو شکست ہے اور نہ ہی ہم کسی کو ملامت کرنا چاہتے ہیں البتہ دین خدمت ہے جس کو تجارت بنانے کے خلاف ہم سربکف مجاہدہیں۔ اسلام کی نشاۃ اول دین کو قربانیوں اور خدمت سے ہوئی تھی ۔
روش روش پہ ہراساں ہیں چاند کی کرنیں
قدم قدم پر سلگتے ہیں بے کسی کے چراغ
میرے چمن کو جہاں میں یہ سرفرازی ہے
ہر ایک پھول نئی زندگی کا غازی ہے
روش روش پہ ہیں برق وشرر کے ہنگامے
مجھے یقین ہے بہاروں کی کارسازی ہے
لکھو یہ عظمت ہستی کے باب میں ساغر
کہ غزنوی کی جلالت غم ایازی ہے
آلام کی یورش میں بھی خورسند رہے ہیں
نیرنگئی حالات کے پابند رہے ہیں
آفاق میں گونجی ہے میری شعلہ نوائی
نالے میرے افلاک کا پیوند رہے ہیں
ڈالی ہیں تیرے خاک نشینوں نے کمندیں
ہر چند محلات کے در بند رہے ہیں
ہر دور میں دیکھا ہے میری فکرِ رسا نے
کچھ لوگ زمانے کے خدا وند رہے ہیں
ساغر نہ ملی منزلِ مقصود خرد کو
ہاں قافلہ سالار جنوں مند رہے ہیں
وقار انجمن ہم سے فروغ انجمن ہم ہیں
سکوتِ شب سے پوچھو صبح کی پہلی کرن ہم ہیں
ہمیں سے گلستان کی بجلیوں کو خاص نسبت ہے
بہاریں جانتی ہیں رونقِ صحن چمن ہم ہیں
زمانے کو نہ دے الزام اے ناواقفِ منزل
زمانے کی نظر ہم ہیں زمانے کا چلن ہم ہیں
قریب و دور کی باتیں نظر کا وہم ہیں پیارے
یقین رہنما ہم سے فنون راہزن ہم ہیں
طلوع آفتاب نو ہمارے نام پہ ہوگا
وہ جن کی خاک کے ذرّے خورشید وطن ہم ہیں
بہر صورت ہماری ذات سے سلسلے سارے
جنوں کی سادگی ہم ہیں خرد کا بانکپن ہم ہیں
ہمارے ہاتھ میں ہے ساغر ادھر دیکھو!
ادھر دیکھو حریف گردش چرخ کہن ہم ہیں

جاوید احمد غامدی کے انتہائی باطل نظرئیے کا تعاقب

جاوید غامدی نے حالیہ ویڈیو بیان میں کہا کہ’’ حضرت نوحؑ کے تین بیٹے تھے ، ایک بیٹے کی اولادافریقی اقوام ہیں، دوسرے بیٹے کی موجودہ مسلمان اقوام ہیں اور تیسرے بیٹے کی امریکی ویورپی اقوام ہیں۔ قرآن کے مطابق تلک ایام نداولھا بین الناس باری باری پہلے افریقی اقوام دنیا پر حکومت کرچکی ہیں، پھر نوح علیہ السلام کے دوسرے بیٹے کی اولاد مسلمانوں نے دنیا پر حکومت کی ، اب مسلمانوں کی باری کبھی نہیں آئے گی ، یہ قرآن کا فیصلہ ہے ، حضرت نوحؑ کے تیسرے بیٹے کی اولاد امریکہ وپورپ نے دنیا میں حکومت کرنی ہے البتہ مسلمان اپنی زندگی کے طرز کو بہتر کرنے کی کوشش کریں اور مسلمانوں کے عالمی غلبہ اور امام مہدی کے انتظار میں بیٹھنا ہوتو انکی مرضی‘‘۔
جاوید غامدی کو سند سمجھا جاتاہے، وہ اپنی ذہنی ساخت کو قرآنی تعلیم کا رنگ نہ دیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ یہود کا کام یہ تھا یحرفون کلم من بعد مواضعہ ’’ جملوں کو ان کی جگہوں سے ہٹا کر بات کرتے تھے‘‘۔ جاوید غامدی نے یہودی احبار کے طرز پر قرآنی آیت کو غلط رنگ میں پیش کیا۔ اللہ نے نوحؑ کے بیٹوں کی ترتیب کے لحاظ سے نہیں فرمایا کہ’’ ترتیب وار باری باری ان کو حکومت ملے گی ‘‘ بلکہ ونرید ان نمن الذین استضعفوا فی الارض ان نجعلھم الائمہ وان نجعلھم الوارثیں ’’ ہمارا پروگرام ہے کہ جن لوگوں کو دنیا میں کمزور کرنے کی پوری سازشیں ہورہی ہیں کہ انہی لوگوں کو من حیث القوم دنیا کا امام بنائیں اور انہی کو زمین کا وارث بنائیں‘‘۔ قرآن تو ان لوگوں کو حوصلہ دیتا ہے جنکے خلاف سازش پر دنیا متحد ہوتی ہے۔ یوسف علیہ السلام کو بھائیوں نے کنویں میں پھینکااور عزیز مصر کی بیگم نے جیل میں ڈلوادیا مگر جیل سے وہ اقتدار تک پہنچے۔ خمینی سے جیل میں شاہ ایران نے پوچھا کہ تیرے ساتھی کہاں ہیں؟، خمینی نے جواب دیا کہ ’’ماؤنوں کی گود میں‘‘ امریکہ میں کالوں کیخلاف بدترین قوانین تھے لیکن بارک حسین مشعل اوبامہ کیساتھ پورے 8 سال تک امریکہ کا صدر بن کر وائٹ ہاؤس میں رہے۔
جماعتِ اسلامی کے ڈاکٹر فرید پراچہ نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل پر کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں نبیﷺ کو اذیت دینے والوں کا حکم دیاہے کہ اینما ثقفوا فقتلوا تقتیلا ’’ ان کو جہاں بھی پاؤ ، قتل کردو‘‘۔ حالانکہ یہ آیت بھی ڈاکٹر فرید پراچہ نے اپنی جگہ سے ہٹاکر پیش کی جو یہود کا وطیرہ تھا۔آیت میں خواتین کوزبردستی سے زیادتی کا نشانہ بنانے پر یہ خبر دی گئی ہے کہ پہلے بھی ایسے لوگ گزرے ہیں جو خواتین کو زیادتی کا نشانہ بناتے تھے لیکن پھر اللہ نے ان کو مغلوب کردیا اور اچھے لوگوں کے پاس طاقت آگئی تو خواتین سے زیادتی پر قتل کرنے کا سلسلہ آتا تھا۔ نبیﷺ نے ایک خاتون کی شکایت پر یقین کیا تو گواہ طلب کئے بغیر قرآن کے حکم کے مطابق اس کو سنگسار کرنے کا حکم دیا تھا۔ افسوس کہ زبا بالجبر کیلئے بھی علماء نے قرآن و سنت کیخلاف چار شرعی گواہوں کو ضروری قرار دیا تھا جس کی وجہ سے کوئی مجرم کیفر کردار تک نہیں پہنچتاتھا ۔ پرویز مشرف نے اس وجہ سے زنا بالجبر کو تعزیرات میں شامل کیا، جس پر مفتی تقی عثمانی نے انتہائی غلط تحریر لکھ ڈالی، وائل ابن حجرؓ کی روایت میں گواہی کے بغیر سنگسار کرنے کی وضاحت ہے ، اسی روایت کا حوالہ دیکر سنگسار کرنے کی حد کو ثابت کیا لیکن گواہی کے حوالہ سے اس حدیث کو نہ مانا۔ جماعتِ اسلامی نے اس کو پمفلٹ کی صورت میں خوب بانٹا، جس کا ہم نے جواب بھی لکھ دیا تھا،مذہبی طبقے کا معاشرے میں یہ سب سے بدتر کردارہے۔
مشعال خان کیس کے بعد جماعتِ اسلامی پختونخواہ علماء ومشائخ کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا، تقاریر کے دوران کوئی قافلہ داخل ہوتا تو نعرے بازی کا تکلف کرتے ہوئے عجیب وغریب چال ڈھال کا مظاہرہ کیا جاتا تھا، علماء اور مشائخ اس طرح کی ڈرامہ بازی سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ مشعال خان پر خوب تنقید کی گئی۔ جبکہ ڈاکٹر فرید پراچہ نے مشعال خان کیس کے بعد ٹی وی پروگرام میں کہا کہ ’’ بہت سی آیات ہیں جن میں نبیﷺ کو اذیت دینے پر قتل کا حکم ہے‘‘ ۔ ایک خاتون پوچھ رہی تھی کہ بتاؤ قرآن میں کہاں یہ حکم ہے۔ لیکن ڈاکٹر فرید پراچہ مسلسل اپنی بات دہرا رہا تھا کہ قرآن میں بہت سی آیات ہیں مگر حوالہ نہیں دے رہا تھا۔ سلمان تاثیر کے حوالہ سے بھی نبیﷺ کی اذیت پر جو آیت پیش کی تھی ،اس کا اس رکوع سے بھی تعلق نہیں، جس میں نبیﷺ کی اذیت کے حوالہ سے ذکر ہے۔ اس اذیت میں بھی بنیادی بات یہ ہے کہ صحابہ کرامؓ مخاطب ہیں کہ جب نبیﷺ کھانے کی دعوت پر بلائیں تو پہلے سے آکر مت بیٹھو، کھانا کھانے کے بعد بھی باتیں بنابناکر زیادہ دیر تک نہ بیٹھو ، اس سے نبیﷺ کو اذیت ہوتی ہے۔۔۔ ‘‘۔ جماعتِ اسلامی جان بوجھ کر بے شعور عوام کے جذبات کو مذہبی بناکر اپنے مذموم سیاسی عزائم کے ذریعے اقتدار تک پہنچنا چاہتی ہے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تشدد کی سیاست اسلامی جمعیت طلبہ نے شروع کی تھی۔ جنرل ضیاء الحق کی آمریت اور نوازشریف کے کرپشن میں جماعتِ اسلامی برابر کی شریک رہی۔ اسلامی جمہوری اتحاد وغیرہ کے نام سے جماعتِ اسلامی ہمیشہ استعمال ہوتی رہی ہے۔ جس طرح ہماری اسٹیبلشمنٹ نے شریف برادران کو پاک صاف رکھا تھا اور پانامہ لیکس میں اس کا پاجامہ لیکس ہوگیا ، اسی طرح جماعتِ اسلامی کو بھی پاک صاف رکھا ہے۔
پروفیسر غفور احمد ؒ جیسے اچھے لوگ جماعت اسلامی میں بہت ہیں لیکن انہیں بالکل بے خبر رکھا جاتاہے، اسلامی جمہوری اتحاد کے بارے میں بھی پروفیسر غفور احمد نے بعد میں بتایا تھا کہ وہ لاعلم رہے اور بعد میں حقائق کا پتہ چلاہے۔ مشعال خان کے والد صاحب کے پاس جماعت اسلامی دیر کا کوئی شخص آیاتھا تو اس نے کہا کہ ’’ہم دیر میں علماء کو بہت آگے آنے اور اہم معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کرنے دیتے ، تم لوگ علماء کو کیوں اتنی اہمیت دیتے ہو؟ ‘‘۔ واقعی جماعت اسلامی میں علماء ومشائخ کی اوقات بھی نہیں، جماعت کاامیر کوئی عالم نہیں بن سکتا، سید منور حسن سے سلیم صافی نے ضمیر کی بات کہلوائی تو جماعت کی امارت سے انکو ہٹادیا گیا۔ جماعت اسلامی ضمیر رکھنے والے افراد کو بھی آگے نہیں لاتی جو باشعور اور مخلص ہوں، سید منور حسن کو سیدھا سادا ہونے کے علاوہ کراچی پر قابو پانے کی غرض سے لایا گیا۔جمعیت علماء اسلام نے بھی علماء کی بھیڑ کے ہوتے ہوئے اکرم خان درانی کو داڑھی رکھا کر وزیراعلی بنایاتھا۔
ڈاکٹر طاہرالقادری پہلے نوازشریف کا غلام رہا، تمام جرموں میں شریک اور چشم دید گواہ،اب شریف برادری کی بھینس سے مولانا فضل دودھ پی رہاہے۔

موجودہ دور میں خیر اور شرکا تصور

نبی ﷺ نے قرون اولیٰ میں خیر کے بعد جس شر کا ذکر فرمایا تھا، وہ حضرت عثمانؓ کے آخری دور اور حضرت علیؓ کے دور میں ظاہر ہوا۔ حضرت علیؓ نے نہج البلاغہ میں حضرت عمرؓ کی وفات کے بعد ان کی صلاحیتوں کا جن الفاظ میں اعتراف کیا ہے، اس سے زیادہ اہلسنت بھی حضرت عمرؓ سے عقیدت و احترام کے تعلق کے قائل نہیں۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت پر جوافواہ پھیلائی گئی تھی اس کیلئے بیعت رضوان کی آیات سے صحابہؓ نے رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ کی سندحاصل کی تھی۔آج نہ تو قاتلین عثمانؓ سے بدلہ لینا ممکن ہے اور نہ ہی حضرت علیؓ اور آپ کی آل کو مسند اقتدار کے استحقاق کو تسلیم کرنے سے کوئی تاریخی حقیقت بدل سکتی ہے۔ قرآن میں نبیﷺ سے اختلاف کرنے والے منافقین اور مؤمنین کا واضح فرق ہے۔ مؤمنین پر منافقین کی آیات کا فٹ کرنا قرآن کی روح کے منافی ہے۔
حضرت عمرؓ نے حدیث قرطاس کے معاملہ میں نبیﷺ سے اختلاف کیا کہ ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے۔ اس کی تعلیم وتربیت قرآن وسنت کا تقاضہ تھا اسلئے کہ بدر کے قیدیوں پر فدیہ لینے اور ہجرت نہ کرنے کے باوجود نبیﷺ کا حضرت علیؓ کی بہن سے نکاح کی خواہش پر اللہ نے نبیﷺ کے مقابلہ میں آیات نازل کیں۔ حضرت علیؓ سے حضرت عثمانؓ کی شہادت کا معاملہ اختلاف جنگ وفساد اور شر وفتنہ تک اسلئے پہنچا کہ وحی کا سلسلہ بند ہوچکا تھا۔ مسلمانوں کیلئے حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد اتفاق واتحاد اور وحدت کا راستہ حضرت امام حسنؓ کے کردار کے طفیل باعث تقلید رہا ہے۔ حضرت علیؓ سے اختلاف کرنے سے زیادہ یزید کیخلاف حضرت امام حسینؓ کی طرف سے حزبِ اختلاف کا کردار قابلِ تقلید ہے۔ بنی امیہ کے بعد بنو عباس کے دور میں اہل تشیع کے بارہ اماموں میں سے ایک امام تو ایک خلیفہ کے ولی عہد بھی تھے۔ ان سے زیادہ خلافتِ راشدہ کے دور میں ائمہ اہلبیت سے اکابر تین خلفاء کے تعلقات بہتر رہے۔ تاریخی باتوں میں بہت کچھ مسخ ہوچکاہے اور ایسے تاریخی واقعات پر یقین نہ کرنا بہتر ہے جن سے اہلبیتؓ اور صحابہؓ دونوں کے حوالہ سے بدتر تأثر قائم ہوتا ہو۔ حضرت علیؓ نے قرآن وسنت کی تعلیمات کی وجہ سے ہی حدیث قرطاس کے معاملے کو برداشت کیا،ورنہ تو حضرت عمرؓ جب ننگی تلوار لارہے تھے تو حضرت امیر حمزہؓ نے کہا تھا کہ ’’ اگر غلط ارادے سے آرہا ہو تو اس کو اس کی اپنی تلوار سے قتل کردوں گا‘‘۔
خلافت راشدہ کے بعد حضرت امام حسنؓ نے صلح کا کردار ادا کیا تو خیر میں دھواں بھی شامل ہوا۔سنت اور خلفاء راشدین مہدیین کے علاوہ راستہ اختیار کیا گیا جس میں نیک و بدسب طرح کے لوگ آئے۔ یہ دھویں والا خیر اب پھر اس شر میں بدل گیا ہے جہاں داعی اسلام کے لبادے میں اسلام کی زباں میں جہنم کے دروازے پر کھڑے ہوکر فرقہ واریت کی دعوت دے رہے ہیں۔ کل حزب بمالدیھم فرحون کا مظاہرہ ہورہاہے۔ تمام فرقوں اور جماعتوں نے اپنی طرف بلانا شروع کیا ہے اور دوسروں کو برا بھلا اور غلط کہتے ہیں۔ کوئی سمجھتا ہے کہ اہل بیت سے محبت نجات کا راستہ ہے باقی جو بھی کرو، خیر ہے۔ کوئی توحید کو نجات کا واحد ذریعہ سمجھتا ہے، کوئی رسول اللہ ﷺ سے محبت کے جذبے کو کافی قرار دیتا ہے، کوئی اسلاف کی طرف سے بنائی ہوئی سنت اور ہدایت کے طریقۂ کار کو کافی سمجھتا ہے۔ کوئی ذکر کرنے کو نجات کا پہلا اور آخری وسیلہ قرار دیتا ہے، کوئی نماز کے بارے میں فرض ادا کرنے کو کافی خیال کرتاہے۔ کوئی نبوت والے کام کے نام پر اپنے طریقۂ کار سے مطمئن ہے،کوئی فرقہ واریت کو نجات کا ذریعہ سمجھتا ہے لیکن خانہ سب کا خراب ہے۔
فرقے ، مذہبی جماعتیں اور مذہبی سیاسی جماعتیں اپنی اپنی ڈگر پر چل رہی ہیں مگر اس کے نتائج کیا نکلیں گے؟۔ کوئی حکومت سے چمٹ کر اپنے مفادات حاصل کرتاہے ۔ کوئی مذہب کو اپنا الو سیدھا کرنے کا ذریعہ سمجھتاہے لیکن اندھے ہوکر مذہب کو بے دریغ استعمال کیا جارہاہے۔ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر منظور احمد امریکہ میں بھی پروفیسر رہے ہیں۔ بہت قابلِ احترام شخصیت ہیں۔ طالب علمی کے دور میں جماعت اسلامی کے اسلامی جمعیت طلبہ کے مرکزی ناظم اعلیٰ رہے ہیں۔ عربی پر پورا عبور حاصل کیا ہے اور اصول فقہ کی تعلیمات کو درست معنیٰ میں سمجھ لیاہے لیکن اسلام کے نام پر خلوص کیساتھ اسلام کی حمایت میں ایسی کتاب لکھ ڈالی جو اسلام کی بنیادوں کو ہلاکر رکھ دینے کیلئے کافی ہے۔ علماء ومفتیان حضرات مدارس میں اصول فقہ کی تعلیم حاصل کرتے ہیں مگر اس تعلیم کی روح سے بالکل ناواقف ہوتے ہیں ورنہ دو باتوں میں ایک بات ضرور ہوتی یا تو ڈاکٹر منظور احمد صاحب کی طرح اسلام سے جان چھڑانے کی بات کرتے اور یا پھر ہماری تحریک میں شامل ہوکر اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی بنیاد ڈالتے۔
رسول اللہ ﷺ نے ایک شر کا ذکر قرون اولیٰ کے دور میں کیا تھا ، اس سے پہلے جب خواتین پر مساجد میں آنے سے روکنے کا عمل شروع کیا گیا تو اس میں اجتہادی غلطی شامل تھی۔ اب ایک طرف اسکول کالج، یونیورسٹیوں ، کاروباری مراکز اور دفاتر میں مخلوط نظام رائج ہوتا جارہا ہے۔ یورپ و مغربی دنیا کی طرح اسکے نتائج کھلے عام فحاشی کی صورت میں نکلیں گے تو دوسری طرف فرقہ وارانہ ذہنیت کی وجہ سے مساجد خوف و دہشت اور نفرتوں کی آماجگاہیں بنی ہوئی ہیں۔ حج کا عظیم اجتماع آج بھی خواتین و حضرات کا مخلوط ہوتا ہے، جو مذہبی سیاسی جماعتیں خواتین کے کردار کی مخالفت کرتی تھیں جونہی پرویز مشرف نے خواتین کو خصوصی نشستیں دیں تو اپنی بیگمات ، بیٹیوں اور سالیوں کو اسمبلیوں میں لایا گیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر اسمبلی میں جانے کیلئے مساجد میں جانا بھی ضروری قرار دیا جائے تو اللہ کیلئے نہ سہی پارلیمنٹ کیلئے مساجد بھی آباد ہوجائیں گی۔ اگر کوئی اپنی بیگم ، بیٹی، ماں اور بہن کیساتھ پانچوں وقت باجماعت مسجد میں نماز پڑھنا شروع کردے تو اس سے بڑھ کر کیا ولایت اور شرافت ہوسکتی ہے؟۔ مساجد کردار سازی کے اہم ترین مراکز ہیں لیکن اسکا فائدہ نہیں اٹھایا جارہا ہے۔ جدید دنیا میں داخل ہوتے ہوئے اگر شہر گاؤں محلے کی مساجد کو کردار سازی کیلئے بنیادی ماحول کے طور پر استعمال کیا جائے تو اسلامی معاشرہ پوری دنیا میں جلد سے جلد غالب آجائیگا۔ مکہ مکرمہ کے مسجد حرام میں خواتین و حضرات ایک ساتھ ہی طواف کرتے ہیں اور نمازیں پڑھتے ہیں۔ جہاں ایک نماز کا ثواب لاکھ کے برابر ہے، مگر 49 او ر 89کروڑ کے برابر ثواب کمانے والوں کو بھی زبردست کردار ادا کرنا چاہیے تھا۔

اجنبی کا تعارف حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں

قال رسول اللہ ﷺ: اذا حضر الغریبَ فالتفتُ عن یمینہٖ و عن شمالہٖ فلم یرالا غریباً فتنفس کتٰب اللہ لہ بکل نفس تنفس الفی الف حسنۃ و خط عنہ الفی الف السیءۃ فاذا مات مات شہیداً(الفتن: نعیم بن حماد)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب اجنبی کو میرے پاس حاضر کیا گیا تو میں نے اس کی طرف دائیں جانب سے التفات کیا اور بائیں جانب سے التفات کیا ، وہ نظر نہیں آتا تھا مگر اجنبی، پس اللہ کی کتاب پوری عظمت کیساتھ اسکے سامنے روشن ہوگئی ، اس کو ہزارہا ہزار نیکیاں ملیں اور ہزار ہا ہزار گناہیں اسکی معاف کی گئیں۔ پس جب وہ فوت ہوا تو شہادت (گواہی) کی منزل پاکر فوت ہوا۔
یہ حدیث امام بخاری کے استاذ نعیم بن حماد ؒ نے اپنی کتاب الفتن میں نمبر 2002 درج کی ہے، یہ اجنبی کا تعارف بتایا گیاہے

قرون اولیٰ میں خیر اور شرکا تصور

نبوت و رحمتﷺ کے بعد خلافت راشدہ کا تیس سالہ دور بھی مثالی تھا۔ حضرت عمرؓ کے دور میں ترقی و عروج کی منزلیں طے ہوئیں ، حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد حضرت علیؓ کادور مسلمانوں کی آپس میں لڑائی ، جھگڑے اور فتنے فساد کا دور تھا۔ حضرت حسنؓ نے مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں کے درمیان صلح کا کرائی، جسکی پیشگوئی نبیﷺ نے فرمائی تھی۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے وقت چالیس دن تک انکے گھر کا محاصرہ رہا ۔ حضرت عثمانؓ کی داڑھی میں ہاتھ ڈالنے والے پہلے شخص حضرت ابوبکرؓ کے بیٹے تھے۔ خوارج پہلے حضرت علیؓ کیساتھ تھے مگر بعد میں مخالف ہوگئے اور جب خلافت کا مرکز مدینہ سے کوفہ و شام منتقل ہوا تو مسجدوں کے جمعہ خطبات میں ایک دوسرے پر لعن طعن کے معاملات بھی شروع ہوئے، ان تلخ تاریخی حقائق کواگر دیکھا جائے تو جن صحابہؓ کے بارے میں اللہ نے فرمایا کہ آپس میں ایکدوسرے پر رحیم اور کافروں پر سخت ہیں مگر عشرہ مبشرہ کے صحابہؓ نے ایکدوسرے سے قتال کیا۔ یہ حقیقت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ رسول اللہ ﷺ نے اسلام کے خیر کے بعد جس شر کی پیش گوئی فرمائی تھی وہ جنگ صفین اور جنگ جمل وغیرہ میں پوری ہوئی تھی۔ قرآن میں یہود و نصاریٰ کے حوالے سے تنبیہ ہے کہ وہ اپنے علاوہ دوسروں کے جنت میں داخل ہونے کے قائل نہ تھے اور پھر خود بھی ایک دوسرے کی مذمت کرتے تھے۔
اسلامی تاریخ اور خلافت راشدہ کے آخری دور میں جس شر کا نبی ﷺ نے ذکر فرمایا وہ پورا ہوکر رہا۔ اگر امت مسلمہ حقائق کی طرف دیکھنے کے بجائے جانبداری اور وکالت کا سلسلہ جاری رکھے تو قیامت تک بھی مسلم اُمہ متحد و متفق اور وحدت کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتی ہے۔ اہل تشیع کے نزدیک ایک گروہ حق پر اور دوسرا باطل پر تھا۔ آغا خانی اسماعیلیہ فرقہ کے شیعہ امام حسنؓ کو اسلئے نہیں مانتے کہ صلح میں بنیادی کردار ادا کیا، اثنا عشری امامیہ فرقہ جو اہل تشیع کا اکثریتی فرقہ ہے حضرت امام حسنؓ کا کردار قابلِ تحسین سمجھتا ہے ۔ اہل سنت یزید کے مقابلے میں حضرت امام حسینؓ کے کردار کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ سنی شیعہ کو قریب لانے کیلئے ضروری ہے کہ جن غلط فہمیوں کو دور کیا جاسکتاہے ان کو جلد از جلد دور کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔ باطل قوتیں شیعہ سنی کو لڑا کر دنیا میں اسلحہ کے فروغ اور اپنے مفادات حاصل کرنے کے چکر میں ہیں۔ایران و سعودی عرب کے درمیان فتنہ و فساد کا مرکز پاکستان بنے تو دنیا کی واحد مسلم ایٹمی قوت کا بھی خاتمہ ہوجائیگا۔ کوئٹہ میں قتل و غارت گری کے شکار ہزارہ برادری کے باشعور لوگ ایران اور سعودی عرب دونوں کو برا بھلا کہہ رہے تھے کہ انکی وجہ سے پھر سے شیعہ سنی کے درمیان منافرت کا بازار گرم ہوگا ۔ اللہ نے بار بار اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور اولی الامر کے ساتھ اختلاف کی گنجائش رکھی ہے۔حضرت علیؓ اور یزید کی اولی الامری میں بڑا واضح فرق تھا۔
مسلم اُمہ کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اولی الامر سے اختلاف کی گنجائش کے باوجود خلافت و امامت کے مسئلے کو اتنی اہمیت دی ہے کہ قرآن و حدیث کی طرف توجہ نہیں دی گئی اور تاریخی اختلافات کو اچھالتے اچھالتے فرقہ واریت کو اسلام سمجھ لیا گیا ۔ اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ کے فرقہ وارانہ ذہنیت کی بھی بیخ کنی فرمائی ہے اور عبادتگاہوں کی آبادی کو قرآن میں اہمیت دی ہے۔ تمام مذاہب یہود ، نصاریٰ، مجوس اور مسلمانوں کی مساجد کو اللہ کے نام کی وجہ سے قائم دائم رہنے کی قرآن میں وضاحت ہے۔ جب خلافت راشدہ کے دور میں اللہ کے حکم کے برعکس مسلمان خواتین کو مساجد میں آنے سے روکا گیا تو اسمیں ان کی نیت خراب نہ تھی لیکن یہ قرآن و سنت کے بالکل منافی تھا۔ اللہ تعالیٰ نے نماز میں اجتماعیت کا حکم دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ اپنی بیگمات کو مساجد میں آنے دو، ان کو مساجد میں آنے سے نہ روکو۔ اسی طرح سے جن کی بیگمات یہود و نصاریٰ تھیں ان کو بھی ان کی عبادتگاہوں میں جانے دینے کا حکم تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی ازواج سے فرمایا تھا کہ میرے ساتھ جو حج کرلیا وہ کافی ہے ، میرے بعد حج نہیں کرنا۔ کچھ ازواجؓ نے اس حکم کی پابندی کی ، اُم المومنین حضرت میمونہؓ مکہ مکرمہ کی رہائشی تھیں لیکن حج نہیں کیا۔ اوراُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ مدینہ منورہ سے حج کیلئے نکلیں اور پھر سیاسی و جہادی لشکر کی قیادت فرمائی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا تھا کہ’’ اگر اس زمانے میں نبی ﷺ حیات ہوتے تو خواتین پر مساجد میں جانے کی پابندی لگاتے‘‘۔ اجتہادی معاملہ میں خطاء کی گنجائش ہوتی ہے ۔ اولی الامر سے اختلاف کی گنجائش ہوتی ہے اور اولی الامر سے جن کو اختلاف ہوتا ہے ان سے بھی یقیناًاختلاف کی گنجائش رہتی ہے۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت پر قرآن میں بیعت رضوان کا ذکر ہے ، جو صلح حدیبیہ سے پہلے حضرت عثمانؓ کی شہادت کی افواہ پر لی گئی تھی۔ حضرت علیؓ کو شہید کرنے والے کو سزا دی گئی مگر حضرت عثمانؓ کو شہید کرنے والے ہجوم کو سزا دینا ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔ جو ہوا سو اللہ پر چھوڑ دینا چاہیے۔
قرون اولیٰ کے دور میں جب مسلمانوں نے خواتین کو اجتہادی بنیاد پر مساجد میں نہ آنے دیا تو خوف و ہراس کی فضا بن گئی۔ حضرت علیؓ کو مسجد میں جاتے ہوئے شہید کیا گیا۔ حضرت عبد اللہ ابن زبیرؓ کے وقت میں بیت اللہ کا مطاف منجنیق کے ذریعے پتھروں سے بھر دیا گیا۔ بنو اُمیہ کے دور میں جہری نمازوں میں سورہ فاتحہ اور دیگر سورتوں سے پہلے بسم اللہ کو جہری پڑھنے کی پابندی لگائی گئی۔ حضرت امام شافعیؒ کو نماز میں جہری بسم اللہ پڑھنے کو ضروری قرار دینے پر رافضی قرار دیا گیا۔ ان کا منہ کالا کرکے گدھے پر گھمایا گیا۔ آج نئی صورتحال ہے ، اگراس رمضان میں سورہ فاتحہ اور دیگر سورتوں سے پہلے بسم اللہ کو جہری پڑھنے کی ابتداء کی گئی تو یہ بہت بڑا انقلاب ہوگا۔ اہل تشیع ماتم کو سنت اور تراویح کو بدعت سمجھتے ہیں تو علمی بنیادوں پر عملی طور سے حقائق کو سامنے لانا ہوگا۔ ضد اور ہٹ دھرمی چھوڑ کر اہل سنت جہری نمازوں میں جہری بسم اللہ پڑھنی شروع کریں گے تو اہل تشیع بھی ماتم کی زحمت سے باز آنے میں امسال دیر نہیں لگائیں گے۔ بعض قرآنی آیات میں واضح رہا کہ صحابہؓ نے نبیﷺ سے اختلاف کیااور بعض اوقات وحی بھی نبیﷺ کے برعکس مخالف کی تائید میں نازل ہوئی جیسے بدرکے قیدیوں پر فدیہ، سورۂ مجادلہ، رئیس المنافقین کا جنازہ اور حضرت علیؓ کی بہن سے فتح مکہ کے بعد ہجرت نہ کرنے کے باوجود نکاح کی پیشکش۔