پوسٹ تلاش کریں

If he had taken advantage of Dr. Abdul Razzaq Sikandar, he would have changed his Arabic. When Maulana Yusuf Banuri was alive, the pots for drinking the water of the Shia procession were cleaned and filled.

ڈاکٹر عبد الرزاق سکندر سے فائدہ اٹھایا جاتا تو اپنی عربی بدل جاتی!
جب مولانا یوسف بنوری حیات تھے تو اہل تشیع کے ماتمی جلوس کے پانی پینے کیلئے مٹکے صاف کرکے بھر دئیے جاتے تھے۔

سوادِ اعظم اہلسنت کے مولانا سلیم اللہ خان، مولانا مفتی احمد الرحمن پرنسپل جامعہ بنوری ٹان،شیخ الحدیث مولانا اسفند یار خان، ایڈوکیٹ عبدالعزیز خلجی اور کئی مدارس سے آئے ہوئے علما و طلبہ اہل تشیع کا جلوس روکنے کیلئے جمع تھے۔ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر ناظم تعلیمات نے جامعہ بنوری ٹان میں تدریس کا سلسلہ جاری رکھاتھا ۔استاذ محترم نے فرمایا کہ ” مفسدین کی باتوں میں مت آ، جب مولانا بنوری حیات تھے تو ماتمی جلوس سے پہلے پانی کے مٹکے صاف کرکے بھر دئیے جاتے تھے۔ ان کے علما اور ذاکرین مدرسہ میں آتے تھے”۔ ختم نبوت کی تحریک بھی شیعہ سنی علما نے مولانا بنوری کی قیادت میں کامیاب بنائی تھی۔
ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کے قدموں میں سارے عہدے آئے مگر پیرانہ سالی میں بہت دیر ہوچکی تھی۔ اگر آپ کو بروقت ختم نبوت کا امیر بنایا جاتا تو مسلمانوں کے اتحاد میں رخنہ نہیں پڑسکتا تھا۔ اگر آپ بروقت جامعہ کے مفتی اور شیخ الحدیث ہوتے تو مفسدین جامعہ بنوری ٹان کی دارلافتا کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے کبھی استعمال نہیں کرسکتے تھے۔ اگر آپ بروقت وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر بنائے جاتے تو پاکستان کے مدارس میں جامعہ ازہر مصر اور مدینہ یونیورسٹی کے ہم پلہ نصاب سے بھی زیادہ اچھی عربی کتابیں پڑھائی جاتیں۔ اگر آپ صحیح وقت پر اقرا روض الاطفال کے سرپرست وصدر بنائے جاتے تو سکولوں کے نصاب پر عربی مدارس بھی رشک کرتے۔ ہمارے ہاں لالچی، مفسدین، فتنہ پرور اور بہت ہی غلیظ قسم کے شیاطین الانس اہم عہدوں پر ڈمی لوگوں کو فائز کرکے اپنا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اسلئے ہم نے استاذ محترم کی حیات میں تجویز پیش کی تھی کہ مولانا امداد اللہ یوسفزئی جیسے لوگوں کو وفاق المدارس پاکستان کا صدر بنانا چاہیے تاکہ مدارس کی تعلیم وتربیت میں ایک فعال کردار بھی ادا کرسکیں۔
ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے ہمیں صرف عربی کی خوشبو ہی سونگھائی تھی مگر پھر بھی جب اپنے سکول کبیر پبلک اکیڈمی میں تھوڑی بہت عربی بچوں کو پڑھائی تو جمعیت علما اسلام ف کے ضلعی امیر مولانا عبدالرف اور جمعیت علما اسلام کے ضلعی امیر مولاناشیخ محمد شفیع شہید نے جلسہ تقسیم انعامات میں اپنی طرف سے بھی طلبہ کو نقدی انعامات دئیے اور اپنی تقریروں میں کہا کہ” اتنی اچھی عربی ہمارے مدارس میں بھی نہیں ہے اور ایسی انگریزی سکول والوں میں بھی نہیں ہے”۔
ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کی جمعیت علما اسلام کے اجتماع میں عربی سن لیں اور شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کی بھی سن لیں۔ ڈاکٹر صاحب کی عربی ایسی تھی جیسے رائے بریلی یا لکھنو کا کوئی ادیب شائستہ اردو زبان میں گفتگو کررہا ہو۔ اور شیخ الاسلام کی عربی ایسی لگتی ہے جیسے کوئی ان پڑھ بنگالی ارود کی ریڑھ لگارہا ہو۔ جب ضرورت پڑی ہے تو ڈاکٹر صاحب نے ہر منصب کو شرف بخشا۔ایسا نہیں کہ خود ساختہ شیخ الاسلام یامفتی اعظم بن گئے۔ ایسا بھی نہیں کہ ناراض ہوکر عہدہ قبول کرنے سے انکار کیا ہو ؟۔ جامعہ بنوری ٹان کراچی کے پرنسپل کا منصب تو اپنی جان کو ہی ہتھیلی پر رکھنے والی بات تھی۔ ظالموں نے شیخ بنوری کے بیٹے مولانا سید محمد بنوری کا خون کردیااور پھر خود کشی کا بہتان لگایا۔ جامعہ کا دارالافتا اور مفتی اعظم پاکستان کا نام نہادعہدہ بھی غلط استعمال کیا گیا تھا اور روزنامہ جنگ ”آپ کے مسائل اور ان کا حل ” میں مولانا محمدیوسف لدھیانوی شہید کی طرف یہ منسوب کیا گیا کہ ” حضرت عیسی علیہ السلام کے چچا نہ تھے، البتہ دوپھوپھیاں تھیں”۔ اور کیا کچھ نہ ہوتا ہوگا؟ ۔ ڈاکٹر صاحب بہت بڑی شخصیت تھی اگر آپ سے بروقت عربی کی تجدید کا کام لیا جاتاتو قرآن اور صحیح بخاری کے ترجمہ میں بھی ایک انقلاب آجاتا۔ محدث العصر مولانا سلیم اللہ خان نے بخاری کی اپنی شرح ”کشف الباری” میں دنیابھر کی تشریحات کا خلاصہ لکھ کر کمال کردیا ہے لیکن یہ نہیں دیکھا ہے کہ ان تشریحات کے نتائج کتنے خراب نکلیں گے؟۔
احناف نے حرمت مصاہرت کے مسائل میں جس غلو سے کام لیا ہے وہ بھی قابل اصلاح ہے لیکن خود بخاری کی احادیث کی بھی درست وضاحتیں نہیں کی گئیں تو معاملات بہت گھمبیر ہیں۔ پھر فقہ ، اصولِ فقہ ، احادیث اور قرآن کے احکام میں بالکل بھی کوئی جوڑ اور ربط نہیں ہے۔ مولانا سلیم اللہ خان نے” کشف الباری
ایسی روایات بھی نقل کی ہیں کہ حضرت علی نے ایک شخص کی بیوی کے فوت ہونے کے بعد کہا کہ اگر اس کی کوئی ایسی لڑکی ہے جس نے اس کے گھر میں پرورش نہ پائی ہو تو اس سے نکاح کیا جائے۔ اور یہ بھی لکھا ہے کہ احناف وغیرہ کے نزدیک اگر بیوی کے سابقہ شوہر کے بیٹے سے لواطت کا عمل کیا جائے تو حرمت مصاہرت پیدا نہیں ہوگی۔ ڈاکٹر صاحب بہت خرافات نکال دیتے۔
عام عربی میں ”فرج” خوشحالی کو کہتے ہیں مگر علما کے ہاں صرف عضو مخصوصہ کاتصور بیٹھ گیا ۔اگرعلما نے عربی ادب کیساتھ اپنا شوق و ذوق وابستہ نہ کیا تو قرآن وسنت کی کئی لغات میں غلطیوں کا تصور نہیں ٹوٹے گا۔
ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے مولانا بنوری سے مناسک حج سیکھے۔ مفتی محمد تقی عثمانی کوئے کی طرح لنگڑا کر چلنے سے کسی کو ”رمل” سکھارہا تھا ۔ اللہ نے ممنوں کیساتھ ایسی جنت کا وعدہ کیا ہے کہ جسکا عرض زمین وآسمان کے برابر ہے لیکن مفتی تقی عثمانی نے قرآن کی غلط تفسیر کی کہ ” قریب ہے کہ آسمان ملائکہ کی عبادت میں زیادہ تعداد کے وزن کی وجہ سے پھٹ جائے”۔ ( آسان ترجمہ قرآن)
ڈاکٹر صاحب نے مفتی محمد تقی عثمانی کیخلاف سودی بینکاری پر مقف پیش کیا جو تحریری طور پر نیٹ پر موجود ہے۔ مشکل یہ ہے کہ مولانا محمد یوسف لدھیانوی کی کتاب ”عصر حاضر حدیث نبویۖ کے آئینہ میں” اور ڈاکٹر حبیب اللہ مختار کی کتاب” مسلمان نوجوان ” دستیاب نہیں۔ دونوں کو شہید اوریہ کتابیں غائب کردی گئیں۔ ہماری لڑائی ذاتیات کیلئے نہیں ۔تفصیل لکھ دی تو پتہ چلے کہ بڑے علما ومفتیان ہیںیا لنڈا بازار میں بکنے والے گھسے پھٹے جوتے ہیں؟۔
میں نے دارالعلوم کراچی میں نماز کے بعد چیلنج کیا تھااور وہ بھاگ کرگھروں میں گھس گئے۔ پھر جامعہ بنوری ٹان کراچی کی جامع مسجد میں اعلان کیا تو استاذ محترم ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ جنہوں نے فتوی لگایا ہے ، ان کو جاکر پکڑو؟ ۔ میں نے عرض کیا کہ ”فتوے پر یہاں کی مہریں لگی ہیں”۔ استاذ مفتی محمد ولی کو مولانا نجم الدین مردانی نے شلوار اتارنے کی دھمکی دی تھی اسلئے میرے اشعار گنگنا کر پڑھتااور کہتا تھا کہ اشعار سے امرا القیس کو بھی شرمندہ کردیا۔ مفتی محمد ولی نے کہا کہ یہ جرات تو شیعوں میں بھی نہیں کہ ہمیں یہاں چیلنج کریں، ہم ننگا کردیںگے تو میں نے کہا کہ” کسی کھدڑے میں جرات ہے تو سامنے آئے”۔ یہ وزیرستان کی مٹی کا کمال تھا۔ مولاناسیدمحمد بنوری شہید نے مولانا فضل الرحمن سے زندگی کی بھیک مانگی تھی مگرمولانا خود کشی کا جھوٹا الزام لگانے والوں کیساتھ کھڑے تھے۔ اگرڈاکٹر صاحب اپنے ذوق سے نصاب بناتے تو مدارس کی تقدیر بدل جاتی۔پھر مدینہ یونیورسٹی اور جامعہ ازہر مصر بھی نہ جانا پڑتا۔ دیسی علما کی عربی جدا ہے ۔مولانا ابولحسن علی ندویہندی مگر عربوں کے بھی استاذ تھے۔
ایا ایھاالجیش من النسا اہل المردان
ان کنتم رجالا فتعالوا الی المیدان
قد ماالتقیتم قط بااہل وزیرستان
کفی لکم واحد منہم موجود عتیق الرحمن

Drum of Mehsud nation of Waziristan and pool of Maulana Fazlur Rehman in Saleem Safi’s program, Maulana Fazlur Rehman admitted that Maulana had signed permission for drone strikes on tribes under Pervez Musharraf.

وزیرستان کی محسود قوم کا ڈھول اور مولانا فضل الرحمن کا پول

سلیم صافی کے پروگرام میں مولانا فضل الرحمن نے اعتراف کیا کہ پرویزمشرف دور میں قبائل پر ڈرون حملوں کی اجازت پر مولانا نے دستخط کئے ۔

دی پٹھان (The Pathan Book)نامی انگریزی کتاب میں ہے کہ” وزیرستان ایسا علاقہ ہے جہاں کسی نے بھی صحیح معنوں میں حکومت نہیں کی ”۔ اقتدار میں لوگ محکوم بنتے ہیں، حکمران ٹیکس وصول کرتے ہیں ، نمائندوں کے ذریعے حکمرانی کرتے ہیں اور لوگوں کو اپنی مرضی کا پابند بنایا جاتا ہے لیکن تاریخ میں ایسا کوئی حکمران نہیں آیا جس نے وزیرستان میں ایسے احکام نافذ کئے ہوں جو حاکم اور محکوم کے لوازمات ہیں۔ بیش بہا مراعات کے بدلے آزاد منش کسی علاقہ کی عوام کو کچھ معاہدوں کا پابند بنانا حکومت قائم کرنے کا تصور نہیں ہوتا ہے۔ وزیرستان کے سرکاری ملکان کو عوام جاسوس کہتے تھے۔ سرکار ی نمائندوں کی کوئی عوامی اوقات نہیں تھی۔
جب میں نے کانیگرم وزیرستان سے خلافت کے آغاز کیلئے ڈیرہ ڈال دیا تو ماموں چیف آف کانیگرم نے میرے بھائی سے کہا کہ (40FCR)کے تحت جیل بھیجتے ہیںتاکہ عوام ڈھول کی تھاپ پر چڑھائی نہ کردیں۔ محسود قوم ڈھول اٹھالے توبڑے بڑوں کی ہمت ختم ہوجاتی ہے ۔ رسول اللہۖ کی بعثت سے قبل اہل مکہ نے ”حلف الفضول” کا معاہدہ کیا ۔اس میں ظالم کیخلاف مظلوم کی مدد اہم بات تھی۔ نبیۖ نے آخری خطبہ میں بھی فرمایا کہ ”مجھے سرخ اونٹوں سے عزیز حلف الفضول ہے”۔ اگرچہ معاہدے پر عمل نہ ہوسکا۔ورنہ تو نبیۖ کے حامی خاندان کو شعب ابی طالب کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور نہ نبیۖ اور مسلمانوں کو مکہ چھوڑ کر ہجرت کرنی پڑتی۔ عرب اسلام سے پہلے کسی کے محکوم تھے نہ وہاں کوئی باقاعدہ آئین تھا۔ وزیرستان کی محسود قوم کا یہ بڑا کمال تھا کہ حکمران کا تصور نہیں تھا لیکن ایک دستور کے وہ بالکل پابند تھے اور وہ دستور حلف الفضول کے عہدنامہ کی طرح عظیم الشان روایات واقدار کی شکل میں تھا۔باہمی مشورہ کے بعد فیصلہ ہوتاتھا تو اس پر عمل درآمد ڈھول کی تھاپ پر کرایا جاتا تھا۔
محسود قوم کا دنیا میں ایک بالکل منفرد کردار تھا۔ سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ آزادانہ مشاورت کے بعد فیصلہ ہوتا تھا اور ظالم کے خلاف مظلوم کی مدد ہوتی تھی اور یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی خلفا راشیدین تھے لیکن مشاورت کی وہ روح وہاں بھی ناپید تھی جو وزیرستان کی مقدس سرزمین پر وحی کی رہنمائی نہ ہونے کے باوجود موجود تھی۔اسی لئے خلفاء راشدین کے ادوار میں فسادات ہوئے لیکن محسود اجتماعی فتنوں سے محفوظ تھے۔
پاکستان (1947) میں بن گیا لیکن اب تک( 1973) کے آئین پر عمل در آمد نہ کرنے کا رونا رویا جاتا ہے۔ محکمہ تعلیم پنجاب کے افسر ڈاکٹر نعیم باجوہ نے غلطی سے ن لیگ کے (MNA)پرویز خان کوبورڈ کے امتحان میں اپنی جگہ دوسرے بندے کو بٹھانے پر پکڑلیا تو نوازشریف کے بدمعاش بھانجے عابد شیر علی نے میڈیا کی اسکرین پر اس بیچارے کو ایسا ذلیل کیا تھا کہ الحفیظ الامان ۔
اگر مولانا فضل الرحمن اور ن لیگ سمیت (PDM)کا اتفاق ہے کہ آئندہ فوج کو سرحداور بیرکوں میں بھیجنا ہے تو خوش آئند ہے لیکن عوام پر واضح کیا جائے کہ پارلیمنٹ میں نوازشریف کے لندن فلیٹ کاتحریری بیان اور قطری خط کیا تھا؟ اگر نوازشریف نے اپنا درست بیانیہ ثابت کیا تو محسود قوم ڈھول کی تھاپ پرمخالف کے خلاف راست قدم اٹھائے ۔یہ وہی قوم ہے جس نے آزادکشمیر فتح کیاتھا۔ اگر نوازشریف درست وضاحت نہ کرسکے تو محسود قوم ڈھول کی تھاپ پر رائیونڈ کے محل کو مسمار کرنے پہنچے۔ یہاںزیادتیاں کرنے والوں نے تماشہ لگا رکھا ہے۔
مولانا فضل الرحمن کرائے کے مکان میں تھا اوراب لائن سے بنگلے اور بڑی جائیدادیں ہیں۔اللہ تعالی موصوف کے اقبال میں مزید اضافہ کرے۔ مفتی محمود کے چھپر اور ٹین کے دروازے پر دھوکہ کھانے کی طرح معاملہ ٹھیک نہ تھا۔جب حرام خوری کا معاملہ آتا ہے تو اس بھیڑ میں بہت ہیں،اگر مولانا شامل ہوجائے تو مضائقہ نہیں لیکن عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا بہت بری بات ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو اصولی سیاست اور جمہوریت کیلئے فوج کی مخالفت کا بڑا کریڈٹ جاتا ہے۔ کچھ معاملات کی نشاندی اور وضاحت کرنا انتہائی ضروری ہے۔
حامد میر نے پوچھا کہ مولانافضل الرحمن نے جنرل مشرف سے مراعات لی ہیں؟۔ مولانا راشد سومرو نے مولانا کیلئے ایمان کی قسم کھائی ۔ انصار عباسی نے کہا کہ جنرل مشرف نے (GHQ)سے مولانا فضل الرحمن کو ساتھیوں کے نام پر اتنی اتنی زمینیں الاٹ کی ہیں۔ جسکے دستاویزی ثبوت ہیں۔ اگرانصار عباسی نے غلط بیانی کی ہو تو وزیرستان کے محسود جمعیت علما اسلام کے( MNA)مولانا جمال الدین محسود اور (MPA )مولانا عصام الدین قریشی کی قیادت میں ڈھول کی تھاپ پر انصار عباسی کا گھر گرانے کیلئے پہنچ جائیں اوراگر انصار عباسی کی بات درست ہو تو پھر مولانا فضل الرحمن سے پوچھ لیں کہ کونسی خدمات کے عوض یہ زمین (GHQ )نے دی ؟۔ یہ کونسی ڈرامہ بازی ہے کہ ایک طرف قوم کو جمہوریت کی بالادستی اور فوج کے خلاف بھڑکایا جاتا ہے اور دوسری طرف ناجائز مراعات بھی لی جائیں؟۔ سلیم صافی کے پروگرام میں مولانا فضل الرحمن نے اعتراف کیا کہ پرویزمشرف دور میں قبائل پر ڈرون حملوں کی اجازت پر مولانا نے دستخط کئے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلئے (GHQ)نے زمین الاٹ کی تھی؟۔
وزیرستان کے سینٹر دوست محمد محسودکا رونا کسی کام کا نہیں کہ” کاش میں فلسطینی یا کشمیری ہوتا تو میرے لئے کوئی دو آنسو بہاتا۔ پنجاب میں آئل چوری کرنے پر ڈھائی سو افراد مرتے ہیں تو ان کو چالیس چالیس لاکھ معاوضہ مل جاتا ہے جبکہ ہم تباہ وبرباد ہوگئے اور ہمارا کوئی پرسان حال نہیں ”۔ (PTM)کے نعروںمیں گلہ تھا کہ ”یہ کیسی آزادی ہے کہ ہمارے گھراجڑ رہے ہیں، ہمارے جوان قتل ہورہے ہیں”۔یہ محسود قوم کی خلعتِ افغانیت کے اعلی اقدار کے منافی ہے۔
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی یابندہ صحرائی یا مردِ کوہستانی
جو فقر ہوا تلخی دوران کا گلہ مند اس فقر میں باقی ہے ابھی بوئے گدائی
نام رہ گیا ہے ابھی وزیری ومحسود یہ خلعتِ افغانیت سے ہیں عاری
احادیث صحیحہ اور امام بوحنیفہ کے نزدیک زمین کو مزارعت ، ٹھیکہ اور کرائے پر دینا سود اور حرام ہے ۔ مولانا فضل الرحمن الاٹ کی گئی زمین وزیرستان کے غریب متاثرین کو دیں تاکہ اسلام کی نشا ثانیہ کا آغاز ہو۔ اگر محسود قوم مولانا فضل الرحمن سے پوچھ لے کہ پارلیمنٹ میں تمہارے نمائندوںکو اسلئے بھیجاہے کہ ہماری تباہی وبربادی پر تم مراعات لو، زمینیں نام کرا، صوبائی حکومت لو؟۔ احتجاج سے حکومتیں ہل جاتی ہیں لیکن احتجاج کرنا محکوم قوم کا کام ہے۔جب دنیا میں طالبان مظلوم تھے تو محسود قوم نے امریکہ کو شکست یا فتح کرنے کے چکر میں ساتھ دیا لیکن اب تو طالبان امریکہ سے صلح کرچکے ہیں۔ محسود قوم آخری حد تک تذلیل کی پاتال میں پہنچادی گئی اور یہ اپنے اعمالنامے کا نتیجہ تھا۔ چھڑی بڑی طالبان اور انتہائی سخت گیر جاہل و مفاد پرست فوج نے انکا کباڑہ کرکے رکھ دیا۔ محسود قوم پر طالبان نے حکومت کی اوراب آدابِ محکومی سکھائے جارہے ہیں۔ ڈھول کی تھاپ پرمولانا فضل الرحمن سے GHQکی زمین چھین لیں تو بیت المقدس کی فتح بھی یقینی بن سکتی ہے۔ پرامن انقلاب کیلئے محسود قوم کو اپنے اندراور باہر سے فساد کا خاتمہ کرنا ہوگا۔قومی مشاورت سے مجھے بھی طلب کریں تو میں خیرمقدم کروں گا۔ محسود قوم کی یہ سب سے بڑی خوبی تھی کہ آپس کی دشمنیوں کا بھی تیسرے فریق کے دائرے کار میں بدلہ نہیں اتار تے تھے بقیہ صفحہ2نمبر2 بقیہ ………محسود قوم کا ڈھول اور مولانا فضل الرحمن کا پول
مجھ سے یہ غلطی ہوگئی تھی کہ حاجی قریب خان کی پیشکش کو نہیں مانا کہ یہ علما کا کام ہے۔ علما نے بندکمرے کا حال نہیں بتایا۔ریکارڈنگ بھی نہیںکرنے دی تھی۔ اختلافات بڑا مسئلہ نہیں۔ شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے اپنی کتاب ”منصبِ امامت ” میں لکھ دیا ہے کہ قرآن میں اللہ تعالی نے ملا اعلی کے فرشتوں کا ذکر کیا ہے کہ ایک گروہ ایک طرف کی حمایت کرتا ہے اور دوسرا گروہ دوسری طرف کی حمایت کرتا ہے۔ پاکستان بن رہاتھا تو جمعیت علما ہند اور جمعیت علما اسلام کے علما آپس میں ایک دوسرے کے خلاف کھڑے تھے اور دونوں طرف کے شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی اور شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی متحدہ ہندوستان اور پاکستان کے مقف پر اپنے اپنے دلائل دے رہے تھے اور ایکدوسرے کو ہندں اور انگریزوں کا ایجنٹ قرار دے رہے تھے۔
جب مولانا فضل الرحمن پہلی مرتبہ ہمارے گھر تشریف لائے توجٹہ قلعہ علاقہ گومل کی تاریخ کا یہ پہلا سیاسی جلسہ تھا۔ مولانا قاضی فضل اللہ ایڈوکیٹ بھی اس میں شریک تھے۔ اس وقت افغانستان میں طالبان کی حکومت نہیں آئی تھی لیکن کلاچی کے قاضیوں نے پروپیگنڈہ کیا کہ مولانا فضل الرحمن نے نبوت کا دعوی اور مہدی کا دعوی کرنے والے کی صدارت میں جلسہ کیا ۔ عثمان دوتانی کا تعلق جمعیت س سے تھا ، اس نے بتایا کہ قاضی عبدالکریم اور قاضی عبد اللطیف سے میں نے کہا کہ جیل میں اس شخص کو میں جانتا ہوں، یہ سیاسی جماعتوں سے بالاتر ذہن رکھتا ہے۔ قاضی فضل اللہ سینٹر مولانا صالح شاہ قریشی ، مولانا نیاز محمد قریشی وغیرہ سے کہا تھا کہ اگر سید عتیق الرحمن گیلانی ہماری پارٹی میں شامل ہوجائے تو جمعیت میں بھی انقلاب آجائیگا۔ قاضی فضل اللہ کے کان میں ہمارے رشتہ دار مولانا سید آصف گیلانی نے کچھ کہا تھا تو مولانا فضل الرحمن سے قاضی فضل اللہ نے میرا تعارف پوچھا۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ”یہ ہم سے بڑا انقلابی ہے مگر تھوڑا جذباتی ہے”۔ ٹانک کے سب اکابر علما کرام ہماری تائید کرتے تھے اور پاکستان کی سطح پر بھی تمام مکاتبِ فکر کے علما کرام نے ہماری زبردست تائیدکی تھی۔
طالبا ن کی حکومت سے پہلے افغاستان میں قندھار کے لوگ قوم لوط کے عمل سے مشہور تھے۔ ہمارے ہاں بنوں، لکی مروت، گومل اور دوسرے پختونوں میں قوم لوط کا عمل مشہور تھا لیکن محسود اور وزیر میں یہ خطرناک بیماری نہیں تھی لیکن جب کنڈیکٹری اور طالب گردی کی زد میں یہ قومیں آگئیں تو اس بیماری نے بھی وزیرستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مولانا گل نواز محسود نے کہا تھا کہ طالبان کے بہت گروپ ہیں لیکن دو زیادہ مشہور ہیں ۔ایک اپنے لبوں کو لال کرتے ہیںاور دوسرے اپنے ہاتھوں کو مہندی لگاتے ہیں۔ آئی ایس آئی تو بہت اچھی ہے لیکن یہ دونوں گروپ قوم لوط کی بیماری میں بھی مفعولیت کا کردار ادا کررہے ہیں۔
جب انسان کی غیرت مرجاتی ہے تو اس سے کوئی بھی توقع رکھی جاسکتی ہے اور اس بات پر بہت خوشی ہے کہ گودام مسجد ٹانک کے امام مولانا قاری حسن شکوی شہید مجھ سے صرف محبت نہیں بلکہ عقیدت بھی رکھتے تھے۔ پہلے انہوں نے جب القاعدہ والوں کو اپنے پاس رکھا تو مجھ سے کہا کہ وہ فرشتے اور صحابہ کرام کی طرح لگتے ہیں لیکن جب میں نے عرض کیا کہ ازبکستان سے جہاد کی غرض سے آنے والے یہاں کیوں آگئے ہیں؟۔ مجھے لگتا ہے کہ امریکہ کی گہری سازش ہے اور یہ ان لوگوں کو بھی پتہ نہیں ہوگا۔ پھر انہوں نے تحفظات رکھنا شروع کردئیے تو ان کو شہید کردیا گیا۔ پھر ان کی شہادت کے بعد تعزیت پر گیا تو ایک وزیرصحافی کے چچا کہہ رہے تھے کہ ”وزیر تو پہلے سے بے غیرت ہیں لیکن مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ غیرتمندمحسود قوم کو کیا ہوا ہے ؟۔ پہلے تو یہ ماں اور بیوی کی گالی پر قتل کردیتے تھے اور اب کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ فلاں طالب نے یہ کیا مگر کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ پتہ نہیں ہے”۔ جن بے غیرت بدکرداروں نے محسود اور وزیرقوم کے اچھے لوگوں کو قتل کرنے میں دیر نہیں لگائی تھی وہ علتی ہیں۔ جب تک ماحول نہیں بدلے گا تو یہ بھی نہیں بدلیں گے لیکن محسود قوم کو اپنی پرانی یادیں تازہ کرکے بڑا زبردست کردار ادا کرنا ہوگا۔ مجھے اچھے کی توقع ہے باقی اللہ جانے کہ کیا ہوگا؟۔

Chozo (Maulana Fazlur Rehman, Maulana Owais Noorani, Shahbaz Sharif, Mahmood Khan Achakzai put your hands on your chest and tell (Maryam Nawaz did not teach politics by holding a finger

چوزو(مولانا فضل الرحمن، مولانا اویس نورانی، شہباز شریف، محمود خان اچکزئی)! اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر بتاؤ ،مریم نواز نے انگلی پکڑکر سیاست نہیںسکھائی!۔

نازک پری کو بھوتوںسے بچاؤ چاچوشعبدہ باز، جلدی قابو پاؤ!
چوزو! کان کھول کر سن لو اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر بتاؤ ،مریم نواز نے انگلی پکڑکر سیاست نہیںسکھائی!۔ میں فوج نال نئیں لڑسگدی! وڈے وڈے بال نئیں پھڑ سگدی!۔مریم اک گل دَس گئی، شوباز’باپو’بنڑا چس گئی!۔ راجکماری فھر برس گئی ،پڈم دیدار نو ترس گئی۔کھتے ہونڑ پھنس گئی؟ ساڈی بھونڈگھس گئی !۔ کشمیرچھڈ کے سانو ٹھگ بنارس گئی، کتیا ریلا چھڈ کے نس گئی ۔ رسی نالے کس گئی،چھلکے رہ گئے رس گئی۔پڈم شرم میں دھنس گئی، قیادت پردنیا ساری ہنس گئی۔ مفتی عزیزکی لیلائے سرکس گئی، جمعیت کی نکل اب بھرکس گئی۔ انقلاب کی ہوس گئی۔ تمنا تک جھلس گئی۔
منفی شخصیات رہ گئیں کہ پلس گئی
تیلیاں جلتی نہیں کہ ماچس گئی
PDM اپ ڈیٹ

Comparison of Maulana Rashid Mahmood Soomro and his ancestors with Dr. Farooq Sattar

مولانا راشد محمود سومرو اور اسکے باپ اور دادا کے ساتھ ڈاکٹر فاروق ستار کا تقابلی جائزہ۔

جب کراچی میں لسانی فسادات شروع ہوئے تو میں مہاجروں کے اکثر علاقوں میں گھومتا پھرتا تھا لیکن کبھی کسی نے تعصبات کی نگاہ سے نہیں دیکھا کہ مخصوص شرپسندہرجگہ ہوتے ہیں۔ جب ایم کیوایم کیخلاف جناح پور اور غداری کے مقدمات چل رہے تھے،الطاف بھائی (MQM)سے دستبردار ہواتھا لیکن ڈاکٹر فاروق ستار(doctor farooq sattar) نے بڑی قربانیاں دیں۔ امت اخبار و ہفت روز ہ تکبیر کراچی میں ڈاکٹر فاروق ستار کی تعریف ہوتی تھی کہ والدین بھی بہت نیک اور اچھے ہیں۔ ایم کیوایم کے اتارچڑھامیں ڈاکٹر صاحب نے بہترین اور اہم کردار ادا کیا۔ الطاف بھائی جو مشکلات کھڑی کرتا تھا تو ڈاکٹر فاروق ستار کو بھگتنا پڑتے تھے۔ الطاف بھائی کو چاہیے کہ ڈاکٹر صاحب اور ایم کیوایم کے دیگر رہنماں سے دل کی گہرائیوں کیساتھ معافی تلافی کریں اور پاکستانی ادارے بھی الطاف بھائی کو معاف کرکے پاکستان میں اہم کردار کا موقع دیں۔ ہم نے سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے پرمفتی تقی عثمانی(mufti taqqi usmani) کیخلاف آواز اٹھائی تو( MQM)نے ساتھ دیا۔
رینجرز اہل کار(rengers) نے اپنی ڈیوٹی انجام دیکر مولانا راشد سومرو(rashid soomro) کے کلاشکوف کا لائنسس چیک کیا اور ضابطے کی کاروائی کرکے گاڑی کے نمبر پلیٹ کی پیچھے سے تصویر اتاری، جس پر مولانا راشد سومرو نے روڈ بلاک کرکے بڑا شور مچایا۔ جب ڈاکٹر فاروق ستار کے عروج کا دور تھا تو ائیرپورٹ پر ٹکٹ ایشو کرنے والی لڑکی نے پوچھا کہ شناختی کارڈ ہے؟۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ میں دیکھتا ہوں ، کوئی کارڈ وغیرہ مل جائے تو؟، لڑکی نے کہا کہ صرف شناختی کارڈ ہی چلے گا۔ ڈاکٹر صاحب نے بیگ ٹٹولا اور پوچھا کہ پاسپورٹ چلے گا؟۔ اتنے میں ائیرپورٹ کابڑا افسر پہنچ گیا اور ڈاکٹر فاروق ستار سے معذرت کرلی۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ” کوئی بات نہیں، ضابطے کی کاروائی ضروری ہے”۔ اس سے شاہین ائیرلائن اور ائیرپورٹ کے عملے میں ڈاکٹر فاروق ستار کا قد بڑھ گیا۔بالکل غیرمعروف (MNAاورMPA )خواتین بھی چلاتی ہیں کہ ہمیں نہیں پہچانا۔
مولانا عبدالکریم بیرشریف مرکزی امیر(JUIF) نے ہماری حمایت کی تھی۔ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے اسلام کی نشا ثانیہ کیلئے تائید میں تحریرلکھی لیکن ڈاکٹر خالد سومرو کے باپ نے ہمارے ساتھیوں سے کہا کہ”( 40)سال سے چوتڑ ہم رگڑرہے ہیں اور امام تم بنوگے؟”۔ ہمارے ساتھی مختارسائیں نے کہا کہ ”آپ نے چوتڑ کیوں رگڑی؟، نہ رگڑتے!”۔ شکار پورمدرسہ جلسہ کے اشتہارمیں میرا نام تھا تو ڈاکٹر خالد محمود سومرو نے کہا کہ ہم ہونگے یا یہ ہوگا؟۔ وڈیرے نے کہا کہ معزز شاہ صاحب کو اس بھان فروش کے بیٹے کی وجہ سے ہم روکیں گے؟۔
(MRD)کی تحریک کی پارٹیوں نے فیصلہ کیا کہ قائدین کے مقابلے میںکوئی پارٹی کسی کو کھڑا نہیں کریگی تو ڈاکٹر خالد محمود سومرو نے جمعیت علما کی ناک کاٹ دی اور بینظیر بھٹو (benazir bhutto)کے مقابلے میں کھڑا ہوا۔مذہبی جذبات اور قومی تعصبات کے معاملے میں ڈاکٹر فاروق ستار جیسے عالی ظرف کے مقابلے میں ان لوگوں کا راج چل رہاہے جن کو حدیث میں ” روبیضہ” نکمے قسم کے لوگ قرار دیا گیا۔ ان کا کوئی ضمیر نہیں ورنہ راشد سو مرو مولانا سے( GHQ)کی زمین کی وضاحت مانگ لیتا۔
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv

Dr. Abdul Razzaq Sikandar and Mufti Mohammad Naeem were my teachers and sometimes they would call me and ask about the situation.Syed Atiqur Rehman Gilani

ڈاکٹر عبد الرزاق سکندر اور مفتی محمد نعیم میرے استاذ تھے اور کبھی مجھے خود فون کرکے حال احوال بھی پوچھ لیتے تھے۔ سید عتیق الرحمن گیلانی

ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر میرے استاذ تھے ۔ جامعہ بنوری ٹان میرا مادرعلمیہ ہے۔ مفتی محمد نعیم (mufti naeem)بھی میرے استاذ تھے اور مجھے کبھی خود فون کرکے حال احوال بھی پوچھ لیتے تھے مگرڈاکٹر صاحب واقعی ایک نابغہ تھے۔علم و تقوی،اخلاق وکردار، قابلیت وتحمل اورشرافت واعتدال میں بالکل ممتاز و یکتائے روز گارہستی تھے۔
جامعہ بنوری ٹان میں نماز ِ مغرب کے بعدپڑھائی شروع ہوتی ہے۔جمعہ کو چھٹی ہوتی ہے لیکن کبھی مغرب میں اچانک حاضری تک لگتی ہے۔ رات گئے تک جامع مسجد نیوٹان کے حال، برآمدے اور صحن میں طلبہ پڑھنے کے پابند ہیں۔ اساتذہ نگرانی کیلئے گھومتے ہیں تاکہ پڑھائی کی جگہ طلبہ گپ شپ نہ لگائیں۔ رات گئے رہائشی بلڈنگ کے تالے کھولے جاتے ہیں ۔ بعض طلبہ دیر تک پڑھائی میں مشغول رہتے ہیں۔ کچھ طلبہ تہجد کی پابندی کرتے ہیں۔فجر کی نماز باجماعت کیلئے زبردستی سے سب کو مسجدپہنچنا ہوتا ہے۔ دارالاقامہ کے ناظم صبح سے رات بلکہ (24) گھنٹے طلبہ کے شب وروز نگرانی میں رکھتے ہیں۔ نماز فجر کے بعدقرآن کی تلاوت ،پڑھائی، ناشتہ کرسکتے ہیں۔ صبح سے دوپہر تک چار گھنٹے درسگاہوں میں علوم و فنون کی مشکل ترین کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔ دوپہر کھانے اور آرام کرنے کا وقت ہوتا ہے اور پھر نماز ظہر باجماعت کیلئے مسجد میں پہنچنا ہوتا ہے۔
نماز ظہر اورنماز عصر کے درمیان پھر دو گھنٹے درسگاہوں میں پڑھائی ہے۔ عصر کی نماز کے بعد پھر مغرب تک کھانے اور کھیلنے کی چھٹی ہوتی ہے۔ مغرب کی نماز کے بعد پھر فورا اسباق کی تکرار اور یاد کرنے کا شغل ہوجاتا ہے۔ دن بھر میں جو اسباق پڑھے ہوتے ہیں ان کو دھرانے کیلئے طلبا کی مختلف ٹولیاں بنتی ہیں۔ ہر مشکل کتاب کی تکرار ہوتی ہے۔ کوئی قابل طالب علم درسگاہ میں پڑھے ہوئے سبق کو دھراتا ہے اور پھر باری باری سبھی ساتھیوں سے سبق سنتا ہے۔ کمزور طلبہ سبق سمجھنے نہیں تو رٹنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ مشکل پڑنے پر نگران اساتذہ سے پوچھ لیتے ہیں۔یہ بہترین تعلیمی نظام دنیا کی اچھی یونیورسٹی میں مشکل ہے۔ آئندہ آنے والے سبق کا مطالعہ ضروری ہے تاکہ پڑھنے کی صلاحیت پیدا ہو۔ میں نے جامعہ میںسالوں گزارے۔ مدارس کے خلاف پروپیگنڈہ افسوسناک ہے۔ عربی مقولہ ہے کہ المر یقیس علی نفسہ ” آدمی جیسا خود ہو، دوسرے پر بھی وہی گمان رکھتا ہے”۔مدارس کا پاکیزہ اور نورانی ماحول دنیا کے گھپ اندھیرے میں بجلی سے روشنی پھیلانے کا بہترین ذریعہ ہے اور دنیا میں قرآن وسنت ، اخلاقیات ،روحانیت اور انسانیت دینی مدارس کے ہی دم سے ہیں۔ جانوروں کے مقابلے میں انسانوں کے جنسی ملاپ میں اخلاقی قدریں بحال رکھنے کا سب سے اہم کردارمدارس ہیں ۔الحمدللہ علی ذلکجب دنیا میں مذہب کا کردار ختم کردیا گیا تو مغربی معاشرے اور جانوروں میں فرق نہیں رہا۔ مدارس نہ ہوتے تو مفتی عزیز اور صابرشاہ کے اسکینڈل کی اہمیت بھی نہ رہتی۔
امریکہ ، یورپ، افریقہ اور دنیا بھر کے (50)ممالک سے زیادہ طلبہ کا صرف جامعہ بنوری ٹان کراچی میں تعلیم کیلئے آمد کس قدر خوش آئند ہے؟۔ طلبہ جب بنوری ٹان کراچی کے باہر اپنی ضروریات کیلئے جائیں توان کی حسین چہروں والی خواتین اور لڑکیوں پر نظریں پڑتی ہیں لیکن اپنی نظریں جھکا کر چلتے ہیں۔ انواع واقسام کے کھانوں کا مرکز سمجھا جانیوالا علاقے میں کاروں، موٹر سائیکلوں اورپبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے فیملیاں بھی آتی ہیں۔ یہ رہائشی علاقہ بھی ہے۔
(60)سال سے زیادہ عرصہ ہوا کہ جامعہ بنوری ٹان کراچی میں مسافر طلبہ کی رونقیں لگتی ہیں لیکن کبھی کسی نے ایک مرتبہ بھی شرارت کی شکایت نہیں کی۔ کیا ان طلبہ اور علما میں نفسانی خواہشات نہیں ؟۔ لیکن ایک پاکیزہ نورانی ماحول میں رہنے کاتقاضہ مختلف ہوتا ہے۔ جب عورت اپنی عزت بچاتی ہے تو یہ فطرت کا حصہ ہے لیکن جب وہ گراوٹ پر اتر آتی ہے توپھر اپنا سب کچھ کھو دیتی ہے۔نبی کریم ۖ کی شرم وحیا کو کنواری لڑکی سے تشبیہ دی جاتی تھی اور نبیۖ کے جانشین بننے والے طلبہ نے بھی اپنے ماحول کی وجہ سے ایک باکردار کنواری لڑکی کی طرح اپنی حیا کو باقی ہی رکھنا ہوتا ہے۔ کسی سے بھی ہم
بقیہ…….. ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر اورجامعہ بنوری ٹان کراچی
اس معاملے میں انصاف کی بھیک نہیں مانگتے۔البتہ انسان کو احتیاط کی بہت سخت ضرورت ہے۔ نفس، شیطان اور ماحول حضرت آدم و حوا کو جنت سے نکلواسکتا ہے تو ہمیں بھی ننگا کرسکتا ہے۔مدرسہ کے ماحول میں استاذیا طالب پنچ وقتہ نماز باجماعت پڑھتا ہے۔ نماز کی ہر رکعت میں صراط مستقیم پر چلنے کی دعا مانگتا ہے۔ پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے بعد اللہ تعالی کی حمدو ثنا کے بعد سورہ فاتحہ پڑھتا ہے۔ حلف نامہ کی طرح عہد وپیمان کو دھراتا ہے۔ پھر سورہ فاتحہ کے بعد قرآن کی دوسری سورہ پڑھتا ہے، پھر رکوع میں اللہ کی تسبیح بیان کرتا ہے۔پھر قومہ میں کھڑے ہوکر اللہ کو یاد کرتا ہے۔ پھر دوسجدے کرنے کے بعد دوبارہ اس عمل کو دھراتا ہے۔ پھر قاعدہ میں بیٹھ کر تشہد پڑھتا ہے۔ دو، تین اور چار رکعت فرائض کے علاوہ پنج وقتہ نماز کی سنتوں اور نوافل کی بھی پابندی کرتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اس تسلسل سے انسان کتنے اعلی معیار کی بلندیوں پر پہنچتا ہوگا؟۔
مدارس میں علوم کی مشکل کتابیںدرسِ نظامی میں پڑھائی جاتی ہیں اور مقصد یہ نہیں کہ علم کی تکمیل ہوگئی بلکہ درسِ نظامی سے علم حاصل کرنے کی استعداد اور صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ طالب علم عالم اس وقت بننا شروع ہوتا ہے جب وہ پڑھانا شروع کردیتا ہے ۔تب اس کو وہ علم سمجھ میں آنا شروع ہوجاتا ہے۔
بعض اساتذہ مذاق اڑاتے کہ ”کہا جاتا ہے کہ میں فارغ التحصیل ہوں۔ حالانکہ اس کو بالکل کچھ نہیں آتا ”۔ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر جامع مسجد نیوٹان میں طلبہ کو عربی پڑھانے آتے اور پھر جامعہ کے استاذ بن گئے اور طالب علم بھی۔ فراغت کے بعد کتنا علم ہوگا؟۔ لیکن پھر مدینہ یونیورسٹی گئے۔ کتنے بڑے عالم بن گئے ؟۔ پھر جامعہ ازہر گئے اور آپ کتنے بڑے عالم بن گئے ہوںگے؟۔
مولانا فضل الرحمن کا بھائی مولانا عطا الرحمن (molana attaur rehman)چوتھے درجے میں فیل ہوا تو جامعہ بنوری ٹان چھوڑ کر گیا، تاکہ نالائق مدارس سے سند مل جائے؟۔ یہ بڑے بڑے شیخ الحدیث، مفتی اعظم، شیخ الاسلام ، فقیہ العصر اور محدث العصرکی ساکھ رکھنے والے خود بھی انتہائی نالائق ہوتے ہیں اور طلبہ کو بھی نالائق ہی بناتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب عربی کے واقعی عالم تھے ۔ مدینہ یونیورسٹی میں چھوٹی داڑھی والے اور جامعہ ازہر میں داڑھی منڈے اساتذہ تھے۔فرماتے تھے کہ ہم نے داڑھی پر مشکلات برداشت کیں۔ بازار میں سبزی فروش پوچھتے تھے کہ یہودی ہو؟۔ ہم جواب دیتے کہ مسلمان ہیں تو وہ کہتے تھے کہ ”پھر داڑھی کیوں رکھی ہے”۔ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر میں اعتدال و تحمل اسلئے تھا کہ ایک طرف جامعہ ازہر کے شیوخ اساتذہ تھے اور دوسری طرف شیخ بنوریجیسے سخت گیر شخصیت سے واسطہ پڑا تھا۔ اللہ نے فرمایا کہ الا تطغوا فی المیزان ”اعتدال سے تجاوز مت کرو”۔ اعتدال کا میزان و توازن چھوٹی چیز سے لیکر بڑی چیز تک کائنات میں پھیلا ہوا ہے۔ اللہ نے سورہ رحمن میں سورج وچاند، درخت و بیل کی مثال دیکر بتایا کہ درخت کی کٹائی سے فضائی حدود کی آلودگی تک انسانوں کو اعتدال کے میزان سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ جنگلات کٹیں گے تو پاکستان قدرت کی عظیم نعمت پانی کی دولت سے بالکل محروم ہوجائیگا۔ہمارے شفقت علی محسودکو وزیرستان کی فکر ہے لیکن بڑے بڑوں نے گدھوں کی طرح تعلیم کی کتابیں لاد رکھی ہیں۔
ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کی شخصیت کابڑا کمال عربی تعلیم اوراعتدال تھا۔ ہمیں اپنی لکھی ہوئی کتاب ”الطریق العصری” پڑھائی تھی۔ یہی وہ بنیاد ہے جس نے قدیم طریقہ تعلیم کے مقابلے میں زبردست جدت پیدا کرکے مجھے دینی احکام کی سمجھ کے قابل بنادیا ۔ شیخ بنوری اللہ والے تھے مگر عالم کیلئے عربی کی لغت کو عرب کی طرح سمجھنا بہت ضروری ہے۔علامہ انورشاہ کشمیری سے لیکر شیخ بنوری کے بعد ڈاکٹرعبدالرزاق سکندر سے پہلے جتنے شیخ الحدیث اور تحریک ختم نبوت کے امیر گزرے وہ عربی کماحقہ نہیں سمجھتے تھے ،عربی کارٹا لگایاتھا۔ ختم نبوت کے امیرمرکزی کو ”مرکزیہ” کہنا بھی جہالت ہے۔ امیر کیساتھ صفت مذکر آئیگی اور دارالعلوم کراچی کیساتھ جامعہ کا لفظ لگانا بھی جہالت ہے۔ دارالعلوم مذکر ، جامعہ منث ہے اور دونوں الفاظ کا ایک ہی معنی ہے۔ جامعہ دارالعلوم کراچی کا معنی یہ ہے کہ دارالعلوم کراچی کا جامعہ ۔ تف ہے علما ومفتیان کی ایسی جہالتوں پر۔
صحیح بخاری میں نبیۖ کی حدیث ہے کہ ” نبوت میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہ گیا مگر مبشرات”۔ عرض کیا گیا ”مبشرات ” کیا ہیں؟ فرمایا” صالح خواب ”۔
رسول اللہ ۖ کے بعد نبوت کوئی ایسی چیز نہیں کہ عوام کو اطلاع کی جائے کہ یہ بس سروس بند ہوگئی ۔ اللہ نے قرآن کی حفاظت کا وعدہ کیا اور نبوت کا دروازہ بند کردیا ۔نبوت اعلی مشن ہے ۔ہوائی جہاز کا سلسلہ چلے گا تو نظر بھی آتا رہے گا۔ رسول اللہۖ کے ذریعے اللہ تعالی نے نبوت کی ایسی تکمیل کردی کہ اس پر بحث فضول ہے۔ مزرا قادیانی(ghulam ahmed qadyani) جاہل مولوی نہ ہوتا تو نبوت کا دعوی نہیں کرتا لیکن اگر جاہل نہ تھا تو اس نے فرنگی سازش سے جہاد ختم کرنے کیلئے ہی نبوت کا دعوی کیا ہوگا۔ علامہ اقبال نے اس کو ”مجذوب فرنگی ” قرار دیا تھا۔ قرآن نے لوگوں کو چیلنج کیا ہے کہ کوئی دس یا ایک سور ایسی بناکر دکھا۔ نبیۖ نے ابن صائد کو نبوت کے دعوے پر کوئی گزند تک نہیں پہنچائی تھی۔ نبوت ایسی چیز نہیں کہ کوئی اچک لے اور نبوت کے دعویدار جھوٹے انجام کو خود پہنچ جائیںگے۔ مرزائیوں کو ساری قوت مخالفت سے ملتی ہے،اگر مخالفت نہ ہوتی توقادیانیت بالکل ختم ہوجاتی ۔
بخاری پڑھانے والے جاہل شیخ الحدیث کا جب یہ عقیدہ ہوگا کہ نبوت میں چالیسواں حصہ رہ گیا تو کیا ختم نبوت پر اسکا ایمان ہوگا؟۔ غلام احمد پرویز حدیث کا انکار کرتا۔ شیخ بنوری کے شاگرد مولانا طاہر مکی نے شیخ بنوریسے بخاری کی حدیث پر اشکال پوچھا تو اس کی تھپڑوں سے تواضع کردی ۔ بخاری کی اس حدیث کی کیا کیا شرحیں لکھی گئیں؟۔ غسل کے فرائض سے لیکر ایک ایک معاملے پر اجتہاد کا بھرکس نکالنے والوں نے فقہ واصولِ فقہ کی کتابوں میں جاہلیت کے پھول کھلائے بلکہ بدبودار پوٹیاں کی ہیں۔ شیخ سکندر کا احسان ہے کہ عربی سیکھنے کیلئے زبردست بنیاد فراہم کردی اور طریقہ العصریہ کی طرزپر عربی کی تعلیم سے معلوم ہوگیا کہ خواب کی نبوت کا معنی غیبی خبر ہے۔ بخاری کی حدیث سے یہ مراد لینا کہ نبوت باقی ہے، کفرو گمراہی کا عقیدہ ہے ۔ اس سے بہتر تو حدیث کا انکار تھا لیکن حدیث صحیح ہے اور صالح خواب سے مراد جو شیطان سے محفوظ ہو۔ وحی کا سلسلہ بند ہے،صرف وحی شیطان کی مداخلت سے محفوظ تھی ۔خوابی خبریں جھوٹی ہوسکتی ہیں۔ مرزائی، تبلیغی جماعت، دعوت اسلامی، مولانا فضل الرحمن کی جمعیت اور شیعہ و مذہبی طبقے خواب دیکھیں تو اس پر سو فیصد یقین کرلینا غلط ہے۔ پہلے حدیث کی درست وضاحت سمجھ لیں ،پھر اپنا اعتقاد درست کرلیں اور پھر اپنے خوابوں پر بھی سوفیصد یقین نہ کریں۔ورنہ تو پیر پنجر سرکار کی طرح روزانہ سب شگوفے چھوڑیںگے کہ ”ہوا میں اڑتا جائے، میرا لال دوپٹہ ململ کا”۔
عربی خواب کی نبوت سے غیبی خبر مراد لیتے ہیں۔ جاہل گدھا طبقہ (40) فیصد نبوت کا باقی رہنا مراد لے گا اور اس کی انتہائی غلط تشریح کرے گا تو اسکا ضمیر نہیں کہے گا کہ نبوت کا نعوذباللہ کچھ حصہ باقی ہے؟ جو یہ اعتقاد رکھے تو وہ ہدایت یافتہ ہے یا گمراہ؟ غلط تشریح پر اس امیدپرگزارہ کرنا کہ مہدی آئیگا اور ہمارا عقیدہ ٹھیک کریگا اہل تشیع سے بڑی گمراہی ہے۔ میری یہ دعوت ہرگز نہیں کہ مجھے مان لو!۔ قرآن وسنت کی درست تشریح کی دعوت دینا فرض ہے۔ میں نے خلافت کے قیام کیلئے کہا تھا کہ میں گمراہ نہیں کیونکہ نبیۖ نے خلفا راشدین مہدیین کی پیروی کا حکم دیا ہے اور خلافت راشدہ والے صحابہ کرام مہدی تھے اور آئندہ بھی خلافت راشدہ قائم کرنے والے مہدی ہونگے۔شیخ سکندر نے ہماری رہنمائی فرمائی کہ” قیامِ خلافت سے پہلے امت کی اصلاح کیلئے وہی طریقہ اپنانا ہوگا جو اس امت میں اسلام کی نشا اول کا تھا۔ امام مالک نے فرمایا کہ اس امت کی اصلاح نہیں ہوگی مگر جس چیز سے پہلے اس کی اصلاح ہوئی تھی”۔ اپنی کتاب ”عورت کے حقوق ” کا آخری جملہ یہ لکھا تھا کہ ”تمام مکاتبِ فکر کی تائیدایک طرف مگر استاذ کی نصیحت سب پر بھاری تھی جس پر آج ہم عمل پیرا ہیں”۔ مولانا سرفراز خان صفدر، مولانا یوسف لدھیانوی، مولاناخان محمد کندیاں، مفتی ولی حسن ٹونکی ، مفتی احمد الرحمن ، مولانا سلیم اللہ خان، مفتی زر ولی خان ، مولانا محمد امین ہنگو کوہاٹ ، مولانا فتح خان ٹانک، مولانا فضل الرحمن، مولانا شیرانی اور قبلہ ایاز وغیرہ کو قریب سے دیکھا۔ مدینہ یونیورسٹی میں (PHD) کی ڈگریاں کرانے والے پاکستانی پروفیسروں سے ملا ہوں ان کوبھی ڈفرپایاتھا ۔ ڈاکٹرعبدالرزاق سکندر نے ہماری بنیاد ٹھیک رکھ دی۔ شیخ بنورینے مدرسے کی بنیاد تقوے پر رکھ دی تھی اور اسلام کی نشا ثانیہ بھی یہیں سے ہوگی۔انشا اللہ العزیز
قرآن سلیس اور واضح عربی زبان میں ہے مگر اس کی طرف مذہبی طبقے بالکل بھی توجہ نہیں دیتے ۔ مفتی محمد تقی عثمانی نے ” آسان ترجمہ قرآن” اور اس کی مختصر تفسیر میں نہ صر ف روایتی غلطیوں کو دھرایا ہے بلکہ انتہائی جہالت کا مظاہرہ بھی کردیا ہے۔ قرآن کے ترجمے میں لفظی تحریف کا بھی ارتکاب کر ڈالا ہے۔
قرآن کی سورہ بقرہ آیت(231،232)اور سورہ طلاق کی آیت(2)میں ایک جملہ ہے کہبلغن اجلھن ”پس جب طلاق شدہ عورتیں اپنی مدت پوری کرلیں ” لیکن شیخ الاسلام نے فقہی مسائل کی بنیاد پر الفاظ کے ترجمے میں تحریف کر ڈالی ۔ طلاق ریاضی کا نہیںمعاشرتی مسئلہ ہے۔ قرآن میں طلاق کی عدت ہے ۔طلاق کی عدت میںایک مدت چار ماہ،دوسری مدت تین طہرو حیض اور تیسری مدت تین ماہ اور چوتھی مدت حمل کی صورت میں بچے کی پیدائش ہے۔
جب طلاق کیلئے اللہ نے عدت کی مختلف مدتیں رکھی ہیںتو انسان کا ذہن کھلنا چاہیے تھا کہ عدت معاشرتی مسئلہ ہے ریاضی کا نہیں۔ جب اللہ نے مختلف آیات میں عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد دونوں صورتوں میں باہمی رضا مندی اور معروف طریقے سے رجوع کی اجازت دی ہے تو اس سے بھی یہ واضح ہے کہ عدت ریاضی کے حساب کتاب کا نہیں بلکہ معاشرتی مسئلہ ہے۔
قرآن کی تفصیلی آیات کے باوجود اس کو معاشرتی مسئلہ سمجھنے کے بجائے ریاضی کا مسئلہ بنانے والوں نے لکھ دیا کہ ” اگر عورت کو حمل ہو اور آدھے سے کم بچہ باہرآیا ہو تو رجوع ہوسکتا ہے ۔اگر آدھے سے زیادہ بچہ باہر آیا ہو تو پھر رجوع نہیں ہوسکتا ہے”۔( فقہ وفتوے کی کتابیں) قرآن کا صحیح ترجمہ وتفسیر سمجھ میں آجائے تو فقہا کی لایعنی بکواس مسائل گدھوں کی طرح ڈھینچو ڈھینچو لگیں گے۔
فقہا نے نہ صرف قرآن کو سمجھنے میں غلطی کی بلکہ ریاضی کو بھی غلط پیش کیا ۔ اصولِ فقہ میں ہے کہ ” قرآن میں تین کا عدد خاص ہے۔ طہر میں طلاق مشروع ہے اور جو لمحہ طلاق سے پہلے گزرے تو 3طہر شمار کرنے سے عدد میں کمی آئے گی اور عدد ڈھائی بن جائیگا اسلئے حیض کو شمار کیا جائے تاکہ تین کا عدد مکمل شمار ہو”۔
حالانکہ اس طرح سے تین حیض کے عدد پر بہت سارا اضافہ ہوگا اسلئے کہ تین حیض کے علاوہ وہ پاکی کے ایام بھی انتظار کی عدت میں شامل ہونگے جس کی وجہ سے تین سے معاملہ ساڑھے تین سے بھی او پر چلاجائیگا۔ مولانا بدیع الزمان نے ہمیں اصولِ فقہ اور قرآن کی تفسیر پڑھائی تھی اور مجھے بڑا حوصلہ بھی دیاتھا۔صحابہ کرام اور ائمہ اربعہ کے مقف کی بات تو بہت دور کی ہے ،حنفی اصولِ فقہ میں صحیح احادیث کو قرآن کے مقابلے میںناقابلِ عمل قرار دینے کی تربیت ملتی ہے۔ اگر خوابوں میں نبوت باقی رہنے کی بات اصولِ فقہ میں پڑھائی جاتی تو احناف اس کو رد کردیتے کہ اللہ کے دین کی تکمیل ہوچکی اور نبوت کے کچھ حصے کا باقی ہونا قرآن کی آیت سے ہی متصادم ہے الیوم اکملت لکم دینکم ” آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا ہے”۔پھر مختلف مذاہب میں فرائض کی تشکیل اور ان کے فرائض ہونے یا نہ ہونے میں اختلاف کو کیا نام دیں گے؟۔
قرآن میں اللہ نے نشے میں نماز کے قریب جانے سے روکا ہے، یہاں تک کہ جو نمازی کہہ رہاہے اس کو وہ سمجھے بھی اور جنابت کی حالت میں بھی مگر جب کوئی مسافر ہو ،یہاں تک کہ غسل کرلے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ جنابت سے غسل کرنا ضروری ہے۔ عربی میں غسل نہانے کو کہتے ہیں۔ اللہ نے نماز سے پہلے وضو کا حکم دیا ہے اور پھر ساتھ میں یہ فرمایا ہے کہ جب تم جنابت میں ہو تو پھر اچھی طرح سے پاکی حاصل کرلو۔ قرآن کی آیات سے معلوم ہوا کہ وضو کرنے کے مقابلے میں نہانا ہی اچھی طرح سے پاکی حاصل کرنا ہے۔ جب حضرت عمر نے اسلام قبول کرنے کیلئے قرآن کے صفحات مانگے توبہن نے کہہ دیا کہ پہلے نہالو۔ نہانا انسانوں کے علاوہ جانوروں اور پرندوں کو بھی آتا ہے۔
صحاح ستہ کا پہلا اردو ترجمہ علامہ وحید الزمان نے کیا تھا۔ نبیۖ نے فرمایا بدا الاسلام غریبا فسیعود غریبا فطوبی للغربا ”اسلام کی ابتدا اجنبیت سے ہوئی ۔ یہ پھرعنقریب اجنبیت کی طرف لوٹ جائیگا،پس خوشخبری ہے اجنبیوں کیلئے”۔ علامہ وحید الزمان (wahidulzaman)نے اردو کا غریب بنادیا۔ اسلئے اقبال نے جواب شکوہ میں کہا ” نماز پڑھتا ہے تو غریب اور پردہ کرتا ہے تو غریب”۔
مرزا قادیانی نے اپنے خود ساختہ شیطانی الہامات میں پنجابی اور اردو سے عربی بنانے کی کوشش کی تھی۔ محمدی بیگم (muhamdi begam)کے حوالے سے لکھاہے کہ” اگر یہ عورت (اس عاشق نامراد) کو نہیں دی گئی تواس کے گھر پر، دیواروں پر، بیٹھک میں آنے جانے والوں پر آسمان کے نیچے سے لعنتیں برسیں”۔ عربی لغت میں من تحت الارض کی طرح من تخت السما کا لفظ نہیں آتا ۔نزل من السما ہوتاہے مگر نالائق نے اردو یا پنجابی پر قیاس کرکے عربی بنائی تھی۔پشتو میں کہا جاتا ہے کہ زہ ستاپیذار پپخو کم ”میں تمہارے جوتے پہن لوں”۔ پشتو میں کپڑے کیلئے پہننے کا لفظ ہے اور جوتا پہننے کیلئے پاں کے لفظ کی آمیزش ہے۔ پنجاب سے میرا ایک دوست میرے ساتھ کانیگرم وزیرستان گیا تھا تو میرے بھانجے نے اس کی چپل پہننے کی اجازت مانگتے ہوئے کہا کہ ”میں تمہارے چپل پپاں کروں”۔ کھیرے کاچھلکا ہٹانے کیلئے پشتو میںسفید کرنے کا لفظ ہے۔ بسا اوقات اردو سمجھنے والوں پشتون کی زبان سے بھی ”چند کھیرے سفید کرلو” کے الفاظ بے ساختہ نکل جاتے ہیں۔ ارود میں فلاں شخص فوت ہوا اور انتقال کرگیا۔ عربی میں ریح کیلئے حدث اور احدث کا لفظ استعمال ہوتاہے۔ جسکا معنی ریح خارج ہونے اور خارج کرنے کے ہیں۔ اردو والوں کو نہیں پکڑا جاسکتا کہ فوت ہوگیا یا انتقال کرگیا۔ عجم فقہا نے نماز کے آخر میں احدث کا لفظ پکڑکر عجیب مسئلہ بنادیا تھا۔ ایک ایک مسئلے پر اسلام کو ایسا اجنبی بنادیا گیا ہے کہ بقول علامہ اقبال (allama iqbal)کے علما و صوفیا کا بہت احترام ہے کہ انکے ذریعے دین ہم تک پہنچا لیکن اللہ ، رسولۖ اور جبریل حیران ہونگے کہ یہ وہی دین ہے جو اسلام کے طور ہمارا تحفہ تھا؟۔
اہل حدیث اور اہل تشیع کا ایک بہت بڑا طبقہ حنفی فقہ کی کتابوں سے مسائل نکال نکال کر سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلا رہاہے۔ مدارس کے علما ومفتیان کو ان عبارات کا پتہ نہیں ہے اور جو پڑھاتے ہیں وہ سمجھتے بھی نہیں ہیں۔ افغانستان میں طالبان نے حکومت قائم کی تھی لیکن مولانا فضل الرحمن تک کو کہنا پڑا تھا کہ” یہ خراسان سے نکلنے والے دجال کا لشکر ہے”۔ جب تک مدارس کے نصاب تعلیم کو درست کرکے نئے خطوط پر نہیں لکھا جائیگا تو ہمارے مدارس خانقاہوں کی طرح تربیت کے مراکز ہوسکتے ہیں لیکن دین کی روشنی ان سے نہیں پھیل سکتی ہے۔
بنوری ٹان کراچی کے فاضل بونیر کے مولانا اسحاق(molana ishaq) نے ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کے انتقال پر کہا کہ ”جامعہ میں ڈاکٹر صاحب اور مفتی عبدالمنان ناصر(mufti abdulmanan nasir)) تھے جو شاہ صاحب کی تائید کرتے تھے”۔ تائید والے دوسرے اساتذہ بھی ہونگے مگر ڈاکٹرصاحب نے جامعہ کے لیٹر پیڈ پر تحریری تائید لکھ دی۔ یہ بہادری کی بہت انتہا تھی۔ مولانا فضل الرحمن سے بھائیوں جیسے مراسم تھے لیکن تحریری تائیدنہیں کرسکتے تھے۔ ساتھی ڈاکٹر احمد جمال نے بتایا کہ شیخ سکندر سے متعلق مجھے معلوم نہیں تھا کہ” وہ اتنے بڑی شخصیت تھے۔ مجھے اپنے گھر کی بیٹھک میں عزت سے بٹھایا اور فرمایا کہ میں اخبار پڑھتاہوں۔ اگر انکے صاحبزادے نہ آتے تو تائید ی بیان لکھ کر بھی دیتے”۔بلند اخلاق ڈاکٹر صاحب ہمارے روحانی باپ تھے۔
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv

Tragedy of Dr. Abdul Razzaq Sikandar:Maulana Talha Rahmani,Jamia Uloom Al Islamia Allama Banuri Town Karachi.

ڈاکٹر عبدالرزاق سکندرکا سانحۂ ارتحال : مولانا طلحہ رحمانی ، جامعہ علوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی

الوداع الوداع. اے شیخ سکندر الوداع.یاد گار اسلاف،آفتاب علم ماہتاب عمل،نابغہ روزگارہستی،محبوب العلما و الاتقیائ،شیخ المحدثین،محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ کے گلشن کے باغباں اور مسند نشیں حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر رحمہ اللہ رحم واسع کے سانحہ رحلت نے امت مسلمہ کی دنیائے علم کو سوگوار کردیا،آج اس باغیچہ بنوری کے درودیوار ماتم کناں ہیں۔علم و دانش کی اس عظیم درسگاہ کی مسندیں ایک مرد درویش کی تلاش میں مغموم اور افسردہ افسردہ سی ہیںلیکن انوارات سے منور اور روح پروری سے لبریز ایک ”گوشہ ” آباد ہے ۔تصورات کی دنیا میں کئی خوشگوار احساسات کا منظر دماغ میں آ رہا ہے تو یادوں کا اک جہاں بھی معطر معطر سا ہورہا ہے۔اس ”گوشہ” کے چاروں مکین نئے آنے والے مہمان کی آمد پہ کس طرح نہال ہورہے ہونگے۔ گزشتہ تین دنوں سے جو محفل سجی ہوگی اور اس دلبر ماحول میں گزرے دنوں کی کتنی یادوں کا ذکر چل رہا ہوگا۔چلیں دل کا یہ پھپھولا پھر کبھی ان شااللہ۔ حضرت ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ کی حیات کے درخشندہ وتابندہ پہلوں میں ایک بہت بڑا پہلو ان کی عالی و ارفع نسبتیں ہیں۔ کئی نسبتوں کے امین اس عظیم المرتبت شخصیت پہ بہت کچھ تحریر و تقریر کی شکل میںآرہا ہے اور اس مرد قلندر کیلئے کروڑوں دلوں میں لاکھوں عشق و عقیدت کے جذبات کا سیل رواں بھی آج اشکوں کی صورت ہر طرف بہہ رہا ہے۔پیکر علم و حلم لازوال محبتوں کے مرجع ایک حسین اور وجیہہ شبیہ کی صورت کا سراپا سب کی نظروں میں گھوم رہا ہے۔ سردست تو مسنون تعزیت کے تیسرے دن کا اختتام ہوااور ان تین دنوں میں ”ان”کے بارے بہت کچھ لکھنا ضروری تھا۔ لیکن کچھ غم واندوہ کے پرکیف ماحول اور ملک بھر سے مسلسل مہمانوں کی کثیر تعداد میں آمد کی مصروفیت کیوجہ سے باوجود کوشش کے نہ لکھ سکا۔ ان تین دنوں میں مختصرا بعض احباب کی مختلف انداز میں خراج عقیدت کی تحریریں نظم ونثر کی شکل میں نظر سے گزریں۔کچھ درد میں ڈوبی صدائیں بھی سماعت سے ٹکرائیںلیکن مکمل انہماک سے نہ سن پایا۔ آج پاکستان کے بین الاقوامی شہرت یافتہ نعت خواں برخوردار حافظ ابوبکر سلمہ اللہ تعزیت کیلئے جامعہ آئے تو انکے پاس دو تین شعرا کے کلام تھے۔انہوں نے سنائے تو نہیں لیکن پڑھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔اس میں ایک کلام محترم آفتاب احمد (جن کا تعلق سانگھڑ سے )کا تھا۔اس منظوم خراج عقیدت کو حافظ صاحب سلمہ اللہ نے فوری طور پہ اسٹوڈیو جاکر ریکارڈ کروایا۔ابھی کچھ دیر قبل شاعر موصوف کے کلام کو حافظ صاحب کی زباں ملی تو سن کر دل حضرت ڈاکٹر صاحب نوراللہ مرقدہ کی فرقت پہ مزید مغموم ہوگیا ۔بہرحال وہ کلام اپنے برخوردار حافظ ابوبکر کی خوبصورت آواز میں آپ حضرات کیلئے شئیر کررہا ہوں۔سنیںاورحضرت رحمہ اللہ کے رفعت درجات کی بلندی کیلئے ضرور اہتمام سے دعا فرمائیں۔وہ ہماری دعاں کے شاید اتنے محتاج نہیں جتنے ہم جیسے سیاہ کاروں کو ضرورت ہے۔ لاکھوں افراد نے ان کو جس عقیدت بھرے احساسات اور والہانہ جذبات کیساتھ الوداع کیا۔ جنازہ کا وہ منظر کراچی جیسے شہر نے شاید اس سے قبل کبھی نہ دیکھا ہو۔الوداع الوداع۔ اے شیخ اسکندر الوداع ،اس صدی کے اے قلندر اے سکندر الوداع۔ علم احمد مجتبی کے اے سکندر الوداع ۔الوداع الوداع، اے شیخ اسکندر الوداع۔ مولانا طلحہ رحمانی صاحب ……جامعہ علوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹان کراچی۔
الوداع الوداع اے شیخ سکندر…تیری گردِ پا کو بھی نہ پہنچے کوئی قلندر
لالچ تھی نہ شہرت کی کوئی طلب…. تحمل کے سمندر،علم نبویۖ کے البدر
اے عربی لغت کے شبِ قدر ….. طلوع ہو گی تیرے فیض سے الفجر
ازماہنامہ نوشتہ دیوار کراچی
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv

Maulana Syed Muhammad Banuri was martyred and charged with suicide. After finding evidence of murder, it was decided to accuse Dr. Abdul Razzaq.

مولانا سید محمد بنوری کو شہید کرکے خود کشی کا الزام لگایا گیا پھر قتل کا ثبوت ملنے پر ڈاکٹر عبد الرزاق سکندر کو موردِ الزام ٹھہرانے کی کوشش کی گئی۔

ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر سے متعلق
رئیس و شیخ الحدیث جامع العلوم الاسلامیہ بنوری ٹان کراچی، صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان ،مرکزی امیرعالمی مجلس تحفظ ختم نبوت!
………………پیدائش اور بچپن:(1935 )میں ایبٹ آباد کے گاں کوکل کے دینی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔آپ بچپن سے سلیم الفطرت تھے ۔ معاصرین گواہی دیتے ہیں کہ آپ میں جو نیکی و صلاح پیرانہ سالی میں نظر آتی ہے ، جوانی میں اسی طرح دکھائی دیتی تھی۔ گویا آپ کا بچپن، جوانی، اور بڑھاپا نیکی و تقوی کے لحاظ سے ایک جیسے تھے ۔
…………..آپ کے والد گرامی:سکندر خان بن زمان خان(sikandar khan bin zaman) اپنے حلقہ میں بڑے باوجاہت تھے۔ خاندان اور گاں کے تنازعات میں ان سے رجوع کیا جاتا تھا ، جنہیں وہ خوش اسلوبی سے نمٹادیا کرتے تھے۔ بچپن ہی سے علما و صلحا سے گہرا تعلق تھا ، جس کا اثر ان کی زندگی پر ایسا نمایاں تھا کہ دینی معلومات آپ کو خوب مستحضر تھیں ، جس کی بنا پر بہت سے علما بھی آپ سے محتاط انداز میں گفتگو کرتے تھے، کیوں کہ غلط بات پر آپ ٹوک دیا کرتے تھے۔ نماز باجماعت کی پابندی ، تلاوتِ قرآن کریم، ذکرِ الہی، صلہ رحمی ، اصلاح ذات البین، رفت و شفقت، اور ضعفا کی خبرگیری؛ان کے خصوصی اوصاف تھے۔ مسجد کی خدمت و تعمیر سے بہت شغف تھا۔
………….تعلیم:قرآن کریم کی تعلیم اور میٹرک تک دنیاوی فنون گاں میں حاصل کیے۔ اس کے بعد ہری پور کے مدرسہ دارالعلوم چوہڑ شریف میں دو سال، اور احمد المدارس سکندر پور میں دو سال پڑھا۔ 1952) (میں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ تعالی کے مدرسہ دارالعلوم نانک واڑہ کراچی میں درجہ رابعہ سے درجہ سادسہ تک تعلیم حاصل کی ۔ درجہ سابعہ و دورہ حدیث کیلئے محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری رحم اللہ علیہ کے مدرسہ جامع العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹان(binoritown) میں داخلہ لیا، اور (1956) میں فاتحِہ فراغ پڑھا ۔ (واضح رہے کہ اس مدرسہ میں درسِ نظامی کے پہلے طالبِ علم آپ ہی تھے۔) اسکے بعد آپنے (1962) میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ(جسکے قیام کو ابھی دوسرا سال تھا) میں داخلہ لیکر چار سال علومِ نبویہ حاصل کیے۔ بعد ازاں جامعہ ازہر مصر (jamia azhar misar)میں( 1972) میں داخلہ لیا اور چار سال میں دکتورہ مکمل کیا؛ جس میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ امام الفقہ العراقی کے عنوان سے مقالہ سپردِ قلم فرمایا۔
………….آپ کے اساتذہ کرام:
(1)۔۔۔: علامہ سید محمد یوسف بنوری (تلمیذ:محدث علامہ کشمیری )
(2)۔۔۔: مولانا عبدالحق نافع کاکاخیل (تلمیذ:حضرت شیخ الہند )
(3)۔۔۔: مولانا عبدالرشید نعمانی
(4)۔۔۔:مولانا لطف اللہ پشاوری۔
(5)۔۔۔: مولانا سحبان محمود۔( سبحان محمود شیخ الحدیث دارالعلوم کراچی)
(6)۔۔: مفتی ولی حسن ٹونکی۔(رئیس دارالافتا وشیخ الحدیث بنوری ٹان)
(7)۔۔۔: شیخ التفسیرحضرت مولانا بدیع الزمان۔ (رحمہم اللہ تعالی اجمعین )
………….درس و تدریس:دارالعلوم نانک واڑہ میں دورانِ تعلیم ہی عمدہ استعداد و صلاحیت کی بنا پر، کراچی میں لیبیا و مصر حکومتوں کے تعاون سے،عربی زبان سکھانے کیلئے مختلف مقامات پر ہونے والی تربیتی نشستوں میں پڑھانے کا موقع ملا، اس سے آپ کو تدریس کا کافی تجربہ حاصل ہوا۔ علاوہ ازیں بنوری ٹان میں درسِ نظامی کی تکمیل سے پہلے ہی حضرت بنوری نے آپ کی صلاحیتوں کو جانچتے ہوئے اپنے مدرسہ کا استاذ مقرر فرمایا۔آپ کا زمانِ تدریس( 1955) سے تاحال جاری تھا۔
………بیعت و خلافت:ظاہری علوم کی تکمیل کے علاوہ آپ کی باطنی تربیت میں شیخ بنوری کا سب سے زیادہ حصہ تھا۔ علاوہ ازیں شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندہلوی اور حضرت ڈاکٹر عبدالحی عارفی نور اللہ مرقدہما کی صحبت سے مستفید ہوئے اور حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید اور حضرت مولانا سرفراز خان صفدر رحمہما اللہ تعالی سے اجازتِ بیعت و خلافت حاصل ہوئی۔
جامع العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹان سے تعلق(1955 )میں اس مدرسہ کے درسِ نظامی کے پہلے طالبِ علم کی حیثیت سے یہ تعلق استوار ہوا، دورانِ طالبِ علمی میں حضرت بنوری نے آپ کی عمدہ استعداد دیکھتے ہوئے آپ کو استاذ مقرر فرما کر یہ تعلق مضبوط کردیا۔ (1977 )میں انتظامی صلاحیتوں کے اعتراف میں ناظمِ تعلیمات مقرر ہوئے۔ (1997) میں مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید کی شہادت کے بعد رئیس الجامعہ کیلئے آپ کا انتخاب ہوا اور (2004 )میں مفتی نظام الدین شامزئی شہید کی شہادت کے بعد شیخ الحدیث کے مسند نشین بنے؛ یہ دونوں ذمہ داریاں آپ تاحال بحسن و خوبی نبھارہے تھے۔
………عالمی مجلس تحفط ختم نبوت سے تعلق
عقیدہ ختمِ نبوت کے تحفظ ، فتنہِ قادیانیت کے تعاقب کیلئے یہ جماعت قیامِ پاکستان کے بعد امیر شریعت سید عطااللہ شاہ بخاری کی زیرِ امارت قائم ہوئی۔( 1974) میں شیخ بنوری کی زیرِ امارت چلائی جانے والی تحریک کے نتیجہ میں آئینِ پاکستان میں عقیدہِ ختمِ نبوت کا تحفظ ممکن ہوا،( 1984) میں اسی جماعت کے تحت چلائی جانے والی تحریک کے نتیجہ میں امتناعِ قادیانیت آرڈیننس آیا۔ پاسپورٹ میں مذہب کے خانہ کی بحالی اور (2010) میں ناموسِ رسالت کے قانون کے تحفظ کیلئے چلائی جانے والی تحریک میں اس جماعت کا بنیادی و کلیدی کردار رہا۔ حضرت ڈاکٹر صاحب( 1981) میں جماعت کی شوری کے رکن منتخب ہوئے۔ حضرت سید نفیس الحسینی شاہ کے وصال(2008 )کے بعد آپ نائب امیر مرکزیہ بنائے گئے۔ حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانوی کے انتقال (2015) کے بعد آپ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیرمرکزیہ منتخب ہوئے۔ آپ نے مجلس کی کئی اردو مطبوعات کا عربی میں ترجمہ کرکے عرب ممالک میں اِنہیں عام فرمایا۔
……اقرا روض الاطفال ٹرسٹ پاکستان سے تعلق:
اکابر و اسلاف کی دعاں میں قائم کردہ پاکستان کے پہلے دینی علوم و دنیاوی فنون کا امتزاج رکھنے والے ادارہ کے سرپرست اور صدرمفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی،حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی، حضرت سید نفیس الحسینی، حضرت مولانا خواجہ خان محمد، مولانا عبدالمجید لدھیانوی رحمہم اللہ تعالی ایسے اکابر رہے ہیں۔ ان بزرگوں کے بعد حضرت ڈاکٹر صاحب اس ادارہ کے پہلے سرپرست رہے ہیں اور اب صدر بن گئے تھے۔بقیہ صفحہ 3نمبر1
……………..وفاق المدارس العربیہ پاکستان سے تعلق:
قیامِ پاکستان کے بعد مسلمانانِ پاکستان کے اسلامی تشخص، مملکتِ خدا داد پاکستان میں دینی مدارس کے تحفظ و استحکام، باہمی ربط کو مضبوط اور مدارس کو منظم کرنے کیلئے اکابر علمائے اہلِ سنت دیوبند کی زیرِ قیادت( 1379ھ /1959) میں اس ادارہ کا قیام عمل میں آیا۔ اس وقت یہ ملک کا سب سے بڑا دینی مدارس کا بورڈ ہے،جس سے تقریبا بیس ہزار مدارس ملحق ہیں۔ ان مدارس میں تقریبا چودہ لاکھ طلبہ و آٹھ لاکھ طالبات زیرِ تعلیم ہیں۔ جبکہ تقریبا ڈیڑھ لاکھ علما و پونے دو لاکھ عالمات فارغ التحصیل ہوچکے ہیں۔آٹھ لاکھ سے زائد حفاظ و دو لاکھ سے زائد حافظات بھی اسی وفاق سے ملحق مدارس کے فیض یافتہ ہیں۔
حضرت ڈاکٹر صاحب کے شیخ محدث بنوری کا اس ادارہ کے قیام میں دیگر اکابر کے ساتھ بنیادی کردار رہا ہے۔ (1997) میں حضرت ڈاکٹر صاحب وفاق کی مجلسِ عاملہ کے رکن بنائے گئے۔ (2001) میں نائب صدر مقرر ہوئے، اس دوران آپ صدرِ وفاق شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان (molana saleemullah khan)کی بیماری و ضعف کے باعث کئی بار ان کی نیابت کرتے رہے، اور ان کی وفات کے بعد تقریبا 9 ماہ قائم مقام صدر رہے۔ (14 محرم الحرام 1439ھ05 اکتوبر 2017 )کو آپ متفقہ طور پر مستقل صدر منتخب ہوئے۔ اس کے علاوہ آپ وفاق کی نصاب کمیٹی اور امتحان کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں۔
……….تصانیف و تالیفات:(1)…: الطریق العصری۔(2)….: کیف تعلم اللغ العربی لغیر الناطقین بھا۔(3)…: القاموس الصغیر۔(4)…: مقف الام الاسلامی من القادیانی۔(5)…: تدوین الحدیث۔(6)….: اختلاف الام والصراط المستقیم۔(7)…: جماع التبلیغ و منھجہا فی الدعو۔(….: ھل الذکری مسلمون؟۔(9)….: الفرق بین القادیانیین و بین سائر الکفار۔(10)…: الاسلام و اعداد الشباب۔ (11)….: تبلیغی جماعت اور اس کا طریقِ کار۔(12)….: چند اہم اسلامی آداب۔(13)….: محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔(14)….: حضرت علی اور حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین۔
آپ کی زیادہ تر تصانیف اردو سے عربی، اور کچھ عربی سے اردو میں مترجم ہیں۔ جبکہ مشہور کتاب الطریق العصری عرصہ دراز سے وفاق المدارس کے نصاب میں شامل ہے۔علاوہ ازیں آپ نے عربی و اردو میں بیشمار مقالات و مضامین سپردِ قلم فرمائے ہیں، جو عربی و اردو مجلات، رسائل و جرائد، اور اخبارات کی زینت بنے اور مختلف کانفرنسوں میں پڑھے گئے ہیں۔ اِن میں سے اردو مضامین تین مجموعوں کی شکل میں مرتب ہوچکے ہیں:
(1)۔۔: مشاہدات و تاثرات۔(2)۔۔۔: اصلاحی گزارشات۔(3)۔۔۔: تحفظِ مدارس اور علما و طلبہ سے چند باتیں۔اس کے علاوہ آپ روزنامہ جنگ کے مقبولِ عام سلسلہ آپ کے مسائل اور ان کا حل کے مستقل کالم نگار ہیں، جبکہ ماہ نامہ بینات کے مدیر مسل اور مجلہ البینات کے المشرف العام بھی ہیں۔
شیخ بنوری کی نسبتوں کے امین اور مرجع الخلائق شخصیت:شیخ بنوری سے آپکا تعلق اس وقت قائم ہوا جب آپ جامع مسجد نیو ٹان میں عربی کلاس پڑھانے کیلئے تشریف لایا کرتے تھے، کلاس پڑھانے کے بعد کچھ دیر حضرت بنوری کی خدمت میں حاضر رہتے، اگلے سال اسی مدرسہ میں داخلہ لیکر آپ نے یہ رسمی تعلق دائمی کرلیا، سفروحضر میں خادم کی حیثیت سے ہمیشہ ساتھ رہتے۔ حضرت کو بھی آپ سے ایسی محبت تھی کہ اپنے مدرسہ میں استاذ مقرر فرمایا، مدینہ یونیورسٹی میں پڑھنے کیلئے چار سال کی رخصت دی، جامعہ ازہر(jamia azhar) میں داخلہ کیلئے خود ساتھ لے گئے، (1961 )میں حج پر ساتھ لے گئے تو حج کے تمام مناسک اپنی نگرانی میں کروائے، کیونکہ یہ ڈاکٹر صاحب کا پہلا حج تھا۔
انہی محبتوں و شفقتوں نے آپ کو اپنے شیخ کا ایسا گرویدہ بنایا کہ زندگی بھر کیلئے انکے ہوکر رہ گئے۔ شیخ کے وصال کے بعد کچھ عرصہ تک یہ کیفیت رہی کہ جہاں شیخ کا تذکرہ چھڑتا تو آپ کی آنکھیں ضبط نہ کرپاتیں۔ پھر بڑے والہانہ انداز میں شیخ کے واقعات سناتے۔ آپ اپنے شیخ کی تمام نسبتوں کے امین اور انکے مسند نشین و جانشین تھے۔ شیخ بنوری بیک وقت صدرِ وفاق، امیرِ مجلس تحفظ ختم نبوت، رئیس و شیخ الحدیث جامعہ بنوری ٹان تھے۔ حضرت ڈاکٹر صاحب (doctorabdulrazaqsikandar)بھی ان تمام مناصب پر اپنے شیخ کی یادگار تھے۔ آپ فنا فی الشیخ کی تصویر اور شیخ کی نسبتِ اتحادی کا مظہر اتم ہیں۔ اپنے شیخ ہی کی نسبت سے آپ اس وقت پورے ملک کے مشائخ و اہل اللہ کے معتمد، مرجع الخلائق اور ایسی غیرمتنازع شخصیت تھے کہ سب کی عقیدت و احترام آپ کو حاصل تھی اور آپ کی مجلس و صحبت سے استفادہ کرنا ہر کوئی اپنی سعادت سمجھتا تھا۔ ایں سعادت بزورِ بازو نیست
یہ معلومات جامعہ بنوری ٹان کراچی کے فیس بک اکاونٹ پر درج ہیں۔
ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نوراللہ مرقدہ
ازقلم : شاگرد سید عتیق الرحمن گیلانی
شاگرد کیلئے استاذ کی نسبت زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ ہوتا ہے۔ تبلیغی جماعت، تصوف کے پیرومرشد اور مدارس کے فیض میں کیا فرق ہے؟۔ طالب علمی کے زمانے میں ایک مضمون لکھا تھا جس میں تبلیغی جماعت کو چراغ سے اور تصوف وسلوک کو ہاتھ کی بجلی(ٹارچ) سے اور مدارس کو الیکٹرک سے تشبیہ دی تھی اور یہ واضح کیا تھا کہ تبلیغی جماعت کے لوگ اپنے اندر مٹی کا تیل جلاکر چراغ سے چراغ روشن کرتے ہیں۔ ایک جاہل کے پلے مٹی کے تیل کی طرح ایک خطرناک اور بدبودار جہالت کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ہے لیکن اس کا یہ کمال ہوتا ہے کہ دنیا کی اندھیر نگری میں اپنی جان، اپنا مال اور اپنا وقت لگاکر تسلسل کیساتھ قربانیاں دیتا ہے۔ چھ باتوں کی تبلیغ ، چند گھنٹے کی تعلیم، شبِ جمعہ کا بیان ، سہ روزہ، چلہ اور چارماہ سے نہ صرف خود ایک تبلیغی کارکن چراغِ راہ بنتا ہے بلکہ دنیا میں چراغوں کا ایک زبردست سلسلہ شروع کردیتا ہے۔ اس کے پاس علم وعمل کا کوئی بڑاخزانہ نہیں ہوتا ہے۔ زندگی بھر جاہل ہی رہتا ہے لیکن ایمان کے نور سے چراغ جلادیتا ہے اور ایمان کے نور کے چراغوں کا سلسلہ اپنی بساط کے مطابق جاری رکھتا ہے اور یہ عمل بہت آسان ہے۔گویا موم بتی سے موم بتی جلانے میں مشکل نہیں۔
دوسری چیز سلوک وتصوف ہے۔ جس کی مثال سیلوں سے چلنے والی ہاتھ کی بیٹری ہے۔ اس میں مٹی کا تیل نہیں ہوتا بلکہ انتہائی خوبصورت سیل ہوتے ہیں۔ اس کی اتنی تیز روشنی ہوتی ہے کہ اگر الیکٹرک کے بلب پر اسے مرکوز کردیا جائے تو روشن بلب کا سایہ بھی دکھائی دینے لگتا ہے۔ تصوف کاایک پیرطریقت جب اپنے مرید عالم پر اپنی باطنی توجہ مرکوز کردیتا ہے تو اس کو تڑپنے پر مجبور کردیتا ہے۔ مولانا روم کو شمس تبریز اور شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی کو خواجہ باقی باللہ اور مولانا نانوتوی، مولانا گنگوہی، مولانا تھانوی جیسے علما کو حاجی امداد اللہ (hajiimdadullah)کی مریدی پر مجبور کردیتا ہے۔ نبیۖ سے ایمان، اسلام ، احسان کا پوچھا گیا تو تینوں کے الگ الگ جواب عطا فرمائے تھے۔ تبلیغی جماعت عوام پر ایمان کی محنت کرتی ہے ، اہل تصوف احسان کی محنت اور مدارس اسلام کی محنت کرتے ہیں۔ تینوں شعبوں کی اپنی اپنی جگہ بہت اہمیت ہے لیکن مدارس کا درجہ سب سے اعلی ہے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ بعث معلما ” مجھے معلم بناکر بھیجا گیا ہے”۔
مدارس کی مثال الیکٹرک کی ہے۔ اگر کہیں پر بجلی لگانی ہو تو اس کیلئے دور دراز سے بجلی کے پاور اسٹیشن سے بڑی لائنوں سے بڑے بڑے کھمبوں پر بجلی کی سپلائی لانی ہوگی۔ شہروں میں گرڈ سٹیشن اور فیڈر بنانے ہونگے۔ وہاں سے پھر کھمبوں اور (PMT)اور میٹروں کے ذریعے بجلی کی سپلائی لائن لینی ہوگی۔ اس محنت میں سالوں کا عرصہ لگتا ہے لیکن اس کی وجہ سے گھروں میں ہیٹر، فریج، پنکھے،بلب، واشنگ مشین، پانی کی موٹرسے لیکر بڑے بڑے کارخانے، فیکٹریاں اور مل سب کچھ چلتے ہیں۔ ناظرہ قرآن ، ترجمہ قرآن، حفظ قرآن، استنباط مسائل ، فقہا کے درجات، احادیث وتفسیر، فتوے کا شعبہ، قاضی کا نظام، سیاست شریعہ، ملک کا نظام ، فتنوں کی روک تھام اور تمام شعبے ان مدارس کے مرہون منت ہیں۔
جامعہ بنوری ٹان کراچی میںزمانہ طالب علمی سے ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کی شخصیت کو مختلف معاملات میں بہت اچھے انداز میں دیکھا ہے۔شاعر حبیب جالب کا تعلق ولی خان کی پارٹی سے تھا۔ ولی خان کے ہم عصر اور مخالفین بھی تھے اور ولی خان(wali khan) کیلئے حبیب جالب (habibjalib)نے کچھ اشعار لکھے تھے۔
ولی خان
مرے کارواں میں شامل کوئی کم نظر نہیں ہے
جو نہ مٹ سکے وطن پر میرا ہم سفر نہیں ہے
درِ غیر پر ہمیشہ تمہیں سر جھکائے دیکھا
کوئی ایسا داغِ سجدہ مرے نام پر نہیں ہے
کسی سنگ دل کے در پر مرا سر نہ جھک سکے گا
مرا سر نہیں رہے گا مجھے اس کا ڈر نہیں ہے
مجھے لگتا ہے کہ اپنے استاذ محترم ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر(abdulrazaq sikandar) سے متعلق جوبڑے قریبی معلومات رکھتے ہیں وہ ضرور یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ حبیب جالب کی طرف سے اپنے سیاسی لیڈر کیلئے یہ اشعار لکھنا کارکن اور لیڈر کے جس ذوق کی عکاسی کرتا ہے ،اس کی ڈاکٹر صاحب جیسے شریف النفس انسان سے کسی طرح کی کوئی بھی مناسبت نہیں لگتی ہے لیکن ایک شاگرد کا کام یہ ہوتا ہے کہ اپنے استاذ کی ان خفیہ صفات کو عوام وخواص کے سامنے لائے جن کی کسی دوسرے کو ہوا بھی نہیں لگی ہو۔ جی ہاں! میں انہی گوشوں کو بہت اچھے انداز میں سامنے لارہا ہوں۔
(1): پہلا مرحلہ یہ تھا کہ سواداعظم اہلسنت کے نام پر جن لوگوں نے اہل تشیع (shia)کی مخالفت اور ان پر کفر کا فتوی لگایا تھا، اس کی ڈاکٹر صاحب نے شروع سے بہت سخت مخالفت کی تھی۔ پھر وہ دن دنیا نے دیکھ لیا کہ ہندوستان کے مولانا محمد منظور نعمانی(manzoor nomani) کے استفتا کے جواب میں مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی نے فتوی لکھ دیا ۔جس پر پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے بڑے مدارس کے علما اور مفتی صاحبان نے دستخط کئے تھے۔ پھر وہ وقت آیا کہ شیعوں کے خلاف جنہوں نے قادیانیت سے زیادہ بڑے کفر کا فتوی لگایا وہ اپنے فتوں سے الٹے پاں مڑ کے بھاگے ہیں۔ مولانامحمد منظورنعمانی کے صاحبزادے مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی اپنے باپ کے فتوں سے (180)ڈگری کے زوایہ پر پلٹ گئے ہیں۔ جامعہ بنوری ٹان کراچی کے اکابر علما میں کچھ بدھو تھے اور کچھ مفادپرستی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ڈاکٹر صاحب پر کوئی ایسا داغ نہیں ہے۔
(2): الائنس موٹرز سے کراچی کے اکابر علما ومفتیان نے گاڑیاں اور مراعات حاصل کیں۔ الائنس موٹرز مالکان کے مرشد حاجی عثمان کی وجہ سے تبلیغی جماعت کے اکابرین تک پر بھی فتوے لگائے جن میں دارالعلوم کراچی ، جامع الرشید کے مفتی رشیداحمد لدھیانوی شامل تھے۔ لیکن پھر جب الائنس موٹرز کے مالکان نے حاجی عثمانکے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا تو بڑے اکابر کہلانے والوں کا بڑا شرمناک کردار سامنے آگیا۔ فتوں کی تفصیل میں جانے کا وقت نہیں ہے لیکن مولانا بدیع الزمان ، ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر ، قاری عبدالحق، مفتی عبدالسلام چاٹگامی وغیرہ نے اس میں پہلے اور بعد میں کوئی حصہ نہیں لیا تھا اور مولانا یوسف لدھیانوی نے حاجی عثمان سے عقیدت کا اظہار کرنے کے باوجود بھی اپنی طرف منسوب فتوے کی تردید سے معذوری کا اظہار کردیا۔ مفتی نظام الدین شامزئی نے جامعہ فاروقیہ کے دور میں حاجی عثمان کی تائید میں فتوی دیا تھا حالانکہ مولانا سلیم اللہ خان نے مخالفت میں فتوں پر دستخط کئے تھے۔
ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کے نام پر ایسا کوئی داغ نہیں ہے جس سے آپ کی اولاد کو قیامت تک خفت کا سامنا ہو۔ میری تحریروں میں بہت چیزیں واضح ہیں۔ طوالت کے خوف سے تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا ہوں۔
(3): ڈاکٹر صاحب خود ختم نبوت کے امرا اور اقرا روض الاطفال کے بڑے سرپرستوں سے زیادہ علمی شخصیت کے مالک تھے مگرظلم یہ ہوا کہ مفتی نظام الدین شامزئی کے بعد آپ کو شیخ الحدیث کے درجے پر رکھاگیا۔ اگر مدارس اور اقرا کے ارباب حل وعقد اخلاص رکھتے تو ڈاکٹر صاحب میں دیسی اور برائے نام اس نصابِ تعلیم کے مقابلے میں جدید اور جاندار نصاب بنانے کی صلاحیت تھی لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ شخصیات کی زندگی سے فائدہ نہیں اٹھاتے بلکہ قبر پرستی کا مزہ لیتے ہیں یا جب پیرانہ سالی میں دل ودماغ کا ضعف انسان کو آخری نکمی عمرتک پہنچادیتا ہے تو تبرک کیلئے عہدے ومناصب ان کی گردنوں کا طوق بنادیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ شیخ الہند مولانا محمود الحسن اور دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث مولانا سید انورشاہ کشمیری کو آخری میں اپنی زندگی درسِ نظامی میں تباہ کرنے کا خیال آجاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب بلند قامت شخصیت اپنی شرافت کے علاوہ اپنے علمی استعداد کی وجہ سے تھے لیکن ان کی ذات سے استفادہ نہیں لیا گیا۔
(4): میری تحریک کے بارے میں مفتی نظام الدین شامزئی کے فتوے کو بہت جلی حروف کیساتھ ہم نے شائع کیا تھا جس میں ان کی غلطی اور نالائقی کو بھی بہت نمایاں کردیا تھا اور ڈاکٹر صاحب نے جو تحریری رہنمائی فرمائی تھی وہ ہماری تحریک کی جان تھی۔ میں نے اپنی کتاب” عورت کے حقوق” کے بالکل آخری جملے میں اس تحریر کو تمام مکاتبِ فکر کی تائیدات سے بھاری قرار دیا۔ اپنے استاذ کی خدمت میں اپنے بیٹے ابوبکر کیساتھ حاضری دی تو ملاقاتیوں کا تانتا بندھا تھا۔
(5): جب مولانا سید محمد بنوری کو مدرسہ میں شہید کرکے پہلے خود کشی کا الزام لگایا گیا اور پھر قتل کا ثبوت ملا تو ڈاکٹر صاحب کو موردِ الزام ٹھہرانے کی کوشش کی گئی۔ ہم نے کرائے کے قاتل کالعدم سپاہ صحابہ اور مفتی جمیل خان کی روزنامہ جنگ میں خود کشی کے بہتان کی سخت مذمت کی اور لکھا کہ ڈاکٹر صاحب نے کبھی مکھی بھی نہیں ماری ہوگی۔ مولانا یوسف بنوری کے صاحبزادے سید محمد بنوری کے قتل کا الزام انتہائی گھنانا فعل ہے۔ مفتی محمد نعیم صاحب ہمارے استاذ تھے اور ان کی وفات سے قبل متعدد بار خدمت میں حاضر ہوا لیکن جب پتہ چل گیا کہ وہ بنوری ٹان کراچی پر قبضہ کرنے کے موڈ میں تھے تو دکھ ہوا۔ ان کی وفات کے بعد ان پر لکھی جانے والی کتاب میں مجھے تاثرات لکھنے کا کہا گیا لیکن میں نے نہیں لکھے اور نہ لکھنے پرخوش ہوا۔ انکا داماد مولوی امین مارا گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے جامعہ ، اردگرد ،اندرونِ ملک اور بین الاقومی سازشوں کا مقابلہ کرنے کی ڈینگیں نہیں ماریں لیکن اللہ نے ہرسازش سے آپ کو محفوظ رکھا۔کہاجاتا ہے کہ اللہ کے ولی ایسے ہی محفوظ ہوتے ہیں کہ سمندر میں بھی پاں کو نہ لگے پانی۔ اگر مجھے تھوڑا سا ملاقات کا موقع دیا جاتا تو میرے استاذ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے نہ صرف طلاق کے حوالے سے بلکہ اسلام کی نشا ثانیہ اور قرآن واحادیث کی تشریحات کے حوالے سے بھی مجھے اپنی زبردست تائید سے مفتی محمد حسام اللہ شریفی اور دیگر حضرات کی طرح بالکل نوازنا تھا۔ بس ملاقات کے دوران میں نے اپنی بات کا آغاز کیاہی تھا کہ ملاقات کے مالک کے صبر کا پیمانہ بہت ہی لبریز ہوگیاتھا اور مجھے وہاں سے جانے پر مجبور کردیاتھا لیکن ڈاکٹر صاحب نے مجھے دوسرے ملاقاتیوں کے برعکس اپنی طرف سے عطر کی شیشی کا بھی تحفہ عنایت فرمایاتھا۔
(6):قرآن کادرست ترجمہ آئیگا توڈاکٹر صاحب کی شخصیت، اہمیت، افادیت نورانیت،علمیت،انقلابیت، مجددیت، سیادت، قیادت امامت کا لگ پتہ جائیگا ایک ساتھی سے فرمایا کہ” میرا شاگردہے میری بہت عزت کرتا ہے ”۔ جسے سن کر دل تڑپ اٹھا۔استاذمحترم شریف النفس تھے،اگر آپ کی سیرت و اخلاق کو اپنانے کی توفیق ملتی تو دنیا بدل دیتے مگر نصیب اپنا اپنا۔سید عتیق الرحمن گیلانی
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv

USA & Israel planted Taliban & Al-Qaeda as a conspiracy against Muslim community. The Quran already revealed severity of conspiracies designed by Jewish and Christ that even rocks could get demolished.

rustam shah mohmand
dr afia siddiqui
rauf klasra
asad toor journalist
osama bin laden
usman kakar
majeed achakzai

اللہ نے فرمایا : اے ایمان والو! کہو سیدھی بات ، تمہارے اعمال کی اصلاح اور گناہوں کی مغفر ت کردیگا۔ القرآن: آؤ سیدھی بات کریں

طالبان اور القاعدہ کے نام پر امریکہ اور اسرائیل نے اُمت مسلمہ کیخلاف سازش کی ۔قرآن میں یہودونصاریٰ کی اس سازش کا ذکر ہے کہ جس سے پہاڑ بھی ہل جائیں

تحریر : سید عتیق الرحمان گیلانی
وزیراعظم کی تقریر کو خوش آئند کہا گیامگر یہ جنگ کی کوئی نئی سازش نہ ہو۔ رؤف کلاسرا نے کہاکہ” القاعدہ و طالبان نے پولیس،فوج، عوامی مقامات، کھیل کے میدانوں، مساجد، گھروں ، بازاروں، ہوٹلوں اور کچہریوں کو نشانہ بنایا۔ دجالی لشکر کے ظلم کی انتہاء ہوگئی تو فوج نے انکا قلع قمع کیا۔ وزیراعظم کا ان کو مظلوم اور فوج کو ظالم کہنا قابلِ مذمت ہے۔ پرویزمشرف(parvaiz musharraf) نے امریکہ کو ہاں کی تو اسکے ریفرینڈم کی حمایت کیا ایوبیہ کے بندروں نے کی تھی؟۔ دھرنے سے پنجاب پولیس کے گلوبٹوں کو طالبان (taliban)کے سپرد کرنے کا اعلان کس نے کیا؟”۔ رؤف کلاسرا (rauf clasra)نے طالبان کے کرتوت کی تفصیل اور باقی بے گناہ افراد کی فہرست کا ذکر نہیں کیا مگر طالبان کے مظالم کوخالی فوج کی شہادت تک محدود کرنا غلط ہے۔
افغانستان کو خونریزی کا سامنا ہے۔ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا ریاست، حکومت ،عوام کا ترجمان ہوتا ہے۔ کسی میں اشرف غنی اور اس کی حکومت سے ہمدردی ہے۔توزیادہ تر اشرف غنی(ashraf ghani) اور اس کی ٹیم کو کچلنے کے خواب دیکھتے ہیں۔کچھ طالبان کو کچلنے کے خواب دیکھتے ہیں۔ پاکستان کی حکومت ، ریاست اور عوام کو چاہیے کہ بڑھ چڑھ کر امریکی انخلاء سے پہلے اس خانہ جنگی کو روکنے میں اپنا کردارادا کرے۔ امریکہ نے پیسہ دیا تو ہم نے افغان وار لڑی۔ امریکہ نے مجبور کیا تو طالبان کی حکومت کو گرانے میں کردار ادا کیا اور اب کچھ نہیں مل رہاہے تو افغانیوں کی صلح کیلئے کلمات تک ادا کرنے سے قاصر ہیں؟۔ خونریزی کے عزائم بیان کرتے ہیں؟۔ اوریا مقبول جان() کو پیراشوٹ سے طالبان کے ہاں اتارا جائے تاکہ انسانی شکل میں شیطان کا پتہ چل جائے۔ کیا اوریامقبول جان اپنی اس آخری عمر میں بھی شوقِ شہادت نہیں رکھتا ہے؟۔
صحافی صا بر شاکر(sabir shakir) نے کہا ”امریکہ کے نکلنے کے بعد چھ ماہ میں اشرف غنی کی حکومت گرے گی (30)ہزار امریکن فوجیوں نے(9/11)کے بعد خود کشیاں کیں۔ اگر طالبان کابل پر قبضہ کریں تو امریکہ طالبان کی حکومت تسلیم نہیں کریگا”۔

Rustam Shah Mohmand disclosed that he himself heard the cries of a girl being tortured sexually and physically at Bagram Air base, later, She was known as Dr. Aafia Siddiqui.


رستم شاہ مہمندنے بتایا کہ بگرام ائیر بیس پر ایک لڑکی پر جنسی اور جسمانی تشدد ہورہاتھا میں چیخوں کی آوازیں اپنے کانوں سے سن رہاتھا بعد میں پتہ چلا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی تھیں۔

رستم شاہ مہمند(rustam shah mumand)نے افغان رفیوجز کے ڈٹ کر پیسے کھائے۔ پھر افغانستان کا سفیر بن گیا اور بعد میں میڈیا پر اپنی زبان سے داستان سنائی کہ” بگرام ائیر بیس پر ایک لڑکی پر جنسی اور جسمانی تشدد ہورہاتھا وہ چیخوں کی آوازیں اپنے کانوں سے سن رہاتھااور بتایا گیا کہ کوئی پاکستانی خاتون ہیں اور بعد میں پتہ چلا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی تھیں”۔ ہم نے لکھا تھا کہ پرویزمشرف کے بعد یہ داستانیں سنانے کے بجائے اسی وقت چاہیے تھا کہ اپنی کرسی سے چمٹے رہنے کے بجائے رسم شاہ مہمنداستعفیٰ دیتا۔( 30ہزار) امریکن فوجیوں نے خود کشی کی یا نہیں لیکن ہمارے ہاں تو کوئی ایک بھی ایسا غیرتمند نہیں ہے جس نے خود کشی کی ہو۔
طالبان اپنی پیش قدمی جاری رکھ کر اپنی اور اپنے افغان (afghan)بھائیوں کی تباہی کا سامان نہ کریں۔ جو کسی ایک کی طرفداری کرکے ان کو آپس میں لڑارہے ہیں یہ شیاطین الانس ہیں۔ جن خناسوں کے وسوسوں سے آخری سورة الناس میں اللہ نے پناہ مانگنے کی تلقین فرمائی۔ عثمان کاکڑ پاکستان اور پشتون قوم کا بڑا سرمایہ تھا وہ کہتا تھا کہ ہم پاکستان میں آئینی حقوق مانگتے ہیں، افغانستان میں مداخلت نہیں چاہتے۔ عثمان کاکڑ کھل کر نظرئیے کی بات کرتاتھا، اپنے مفادات کیلئے بلیک میلنگ نہیں کرتا تھا۔( PDM)کے قائدین نے سیاست کو بلیک میلنگ بنایا ہے۔ عثمان کاکڑ(usman kakar) ان سے بالکل الگ تھلگ تھا۔ اسٹیبلشمنٹ (establishment)پر پریشر ڈال کر سیاسی مفاد حاصل کرنا نظریاتی سیاست نہیں بلکہ بدترین قسم کی بلیک میلنگ ہے۔ عثمان کاکڑ اس وقت شہید کیا گیا کہ جب پاکستان، پشتون قوم اور انسانیت کو اس مردمجاہد کی سخت ضرورت تھی۔ گلبدین سے ملاقات پر مفاد پرستوں نے تنقید کا نشانہ بنایا ۔ آج عثمان کاکڑ نے افغانستان میںعدم مداخلت سے زیادہ صلح پر زور ڈالنا تھا۔
جب (PDM)کے قائدین بکاؤ مال اور گمنام صحافی اسد طور کی پٹائی پر پہنچ سکتے تھے تو عثمان کاکڑ کیلئے ان کا متحدہوکر نہ پہنچنا بہت بڑا سوالیہ نشان ہے؟۔ کیا عثمان کاکڑ شہید کی حیثیت اسد طور سے بھی کم درجہ کی تھی؟۔ مولانا عطاء الرحمن کا یہ کہنا کہ قاتل معلوم ہیں ان کو پکڑا نہیں جارہا ہے اور محمود خان اچکزئی کا یہ کہنا کہ اگر پاکستان میں کوئی ادارے ہیں تو میرے پاس آجائیں میں قاتلوں کے ثبوت دوں گا۔ عثمان کاکڑ کے بیٹے کا یہ کہنا کہ ہم نے قتل کا سیاسی انتقام لینا ہے اور اگر مجید اچکزئی(majeed achakzai) کو ہمارے ادارے سزا نہیں دے سکتے تھے تو عثمان کاکڑ کے قاتل کو کونسے ادارے سے سزا دلوانا چاہتے ہیں؟۔ محمود اچکزئی تو ان پشتونوں کو بڑا بے غیرت کہتا تھا جو اپنا بدلہ لینے کے بجائے درگزر پر گزارہ کررہا ہو؟۔
طالبان قرآن و سنت کے احکام پر سب کو متفق کردیں اور پھر افغانستان کے الیکشن میں حصہ لیکر اقتدار کی دہلیز تک پہنچیں۔ سیاسی ایجنڈے اور عوام کی تائیدسے طالبان کو افغانستان کا اقتدار مل جائے تو سب سے بڑا نقصان شیطان کا ہوگا۔ مسلمان اور افغان کی خونریزی طالبان کیلئے زیادہ تکلیف دہ ہے۔ نبیۖ نے مکہ فتح کیا تو دشمن ابوسفیان کوعزت بخش دی۔ صدر نجیب کی شہادت کا قرض ابھی افغان طالبان کی گردن پر ہے۔ اگرافغان نہیں لڑیں تودنیا کی کوئی طاقت ان کو نہیں لڑاسکتی مگرانسانی شکل میں شیطان کی انگل کا خیال رکھنا ہوگا۔ اوریامقبول جان پاکستان میں سکون چاہتا ہے تو افغانستان میں کیوں نہیں؟۔
پرویزمشرف سے زیادہ بڑا ضمیر فروش اور مجرم ڈاکٹر نجیب اللہ بھی نہیں تھے لیکن پرویزمشرف کو جج نے قدرے سخت سزا سنادی تو میجر جنرل آصف غفور کا سخت ردِ عمل سامنے آیا لیکن ڈاکٹر نجیب اللہ(doctor najeebullah) کو پھانسی دیکر کابل کے چوک میں لٹکا کر ناک میں سگریٹ ٹھونسے گئے تو خوشیوں کے شادیانے بجتے تھے۔
افغانیوں کی قتل وغارتگری پر خوشی کا شادیانہ ؟، حامد میر کہتاہے کہ ”ا شرف غنی کے گاؤں سرخاب میں آبائی گھرپر طالبان نے جھنڈا لگادیا” تو خدا نخواستہ پاکستان کیساتھ ایسا نہ ہو۔ اگر افغانی افغانیوں کے نہیں تو پاکستانیوں کے ہیں؟۔ بھارت میں مودی بیٹھا ہے۔ عمران خان کہتا ہے کہ مودی نہ ہوتا تو بھارت سے دوستی ہوتی ،یہ بھی کہے کہ امریکہ میں ٹرمپ ہوتا تو دوستی ہوتی۔ ایران اور عرب سے بھی ہمارے اعتماد کے دوستانہ تعلقات نہیں ۔چین وہ واحد ملک ہے جس میں مسلمانوں کیساتھ اسرائیل سے زیادہ انسانیت سوز سلوک روا رکھا جاتا ہے۔
گوگلی نیوز نے معاشی ایمپائر فوج کا بتایا کہ اسکے تجارتی اداروںنے کاروبار پر قبضہ کیا جو خسارے میں چلتے ہیں، ہر حکومت ریلیف دینے پر مجبور ہے، سودی قرضہ اسی میں کھپ جاتا ہے۔ گوگلی نیوز ن لیگ کے مشن پر ہے جبکہ نوازشریف، مریم اور شہباز شریف کہتے ہیں کہ حکومت نے دفاعی بجٹ میں خسارہ کردیا اور ہم پورا کرینگے۔ فوج نے معاشی خسارے کی وجہ سے ترقیاتی بجٹ نہیں لیا تو ن لیگ دم اٹھاکر کہہ رہی ہے کہ ہم نوازیں گے جو فوج کو کھلم کھلا رشوت دینے کے زمرے میں ہی آتا ہے یہ ہمارے اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاستدانوں کے سرغنوں کا وہ بیانیہ ہے، جس پر PDMکی مذہبی اور قوم پرست جماعتیں فخر کرتی ہیں؟۔
راشد مراد RMٹی وی لندن نے عثمان کاکڑ کی شہادت پر زہر اگل دیا مگر یہ نہ بتایا پھر نوازشریف، مریم نواز اور شہباز شریف ن لیگ کی سیاسی غیرت کہاں مرگئی ہے؟۔اور حضرت مولانا فضل الرحمن کہاں کھڑا ہے؟۔ صفحہ 3نمبر1بقیہ… اللہ نے فرمایا : اے ایمان والو! کہو سیدھی بات
پاکستان میں جمہوریت اور انصاف پیسوں کا کھیل ہے ۔ اگر اسلامی اقتدار کیلئے قریش کا ہونا ضروری تھا تو افغانستان پر حکومت کیلئے افغانی ہونا لازم ہونا چاہیے اور اس کی بڑی حکمت یہ ہے کہ بیرونی قوتوں کی سازش سے مقامی لوگ محفوظ ہونگے۔ جب رسول اللہ ۖ نے مکہ کو فتح کیا تو مدینہ کے مجاہدین کو واپس جانے کا حکم دیا اور مقامی شخص کو مکہ کا گورنر بنادیا، جو حضرت بلال کی آذان پر کہہ رہا تھا کہ ”ہم بے غیرت ہیں کہ خانہ کعبہ کی چھت پر یہ کالا گدھا ڈھینچو ڈھینچو کر رہا ہے اگر میرا باپ زندہ ہوتا تو اس کو قتل کردیتا”۔ نبیۖ نے فرمایا کہ جن لوگوں کے گھروں پر قبضہ ہوچکا ہے وہ مسلمان اپنے گھر اہل مکہ سے واپس نہ لیں اسلئے کہ اللہ ان کو آخرت میں ان گھروں سے بہتر گھر عطاء فرمائے گا۔
جب پاکستان اور افغانستان کے اقتدار سے اپنے حامی اور مخالف سب عوام خوش ہوں تو پوری دنیا میں اسلامی جمہوری بنیادوں پر انقلاب کا آغاز ہوجائیگا۔ لڑنے مرنے، الزام تراشیوں، تہمتوں اور دشمنیوں کا بہت ہوگیا ہے اور اب امن وسکون کی زندگی اسلامی ممالک نے اپنی عوام کو دینی ہوگی۔ پشتون عوام بالخصوص اور باقی لوگ بالعموم جنگ وجدل اور لڑائی و جھگڑوں سے باہر نکل جائیں۔ میڈیا ان نکات کو اٹھائے جن سے طالبان اور اشرف غنی میں کوئی ہم آہنگی کا ماحول پیدا ہوجائے۔ بڑے پیمانے پر قتل وغارتگری کیلئے افغانوں کو مزید بھڑکانا ابلیس اور اس کی انسانی ذریت کا بہت بڑا دھندہ ہے۔ جو بھی جنگ برپا کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے تو اس کو یہاں بک بک کرنے کے بجائے اپنا عملی کردار ادا کرنے کیلئے طالبان یا اشرف غنی کی حمایت میں پہنچ جانا چاہیے۔ یہ شیطان کا کردار ہے کہ دوسروں کو جنگ میں جھونک کر خود اپنی دُم دباکر بیٹھ جائے۔
سلیم صافی نے کہا کہ” امریکہ نے جان بوجھ کر قتل وغارتگری کی فضاء پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی خواہش پرامن افغانستان ہے لیکن اس کا بس نہیں چلتا ہے کہ اس کیلئے کیا اقدامات اٹھائے اسلئے پاکستان کے حق میں بھی یہی ہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی اور بڑے پیمانے پرجنگ نہ ہو اور اگر ایسا ہوا تو اس کے بہت برے اثرات پاکستان پر بھی پڑیں گے”۔
رمضان میں بڑے بڑے شیطانوں کو باندھ دیا جاتا ہے لیکن پھر بھی شیاطین الانس اور چھوٹے شیطان اپنی کارکردگی دکھاتے ہیں، اگر آرمی چیف جنرل قمر جاویدباجوہ ، ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید(dgisi faiz hameed) اور بڑے کورکمانڈرز بھلائی کے فیصلے پر متفق ہوجائیں تو سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کے شیاطین انکے نام پر شرارتوں کا سلسلہ جاری رکھیںگے۔ پاک فوج کو چاہیے کہ ان کو شٹ اپ کی کال دیں۔
رؤف کلاسرا نے اپنے ویلاگ میں ایک مثبت خبر لانے میں اپنا تجزیہ مارکھپایا ہے کہ” جوبائیڈن ایک کال کا تکلف کیوں گوارا نہیں کررہاہے؟۔ اگر چہ ہم اس کیلئے مر نہیں رہے ہیں لیکن امریکی صدرنے یہ رویہ کیوں اختیار کیا ہوا ہے؟۔ کیا یہ وجہ ہے کہ طالبان کو ہم نے بات کیلئے راضی کیا توحسبِ معمول امریکہ کو ہماری ضرورت نہیں رہی؟۔کیا بھارت کو زیادہ اہمیت دینا چاہتاہے اسلئے ہمیں گھاس ڈالنا مناسب نہیں سمجھتا؟۔کیا اڈے دینے کیلئے دباؤ کو برقرار رکھنا چاہتا ہے؟۔ جب ہم اڈے دیں گے تو تھینک یو کی کال کرلے گا؟۔کوشش کے باوجود کسی نتیجے پر پہنچنے میں کا میابی نہیں ہوئی ہے لیکن عمران نے برابری کی سطح پر ان سے بات کرنے کا واضح اعلان کیا ہے اور یہ اعلان ملٹری اسٹیبلیشمنٹ ہی کے کہنے پر کیا ہے۔ ماضی میں جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور پرویزمشرف نے امریکہ سے اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کیلئے اڈے دئیے تھے اور ان کی خدمت کی تھی لیکن اس مرتبہ ہمارے رویے میں تبدیلی آئی ہے”۔
صابر شاکر نے کہا کہ” طالبان نے ضلعوں میں پیش قدمی جاری رکھی ہوئی ہے اور وہ صوبائی دارالحکومتوں کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ وائٹ ہاوس کے مہمان بن گئے ۔ اپنے مقاصد میں اسلئے کامیاب ہوگئے کہ امریکہ کیلئے اپنی خدمات انجام دی تھیں اسلئے امریکہ بھی ان کو جاسوسی کے بدلے نوازنے کا حقدار سمجھ رہاہے۔ عمران خان اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے پھینک دیا ۔ اس مرتبہ ہم استعمال نہیں ہونگے۔ عمران خان نے طالبان کو واضح پیغام بھیج دیا ہے کہ میرا اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا یہ مشترکہ فیصلہ ہے کہ نہ تو ہم افغان طالبان کی مدد کریں گے اور نہ افغان حکومت کی۔ اگر طالبان طاقت کے زور پر افغانستان پر قبضہ کرلیں تو ہم ان کی حکومت کو نہیں مانیں گے بلکہ افغانستان کیساتھ اپنی سرحد مکمل سیل کریں گے۔ ہم افغانستان میں اپنا کوئی کردار ادا نہیں کریں گے”۔
وزیرستان (waziristan)کی کہاوت ہے کہ زڑہ مے شئی سوڑہ مے شئی” میرا دل بھی کرتا ہے مگر سردی بھی لگ رہی ہے”۔ دل چائے پینے کو کرے، مہمان وہ بہانہ تراشے کہ میزبان بول دے کہ یہ تو بہانہ نہیں ہے۔ پاکستان کی بار بار اپنی اس بات کو دہرانے کی وجہ سمجھ میں آرہی ہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی ہوگی لیکن ہم کوئی کردار ادا نہیں کرینگے تاکہ امریکہ بہادر کہہ دے کہ شاباش،آؤ ہم تمہارے کردار کے منتظر ہیں لیکن امریکہ گھاس نہیں ڈال رہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان دوغلی پالیسی کی وجہ سے اپنے ملک میں بھی گرے لسٹ میں پڑا ہواہے۔ ہم آج تک اپنی قوم اور دنیا کو یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ” ہمیں امریکہ کا ساتھ دینے پر فخر ہے یا طالبان کی خدمت پر؟”۔ ظاہر ہے کہ دونوں کام کئے بھی ہیں۔ہماری اس میں مجبوری بھی تھی اور اس میں ہم نقصان اٹھانے کیساتھ ساتھ فائدے میں بھی رہے۔ عراق، لیبیا اور شام جتنا تباہ ہوا،ہم پڑوس میں رہ کر بچ گئے۔ بخاری کی حدیث ہے کہ الحرب خدعة ” جنگ دھوکے کا نام ہے”۔
حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو چاہیے کہ وہ امریکہ کی طرف سے کچھ بولنے کی فکر کے بجائے بہت آگے بڑھ کر افغانستان کی خانہ جنگی روکنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔ صرف خواہش رکھنے سے کچھ نہیں ہوتا کہ ”دل تو چاہتا ہے مگر سردی لگ رہی ہے”۔ امریکی امداد، شاباشی اور کسی قسم کی کوئی لالچ کو بھول جاؤ۔ اگرطالبان اور اشرف غنی میں غیرجانبدار بنتے تو بھی اچھی بات ہے لیکن یہ کونسی دانشمندی ، غیرت ، ضمیر، ایمان، انسانیت، رسم وروایت اور اخلاقی قدر ہے کہ خود کہہ رہے ہو کہ ہم ٹشوپیپر کی طرح استعمال ہوئے ہیں اور پھر اشرف غنی کو طعنہ بھی دیتے ہو؟۔ اشرف غنی کو تو افغانستان کی بھلائی کیلئے بہت بعد میں عوام نے بلایا ہے اور تم نے طالبان کو تباہ کرنے کیلئے کس حد کو پار نہیں کیا ہے؟۔
عثمان کاکڑ نے سینٹ میں کہاتھا کہ” تمہاری کٹھ پتلی حکومت نے وہ کرناہے جس کا اس کو حکم مل جائے۔ میں کبھی پرسنل نہیں ہواہوں لیکن جب تم پرسنل اٹیک کروگے تو جواب دوں گا۔ محمود خان اچکزئی نے ٹھیک کہا کہ پشتون کی قومی زبان پشتو، پنجابیوں کی پنجابی، سرائیکیوں کی سرائیکی، بلوچوں کی بلوچی اور سندھیوں کی پانچ ہزار سال سے سندھی قومی زبان ہے۔ تمہارے مخدوم کے خاندان نے انگریزوں کی خدمت کی ہے اور ہمارے خان شہیدعبدالصمد اچکزئی نے انگریز کے خلاف قربانی دی، تیس سال جیل میں گزارے ہیں۔ ہماری پارٹی نے جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاؤں میں کوڑے کھائے ہیں اور پرویزمشرف کے خلاف قربانیاں دی ہیں۔ تمہارا وزیراعظم ایک کرنل کے حکم پر چلتا ہے اس کا اپنا کوئی اختیار نہیں ہے”۔
عثمان کاکڑ نے یہ بھی کہا تھاکہ” قومی ایکشن پلان پختونوں کیلئے قابل قبول نہیں ہے ”۔مگر قومی ایکشن پلان پرصرف پیپلزپارٹی کے رضاربانی نے روتے ہوئے پارٹی کی امانت سمجھ کر دستخط کئے اور تمام جمہوری پارٹیوں بشمول ( pdm)کی موجودہ پارٹیوں کے سب نے نہ صرف دستخط کئے بلکہ مولانا فضل الرحمن، نوازشریف،سراج الحق، اسفندیار ولی اور تحریک انصاف سب اسکا کریڈٹ بھی لے رہے تھے۔ محمود خان اچکزئی (mehmood khan achakzai)کا توشروع سے مطالبہ تھا کہ ”ہماری ایجنسیا ں چاہیں تودہشت گردوں کو ختم کرسکتی ہیں اور امریکی (CIAدے ہماری ISI)زیادہ ہوشیار ہے۔ اس کھیل کو یہاں سے ختم کیا جائے”۔ جب وزیرستان کی عوام کو ایکشن پلان کی وجہ سے مہاجر کیمپوں میں ڈالا گیا تو مولانا فضل الرحمن، محمود خان اچکزئی ، اسفندیار ولی وغیرہ نے اسلام آباد میں ایک جرگہ بلایا تھا ۔ کامران مرتضیٰ نے بادشاہی خان محسود کو 3منٹ کا ٹائم دیکر اپنی بات مکمل کرنے کا کہا تھا اور بادشاہی خان(badshahi khan) کی وہ تقریر سوشل میڈیا پر موجود ہے۔ اس نے عبدالصمد خان اچکزئی، خان عبدالغفار خان اور مفتی محمود کے وارثوں سے گلہ کیا کہ” کراچی سے مہاجر ہماری مدد کرنے کو آگئے لیکن ہمیں کسی پشتون قوم پرست اور مذہبی قیادت نے پوچھا تک بھی نہیں”۔ لیکن اس کو اپنا مختصر وقت بھی پورا نہیں کرنے دیا گیا۔ بادشاہی خان برملا کہتا تھا کہ” حکومت ہمارے لوگوں کو بھکاری بنارہی ہے اور یہ تذلیل ہمیں برداشت نہیں”۔ لاہور ہائیکورٹ نے عوام کو حکومت کی طرف سے چینی دینے کیلئے برہمی کا اظہار کیا تھا لیکن پشتون قوم کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا۔ البتہ اس میں پشتونوں کا اپنا بھی قصور تھا اسلئے کہ خود کش حملہ آوروں کے ذریعے مولانا فضل الرحمن، قاضی حسین احمد ، اسفندیار ولی اور آفتاب شیرپاؤ کسی کو نہیں چھوڑا گیا۔البتہ محمود خان اچکزئی پر کوئی حملہ نہیں ہوا ۔اگر ہوتا تو عثمان کاکڑ شہید قومی ایکشن پلان کی مخالفت بھی شاید پھر کبھی نہ کرتے۔ قومی ایکشن پلان سے ہی خیبر پختونخواہ کے لوگوں کی زندگی بحال ہوئی تھی۔ پختونوں کو اپنے صوبے میں مشکلات کا سامنا تھا اور دیگر صوبوں میں بھی ان کو دہشتگرد سمجھا جاتاتھا۔
پاک آرمی کو اگر کٹھ پتلی ، بھاڑے و کرائے پر ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرنے کے بجائے مقتدر طبقے نے صحیح استعمال کیا تو افغان خونریزی رُک جائیگی بلکہ اسلام، انسانیت اور پاکستان کی بچت کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ پرویزمشرف اور جنرل محمود(genral mehmood) نے بھاڑہ لیا تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں۔ جنرل قمر باجوہ اور فیض حمید نے اگر اپنا مثبت اور بہت مؤثر کردار ادا کیا تو رہتی دنیا تک کیلئے وہ امر ہونگے،پاک آرمی اور پاکستان کو بھی امر کردینگے۔انشاء اللہ العزیز الرحمن الرحیم۔ اچکزئی عثمان کاکڑ کی شہادت کا معمہ حل نہیں کرسکتا تو پشتونخواہ کا کیسے کریگا؟۔
ایک طرف اوریا مقبول جان جیسے طالبان کی قوتِ ایمانی پر رشک کریں اور دوسری طرف قوم پرست اپنا مسئلہ حل نہ کرسکیں اور پشتونوں کو آرمی و پنجابیوں سے لڑائیں تو پشتون قوم کا مستقبل کبھی نہیں سدھر سکتا ہے۔ محمود اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن فوج اور اسکے کٹھ پتلی پنجابی سیاسی لیڈر شپ کے کھیل میں پشتونوں اور مذہبی لوگوں کو فٹ بال نہ بنائیں۔ جب لاہور میں( PDM)کا جلسہ تھا تب بھی لاہوریوں کو اسٹیبلشمنٹ کے ایجنٹوں نے نکالنے کی زحمت نہیں کی تھی۔ اگر پشتونوں کی قوم پرست اور مذہبی لیڈرشپ اپنے لوگوں کو چوکیداروں اور رینٹ کار وں کی طرح استعمال کریںگے تو پشتون قوم کبھی اچھا دن نہیں دیکھ سکے گی۔ عام پنجابی کی حالت پشتون اور بلوچ سے بدتر ہے۔ افغانستان و ایران سمگلنگ سے فائدہ اٹھانے والوں کی طرح پنجابی بھی فائدہ اٹھائیں تو انکے منہ بھی دُھلے ہوئے نظر آئیں۔ پسماندہ پنجابیوں کے خلاف نفرت کے بیج بونا اور اسٹیبلیشمنٹ کے ایجنٹوں کی دلالی کرنا کونسی سیاست کا تقاضہ اور دانشمندی کی بات ہے؟۔
نفرتوں کے بیج بونے کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ تربت ، گوادر اور بلوچستان کے دُور دراز علاقوں سے محنت مزدوری اور بچوں کا پیٹ پالنے والے غریب پنجابیوں کی لاشیں آتی ہیں۔ پنجاب خوشحال ہوتا تویہ لوگ موت کے کنویں میں کودتے؟ یا یہ لکی ایرانی سرکس ہے؟۔ بلوچ پنجابیوں کو مارتے ہیں تو کوئی بلوچ پنجاب میں محنت مزدوری کرنے نہیں جاتا۔ اگر پشتون نے نسلی لڑائی شروع کردی تو پنجاب سے ایسی خونریزی کا آغاز ہوگا کہ لوگ پشتونوں کو دوزخی سمجھ کر قتل کرینگے اور دریائے سندھ کو انکے خون سے بھر دینگے۔ شاہ نعمت ولی کی پیش گوئیاں بھی ان پر فٹ کرینگے کہ پنجاب کے قلب سے دوزخی خارج اور دریائے اٹک انسانی خون سے بھر جائیگا۔ اگر احمد شاہ ابدالی اور شیرشاہ سوری نے ہندوستان فتح کیا ہے تو وہ مغل سلطنت کا دور تھا مگر راجہ رنجیت سنگھ نے پنجاب اور تختِ لاہور کا اقتدار سنبھالا تو جب تک انگریز نے ہماری جان نہیں چھڑائی ،کسی مائی کے لعل پٹھان نے سکھ دھرم کے اس پنجاب کا مقابلہ نہیں کیا اور جب شاہ اسماعیل شہید اور سیداحمد بریلوی نے خلافت کا آغاز کرنا چاہاتھا تو پختون حکمران راجہ رنجیت سنگھ کے اتحادی تھے۔ آج افغانستان میں طالبان کی طاقت قوم پرست پشتونوں کے نہیں پنجابی اسٹیبلیشمنٹ کی حامی ہے۔ وہ وقت گیا جب ہندو کو زبردستی سے کلمہ پڑھایا جاتاتھا ۔اب تو محسود جیسی بہادر قوم نے پنجابی فوج سے دُم دبا رکھی ہے۔
اس معرکے میں پشتونوں کولے جاناغلط ہے جہاں طالبان حوروں کو بھول کر افغانستان میں پناہ لئے بیٹھ گئے۔ گلبدین کی ہارون الرشید جیسے صحافی امریکائی جہاد کے وقت تعریف کرتے تھے تو پوچھا گیا کہ اسکے دوست کون ہیں؟۔ جواب ملا کہ جماعت اسلامی !(jamat e islami) اس پر کہاگیا کہ دوسرے گاؤں کے بے غیرت کو پہچاننے کا یہ طریقہ ہے کہ اس کی آپ کے گاؤں کے بے غیرتوں سے دوستی ہو۔ میجر مست گل کی کہانیاں قوم کو سنانے والی جماعت اسلامی آج کہاں کھڑی ہے؟۔
یہاں طالبان کو اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد تھی تو یہ بہادر تھے اور فوج نے ایکشن لیا تو لمبے بالوں والے صابرشاہ(sabir shah) جیسی حوروں کو لیکر ایسے بھاگے کہ ہماری قوم نے برطانیہ کے سامنے بھی ایسا سرنڈر نہیں کیا جس کی حکومت پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا اور آج جن کو قوم کا چیف، خان اور ملک کہا جاتا ہے یہ سب برٹش سرکار کے جاسوس تھے۔ یہ دلیل ہے کہ نیٹو کی اشیر باد طالبان کو حاصل نہ ہوتی تو وہاں سے بھاگ کر یہاں آتے۔ پرویزمشرف دور میں جن کو امریکہ کے سپرد کیا جا رہا تھا تو وہ افغانستان میں امریکہ سے لڑنے کے بجائے پاکستان میں پناہ لینے سے بھی نہیں شرماتے تھے۔ غیرت بھی کوئی چیز ہے جہانِ تگ ودو میں۔ہم یہاں کی طالبان مافیا سے وہاں کی طالبان مافیا کے کردار اور بہادری کو سمجھ سکتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی مذہب اور قوم پرستی کے کارڈ پر اچھا کام کریں۔ طالبان اور اشرف غنی کو جنگ وجدل سے بچانے اور اسلامی جمہوری حکومت تشکیل دینے پر راغب کردیں۔ اگر افغانستان میں اسلام کا درست نظام نافذ ہوا تودنیا میں اسلامی انقلاب کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا ۔ اگر نبیۖ نے کفارِمکہ سے دس سال کیلئے صلح حدیبیہ کا معاہدہ کیا اور اللہ نے اس کو فتح مبین قرار دیا تو کیا طالبان مسلمان افغانی بھائیوں سے یہ صلح نہیں کرسکتے ہیں؟۔
وزیراعظم عمران خان ، آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف نے جب یہ واضح کردیا ہے کہ ” اگر طالبان نے طاقت کے زور سے افغانستان کے اقتدار پر قبضہ کیا تو ہم ان کی حکومت نہیں مانیںگے اور اپنی سرحداتْ بھی سیل کردیںگے”۔ تواس کی وجہ خواہ کچھ بھی ہو لیکن صلح کیلئے یہ ایک بہت بڑی بنیاد ہے۔ ایک پٹھان نے طالبان(taliban) کو دعوت دی کہ” آؤ ہم افغانی مل کر امریکہ اور اسکے ایجنٹ پاکستان کیخلاف متحد ہوکر ہتھیار اُٹھائیں ، پنجابیوں کیخلاف جہاد کریں۔ ملامنصور کو کس نے قتل کیا، ملابرادر کو کس نے پکڑا تھا؟…. وغیرہ”۔ مگریہ نہیں سوچا کہ طالبان اور اشرف غنی کے حامی دونوں ایکدوسرے پر امریکی ایجنٹ کا الزام لگاتے ہیں۔
صحافی عمران خان جیسے لوگوں کا کوئی دین ایمان نہیں ہے جس نے پہلے آرمی چیف پر کرپشن کا الزام لگایا پھر معافی مانگ لی۔ مولانا فضل الرحمن پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کھلے عام جھوٹا بہتان لگادیا۔ لیکن یہ پتہ نہیں چلتا کہ اندورنِ خانہ آرمی چیف کو قادیانی اور اسرائیل کا ایجنٹ کہا جارہاہو ۔ اگر مولانا عبدالغفور حیدری کے بیان اور آرمی چیف کی کھلم کھلاتحقیقات ہوجائیں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی سامنے آجائیگا۔ صحافی عمران خان نے اسرائیل میں پاکستانی قادیانی فوج پر ویلاگ کیا تھا ،اب یہودیوں کے داماد عمران خان کے دامادزلفی بخاری پر اسرائیل کے دورے میں وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف باجوہ کی طرف سے اسرائیل کی حکومت اور موساد کو خفیہ پیغامات پہنچانے کی باتیں خاص طور پر ن لیگ کی میڈیا سیل سے چل رہی ہیں۔ پہلے بھی نوازشریف نے بینظیر بھٹو پر امریکہ کے اور بینظیر بھٹو نے نوازشریف پر اسرائیل کے ایجنٹ کا الزام لگایاتھا۔ بینظیر بھٹو (benazir bhutto)نے طالبان بنائے تھے اور نوازشریف نے اسامہ بن لادن(usama bin ladin) سے پیسے لئے تھے۔ طالبان اور القاعدہ کے نام پر اگر امریکہ اور اسرائیل نے ہمارے ہاں اپنے کرتوت دکھائے ہوں تو یہ ممکن ہے اسلئے کہ قرآن میں یہودونصاریٰ کی اس سازش کا ذکر ہے کہ جس سے پہاڑ بھی ہل جائیں۔ مشتری ہوشیار باش؟۔

Dajjal would appear from the East (Mashriq) and be opposed by a person from the family of Hazrat Imam Hassan (R.A) which I mean is Syed Gilani: Allama Talib Johri

allama talib johri
syed gilani
dajjal
khorasan
general hameed gul
general amjad shoaib

مشرق سے دجال نکلے گا اور اسکے مقابلے میں حسن کی اولاد سے کوئی شخص ہوگا اور اس سے مراد سید گیلانی ہے: علامہ طالب جوہری
مین اسٹریم اور سوشل میڈیانے جس لایعنی بکواس میں لوگوں کو ڈالا ہے اگر یہ نہ ہوتا تو ہم بڑا نرم ہاتھ رکھ کر شائستہ گفتگو

تحریر: سید عتیق الرحمان گیلانی :
سب کے دل جیت کر ایک پلیٹ فارم پر لاتے لیکن ماحول کی وجہ سے لہجہ سخت کئے بغیر ہماری آواز صدا بصحرا ہوگی!
لوگوں کے کان پک چکے ہیں کہ مریم نواز کا بابا با کردار ہے یا اسکے کالے کرتوتوں سے تاریخ بھری پڑی ہے مگر میڈیا نے مجبوراعوام کو زبردستی اپنی زرخریدوکالت کے ہی قصے سنانے ہیں
اگر خدانخواستہ ایک مرتبہ افراتفری پھیل گئی تو پاکستان کی ریاست، خوشحال اور بد حال لوگوں کی حالت خراب سے خراب تر ہوجائے گی اور اس کا ذمہ دار خوشحال طبقہ ہوگا جو کھیل کھیل رہاہے
پسماندہ غریب لوگوں کو جہاد، سیاست اور مختلف ناموں اور کاموں کی بنیاد پر خرید کر اپنے مقاصد حاصل کئے جاتے ہیں۔ روس کے خلاف جہاد لڑنے والے جرنیلوں، سیاستدانوں، تاجروںاور علما کی اولادیں امریکہ سے مراعات لیکر زندہ وتابندہ ہیں۔ آئی ایس آئی کے چیف اختر عبدالرحمن (isi chief akhtar abdulrehman)کے صاحبزدے افغان جہاد میں پیسہ کمانے کی وجہ سے ہربرسرِ اقتدار کے ساتھ حکومت میں شریک ہوتے ہیں۔ پرویزمشرف، نوازشریف، عمران خان کے بعد اگلی منزل جو بھی حکومت میں آئے اس کے ساتھ اقتدار میں شرکت ہے۔ جنرل ضیا الحق (genral ziaulhaq)نے بہت لوگوں کو جہاد میں جھونک دیا لیکن اسکے اپنے بیٹے سیاسی جماعتوں میں اپنی سیاست کرتے ہیں۔ جنرل حمید گل (genral hameed gul son abdullah gull)کے بیٹے عبداللہ گل کو ہی نہیں اس کی بیٹی تک کو بھی جہاد میں شہید ہونا چاہیے تھا لیکن مجال ہے کہ دوسروں کو جنت کا مختصر ترین راستہ دکھانے والا طبقہ کبھی خود بھی بھولے سے اپنی اولاد کو بھی اس سعادت کا موقع دے۔ اسامہ بن لادن نے زندگی افغانستان میں جہاد کرتے ہوئے گزاردی مگر جب امریکہ پیچھے آیا تو خڑوس کو ایبٹ آباد میں امریکہ نے قتل کیا یا اسے اٹھاکر لے گئے ہیں؟۔ یہ امریکی میڈیا سے صحیح خبر کبھی مل جائے گی۔ایمن الظواہری بھی غائب ہیں لیکن کتنے معصوم غریب لوگ جذبہ جہاد میں لڑمر کے شہادت کی منزل پر پہنچ چکے ہیں؟۔ ہمیں کوئی اندازہ نہیں ہے۔
سینٹر رضاربانی نے سینٹ میں کہا کہ ”امریکہ کو فضائی اڈے دینے کی مخالفت ہم سن رہے ہیں لیکن اب حال ہی میں ایک کارگو جہاز کابل سے کراچی میں لینڈ کرگیا ہے۔ جب امریکہ ائربیس دئیے گئے تھے تو ہماری ریاست میں کہیں اس کا کوئی ریکارڈ نہیں تھا۔ وزرات خارجہ، داخلہ، دفاع اور (GHQ)کہیں بھی اسکے قانونی دستاویزات نہیں مل سکے تھے۔ اب تو پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیکر کام کیا جائے؟۔ اس سے پہلے بھی ہم اسکے نتائج بھگت چکے ہیںاور ہمیں کوئی اعتماد نہیں کہ کیا ہورہاہے؟ اسلئے کہ ہماری اس تاریخ سے عوام اور دنیا واقف ہے”۔ صحافی نے پوچھا کہ عمران خان نے امریکہ سے برابری کی سطح پر تعلق کا اظہار کیا کہ ہمارے( 150)ارب ڈالر خرچ ہوئے ہیں تو اسکا مطلب کیا لیا جائے؟۔تودفاعی تجزیہ نگار ریٹائرڈ جنرل امجد شعیب (general amjad shuaib)نے کہا کہ ”ہماری خواہش ہے کہ امریکہ ہم سے بات کرلے لیکن امریکہ کو ہماری ضرورت نہیں ہے”۔
ہماری معاشی، دفاعی ، اخلاقی اور انسانی پوزیشن مضبوط ہوتی تو آج ہمیں یہ دن دیکھنے نہ پڑتے۔ یہ اللہ کا شکر ہے کہ مجبوری نے ہمیں جس جگہ کھڑا کیا ہے تو اسکا بھرپور فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ پاک فوج کی قیادت بھی آج کہتی ہے کہ پرویزمشرف اورسابقہ ادوار میں بڑی غلطیاں ہوئی ہیں اور اس نازک صورتحال میں ملک وقوم کی خاطر ہر قدم احتیاط سے اٹھانے کی ضرورت ہے۔ (PTM)کا سب سے سخت گیر رہنما علی وزیر بھی اس بات پر افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ ملک جن حالات سے گزر رہاہے اس میں سیاسی ،معاشی اور دفاعی اعتبار سے بڑے خطرات کا سامنا ہے۔ اس وجہ سے ہم احتساب کی بات کرتے ہیں۔ الطاف حسین بھائی کا بھی چند ہفتے پہلے ایک دردناک بیان آگیا کہ میں نے جس رات غلط بیان دیا تھا اسی رات ایک تحریری معافی نامہ لکھ کر دیا کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید (dgisi faiz hameed)مجھے معاف کردیں۔
سوشل و الیکٹرانک میڈیاپر اپنا چکر چھوڑ کر وسیع البنیاد کام کی ضرورت ہے۔ جن لوگوں نے ضرورت سے زیادہ اثاثے بناکر بیرون ملک میں اپنے خاندان بسائے ہیں وہ فوجی، جج ، سیاستدان، بیوروکریٹ یا جس شعبے سے تعلق رکھتے ہوں اس مشکل وقت میں پاکستان اپنے بچوں اور اثاثہ جات سمیت آئیں۔ سب کو کھلے عام معافی دی جائے۔ سبھی اپنا اپنا مثبت کردار ادا کرتے ہوئے اپنی پاکی بیان کرنے کی تسبیح چھوڑ کر اللہ کی پاکی بیان کریں۔ غلطیوں پر سیاست کرنے سے کامیابی ملتی تو ابلیس کو سب سے بڑا سیاستدان کہا جاسکتا تھا۔ وہ آج کہہ سکتا ہے کہ جب اسلام نے آخری دین کی حیثیت سے آدمی کو سجدے کرنے کی ممانعت کرنی تھی تو میں فرشتوں کا استاذ آج بھی جیتنے کے قابل ہوں اسلئے کہ میں نے سجدہ نہیں کیا۔ آخر کار آخری پیغمبرۖ کے دین نے میرے مقف کی ہی حمایت کی ہے۔ شیطان سب سے بڑا مذہبی مناظر اور سیاستدان ہے۔
سول وملٹری بیوروکریسی میں اچھے اور برے ہرطرح کے لوگ ہوسکتے ہیں ، سیاستدانوں میں بھی اچھے برے لوگ ہوسکتے ہیں اور ہرطبقے میں ہی اچھے اور برے لوگوں کی اچھی خاصی تعداد ہوسکتی ہے۔ شیطان روتا تھا کہ اللہ نے کسی کو زمین میں اپنا خلیفہ مقرر کرنا ہے اور کوئی اس بغض میں اندھا ہوکر راندہ بارگاہ الہی بھی ہوسکتا ہے۔ آدم پر فرشتوں نے اعترا ض کیا تھا لیکن جب وقت آیا تو فرشتوں نے سجدہ کیا اور شیطان راندہ بارگاہ ہوگیا۔سب سے زیادہ مذہبی طبقہ قرآن وسنت کے نظام کی رٹ لگاتا تھا لیکن ایسا نہ ہو کہ شیطان کی طرح سب سے پہلے کافر بھی یہ بن جائیں اور مولانا عبیداللہ سندھی (molana ubaidullah sindhi)نے لکھا ” جو علما دیوبند اپنے استاذ مولانا محمود الحسن شیخ الہند کی بات مان کر قرآن کی طرف متوجہ ہونے سے اسلئے انکار کررہے ہیں امام مہدی کا ظہور ہوگا تو ہمارا نصاب درست ہوگا لیکن جب امام مہدی کا ظہور ہوگا تو تم مخالفین کی صفوں میں کھڑے ہوگے”۔
ہماری خانقاہ میں ایک شخص نے اپنا مشاہدہ بتایا تھا کہ ” شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے مولانا الیاس بانی تبلیغی جماعت کو ایک تاج دیا تھا اور مولانا الیاس نے وہ تاج ہمارے مرشد حاجی عثمان کے سر پر رکھاتھا”۔ دیوبندی علما کے اصل وارث حضرت مفتی محمد حسام اللہ شریفی سے لیکر ٹانک کے اکابر علما تک سب ہمارے ساتھ تھے۔ جب سردار امان الدین شہید (sardar amanuddin)نے ہمارے جلسے میں تبلیغی جماعت کی مخالفت کی تھی تو میں نے تبلیغی جماعت میں جانیکی انکو دعوت دی تھی۔ وزیرستان میں مولانا نور محمد شہیداور مولانا اکرم اعوان کیساتھ سردار امان الدین شہید نے مجھے بھی جلسہ عام میں بلوایا تھا مگر اسوقت وزیرستان میں بغیرماں باپ والے طالبان نہیں تھے۔ تصویر کی مخالفت کا مولوی طبقہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔مجھے جب علما کی وجہ سے مذہبی مسئلہ سمجھ کر تصاویر کی مخالفت کرنی پڑرہی تھی تووزیرستان کے اس جلسے میں بھی اپنی ویڈیو نہیں بننے دی اور ڈاکٹر اسرار احمد (doctor israr)کے ہاں بھی جب پہلی مرتبہ کانفرنس میں شرکت کی تو ڈاکٹراسرار احمد نے اعلان کیا کہ سید عتیق الرحمن گیلانی کی کوئی تصویر نہیں اتاریں۔ مولانا راحت گل نے پشاور یونیورسٹی کے پاس راحت آباد میں میری وجہ سے ایک کانفرنس کا اہتمام کیا۔ مولانا فضل الرحمن، قاضی حسین احمد، مولانا اکرم اعوان، ڈاکٹر اسرا راحمد، صوفی محمد، مولانا سمیع الحق اور ایک شخصیت کا نام بھول رہا ہوں اور مجھے بلایا لیکن سب نے اپنے نائبوں کی فوج ظفر موج کو بھیج دیا اور خود شرکت کرنے سے گریز کیا۔ جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ اور مولانا گوہرالرحمن تھے، صوفی محمد کے نائب امیر مولانا محمد عالم تھے، جمعیت علما اسلام ف اور س ، ڈاکٹر اسرار اور مولانا اکرم اعوان کے صوبائی رہنما تھے۔ اگر اس وقت تمام مذہبی لیڈرشپ جمع ہوکر اپنی اور امت کی اصلاح کرنے پر آمادہ ہوتی تو پاکستان میں مذہب کے نام پر تباہ کاریوں کا کوئی سلسلہ نہ ہوتا مگر ہماری مشکل یہ ہے کہ اخبارات میں میری تصویر اور میرا بیان بہت بڑا لگ گیا لیکن میری ایک بات بھی نہیں دی اور اپنی طرف سے بیان گھڑ کر میری طرف منسوب کردیا۔ اختر خان نے تحریک انصاف کو ریاست کا گماشتہ قرار دیا ہے لیکن باری باری یہ سب اپنی ضرورت کے وقت کتیوں کی طرح آوارہ کتوں کے ریوڑ کے آگے لگ جاتی ہیں۔
مجھے ڈیرہ اسماعیل خان جیل میں ایک شیعہ نے میرے حسنِ سلوک کی وجہ سے کہاتھا کہ میں سنی بننا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا کہ اس کی ضرورت نہیںہے جو اختلافات فقہ جعفریہ کیساتھ ہماری فقہ کے ہیں وہ ہماری اپنی فقہ مسالک میں بھی ایکدوسرے کیساتھ ہیں۔ صحابہ کرام کے خلاف برا بھلا کہنے سے گریز کریں ، باقی اپنے گھر میں اپنے لئے مسئلہ نہ بنائیں۔پھر مجھے جیل کے اندر بھی جیل کی چکیوں میں اس وجہ سے جانا پڑگیا کہ اسلامی جمعیت طلبہ کے اسٹوڈنٹ سے میں نے کہا تھاکہ پختون کہتے ہیں کہ ”پختون کا قانون ، خون کا بدلہ خون” لیکن آپ اسلام کے نام پرگروہ بندی کرکے کالجوں و یونیورسٹیوں میں کیوں لڑتے ہیں؟۔ اس نے مجھ پر الزام لگادیا کہ ”میں نے نبوت کا دعوی کیا ہے اور جیل سپر ڈنٹ سے بھی چغلی لگائی”۔ میں نے اپنی تحریر میں ثبوت لکھ دیا تھا اور اس نے اس کو ہی نبوت بنادیا تھا۔ میری وضاحت کے باوجود اس نے میرے خلاف سازش تیار کی اور جب جیل سپرڈنٹ نے مجھ سے پوچھا تو میں نے بتایاکہ مہدی کے معنی یہ ہیں کہ جو گمراہ نہ ہو اور کوئی بھی خود کو گمراہ نہیں سمجھتا ہے لیکن میری حمایت کرنے والا جیل کا مولوی بہت مشکل میں نظر آرہا تھا۔ مجھے اس کی اپنے سے زیادہ فکر تھی۔ مجھے ریمانڈ لکھ کر ڈاکٹر جہانزیب گنڈہ پور کے پاس بھیج دیا۔ جب ڈاکٹر نے میری بات سن لی تو ریمانڈ( OK)کرنے کے بجائے یہ لکھ دیا کہ ” اسکے مخالفین کو جیل میں بند کرکے سزا دینی چاہیے”۔ وہ (40FCR)کا دور تھا۔ کسی عدالت میں جر م چیلنج نہیں ہوسکتا تھا۔ مجھے چکی میں بھیج دیا گیا تو ایک اہل تشیع حنیف ماما پاڑہ چنار نے بحث شروع کردی اور مجھے اس کو جاہل سمجھ کر بحث میں الجھنا فضول لگتا تھا اور اس سے کہا کہ ہمارا اپنا عقیدہ ہے ۔ ہم خلفا راشدین اور حضرت عمر بن عبدالعزیز کو بھی مہدی سمجھتے ہیں۔ تمہارا مہدی غائب کا اپنا عقیدہ ہے لیکن جب وہ باز نہیں آرہا تھاتو میں نے کہہ دیا کہ میرے پاس علم نہیں ۔ اس نے کہاکہ پھر تو آپ جاہل ہو؟۔ میں نے کہا کہ آپ کی بات مان لی میں جاہل ہوں۔ قرآن کہتاہے کہ جاہل مخاطب ہو تو اس کو سلام کرکے اپنے حال پر چھوڑ دو۔ آپ بڑے جاہل نہیں کہ ایک جاہل سے بحث بازی کے مرتکب ہورہے ہیں؟۔ پھر بعد میں اسکے بہت اچھے رویے کی وجہ سے اچھی دوستی ہوگئی۔ اس نے کہا کہ آپ مہدی کی بات ہمارے لئے چھوڑ دیں تاکہ امت کو متحد کیا جاسکے اور میں نے اس کی بات مان کر تحریری بیان لکھ دیا۔ پھر جیل سے رہائی ملی تو اپنا مشن خلافت کے قیام کیلئے راستہ ہموار کرنے کا مشن جاری رکھا۔ علامہ طالب جوہری(allama talib johri) سے ملاقات ہوئی تو اس نے ذاکرین کو بھڑکانے کیلئے کہا کہ آپ مہدی موعود سے مل رہے ہو۔ میں نے کہا کہ آپ نے لکھاہے کہ ”مشرق سے دجال نکلے گا اور اسکے مقابلے میں حسن کی اولاد سے کوئی شخص ہوگا اور اس سے مراد سید گیلانی ہے۔ علامہ نے میری بات سن لی تو اسکی سٹی گم ہوگئی ۔ میں نے مناسب نہیں سمجھا اور مشکل سوالات کھڑے نہیںکئے جس سے علامہ صاحب گھبرا گئے تھے اور پھر اس نے مجھے ملاعمر کی تائید کا کہا مگر میں نے اپنے فکری اختلاف کی وجہ سے ایک چڑھتے سورج کی پوجا کو منافقت سے تعبیر کیا۔ اسلام شخصیات سے بالاتر عقیدہ توحید کی دعوت دیتا ہے لیکن مسلمان آج مسلک پرستی کا شکارہیں۔ نظام عدل کا قیام صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسانوں کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔
(Nawishta-e-Diwar-July-21-Page-01-syed atiq ur rehman gillani_nawaz sharif zarbehaq.com_maryam nawaz zarbehaq.com(1)CADV_talib johri _mulla umer_mehdi )

On the Questionnaire of Raqibullah Mehsud, A detailed response submitted by Syed Atiq-Ur-Rehman Gilani that Zakat is the only solution of Economic Revival.

Raqibullah Mehsud
Shafqat Ali Mahsud
mehsud tribe
zakat committee
mufti taqi usmani
usman kakar
mehrab gul afghan

سوشل میڈیا میں ایک بے باک ابھرتا ہوا بگ سٹار رقیب اللہ محسود کا سوالنامہ: پیر صاحب سے سوالات

موجودہ دور میں علما نے دین اسلام کو صرف نماز ، داڑھی، کرتہ، پاجامہ ، خواتین کے پردے اور علما کی قدر تک کیوں محدود کردیا ہے؟۔ قرآن میں کافی جگہ نماز کیساتھ زکو کا حکم ہے لیکن پورے سال میں آپ کسی مولوی سے اس کا ذکر نہیں سنو گے۔ سوائے اس وقت جب اس کو اپنے مدرسے کیلئے ضرورت ہو۔
اگر بیس فیصد لوگوں نے زکو دینی شروع کردی تو معاشرہ خوشحال اور فلاحی بن جائیگا۔ چوریاں ختم ہوجائیں گی، پیسوں کی فراوانی ہوگی، لوگ حرام خوری چھوڑ دیں گے۔ ہمیں آئی ایم ایف(IMF) سے سود پر قرضہ لینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
علما کی قدر کا اب یہ اثر ہوگیا ہے کہ کوئی مولوی چاہے کتنا غلط کام کیوں نہ کرے اسکے خلاف بات کو کسی بھی صورت برداشت نہیں کیا جاتا۔ کیا ہم اس طرف نہیں بڑھ رہے جس طرح سندھ اور پنجاب(SINDH PUNJAB) میں لوگ پیروں کے پاں پکڑتے ہیں، قبروں کو سجدے کرتے ہیں، شرک کرتے ہیں۔ پشتون علاقوں میں علما کو سب سے زیادہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ آج تک کسی نے دین کی وجہ سے ان کی بے قدری نہیں کی۔ پھر بھی بار بار ہر جگہ یہ دعوت کیوں چلائی جارہی ہے؟۔
ان تمام سوالات کے جواب پیر صاب کو تفصیل سے دینا چاہیے۔ کیا ہم انگریزی اسلام اور دجال کے پیروکاروں کے نرغے میں آگئے ہیں؟ ۔ علما حق کو کیا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ دین اللہ کیلئے ہوجائے؟۔
ا لجواب اور وہ بھی تفصیل سے؟۔ یہ توایک کتاب کی شکل بھی اختیار کرسکتا ہے …
ان سولات میںگہری فکر ہے اور اس فکر کا مقصد اس ماحول کو تبدیل کرنا ہے کہ ہم نے اسلام جیسے عالمگیر دین کو جو تمام زمان ومکان پر حاوی ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے کیوں چند مخصوص معاملات تک محدود کردیا ہے؟۔
علامہ اقبال نے شیطان کی خواہش کا اپنے اشعار میں ذکر کیا ہے کہ
افغانیوں کی غیرتِ قومی کا ہے یہ علاج کہ ملا کو اس کے کوہ ودمن سے نکال دو
علامہ نے ابلیس کی مجلس شوری اور دیگر عنوانات سے شیطان کی خواہشوں کا ذکر کیا ہے۔ اس شعر کامطلب کم پڑھے لکھے قارئین کیلئے واضح کرتا ہوں کہ شیطان کی یہ خواہش ہے کہ اگر پشتون کو قومی غیرت سے محروم کردینا ہے جو شیطان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے تو علما کو انکے پہاڑی اور میدانی علاقوں سے نکال دو۔ کسی بھی قوم کی کوئی خاصیت ہوتی ہے۔ پشتونوں کا مشترکہ اثاثہ اس کی ملی غیرت ہے۔ اگر غیرت چھن جائے تو پھر وہ پشتون بالکل بھی نہیں رہتا ہے۔
اللہ تعالی نے قرآن میں فرمایا کہ ”اعراب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔ آپ ان سے کہدو کہ تم لوگ ایمان نہیں لائے بلکہ یہ کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں ،اسلئے کہ ابھی تک ان لوگوں کے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا ہے”۔ (القرآن) کسی جگہ فرمایا کہ ”اسلام میں پورے پورے داخل ہوجا”۔ (القرآن)کسی جگہ فرمایا کہ” اے ایمان والو! ایمان لا” ۔(القرآن)۔ پشتون کی حیثیت سے رقیب اللہ نے جو دعوت دی، وہ فطرت کا تقاضہ اور قرآن میں موجود ہے۔
علامہ اقبال نے ”محراب گل افغان ”(MEHRAB GUL AFGHAN)کے تخیلاتی نام سے بڑا عمدہ تخیل پیش کیا ۔
افغان باقی کہسار باقی تو ہر بیماری کا علاج اے غافل افغان تو اپنی خودی پہچان
تیری بے علمی نے رکھی بے علموں کی لاج عالم فاضل بیچ رہے ہیں اپنا دین ایمان
فطرت کے مقاصد کرتا ہے نگہبانی
اب نام رہ گیا ہے وزیری ومحسود
تیری دعا ہے کہ یہ دنیا بدل جائے
یابندہ صحرائی یا مرد کہستانی
یہ خلعت افغانیت سے ہیں عاری
میری دعا ہے کہ تو بدل جائے
اگر تیرے اندر انقلاب ہو پیدا
توعجب نہیں کہ چار سو بدل جائے
مولانا یوسف لدھیانوی شہید نے ایک روایت نقل کی ہے کہ پہلے دور میں قرآن کے معانی کی طرف زیادہ توجہ دی جائے گی اور الفاظ کی طرف کم ۔ آخری ادوار میں الفاظ کی زیادہ نگہداشت ہوگی اور معانی کی طرف کم توجہ دی جائے گی”۔ میں نے علامہ اقبال(ALLAMA IQBAL) کے اشعار کے الفاظ نہیں اسکے معانی سامنے لانے کی کوشش کی ہے اور جناب رقیب اللہ نے اپنے مضمون میں خول اورروح کی طرف توجہ دلائی ہے۔ سوالات کے جوابات اپنی تشریح میں دیدئیے ہیں۔ اس صحرائے نورد نے خشک صحرا کو رشک گلشن بنانے کیلئے جس پیاس کا ذکر کیا ہے تو دریائے سندھ سمیت اگر پنجاب کے پنجند بھی صحرائے تھل اور صحرائے بہالپور پر لگائے جائیں تو پانی ختم ہوجائیگا ان صحراں کی پیاس نہیں بجھے گی اسلئے تو سندھی کالاباغ ڈیم بننے نہیں دیتے ہیں۔ رحمن بابا(REHMAN BABA) کہتا ہے کہ ”اللہ کاولی بھی پانی چوری کرتا ہے”۔
اسلام ظاہر ی ڈھانچہ اور ایمان دل کا عقیدہ اور کیفیت ہے۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ ”ایمان کے بہت شعبے ہیں اور حیا ایمان کا خاص شعبہ ہے”۔ اور یہ فرمایا کہ ”جب تجھ سے حیا چلی جائے تو پھر جو چاہو ، کرو”۔ جس طرح مسلمانوں کیلئے اسلام ڈھانچہ ہے اور روح ایمان ہے۔ ایمان کا خاص نچوڑ حیا ہے۔ اسی طرح پشتون قوم کا ایک ظاہری ڈھانچہ اور ایک باطنی روح ہے۔ باطنی روح کا خاص نچوڑ غیرت ہے۔ علامہ اقبال نے کہا کہ اگر پشتون کو اس کی ملی غیرت سے محروم کرنا ہے تو پھر علما کو ان کے پہاڑی و میدانی علاقوں سے باہر کرنا ہوگا۔ شیطان کا سب سے بڑا ہدف علما کو ٹارگٹ کرنا ہے۔
آپ نے سندھ و پنجاب میں قبرپرستی اور پیروں کے نام پر خرافات کی مثال دی ہے تو اگر پشتون علما کا کردار نہ ہوتا تو سندھ وپنجاب اور پشتونخواہ میں فرق کیوں ہوتا؟ حالانکہ وہ بھی مسلمان اور ہم بھی مسلمان ۔ علامہ اقبال کی بات کوئی قرآن اور حدیث نہیں لیکن بعض اوقات اچھے شعرا کا کلام الہامی ہوتا ہے۔ پاکستان کو کلمہ طیبہ لاالہ الااللہ کے نام پر بنایا گیا تھا مگر پاک فوج اور سول بیوروکریسی سے لیکر سیاستدانوں، علما ومشائخ اور مجاہدین تک سب کے سب افغانستان(AFGHANISTAN) کیخلاف امریکہ کی مدد کیلئے کیسے کھڑے ہوگئے؟۔ ملاعمر اور طالبان پشتون قوم سے تعلق رکھتے تھے اور انہوں نے امریکہ اور نیٹو کی افواج کے آگے سجدہ ریز ہونے سے انکار کردیا۔ یہ پشتون ملا عمر(MULLA UMER) اور اس کی صفوں میں کھڑے ہونے والے علما کا کمال تھا کہ پوری دنیا بھی مقابلہ کرنے آئی مگر انہوں نے اپنی حکومت، وطن ، جانوں ، عزتوں اور سب کچھ کی قربانی دیدی۔ علامہ اقبال کی بات درست ثابت ہوئی۔ اگر ہوتک قبیلے سے تعلق رکھنے والے ملا عمر نے اسامہ کو حوالے نہ کیا اور سید پرویز مشرف نے ڈاکٹرعافیہ صدیقی(DOCTOR AFIA SIDDIQUE) کو حوالے کیا۔تو اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہے؟۔
جناب رقیب اللہ محسود ! (RAQEEBULLAH)آپ کی تحریر سے اسلام کی ظاہرمیں بڑی شان اورباطن میں ایمان کی وہ خوشبو آرہی ہے جو ایک پشتون کی گردن اور شہ رگ میں اسلام و ایمان کا رشتہ ہوتا ہے۔ آپ کو بیس فیصد زکو (ZAKAT)پر جتنے زیادہ نفع بخش نتائج دکھائی دیتے ہیں یہ بڑا قابلِ رشک ہے۔ یہی جذبہ امریکہ کیخلاف جہاد کا جذبہ رکھنے والے مجاہدین میں تھا۔کسی کو یقین نہ تھا کہ ایک دن امریکہ کو ناکام ہوکر نکلنا ہوگا لیکن علما کے کہنے پر ڈٹ جانے والے مجاہد اور طالبان نے ناممکن کو ممکن بنادیا۔ آپ جیسے جواں نسل میں زکو اور اس کی تبلیغ کی سوچ پیدا ہوجائے تو جس طرح امریکہ کو جہاد کے میدان میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے تو معاشی میدان میں بھی مسلمانوں کی زکو کے نظام سے سرخروئی بدرجہ اولی ہوسکتی ہے۔
علما بھی اسی ماحول کے بندے ہیں۔صدیوں سے جو روایت چلتی ہے لوگ اس ماحول کے علاوہ کچھ اور نہیں سمجھتے ۔ امریکہ افغانستان نہ آتا تو جہاد کے ثمرات کا بھی دنیا کو پتہ نہ چلتا۔ کشمیر کے نام سے جو مجاہدین مولانا مسعود اظہر (MOLANA MASAOOD AZHAR)وغیرہ کام کر رہے تھے تو انہوں نے افغانستان میں امریکہ کے خلاف کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ امریکہ کی آمد نے ایک فرض سے علاقہ کے لوگوں کو روشناس کرایا۔ مقتدر طبقات نے امریکہ سے پیسہ لیکر اس کی حمایت کی۔ طالبان نے ایمان کی مدد سے امریکہ کا مقابلہ کیا ۔ اب پھر مقتدر طبقات نے اپنے اللے تللے کیلئے بھاری بھرکم سودی قرضے لئے اور مسلمانوں کوزکو کی طرف کو متوجہ کیا جارہاہے۔ اگر امیر لوگ اپنے علاقے کے غریبوں کو زکو دیں گے تو بہت ساری مشکلات پر قابو پایا جاسکتا ہے اور پھر یہ ایک تحریک کی شکل میں قو م کے اندر نئی روح ڈال سکتا ہے۔ وزیرقوم نے واوا کے نام سے کتنا بڑازبردست نظام تشکیل دیا ہے؟۔ اس سے پہلے کبھی وزیر یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ پھر محسود قوم کی طرف سے بھی ماوا کے نام سے چلتی کا نام گاڑی شروع ہوا۔ یہ مردہ قوموں میں زندگی کی روح ڈالنے کی ہوائیں ہیں جو ابھی چل پڑی ہیں۔
طالبان کیخلاف امریکہ نہ آتا تو وہ کنویں کے مینڈک رہتے۔ تصاویر پر پابندی ہوتی اور القاعدہ والے اپنی شادیوں کی بھی ویڈیوز بناتے۔ اب افغان طالبان نے بھی دنیا دیکھ لی ہے اور امارت اسلامی افغانستان کے نام سے پہلے کی نسبت زیادہ بہتر انداز میں حکومت اور اسلام کے احکامات کی طرف توجہ کریں گے۔ افغان ایک طرف اشرف غنی کی حکومت کیساتھ کھڑے ہیں اور دوسری طرف طالبان کیساتھ کھڑے ہیں۔ ان میں اختلاف کی بہت سی وجوہ ہوسکتی ہیں اور مکالمے کی شکل میں دونوں طرف کے اہداف کی اچھی توجیہات بھی وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ جب طالبان امریکہ کی وجہ سے روپوش تھے تو افغان عوام کا حق تھا کہ مقامی حکومت تشکیل دیتے۔ طالبان نے زبردستی سے حکومت پر قبضہ کیا تھا تو جب ان کو امریکہ اور نیٹو نے زبردستی سے ہٹنے پر مجبور کردیا تو افغان عوام نے اس موقع سے فائدہ اٹھانا غنیمت سمجھا تھا۔ اگر طالبان کی حکومت منتخب حکومت ہوتی تو پھر طالبان کو گلہ شکوہ کرنے کا حق بھی پہنچتا تھا۔ جس اسلام کو طالبان نے افغان عوام پر مسلط کیا تھا اس اسلام کے اب طالبان خود بھی حامی نہیں رہے ہیں بلکہ بہت ہی زیادہ بدل چکے ہیں۔جب قابض امریکہ سے مذاکرات ہوسکتے تھے تو افغان حکومت سے بھی افہام وتفہیم کیساتھ معاملات حل کرنے میںکوئی شریعت حائل نہیں ہوسکتی ہے۔اصل مسئلہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان اسلام کی تشریح کا ہے۔ افغان طالبان چند مخصوص چیزوں کو اسلام سمجھتے ہیں جبکہ افغان عوام زبردستی کے اسلامی نظام سے متفق نہیں۔ اشرف غنی کی مختصر داڑھی ان طالبان کوکیسے قبول ہوسکتی ہے جو زبردستی داڑھیاں رکھواتے تھے؟۔ جن کو اشرف غنی ، عبداللہ عبداللہ قابلِ قبول ہیں اور ڈاکٹر نجیب کو آئیڈل سمجھتے ہیں وہ زبردستی داڑھی رکھوانے والوں کو کیسے حکومت سپرد کرسکتے ہیں؟۔ سعودیہ، عرب امارات اور پاکستان طالبان کے حامی تھے لیکن تینوں ممالک اپنے ہاں ملا کو ایسا رویہ اختیار کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے تھے جو طالبان نے اپنی رعایا عوام کیساتھ اپنا یاہوا تھا۔طالبان سمجھتے ہیں کہ حکومت ہم سے چھین لی گئی تھی ،غیر ملکی افواج سے مدد لیکر ہمارا قلع قمع کیا، نیٹو افواج سے زیادہ انہوں نے انتقام کا نشانہ بنایا۔ اب جبکہ انکے سرپرست نیٹو نے ان کو چھوڑ اتو حکومت چھین لینا ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ غیر ملکی اقوام نے ہم پر جارحیت کی تو انہوں نے ہماری آبادیوں کو نشانہ بنایا۔ بچے اور خواتین بھی شہید کردئیے۔ جب ہم نیٹو کی افواج سے لڑسکتے تھے تو ہمارے لئے ان کی کیا حیثیت ہے؟۔ یہ اپنے غیرملکی آقاں کیلئے اقتدار میں آئے اور ہمارا اپنا ایک مشن، عقیدہ اور نظریہ ہے۔ افغان عوام ہی کی مدد سے ہم نے نیٹو کو بھی شکست سے دوچار کردیا ۔ عوام کی اکثریت ہمارے ساتھ ہے۔ زیادہ تر علاقے ہمارے پاس ہیں اور حکومت کرنے کا حق بھی ہمارا ہے ۔ افغانستان پر طالبان کی حکومت تھی تو افغانی عوام طالبان کے جبر سے تنگ تھے۔ بقیہ صفحہ3نمبر2پر
بقیہ…….. رقیب اللہ محسود کے سوالنامے کا جواب
اگر انتخابات میں مقابلہ ہوا تو طالبان اقتدار سے محروم ہوسکتے ہیں اسلئے طالبان الیکشن میں نہ جائیں گے۔ ہمارے ہاںطالبان(TALIBAN) شروع میں مسلط ہوئے تو لوگوں نے ان کو پسند کیا پھر انکے نام سے بھی نفرت ہوگئی ۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ”سب سے بدترین وہ لوگ ہیں جن کی عزت انکے خوف کیوجہ سے کی جائے”۔ جب بینظیر بھٹو(BENAZIR BHUTTO) کو شہید کیا گیا تو جنگ گروپ کے ہفت روزہ اخبارِ جہاںکراچی کے سرورق پر بینظیر بھٹو کی تصویر تھی۔ میں جرمنی جارہاتھا اور دوست کے گھر میں صبح سویرے جانے کیلئے رکا تھا۔ اس شمارے کو دیکھا تو اس میںیہ لکھاہوا تھا کہ ”افغان فوج (AFGHAN ARMY)نے نیٹو کے سپاہیوں کو طالبان کوپیسے دیتے ہوئے پکڑ لیا، افغان سپاہیوں کو تعجب بھی ہوا مگرانہوں نے ہنستے ہوئے ان کو کوئی اہمیت نہیں دی”۔
اس سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ نیٹو کی افواج اپنے ہدف القاعدہ(ALQAIDA) کو مارنا چاہتے تھے مگر وہ طالبان کے دشمن نہ تھے۔ دوحہ قطر اور دوسرے ممالک میں نیٹو کیساتھ طالبان کی گفتگو کا سلسلہ پہلے بھی جاری رہتا تھا۔ امریکہ نے اپنے ایک باغی القاعدہ کا خاتمہ کردیا لیکن داعش کو پیدا کردیا ہے۔ طالبان کو شروع سے امریکہ کے کہنے پر جنرل نصیر اللہ بابر(GENRAL NASEERULLAH BABAR) نے بینظیر بھٹو کے حکم سے بنایا تھا۔ ہفت روزہ تکبیر کراچی میں یہ مضمون شائع ہوا کہ ”جب پاکستان کو افغانستان میں طالبان بنانے کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن کی (MOLANA FAZAL REHMAN)مدد کی ضرورت پڑی تو مولانا اپنی جان بچانے بیرون ملک کے دورے پر گئے۔ پاکستان کو ضرورت تھی مولانا نے مدد نہیں کی”۔ جرمنی میں ایک برطانوی تاجر سے امریکہ کی دوغلی پالیسی پر بات ہوئی تو اس نے کہا کہ برطانیہ کا کردار کیساہے؟۔ میں نے کہا کہ وہ بھی یہی چیز ہے ۔ غالبا اخبار جہاں میں برطانوی فوجیوں کا ذکر تھا جسکا میں نے حوالہ دیا تھا اس پر اس برطانوی تاجر کے چہرے کا رنگ بہت خراب ہوگیا۔ امریکہ نے افغانستان کے بعد عراق اور لیبیا کا تیل بھی لوٹ لیا۔ جب (1990) میں عراق پر حملہ کیا تھا تو اسکے خاطر خواہ نتائج نہیں نکل سکے۔ پھر طالبان اور القاعدہ کا ڈرامہ رچایا گیا تو نیٹو نے ساتھ دیا اور عراق و لیبیا (IRAQ&LIBYA)کے تیل کے ذخائر لے اڑے۔ علاوہ ازیں سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ پشتونوں کے دل ودماغ میں طالبان کے سخت گیر کردار ، بھتہ خوری اور امریکہ کیساتھ گہرے مراسم کی وجہ سے ملاں سے نفرت بیٹھ گئی۔ شیطان نے باقاعدہ منصوبہ بندی سے اس بات کی طرف راستہ ہموار کردیا ہے کہ پشتون قوم اپنے ملاں کو اپنے پہاڑی اور میدانی علاقوں سے نکال باہر کر دیں۔
میرا بیٹا ابوبکر کہہ رہاتھا کہ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ لاہور کا مفتی عزیزالرحمان(AZIZURREHMAN) پشتون نہیں لیکن پھرپتہ چلاکہ یہ حضرت سوات کا ہے ۔ ہماری تحریک کے ابتدائی سالوں میں ہمارے ساتھیوں نے سنت سمجھ کر کان کے لوتک محسودقومی بالوں کی طرح بال رکھے تھے تو ہم پر بریلویت کا الزام لگایا جارہاتھا۔ جب روس کیخلاف جہاد ہورہاتھا تو کچھ لوگ بس میں بیٹھے تھے اور ان کی داڑھیاں منڈی ہوئی تھیں لیکن بال لمبے لمبے تھے۔ میرے بھائی نے ان کو دیکھ کر پوچھا کہ کونسا فرقہ ہے؟ ان میں سے ایک نے ناراضگی سے کہا کہ یہ فرقہ نہیں مجاہد ہیں۔ بھائی نے پوچھا کہ پھر یہ بال کیوں رکھے ہیں؟۔ تو اس نے آنکھیں گھمائیں اور کہا کہ ہمیں بال بنانے کا وقت جہاد میں کہاں ملتا ہے؟۔ بھائی نے کہا کہ یہ تمہاری داڑھیاں پھر روسیوں نے منڈوائی ہیں؟۔ جس پر وہ بہت شرمندہ ہواتھا۔
جہاد تو اپنی جگہ ٹھیک اور قیامت تک جہاد جاری رہے گا لیکن چوتڑ تک بال رکھنے میں کیا حکمت ہے؟۔ طالبان سوال پر ناراض ہوتے ہیں۔ وانا کے وزیروں نے پہلے طالبان کیساتھ رشتے ناطے تک کئے پھر ان سے جھگڑا ہوا تو الزام لگایا کہ ہم نے ایک ازبک کو بیٹی دی ہوتی تھی اور آٹھ آٹھ اسکے ساتھ یہ کام کرتے تھے۔ یہ وہی ازبک تھے جن کو صحابہ کرام کی طرح قرار دیا جارہا تھا۔
ہمارے ہاں ایک شخص تھا جو رمضان سے پہلے داڑھی رکھ لیتا تھا اور پھر کسی گاں میں مسجد کی امامت کرکے زکو خیرات اور تنخواہ کمالیتا، رمضان کے بعد داڑھی منڈا لیتا تھا اور اپنی محنت مزدوری کرتا تھا۔ ملا اور مجاہدکے نام پر بہت زیادہ جعل ساز لوگوں نے دھندے شروع کردئیے ہیں جن کا کوئی دین ایمان نہیں۔ بعض وہ ہیں جنکے پاس علم بھی ہے لیکن مذہب کے نام پر دھندہ بنانے کی وجہ سے کسی کو شعور نہیں دیتے ہیں۔ بہرحال علما کا کردار غنیمت ہے لیکن ایک بڑے طوفان کے ذریعے ان کو شعور کی طرف لے جانے کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔
جناب رقیب اللہ !آپ کا مقصد جمود کو توڑنا ہے جس کیلئے قربانیوں کی ضرورت ہے۔ محسود قوم پہلے بھی بہت قربانی دے چکی ہے ۔اب خوف وہراس نے ڈیرا ڈال رکھا ہے۔ اس خوف کی فضا میں جمود کو توڑنے کی قربانی کوئی دوسری قوم نہیں دے سکتی ہے۔ اول وآخر محسود قوم کو اللہ نے شاید اس مقصد کیلئے پیدا کیا ہے اور چند اصول طے کرنے کی ضرورت ہے کہ بہادری و بزدلی کی تعریف لوگوں کے دل ودماغ میںڈالی جائے۔ بہادری یہ ہے کہ کوئی فرد باپ ، دادا، بھائیوں، قوم و شاخ کی شناخت نہ چھپائے جو اپنی شناخت چھپائے وہ دہشتگرد بزدل ہے۔
افغان حکومت اور طالبان سے لیکر عالم اسلام و کفر تک دنیا میں ایک مکالمے کی فضا پیدا کی جائے۔ قرآن(QUURAN) کے نظام میں اتنی جامعیت ہے کہ چھوٹے گھر ، محلہ، علاقہ اور خطے سے لیکر دنیا کو راہ راست پر لانے کی صلاحیت اس میں موجود ہے لیکن صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین کے بعد رفتہ رفتہ اسلام کا ڈھانچہ اور اس کی روح اجنبیت کا شکار ہوگئے۔ مولانا اشرف علی تھانوی(MOLANA ASHRAF ALI THANVI) نے لکھا ہے کہ ”میں ایک ایسے گاں میں گیا جہاں ہندو اور مسلمان اکٹھے تھے۔ ان کے ایکدوسرے سے رشتے ناطے بھی تھے ۔ کوئی ایسی شناخت نہیں تھی کہ کون مسلمان اور کون ہندو؟۔ پہچان کیسے ہو؟۔ آخر کار میں نے پوچھ لیا تو انہوں نے کہا کہ اور کوئی فرق نہیں ۔ بس ہولی اور دیوالی ہوتی ہے تو اس کی میزبانی ہندو کرتے ہیں اور مسلمان بھی شریک ہوتے ہیں اور بزرگ کے عرس میں میزبان مسلمان بنتے ہیں اور ہندو بھی شریک ہوتے ہیں۔ مولانا تھانوی نے ان کو تلقین کردی کہ اس عرس کی میزبانی کی رسم مضبوطی سے تھام لو،جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین سے تعلق رکھنے والے مشرکینِ مکہ کیلئے صفا ومروہ کی دوڑ واحد مذہبی شعار رہ گیا تھا باقی بت شکن ابراہیم کی ساری قربانیاں بھول کر خانہ کعبہ کے بتوںکوہی شعار بنالیا تھا۔ بتوں سے اتنے خطرات نہیں ہوتے اسلئے کہ مجسمے ہوتے ہیں مگر جب علما ومشائخ کی پوجا شروع کی جائے تو وہ زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ اللہ نے ایک طرف اہل کتاب کو اتحاد کی دعوت دی کہ ان کو کہو کہ ایسی بات کی طرف آ جو ہمارے درمیان مشترک ہے تو دوسری طرف واضح کیا کہ ” یہود ونصاری آپ سے کبھی راضی نہ ہونگے جبتک آپ ان کی ملت کے تابع نہ بن جائیں ”۔ (القرآن)۔بت میں نفسانی خواہشات، جنسی معاملات، پیٹ، بال بچے اور دولت ، شہرت ، عزت اور اقتدار کی خواہش نہیں ہوتی ۔ انسان میں دل ہوتا ہے جس کی خواہشات ختم نہیں ہوتیں اور ماحول میں ڈر وخوف کا بھی شکار ہوتا ہے۔
جب ہم بنوری ٹان(BINORI TOWN) کراچی میں پڑھتے تھے تو اس وقت روس نے مسلم ریاستوں میں آزادی سے پہلے اسلام کی تبلیغ کی اجازت دی تھی۔ ہمیں بتایا گیا کہ ایسے مسلمان تھے جن کو صرف اپنے آبا واجداد سے اتنا پتہ چلا تھا کہ ”علی ہمارا خدا ہے”۔ اس پر انکے مسلمانوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے قابل سمجھا جاتا تھا۔
تبلیغی جماعت (TABLEGHI JAMAT)کی بدولت لوگ چند مخصوص چیزوں کو اسلام سمجھتے ہیں تو یہ غنیمت ہے لیکن اسلام کے مسائل بہت سادہ اور عام فہم ہیں جس دن عوام کو متوجہ کیا گیا تو علما اور تبلیغی جماعت والے بھی روس کی نو آزاد مسلم ریاستوںاور ہندوستان کے مسلمانوں کی طرح اپنی اس حقیر معلومات کو اسلام کیساتھ مذاق سمجھیں گے۔
غسل کے فرائض اور استنجے کے مسائل سے لیکر ایک ایک بات کو مذہبی طبقات نے اجنبیت کا شکار بنادیا۔ اصول فقہ میں نالائقی کی انتہا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے درست کہا کہ اگر کسی عقل والے کی نظر اس پر پڑگئی تو سب کچھ ملیامیٹ ہوجائے گا۔ مولانا مناظر احسن گیلانی کی کتاب ”تدوین القرآن”میں بڑے حقائق ہیں جو جامعہ بنوری ٹان کراچی نے شائع کردی ۔ میرازمانہ طالب علمی کا دوست مفتی زین العابدین لسوندی بہت محتاط انسان ہے ، کبھی کھبار ان سے بات ہوتی ہے۔ اس نے کہا کہ ”وزیرستان کی کہاوت ہے کہ کسی مسئلے کا حل آسان مگر اس کو اپنے ذمے لینے کا دعوی کرنا مشکل کام ہے”۔
یقین جانو کہ مدارس کا حال بھی یہی ہے کہ نصاب میں کوئی جان نہیں مگر بس کسی میں ہمت نہیں ۔ مفتی حسام اللہ شریفی ،مفتی محمد نعیم، شیخ الحدیث مفتی زر ولی خان، مولانا عبدالرف ہالیجی ، مولانا قاری اللہ داد، مفتی خالد حسن مجددی، مولانا الطاف الرحمن بنوی ، علامہ زاہد الراشدی اور پروفیسراورنگزیب حافی جیسے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی دیر تھی۔مفتی زر ولی خان میں جرات تھی مگر زندگی نے وفا نہیں کی اور میری کتاب ”عورت کے حقوق”کے مسودے اور کتاب چھپنے کے بعد پڑھی تو بھی بہت اچھے تاثرات کا اظہار کیا تھا۔
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی(mufti taqqi usmani) نے اپنے حالیہ ایک بیان میں کہا کہ ”اللہ نے قرآن میں اپنی ذمہ داری لی ہے کہ ثم ان علینا بیانہ پھر ہمارے اوپر اس کو واضح کرنے کی ذمہ داری ہے، صحابہ کرام ، تابعین ، تبع تابعین سے آج تک قرآن جو بیان کیا گیاہے ،یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ بڑے بڑے لوگ گزرگئے اور ان کی باتوں کا کسی کے پاس جواب نہ تھا۔ غلام احمدپرویز آج کہاں ہے”۔ (ویڈیو بیان)
دنیا میں آج ڈاکٹر ذاکر نائیک کی بڑی گونج ہے۔ غلام احمد پرویز (ghulam ahmed parvaiz)نے لکھا تھا کہ طلاق احسن کا جو طریقہ حنفی فقہا نے بتایا ہے وہی قرآن کی تفسیر ہے۔ دومرتبہ طلاق احسن دینے کے بعد تیسری مرتبہ طلاق احسن دی گئی تو پھر قرآن میں حلالہ کے بغیر رجوع نہیں کرنے کا حکم ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائک(doctor zakirnaik) کی مقبولیت مفتی تقی عثمانی سے زیادہ ہے اور وہ بھی غلام احمد پرویز کی پیروی کررہے ہیں۔ اپنے شاگردوں کی طرف سے سخت سکیورٹی کے حصار میں شاہانہ ٹھاٹ سے متاثر ہونے والے شیخ الاسلام کو انشا اللہ اپنی مقبولیت کا بہت جلد اندازہ لگ جائے گا۔ اب وہ یونین کونسل کے ممبر بننے کے قابل بھی نہیں ۔ اگر یہ عزت ہے کہ برائی پر پکڑ نہ ہو تو شیخ الحدیث مولانا نذیرا حمد جامعہ امدادیہ فیصل آباد اور حال میں شیخ الحدیث مفتی عزیز الرحمن کے حال سے عبرت حاصل کریں۔ اگر یہ ساری باتیں اللہ کی طرف سے تھیں تو چاراماموں میں کئی مسائل پر حلال وحرام ، جائز وناجائز اور طلاق ہوگئی یا نہیں ہوئی ؟۔یہ اختلافات کیوں ہیں؟۔ کیا اللہ کے بیان میں تضادات ہوسکتے ہیں؟۔ سارے مدارس کے علما ومفتیان بینک کے سودی نظام کی مخالفت کر تے تھے لیکن اکیلے مفتی تقی عثمانی نے معاوضہ ہڑپ کرنے کے چکر میں اس کو اسلامی قرار دینے کیلئے پرواز کیوں بھری؟۔ کیا یہ اللہ کی طرف سے ہے کہ شیخ الاسلام اور مفتی اعظم بینک کے سود کو جائز قرار دے؟ ، باقی علما ومفتیان مخالفت کریں؟۔ سیدھی بات ہے کہ دس لاکھ روپیہ کسی نے بینک میں رکھا ہو اور اس پر لاکھ سود مل جائے اور پھراٹھائیس ہزار زکو کے نام پر کٹ جائیں تو اصل رقم بھی محفوظ ہوگی اور سود بھی ملے گا تو زکو کی کٹوتی کہاں سے ہوگی؟۔ مفتی محمود (mufti mehmood)نے مخالفت کی ۔ پہلے مولانا فضل الرحمن نے شراب کی بوتل پر آب زم زم کا لیبل قرار دیا مگر پھر ایک سو اسی ڈگری کے زوایے پر مسئلہ الٹ دیا گیا۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے۔
سود کی حرمت کا حکم نازل ہوا تو نبیۖ نے زمین کو مزارعت پر دینا سود قرار دیا۔ امام ابوحنیفہ ،امام مالک اورامام شافعی(imam abu hanifa imamshafi imammalik) سب متفق تھے کہ مزارعت سود ہے لیکن پھر رفتہ رفتہ شیخ الاسلاموں نے ریاستوں کی مدد سے اسلامی احکام کا تیا پانچہ کیا۔ پھر وہ وقت آگیا کہ مزارعت سود کی بجائے جاگیردارانہ سسٹم کا حصہ بن گئی۔ جو ٹوٹل سودی نظام تھا اس سے ملاں کو زکو ملتی تھی۔ مزارع تو اپنے بچے نہیں پال سکتے تھے۔ جنکے پاس اپنی زمین ہوتی تو وہ جاگیردار کی زمین کیوں کاشت کرتے؟۔ جب جاگیردارکی دولت سود کی رہین منت ہو تو وہ زکو ادا بھی کرے تو مزارعین کو دے گا جنکا خون چوس کر دولت بنائی گئی ؟۔ سودخور کس طرح زکو ادا کرنے میں مخلص ہونگے؟۔ سود اور زکو ایک دوسرے کی بالکل ضد ہیں ۔ سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام(Feudalism &Capitalism) سود پر مبنی ہے تو ان سے زکو کی کیسے توقع کی جاسکتی ہے؟۔ اسلام نے زکو کی ادائیگی کا حکم ضرور دیا لیکن سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ سودی نظام ختم کرنے سے اس کی ابتدا کی ہے۔
پہلے پٹھان علما سودی کاروبار کیلئے بیٹھتے تھے اور سود خوروں کو حیلے بتاتے تھے۔ اسلئے علما کی توہین ، گستاخی اور بے ادبی کو بڑا کفر قرار دیا جاتا تھا اور سود خور سرمایہ داروں کی طرف سے ان کی عزت کی تشہیر ہوتی تھی اور اب شیخ الاسلاموں نے بڑی سطح پر یہ کام انجام دیا ہے اسلئے ان سے اختلاف کو بھی کفر قرار دیا جارہاہے۔ مجھے اپنی ذات سے بھی زیادہ قیمتی اپنے نظریات لگتے ہیں اور الحمد للہ کافی حد تک لوگوں کا جمود توڑنے میں کامیابی بھی مل گئی۔ مجھے کانیگرم کے برکی، وزیرستان کے محسود ، وزیر اور داوڑ کی سرداری نہیں چاہیے۔ پختونوں کی سرداری نہیں چاہیے اور مجھے پاکستان کی بھی حکومت نہیں چاہیے۔ سب کو اپنے اپنے قبائل اور ملکوں کی سربراہی مبارک ہو۔ عثمان کاکڑ بہت اچھا انسان لگتا تھا۔ شاہ محمود کو انگریزوں کا ٹھیک طعنہ دیا تھا۔ ہمارے دادا سیدامیر شاہ نے میرے والد کو مدرسے میں بھیجا تھا لیکن سکول کی تعلیم نہیں دلائی تھی اور میرے چاچوں نے چھپ کر سکول کی تعلیم حاصل کی تھی۔ شہید صمد خان اچکزئی(shaheed samad khan achakzai) اور عبدالغفار خان نے بیٹوں کو لندن میں پڑھایا تھا۔ اقبال نے محراب گل افغان کے اشعار میں اچھے انکشافات کئے۔
تواپنی سرگزشت اب اپنے قلم سے لکھ خالی رکھی ہے خامہ حق نے تیری جبیں
علامہ اقبال نے زبردست اشعار لکھے ہیں اور ہماراہدف دنیا ہے اور اللہ کی طرف سے عالمگیر دین کا تقاضہ یہی ہے کہ رحمت للعالمینۖ کے دین کو پوری دنیا ہی میں پھیلایا جائے۔ دین فطرت میں لوگوں سے کچھ مانگنے کا تقاضہ نہیں بلکہ لوگوں کوبہت کچھ دینے کا تقاضہ ہے۔ایک جان ہے جو گوشت پوست سے بنی ہوئی ہے جو کسی حادثے کا شکار ہوجائے تو اناللہ وانا الیہ راجعون پڑھ دینا۔ کسی نے بھی دنیا میں نہیں رہنا ہے۔ والسلام ۔
راہ ہدایت میں سرگردان ایک بیباک گمراہ مسافر سید عتیق الرحمن گیلانی
(syed atiq ur rehman gillani June=Special-2–page-4_raqeebullah mehsood _soodi nizam _zarbehaq.com_ulama)
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv

zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

breaking_news