پوسٹ تلاش کریں

جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے استاذ مولانا مفتی عبدالمنان ناصراور نمائندہ نوشتہ دیوار امین اللہ بھائی

جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے استاذ مولانا مفتی عبدالمنان ناصراور نمائندہ نوشتہ دیوار امین اللہ بھائی

لورالائی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن نیوٹاؤن کراچی کے سابق استاذ حضرت مولانا مفتی عبد المنان ناصر مدظلہ العالی جو بانگی مسجد رنچھوڑلائن کراچی کے امام و خطیب بھی رہے اور پھر بلوچستان حکومت میں قاضی کے عہدے پر فائز ہوئے۔ تربت اور دیگر شہروں میں فرائض انجام دئیے، اللہ تعالی انکی عمر میں برکت عطا فرمائے۔ نوشتۂ دیوار کے نمائند گان عبدالعزیز اور امین اللہ ان کی خدمت میں حاضری دیتے ہیں۔ اس مرتبہ آپ نے رات کومہمان ٹھہرایا۔اللہ تعالی علماء حق کی شوکت میں اضافہ فرمائے۔ جب سید عتیق الرحمان گیلانی نے تحریک شروع کی تھی تو استاد مفتی عبدالمنان ناصر سے کسی نے کہا کہ اس نے مہدی کا دعویٰ کیا ہے۔ استاذ نے کہا کہ اگر یہ وہی عتیق ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں اور ثابت بھی کردیگا۔البتہ کوئی اور ہے تو میںکچھ نہیں کہہ سکتا ۔ عتیق گیلانی کی کتاب تحریر1991ء کانیگرم”خلافت علی منہاج النبوت کے وجود مسعود کا اعلان عام”میں اس کا ذکربھی ہے۔ جب عتیق گیلانی نے جامعہ بنوری ٹاؤن میں داخلہ لیا تو علم الصرف کے استاذمفتی عبدالمنان ناصر اور مولانا عبدالقیوم چترالی تھے جبکہ درجہ اولیٰ کے دیگر فریقوں کو مفتی عبد السمیع شہید پڑھاتے تھے ۔مولانا عبدالمنان ناصر نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ میں نے طالب علمی کے اٹھارہ سالوں اور تدریس کے دوران اتنا قابل انسان طلبہ اور اساتذہ میں نہیں دیکھا ۔ ایک مرتبہ سرِراہ مولانا عبدالسمیع نے عتیق گیلانی سے صیغہ پوچھا اور اسکا پس منظر یہ تھا کہ ہر جمعرات کو مفتی عبدالسمیع سارے سیکشنوں کے طلبہ کو بلا کر مناظرہ کرواتے لیکن عتیق گیلانی اس میں شرکت سے انکار کرتے تھے۔عتیق گیلانی کے سیکشن کو یہ شکایت پیدا ہوگئی تھی کہ ہمیں استاذ اچھا نہیں پڑھاتے لیکن عتیق کہتے تھے کہ ہمیں بہت اچھا پڑھایا جارہاہے۔ عتیق گیلانی کے سیکشن میں مفتی اعظم امریکہ مفتی منیر احمد اخون بھی تھے ۔عتیق گیلانی نے بلاسوچے سمجھے مولانا عبدالسمیع کو جواب دیاکہ مجھے اس صیغے کا پتہ نہیں اور ایک چھوٹا سوال بھی کر دیا کہ ماضی کے صیغوں میں ضربتما دو مرتبہ کیوں لکھا ہے جبکہ صیغہ ایک ہے۔ مفتی عبد السمیع سے اسکا جواب نہیں بن رہا تھا اور آخر کار تقریباً گھنٹوںبحث میں بات یہاں تک پہنچی کہ مفتی عبد السمیع نے قرآن کا مصحف منگوا کر کہا کہ یہ اللہ کی کتاب ہے؟۔ عتیق گیلانی نے کہا کہ نہیں یہ نقش کلام ہے۔ مفتی عبدالسمیع نے کہا کہ آپ کافر ہو گئے اسلئے کہ اللہ کی کتاب کا انکار کر دیا۔ عتیق گیلانی نے کہا کہ مولانا یوسف لدھیانوی کے پاس چلتے ہیں وہ بھی کافر ہو گئے اسلئے کہ یہ مسئلہ انہوں نے بتایا ۔اسوقت طلبہ کا بڑا ہجوم اکھٹا ہو گیا تھا، مولانا عبدالسمیع نے عتیق گیلانی سے غصے میں کہا کہ” تم افغانی ساری کتابیں پڑھ کر آتے ہو، تمہارا مقصد پڑھنا نہیں ہمیں ذلیل کرنا ہے”۔ ایک طالب علم نے عتیق گیلانی کا بازو پکڑا اور مسجد کے سائیڈ میں لے جاکر کہا کہ صوفی صاحب بیٹھ کر اپنا ذکر کرو۔ دوسرے دن پورے مدرسے میں یہ چرچاتھا کہ صوفی صاحب تو علامہ تفتا زانی ہیں۔ مفتی عبدالسمیع کے بھی چھکے چھڑادئیے۔ عتیق گیلانی کو پتہ چلا تو انہوں نے کہا کہ میں قابل نہیں، مفتی عبد السمیع نالائق ہیں۔ استاذ مفتی عبدالمنان سے یہی سوال پوچھتا ہوں۔ مفتی عبدالمنان نے جواب دیا کہ مبتدی طالب علم کو سمجھانے کیلئے یہ صیغہ الگ الگ لکھ دیا تا کہ مذکر اور مونث کیلئے الگ الگ پہچان ہو۔ آگے کی کتاب ”فصول اکبری” میں یہ صیغہ ایک دفعہ لکھا ہے۔ جب عتیق گیلانی نے مولانا بدیع الزمان سے اصول فقہ کی کتابوں میں یہ تعلیم حاصل کی کہ کتابت کی شکل میں قرآن کے مصاحف اللہ کا کلام نہیں تو تعجب نہیں ہوا لیکن جب مفتی محمد تقی عثمانی کی کتاب ”فقہی مقالات” میں یہ دیکھا کہ سورہ فاتحہ کو علاج کیلئے پیشاب سے لکھنا جائز ہے تو پھر اصول فقہ کی کتابوں میں قرآن کی غلط تعریف کا معاملہ بھی کھل گیا اور اپنے استاذ مفتی محمد نعیم بانی جامعہ بنوریہ سائٹ ایریا سے بھی اس پر بات کی اور انہوں نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کر لیا اسی طرح مولانا محمد خان شیرانی مولانا عطاء الرحمان اور قاری عثمان سے بھی اس پر بات کی تھی۔ علاوہ ازیں انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر منظور احمد سے بھی قرآن کی اس تعریف کی غلطی منوائی تھی جو امریکہ اور کراچی یونیورسٹی میں فلسفے کے پروفیسر رہے ہیں اور اصول فقہ میں یہ غلط تعریف علم کلام کی وجہ سے آئی تھی جس سے امام ابوحنیفہ نے توبہ کی تھی۔
مولانا سید محمد یوسف بنوری کے ایک شاگرد نے سقوطِ طالبان حکومت کے بعد ظہورمہدی پر ایک کتاب میں پاکستان سے ڈنڈے والی سرکار کا بھی ذکر کیا اور ملاعمر کے حوالے سے لکھا کہ وہ بھی ایک مہدی تھے لیکن اس میں حماقت یہ کی ہے کہ ملاعمر سے پہلے بھی ایک مہدی کا ذکر کیا ہے۔ جب ملاعمر سے پہلے مہدی آیا نہ ہو تو پھر دوسرے نمبر کے مہدی کا تصور کیسے ہوسکتا تھا؟۔ عربی یوٹیوب چینل اسلامHDمیں یہ انکشاف ہے کہ فتنہ الدُھیما کا حدیث میں ذکر ہے جس میں99فیصد لوگ قتل ہوں گے۔ یہ فتنہ مہدی کے40سالہ، منصور کے20سالہ اور سلام اور امیرالعصب کے ادوار کے بعد ہوگا۔ پھر آخر میں دجال اور آخری مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ظہور ہوگا۔ اس میں نبیۖ کے بعد مختلف فتنوں اور صدیوں کے سرے پر مجددوں کے ادوار لکھے ہیں اور2022ء کو بھی ایک مجدد کا دور قرار دیا ہے اور اس میں پہلے مہدی کی خلافت کے آغاز کی بھی بات کی ہے۔ اس چینل میں ایک شخص نے مہدی امیر اول کا نام بھی جابر بتایا ہے۔جب مولانا شیرانی اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین تھے اور گیلانی نے طلاق کے حوالے سے سمجھایا تو شیرانی نے کہا کہ ”آپ ہم پر زبردستی سے اپنی بات مسلط مت کرو”۔
یوٹیوب پر عربی میں گھنٹوں کے حساب سے مہدی کے ظہور کے حوالے سے کئی کئی خواب ایک ایک چینل میں اپ لوڈ ہورہے ہیں۔ علامہ اقبال نے کہاکہ
ہوئی جس کی خودی پہلے نمودار وہی مہدی وہی آخرزمانی
قرآن کی واضح آیات اور سنت کی طرف توجہ کئے بغیر اصلاح نہیں ہوسکتی اور یہی بات ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے ہماری تحریک کیلئے لکھ دی تھی۔محمد فاروق شیخ

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اللہ اور اسکے رسول ۖ اُمت سے سخت ناراض ہیں ،چار راتوں سے سو نہ سکا ۔ طالبان وزیراعظم ملامحمد حسن

اللہ اور اسکے رسول ۖ اُمت سے سخت ناراض ہیں ،چار راتوں سے سو نہ سکا ۔ طالبان وزیراعظم ملامحمد حسن

افغانستان کے طالبان نے نہ صرف ڈیورنڈ لائن کی باڑ اکھاڑ پھینکی ہے بلکہ اٹک تک پیچھا کرنے کی بات بھی ویڈیو میں موجود ہے۔ افغان طالبان کے وزیراعظم ملامحمدحسن اخون نے روتے ہوئے ایک خواب بتایا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ۖ اس امت سے سخت ناراض ہیں جس کی وجہ سے چار راتوں سے سو نہیں سکا ہوں۔ ظاہر شاہ کے وقت سے مختلف آزمائشوں کے ہم شکار ہیں اور امتحانات سے گزر رہے ہیں۔ پہلے بھی آزمائش سے نکلے تھے اور اب بھی نکل گئے ہیں لیکن ہمیں اپنی اصلاح کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ میں تمام ولایتوں (صوبوں) کے حکمرانوں کو اپنی شخصی اصلاح اور تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کر تا ہوں۔ ملاعبدالغنی برادر اور کسی سے میں کوئی عناد نہیں رکھتا ہوں۔
قرآن وسنت کا نفاذ ہمارے لئے ضروری ہے۔ دشمن ہمیں قرآن وسنت سے دور رکھنا چاہتا ہے۔

تبصرہ نوشتہ دیوار
پچھلے مہینے افغان طالبان کی حکومت نے خواتین کی آزادی اور حقوق کی بھی بحالی کا اعلان کیا تھا جو خوش آئند ہے۔ ایک بات پوری امت مسلمہ کے تمام افراد، شخصیات، قائدین، جماعتوں، ملکوں اور اداروں کو یاد رکھنی چاہیے کہ سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ نہ صرف اپنی اصلاح بلکہ اپنی ذمہ داری کا احساس بھی کرنا چاہیے۔ یہ اتنا اہم نہیں ہے کہ دوسرے کی اصلاح کی جائے اور گلہ کیا جائے کہ ہمارے ساتھ یہ ہورہاہے اور وہ ہورہاہے بلکہ اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری کیسے پوری کررہے ہیں اور ہمارے اندر کتنی تخریب ہے جس کی ہم پر اصلاح کرنا ضروری ہے؟۔ جب وزیرستان میں دہشت گرد ظلم کررہے تھے تو ہمارے خاندان نے ان کو سپورٹ کیا تھا۔ جب ہم پر حملہ ہوا تو میں نے اپنی غلطی کو اجاگر کیا تھا۔ جب اسلام آباد میں طالبان کے حامیوں نے اپنا نعرہ تبدیل کیا تھا تو ہم نے طعنہ نہیں دیا کہ اب تمہاری سمجھ کھل گئی ہے؟۔ بلکہ ان کی آواز سے اپنی آواز ملائی کہ واقعی تم مظلوم ہو! یہ نہیں کہا کہ جب طالبان کیساتھ حملے کے بعد محسود قوم کے تمام مشیران آگئے اور پھر کانیگرم میں تاریخ رکھ دی تو اپنے لونڈے باز طالبان نے تمہیں بزدل بناکر آنے نہیں دیا ۔
کانیگرم کے ایک برکی دوست نے کہا کہ ”ایک محسوددوست نے مجھ سے کہا کہ تم لوگ شیعہ کی طرح قوم پرست ہو۔جب سے کانیگرم کے پیروں کیساتھ واقعہ پیش آیا تو کانیگرم کے لوگ طالبان سے کنارہ کش ہوگئے ۔ جسکے جواب میں میں نے کہا کہ ہم تو ہیں شیعہ۔ ہم طالبان کیساتھ کیسے ہمدردی رکھ سکتے ہیں”۔
حالانکہ کانیگرم کے بہت سے برکی بھی طالبان کیساتھ اپنے جذبے اور خوف کی وجہ سے طالبان کیساتھ اُچھل کود رہے تھے اور ہمارے خاندان کے بعض لوگ طالبان سے اپنے بہتر تعلقات کے خواہاں تھے۔ محسود اور وزیر خاندانوں نے اپنے بڑوں کی مارا ماری دیکھ لی تو بھی زبان سے کوئی جنبش نکالنے کی ہمت نہیں دکھائی اور آج جب کوئی محسود مارا جاتا ہے تو اسکے خاندان والے کہتے ہیں کہ اس نے اپنے بچوں کو پاک فوج میں اپنی خدمات اور فرائض انجام دینے کیلئے بھیجنے کی خواہش پال رکھی تھی۔ ہمیں کسی کو کم تر اور نفرت کی نگاہ سے دیکھنے کی بھی ضرورت نہیں ہے اور خود کو بھی برتر اور کم تر سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ چھت پر بیٹھا ہوا فرد فرش پر بیٹھے ہوئے فرد کو ایسے انداز سے دیکھے کہ وہ اونچا ہے یا فرش والا سمجھے کہ وہ نیچا ہے تو اس سے برتری اور کم تری کا احساس پیدا ہونا آنکھوں کا ہی نہیں بلکہ دل کا بھی نابینا پن ہے۔ ہم یہ سوچتے اور دل سے سمجھتے ہیں کہ اگر ہماری جگہ طالبان ہوتے اور ہم طالبان کی جگہ پر ہوتے تو ہوسکتا ہے کہ زیادہ مظالم کرتے لیکن بس اطمینان کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبیۖ کو فتح نصیب کردی تو ابوسفیان اور اس کی بیوی ہند کیساتھ حسنِ سلوک رکھا اور جب کربلا میں یزید کے لشکر کو موقع ملا تو حضرت حسین ، آپ کے خاندان اور ساتھیوں کو شہید کردیا گیا۔
ہمارے لئے اطمینان اور اعزاز کی بات صرف یہی ہے کہ اللہ نے ہمیں ظلم کا موقع فراہم نہیں کیا تھا۔ جب ہمیں اللہ تعالیٰ موقع دے تو ظلم کرنے سے بھی پناہ دے ۔یہ اس کا احسان ہوگا لیکن اس کو احساس برتری نہیں بلکہ ایک خود اعتمادی کے درجے میں سمجھنا چاہیے۔ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ نے دنیا کیلئے نہیں بلکہ اپنی اس آخرت کیلئے بھی رکھی ہیں جس کے جزا وسزا کا بار بار اللہ نے قرآن میں ذکر کیا ہے اور جب تک آخرت کے میدان میں سرخروئی نہ ملے تو بنوامیہ ، بنو عباس اور خلافت عثمانیہ کی طرح خاندانی خلافتوں کے ملنے سے بھی کچھ حاصل نہ ہوگا۔
لوگوں کو بہت بڑا اعتراض ہے کہ چند مسائل کا بار بار ذکر ہوتا ہے لیکن جب تک یہ حل نہ ہوجائیں تو اگر پوری دنیا میں انقلاب آنا ہے تو ان مسائل کے حل سے ہی آئے گا۔ کیا مدارس اور مساجد میں تین طلاق اور حلالے کے مسائل اب حل ہوگئے ہیں؟۔ اگر نہیں ہوئے ہیں تو پھر جن لوگوں کی عورتوں کو حلالے کے پراسیس سے گزارا جائے تو وہ اس لعنت اور بے غیرتی کے عمل سے گزرنے کے بعد ہمارے انقلاب پر لعنت نہیں بھیجیں گے؟۔ تبلیغی جماعت ہمارے سروں کی تاج اور ہماری محسن ہے اسلئے کہ دین کی طرف دعوت دینے کا اہم فریضہ یہ لوگ ادا کررہے ہیںلیکن جن چھ باتوں کو دہرایا جارہاہے ،اس سے کسی کو ذاتی فائدہ یا نقصان ملتا ہے۔ کیا تین طلاق کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا تو پھر رجوع نہ کرنے میں یا پھر حلالہ کروانے میں کامیابی ہے؟۔ظاہر ہے کسی میں بھی کامیابی نہیں۔
اگر لاالہ الااللہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین دلوں میں آجائے اور غیروں کے حکموں میں ناکامی کا یقین ہمارے دل میں آجائے تو پھر تبلیغی جماعت کے مخلص کارکن جب غصے میں بیوی کو تین طلاق دیتے ہیں اور کسی مفتی اور عالم سے حلالہ کروالیتے ہیں تو غیرت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
کیا کسی صحابی کا ایسا واقعہ ہے کہ اس نے ایک ساتھ تین طلاق دیدئیے ہوں اور نبیۖ نے کسی سے حلالہ کروانے کا حکم دیا ہو؟۔ تبلیغی جماعت والے کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ ۖ کا مطلب اللہ کے رسول کے طریقوں میں کامیابی اور غیروں کے طریقوں میں ناکامی کا یقین ہمارے دلوں میں آجائے۔
اللہ کے احکام قرآن میں ہیں اور اللہ کے احکام پر عمل کا طریقہ سنت ہے۔غسل ، وضو اور نمازکا حکم قرآن میں ہے اور عملی طور پر غسل کرنا، وضو کرنا اور نماز پڑھنا سنت ہے۔ حضرت مولانا محمد الیاس نے اسی مقصد کیلئے جماعت بنائی تھی۔ نماز،غسل اور وضو کے فرائض قرآن وسنت میں نہیں ہیں۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی نے دیوبندی اکابر سے قرآن وسنت کی طرف رجوع کرنے کا راستہ روک لیا تھا۔ فقہی مسائل میں فرائض اور واجبات کا تعلق قرآن وسنت سے نہیں تقلیدی مسائل سے ہے۔ مولانا الیاس کی چاہت تھی کہ مسائل علماء کیلئے چھوڑ دئیے جائیں اور فضائل سے قرآن کے احکام اور نبیۖ کی سنتوں کو زندہ کردیا جائے۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ، حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن، مولانا انور شاہ کشمیری، مولانا عبیداللہ سندھی سب اکابر کا اصلی مؤقف یہی تھا۔ بریلوی مکتبۂ فکر کے لوگ بھی غیرمتنازع تبلیغی جماعت کیساتھ عقیدت ومحبت رکھتے تھے۔ تبلیغی نصاب میں شامل ”فضائل درود” کی وجہ سے ان کی یہ غلط فہمی دور ہوجاتی تھی کہ یہ وہابی لوگ نبیۖ کے دشمن ہیں۔ بعد میں تبلیغی جماعت نے سعودی عرب کی وجہ سے تبلیغی نصاب کا نام” فضائل اعمال” رکھ دیا۔ اور یہ صرف دیوبندی فرقے کی طرف منسوب ہوگئی ۔ حالانکہ اس میں زیادہ تر لوگ بریلوی مکتب سے تبلیغی جماعت کا حصہ بن گئے تھے۔
مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب” بہشتی زیور” کے مقابلے میں بریلوی مکتبہ فکر نے ” بہار شریعت ” کتاب لکھی ہے۔ اس کی ابتداء میں عقیدے کے حوالے سے یہ وضاحت ہے کہ ” نبیۖ اور سارے انبیاء بشر ہیں”۔ اگر اس کتاب پر اتفاق کرلیا جاتا تو دیوبندی بریلوی اختلافات کو اتنی زیادہ ہوا نہیں مل سکتی تھی۔ بہارِ شریعت میں ایک دوسری اہم بات یہ ہے کہ فرائض کی دوقسمیں ہیں ۔ ایک فرائض عینی ہیں۔جیسے نماز، روزہ ، زکوٰة اور حج ۔اس کامنکر کافر ہے ۔ دوسرے فرائض ظنی ہیں جیسے غسل ، وضو اور نماز کے فرائض۔ دلیل کی بنیاد پر ان فرائض سے اختلاف کرنا اور ان کو فرائض نہ ماننا جائز ہے لیکن دلیل کے بغیر ان کا انکار کرنا گمراہی ہے۔ بہارشریعت بریلوی مکتب نے فقہ حنفی کی بنیاد پر لکھی ہے۔
بریلوی مکتب نے دیوبندی اکابر پر اسلئے گمراہی کے فتوے لگائے تھے کہ کسی دلیل کے بغیر فقہی تقلید اور فرائض ظنی کو بدعت قرار دے رہے تھے۔ شاہ اسماعیل شہید نے اپنی کتاب ” بدعت کی حقیقت ” میں تقلیدکو چوتھی صدی کی بدعت قرار دیاتھا۔ اس کتاب پر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری نے تقریظ بھی لکھ دی ہے۔ جبکہ علامہ سید محمد یوسف بنوری کے والد محترم حضرت مولانا محمدزکریا بنورینے فرمایا تھا کہ ” ہندوستان میں فقہ حنفی کی حفاظت مولانا احمد رضا خان بریلوی کی وجہ سے ہوئی ہے”۔ اور مولانا سید محمد یوسف بنوری کے استاذ مولانا انور شاہ کشمیری نے فرمایا تھا کہ ”میں نے قرآن وسنت کی کوئی خدمت نہیں کی ، فقہ کی وکالت میں اپنی ساری زندگی ضائع کردی”۔ اب وقت آگیا ہے کہ مولانا عبدالحق اکوڑہ خٹک، مولانا سید محمدیوسف بنوری ، مفتی محمد شفیع کراچی، مولانا ادریس کاندھلوی، مولانا سید محمد میاں لاہوری اور دیگر پاکستان کے دیوبندی اکابر کے استاذ مولانا محمدانور شاہ کشمیری کی آخری خواہش کو عملی جامہ پہنادیں۔جس کو بہارشریعت کا مکتب بھی دل وجان سے ضرورتسلیم کرلے گا۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن ، مولانا الیاساور مولانا عبیداللہ سندھی نے اسی انقلاب کیلئے جدو جہد فرمائی تھی۔
نبیۖ اور خلافت راشدہ کے دور میں غسل کے فرائض اور اس پر اختلاف کا تصور نہیں تھا۔ حضرت شاہ اسماعیل شہید نے لکھا ہے کہ پہلی تین صدیوں میں جو فقہی مسائل پیدا ہوئے ہیں وہ خیرالقرون میں شامل ہیں۔جس کا حدیث میں ذکر ہے کہ نبیۖ نے فرمایا کہ خیرالقرون قرنی ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم ”بہترین دور میرا ہے اور پھر جو اس کے ساتھ ملے ہوئے لوگ ہیں اور پھر جو اس کے ساتھ ملے ہوئے لوگ ہیں”۔ عام طور پر اس حدیث سے صحابہ کرام ، تابعین اور تبع تابعین مراد لئے جاتے ہیں۔
شاہ ولی اللہ نے لکھا کہ ” اس حدیث میں پہلا دور نبیۖ کا دور تھا۔ دوسرا دور حضرت ابوبکر و حضرت عمر کا تھا اور تیسرا دور حضرت عثمان کا تھا۔ جبکہ حضرت علی کے دور میں خلافت منتظمہ نہیں تھی اسلئے خیرالقرون کے تین ادوار میں آپ کی خلافت کادور شامل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کیساتھ خلافت کا وعدہ کیا تھا اور عربی میں جمع کا اطلاق کم ازکم تین افراد پر ہوتا ہے، پہلے تین خلفاء کیساتھ یہ خلافت کا وعدہ پورا ہوگیا تھا۔ اس سے خوارج خوش ہونگے کہ حضرت علی کے دور کو خلافت سے نکال دیا تو آپ کا دور خلافت راشدہ میں شامل تھا اور قیامت تک کیلئے حضرت علی ایک امام انقلاب کی حیثیت سے قابل اتباع ہیں”۔
مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھا ہے کہ” حضرت شاہ ولی اللہ سے مجھے تھوڑا سا اختلاف ہے۔ میرے نزدیک حضرت ابوبکر کا دور نبیۖ کے دور میں شامل تھا اسلئے کہ نظام میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ دوسرا دور حضرت عمر کا تھا جہاں کچھ تبدیلیاں ہوئی تھیں۔ حفظ مراتب کے اعتبار سے مختلف لوگوں میں مال کی تقسیم کی گئی تھی اور اگرچہ سرمایہ دارانہ نظام نے پورا تسلط قائم نہیں کیا تھا لیکن اس کا پھر بھی آغاز ہوچکا تھا جبکہ حضرت ابوبکر کے دور میں بقدر ضرورت وظائف ملتے تھے۔ سوشلسٹ اور کمیونسٹ نظام میں بھی ایک یہ ہے کہ محنت اور صلاحیت کے مطابق تنخواہ دی جائے اور دوسرا یہ کہ افراد اپنی محنت اپنی صلاحیت کے مطابق ہی کریں لیکن تنخواہ ضرورت کے مطابق لیں۔ گویا حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے نظام حکومت کو مولانا عبیداللہ سندھی نے روس کے دورے کے بعد اپنی بدلی ہوئی نگاہ سے تھوڑا مختلف محسوس کیا تھا اور دیانتداری سے بیان بھی کردیا تھا۔
حدیث میں نبی ورحمت کے دور کا ذکر ہے۔ پھر خلافت راشدہ کا ذکر ہے اور پھر امارت کا ذکر ہے اور پھر بادشاہت کا ذکر ہے اور پھر جبری حکومتوں کا ذکر ہے اور اس اعتبار سے نبوت ورحمت کا دور سب سے اچھا ہے۔ پھر خلافت راشدہ کا دوسرا نمبر ہے اور پھر امارت کاتیسرا نمبر ہے جس میں اگرچہ یزید جیسے لوگ تھے تو پھر امیرمعاویہ، معاویہ بن یزید اورہند زوجہ یزید اور حضرت عمر بن عبدالعزیز جیسے لوگ بھی تھے ،اسی طرح عباسی دور میں بھی اچھے برے لوگ تھے۔ خلافت عثمانی میں بھی اچھے اور برے دونوں قسم کے لوگ تھے اسلئے لوگ خلافت عثمانیہ کھونے پر روتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے عرب وعجم مسلمانوں کیساتھ خلافت کا وعدہ پورا کیا تھا اوراب جمہوری اور جبری دور کے بعد پھر خلافت علی منہاج النبوہ کا دور ہے۔
جب حضرت ابوبکر نے زبردستی زکوٰة کی وصولی کا فیصلہ کیا تو بعض واقعات کی وجہ سے نبوت ورحمت کے دور اور خلافت راشدہ کے دور میں فرق واضح ہوا۔ حضرت عمر کے دور اور حضرت عثمان کے دور میں معاملات مزید آگے بڑھ گئے۔ حضرت علی اور حضرت حسن کے دور میں خلافت راشدہ کا نظام بہت زیادہ فتنوں کا شکار تھا۔ حضرت علی کے حق میںاسلئے بہت ساری احادیث ہیں ،حضرت حسن کی صلح کی توثیق ہے۔ اگر بنو اُمیہ ، بنو عباس، خلافت عثمانیہ و مغل سلطنت اور خاندان غلاماں نے خاندانی بنیاد پر حکومتیں کی ہیں تو بنی فاطمہ نے بھی اقتدار کی منزل حاصل کی ہے۔ حضرت علی، حضرت حسن اور حضرت حسین کے بعد امامیہ کے باقی ائمہ نے بنو اُمیہ اور بنو عباس کے ادوار میں بہت امن و سکون کے ساتھ زندگی گزاری ہے۔ جبکہ امام حسن کی اولاد پر عباسیوں نے مظالم ڈھائے تھے۔
بار امانت میں خود اعتمادی کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ جدوجہد کرنے کے بعد منزل ملے یا نہ ملے لیکن انسان احساس محرومی کا شکار نہ ہو۔ ائمہ اہل بیت کے برعکس ان کے نام لیوا سب سے زیادہ احساس محرومی کا شکار نظر آتے ہیں۔
خلفاء راشدین کے دور میں زبردستی سے زکوٰة کی وصولی کے مسئلے سے بڑا معاملہ نماز کیلئے زبردستی اور سزاؤں کا تصور تھا۔ جس نے اسلام کو اجنبیت میں لوٹادیا۔ جن ظنی فرائض کے تصورات قرآن و سنت اور خلفاء راشدین کے ہاں نہیں تھے ان کا وجود اور ان کی تقلید اسلام کو اجنبیت کی طرف دھکیلنے کی زبردست انتہاء تھی۔ بہار شریعت میں دلیل کے ساتھ غسل ، وضو اور نماز وغیرہ کے فرائض کی مخالفت کا جواز دیا گیا ہے۔ احناف کے نزدیک غسل کے تین فرائض ہیں۔ (1)منہ بھر کر کلی کرنا۔ (2)ناک کی نرم ہڈی تک پانی پہنچانا۔ (3)پورے جسم پر ایک مرتبہ پانی بہانا۔ شوافع کے نزدیک غسل میں پہلے دو فرائض نہیں بلکہ سنت ہیں۔ مالکیہ کے نزدیک جب تک پورے جسم کو مل مل کر نہ دھویا جائے تو فرض پورا نہ ہوگا۔ غرض کسی ایک فرض پر بھی اتفاق نہیں ہے۔ اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ وضو کی آیت کے بعد اللہ نے فرمایا وان کنتم جنبًا فاطھروا ”اگر تم جنبی ہو تو خوب پاکی حاصل کرو” ۔ شوافع کے نزدیک پہلے دو فرائض وضو میں سنت تو غسل میں بھی سنت ہیں۔ احناف کے نزدیک غسل طہارت میں مبالغہ ہے اس وجہ سے پہلے دو فرائض ہیں۔ مالکیہ کے نزدیک جب تک مل مل کر پورا جسم نہیں دھویا جائے تو طہارت میں مبالغے پر عمل نہیں ہوگا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ولا جنبًا الا عابری السبیل حتیٰ تغتسلوا ”اور نہ نماز کے نزدیک جنبی حالت میں جاؤ مگر یہ کہ کوئی مسافر ہو یہاں تک کہ نہالو”۔ اس آیت سے نہانے کو فرض قرار دیا گیا ہے اور وضو کے مقابلے میں نہانا طہارت میں مبالغہ ہے ۔
رسول اللہ ۖ ، خلفاء راشدین ، صحابہ کرام اور مدینہ کے سات فقہاء تابعین نے اس طرح کے ظنی فرائض بنانے اور اس میں اختلافات ڈالنے کی حماقت نہیں کی ہے۔ اگر بریلوی مکتبہ فکر کو دلیل کی بنیاد پر سمجھایا جائے تو وہ ماننے کو بھی تیار ہوجائیں گے۔ افغانستان میں دیوبندی مکتبہ فکر کے طالبان کی حکومت قائم ہوگئی ہے اور اب وہ دلیل کے ساتھ نہ صرف قرآن و سنت کی طرف متوجہ ہوسکتے ہیں بلکہ پوری دنیا میں ایک زبردست انقلاب لاسکتے ہیں اسلئے کہ مولوی بیچارہ ایک کمزور حیثیت رکھنے والا شخص ہوتا ہے جس کو نماز پڑھانے کیلئے محلے والے تنخواہ پر رکھتے ہیں۔ اور جب اس سے کوئی اختلاف ہوجاتا ہے تو اس کو مسجد سے بھگادیتے ہیں۔ طالبان کے پاس اقتدار ہے اور اس اقتدار کا درست استعمال بہت ضروری ہے۔ تین طلاق سے رجوع اور حلالہ کے بغیر باہمی اصلاح کیلئے ہم نے بفضل تعالیٰ بہت تفصیل سے دلائل دئیے ہیں۔ اگر طالبان اس کو سمجھ کر حلالہ کے خاتمے کا اعلان کریں گے تو ہندوستان اور پاکستان کی حکومتیں اور عوام ان کے اس اقدام کو بہت زبردست خراج تحسین پیش کریں گی۔
جب لوگوں کو معلوم نہیں تھا تو عورتوں کو حلالہ کے ذریعے سے زندہ دفن کرنا اور میاں بیوی کے درمیان جدائی پیدا کرنا ایک جاہلانہ مجبوری تھی۔ اب جب یہ ثابت ہوگیا ہے کہ قرآن و سنت میںمروجہ حلالے کا کوئی تصور نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے عدت کے اندر ، عدت کی تکمیل پر اور عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعد بھی بار بار معروف طریقے سے باہمی رضامندی کی بنیاد پر رجوع کی اجازت دی ہے تو اللہ اور اس کے رسول ۖ کی ناراضگی کا طالبان وزیر اعظم کا خواب میں دیکھنا ایک تنبیہ ہے جس کو سُود کو جواز فراہم کرنے والے نہیں سمجھ سکتے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

سلطنتِ عثمانیہ نے اپنا بینک ماتحت کیا توعالمی بینک نے پیسہ روک کر اسکا خاتمہ کردیا ۔مولانا فضل الرحمن ۔

سلطنتِ عثمانیہ نے اپنا بینک ماتحت کیا توعالمی بینک نے پیسہ روک کر اسکا خاتمہ کردیا ۔مولانا فضل الرحمن ۔

جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن کا سوشل میڈیا پر مختصربیان ہے کہ جب عالمی ایمپائر سلطنت عثمانیہ نے اپنے بینک کو عالمی بینک کے تابع کردیا جب سلطنت عثمانیہ کو پیسوں کی ضرورت پڑی تو عالمی قوتوں نے اپنے بینکوں سے بھی پیسہ نہیں لینے دیا جس کی وجہ سے ایک عالمی ایمپائر سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا۔ جس کی حکومت عرب سے افریقہ تک پھیلی تھی۔ اتنی بڑی سلطنت بینکوں کے نظام کی وجہ سے گرگئی تو پاکستان کی کیا حیثیت ہے؟۔ پچھلے عرصے میں جب میں نے کہا تھا کہ پاکستان جب عالمی اداروں کا مقروض ہوگا تو پھر عالمی قوتوں کی کالونی کے علاوہ پاکستان اور کچھ نہیں ہوگا۔ جس پر ایک صحافی اینکر نے ٹوئٹ کیا تھا کہ مولانا فضل الرحمن اتنا بے خبر ہے؟۔ پاکستان تو عالمی قوتوں کی کالونی بن چکا ہے اور اس کی خبر مولانا فضل الرحمن کو کیا نہیں ہے؟۔

تبصرہ: نوشتۂ دیوار …عبدالقدوس بلوچ
وزیر اعظم عمران خان نے بلدیاتی انتخابات کیلئے پٹرول سستا کیا تھامگر مولانا فضل الرحمن کو بلدیاتی انتخابات کی واضح جیت مبارک ہو۔ جنرل ضیاء کا مارشل لاء تھا تو مولانا کہتے تھے کہ فوج آنکھوں کی پلکیں ہیں جو ملک کی زینت اور حفاظت کا ذریعہ ہیں۔ پلکوں کا بال آنکھ میں گھسے تو برداشت نہیں ہوتا۔ اب تو تمام پلکیں گھس گئیں۔ یہ دلیل نہیں کہ ملک کی حفاظت فوج کرتی ہے تو حکمرانی کا حق بھی اسی کو ہے۔ چوکیدار کو تنخواہ اور اسلحہ دیا جائے اور وہ قابض ہوجائے تو یہ بدمعاشی ہے۔ مفتی محمود کی وفات کے بعدMRDمیں شمولیت کو علماء ومفتیان نے کفر قرار دیا، اسلئے کہ اس میں پیپلزپارٹی شامل تھی۔1985ء نشتر پارک کراچی میںMRDکے جلسے کاBBCنے کہا تھا کہ ”یہ جمعیت علماء اسلام کا جلسہ لگ رہا تھا”۔88ء کے الیکشن میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نے غلام اسحاق خان کو صدارت کیلئے ووٹ دیا اور جمعیت علماء نے نوابزادہ نصراللہ خان کو۔ پھر جب نوازشریف کو تحریک عدم اعتماد کیلئے اسامہ بن لادن کی طرف سے رقم مل گئی تو چھانگا مانگا میں منڈی لگائی، پیپلزپارٹی نے ارکان کو سوات کے ہوٹل میں رکھاتھا ۔ جے یو آئی ف کے ارکان اسمبلی کھلے عام اسلام آباد میں گھوم رہے تھے ،ان کو خریدنے کا تصور نہیں ہوسکتا تھا۔ بشریٰ بیگم کا سسر غلام محمد مانیکا وغیرہ نے مسلم لیگ کو چھوڑ کر پیپلزپارٹی کا ساتھ دیا۔ مولانا فضل الرحمن کو لیبیا کے صدر قذافی نے اسلامی یونیورسٹی جامعہ معارف الشرعیہ کیلئے رقم دینی تھی اور دھمکی دی کہ اگر تحریک عدم اعتماد میں حصہ لیا تو رقم نہیں ملے گی۔ مولانا کو اپنوں نے مشورہ دیا کہ یونیورسٹی بنانا زیادہ بہتر ہے لیکن مولانا نے اپنا ضمیر نہیں بیچا اور تحریک عدم اعتماد میں بھرپور حصہ لیا جس کی وجہ سے آج تک یونیورسٹی کی بلڈنگ ادھوری ہے جس میں ایک چھوٹا مدرسہ چل رہاہے۔ پھر اسلامی جمہوری اتحاد بنا تو نوازشریف کو لایا گیا اور اصغر خان کیس کا 16سال بعد فیصلہ ہونا تھا مگر اس کی فائل بند کردی گئی۔ پرویزمشرف وردی کو اپنی کھال قرار دیتاتھا مگر متحدہ مجلس عمل سے معاہدے کے تحت وردی اترگئی۔ اگر پیپلزپارٹی نہ ٹوٹتی تو مولانا فضل الرحمن کئی ووٹوں سے وزیراعظم بنتے۔ ق لیگ نے ایک ووٹ سے ظفراللہ جمالی ، چوہدری شجاعت اور شوکت عزیزکو وزیراعظم بنادیا تھا۔ پیپلزپارٹی میں جمہوری غیرت ہوتی توق لیگ کے مقابلے میں مولانا کو ووٹ دیتی۔ ایک سیٹ جیتنے والا کم عقل انسان عمران خان وزیراعظم بن گیا تو مولانا فضل الرحمن کیوں نہیں؟۔
مولانا فضل الرحمن کو شیخ الہند مولانا محمود الحسن کی طرح آخری وقت میں مسلم اُمہ کو قرآن سے استفادہ اور فرقہ پرستی سے کنارہ کشی کا واضح پروگرام دینا چاہیے شاہ ولی اللہ سے مولانا عبیداللہ سندھی تک کی روح قرآن و سنت سے زندہ کرسکتے ہیں۔ تمام مکاتبِ فکر کے علماء ومفتیان کو حق کیلئے ایک پلیٹ فارم پر لانا اور بڑے پیمانے پر ووٹ لیکر نظام بدلنااور وزیراعظم بنناکوئی مشکل نہیں ہے ۔
خیبر پختونخواہ تبدیلی اور انقلاب کی علامت ہے لیکن اس سیاست میں عوام حصہ دار نہیں ،یہ پارٹیوں کا مسئلہ ہے۔ نوازشریف نے زرداری کے مقابلے میںIMFسے ڈبل قرضہ لیکر دفاعی بجٹ سے سودڈیڑھ گنا زیادہ کیا ،جس کی ہم نے نشاندہی کی تھی۔ عمران خان نے سودی رقم نوازشریف سے بھی دگنی کرکے دفاعی بجٹ کے مقابلے میں تین گنا کردی ۔ جب ٹیکسوں کے تمام محصولات کے قریب سود ہو تو ملک کا نظام کیسے چلے گا؟۔ جن جرنیلوں ، سیاسی قائدین ورہنماؤں ، ججوں، سول بیوروکریسی کے افسران اور صحافیوں نے یہاں سے بے تحاشا پیسہ کماکر بیرون ملک انویسٹ کردیا، وہ اپنی آدھی رقم سودی قرضہ چکانے میں دیں اور آدھی پاکستان کی تعلیم وترقی میں لگائیں جس کی بنیاد پر یہاں امن امان کی فضاء قائم ہوگی اور ہماری ترقی بھی مثالی ہوگی۔ اگرIMFکے سودی قرضے کو اسلامی بینکاری کے اصولوں سے حیلہ کرکے نام نہاد اسلامی بنایا جائے تو کیا قوم و ملک کو ریلیف ملے گا؟۔ ہرگز نہیں! تو پھر اسلام کو کیوں بدنام کیا جا رہاہے؟۔ سودی نظام سے زکوٰة کی کٹوتی کو مفتی محمود سود اور مولانافضل الرحمن اس کو شراب کی بوتل پر آب زم زم کا لیبل قرار دیتے تھے۔ نام نہاد اسلامی بینکاری کے شیخ الاسلام اور مفتی اعظم مفتی منیب الرحمن کم ازکم وفاق المدارس اور تنظیم المدارس کے سربراہ کے اہل نہ تھے۔ مدارس کو ڈکٹیٹرنہیںجمہوری اندازمیں چلانا تھا۔ مفتی تقی عثمانی کے سودی حیلے کی اسکے استاذ مولانا سلیم اللہ خان سابق صدر وفاق المدارس اورعتیق گیلانی کے استاذ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر سابق صدر وفاق المدارس پاکستان سمیت شیخ الحدیث مفتی زر ولی خان اور تقریباً سب دیوبندی مکتب کے علماء نے مخالفت کی تھی۔ مولانا محمد امیر بجلی گھر کہتے تھے کہ ایک عورت نے دوسری سے کہا کہ ” خورے قیامت شو”۔ بہن قیامت ہوگئی۔ دوسری نے کہا کہ کیوں ؟ تو اس نے کہا کہ ” ابا میں ملک شو” کہ میرا باپ ملک بن گیا۔ یعنی قحط الرجال آگیا کہ گاؤں والوں کو دوسرا چوہدری نہیں ملا تو میرا باپ چوہدری بنادیا گیا اور یہ قیامت کی نشانی ہے۔ مفتی محمود کے دور میں مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی محمد رفیع عثمانی نے سود سے زکوٰة کی کٹوتی کو جائز قرار دیا تو دونوں کی حیثیت نہ تھی۔ پھر سودکو جواز بخشا تو سب مخالف تھے۔ اگر مذہبی حیلہ سازوں کو آگے لایا جائے اور سیاسی اعتبار سے دوسری سیاسی جماعتوں جیسی روش اپنائی جائے تو پھر اسلام کے نام پر علماء ومفتیان سے لوگ نفرت کریں گے۔
موجودہ مذہبی،ریاستی اور سیاسی نظام ناکام ہے اور پاکستان سے انقلاب کیلئے ایسا پلیٹ فارم ضروری ہے کہ اگر حکومت نہ بھی ملے تو معاشرے میں مذہبی و معاشی بنیادپر انقلاب برپا ہوجائے لیکن جب سود اسلامی ہوجائے تو پھرکیا چیز غیر اسلامی ہوگی؟۔ جمعیت علماء ہند کے مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ نے ضخیم کتاب لکھ کر سنت نماز کے بعد اجتماعی دعا کو بدعت قرار دیا۔ اندرون سندھ جمعیت علماء اسلام کے مراکز ہالیجی شریف، امروٹ شریف اور بیرشریف میں اسی بدعت پر عمل ہے۔ راشد محمود سومرو کے باپ دادا تذبذب کا شکار تھے کہ کیا سنت اور کیا بدعت ہے؟۔ خیبرپختونخواہ ، بلوچستان میں بھی دیوبندی اس بنیاد پر ایکدوسرے پر بدعتی اور قادیانی کے فتوے لگاتے تھے اور افغانستان میں بھی اس بدعت کا فتویٰ قبول نہیں کیا گیا تھا۔ تبلیغی جماعت والے رائیونڈ اور بستی نظام الدین میں ایسے تقسیم ہیں کہ ایکدوسرے کو اپنے مراکزمیں نہیںچھوڑتے اور دیگر ملکوں کی مساجد میں بھی ایکدوسرے کو نہیں چھوڑ تے ۔ فرقہ وارانہ جماعت بندی اور گروہ سازی کا راستہ قرآن وسنت کی طرف رجوع کرنے سے رُک سکتا ہے۔
سود کی آیات نازل ہوئیں تو نبیۖ نے مزارعت کو سود قرار دیا۔ جاگیر دار اپنی زمینوں کو خود کاشت کریں تو حرام خوروں کی صحت ٹھیک ہو گی اور کاشتکاروں کو مفت زمین ملے تو غربت وبیروزگاری بھی ختم ہو گی۔ قرآنی آیات سے ہماری دنیا روشن ہوسکتی ہے۔ سودی نظام کے خلاف آگ چھوئے بغیر بھی قرآنی آیات کا چراغ بھڑک کر جل اٹھ سکتا ہے۔ ندیم احمدقاسمی کا شعر ہے کہ
رات جل اٹھتی ہے شدت ظلمت سے ندیم لوگ اس وقفہ ماتم کو سحر کہتے ہیں
تاریخ کا تاریک ترین اندھیرا ہے۔ مذہبی روایات ، تعلیمات،معاشیات، ریاستی معاملات، سیاسیات اور اخلاقیات سب کچھ انتہائی درجہ تباہ ہیں۔مفتی تقی عثمانی کے اکابر مولانا درخواستی اورجمعیت علماء اسلام کے رہنما کہتے تھے کہ انگریز نے تنخواہ دیکر اپنے جاسوس مولانا احتشام الحق تھانوی کو پڑھایاکہ معلوم کریں کہ دارالعلوم دیوبند میں بغاوت کی تعلیم دی جاتی ہے؟اس جاسوس نے لکھا کہ مجھے نااہل سمجھو یہاں بغاوت کی تعلیم نہیں دی جاتی۔ پھریہ مشن ملا کہ دارالعلوم دیوبند کی ہر تحریک کی مخالفت کریں۔
حضرت مولانا مفتی محمود فرماتے تھے کہ دنیا کی امامت کیلئے دنیاوی اور دینی تعلیم دونوں ضروری ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا دینی تعلیم یافتہ طبقہ دین اور دنیاوی تعلیم یافتہ طبقہ اپنی فنی تعلیم سے بھی جاہل ہے اور اب جہالت کا غلبہ بڑھتا جارہاہے اسلئے کہ پہلے قابلیت پر ڈگری ملتی تھی اور اب پیسوں سے ڈگریاں لی جاتی ہیں۔ قومی اسمبلی کے کئی مرتبہ ممبر رہنے والے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے پاس ڈاکٹر کی ڈگری نہیں لیکن ڈاکٹر اسکے نام کیساتھ اس کی شناخت ہے۔
تین طلاق اور حلالہ کے حوالے سے عتیق گیلانی نے دھیان نہیں دیاتھا تو کئی واقعات پیش آئے مگر حلالہ کی لعنت کا فتویٰ نہ دیا، ایک ساتھی عیسائی سے مسلمان ہوا تھا اور اسکے چھوٹے بچے تھے۔ ایک نے اہلحدیث سے رجوع کا فتویٰ لیا تھا تو تنقید نہ کی لیکن کراہت تھی کہ اس نے اچھا نہیں کیا۔ ایک نے حلالے پر اصرار کیا تو اس کو منع کردیا لیکن اس نے پھر جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی سے فتویٰ لے لیا اس فتوے میں لکھا تھاکہ ” طلاق کا حق عورت اپنے پاس رکھے تاکہ جب طلاق لینا چاہے تو اس شوہر کو چھوڑ سکے”۔ جامعہ دارالعلوم کراچی کے فتوے میں طلاق کا اختیار حلالہ کرنے والے لعنتی مولوی کے پاس رہتا ہے جس سے عورت کوجتنا مرضی وہ بلیک میل کرسکتا ہے اور خواتین اور حلالے کروانے والے اسکے شوہر اس کی بدمعاشی کا شکار ہونے کے بعد کسی سے اس کا تذکرہ بھی نہیں کرسکتے ہیں۔
دارالعلوم دیوبند کے اکابر کی مخالفت اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضاخان بریلوی قندھاری نے کی تھی۔ دارالعلوم دیوبند سے نمازکی سنتوں کے بعد دعا بھی بدعت قرار دی گئی تو مولانا احمدرضاخان نے اس تحریک کو اکابر کیخلاف زہرقرار دیا تھا۔ شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے ”بدعت کی حقیقت”میں فقہی تقلید کو بدعت قرار دیا۔ اس وقت حجاز پر وہابیوں کی حکومت نہیں تھی اسلئے مولانا احمدرضا خان بھی حرمین کے علماء سے فتویٰ لینے میں کامیاب ہوگئے۔ دیوبند کے اکابر نے اس فتوے کے خوف سے اپنی دُم ایسی گھسیڑدی کہ آج تک نہ نکال سکے۔ بریلوی سے مفتی تقی عثمانی کا باپ اور استاذ دیوبند کیلئے زیادہ خطرناک تھے ۔70ء میں جمعیت علماء اسلام پر بھی کفر کا فتویٰ لگادیا تھا۔ جامعہ دارالعلوم کراچی اور جامعة الرشید دراصل دارالعلوم دیوبند کا مدِمقابل اور ضد ہیں۔اسلامی شعار کی حفاظت کیلئے دارالعلوم دیوبند کا وجود ناگزیز تھا لیکن اب سودتک بھی حلال کردیا گیاہے۔
جب نوازشریف کے دور میں دفاع کے بجٹ سے ڈیڑھ گنا صرف سودی رقم بڑھ گئی تھی تو فوج نے اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ لینا بھی چھوڑ دیا۔ پھر فوج نے ٹول ٹیکس وغیرہ کے ٹھیکے لینا شروع کردئیے۔ اگر نوازشریف سی پیک کے مغربی روٹ کو نہ بدلتا جو مولانا فضل الرحمن نے زرداری کیساتھ مل کر چین کیلئے طے کیا تھا تو آج اس پر گوادر سے چین کیلئے ٹریفک ہوتی۔ جس سے بڑی تعداد میں ٹول ٹیکس کی مدمیں بھی پیسہ آنا شروع ہوجاتا۔ اور ایران کیساتھ جو گیس پائپ لائن کا معاہدہ زرداری نے کیا تھا، اگر اس پر نوازشریف کے دور میں عمل درآمد ہوجاتا تو پاکستان کو بھی قطر سے مہنگی اور وقتی گیس لینے کی ضرورت نہ پڑتی اورہندوستان کوبھی گیس پاکستان کے راستے سے جاتی ۔ ایرانی گیس و تیل سے ہندوستان کو بھی امریکہ کے مقابلے میں اپنے قریب کیا جاسکتا تھا۔ آج روس سے بھارت نے دفاعی سسٹم خرید لیا ہے جس سے ہمارے میزائل کا خطرہ بھی نہیں رہے گا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

 

دو دل والا بچہ سہون شریف سندھ میں قرآن میں کسی شخص کے سینے میں دو دل نہ ہونے کی درست تفسیر

دو دل والا بچہ سہون شریف سندھ میں
قرآن میں کسی شخص کے سینے میں دو دل نہ ہونے کی درست تفسیر

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
چیف ایڈیٹر: اخبار نوشتہ دیوار کراچی

مَّا جَعَلَ اللَّہُ لِرَجُلٍ مِّن قَلْبَیْنِ فِی جَوْفِہِ وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَکُمُ اللَّائِی تُظَاہِرُونَ مِنْہُنَّ أُمَّہَاتِکُمْ وَمَا جَعَلَ أَدْعِیَائَکُمْ أَبْنَائَکُمْ ذَٰلِکُمْ قَوْلُکُم بِأَفْوَاہِکُمْ وَاللَّہُ یَقُولُ الْحَقَّ وَہُوَ یَہْدِی السَّبِیلَ (الاحزاب:4)

اللہ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں بنائے اور نہ تمہاری ان بیویوں کو تمہاری مائیں بنایا ہے جن سے تم نے ظہار کیا ہے۔ اور نہ تمہارے لے پالکوں کو تمہارے بیٹے بنایا ہے۔ یہ تمہارے منہ کی باتیں ہیں اور اللہ حق کہتا ہے اوروہ راستہ دکھاتا ہے۔الاحزاب

ٹی وی24چینل میں11نومبر2021کی رپورٹ۔
10نومبر2021کو ڈسٹرکٹ ہسپتال عبداللہ شاہ میڈیکل انسٹیٹیوٹ سہون شریف سندھ میں6سالہ بچہ کامران رند گاؤں قاضی احمدسے تکلیف کے باعث لایا گیا۔ چیک اپ کے بعد قدرت کے اس کرشمے کا انکشاف ہوا کہ بچے کے دو دل ہیں اوردونوں دل بالکل نارمل طریقے سے کام کررہے ہیں۔ اتفاق سے ہم نے پچھلے شمارے میں یہی لکھا تھا کہ قرآن میں” اللہ نے کسی آدمی کے سینے میں دو دل نہیں بنائے ہیں”کا مطلب یہ نہیں کہ ”میڈیکل کے لحاظ سے دو دل نہیں ہوسکتے۔ یہ ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کے دو دل ہوں”۔ ہوسکتا ہے کہ کئی لوگ پہلے بھی دودل والے گزرے ہوں۔ اگر بچے کا اتفاقیہ دل کا چیک اپ نہ ہوتا تو پھر پتہ بھی نہ چلتا۔
الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے چینل ہر چیز کا بہت مثبت اور منفی انداز میں زبردست پروپیگنڈہ کرنے کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ کوئی انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی سے نوازشریف کو بے گناہ ثابت کرتا ہے اور کوئی گناہگار لیکن حقائق کی طرف دھیان نہیں دیتے۔ قائداعظم محمد علی جناح کا نمازِ جنازہ پڑھانے والے شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانی نے تفسیر عثمانی میں لکھ دیاہے کہ” کسی کے دو دل نہیں ہوسکتے ،ورنہ تو کسی کا سینہ چیر کر دیکھ لیا جائے تو ایک ہی دل نکلے گا”۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

تبلیغی جماعت پر سعودی عرب کی طرف سے پابندی اور اس پرتبلیغی جماعت سمیت مختلف لوگوں کا ردِ عمل لیکن اصل بات اور اسکے اصل حقائق!

تبلیغی جماعت پر سعودی عرب کی طرف سے پابندی اور اس پرتبلیغی جماعت سمیت مختلف لوگوں کا ردِ عمل لیکن اصل بات اور اسکے اصل حقائق!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
چیف ایڈیٹر: اخبار نوشتہ دیوار کراچی

سعودی عرب نے تبلیغی جماعت اور دوسری تنظیموں پر کھلم کھلا اعلان کرکے نہ صرف پابندی لگائی ہے بلکہ جمعہ کے خطبات میں تبلیغی جماعت پر شدید الزام تراشی بھی کی ہے۔ شرکیہ عقائد کی تشہیر ، قبرپرستی، قرآن وسنت اور علماء حق سے دوری کے علاوہ ضعیف احادیث اور جھوٹے قصے کہانیاں سے عقائد بگاڑنے کا الزام بھی لگایا ہے۔ تبلیغی جماعت کے نصاب میں پہلے فضائل درود شریف شامل تھا جس کا مولانا زکریا نے اپنی ”آپ بیتی” میں لکھا ہے کہ ” رسول اللہ ۖ نے خواب میں فرمایا کہ زکریا اپنے معاصرین میں فضائل درود کی وجہ سے سبقت لے گیا ہے”۔
تبلیغی جماعت نے سب سے پہلے سعودی عرب کے علماء اور حکمرانوں کو خوش کرنے کیلئے اپنے نصاب سے فضائل درود کو نکال دیا اور تبلیغی نصاب کی جگہ اس کا نام بھی ” فضائل اعمال ” رکھ دیا۔ مولانا محمد الیاس بانی تبلیغی جماعت کے ایک بہت اہم ساتھی مولانا احتشام الحسن کاندھلوی نے تبلیغی جماعت میں نہ صرف بہت ساتھ دیا تھا بلکہ ان کی کتاب ” موجودہ پستی کا واحد علاج ” بھی نصاب کا حصہ تھا ۔ جب مولانا الیاس کے انتقال کے بعد آپ کے صاحبزادے مولانا محمد یوسف کاندھلوی کو تبلیغی جماعت کا امیر بنایا گیا تو صاحبزادہ حضرت جی مولانا یوسف نے جماعت میں کوئی وقت نہیں لگایا تھا لیکن اچھے عالم دین تھے اور جب وہ مولانااحمد علی لاہوری کے پاس گئے تو مولانا لاہوری نے ان سے فرمایا تھا کہ ” جس دن اس جماعت نے یہ سمجھنا شروع کیا کہ دین کا بس صرف یہی کام ہے ۔ مدارس، خانقاہوں اور دوسری مذہبی وسیاسی جماعتوں کو اہمیت دینی چھوڑ دی تو اس کا زوال شروع ہوجائے گا”۔
حضرت جی مولانا محمد یوسف کے دور میں تبلیغی جماعت اپنی روح پر کاربند تھی لیکن جب مولانا انعام الحسن کو امیر بنایا گیا تو تبلیغی جماعت نے اپنے اصل کام سے انحراف شروع کردیا۔ مولانا احتشام الحسن کاندھلوی نے سب سے پہلے مخالفت شروع کردی اور یہ لکھ دیا کہ ” پہلے بہت ساری چیزوں کی پابندی کیساتھ جماعت کو اس کام کی شریعت میں اجازت تھی لیکن اب بہت ساری خرابیاں کی وجہ سے تبلیغی جماعت اس بات کی اہل نہیں رہی ہے کہ شریعت میں اس ترتیب کیساتھ اس کو کام کرنے کی اجازت ہو”۔ مولانا احتشام الحسن کاندھلوی مولانا الیاس کے ساتھی اور خلیفہ تھے۔علماء دیوبند کے اکابر حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے مرید وخلفاء تھے اور بریلوی دیوبندی اختلافات میں 7اہم اور بنیادی مسائل پر انہوں نے کتاب بھی لکھی تھی جو دیوبندی وبریلوی دونوں مکتبۂ فکر کیلئے قابل قبول تھی۔ دیوبندی فکر کے لوگ ان سات مسائل کو بدعت اسلئے سمجھتے تھے کہ ” شریعت میں ان کا جواز تھا لیکن بہت سارے لوگوں نے ان کو فرض وسنت کا درجہ دے رکھا تھا”۔ جب تبلیغی جماعت کا بھی وہی حال ہوا تو مولانا احتشام الحسن کاندھلوی نے اس جماعت کے خلاف بھی شریعت کا تقاضہ سمجھ کر آواز اُٹھائی تھی لیکن تبلیغی جماعت نے اس آواز کو دبا دیا۔ اگر دیانتداری سے یہ آواز تبلیغی جماعت کے اکابر اور کارکن حضرتات عوام تک پہنچادیتے تو شاید تبلیغی جماعت بے اعتدالی سے ہٹ کر اعتدال پر آجاتی۔
جب تبلیغی جماعت اپنے ہٹ پر قائم رہی تو شیخ الحدیث مولانا زکریا اور آپ خلفاء نے تبلیغی جماعت کی اصلاح کیلئے کوشش شروع کردی۔ مولانا محمدالیاس کے اس قول کی تشہیر ایک خط کے ذریعے سے شروع کردی کہ ” اس جماعت کے دو پَر ہیں،ایک علم اور دوسرا ذکر۔ اگر جماعت میںعلماء ومشائخ کے کام کی اہمیت نہ رہے تو پھر اس کا مٹانے والے مولانا الیاس کے اصل نمائندے ہوں گے”۔ آج مولانا زکریا کے خلفاء اور مریدوں کی اکثریت تبلیغی جماعت کی سخت خلاف ہے۔
تبلیغی جماعت کے ایک اکابر مولانا جمیل احمد صاحب نے ایک مسجد کے امام کو اس پر بات پر اپنے فون پر بہت ڈانٹا ہے کہ” تمہارا عقیدہ علماء دیوبند کا نہیں ہے اسلئے کہ علماء دیوبند اس بات کے قائل ہیں کہ رسول اللہ ۖ اپنی قبر میں اس دنیاوی حیات کے ساتھ زندہ ہیں اور آپ برزخی حیات کے قائل ہیں اسلئے تمہارا عقیدہ علماء دیوبند کے خلاف ہے اور علماء دیوبند کے لبادے میں چھپ کر تمہیں مسجد کے انتظامیہ کو ہٹادینا چاہیے۔ تمہارے پیچھے ہماری نماز نہیں ہوتی ہے”۔
مولانا منظور مینگل نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ ” حاجی عبدالوہاب کے سامنے ایک تبلیغی عالم نے کہا کہ حاجی عبدالوہاب کی روح عزائیل نے نکال دی توحاجی صاحب سے فرشتوں نے سوال کیا کہ تمہارا رب کون ہے؟، رسول کون ہے؟ اور تمہارا دین کیا ہے؟۔ حاجی عبدالوہاب نے کہا کہ مجھے مولانا الیاس، مولانا یوسف اور مولانا انعام الحسن کے پاس بستی نظام الدین پہنچادو۔ جس پر فرشتے بھی لاجواب ہوگئے اورحاجی صاحب کو انہوں نے دوبارہ زندہ کردیا”۔
نبیۖ نے فرمایا کہ ” المر ء مع من احب :آدمی اس کے ساتھ ہوتا ہے جس سے اس کی محبت ہوتی ہے”۔ایک حدیث میں آتا ہے کہ قبر میں نبیۖ کی زیارت کرائی جائے گی اور پوچھا جائے گا کہ وماتقول فی ھٰذا الرجل ” اور اس شخص کے بارے میں آپ کیا کہتے ہو؟”۔ مسلمان اس نبیۖ کو پہچان کر گواہی دے گا کہ خاتم النبین رحمة للعالمینۖ ہیںاور غیرمسلم کہے گا کہ” لاادری : میں نہیں جانتا ہوں” ۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حاجی عبدالوہاب پر ایک کیفیت یہی طاری کردی ہو کہ موت کے بعد رب، نبی اور دین کے بارے میں پوچھا جائے گا تو اس کو بستی نظام الدین بھارت کے اکابر کے علاوہ کچھ بھی سوجھائی نہیں دیتا ہو تاکہ وہ زندگی میں اپنا قبلہ درست کرلے اور تبلیغی جماعت کے اکابر اور اسکے کارکن اس سے عبرت پکڑ لیں۔ جب مولانا منظور مینگل نے بھی تبلیغی جماعت کے اہم ترین اکابر حاجی عبدالوہاب اور انکے اردگرد کے ماحول کے بارے میں یہ نشاندہی کی تھی تو یہ بات یاد رکھنی چاہیے تھی کہ موت کے بعد دنیاوی حیات نہیں برزخی حیات شروع ہوتی ہے۔ اگر دنیاوی حیات ہوتی تو پھر نماز ، وضو، پوٹی پیشاب اور کھانا کھانے کی گنجائش بھی قبر میں چھوڑدی جاتی اور تعففن سے شاید عقیدہ بھی درست ہوجاتا ۔
سعودی عرب کے وہابی علماء کا بھی یہ عقیدہ ہے کہ رسول اللہ ۖ اپنی قبر میں دنیاوی حیات نہیں بلکہ برزخی حیات کے ساتھ زندہ ہیں تو تبلیغی جماعت اپنا عقیدہ سعودی عرب میں کیوں چھپاتی ہے؟۔ پہلے تبلیغی جماعت نے فضائل درود کی وجہ سے بہت سارے بریلوی مکتبۂ فکر کے لوگوں کو اپنا شکار بنایا لیکن جب سعودیہ سے خوف کھانے کی وجہ سے اپنے نصاب سے ” فضائل درود ” کو نکال دیا تو مسلمانوں کی مشترکہ جماعت کی جگہ اس پر دیوبندی فرقے کا لیبل لگ گیا۔ بریلوی نے پھر اپنی دعوت اسلامی بنائی اور اہلحدیث نے بھی اپنی نئی تبلیغی جماعت بنائی۔
قرآن کریم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا ذکر ہے جس میں اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرنا، ابرص کے مریضوں اور مادر زاد اندھوں کو ٹھیک کرنا بھی شامل تھالیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ قرآن شرک کی تعلیم دیتا ہے اور اگر یہ قرآنی آیات نہ ہوتی تو محمد بن عبدالوہاب کے جاہل پیروکار اس کو بھی شرکیہ اعتقادات سمجھ کر قرآن کے واقعات پر پابندی لگوانے سے دریغ نہ کرتے۔ دیوبند کے اکابرین نے پہلے محمد بن عبدالوہاب کی سخت مخالفت کی تھی لیکن جب سعودیہ کی حکومت قائم ہوگئی تو ان کے علم ، کشف اور شرح صدر کا محور بدل گیا تھا۔ اگر اسلام میں قبر کی مخالفت ہوتی تو نبیۖ اور پہلے دو خلفاء حضرت ابوبکر و حضرت عمر کی قبر کا حضرت عائشہ صدیقہ کے حجرے میں ہونا ہی اسلامی احکام کی بیخ کنی ہوتی لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جس طرح انسان کی پیدائش، تخلیق اور اس کیلئے راستہ آسان ہونے کو احسان کے طور پر جتلایا ہے ، اسی طرح فاماتہ و اقبرہ اور اس کو پھر موت دیدی اور قبر دیدی کو بھی احسان کے طور پر شمار کیا ہے۔
تبلیغی جماعت کتنی پرامن اور غیر مضر ہے؟ ۔تو اس کا حال تبلیغی جماعت کے اندر ہی سے لیا جائے۔ ہندوستان میں اس کا عالمی مرکزبستی نظام الدین میں ہے۔ پاکستان میں اس کا مرکز رائیونڈ میں ہے۔ افریقہ میں بھی رائیونڈ کی جماعت والے بستی نظام الدین مولانا الیاس کے پڑپوتے مولانا سعد کی جماعت والوں وہاں کام نہیں کرنے دیتے ہیں جہاں ان کا بس چلتا ہے۔ جب یہ ایکدوسرے کے مراکز میں خود ایکدوسرے کو نہیں چھوڑتے ہیں اور جس مسجد میں ان کا غلبہ ہوتا ہے وہاں پر قرآن کا درس بھی نہیں ہونے دیتے ہیں تو دوسروں سے گلہ کرنے کے بجائے پہلے اپنے طرزِ عمل پر بھی غور کریں۔ بستی نظام الدین اور رائیونڈ کے مراکز میں اختلاف کے باوجود جس تبلیغی جماعت کے اکابر اور کارکنوں کی آنکھیں نہیں کھلتی ہیں تو یہ سچ قرآن میں اللہ نے لکھ دیا ہے کہ ” اصل اندھا وہ ہے جو دل کا اندھا ہے”۔
سعودی عرب کے نمک خوار سعودیہ کی حمایت اپنے مفادات کی وجہ سے کرتے ہیں ، اگر دین کی بنیاد پر حمایت ہوتی تو حکومتی سطح پرفحاشی پھیلانے کے اقدامات کی سخت مخالفت کی جاتی ۔ اگر دین کی سمجھ ہوتی تو سعودی عرب میں جس طرح انسانی حقوق کو پامال کرتے ہوئے غیرملکی مزدوروں کیساتھ بہت ناروارویہ رکھا جاتا ہے اور پاکستانیوں کیساتھ بہت زیادتیاں ہوتی ہیں تو پاکستان کی دینی جماعتیں اعلان کرتیں کہ مغرب اور مشرق میں سب سے بدتر ین لوگ یہی ہیں جو مسافرمجبور عوام کے حقوق کھانے سے بھی دریغ نہیں کرتے ہیں بلکہ قانونی طور پر اجنبی لوگوں کو اپنے انسانی حقوق سے محروم کررکھا ہے اور ان کا پیسہ بھی غلط طور پر کھاتے ہیں۔
جب سعودی عرب اہلحدیث والوں کو پیسہ دیتے تھے اور مساجد ومدارس بھی بناکر دیتے تھے تو بہت سارے حنفی دیوبندی خاص طور پر اور بریلوی عام طور پر اپنے مسلک اور عقیدے کو بدل رہے تھے۔ مولانا انورشاہ کشمیری کے پوتے نے بھی اپنا مسلک تبدیل کرکے اہلحدیث کا مسلک اختیار کرلیا۔ جب ایرانی انقلاب کے بعد شیعہ سنی اختلافات کو ہوا مل گئی تو جمعیت علماء اسلام ف کے نائب صوبائی امیر مولانا حق نواز جھنگوی نے انجمن سپاہ صحابہ کے نام سے ایک نئی جماعت بناڈالی۔ سعودیہ نے ہندوستان ، پاکستان اور بنگلہ دیش کے علماء سے شیعہ کے کافر ہونے کا فتویٰ بھی لگوادیا اور پھر جب سپاہ صحابہ کی مرکزی قیادت مولانا حق نواز جھنگوی، ضیاء الرحمن فاروقی اور دوسرے رہنما ہاتھ میں نہیں آرہے تھے تو مرکزی قیادت کو راستے سے ہٹادیا گیا اورپھر بات نہیں بن رہی تھی تو لشکر جھنگوی تشکیل دی گئی۔ جس رفتارسے لشکر جھنگوی نے ترقی پائی تھی ،اگر ہماری ایجنسیاں ان کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے توشاید دہشت گردی اس رفتار سے نہ آگے نہیں بڑھ سکتی تھی۔ عمران خان نے جب ایران کا دورہ کیا تھا تو اپنی ریاست کے اس کرتوت کا ذکر بھی افسوس کیساتھ کیا تھا۔
ایک آدمی نے شکایت کی تھی کہ میرا گدھا بہت سست چل رہاہے، اس کو تیزی کا کوئی نسخہ کھلا دو۔ حکیم صاحب نے گدھے کو پیچھے سے مرچ ڈال دی تو گدھا بہت تیز بھاگنے لگا تھا۔ گدھے کے مالک نے شکایت کی کہ اب گدھا بہت تیز بھاگ رہا ہے لیکن میں پہنچ نہیں پاتا ہوں۔ میرا بھی علاج کردو۔ حکیم صاحب نے اس کو پیچھے سے مرچ ڈال دی تو وہ بھی تیز بھاگنے لگا تھا۔ پھر ان کو پتہ چل گیا کہ یہ نسخہ کارآمد نہیں بلکہ بہت بیکار تھا۔ پہلے ہمارے ملک میں سعودی عرب کے خلاف بولنے کی بھی اجازت نہیں تھی لیکن اب حکیم صاحب کے نسخے کی کھل کر بہت مخالفت ہورہی ہے۔ چلو در آید درست آید۔ پاکستان کو فتنوں سے بچانے کیلئے کردار ادا کرنا ہوگا۔
شیعہ، سنی، حنفی اہلحدیث اور بریلوی دیوبندی کے علاوہ تحریک طالبان ، داعش اور تحریک لبیک کی شکل میں مذہبی انتہاء پسندی کا دروازہ کبھی بھی ملک وقوم میں فساد برپا کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ سختی اور پابندی مسائل کا حل نہیں ہے۔ ڈالی ہوئی مرچیں بھی نکالنا ضروری ہیں اوراس پر مکھن لگانے کی بھی سخت ضرورت ہے۔ ہمارا صحافی طبقہ صرف پیسہ کھاکر اپنے ملک اور اغیار کیلئے کام کرنا جانتا ہے اور کچھ نہیں۔
پرویزمشرف اور فوج کے خلاف جتنی باتیں کی جائیں کم ہیں لیکن کیا کوئی ایک بھی ایسا کلپ ہے کہ نوازشریف سے کسی نے پوچھا ہو کہ پارلیمنٹ میں لندن کی پراپر ٹی کے حوالے سے تحریری بیان جاری کیا تھا تو وہ کس کے کہنے پر کیا تھا؟۔ پھر اس کی تردید کیلئے جھوٹا قطری خط اور پھر اس سے دستبرداری کیسے اختیار کی تھی؟۔ جیو نیوز کا نوازشریف سے بہت اچھا تعلق ہے ، شاہ زیب خانزادہ نوازشریف کی صفائی میں اپنی صحافت کھپاتا ہے تو کم ازکم ایک سوال تو نوازشریف سے بھی بنتا تھا؟۔
ریٹائرڈ جنرل امجد شعیب اور دیگر لوگ سوشل میڈیا پر پاک فوج کا دفاع نہیں کرتے ہیں بلکہ اُلٹا باشعور لوگوں میں نفرت کو بڑھاتے ہیں۔ اگر بنگلہ دیش کا ذمہ دار ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب الرحمن اور جنرل یحییٰ خان تھے تو پھر پاک فوج زندہ باد کا نعرہ نہیں بنتا ہے۔ اگر کسی کاقتل ہونا ہی اس کا برے انجام کو پہنچنا ہے توپھر جنرل ضیاء الحق کا حادثہ اور جنرل پرویزمشرف کا اپنے ملک میں نہ آسکنا کیا ہے؟ ۔ یزید کو پھر کہنے کا حق تھا کہ نبیۖ کے خانودے حضرت علی اور حسن و حسین اور کربلا کے لوگوں کا کیا انجام ہوا تھا۔ یہ کتنی کم عقلی کی بات ہے کہ ایک طرف ایک جنرل کو اسلئے سزا دی جاری ہے کہ اس نے امریکہ کو غلط معلومات فراہم کرکے بے گناہ قائلیوں کا خون کیا تھا اور ریٹائرڈمنٹ کے بعد امریکہ کا ایجنٹ بن گیا اور دوسری طرف ایک جنرل پر الزام ہے کہ اس نے امریکہ کو خفیہ معلومات فراہم کیں ؟۔ حالانکہ عدالت میں اس نے جنرل بلال اکبر کے واٹ سیپ پیش کئے کہ اعتماد میں لیاتھا اورجس کا الزام ہے وہ پہلے سے سب میڈیا پر موجود تھا اسلئے خفیہ معلومات پہنچانے کی بات بالکل غلط ہے۔ ایک باعتماد قیادت کی بہت ضرورت ہے۔ ہمارے سارے سیاسی قائدین بشمول وزیراعظم عمران خان آج کل عوام کو نوسر باز لگتے ہیں۔ اگر فوج اور ریاست سے عوام کا اعتماد اٹھ گیا تو ریاست میںافراتفری کی فضاء سے عوام کو زیادہ نقصان پہنچے گا۔ ریاست کو اپنا کردار کو درست کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
امجدشعیب نے اچھا کیا کہ بتادیا کہ ہندوستان نے بنگلہ دیش سے93ہزار صرف فوجی نہیں پکڑے تھے بلکہ31ہزار فوجی اور62ہزار سیولین تھے جن میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ریاستی اداروں کے پاکستانی ہندوستان کے حوالے کئے گئے تھے۔ پہلے بہت سے باشعور لوگوں سے ہم سنتے تھے کہ فوج نے طالبان کے خلاف امریکہ کا ساتھ دیا۔ اللہ ہندوستانی فوج اور طالبان سے پاکستانی فوج کو سخت ترین شکست سے دوچار کرے۔ اب طالبان کے حامی پھر یہ کہتے ہیں کہ طالبان کی حمایت ہم فوج کی وجہ سے کررہے تھے۔ اللہ کرے کہ افغانی طالبان اور ہندوستان کے فوجیوں کے ہاتھ سے ہمارے فوجی چٹنی بن جائیں اور ان کی بیگمات ہمارے لئے رہ جائیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کی زندگیاں مسلم لیگ اور ملا کی حمایت میں گزری ہے اور ب پیپلزپارٹی کے حامی بن گئے ہیں۔
امجد شعیب کی باتوں سے فضاء بدلنے والی نہیں ہے کیونکہ بنگلہ دیش آج اتنا مقروض نہیں ہے، جتنا پاکستان مقروض ہے۔ ہم سے پسماندہ بنگلہ دیش بھی آگے نکل گیا ہے۔ اگر ہماری ریاست نے ٹھان لی ہے کہ پنجاب کو مشرقی پنجاب سے ملا دینا ہے ، آدھے بلوچستان اور پختونواہ کو افغانستان کے حوالے کرنا ہے اور سندھ کو آزاد کرنا ہے تاکہ بین الاقوامی قرضوں سے اس کی جان چھوٹ جائے تو عوام کو اعتماد میں لیکر شائستگی سے یہ کام کریں لیکن اگر پاکستان کو باقی رکھنا ہے تو اپنا رویہ بھی بدلیں۔ عوام پر قرضوں اور قبضوں کا بوجھ لادنے کے بجائے ان کوخوشحال بنائیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

 

آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے سری لنکن شہری کے قتل پر افسوس کا اظہار کیا۔ مشال خان کی شہادت پر مذہبی جماعتوں کا رویہ کیا تھا؟

 

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
چیف ایڈیٹر: اخبار نوشتہ دیوار کراچی

سری لنکن شہری کے بہیمانہ قتل پرآرمی چیف جنرل قمر باجوہ کا پہلا ردِ عمل خوش آئندتھا اور کور کمانڈرز کانفرنس کا اعلامیہ بھی خوش آئندہے ورنہ یہ دلّے اور دلّال کیپٹن صفدر اور سراج الحق پھر اپنی سیاست چمکانے کیلئے نیچ حرکت کرتے؟

ایک وقت وہ تھا کہ جب مردان میں انتہائی وحشیانہ اور بہیمانہ طریقے سے ایک غریب کے قابل ترین بیٹے کو محض حسد وکینے اور جرمِ ضعیفی کی سزا دیکر شہیدکیا گیا تھا۔ جیونیوز اورARYنیوز سب میڈیا نے اس کی مذمت کی تھی اور مفتی محمد نعیم نے اس کو شہید بھی قرار دیا تھالیکن مسلمان، پختون اور مذہبی وسیاسی طبقات کی بزدلی نے مشعال خان کے جنازے اور تعزیت کے معاملے کو بھی بہت زیادہ شرمناک حدتک قابلِ مذمت بنایا ۔ عام لوگوں نے اُٹھ کر جب کلاشنکوف اٹھائی اور بندوق کی نوک پر جنازہ اور تدفین کردی تو پولیس اس کی قبر کی حفاظت کیلئے بھی تعینات کردی گئی۔ آج جس طرح سری لنکن شہری کے قتل پر فضاء بدل گئی تو اس کاکریڈٹ کس کو جاتا ہے؟۔ اگر جنرل قمر جاوید باجوہ اس وقت مشعال خان کی بہیمانہ شہادت پر اسی طرح یہ کردار ادا کرتے تو مذہبی بہروپئے جنازے کیلئے نہیں تو تعزیت کیلئے ضرور مشعال خان کے گھر پہنچ جاتے اور وقت کا حکمران اس وقت بہادری کی تصویر بننے والے فرد کے کردار پر اس کو تمغے سے بھی نوازتے۔
اس وقت جب جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف مہم چل رہی تھی کہ قادیانی ہے اور اس کا باپ قادیانیوں کے قبرستان میں دفن ہے تو اوریا مقبول جان نے ایک شخص کا خواب بیان کیا کہ رسول اللہ ۖ نے جنرل باجوہ کو اس وقت ایک تحفہ سپرد کردیا جب آرمی چیف بننے کا کوئی چانس بھی دکھائی نہیں دیتا تھااور جنرل باجوہ نے وہ تحفہ پہلے بائیں ہاتھ سے لیا اور پھر حضرت عمر کی رہنمائی سے جنرل باجوہ نے اس تحفے کو دائیں ہاتھ میں لیا تھا۔
خواب کی اصل تعبیر تو تعبیر کے ماہرین ہی بتاسکتے ہیں لیکن آرمی چیف بننے کیلئے نوازشریف نے اس وقت منتخب کیا تھا جب نوازشریف کے سامنے اس پر قادیانیت کا الزام بھی تھا لیکن پھر دوسری مرتبہ عمران خان ، نوازشریف اور بڑی تعداد میں جمہوریت کے دعویداروں نے جنرل باجوہ کو دوبارہ ایکس ٹینشن دی۔ پہلی مرتبہ اگر جنرل قمر جاوید باجوہ اس تحفے کو بائیں ہاتھ میں لینے کے بجائے قبول کرنے سے معذرت کرتے ہوئے عرض کردیتے کہ مجھ سے زیادہ اہلیت رکھنے والے دوسرے جنرل زیادہ حقدار ہیں تو یہی جنرل باجوہ کیلئے بہتر تھا اسلئے کہ جنرل راحیل شریف کے دور میں جس طرح فوج نے دہشتگردی اور کرپشن کے خلاف بہت زبردست مؤقف اپنایا تھا اگر دہشت گردی کیساتھ ساتھ کرپشن کے خلاف بھی مہم جاری رہتی تو آج پاکستان سودی نظام کے بھاری بھرکم گردشی سودی قرضوں کے تحت اتنا زیادہ مصیبت میں گرفتار نہیں ہوسکتا تھا۔
تین دفعہ ملک کا وزیراعظم بننے والے ٹاؤٹ نوازشریف نے کہا کہ” سری لنکن شہر ی کا قتل فیض آباد دھرنے میں ایک ایک ہزار روپیہ بانٹنے والے جنرلوں کے کھاتے میں جاتا ہے”۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر اس وقت شیخ رشید کی بات پارلیمنٹ میں سن لی جاتی اور قومی اسمبلی اور سینٹ کے مشترکہ اجلاس سے پہلے ہی اس بل کے خلاف پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے مذہبی اور سیاسی جماعتوں کا مشترکہ مؤقف سامنے آتا تو فیض آباد دھرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ پھر اگر نوازشریف کے چہیتے داماد کیپٹن صفدر جیسے لوگ تقریریں نہ کرتے کہ جنرل ضیاء الحق نے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ختم نبوت کیلئے کردار ادا کرنے پر سزا دی ہے تو فیض آباد دھرنے میں جان نہیں پڑ سکتی تھی۔ جب فیض آباد دھرنے کے وقت حکومت ن لیگ کی تھی اور پاک فوج کو کردار کیلئے آمادہ کرنا بھی اسی کا کام تھا تو دھرنے کے شرکاء کو واپسی کا کرایہ دینے میں کتنا خرچہ ہوا ہوگا؟۔ اور پھر اسکے ذمہ دار کون تھے؟۔ اگر نوازشریف کے دور میں پشاور آرمی پبلک سکول کا واقعہ واقعی بقول نوازشریف کے ٹاؤٹ راشد مراد کھریاں کھریاںMRٹی وی برطانوی فوج نے خود کروایا تو پھر نوازشریف اس وقت خوشی سے نہال کیوں تھا؟۔ فیض آباد دھرنے اور آرمی پبلک سکول پشاور کے واقعہ کے وقت گدھے کی کھال پہنے ہوئے گیدڑ نوازشریف کی حکومت تھی جو ببر شیر بننے کا دعویدار ہے۔
اصل کہانی اس وقت شروع ہوئی تھی جب پیپلزپارٹی کی مرکز میں حکومت تھی اورپنجاب میں شہبازشریف کی حکومت تھی۔ بقول انتہائی جھوٹا اور مکار شخص پرویزمشرف دور کے وزیراطلاعات ق لیگ محمد علی درانی ”انصار عباسی واحد ایک ایماندار صحافی ہیں”۔ شہبازشریف نے انصار عباسی کے گھر تک مری میں سڑک بناکر اس پر کروڑوں کا خرچہ کیا تھا۔ انصار عباسی کہتا تھا کہ ” ہمارا آئین اسلامی ہے اور اسلام میں صدر آصف علی زرداری کے استثناء کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس کی مثال خلفاء راشدین کے طرزِ عمل کی ہے”۔ جب اس سے کہا جاتا تھا کہ پاک فوج پر تنقید ہوسکتی ہے تو انصار عباسی کا اسلام بدل جاتا تھا اور کہتا تھا کہ ”آئین نے فوج کو استثناء دیا ہے اسلئے ان پر تنقید کرنا غلط ہے”۔ یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب چوہدری نثار اور شہبازشریف چپکے چپکے رات کی تاریکی میں ہی آرمی چیف جنرل پرویز کیانی سے ملاقات کرنے جاتے تھے۔ اس وقت خواجہ شریف چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے خلاف قتل کی سازش کا انصار عباسی نے انکشاف کیا تھا جس میں گورنر پنجاب سلمان تاثیر ، آصف علی زرداری وغیرہ کو ملوث قرار دینے کی کوشش کی گئی تھی لیکن یہ سارا پلان ناکام ہواتھا۔ اگر اس وقت انصار عباسی کو کٹہرے میں لاکر قرارِ واقعی سزا دی جاتی تو اب دوبارہ انصار عباسی کو اس قسم کی نئی نئی باتوں پر کورٹ میں شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ نذیر ناجی نے اس وقت کہا تھا کہ ”یہ سب کتے کا بچہ انصار عباسی ہے”۔ حالانکہ دونوں کا ایک ہی جنگ گروپ اور جیونیوز سے تعلق تھا۔ جب گورنر سلمان تاثیر کو خواجہ شریف کے قتل میں ملوث کرنے کی سازش ناکام ہوگئی جس پر رؤف کلاسرا نے ایک کتاب بھی لکھی ہے کہ ” ایک قتل جو ہونہ سکا”۔پھر سلمان تاثیر کے قتل، اسکے بیٹے شہبازتاثیر کے اغواء سے موجودہ دور کے سفر تک مسلم لیگی رہنما ؤں اور قیادت کا معاملہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔
تحریک لبیک اور وزیراعظم عمران خان کا بھی چولی دامن کا ساتھ تھا۔ جب تک قوم کا اجتماعی کردار درست نہیں ہو توپھر مذہبی وسیاسی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ سے بھی خیر کی توقع نہیں رکھی جاسکتی ہے۔ قوم کے اجتماعی شعور کی بیداری کا اثر پاک فوج کی قیادت اور مذہبی وسیاسی رہنماؤں اور قائدین پر بھی پڑتا ہے۔ سلیم صافی نے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق سے بات کا آغاز کرتے ہوئے یہ کریڈٹ بھی دیا کہ سب سے پہلے سری لنکن شہری کے بہیمانہ قتل کی مذمت اسی نے کی ہے۔ سراج الحق نے بتایا کہ وہ عیسائی جوڑے اور دوسرے افراد کی بھی پہلے تعزیت کرچکے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا دین ہمیں ایسا کرنے کاحکم دیتا ہے۔ کسی بھی انسان کو اس طرح وحشیانہ انداز میں قتل کی اجازت رحمت للعالمینۖ کا دین ہمیں نہیں دیتا ہے۔ کاش سلیم صافی سراج الحق سے یہ بھی پوچھنے کی جسارت کرتا کہ مشعال خان کیساتھ جو وحشیانہ اور بہیمانہ بربر یت کی گئی تھی اورتم لوگ اس وقت قاتلوں کے حق میں پشاور شہر میں جلسہ کررہے تھے تو تم اس کردار پر شرمندہ ہو یا نہیں؟۔ یا اس وقت رحمت للعالمین ۖ کی جگہ زحمت اسلامی کا دین جدا تھا؟۔ جب تک اس کردار سے جماعت اسلامی کھل کر توبہ نہیں کرتی ہے لوگوں کے دل ودماغ میں اس کے ڈھانچے پر منافقت کے نقوش قائم رہیں گے۔ پہلے جماعت اسلامی ن لیگ کے رنگ میں رنگی ہوئی تھی اور اب مولانا فضل الرحمن پر بھی ن لیگ کے منافقانہ تضادات کے کردار کا اثر پڑاہے۔
فیض آباد دھرنے میں ہزار ہزار روپے واپسی کا کرایہ بانٹنااتنی بڑی بات نہیں تھی جتنا اسلامی جمہوری اتحاد بنانے کے حوالے سےISIنے لاکھوں روپے اس وقت نوازشریف کو وزیراعظم بنانے کیلئے دئیے تھے۔ اگر نوازشریف نے سعودیہ کی جلاوطنی کے بعد سے اب تک اپنا دو رخی اور متضاد کردار ترک کیا ہوتا تو بھی کوئی بات ہوتی لیکن ن لیگ اور ش لیگ کی نورا کشتی سے قوم کو دھوکہ دینے کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔مولانا فضل الرحمن اس جرم میں ملوث ہے۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور کورکمانڈرز ایک مرتبہ حلالہ کے خلاف بھی اپنا بیانیہ واضح کردیں تو علماء حق خواتین کی عزتیں بچانے میں اپنا کردار بھی ادا کریں گے اور ان مذہبی بہروپیوں سے اسلام اور عوام کی جان بھی چھوٹ جائے گی جو اسلام کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ خواتین کے حقوق کی بحالی افغانستان کے طالبان نے اسلامی بنیاد پر شروع کردی ہے لیکن یہاں پاکستان کے نام نہاد علماء ومفتیان اور مذہبی سیاسی قیادت اب تک کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں، جب آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اور کورکمانڈرز اپنی طرف سے حلالہ کی لعنت کے خلاف اور خواتین کے حقوق پر اپنی پالیسی واضح کریںتو غیر اسلامی مذہبی انتہاء پسندی کے خاتمے میں کوئی دیر نہیں لگے گی۔آج راست اقدام سے جنرل باجوہ دائیں طرف والوں میں شامل ہوسکتے ہیں۔
سری لنکن شہری کو بہیمانہ اور وحشیانہ طریقے سے قتل کرنے والوں کو سری لنکا کی حکومت کے حوالے کیا جائے اور وہی سزا دی جائے جو کچھ انہوں نے کیا ہے۔ جب مشعال خان کو شہید کیا گیا تھا تو ہم نے لکھا تھا کہ سزاؤں سے بچنے کیلئے یہ نام نہاد عاشقانِ رسول اب اپنی پشت میں اپنی دُم گھسیڑنے کے بجائے کھل کر اعترافِ جرم کریں۔ نبی رحمت ۖ کے نام پر کسی کو قربان کرنا عشق رسول نہیں ہے بلکہ خود کو قربانی کیلئے پیش کرنا اصل عشق رسول ہے۔
تحریک لبیک کا جو جتھہ تیار ہے جس کے بانی علامہ خادم حسین رضوی کی قبر پر مولانا طارق جمیل نے گل دستے پیش کئے اور اہلحدیث نے بھی ان کیلئے نیک تمناؤں کا اظہار کیا تھا۔ یہ یاد رکھا جائے کہ علامہ خادم حسین رضوی کی جماعت کا تعلق اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضاخان بریلوی سے ہے جو دیوبندی اور اہلحدیث کو گستاخان رسول اور قادیانیوں کی طرح کافر سمجھتے تھے۔ اگر تشدد کی فضاء بن گئی تو پھر سری لنکن شہری کی طرح دیوبندی ، اہلحدیث اور جماعت اسلامی کے لوگ بھی عتاب میں آسکتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کو خوف تھا کہ احسن اقبال کی طرح وہ بھی تحریک لبیک کے کارکنوں اور جذباتی عوام کا نشانہ نہ بن جائے اسلئے پہلے سری لنکن کے قتل کی ذمہ داری میں ریاست کو شامل کیا اور پھر احسن اقبال کی طرف سے کھراپیغام آنے کے بعد اپنے روئیے کو بدل دیا۔
افسوس، مذمت اور کیفر کردار تک پہنچانے کے بیانات کچھ نہیں۔ جب تک اسٹیج سے من سبّ نبےًا فقتلوہ ” جس نے نبیۖ کو گالی دی تو اس کو قتل کردو” کا نعرہ ایسے لوگوں کے ہاں سے بلند ہوگا جو دوسروں کو گستاخ بھی سمجھتے ہیں تو پاکستان میں بڑے پیمانے پر شدت پسندی کی بنیاد پر قتل وغارت کا خدشہ باقی رہے گا۔ علامہ خادم حسین رضوی کے جنازے نے اسکا فیصلہ کردیا تھا۔ دوسری طرف جب تحریک طالبان پاکستان کو موقع مل گیا تو بریلوی لوگوں کو نہ صرف قتل کیاگیا بلکہ سوات جیسے پرامن اور شریف لوگوں کی فضاء میں مینگورہ شہر میںایک پیر کی لاش قبر سے نکال کر کئی دنوں تک چوک پر لٹکائی گئی تھی۔اس وقت امن کی نام نہاد فاختہ مولانا طارق جمیل کہتا تھا کہ ” ہماری اور طالبان کی منزل ایک ہے ، صرف طریقہ واردات جداجدا ہے”۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی نے دہشتگردی کے خلاف فتویٰ دینے سے انکار کیا تھا۔جماعت اسلامی کے رہنما ؤں نے خاص طور پر اور جمعیت علماء اسلام کے بعض رہنماؤں نے عام طور پر دہشت گردوں کو سپورٹ کرنے کا ٹھیکہ اٹھارکھا تھا اور پھر آخر میںعلماء نے دہشتگردی کے خلاف فتویٰ دیا۔ مسلم لیگ ، دیوبند اور بریلوی کی تحریکیں ہندوستان سے آئی ہیں۔ سول ملٹری بیورو کریسی پہلے متحدہ ہندوستان کا حصہ اور انگریز کی غلام تھی۔
انگریزہندو مسلم فسادات کے ذریعے ہندوستان کی عوام کو کنٹرول کرتا تھا۔ ہماری سول وملٹری اسٹیبلشمنٹ کیلئے بھی سنی وہابی ، شیعہ سنی تفریق و انتشارایک غنیمت سے کم نہیں کیونکہ مختلف گروہوں کو ایکدوسرے سے خطرات ہوں گے تو نااہل ریاست کیلئے عوام پر اپنا ناجائز اقتدار مسلط کرنے میں مشکل نہ ہو گی۔ بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث اور شیعہ میں بہت ٹاؤٹ قسم کی مخلوق ملے گی۔ جماعت اسلامی نے ہمیشہ ٹاؤٹ کا کردار ادا کیا ۔ مسلم لیگ ن، ق، جونیجو، ضیاء اور وہ کونسی سیاسی جماعت ہے جس نے بقول شیخ رشید کے فوجی گملے میں پرورش نہ پائی ہویا پھر اس کیGHQکے گیٹ نمبر چار سے رسم وراہ نہیں ہو؟۔
محمود خان اچکزئی نے درست کہا کہ ” کم بختو! قائد پیدا ہوتے ہیں بنائے نہیں جاتے ”۔ لیکن کیا نوازشریف قائد پیدا ہوا تھایا بنایا گیا ؟۔ ایک وہ قیادت ہے جو مصنوعی طریقے سے بنائی گئی اور دوسری وہ ہے جنہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ قیادت کوئی خانوادہ ہوتا ہے۔ نبیۖ نے تحریک چلائی تو حضرت ابوبکر،عمر، عثمان ،علی ،معاویہ ، طلحہ، زبیر، سعد بن ابی وقاص، خالد بن ولید قیادت کیلئے ایک جماعت تیار ہوئی۔ یزید قائد نہ تھا بلکہ باپ کی وجہ سے امارت پر قابض ہوا تھا۔ بنوامیہ اور بنوعباس نے موروثی خا نوادے کی بنیاد پر قیادت سنبھال لی تھی ۔
میرے مرشد حضرت حاجی محمد عثمان نے تبلیغی جماعت میں بہت وقت لگایا تھا اور وہ جب اسٹیج پر تقریر کرتے تو اکابرین میں ہوتے تھے اور جب سامعین میں ہوتے تھے تو عوام کے پنڈال میں بیٹھتے تھے۔ کھانا پینا ، نشست وبرخاست اور جماعت کے نظم کے مطابق ہفتے میں دوگشت، مہینے میں سہ روزہ،سال میں چلہ اور زندگی میں چار مہینے کے نصاب پر عمل پیرا تھے۔35سالوںتک جماعت کے نظم کی پابندی اور تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھاہوا تھاتو ان کی مقبولیت سے گھبرا کر بعض مفادپرستوں نے اندرونِ خانہ انکے خلاف پروپیگنڈہ کیا جو جماعت کے نصاب کی دعوت دیتے تھے لیکن خود خواص بن کر نصاب کے مطابق نہیںچلتے تھے ۔ قول وفعل کے تضاد نے اکابرکو متکبر اور رذائل کی آماجگاہ بنادیا۔ حاجی عثمان پر یہ الزام تھا کہ ” ان کی وجہ سے جماعت شخصیت پرستی کا شکار ہورہی ہے”۔
ایک دن حاجی عثمان نے تبلیغی جماعت کے مرکز میں یہ اعلان کروایا کہ اس اتوار کی نشست میں تبلیغی جماعت کے لوگ شریک ہوسکتے ہیں۔حاجی عثمان نے بیان کا موضوع یہ رکھا کہ جماعت شخصیت سازی کی بنیاد ہے اور اگر جماعت شخصیات پیدا نہ کرے توپھر یہ جماعت نہیں بھیڑ ہے۔ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کو کیسٹ بھیجی گئی اور شیخ الحدیث نے تبلیغی اکابرین کو بیان سنادیا اور فرمایا کہ ” ان کی بات سو فیصد درست ہے”۔ آج مرکز بستی نظام الدین بھارت میں مولانا الیاس کا پڑپوتا مولانا سعد اور دوسری طرف رائیونڈکی نام نہادشوریٰ ہے۔ جماعت دو حصوں میں اسلئے بٹ گئی ہے کہ ایک متفقہ امیر کے چناؤ پر اتفاق نہیں ہورہا تھا۔ حالانکہ کیا تبلیغی جماعت اور کیا اس کی امارت کے مفادات؟۔
ہماری ریاست اور سیاسی پارٹیوں نے انقلابی پیدا نہیں کئے بلکہ مصنوعی اور موروثی لیڈر شپ سے عوام نے دھوکہ کھایا۔پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی وشیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانی سے زیادہ اہلیت ڈاکٹراقبال اوروکیل قائداعظم محمد علی جناح میں تھی۔ اگر پاکستان نہ بنتا تو ایوب خان فیلڈمارشل ، ذوالفقار علی بھٹو قائد عوام، جنرل ضیاء الحق امیر المؤمنین اور محمد خان جونیجو قائدجمہوریت ، نوازشریف اینٹی اسٹیبلیشمنٹ اور علامہ شبیراحمد عثمانی اور مفتی محمد شفیع سے لیکر موجودہ شیخ الاسلام اور مفتی اعظم کاوجود بھی نہ ہوتا۔ موروثی اور مذہبی قیادت نے جنرل ایوب خان یا فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تھا۔ اگر پاکستان نہ ہوتا تو نہ مسٹرجناح قائداعظم اورنہ نوابزادہ لیاقت قائد ملت بنتے اور پھر ان کی باقیات فاطمہ جناح اور بیگم رعنا لیاقت بھی نہ ہوتیں۔ سول وملٹری اسٹیبلیشمنٹ کے پنجے بھی مضبوط نہ ہوتے اور نہ ہی مصنوعی اور موروثی قیادتوں سے یہ ملک وقوم اور سلطنت شادآباد کے بجائے یوں تباہ وبرباد ہوتے۔
علماء ومشائخ ، سول وملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ادارے اور سیاسی قیادتیں پاکیزہ اور قابلِ احترام ہیں مگر جب یہ اپنے مقصد سے ہٹ کر دوسرے کاموں پر لگ جائیں تو پھر ادارے، سیاسی جماعتیں اورقیادتیں بھی کرپٹ بنتی ہیں اور ملک و قوم اور سلطنت کو بھی رسوائی کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ جب علماء ومشائخ دین سے ہٹ کر اپنا ذاتی ایجنڈا اپنے عقیدت مندوں پر مسلط کرتے ہیں تو یہ فرقہ واریت کی چھتری کے نیچے تعصبات کی سانسیں لیکر ہی جی سکتے ہیں۔
لسانیت ، غیرانسانیت اور جاہلیت کے نام پر بہت زیادہ معاشرے میں ظلم و زیادتیاں ہوتی ہیں مگرمذہبی لوگ بارود کے ڈھیرپر بیٹھتے ہیں۔ توہین رسالت و توہین مذہب کے نام پر کسی وقت بھی یہ بارود پھٹ کر نہ صرف کسی انسان کا وہ حال کرسکتا ہے جو مشعال خان کا ہوا، ایک بینک منیجر کا ہوا اور کئی مثالوں کے علاوہ اب سری لنکن شہری کا ہوا۔ اس انجام سے ہماری سول،ملٹری ،مذہبی، سماجی اور سیاسی قیادتیں بہت خوف کھاتی ہیں۔ درود والے بھی بارود کے ڈھیر پر بیٹھے رہتے ہیں اور بارود والے بھی درود والوں کو نہیں چھوڑتے ہیں۔اہل بیت وصحابہ کے نام پر بھی غلیظ ترین کردار کے مالک اپنی غلاظت کو چھپاتے ہیں۔
سورۂ نور کی روشنی خود چمک کراُٹھ سکتی ہے۔ قرآن کی لوگ دنیا کے چپے چپے پر تلاوت کرتے ہیں، ان کا ضمیرکسی وقت جاگ سکتا ہے کہ رسول اللہ ۖ کی حرم ام المؤمنین حضرت عائشہ پر بہتان لگایا گیا تو قرآن و سنت نے قتل کی اجازت نہیں دی اور بہتان پر وہ سزا دی گئی جو کسی بھی محترمہ پربہتان لگانے کی ہے۔ حضرت حسان،مسطح اور حمنہ بنت جحش نے اماں عائشہ پر بدکاری کا بہتان لگایا ۔ حسان ایک نعت خواں تھے۔ مسطح حضرت ابوبکر کے قریبی رشتہ دار تھے اور حمنا حضرت ام المؤمنین زینب بنت جحش کی بہن تھیں۔ رسول اللہ ۖ کو اس واقعہ سے بڑی اذیت کسی بھی واقعہ اور بات سے نہیں پہنچ سکتی تھی۔
نبیۖ نے صحابہ کی بارود کے ڈھیر پر بٹھانے کی تربیت نہیں کی۔ وحی کے ذریعے سے رہنمائی ہوتی تھی ،جب افک عظیم کا واقعہ پیش آیا تو یہ وحی نازل نہیں ہوئی کہ ان بہتان طرازوں کی بوٹیاں کرکے ہڈیاں توڑ دو اور پھر ان کو جلادو۔ نبیۖ کو اس سے بڑی گالی اور کیا ہوسکتی تھی؟۔ اللہ نے صحابہ سے فرمایا کہ” تم اگر کہہ دیتے کہ یہ بہتان عظیم ہے”۔ ابوبکر نے عہدوپیمان کیا کہ اپنے رشتہ دار مسطح پر آئندہ کوئی مالی احسان نہ کروں گا تو اللہ نے فرمایا کہ ” تم سے جو مالدار ہیں ان کیلئے مناسب نہیں کہ اپنے عزیزوں کیساتھ احسان نہ کرنے کا عہد کریں ”۔ مذہبی تنظیمیں ، سیاسی جماعتیں اور ہماری میڈیا کے صحافی سورۂ نور کی آیات کو بھی چھپاتے ہیں اسلئے کہ یہ سب لوگ غلام احمد پرویز کی گمراہانہ فکر سے متأثر ہیں۔ غلام احمد پرویز سورۂ نور کی احادیث صحیحہ کی تفسیر کا منکر تھا۔وہ کہتا تھا کہ صحیح بخاری و مسلم میں یہ واقعہ اہل تشیع نے حضرت عائشہ کے خلاف گھڑ ا ہے۔ سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں پرویزی فکر کی وجہ سے شیعہ کے خلاف زیادہ غم وغصہ اسلئے ہے کہ وہ اماںعائشہ پر حملہ آور ہیں ۔ علماء ومشائخ نے قرآن کی تفسیر اور احادیث صحیحہ کو دیکھنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ جاہلیت کے روپ دھارے جبے قبے پہننے سے کوئی عالم اور شیخ طریقت نہیں بن سکتا ہے۔ تحریک لبیک کے علماء ومشائخ سورۂ نور کی آیات کا اپنی گرم محافل میں صرف حوالہ دیں تو جاہلیت کی اندھیر نگری سے ان کی اپنی جماعت اور پوری قوم نکل آئے گی۔
مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھا ہے کہ ” جن لوگوں پرعلم وسمجھ کی زیادتی ہے لیکن اس پرعمل نہیں کرتے ہیں تو ان پر اللہ کا غضب ہے اور یہود کی طرح ہیں اور جن میں عمل کی قوت زیادہ ہوتی ہے لیکن علم وسمجھ نہیں ہوتی ہے وہ گمراہ ہوتے ہیں اوروہ عیسائیوں کی طرح ہیں۔ یہود ونصاریٰ کی طرح ہمارے فرقوں کا بھی وہی حال ہے ”۔ دیوبندیوں پر یہود کی طرح خدا کا غضب ہے اور بریلوی کا طبقہ عیسائیوں کی طرح گمراہ ہے۔ عربی میں ضال کے معانی گمراہی کے بڑے درجے سے لیکرآخری درجے میں حق کی راہ میں سرگردان کے آتے ہیں اسلئے قرآن میں اللہ نے نبیۖ سے فرمایا کہ ووجدک ضال فھدیٰ ”ہم نے آپ کو سرگرداں پایا تو راہ ہدایت کی رہنمائی کردی”۔ عیسائیوں میں ایسے ایمان رکھنے والے بھی بہت تھے جنہوں نے حق کی آواز سنی تو کہنے لگے کہ ” ہم تو پہلے ہی سے مسلمین ( حق کو ماننے والے)تھے”۔ جس طرح سونے والا مؤمن جب آذان کی آواز سنتا ہے اور نیند سے بیدار ہوتا ہے تو نماز کی طرف لپکتا ہے۔ اسی طرح عیسائیوں میں ایمان پر قائم طبقے نے جب قرآن کی آواز سن لی تو حق تسلیم کرلیا۔ نیند میں مگن شخص کو نیند سے اٹھایا جاسکتا ہے لیکن جب اپنے اوپر زبردستی کوئی نیند طاری کرلے تو اس کو نیند سے اٹھانا ممکن نہیں ہوتا ہے۔
یہود وہ تھے جن پر اللہ کا غضب تھا اور ان کی اکثریت جانتے بوجھتے حق کے مخالف تھی۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے دیوبندیوں کی اکثریت کو بھی یہود ہی کی طرح قرار دیا ہے جو سب کچھ سمجھنے کے باوجود بھی حق کی مخالفت کرتے ہیں۔
اگر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سری لنکن شہری کے قتل پر یہ بیان جاری کرتا کہ ” فرانس تک ہماری پہنچ نہیں ہے لیکن پاکستان میں کسی مسلم اور غیر مسلم کو توہین مذہب پر جوکوئی سزا دے گا تو اس کو ہم بچا نہیں سکیں گے ”توساری مذہبی و سیاسی جماعتیں سیالکوٹ کی عوام کو خراج تحسین پیش کرتیں اور جس کو تمغۂ جرات سے نوازا گیا ہے وہ کسی غیر ملک میں بھاگ کر پناہ لینے پر مجبور ہوجاتا۔ باجوہ کو بھی سب خراج عقیدت پیش کرتے اور سیاسی ومذہبی جماعتیں توہین مذہب پر اپنے اپنے حصے کا ووٹ پانے کیلئے پنجاب میں بڑے بڑے جلسے کرتیں۔ عمران خان بھی کہتا کہ ” سری لنکن شہری کے قتل سے دنیا کو ایک اچھا پیغام گیا ہے”۔
جنرل قمر جاویدباجوہ اور کور کمانڈرز کانفرنس نے جونہی اپنے رویے کا اظہار کردیا تو سب کے سب میں جرأت وبہادری کی روح دوڑ گئی ہے۔ قومی ایکشن پلان کیلئے قرآن وسنت کے اصل کردار کو عوام کے سامنے لانا ضروری ہے اسلئے کہ حیلے کے نام پر سود کو حلال کرنے سے قومی معیشت کو کبھی کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا ہے اور جن شیخ الاسلاموں اور مفتی اعظموں پاکستان نے حیلے کے نام سے سودی نظام اور حلالہ کے نام سے عورتوں کی عزتیں لوٹنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے یہ بدمعاش ہماری میڈیااور ہماری ریاست وحکومتوں نے مسلط کئے ہیں۔
نبیۖ نے فرمایا کہ الکاسب حبیب اللہ ” محنت کرکے کمانے والا اللہ کا دوست ہے”۔ موچی، لوہار، نائی اور تمام کسب والے مزدور ہمارے سروں کے تاج ہیں اسلئے کہ نبیۖ نے ان کو اللہ کا حبیب قرار دیا ہے اور اس سے بڑی عزت کرپٹ سیاستدان ،دین فروش مولوی، جرنیل ، بیوروکریٹ ، خان ونواب کی نہیں ہوسکتی ہے لیکن عوامی اصطلاحات کی وجہ سے دورِ جاہلیت کی ایک مثال سے سمجھانا چاہتا ہوں کہ ایک بادشاہ نے اپنی بیٹی دوسرے بادشاہ کے بیٹے کو بیاہ دی۔ بادشاہ کی بیٹی نے اپنے باپ سے کہا کہ ویسے تو بہت اچھے لوگ ہیں اور دنیا کی ہرسہولت وہاں موجود ہے لیکن مجھے یہ شکایت ہے کہ جس سے شادی کروائی ہے وہ اصل بادشاہ نہیں بلکہ ذات کے موچی ہیں۔ بادشاہ نے اپنی بیٹی سے کہا کہ اس کی فکر نہ کرو اور ہاتھ کے اشارے سے استرا چلاتے ہوئے کان میں بتایا کہ میں بھی ذات کانائی ہوں۔ سیاسی جماعتیں ایکدوسرے پر الزام لگاتی ہیں کہ کون کس کی ممی ڈیڈی ہے اور کس کو کس نے پالا ہے مگر سب ایک جیسے ہیں۔
جب اسلام کی حقیقت سامنے آگئی تو انصار کے سردار حضرت سعد بن عبادہ یکے وتنہاء رہ گئے اور قریش کے ایک کمزور ترین قبیلے بنوتمیم کے حضرت ابوبکر مسندِ خلافت پر بیٹھ گئے۔ حضرت عمر، حضرت عثمان ، حضرت علیو حسن، حضرت معاویہ سب کو اپنی اپنی باریاں مل گئیں لیکن پھر خلافت راشدہ ملوکیت میں بدل گئی، جس نے ادیبوں سے عوام کو ورغلانے کیلئے لیلیٰ مجنون کی کہانی لکھوا ئی ،تاکہ عوام عشق ومحبت کے سانچوں میں ڈھل کر اقتدار سے بے نیاز بن جائیں اور دوسری طرف اپنا مذہبی طبقہ بھی پیدا کیا جو اقتدار کے کاروبار میں انکے ساتھ شریک تھا۔ اسلام نے نام نہاد شیوخ پیدا نہیں کئے بلکہ حکمرانوں نے شیخ الاسلام اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے بنا ڈالے۔ اسلام کا شیخ کون ہوسکتا ہے؟مگر جنہوں نے اسلام کی بیخ کنی شروع کی تھی وہ اہل اقتدار کی طرف سے شیخ الاسلام کے منصب پر فائز کردئیے گئے۔ امام ابوحنیفہ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل نے اپنے حکمرانوں سے سزائیں کھائیں اور شاگردوں اور شاگردوں کے شاگردوں نے اسلام بیچ کر شیخ الاسلامی کا منصب حاصل کرلیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی کتاب ”تذکرہ” میں تاریخ کے اوراق سے کچھ اسباق کا ذکر کیا ہے۔
آج اگر سورۂ نور کی آیات سامنے لائی جائیں تو عوام اور حکمرانوں کی عزتوں کافاصلہ اور جمود ٹوٹ جائے گا۔ ابوجہل کے بیٹے حضرت عکرمہ کی طرح لیڈروں کے بچے لیڈر بننے کے بجائے اچھے مجاہد بن جائیں گے۔ یزیدیت کا شاخسانہ بھی ختم ہوجائے گا اور حضرت حسین کی طرح لوگوں کو قربان کرنے کے بجائے قیادت اور اقتدار کی منزل تک نیچے سے اوپر تک ہر جگہ پہنچایا جائے گا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

 

مسلم امہ کو ایک توحلالہ کی لعنت اور بے غیرتی سے نکالا جائے اور دوسرامقامی مزارعت اور عالمی سودی نظام کے چکر سے نکالا جائے تو زبردست انقلاب برپاہوگا اورپھرپاکستان پورے عالم اسلام کی امامت کے قابل بن جائے گا!

مسلم امہ کو ایک توحلالہ کی لعنت اور بے غیرتی سے نکالا جائے اور دوسرامقامی مزارعت اور عالمی سودی نظام کے چکر سے نکالا جائے تو زبردست انقلاب برپاہوگا اورپھرپاکستان پورے عالم اسلام کی امامت کے قابل بن جائے گا!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ شمارہ دسمبر2021

جب سود کے حوالے سے آیات نازل ہوئیں تونبی کریم ۖ نے زمینوں کی مزارعت کو بھی سود قرار دیا تھا۔ علامہ سید محمد یوسف بنوری کے داماد مولانا طاسین نے مزارعت کے حوالے سے قرآن ،احادیث صحیحہ اور فقہ کے چاراماموں کی طرف سے متفقہ طور پر مزارعت کو سود اور ناجائز قرار دیا ہے اور اس پر زبردست کتاب بھی شائع کردی ہے جس کی تائید جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن نے اس وقت کی تھی جب وہ علماء کیلئے باغی اور انقلاب کے امام تھے۔آج مولانا ان کے ساتھ کھڑے ہیں جن کے خلاف مولانا انقلاب برپا کرنا چاہتے تھے اور جن سے مقابلہ ہوتا تھا وہ مولانا کی جماعت میں شامل ہیں ۔
جب ہم نے علماء ومفتیان کے دانت کھٹے کردئیے تھے تو مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ ” میں ان علماء ومفتیان کے فتوؤں کو جوتوں کی نوک پر رکھتا ہوں ”۔ اگر کسی ایک عورت کی عزت حلالہ کی لعنت سے لٹ جائے تو کیا وہ عورت جوتے کے نوک پر اس فتوے کو نہیں رکھ سکتی ہے؟۔ کیا عورت کیلئے یہ سزا ہوسکتی ہے کہ وہ کسی اور شوہر کیساتھ ایک رات گزارے؟۔ یہ تو سزا ہے کہ کسی کا ہاتھ کاٹا جائے، کسی کا سرقلم کیا جائے، کسی کے ہاتھ اور پیر مخالف جانب سے کاٹے جائیں اور کسی کو کوڑے لگائیں جائیں یا کسی کو سنگسار کیا جائے ۔ لیکن یہ کونسی سزا ہے کہ جرم مرد کرے اور اس کی سزا عورت کو دی جائے اور سزا بھی ایسی کہ دوسرے شوہر کے ساتھ ایک رات گزاری جائے اور اس کی عزت کا فالودہ بنادیا جائے؟۔
کیا قرآنی آیات میں اتنے تضادات ہوسکتے ہیں کہ ایک طرف اللہ یہ بات واضح کردے کہ عدت کی تکمیل سے پہلے باہمی رضامندی سے رجوع ہوسکتا ہے اور پھر اللہ کہے کہ عدت میں ایک مرتبہ کی تین طلاق کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا۔ اور پھر اللہ کہے کہ عدت کی تکمیل کے بعد باہمی صلح سے رجوع ہوسکتا ہے؟۔ اس قسم کے تضادات تو کسی پاگل ومجنون کے کلام میں بھی نہیں ہوسکتے ہیں۔ اللہ نے تو پھر چیلنج بھی کردیا کہ ” اگر یہ قرآن اللہ کے علاوہ کسی غیر کی طرف سے ہوتا تووہ مخالف اس میں بہت سارے تضادات پاتے”۔ کیا قرآن کا چیلنج غلط ہے؟۔
اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کے حقوق کا تحفظ بھی کیا ہے ، اسکے وہ تمام مسائل بھی حل کئے ہیں جو جاہلیت میں اس کو درپیش تھے۔ اور معاشرے کے تمام مذہبی مسائل کا حل بھی نکالا ہے۔ پہلا مسئلہ یہ تھا کہ لوگ سمجھتے تھے کہ شوہر بیوی کے درمیان صلح میں اللہ رکاوٹ ہے۔ آیت224البقرہ میں اللہ نے واضح کیا ہے کہ نیکی، تقویٰ اور لوگوں کے درمیان صلح میں اللہ کبھی بھی رکاوٹ نہیں بن سکتا ہے۔ نمبر2یہ تھا کہ بعض الفاظ سے اللہ پکڑتا ہے جسکے بعد رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ اللہ نے آیت225البقرہ میں واضح کردیا کہ الفاظ کی وجہ سے اللہ نہیں پکڑتا ہے بلکہ دل کے گناہ سے پکڑتا ہے۔ طلاق صریح وکنایہ اور ان مسائل پر تمام اختلافات اور تضادات کی اللہ تعالیٰ نے بیخ کنی کردی ہے۔ نمبر3یہ تھا کہ لوگ طلاق کا اظہار کئے بغیر سالوں سال عورت کو رلاتے تھے لیکن اللہ نے آیت226البقرہ میںواضح کردیا کہ ناراضگی میں عورت کی عدت چار ماہ تک انتظار کی ہے اور اس میں بھی اگر طلاق کا عزم ہو تو یہ دل کا گناہ ہے اسلئے کہ عورت کو تین ماہ کی جگہ چار ماہ تک انتظار کروایا جائے تو عدت میںایک ماہ کا اضافہ گناہ ہے۔ جس کی نشاہدہی آیت227البقرہ میں بھی کردی ہے۔ نمبر4یہ تھا کہ عورت کو عدت میں طلاق دی جاتی تھی تو عدت میں بار بار رجوع کا اختیار بھی شوہر کو ہوتا تھا اور نمبر5یہ تھا کہ ایک ساتھ تین طلاق پر حلالہ کی لعنت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آیت228میں دونوں مسائل کا ایک حل نکال دیا۔ جب عدت کے اندر صلح کی شرط پر رجوع ہوسکتا ہے تو پھر بار بار غیرمشروط رجوع اور ایک ساتھ تین طلاق پر حلالے کا مسئلہ نہیں رہتا ہے۔جس کی وجہ سے طلاق رجعی کا تصور بھی بالکل باطل ثابت ہے کیونکہ طلاقِ رجعی کی وجہ سے شوہر عورت پر نہ صرف تین عدتیں گزارنے کا قانونی حقدار بنتا ہے بلکہ اس سے دوسرے بھی لامتناہی مسائل جنم لیتے ہیں۔ اس آیت سے حلالہ کا تصور بھی ختم ہوتا ہے اسلئے کہ جب رجوع کا تعلق باہمی اصلاح کی شرط سے ہے تواکٹھی تین طلاق اور حلالے کا تصور بھی ختم ہوجاتا ہے۔ نمبر6یہ تھا کہ عورت کو طلاق کے بعد بھی اپنی مرضی سے شادی نہیں کرنے دی جاتی تھی تو اللہ تعالیٰ نے ناراضگی اور طلاق میں بار بار باہمی رضامندی ، اصلاح کی شرط پر اور معروف طریقے سے رجوع کی اجازت کی وضاحت کردی ہے جس سے باہمی رضا،اصلاح ، معروف طریقے کے بغیر رجوع کرنا حلال نہیں ہے لیکن مردوں کی دنیا میں عورت بیوی بن جائے تو اس کی غیرت کا مسئلہ بنتا ہے اسلئے کوئی آیت بھی دل ودماغ میں بٹھانے کا سوال پیدا نہیں ہوتا تھا۔ احناف کے ہاں یہ مسئلہ ہے کہ نیت نہ ہو تو بھی شہوت کی نظر پڑجائے تو رجوع ہے اور شافیوں کے نزدیک نیت نہ ہو تو جماع کرنے کے باجود بھی رجوع نہیں ہے۔ اللہ کی طرف سے معروف رجوع کو فقہاء نے منکر رجوع میں بدل دیا۔ جس دن قومی اسمبلی اور سینٹ کے مشترکہ اجلاس میں اسلام کے بنیادی اور اہم حساس معاشرتی مسائل پر بحث ہوئی یا میڈیا پر معاملات منظر عام پر آگئے تو مذہبی طبقات بھی بہت خوش ہوں گے کہ مسائل سے جان چھوٹ گئی۔
اللہ تعالیٰ نے آیت229البقرہ اور230البقرہ میں اہم معاشرتی مسئلے کا حل نکال دیا کہ جب شوہر دو مرتبہ طلاق کے بعد بھی عدت کے تین مراحل میں تیسری مرتبہ بھی معروف رجوع کرنے کے بجائے تیسری طلاق دے تو پھر اس کیلئے حلال نہیں ہے کہ حق مہر اور جو کچھ بھی اس کو دیا ہے اس میں سے بھی اس عورت سے واپس لے۔ البتہ اگر کوئی ایسی چیز ہو کہ اگر وہ نہ دی جائے تو دونوں کے میل ملاپ اور اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا خوف ہو تو پھر وہ دی ہوئی چیز واپس کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے۔ تین طلاق کی وضاحت تو آیت229البقرہ میں موجود ہے اور اس میں خلع کا کوئی تصور نہیں ہوسکتا ہے۔ چونکہ مردوں کی ایک فطرت ہے کہ طلاق کے بعد بھی عورت کو اپنی مرضی سے جہاں بھی چاہیں تو دوسرے سے نکاح کرنے کو اپنی غیرت کے خلاف سمجھتے ہیں اسلئے اللہ نے ایسی طلاق کے بعد کہ جب دونوں اور معاشرے کی طرف سے نہ صرف جدائی کا فیصلہ ہو، بلکہ آئندہ رابطے نہ رکھنے کی کوئی سبیل بھی نہ چھوڑی جائے ،پھر رجوع کی اجازت ہونے یا نہ ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے بلکہ شوہر کی طرف سے عورت کیلئے آزادانہ دوسرے سے نکاح کی اجازت بھی بہت بڑا معاشرتی مسئلہ بنتا ہے اسلئے اللہ نے آیت230البقرہ میں فرمایا کہ پھر اگر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ کسی اور سے نکاح کرلے۔
کوئی دانشمند قوم ہوتی تو یہی سمجھ لیتی کہ قرآن نے حلالے کی لعنت میں ہمیں ڈالا نہیں ہے بلکہ بچایا ہے۔ البتہ جب بھی عورت صلح کیلئے راضی نہ ہو تو اس کیلئے فتویٰ اسی آیت سے لیا جائے گا تاکہ عورت کو صحیح معنوں میں آزادی مل جائے۔
ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ طلاق پر اتنی ساری بحثیں پھر کیوں ہیں ؟۔ کہ طلاق ہوئی یا نہیں ہوئی ؟۔ بچے اور مجنون کی طلاق ہوتی ہے یا نہیں؟۔ غصے کی حالت میں طلاق معتبر ہے یا نہیں؟۔ طلاق کیلئے گواہوں کی تصدیق اور مطالبہ؟۔ کس کے نزدیک کس لفظ سے طلاق ہوئی یا نہیں ہوئی؟۔
اگر ان ساری باتوں کا نتیجہ دیکھ لیں تو اس کا خلاصہ یہی ہے کہ عورت خلع لے تو اس کے حقوق طلاق سے بہت کم ہوتے ہیں لیکن اگر مرد طلاق دے تو اس میں عورت کے حقوق بہت زیادہ ہیں۔ سورہ ٔ النساء آیت19میں خلع کا حکم بیان کیا گیا ہے اور سورہ ٔ النساء آیات20،21میں طلاق کا حکم بیان کیا گیا ہے۔ شوہر نے طلاق دی ہو تو عورت کو منقولہ وغیرمنقولہ جائیداد میں سے جو کچھ بھی دیا ہو تو وہ واپس نہیں لے سکتا ہے اور عورت خلع لے تو پھر عورت صرف منقولہ دی ہوئی چیزوں کو اپنے ساتھ لے جاسکتی ہے لیکن گھر سے اس کو نکلنا ہوگا اور غیرمنقولہ اشیاء جائیداد سے بھی دستبردار ہونا پڑے گا۔ جب شوہر اور بیوی کے درمیان کوئی جھگڑا ہوجائے کہ طلاق دی ہے یا نہیں؟۔ تو اصل میں حقوق کی وجہ سے یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ عورت جھوٹ بول رہی ہے یا سچ بول رہی ہے؟۔ پھر طلاق کیلئے جو بھی الفاظ، اشارے، کنائے ، صریح اور کنایہ کے الفاظ معتبر قرار دئیے جائیں تو اس میں عورت ہی کا فائدہ ہے کیونکہ جدائی میں شوہر کی طرف سے پہل ہو تو اس کا خمیازہ شوہر کو ہی بھگتنا پڑے گا۔ البتہ اگر عورت ایک طرف اپنی جان چھڑانے کے چکر میں ہو اور دوسری طرف شوہر پر طلاق کی تہمت لگائے تو یہ شوہر کیساتھ بڑی زیادتی ہوگی لیکن اس کو ثابت کرنے کیلئے عورت کو گواہ لانے پڑیں گے۔
مولانا اشرف علی تھانوی جیسے جید عالم دین اور حکیم الامت کہلانے والے نے بھی اپنی مایہ ناز کتاب ” حیلہ ناجزہ ” میں یہ لکھا ہے کہ ” اگر شوہر نے اکٹھی تین طلاق دے دیں اور پھر وہ مکر گیا تو عورت اس پر حرام ہوگی لیکن عورت کیلئے اپنی جان چھڑانے کیلئے دو گواہ لانے ہوں گے۔ اگر وہ دو گواہ نہ لاسکی اور شوہر نے قاضی کے سامنے حلف اٹھالیا تو وہ عورت حرام کاری پر مجبور ہوگی۔ پہلے وہ ہر قیمت پر خلع لے ،لیکن اگر شوہر خلع نہیں دیتا ہے اور اسکے ساتھ جماع کرتا ہے تو پھر عورت دل سے خوش ہو ،نہ لذت اٹھائے ورنہ گناہگار ہوگی” ۔
یہ فقہ کا مسئلہ ہے جو دیوبندی اور بریلوی دونوں میں رائج ہے۔ یہ اسلام نہیں بلکہ گدھوں کی ڈھینچو ڈھینچو اور وہ آواز ہے جو گدھا پیچھے سے خارج کرتا ہے۔ اگر نکاح وطلاق کے حوالے سے یہ گھناؤنے مسائل میڈیا یا پارلیمنٹ میں آگئے تو سب کی طبیعت صاف ہوجائے گی۔ اسلام کے نام پر یہ مسائل بدنمادھبہ ہیں ۔
علماء ومفتیان نے اسلام کے نام پر بہت سہولت، عزت، دولت، شہرت اور قیمت وصول کرلی ہے ،اب اسلام کی جان چھوڑیں۔ مسلمانوں کو بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث اور اہل تشیع ٹس سے مس اسلئے نہیں ہوتے ہیں کہ ان کو اسلام اور مسلمانوں کی سرخروئی سے زیادہ اپنی پڑی ہوئی ہے۔ حضرت عمر کا فیصلہ بالکل ٹھیک تھا کہ تین طلاق کے بعد شوہر کو رجوع کا حق حاصل نہیں ہے۔ حکمران کے دربار میں عورت اور شوہر کا تنازعہ آتا ہے لیکن اگر دونوں آپس میں راضی ہوتے تو حضرت عمر کے پاس کیوں جاتے؟۔ اگر یہ تنازعہ ایک طلاق پر بھی کھڑا ہوتا تو حضرت عمر نے یہی فیصلہ دینا تھا اسلئے کہ اس کے بعد قرآن باہمی رضامندی کے بغیر رجوع کی اجازت نہیں دیتا ہے۔
پاکستان میں لینڈمافیا کے پیچھے بااثر طبقات کا بہت بڑا کردار ہے۔ بہت دیر کردی مہرباں نے آتے آتے۔ نسلہ ٹاور گرانے کے بعد سپریم کورٹ نے فوج کے تینوں اداروں کے سربراہوں کو طلب کیا ہے کہ دفاعی مقاصد کیلئے دی جانے والی زمینوں پر کاروبار کیوں کررہے ہو؟۔ علی وزیر کو بھی رہا کردیا گیا ہے لیکن اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حامد میر نے علی وزیر کی قید اور تحریک لبیک کیساتھ مذاکرات کوپختون پنجابی مسئلہ کیوں قرار دیا تھا؟۔ حالانکہ تحریک طالبان ولبیک کیساتھ ایک جیسا معاملہ تقریباً ہورہاہے۔ وانا جنوبی وزیرستان میںطالبان کے خلاف پاک فوج نے کبھی کوئی آپریشن نہیں کیا تھا اورPTMجن گمشدگان کے لواحقین کیلئے آواز بلند کررہی تھی وہ سب کے سب طالبان کے پسماندگان تھے۔
قوم پرستی اور فرقہ پرستی کے پیچھے جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی مسائل کا حل نہیں ہے۔ قوم کو مزید آنکھ مچھولی میں ڈالنے کے بجائے سیدھے انداز میں ایک بہت شفاف سیاسی، عدالتی ، ریاستی اور انتظامی ایسے نظام کی ضرورت ہے کہ اس قوم کی تقدیر بدل جائے۔ تعصبات کے نعروں کے پیچھے جرائم پیشہ افراد کو تحفظ دینے کی روایت ختم ہونی چاہیے۔ نبیۖ نے جب سود کی حرمت کے بعد مزارعت کا نظام ختم کردیا تو زمیندار اور کاشت کار اپنے پیروں پر کھڑے ہوگئے، بھوک اور افلاس کی نوبت ختم ہوگئی۔ شہروں کے تاجروں کے بھلے ہوگئے اور مزارعت کے نظام سے جو جاگیردار لونڈی اور غلام پیدا کررہے تھے تو اس کا ریاستِ مدینہ نے خاتمہ کردیا تھا۔ پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں ہے لیکن قبضہ مافیا نے مسائل پیدا کرکے پاکستان کو مسائلستان بنادیا۔ آخر میں ایک بھائی کے اشعاردیکھ لیں!
سب کو معلوم عدل وانصاف کی نزاکت
کمزور پہ ہے لاگو قانون کی حجامت
ججوں کی تشریحات ترجیحات عدالت
بنیئے کا ترازولارڈ مکالے کی قدامت
جائیداد کی منی ٹریل یاجج کی علالت
بنتا نہ تھا جواب تو سوال پہ ندامت؟
رشوت کامال ہے عدلیہ کی حقارت
بیویوں کی ضرورت بچوں کی کفالت
غیر قانونی طریقے پر بھی یہ سخاوت
جج کی بیگم کو ملی جو کھلم کھلی اجازت؟
ووٹ کو عزت دو نوٹوں کی شرارت
گدھوں کا بیوپار، گھوڑوں کی سیاست
لال کرتی کی پیداوارواقعی ملامت
کمینی ہے اشرافیہ چوروں کی قیادت
مَلِک ، سردار، نواب غدارسلامت
ملا کی شریعت، پیرومرشد کی ارادت
رنگیلے سربراہ بہروپئے کی صداقت
جمہوری شکنجے، آمروں کی ریاست
رائیونڈ کے محلات شداد کی حمایت
اقتدار میں مدہوش فرعون کی غلاظت
ہوس نہ بجھی ،ہوش ربازرکی رفاقت
قارون کی دولت زرداری کی لاگت
ملک ہوا آزاد شبِ قدر کی مسافت
جناح کی عزیمت،اقبال کی اقامت
غلامی کی زنجیریں بیڑی کی تجارت
وہی قانون ہے وہی شیطان کی وکالت
تنگ آمد بجنگ آمدقوم کی بغاوت
اب آئے گا اسلام، ظالم سے شکایت
سب کا پاکستان سب کی امامت
ہے اسکا مقدر ، دنیا کے امن کی ضمانت
اقوام عالم کے فیصلوں کی نظامت
ہوگی یہاںقائم طرزنبوت کی خلافت
رہے کوئی جہالت نہ کسی کی ضلالت
بندے بنیں رب کے، کریں عبادت
کوئی سزا دے نہ کرے کوئی ملامت
آئے جس کی بھی اپنے ضمیر کی شامت
بتارہا ہوں سادہ لفظوں میں حکایت
بے انتہاء بلند منزل ہے اللہ کی عنایت
صاحر کی آرزو نہیں ہے کوئی جنایت
سب کی حکومت ایک امیر کی اطاعت

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

تین طلاق کے بعد حلالہ کا تصور غلط ہے۔ مفتی انس مدنی صاحب سے گزارش ہے کہ اہل حدیث اور شیعہ سمیت قرآن و حدیث کو سمجھنے میں سب سے بڑی غلطی کریں۔

مفتی انس مدنی سے بصد احترام کیساتھ عرض ہے کہ قرآن واحادیث کو سمجھنے میں اہلحدیث وشیعہ سمیت
سبھی کو بہت بڑی ٹھوکر لگ چکی ہے اور اکٹھی تین طلاق و حلالہ کے علاوہ طلاقِ رجعی کاتصور بھی غلط ہے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ شمارہ دسمبر2021

افسوس اور صد افسوس کی بات یہ ہے کہ قرآن وسنت کی طرف دھیان دینے کے بجائے اپنے اپنے مسلک کی ٹانگ اُونچی کرنے میں سب لگے ہوئے ہیں۔ مدارس میںدرسِ نظامی کا نصابِ تعلیم بہت بہترین ہے لیکن اس سے فائدہ نہیں اُٹھایا جارہاہے۔ ہمارے اساتذہ کرام اور طلباء عظام کے دل ودماغ ایک رات میں کھل سکتے ہیں، بس ان کے گرد وپیش حالات بدلنے کی دیر ہے۔ مدارس کے علماء ومفتیان مجھے اپنی پنچ وقتہ نمازوں کی دعاؤں میں دل سے یادبھی رکھتے ہیں، البتہ ماحول سے نکلنا بہت مشکل کام ہے اور انشاء اللہ سب جلد نکل جائیں گے۔
میری اپنی ایسی اوقات نہیں کہ مجھ سے کوئی ڈرے، گھبرائے یا پھرشرمائے۔ دلیل کی زبان، قرآن کی فصاحت اور احادیث کی بلاغت سب فرقے مانتے ہیں اور ہم شیعہ سنی، حنفی اہلحدیث اور دیوبندی بریلوی کے تعصبات سے نکل کرحقائق کی بات عوام تک پہنچارہے ہیں۔ دیوبندی بریلوی حنفی مسلک کے پیروکار ہیں اور شیعہ واہلحدیث کے مسالک حنفی مسلک کے ردِ عمل میں بن گئے ہیں ۔ جب عمل اور ردِ عمل سے نکل کر ہم قرآن وسنت اور احادیث وصحابہ کرام اور ائمہ اربعہ ومحدثین کے حوالے سے دلائل کی وضاحت کریں گے تو اتفاق رائے پیدا ہوگی۔
سب سے پہلا اور بڑا فتنہ اس بات سے پیدا ہوا تھا کہ حضرت عمر نے ایک ساتھ تین طلاق واقع ہونے کا فیصلہ درست کیا تھا یا غلط کیا تھا؟۔ حضرت عمر کے پیدا کردہ دیگر مسائل پر بھی مسالک میں شدید اختلافات موجود ہیں۔ایک مسئلہ یہ ہے کہ حج و عمرے کا ایک ساتھ احرام باندھنا جائز ہے یا نہیں؟۔ حضرت عمر نے حج عمرے کا احرام ایک ساتھ باندھنے پر پابندی لگائی ۔ حنفی مسلک والے فقہ میں پڑھاتے ہیں کہ حضرت عمر کی یہ تعلیم قرآن وسنت کے منافی اور غلط ہے۔ حالانکہ حضرت عمر نے بالکل ٹھیک کیا تھا اسلئے کہ قرآن وسنت میں صرف جواز تھا لیکن جب حضرت عمر نے دیکھا کہ جو لوگ حج وعمرے کا ایک ساتھ احرام باندھ کر حج سے کچھ دن پہلے مکہ مکرمہ میں پہنچ جاتے ہیں۔ گدھے ، گھوڑے، اونٹ اور پیدل دور دراز کا سفر کرنے والوں کے احرام پسینوں سے شرابور ، بدبودار اور متعفن ہیں جس سے حج کے اجتماع میں بدترین تعفن پھیل رہاہے۔ حضرت عمر نے بدبو اور آلودگی پھیلانے کی وجہ سے ایک ساتھ حج وعمرے کا احرام باندھنے پر پابندی لگائی تھی۔ صحیح مسلم میں حضرت عمران بن حصین سے روایات ہیں کہ ہم نے نبیۖ کو حج وعمرے کا احرام ایک ساتھ باندھتے ہوئے دیکھا اور پھر کوئی ایسی وحی بعد میں نازل نہیں ہوئی کہ ایک ساتھ حج وعمرے کے احرام سے منع کیا گیا ہو، جس نے بھی یہ کیا ہے یہ اس کی اپنی رائے ہے۔ جب ہم سنت پر عمل کیا کرتے تھے تو فرشتے ہم سے مدینہ کی گلیوں میں مصافحہ کرتے تھے لیکن جب ہم نے سنت پر عمل کرنا چھوڑ دیا تو ہم سے وحی کی برکات اُٹھ گئیں۔جب تک میری زندگی ہے تو مجھ سے یہ باتیں نقل مت کرو، کیونکہ حضرت عمر سے ڈر لگ رہاتھا۔
حضرت عثمان نے جب ایک ساتھ حج وعمرے کا احرام باندھنے پر پابندی کا اعلان کیا تو حضرت علی نے کھل کر آپ کی مخالفت کردی اور حج وعمرے کا احرام باندھ کر کہا کہ کوئی مجھے سنت سے روک کر دکھائے۔ عبداللہ بن عمر نے کہا کہ میں رسول اللہۖ کی رسالت پر ایمان لایاہوں ، اپنے باپ حضرت عمر کی بات کو میں نہیں مانتا ہوں۔ حضرت عبداللہ ابن عباس نے کہا کہ مجھے تعجب ہے کہ آسمان سے تم پر پتھر کیوں نہیں برستے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ ۖ نے یہ کیا اور تم ابوبکر وعمر کی بات کرتے ہو؟۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صحیح مسلم وصحیح بخاری ، فقہ وتفسیر کی کتابوں میں یہ سب باتیں لکھی ہوئی ہیں لیکن کیا حضرت علی نے حضرت عثمان سے بخاری کی روایت کے مطابق جھگڑا کیا تھا اور حضرت عمر سے حضرت علی خوف کھا رہے تھے؟۔
اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عمر نے پسینوں کی بدبو کی وجہ سے حج و عمرے کا احرام ایک ساتھ باندھنے پر پابندی لگائی تھی جس کی حضرت علی بھی تائید کررہے تھے لیکن جب حضرت عثمان نے حضرت عمر کی اتباع میں حج وعمرے کا احرام ایک ساتھ باندھنے پر پابندی لگائی تو حضرت علی نے آپ کی کھل کر مخالفت کی تھی۔
جن لوگوں نے اصل حقائق کو سمجھنے کے بجائے حضرت علی کی اتباع میں ایک ساتھ حج وعمرے کا احرام باندھنے کو بدبو کا خیال رکھے بغیر جاری رکھا تو نسل در نسل ان کی اولادوں کی جینز میں تعصبات کی یہ بدبو جم گئی اور جنہوں نے حضرت عمر کی اتباع میں سنت کی مخالفت کو بھی جائز سمجھ لیا تھا تو ان کے دل ودماغ سے قرآن وسنت کی ہدایت چھن گئی۔ قرآن میں اللہ اور اسکے رسولۖ کی اتباع کا باربار ذکر ہے اور یہ بھی اللہ نے فرمایا ہے کہ ”جس نے رسول کی اطاعت کی تو اس نے اللہ کی اطاعت کی”۔ اولی الامر سے اختلاف کو قرآن میں جائز رکھا گیا ہے اور خلفاء راشدین کے دور میں اولی الامر کیساتھ اختلاف کا راستہ کھلا ہوا تھا۔
حج وعمرے کا ایک احرام ایک ساتھ باندھنا جائز ہے لیکن اگر پسنیوں کی بدبو اور تعفن کا احساس رکھنے کی بنیاد پر مسلکی تعصبات سے بالاتر ہوکر پابندی لگانے کا جائزہ لیا جاتا توپھر تفسیروحدیث اور فقہ کی کتابوں میں مسائل پربے جا بحث نہ ہوتی۔اہل تشیع کو تعصبات نے یہاں تک پہنچادیا کہ حضرت عمر و حضرت عثمان پر مسلمانوں کو دوبارہ مشرکینِ مکہ کے مذہب میں لوٹانے کی سازش سے بھی دریغ نہیں کیا اور جمہور اہل سنت کے مسالک نے قرآن وسنت کو بالکل نظر انداز کردیا تھا۔البتہ فقہ حنفی کے زعماء نے اعتدال کو اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیا تھا لیکن وہ بھی اصل مسئلے کی جڑ تک نہیں پہنچ سکے تھے اسلئے اختلافات کا سلسلہ باقی رہاتھا۔ اور اب مسلکی تعصبات سے بالاتر ہوکر پہلی مرتبہ مسئلہ نکھر کر سامنے آگیا ہے۔ یہ محض اللہ کا فضل اور جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے اساتذہ کرام کا فیضان ہے۔
تفسیر وحدیث اورفقہ کی کتابوں میں حج وعمرے کا احرام ایک ساتھ باندھنے کو تمتع کہا گیا ہے اور قرآن میں حج کیساتھ عمرے کے تمتع کا ذکر ہے۔ احادیث کی کتابوں میں وضاحت ہے کہ حضرت عمر نے حج اور عورتوں کے متعہ پر پابندی لگائی تھی۔ حضرت علی نے فرمایا تھا کہ متعہ النساء پر پابندی نہ لگائی جاتی تو بدبخت کے سوا ء کوئی زنا نہ کرتا۔ تفسیر واحادیث اور فقہ کی کتابوں میں متعہ النساء پر بہت اختلافی مواد موجود ہے۔یہ مسئلہ بھی حل طلب اور سب کیلئے قابلِ قبول بن سکتا ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت علی سے منسوب ہے کہ فتح خیبر میں گھریلو گدھوں اور عورتوں کی متعہ کو حرام قرار دیا گیا ۔ حالانکہ برصغیرپاک وہند کی طرح عرب میں بھی گھوڑے ، گدھے اور خچر کو کھانے کیلئے نہیں سواری کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔
صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ ابن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہۖ نے فرمایا کہ خود کو خصی مت بناؤ۔ ایک دو چادر کے بدلے متعہ کرو۔ اللہ نے فرمایا ہے کہ لاتحرموا مااحل اللہ لکم من الطیبٰت ( جن چیزوں کو اللہ نے تمہارے لئے حلال کیا ہے ان کو حرام مت کرو”۔ القرآن ۔ صحیح بخاری۔
صحیح بخاری میں حضرت علی کی طرف منسوب قول بالکل بے بنیاد ہے اسلئے کہ حضرت علی متعہ کے قائل تھے اور حضرت ابن مسعود کی روایت میں بہت وزن ہے جس میں رسول اللہۖ نے متعہ کی حلت کو قرآن کی طرف منسوب کیا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود نے اپنے مصحف میں تفسیر جلالین کی طرح تفسیرلکھ دی تھی کہ ومتعوھن (الی اجل مسمٰی) اور ان سے فائدہ اٹھاؤ ،ایک مقررہ وقت تک ۔افسوس کہ مفسرین نے لکھ دیا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کے قرآن میں یہ اضافہ تھا۔ حالانکہ بین السطور یہ حضرت عبداللہ ابن مسعود کی تفسیر میں ایک اضافہ تھا۔ صحابہ کرام کے الگ الگ قرآن ہرگز بھی نہیں تھے۔ جن لوگوں نے اپنے درسِ نظامی کے نصاب میں یہ غلط تعلیم داخل کی ہیں اس کی تصحیح کریں۔
حضرت ابن عباس نے فرمایاکہ رسول اللہ ۖ ، حضرت ابوبکر اورحضرت عمر کے ابتدائی دور میں چندسالوں تک متعہ النساء جاری تھی اور پھر حضرت عمر نے اس پربعد میں پابندی لگادی۔(صحیح مسلم) صحیح مسلم میں یہ بھی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر نبیۖ نے متعہ کی اجازت دی اور صحابہ کرام نے متعہ کیاتھا۔ لیکن پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ فتح خیبر کے موقع پر متعہ اور گھریلو گدھے حرام قرار دینے کی وضاحت کے بعد پھر کیسے اس کو حلال قرار دیا گیا؟۔ ایران میں متعہ جاری تھا۔ پاکستان میں رنڈیوں کو متعہ کے نام پر بدکاری کے لائسنس جاری ہوتے تھے۔ اب مصر ، سعودیہ اوردیگر ممالک میں مسیار کے نام سے متعہ کی اجازت دیدی گئی ہے۔ پاکستان میں کچرا کنڈی اور جھولوں سے ملنے والے نومولود بچوں کی بہت کثرت ہوگئی ہے ۔ حال ہی میں گلشن حدید کراچی میں ایک نومولود بچہ اس وقت بہت بری طرح جھلس گیا تھا جب کچرے کو آگ لگادی گئی تھی اور اس چیخوں کی سے عرش ہل رہاتھا کہ مجھے کس جرم کی سزادی جارہی ہے۔ اصحاب حل وعقد کو مسئلے مسائل کا حل سنجیدگی اور دلائل سے نکالنا پڑے گا ورنہ بہت خرابیاں پیدا ہوں گی اور اس کی سزا نسل در نسل پوری پاکستانی قوم ہمیشہ بھگتی رہے گی۔
حضرت عمر کے فیصلے کی وجہ سے ایک تیسرا مسئلہ حلالے کا پیدا ہواہے اور اس کے سب سے بڑے مراکز مساجد ومدارس اور حلالہ سینٹرز ہیں۔ طلاق کے بہت سادے مسئلے کو کچھ اس طرح سے الجھادیا گیا ہے کہ بڑے بڑوں کا دماغ بھی اپنا کام چھوڑ دیتا ہے۔ ایک بہت بڑے اسلامی انقلاب کی آمد آمد ہے اور اللہ نے قرآن میں اسلام کو تمام ادیان پر غالب کرنے کو جو پیش گوئی فرمائی ہے اب اس کا وقت بہت قریب دکھائی دیتا ہے۔ افغانستان کے سخت گیر طالبان بھی اقتدار میں آکر اب تاریخی لچک کا مظاہرہ کررہے ہیں اور یہ بہت خوش آئند بات ہے۔ یہ اسلامی دنیا اور عالمِ کفر میں ایک بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ہے کہ انسانی بنیاد پر افغان عوام کی مدد کا فیصلہ یورپی یونین اور مغربی ممالک بھی کررہے ہیں۔
میری چاہت ہے کہ پاکستان وافغانستان کے امور کا امریکی نمائندہ جیسے اپنا کام کرتا ہے ،اس طرح میں پاکستان وافغانستان کا نمائندہ بن کر کینیڈا میں بیٹھ جاؤں اور اہل مغرب کو اسلام اور اس کے مزاج پر درس دوں اور مسلم امہ کو حقائق کی طرف لانے میں اپنا کردار ادا کروں۔آج مسلمانوں اور اہل مغرب میں وہ اسلامی اور انسانی کردار ادا کرنے کی بہت سخت ضرورت ہے جس کی وجہ سے ہم آئندہ تیسری جنگ عظیم کے خطرات سے بچنے میں کافی حد تک کامیاب ہوسکتے ہیں۔ جب اسامہ بن لادن پر امریکہ نے حملہ کیا تھا تو ہم نے شہ سرخی لگائی تھی کہ ”امریکی صدر کلنٹن کی بیٹی اسامہ کی لونڈی بنائی جائے”۔ پاکستان میں تمام اخبارات اور نیوز ایجنسیوں کو میں نے فتویٰ جاری کیا تھا کہ ” امریکی صدر کی آمد پر جو پاکستانی اہلکار بھی کلنٹن کو نشانہ بناسکتا ہے تو بنالے ،اسلئے کہ ڈیڑھ سو پاکستانی مجاہدین اسامہ بن لادن کے حملے میں کلنٹن کے حکم سے شہید کئے گئے ہیں”۔
جب1987ء میں میں افغان جہادمیں گیا تھا تو حرکة الجہاد الاسلامی کے مولانا خالد زبیر شہیدوغیرہ سے کہا تھا کہ ایک طرف روس اور دوسری طرف پھر امریکہ ہے تو ہمیں قبائلی علاقے سے دونوں کے خلاف جہاد کرنا ہوگا اور وہ اس بات پر متفق ہوئے تھے اور مجھے افغانستان سے پاکستان پہنچادیا تھا لیکن میرے مرشد حاجی محمد عثمان پر فتوؤں کی وجہ سے میری جدوجہد کا رُخ بدل گیا تھا اسلئے کہ اپنے معاشرے میں ظلم ہو تو پھر دوسروں کے خلاف آدمی کیا جہاد کرے گا؟۔
سوشل میڈیا پر وزیراعظم عمران خان کے نانا کے حوالے سے موجود ہے کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی ملعون کا گیارہواں صحابی تھا۔ عمران خان کی اماں بھی مرزائی ہوگی اور اس نے چندوں کے پیسوں سے بننے والے ہسپتال کا نام اپنی ماں کے نام پر رکھا ہے۔ صیہونیت کا منصوبہ تھا کہ کشمیر، گلگت اور پنجاب کو سکھ اورمرزائی اسٹیٹ بنایا جائے۔ پاکستان اور بھارت کو توڑ کر عالمی منصوبہ ساز ادارے اب بھی اپنے مشن کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں۔ ہتھیار کے استعمال اور ملک وقوم کی تقسیم سے عالمی ایجنڈہ جاری ہے۔ انسانوں کو مذہب اور قومیت کی بنیاد پر روبوٹوں کی طرح استعمال کیا جارہاہے۔ برصغیرپاک وہند سے قرآن وحدیث ، صحابہ اور ائمہ اربعہ کے مسلک کی درست تشریح سے ہماری تباہی کا ایجنڈہ رُک سکتا ہے اور ہماری کاوش انشاء اللہ جاری رہے گی لیکن مغرب کے دل میں بیٹھ کر اسلام کی حقانیت کو بیان کرنے کے نتائج زیادہ جلدی مرتب ہونے کے امکانات ہیں۔
انگریز سمجھتا ہے کہ جب مسلمان اپنی بیگمات کے حلالہ کروانے سے بھی باز نہیں آتے ہیں تو یہ ہماری بیگمات کو بھی لونڈیاں بناکر چھوڑیں گے اسلئے ایک نئی اور جھوٹی نبوت مرزائیت سے اسلام اور مسلمانوں کی بیخ کنی کرنا چاہتے ہیں۔ جب نوازشریف کے دور میں قادیانیت کے حق میں قومی اسمبلی سے بل پاس ہوا تھا تو سینٹ میں جمعیت علماء اسلام کے حافظ حمداللہ نے اس کی نشاندہی بھی کی تھی لیکن پھر بھی وزیرداخلہ شیخ رشید کو اس وقت اپوزیشن رکن اسمبلی کی حیثیت سے سینٹ اور قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں ن لیگ کے اتحادی جمعیت علماء اسلام کو سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا نام لیکر دعوت دینی پڑی مگر مولانا فضل الرحمن اور اس کی جماعت کے رہنمابت اور بھوت بن کر حکومت کیساتھ کھڑے تھے۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر قادیانیت کے الزامات لگانے والوں کی حد یہ ہے کہ اس بل کے خلاف فیض آباد کے کامیاب دھرنے کا الزام بھی آرمی چیف پر ہی لگایا جاتا ہے۔جو کھیل کھیلا جارہاہے اسکے بہت خطرناک نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔ حلالہ کی لعنت کا خاتمہ اور اسلاف پر اعتماد سے پاکستان اور یہ خطہ بدامنی کی فضاؤں اور دہشتگردی سے محفوظ رہ سکتا ہے اور اسلام کا نام روشن ہوگا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

یہ آپ کے سامنے نوشتہ ٔدیوار ہے ، سید عتیق الرحمن گیلانی صاحب کی بڑی کاوشیں ہیں۔ مفتی انس مدنی

یہ آپ کے سامنے نوشتہ ٔدیوار ہے ، سید عتیق الرحمن گیلانی صاحب کی بڑی کاوشیں ہیں۔ مفتی انس مدنی

پاکستان کے معروف اہلحدیث مولانا عبدالرحمن سلفی اور مولانا محمد سلفی کے بھائی حضرت مفتی محمدانس مدنی جامعہ ستاریہ کراچی نے یوٹیوب چینل پرکہا کہ آپ کے سامنے نوشتہ دیوار۔ مولانا سید عتیق الرحمن گیلانی صاحب۔ آپ کی بڑی کاوشیں ہیں۔ بڑی محنتیں ہیں اور بڑے بڑے علماء کو انہوں نے جھنجھوڑا ہے کہ آپ اپنی مسند کے اوپر بیٹھ کر قرآن و سنت سے ہٹ کر اپنی ذہنی فقہ کو لے کر چل رہے ہیں۔ آپ قرآن و سنت کو پس پشت ڈال رہے ہیں۔ انہوں نے للکارا اور یہاں تک انہوں نے کہا کہ جو بھی مناظرہ کرنا چاہتا ہے گفتگو کرنا چاہتا ہے ٹی وی پر مناظرہ ہوگا۔ تاکہ کل عالم دیکھے کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا ہے؟۔اس معاملے کے اوپر کئی سال ہوگئے ان کو یہ چیلنج کئے ہوئے کہ آج کل تین طلاق کو تین شمار کیا جارہا ہے۔ گھر برباد کئے جارہے ہیں۔ اور لعنت والا کام جس پر اللہ نے بھی لعنت بھیجی اور رسول اللہ ۖ نے بھی لعنت بھیجی حلالہ کروایا جارہا ہے۔ بڑے بڑے مولوی، بڑے بڑے مفتی، بڑے بڑے علامہ فلامہ جبے قبے پہننے والے ، میڈیا کے اوپر آکر درس دینے والے، وہ سب اسی طرف لے جارہے ہیں عوام کو۔ جہالت کی طرف لے جارہے ہیں۔ تو میں یہ کہوں گا آپ یہ نوشتہ دیوار ذرا پڑھا کریں تو آپ کی انشاء اللہ آنکھیں کھل جائیں گی کہ کون صحیح کہہ رہا ہے اور کون غلط کہہ رہا ہے۔ اور اب تک الحمد للہ بڑے بڑے علماء نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ سید عتیق الرحمن گیلانی صاحب جو بھی بات کرتے ہیں طلاق کی مناسبت سے نکاح کی مناسبت سے حلالے کی مناسبت سے عدت کی مناسبت سے وہ قرآن و سنت کے مطابق کرتے ہیں۔ دیوبندی کئی علماء مان چکے ہیں، سنی کئی علماء مان چکے ہیں اور دیگر جماعتوں کے بھی کئی علماء مان چکے ہیں۔ آپ بھی ذرا توجہ کیجئے علم حاصل کیجئے۔ اور علم کے بغیر عمل جو ہے وہ ناکارہ ہوتا ہے۔ اس میں نقصان ہی نقصان ہوتا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن و سنت کا علم حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور اسی کو آگے پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

مفتی خالد حسن مجددی کا پیغام حلالے کی لعنت سے اپنے آپ کو بچائیں۔

حضرت پیر مفتی مجددی کو دل کی اتھاہ گہرائیوںسے وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ،مسلم اُمہ کے نام پیغام
لعنت سے اپنی نسلوں کوبچاؤ: اپنے من میں ڈوب کرپاجاسراغِ زندگی ..تو اگر میرانہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ شمارہ دسمبر2021

اہلسنت بریلوی مکتبۂ فکر کی عوام کو اگر تین طلاق سے حلالہ کے بغیر رجوع کا فتویٰ درکار ہو تو الحمدللہ ایک معروف ہستی حضرت مولانا پیر مفتی خالد حسن مجددی قادری رفاعی کی شخصیت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ہمارے پاس صرف اسرائیل سے تین طلاق کامسئلہ نہیں آیاہے، باقی الحمدللہ دنیا کے اکثر معروف ممالک سے طلاق کے مسائل پر حلالہ کے بغیر صلح کی شرط پر رجوع کیلئے دنیا بھر سے استفتاء آئے ہیں اور ہم نے لوگوں کی عزتیں بچائی ہیں۔ پہلے حنفی عوام الناس اہلحدیث کے پاس تین طلاق سے رجوع کیلئے جایا کرتی تھی اور اب اہلحدیث بھی ہمارے پاس ہی آتے ہیں۔ حضرت مولانا مفتی انس مدنی کی تائید بھی پہلے سے ہمیں حاصل ہے اور حضرت مولانا پیر مفتی خالد حسن مجددی کی تائید بھی پہلے سے ہمیں حاصل ہے۔ پاکستان بھر سے مختلف علماء ومفتیان ہمارے پاس لوگوں کو فتوے کیلئے بھیج رہے ہیں اورہفت روزہ اخبارِ جہاں میں کئی عشروں سے”آپکے مسائل اور ان کا حل : قرآن وسنت کی روشنی میں” حضرت مولانا مفتی محمد حسام اللہ شریفی کا صفحہ لکھنے والے کی تائید بھی ہمارے فتوؤں پر موجود ہوتی ہے جن کا تعلق علماء دیوبند سے ہے اور کراچی سے تعلق رکھتے ہیں۔ بہت ساری خواتین کی عزتین ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے بچائی ہیں۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والوں کو بعض اوقات پنجاب کے کسی جید حنفی بریلوی مکتب فکر کے مفتی صاحب کے دستخظ کی ضرورت ہوتی تھی۔ گزشتہ مہینے ایک انیس سالہ لڑکی کو اسکے اکیس سالہ شوہر نے ایک ساتھ تین طلاقیں دی تھیںتو حلالہ کے فتوے پر اس لڑکی نے خود کشی کی تھی جس پر دنیا نیوز کے بہادر صحافی محمد مالک نے ایک پروگرام بھی کیا تھا۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایک تو وہ لوگ ہیں جو جاگ رہے ہیں مگر وہ کہتے ہیں کہ ہم سورہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو خواب غفلت سے ہم کیسے بیدار کرسکتے ہیں؟۔ دوسرے وہ لوگ ہیں کہ جن کو مسئلہ سمجھ میں آگیا ہے لیکن اتنی جرأت نہیں رکھتے کہ عوام کے سامنے سینکڑوں سال کے اپنے اکابر کو قربان کرکے فتویٰ دیںلیکن یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے جاندار کی تصویر ، سود کی حلت اور باقی مسائل میں اپنے اکابر قربان کردئیے لیکن عورتوں کی عزتیں بچانے کیلئے درست فتویٰ دینے کیلئے بھی تیار نہیں ہوتے ہیں۔ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی کے مدرسے جامعہ دارالعلوم کراچی کے ایریاکورنگی کے علماء کرام کی طرف سے بھی حلالہ کے بغیر رجوع کیلئے لوگوں کو ہم سے فتویٰ کیلئے بھیجا گیا ہے اور یہ وہ علماء ومفتیان تھے جو پہلے ہم سے لڑرہے تھے۔
ایک قسم کے علماء ومفتیان ایسے بھی ہیں جو زبانی طور پر کھل کر ہمارے مؤقف کی تائید کررہے ہیں اور اپنے احباب کو زبانی سمجھا بھی رہے ہیں کہ اس طرح کی طلاق سے بھی باہمی صلح ورضامندی سے رجوع ہوسکتا ہے اور جمعہ کے وعظ میں بھی لوگوں کو حقائق بتارہے ہیں لیکن ان کے نام اپنے اخبار میں اسلئے نہیں دے سکتے ہیں کہ ان پر کچھ باثر علماء ومفتیان کی طرف سے دباؤ کے خطرات ہیں۔
قرآن میں ایک ایمان والوں کی بات ہے اور پھر ایمان والوں کے درجات ہیں جن میں صدیقین، شہداء اور صالحین شامل ہیں۔ صالحین وہ ہوتے ہیں جن کا اپنا عمل اچھا ہوتا ہے اور وہ فسق وفجور سے اجتناب کرتے ہیں۔ صدیقین ایسے لوگ ہوتے ہیں جو صداقت کیلئے باقاعدہ مہم جوئی کرتے ہیں۔ صدیق اکبر کے علاوہ تمام صحابہ کرام کی جماعت صدیقین کی جماعت تھی جنہوں نے قرآن کے نفاذ کیلئے دنیا بھر میں مہم جوئی کی تھی۔ ان کے مقابلے میں ایک کفار تھے جو اسلام کے منکر تھے اور وہ اسلام کو قبول کرنے سے انکاری تھے اور دوسرے مکذّبین تھے جو نہ صرف خود قرآن کا انکار کرتے تھے بلکہ قرآن کے خلاف مہم جوئی کرکے اس کی تکذیب بھی کرتے تھے۔ آج بھی علماء حق اور علماء سو ء کی یہ تقسیم ہے کہ علماء حق قرآنی آیات کا معاملہ سمجھنے کے بعد عورتوں کو حلالہ کی لعنت سے بچانے کیلئے مہم جوئی کررہے ہیں اور علماء سوء قرآنی تعلیمات کے خلاف مہم جوئی کرتے ہیں۔
باپ اولاد کیلئے پہلااستاذ اور ماں اولاد کیلئے پہلی مرشد ہوتی ہے۔اگر باپ نے اپنی اولاد کی ماں کیساتھ کوئی برا سلوک کیا ہو تو اس کے اثرات اولاد پر ضرور مرتب ہوتے ہیں اور اگر ماں باپ کا مثالی تعلق ہو تو اولاد پر بھی اس اخلاق کے اثرات ضرور مرتب ہوتے ہیں۔ باپ نے ماں کو تین طلاقیں دی ہوں اور اس کو حرامکاری سمجھ کر پھر بھی اپنے پاس رکھا ہو تو اسکے اثرات اولاد پر بھی مرتب ہوں گے اور باپ نے ایک ساتھ تین طلاق دئیے ہوں اور ماں سے حلالہ کروایا ہو تو اس کے اثرات بھی اس پر ضرور مرتب ہوں گے۔ آج ایسے لوگوں کی بھی بہت بڑی تعداد موجود ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ماں باپ کے اندر طلاق واقع ہوچکی ہے اور میاں بیوی آپس میں حرامکاری سمجھ کر بھی حلالہ کی ہمت کرنے سے گریز اں ہیں اور بہت سارے لوگ جدائی اختیار کرلیتے ہیں اور بہت سارے حلالے کی لعنت کا بھی ارتکاب کرتے ہیں کہ زندگی بھر کی حرامکاری سے ایک دفعہ کی لعنت اچھی ہے۔ مسلمان معاشرے کو اس دلدل سے نکالنا بہت ضروری ہے۔
بھارت کی ہندو خواتین کو بھی قرآن میں طلاق ، عدت اور اس سے رجوع کا مسئلہ سمجھ میں آگیا ہے لیکن ہمارے بڑے علماء ومشائخ کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے تو بہت تعجب کی بات ہے۔ ہمارے وزیرستان کے محسود کہتے ہیں کہ ” اگر تم نہیں چلوگے تو میں اٹھالوں گا لیکن اگر نہیں کھاؤگے تو میں کیا کرسکتاہوں”۔ مسلم اُمہ کے زعماء وعلماء اور قائدین قرآن کو سمجھنے کی کوشش کریں تو بہت آسان طریقہ ہے اس کو سمجھنے کا جس سے پوری امت مسلمہ اس دلدل سے نکل سکتی ہے لیکن اگر وہ سمجھنے کیلئے تیار نہ ہوں تو ہم کیا کرسکتے ہیں؟۔ یہودونصاریٰ میں جو اہل حق تھے تو انہوں نے قرآن پر ایمان لانے میں لیت ولعل سے کوئی کام نہیں لیا تھا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے علماء ومشائخ نے بھی ایک طرف ہٹ دھرم اور دین فروش یہودی احبار اور عیسائی رہبان کا کردار ادا کیا ہے تو دوسری طرف ان میں اہل حق کی ایک جماعت بھی ہمیشہ سرگرداں رہی ہے۔ جونہی حق کو دیکھا تو اس کو قبول کرنے سے ذرا بھی نہیں ہچکچائے اور اہل باطل کو دیکھا تو اس کی تردید کرنے سے ذرا بھی نہیں ہچکچائے۔ میرا تعلق جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور مولانا درخواستی کے بیٹے مولانا فداء الرحمن درخواستی کے انوار القرآن آدم ٹاؤن نیوکراچی سے رہا ہے۔ پچھلے دنوں کراچی میں مولانا امین انصاری، علامہ کرار نقوی اور جامعہ ستاریہ کے ایک اہلحدیث عالم دین سے ملاقات ہوئی تو یہ سب حضرات مجھے جانتے تھے ۔ علامہ کرار نقوی سے ملاقات رہی ہے۔ انکے دفتر اور گھر میں بھی گیا ہوں، اہلحدیث عالم سے غائبانہ تعارف تھا اور دیوبندی مولانا امین انصاری نے بتایا کہ ”میں آپ کا سابعہ (موقوف علیہ ،درس نظامی )میں کلاس فیلو تھا”۔
جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں زمانہ طالب علمی کے دوست مولانا نیازمحمد ناطق بالحق لورالائی بلوچستان کالعدم سپاہ صحابہ کے صوبائی صدر اور جیش محمد کے رہنما نے ہمارے ساتھی سے کہا کہ طلاق کا مسئلہ ایک دفعہ میری سمجھ میں آگیا تو میں اس کی تبلیغ کروں گا۔ میرے بہت قابلِ احترام استاذ مولانا مفتی عبدالمنان ناصرمدظلہ العالیٰ نے بھی ہمارے ساتھی سے کہا کہ میری سمجھ میں طلاق کا مسئلہ نہیں آرہاہے۔ جب ایک مسئلے پر زمانوں کی گرد نے پیچیدگیاں پیدا کردی ہوں تو بسااوقات واقعی بات سمجھ میں بھی نہیں آتی ہے۔ جس دن قرآن کی طرف علماء کرام اور مفتیان عظام نے رجوع کرلیا اور احادیث صحیحہ کو قرآن کی تفسیر کے طور پر سمجھنے کی طرف دھیان دیا اور صحابہ کرام کے اختلافات کو قرآن وسنت کے آئینہ میں دیکھنے کی کوشش کی تو سب کچھ مخلص لوگوں کو بہت جلد سمجھ میں آئے گا۔
قرآن میں طلاق سے رجوع کیلئے اصل بنیاد باہمی صلح ہے۔ سورہ بقرہ میں آیات224سے232تک اس کی بھرپور وضاحت موجود ہے، جس کا خلاصہ سورۂ طلاق کی پہلی دوآیات میں بھی بھرپور وضاحت کیساتھ موجود ہے۔
آیت230البقرہ سے پہلے اور بعد میں عورت کے حقوق اور طلاق کا مسئلہ سمجھانے کی بھرپور وضاحت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وانزلنا الکتٰب تبیانًا لکل شئی ”ہم نے کتاب نازل کی ہے ہر چیز کو واضح کرنے کیلئے”۔ زمانہ جاہلیت میں عورت کے حقوق کو کچلنے والے وحشی لوگوں نے خود ساختہ مذہبی مسائل بھی بنارکھے تھے۔ میاں بیوی صلح کرنا چاہتے تھے تو اہل مذہب اپنے منکر اور جھوٹے اقوال کے ذریعے سے یہ فتویٰ دیتے تھے کہ اب رجوع نہیں ہوسکتا۔ سب سے زیادہ سخت مسئلہ ظہار کا تھا جس میں شوہر اپنی بیوی کی پیٹھ کو اپنی ماں کی پیٹھ سے تشبیہ دیتا تھا ، جس کے بعد بیوی اپنے شوہر پر حقیقی ماں کی طرح حرام سمجھی جاتی تھی اور حلالے سے بھی وہ حلال نہیں ہوسکتی تھی۔ اس فتوے کے اثرات بھی قرآن کریم کی سورۂ مجادلہ اور سورۂ احزاب میں آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔
مذہبی لوگوں کا یہ المیہ ہوتا ہے کہ دنیاوی کاروبار کی جگہ پر مذہب کی خدمت کا ٹھیکہ لیتے ہیں تو فارغ البالی میں نت نئے مسائل گھڑنے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ پھر بال کی کھال اُتارنے کے چکر میں اپنی پرواز کا رخ شاہین کی طرح ہوا میں بلند کرنے کی جگہ پر گدھ بن کر مردار کھانے کی طرف نیچے پھیر لیتے ہیں اور پھر المیے جنم لیتے ہیں۔ سورۂ مجادلہ میں ایک خاتون کے جھگڑنے کا ذکر ہے جس کی بات اللہ نے سن لی اور مذہب کے منکر اور جھوٹے قول کی آیات میں بھرپور طریقے سے نشاندہی ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دل ودماغ سے باطل عقیدہ ومذہب نکالنے کیلئے یہاں تک سورۂ مجادلہ میں فرمادیا کہ ” بیگمات مائیں نہیں بن سکتی ہیں،مائیں نہیں ہیں مگر وہی جنہوں نے ان کو جنا ہے”۔ اس کے باوجود بھی سورۂ احزاب میں اللہ نے نبیۖ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ
” اے نبی! اللہ سے خوف کھا۔اور اتباع نہ کریں کافروں اور منافقوں کا ۔ اور اتباع کریں جو اللہ نے تیری طرف نازل کیا ہے اس کا۔اور اللہ کی وکالت کافی ہے۔اللہ نے کسی کے سینے میں دو دل نہیں رکھے اور نہ ان بیویوں کو تمہاری ماں بنایا ہے جنہوں نے تمہیں جنا ہے اور نہ منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا ہے”۔
اللہ کا مقصد یہ نہیں تھا کہ انسان کے جسمانی سینے میں دو دل نہیں ہوسکتے ہیں بلکہ اللہ نے یہ بتایا کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک ہی عورت کو انسان ایک دل سے اپنے بچوں کی ماں کو اپنی بیوی سمجھے اور دوسرے دل سے اس کو اپنی ماں سمجھے۔ مگر علماء ومفتیان نے اس سے میڈیکل کی دنیا مراد لی ہے۔ اگر کبھی کوئی ایسا بچہ پیدا ہوگیا کہ دوسروں کی طرح اس کے دو دل بھی ہوئے توپھر علماء کہیں گے کہ فارمی مرغیاں اور جانور وں کے یہ نقصانات ہیں کہ انسانی جسم کا توازن بگڑ گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے محرمات کی فہرست چوتھے پارے کے آخر میں بیان کی ہے اور سب سے پہلے فرمایا ہے کہ ” ان عورتوں سے نکاح مت کرو، جن سے تمہارے باپوں نے نکاح کیا ہے مگر جو پہلے ہوچکا ہے”۔ باپ کی منکوحہ سے نکاح کا جواز مذہبی گدھوں اور گِدھوں نے کیوں نکالا؟۔ فقہاء یہود ونصاریٰ اور مشرکین مکہ کے جاہلوں نے سابقہ مذاہب حضرت ابراہیم وحضرت موسیٰ کے صحائف میں یہ دیکھا ہوگا کہ ” مائیں صرف وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے” جیسے سورۂ مجادلہ میں ہے تواس سے یہ اخذ کیا ہوگا کہ ”باپ کی منکوحہ سے نکاح کرنا جائز ہے اسلئے کہ مائیں صرف وہی ہیں جنہوں نے جنا ہے”۔ قرآن میں اللہ نے فرمایا ہے کہ اسکے ذریعے بہت لوگوں کو گمراہ کیا جاتا ہے اور بہت لوگوں کو ہدایت ملتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں باہمی صلح کی بنیاد پر تمام آیات میں رجوع کا دروازہ کھول دیا ہے۔ کسی ایک آیت سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ باہمی صلح کے بغیربھی رجوع ہوسکتا ہے۔ طلاق رجعی کیلئے فقہی مذاہب میں جن آیات سے استدلال لیا گیا ہے ،ان آیات پربھی مسالک کا اتفاق نہیں ہے، جن آیات سے استدلال لیا گیا ہے ان میں بھی صلح کی شرط کے بغیر رجوع کا تصور نہیں ہے۔
کوئی ایک بھی ایسی آیت اور حدیث نہیں ہے کہ جس سے یہ ثابت کیا جاسکے کہ عورت کی رضامندی اور صلح کے بغیر بھی اس کا شوہر رجوع کرسکتا ہے۔ جب رجوع کیلئے فقہی مسالک ومذاہب میں غلط بنیادیں رکھی گئی ہیں تو اہل حق کا اس سے آہستہ آہستہ اتنا دماغ خراب ہوتا گیا کہ انہوں نے تین طلاق سے صلح کے بغیر رجوع نہ کرسکنے کا جو فتویٰ اور فیصلہ شروع کیا تھا تو اس کو بدلتے بدلتے یہاں تک پہنچادیا کہ ” صلح کے باوجود بھی حلالے کے بغیر رجوع نہ کرنے کے فتوے دینے شروع کردئیے”۔ پچھلے شمارے میں بہت تفصیل سے قرآن وحدیث سے بہترین دلائل دئیے تھے اور مجھے امید ہے کہ میرے استاذ مولانا مفتی عبدالمنان ناصر اور دوست مولانا نیازمحمد ناطق بالحق کو بھی معاملہ سمجھ میں آیا ہوگا اور ان سے زیادہ مولانا مسعود اظہر اور مولانا فضل الرحمن اور ان کے بھائیوں کو بھی سمجھ میں آیا ہوگا اور جن کو بات پھر بھی سمجھ میں نہیں آرہی ہے تو بالمشافہہ بھی بات سمجھانے کیلئے میں ہر وقت تیار ہوں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چئیرمین مولانا محمد خان شیرانی سے کئی نشستیں ہوئی تھیں اور موجودہ چئیرمین قبلہ ایاز صاحب کو بھی دوبار ملاقات میں معاملہ اچھی طرح سے سمجھا یا ہے اور ان کی سمجھ میں بھی آیا ہے لیکن اپنے منصب اور عہدے کی مراعات انہیں زیادہ اچھی لگتی ہیں۔
تاہم پھر بھی اگر سمجھانے میں کوئی کسر باقی رہ گئی ہے تو اس کیلئے ہمہ وقت میرا اخبار حاضر خدمت ہے۔ اپنا کوئی اشکال اور سوال ہمیں بھیج سکتے ہیں لیکن قرآن وسنت کی غلط تشریح پر لچک دکھائی تو میری آخرت برباد ہوجائیگی۔ میںتھک سکتا ہوں، لوگوں سے مایوس ہوسکتا ہوں لیکن اللہ کی ذات پر ایمان اور بھروسہ ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv