پوسٹ تلاش کریں

خاتون نے مُولی سے مولوی کو کس طرح شرعی مسئلہ سمجھادیا

اسلام کے نظام کو پوری دنیا خوشی سے قبول کرکے طرزِ نبوت کی خلافت قائم کرنے میں ہماراساتھ دیگی
علماء ومفتیان کو مفاد پرستی چھوڑ کر سچائی کا کلمہ پڑھنا ہوگا۔ غیر فطری خود ساختہ مسائل کو اعلانیہ چھوڑنا ہوگا
ہمیں درشت زباں کا شوق نہیں بلکہ علماء ومفتیان گونگے شیطان بن کر بہت سخت لہجے پر مجبور کررہے ہیں

سورۂ مجادلہ میں ہے کہ ایک خاتون نے نبیﷺ سے اپنے شوہر کے حوالہ سے جھگڑا کیا،وہ کہہ رہی تھی کہ مجھے اپنے شوہر نے ماں کی پیٹھ سے تشبیہ دی ہے، مجھے حرام نہیں ہونا چاہیے۔ نبیﷺ مروجہ مذہبی قول کے مطابق فتویٰ دے رہے تھے کہ آپ اپنے شوہر پر حرام ہوچکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ دونوں کا مکالمہ سن رہا تھا اور فیصلہ خاتون کے حق میں دیا ، فرمایا کہ ظہار کرنے سے بیوی ماں نہیں بنتی بلکہ ماں وہ ہے جسکے پیٹ سے پیدا ہوئے ہیں۔ یہ منکر اور جھوٹا قول ہے۔ (قرآن و احادیث کا خلاصہ)۔ اس خاتون کا نام حضرت خولہ بنت ثعلبہؓ تھا، حضرت عمرؓ اس وحی کی وجہ سے ان کا بے حد احترام کرتے تھے۔ اسلام کا یہ انوکھا قانون احترام انسانیت کا درس دیتاہے۔ علماء ومفتیان کا فرض بنتاہے کہ اپنے ماحول اور اجتہاد سے طلاق کے مسئلہ پر کسی کو بھی اختلاف سے محروم کرنے کا تصور چھوڑ دیں ، ورنہ وہ نبیﷺ کے جانشین نہیں بلکہ شیطان کے آلۂ کار بن جائیں گے۔یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ نبیﷺ سے حضرت عمرؓ نے حدیث قرطاسؓ کے مسئلہ پر اختلاف کیا تھا لیکن اس اختلاف پر بھی نبیﷺ نے گستاخی اور واجب القتل کا فتویٰ جاری نہیں کیا، جبکہ ہماری عدالتوں کے جج اور علماء ومفتیان قرآن وسنت سے بالکل غافل ہیں اور اسی لئے اپنے سے اختلاف اور نافرمانی پر بھی گستاخی اور قتل کا فتویٰ لگادیتے ہیں۔
حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں ریاستی حکم جاری فرمایا کہ ’’ عورت کوحق مہر زیادہ لینے کا حق نہیں ہوگا‘‘ ۔ تو ایک خاتونؓ نے اس کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ تم کون ہوتے ہو، ہمارے حق مہر کا فیصلہ کرنے والے؟۔ جب اللہ نے ہمیں اپنی مرضی کے مطابق زیادہ اور کم کا اختیار دیا ہے تو آپ کو ہمارے حق میں مداخلت کا کوئی حق نہیں۔ حضرت عمرؓ نے اس خاتون کی بات سن کر اپنا حکم واپس لیا اور کھلم کھلا اظہار کردیا کہ اس خاتون کی بات درست ہے اور عمر نے غلطی کی تھی ، اخطاء عمر واصابت المرأۃ
اسلام سے زیادہ روشن خیال دین کی مثال دنیا کے کسی مذہب میں نہیں، فقہی مسالک اور فرقہ وارانہ اقسام وانواع کے اختلافات مسلمانوں کے درمیان موجود ہیں، ان اختلافی مسائل کی تہہ تک پہنچنے کیلئے مدارس میں بھرپور طریقے سے دلائل کی تعلیم دی جاتی ہے، افسوس کی بات یہ ہے کہ مدارس کے دارالافتاء میں بیٹھے مفتی صاحبان بھی خود کو بااختیار نہیں بلکہ اپنے اداروں کا قیدی بتاتے ہیں۔ درسِ نظامی کے نصاب اور طلاق کے مسئلہ پر ایک زبردست ہیجان پیدا ہواہے اور کئی سال پہلے میں نے مولانا فضل الرحمن کو بالمشافہ دعوت دی تھی لیکن وہ اعتراف کررہے تھے کہ ان کے پاس کوئی علمی قابلیت نہیں، آج ڈیرہ اسماعیل خان کے گلی کوچے میں تحریکِ انصاف کے امین اللہ گنڈاپور نے بہت زبردست فنڈز لگاکر کام کیا اور جب پرویزمشرف کے زمانہ میں پاکستان بھر میں بہت سڑکیں بن گئیں اور بہت کام ہوا تو یہ تماشہ بھی عوام نے دیکھا کہ مولانا فضل الرحمن کے بھائی اور ماموں نے سڑکوں کے پیسے کھالئے تھے۔ پائی، اماخیل اور نندور ملازئی ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان کے وہ گاؤں ہیں جہاں بڑی تعداد میں علماء موجود ہیں۔ شہروں میں جمعہ کے دن مساجد کی تقریروں کا پتہ نہیں چلتا مگر گاؤں میں لاؤڈاسپیکر کی آواز وہاں صاف سمجھ میں آتی ہے جہاں ایک سے زیادہ جمعہ نہیں پڑھایا جاتاہے۔ ایک مولوی صاحب نے تقریر کرتے ہوئے مسئلہ بتادیا کہ ’’عورت بچہ جن رہی ہو، آدھا بچہ باہر آجائے تو بھی اس صورت میں فرض نماز پڑھنا ضروری ہے‘‘۔ ایک خاتون نے اس مولوی صاحب سے کہا کہ ’’ تمہارے اندر پیچھے سے ایک آدھی مولی ڈالی جائے تو پھر میں دیکھتی ہوں کہ تم کس طرح نماز میں رکوع وسجدہ کرتے ہو؟‘‘مولانا فضل الرحمن بتائیں کہ خاتون کی بات سے اس مسئلہ سے رجوع ہوجائیگا یا نہیں؟۔ علامہ شاہ تراب الحق قادریؒ نے بھی جمعہ میں مسئلہ بتایا کہ ’’ لیٹرین کرتے ہوئے مقعد سے جو پھول نکلتاہے ، اگر اس کو دھونے کے بعد سکھایا نہ جائے اور وہ اندر داخل ہوجائے تو روزہ ٹوٹ جائیگا‘‘۔ علماء کرام ٹی وی پربھی سمجھائیں جو مسائل مسجدوں میں بتاتے ہیں،فرقہ وارانہ غلاظت اور سیاست کو دینِ اسلام کا نام نہیں دیا جاسکتا ہے۔ حکمرانوں کے تھالی چٹ درباری ملاؤں نے ہمیشہ دین کا بیڑہ غرق کیا، امام ابوحنیفہؒ ودیگر ائمہ نے سختیاں برداشت کی ہیں۔

شیعہ سنی فرقہ واریت کی بڑی بنیاد اور اسکا حل

جب انصار و مہاجرین اور قریش و اہلبیت کے درمیان شروع سے خلافت و امامت کے مسئلے پر اختلافات موجود تھے تو آج کے دور میں اس کا حل نکلے بھی تو کوئی خاص فائدہ نہیں۔ البتہ اختلاف کو تفریق و انتشار کا ذریعہ بنانا درست نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اسلام اجنبیت کی حالت میں شروع ہوا ، یہ پھر اجنبیت کی طرف لوٹ جائیگا خوشخبری ہے اجنبیوں کیلئے۔ رسول اللہ ﷺ کی چاہت یہ تھی کہ لوگ اپنے ہاتھ سے خود زکوٰۃ تقسیم کریں۔ اللہ تعالیٰ نے عوام کی خواہش پر حکم دیا کہ ان سے زکوٰۃ لو ، یہ ان کیلئے تسکین کا ذریعہ ہے۔ نبی ﷺ نے اللہ کا حکم مانا مگر اپنے اہل بیت کیلئے اس کو حرام قرار دیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے سمجھا کہ خلیفہ کی حیثیت سے مجھے بھی زکوٰۃ لینے کا حکم ہے اور اس کی خاطر جہاد بھی کیا جس سے اہل سنت کے چاروں ائمہ مجتہدین نے اختلاف کیا۔ حضرت عمرؓ کی طرف منسوب کیا گیا کہ مؤلفۃ القلوب کی زکوٰۃ کو انہوں نے منسوخ کیا تو اس کو اکثریت نے قبول کیا جس میں ان کا اپنا مفاد تھا۔ حضرت عثمانؓ نے سمجھا کہ عزیز و اقارب کیساتھ احسان کرنا اللہ کا حکم ہے اسلئے انکے خلاف بغاوت کا جذبہ ابھرا اور ان کو مظلومیت کے ساتھ شہید کیا گیا۔ اللہ کی طرف سے رسول اللہ ﷺ پر رہنمائی کیلئے وحی نازل ہوتی تھی جس کا سلسلہ بند ہوا تھا۔
شیعہ سنی اختلاف میں ایک بنیادی مسئلہ حدیث قرطاس کا ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے قلم اور کاغذ منگوا کر وصیت لکھوانے کا فرمایا، حضرت عمرؓ نے کہا کہ ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے۔ بہت سی وہ آیات جن میں اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی اطاعت کا حکم ہے ، اہل تشیع اس کو آیات کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں، حضرت عمرؓ کی طرف سے رسول اللہ ﷺ سے اختلاف کا جواز ہو تو یہ بالکل بھی کوئی غیر معقول بات نہیں کہ اہل تشیع حضرت عمرؓ سے قیامت تک اپنا اختلاف برقرار رکھیں اور اسی پر دنیا میں گامزن رہیں۔ میں صرف اس انتشار کو ختم کرنے کیلئے کچھ دلائل دیتا ہوں تاکہ یہ فرقہ واریت کے زہر کیلئے تریاق کا کام کرے۔ قرابتداری کی محبت فطری بات ہے ، حضرت نوح ؑ نے اپنے کافر بیٹے سے بھی محبت کی۔ حضرت علیؓ کی ہمشیرہ حضرت اُم ہانیؓ شیعہ سنی دونوں کی نظر میں احترام کے لائق ہیں۔ وہ اللہ کے حکم کے مطابق ہجرت نہ کرسکیں ، اپنے مشرک شوہر کیساتھ فتح مکہ تک رہیں، قرآنی آیات میں مشرکوں سے نکاح منع ہونے کی بھرپور وضاحت ہے اور الزانی لا ینکح اور الطیبون للطیبات اور لاھن حل لھم ولا ھم یحلون لھن وغیرہ۔ ان تمام آیات کے باوجود جب اُم ہانیؓ کو اس کا شوہر چھوڑ کر گیا تو رسول ﷺنے نکاح کا پیغام دیا اور انہوں نے منع کردیا۔ ان سب چیزوں کے منفی منطقی نتائج نکالیں گے تو بدمزگی پھیلے گی۔ نبی ﷺ کو اللہ نے خود منع فرمایا کہ جن رشتہ داروں نے ہجرت نہیں کی ان سے نکاح نہ کرو (القرآن)۔ اسکے علاوہ نبی ﷺ نے مشاورت کرکے بدر کے قیدیوں سے فدیہ کا فیصلہ فرمایا تو اللہ نے اس کو مناسب قرار نہیں دیا۔ جس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ صحابہ کرامؓ کی تربیت اللہ کی طرف سے قرآن کی بھی اندھی تقلید کی نہیں ہوئی تھی۔ الذین اذا ذکروا باٰیت اللہ لم یخروا علیھا صما و عمیاناً (یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی آیات کے ذکر پر بھی اندھے اور بہرے ہوکر گر نہیں پڑتے)۔ مجھے خود بھی اس خاندان سے تعلق کا شرف حاصل ہے اور مجھے اس بات پر فخر ہے کہ حضرت اُم ہانیؓ نے اول سے آخر تک جو کردار ادا کیا اس میں ایک سلیم الفطرت خاتون کا ثبوت دیا۔ صحابہؓ اور اہل بیتؓ کے کردار کو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والے انسانوں کیلئے نمونہ بنایا ہے۔ حضرت اُم ہانیؓ کے اس کردار کی وجہ سے کوئی بھی دنیا کے کسی قانونی نکاح کو زنا نہیں قرار دے سکتا۔ لقد خلقنا الانسان فی احسن التقویم ثم رددناہ اسفل السافلین ہم گراوٹ کے آخری درجہ پر پہنچے ہیں جس کا قرآن میں ذکر ہے ، صحابہؓ واہلبیتؓ حضرت اُم ہانیؓ کا تعلق احسن التقویم سے تھا ۔
ہم نے یہ تماشہ بھی دیکھا ہے کہ علماء و مفتیان ہاتھ جوڑ جوڑ کر کہہ رہے تھے کہ خداکیلئے ہم حاجی عثمان ؒ کو بہت بڑا ولی اور مسلمان قرار دینگے لیکن ہماری طرف سے لگنے والے اکابرین پر فتویٰ کی تشہیر نہ کی جائے۔ جب ہم نے معاف کردیا تو پھر متفرق جائز و ناجائز اور نکاح منعقد ہوجائے گا وغیرہ کے فتوے کے بعد حاجی عثمان صاحبؒ کے اپنے ارادتمندوں اور عقیدتمندوں کے آپس کے نکاح کو بھی ناجائز اور اس کے انجام کو عمر بھر کی حرامکاری اور اولاد الزنا قرار دیا گیا حالانکہ اسلام دنیا بھر کے مذاہب و انسانوں کے قانونی نکاح و طلاق کو اسی طرح سے تسلیم کرتا ہے جیسے مسلمانوں کا۔ جن مفتیوں کے آباو اجداد ہندو تھے اور وہ مسلمان ہوئے تو وہ بھی حلال کی اولاد ہیں۔ شیعہ سنی تفرقے بہت سی غلط فہمیوں کا نتیجہ ہیں عشرۂ مبشرہ کے صحابہ کرامؓ نے بھی غلط فہمی کی بنیاد پر جنگیں کی تھیں۔ ائمہ اہلبیت کا توحید پر عقیدہ مثالی تھا مگر شیعہ حضرت علیؓ کو مولا سمجھ کر شریک ٹھہراتے ہیں یہ عقیدے کی اصلاح کیلئے ضروری ہے کہ حضرت علیؓ کو وہ مظلوم سمجھیں تاکہ مولا میں تفریق رہے۔

مجدد ملت ودین حضرت حاجی محمد عثمان قدس سرہ

دیوبندی مولانا اشرف علی تھانویؒ کومجدد کہتے ہیں حالانکہ انکے ہم عصر مولانا شبیر عثمانی، مولانا مدنی، مولانا کشمیری، مفتی کفایت اللہ، مولانا سیوہاری، مولانا خلیل احمد، مولانا محمد الیاس، مولانا سندھی کے علاوہ انکے استاذ شیخ الہند اور انکے اساتذہ مولانا گنگوہی و مولانا نانوتوی کے سامنے مولانا تھانوی کی حیثیت نہ تھی ، انکے مرشد حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ مجدد تھے۔ فیض کیوجہ سے سب مجدد نظر آئے۔ مجدد الف ثانیؒ نے مرشد خواجہ باقی باللہؒ کو مجدد قرار دیا۔ مجدد کے مرید علماء نے دین کو غلو سے پاک کرنے کا کارنامہ انجام دینا ہوتا ہے۔ حاجی امداداللہؒ کے مریدعلماء نہ ہوتے تو حاجیؒ کو کوئی مجدد نہ سمجھ سکتا تھا ۔ حاجی عثمانؒ کے مرید علماء ہوائی فائرنگ کے مانند فتوؤں سے بھاگ گئے۔ وہ وقت دور نہیں کہ حاجی عثمانؒ کو مخالف بھی مجدد مان لیں گے۔
تصوف کے سلسلے کا جوفیض مولانا اشرف علی تھانویؒ کے توسط سے عام ہوا ، اسکی مثال حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ کے کسی دوسرے خلیفہ میں نہیں ملتی، جس طرح نبیﷺ کے صحابہؓ میں حضرت علیؓ عمر کے لحاظ سے چھوٹے تھے لیکن تصوف کے حوالہ سے حضرت علیؓ کو بہت امتیازی حیثیت حاصل تھی،مولانا اشرف علی تھانویؒ کے ایک خلیفہ مولانا فقیر محمد صاحبؒ تھے، ان پر عام طور سے گریہ کی کیفیت طاری رہتی تھی مگر مکہ و مدینہ میں حاجی عثمانؒ کا بیان سن کر جذب وکیف میں گھومنے لگ جاتے تھے۔ حاجی عثمانؒ سے کہا کہ مجھ پر بار بار الہام وارد ہوتاہے کہ آپ کو حاجی امداد اللہ ؒ کی نسبت سے خلافت دوں، حاجی عثمانؒ منع کرتے تھے کہ مجھے اجازت نہ ملے ،تو اس نسبت سے خلافت نہیں لے سکتا۔ پھر حاجی عثمانؒ کو بھی اجازت مل گئی اور مولانا فقیر محمدؒ نے لکھا کہ ’’مدینہ منورہ میں 27رمضان المبارک کو ورود ہو ا، اور اس کی تکمیل ہوئی، حاجی عثمانؒ صاحب حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ سے بہت مشابہت رکھتے ہیں، یہ ان کی مہربانی ہے کہ سلسلہ کی خلافت کو قبول فرمالیا ۔‘‘۔ پھر کافی عرصہ بعد بعض حاسدین نے مولانا فقیر محمدؒ سے کہا کہ خلافت واپس لے لو، انہوں نے خلافت کے واپس لینے کا اعلان کردیا، مگر اس کی وجہ سے حاجی عثمانؒ کے حلقہ ارادت پر کوئی اثر نہیں پڑا، لوگ مولانا فقیرمحمدؒ کی وجہ سے نہیں حاجی عثمانؒ کی اپنی شخصیت سے متأثر تھے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے علماء ومفتیان نے مولانا فقیر محمد سے پوچھ لیا کہ خلافت ورود کی نسبت سے دی تو کسی کے مشورے سے واپس لی، یا دوبارہ ورود ہوا؟ تو انہوں نے کہا کہ دوبارہ ورود تو نہیں ہوا، کسی نے مشورہ دیا ، جس پر انہوں نے کہا کہ شرعی طور سے آپ کو خلافت واپس لینے کا حق دوبارہ ورود پر ہے، مشاورت سے یہ خلافت واپس نہیں لے سکتے۔ جس پر مولانا فقیر محمد نے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے لیٹر پیڈ پر لکھ دیا کہ ’’ جو خلافت میں نے حاجی عثمانؒ کو ورود کی نسبت سے دی تھی وہ تاحال قائم اور دائم ہے‘‘۔ اس پر مولانا فقیرمحمدؒ کے دستخط کے علاوہ مفتی احمد الرحمنؒ ، مفتی ولی حسن ٹونکیؒ اور مفتی جمیل خانؒ کے بھی بطورِ گواہ کے دستخط موجود ہیں۔
پھر حاجی عثمانؒ کے خلفاء نے بغاوت کرلی اور علماء ومفتیان نے فتویٰ لگا دیا اور مولانا فقیرمحمدؒ کو بھی مشورہ دیدیا کہ خلافت واپس لے لو، تو خلافت واپس لینے کا بھی اعلان شائع کیا گیا۔ اقراء ڈائجسٹ کی مجلس مشاورت میں حاجی عثمانؒ کا نام بھی تھا۔ حاجی عثمان ؒ کے مریدوں میں فوجی افسران 8بریگڈئیرز،کورکمانڈر جنرل (ر)نصیر اختر، جنرل ضیاء بٹ، پولیس افسرڈی آئی جی وغیرہ شامل تھے۔ جماعت اسلامی، اہلحدیث، تبلیغی جماعت ، دیوبندی مدارس کے علماء ومفتیان بڑی تعداد میں بیعت تھے، مفتی محمد تقی عثمانی ومفتی محمد رفیع عثمانی کے استاذدارالعلوم کراچی کے مدرس مولانا عبدالحق ؒ بھی بیعت اور بڑے خلیفہ تھے، وہ کہتے تھے کہ’’ بیعت کے بعد پتہ چلا کہ نئے سرے سے علم حاصل کروں‘‘۔ مولانا اشفاق احمد قاسمیؒ دارالعلوم دیوبند کے فاضل اور دارالعلوم کراچی کے ملازم فتوؤں کے بعد بیعت پر قائم رہے۔ مولانا عبداللہ درخواستیؒ کے نواسے مشکوٰۃ اور جلالین کے میرے استاذمولانا انیس الرحمن درخواستی شہیدؒ فتوؤں کے بعد بیعت ہوئے تھے۔
مولانا محمد مکی اور جامعہ صولتیہ مکہ کے مولانا سیف الرحمن فتوؤں کے بعد حاجی عثمانؒ سے تعلق رکھتے تھے ، خطیب العصر مولانا سید عبدالمجید ندیم بھی فتوؤں کے بعد حاجی عثمانؒ سے ملاقات کیلئے تشریف لائے اور کہا کہ حضرت عثمانؓ کی مظلومیت نام کی وجہ سے آپ کو بھی بھگتنا پڑی ہے۔ فتوؤں کے بعد میں نے خواب دیکھاتھا کہ ’’حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ مسجدالٰہیہ خانقاہ چشتیہ خدمت گاہ قادریہ مدرسہ محمدیہ یتیم خانہ اصغر بن حسینؓ تشریف لائے ہیں اور آنے کا مقصد مجھے دیکھنا تھا، میں اپنی جگہ لیٹا رہا اور ملنے کیلئے دل سے آمادہ نہ تھا، آخر کار آپؒ کمرے کے دروازے پر تشریف لائے تو مجھے مجبوراً اٹھنا پڑا‘‘۔حاجی عثمان ؒ نے زندگی میں اپنا جانشین بنانے کیلئے بہت زور ڈالا مگر میں راضی نہ تھا، پھر انکے وصال سے پہلے میں نے رضامندی ظاہر کی تو خوش ہوگئے۔ پھر میں نے وزیرستان سے خلافت کیلئے کام کرنے کا فیصلہ کیا تو خواب میں فرمایا کہ ’’خانقاہ سے آکر کام شروع کرلو‘‘۔ وفات سے قبل مجھ سے فرمایا کہ’’ مولانا یوسف لدھیانوی ؒ سے معلوم کرلینا، انکی طرف سے فتویٰ میری سمجھ میں نہیں آتا‘‘۔
دین کا کام شروع کیا تو مولانا یوسف لدھیانویؒ کی خدمت میں حاضری دی، مولانا لدھیانویؒ نے فرمایا کہ’’وہ میرا فتویٰ نہیں تھا، مفتی جمیل خان نے لکھ کر میری طرف منسوب کیا، میں حاجی عثمانؒ سے بہت عقیدت رکھتا ہوں، فتویٰ دینے والوں کا نام دنیا میں اس طرح سے نہیں رہے گا جیسے امام مالکؒ کیخلاف فتویٰ لگانے والوں کا آج نام نہیں ، تاریخ میں حاجی عثمانؒ کا نام امام مالکؒ کی طرح رہے گا۔ ان کے خلاف ساری خباثت مفتی رشید احمد لدھیانویؒ نے کی ہے‘‘۔ پھر جب میں اپنے کچھ ساتھیوں کو توحید آبادصادق آباد دورۂ صرف کیلئے مولانا نصراللہ خانؒ کے پاس لے گیا تو میری غیر موجودگی میں ساتھیوں پر مختلف جگہوں سے آئے علماء وطلباء نے تہمتوں کا سلسلہ شروع کیا، آخرکار مولانا نصراللہ ؒ سے مطالبہ کیا کہ ہم نکلیں گے یا ان کو نکال دو، پھر وہ نکل کر چلے گئے۔ مولانا نصراللہ نے دوسروں کو مطمئن کرنے کیلئے مولانا لدھیانویؒ کے پاس بھیجا۔ مولانا لدھیانویؒ نے فرمایا کہ مخالفت کرنے والوں کو ہی نکال دو۔ اگر فتوؤں کی داستان شائع کردی تو بھی بہت سے خود کو شیخ الاسلام اور مفتی اعظم پاکستان سمجھنے والے منہ چھپاتے پھریں گے۔ ہمارے ظرف کا کمال ہے کہ ہم ان کو دیوار سے نہیں لگارہے ہیں ورنہ عدالتوں میں بھی ناک رگڑ وادیتے۔
مشاہدات بیان کرنے میں علماء وخلفاء ،تبلیغی جماعت میں چار ماہ لگانے والے اوراہلحدیث تک بھی شامل تھے، ان پر دارالعلوم کراچی کی طرف سے’’ الاستفتاء‘‘ مرتب کرکے لکھا گیا کہ ’’ ایک پیر اپنے خلیفہ کو مجبور کرتے کہ نبیﷺ کو دیکھتے ہو یا نہیں؟‘‘۔ کیا یہ ممکن تھا کہ سہارے سے اُٹھنے کا محتاج پیر کسی پر اس طرح کی زبردستی کرے کہ وہ خودتو نہ دیکھ سکے لیکن ہٹے کھٹے مرید کومجبور کردے؟۔ الائنس موٹرز کے ایجنٹ دنیادار علماء ومفتیان نے کتوں کی طرح بہرحال ہانپناتھا، دنیا و آخرت کی ذلت سے بچنے کیلئے جب تک علی الاعلان توبہ نہ کریں یہ فتویٰ پیچھا نہیں چھوڑے گا۔
اللہ کے ولی کو ستاکر معافی مانگ لیتے تو آج اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں ان کو ذلت کی چماٹوں کے بجائے دنیا میں بھی عزت ملتی اور آخرت میں بھی سرخرو ہوتے۔

اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی، بانی تبلیغی جماعت مولانا الیاس اور امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری

تفصیلات جاننے کیلئے یہاں کلک کریں

توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم (منکرات)

مولانا منیراحمد قادری نے بریلوی مفتی سے فتویٰ لیکر نعلین مبارک کے نقش کو قرآن کی گستاخی قرار دیکرمسجد سے ہٹوایادیا۔ علامہ تراب الحق قادریؒ دوسروں کو گستاخ کہتے رہے۔ ایک مفتی نے علامہؒ پر توہینِ رسالت کا فتویٰ لگایا کہ نبیﷺ کیلئے داماد کا لفظ استعمال کیاہے اگر ہم فتوے کی جان نہ نکالتے تو تراب الحق قادری کو قتل کردیاجاتا۔ بخاری میں ہے کہ نبیﷺ کو دیکھا تو صحابہؓ نے جوتے اتار ے۔ نبیﷺ نے نماز کے بعد فرمایا کہ مجھے یاد آیا گند لگا تھا ، تم نے کیوں اُتارے؟۔ عرب جوتے سمیت نماز پڑھتے ہیں، نبی ﷺ نے معراج میں جوتے نہ اُتارے، قرآن میں ہے کہ موسیٰ ؑ کوکوہِ طور پر واخلع نعلیکجوتے اتارنے کا حکم ملا۔ نعل کا معنیٰ جوتا ہے، جیسے گھوڑے کا نعل ۔ اللہ نے زبان میں بدنیتی کا لحاظ رکھا، راعنا کے بجائے انظرنا کا حکم دیا ، راعی چرواہا اگرچہ برا لفظ نہیں، انبیاء کرامؓ نے جانور چرائے ہیں، نبی ﷺ نے فرمایا :کلکم راعی وکلکم مسؤل عن رعتہ ’’تم میں ہر ایک راعی ہے اور اسکی رعیت کے بارے میں پوچھا جائیگا‘‘۔ رعیت زیادہ ہو توراعی معزز ہوگا۔ مذہبی طبقے نے الفاظ میں ادب کا لحاظ نہ کرنے پر اللہ کی سنت کا حق ادا کیا مگر غلو سے بچیں، ورنہ لفظِ نعلین پر گستاخی کا فتویٰ لگے گا۔ بریلوی نے دیوبندی کو اور دیوبندی نے جماعتِ اسلامی کو گستاخ قرار دیا تھا۔
اصل نعلین عرش جانے پر فخر ہو اور نقش ہو تو مسجد میں گستاخی؟۔ ایک فرقے کا ایک طبقہ مسجد بھردے اور دوسرا گستاخی قرار دے ؟۔ ایک صحابیؓ کی انگوٹھی کے نگینہ میں شیر کی تصویر تھی۔ رسول ﷺ کی رحمۃ للعالمینی کا تقاضہ ہے کہ دنیا کو جہالت کے اندھیروں سے نکالا جائے ، مولانا طارق جمیل کی غلط بات کو تحفظ دینے کیلئے معتقدجان کی بازی لگانے کی ہمت نہیں رکھتے ورنہ قتل کرتے۔ غازی علم دینؒ اور ممتازی قادریؒ نے جان کی بازی لگانے کی جرأت کرلی۔ جج اپنے حکم سے انحراف کو گستاخی قرار دے مگر نبیﷺ کا اسوۂ حسنہ حدیث قرطاس توانسانیت کو عروج کی منزل پر پہنچائے ۔
سلمان حیدر کا اغواء ایشوبنا، ڈاکٹر عامرلیاقت نے کہا کہ انڈیا میں ہے۔فوج نے کہا کہ ہم نے نہیں اٹھایا۔خبر آئی کہ اغواء کے بعد ویپ سائٹ پرپوسٹ لگائی گئی۔ اورمقبول جان نے کہا کہ سلمان حیدر کے ملوث ہونے کا نہیں کہہ سکتا، گھر پہنچا تو چوہدری نثار نے تحفظ دیا۔ بھاگاتو جج نے ایشو اٹھایا، یہ سوچا سمجھا منصوبہ نہ ہوکہ ’’ خبریں لگاگر بیرون ملک سیاسی پناہ لی جائے؟‘‘۔ دیکھنا پڑیگا کہ کسی پر غلط الزام لگاکر قتل نہ کیا جائے اور کوئی اس کا سیاسی فائدہ نہ اٹھائے ۔جب الطاف حسین کا غلغلہ تھا تو اس کی گستاخی پر کارکن اور بڑے رہنما بہت سیخ پا ہوتے۔سیاسی و مذہبی قیادتوں پر بھی جذبہ دکھتاہے۔یہ ہمارے ایمان کے علاوہ ماحول کی غیرت بھی ہے کہ نبیﷺ کی ادنیٰ گستاخی برداشت نہ کریں۔ ایک آدمی بیوی کیساتھ کسی کو دیکھ لے تو قرآن میں قانونی تحفظ اور لعان کا حکم ہے مگر مسلمان غیرت کھاکر اللہ کا قانون نہیں مانتا اور قتل کردیتاہے، اسکی تشہیر نہیں کرتا، ا سے گالی سمجھ کر مٹی ڈالتاہے۔ مجنون کا پیغام آتا تولیلیٰ دودھ بھیج دیتی، شک ہواتوچھری اور پیلٹ بھیجی کہ جسم کا گوشت چاہیے،کہنے لگاکہ میں دودھ پینے والامجنون ہوں ، گوشت والا وہ ہے، اصلی مجنون نے مختلف حصوں کا گوشت کاٹ کردیا۔حضرت عائشہؓ پر بہتان لگا تو دودھ پینے والا مجنون کوئی نہ تھا ، عاشقانِ رسول ﷺ کی کثرت تھی مگر قتل کی جرأت نہ کی۔ ڈاکٹر عامر لیاقت، اوریا مقبول، مولانا فضل الرحمن اور مولانا الیاس قادری اگر عاصمہ جہانگیر، فرزانہ باری، ماروی سرمد، طاہرہ عبداللہ کو قتل کرکے خود پھانسی چڑھ گئے تو کوئی خواب وخیال میں بھی توہین کی جرأت نہ کریگا اوراگردودھ پینے والے مجنونوں کی سیاست ختم ہوگئی توبھی توہین رسالت کا باب بند ہوجائیگا۔ طائف کے بازار میں نبیﷺ نے پتھر کھائے۔ اللہ نے حضرت عائشہؓ پر بہتان سے غریب و بے بس طبقے کی عزتوں کو تحفظ دیدیا۔ مرزاغلام احمد قادیانی، غلام احمد پرویز اور دودھ پینے والے مجنونوں نے اسلام کے جسم سے روح نکال کر دنیا میں توہینِ رسالت کیلئے راہیں ہموار کردیں۔

زنا بالجبر (منکرات)

موت کا منظر کتاب میں ’’زنا بالجر کی سزا‘‘ کے عنوان سے وائل ابن حجرؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے خاتون نے شکایت کی تو نبیﷺ نے اس شخص کو سنگسار کا حکم دیا ۔ ابوداؤدکی اس روایت کی تائید انسانی فطرت اور قرآن کی آیت سے بھی ہوتی ہے۔ اللہ نے مسلم خواتین کو حکم دیا کہ گھروں سے نکلیں تو شریفانہ لباس پہن لیں تاکہ پہچانی جائیں اور کوئی اذیت نہ دے۔ یہ عناصر مدینہ میں نہیں رہیں گے مگر کم عرصہ ، پہلے بھی ایسے لوگ تھے جنکے بارے میں یہ سنت رہی ہے کہ اینما ثقفوا فقتلوا تقتیلا ’’جہاں بھی پائے گئے تو قتل کردئیے گئے‘‘۔ سینٹ میں امسال ان خواتین کی رپورٹ پیش کی گئی جن سے زبردستی زیادتی کی گئی 2936کیس تو صرف پنجاب کے تھے۔ سندھ وغیرہ کی تعداد انکے علاوہ ہے۔ بہت بڑی بات یہ ہے کہ میڈیا پر خبر نشر ہوئی کہ سندھ رینجرز کو ایک خاتون نے مدد کیلئے پکارا، جس کا تعلق خیبر پختونخواہ سے تھا۔ اس کو زبردستی اغوا کرکے بیچا جارہا تھا، جسکے پیچھے پورا گینگ تھا جن کا یہ دھندہ تھا۔ افسوس ہے کہ ایک دن سیاسی شخصیت میڈیا پر ببانگ دہل کہہ رہی تھی کہ فوجی عدالتوں میں صرف دہشتگردوں کیخلاف سماعت ہوئی ، اغواء وغیرہ کے چھوٹے معاملے فوجی عدالت کے حوالے نہیں کئے گئے، حالانکہ سب سے زیادہ سزا کے مستحق زبردستی سے عزتوں کے لٹیرے و اغواء کارہیں۔
کوئی غیرتمند انسان یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ اس کی ماں ، بیٹی، بیوی اور بہن پر کوئی جبری ہاتھ ڈالے، اس کی عزت کوتار تار کردے۔ ہمارے اصحابِ حل و عقد کو کیا ہوگیا کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کیساتھ زیادتیاں ہوتی ہیں اور ان پر کوئی کان نہیں دھرتا۔ سیاسی لیڈر حکومت کرنے کے بعد ایسے واقعات کو روکنے پر وجہ نہیں دیتے تب بھی کس منہ سے عوام سے ووٹ مانگنے جاتے ہیں؟، تحریکِ انصاف انقلاب کی بات کرتی ہے لیکن اسکے جلسے میں لڑکیوں کو بدقماش لڑکے بھمبھوڑ لیتے ہیں۔ خواتین صحافیوں کو بھی کنچے مارنے میں شرم محسوس نہیں کی جاتی۔ عمران خان کہہ دیتے کہ جنہیں ہیرو سمجھتا تھا وہ تو ہیرہ منڈی کی پیداوار نکلے جو اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں تو سخت پیغام جاتا۔ لوگوں کی غیرت جاگ جاتی۔ امریکہ میں بھی خواتین سے بیہودہ حرکت کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزا کا سامنا کرنا پڑتاہے۔
سب سے بڑی افسوسناک بات یہ ہے کہ سیاسی لوگ انسانی ضمیروں کو جگانے اور مذہبی طبقات عوام میں اسلامی روح پھونکنے میں ناکام ہیں۔ معاشرے میں جبری جنسی زیادتیوں کے خلاف کوئی بھی غم و غصہ کا اظہار نہیں کرتاہے لیکن کسی مذہبی اور سیاسی رہنما کے بارے میں سخت لہجہ استعمال ہوجائے تو ان کی ساری رگیں پھڑک اٹھتی ہیں، یہ رویہ ہم نے بدلنا ہوگا۔ رسولﷺ نے فتح مکہ کے وقت کسی کو لونڈی اور غلام نہیں بنایا۔ متعہ کی اجازت دی۔ ایک مذہبی انسان کی یہ سوچ کتنی گھناؤنی ہوگی کہ ابوسفیانؓ اور امیر معاویہؓ کی بیگمات کو لونڈی بنانا ٹھیک سمجھے اور ابوجہل وابولہب کی بیواؤں سے متعہ کی اجازت کو زنا قرار دیا جائے؟۔ ایک مولوی اور نبیﷺ کے اسلام میں فرق ہے۔ نبیﷺ نے آل فرعون کی طرح بنی اسرائیل کی خواتین کو لونڈی نہیں بناناتھا۔ قرآن میں لونڈی کی شادی کرانے کا حکم ہے۔ گورنر سندھ زبیر صاحب کی یہ بات غلط ہے کہ جنرل راحیل شریف ایک عام آدمی تھا ، نوازشریف کی وجہ سے کراچی میں امن قائم ہوا ہے۔ اگر پاک فوج کے ذمہ لگایا جائے تو پنجاب میں جبری جنسی تشدد کا خاتمہ ہوگا۔ سندھ رینجرز نے بس میں ایک عورت کی آواز پر مدد کی ، ایک گینگ خواتین کو پختونخواہ سے اغواء کرکے بیچتا تھا، جمہوری حکومت میں غیرت ہوتی تو خبر سے عوام کو آگاہ کیا جاتا۔ جب ن لیگ کے رہنماؤں نے الطاف حسین کیخلاف صرف زبان کھولی تھی تو ایم کیوایم والوں نے خاندان کی خواتین کو استعمال کرکے سعودیہ میں پناہ کا الزام لگایا گیا، اب مراد سعید پر ن لیگ کے رہنماؤں نے سنگین الزام لگاکر اپنا بھڑوا بچہ قرار دیا۔سلیم بخاری نے کہا تھا کہ پارلیمنٹ میں بھڑوے بیٹھے ہیں جس کی وسعت اللہ خان نے بھی خبرلی تھی۔

قصاص (منکرات)

اگر سوٹا لیکر کسی کوبال بچوں سمیت ایک مرتبہ گھر میں گھس کر پیٹ ڈالاجائے ، تو ان کو اندازہ لگ جائے کہ دہشتگردوں نے جنکے گھروں میں قتل وغارت کا بازار گرم کیا، اصل منکر وہی ہے، نماز نہ پڑھنا زنا، رشوت، قتل، شرک سے بڑا جرم نہیں۔وینا ملک، عامرخان اور دہشگردی کے ماحول کو سپورٹ کرنا غلط ہے۔ ہم پر آفت پڑی تو یقین ہوگیا کہ خلافت قائم ہوگی لیکن انکے ساتھ ایسا ہو تو شاید اسلام بھی چھوڑدیں۔یزید نے خود حسینؓ ، آپؓ کے کنبہ کے افراد اور ساتھیوں کو شہید نہ کیا، اس وقت گلوبٹ کا پولیس کی جھرمٹ میں گاڑیوں کے شیشے توڑنے کا منظر بھی نہیں دیکھا جاسکتا تھا۔ یزید ی لشکر کا سپاہ سالار حضرت حرؒ اپنے لشکر کو چھوڑ کر حضرت حسینؓ کیساتھ ملا تھا۔ اگر یزید ان کارندوں کو سزا دیتا تو تاریخ میں اتنی ملامت کا سامنا نہ کرنا پڑتا ، یزید سے فائدہ اٹھانے والے سیاسی رہنماؤں کا حال بھی موجودہ دور کے حکمران رہنماؤں سے مختلف نہیں تھا۔ حالانکہ یزید اور اسکے ساتھی قبروں میں بلبلا رہے ہونگے کہ کہاں ماڈل ٹاؤن لاہور کا میڈیا کے دور میں یہ واقعہ اور کہاں اس دور کے حالات؟۔ دہشت گرد مخالفین کو مارتے تھے تو پنجاب کے وزیراعلیٰ شہبازشریف کہا کرتے تھے کہ ’’پنجاب میں حملہ نہیں کرنا چاہیے ، ہم آپ کیساتھ ہیں‘‘۔ دہشت گردوں کے حامی مذہبی لبادے والی بدترین بیکار مخلوق ابھی ہے۔
فوجی عدالت کی اسلئے ضرورت پیش آئی کہ دہشتگرد کو عام عدالتوں سے سزا نہیں ملتی تھی۔ قرآن کا یہ قانون دنیا کے سامنے پیش کیا جائے تو پاکستان میں ان جرائم کی شرح بالکل زیرو ہوگی۔ اسلئے کہ قتل کے بدلے قتل کی سزا انصاف کا عین تقاضہ ہے۔ قتل کے بدلے میں پچیس سال قید کی سزا، ریاست، جیل، اس شخص، اسکے خاندان اور اسکے دشمنوں سے بھی زیادتی ہے۔ بعض قاتل خود کو قانون کے حوالہ کردیتے ہیں۔ لواحقین و مخالفین دونوں کیلئے اس کا خود کو قانون کے حوالہ کرنا اسلئے اذیت کا باعث بنتاہے کہ لوئر کورٹ، سیشن کورٹ، ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ تک دھکے کھانا ، بھاری بھرکم رقم خرچ کرنا اور پیشیوں پر رسک لینا ایک لامتناہی آزمائش ہے۔ طالبان بنانے میں پیپلزپارٹی رہنما فرحت اللہ بابر کے بھائی نصیر اللہ بابر کے کردار کا سب کو پتہ ہے۔ طالبان پاکستان بھی پرویز مشرف نے عالمی قوتوں سے مل کر بنانے کا انکشاف کیا ۔ اگر طالبان اسلام کی سمجھ رکھتے اور اسلامی قوانین کو نافذ کردیتے تو پاکستان نہیں دنیا میں ان کا خیر مقدم کیا جاتا۔ طالبان نے اسلام کے نفاذ میں کوئی کردار ادا نہیں کیا اور پختون روایات کو بھی تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی دہشتگردوں اور امریکہ کو سپورٹ کرنے کے معاملے پر پھر لڑ رہے ہیں۔ اگر فوجی عدالت کے ذریعے دہشتگردی کا خاتمہ نہیں کیا جاتا تو یورپ کے دباؤ میں سزائے موت کا قانون بھی ختم ہوتا اور بڑے دہشتگردوں سے ڈیل کرتے یا سکیورٹی کا خرچہ کرکے خود کو بچانے کی کوشش کرتے اور عوام کو دہشتگردوں کے رحم وکرم پر چھوڑدیا جاتا۔
مشکوٰۃ شریف میں ایک خاتون کا دونوں ہاتھوں اور پیروں سے ناچنے کا ذکرہے ، اکابر صحابہؓ نے بھی مظاہرہ دیکھا ، رسول اللہﷺ بھی دیکھنے کھڑے ہوگئے۔ طرزِنبوت کی خلافت میں جبر کا ماحول نہیں ہوگا۔ کوئی انسان بھی اپنی بیوی سے زیادہ کسی بات پر غیرت نہیں کھا سکتا مگر اسلام نے 14 سو سال پہلے یہ قانون نازل کیا کہ قابلِ اعتراض حالت میں دیکھ کر قتل نہیں کرسکتے۔ لعان کی آیات میں میاں بیوی کا ایکدوسرے کا جھوٹا کہنے کے کلمات کا طریقہ ہے۔ حضرت عویمرعجلانیؓ نے بیوی کیخلاف گواہی دی اور بیوی نے اپنے خاندان کی ناک بچانے کیلئے اسکو جھٹلایا۔ اسلام کسی کی غیرت کو بھی خراب نہیں کرتا، جو قتل کرے تو اسکو بدلے میں قتل سے بھی نہیں کترانا چاہیے۔ غیرت کے نام پر کسی کو قتل کرکے اپنی زندگی کی بھیک مانگنے سے بڑی بے غیرتی کوئی نہیں ۔ اللہ نے فرمایا کہ قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے۔ کسی کو ناک کاٹنے پر ناک کاٹنے کی سزا دی جائے تو زندگی بھر نشے میں بھی اس ماحول کا کوئی فرد یہ جرم نہیں کرسکے گا۔ انصاف کیلئے بے چینی ختم ہو تو دہشتگردی ختم ہوجائیگی۔

حج (معروفات)

حج و عمرہ دلچسپ موضوع ہے کہ خلفاء راشدینؓ کے اختلاف کی ہماری کتابوں میں وضاحت ہے۔ مشرکین مکہ دورِ جاہلیت میں سمجھتے تھے کہ حج کے زمانہ میں عمرہ کرنا جائز نہیں ، رسول اللہ ﷺ نے ایک حج کیا جس میں عمرہ کا احرام بھی ساتھ باندھ لیا۔ حضرت عمرؓ نے سمجھا کہ لوگ اس کو سنت سمجھ کر افضل کا یقین رکھتے ہیں۔ چنانچہ پابندی لگائی کہ حج کیساتھ عمرے کا احرام نہ باندھا جائے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ نماز کی سنتوں کے بعد اندرون سندھ، بلوچستان، پختونخواہ ، افغانستان اور دیگر علاقوں میں بعض دیوبندی اجتماعی دعا مباح سمجھ کر کرتے اور بعض بدعت سمجھ کر مخالفت کرتے ۔ کانیگرم جنوبی کانیگرم کے علماء نے نمازکی سنتوں کے بعد دعا نہ کرنے پر ایک پنج پیری عالم دین پر قادیانیت کے فتوے تک لگادئیے ۔ رسول اللہﷺ سے ایک وفد ملنے آیا،بڑی مونچھ اور داڑھی مونڈھ کر خوفناک چہرے والوں سے نبیﷺ نے پوچھا کہ تم نے چہروں کو کیوں مسخ کیاہے ؟، تو وہ کہنے لگے کہ ہمارے دین کا یہ حکم ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’ہمارے دین نے ہمیں مونچھ کم رکھنے اور داڑھی بڑھانے کا حکم دیا ‘‘۔ حدیث کا مطلب ان کو غلط طرزِ عمل سے آگاہ کرنا تھا۔ حضرت عمرؓ اس کو اچھی طرح سمجھتے تھے اسلئے اپنی بڑی مونچھ کو دین کے خلاف نہ سمجھا ۔ عربی مقولہ ہے الناس علی دین ملوکہم عوام الناس اپنے حکمرانوں کا طرزِ عمل اپناتے ہیں۔ حضرت عمرؓ کی وجہ سے بعد میں آنے والے مسلمان حکمرانوں ، سرداروں اور علماء کرام کے ہاں بڑی مونچھ کی روایت پڑگئی تھی، ٹیپو سلطانؒ ، سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ ، علامہ اقبال وغیرہ کی تصایر عام ہیں۔ اگر حضرت علیؓ کی مستحکم حکومت قائم ہوتی تو پھر بہت پہلے سے سر منڈھانے کی روایت مسلمان حکمران ، علماء اور عوام الناس میں پڑ جاتی۔ اسلئے کہ حضرت علیؓ کے متعلق ہے کہ داڑھی چھوٹی اور سر کو مونڈھواتے تھے۔ بہر حال حج وعمرہ ایک ساتھ کے حوالہ سے حنفی مسلک کا جمہور سے اختلاف تھا۔ بخاری میں حضرت عثمانؓ کا روکنے اور حضرت علیؓ کا اعلانیہ مخالفت کا واقعہ ہے۔
حضرت عمرؓ کا ذہن تقلیدی نہیں اجتہادی تھا، اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انکے کردار کو قرآن وسنت کیخلاف انحراف اور سازش قرار دیا جائے۔ امام ابوحنیفہؒ کا ذہن بھی اجتہادی تھا اسلئے وہ حضرت عمرؓ کی تقلید پر زور دینے کے بجائے جس راہ کو حق اور ٹھیک سمجھتے تھے اسی کو اختیار کرلیتے ۔ جب حنفی مکتب کی طرف سے ایک ساتھ حج و عمرہ کا احرام باندھنے کیلئے دلائل دئیے جاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ کیخلاف شیعہ اور حنفیوں میں کوئی فرق نہیں ۔ حضرت ابن عمرؓ سے کہا گیا کہ تمہارے والدؓ ایک ساتھ حج و عمرہ کا احرام باندھنے کے مخالف تھے تو کہنے لگے کہ اپنے باپ کو نبیﷺ کی جگہ رسول تو نہیں مانتا۔ حضرت ابن عباسؓ نے کہا تھا کہ مجھے ڈر ہے کہ تم پر پتھر نہ برس جائیں کہ میں کہتا ہوں کہ اللہ کے رسولﷺ نے یہ کیا اور تم حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کا حوالہ دیتے ہو۔ صحیح مسلم میں حضرت عمران بن حصینؓ کے حوالہ سے تقیہ اختیار کرنے کا ذکر ہے اسلئے کہ وہ اس مؤقف پر ڈٹے تھے کہ حج و عمرہ کا احرام ایک ساتھ سنت اور اللہ کی طرف سے نازل کردہ حکم ہے۔ بنی امیہ کے حکمران ضحاک نے ایک ساتھ حج وعمرے کو زبردست جہالت قرار دیا تو حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے سمجھایا کہ ہم نے نبیﷺ کیساتھ ایک ساتھ حج و عمرے کا احرام باندھا ۔ حج و عمرہ پر اختلاف کی شدت خلوص کا مظہر تھامگریہ اسلام کو اجنبیت کی طرف دھکیلنے کی شروعات تھیں، خواتین کو مساجد سے روکنااس سے زیادہ بڑا قدم تھا ۔حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ ’’ نبیﷺ موجودہوتے تو خواتین کو مساجد سے منع فرمادیتے‘‘۔ حضرت عائشہؓ نے خلافت کیخلاف جہادی لشکر کی قیادت کی۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’خبردار! میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایکدوسرے کی گردنیں مارنے لگو‘‘۔پھر گردنیں مارنے تک نوبت پہنچی لیکن ایکدوسرے پر کفر کے فتوے نہیں لگائے۔ امام حسنؓ نے صلح میں کردار ادا کیا۔ ریاست کیخلاف ہتھیار اٹھانے اور خواتین کی جماعتوں کونکالنے سے زیادہ آسان سنت کے مطابق ماحول بناناہے جہاں خواتین وحضرات مکہ کی طرح اجتماعی نماز کا اہتمام کرکے مساجدکو آباد کریں ۔ٹی وی کی رونقیں اور شخصیات کا پروٹوکول مساجد کو آباد نہیں کرسکتی ہیں۔ گھر، محلہ اور مسجد سے سنت کے ماحول کاآغاز ہوگا تو معروف کا درست تصوربھی اجاگر ہوگا۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ’’ قریش کی خواتین کو دنیا کی خواتین پر اسلئے فضلیت حاصل ہے کہ وہ اونٹ پربھی سواری کرلیتی ہیں‘‘۔ اونٹ کی سواری سے زیادہ ڈرائیونگ ہے، گاڑی چلاناعورت کیلئے شریعت کے منافی نہیں لیکن سعودیہ میں یہ پابندی لگائی گئی۔ جب خواتین پر مساجد میں پابندی لگ گئی تو بہت سی خرابیاں پیدا ہوئی ہیں، آج پھر سنت کی طرف آنا پڑے گا۔

روزہ (معروفات)

کانیگرم جنوبی وزیرستان میں ایک نقارہ بجاکر اعلان کیا گیا کہ ’’ جس نے بھی روزہ نہ رکھا تو 500روپے جرمانہ ہوگا۔ کچھ جوانوں نے اسکی کھلے عام خلاف ورزی کی ، وہاں مغرب کے بعد گپ شپ کیلئے دعوت ہوتی تھی، روزے کیخلاف پابندی توڑنے کیلئے دن کی دعوت کا اہتمام ہوا۔ عوام میں انکو اسلام کادشمن تصور کیا جانے لگا، انکے بڑوں نے جرمانہ بھی ادا کیا اور اس اقدام کی وجہ سے شرمسار بھی ہوئے ، ان کو ڈانٹ ڈپٹ کر فرض بھی ادا کیا ہوگا۔ ان افراد میں اکثر یا سب شاید زندہ ہوں۔ ان لوگوں نے اپنے طور پر جو کیاسمجھ کر کیا؟، ہمارا انتہائی شریف پڑوسی تاج خان بھی ان میں شامل تھا، اس سے پوچھا کہ ’’ اس اقدام کی کیوں ضرورت پیش آئی؟‘‘۔ کیونکہ اس سے غلط حرکت متوقع نہیں ہوسکتی تھی تو اس نے کہا کہ ’’ میرا روزہ تھا، ہم نے یہ احتجاج اسلئے نوٹ کروایا تھا کہ روزے میں زبردستی اور جرمانے کا تصورغلط ہے‘‘۔ ایک مرتبہ شکار پور سندھ میں رمضان کا مہینہ گزارا، وہاں عوام کو کھلے عام دن دیہاڑے کھاتے پیتے دیکھ کر سمجھا کہ کھلے عام کھانے پینے والے ہندو ہیں پھر ایک مرتبہ گھر والی کے ایک رشتہ دار کو گلی میں سگریٹ پیتے دیکھا تو سمجھ گیا کہ دوسرے بھی مسلمان ہونگے۔ گرمی میں سفر کے دوران بھی مجھے روزہ رکھنے میں مشکل نہیں ہوتی تھی مگر جب دیکھا کہ مذہبی لوگ روزہ نہ رکھنے میں شرم کرتے ہیں توان کی جھجک دور کرنے کیلئے دورانِ سفر روزہ کھولنا شروع کیا۔ بنوں میں مسافروں کی بھی روزہ نہ رکھنے پر پٹائی لگ جاتی تھی۔ بہت ضروری ہے کہ اسلام میں غلو سے پرہیز کریں۔
علامہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ ’’ فطرت کے مقاصد کی کرتاہے نگہبانی یا بندۂ صحرائی یا مرد کوہستانی‘‘۔ کانیگرم جنوبی وزیرستان کے جن لوگوں نے روزے پر جرمانے کیخلاف اپنا احتجاج نوٹ کروایا تھا انکا احتجاج اصحابِ کہف کے جوانوں کی طرح تاریخ میں رقم کرنے کے قابل ہے۔ نماز، زکوٰۃ ، روزہ اور حج میں زبردستی کے تصور نے اسلام کے معروف احکام کا چہرہ مسخ کیا۔ علامہ اقبالؒ نے جو تصورات پیش کئے، ان پر اسلامی جمہوری اتحاد کی سازش میں پیسے کھانے والے حکمران کہاں عمل کرسکتے ہیں؟۔ علامہ اقبالؒ نے فرمایا کہ: ’’ایراں ہو عالم مشرق کا جنیوا شاید کرۂ ارض کی تقدید بدل جائے ‘‘۔ نوازشریف سعودیہ سے اپنے احسانات کا بدلہ چکانے کیلئے بھی کوئی قدم نہیں اٹھاسکتا۔ ڈرپوک کتا بھونکے اور دور سے پاؤں پٹخے جائیں تو بھاگ جاتاہے۔ ہمارا حکمران طبقہ دنیا کے خوف سے پہلے تو بھونکتا نہیں اور بھونکے تو دور سے پیر پٹخنے کی آواز سن کر بھاگتاہے۔ جب امریکہ ہماری پشت پناہی کرتاہے تو پھر اسلام کیلئے ریاست، قوم، وطن اور عزت وناموس تک سب کچھ قربان کردیتے ہیں لیکن جب امریکہ راضی نہ ہو تو بھونکنے کی ہمت نہیں کرتے اور دُم ہلانے کو ہی ترجیح دیتے ہیں اور کہیں آواز کی نوبت بھی آجائے تو مؤقف بدلنے میں دیر نہیں لگاتے ۔یہودونصاریٰ ، امریکہ اوراسرائیل سے زیادہ اپنے بنائے ہوئے پھندوں سے نکلنا ہمارے لئے بہت ضروری ہے۔بقول علامہ اقبال ’’سب اپنے بنائے ہوئے زنداں میں ہیں محبوس‘‘۔ فرقہ واریت کا ناسورہمیں صرف باتوں سے ختم نہیں کرنا ہوگا بلکہ قرآن وسنت اور فطرت و عقل کے مطابق لوگوں کو گمراہی سے نکالنا ہوگا۔ میرا تعلق کانیگرم جنوبی وزیرستان سے ہے جہاں کوئی نیا فرقہ نہیں۔ اکبربادشاہ کے دور میں ہندوستان میں مجدد الف ثانیؒ نے درباری کا کردار ادا نہیں کیا ، ہمارے کانیگرم کے پیرروشان بایزید انصاریؒ نے اکبر کیخلاف عملی جہاد کیا ،بادشاہوں کے خلاف لڑنے والی شخصیات کومتنازع بنانے میں درباریوں کا اہم کردار ہوتاہے۔ میرا کسی نئے فرقہ سے تعلق نہیں ، البتہ علماء دیوبندکے مدارس میں فقہ حنفی کی تعلیم حاصل کی ۔ بقولِ اقبال ’’ جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے جنگیزی‘‘ ۔ دین میں سیاست نہ ہو تو وہ اسلام نہیں بدھ مت، ہندومت اور عیسائیت ہے مگراسلام نہیں ۔ اسلام میں سیاست نہ ہوتی تو مکہ سے مدینہ ہجرت کا حکم نہ ملتا ۔ خلفاء راشدینؓ کی سیاست قرآن وسنت کا بنیادی ڈھانچہ تھا، اسلئے ان کی اتباع کا حکم ہے۔