پوسٹ تلاش کریں

پاک ایران جنگ اور اس کا خاتمہ ہوا؟

پاک ایران جنگ اور اس کا خاتمہ ہوا؟

ایران نے پاکستان پر حملہ کیا، پاکستان نے جوابی حملہ کیا۔ سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان نے میڈیا پرواضح بتادیا کہ ”ایران نے کافی عرصہ سے صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا ہوا تھا، آخر میں مجبور ہوکر یہ قدم اٹھایا اسلئے کہ امریکہ و اسرائیل نے ایران کیخلاف پاکستان میں اپنے ایجنٹ پال رکھے ہیں۔ جو دہشت گردانہ کاروائیاں کرتے ہیں۔ ایران نے پاکستان، عراق اور شام پر حملہ کرکے امریکہ واسرائیل کو پیغام دیدیا کہ ایران کس حد تک جاسکتا ہے؟”۔ عمران خان کیساتھDGISIحافظ سید عاصم منیر ایران کے دورے پر گیا تھا تو وہاں عمران خان نے کھلی بات کی کہ ”ہماریISIنے تمہارے خلاف اور تم نے ہمارے خلاف دہشت گردیاں کی ہیں اور یہ آئندہ نہیں ہونا چاہیے”۔ عمران خان نےARYنیوز پر کاشف عباسی کو بتایاتھا کہ ”سپاہ صحابہ کے لوگوں نے کہا کہ شیعوں سے ہماری دوستی کراؤ۔ISIنے ہمیں انکے خلاف استعمال کرکے ہماری دشمنی بنارکھی ہے”۔
اسلام آباد میں مولانا مسعود الرحمن عثمانی کے قاتل پکڑے گئے اور ایران میں دھماکے اور پولیس اہلکاروں پر حملے کا بدلہ شام ، عراق اور پاکستان سے لیاگیا۔ پاکستان نے جواب میں بلوچ سرمچاروں کو نشانہ بنایا؟۔ تعجب ہے کہ دہشت گرودں کے خلاف کاروائی کی جگہ تک میڈیا کو رسائی نہیں دی جاتی ۔ پہلے پشتونوں کو دہشت گردی کے نام پر تباہ کیا گیا اور اب بلوچ بھی دو طرفہ کاروائیوں کا نشانہ بن رہے ہیں؟۔ پاکستان اور ایران تیل ، گیس ، تجارت اور راہداری کیلئے اچھا ماحول نہیں بناسکتے مگر بھارت ، اسرائیل اور امریکہ کی جنگ یہاں لڑی جارہی ہے؟۔
کچھ تجزیہ کاروں نے کہا کہ اسرائیل نے بھارت کو اکسایا اور مقصد پاکستان وایران جنگ تھا۔ ہمارے ٹانک شہر میں ایک پاگل تھا جس کو ”لیوان ” کہتے تھے ۔ اس کو کوئی پیچھے سے چھیڑتا تووہ سامنے والے پر حملہ کردیتا تھا”۔ مسلم ریاستوں کے نااہل حکمرانوں کا بھی حال لیوان والا بن گیا۔ کچھ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ عمران خان کو اسلئے ہٹادیا گیا کہ امریکہ پاکستان کو ایران اور افغانستان سے لڑانا چاہتاہے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ یہ آگ تمہارے گھروں تک بھی پہنچ سکتی ہے جس میں بلوچ اور پشتون کو عرصہ تک تباہ وبرباد کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

ہم پر الزام لگائے کہ فارن فنڈنگ مگر فارن فنڈنگ پر آپ کاملک، فوج، مولوی چلتے ہیں: بانوہدیٰ بھر گڑی

ہم پر الزام لگائے کہ فارن فنڈنگ مگر فارن فنڈنگ پر آپ کاملک، فوج، مولوی چلتے ہیں: بانوہدیٰ بھر گڑی

بانوہدیٰ بھرگڑی نے کہا: ماہ رنگ اور اسکے ساتھ آئی ہوئی خواتین نے یہ جواب دیا کہ اگر ہمیں پتہ ہو تا کہ ہمارے مرد کہاں ہیںتو ہم ادھر اسلام آباد میںاس ٹھٹھرتی سردی میں اپنے گھر چھوڑ کے اپنے معصوم بچوں کو گودوں میں لیکریہاں کیوں آتے؟۔ یہی تو وہ سوال ہے جو ہم ریاست سے پوچھنے آئے ہیںکہ بلوچ عورتوں کے گھروں کے مرد کہاں ہیں؟۔ دوسرا سوال آج ہمیں نظر آیا اسلام آباد پاکستان کے سیاسی منظر نامے پہ ۔وہ یہ تھا کہ عورتیں اس طرح سے بات نہیں کرتیں۔SHOشفقت صاحب آئے تھے انہوں نے کہا کہ کیا عورت اس طرح بات کرتی ہے؟۔ تو میں ان سے ،ان کی ریاست سے اور اپنی ریاست سے یہ سوال پوچھنا چاہوں گی آپ انکے بیٹوں کو اٹھائیں،آپ ان کے بھائیوں کو اٹھائیں ،آپ انکے صوبے کے اندر موجودہ سوئی گیس کا استعمال کریں، آپ انکے ذخائر بیچیں سی پیک کے نام پر، آپ انکی زمینیں گروی رکھ دیں چائنا کے ہاتھ میں، آپ انکے بچے، آپ ان کے انٹیلی جینسیا، آپ انکے وکیل ،آپ ان کی مائیں ، معصوم بچے، آپ ان سب کو اٹھاتے جائیں انہیں قتل کرتے جائیں ان کی لاشوں کو کئی کئی سالوں کے بعد پھینک دیں اور اسکے بعد یہ کہیں کہ عورتیں اس طرح سے بات نہیں کرتیں،عورتیں اس طرح سے سوال نہیں اٹھاتیں؟۔ توآپ پر، آپ کی ریاست، آپ کے اس قانون کے تحت جس قانون کے تحت آپ ادھر بیٹھے ہیں اور ہمیں ہمارا احتجاج نہیں کرنے دیتے سب پر لعنت ہے۔ لعنت ہے ایسے قانون کے اوپر، لعنت ایسی ریاست کے اوپر جو کہ عوام کے ساتھ نہیں کھڑی لعنت، لعنت ہے ایسے چیف جسٹس کے اوپر، ایسے پرائم منسٹر کے اوپر، ایسی فوج کے اوپر جو کہ مظلوم کا استحصال کر کے مظلوم کا خون بہا کے پھر مظلوم سے یہ تقاضا بھی کرے کہ تم نے اُف نہیں کرنی۔ تم نے آواز نہیں اُٹھانی، تم نے سڑک پہ نہیں نکلنا اور اگر تم سڑک پہ نکلو گے اگر اپنے گھروں کو چھوڑ کے اگر اپنے بچوں کا مستقبل تباہ کر کے کیمپوں میں آکے بیٹھو گے تو تم پہ ٹھنڈا پانی برسایا جائے گا، تمہیں جیلوں میںبھیجا جائے گا ،تمہیںاس سردی کے اندر ہر طرح کا وہ ٹارچر دیا جائے گا۔ جس ٹارچر کی کسی بھی مہذب معاشرے میں کوئی بھی جگہ نہیں ہوتی۔ یہ وہ میسج ہے جو کہ ہمیں انہوں نے دیا ہے میرا تعلق سندھ سے ہے۔ میں یہاں پر اپنی سندھی دھرتی اور اپنے سندھ کے ان لوگوں کی آواز بن کے آئی ہوں کہ ہم نے پاکستان کے ساتھ جڑنے کا اسی لیے فیصلہ کیا تھا کیونکہ ہم چاہتے تھے کہ سندھ ایک خود مختار صوبہ ہوگا۔ بلوچستان نے پاکستان کے ساتھ جڑنے کا اسلئے اسٹیٹمنٹ دیا تھا کیونکہ انہوں نے کہا تھا کہ ہم ایک خودمختار فیڈریشن کے حق میں تھے ۔ہم اس ون یونٹ کے حق میں نہیں تھے۔ یہ جو پورے کا پورا نظام ہے جسکے اندر صرف جبر ہے جسکے اندر صرف ظلم ہے جسکے اندر صرف وحشت ہے جسکے اندر صرف دہشت ہے ہم ایسے نظام کو ہم ایسے قانون کو ہم ایسی ریاست کو نہیں مانتے۔ ہمیں یہ لگتا ہے کہ پاکستانیت کا جو تصور ہے اس پاکستانیت کے تصور کو ری ڈیفائن ہونا ہوگا، یہ پاکستانیت کیا ہے کیا پاکستانیت یہ ہے کہ بلوچ کا قتل کرو، بلتیوں کو نکال دو، گلگستان پر قبضہ کرو کشمیریوں کے حقوق پہ قبضہ کرو، سندھیوں کو بند کرتے جا ؤ ، ان کی آوازیں بھی ختم کرتے جاؤ، بلوچوں کی تو مسخ شدہ لاشیں پھینکتے جا ؤ۔ تو کیا یہ پاکستان صرف پنجاب اور پنجاب کے اوپر مبنی آرمی کا پاکستان ہے اگر یہ ان کا پاکستان ہے تو بتائیں یہ ہم سے ٹیکس لینا چھوڑ دیں، ہم سے یہ پیسے لینا چھوڑ دیں۔ یہاں پہ جتنے یہ میرے بھائی کھڑے ہوئے ہیں وردیوں کے اندر ہم یہ سب اپنی اپنی تنخواہوں سے ٹیکس دیتے ہیں جن سے آپ لوگوں کے گھر چلتے ہیں آج آپ لوگوں کے پاس بھی ایک موقع تھا۔ آپ اپنے فرض کے ساتھ تو کھڑے رہے لیکن کل کو جب مریں گے تو دیں گے تو خدا کو جواب۔ بتائیے مجھے کہ ان عورتوں نے آخر کیا قصور کیا ہے کہ جن کو یہ نہیں پتہ کہ وہ اب تک بیوائیں ہیں یا سہاگنیں ہیں؟۔ مجھے بتائیے ان معصوم بچوں کا کیا قصور کہ آپ کے بچے تو اسکول جائیں وہ اس سردی میں یہاں پہ کیوں بیٹھے ہیں؟۔یہ بچہ یہ بلوچ بچہ جب بڑا ہوگا تو کیا یہ پاکستان کو مانے گا؟۔ یہ جو سندھ کا بچہ ہے جو بڑا ہوگا کیا وہ پاکستان کو مانے گا؟۔ کیا وہ پاکستانیت کو مانے گا ؟۔آپ لوگوں کے ہاتھ میں ہے اس ملک کو بچائیں،اس کو ٹوٹنے سے روکیں، اپنے اندر کے انسان کو جگائیں اور ہماری اس جدوجہد میں ہمارا ساتھ دیں۔ ہم کسی فارن فنڈنگ ایجنڈے کے ذریعے یہاں پر نہیں آئے ہیں۔ ہم پر یہ الزام لگا لگا کے آپ لوگوں نے بڑے اپنے بنالئے ہیں سوشل میڈیا پر آپ نے پیج بھی چلالئے ہیں کہ فارن فنڈنگ فارن فنڈنگ۔ چلتا تو آپ کا ملک ہے فارن فنڈنگ کے اوپر، چلتی تو آپ کی فوج ہے فارن فنڈنگ کے اوپر، چلتے تو آپ کے مولوی ہیں فارن فنڈنگ کے اوپر۔ ہم یہاں پہ انسانیت کی خاطر کھڑے ہیں اور ہمارے پاس ہارنے کیلئے کچھ نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہاں پر بول رہے ہیں اسکے اوپر بھی قدغن لگا دو۔ زیادہ سے زیادہ آزادی سے سانس لے رہے ہیں یہ بھی ہم سے چھین لو۔ لیکن تم یہ سوچ نہیں توڑ سکو گے۔ اس سوچ نے جس نے یہ تھوڑے بہت بھی لوگ اکٹھے کیے ہیں، یا وہ جو مائیں بیٹیاں وہ بلوچوں کی عزتیں جو کبھی گھروں سے نہیں نکلتی تھی اگر آج بھی وہ نکلنے کیلئے آگئی ہیں تو آپ سوچ لیں کہ وہ کس قدر مجبور ہیں؟۔ اور اس قدر مجبور کرنے میں صرف اور صرف ریاست کا اور ریاستی اداروں کا ہاتھ ہے۔
میں بحیثیت عورت، بحیثیت ایک سندھی عورت اور بحیثیت ممبر آف عورت مارچ اسلام آباد میں اپنی بلوچ بہنوں کے ساتھ کھڑی ہوں اور اس طرح کے ہر جبر کے خلاف ہم اور ہماری پوری کی پوری تحریک ہمیشہ آواز اٹھاتی رہی ہے ہمیشہ آواز اٹھاتی رہے گی۔ ہم سے یہ توقع نہ کی جائے کہ ہم کسی فوجی ،کسی ٹینک، کسی کالی ویگو کے ڈر کے خوف سے اپنے گھروں میں جا کے چھپ کے بیٹھ جائیں گے۔ ہم یہاں پہ مزاحمت کرنے آئے ہیں۔ اور ہم اپنی آواز یہاں پہ سب کو سناکے جائیں گے ۔بے شک آپ کتنی بھی قدغن لگائیں۔ بے شک آپ خار دار تاروں سے یہ پوری کی پوری شاہراہ ہی بھردیں۔ اس سے زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا؟۔ ایک پروٹیسٹ روک پائیں گے۔ آواز اس عوام کی اب نعرہ علی الحق بن چکی ہے اور وہ اب آپ کو سننی پڑے گی۔ یہ آپ کو ماننا پڑے گا کہ اب آپ لوگوں کی جو رٹ ہے جس کا نام آپ لیتے ہیں یہ رٹ اب کسی کام کی نہیں ہے کیونکہ اب یہ عوام کے خلاف ہو چکی ہے۔ یہ اس مظلوم طبقے کے خلاف ہو چکی ہے۔ اور جو ریاست مظلوم طبقے کے ساتھ نہیں کھڑی وہ ریاست کسی کام کی نہیں اس ریاست کو ہونا ہی نہیں چاہیے۔ بہت بہت شکریہ

تبصرہ : نوشتۂ دیوار

جب یہ بیان بلوچ قوم کے پاس پہنچ جائے گا تو اس کے بعد ہدیٰ بھڑگڑی کا نام بانو ہدیٰ بھرگڑی یا بانوک ہدیٰ بھڑگڑی رکھ دیں گے۔ جب عورت مارچ کے خلاف ریاستی مشینری نے جامعہ حفصہ، لال مسجد اور تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں کو لگایا تھا تو وہ دن بہت مشکل تھا۔ ہم نے مظلوم خواتین کا ساتھ دیا تھا لیکن جب تک یہ سارے انقلابی قرآن و سنت کے ٹھوس احکام کی طرف نہیں آئیں گے ان کے وقتی اُبال سے کچھ بننے والا نہیں ہے۔ انسانیت کیلئے قرآن کے ٹھوس احکام میں سب کچھ موجود ہے اور جو اگر مولوی نے مسخ کیاتو ہم نے علاج کردیا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ
ماہ رنگ بلوچ کو پرواہ نہیں شہادت کی
اس کی جدوجہد میں خوشبو ریاضت کی
بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال دیا
بلوچوں کو غلامی سے نکالنے کی عبادت کی
مظلوم کمزوروں کو لے کر شہر اقتدار پہنچی
اس نے بے بسوں کی خوب قیادت کی
بلوچوں نے مارا بھی اور مار کھائی بھی
76 سالوں میں داد نہ پائی سیادت کی
ماہ رنگ کی چادر سے دنیا میں دھوم مچی
مبارک ہو مبارک نئی مقبول ولادت کی
بدقسمت قوم ریاست کی مار کھار ہی تھی
تصویر دکھا دی شقاوت کی عداوت کی
وہ مارچ پہ مارچ کئے جارہی تھی آخر
منزل پالی ہے راحت کی سعادت کی
اب کوئی بھی ظلم کی جرأت کرے گا نہیں
شرارت ختم ہوئی لگڑ بگڑ کی خباثت کی
ہر قوم نے پیش کردیا ہے خراج تحسین
بلوچ شیرنی زینت بن گئی ریاست کی
پولیس کی روش کسی کے لئے بھی ٹھیک نہیں
وہ مظلوم ماری ہوئی تھی دور کی مسافت کی
اگر ان پر ظلم نہ ہوتا تو ہمدردی نہ ملتی
ظالم جابروں کا شکریہ اچھی ضیافت کی
ایک شرمائے دوسرا ٹانگ اٹھا کے پدو مارے
بلوچ پنجابی پیداوار الگ الگ ثقافت کی
دو لتی اُٹھاکے مارنا گدھے منحوس کی فطرت
کتابیں لاد کے رکھنا نشانی ہے جہالت کی
گدھے رہیں گے گدھے یا آدمی بنیں گے؟
ظلم قائم رہے گا یا باری آئے گی عدالت کی
اگرحافظ آرمی چیف واقعی ہے سید واجہ
توپھر رکھ لے گا لاج فوجی بسالت کی
سب قوموں کے لئے قابل فخر ہے یہ بات
بلوچ رانی نے پائی ہے داد شجاعت کی
نہ گالی نہ گلوچ کیا طرزِ عمل ہے واہ بلوچ
ادا تجھ سے کوئی سیکھ لے بڑی بغاوت کی
میرا ایک دوست تھا عبدالقدوس بلوچ
مثالی یادیں چھوڑیں جس نے رفاقت کی
بالاچ کے باپ نے فواد حسن کی ٹھوڑی پر
ہاتھ رکھ کر بڑی عزت سے منت سماجت کی
بلوچ روایت میں معزز کے لئے یہی دستور
ماہ رنگ سے برداشت نہ ہوئی ادا لجاجت کی
حکومتی وفد کے سامنے کہہ دیا کہ تم بیٹھ جاؤ
دکھادی اپنی اوقات بلوچی شانِ وجاہت کی
قوم بھوک افلاس اور بیروزگاری سے مری
سیاسی پارٹیوں میں جنگ ہے رقابت کی
دشمنی، بداخلاقی، افواہیں اور بہت کچھ
لیاقت ضائع ہے فصاحت کی بلاغت کی
مسائل کا حل قرآن میں منہاجِ نبوت
لوگ منتظر ہیں آئے گی ندا خلافت کی
جب تک حقیقی اسلام کی سمجھ نہ آئے گی
کربلا سے کشتی پار نہ لگے گی صداقت کی

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ جنوری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

بلوچستان کا مسئلہ جنرل ڈائیر ہے۔ حامد میر

بلوچستان کا مسئلہ جنرل ڈائیر ہے۔ حامد میر

جو سن1916سے اب تک جاری ہے اور ختم نہیں ہورہا ہے۔
رانا ثناء اللہ اور عطا تارڑ نے مجھ سے بلوچ لاپتہ افراد کی لسٹ منگوائی اس کے بعد اس لسٹ سے بلوچوں کو نکال نکال کر مارنا شروع کردیا

حامد میر نے کہا کہ ایک واقعہ کا میں عینی شاہد ہوں، پروسیس میں شامل تھا۔ مجھے کہا گیا کہ جن کو آپ چاہتے ہیں کہ رہا کردیا جائے یا کورٹ میں پیش کردیا جائے۔ تو میں نے ادھر اُدھر سے پوچھ پاچھ کے صرف50لوگوں کی لسٹ دی، پولیٹکل ورکر یا اسٹوڈنٹ تھے یا کوئی شاعر تھا یا ادیب تھا۔ پچھلی حکومت کے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ ، وزیر قانون عطا ء تارڑ اور کچھ دیگر حکام۔ تو انہوںنے نام نکال نکال کر مارنا شروع کیا۔ آپ پر اعتبار کون کرے؟ اسلئے عورتیں اور بچے کدھر جائیں؟۔ یا تو علیحدگی پسندوں کیساتھ شامل ہوجائیں۔ یہ آتے ہیں اسلام آباد، آپ ان کو دھتکار دیتے ہیں۔ تو بلوچستان کا مسئلہ جنرل ڈائیر ہے۔ اس نے سن1916میں بلوچستان میں جو خانہ جنگی، مارپیٹ شروع کی جو بلوچ کو تقسیم کرو اورحکومت کرو کی پالیسی کے تحت مرواناشروع کیا آپس میں دشمنیاں پیدا کیں شیعہ سنی فساد کروائے۔ وہ کام ہوتا جارہا ہے ہوتا جارہا ہے۔ خان آف قلات ،اکبر بگٹی ، خیر بخش مری سب نے کوشش کی پاکستان کیساتھ چلیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت نہیں آتی ۔ ایوب خان ، یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق، جنرل پرویز مشرف آجاتا ہے پھر یہ لوگ بلوچستان میں اپنے فیورٹ تلاش کرلیتے ہیں اور انکے ذریعے بلوچستان کو چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو اگر آپ اپنے منتخب شدہ لوگوں کے ذریعے چلانے کی کوشش کریں گے تو بلوچستان تو نہیں چلے گا۔ تو بلوچستان کو حقیقی جمہوریت دینی ہے۔ بدقسمتی سے بلوچستان میں الیکشن نہیں فراڈ ہوتا ہے۔ ابھی بھی الیکشن نہیں ہوگا ایک فراڈ ہوگا۔ اور کوشش کی جائے گی اس فراڈ میں بھی کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرو اور ماورائے عدالت قتل بند کرو۔ کوشش کی جائے گی کہ وہ لوگ اسمبلیوں میں نہ پہنچیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ جنوری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پنجاب سب سے زیادہ مظلوم ہے:قاری حنیف ڈار

پنجاب سب سے زیادہ مظلوم ہے:قاری حنیف ڈار

ہر وہ ظلم جو غیر پنجابیوں کیساتھ ہوتا ہے وہ پنجابیوں کیساتھ بھی ہوتا ہے۔مگر دوسروں کو غم ہلکا کرنے کیلئے پنجابیوں کو گالی دینے کا ہاجمولا دستیاب ہے، پنجابی لاشیں اٹھاکر کسی کو گالی نہیں دے سکتا ۔ غزوہ احد میںرسول اللہ ۖ نے حضرت حمزہ کا غم یوں منایا کہ70شہداء کے ہر جنازے کیساتھ حمزہ کا جسد خاکی ساتھ رکھ کر جنازہ پڑھایا۔ اُحد سے واپسی پر مدینہ کے ہر گھر سے شہداء کے ماتم کی آہ و بکا سن کر رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ اما الحمزة فلا بواکی لہ ” ہائے حمزہ تیری تو کوئی رونے والی بھی نہیں ”۔اس پر صحابہ کرام نے اپنے گھر والیوں سے کہہ دیا کہ جاکر نبی ۖ کے حجرے کے باہر حمزہ کا ماتم کرو۔رسول اللہ ۖ نے شور سنا تو باہر نکل کر پوچھا کہ کیا ماجراء ہے؟۔ خواتین نے عرض کیا کہ ہم حمزہ کا ماتم کرنے آئی ہیں۔ رسول اللہ ۖ نے ماتم سے روک دیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ماتم کو حرام قرار دیا ہے۔ پنجابیوں کے خلاف بدبودار مہم پڑھتا ہوں تو رسول ۖ کا وہ جملہ یاد آتا ہے اور بے ساختہ زبان سے نکلتا ہے کہ پنجابیوں تمہیں کوئی رونے والا نہیں ۔ پنجابیوں کا کوئی نصاب نہیں۔ پنجابیوں کا کوئی رسم الخط نہیں ۔ پنجابی طلبہ کیلئے مادری زبان کا کوئی پیپر نہیں۔ پنجابیوں کی مادری زبان کے کوئی مارکس نہیں۔ جتنے غیر پنجابی گمشدہ ہوتے ہیں اس سے زیادہ تو پنجابی شناختی کارڈ دیکھ کرگاڑی سے اُتارکر مار دئیے جاتے ہیں مگر کوئی لاش رکھ کر ٹریفک جام نہیں کرتا۔ وزیراعظم سے ملاقات اور مذاکرات کا مطالبہ نہیں کرتا۔ گویا پنجابی نے معاملہ رب کی عدالت پر چھوڑ دیا۔ پی ٹی آئی کے خلاف مہم میں سب سے زیادہ پنجابی خواتین قید وبندو استحصال سے گزری ہیں مگر کوئی ملک توڑنے اور پاکستان کے خاتمے کی بات نہیں کرتا۔پنجابی پاکستان کی سب سے شاکر قوم ہے۔
تبصرہ :فرعون: محمداجمل ملک
قاری محمد حنیف ڈار کا بیان ”پیج فرعون” پر آیا ہے اور اس نے لکھا کہ ” پنجابی پاکستان کی سب سے شاکر قوم ہے”۔ فرعون نے بنی اسرائیل پر ظلم کیا تو بنی اسرائیل میں بھی برائیاں تھیں۔ اسلئے جو فرعون سے بچ جاتا تھا اس کو خضر مار دیتا تھا۔ فرعون کو جب تک اللہ نے غرق نہیں کیا تو وہ صابر شاکر ہی تھا۔ زرداری نے مولانا فضل الرحمن کیساتھ سی پیک کی مغربی سڑک کا افتتاح کیا لیکن نوازشریف نے پھر کوئٹہ اور پشاور سے چھین کر لاہور کی طرف موڑ دیا۔ اگر وہ روٹ ہوتا تو چین کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہوتا اور قرضہ بھی اتاردیتے۔ حکمرانوں کے کرتوت پر شکر کرتے کرتے کہیں بنگال کی طرح غرق نہ ہوں!

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ جنوری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

سن2024کے اندر یقین کیساتھ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں منتخب آزاد ارکان کی تعداد تمام پارٹیوں سے بھی بہت زیادہ ہوگی

سن2024کے اندر یقین کیساتھ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں منتخب آزاد ارکان کی تعداد تمام پارٹیوں سے بھی بہت زیادہ ہوگی

بلوچستان کے بلدیاتی انتخابات میں آزاد ارکان کی تعداد پارٹیوں کے مقابلہ میں زیادہ تھی۔ عمران خان پرویزمشرف کے ریفرینڈم کا حامی اور تحریک انصاف کا جنرل سیکرٹری معراج محمد خان ریفرینڈم کا مخالف تھا۔ یہ جمہورت کا وہ گھناؤنا چہرہ تھا جس کا عوام کو آج تک شعور نہ مل سکا ہے پھر انتخابات ہوئے تو عمران خان صرف اپنی سیٹ پر جیت سکا۔ پرویزمشرف اس کو وزیراعظم بناسکتا تھا لیکن عمران خان نے اچھا کیا کہ نہیں بنا تھا اور پھر بلوچستان سے مرحوم ظفر اللہ جمالی کو وزیراعظم بنایا گیا۔
ظفر اللہ جمالی میں جمہوریت، اسلام اور انسانیت تینوں چیزیں واضح مقدار میں تھیں لیکن مولانا فضل الرحمن کے مقابلہ میں ایک ووٹ سے وزیراعظم بن گیا تھا۔ اس وقت اس ایک ووٹ کی بہت زیادہ اہمیت تھی۔جس کے ذریعے سے ظفراللہ جمالی وزیراعظم اور مولانا فضل الرحمن میں کانٹے دار مقابلہ تھا۔ عمران خان نے اپنا ووٹ مولانا فضل الرحمن کو دیا تھا اور کالعدم سپاہ صحابہ کے مولانا اعظم طارق نے اپنا ووٹ ظفراللہ جمالی کو دیا۔ درست و صحیح صحافت کا ایک پروگرام ڈان نیوز میں وسعت اللہ خان، ضرار کھوڑو اور مبشر زیدی کا ” ذرا ہٹ کے” تھا۔ جس میں یہ الزام بھی لگایا گیا کہ ظفراللہ جمالی کو زیادہ ووٹوں سے بھی منتخب کروایا جاسکتا تھا لیکن فوج نے جمہوریت کو طاقتور نہیں ہونے دینا تھا اسلئے کچھ ووٹ چھپا ئے تھے۔ ظفراللہ جمالی ایک ووٹ سے کمزور وزیراعظم بنادیا گیا تاکہ جب فوج کو ضرورت ہو تو ایک ووٹ کو ادھر سے ادھر کرکے جمالی کو اتاردیا جائے۔ حالانکہ یہ بات اس وقت کی جاتی کہ اگر جمالی کے پاس اپنے علاوہ کوئی دوسرا ووٹ بھی ہوتا۔
اگر درست جمہوری تصور ہو تو طاقتور کے مقابلے میں کمزور لوگ بھی اقتدار میں آسکتے ہیں۔افغانستان میں طالبان طاقت کے ذریعے سے اقتدار تک پہنچے اگر جمہوریت نہیں آتی توپھر وہاں تبدیلی طاقت کے بغیر نہیں آسکتی ہے لیکن پاکستان میں یہ نہیں ہے کہ بندوق اٹھائی جائے تو تبدیلی آسکتی ہے۔
رسول اللہ ۖ نے اقتدار کیلئے جنگ نہیں کی تھی مکہ والوں نے مجبور کیا تو ہجرت کی اور مدینہ میں جمہوری اقتدار کی بنیاد رکھ دی ۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ” قلم اور کاغذ لاؤ۔ میں ایسی چیز لکھ کر دیتا ہوں کہ تم میرے بعد کبھی گمراہ نہ ہوگے”۔ حضرت عمر نے کہا کہ ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے۔ نبیۖ نے اپنا ایجنڈہ زبردستی نہیں منوایا اور یہ جمہوریت کی بنیاد تھی۔
قوم پرست انصار نے کہا کہ ہم خلافت کے حقدار ہیں۔ نبی ۖ کے عزیز واقارب بھی تھے۔ اگرچہ ووٹ کا نظام نہیں تھا لیکن جمہورکی بنیاد پر حضرت ابوبکر پہلے خلیفہ منتخب ہوگئے۔ پہلا خلیفہ انصار بنتا تو قوم پرستی کی بنیاد مضبوط ہوجاتی۔ حضرت ابوبکر نے حضرت عمر کی نامزدگی جمہوری بنیاد پر کی تھی ورنہ ایک احتجاج کی صورت پیش آتی۔ حضرت عثمان کا انتخاب بھی شوریٰ نے جمہوری اور اکثریت کی بنیاد پر کیا تھا اور اس کی وجہ سے سب نے سرتسلیم خم کیا۔پھر حضرت علی خلیفہ بن گئے تو حضرت عائشہ کی قیادت میں مسلح جنگ ہوئی اور وجہ یہ تھی کہ حضرت عثمان کے قاتلوں کا بدلہ لیا جائے۔ پھر حضرت علی کے بعد امام حسن نے امیرمعاویہ سے معاہدہ کیا اور30سالہ خلافت راشدہ کے بعد امارت کا آغاز ہوگیا۔ اس کے بعد ایک غیر صحابی یزید سے خاندانی بادشاہت کا آغاز ہوگیا اور یزید ہی باطل نظام کا ایک استعارہ بن گیا۔آج ہم آزاد ا رکان کا اقتدار قائم کرکے پاکستان میں خلافت راشدہ لاسکتے ہیں۔ حضرت علی نے مدینہ کی جگہ کوفہ کو دارالخلافہ بنایا اور ہم اسلام آباد کی جگہ ڈیرہ غازی خان کو دارالخلافہ بنائیں گے۔ انشاء اللہ العزیز
پنجاب ، سندھ، بلوچستان اور پختونخواہ کے آزاد ارکان اپنا ایک مختصر منشور شائع کریں۔ پھر کامیاب ارکان آپس میں ہی اتحاد کرکے ایک شخص پر ووٹنگ کرکے اتفاق کرلیں۔ پہلے سب میں جن جن کوبھی ووٹ مل جائیں اورپھر زیادہ ووٹ لینے والا منتخب نہ ہو بلکہ کم ووٹ لینے والوں کو درمیان سے نکال کر زیادہ ووٹ لینے والوں کے درمیان ایک ہی مجلس میںمقابلہ ہو اور پھر پہلے تین پوزیشن حاصل کرنے والوں کے درمیان ووٹنگ کرائی جائے۔ پھر پہلی دو پوزیشن میں ووٹنگ کرائی جائے۔
پھر جس کے زیادہ ہوں اس پر سب متفق ہوں۔ جمہوریت کا ایک نیا طریقہ کار رائج کرنے کی ضرورت ہے جس میں پیسہ خرچ اور ایکدوسرے کے خلاف غلط پروپیگنڈے کا موقع بھی نہ دیا جائے۔ اگر آزاد ارکان خود جیتنے کی پوزیشن میں نہ ہوں تو اپنے منشور کے تحت کسی اور پارٹی کو جتوائے لیکن قرآن وسنت کے بنیادی معاشرتی ڈھانچے کو نافذ کرنے کیلئے اپناکردار ادا کرے۔خلع وطلاق کے مسائل ۔ خلع وطلاق کے حق اور نکاح اور حق مہر کے معاملات قرآن میں بالکل واضح ہیں لیکن علماء و مفتیان نے مسخ کرکے رکھ دئیے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان اسلام کی طرف نہیں جارہاہے۔ جمہوریت کے دور میں سب سے بڑا فائدہ یہی ہے کہ ہم غلطیوں کو ٹھیک کرکے اس پر مرہم و پٹی رکھ سکتے ہیں۔ شیعہ سنی ، بریلوی دیوبندی اور اہلحدیث کے متفق ہونے میں بالکل بھی دیر نہیں لگے گی۔ اسلام روشنی ہے جو اندھیروں کو کسی طاقت کے بغیر بھی بالکل اڑادیتا ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ جنوری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اپنی بیٹی اور بلوچ بیٹی کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ سینیٹر جماعت اسلامی مشتاق احمد خان

اپنی بیٹی اور بلوچ بیٹی کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ سینیٹر جماعت اسلامی مشتاق احمد خان

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے دھرنے میں پہنچ کر کہاکہ اپنی بیٹی اور بلوچ بیٹی کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں سچی بات یہ ہے کہ جس بہادری، جرأت کیساتھ اس نہتی بچی ماہ رنگ بلوچ نے ریاستی جبر، پولیس دہشتگردی کا مقابلہ کیا ہے اس نے تمام جمہوریت پسند انسانی حقوق کے علمبرداروں کے سر فخر سے بلند کر دیے، حوصلہ بڑھا دیا تو بیٹے میںآپ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، شاباش دیتا ہوں، آپ کیساتھ ہوں اورفرحت اللہ بابر آپ کیساتھ ہیں ،تمام جمہوریت پسند انسانی حقوق کے علمبردار وہ آپ کیساتھ ہیں۔ پریس، سٹریٹس اور پارلیمنٹ میں انشااللہ میں آپکی آواز بنوں گا۔ لانگ مارچ اسلئے ہے کہ ڈیتھ اسکواڈ ختم کیا جائے، ایکسٹرا جوڈیشل کلنگ بالاچ بلوچ جیسے واقعات ہماری سرزمین پر نہ ہوں، ہماری مٹی کو ہمارے خون سے رنگین نہ کرو، ہمارے نوجوانوں کو قتل نہ کرو اور جبری گمشدگی لوگوں کو غائب کرنا۔ یہ اپنے درد کی وجہ سے آئی ہے پانچ بہنیں ایک بھائی کیلئے جو عشروں سے لاپتہ ہے یہ ریاستی دہشتگردی ہے۔ آئین قانون پارلیمنٹ دستور کی موجودگی میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ دستور کی خلاف ورزی پاکستان سے غداری ماہ رنگ نہیں کر رہی وہ لوگ کر رہے ہیں جو ایکسٹرا جوڈیشل کلنگ جو جبری گمشدگی کر رہے ہیں،آرٹیکل16،17،19،9،10میں وہ ساری باتیں ہیں جوماہ رنگ بلوچ کرتی ہے۔ پولیس ،نگران اورریاستی اداروں، اسلام آباد انتظامیہ کو شرم آنی چاہیے رات ایک بجے ٹھنڈے پانی واٹر کینن سے ان پر پھینکتے ہیں ۔ سادہ کپڑوں میں ڈنڈوں سے بچوں بچیوں کو مار رہے ہیں شرم نہیں آتی یہ دہشتگردی ہے میں سینٹ آف پاکستان میں ان کو بے نقاب کروں گا اسلئے میں مطالبہ کرتا ہوں کہ معافی مانگے وفاقی حکومت اس بچی سے اس لانگ مارچ کے شرکا سے اسلام آباد انتظامیہ معافی مانگے جن لوگوں نے یہ کام کیا ہے ان کوقرارواقعی سزا ملنی چاہیے اس حکومت نے اس انتظامیہ سے عدالتوں کے اندر جھوٹ بولا انہوں نے رہائی بھی نہیں دی ،تذلیل بھی کی، بدترین قسم کا وائلنس بھی کیا ہے۔ تو ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔اور جو مطالبات انہوں نے اٹھائے ہیں میں حکومت سے ریاستی اداروں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ جائز ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان سے کہتا ہوں کیا انصاف صرف اشرافیہ، بالادست طبقے کیلئے ہے مظلوموں، بلوچوں، جبری گمشدہ ،ایکسٹرا جوڈیشل کلنگ کے شکار کیلئے نہیں ہے ؟ میں سپریم کورٹ آف پاکستان سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اس لانگ مارچ پر تشدد کا بھی نوٹس لیں لانگ مارچ کو انصاف دو لانگ مارچ کے مطالبات پورے کرو بلوچستان میں50ہزار لوگوں کو بیروزگار کیا، خیبر پختونخوامیں بدامنی کی لہر ہے ۔ منظور پشتین آواز اٹھاتا ہے تو اس کو جیل میں بند کر دیا یعنی جو بندہ امن، اپنی مٹی، عوام کے حقوق کی بات کرتا ہے۔ ایکسٹرا جوڈیشل کلنگ، جبری گمشدی کے خلاف بات کرتا ہے ریاست کے بے لگام کو لگام دینا چاہتے ہیں ان کو جیل ،تشدد، ریاستی اداروں کوانکے خلاف استعمال کرتے ہیں تو یہ نہیں چلے گا۔ اب عوام باشعور ہو چکے ہیں۔ میں نے ابھی ایک پارٹی کنونشن میں آپ کی بات کی تو لوگوں نے کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں ہر محلے، ہر شہر سے آپکی حمایت ہے بلا تفریق کراچی سے چترال تک ماہ رنگ بلوچ آپنے لوگوں کو جگا دیا، مظلوم آپ کیساتھ ہے آپ مظلوموں دردمندوںاور تکلیف کے ماروں کی آواز ہیں۔ ڈٹی رہو، بہادری اور ہمت کے ساتھ اپنی اس جدوجہد کو جاری رکھو ہم آپ کے ساتھ ہیں فتح آپ کی ہے انسانی حقوق، جمہوریت کی ہے بشری حقوق کی ہے امن کی ہے اور شکست دہشت گردی کی ہوگی انشااللہ میں اور فرحت اللہ بابر صاحب تو سپریم کورٹ کے اندر بھی اکٹھے گئے ہیں اور ضرورت پڑی تو سپریم کورٹ کے اندر بھی جائیں گے ہم انشااللہ

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ جنوری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

کال کریں ہم دیکھتے ہیں کہ کون آتا ہے؟۔ اُم حسان

کال کریں ہم دیکھتے ہیں کہ کون آتا ہے؟۔ اُم حسان

جامعہ حفصہ کی خواتین نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے دھرنے میں آکر یکجہتی کا اظہار کیا
یہ صحافی نہیں میراثی ہیں یہ پیسے کے پتر اور پجاری ہیں۔ جو پیسہ دے اس کی خبر لگاتے ہیں

السلام علیکم ورحمة اللہ، میں جامعہ حفصہ سے اُم حسان ہوں اصل میں جس دن ان پر رات کے وقت انہوں نے ظلم کیا، زیادتی کی اس وقت تو ہمیں نہیں پتہ لگ سکا بعد میں میں نے اس ساری جگہ چکر لگایا تو ان کی جگہ پولیس بیٹھی ہوئی تھی۔ ماشاء اللہ دونوں گراؤنڈ بھرے تھے ہمارے جوانوں سے ،جن کی جوانیاں شاید اسی لئے وقف ہیں کہ مظلوموں پر ڈنڈے برسائے جائیں اور ان پر ظلم کیا جائے ،زیادتی کی جائے۔ تو انکے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے آئے ہیں اور ہم نے انہیں کہا کہ جب کوئی پولیس یا انتظامیہ آپ کو دھمکی دے ہمیں کال کریں ہم آپکے شانہ بشانہ کھڑیں ہوں گے اور دیکھتے ہیں کون آتا ہے اور انہیں ہاتھ لگاتا ہے۔ کسی کو انہیں ہاتھ نہیں لگانے دیں گے۔ یہ اس ملک کا وطیرہ بن گیا کہ جو ظالم ہے وہ ظلم کرتا چلا جاتا ہے ، اس کا کوئی ہاتھ نہیں روکتا۔ ہم انشاء اللہ تعالیٰ ہاتھ روکیں گے بھی اور توڑیں گے بھی۔صحافی آواز اٹھائیں گے، پہلے مظلوم کا ساتھ دیا؟۔ جامعہ حفصہ آپریشن میں یہ سب اور اکبر بگٹی کو بھی مروانے میں پیش پیش تھے۔ یہ لاشوں پر دھمال ڈالنے والے پیسے کے پتر پجاری ہیں۔ جو پیسہ دیتا ہے اس کی ڈفلی بجاتے، راگ گاتے ہیں۔ تو ان بیچاروں کے پاس پیسہ تو نہیں تو میڈیا والے بات کریں گے۔ پاکستانی میڈیا کوئی میڈیا ہے؟۔ یہ مراثیوں کا گڑھ ہے۔ سارے مراثی بیٹھے ہیں جس مراثی کو پیسے مل جاتے ہیں اسی کے حساب سے زبان چلتی ہے اسی کے حساب سے اس کے ٹھمکے لگتے ہیں بات ختم۔
سوال: آپ کب تک اظہار یکجہتی کریں گے؟۔
اُم حسان: جب تک یہ یہاں پر ہیں۔ جب یہ چلے جائیں گے تب بھی۔ پاکستان میں، دنیا بھر میں کہیں پر بھی کوئی مظلوم ہے اسکے لئے ہم آواز اٹھاتے ہیں کیونکہ ہم نے ظلم خود برداشت کیا ہے اور آج تک کررہے ہیںلیکن اب بہت ہوچکا۔ جیسے اسلام آباد پولیس نے ان کو مارا ہے وہ بہت ہی شرمناک عمل ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ جنوری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اکثریت کو اقلیت دباکر بیٹھی ہے ہدیٰ بھرگڑی

اکثریت کو اقلیت دباکر بیٹھی ہے ہدیٰ بھرگڑی

کیا یہ ملک فوج اورمسلح افراد کیلئے بناہے؟اس میںبلوچ، سندھی ، پشتون کے حقوق ہیں یا نہیں ؟

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی حمایت عورت مارچ کی خواتین اسلام آباد پریس کلب میں پہنچ گئیں۔ ہدی بھرگڑی نے کہا:یہ جو دو قومی سلسلہ رہا ہے، تمام کے تمام عوام جو کہ میجورٹی آف پاکستان ہے اس میجورٹی کو ایک مائنورٹی کئی عرصے سے کئی سالوں سے دبا کے رکھ کے بیٹھی ہوئی ہے تو یہ سوال ہم پہ بطور پاکستانی بنتا ہے آواز اٹھائیں کہ پاکستان آخر بنا کس کیلئے ہے کیا یہ فوجیوں کیلئے بنا ہے کیا یہ مسلح افراد کیلئے بنا ہے کیا یہ صرف ایک طبقے کیلئے بنا ہے کیا یہ بلوچوں کا سندھیوں کا خیبر پختونخواہ میں پشتون کیا انکے حقوق ہیں کہ نہیں ہیں تو پاکستان کا مطلب کیا ہے؟ہمیں دوبارہ سے واضح کرنا ہوگا کہ پاکستان کا مطلب کیا ہے؟، کیا پاکستان بلوچ عوام کیلئے ہے یا نہیں؟ پاکستان کا اب مطلب کیا ہے؟۔نعرے ہر جبر سے لیں گے آزادی ، ہر قہر سے لیں گے آزادی،زنجیر سے لیں گے آزادی، زندان سے لیں گے آزادی، جینے کی لیں گے آزادی، احتجاج کی لیں گے آزادی ، سی ٹی ڈی سے لیں گے آزادی ، آمر ریاست سے آزادی، فوجیوں سے آزادی ، ٹینکوں والوں سے آزادی، بوٹوں والوں سے آزادی، بندوق سے آزادی، ظالم سے لیں گے آزادی، جابر سے لیں گے آزادی، بلوچ کا نعرہ آزادی، ماہ رنگ کا نعرہ آزادی، عورت کا نعرہ آزادی، ہے حق ہمارا آزادی ، نہیں بھیک میںلیں گے آزادی، نہیں جھک کرلیں گے آزادی، ہم چھین کے لیں گے آزادی، للکار کے لیں گے آزادی، جو تم نہ دو گے آزادی، سی ٹی ڈی تو سن لے آزادی، ڈی سی تو سن لے آزادی، پولیس تو سن لے آزادی، کاکڑ توسن لے آزادی، وردی والے توبھی سن لے آزادی، ہم چھین کے لیں گے آزادی، للکار کے لیں گے آزادی، ہم لیکر رہیں گے آزادی، بلوچستان سے جاگی عورت جاگی، جی پی سے جاگی عورت جاگی، کے پی سے جاگی عورت جاگی، اسلام آباد سے جاگی عورت جاگی، جاگی جاگی عورت جاگی، ظلم کے نظام کو ہم نہیں مانتے، ظلم و جبر کیخلاف جدوجہد تیز ہو، پولیس گردی کیخلاف جدوجہد تیز ہو، ظالمو! جواب دو خون کا حساب دو۔ بلوچ کو جواب دو خون کا حساب دو، ماہ رنگ کو جواب دو ظلم کا حساب دو، بلوچ کا نعرہ آزادی، ماہ رنگ کا نعرہ آزادی، ہر جبر سے لیں گے آزادی، ہر ظلم سے لیں گے آزادی، ہر تیر سے لیں گے آزادی، تلوار سے لیں گے آزادی، بندوق سے لیں گے آزادی، ٹینکر سے لیں گے آزادی، بلوچ کا نعرہ آزادی، ماہ رنگ کا نعرہ آزادی، عورت کا نعرہ آزادی، لال سلام لال سلام ،ماہ رنگ کو لال سلام۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ جنوری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

میں بولتی ہوں کہ اگر اس قوم کیلئے لاکھوں بچیاں بھی یتیم ہوجائیں تو کم ہے۔ماہ رنگ بلوچ

میں بولتی ہوں کہ اگر اس قوم کیلئے لاکھوں بچیاں بھی یتیم ہوجائیں تو کم ہے۔ماہ رنگ بلوچ

ایک ماں کا وہ پہلا خیال جس نے سوچا ہوگا کہ وہ اپنے وطن کیلئے قربان ہوگی ناں۔ وہ خیال ہی اس قوم کو ہزار سال حوصلہ دینے کیلئے کافی ہے۔ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ
بلوچ قوم کی اس عظیم قومی تحریک کے قریب بھی کسی دوسری قوم کی تحریک نہیں پہنچی ہے، ہمارے علماء اور مدارس کے طلبہ بھی کھاد کی مشین نہیں انقلابی بنیں۔عتیق گیلانی
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے اس تقریب سے یہ تحریر پڑھ کر خطاب کیا تھاجس کی کچھ جھلکیوں سے ان کے فکر وعمل کو سمجھنے میں قارئین کو آسانی ہوگی کہ اتنے حوصلے اور جرأت کے پیچھے کیا اصل عوامل کارفرماہیں۔ یہ حوصلے کی ایک چٹان کیوں ہیں؟۔
ڈاکٹر ماہ رنگ نے8مہینے پہلے اپنے خطاب میں کہا تھا: صباح اسلئے صباح تھا کہ اپنے آپ کو اجتماع سے جوڑ دیا۔ صباح نے وہ جو روایتی دانشور کی تعریف سے خود کو نکال کر وہ اپنی عوام کے ساتھ رہا۔ اس نے کہا کہ اگر میری کلاس کا ایک اسٹوڈنٹ اغوا ہورہا ہے تو میں اپنی کلاس میں بیٹھوں گا ہی نہیں جب تک کہ وہ رہا نہیں ہوجائے۔ جب بات ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ صباح نعرے نہ لگاتا تو صباح صباح نہ ہوتا۔ تو آپ بتائیں کہ اگر آپ نے ایکٹیو ازم کو محدود کردیا ہے ۔ آپ کہتے ہیں کہ قوم کیلئے کام تو ناکارہ شخص ہی کرے گا تو پھر قومی تحریک چلائے گا کون؟۔ ایک ڈاکٹر ڈاکٹری کرے، ایک وکیل وکالت کرے، ایک استاد اپنی استادی کرے تو پھر قومی تحریک چلائے گا کون؟۔ کیا یہ کوئی آسان کام ہے؟۔ یہ سب سے مشکل کام ہے۔ سب سے ذہین اور سب سے جرأتمند لوگ قومی تحریکیں چلاتے ہیں۔ یہ کسی عام کسی ڈرپوک شخص کا کام ہے ہی نہیں کہ اتنے بڑے کلیم کو لے کر آگے چلے اور اپنی زندگی اور سب کچھ قربان کردے۔ میں کہتی ہوں کہ ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ قربانیاں تو اتنی ہیں کہ اس تحریک کا کوئی ادارہ اس قابل بھی نہیں ہے کہ وہ شہداء کی لسٹ بناسکے۔ تعلیم ہی اپنی کوکھ سے علم کو جنم دیکر کردار میں عملی نکات پیدا کرے تو وہ شعور اور تبدیلی کہلائی جاسکتی ہے۔ صرف تعلیم حاصل کرنے اور اپنے پاس رکھنے سے کوئی بھی طالب علم نوکری اور کاروبار تو کرسکتا ہے مگر اپنے سماج میں تحریک پیدا نہیں کرسکتا اور نا ہی انقلاب برپا کرسکتا ہے۔ کوئی بھی تحریک جسکے مقاصد متعین نا ہوں تو جدوجہد علمی ہو، نظریاتی ہو، تعلیمی ہو، فکری ہو وہ وقتی جدوجہد تو بن سکتی ہے مگر اسے مستقل جدوجہد نہیں کہا جاسکتا۔ جیسا کہ البرٹ کامیوس نے کہا کہ حقیقی مایوسی طاقتور دشمن کا سامنا کرنے سے پیدا نہیں ہوتی اور نا ہی جدوجہد میں ناکامی تھکاوٹ سے ظہور پذیر ہوتی ہے۔ مایوسی اس وقت ہوتی ہے جب ہمیں اپنی جدوجہد کا ادراک نہیں ہوتا ہے۔ ہم یہ بھول چکے ہوتے ہیں کہ یہ جدوجہد کس لئے شروع کی گئی تھی۔ یہ جدوجہد قومی شناخت کی جدوجہد ہے۔ قومی بقاء کی جدوجہد ہے۔ یہ کچھ آسامیوں، نوکریوں، وسائل اور صوبائی حق خود داریت کی جدوجہد ہے ہی نہیں۔ قومی تحریکیں اشرافیہ اور طاقتور لوگوں کے بجائے عام لوگوں کی جدوجہد سے بنتی ہیں۔ وہ لوگ جن کی ہر سوچ اجتماعی ہے اور وہ اجتماعی سوچ کی بنیاد پر بولتے ہیں اور اپنے قول کو عمل میں تبدیل کرنے کی جرأت رکھتے ہیں جیسا کہ گرامسچی نے کہا: ”قبضہ گیر ریاستیں تشدد اور معاشی استحصال کیساتھ اپنے اداروں کے ذریعے ریاستی نظرئیے کو محکوم اقوام پر مسلط کرتی ہیں اور ایسے سماج میں انقلاب لانا مشکل ہوجاتا ہے جہاں محکوم حاکم کو حکمرانی کرنے کا حقدار سمجھتا ہو”۔ مگر سوال یہ ہے، آج کل ایسی سازش میں بلوچ طلبہ کو ڈالا جارہا ہے ،کہا جاتا ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کا حل تعلیم ہے۔ کونسی تعلیم اور تعلیم کس کیلئے ؟۔ کیا پروفیشنل ازم قومی خدمات کے برابر ہوسکتی ہے؟۔ ہماری جد و جہد کے اہم مقاصد کیا ہیں؟۔ قومی جدوجہد پر کمپرومائز کرنے والی قوتیں کون سی ہیں؟۔ جو نام نہاد قوم پرست پارٹیاں بناچکے ہیں وہ نام نہاد قوم پرست تو کہلائے جاسکتے ہیں، لیکن انہوں نے اصل مقصد اور قومی شناخت کے بجائے کچھ وسائل کو ہی جدوجہد کا نام دے رکھا ہے۔ بلوچ قوم کو ہر اس دھوکے کو پہچاننا ہوگا، سوال کرنا ہوگا کہ وہ کونسے مقاصد ہیں کہ جس کی وجہ سے ہم یہ جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ ہماری قومی شناخت کی جنگ ہے اور ہمارے آباء و اجداد اور ہزاروں شہیدوں نے اپنی جان کی قربانی صوبائی خود مختاری ، چند اسامیوں اور تعلیم کیلئے نہیں دی ہے ۔ ہمارے نوجوان اسلئے پڑھتے ہیں کہ کل وہ اچھے ڈاکٹر بن جائیں ایک اچھے وکیل بن جائیں ؟ ،کسی پروفیشن میں ان کا نام ہو؟، ایک اچھے استاد اور لیکچرار بن جائیں؟ اور کل کواگر انہیں ایک پروٹوکول چاہیے تو وہ جاکر سول سروس میں،PCSاورCSSکرکے اپنے آپ کو علاقے کا سب سے معتبر اور سب سے تعلیمی، شعوری انسان ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ بلوچو! قومی جدوجہد کی راہ انتہائی کٹھن ہے اس میں بے پناہ قربانیاں دینی پڑیں گی۔ اور یہ کسی بھی انسان کی قوت کا کام نہیں کہ وہ اکیلے انقلاب لا سکے۔ انقلاب کیلئے ہمیشہ عوام کی ضرورت ہوتی ہے، قوم کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب پوری قوم ایک تبدیلی کیلئے اپنی صبح شام لگاتی ہے ،اپنی جانوں کی قربانیاں دیتی ہے تبھی وہ کام آسان ہوسکتا ہے ایک فرد انقلاب نہیں لاسکتا۔ بھگت سنگھ کی ایک تحریر میں نے پڑھی تھی وہ انہوں نے اپنی پھانسی سے چند دن پہلے لکھی تھی انقلابیوں کے نام۔ کچھ ایسے الفاظ تھے جو مجھے سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں ہم سب کو کیونکہ ہم سب جو سطحی سیاست کا حصہ ہیں یا جہاں ہم سیاست کر رہے ہیں اس میں میں بذات خود بھی شامل ہوں اس میں میں اپنے آپ کو بورژوا نیشنلسٹ سمجھتی ہوں۔ کیونکہ میں قوم پرستی کے اس قول کو تو مانتی ہوں لیکن عملی طور پر میں ابھی تک اس میں شامل ہی نہیں ہوئی یا ہم سب اس میں شامل ہی نہیں ہوئے تو بھگت سنگھ نے کہا کہ اگر آپ ایک بزنس مین اور ایک اچھے ڈاکٹر ہیں اور اپنی زندگی کے کچھ گھنٹے جدوجہد پر بے بنیاد تنقید اور تقریروں میں صرف کرتے ہیں اور صبح ریاستی مشینری کو مستحکم کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ برائے مہربانی آگ سے مت کھیلیں۔ ایک انقلابی ورکر کے طور پر آپ کسی بھی تحریک کیلئے کار آمد نہیں ہوسکتے۔ انقلاب کیلئے ہمیں پیشہ ورانہ انقلابیوں کی ضرورت ہے۔ تحریک کے وہ کارکن جن کی زندگی کا مقصد تحریک کو آگے بڑھانے کے علاوہ کچھ بھی نہ ہو ، تحریک کیلئے جذبات قابل قدر ہوسکتے ہیں مگر تحریکیں مستقل مزاج کارکنوں کی مسلسل جدوجہد، مصیبتوں کا سامنا کرنے اور بے پناہ قربانیوں سے کامیاب ہوتی ہیں۔ راستے کی کوئی تکلیف آپ کی جدوجہد کو کم نہیں کرسکتی۔ اور اگر دشمن آپ پر وار کرتا ہے تو اس پر آپ اپنا سر پکڑ کر نہیں بیٹھیں گے کہ اُف یہ کیا ہوگیا؟ یہ تو ہم برباد ہوگئے، اب تو یہ ہماری عورتوں تک آپہنچا ہے۔ سب سے پہلے تم اپنے کلیم کو تو دیکھو کہ تم کیا مانگ رہے ہو؟۔….. میں کہتی ہوں کہ ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔………..
ایک ماں کا وہ پہلا خیال جس نے سوچا ہوگا کہ وہ اپنے وطن کیلئے قربان ہوگی ناں۔ وہ خیال ہی اس قوم کو ہزار سال حوصلہ دینے کیلئے کافی ہے۔ اس کی قربانی تو بہت دور کی بات ہے۔ اس قوم کی شناخت کی بقاء ہی اس میں ہے اس قوم کی جو جدوجہد ہے جس مقصد کیلئے شروع ہوئی تھی اس کو وہاں تک پہنچایا جائے۔ کوئی بھی ڈائیورژن ان قربانیوں کے ساتھ سب سے بڑی غداری ہوگی۔….تبصرہ: مولانا عبید اللہ سندھی نے کہا کہ عرب کے بعد عجم قرآن کو سمجھ کر انقلاب لائیں گے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ جنوری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv