پوسٹ تلاش کریں

Akhtar Khan’s Manzoor Pashtun’s main role in PTM? But then the line was cut. The picture shows some of the documents on which I wrote the five demands with my own hands, which were agreed upon by the twenty-two young men who marched with Manzoor Pashtun after a long discussion.

اختر خان کاپی ٹی ایم (PTM) میں بنیادی کردار ؟ مگرپھر لائن کٹ گئی!
تصویر میںکچھ غذات نظر آ رہے ہیںجن پر میں نے خود اپنے ہاتھوں سے وہ پانچ مطالبات لکھے جن پر منظور پشتین کیساتھ لانگ مارچ کرنے والے بیس بائیس نوجوانوںنے طویل بحث کے بعد اتفاق کیاتھا۔

یہ تصویر 30جنوری 2018کی ہے۔اس میں سب سے اوپر عتیق عالم وزیر بیٹھے ہیں۔ انکے بائیں طرف کچھ کاغذات نظر آ رہے ہیںان کاغذات پر میں نے خود اپنے ہاتھوں سے وہ پانچ مطالبات لکھے جن پر منظور پشتین کیساتھ لانگ مارچ کرنے والے بیس بائیس نوجوانوںنے طویل بحث کے بعد اتفاق کیاتھا۔عتیق عالم وزیر سے ہم نے درخواست کی کہ وہ یہ مطالبات سب کو سنائے۔ڈاکٹر سیدعالم محسود اور ڈاکٹر مشتاق بھی موجود تھے۔ڈاکٹر سید عالم محسود نے ذمہ داری لی کہ وہ ان مطالبات کی ایک ہزار پرنٹ کاپیاں نکال لے گااور یہ ہم اسلام آباد دھرنہ کی جگہ پر آنے والے شرکا میں تقسیم کرینگے اور ارادہ کیا کہ ان مطالبات کیلئے نہ صرف اسلام آباد میں دھرنا دیں گے بلکہ تحریک چلائیں گے۔اس رات ہم نے طویل بحث کی۔میں نے منظور پشتین کو اپنے رشتہ دار علی خان محسود کے پشتون قوم پرست نظریات سے بہت متاثر پایالیکن ہم نے اس پہلو پر اتفاق کیا کہ کسی بھی طرح ہم کسی سیاسی جماعت کے کندھے یا سیاسی نظرئیے کو استعمال نہیں کرینگے اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کو یہ اجازت دینگے کہ وہ تحریک کے پلیٹ فارم کو اپنے سیاسی نظریات کے پرچار کیلئے استعمال کریںبلکہ جو نوجوان ہماری آواز کو حق سمجھے گا ہم اس کو اپنا دوست سمجھیں گے اور ان نئے نوجوانوں کا ایسا گروہ بنائیں گے جو ریاستی اداروں، پشتون قوم پرست جماعتوں اور پشتون کے مذہبی طبقات کے درمیان پل کا کردار ادا کریں تاآنکہ وہ کسی مصلحت اور نئی اجتماعی ترکیب پر پہنچ جائیں۔
ہم جب اسلام آباد گئے تو وہاں پرہی تحریک کے اغراض و مقاصد سمت اور بیانئے پر رسہ کشی شروع ہوئی۔وزیرستان کے ملکان اور مولوی اس میں پیش پیش تھے لیکن جن نوجوانوں نے پشاور میں ریٹائرڈ پولیس افسر رحمت خان محسود کے گھر پر جو مطالبات لکھے تھے انہوں نے ان ملکان اور مولویوں کو سائڈ لائن کیالیکن اسکے بعد عوامی نیشنل پارٹی اور پی میپ کے کارکنان نے حتی الوسع کوشش کی کہ منظور پشتین اور اسکے ساتھ آئے ہوئے سکول کالج کے طلبا کو ان مطالبات پر اپنی توجہ مرکوز رکھنے کے بجائے سو سالہ پرانی لر او بر یو افغان اور لوئی افغانستان اور آزاد پشتونستان کے جذباتی فریبی جگاڑ کی طرف مائل کر لیں۔ پشاور یونیورسٹی گومل یونیورسٹی اور ڈگری کالج ڈیرہ اسماعیل خان کے سابقہ اور موجودہ جتنے صدر صاحبان وہاں آئے تھے انہوں نے اپنی پوری کوشش کی کہ کسی طرح منظور پشتین کو اختر اور عتیق عالم وزیر سے دور رکھا جائے۔
اسلام آباد دھرنہ کے تیرہ دن بعد23 فروری2018کو منظور مردان میرے گھر آیا ۔ مجھے اپنے ساتھ اٹک لے گیا۔وہاں جمعیت علما اسلام سے تعلق رکھنے والے ایک امیر محسود تاجر نے منظور کیلئے سابق وزیراعلی اکرم خان درانی کے فارم ہاوس میں بنے ریسٹ ہاوس میں مقامی گلوکاروں کو بلا کر میوزک پروگرام ارینج کیا تھا۔ڈھول کی تھاپ پر منظور پشتین اور ہم اتنڑ کرتے رہے۔رات کو میں اور منظور اور اس کا دوست گفتگو کرنے لگے۔سیاست سے لیکر ذاتی زندگی کے ہر پہلو پر ہم نے تفصیلی گفتگو کی۔منظور پشتین کے پاس تحریک کو آگے لیجانے کیلئے نہ کوئی منصوبہ بندی تھی اور نہ ہی کوئی فکر۔ 30جنوری 2018 کو ہمارے درمیان پانچ مطالبات پر جو فکری ہم آہنگی بنی تھی منظور اس سے کوسوں دور جا چکا تھا۔منظور پشتین لوئی افغانستان اور آزاد پشتونستان بنانے کے بارے میں اتنی لمبی لمبی چھوڑ رہا تھا کہ میں نے ان سے کہا کہ آپ میرے ساتھ میرے استاد ڈاکٹر فدا کے پاس جائیں۔ عشا کی نماز کے بعد خانقاہ پہنچے۔ ڈاکٹر فدا نے بات سنی اور منظور پشتین سے کہا کہ آپ اور اختر دو دن بعد آئیں، مشورہ کر لیں گے۔ آپ کی آواز ملک کے نظام کو بدلنے سے جڑی ہے۔ اسکے بعد ہم پشاور یونیورسٹی گئے جہاں سوات کے پروفیسر الطاف اور پروفیسر درویش آفریدی نے پشاور یونیورسٹی کے چند پروفیسروں کو اکٹھا کیا تھا۔اس ملاقات میں صمد خان کے پیروکار پروفیسر درویش آفریدی نے مجھے لوئی افغانستان کا دشمن کہا۔ملاقات کے خاتمے پر میں نے منظور پشتین سے کہا کہ درویش آفریدی کی گفتگو سے آپ نے کیا اخذ کیا؟ تو منظور پشتین نے مجھے کہا کہ درویش آفریدی نے جو کچھ کہا اس کا سادہ الفاظ میں خلاصہ یہ ہے کہ اگر آپ اختر کو اپنے آپ سے دور نہیں کرتے تو ہم تمام لوئی افغانستانی اور آزاد پشتونستانی آپ سے دور رہیں گے۔
اسکے بعد منظور پشتین نے تحریک کے مستقبل کے لائحہ عمل اور خط حرکت کو پی میپ اور عوامی نیشنل پارٹی کے سابقہ اور موجودہ پارلیمانی غیر پارلیمانی کارکنوں اور بھگوڑوں جیسے ڈاکٹر سید عالم محسود، علی وزیر، محسن داوڑ، عبداللہ ننگیال، گل مرجان وزیر ،پروفیسر درویش آفریدی، رضا وزیر وغیرہ وغیرہ کے حوالے کیا. 2018 کے پشاور جلسے میں ڈاکٹر سید عالم محسود نے ان کو دوئم احمد شاہ ابدالی کا خطاب دیا۔ سب نے منظور پشتین میں ایک ایسا غبار بھروا دیا جس سے منظور پشتین کو یہ احساس دلایا گیا کہ پانچ مطالبات کو چھوڑو، تم اتنے بڑے لیڈر ہو کہ جس لوئی افغانستان کو احمد شاہ ابدالی نے بنایا اور جس کو حاصل کرنے میں باچاخان اور صمد خان جیسے پشتون رہنماوں نے زندگیاں برباد کیں لیکن حاصل نہ کر سکے۔ تم اس لوئی افغانستان کو بنانے میں کامیاب ہو جاو گے…….
جولائی2018 کے الیکشن کے بعد منظور پشتین، علی وزیر اور محسن داوڑ پانچ مطالبات کو بھول گئے ۔پاکستان میں بیٹھ کر موجودہ امریکہ نواز قوم پرست افغانستان اور افغان رہنماوں اشرف غنی، کمیونسٹ رہنما جبار قہرمان، قندہار کے را انوار اچکزئی کے ترجمان بنے۔منظور محسن امریکہ نواز افغانستان اور افغان رہنماوں کے حق میں ٹویٹس اور پوسٹ کرنے لگے۔پی ٹی ایم کے جلسوں میں افغانستان کے جھنڈے لہرائے گئے۔ ڈاکٹر نجیب کے پوسٹر آویزاں کئے گئے۔ یورپ اور امریکہ میں پناہ گزین افغانوں کو پی ٹی ایم کے حق میں ریلیاں اور جلوس نکالنے پر لگایااوروہاں ریلیوں میں افغانستان کے جھنڈے لہرائے گئے۔ افغانستان کے باشندے ریلیوں سے خطاب کرنے لگے۔پاکستان کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔یورپ اور امریکہ سے لاکھوں کروڑوں روپے چندے کی مد میں وصول کیے گئے لیکن اسکا کوئی شفاف طریقہ کار نہ تھا اور نہ اب ہے۔پی ٹی ایم کے اندر جو جتنا طاقتور ہے اس نے اس میں اپنی نظریات والی دوکان کھول لی،پی ٹی ایم کے اسٹیج سے ایسا بیانیہ جاری ہوا جہاں پشتون قوم کے اندر جمعیت علما اسلام، تحریک انصاف اور مسلم لیگی ذہنیت والے پشتونوں کی تضحیک کی گئی۔
خلاصہ یہ ہے کہ پی ٹی ایم کے مرکزی کرداروں منظور پشتین، علی وزیر اور محسن داوڑ نے حالات کی غلط تشخیص کی اور غلط راہ پر چلنے لگے۔
تینوں کو چاہیے تھا کہ وہ پہلے قبائلی علاقوں کے عوام کو تحریک کے مطالبات کے اردگرد منظم کرتے، پشتون قوم پرست جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لاتے، پھر تحریک انصافی اور مسلم لیگی اور جمیعتی پشتونوں کو قائل کرتے اور پاکستان کی باقی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے فعال اراکین سے رابطے بناتے اور اپنی آواز مستحکم کرتے اور پشتونوں کیساتھ ساتھ ملک کے باقی عوام کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کا سبب بنتے لیکن منظور علی اور محسن اپنے پشتون قوم پرستانہ تعصبات، کم علمی اور کم عمری کے باعث ایک ایسے راستے پر چل نکلے جہاں وہ نہ صرف آپس میں تینوں گتھم گتھاہیں بلکہ انہوں نے جمعیت علما اسلام، تحریک انصاف اور مسلم لیگی ذہنیت والے پشتونوں کو تو چھوڑیں، پی میپ اور عوامی نیشنل پارٹی سے جڑے پشتونوں کو بھی متنفر کرنا شروع کر دیا۔ایسے میں پنجاب یا سندھ کا کوئی بندہ منظور علی محسن یا پی ٹی ایم کے ساتھ کیوں ہمدردی رکھے۔

If he had taken advantage of Dr. Abdul Razzaq Sikandar, he would have changed his Arabic. When Maulana Yusuf Banuri was alive, the pots for drinking the water of the Shia procession were cleaned and filled.

ڈاکٹر عبد الرزاق سکندر سے فائدہ اٹھایا جاتا تو اپنی عربی بدل جاتی!
جب مولانا یوسف بنوری حیات تھے تو اہل تشیع کے ماتمی جلوس کے پانی پینے کیلئے مٹکے صاف کرکے بھر دئیے جاتے تھے۔

سوادِ اعظم اہلسنت کے مولانا سلیم اللہ خان، مولانا مفتی احمد الرحمن پرنسپل جامعہ بنوری ٹان،شیخ الحدیث مولانا اسفند یار خان، ایڈوکیٹ عبدالعزیز خلجی اور کئی مدارس سے آئے ہوئے علما و طلبہ اہل تشیع کا جلوس روکنے کیلئے جمع تھے۔ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر ناظم تعلیمات نے جامعہ بنوری ٹان میں تدریس کا سلسلہ جاری رکھاتھا ۔استاذ محترم نے فرمایا کہ ” مفسدین کی باتوں میں مت آ، جب مولانا بنوری حیات تھے تو ماتمی جلوس سے پہلے پانی کے مٹکے صاف کرکے بھر دئیے جاتے تھے۔ ان کے علما اور ذاکرین مدرسہ میں آتے تھے”۔ ختم نبوت کی تحریک بھی شیعہ سنی علما نے مولانا بنوری کی قیادت میں کامیاب بنائی تھی۔
ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کے قدموں میں سارے عہدے آئے مگر پیرانہ سالی میں بہت دیر ہوچکی تھی۔ اگر آپ کو بروقت ختم نبوت کا امیر بنایا جاتا تو مسلمانوں کے اتحاد میں رخنہ نہیں پڑسکتا تھا۔ اگر آپ بروقت جامعہ کے مفتی اور شیخ الحدیث ہوتے تو مفسدین جامعہ بنوری ٹان کی دارلافتا کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے کبھی استعمال نہیں کرسکتے تھے۔ اگر آپ بروقت وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر بنائے جاتے تو پاکستان کے مدارس میں جامعہ ازہر مصر اور مدینہ یونیورسٹی کے ہم پلہ نصاب سے بھی زیادہ اچھی عربی کتابیں پڑھائی جاتیں۔ اگر آپ صحیح وقت پر اقرا روض الاطفال کے سرپرست وصدر بنائے جاتے تو سکولوں کے نصاب پر عربی مدارس بھی رشک کرتے۔ ہمارے ہاں لالچی، مفسدین، فتنہ پرور اور بہت ہی غلیظ قسم کے شیاطین الانس اہم عہدوں پر ڈمی لوگوں کو فائز کرکے اپنا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اسلئے ہم نے استاذ محترم کی حیات میں تجویز پیش کی تھی کہ مولانا امداد اللہ یوسفزئی جیسے لوگوں کو وفاق المدارس پاکستان کا صدر بنانا چاہیے تاکہ مدارس کی تعلیم وتربیت میں ایک فعال کردار بھی ادا کرسکیں۔
ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے ہمیں صرف عربی کی خوشبو ہی سونگھائی تھی مگر پھر بھی جب اپنے سکول کبیر پبلک اکیڈمی میں تھوڑی بہت عربی بچوں کو پڑھائی تو جمعیت علما اسلام ف کے ضلعی امیر مولانا عبدالرف اور جمعیت علما اسلام کے ضلعی امیر مولاناشیخ محمد شفیع شہید نے جلسہ تقسیم انعامات میں اپنی طرف سے بھی طلبہ کو نقدی انعامات دئیے اور اپنی تقریروں میں کہا کہ” اتنی اچھی عربی ہمارے مدارس میں بھی نہیں ہے اور ایسی انگریزی سکول والوں میں بھی نہیں ہے”۔
ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کی جمعیت علما اسلام کے اجتماع میں عربی سن لیں اور شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کی بھی سن لیں۔ ڈاکٹر صاحب کی عربی ایسی تھی جیسے رائے بریلی یا لکھنو کا کوئی ادیب شائستہ اردو زبان میں گفتگو کررہا ہو۔ اور شیخ الاسلام کی عربی ایسی لگتی ہے جیسے کوئی ان پڑھ بنگالی ارود کی ریڑھ لگارہا ہو۔ جب ضرورت پڑی ہے تو ڈاکٹر صاحب نے ہر منصب کو شرف بخشا۔ایسا نہیں کہ خود ساختہ شیخ الاسلام یامفتی اعظم بن گئے۔ ایسا بھی نہیں کہ ناراض ہوکر عہدہ قبول کرنے سے انکار کیا ہو ؟۔ جامعہ بنوری ٹان کراچی کے پرنسپل کا منصب تو اپنی جان کو ہی ہتھیلی پر رکھنے والی بات تھی۔ ظالموں نے شیخ بنوری کے بیٹے مولانا سید محمد بنوری کا خون کردیااور پھر خود کشی کا بہتان لگایا۔ جامعہ کا دارالافتا اور مفتی اعظم پاکستان کا نام نہادعہدہ بھی غلط استعمال کیا گیا تھا اور روزنامہ جنگ ”آپ کے مسائل اور ان کا حل ” میں مولانا محمدیوسف لدھیانوی شہید کی طرف یہ منسوب کیا گیا کہ ” حضرت عیسی علیہ السلام کے چچا نہ تھے، البتہ دوپھوپھیاں تھیں”۔ اور کیا کچھ نہ ہوتا ہوگا؟ ۔ ڈاکٹر صاحب بہت بڑی شخصیت تھی اگر آپ سے بروقت عربی کی تجدید کا کام لیا جاتاتو قرآن اور صحیح بخاری کے ترجمہ میں بھی ایک انقلاب آجاتا۔ محدث العصر مولانا سلیم اللہ خان نے بخاری کی اپنی شرح ”کشف الباری” میں دنیابھر کی تشریحات کا خلاصہ لکھ کر کمال کردیا ہے لیکن یہ نہیں دیکھا ہے کہ ان تشریحات کے نتائج کتنے خراب نکلیں گے؟۔
احناف نے حرمت مصاہرت کے مسائل میں جس غلو سے کام لیا ہے وہ بھی قابل اصلاح ہے لیکن خود بخاری کی احادیث کی بھی درست وضاحتیں نہیں کی گئیں تو معاملات بہت گھمبیر ہیں۔ پھر فقہ ، اصولِ فقہ ، احادیث اور قرآن کے احکام میں بالکل بھی کوئی جوڑ اور ربط نہیں ہے۔ مولانا سلیم اللہ خان نے” کشف الباری
ایسی روایات بھی نقل کی ہیں کہ حضرت علی نے ایک شخص کی بیوی کے فوت ہونے کے بعد کہا کہ اگر اس کی کوئی ایسی لڑکی ہے جس نے اس کے گھر میں پرورش نہ پائی ہو تو اس سے نکاح کیا جائے۔ اور یہ بھی لکھا ہے کہ احناف وغیرہ کے نزدیک اگر بیوی کے سابقہ شوہر کے بیٹے سے لواطت کا عمل کیا جائے تو حرمت مصاہرت پیدا نہیں ہوگی۔ ڈاکٹر صاحب بہت خرافات نکال دیتے۔
عام عربی میں ”فرج” خوشحالی کو کہتے ہیں مگر علما کے ہاں صرف عضو مخصوصہ کاتصور بیٹھ گیا ۔اگرعلما نے عربی ادب کیساتھ اپنا شوق و ذوق وابستہ نہ کیا تو قرآن وسنت کی کئی لغات میں غلطیوں کا تصور نہیں ٹوٹے گا۔
ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے مولانا بنوری سے مناسک حج سیکھے۔ مفتی محمد تقی عثمانی کوئے کی طرح لنگڑا کر چلنے سے کسی کو ”رمل” سکھارہا تھا ۔ اللہ نے ممنوں کیساتھ ایسی جنت کا وعدہ کیا ہے کہ جسکا عرض زمین وآسمان کے برابر ہے لیکن مفتی تقی عثمانی نے قرآن کی غلط تفسیر کی کہ ” قریب ہے کہ آسمان ملائکہ کی عبادت میں زیادہ تعداد کے وزن کی وجہ سے پھٹ جائے”۔ ( آسان ترجمہ قرآن)
ڈاکٹر صاحب نے مفتی محمد تقی عثمانی کیخلاف سودی بینکاری پر مقف پیش کیا جو تحریری طور پر نیٹ پر موجود ہے۔ مشکل یہ ہے کہ مولانا محمد یوسف لدھیانوی کی کتاب ”عصر حاضر حدیث نبویۖ کے آئینہ میں” اور ڈاکٹر حبیب اللہ مختار کی کتاب” مسلمان نوجوان ” دستیاب نہیں۔ دونوں کو شہید اوریہ کتابیں غائب کردی گئیں۔ ہماری لڑائی ذاتیات کیلئے نہیں ۔تفصیل لکھ دی تو پتہ چلے کہ بڑے علما ومفتیان ہیںیا لنڈا بازار میں بکنے والے گھسے پھٹے جوتے ہیں؟۔
میں نے دارالعلوم کراچی میں نماز کے بعد چیلنج کیا تھااور وہ بھاگ کرگھروں میں گھس گئے۔ پھر جامعہ بنوری ٹان کراچی کی جامع مسجد میں اعلان کیا تو استاذ محترم ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ جنہوں نے فتوی لگایا ہے ، ان کو جاکر پکڑو؟ ۔ میں نے عرض کیا کہ ”فتوے پر یہاں کی مہریں لگی ہیں”۔ استاذ مفتی محمد ولی کو مولانا نجم الدین مردانی نے شلوار اتارنے کی دھمکی دی تھی اسلئے میرے اشعار گنگنا کر پڑھتااور کہتا تھا کہ اشعار سے امرا القیس کو بھی شرمندہ کردیا۔ مفتی محمد ولی نے کہا کہ یہ جرات تو شیعوں میں بھی نہیں کہ ہمیں یہاں چیلنج کریں، ہم ننگا کردیںگے تو میں نے کہا کہ” کسی کھدڑے میں جرات ہے تو سامنے آئے”۔ یہ وزیرستان کی مٹی کا کمال تھا۔ مولاناسیدمحمد بنوری شہید نے مولانا فضل الرحمن سے زندگی کی بھیک مانگی تھی مگرمولانا خود کشی کا جھوٹا الزام لگانے والوں کیساتھ کھڑے تھے۔ اگرڈاکٹر صاحب اپنے ذوق سے نصاب بناتے تو مدارس کی تقدیر بدل جاتی۔پھر مدینہ یونیورسٹی اور جامعہ ازہر مصر بھی نہ جانا پڑتا۔ دیسی علما کی عربی جدا ہے ۔مولانا ابولحسن علی ندویہندی مگر عربوں کے بھی استاذ تھے۔
ایا ایھاالجیش من النسا اہل المردان
ان کنتم رجالا فتعالوا الی المیدان
قد ماالتقیتم قط بااہل وزیرستان
کفی لکم واحد منہم موجود عتیق الرحمن

Drum of Mehsud nation of Waziristan and pool of Maulana Fazlur Rehman in Saleem Safi’s program, Maulana Fazlur Rehman admitted that Maulana had signed permission for drone strikes on tribes under Pervez Musharraf.

وزیرستان کی محسود قوم کا ڈھول اور مولانا فضل الرحمن کا پول

سلیم صافی کے پروگرام میں مولانا فضل الرحمن نے اعتراف کیا کہ پرویزمشرف دور میں قبائل پر ڈرون حملوں کی اجازت پر مولانا نے دستخط کئے ۔

دی پٹھان (The Pathan Book)نامی انگریزی کتاب میں ہے کہ” وزیرستان ایسا علاقہ ہے جہاں کسی نے بھی صحیح معنوں میں حکومت نہیں کی ”۔ اقتدار میں لوگ محکوم بنتے ہیں، حکمران ٹیکس وصول کرتے ہیں ، نمائندوں کے ذریعے حکمرانی کرتے ہیں اور لوگوں کو اپنی مرضی کا پابند بنایا جاتا ہے لیکن تاریخ میں ایسا کوئی حکمران نہیں آیا جس نے وزیرستان میں ایسے احکام نافذ کئے ہوں جو حاکم اور محکوم کے لوازمات ہیں۔ بیش بہا مراعات کے بدلے آزاد منش کسی علاقہ کی عوام کو کچھ معاہدوں کا پابند بنانا حکومت قائم کرنے کا تصور نہیں ہوتا ہے۔ وزیرستان کے سرکاری ملکان کو عوام جاسوس کہتے تھے۔ سرکار ی نمائندوں کی کوئی عوامی اوقات نہیں تھی۔
جب میں نے کانیگرم وزیرستان سے خلافت کے آغاز کیلئے ڈیرہ ڈال دیا تو ماموں چیف آف کانیگرم نے میرے بھائی سے کہا کہ (40FCR)کے تحت جیل بھیجتے ہیںتاکہ عوام ڈھول کی تھاپ پر چڑھائی نہ کردیں۔ محسود قوم ڈھول اٹھالے توبڑے بڑوں کی ہمت ختم ہوجاتی ہے ۔ رسول اللہۖ کی بعثت سے قبل اہل مکہ نے ”حلف الفضول” کا معاہدہ کیا ۔اس میں ظالم کیخلاف مظلوم کی مدد اہم بات تھی۔ نبیۖ نے آخری خطبہ میں بھی فرمایا کہ ”مجھے سرخ اونٹوں سے عزیز حلف الفضول ہے”۔ اگرچہ معاہدے پر عمل نہ ہوسکا۔ورنہ تو نبیۖ کے حامی خاندان کو شعب ابی طالب کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور نہ نبیۖ اور مسلمانوں کو مکہ چھوڑ کر ہجرت کرنی پڑتی۔ عرب اسلام سے پہلے کسی کے محکوم تھے نہ وہاں کوئی باقاعدہ آئین تھا۔ وزیرستان کی محسود قوم کا یہ بڑا کمال تھا کہ حکمران کا تصور نہیں تھا لیکن ایک دستور کے وہ بالکل پابند تھے اور وہ دستور حلف الفضول کے عہدنامہ کی طرح عظیم الشان روایات واقدار کی شکل میں تھا۔باہمی مشورہ کے بعد فیصلہ ہوتاتھا تو اس پر عمل درآمد ڈھول کی تھاپ پر کرایا جاتا تھا۔
محسود قوم کا دنیا میں ایک بالکل منفرد کردار تھا۔ سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ آزادانہ مشاورت کے بعد فیصلہ ہوتا تھا اور ظالم کے خلاف مظلوم کی مدد ہوتی تھی اور یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی خلفا راشیدین تھے لیکن مشاورت کی وہ روح وہاں بھی ناپید تھی جو وزیرستان کی مقدس سرزمین پر وحی کی رہنمائی نہ ہونے کے باوجود موجود تھی۔اسی لئے خلفاء راشدین کے ادوار میں فسادات ہوئے لیکن محسود اجتماعی فتنوں سے محفوظ تھے۔
پاکستان (1947) میں بن گیا لیکن اب تک( 1973) کے آئین پر عمل در آمد نہ کرنے کا رونا رویا جاتا ہے۔ محکمہ تعلیم پنجاب کے افسر ڈاکٹر نعیم باجوہ نے غلطی سے ن لیگ کے (MNA)پرویز خان کوبورڈ کے امتحان میں اپنی جگہ دوسرے بندے کو بٹھانے پر پکڑلیا تو نوازشریف کے بدمعاش بھانجے عابد شیر علی نے میڈیا کی اسکرین پر اس بیچارے کو ایسا ذلیل کیا تھا کہ الحفیظ الامان ۔
اگر مولانا فضل الرحمن اور ن لیگ سمیت (PDM)کا اتفاق ہے کہ آئندہ فوج کو سرحداور بیرکوں میں بھیجنا ہے تو خوش آئند ہے لیکن عوام پر واضح کیا جائے کہ پارلیمنٹ میں نوازشریف کے لندن فلیٹ کاتحریری بیان اور قطری خط کیا تھا؟ اگر نوازشریف نے اپنا درست بیانیہ ثابت کیا تو محسود قوم ڈھول کی تھاپ پرمخالف کے خلاف راست قدم اٹھائے ۔یہ وہی قوم ہے جس نے آزادکشمیر فتح کیاتھا۔ اگر نوازشریف درست وضاحت نہ کرسکے تو محسود قوم ڈھول کی تھاپ پر رائیونڈ کے محل کو مسمار کرنے پہنچے۔ یہاںزیادتیاں کرنے والوں نے تماشہ لگا رکھا ہے۔
مولانا فضل الرحمن کرائے کے مکان میں تھا اوراب لائن سے بنگلے اور بڑی جائیدادیں ہیں۔اللہ تعالی موصوف کے اقبال میں مزید اضافہ کرے۔ مفتی محمود کے چھپر اور ٹین کے دروازے پر دھوکہ کھانے کی طرح معاملہ ٹھیک نہ تھا۔جب حرام خوری کا معاملہ آتا ہے تو اس بھیڑ میں بہت ہیں،اگر مولانا شامل ہوجائے تو مضائقہ نہیں لیکن عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا بہت بری بات ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو اصولی سیاست اور جمہوریت کیلئے فوج کی مخالفت کا بڑا کریڈٹ جاتا ہے۔ کچھ معاملات کی نشاندی اور وضاحت کرنا انتہائی ضروری ہے۔
حامد میر نے پوچھا کہ مولانافضل الرحمن نے جنرل مشرف سے مراعات لی ہیں؟۔ مولانا راشد سومرو نے مولانا کیلئے ایمان کی قسم کھائی ۔ انصار عباسی نے کہا کہ جنرل مشرف نے (GHQ)سے مولانا فضل الرحمن کو ساتھیوں کے نام پر اتنی اتنی زمینیں الاٹ کی ہیں۔ جسکے دستاویزی ثبوت ہیں۔ اگرانصار عباسی نے غلط بیانی کی ہو تو وزیرستان کے محسود جمعیت علما اسلام کے( MNA)مولانا جمال الدین محسود اور (MPA )مولانا عصام الدین قریشی کی قیادت میں ڈھول کی تھاپ پر انصار عباسی کا گھر گرانے کیلئے پہنچ جائیں اوراگر انصار عباسی کی بات درست ہو تو پھر مولانا فضل الرحمن سے پوچھ لیں کہ کونسی خدمات کے عوض یہ زمین (GHQ )نے دی ؟۔ یہ کونسی ڈرامہ بازی ہے کہ ایک طرف قوم کو جمہوریت کی بالادستی اور فوج کے خلاف بھڑکایا جاتا ہے اور دوسری طرف ناجائز مراعات بھی لی جائیں؟۔ سلیم صافی کے پروگرام میں مولانا فضل الرحمن نے اعتراف کیا کہ پرویزمشرف دور میں قبائل پر ڈرون حملوں کی اجازت پر مولانا نے دستخط کئے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلئے (GHQ)نے زمین الاٹ کی تھی؟۔
وزیرستان کے سینٹر دوست محمد محسودکا رونا کسی کام کا نہیں کہ” کاش میں فلسطینی یا کشمیری ہوتا تو میرے لئے کوئی دو آنسو بہاتا۔ پنجاب میں آئل چوری کرنے پر ڈھائی سو افراد مرتے ہیں تو ان کو چالیس چالیس لاکھ معاوضہ مل جاتا ہے جبکہ ہم تباہ وبرباد ہوگئے اور ہمارا کوئی پرسان حال نہیں ”۔ (PTM)کے نعروںمیں گلہ تھا کہ ”یہ کیسی آزادی ہے کہ ہمارے گھراجڑ رہے ہیں، ہمارے جوان قتل ہورہے ہیں”۔یہ محسود قوم کی خلعتِ افغانیت کے اعلی اقدار کے منافی ہے۔
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی یابندہ صحرائی یا مردِ کوہستانی
جو فقر ہوا تلخی دوران کا گلہ مند اس فقر میں باقی ہے ابھی بوئے گدائی
نام رہ گیا ہے ابھی وزیری ومحسود یہ خلعتِ افغانیت سے ہیں عاری
احادیث صحیحہ اور امام بوحنیفہ کے نزدیک زمین کو مزارعت ، ٹھیکہ اور کرائے پر دینا سود اور حرام ہے ۔ مولانا فضل الرحمن الاٹ کی گئی زمین وزیرستان کے غریب متاثرین کو دیں تاکہ اسلام کی نشا ثانیہ کا آغاز ہو۔ اگر محسود قوم مولانا فضل الرحمن سے پوچھ لے کہ پارلیمنٹ میں تمہارے نمائندوںکو اسلئے بھیجاہے کہ ہماری تباہی وبربادی پر تم مراعات لو، زمینیں نام کرا، صوبائی حکومت لو؟۔ احتجاج سے حکومتیں ہل جاتی ہیں لیکن احتجاج کرنا محکوم قوم کا کام ہے۔جب دنیا میں طالبان مظلوم تھے تو محسود قوم نے امریکہ کو شکست یا فتح کرنے کے چکر میں ساتھ دیا لیکن اب تو طالبان امریکہ سے صلح کرچکے ہیں۔ محسود قوم آخری حد تک تذلیل کی پاتال میں پہنچادی گئی اور یہ اپنے اعمالنامے کا نتیجہ تھا۔ چھڑی بڑی طالبان اور انتہائی سخت گیر جاہل و مفاد پرست فوج نے انکا کباڑہ کرکے رکھ دیا۔ محسود قوم پر طالبان نے حکومت کی اوراب آدابِ محکومی سکھائے جارہے ہیں۔ ڈھول کی تھاپ پرمولانا فضل الرحمن سے GHQکی زمین چھین لیں تو بیت المقدس کی فتح بھی یقینی بن سکتی ہے۔ پرامن انقلاب کیلئے محسود قوم کو اپنے اندراور باہر سے فساد کا خاتمہ کرنا ہوگا۔قومی مشاورت سے مجھے بھی طلب کریں تو میں خیرمقدم کروں گا۔ محسود قوم کی یہ سب سے بڑی خوبی تھی کہ آپس کی دشمنیوں کا بھی تیسرے فریق کے دائرے کار میں بدلہ نہیں اتار تے تھے بقیہ صفحہ2نمبر2 بقیہ ………محسود قوم کا ڈھول اور مولانا فضل الرحمن کا پول
مجھ سے یہ غلطی ہوگئی تھی کہ حاجی قریب خان کی پیشکش کو نہیں مانا کہ یہ علما کا کام ہے۔ علما نے بندکمرے کا حال نہیں بتایا۔ریکارڈنگ بھی نہیںکرنے دی تھی۔ اختلافات بڑا مسئلہ نہیں۔ شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے اپنی کتاب ”منصبِ امامت ” میں لکھ دیا ہے کہ قرآن میں اللہ تعالی نے ملا اعلی کے فرشتوں کا ذکر کیا ہے کہ ایک گروہ ایک طرف کی حمایت کرتا ہے اور دوسرا گروہ دوسری طرف کی حمایت کرتا ہے۔ پاکستان بن رہاتھا تو جمعیت علما ہند اور جمعیت علما اسلام کے علما آپس میں ایک دوسرے کے خلاف کھڑے تھے اور دونوں طرف کے شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی اور شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی متحدہ ہندوستان اور پاکستان کے مقف پر اپنے اپنے دلائل دے رہے تھے اور ایکدوسرے کو ہندں اور انگریزوں کا ایجنٹ قرار دے رہے تھے۔
جب مولانا فضل الرحمن پہلی مرتبہ ہمارے گھر تشریف لائے توجٹہ قلعہ علاقہ گومل کی تاریخ کا یہ پہلا سیاسی جلسہ تھا۔ مولانا قاضی فضل اللہ ایڈوکیٹ بھی اس میں شریک تھے۔ اس وقت افغانستان میں طالبان کی حکومت نہیں آئی تھی لیکن کلاچی کے قاضیوں نے پروپیگنڈہ کیا کہ مولانا فضل الرحمن نے نبوت کا دعوی اور مہدی کا دعوی کرنے والے کی صدارت میں جلسہ کیا ۔ عثمان دوتانی کا تعلق جمعیت س سے تھا ، اس نے بتایا کہ قاضی عبدالکریم اور قاضی عبد اللطیف سے میں نے کہا کہ جیل میں اس شخص کو میں جانتا ہوں، یہ سیاسی جماعتوں سے بالاتر ذہن رکھتا ہے۔ قاضی فضل اللہ سینٹر مولانا صالح شاہ قریشی ، مولانا نیاز محمد قریشی وغیرہ سے کہا تھا کہ اگر سید عتیق الرحمن گیلانی ہماری پارٹی میں شامل ہوجائے تو جمعیت میں بھی انقلاب آجائیگا۔ قاضی فضل اللہ کے کان میں ہمارے رشتہ دار مولانا سید آصف گیلانی نے کچھ کہا تھا تو مولانا فضل الرحمن سے قاضی فضل اللہ نے میرا تعارف پوچھا۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ”یہ ہم سے بڑا انقلابی ہے مگر تھوڑا جذباتی ہے”۔ ٹانک کے سب اکابر علما کرام ہماری تائید کرتے تھے اور پاکستان کی سطح پر بھی تمام مکاتبِ فکر کے علما کرام نے ہماری زبردست تائیدکی تھی۔
طالبا ن کی حکومت سے پہلے افغاستان میں قندھار کے لوگ قوم لوط کے عمل سے مشہور تھے۔ ہمارے ہاں بنوں، لکی مروت، گومل اور دوسرے پختونوں میں قوم لوط کا عمل مشہور تھا لیکن محسود اور وزیر میں یہ خطرناک بیماری نہیں تھی لیکن جب کنڈیکٹری اور طالب گردی کی زد میں یہ قومیں آگئیں تو اس بیماری نے بھی وزیرستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مولانا گل نواز محسود نے کہا تھا کہ طالبان کے بہت گروپ ہیں لیکن دو زیادہ مشہور ہیں ۔ایک اپنے لبوں کو لال کرتے ہیںاور دوسرے اپنے ہاتھوں کو مہندی لگاتے ہیں۔ آئی ایس آئی تو بہت اچھی ہے لیکن یہ دونوں گروپ قوم لوط کی بیماری میں بھی مفعولیت کا کردار ادا کررہے ہیں۔
جب انسان کی غیرت مرجاتی ہے تو اس سے کوئی بھی توقع رکھی جاسکتی ہے اور اس بات پر بہت خوشی ہے کہ گودام مسجد ٹانک کے امام مولانا قاری حسن شکوی شہید مجھ سے صرف محبت نہیں بلکہ عقیدت بھی رکھتے تھے۔ پہلے انہوں نے جب القاعدہ والوں کو اپنے پاس رکھا تو مجھ سے کہا کہ وہ فرشتے اور صحابہ کرام کی طرح لگتے ہیں لیکن جب میں نے عرض کیا کہ ازبکستان سے جہاد کی غرض سے آنے والے یہاں کیوں آگئے ہیں؟۔ مجھے لگتا ہے کہ امریکہ کی گہری سازش ہے اور یہ ان لوگوں کو بھی پتہ نہیں ہوگا۔ پھر انہوں نے تحفظات رکھنا شروع کردئیے تو ان کو شہید کردیا گیا۔ پھر ان کی شہادت کے بعد تعزیت پر گیا تو ایک وزیرصحافی کے چچا کہہ رہے تھے کہ ”وزیر تو پہلے سے بے غیرت ہیں لیکن مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ غیرتمندمحسود قوم کو کیا ہوا ہے ؟۔ پہلے تو یہ ماں اور بیوی کی گالی پر قتل کردیتے تھے اور اب کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ فلاں طالب نے یہ کیا مگر کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ پتہ نہیں ہے”۔ جن بے غیرت بدکرداروں نے محسود اور وزیرقوم کے اچھے لوگوں کو قتل کرنے میں دیر نہیں لگائی تھی وہ علتی ہیں۔ جب تک ماحول نہیں بدلے گا تو یہ بھی نہیں بدلیں گے لیکن محسود قوم کو اپنی پرانی یادیں تازہ کرکے بڑا زبردست کردار ادا کرنا ہوگا۔ مجھے اچھے کی توقع ہے باقی اللہ جانے کہ کیا ہوگا؟۔

Chozo (Maulana Fazlur Rehman, Maulana Owais Noorani, Shahbaz Sharif, Mahmood Khan Achakzai put your hands on your chest and tell (Maryam Nawaz did not teach politics by holding a finger

چوزو(مولانا فضل الرحمن، مولانا اویس نورانی، شہباز شریف، محمود خان اچکزئی)! اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر بتاؤ ،مریم نواز نے انگلی پکڑکر سیاست نہیںسکھائی!۔

نازک پری کو بھوتوںسے بچاؤ چاچوشعبدہ باز، جلدی قابو پاؤ!
چوزو! کان کھول کر سن لو اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر بتاؤ ،مریم نواز نے انگلی پکڑکر سیاست نہیںسکھائی!۔ میں فوج نال نئیں لڑسگدی! وڈے وڈے بال نئیں پھڑ سگدی!۔مریم اک گل دَس گئی، شوباز’باپو’بنڑا چس گئی!۔ راجکماری فھر برس گئی ،پڈم دیدار نو ترس گئی۔کھتے ہونڑ پھنس گئی؟ ساڈی بھونڈگھس گئی !۔ کشمیرچھڈ کے سانو ٹھگ بنارس گئی، کتیا ریلا چھڈ کے نس گئی ۔ رسی نالے کس گئی،چھلکے رہ گئے رس گئی۔پڈم شرم میں دھنس گئی، قیادت پردنیا ساری ہنس گئی۔ مفتی عزیزکی لیلائے سرکس گئی، جمعیت کی نکل اب بھرکس گئی۔ انقلاب کی ہوس گئی۔ تمنا تک جھلس گئی۔
منفی شخصیات رہ گئیں کہ پلس گئی
تیلیاں جلتی نہیں کہ ماچس گئی
PDM اپ ڈیٹ

Comparison of Maulana Rashid Mahmood Soomro and his ancestors with Dr. Farooq Sattar

مولانا راشد محمود سومرو اور اسکے باپ اور دادا کے ساتھ ڈاکٹر فاروق ستار کا تقابلی جائزہ۔

جب کراچی میں لسانی فسادات شروع ہوئے تو میں مہاجروں کے اکثر علاقوں میں گھومتا پھرتا تھا لیکن کبھی کسی نے تعصبات کی نگاہ سے نہیں دیکھا کہ مخصوص شرپسندہرجگہ ہوتے ہیں۔ جب ایم کیوایم کیخلاف جناح پور اور غداری کے مقدمات چل رہے تھے،الطاف بھائی (MQM)سے دستبردار ہواتھا لیکن ڈاکٹر فاروق ستار(doctor farooq sattar) نے بڑی قربانیاں دیں۔ امت اخبار و ہفت روز ہ تکبیر کراچی میں ڈاکٹر فاروق ستار کی تعریف ہوتی تھی کہ والدین بھی بہت نیک اور اچھے ہیں۔ ایم کیوایم کے اتارچڑھامیں ڈاکٹر صاحب نے بہترین اور اہم کردار ادا کیا۔ الطاف بھائی جو مشکلات کھڑی کرتا تھا تو ڈاکٹر فاروق ستار کو بھگتنا پڑتے تھے۔ الطاف بھائی کو چاہیے کہ ڈاکٹر صاحب اور ایم کیوایم کے دیگر رہنماں سے دل کی گہرائیوں کیساتھ معافی تلافی کریں اور پاکستانی ادارے بھی الطاف بھائی کو معاف کرکے پاکستان میں اہم کردار کا موقع دیں۔ ہم نے سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے پرمفتی تقی عثمانی(mufti taqqi usmani) کیخلاف آواز اٹھائی تو( MQM)نے ساتھ دیا۔
رینجرز اہل کار(rengers) نے اپنی ڈیوٹی انجام دیکر مولانا راشد سومرو(rashid soomro) کے کلاشکوف کا لائنسس چیک کیا اور ضابطے کی کاروائی کرکے گاڑی کے نمبر پلیٹ کی پیچھے سے تصویر اتاری، جس پر مولانا راشد سومرو نے روڈ بلاک کرکے بڑا شور مچایا۔ جب ڈاکٹر فاروق ستار کے عروج کا دور تھا تو ائیرپورٹ پر ٹکٹ ایشو کرنے والی لڑکی نے پوچھا کہ شناختی کارڈ ہے؟۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ میں دیکھتا ہوں ، کوئی کارڈ وغیرہ مل جائے تو؟، لڑکی نے کہا کہ صرف شناختی کارڈ ہی چلے گا۔ ڈاکٹر صاحب نے بیگ ٹٹولا اور پوچھا کہ پاسپورٹ چلے گا؟۔ اتنے میں ائیرپورٹ کابڑا افسر پہنچ گیا اور ڈاکٹر فاروق ستار سے معذرت کرلی۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ” کوئی بات نہیں، ضابطے کی کاروائی ضروری ہے”۔ اس سے شاہین ائیرلائن اور ائیرپورٹ کے عملے میں ڈاکٹر فاروق ستار کا قد بڑھ گیا۔بالکل غیرمعروف (MNAاورMPA )خواتین بھی چلاتی ہیں کہ ہمیں نہیں پہچانا۔
مولانا عبدالکریم بیرشریف مرکزی امیر(JUIF) نے ہماری حمایت کی تھی۔ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے اسلام کی نشا ثانیہ کیلئے تائید میں تحریرلکھی لیکن ڈاکٹر خالد سومرو کے باپ نے ہمارے ساتھیوں سے کہا کہ”( 40)سال سے چوتڑ ہم رگڑرہے ہیں اور امام تم بنوگے؟”۔ ہمارے ساتھی مختارسائیں نے کہا کہ ”آپ نے چوتڑ کیوں رگڑی؟، نہ رگڑتے!”۔ شکار پورمدرسہ جلسہ کے اشتہارمیں میرا نام تھا تو ڈاکٹر خالد محمود سومرو نے کہا کہ ہم ہونگے یا یہ ہوگا؟۔ وڈیرے نے کہا کہ معزز شاہ صاحب کو اس بھان فروش کے بیٹے کی وجہ سے ہم روکیں گے؟۔
(MRD)کی تحریک کی پارٹیوں نے فیصلہ کیا کہ قائدین کے مقابلے میںکوئی پارٹی کسی کو کھڑا نہیں کریگی تو ڈاکٹر خالد محمود سومرو نے جمعیت علما کی ناک کاٹ دی اور بینظیر بھٹو (benazir bhutto)کے مقابلے میں کھڑا ہوا۔مذہبی جذبات اور قومی تعصبات کے معاملے میں ڈاکٹر فاروق ستار جیسے عالی ظرف کے مقابلے میں ان لوگوں کا راج چل رہاہے جن کو حدیث میں ” روبیضہ” نکمے قسم کے لوگ قرار دیا گیا۔ ان کا کوئی ضمیر نہیں ورنہ راشد سو مرو مولانا سے( GHQ)کی زمین کی وضاحت مانگ لیتا۔
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv

Dr. Abdul Razzaq Sikandar and Mufti Mohammad Naeem were my teachers and sometimes they would call me and ask about the situation.Syed Atiqur Rehman Gilani

ڈاکٹر عبد الرزاق سکندر اور مفتی محمد نعیم میرے استاذ تھے اور کبھی مجھے خود فون کرکے حال احوال بھی پوچھ لیتے تھے۔ سید عتیق الرحمن گیلانی

ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر میرے استاذ تھے ۔ جامعہ بنوری ٹان میرا مادرعلمیہ ہے۔ مفتی محمد نعیم (mufti naeem)بھی میرے استاذ تھے اور مجھے کبھی خود فون کرکے حال احوال بھی پوچھ لیتے تھے مگرڈاکٹر صاحب واقعی ایک نابغہ تھے۔علم و تقوی،اخلاق وکردار، قابلیت وتحمل اورشرافت واعتدال میں بالکل ممتاز و یکتائے روز گارہستی تھے۔
جامعہ بنوری ٹان میں نماز ِ مغرب کے بعدپڑھائی شروع ہوتی ہے۔جمعہ کو چھٹی ہوتی ہے لیکن کبھی مغرب میں اچانک حاضری تک لگتی ہے۔ رات گئے تک جامع مسجد نیوٹان کے حال، برآمدے اور صحن میں طلبہ پڑھنے کے پابند ہیں۔ اساتذہ نگرانی کیلئے گھومتے ہیں تاکہ پڑھائی کی جگہ طلبہ گپ شپ نہ لگائیں۔ رات گئے رہائشی بلڈنگ کے تالے کھولے جاتے ہیں ۔ بعض طلبہ دیر تک پڑھائی میں مشغول رہتے ہیں۔ کچھ طلبہ تہجد کی پابندی کرتے ہیں۔فجر کی نماز باجماعت کیلئے زبردستی سے سب کو مسجدپہنچنا ہوتا ہے۔ دارالاقامہ کے ناظم صبح سے رات بلکہ (24) گھنٹے طلبہ کے شب وروز نگرانی میں رکھتے ہیں۔ نماز فجر کے بعدقرآن کی تلاوت ،پڑھائی، ناشتہ کرسکتے ہیں۔ صبح سے دوپہر تک چار گھنٹے درسگاہوں میں علوم و فنون کی مشکل ترین کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔ دوپہر کھانے اور آرام کرنے کا وقت ہوتا ہے اور پھر نماز ظہر باجماعت کیلئے مسجد میں پہنچنا ہوتا ہے۔
نماز ظہر اورنماز عصر کے درمیان پھر دو گھنٹے درسگاہوں میں پڑھائی ہے۔ عصر کی نماز کے بعد پھر مغرب تک کھانے اور کھیلنے کی چھٹی ہوتی ہے۔ مغرب کی نماز کے بعد پھر فورا اسباق کی تکرار اور یاد کرنے کا شغل ہوجاتا ہے۔ دن بھر میں جو اسباق پڑھے ہوتے ہیں ان کو دھرانے کیلئے طلبا کی مختلف ٹولیاں بنتی ہیں۔ ہر مشکل کتاب کی تکرار ہوتی ہے۔ کوئی قابل طالب علم درسگاہ میں پڑھے ہوئے سبق کو دھراتا ہے اور پھر باری باری سبھی ساتھیوں سے سبق سنتا ہے۔ کمزور طلبہ سبق سمجھنے نہیں تو رٹنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ مشکل پڑنے پر نگران اساتذہ سے پوچھ لیتے ہیں۔یہ بہترین تعلیمی نظام دنیا کی اچھی یونیورسٹی میں مشکل ہے۔ آئندہ آنے والے سبق کا مطالعہ ضروری ہے تاکہ پڑھنے کی صلاحیت پیدا ہو۔ میں نے جامعہ میںسالوں گزارے۔ مدارس کے خلاف پروپیگنڈہ افسوسناک ہے۔ عربی مقولہ ہے کہ المر یقیس علی نفسہ ” آدمی جیسا خود ہو، دوسرے پر بھی وہی گمان رکھتا ہے”۔مدارس کا پاکیزہ اور نورانی ماحول دنیا کے گھپ اندھیرے میں بجلی سے روشنی پھیلانے کا بہترین ذریعہ ہے اور دنیا میں قرآن وسنت ، اخلاقیات ،روحانیت اور انسانیت دینی مدارس کے ہی دم سے ہیں۔ جانوروں کے مقابلے میں انسانوں کے جنسی ملاپ میں اخلاقی قدریں بحال رکھنے کا سب سے اہم کردارمدارس ہیں ۔الحمدللہ علی ذلکجب دنیا میں مذہب کا کردار ختم کردیا گیا تو مغربی معاشرے اور جانوروں میں فرق نہیں رہا۔ مدارس نہ ہوتے تو مفتی عزیز اور صابرشاہ کے اسکینڈل کی اہمیت بھی نہ رہتی۔
امریکہ ، یورپ، افریقہ اور دنیا بھر کے (50)ممالک سے زیادہ طلبہ کا صرف جامعہ بنوری ٹان کراچی میں تعلیم کیلئے آمد کس قدر خوش آئند ہے؟۔ طلبہ جب بنوری ٹان کراچی کے باہر اپنی ضروریات کیلئے جائیں توان کی حسین چہروں والی خواتین اور لڑکیوں پر نظریں پڑتی ہیں لیکن اپنی نظریں جھکا کر چلتے ہیں۔ انواع واقسام کے کھانوں کا مرکز سمجھا جانیوالا علاقے میں کاروں، موٹر سائیکلوں اورپبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے فیملیاں بھی آتی ہیں۔ یہ رہائشی علاقہ بھی ہے۔
(60)سال سے زیادہ عرصہ ہوا کہ جامعہ بنوری ٹان کراچی میں مسافر طلبہ کی رونقیں لگتی ہیں لیکن کبھی کسی نے ایک مرتبہ بھی شرارت کی شکایت نہیں کی۔ کیا ان طلبہ اور علما میں نفسانی خواہشات نہیں ؟۔ لیکن ایک پاکیزہ نورانی ماحول میں رہنے کاتقاضہ مختلف ہوتا ہے۔ جب عورت اپنی عزت بچاتی ہے تو یہ فطرت کا حصہ ہے لیکن جب وہ گراوٹ پر اتر آتی ہے توپھر اپنا سب کچھ کھو دیتی ہے۔نبی کریم ۖ کی شرم وحیا کو کنواری لڑکی سے تشبیہ دی جاتی تھی اور نبیۖ کے جانشین بننے والے طلبہ نے بھی اپنے ماحول کی وجہ سے ایک باکردار کنواری لڑکی کی طرح اپنی حیا کو باقی ہی رکھنا ہوتا ہے۔ کسی سے بھی ہم
بقیہ…….. ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر اورجامعہ بنوری ٹان کراچی
اس معاملے میں انصاف کی بھیک نہیں مانگتے۔البتہ انسان کو احتیاط کی بہت سخت ضرورت ہے۔ نفس، شیطان اور ماحول حضرت آدم و حوا کو جنت سے نکلواسکتا ہے تو ہمیں بھی ننگا کرسکتا ہے۔مدرسہ کے ماحول میں استاذیا طالب پنچ وقتہ نماز باجماعت پڑھتا ہے۔ نماز کی ہر رکعت میں صراط مستقیم پر چلنے کی دعا مانگتا ہے۔ پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے بعد اللہ تعالی کی حمدو ثنا کے بعد سورہ فاتحہ پڑھتا ہے۔ حلف نامہ کی طرح عہد وپیمان کو دھراتا ہے۔ پھر سورہ فاتحہ کے بعد قرآن کی دوسری سورہ پڑھتا ہے، پھر رکوع میں اللہ کی تسبیح بیان کرتا ہے۔پھر قومہ میں کھڑے ہوکر اللہ کو یاد کرتا ہے۔ پھر دوسجدے کرنے کے بعد دوبارہ اس عمل کو دھراتا ہے۔ پھر قاعدہ میں بیٹھ کر تشہد پڑھتا ہے۔ دو، تین اور چار رکعت فرائض کے علاوہ پنج وقتہ نماز کی سنتوں اور نوافل کی بھی پابندی کرتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اس تسلسل سے انسان کتنے اعلی معیار کی بلندیوں پر پہنچتا ہوگا؟۔
مدارس میں علوم کی مشکل کتابیںدرسِ نظامی میں پڑھائی جاتی ہیں اور مقصد یہ نہیں کہ علم کی تکمیل ہوگئی بلکہ درسِ نظامی سے علم حاصل کرنے کی استعداد اور صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ طالب علم عالم اس وقت بننا شروع ہوتا ہے جب وہ پڑھانا شروع کردیتا ہے ۔تب اس کو وہ علم سمجھ میں آنا شروع ہوجاتا ہے۔
بعض اساتذہ مذاق اڑاتے کہ ”کہا جاتا ہے کہ میں فارغ التحصیل ہوں۔ حالانکہ اس کو بالکل کچھ نہیں آتا ”۔ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر جامع مسجد نیوٹان میں طلبہ کو عربی پڑھانے آتے اور پھر جامعہ کے استاذ بن گئے اور طالب علم بھی۔ فراغت کے بعد کتنا علم ہوگا؟۔ لیکن پھر مدینہ یونیورسٹی گئے۔ کتنے بڑے عالم بن گئے ؟۔ پھر جامعہ ازہر گئے اور آپ کتنے بڑے عالم بن گئے ہوںگے؟۔
مولانا فضل الرحمن کا بھائی مولانا عطا الرحمن (molana attaur rehman)چوتھے درجے میں فیل ہوا تو جامعہ بنوری ٹان چھوڑ کر گیا، تاکہ نالائق مدارس سے سند مل جائے؟۔ یہ بڑے بڑے شیخ الحدیث، مفتی اعظم، شیخ الاسلام ، فقیہ العصر اور محدث العصرکی ساکھ رکھنے والے خود بھی انتہائی نالائق ہوتے ہیں اور طلبہ کو بھی نالائق ہی بناتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب عربی کے واقعی عالم تھے ۔ مدینہ یونیورسٹی میں چھوٹی داڑھی والے اور جامعہ ازہر میں داڑھی منڈے اساتذہ تھے۔فرماتے تھے کہ ہم نے داڑھی پر مشکلات برداشت کیں۔ بازار میں سبزی فروش پوچھتے تھے کہ یہودی ہو؟۔ ہم جواب دیتے کہ مسلمان ہیں تو وہ کہتے تھے کہ ”پھر داڑھی کیوں رکھی ہے”۔ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر میں اعتدال و تحمل اسلئے تھا کہ ایک طرف جامعہ ازہر کے شیوخ اساتذہ تھے اور دوسری طرف شیخ بنوریجیسے سخت گیر شخصیت سے واسطہ پڑا تھا۔ اللہ نے فرمایا کہ الا تطغوا فی المیزان ”اعتدال سے تجاوز مت کرو”۔ اعتدال کا میزان و توازن چھوٹی چیز سے لیکر بڑی چیز تک کائنات میں پھیلا ہوا ہے۔ اللہ نے سورہ رحمن میں سورج وچاند، درخت و بیل کی مثال دیکر بتایا کہ درخت کی کٹائی سے فضائی حدود کی آلودگی تک انسانوں کو اعتدال کے میزان سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ جنگلات کٹیں گے تو پاکستان قدرت کی عظیم نعمت پانی کی دولت سے بالکل محروم ہوجائیگا۔ہمارے شفقت علی محسودکو وزیرستان کی فکر ہے لیکن بڑے بڑوں نے گدھوں کی طرح تعلیم کی کتابیں لاد رکھی ہیں۔
ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کی شخصیت کابڑا کمال عربی تعلیم اوراعتدال تھا۔ ہمیں اپنی لکھی ہوئی کتاب ”الطریق العصری” پڑھائی تھی۔ یہی وہ بنیاد ہے جس نے قدیم طریقہ تعلیم کے مقابلے میں زبردست جدت پیدا کرکے مجھے دینی احکام کی سمجھ کے قابل بنادیا ۔ شیخ بنوری اللہ والے تھے مگر عالم کیلئے عربی کی لغت کو عرب کی طرح سمجھنا بہت ضروری ہے۔علامہ انورشاہ کشمیری سے لیکر شیخ بنوری کے بعد ڈاکٹرعبدالرزاق سکندر سے پہلے جتنے شیخ الحدیث اور تحریک ختم نبوت کے امیر گزرے وہ عربی کماحقہ نہیں سمجھتے تھے ،عربی کارٹا لگایاتھا۔ ختم نبوت کے امیرمرکزی کو ”مرکزیہ” کہنا بھی جہالت ہے۔ امیر کیساتھ صفت مذکر آئیگی اور دارالعلوم کراچی کیساتھ جامعہ کا لفظ لگانا بھی جہالت ہے۔ دارالعلوم مذکر ، جامعہ منث ہے اور دونوں الفاظ کا ایک ہی معنی ہے۔ جامعہ دارالعلوم کراچی کا معنی یہ ہے کہ دارالعلوم کراچی کا جامعہ ۔ تف ہے علما ومفتیان کی ایسی جہالتوں پر۔
صحیح بخاری میں نبیۖ کی حدیث ہے کہ ” نبوت میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہ گیا مگر مبشرات”۔ عرض کیا گیا ”مبشرات ” کیا ہیں؟ فرمایا” صالح خواب ”۔
رسول اللہ ۖ کے بعد نبوت کوئی ایسی چیز نہیں کہ عوام کو اطلاع کی جائے کہ یہ بس سروس بند ہوگئی ۔ اللہ نے قرآن کی حفاظت کا وعدہ کیا اور نبوت کا دروازہ بند کردیا ۔نبوت اعلی مشن ہے ۔ہوائی جہاز کا سلسلہ چلے گا تو نظر بھی آتا رہے گا۔ رسول اللہۖ کے ذریعے اللہ تعالی نے نبوت کی ایسی تکمیل کردی کہ اس پر بحث فضول ہے۔ مزرا قادیانی(ghulam ahmed qadyani) جاہل مولوی نہ ہوتا تو نبوت کا دعوی نہیں کرتا لیکن اگر جاہل نہ تھا تو اس نے فرنگی سازش سے جہاد ختم کرنے کیلئے ہی نبوت کا دعوی کیا ہوگا۔ علامہ اقبال نے اس کو ”مجذوب فرنگی ” قرار دیا تھا۔ قرآن نے لوگوں کو چیلنج کیا ہے کہ کوئی دس یا ایک سور ایسی بناکر دکھا۔ نبیۖ نے ابن صائد کو نبوت کے دعوے پر کوئی گزند تک نہیں پہنچائی تھی۔ نبوت ایسی چیز نہیں کہ کوئی اچک لے اور نبوت کے دعویدار جھوٹے انجام کو خود پہنچ جائیںگے۔ مرزائیوں کو ساری قوت مخالفت سے ملتی ہے،اگر مخالفت نہ ہوتی توقادیانیت بالکل ختم ہوجاتی ۔
بخاری پڑھانے والے جاہل شیخ الحدیث کا جب یہ عقیدہ ہوگا کہ نبوت میں چالیسواں حصہ رہ گیا تو کیا ختم نبوت پر اسکا ایمان ہوگا؟۔ غلام احمد پرویز حدیث کا انکار کرتا۔ شیخ بنوری کے شاگرد مولانا طاہر مکی نے شیخ بنوریسے بخاری کی حدیث پر اشکال پوچھا تو اس کی تھپڑوں سے تواضع کردی ۔ بخاری کی اس حدیث کی کیا کیا شرحیں لکھی گئیں؟۔ غسل کے فرائض سے لیکر ایک ایک معاملے پر اجتہاد کا بھرکس نکالنے والوں نے فقہ واصولِ فقہ کی کتابوں میں جاہلیت کے پھول کھلائے بلکہ بدبودار پوٹیاں کی ہیں۔ شیخ سکندر کا احسان ہے کہ عربی سیکھنے کیلئے زبردست بنیاد فراہم کردی اور طریقہ العصریہ کی طرزپر عربی کی تعلیم سے معلوم ہوگیا کہ خواب کی نبوت کا معنی غیبی خبر ہے۔ بخاری کی حدیث سے یہ مراد لینا کہ نبوت باقی ہے، کفرو گمراہی کا عقیدہ ہے ۔ اس سے بہتر تو حدیث کا انکار تھا لیکن حدیث صحیح ہے اور صالح خواب سے مراد جو شیطان سے محفوظ ہو۔ وحی کا سلسلہ بند ہے،صرف وحی شیطان کی مداخلت سے محفوظ تھی ۔خوابی خبریں جھوٹی ہوسکتی ہیں۔ مرزائی، تبلیغی جماعت، دعوت اسلامی، مولانا فضل الرحمن کی جمعیت اور شیعہ و مذہبی طبقے خواب دیکھیں تو اس پر سو فیصد یقین کرلینا غلط ہے۔ پہلے حدیث کی درست وضاحت سمجھ لیں ،پھر اپنا اعتقاد درست کرلیں اور پھر اپنے خوابوں پر بھی سوفیصد یقین نہ کریں۔ورنہ تو پیر پنجر سرکار کی طرح روزانہ سب شگوفے چھوڑیںگے کہ ”ہوا میں اڑتا جائے، میرا لال دوپٹہ ململ کا”۔
عربی خواب کی نبوت سے غیبی خبر مراد لیتے ہیں۔ جاہل گدھا طبقہ (40) فیصد نبوت کا باقی رہنا مراد لے گا اور اس کی انتہائی غلط تشریح کرے گا تو اسکا ضمیر نہیں کہے گا کہ نبوت کا نعوذباللہ کچھ حصہ باقی ہے؟ جو یہ اعتقاد رکھے تو وہ ہدایت یافتہ ہے یا گمراہ؟ غلط تشریح پر اس امیدپرگزارہ کرنا کہ مہدی آئیگا اور ہمارا عقیدہ ٹھیک کریگا اہل تشیع سے بڑی گمراہی ہے۔ میری یہ دعوت ہرگز نہیں کہ مجھے مان لو!۔ قرآن وسنت کی درست تشریح کی دعوت دینا فرض ہے۔ میں نے خلافت کے قیام کیلئے کہا تھا کہ میں گمراہ نہیں کیونکہ نبیۖ نے خلفا راشدین مہدیین کی پیروی کا حکم دیا ہے اور خلافت راشدہ والے صحابہ کرام مہدی تھے اور آئندہ بھی خلافت راشدہ قائم کرنے والے مہدی ہونگے۔شیخ سکندر نے ہماری رہنمائی فرمائی کہ” قیامِ خلافت سے پہلے امت کی اصلاح کیلئے وہی طریقہ اپنانا ہوگا جو اس امت میں اسلام کی نشا اول کا تھا۔ امام مالک نے فرمایا کہ اس امت کی اصلاح نہیں ہوگی مگر جس چیز سے پہلے اس کی اصلاح ہوئی تھی”۔ اپنی کتاب ”عورت کے حقوق ” کا آخری جملہ یہ لکھا تھا کہ ”تمام مکاتبِ فکر کی تائیدایک طرف مگر استاذ کی نصیحت سب پر بھاری تھی جس پر آج ہم عمل پیرا ہیں”۔ مولانا سرفراز خان صفدر، مولانا یوسف لدھیانوی، مولاناخان محمد کندیاں، مفتی ولی حسن ٹونکی ، مفتی احمد الرحمن ، مولانا سلیم اللہ خان، مفتی زر ولی خان ، مولانا محمد امین ہنگو کوہاٹ ، مولانا فتح خان ٹانک، مولانا فضل الرحمن، مولانا شیرانی اور قبلہ ایاز وغیرہ کو قریب سے دیکھا۔ مدینہ یونیورسٹی میں (PHD) کی ڈگریاں کرانے والے پاکستانی پروفیسروں سے ملا ہوں ان کوبھی ڈفرپایاتھا ۔ ڈاکٹرعبدالرزاق سکندر نے ہماری بنیاد ٹھیک رکھ دی۔ شیخ بنورینے مدرسے کی بنیاد تقوے پر رکھ دی تھی اور اسلام کی نشا ثانیہ بھی یہیں سے ہوگی۔انشا اللہ العزیز
قرآن سلیس اور واضح عربی زبان میں ہے مگر اس کی طرف مذہبی طبقے بالکل بھی توجہ نہیں دیتے ۔ مفتی محمد تقی عثمانی نے ” آسان ترجمہ قرآن” اور اس کی مختصر تفسیر میں نہ صر ف روایتی غلطیوں کو دھرایا ہے بلکہ انتہائی جہالت کا مظاہرہ بھی کردیا ہے۔ قرآن کے ترجمے میں لفظی تحریف کا بھی ارتکاب کر ڈالا ہے۔
قرآن کی سورہ بقرہ آیت(231،232)اور سورہ طلاق کی آیت(2)میں ایک جملہ ہے کہبلغن اجلھن ”پس جب طلاق شدہ عورتیں اپنی مدت پوری کرلیں ” لیکن شیخ الاسلام نے فقہی مسائل کی بنیاد پر الفاظ کے ترجمے میں تحریف کر ڈالی ۔ طلاق ریاضی کا نہیںمعاشرتی مسئلہ ہے۔ قرآن میں طلاق کی عدت ہے ۔طلاق کی عدت میںایک مدت چار ماہ،دوسری مدت تین طہرو حیض اور تیسری مدت تین ماہ اور چوتھی مدت حمل کی صورت میں بچے کی پیدائش ہے۔
جب طلاق کیلئے اللہ نے عدت کی مختلف مدتیں رکھی ہیںتو انسان کا ذہن کھلنا چاہیے تھا کہ عدت معاشرتی مسئلہ ہے ریاضی کا نہیں۔ جب اللہ نے مختلف آیات میں عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد دونوں صورتوں میں باہمی رضا مندی اور معروف طریقے سے رجوع کی اجازت دی ہے تو اس سے بھی یہ واضح ہے کہ عدت ریاضی کے حساب کتاب کا نہیں بلکہ معاشرتی مسئلہ ہے۔
قرآن کی تفصیلی آیات کے باوجود اس کو معاشرتی مسئلہ سمجھنے کے بجائے ریاضی کا مسئلہ بنانے والوں نے لکھ دیا کہ ” اگر عورت کو حمل ہو اور آدھے سے کم بچہ باہرآیا ہو تو رجوع ہوسکتا ہے ۔اگر آدھے سے زیادہ بچہ باہر آیا ہو تو پھر رجوع نہیں ہوسکتا ہے”۔( فقہ وفتوے کی کتابیں) قرآن کا صحیح ترجمہ وتفسیر سمجھ میں آجائے تو فقہا کی لایعنی بکواس مسائل گدھوں کی طرح ڈھینچو ڈھینچو لگیں گے۔
فقہا نے نہ صرف قرآن کو سمجھنے میں غلطی کی بلکہ ریاضی کو بھی غلط پیش کیا ۔ اصولِ فقہ میں ہے کہ ” قرآن میں تین کا عدد خاص ہے۔ طہر میں طلاق مشروع ہے اور جو لمحہ طلاق سے پہلے گزرے تو 3طہر شمار کرنے سے عدد میں کمی آئے گی اور عدد ڈھائی بن جائیگا اسلئے حیض کو شمار کیا جائے تاکہ تین کا عدد مکمل شمار ہو”۔
حالانکہ اس طرح سے تین حیض کے عدد پر بہت سارا اضافہ ہوگا اسلئے کہ تین حیض کے علاوہ وہ پاکی کے ایام بھی انتظار کی عدت میں شامل ہونگے جس کی وجہ سے تین سے معاملہ ساڑھے تین سے بھی او پر چلاجائیگا۔ مولانا بدیع الزمان نے ہمیں اصولِ فقہ اور قرآن کی تفسیر پڑھائی تھی اور مجھے بڑا حوصلہ بھی دیاتھا۔صحابہ کرام اور ائمہ اربعہ کے مقف کی بات تو بہت دور کی ہے ،حنفی اصولِ فقہ میں صحیح احادیث کو قرآن کے مقابلے میںناقابلِ عمل قرار دینے کی تربیت ملتی ہے۔ اگر خوابوں میں نبوت باقی رہنے کی بات اصولِ فقہ میں پڑھائی جاتی تو احناف اس کو رد کردیتے کہ اللہ کے دین کی تکمیل ہوچکی اور نبوت کے کچھ حصے کا باقی ہونا قرآن کی آیت سے ہی متصادم ہے الیوم اکملت لکم دینکم ” آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا ہے”۔پھر مختلف مذاہب میں فرائض کی تشکیل اور ان کے فرائض ہونے یا نہ ہونے میں اختلاف کو کیا نام دیں گے؟۔
قرآن میں اللہ نے نشے میں نماز کے قریب جانے سے روکا ہے، یہاں تک کہ جو نمازی کہہ رہاہے اس کو وہ سمجھے بھی اور جنابت کی حالت میں بھی مگر جب کوئی مسافر ہو ،یہاں تک کہ غسل کرلے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ جنابت سے غسل کرنا ضروری ہے۔ عربی میں غسل نہانے کو کہتے ہیں۔ اللہ نے نماز سے پہلے وضو کا حکم دیا ہے اور پھر ساتھ میں یہ فرمایا ہے کہ جب تم جنابت میں ہو تو پھر اچھی طرح سے پاکی حاصل کرلو۔ قرآن کی آیات سے معلوم ہوا کہ وضو کرنے کے مقابلے میں نہانا ہی اچھی طرح سے پاکی حاصل کرنا ہے۔ جب حضرت عمر نے اسلام قبول کرنے کیلئے قرآن کے صفحات مانگے توبہن نے کہہ دیا کہ پہلے نہالو۔ نہانا انسانوں کے علاوہ جانوروں اور پرندوں کو بھی آتا ہے۔
صحاح ستہ کا پہلا اردو ترجمہ علامہ وحید الزمان نے کیا تھا۔ نبیۖ نے فرمایا بدا الاسلام غریبا فسیعود غریبا فطوبی للغربا ”اسلام کی ابتدا اجنبیت سے ہوئی ۔ یہ پھرعنقریب اجنبیت کی طرف لوٹ جائیگا،پس خوشخبری ہے اجنبیوں کیلئے”۔ علامہ وحید الزمان (wahidulzaman)نے اردو کا غریب بنادیا۔ اسلئے اقبال نے جواب شکوہ میں کہا ” نماز پڑھتا ہے تو غریب اور پردہ کرتا ہے تو غریب”۔
مرزا قادیانی نے اپنے خود ساختہ شیطانی الہامات میں پنجابی اور اردو سے عربی بنانے کی کوشش کی تھی۔ محمدی بیگم (muhamdi begam)کے حوالے سے لکھاہے کہ” اگر یہ عورت (اس عاشق نامراد) کو نہیں دی گئی تواس کے گھر پر، دیواروں پر، بیٹھک میں آنے جانے والوں پر آسمان کے نیچے سے لعنتیں برسیں”۔ عربی لغت میں من تحت الارض کی طرح من تخت السما کا لفظ نہیں آتا ۔نزل من السما ہوتاہے مگر نالائق نے اردو یا پنجابی پر قیاس کرکے عربی بنائی تھی۔پشتو میں کہا جاتا ہے کہ زہ ستاپیذار پپخو کم ”میں تمہارے جوتے پہن لوں”۔ پشتو میں کپڑے کیلئے پہننے کا لفظ ہے اور جوتا پہننے کیلئے پاں کے لفظ کی آمیزش ہے۔ پنجاب سے میرا ایک دوست میرے ساتھ کانیگرم وزیرستان گیا تھا تو میرے بھانجے نے اس کی چپل پہننے کی اجازت مانگتے ہوئے کہا کہ ”میں تمہارے چپل پپاں کروں”۔ کھیرے کاچھلکا ہٹانے کیلئے پشتو میںسفید کرنے کا لفظ ہے۔ بسا اوقات اردو سمجھنے والوں پشتون کی زبان سے بھی ”چند کھیرے سفید کرلو” کے الفاظ بے ساختہ نکل جاتے ہیں۔ ارود میں فلاں شخص فوت ہوا اور انتقال کرگیا۔ عربی میں ریح کیلئے حدث اور احدث کا لفظ استعمال ہوتاہے۔ جسکا معنی ریح خارج ہونے اور خارج کرنے کے ہیں۔ اردو والوں کو نہیں پکڑا جاسکتا کہ فوت ہوگیا یا انتقال کرگیا۔ عجم فقہا نے نماز کے آخر میں احدث کا لفظ پکڑکر عجیب مسئلہ بنادیا تھا۔ ایک ایک مسئلے پر اسلام کو ایسا اجنبی بنادیا گیا ہے کہ بقول علامہ اقبال (allama iqbal)کے علما و صوفیا کا بہت احترام ہے کہ انکے ذریعے دین ہم تک پہنچا لیکن اللہ ، رسولۖ اور جبریل حیران ہونگے کہ یہ وہی دین ہے جو اسلام کے طور ہمارا تحفہ تھا؟۔
اہل حدیث اور اہل تشیع کا ایک بہت بڑا طبقہ حنفی فقہ کی کتابوں سے مسائل نکال نکال کر سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلا رہاہے۔ مدارس کے علما ومفتیان کو ان عبارات کا پتہ نہیں ہے اور جو پڑھاتے ہیں وہ سمجھتے بھی نہیں ہیں۔ افغانستان میں طالبان نے حکومت قائم کی تھی لیکن مولانا فضل الرحمن تک کو کہنا پڑا تھا کہ” یہ خراسان سے نکلنے والے دجال کا لشکر ہے”۔ جب تک مدارس کے نصاب تعلیم کو درست کرکے نئے خطوط پر نہیں لکھا جائیگا تو ہمارے مدارس خانقاہوں کی طرح تربیت کے مراکز ہوسکتے ہیں لیکن دین کی روشنی ان سے نہیں پھیل سکتی ہے۔
بنوری ٹان کراچی کے فاضل بونیر کے مولانا اسحاق(molana ishaq) نے ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کے انتقال پر کہا کہ ”جامعہ میں ڈاکٹر صاحب اور مفتی عبدالمنان ناصر(mufti abdulmanan nasir)) تھے جو شاہ صاحب کی تائید کرتے تھے”۔ تائید والے دوسرے اساتذہ بھی ہونگے مگر ڈاکٹرصاحب نے جامعہ کے لیٹر پیڈ پر تحریری تائید لکھ دی۔ یہ بہادری کی بہت انتہا تھی۔ مولانا فضل الرحمن سے بھائیوں جیسے مراسم تھے لیکن تحریری تائیدنہیں کرسکتے تھے۔ ساتھی ڈاکٹر احمد جمال نے بتایا کہ شیخ سکندر سے متعلق مجھے معلوم نہیں تھا کہ” وہ اتنے بڑی شخصیت تھے۔ مجھے اپنے گھر کی بیٹھک میں عزت سے بٹھایا اور فرمایا کہ میں اخبار پڑھتاہوں۔ اگر انکے صاحبزادے نہ آتے تو تائید ی بیان لکھ کر بھی دیتے”۔بلند اخلاق ڈاکٹر صاحب ہمارے روحانی باپ تھے۔
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv

Tragedy of Dr. Abdul Razzaq Sikandar:Maulana Talha Rahmani,Jamia Uloom Al Islamia Allama Banuri Town Karachi.

ڈاکٹر عبدالرزاق سکندرکا سانحۂ ارتحال : مولانا طلحہ رحمانی ، جامعہ علوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی

الوداع الوداع. اے شیخ سکندر الوداع.یاد گار اسلاف،آفتاب علم ماہتاب عمل،نابغہ روزگارہستی،محبوب العلما و الاتقیائ،شیخ المحدثین،محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ کے گلشن کے باغباں اور مسند نشیں حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر رحمہ اللہ رحم واسع کے سانحہ رحلت نے امت مسلمہ کی دنیائے علم کو سوگوار کردیا،آج اس باغیچہ بنوری کے درودیوار ماتم کناں ہیں۔علم و دانش کی اس عظیم درسگاہ کی مسندیں ایک مرد درویش کی تلاش میں مغموم اور افسردہ افسردہ سی ہیںلیکن انوارات سے منور اور روح پروری سے لبریز ایک ”گوشہ ” آباد ہے ۔تصورات کی دنیا میں کئی خوشگوار احساسات کا منظر دماغ میں آ رہا ہے تو یادوں کا اک جہاں بھی معطر معطر سا ہورہا ہے۔اس ”گوشہ” کے چاروں مکین نئے آنے والے مہمان کی آمد پہ کس طرح نہال ہورہے ہونگے۔ گزشتہ تین دنوں سے جو محفل سجی ہوگی اور اس دلبر ماحول میں گزرے دنوں کی کتنی یادوں کا ذکر چل رہا ہوگا۔چلیں دل کا یہ پھپھولا پھر کبھی ان شااللہ۔ حضرت ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ کی حیات کے درخشندہ وتابندہ پہلوں میں ایک بہت بڑا پہلو ان کی عالی و ارفع نسبتیں ہیں۔ کئی نسبتوں کے امین اس عظیم المرتبت شخصیت پہ بہت کچھ تحریر و تقریر کی شکل میںآرہا ہے اور اس مرد قلندر کیلئے کروڑوں دلوں میں لاکھوں عشق و عقیدت کے جذبات کا سیل رواں بھی آج اشکوں کی صورت ہر طرف بہہ رہا ہے۔پیکر علم و حلم لازوال محبتوں کے مرجع ایک حسین اور وجیہہ شبیہ کی صورت کا سراپا سب کی نظروں میں گھوم رہا ہے۔ سردست تو مسنون تعزیت کے تیسرے دن کا اختتام ہوااور ان تین دنوں میں ”ان”کے بارے بہت کچھ لکھنا ضروری تھا۔ لیکن کچھ غم واندوہ کے پرکیف ماحول اور ملک بھر سے مسلسل مہمانوں کی کثیر تعداد میں آمد کی مصروفیت کیوجہ سے باوجود کوشش کے نہ لکھ سکا۔ ان تین دنوں میں مختصرا بعض احباب کی مختلف انداز میں خراج عقیدت کی تحریریں نظم ونثر کی شکل میں نظر سے گزریں۔کچھ درد میں ڈوبی صدائیں بھی سماعت سے ٹکرائیںلیکن مکمل انہماک سے نہ سن پایا۔ آج پاکستان کے بین الاقوامی شہرت یافتہ نعت خواں برخوردار حافظ ابوبکر سلمہ اللہ تعزیت کیلئے جامعہ آئے تو انکے پاس دو تین شعرا کے کلام تھے۔انہوں نے سنائے تو نہیں لیکن پڑھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔اس میں ایک کلام محترم آفتاب احمد (جن کا تعلق سانگھڑ سے )کا تھا۔اس منظوم خراج عقیدت کو حافظ صاحب سلمہ اللہ نے فوری طور پہ اسٹوڈیو جاکر ریکارڈ کروایا۔ابھی کچھ دیر قبل شاعر موصوف کے کلام کو حافظ صاحب کی زباں ملی تو سن کر دل حضرت ڈاکٹر صاحب نوراللہ مرقدہ کی فرقت پہ مزید مغموم ہوگیا ۔بہرحال وہ کلام اپنے برخوردار حافظ ابوبکر کی خوبصورت آواز میں آپ حضرات کیلئے شئیر کررہا ہوں۔سنیںاورحضرت رحمہ اللہ کے رفعت درجات کی بلندی کیلئے ضرور اہتمام سے دعا فرمائیں۔وہ ہماری دعاں کے شاید اتنے محتاج نہیں جتنے ہم جیسے سیاہ کاروں کو ضرورت ہے۔ لاکھوں افراد نے ان کو جس عقیدت بھرے احساسات اور والہانہ جذبات کیساتھ الوداع کیا۔ جنازہ کا وہ منظر کراچی جیسے شہر نے شاید اس سے قبل کبھی نہ دیکھا ہو۔الوداع الوداع۔ اے شیخ اسکندر الوداع ،اس صدی کے اے قلندر اے سکندر الوداع۔ علم احمد مجتبی کے اے سکندر الوداع ۔الوداع الوداع، اے شیخ اسکندر الوداع۔ مولانا طلحہ رحمانی صاحب ……جامعہ علوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹان کراچی۔
الوداع الوداع اے شیخ سکندر…تیری گردِ پا کو بھی نہ پہنچے کوئی قلندر
لالچ تھی نہ شہرت کی کوئی طلب…. تحمل کے سمندر،علم نبویۖ کے البدر
اے عربی لغت کے شبِ قدر ….. طلوع ہو گی تیرے فیض سے الفجر
ازماہنامہ نوشتہ دیوار کراچی
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv

Maulana Syed Muhammad Banuri was martyred and charged with suicide. After finding evidence of murder, it was decided to accuse Dr. Abdul Razzaq.

مولانا سید محمد بنوری کو شہید کرکے خود کشی کا الزام لگایا گیا پھر قتل کا ثبوت ملنے پر ڈاکٹر عبد الرزاق سکندر کو موردِ الزام ٹھہرانے کی کوشش کی گئی۔

ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر سے متعلق
رئیس و شیخ الحدیث جامع العلوم الاسلامیہ بنوری ٹان کراچی، صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان ،مرکزی امیرعالمی مجلس تحفظ ختم نبوت!
………………پیدائش اور بچپن:(1935 )میں ایبٹ آباد کے گاں کوکل کے دینی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔آپ بچپن سے سلیم الفطرت تھے ۔ معاصرین گواہی دیتے ہیں کہ آپ میں جو نیکی و صلاح پیرانہ سالی میں نظر آتی ہے ، جوانی میں اسی طرح دکھائی دیتی تھی۔ گویا آپ کا بچپن، جوانی، اور بڑھاپا نیکی و تقوی کے لحاظ سے ایک جیسے تھے ۔
…………..آپ کے والد گرامی:سکندر خان بن زمان خان(sikandar khan bin zaman) اپنے حلقہ میں بڑے باوجاہت تھے۔ خاندان اور گاں کے تنازعات میں ان سے رجوع کیا جاتا تھا ، جنہیں وہ خوش اسلوبی سے نمٹادیا کرتے تھے۔ بچپن ہی سے علما و صلحا سے گہرا تعلق تھا ، جس کا اثر ان کی زندگی پر ایسا نمایاں تھا کہ دینی معلومات آپ کو خوب مستحضر تھیں ، جس کی بنا پر بہت سے علما بھی آپ سے محتاط انداز میں گفتگو کرتے تھے، کیوں کہ غلط بات پر آپ ٹوک دیا کرتے تھے۔ نماز باجماعت کی پابندی ، تلاوتِ قرآن کریم، ذکرِ الہی، صلہ رحمی ، اصلاح ذات البین، رفت و شفقت، اور ضعفا کی خبرگیری؛ان کے خصوصی اوصاف تھے۔ مسجد کی خدمت و تعمیر سے بہت شغف تھا۔
………….تعلیم:قرآن کریم کی تعلیم اور میٹرک تک دنیاوی فنون گاں میں حاصل کیے۔ اس کے بعد ہری پور کے مدرسہ دارالعلوم چوہڑ شریف میں دو سال، اور احمد المدارس سکندر پور میں دو سال پڑھا۔ 1952) (میں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ تعالی کے مدرسہ دارالعلوم نانک واڑہ کراچی میں درجہ رابعہ سے درجہ سادسہ تک تعلیم حاصل کی ۔ درجہ سابعہ و دورہ حدیث کیلئے محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری رحم اللہ علیہ کے مدرسہ جامع العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹان(binoritown) میں داخلہ لیا، اور (1956) میں فاتحِہ فراغ پڑھا ۔ (واضح رہے کہ اس مدرسہ میں درسِ نظامی کے پہلے طالبِ علم آپ ہی تھے۔) اسکے بعد آپنے (1962) میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ(جسکے قیام کو ابھی دوسرا سال تھا) میں داخلہ لیکر چار سال علومِ نبویہ حاصل کیے۔ بعد ازاں جامعہ ازہر مصر (jamia azhar misar)میں( 1972) میں داخلہ لیا اور چار سال میں دکتورہ مکمل کیا؛ جس میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ امام الفقہ العراقی کے عنوان سے مقالہ سپردِ قلم فرمایا۔
………….آپ کے اساتذہ کرام:
(1)۔۔۔: علامہ سید محمد یوسف بنوری (تلمیذ:محدث علامہ کشمیری )
(2)۔۔۔: مولانا عبدالحق نافع کاکاخیل (تلمیذ:حضرت شیخ الہند )
(3)۔۔۔: مولانا عبدالرشید نعمانی
(4)۔۔۔:مولانا لطف اللہ پشاوری۔
(5)۔۔۔: مولانا سحبان محمود۔( سبحان محمود شیخ الحدیث دارالعلوم کراچی)
(6)۔۔: مفتی ولی حسن ٹونکی۔(رئیس دارالافتا وشیخ الحدیث بنوری ٹان)
(7)۔۔۔: شیخ التفسیرحضرت مولانا بدیع الزمان۔ (رحمہم اللہ تعالی اجمعین )
………….درس و تدریس:دارالعلوم نانک واڑہ میں دورانِ تعلیم ہی عمدہ استعداد و صلاحیت کی بنا پر، کراچی میں لیبیا و مصر حکومتوں کے تعاون سے،عربی زبان سکھانے کیلئے مختلف مقامات پر ہونے والی تربیتی نشستوں میں پڑھانے کا موقع ملا، اس سے آپ کو تدریس کا کافی تجربہ حاصل ہوا۔ علاوہ ازیں بنوری ٹان میں درسِ نظامی کی تکمیل سے پہلے ہی حضرت بنوری نے آپ کی صلاحیتوں کو جانچتے ہوئے اپنے مدرسہ کا استاذ مقرر فرمایا۔آپ کا زمانِ تدریس( 1955) سے تاحال جاری تھا۔
………بیعت و خلافت:ظاہری علوم کی تکمیل کے علاوہ آپ کی باطنی تربیت میں شیخ بنوری کا سب سے زیادہ حصہ تھا۔ علاوہ ازیں شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندہلوی اور حضرت ڈاکٹر عبدالحی عارفی نور اللہ مرقدہما کی صحبت سے مستفید ہوئے اور حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید اور حضرت مولانا سرفراز خان صفدر رحمہما اللہ تعالی سے اجازتِ بیعت و خلافت حاصل ہوئی۔
جامع العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹان سے تعلق(1955 )میں اس مدرسہ کے درسِ نظامی کے پہلے طالبِ علم کی حیثیت سے یہ تعلق استوار ہوا، دورانِ طالبِ علمی میں حضرت بنوری نے آپ کی عمدہ استعداد دیکھتے ہوئے آپ کو استاذ مقرر فرما کر یہ تعلق مضبوط کردیا۔ (1977 )میں انتظامی صلاحیتوں کے اعتراف میں ناظمِ تعلیمات مقرر ہوئے۔ (1997) میں مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید کی شہادت کے بعد رئیس الجامعہ کیلئے آپ کا انتخاب ہوا اور (2004 )میں مفتی نظام الدین شامزئی شہید کی شہادت کے بعد شیخ الحدیث کے مسند نشین بنے؛ یہ دونوں ذمہ داریاں آپ تاحال بحسن و خوبی نبھارہے تھے۔
………عالمی مجلس تحفط ختم نبوت سے تعلق
عقیدہ ختمِ نبوت کے تحفظ ، فتنہِ قادیانیت کے تعاقب کیلئے یہ جماعت قیامِ پاکستان کے بعد امیر شریعت سید عطااللہ شاہ بخاری کی زیرِ امارت قائم ہوئی۔( 1974) میں شیخ بنوری کی زیرِ امارت چلائی جانے والی تحریک کے نتیجہ میں آئینِ پاکستان میں عقیدہِ ختمِ نبوت کا تحفظ ممکن ہوا،( 1984) میں اسی جماعت کے تحت چلائی جانے والی تحریک کے نتیجہ میں امتناعِ قادیانیت آرڈیننس آیا۔ پاسپورٹ میں مذہب کے خانہ کی بحالی اور (2010) میں ناموسِ رسالت کے قانون کے تحفظ کیلئے چلائی جانے والی تحریک میں اس جماعت کا بنیادی و کلیدی کردار رہا۔ حضرت ڈاکٹر صاحب( 1981) میں جماعت کی شوری کے رکن منتخب ہوئے۔ حضرت سید نفیس الحسینی شاہ کے وصال(2008 )کے بعد آپ نائب امیر مرکزیہ بنائے گئے۔ حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانوی کے انتقال (2015) کے بعد آپ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیرمرکزیہ منتخب ہوئے۔ آپ نے مجلس کی کئی اردو مطبوعات کا عربی میں ترجمہ کرکے عرب ممالک میں اِنہیں عام فرمایا۔
……اقرا روض الاطفال ٹرسٹ پاکستان سے تعلق:
اکابر و اسلاف کی دعاں میں قائم کردہ پاکستان کے پہلے دینی علوم و دنیاوی فنون کا امتزاج رکھنے والے ادارہ کے سرپرست اور صدرمفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی،حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی، حضرت سید نفیس الحسینی، حضرت مولانا خواجہ خان محمد، مولانا عبدالمجید لدھیانوی رحمہم اللہ تعالی ایسے اکابر رہے ہیں۔ ان بزرگوں کے بعد حضرت ڈاکٹر صاحب اس ادارہ کے پہلے سرپرست رہے ہیں اور اب صدر بن گئے تھے۔بقیہ صفحہ 3نمبر1
……………..وفاق المدارس العربیہ پاکستان سے تعلق:
قیامِ پاکستان کے بعد مسلمانانِ پاکستان کے اسلامی تشخص، مملکتِ خدا داد پاکستان میں دینی مدارس کے تحفظ و استحکام، باہمی ربط کو مضبوط اور مدارس کو منظم کرنے کیلئے اکابر علمائے اہلِ سنت دیوبند کی زیرِ قیادت( 1379ھ /1959) میں اس ادارہ کا قیام عمل میں آیا۔ اس وقت یہ ملک کا سب سے بڑا دینی مدارس کا بورڈ ہے،جس سے تقریبا بیس ہزار مدارس ملحق ہیں۔ ان مدارس میں تقریبا چودہ لاکھ طلبہ و آٹھ لاکھ طالبات زیرِ تعلیم ہیں۔ جبکہ تقریبا ڈیڑھ لاکھ علما و پونے دو لاکھ عالمات فارغ التحصیل ہوچکے ہیں۔آٹھ لاکھ سے زائد حفاظ و دو لاکھ سے زائد حافظات بھی اسی وفاق سے ملحق مدارس کے فیض یافتہ ہیں۔
حضرت ڈاکٹر صاحب کے شیخ محدث بنوری کا اس ادارہ کے قیام میں دیگر اکابر کے ساتھ بنیادی کردار رہا ہے۔ (1997) میں حضرت ڈاکٹر صاحب وفاق کی مجلسِ عاملہ کے رکن بنائے گئے۔ (2001) میں نائب صدر مقرر ہوئے، اس دوران آپ صدرِ وفاق شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان (molana saleemullah khan)کی بیماری و ضعف کے باعث کئی بار ان کی نیابت کرتے رہے، اور ان کی وفات کے بعد تقریبا 9 ماہ قائم مقام صدر رہے۔ (14 محرم الحرام 1439ھ05 اکتوبر 2017 )کو آپ متفقہ طور پر مستقل صدر منتخب ہوئے۔ اس کے علاوہ آپ وفاق کی نصاب کمیٹی اور امتحان کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں۔
……….تصانیف و تالیفات:(1)…: الطریق العصری۔(2)….: کیف تعلم اللغ العربی لغیر الناطقین بھا۔(3)…: القاموس الصغیر۔(4)…: مقف الام الاسلامی من القادیانی۔(5)…: تدوین الحدیث۔(6)….: اختلاف الام والصراط المستقیم۔(7)…: جماع التبلیغ و منھجہا فی الدعو۔(….: ھل الذکری مسلمون؟۔(9)….: الفرق بین القادیانیین و بین سائر الکفار۔(10)…: الاسلام و اعداد الشباب۔ (11)….: تبلیغی جماعت اور اس کا طریقِ کار۔(12)….: چند اہم اسلامی آداب۔(13)….: محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔(14)….: حضرت علی اور حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین۔
آپ کی زیادہ تر تصانیف اردو سے عربی، اور کچھ عربی سے اردو میں مترجم ہیں۔ جبکہ مشہور کتاب الطریق العصری عرصہ دراز سے وفاق المدارس کے نصاب میں شامل ہے۔علاوہ ازیں آپ نے عربی و اردو میں بیشمار مقالات و مضامین سپردِ قلم فرمائے ہیں، جو عربی و اردو مجلات، رسائل و جرائد، اور اخبارات کی زینت بنے اور مختلف کانفرنسوں میں پڑھے گئے ہیں۔ اِن میں سے اردو مضامین تین مجموعوں کی شکل میں مرتب ہوچکے ہیں:
(1)۔۔: مشاہدات و تاثرات۔(2)۔۔۔: اصلاحی گزارشات۔(3)۔۔۔: تحفظِ مدارس اور علما و طلبہ سے چند باتیں۔اس کے علاوہ آپ روزنامہ جنگ کے مقبولِ عام سلسلہ آپ کے مسائل اور ان کا حل کے مستقل کالم نگار ہیں، جبکہ ماہ نامہ بینات کے مدیر مسل اور مجلہ البینات کے المشرف العام بھی ہیں۔
شیخ بنوری کی نسبتوں کے امین اور مرجع الخلائق شخصیت:شیخ بنوری سے آپکا تعلق اس وقت قائم ہوا جب آپ جامع مسجد نیو ٹان میں عربی کلاس پڑھانے کیلئے تشریف لایا کرتے تھے، کلاس پڑھانے کے بعد کچھ دیر حضرت بنوری کی خدمت میں حاضر رہتے، اگلے سال اسی مدرسہ میں داخلہ لیکر آپ نے یہ رسمی تعلق دائمی کرلیا، سفروحضر میں خادم کی حیثیت سے ہمیشہ ساتھ رہتے۔ حضرت کو بھی آپ سے ایسی محبت تھی کہ اپنے مدرسہ میں استاذ مقرر فرمایا، مدینہ یونیورسٹی میں پڑھنے کیلئے چار سال کی رخصت دی، جامعہ ازہر(jamia azhar) میں داخلہ کیلئے خود ساتھ لے گئے، (1961 )میں حج پر ساتھ لے گئے تو حج کے تمام مناسک اپنی نگرانی میں کروائے، کیونکہ یہ ڈاکٹر صاحب کا پہلا حج تھا۔
انہی محبتوں و شفقتوں نے آپ کو اپنے شیخ کا ایسا گرویدہ بنایا کہ زندگی بھر کیلئے انکے ہوکر رہ گئے۔ شیخ کے وصال کے بعد کچھ عرصہ تک یہ کیفیت رہی کہ جہاں شیخ کا تذکرہ چھڑتا تو آپ کی آنکھیں ضبط نہ کرپاتیں۔ پھر بڑے والہانہ انداز میں شیخ کے واقعات سناتے۔ آپ اپنے شیخ کی تمام نسبتوں کے امین اور انکے مسند نشین و جانشین تھے۔ شیخ بنوری بیک وقت صدرِ وفاق، امیرِ مجلس تحفظ ختم نبوت، رئیس و شیخ الحدیث جامعہ بنوری ٹان تھے۔ حضرت ڈاکٹر صاحب (doctorabdulrazaqsikandar)بھی ان تمام مناصب پر اپنے شیخ کی یادگار تھے۔ آپ فنا فی الشیخ کی تصویر اور شیخ کی نسبتِ اتحادی کا مظہر اتم ہیں۔ اپنے شیخ ہی کی نسبت سے آپ اس وقت پورے ملک کے مشائخ و اہل اللہ کے معتمد، مرجع الخلائق اور ایسی غیرمتنازع شخصیت تھے کہ سب کی عقیدت و احترام آپ کو حاصل تھی اور آپ کی مجلس و صحبت سے استفادہ کرنا ہر کوئی اپنی سعادت سمجھتا تھا۔ ایں سعادت بزورِ بازو نیست
یہ معلومات جامعہ بنوری ٹان کراچی کے فیس بک اکاونٹ پر درج ہیں۔
ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نوراللہ مرقدہ
ازقلم : شاگرد سید عتیق الرحمن گیلانی
شاگرد کیلئے استاذ کی نسبت زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ ہوتا ہے۔ تبلیغی جماعت، تصوف کے پیرومرشد اور مدارس کے فیض میں کیا فرق ہے؟۔ طالب علمی کے زمانے میں ایک مضمون لکھا تھا جس میں تبلیغی جماعت کو چراغ سے اور تصوف وسلوک کو ہاتھ کی بجلی(ٹارچ) سے اور مدارس کو الیکٹرک سے تشبیہ دی تھی اور یہ واضح کیا تھا کہ تبلیغی جماعت کے لوگ اپنے اندر مٹی کا تیل جلاکر چراغ سے چراغ روشن کرتے ہیں۔ ایک جاہل کے پلے مٹی کے تیل کی طرح ایک خطرناک اور بدبودار جہالت کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ہے لیکن اس کا یہ کمال ہوتا ہے کہ دنیا کی اندھیر نگری میں اپنی جان، اپنا مال اور اپنا وقت لگاکر تسلسل کیساتھ قربانیاں دیتا ہے۔ چھ باتوں کی تبلیغ ، چند گھنٹے کی تعلیم، شبِ جمعہ کا بیان ، سہ روزہ، چلہ اور چارماہ سے نہ صرف خود ایک تبلیغی کارکن چراغِ راہ بنتا ہے بلکہ دنیا میں چراغوں کا ایک زبردست سلسلہ شروع کردیتا ہے۔ اس کے پاس علم وعمل کا کوئی بڑاخزانہ نہیں ہوتا ہے۔ زندگی بھر جاہل ہی رہتا ہے لیکن ایمان کے نور سے چراغ جلادیتا ہے اور ایمان کے نور کے چراغوں کا سلسلہ اپنی بساط کے مطابق جاری رکھتا ہے اور یہ عمل بہت آسان ہے۔گویا موم بتی سے موم بتی جلانے میں مشکل نہیں۔
دوسری چیز سلوک وتصوف ہے۔ جس کی مثال سیلوں سے چلنے والی ہاتھ کی بیٹری ہے۔ اس میں مٹی کا تیل نہیں ہوتا بلکہ انتہائی خوبصورت سیل ہوتے ہیں۔ اس کی اتنی تیز روشنی ہوتی ہے کہ اگر الیکٹرک کے بلب پر اسے مرکوز کردیا جائے تو روشن بلب کا سایہ بھی دکھائی دینے لگتا ہے۔ تصوف کاایک پیرطریقت جب اپنے مرید عالم پر اپنی باطنی توجہ مرکوز کردیتا ہے تو اس کو تڑپنے پر مجبور کردیتا ہے۔ مولانا روم کو شمس تبریز اور شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی کو خواجہ باقی باللہ اور مولانا نانوتوی، مولانا گنگوہی، مولانا تھانوی جیسے علما کو حاجی امداد اللہ (hajiimdadullah)کی مریدی پر مجبور کردیتا ہے۔ نبیۖ سے ایمان، اسلام ، احسان کا پوچھا گیا تو تینوں کے الگ الگ جواب عطا فرمائے تھے۔ تبلیغی جماعت عوام پر ایمان کی محنت کرتی ہے ، اہل تصوف احسان کی محنت اور مدارس اسلام کی محنت کرتے ہیں۔ تینوں شعبوں کی اپنی اپنی جگہ بہت اہمیت ہے لیکن مدارس کا درجہ سب سے اعلی ہے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ بعث معلما ” مجھے معلم بناکر بھیجا گیا ہے”۔
مدارس کی مثال الیکٹرک کی ہے۔ اگر کہیں پر بجلی لگانی ہو تو اس کیلئے دور دراز سے بجلی کے پاور اسٹیشن سے بڑی لائنوں سے بڑے بڑے کھمبوں پر بجلی کی سپلائی لانی ہوگی۔ شہروں میں گرڈ سٹیشن اور فیڈر بنانے ہونگے۔ وہاں سے پھر کھمبوں اور (PMT)اور میٹروں کے ذریعے بجلی کی سپلائی لائن لینی ہوگی۔ اس محنت میں سالوں کا عرصہ لگتا ہے لیکن اس کی وجہ سے گھروں میں ہیٹر، فریج، پنکھے،بلب، واشنگ مشین، پانی کی موٹرسے لیکر بڑے بڑے کارخانے، فیکٹریاں اور مل سب کچھ چلتے ہیں۔ ناظرہ قرآن ، ترجمہ قرآن، حفظ قرآن، استنباط مسائل ، فقہا کے درجات، احادیث وتفسیر، فتوے کا شعبہ، قاضی کا نظام، سیاست شریعہ، ملک کا نظام ، فتنوں کی روک تھام اور تمام شعبے ان مدارس کے مرہون منت ہیں۔
جامعہ بنوری ٹان کراچی میںزمانہ طالب علمی سے ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کی شخصیت کو مختلف معاملات میں بہت اچھے انداز میں دیکھا ہے۔شاعر حبیب جالب کا تعلق ولی خان کی پارٹی سے تھا۔ ولی خان کے ہم عصر اور مخالفین بھی تھے اور ولی خان(wali khan) کیلئے حبیب جالب (habibjalib)نے کچھ اشعار لکھے تھے۔
ولی خان
مرے کارواں میں شامل کوئی کم نظر نہیں ہے
جو نہ مٹ سکے وطن پر میرا ہم سفر نہیں ہے
درِ غیر پر ہمیشہ تمہیں سر جھکائے دیکھا
کوئی ایسا داغِ سجدہ مرے نام پر نہیں ہے
کسی سنگ دل کے در پر مرا سر نہ جھک سکے گا
مرا سر نہیں رہے گا مجھے اس کا ڈر نہیں ہے
مجھے لگتا ہے کہ اپنے استاذ محترم ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر(abdulrazaq sikandar) سے متعلق جوبڑے قریبی معلومات رکھتے ہیں وہ ضرور یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ حبیب جالب کی طرف سے اپنے سیاسی لیڈر کیلئے یہ اشعار لکھنا کارکن اور لیڈر کے جس ذوق کی عکاسی کرتا ہے ،اس کی ڈاکٹر صاحب جیسے شریف النفس انسان سے کسی طرح کی کوئی بھی مناسبت نہیں لگتی ہے لیکن ایک شاگرد کا کام یہ ہوتا ہے کہ اپنے استاذ کی ان خفیہ صفات کو عوام وخواص کے سامنے لائے جن کی کسی دوسرے کو ہوا بھی نہیں لگی ہو۔ جی ہاں! میں انہی گوشوں کو بہت اچھے انداز میں سامنے لارہا ہوں۔
(1): پہلا مرحلہ یہ تھا کہ سواداعظم اہلسنت کے نام پر جن لوگوں نے اہل تشیع (shia)کی مخالفت اور ان پر کفر کا فتوی لگایا تھا، اس کی ڈاکٹر صاحب نے شروع سے بہت سخت مخالفت کی تھی۔ پھر وہ دن دنیا نے دیکھ لیا کہ ہندوستان کے مولانا محمد منظور نعمانی(manzoor nomani) کے استفتا کے جواب میں مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی نے فتوی لکھ دیا ۔جس پر پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے بڑے مدارس کے علما اور مفتی صاحبان نے دستخط کئے تھے۔ پھر وہ وقت آیا کہ شیعوں کے خلاف جنہوں نے قادیانیت سے زیادہ بڑے کفر کا فتوی لگایا وہ اپنے فتوں سے الٹے پاں مڑ کے بھاگے ہیں۔ مولانامحمد منظورنعمانی کے صاحبزادے مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی اپنے باپ کے فتوں سے (180)ڈگری کے زوایہ پر پلٹ گئے ہیں۔ جامعہ بنوری ٹان کراچی کے اکابر علما میں کچھ بدھو تھے اور کچھ مفادپرستی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ڈاکٹر صاحب پر کوئی ایسا داغ نہیں ہے۔
(2): الائنس موٹرز سے کراچی کے اکابر علما ومفتیان نے گاڑیاں اور مراعات حاصل کیں۔ الائنس موٹرز مالکان کے مرشد حاجی عثمان کی وجہ سے تبلیغی جماعت کے اکابرین تک پر بھی فتوے لگائے جن میں دارالعلوم کراچی ، جامع الرشید کے مفتی رشیداحمد لدھیانوی شامل تھے۔ لیکن پھر جب الائنس موٹرز کے مالکان نے حاجی عثمانکے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا تو بڑے اکابر کہلانے والوں کا بڑا شرمناک کردار سامنے آگیا۔ فتوں کی تفصیل میں جانے کا وقت نہیں ہے لیکن مولانا بدیع الزمان ، ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر ، قاری عبدالحق، مفتی عبدالسلام چاٹگامی وغیرہ نے اس میں پہلے اور بعد میں کوئی حصہ نہیں لیا تھا اور مولانا یوسف لدھیانوی نے حاجی عثمان سے عقیدت کا اظہار کرنے کے باوجود بھی اپنی طرف منسوب فتوے کی تردید سے معذوری کا اظہار کردیا۔ مفتی نظام الدین شامزئی نے جامعہ فاروقیہ کے دور میں حاجی عثمان کی تائید میں فتوی دیا تھا حالانکہ مولانا سلیم اللہ خان نے مخالفت میں فتوں پر دستخط کئے تھے۔
ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کے نام پر ایسا کوئی داغ نہیں ہے جس سے آپ کی اولاد کو قیامت تک خفت کا سامنا ہو۔ میری تحریروں میں بہت چیزیں واضح ہیں۔ طوالت کے خوف سے تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا ہوں۔
(3): ڈاکٹر صاحب خود ختم نبوت کے امرا اور اقرا روض الاطفال کے بڑے سرپرستوں سے زیادہ علمی شخصیت کے مالک تھے مگرظلم یہ ہوا کہ مفتی نظام الدین شامزئی کے بعد آپ کو شیخ الحدیث کے درجے پر رکھاگیا۔ اگر مدارس اور اقرا کے ارباب حل وعقد اخلاص رکھتے تو ڈاکٹر صاحب میں دیسی اور برائے نام اس نصابِ تعلیم کے مقابلے میں جدید اور جاندار نصاب بنانے کی صلاحیت تھی لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ شخصیات کی زندگی سے فائدہ نہیں اٹھاتے بلکہ قبر پرستی کا مزہ لیتے ہیں یا جب پیرانہ سالی میں دل ودماغ کا ضعف انسان کو آخری نکمی عمرتک پہنچادیتا ہے تو تبرک کیلئے عہدے ومناصب ان کی گردنوں کا طوق بنادیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ شیخ الہند مولانا محمود الحسن اور دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث مولانا سید انورشاہ کشمیری کو آخری میں اپنی زندگی درسِ نظامی میں تباہ کرنے کا خیال آجاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب بلند قامت شخصیت اپنی شرافت کے علاوہ اپنے علمی استعداد کی وجہ سے تھے لیکن ان کی ذات سے استفادہ نہیں لیا گیا۔
(4): میری تحریک کے بارے میں مفتی نظام الدین شامزئی کے فتوے کو بہت جلی حروف کیساتھ ہم نے شائع کیا تھا جس میں ان کی غلطی اور نالائقی کو بھی بہت نمایاں کردیا تھا اور ڈاکٹر صاحب نے جو تحریری رہنمائی فرمائی تھی وہ ہماری تحریک کی جان تھی۔ میں نے اپنی کتاب” عورت کے حقوق” کے بالکل آخری جملے میں اس تحریر کو تمام مکاتبِ فکر کی تائیدات سے بھاری قرار دیا۔ اپنے استاذ کی خدمت میں اپنے بیٹے ابوبکر کیساتھ حاضری دی تو ملاقاتیوں کا تانتا بندھا تھا۔
(5): جب مولانا سید محمد بنوری کو مدرسہ میں شہید کرکے پہلے خود کشی کا الزام لگایا گیا اور پھر قتل کا ثبوت ملا تو ڈاکٹر صاحب کو موردِ الزام ٹھہرانے کی کوشش کی گئی۔ ہم نے کرائے کے قاتل کالعدم سپاہ صحابہ اور مفتی جمیل خان کی روزنامہ جنگ میں خود کشی کے بہتان کی سخت مذمت کی اور لکھا کہ ڈاکٹر صاحب نے کبھی مکھی بھی نہیں ماری ہوگی۔ مولانا یوسف بنوری کے صاحبزادے سید محمد بنوری کے قتل کا الزام انتہائی گھنانا فعل ہے۔ مفتی محمد نعیم صاحب ہمارے استاذ تھے اور ان کی وفات سے قبل متعدد بار خدمت میں حاضر ہوا لیکن جب پتہ چل گیا کہ وہ بنوری ٹان کراچی پر قبضہ کرنے کے موڈ میں تھے تو دکھ ہوا۔ ان کی وفات کے بعد ان پر لکھی جانے والی کتاب میں مجھے تاثرات لکھنے کا کہا گیا لیکن میں نے نہیں لکھے اور نہ لکھنے پرخوش ہوا۔ انکا داماد مولوی امین مارا گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے جامعہ ، اردگرد ،اندرونِ ملک اور بین الاقومی سازشوں کا مقابلہ کرنے کی ڈینگیں نہیں ماریں لیکن اللہ نے ہرسازش سے آپ کو محفوظ رکھا۔کہاجاتا ہے کہ اللہ کے ولی ایسے ہی محفوظ ہوتے ہیں کہ سمندر میں بھی پاں کو نہ لگے پانی۔ اگر مجھے تھوڑا سا ملاقات کا موقع دیا جاتا تو میرے استاذ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے نہ صرف طلاق کے حوالے سے بلکہ اسلام کی نشا ثانیہ اور قرآن واحادیث کی تشریحات کے حوالے سے بھی مجھے اپنی زبردست تائید سے مفتی محمد حسام اللہ شریفی اور دیگر حضرات کی طرح بالکل نوازنا تھا۔ بس ملاقات کے دوران میں نے اپنی بات کا آغاز کیاہی تھا کہ ملاقات کے مالک کے صبر کا پیمانہ بہت ہی لبریز ہوگیاتھا اور مجھے وہاں سے جانے پر مجبور کردیاتھا لیکن ڈاکٹر صاحب نے مجھے دوسرے ملاقاتیوں کے برعکس اپنی طرف سے عطر کی شیشی کا بھی تحفہ عنایت فرمایاتھا۔
(6):قرآن کادرست ترجمہ آئیگا توڈاکٹر صاحب کی شخصیت، اہمیت، افادیت نورانیت،علمیت،انقلابیت، مجددیت، سیادت، قیادت امامت کا لگ پتہ جائیگا ایک ساتھی سے فرمایا کہ” میرا شاگردہے میری بہت عزت کرتا ہے ”۔ جسے سن کر دل تڑپ اٹھا۔استاذمحترم شریف النفس تھے،اگر آپ کی سیرت و اخلاق کو اپنانے کی توفیق ملتی تو دنیا بدل دیتے مگر نصیب اپنا اپنا۔سید عتیق الرحمن گیلانی
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv