پوسٹ تلاش کریں

طلاق کا تعلق محض الفاظ نہیں بلکہ عمل وعزم سے ہے

لا یؤاخذکم باالغو فی ایمانکم ولکن بماکسبت قلوبکم Oللذین یؤلنون من النساء ھم تربص اربعۃ اشہر فان فاؤا فان اللہ غفور رحیمOوان عزموا الطلاق فان اللہ سمیع علیمOاللہ تمہیں نہیں پکڑتا لغو قسموں سے مگر جو تمہارے دلوں نے (گناہ)کمایا،اس پر۔Oجو لوگ اپنی عورتوں سے قسم کھالیتے ہیں ان کے لئے 4ماہ ہیں، پس اگر آپس میں مل گئے تو اللہ غفور رحیم ہےOاور اگر ان کا عزم طلاق کا تھا تو سننے جاننے والا ہے۔سورۃالبقرۃ
ان آیات میں یہ وضاحت ہے کہ عورت کو چھوڑنے (طلاق دینے) کا تعلق لغو قسم سے نہیں بلکہ دل کے عزم اور طلاق کے عمل سے ہے۔طلاق کے عزم کا اظہار نہ کیا تو بھی زیادہ سے زیادہ انتظار 4 ماہ کا ہے ، اسلئے کہ پھر عورت کی حق تلفی ہوگی۔ شوہر طلاق کے عزم کا اظہار نہ کریگا تو عورت زندگی بھر بیٹھی رہے گی؟۔ اللہ نے ایسا ظالمانہ معاشرتی نظام نہیں بنایا ۔ ایلاء عورت سے ناراضگی کی قسم کو کہتے ہیں، یہ بالکل واضح ہے کہ طلاق کا تعلق لغو الفاظ سے نہیں، طلاق کے عزم کا اظہار بھی ضروری نہیں بلکہ عمل ہی کافی ہے۔ آیات میں واضح ہے کہ طلاق کا عزم ہو مگر اظہار نہ کیا جائے تو اس دل کے گناہ پر اللہ کی پکڑ ہوگی اسلئے کہ طلاق کے عزم کا اظہار ہو تو انتظار کی مدت 4ماہ کی بجائے3ماہ ہوگی۔تبیانا لکل شئی (قرآن ہرچیز واضح کرتاہے)
ان آیات سے واضح ہے کہ نکاح و طلاق میں شوہر اور بیوی دونوں کا حق ہے، دورِ جاہلیت کی طرح یہ تعلق لغو قسم سے بھی نہیں ٹوٹتا ، شوہر نہ ملنے کی قسم کھالے تو بیوی فوری طور سے قانوناً الگ نہیں ہوتی بلکہ ناراض ہونے کی حالت میں 4ماہ کا انتظار ضروری ہے، اس مدت یا عدت میں دونوں راضی ہوگئے تو اللہ غفور رحیم ہے اور اگر نہ بن سکی تو عورت اس سے زیادہ انتظار کی پابند نہیں۔البتہ عزم کا اظہار نہ کرنے پر شوہر کی اللہ کے ہاں اس وقت پکڑ ہوگی جب طلاق کا عزم ہو، اسلئے کہ پھر عزم کا اظہار کرتا تو عورت کو اس سے کم 3ماہ کی عدت اور انتظار کی تکلیف گزارنی پڑتی۔
امام ابوحنیفہؒ کے مسلک میں چار ماہ انتظارکے بعد عورت طلاق ہوجائے گی۔ جمہور ائمہ کے نزدیک جب تک طلاق کے عزم کا اظہار نہ ہو عورت زندگی بھرانتظار کریگی۔ علامہ ابن قیمؒ نے جمہور کے حق میں اور احناف کیخلاف دلائل دئیے لیکن قرآن میں اتنا بڑا تضاد کیسے ہوسکتا ہے کہ حنفی مسلک میں چارماہ کاعمل طلاق قرار دیا جائے اور جمہورکے نزدیک چارماہ کا انتظار ہی غلط ثابت ہو ؟۔ میاں بیوی چار ماہ کے بعد باہمی رضامندی سے ملنے پر راضی لیکن ان کو طلاق کا فیصلہ سنادیا جائے اور عورت الگ ہونا چاہتی ہو تب بھی انتظار پر مجبور ہو۔ یہ افراط و تفریط اور غلو ہے۔
یہ اختلاف رحمت نہیں زحمت ہے، یہ امت مسلمہ کو اس مذہبی گمراہ ذہنیت کا شکار کرتی ہے جس سے اسلام نے نکالا ۔ اس مسلکی اختلاف و تضاد کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ شوہر اور بیوی دونوں کے حقوق کی وضاحت اور حد ود مقرر کردئیے ، شوہر کا حق یہ ہے کہ بیوی اس کی ناراضگی کے باوجود ایک مخصوص عدت تک انتظار کی پابند ہے۔ طلاق کے عزم کا اظہارنہ کرنے کی صورت میں انتظار کی مدت یا عدت اظہارکے مقابلہ میں بڑھ جاتی ہے، شوہر اپنی قانونی ذمہ داری پوری نہیں کرتا اور اس کو راضی نہیں کرتایا پھر وہ راضی ہونے کیلئے تیار نہیں ہوتی ہے تو 4ماہ انتظار کافی ہے۔
چونکہ فقہاء کرام اس دور کی پیداوار تھے جب خلافت کا نظام موروثی امارت میں تبدیل ہوچکا تھا، انہوں نے عورت کے حق کو ہی بالکل فراموش کردیا،وہ آیات کا فیصلہ صرف شوہر کے حق کو مدِ نظر رکھ کر کررہے تھے، اسلئے طلاق ہونے ،نہ ہونے کے فتویٰ میں تضاد آگیا۔اگر ان کے پیشِ نظر عورت کا حق بھی ہوتا تو یہ اختلاف کے شکار نہ بنتے۔ قانون میں طاقتور اور کمزور دونوں کے حقوق متعین ہوتے ہیں،عورت کمزور ہوتی ہے، اسکے حقوق کا خاص طور سے خیال رکھنا ضروری تھا۔ قرآن میں اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حوالہ سے وضاحت فرمائی کہ 8سال کام کرنا ہوگا اور اگر10سال پورے کئے تو یہ آپکی طرف سے احسان ہوگا۔ مزدور، ملازم اور افسر کو کچھ گھنٹے روزانہ مقررہ وقت کیمطابق کام ، پھرمرضی کا مالک ہے۔ معمولات اور انسانی فطرت سے سبق لیتے تو قرآن کے قانون میں تضاد کی ضرورت نہ پڑتی۔
عورت کو طلاق کے عزم کے اظہار تک چار ماہ اور حدود وقیود سے بڑھ کر جمہور فقہاء کا مسلک تو قرآن کے الفاظ اور انسانی فطرت کے بالکل منافی تھا ، حنفی مؤقف مقابلے میں بہتر اور قرآں فہمی کے تقاضہ سے مطابقت رکھتا تھا، تاہم عورت کے حق کو مدِ نظر رکھا جاتا تو چار ماہ کے گزرتے طلاق ہونے کا فتویٰ دینے کی بجائے قانون کی وضاحت کی جاتی کہ عورت چارماہ کی مدت کے بعد پابند تو نہیں لیکن وہ چاہے تو چارماہ کے بعد بھی باہمی رضامندی سے ازدواجی زندگی بحال رکھ سکتی ہے۔کوئی ایسا قانون نہیں ہے کہ اب طلاق پڑگئی ہے ، دوبارہ نکاح کا معاہدہ کرنا پڑیگا۔
ناراضگی کی صورت میں عورت کو 4ماہ کے انتظار کا حکم ہے اور عدتِ وفات میں4ماہ 10دن انتظار کا حکم ہے۔ اللہ کی آیات کی تکذیب کرنے والے گدھوں کو اس بات کی سمجھ ہونی چاہیے کہ اللہ نے شوہر کی ناراضگی میں 4ماہ کی عدت کیوں رکھی ہے جو عدتِ وفات سے بھی دس دن کم ہے؟۔ اور طلاق کے اظہار پر 3ماہ کی عدت رکھی ہے۔ کھل کر طلاق کے اظہار کے بعد عورت کے انتظار کا زمانہ سب سے کم ہے، اسلئے کہ عورت دوسری جگہ شادی کرسکے، ناراضگی کی صورت میں انتظار کی مدت زیادہ ہے تاکہ مصالحت کیلئے زیادہ وقت ملے اور وفات کی صورت میں شوہر کا طلاق میں کوئی کردار نہیں ہوتا اسلئے اس میں انتظار کی مدت زیادہ ہے۔
عدت شوہرکے حق کی انتہاء ہے ،عورت انتظار کی پابند ہے اور اسکے بعد عورت دوسری جگہ شادی کرسکتی ہے۔ عورت اگر اپنے حق سے دستبردار ہوکر عدتِ وفات کے بعد بھی دوسری شادی نہ کرنا چاہے تو ساری زندگی وفات اور روز محشر وجنت تک یہ نکاح کا تعلق قائم رہتا ہے۔ یوم یفرالمرء من اخیہ وامہ وابیہ وصاحبتہ وابنیہ ’’ اس قیامت کے دن انسان بھاگے گا اپنے بھائی سے، اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے‘‘۔ جنت میں بھی وہ اور انکی بیویاں ساتھ ہونگے۔فقہاء نے یہ غلط مسلک بنا یا کہ وفات ہوتو شوہر بیوی کی طلاق ہوجاتی ہے، ایک دوسرے کا چہرہ نہیں دیکھ سکتے،مہاجر،سندھی، بلوچ ، پنجابی اور پختون عوام میں اس پر عمل بھی ہوتا ہے ۔ان علماء سے یہ پوچھا کہ جب تمہارے باپ کی وفات کے بعد تمہاری ماں کو طلاق ہوگئی تو پندرہ بیس سال بعد تمہاری ماں فوت ہوگئی پھراسکی قبر پر زوجہ مفتی اعظم کا کتبہ کیوں لگایا؟۔
جس طرح وفات کی عدت کے بعد عورت اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہے تووہ آزاد ہے اور اپنے حق سے دست بردار ہوکر اپنے شوہر کے نام پر بیٹھی رہنا چاہے تو اس کا حق ہے، پاکستانی حکومت کے علاوہ دنیا بھر کے عام قوانین بھی یہی ہیں، فقہاء نے عورت کے حق کی بجائے طلاق کی انوکھی منطق کی ایجاد کررکھی ہے کہ حمل کی صورت میں آدھے سے زیادہ بچہ پیدا ہوا تو رجوع نہیں ہوسکتااور کم پیداہوا ہے تو رجوع ہوسکتا ۔اللہ جانے گونگے شیطان کب گرفت میں آئیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے انسانی ذہن کو تسکین کو پہنچانے کیلئے عدت کا تصور رکھا ہے اور باہمی رضامندی سے بار بار رجوع کی وضاحت فرمائی ، عدت کے بعد بھی یہ تصور غلط ہے کہ طلاق واقع ہوگی اور عدت سے پہلے تو ہے ہی غلط۔ البتہ عدت کے بعد عورت چاہے تو دوسری شادی کرلے اور چاہے تو باہمی رضامندی سے ازدواجی تعلق کو بحال کردے۔اللہ نے یہ بھی وضاحت فرمائی کہ عدت کو تکمیل کے بعد بھی عورت کو اسکے شوہر سے نکاح کرنے سے نہ روکو۔ اپنی نسبت قائم رکھے تو وہ بیوی ہے۔ عتیق گیلانی

تین طلاق کا تعلق صرف طہرو حیض کی عدت سے ہے

المطقٰت یتربصن بانفسھن ثلاثہ قروء ۔۔۔ وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحاو لھن مثل الذی علیھن بالمعروف ولرجال علیھن درجۃ ۔۔۔O الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف او تسریح باحسان ولا یحل لکم ان تأخذوا مما اٰتیتموھن شءًا الا ان یخافا الایقیما حدوداللہ فان خفتم الا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ۔۔۔Oفان طلقہا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ۔۔۔Oواذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف او سرحوھن بمعروف ۔۔۔ Oواذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فلا تعضلوھن ان ینکحن ازواجھن اذا تراضوا بینھم بالمعروف ۔۔۔ ذلک ازکیٰ لکم ۔۔۔
سورۂ بقرہ کی ان آیات کا ترجمہ کسی بھی مسلک وفرقہ کے عالمِ دین کا دیکھ لیں،
علماء ومفتیان نے ان آیات کی تمام معروف باتوں کو بھی منکر میں بدل دیا ہے۔
(ا): طلاق میں عدت کے 3ادوار کا تعلق طہروحیض سے ہے اور 3 مرتبہ طلاق کا تعلق بھی اسی صورتحال کیساتھ ہے۔ حمل کی صورت میں عدت بچے کی پیدائش ہے، اس میں عدت کے تین ادوار اور تین مرتبہ طلاق کا کوئی تصور بھی نہیں۔
نبیﷺ نے ابن عمرؓ کایہ واضح قرانی صورتحال نہ سمجھنے پر غضبناک ہو کرسمجھایا کہ ’’ طہر میں روکے رکھو یہانتک کہ حیض آئے، پھر طہر میں روکے رکھو یہانتک کہ حیض آئے۔ پھر طہر میں چاہو تو روکے رکھو اور چاہو تو ہاتھ لگانے سے پہلے چھوڑدو، یہ وہ عدت ہے جس میں اللہ نے طلاق کا امر فرمایا ہے۔ (بخاری)۔ یہی صورتحال سورۂ البقرہ ، سورۂ طلاق اور دیگر قرآنی آیات میں وضاحت کیساتھ موجود ہے۔جیض نہ آتا ہو،یا اس میں ارتیاب ہو تو تین ماہ کی عدت ہے اور ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی جائے تو کوئی عدت کا حق نہیں جس کی گنتی کرائی جائے۔
جب عبداللہ بن عمرؓ نے مغالطہ کھایا تو بعد میں آنے والے بزرگانِ دین کی غلط فہمی بڑی بات نہ تھی لیکن اللہ کی کتاب اور نبیﷺ کی اس وضاحت کومدِ نظر رکھاجاتا تو علماء ومفتیان، غلام احمد پرویز، جاویداحمد غامدی اور ڈاکٹر ذاکر نائیک بھی مغالطہ نہ کھاتے۔ 3طلاق کو ملکیت قرار دیکر مضحکہ خیز صورتحال کو مختلف سمت میں اتنا پھیلایا گیا ہے کہ ایک انتہائی درجہ کا کم عقل انسان بھی پیٹ پکڑ کر ہنسنے پر مجبور ہوگا، اس کی نسبت بڑے بڑوں کی طرف کی گئی ہے مگر قرآن وسنت سے بڑھ کر کون ہوسکتا ہے؟ اور جب نبیﷺ سے من گھڑت احادیث منسوب تو دوسروں پر کیاکچھ نہ ہوگا؟۔
گنتی طلاق نہیں بلکہ عدت ہی کی ہوتی ہے، حیض کی صورت میں طہر کے تین ادوار میں تین مرتبہ طلاق خود بخود ہوجاتی ہے،آخری مرتبہ سے پہلے دو مرتبہ طلاق کی خبر مرضی پر منحصر نہیں کہ ایک طلاق دی تو باقی دوطلاق کی ملکیت عدت کے بعد تک رہے یہاں تک کہ عورت کی دوسری جگہ شادی اور پھر وہاں سے طلاق ہو تویہ بحث کی جائے کہ پہلاشوہر نئے سرے سے 3طلاق کا مالک ہوگایا پہلے سے موجود2 کا؟۔
(ب): رجوع کاتعلق صلح وباہمی رضامندی کیساتھ ہے لیکن عدت کے اندر شوہر ہی صلح کی شرط پر رجوع کرسکتا ہے اور عدت کے بعد عورت دوسری جگہ شادی کا حق رکھتی ہے اور باہمی رضامندی سے دونوں ازدواجی تعلق کو بحال کرسکتے ہیں جس میں اللہ نے رکاوٹ ڈالنے سے روکا ہے۔ قرآنی آیات بالکل واضح ہیں۔سورہ بقرہ آیت226,228,229,231,232اور سورۂ طلاق آیت1,2۔
اللہ تعالیٰ نے ازدواجی تعلق کے بعد نکاح کومیثاقِ غلیظ قرار دیا ہے، جس کا معنیٰ مضبوط معاہدہ ہے، فقہاء نے قرآن کی ضدمیں من گھڑت اصطلاح طلاقِ مغلظ کے منکر کو معروف کے مقابلہ میں کھڑا کردیا۔ معروف تو یہ تھا کہ جس نکاح میں ازدواجی تعلق قائم کیا گیا ہو ، وہ میثاق غلیظ( مضبوط معاہدہ) ہے جس کو توڑنے کیلئے عدت درکار ہے جوصلح و رجوع کا لازمی پریڈ ہے مگر اسکے مقابلہ میں طلاق مغلظ کا منکر وجود میں لایا گیا جس میں منہ سے کوئی لفظ پھسلنے سے نکاح کا مضبوط تعلق ختم ہوجاتا ہے۔ اس میں انواع واقسام کے صریح اور کنایہ الفاظ ہیں جن پر اختلافات بھی ہیں۔یہی وجہ تھی کہ اللہ نے کسی صریح و کنایہ لفظ کی بجائے طلاق کو عدت وعمل قرار دیا،رجوع کا تعلق الفاظ کی بجائے باہمی رضامندی، صلح اور عدت سے جوڑ دیا ہے۔
(ج): اللہ تعالیٰ نے بار بار جس طرح کے عمل کی وضاحت فرمائی ہے اور فقہاء نے اسکے باوجود اس عمل کو معروف سے منکر میں بدل ڈالا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ بار بار قرآن میں معروف طریقہ سے رجوع کا حکم دیا گیا ہے۔ مدارس کا ہی قصور نہیں بلکہ جدید مذہبی تعلیمات والے زیادہ بڑے گدھے ہوتے ہیں، رجوع کا معروف طریقہ تو عام آدمی سمجھتا ہے کہ چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا تھا، پھر صلح کرلی گئی۔ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آبادکے ریسرچ ڈیپارٹمنٹ نے ’’تین طلاق‘‘ پر مصنف حبیب الرحمن کی ایک کتاب شائع کی ہے۔ جس میں رجوع کے حوالہ سے لکھا ہے ’’ حنفی مسلک میں رجوع کیلئے نیت شرط نہیں ، اگر عدت کے دوران شہوت کی نظر غلطی سے بھی پڑگئی تو رجوع ثابت ہوگا، شوہر رجوع نہ کرنا چاہے اور نظر پڑی تو مسئلہ گھمبیر ہوجائیگا، ایسی صورت میں شوہر دستک دے تو نظر پڑنے پر شوہر ذمہ دار نہ ہوگا۔ اور شافعی مسلک یہ ہے کہ مباشرت بھی کرلی جائے تو رجوع نہ ہوگا جب تک نیت رجوع کی نہ ہو‘‘۔ تین طلاق: حبیب الرحمن ، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی۔
معروف کو منکر میں بدلنے کیلئے ہمارے فقہاء نے (سکہ رائج الوقت ہے) یہود کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے، جدید تعلیم والوں کی وجہ گمراہی کے قلعے مدارس کسی رعایت کے قابل نہیں، اصل گمراہی تو انہی کی وجہ سے پھیلی ہوئی ہے۔ معتبر کتابوں میں لکھا ہے کہ ’’ رجوع اس وقت بھی ثابت ہوگا ، جب نیند میں ایک دوسرے کو شہوت سے چھو لیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ شہوت عورت کی معتبر ہوگی یا مرد کی ؟، جواب یہ ہے کہ دونوں کی معتبر ہوگی‘‘۔ کیا یہ قرآن اور معاشرہ میں موجود معروف کے مقابلہ میں منکر رجوع نہیں ہے؟۔ یقیناًہے اور فقہاء نے الف سے ی تک معروف کو منکر بنایا۔
(د): سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ نے جو یہ فرمایا ہے کہ فلاتحل لہ من بعدحتی تنکح زوجا غیرہ ’’پھر اگر طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہانتک کہ وہ کسی دوسرے سے نکاح کرلے‘‘۔ اس کا کیا مطلب ہے؟۔
جواب یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے میں کوئی رسمِ بد ہوتی ہے تو اس کو ملحوظِ خاطر رکھ کر حل تجویز کیاجاتا ہے، شوہر بیوی کو طلاق دینے کے بعد بھی اپنی مرضی سے نکاح نہیں کرنے دیتا تھا، بخاری میں انصار کے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ کے حوالہ سے بھی وضاحت ہے، نبیﷺ کی ازواج مطہراتؓ کے بارے میں اللہ نے فرمایا کہ آپ کی وفات کے بعد نکاح نہ کرو، اس آپﷺ کی اذیت ہوتی ہے، آج بھی یہ رسم قبائل میں موجود ہے کہ طلاق کے بعد بھی اپنی مرضی سے شادی میں رکاوٹ ڈالی جاتی ہے، لیڈی ڈیانا کو بھی طلاق کے باوجود اپنی مرضی سے دودی الفہد سے شادی کو برداشت کرنے کی بجائے ماردیا گیا، شہبازشریف اور غلام مصطفی کھر کو تہمینہ درانی سے شادی کرنے پر نذیر ناجی اوراطہر عباس نے نشانہ بنایا تھا۔ریحام خان طلاق پر دوبارہ پاکستان آمد میں جان کا خطرہ محسوس کرنے کا برملا اظہار کررہی تھی۔
میاں بیوی میں سے ایک نیکوکار اور دوسرا بدکار ہو تو بدکاروں کی بدکاروں سے یا مشرکوں سے نکاح اور مؤمنوں پر حرام قرار دینے کی بات کی گئی ہے جو ’’حلال نہیں‘‘ سے زیادہ سخت لفظ ہے تاہم اس آیت سے پہلے جو صورتحال ذکر کی گئی ہے اس کو بھی نظر اندازکرنا معروف کے مقابلہ میں منکر کو وجود بخشنا ہے جس کی تفصیل دیکھ لو۔ عتیق گیلانی

حلالہ کے حوالہ سے غلط فتویٰ اور ایسی طلاق کی وضاحت

الطلاق مرتٰن بامساک بمعروف اوتسریح باحسان ولایحل لکم ان تأخذوا مما اٰتیموھن شےءًاالا ان یخافاان لایقیما حدوداللہ ،فان خفتم الا یقیما حدوداللہ فلا جناح علیھافیما افتدت بہ ،تلک حدوداللہ فلا تعتدوھا ومن یتعدحدوداللہ فأولئک ھم الظٰلمونOفان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ۔۔۔ ’’طلاق دو مرتبہ ہے، پھر معروف طریقہ سے رجوع ہے یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے، اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ تم ان سے لو جو کچھ بھی ان کو تم نے دیا ہے مگر یہ کہ دونوں کو خوف ہو کہ اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے۔اور اگر تمہیں خوف ہو کہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں اس میں جو عورت کی طرف سے فدیہ کیا جائے۔ یہ اللہ کی حدود ہیں،ان سے تجاوز مت کرو، جو اللہ کی حدود سے تجاوزکرتا ہے تو بیشک وہی لوگ ظالم ہیں، پس اگر اس نے پھر طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے سے نکاح کرلے‘‘۔
ان آیات میں واضح طور پر دو مرتبہ طلاق کے بعد ایک صورت معروف طریقہ سے رجوع کرنے کی ہے، اگر معروف رجوع کی بجائے فقہاء کے منکر رجوع کا پتہ عوام کو چل جائے تو علماء ومفتیان کے علم وعقل پر تعجب کااظہار کرینگے اور دوسری صورت احسان کیساتھ رخصت کرنے کی ہے، احسان کیساتھ رخصت یہ ہے کہ طلاق کے بعد ان کو انکے حق سے زیادہ دیا جائے۔ اگر اس طرح سے تیسری طلاق کے بعد بھی انکو رخصت کیا جائے اور عدت کی تکمیل پر دو عادل گواہ بھی مقرر کئے جائیں تب بھی اللہ نے رجوع کا راستہ نہیں روکا ہے جس کی تفصیل سورۂ طلاق میں موجود ہے۔ پڑھے لکھے لوگ ہی نہیں علماء ومفتیان بھی ان پر غور کرلیں۔
علاوہ ازیں ایک مزید خاص قسم کی طلاق جسکے بعد حلال نہ ہونے کو واضح کیا گیا ہے جس کا مقدمہ بھی اللہ تعالیٰ نے وضاحت کیساتھ بیان فرمادیا ہے وہ کیا ہے؟۔ رخصت کرنے کا فیصلہ کرنے کے بعد اللہ نے فرمایا کہ’’ تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی انکو دیا ہے، اس میں سے کچھ بھی واپس لو مگر یہ دونوں کو خوف ہو کہ اس چیز کو واپس کئے بغیر اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے‘‘۔ ذرا غور کیجئے کہ علیحدگی کا فیصلہ اس انداز سے ہورہا ہے کہ دونوں باہوش وحواس سمجھ رہے ہیں کہ دونوں کے درمیان رابطے کی کوئی ایسی چیز نہیں ہونی چاہیے کہ ایک دوسرے کے راز سے آشنا کے ملنے کی کوئی صورت نکلے تو اللہ کی حدود پامال ہونے کا خدشہ ہو۔ ویسے تو دی ہوئی چیزوں میں سے کوئی چیز واپس لینا حلال نہیں مگر دوسرے بڑے حرام میں پڑنے سے بچنے کیلئے اس چیز کا واپس کرنا مجبوری کی حالت میں حلال بن جائے۔
بسا اوقات میاں بیوی ایک دوسرے کی شکل نہ دیکھنے پر جذباتی یا سنجیدہ طور سے پہنچ جاتے ہیں۔ دونوں اپنی راہ الگ کرلیتے ہیں تو بھی ان کا یہ فیصلہ ایسا وقعت نہیں رکھتا ، اسلئے اللہ نے اس پر بس نہیں کیا بلکہ فیصلہ کرنے والوں کو بھی حصہ دار بنایا تاکہ میاں بیوی کا جذباتی یا باہوش و حواس فیصلہ اس ملعون عمل کا ذریعہ نہ بن سکے، چنانچہ اللہ نے مزید حدود قیود کی وضاحت کرتے ہوئے فیصلہ کرنے والوں کو بھی علیحدگی کے اس عمل میں برابر شریک ہونے کی شرط لگادی فرمایا’’ اور اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو دونوں پر گناہ نہیں کہ( دی ہوئی چیزوں) میں سے کوئی چیز عورت کی طرف سے فدیہ کیا جائے۔یہ اللہ کی حدود ہیں ان سے تجاوز مت کرو، جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرتا ہے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔پھر اگر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ کسی اور سے نکاح نہ کرلے‘‘۔
یہ تو اپنی جگہ پر بہت بڑی حیرت کی بات ہے کہ حلالہ کے حوالہ سے اللہ نے جو حدود مقرر کئے ہیں ان کو کس طرح سے پامال کیا جارہا ہے۔حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ جس قرآن سے دلیل نقل کی جاتی ہے اسکے سیاق وسباق کو بھی عوام کے سامنے لایا جاتا۔ ان حد بندیوں کا ذکر ہوتاجن سے حلال نہ ہونے اور دوسری جگہ نکاح کو ضروری قرار دیا جاتا۔ قرآن کودرست طریقہ سے پیش کیا جائے تو لوگ قرآن اور انسانیت کی عظمت کا اعتراف کرینگے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن اور وفاق المدارس کی میرے پاس اصول فقہ کی کتاب ’’نورالانوار‘‘ کی سند ہے جو درس نظامی میں شامل ہے، اسمیں حنفی مسلک کے مؤقف کی یہ وضاحت ہے کہ ’’ اس طلاق فان طلقہا فلاتحل لہ میں ’’ف‘‘ تعقیبِ بلامہلت کیلئے آتا ہے، لہٰذا لامحالہ اس کا تعلق دومرتبہ طلاق کے بعد سے براہِ راست نہیں بلکہ عورت کی طرف سے فدیہ دینے کی ہی صورت سے ہے‘‘۔اگر’’نورالانوار‘‘ کا مؤقف غلط ہے تو عام اعلان کیا جائے۔
حنفی مؤقف قرآن کریم کے حوالہ سے بڑا حساس ہے، قرآن کے مقابلہ میں تو واضح احادیث کیخلاف بھی مدارس میں حنفی مؤقف پڑھایا جاتا ہے۔ اصولِ فقہ کی کتاب ’’نورالانوار‘‘ ہمیں مولانا بدیع الزمانؒ نے پڑھائی تھی اور ’’اصول الشاشی‘‘ بھی انہوں نے پڑھائی تھی۔حنفی مسلک کے علاوہ دوسرے مسالک میں بھی قرآن کو حدیث پر ترجیح ہے لیکن حنفی مسلک دوسروں کے مقابلہ میں بہت ممتاز ہے۔ مولانا بدیع الزمانؒ ایک عالم دین ، ایک مفسر،ایک محدث ،ایک فقیہ اور ایک ولی کامل بھی تھے۔ انہوں نحو ،ترجمۂ قرآن اور تفسیر بھی پڑھائی تھی۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ روزانہ ایک رکوع کاترجمہ وتفسیردیکھ لیا کریں بے سمجھے زیادہ تلاوت سے یہ بہتر رہے گا۔
اصول فقہ شروع کرنے سے پہلے سمجھا جایا تھا کہ قرآن و حدیث میں تضاد ہو تو پہلے انکے درمیان تطبیق کی کوشش کرنی ہوگی اور تطبیق نہ ہوسکے تو قرآن پر عمل کیا جائیگا اور حدیث کو ترک کردیا جائیگا۔ پھر جب اصول الشاشی کا پہلا سبق شروع ہوا، جس میں قرآن کی آیت حتی تنکح زوجاً غیرہ کے مقابلہ میں من نکحت بغیر اذن ولیھا فنکاحہا باطل باطل باطل کا درس دیا گیا ہے کہ قرآن کی آیت میں عورت کی طرف نکاح کی نسبت کی گئی ہے کہ یہاں تک کہ وہ نکاح کرے۔ جس سے عورت کا خود مختار ہونا ثابت ہوتا ہے لیکن حدیث میں اس کی نفی کی گئی ہے کہ جس نے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے باطل ہے باطل ہے،ان دونوں میں سے کوئی ایک مؤقف ہی درست ہوسکتا ہے، حدیث کی تطبیق نہیں ہوسکتی ہے لہٰذا حدیث کو ترک کردیا جائیگا اور قرآن پر عمل ہوگا۔ (اصول الشاشی)
میں نے اسی وقت زمانہ طالب علمی میں عرض کیا تھا کہ قرآن کی آیت سے اس حدیث کی تطبیق ہوسکتی ہے ۔ آیت میں طلاق شدہ عورت مراد ہے جسکے احکام بھی کنورای سے مختلف ہوتے ہیں، حدیث سے کنواری مراد لی جائے کیونکہ شادی کے بعد عورت کا سرپرست اس کا شوہر ہوتاہے اور طلاق شدہ یا بیوہ ہونے کے بعد وہ خود مختار ہوجاتی ہے۔ استاذؒ کے پاس کوئی معقول جواب نہ تھا ۔بات آئندہ پر رہ گئی تھی۔
مفتی نعیم صاحب بھی میرے استاذ ہیں ، معید پیرزادہ دنیا ٹی وی میں پروگرام کا آخر دیکھ سکا جس میں مفتی صاحب نے ایک معروف وکیل خاتون کاحوالہ دیاکہ اس نے کہا کہ ’’ یونیورسٹیوں میں مخلوط تعلیم کے دوران لڑکا لڑکی خود ہی پسند کا رشتہ کرلیں تو والدین کی ذمہ داری بھی ختم ہوجاتی ہے، وہ معاشرہ قائم کیا جارہا ہے جو خالص مغربی تہذیب والا ہے، اگر اسلامی اور مغربی تہذیب دونوں سے آشنا لوگوں کو بلواکر قانون سازی کی جائے تو بہتر ہوگا‘‘۔ اگر مفتی صاحب حنفی مؤقف کو حدیث پر ترجیح دینے کی تعلیم دیتے ہیں تو خاتون وکیل رہنما اور مدرسہ کی تعلیم میں ویسے بھی ہم آہنگی ہے۔حالانکہ قرآن و سنت میں جس طرح کا متوازن معاشرہ کرنے کی وضاحت تھی اس معروف کو منکر بنانے میں سب بڑا کردار علماء ومفتیان کا عمل وکردار ہی نہیں بلکہ جہالت، گمراہی،انا پرستی، کفرسازی کا وہ تعلیمی نصاب ہے جو یہ بیچارے سمجھتے نہیں۔ عتیق گیلانی

بہشتی زیور اور بہار شریعت میں طلاق کے مسئلہ پر روگردانی

جن علماء ومفتیان کے نصاب تعلیم درسِ نظامی میں اللہ کی کتاب کا حلیہ بگاڑ کر رکھا گیا، وہ سود، طلاق اور دوسرے معاملات کی درست تشریح وتعبیر کرنے کی کوئی صلاحیت رکھتے ہیں؟۔ علماء ومفتیان کی شکل میں جو جاہل طبقہ اللہ والوں کا گزرا ہے ان کو میں عالم ومفتی کی حیثیت سے نہیں مانتا، البتہ صالحین سمجھ کر ان لوگوں سے ضرور محبت کرتا ہوں۔ان سے بغض وعناد رکھ کر اذیت دوں تو اللہ کیساتھ اعلانِ جنگ ہوگا
احب الصالحین ولست منہم لعل اللہ یرزقنی صلاحا
میں نیک لوگوں سے محبت کرتا ہوں مگر ان میں سے نہیں ، ہوسکتا ہے کہ اللہ میری اصلاح فرمادے۔ حاجی محمد عثمانؒ سے حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ اور مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ سے شیخ الہند مولانا محمودالحسنؒ تک اولیاء اللہ کا جوسلسلہ فقہ کے امام حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ اور دیگر اماموں اور تابعین میں مدینہ کے سات فقہاء اور صحابہ کرامؓ حضرت فاروق اعظمؓ اور صدیق اکبرؓکے توسل سے جو سلسلہ رسول ﷺ سے ملتا ہے، میں حق چار یارخلفاء راشدینؓکو حفظ مراتب کیساتھ ،چاروں فقہی امام کو برحق سمجھتے ہوئے خود کو انکے فیضان سے استفادے کا محتاج سمجھتا ہوں۔
تبلیغی جماعت اور دعوتِ اسلامی والے دیوبندی بریلوی سے تعلق رکھتے ہیں۔ مخلص ہونے کے باوجود علم سمجھ کر جہالتوں کے دلدل میں پھنسے رہتے ہیں، حضرت مولانا الیاسؒ نے خلوص کیساتھ تبلیغ کا کام شروع کرکے اخلاص کا ایک شجرہ طیبہ لگایا اور آج اس بیج کے پھل کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایاتھا کہ ’’دین خیرخواہی کا نام ہے‘‘۔ فرمایا کہ ’’ایمان اخلاص ہے‘‘۔ متقدمین علماء چاروں امام کے نزدیک قرآن سکھانے اور عبادت پرمعاوضہ جائز نہ تھا، متأخرین نے جائز قرار دیا مگر ہردور میں تاریخ کے وہ درخشندہ ستارے رہے ہیں جنہوں نے معاوضہ وصول کرنے کی بجائے بہت تکالیف اور مصیبتیں برداشت کرکے دین کی تبلیغ کی تھی اور ان میں چاروں فقہی امام، محدثین ، ائمہ اہلبیت، امام غزالی، مجدد الف ثانی ، شاہ ولی اللہ اور بہت بڑی تعداد میں غیرمعروف اجنبی ہستیاں بھی شامل ہیں۔
جہاں فتویٰ فروشان اسلام اور مذہب کو دھندہ بنانے والوں کی کمی نہ تھی وہاں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلام کے ٹمٹماتے ہوئے شمعوں کو دلوں کی کڑہن سے سینہ بہ سینہ منتقل کرنے والا سلسلہ حق ہردور میں موجود رہا ہے، یہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں کہ صحابیؓ کا ذاتی کردار کیا رہا ہے مگر جن آنکھوں نے نبیﷺ کی زیارت کی تھی، ان کی عقیدت واحترام کیلئے صاحبِ ایمان ہونا کافی ہے، اگر ذوالخویصرہ جیسے کسی گستاخ سے عقیدت ومحبت نہیں ہوسکتی تو جن کی نظر میں کسی کا کردار ذوالخویصرہ کی طرح یا اس سے بھی بدتر ہو، ان پر عقیدت و احترام کو لازم قرار دینا کوئی فرض نہیں۔
حضرت عمرؓ کی طرف علماء ومفتیان نے یہ منسوب کیا ہے کہ پہلے کوئی بیوی سے تین مرتبہ طلاق طلاق طلاق کہتاتو اگر اس کی نیت ایک طلاق کی ہوتی تو اس کی بات قبول کرلی جاتی اور اس کو بیوی سے رجوع کی اجازت مل جاتی مگر پھر حضرت عمرؓ کے دور میں لوگ خائن ہوگئے، تین طلاق کی نیت ہوتی تب بھی کہتے کہ ایک طلاق کی نیت تھی، اسلئے حضرت عمرؓ نے اپنے دور کے دوسال بعد حکم جاری کردیا کہ ’’جو ایک مجلس میں طلاق طلاق طلاق کہے گا، اس کو رجوع کی اجازت نہ ہوگی‘‘۔ اگر واقعی یہی معاملہ تھا ۔اس پر صحابہ کرامؓ، چاروں امام بالخصوص حضرت امام ابوحنیفہؒ اور تمام دیوبندی بریلوی اکابر کا اجماع ہوچکا ہے تو بسم اللہ مجھے بھی کسی اختلافِ رائے اور تنازعہ کھڑا کرنے کا شوق نہیں ہے اور نہ ایسی حیثیت کہ لوگ میری مان لیں۔
لیکن اگر اس سے دیوبندی مکتبۂ فکر کی مشہور کتاب مولانا اشرف علی تھانویؒ کی ’’بہشتی زیور‘‘ اور بریلوی مکتبۂ فکر کی مشہور کتاب’’بہار شریعت‘‘ کو اتفاق نہ ہو تو پھر مجھے حضرت عمرؓ اور اسلاف کو بدظنی سے بچانے میں کردار ادا کرنا چاہیے یا نہیں ؟۔ یہ مسئلہ ان دونوں مشہور کتابوں میں ہے کہ ’’ اگر شوہر نے طلاق طلاق طلاق کہہ دیا تو بیوی کو تین طلاقیں ہوجائیں گی لیکن اگر نیت ایک طلاق کی ہوگی تو پھر ایک طلاق واقع ہوگی، شوہر کو رجوع کا حق ہے مگر بیوی پھر بھی سمجھے کہ تین طلاق ہوچکی ہیں‘‘۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس بات پر حضرت عمرؓ نے فیصلہ کردیا، اجماع کا تصور بھی قائم ہوگیا، پھر اللہ کے ولیوں کو انحراف کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟، کیا چاروں امامؒ اور سلف صالحینؒ یہ تصور بھی کرسکتے تھے کہ شوہر کو طلاق سے رجوع و نکاح کے برقرار رکھنے کا فتویٰ دیا جائے اور بیوی کو تین طلاق کا فتویٰ دیا جائے؟۔
اس قدر حماقت و بیوقوفی تو گاؤں دیہاتوں میں رہنے والے ان پڑھ چرواہے بھی نہ کریں گے۔ 1000سال پہلے ابوالعلاء معریٰ ایک عربی عالم گزرے ہیں کہتے ہیں کہ’’ لوگوں کی دوقسمیں ہیں ایک وہ جن کے پاس عقل ہے مگر انکا کوئی دین نہیں،دوسرے وہ جنکا دین ہے مگر انکے پاس کوئی عقل نہیں‘‘۔ جب اسلامی علوم پر زوال اور انحطاط کا دور آیا تو مولانا ابوالکلام آزادؒ کے بقول ’’ اس دور کی تعلیمات کو نصاب کا حصہ بنایا گیا، جو عقلمند لوگوں کو بھی کوڑھ دماغ بنانے کیلئے کافی ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے دینِ اسلام میں طلاق کے ہر پہلو کو قرآن میں واضح کردیااور پھر نبی کریم ﷺ نے اپنی احادیث سے اس کی وضاحت بھی فرمادی جسکے بعد عقل کیلئے کوئی بھٹکنے کی گنجائش نہ تھی مگر نہ جانے کہاں کہاں غیرفطری طور سے کم عقلی اور بیوقوفی کے گھوڑے نہیں ڈھینچو ڈھینچوکی انتہائی خراب آوازیں نکال کرگدھے دوڑائے گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ’’ جتے دی کھوتی اتے ان کھلوتی‘‘ جہاں کی گدھی تھی اس جگہ آکر کھڑی ہوگئی۔ امت مسلمہ کو جن جہالت کے اندھیروں سے اسلام نے نکالا تھا، قریب کے دور میں اسلام کو پھر اجنبی بنادیا گیا اور امت اسی اندھیر نگری کا شکار ہوئی۔
حضرت عمرؓ نے ایک ایسے دور میں جب خواتین پر غلامی کی زنجیریں دوبارہ کسنا شروع کردی گئیں، قرآن و سنت کی روح کے عین مطابق عورت کے حق میں فیصلہ کر دیا تھا۔ مشہور مقولہ ہے کہ میاں بیوی راضی تو کیا کریگا قاضی۔ میاں بیوی میں جھگڑا ہو تو قرآن و سنت میں اس کا حل موجود ہے۔ شوہر نے کہہ دیا کہ تجھے تین طلاق یایہ کہ تجھے طلاق طلاق طلاق، پھر بیوی ساتھ میں رہنے کیلئے راضی نہیں تو شریعت میں کیا تصور ہے اور عقل وفطرت کا کیا تقاضہ ہے کہ کیا فیصلہ ہونا چاہیے؟۔ حضرت عمرؓ کا فیصلہ 100،200نہیں بلکہ 300فیصد درست تھا، اسلئے کہ محض طلاق دینے کے بعد بھی عورت راضی نہ ہو تو شوہر کو قرآن نے رجوع کا کوئی حق نہیں دیا ہے۔
وبعولتھن احق بردھن فی ذلک ان ارادوا اصلاحا ’’اورانکے شوہروں ہی کو اس عدت میں لوٹانے کا حق ہے بشرط یہ کہ صلح کا پروگرام ہو‘‘۔یہ بڑا المیہ ہے کہ عدت میں صلح کی شرط پر شوہر کو رجوع کا حقدار قرار دیاگیا لیکن علماء و مفتیان اور فقہاء و محدثین نے صلح کی شرط بھوسہ سمجھ کر کھالی،صلح کے بغیر بھی رجوع کا حق دیا۔ حضرت عمرؓ کی عظمت کو دنیا سلام کرتی ہے، شیعہ بھی انشاء اللہ ضرورکریں گے۔حضرت عمرؓ کا یہ اقدام قرآن کی روح کے مطابق عورت کے حق کا تحفظ تھا۔
حضرت علیؓ اور حضرت ابن عباسؓ کا اس بات سے اتفاق نہ تھا کہ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد صلح پر بھی پابندی لگائی جائے، مگر عورت راضی نہ ہوتی تھی تو انہوں نے بھی یہی فیصلہ اور فتویٰ دیا کہ ’’شوہر ایک ساتھ تین طلاق دینے کے بعد عورت کو نہیں لوٹا سکتا، اسلئے کہ حکومت عورت کیساتھ کھڑی تھی‘‘۔ یہ کسی مجبوری کا فتویٰ نہیں تھا بلکہ قرآن وسنت کی روح کے مطابق تھا، اسلئے کہ عدت میں صلح نہ ہوسکے تو عورت پھر دوسری جگہ شادی کرسکتی ہے، ائمہ مجتہدینؒ اور امام ابوحنیفہؒ نے بھی اسی وجہ سے طلاق واقع ہونے کا فتویٰ دیا مگر یہ تو وہم وگمان میں بھی نہ ہوگا کہ میاں بیوی کے راضی ہونے کے باجود بھی عدت میں رجوع کی اجازت نہ ہو گی اور حلالہ پر مجبور کیاجائیگا۔