پوسٹ تلاش کریں

what measures should be taken to protect Forests of Waziristan? Suggestions from Shafqat Ali Mahsud

shafqat ali mehsud
badar velly
mehsud tribe
waziristan forests
plant for pakistan
green pakistan
pakistan independence day

وزیرستانی جنگلات کا تحفظ کیسے ممکن ہے؟ چند تجاویز: تحریر: شفقت علی محسود

وزیرستان (waziristan)کے جنگلات کے تحفظ کیلئے سینٹ اور اسمبلیوں میں آواز اٹھنے کے بعد وزیراعظم کا خود اس سلسلے میں ایم این ایز سے ملاقات کرنا خوش آئند ہے لیکن کیا انتظامیہ اکیلے ہی بزور بازو ان جنگلات کی روک تھام کر پائے گی؟ کیا مقامی لوگوں کو اعتماد میں نہ لیکر یہ کام ممکن ہو سکتا ہے؟۔
کچھ تجویزات ہیں امید ہے کہ اگر ان پر عمل کیا جائے تو موجودہ جنگلات کے تحفظ کیساتھ ساتھ نئے پودے کے اگانے میں بھی آسانی ہوگی اور انتظامیہ اور محکمہ جنگلات کم وسائل استعمال کر کے اپنے مقصد کا حصول یقینی بنا سکتے ہیں۔
1۔ انتظامیہ کا جنگلات کے بارے میں حکومتی پالیسی کا واضح کرنا:قبائل بالخصوص شمالی و جنوبی وزیرستان کے لوگ اس کشمکش میں مبتلا ہیں کہ حکومت جنگلات پر قابض ہوکر انکے جنگلات چھیننا چاہتی ہے یا ساتھ دیکر تحفظ فراہم کریگی؟۔
حکومتی قبضے کے ڈر کیوجہ سے گزشتہ سال سے کافی جنگلات کاٹے جا چکے ہیں، حکومت کو چاہئے کہ یہ واضح کر دے یہ جنگلات ان مقامی لوگوں ہی کی ملکیت ہیں۔ جنگلات سے حاصل ہونے والی ہر قسم کی آمدنی اور فوائد کے حقدار یہاں کے مقامی لوگ ہی ہونگے۔ تب جاکر ان جنگلات کا تحفظ ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
2۔جنگلات آگاہی مہم:کسی کو فوائد اور نقصانات بتائے بغیر قائل کرنا مشکل کام ہے جب تک جنگلات کے فوائد اور کاٹنے کے نقصانات سے لوگوں کوآگاہ نہیں کیا جائیگا تب تک تحفظ کی ہر کوشش رائیگاں جائے گی۔ انتظامیہ کو چاہئے کہ ان علاقوں میں اس سلسلے میں سیمینار کا انعقاد کروائے، سوشل میڈیا کمپین سے لوگوں میں شعور اُجاگر کیا جائے۔ گلوبل وارمنگ ,بارش کا برسنا، آکسیجن کی فراہمی، زمینی کٹاو کی روک تھام کے علاوہ جنگلات کے ہر قسم کے فوائد اور جنگلات کے خاتمے کے سارے نقصانات کے بارے میں لوگوں کو شعور دینا چاہئے۔
3۔ قومی کمیٹی برائے جنگلات تحفظ کا قیام:حکومت و محکمہ جنگلات ان جنگلات کا تحفظ تب تک ممکن نہیں بنا سکتی جبتک مقامی لوگوں کو اعتماد میں لیکر جنگلات کے تحفظ کیلئے کمیٹیاں نہ بنائی جائیں۔صدیوں سے جولوگ جنگلات کی حفاظت کر رہے ہیں اب بھی ان جنگلات کا تحفظ ان ہی کی مدد سے ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ انتظامیہ مقامی مالکان کے تعاون سے مشترکہ جرگے کا انعقاد کرے، لوگوں کو اپنی جنگلات دوست پالیسی سے آگاہ کرے۔اس سلسلے میں حکومت کو فارسٹ گارڈ کیلئے مقامی افراد کو بھرتی کرنا چاہئے تاکہ جنگلات میں موجود ہر درخت کے تحفظ کیساتھ ساتھ ان جنگلات کے اصل مالکان کو ہی فائدہ حاصل ہو سکے۔
4۔ سوکھی اور گھروں کی تعمیر میں استعمال کی لکڑی:چونکہ قبائل گیس، بجلی سے محروم ہیں۔ جلانے کیلئے لکڑیوں کا استعمال ہے۔ جنگلات کی سوکھی لکڑی کو جلانے کیلئے لیجانے پرپابندی نہ ہو ۔ اگر کوئی گھر کی تعمیر میں لکڑی استعمال چاہتا ہے تو متعلقہ کمیٹی کی اجازت سے ضرورت کے مطابق درخت کی کٹائی کی اجازت ہو۔
5۔پرانے گھنے جنگلات:وزیرستان کے جنگلات سینکڑوں سال پرانے ہیں اور ان میں ایسے درخت ہیں جن کا تنا اندر سے گھل چکا اور باقی درختوں کی بڑھوتری میں رکاوٹ ہیں ان درختوں کو شمار کر کے کاٹا جائے تاکہ جنگلات میں چھوٹے درخت جلد نشوونما پا سکیں اوروہ جنگلات جو کافی گھنے ہیں، درختوں کی بڑھوتری میں رکاوٹ ہیں ان کو کاٹ کر ہلکا کیا جائے، کاٹی جانیوالی لکڑیوں کو کسی میدان میں لاکر، ملک بھر سے بڑے سوداگروں کو بلاکربولی لگائی جائے، فروخت ہونے کے بعد وصول ہونیوالی رقم کو مقامی اصل مالکان میں تقسیم کیا جائے۔
6۔سرکاری نرسریوں کا قیام: جن علاقوں میں جنگلات کاٹے جا چکے ہیں یا جنکو پرانے یا گھنے ہونے کیوجہ سے کاٹا جائیگا ان میں باقاعدہ بقیہ صفحہ 3نمبر3بقیہ…وزیرستانی جنگلات کا تحفظ کیسے ممکن ہے؟
درخت اُگانے کیلئے سرکاری نرسریوں کا قیام ضروری ہے۔ جن میں علاقے کے موسم کے مطابق پودے دستیاب ہوں۔ نرسریوں سے پودوں تک رسائی میں آسانی ہوگی اور لوگوں میں درخت لگانے کا رجحان بھی بڑھتا جائے گا۔
7۔ الیکٹرک آراپر مکمل پابندی:پہاڑی علاقوں میں جاری موجودہ کٹائی میں سب سے اہم کردار الیکٹرک آرے کا ہے۔ اس آرا کی مدد سے روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں درخت کاٹے جارہے ہیں۔ اس کے استعمال پر نہ صرف پابندی عائد کی جائے بلکہ برآمد ہونے پر ضبط کرنے کیساتھ ساتھ سزا بھی دینی چاہئے۔
8۔ سمگلنگ کی روک تھام :درج بالا تجاویز پر عمل ہوا تو سمگلنگ کا امکان پیدا نہیں ہو سکتا مگر احتیاطاً ہر علاقے کے داخلی ، خارجی راستوں اورچور راستوں پربنائی گئی کمیٹی کے افراد کوپہرا دینا چاہئے، کمیٹی کو ضلعی انتظامیہ کا براہ راست تعاون حاصل ہو۔یہ میری ذاتی تجاویز ہیں ان سے کوئی بھی اختلاف کر سکتا ہے۔
اگر آپ لوگوں کی بھی کوئی تجویز ہو تو ضرور شیئر کریں
تبصرۂ نوشتۂ دیوار: تیز وتند عبدالقدوس بلوچ
ایک جوان صحافی کی اچھی سوچ اس بات کی نشاندہی ہے کہ اس قوم میں ایک بیداری کی فضا پیدا ہوچکی ہے۔ اچھی سوچ کی حوصلہ افزائی اور پروان چڑھانے سے پوری قوموں کی تقدیریں بدل جاتی ہیں۔ اگر علماء یہ کہیں کہ مفتی عزیز الرحمن اور صابرشاہ کے کردار سے علماء کو بدنام کیا گیا یا پشتون قوم پرست کہیں کہ پشتون قوم کو بدنام کیا گیا ہے تو اس سے مدارس اور پشتون قوم کا تحفظ نہیں ہوسکتا ہے ۔ پشتون قوم اسلام کی درست خدمت کیلئے صحیح بنیادوں پر آگے بڑھیں۔ مار دھاڑ کی جگہ امن وامان ہو تو بلوچ، پنجابی، سندھی، مہاجر، کشمیری سب ساتھ دینگے۔
رقیب اللہ محسود اور شفقت علی محسود کا اپنی قوم کے غریب افراد اور جنگلات کی فکر وہ انقلاب ہے جس سے دنیا کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ اگر بچوں کو شروع سے ایسی تربیت اور ذہنیت دی جائے کہ اپنے باپ دادا کے غلط نقشِ قدم پر چل کر تم نے دنیا میں سیاست، سول وملٹری بیوروکریسی، استحصالی نظام کے ذریعے کیسے اپنا مفاد حاصل کرنا ہے اور کس طرح لوٹ مار کرنی ہے تو پھر دنیا کا اللہ حافظ ہے!
(syed atiq ur rehman gillani shafqat ali mehsood_waziristan k janglat ka tahaffuz _zarbehaq.com_navishta e dewar _afghanistan June=Special-2–page-4-navishta e diwar_smugling)

Can we accuse Ali Wazir or the enemy of the Pashtun nation is Pakistan? or its merely a clash among groups with different approaches and ideologies.

faqir of ipi, faqir api, akhter khan, maulana noor muhammad shaheed, usman kakar, ali wazir

وزیرستان تاریخی حقائق کی روشنی میں، فقیر ایپی سے علی وزیر تک : اختر خان

وزیرستان وانہ کا ایم این اے علی وزیر(ali wazir) پاکستانی ریاستی اداروں کو پشتونوں کا دشمن کہتا ہے۔وزیرستان سے تعلق رکھنے والا مشہور گوریلا جنگجو فقیر ایپی کہتا تھا کہ پاکستان کا نظام یہ وہی انگریز گدھا ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ اس کا پالان بدل دیاگیا ہے۔علی وزیر(ali wazir) کے دادا جلات خان اس فقیر ایپی کے قریبی ساتھی اور معاون تھے۔پاکستان بننے سے پہلے مسلسل دس سال وہ فقیر ایپی کے شانہ بشانہ انگریزوں سے لڑتے رہے۔جب پاکستان بن گیا تو علی وزیر کا دادا جلات خان دس سال تک افغانستان میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہا تھاجبکہ فقیر ایپی کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے پاکستان کیخلاف لڑے یا اسکو اپنا ملک تسلیم کر لے۔فقیر ایپی(FAQEER AP) کے پاس نہ تو اتنے وسائل تھے اور نہ ہی تنظیمی استعداد کہ وہ پاکستان کو ان انگریزوں سے وراثت میں ملے انتظامی ڈھانچے سے لڑتے۔فقیر ایپی نے ہر ممکن کوشش کی کہ چاہے افغانستان ہو یا کوئی اور ملک، پاکستان کیخلاف لڑنے کی مدد لی جائے لیکن نہ تو افغانستان نے فقیر ایپی کو مدد دی اور نہ ہی کسی اور ملک نے حتی کہ وزیرستان میں ایسے ملکانان سامنے آئے جنہوں نے فقیر ایپی سے کہا کہ انگریز سے لڑنا درست تھامگر پاکستان سے لڑنا درست نہیں۔فقیر ایپی نے (1956 )کے بعد سیاست سے تقریبا کنارہ کشی اختیار کر لی اور (1957 )میں علی وزیر کے دادا جلات خان(JALAT KHAN) نے فقیر ایپی کی پیروی میں پاکستان سے لڑنے کا فیصلہ ترک کر دیا۔جلات خان اور پاکستانی اداروں کے درمیان بھی صلح کرائی گئی جس کی بنیاد پر علی وزیر کے دادا جلاوطنی چھوڑ کر پاکستان میں اپنے گاؤں وانہ آگئے۔
دلچسپی سے علی وزیر کے دادا جلات خان کا یہ معاہدہ اور صلح ملک شہزاد توجئے خیل نے کرایا تھا۔ملک شہزاد توجئے خیل وانہ کے مشہور سیاسی بزرگ اور خدائی خدمتگار نثار لالا کے رشتہ دار تھے اور غالبا ملک جمیل کے دادا تھے۔یہ وہی ملک جمیل ہیں جنہوں نے چند دن پہلے وانہ میں ایک جرگہ میں پی ٹی ایم کے کارکنوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ علی وزیر کو جیل سے رہائی دلانے کیلئے میں اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہوںاور اس سلسلے میں کور کمانڈر کسی جرنیل کسی وزیر کے گھر یا دفتر جانے کو بھی تیار ہوں اب پی ٹی ایم والوں کو یہ یقین دہانی کرانی ہوگی
ِِِِِ کہ آئندہ پاکستان میں بیٹھ کر پاکستان کے دشمنوں جیسے افغانستان کے گیت وزیرستان میں نہیں گائیں گے۔
ستر کی دہائی میں جب وانہ وزیرستان میں مرحوم مولانا نور محمد(MOLANA NOOR MUHAMMAD) وزیرستان کی سیاست میں سرکردہ کردار بنا تو اسی علی وزیر کے دادا جلات خان کو اس کی پشت پناہی حاصل تھی جبکہ میر عسکر خوجل خیل جیسے مشران نے مولانا نور محمد کو وزیرستان کیلئے زہر ہلاہل قرار دیا تھا۔اسی کی دہائی میں افغانستان میں روس نواز پشتون قوم پرستوں کے خلاف جب امریکہ نواز جنرل ضیا الحق نے جہاد کا بیڑہ اٹھایا تو مولانا نور محمد ان کے فکری، نظریاتی اور عملی دوست بنے۔جنرل ضیا الحق(GENRAL ZIAULHAQ) اور مولانا نور محمد جیسی شخصیات کے درمیان جو گٹھ جوڑ بنی اسکے خمیر سے افغانستان میں طالبان کی حکومت معرض وجود میں آئی جبکہ وانہ میں نیک محمد، ملا نذیر، بیت اللہ محسود اور حکیم اللہ محسود جیسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے نہ صرف علی وزیر کے خاندان کی سرکردہ شخصیات کو قتل کیا بلکہ مولانا نور محمد بھی جنرل ضیا الحق کیساتھ جس آگ کو بھڑکا چکے تھے اسی میں جل گئے اور (2010) میں ایک خودکش حملے میں قتل کئے گئے۔علی وزیر نے (2013) کا الیکشن لڑا،تو مولانا نور محمد کے شاگرد مولویوں کے علاوہ وزیرستان وانہ کی جن سرکردہ شخصیات نے علی وزیر کو ہرانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی وہ نصراللہ وزیر اور علی وزیر کے دُور کے رشتہ دار سعید وزیر جیسے پاکستانی قوم پرست بیوروکریٹس تھے۔نہ تو علی وزیر وہ الیکشن جیت سکا اور نہ ہی یہ بیوروکریٹس اپنا امیدوار کامیاب کروا سکے (2018) کے الیکشن میں وانہ کے یہ بیوریوکریٹس قوم پرست پشتونوں کی طرح آپس کے اختلاف کا شکار ہوئے۔سعید وزیر نے سیاست سے کافی حد تک کنارہ کشی اختیار کی۔جبکہ بیوروکریٹ نصراللہ وزیر نے اپنے بیٹے کو علی وزیر کے خلاف تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے میدان میں اتارا۔علی وزیر کی مقبولیت کے باعث عمران خان نے علی وزیر کے خلاف اپنے امیدوار کو دستبردار ہونے کا کہا لیکن نصراللہ وزیر بدستور علی وزیر کے خلاف الیکشن لڑنے پر مصر رہا۔نصراللہ وزیر کے امیدوار کو علی وزیر کیخلاف بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔( 2019)میں صوبائی اسمبلی کیلئے جو الیکشنز ہوئے اس میں ریاست پاکستان نے علی وزیر کے امیدوار عارف وزیر کو بالکل اسی طرح دھاندلی کرکے ہروایا جس طرح پنجاب میں مسلم لیگ اور پشاور ویلی میں عوامی نیشنل پارٹی کو ہروایا گیا۔ان حقائق کی روشنی میں آپ فیصلہ کریں کہ علی وزیر یا پشتون قوم کا دشمن پاکستان ہے یا پشتون قوم کے اندر مختلف الخیال اور نظریات کے پیروکاروں کے درمیان رسہ کشی؟۔

Afghan government came into existence with mutual efforts and co-ordination of General Muhammad Zia-ul-Haq and Maulana Noor Muhammad Wazir.

پشتونوں کے مذہبی علماء اور قوم پرست قائدین کے احوالِ واقعی : اختر خان

عثمان کاکڑ(USMAN KAKAR) کے جنازے پر تقریر میں محمود خان اچکزئی(MEHMOOD KHAN ACHAKZAI) نے کہا کہ تین ماہ بعد بنوں میں تمام پشتون سیاسی جماعتوں جیسے عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علما اسلام ف، پی ٹی ایم اور فعال سماجی سیاسی ایکٹویسٹس شعرا وکلا وغیرہ کا جرگہ بلائیں گے جو مسلسل تین دن تک اس پر غور کرے گا کہ پشتون قوم کی خانہ جنگی کو روکنے کیلئے کیا اقدامات کئے جا سکتے ہیں۔تین دن غور و فکر کے بعد یہ جرگہ متفقہ موقف پاکستان کے سامنے رکھے گا۔اگر پاکستان کو وہ موقف منظور ہوا تو ٹھیک نہیں تو پشتونوں کا یہ جرگہ پشتون قوم کے مستقبل کے بارے میں آزادانہ موقف اختیار کرے گا جو شاید ریاست پاکستان سے ٹکرانے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔
زمینی حقائق کے تناظر میں محمود خان اچکزئی کی تقریر کے ان پہلووں کا جائزہ لیتے ہیں۔پشتون قوم کے اندر خانہ جنگی کی نوعیت کیا ہے؟ اس خانہ جنگی کے مرکزی کردار کون ہیں۔اس پہلو کو سمجھنے کیلئے میں آپ کو اپنے گائوں وانہ وزیرستان کی مثال دیتا ہوں،وانہ کا ایم این اے علی وزیر ان دنوں اس وجہ سے جیل میں ہے کہ ریاست پاکستان کے ادارے علی وزیر کو پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرہ تصور کرتے ہیں۔علی وزیر کو جتنے ووٹ2018 کے الیکشن میں ملے اتنے ووٹ وزیرستان کی تاریخ میں کسی کو نہیں ملے۔علی وزیر کے خلاف جمعیت علما اسلام مولانا فضل الرحمان کے جس بندے مولانا محمود عالم(MOLANA MEHMOOD ALAM) نے الیکشن لڑا وہ افغان طالبان کا مرکزی کردار تھاجو افغانستان میں علی وزیر کے فکری دوستوں جیسے کرزئی اور اشرف غنی کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔یہی مولانا محمودعالم وزیرستان میںگڈطالبان کابھی مرکزی کردار تھا۔اسی طرح(2013 )کے الیکشن میں وانہ کے چند مقامی سرکردہ بیوروکریٹس نے علی وزیر کو ہرانے کیلئے ہر ممکن کوشش کی، یہ بیوریوکریٹس اپنا امیدوار نصیراللہ کو پاس تو نہ کر سکے لیکن علی وزیر کو پاس نہ ہونے دینے میں کامیاب ہوئے(2019)کے صوبائی الیکشن میں علی وزیر کے چچا زاد عارف وزیر(ARIF WAZIR) کو الیکشن میں ناکام کرنے کیلئے بالکل یہی حربہ استعمال ہوا۔علی وزیر وزیرستان میں قوم پرستوں کاترجمان ہے۔مولانا محمودعالم مذہبی پشتونوں اور طالبان کا ترجمان ہے جبکہ بیوروکریٹ نصراللہ کا بیٹا ایم پی اے نصیر اللہ تحریک انصاف کا بندہ ہے۔تحریک انصاف ریاستی اداروں کا گماشتہ ہے۔ مولانامحمودعالم جیسے مولوی اوروزیرستانی بیوروکریٹس علی وزیر جیسے سیاستدان کو نہ صرف اپنا سیاسی حریف بلکہ حسب ضرورت انکے ساتھ جنگ کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں اور یہی وہ پہلو جسکا مظہر آج کل گڈ بیڈ طالبان ہیں۔جسکی وجہ سے پچھلے بیس سال سے وزیرستان میں خانہ جنگی ہے اور اسی وجہ سے پچھلے چالیس سالوں سے افغانستان میں خانہ جنگی ہو رہی ہے۔یہی رسہ کشی پچھلے ستر سال سے پاکستان اور باچاخان اور صمد خان کے پیروکاروں کے درمیان چل رہی ہے۔
باچاخان و صمد خان(BACHA KHAN SAMAD KHAN) جیسے قوم پرست اتنے منقسم اور نفاق کا شکار ہیں کہ الیکشن میں پیپلز پارٹی مذہبی جماعتوں اور مسلم لیگ کیساتھ تو اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر لیتے ہیں مگر ایکدوسرے کیساتھ نہیں کرتے، اسی طرح ووٹ تقسیم اور انکے مخالفین کامیاب ہو جاتے ہیں۔ان قوم پرستوں کے دشمن مذہبی جماعتیں جیسے مولانا فضل الرحمان والے سمیع الحق والے مولانا شیرانی والے سراج الحق والے طارق جمیل والے مفتی تقی عثمانی والے بھی اب اتنے نفاق کا شکار ہیں کہ شاید ہی آپس میں پھر کسی متحدہ مجلس عمل کی شکل میں اکھٹے ہوں۔فرض کریں کہ مذہبی طبقات میں اگر ایک دھڑا جیسے مولانا فضل الرحمان والے اور باچاخان اور صمد خان والے کسی ایک نقطے پر متفق بھی ہو ں تو باقی مذہبی جماعتیں جیسے سمیع الحق، سراج الحق، طارق جمیل مفتی تقی عثمانی اور مولانا شیرانی(samiulhaq,sirajulhaq,tariqjameel,Taqi Usmani,molana sheerani) والے انکے پیچھے پروپیگنڈہ شروع کر لیں گے کہ مولانا فضل الرحمان نے یہود و ہنود کے ایجنٹوں اسفندیار اور اچکزئی کیساتھ دوستی کر لی اور یہ مذہبی طبقے پاکستانی ریاستی اداروں کیساتھ مل کر مولانا فضل الرحمان اسفندیار اور اچکزئی کے خلاف ایسے ہی اتحاد کر لیں گے جیسے علی وزیر یا اسکے امیدوار کے خلاف وزیرستان میں اتحادی بن جاتے ہیں یا جس طرح افغانستان میں کرزئی اور اشرف غنی سے نمٹنے کیلئے افغان طالبان پاکستانی ریاستی اداروں کیساتھ اتحادی بن جاتے ہیں۔
اسفندیار، محمود خان اچکزئی ،علی وزیر جیسے قوم پرست ایک نقطے پر متفق نہیں ہوتے ،ایک متفقہ لائحہ عمل نہیں بنا سکتے۔مولانا فضل الرحمان سراج الحق سمیع الحق مولانا شیرانی طارق جمیل اور مفتی تقی عثمانی کے پیروکار آپس میں اتحاد نہیں کر سکتے تو ان پشتون پرستوں کیساتھ کیا اتحاد کر لیں گے۔جبکہ پاکستانی نوکر پیشہ پشتون تو ویسے ہی پشتون قوم پرستوں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور اس مقصد کیلئے مذہبی پشتون خواہ وہ آج مولانا شیرانی یا سمیع الحق والے ہوں تو پرسوں سراج الحق والے تھے ان پاکستانی نوکر پیشہ پشتونوں کے گماشتے بننے میں کوئی دیر نہیں لگاتے بس موقع کے انتظار میں ہوتے ہیںکہ کب ریاستی اداروں سے ان کو دعوت ملتی ہے۔ سیاسی طبقات اس قدر زوال کا شکار ہیں کہ ساری جماعتیں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوئے لیکن سیاست میں ریاستی اداروں کی مداخلت کیخلاف متفقہ لائحہ عمل بنانے سے قاصر ہیں۔محمود اچکزئی کیلئے قوم پرستوں کو اکھٹا کرنا، مذہبی پشتونوں کے کسی ایک آدھ گروپ جیسے مولانا فضل الرحمان والوں کو اس مقصد کیلئے قائل کرنا شاید تھوڑا آسان ہو لیکن متفقہ لائحہ عمل بنانے پر راضی کرنا آسان نہیںاور بات جب اس نہج تک پہنچے گی توپاکستانی نوکر پیشہ پشتون اور تحریک انصاف کی ذہنیت رکھنے والے پشتون اس گٹھ جوڑ کیخلاف ان سے منظم ردعمل کا منصوبہ بنا چکے ہوںگے۔بابڑہ سے لیکر آج تک کی تاریخ تو یہی کہہ رہی ہے۔
(Nawishta-e-Diwar-July-21-Page-04_syed atiq ur rehman gillani_zarbehaq.com_akhtar khan )

the eligibility criteria of beard and Gown Jubba In our religious institutions (Madaris) allows characters like Mufti Aziz-Ur-Rehman and Sabir Shah to be the Imam of mosque.

ابن عربی ، مفتی عزیز الرحمن، maqam e mahmood, dr habibullah mukhtar, dr abdullah nasih ulwan


طرز نبوت کی خلافت کے قیام کی پیشگوئیاں احادیث صحیحہ کی روشنی میں اور علماء و عوام کی غلط فہمیاں دور کرنے کا ایک علمی اور عالمی میزان

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
بخاری و مسلم میں ہے کہ رسول اللہۖ نے فرمایا کہ قیامت تک امام قریش میں سے ہونگے، خواہ دو باقی رہ جائیں”۔سعودی عرب (saudi arab)کے حکمرانوں کو کب اور کس نے بادشاہت کے منصب پر فائز کردیا ؟۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ۔عام حکمرانوں کیلئے قریش کی شرط نہیں اور عثمانی ترک حکمران بھی قریشی نہ تھے تو سعودی بادشاہوں کے غیر قریشی ہونے میں بھی حرج نہیں۔
سعودی فرمانرواشاہ سلمان (shahsalman)نے بیان دیا کہ بہت سی احادیث من گھڑت ہیں۔ عالمی کانفرنس منعقد کی جائے کہ کونسی احادیث صحیح یا غلط ہیں؟ ۔ معروف مصنف عبداللہ ناصح علوان کی کتاب ”تربیت اولاد” کتب خانوں میں ہے لیکن شباب مسلم ”مسلمان نوجوان” غائب ہے۔ جس کا ترجمہ کرنے والے ہمارے استاذڈاکٹر حبیب اللہ مختارشہید(habibullah mukhtar principle jama binori town) پرنسپل جامعہ العلوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کو قتل کرکے ان کی لاش کو بھی پڑول چھڑک کر جلادیا گیا تھا۔
”مسلمان نوجوان” میں اہم باتیں تھیں۔ یہ حدیث تھی کہ ”نبوت ورحمت کے بعد خلافت راشدہ کا دور آئیگا۔ پھر امارت کا دور آئیگا ۔ پھر بادشاہت کا دور آئیگا ۔ پھر جبری حکومتوں کا دور آئیگا۔ پھراسکے بعد دوبارہ طرز نبوت کی خلافت کا دور آئیگا ،جس سے زمین وآسمان والے دونوں کے دونوں خوش ہونگے”۔خلفاء راشدین ،پھر بنوامیہ و عباس کی امارت پھر خلافت عثمانیہ کی بادشاہت کا دور تھا ۔ (1924 )سے جبری حکومتوں کا دور شروع ہوا ۔اور اب خلافت علی منہاج النبوة کے دور کا دوبارہ آغاز ہونے والا ہے۔ ڈاکٹر عبداللہ ناصح علوان نے یہ حدیث لکھ دی اور شاہ سلمان نے کچھ احادیث سے انکار کردیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا مودودی(molana abukalam azad molana modudi)نے احادیث کی بنیاد پر طرز نبوت کی خلافت کے دور کا لکھ دیا اور مولانا محمد یوسف لدھیانوی (molana yousuf ludhyanvi)نے ”عصر حاضر حدیث نبویۖ کے آئینہ میں” اور مفتی نظام الدین شامزئی نے ”عقیدہ ظہور مہدی”(aqeeda zahoor mehdi) میں یہی احادیث درج کیں۔ مولانامحمد یوسف لدھیانوی اور مفتی نظام الدین شامزئی کو شہید کردیا گیا ۔آج عرب کی ویڈیوزخوابوں سے بھری ہوئی ہیں کہ اس سال حج میں امام مہدی کا ظہور ہوگا اور بعض عرب علماء نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے اس خوف کی وجہ سے امسال حج میں دوسرے لوگوں کی آمد پر پابندی لگائی ہے۔
داعش دولت اسلامیہ عراق وشام پرحامد میر نے بہت بڑا انکشاف کیا کہ ”ابوبکر البغدادی (abubakar albaghdadi)کوئی امریکن یہودی تھا”۔ داعش حدود سے نکل کر افغانستان پہنچ چکی ہے۔ دہشت گردانہ کاروائی کا کھل اعتراف کرتی ہے اور اسکے پیچھے امریکہ کا کھلم کھلا ہاتھ بتایا جاتاہے۔ پیسوں کی بدولت کسی ریاست،جماعت ، قوم اور فرد سے جو کام بھی لو ،وہ ہوسکتا ہے ۔ اگر صابر شاہ امتحان میں پاس کرنے کی لالچ پر مفتی عزیز الرحمن (mufti azizurrehman)کے ہاتھوں استعمال ہوسکتا ہے تو پیسوں کی لالچ میں بھی ایسے اور اس سے کہیں زیادہ بہت برے کام انجام دئیے جارہے ہیں۔
صحیح حدیث میں ہے کہ امام قریش میں سے ہونگے لیکن خلافت عثمانیہ والے قریش نہیں تھے۔ بنوامیہ اور بنوعباس قریش تھے لیکن ان کو بھی خاندانی بنیادوں پر خلافت پر قبضہ کرنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ افغانستان میں طالبان اپنے آپ کو ایک جماعت کے طور پر رجسٹرڈ کرائیں اور اپنے دستور کے تحت جمہوری بنیاد پر عوام سے ووٹ لیکراقتدار کی دہلیز تک پہنچیں تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی۔
پاکستان میں جمہوریت پیسوں اور لال کرتی(lal kurti) کا کردار ادا کرنے والی سیاسی پارٹیوں کی وجہ سے بالکل یرغمال ہے۔ پرویز خٹک نے دوسری سیاسی پارٹیوں سے تحریک انصاف میں شمولیت اختیارکی اور اس کا پورا ٹبر اسمبلیوں میں ہے ۔ تبدیلی سرکار نے خود کو ہی بدل دیا ہے۔ اسلام کے کچھ ٹھوس احکامات ہیں جن کی بدولت نہ صرف پاکستان، افغانستان اور ایران میں تبدیلی آسکتی ہے بلکہ پوری دنیا کے ماحول کو جمہوری بنیادوں پر تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اسلام کا کام دوسروں کے ممالک، وسائل ، افراد اور اقدار پر قبضہ کرنا نہیں ۔ جب دین میں زبردستی کا کوئی تصور نہیں ہے تو باقی چیزوں میں زبردستی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتاہے اور اللہ نے انسانوں کو مختلف تہذیب وتمدن، زبانوں ، خطوں اور مذاہب کی بنیاد پر تقسیم کیا ہے،اگر اللہ چاہتا تو سب کو ایک ہی جماعت بناسکتا تھا۔ حضرت آدم کی اولاد میں پشتون، پنجابی، بلوچ، سندھی، مہاجر، انصار ،رشین ،انگریز، جرمن، فرانسیسی،اٹالین،آسٹریلین ،فارسی،ہندی اورعرب وعجم نہیں تھے لیکن قابیل اور ہابیل میں کردار کی وجہ سے زمین وآسمان کا فرق ضرور تھا۔
قرآن نے کردار اور نیک وبد کے اعتبار سے لوگوں کو دوقسم میں تقسیم کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ ” ہم نے امانت کو زمین ، آسمان اور پہاڑوں پر پیش کیا لیکن بارِ امانت کو اٹھانے سے سب نے انکار کردیا اور انسان نے اٹھالیا اور یہ بڑا ظالم اور انتہائی جاہل تھا”۔ اللہ نے انسان کو مکلف بنایا ہے۔ عرب تکلیف اذیت کو نہیں بلکہ ”اختیاری طاقت” کو کہتے ہیں۔ سورۂ بقرہ کے آخر میں ہے کہ ( لایکلف اللہ نفسًا الا وسعھا…. ربنا ولاتحملنا ما لا طاقة لنا ” )اللہ کسی جان کو مکلف نہیں بناتا مگر اس کی وسعت کے مطابق…… اے ہمارے رب! ہم پر وہ بوجھ نہیں لاد،جس کی ہم میں طاقت نہیں ہے”۔ قرآن کا اردو ترجمہ دیکھ لیا جائے تو بڑے معروف علماء نے قرآن کے ترجمے کی بیخ کنی کی ہے۔ جب اللہ نے واضح کیا ہو کہ اللہ کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا تو پھر اس دعا کی کیا ضرورت ہے کہ” اے ہمارے رب! طاقت سے زیادہ بوجھ ہم پر نہ ڈال ”۔ قرآن میں کوئی تضاد نہیں ہے بلکہ ہندی زبان والوں نے عربی زبان کو سمجھنے میں زبردست غلطی کی ہے۔ مکلف انسان ہوتا ہے جانور کو مکلف نہیں کہا جاسکتا ہے۔ انسان سے اس کی وسعت کے مطابق پوچھ گچھ ہوگی اور ایک شخص اپنے گھر میں اختیار کا مالک نہیں تو اس سے اپنی جان کے بارے میں پوچھا جائے گا، اس طرح گھر، محلہ، علاقہ، ملک اور دنیا میں جتنے اختیار کا وہ مالک ہوگا وہ اتنا مکلف ہے۔ اپنی وسعت کے مطابق مکلف ہونے کا یہ مطلب ہے اور جہاں تک طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالنے کا تعلق ہے تو وہ گدھے پر پڑسکتا ہے اور انسان پر بھی پڑسکتا ہے۔ اسلئے جب وہ بوجھ برداشت نہیں کرتا ہے بہت مشکل میں پڑجاتا ہے۔ جس سے بچنے کیلئے اللہ نے وہیں پر دعا سکھائی ہے
انسان میں فطری طور پر یہ کمزوری موجود ہے کہ وہ اپنے اختیارت کی بہت وسعت مانگتا ہے جبکہ زمین وآسمان اور پہاڑ اس کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں اور اسی وجہ سے انسان کو ظلوماً جہولاً بھی قرار دیا گیا ہے۔ اللہ نے ایک جگہ پر فرمایا کہ ”انسان شر کیلئے ایسی دعا مانگتا ہے کہ جیسے وہ خیر مانگ رہا ہو”۔ اس میں انسان کا اختیارات مانگنے کی حرص کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” جب تمہارے ذمہ لوگوں کو عدل دینا لگ جائے تو پھر انصاف کیساتھ فیصلہ کرو”۔ آج پاکستان میں کروڑوں لوگ بھوک، افلاس، بیماری، ناانصافی اور ہزار طرح کی محرومیوں سے دوچار ہیں لیکن جب کسی کو آرمی چیف، وزیراعظم یا کوئی بھی بااختیار منصب پیش کیا جائے تو وہ لپک کر قبول کرے گا لیکن یہ نہیں سوچے گا کہ حساب دینا پڑے گا تو کیا حال بنے گا؟۔ یہی اس کی ظلمت اور جہالت قرآن میں واضح کی گئی ہے۔
جب دنیا میں عالمی اسلامی خلافت قائم(aalmi islami khilafat) ہوگی تو امام مہدی (imam mehdi)اس بارِ امانت کے اٹھانے کیلئے اپنے دل اور ذہن سے تیار بھی نہیں ہوگا لیکن مجبوراً منصب پر بیٹھنا قبول کرے گا۔ اس کا کام اختیارات سمیٹنا نہیں ہوگا بلکہ جن لوگوں کی عمل داری ہوگی ان سے روپے میں سولہ آنے ڈیوٹی لینی ہوگی۔ جب لوگ اپنے فرائض کی ذمہ داری پوری کرینگے تو سب کو عدل وانصاف بھی ملے گا۔ گھر، محلے ، گاؤں، شہر اور ملک سے لیکر بین لاقوامی سطح تک عدل وانصاف فراہم ہوگا تو سب کے سب انسان خوش ہونگے۔قرآن میں قیامت سے پہلے ایک بڑے انقلاب کی بہت زبردست خبر متعدد مرتبہ موجود ہے۔ حجاز میں مکہ سے مدینہ تک کے لوگ یہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ مسلمان ایک دن روم وفارس ، ہندوسندھ ، بخاراوسمر قند، کاشغر ونیل اور اسپین تک اقتدار کے مالک ہوںگے اور دنیا کو بادشاہت کے مظالم سے نجات دلائیںگے لیکن دنیا نے دیکھ لیا کہ روشن اسلام نے پوری دنیا کے گھپ اندھیرے کو بدل دیا۔ امریکہ و اسرائیل اور اس کے اتحادیوں نے بھی نمرود وفرعون اور تاریخ کے ظالم ترین بادشاہوں سے زیادہ بڑے مظالم کئے مگر مسلمانوں کی عالمی خلافت قائم ہوگی تو دنیا میں کسی ایک انسان پر ظلم وجور تو بہت دور کی بات ہے قہروجبر بھی نہیں ہوگا کیونکہ رحمت للعالمینۖ کی یہ تعلیم ہے۔
دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث مولانا انورشاہ کشمیری(molana anwar shah kashmiri) نے لکھ دیا کہ ” قرآن میں معنوی تحریف تو بہت ہوئی ہے لیکن لفظی تحریف بھی ہوئی ہے یا تو مغالطے کی وجہ سے یا پھر جان بوجھ کر انہوں نے ایسا کیا ”۔ (فیض الباری شرح بخاری)
مولانا عبدالکریم کلاچی ڈیرہ اسماعیل خان نے اکوڑہ خٹک کے مفتی فرید کو اس عبارت پر خط لکھ دیا مگراس نے تسلی بخش جواب نہیں دیاجو فتاویٰ دیوبند پاکستان میں شائع بھی ہوا ہے۔ قرآن میں لفظی تحریف کا عقیدہ کفرہے مگر ہمارا مولوی اپنوں کی تأویل اور دوسروں کی تکفیر میں بڑا تیز ہے۔بریلوی مکتبہ فکرکے علامہ غلام رسول سعیدی نے دارالعلوم کراچی سے فیض الباری کی اس عبارت پر حوالہ دئیے بغیرفتویٰ لے لیا تو اس پر کفر کا فتویٰ بھی لگادیاگیا ہے ۔
مولوی کے نصابِ تعلیم درس نظامی میں اصولِ فقہ اور احادیث وتفسیر کی کتب میں یہ کفریہ عقیدہ بہت شد ومد کیساتھ پڑھایا جاتا ہے لیکن جس دن مولوی طبقے کا بستر گول کرنے اور ان کے مذہبی وتجارتی مراکز مدارس کو ختم کرنے کا وقت آن پہنچے گا تو عوام میں ان کے علم وکردار کو آخری حد تک ننگا کیا جائے گا۔ صحافی حسن نثار(hasan nisar) جیسے لوگ علماء کے خلاف خوامخواہ بھونکتے ہیں۔ پاکستان علی گڑھ کا تحفہ ہے۔ اگر مسلمان پسماندہ ہیں تو علماء کی وجہ سے نہیں بلکہ جدید تعلیمی اداروں میں حسن نثار جیسے بھانڈ پیدا کرنے کی وجہ سے ہے۔ البتہ مولوی اپنے نصابِ تعلیم کی وجہ سے مار کھا رہاہے۔ اوریا مقبول جان(oriamaqbooljan ) جیسے لوگ طالبان اور تحریک لبیک کی پشت پناہی سے اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں۔ مدارس نے اپنے نصاب کی اصلاح نہیں کی تو مذہبی طبقات اپنے نصاب کی وجہ سے مار کھاتے رہیںگے اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ اوریا مقبول جان اور حسن نثار جیسے لکھاریوں اور بھانڈوں کی وجہ سے مار کھاتے رہیںگے۔ مذہبی طبقات نے اپنے ایمان کی فکر کرتے ہوئے نصاب کو ٹھیک نہیں کیا تو یہ ہمیشہ کی طرح ہرباطل نظام کے لے پالک رہیں گے اور جدید تعلیم کا نظام درست نہیں کیا گیا تو امت مسلمہ جاہلوں کے ہاتھوں ہمیشہ استعمال ہوتی رہے گی۔ عمران خان جیسا کھلاڑی بھی فیلسوف اور صوفی بنا پھرتا ہے۔اور ہماری ریاست ، نوجوانوں اور پڑھے لکھے طبقوں کے دلوں پر راج کرتا ہے اس سے بڑی پسماندگی کی دلیل اورکیا ہوسکتی ہے؟۔

the eligibility criteria of beard and Gown Jubba In our religious institutions (Madaris) allows characters like Mufti Aziz-Ur-Rehman and Sabir Shah to be the Imam of mosque.
ہمارے مذہبی مدارس میں جبہ اور داڑھی رکھنے کے بعد مفتی عزیزالرحمن اور صابرشاہ جیسے کردار بھی مسجد کی امامت کے قابل سمجھے جاتے ہیں

Though our country is already declared in Grey list but internally our position and status is worse than Black list.
ہمارا ملک گرے لسٹ میں ہے تو اندورنِ خانہ ہماری حالت بلیک لسٹ سے بدتر ہے۔

مفتی عزیز الرحمن کا سکینڈل تازہ تھا، علی محمد خان(ali muhammad khan pti) نے قومی اسمبلی میں خاتون رکن کے مقابلے میں ” دل کرتا ہے اور زلفوں ” کی بات چھیڑ دی۔ قادر پٹیل کی مراد سعید کے خلاف آواز کی گونج ہے کہ” وہ بڑی مشقت کرکے اسمبلی میں آیا ہے اور خدا ایسی مشقت کسی سے نہ کرائے”۔ شیخ رشید کا بلاول بھٹو کو بلو رانی کہنے سے سیاسی قیادت کے ضمیر وخمیر کا اندازہ لگائیں۔ کسی مدرسہ کے شیخ الحدیث کیلئے آئین کی شق62،63نہیںلیکن پارلیمنٹ کیلئے ہے۔
ہمارے مذہبی مدارس میں جبہ اور داڑھی رکھنے کے بعد مفتی عزیزالرحمن اور صابرشاہ جیسے کردار بھی مسجد کی امامت کے قابل سمجھے جاتے ہیں اور پارلیمنٹ کی نمائندگی اور قیادت کیلئے شیخ رشید، مراد سعید ، نوازشریف اور عمران خان جیسے بھی باکردار اور صادق و امین بن جاتے ہیں۔ کیا پھر قوم کی تقدیر بدلنے کی کوئی امید رکھی جاسکتی ہے؟۔ اگر ہماری ریاست کو جنرل ایوب خان سے لیکر پرویزمشرف(parvaiz musharraf) تک ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا گیا ہے تو اسکی وجہ یہی ہے کہ ہماری ریاست نے بھی سیاسی قومی قیادت کو ہمیشہ ٹشوپیپر کی طرح استعمال کیا ہے۔ بیرون ممالک کیلئے ہمارا ملک گرے لسٹ میں ہے تو اندورنِ خانہ ہماری حالت بلیک لسٹ سے بدتر ہے۔ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والا قوم پرست علی وزیر پاکستان سے قومی اسمبلی کی حالیہ تقریر میںجس جذبے کیساتھ ہمدردی کا اظہار کرتا ہے اسکی مثال ہماری اسمبلی کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ اسٹیبلیشمنٹ(establishment) کو چاہیے کہ عدالتوں سے اس کو فوری طور پر غیرمشروط رہائی کا پروانہ جاری کرنے کی تلقین کردے۔ (PTI)کے سینٹر دوست محمد محسود نے حق بجانب لیکن قوم پرستی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قوم پرستوں،سیاست پرستوں اور مذہب پرستوں میں قدرمشترک یہی ہے کہ سبھی قوم، ملک اور اسلام کا بھلا چاہتے ہیں۔
پارلیمنٹ میں الیکشن و سیاسی معاملات پر اصلاحات کی بات ہوتی ہے لیکن مذہب کے حوالے سے حقائق اجاگر کرنے کی کوئی جرأت نہیں کرتا ہے۔ پشاور میں اہلحدیث اور پنج پیری مسلکوں کا طلاقِ ثلاثہ کے مسئلے پر مناظرہ حکومت کی انتظامیہ نے روک دیا۔ دونوں مسلک عقائد اور اصولِ دین میں ایکدوسرے کی قربت کا احساس رکھنے کے باوجود سوشل میڈیا پر ایکدوسرے کیخلاف مغلظات بک رہے تھے۔ دونوں قرآن وسنت کے دعویدار ہیں۔ پنج پیری قرآن وسنت اور حنفی مسلک پر زیادہ زور دیتے ہیں اور اہل حدیث احادیث پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ اگر ان دونوں کو ٹھنڈے دل وجگر سے سمجھایا جائے تو قرآن وسنت پر ایک مؤقف پر متفق ہوسکتے ہیں۔ البتہ دونوں کو اپنا جمود اور تقلید تحقیق سے توڑنا ہوگا۔
قرآن میں اللہ نے فرمایا :ویسئلونک عن المحیض قل ھو اذًی ”اور تجھ سے حیض کی حالت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہہ دیجئے کہ وہ تو ایک اذیت ہے”۔ قرآن کے ایک ایک لفظ اور ایک ایک جملے میں معانی واصلاحات کے انبار ہوتے ہیں۔ صحابہ نے نبیۖ سے حیض کی حالت کا حکم پوچھ لیا۔ اللہ نے جواب دیا کہ ” ان سے کہہ دو کہ یہ ایک اذیت ہے”۔ قرآن کے اس لفظ نے آئندہ کی آیات میں ترجمہ وتفسیر کو بہت ہی آسان بنادیا۔ عربی لغت میں اذی کا معنی کہیں گند نہیں ہے۔ عربی میں گند کو قذر کہتے ہیں۔ اگر آئندہ آنے والی قرآنی آیات میں عورت کی اذیت کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا تو مسلکی تضادات رکھنے والے گدھے قرآن کے احکام میں اس قدر تفرقے اور انتشار کا شکار نہ ہوتے۔ اس موضوع پر بارہا ہم نے اپنے اخبار اور اپنی کتابوں میں واضح بھی کردیا ہے۔
جب اذی کے معانی غلط لئے گئے کہ اس سے گند مراد ہے تو عورت کیساتھ قرآن کی تفسیر میں بہت زیادتی روا رکھی گئی۔ حیض میں اذیت بھی ہے اور گند بھی اور اس آیت(222)البقرہ کے آخر میں اذیت سے توبہ کرنے والوں اور گند سے دور پاکیزہ رہنے والوںکو پسند کرنے کا بھی واضح فرمایا ہے۔ اگر کوئی اپنے بیٹے یا شاگرد سے کہے کہ یہ میرا اثاثہ یا ایسٹ ہے تو وہ اس عزت نوازی پر بڑا خوش ہوگا اور اگر اس کو اپنا کھیت قرار دے گا تو بہت سخت ناراض ہوجائے گا۔ اللہ نے فرمایا کہ ” تمہاری عورتیں تمہارا اثاثہ ہیں اور جیسے چاہو،ان کے پاس آؤ”۔ فقہاء نے حرث سے مراد کھیتی لیا کہ ”تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں”۔ حالانکہ حرث سے اثاثہ بھی مراد لیا جاسکتا تھا لیکن عورت کی اذیت کا خیال نہیں رکھا گیا تو ترجمہ اور تفسیر میں بگاڑ پیدا کیا گیا۔ کھیتی کو روند کر راستہ بنانے کو وطی کہتے ہیں۔ فقہ کتب میں عورت سے مباشرت کیلئے ”وطی” کالفظ بلکہ فاعل اور مفعول کی گردان بھی بنائی گئی کہ واطی اور موطوہ۔ حالانکہ قرآن میں جماع کیلئے باشر، لامستم ہے لیکن وطی کا لفظ نہیں ہے۔ پھر عورت کیساتھ پیچھے کی طرف سے جماع کرنے کیخلاف بھی بہت احادیث ہیں اور ایسی حدیث بھی ہے جس میں عورت کیساتھ پیچھے کی راہ سے جماع کو جائز قرار دیا گیا جس کی صحیح بخاری میں بھی تصدیق ہے اور اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ متضاد احادیث کیسی گھڑی گئیں ہیں۔
عربی لغت میں عورت سے جماع کیلئے وطی کا لفظ نہیں۔قرآن کی غلط تفسیر کی وجہ سے عربی لغت میں خودساختہ اضافہ کردیا گیا ۔ اگر اذی سے گند مراد نہیں لیا جاتا تو حرث سے کھیتی اورجماع کو وطی کہنے تک بھی بات نہیں پہنچ سکتی تھی۔ قرآن میں دوجگہوںپر وطأ کا لفظ آیا۔ ایک رات تہجد میں اُٹھتے وقت کیلئے( اشد وط ئً واقوم قیلً)ا اور دوسرا یہ کہ مشرک حرمت کے مہینوں کو اپنی جگہ سے دوسرے مہینے کے بدلے تبدیل کرتے تھے۔ تہجد کے وقت انسان کیلئے قرآن کی سمجھ آسان ہوتی ہے اور یہ عربی لغت میں وطأ کا ایک معنی بھی ہے اور اس وقت نفس بھی کچل دیا جاتاہے جس سے بڑا تزکیہ ہوتا ہے۔ وطأ سے اچھی بری دونوں تبدیلی مراد ہوسکتی ہے۔ علاوہ ا زیں بھی بہت سارے معانی پراطلاق ہوسکتا ہے۔ نبی ۖ نے مہدی کیلئے فرمایا : لیواطئی اسمہ اسمی ” تاکہ اس کا نام میرے نام کے موافق ہو”۔ شیخ عبدالقادر جیلانی کے مرید اور ارتغرل غازی کے مرشد شیخ ابن عربی نے لکھا کہ ” نام کے موافق ہونے سے مراد ہمنام ہونا نہیں ہے بلکہ یہ عربی حروف کے وزن کے حساب سے موافق ہونا مراد ہے”۔ بعض روایات میں پھر ماں باپ کے ناموں کی مشابہت کے اضافے بھی کئے گئے۔
امام مہدی (imam mehdi)کسی مسلک اور فرقے کی طرف منسوب ہونے کے بجائے اپنی نسبت اور اپنی راہِ عمل براہِ راست نبیۖ کی طرف کریگا ،اسلئے کہ نبی ۖ کے نقش قدم پر ہوگا۔ نبیۖ کے خلاف دنیا میں جتنی غلط خرافات منسوب ہونگی وہ سب داغ دھبے دھونے کا نعم البدل ہوگا اور پھر دنیا میں نبیۖ کے خلاف کوئی بکواس نہیں کرے گا بلکہ دنیا میں دوست اور دشمن سب کی زباں پر نبیۖ کے قصیدے ہونگے اور اسی کو ”مقام محمود” کہتے ہیں۔ محمود جسکی تعریف کی جائے۔ مذموم کی ضد محمود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبیۖ کو امید دلائی ہے کہ عسٰی ان یبعثک مقامًا محمودًا ”ہوسکتا ہے کہ اللہ آپ کو مقام محمود عطاء کرے”۔ آذان کے بعد بھی مانگنے کی یہ دعا ہے کہ” نبیۖ کو اللہ مقام محمود عطاء کرے ”۔ نبیۖ تمام جہانوں کیلئے رحمت ہیں اور آپۖ کی سیرت کو درست معنوں میں اجاگر کیا جائے تو جس طرح ایک عیسائی مصنف ہیکل نے نبیۖ کو پہلا نمبردیا ہے ،اسی طرح متشددملحدین بھی اپنے دل ودماغ سے پہلا نمبر دیں گے۔ ہیکل نے حضرت عمر کے علاوہ کسی دوسرے صحابی یا مسلمان کا نام اپنی کتاب میں درج نہیں کیا ہے۔ اہل تشیع اپنے چرسی، بھنگی اور ہیرونچی کو بھی نجات یافتہ سمجھتے ہیں جو صرف یاعلی کا نعرہ لگاتے ہیں مگر نبیۖ کے صحابہ سے بغض رکھتے ہیں اور یہ اس غلط ماحول کا نتیجہ ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتا چلا آیا ہے اور اس میں سنیوں کی کتابوں کا بھی بہت بڑا کردار ہے۔ اہل تشیع میں بہت اچھے مسلمان لوگ بھی ہیں اور غلط فہمی کی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے نبی بھائی حضرت ہارون کو داڑھی اور سر کے بالوں سے پکڑسکتے ہیں تو صحابہ کے پاس وحی کا نظام نہیں تھا اور ان کی جنگوں کی وجہ سے تاریخ کے حقائق کو جتنا تلخ انداز میں پیش کیا گیا ہے اگر اہل تشیع کے محققین نے اپنے ضمیر سے انصاف کیا تو وہ امام حسن سے عقیدت چھوڑ دینگے بلکہ حضرت علی سے بھی نالاں ہونگے اورپھر ہمیں فکر ہوگی کہ ابوبکر و عمر کی بات چھوڑ دیں یہ اپنے پہلے دوسرے امام کو تسلیم کرلیں تو بھی غنیمت ہوگی۔ پھر امام حسین کے بعد میں آنے والے ائمہ کواپنے معیار پر پورا نہیں سمجھیںگے اور غائب امام کا عقیدہ بھی چھوڑدیں گے حالانکہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے اترنا اور حضرت خضر کی زمین پر موجود گی درست ہے توامام مہدی غائب کے عقیدے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
اہل تشیع کی شد ومد سے مخالفت کرنے والوں نے افہام وتفہیم کا راستہ محدود کردیا ہے اور تشدد میں فرقوں کو تجارت اور بین الاقوامی سازشوں کے تحت اسلام کو بدنام کرنے والوں کو امداد ملتی ہے اسلئے جب تک ان کے مفادات رہیں گے یہ اپنی حرکتوں سے مشکل ہی سے باز آئیںگے۔ آج تک ہم نے حضرت عائشہ پر بہتان لگانے والے حضرت حسان، حضرت مسطح اورحضرت حمنا بنت جحش پر غصہ کھانے اور افسوس کا کوئی مظاہرہ نہیں دیکھا ہے۔ اہل تشیع کے بعض لوگوں کی جنگ جمل کی وجہ سے حضرت عائشہ کی مخالفت کوئی توہین نہیں۔ جب نبیۖ نے فرمایا کہ” عمار(hazrat ammar) ایک باغی گروہ کے ہاتھوں شہید ہونگے”۔ عمار وابوبکرہ علی کی طرف سے لڑرہے تھے، بخاری میں ابوبکرہ سے روایت ہے کہ نبیۖ نے فرمایا کہ ” وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہوسکے گی جس کی قیادت عورت کے ہاتھ میں ہو”۔ ابوبکرہنے مخالفین کے خلاف حدیث پیش کی۔ ابوبکرہ نے مغیرہ ابن شعبہ کے خلاف زنا کی گواہی پر کوڑے کھائے اور صحیح بخاری کی روایت اور امام ابوحنیفہ اور جمہور ائمہ میں اختلافات کی بنیاد پر مسلک سازی اور قانون سازی بہت بڑا المیہ ہے۔اگر پاکستان کی پارلیمنٹ میں اس پر بحث ہوجائے تو بہت اچھا ہوگا۔
جب مدارس کے علماء قرآن کے خالص احکام کے مقابلے میں اپنا اجتہادی غیر ضروری مواد چھوڑ دیں گے تو نہ صرف مذہبی طبقہ، عام عوام، سیاسی طبقات اور مسلمانوں کے جدید طبقات میں انقلاب آئیگا بلکہ دنیا بدلنے میں دیر نہ لگے گی۔
(June=Special-2–page-4_syed atiq ur rehman gillani _navishta e diwar _akhtar khan _ptm_ali wazir _manzoor pashtoon _zarbehaq.com)

Review of Few shariah problems selected from familiar books Fiqa e Hanfia. Zandan Maseed

(کی ورڈ: فتاویٰ قاضی خان، فتاویٰ شامی، فتاویٰ عالمگیری ، Zandan Maseed)

حنفی فقہ کی مشہور کتابوں سے چند شرعی مسئلے ملاحظہ کریں۔
مولویوں کی جہالت ملاحظہ فرمائیں: زانڈان ماسید( محسود)فیس بک آئی ڈی

ہم مسلمانوں پر فقہاء کرام کے بیش بہا خدمات و احسانات ہیں جو بھلانے کے قابل نہیں ۔ دن رات دنیاوی مشاغل کو ترک کرکے قرآن و حدیث سے جو استنباط ان لوگوں نے کیا انکی نظیر نہیں ملتی یہاں تک آتا ہے کہ رات کو علمی مجلس لگتی مسئلے پر بحث ہوتی صبح کی اذان ہوتی یہاں تک مسئلے کا صحیح استنباط کیا جاتا ۔
ذیل میں حنفی مذہب کی مشہور کتابوں سے چند مسئلے بطور مثال سطور میں رقم کرتا ہوں تاکہ آپ لوگوں کو فقہائے کرام کی ان عظیم خدمات اور انمول کاوشوں کا پتہ لگ جائے کہ قرآن و حدیث سے لاکھوں مسائل کیسے نکالے جاتے ہیں ۔ بظاہر تو قرآن و حدیث چند کتابیں ہیں پر مولوی صاحب جو کروڑوں کے بجٹ کے کتب بتا رہا ہے اسکا پتہ لگ جائے کہ یہ مکتبے اور لائبریریاں خالی نہیں ان میں کیسے کیسے نوادرات ہیں ، ایسا نہ ہو کہ آپ انجانے مولوی صاحب کے سچ کو جھوٹ کہہ کر گناہ کے مرتکب ہوجا ۔
1: جس نے کسی دوسرے شخص کی بیوی کو پیچھے سے استعمال یعنی دبر میں جماع کیا یا لڑکا استعمال کیا تو اس پر حد نہیں ۔ فتاوی قاضی خان
( جلد 3 صفحہ369 )
2 :اگر کوئی بادشاہ زنا کرے ، شراب پئے یا قتل کرے اس پر کوئی حد نہیں ۔ عالمگیری 2/151( ۔قاضی خان 3/478 ۔ھدایہ کتاب الحدود 2 /448 )
3: عورت کی شرمگاہ کی رطوبت پاک تھوک جیسی ہے ۔( شامی جلد1صفحہ 236)
4: اگر چھوٹی بچی ، جانور یا مردہ عورت سے کوئی جماع / ہمبستری کرے دخول ہوجانے پر پانی نہ نکلے تو غسل واجب نہیں ۔
( فتاوی عالمگیری 1/15)
5:جس نے اپنے ساتھ زنا کیا یعنی اپنے پچھواڑے میں اپنا شتر مرغ داخل کیا اور انزال نہیں ہوا تو غسل واجب نہیں ۔
(درمختار 1/31 )
6:نماز کی امامت وہ کرے جس کی بیوی خوبصورت ہو اس کے بعد اس کا سر بڑا ہو اسکے بعد اسکا شتر مرغ یعنی اندام مخصوصہ چھوٹا ہو۔ (طحطاوی و درمختار 1/82 )
7:جس نے کسی چھوٹی بچی سے جماع کیا اور قابل جماع نہ تھی اور اندام مخصوصہ پھٹ گئی تو اس پر حد نہیں ۔
(فتاوی قاضی خان 3/469)
8: اگر کوئی تشہد کے آخر میں سلام سے پہلے پاد مارے اور ہوا خارج کرے تو اسکی نماز کامل ہے ۔
(منیہ المصلی ۔صفحہ 123 )
9:اگر کسی نے عورت کو کرایہ پر لیا اور اسکے ساتھ زنا کیا تو حد نہیں ۔( 3/468)
10:اگر کسی نے عورت سے زنا کیا اور بعد میں کہا کہ یہ میں نے خریدی ہے تو اس پر حد نہیں۔( فتاوی عالمگیری 1/151)
اوپر ذکر کئے گئے مسائل میں اگر کوئی مسئلہ غلط ہے اور مذکورہ کتابوں میں نہیں ہے تو نشاندہی کرنے پر ڈلیٹ کردینگے ۔قاری الطاف ادیزئی
(Nawishta-e-Diwar-July-21-Page-01 syed ateq ur rehman gillani _zarbehaq.com_zandan maseed)

The broadcasting institutions BBC &VOA, are part and parcel of war against terror policies: Akhtar khan.

(کی ورڈ:بی بی سی، وائس آف امریکہ،مولانا سلیم اللہ خان، Zandan Maseed)


مریکہ اور برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اور وائس آف امریکہ، جنگی پالیسی کا حصہ ہیں: اختر خان

گزشتہ دس گیارہ سالوں سے( BBCاورVOA)ڈیوہ مشعل کو بہت قریب سے دیکھ اور سن رہے ہیں انکا کاروبار،رپورٹنگ جنگ سے جڑی ہوئی ہے۔ جنگ جاری رہے گی انکا کاروبار چلتا رہے گااور جنگ بندتو انکا حساب بند ۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جنگ امریکہ اوربرطانیہ کا دہائیوںسے سب سے بڑا کاروبار رہا ہے اسلحہ بیچنے میں آج بھی امریکہ پہلے نمبرپر37% ہے۔ انکو یہ اسلحہ بیچنے کیلئے دوسرے ممالک میں جنگیںبرپا کرنی پڑتی ہیں۔ جنگوں کیلئے ماحول سازگار بنانے عوامی ذہن سازی کیلئے انہوں نے اپنے مخصوص پروپیگنڈہ ریڈیوز رکھے ہیں۔ جو ان ممالک کے اندرونی بدترحالات پر بات نہیں کر سکتے لیکن پاکستان اور افغانستان کیلئے دن رات ایک کیے ہوتے ہیں۔ عوام کے ذہنوں میں زہر گھولنا انکا صبح سے شام تک وطیرہ رہتا ہے۔
اپنے ان دوستوں جو ان ریڈیو سٹیشن کیساتھ منسلک ہیں معذرت کیساتھ کہ ہمارا اختلاف آپکے ساتھ نہیں، بلکہ آپکے ادارے کے ملک اور انکی جنگی پالیسی کو آپکے ادارے کے اور آپکے زریعے جس طرح پھیلایا جاتا ہے ھمارا اختلاف اس سے ہے۔ ہر اس رپورٹ کی قیمت دونوں اداروں کے رپورٹرز کو زیادہ ملتی ہے جس میں زہریلا پن زیادہ ہو، جس میں جنگ و جدل یا نفرتوں کا پرچار زیادہ ہو۔ جس سے ملکوں میں انارکی پھیلے وہ رپورٹ سب سے قیمتی ہوتی ہے۔
خطے (افغانستان+پاکستان)کیلئے دونوں ممالک کی مستقبل کی پالیسی انکے چینلز کی منافقت سے خود اخذ کریں۔ یہ ایک طرف پشتون قوم پرستوں کی تحریکوں کو بڑھاوہ دیکر جنگی(Conflict)والی صورت حال پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف افغانستان و پاکستان میں طالبان کے حملوں کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں تاکہ عوام میں ایک جنگی صورت حال اور افراتفری والی سوچ قائم ہو۔اور جنگ کا ماحول ہر حال میں بنا رہے۔
لہٰذا ان چینلز کا بائیکاٹ کرکے جنگ کے اصل کرتا دھرتاؤں امریکہ اور برطانیہ کی انسان دشمنی اورپشتون دشمنی کو پہچانیں۔ انکو ایکسپوز کریں۔درمرجان وزیر
زانڈن ماسید(Zandan Maseed)اور اخترخان کی تائید
دنیا کو فتح کے طالب، مجاہد اور مولوی کو اپنی کتابوں سے خرافات نکالنے کی توفیق کیوں نہیں ؟۔ علماء اپنی اسٹیبلشمنٹ سے جان چھڑائیں۔ فوج کی قیادت کا امریکہ کوہاں کرناغلط تھا لیکن عالمی بینکنگ کے سودی نظام کو جواز فراہم کرنا شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی اور مفتی اعظم مفتی منیب الرحمن کیلئے کیسے جائز تھا؟۔ صدر وفاق المدارس مفتی محمود، مولانا سلیم اللہ خان، ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے مفتی تقی عثمانی کی مخالفت کی مگرسبھی ناکام تھے۔وائس آف امریکہ کے شمیم شاہد(shamim shahid) نے جیوچینل کی طرح ہمارا پروگرام نشرنہیں کیا۔ اختر خان نے ٹھیک لکھا کہ چینلوں کے ملازموں سے گلہ نہیں مالکان جنگ کی فضاء پیدا کرنے میں بہت مگن ہیں۔
اگر مذہبی اورقوم پرست طبقات برطانیہ اور امریکہ کے نشریاتی دجالی میڈیا کو سمجھ جائیں اور آپس میں لڑنے مرنے کے بجائے صلح ، انسان دوستی ، خدا پرستی اور عدل و انصاف پر مبنی ایک نظام تشکیل دیں تو دجالی میڈیا کا کردار بالکل یہاں سے ختم ہوجائے گا۔ خوبصورت کالے تیتروں کا مقابلہ فقط آوازوں سے ہوتا ہے اور ہم بھی کردار کے نہیں گفتار کے غازی ہیں اور کردار ہوتا بھی ہے تو شیطانی۔سید عتیق الرحمان گیلانی
(Nawishta-e-Diwar-July-21-Page-01 syed atiq ur rehman gillani akhtar khan)

Taliban terrorist are Dajjals battalion…point of view of JUI leader Molana Fazal-Ur-Rehman. Mulla Umer was a Mehdi…Opinion of Molana Yousaf Binori (R.A)’s student.

(کی ورڈ: ملا عمر، دجال، خراسان، امام مہدی، مولانا محمد یوسف بنوری)


خراسان کے دجال کا لشکر طالبان دہشت گرد ہیں۔ قائدجمعیت مولا نافضل الرحمن کا مؤقف
ملاعمر ایک مہدی تھے۔ مولانا بنوری کے ایک شاگرد کا مؤقف

اس مرتبہ اخبار کے جملوں اورالفاظ کی تلخیوں میں پاکستانی ریاست، افغان طالبان، پختون قوم پرستوں کی بیماری کے علاج کا تریاق ہے۔اگرپاکستان ، طالبان ،قوم پرستوں نے کچھ سیکھا تو بیڑہ پار ہوگا،انشاء اللہ ۔غورسے پڑھو،یہ محنت سے لکھاہے
خوشامد، چاپلوسی سے قومیں تباہ ہوجاتی ہیں،نبیۖ نے فرمایا: خوشامد کرنیوالے کے منہ پرمٹی ڈال دو
خوشامدی ٹولوں نے اپنی حقیر کوششوں سے جہادیوںاور فوجیوںاور سیاستدانوں کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا
افغانستان کے طالبان یا خراسان کے دجال کا لشکر؟
رسول اللہۖ نے فرمایا: خراسان کی طرف سے دجال آئیگا۔جسکے ساتھ اقوام ہوں گی جنکے چہرے ڈھال ( جیسے ازبک گول)اور ہتھوڑے(جیسے پٹھان لمبوترے ) کی طرح ہونگے۔
( خراسان کے دجال کا لشکر طالبان دہشت گرد ہیں۔ قائدجمعیت مولا نافضل الرحمن)

جب افغانستان میں روس کیخلاف کرائے کا جہاد شروع ہوا توامریکہ، ایران، چین، پاکستان، عرب ممالک، اسرائیل، یورپ،برطانیہ،آسٹریلیا اور پوری دنیا کا سرمایہ دارانہ نظام اسکا حصہ دار تھا۔ حمیداللہ لنگر خیل محسود (hameedullah langar khail)نے بتایا کہ ایک افغانی مسلمان کو ہم نے روس کے خلاف جہاد میں پکڑلیا اور اس سے کلمہ پڑھنے کا کہا تو اس نے کہا کہ میں پانچ وقت نماز پڑھتا ہوں اور تم سے بہتر مسلمان ہوں لیکن خدا کی قسم ! تم گانڈو لوگوں کے کہنے پر کلمہ نہیں پڑھوں گا۔جس کو پھر ہم نے قتل (شہید) کردیا”۔حمید اللہ کا ایک بھائی وحیداللہ کشمیر میں شہیداور دوسرے بھائی عابد کا پیر مائن لگنے سے افغانستان میں کٹ گیا تھا۔ اس نے یہ بھی مجھ سے کہا تھا کہ” ایک جہادی تنظیم کے پاس ڈیڑھ کروڑ ریال پڑے ہیں جو وزیرستان(waziristan) میں ایک بڑا مدرسہ اور جہادی مرکز بنانا چاہتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ آپ کے علاوہ کسی اور پر ان کو اعتماد نہیں ہے ۔ ڈیڑھ کروڑ ریال کے علاوہ سارا خرچہ وہ برداشت کریں گے۔ آپ اپنا مشن بھی پھیلائیں اور مرکز بھی بنائیں۔ میں نے کہا تھا کہ میں دوسروں کیلئے پیسوں کی بنیاد پر استعمال نہیں ہوسکتا ہوں”۔
مفتی نظام الدین شامزئی کا حامدمیر نے لکھا کہ ”ایک جہادی تنظیم علماء کو خرید رہی ہے جس کو واشنگٹن سے براستہ رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ پیسہ آرہا ہے، اگر وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئی تو اس کا بھانڈہ بیچ چوراہے پھوڑدوں گا”۔ اور پھر حامد میر (hamid mir)نے یہ بھی لکھا کہ ”واقعی اگر وہ جہاد کے نام پر علماء کو خریدنے کی سازش سے باز نہیں آئے تو ان کا بھانڈہ پھوڑ دینا”۔ ہم نے ماہنامہ ضرب حق کراچی میں اس پر بہت واضح الفاظ میں مفتی نظام الدین شامزئی (mufti nizamuddin shamzai)سے مطالبہ کیا تھا کہ امریکہ کے ایجنٹوں کو مہلت مت دو لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوسکا۔ پھر مفتی شامزئی کو شہید کیا گیا۔ مولانا مسعود اظہر(molana masood azhar)کو انڈیا سے جہاز ہائی جیکنگ کے ذریعے رہاکیا گیا تو مولانا نے کہا تھا کہ” جیل میں بارہ سرنگیں کھودی گئی تھیں جن میں ایک سرنگ میرے سائز کی بھی تھی”۔ جس پر ہم نے لکھ دیا تھاکہ ” کیا مولانا کے سائز کی ایک سرنگ سب کیلئے کافی نہیں تھی۔ یہ امریکی (CIA)کا کھیل ہے جو بھارت، پاکستان اور افغانستان میں اپنے اثرو رسوخ کا کھیل دکھارہاہے”۔
جب(9/11)کے بعد القاعدہ اور طالبان کے نام پر جذبہ جہاد کا کھیل شروع ہوا تو مجھے کسی نے کہا کہ ”پاکستان نے یوٹرن لیکر بہت برا نہیں کیا؟۔میں نے کہا کہ پاکستان نے کوئی یوٹرن نہیں لیا ،پہلے بھی امریکہ(america) کے کہنے پر سب کررہاتھا اور آج بھی وہی کررہاہے”۔ لوگ اس بات پر تقسیم تھے کہ پاکستان نے یوٹرن لیکر اچھاکیا یا برا کیا؟ لیکن ہم نے بین الاقوامی سازشوں کے تسلسل کی بات کردی۔ آج وزیراعظم عمران خان بک رہاہے کہ ” امریکہ کو جواب دیا ہے، جب امریکہ نے اڈے خالی ہی نہیں کئے ہیں تو سب سے پہلے صدر ، وزیراعظم(imran khan)، آرمی چیف(genral qamar javaid bajwa)، ڈی جی آئی ایس آئی اور تمام اپوزیشن لیڈر ان ائربیسوں کا مل کر دورہ کرنا شروع کریں جو آج بھی امریکہ کے حوالے ہیں۔ نہیں تو کل کہا جائے گا کہ ہم تو انکار کررہے تھے امریکہ یہاں سے خود نکل نہیں رہاہے تو ہم کیا کرسکتے ہیں؟”۔
افغانستان میں خونریزی کا بازار گرم ہے۔ طالبان اور افغان حکومت کی لڑائی میں نقصان مسلمانوں اور افغان عوام کا ہے۔ مولانا فضل الرحمن(molana fazalrehman) اس بات کی وضاحت کریں کہ جمعہ کے خطبہ میں اس نے طالبان پر جب خراسان کے دجال کے لشکر والی حدیث فٹ کی تھی تو کیا آج حدیث کا حکم بدل گیا ہے یا بدستور ان پر دجال کے لشکر کا اطلاق ہوتاہے؟ ۔ جب ایک دفعہ بہت بڑے پیمانے پر اس خطے میں کشت وخون کا بازار گرم ہوجائے تو پھر سچ بولنا بھی بیکار ہوگا۔ صحیح بخاری کی حدیث میں دجال کے بارے میں یہ واضح ہے کہ” وہ مسلمانوں میں سے ہوگا،شایدیہ پتہ نہ چلے کہ وہ دجال ہے ۔اسکے لشکرکی سب سے بڑی نشانی لوگوں کے جان ، مال اور عزت کی حرمت کو پامال کرنا ہوگا”۔
مولانا فضل الرحمن (MRD)میں افغان جہاد کے مخالفین میں شامل تھے ۔ انکا بیان چھپا تھا کہ ”افغان جہادپاکستان کیلئے منافع بخش سونے کی چڑیا ہے”۔
افغانستان کے طالبان یا خراسان کے مہدی کا لشکر؟
رسول اللہۖ نے فرمایا: جب تم خراسان سے کالے جھنڈے دیکھ لو، تو ان کی طرف آؤ۔ خواہ تمہیں برف پر چوتڑیں گھسیٹ کر بھی آنا پڑے۔( یہ وہ مہدی نہیں جس کا ظہور مدینہ سے ہوگا۔ منصب امامت: شاہ اسماعیل شہید۔ملاعمر ایک مہدی تھے۔ شاگرد مولانا بنوری)

جب ملاعمر کی افغانستان میں حکومت قائم ہورہی تھی تو مجھ سے ٹانک میں آئی ایس آئی کے ایک خٹک اہلکار نے کہا کہ آپ خلافت چاہ رہے تھے ، افغانستان میں خلافت (khilafat)کا نظام قائم ہونے جارہاہے،آپ خود بھی اور اپنے ساتھیوں کو بھی افغانستان لے جائیں۔ میں نے کہا کہ ” پاکستان میں آپ خلاف ہیں لیکن افغانستان (afghanistan)میں آپ خلافت چاہ رہے ہیں تو یہ امریکہ نے آپ کو حکم دیا ہوگا؟”۔ جس کے بعد وہ اہلکار نظر نہیں آیا۔ میں نے مولاناشیرمحمد امیر جمعیت علماء اسلام کراچی کو فون کیا تو انہوں نے کہا کہ افغانستان میں خلافت قائم ہوگئی ۔ میں نے جواب دیا کہ امریکہ نے ہی قائم کی ہوگی۔ مولانا شیر محمد (molana shair muhammad)نے بڑا قہقہ لگایا کہ آپ کو کیسے پتہ چلا۔ میں نے آئی ایس آئی والے کی بات ان کو بتادی ہے ۔
مولانا محمد خان شیرانی اور جمعیت علماء کے بعض علماء طالبان کیخلاف اور بعض حامی تھے۔ مولانا فضل الرحمن کا رویہ ہمیشہ بین بین رہا تھا۔ جب مولانا شیر محمد کو طالبان (taliban)کے حامی دھڑے نے افغانستان کا دورہ کرایا تو مولانا شیر محمد نے رورو کر کہا کہ وللہ باللہ طالبان نے صحابہ کی یادیں تازہ کردی اور ان کو ہماری ایجنسیاں سازش کے تحت بدنام کررہی ہیں۔ مجھ سے مولانا شیر محمد نے کہا کہ آپ بھی ملاعمر(mulla umer) سے بیعت ہوجاؤ۔ میں نے عرض کیا کہ میں کیوں بیعت ہوجاؤں؟۔ کہنے لگے کہ امیر کی بیعت شریعت کا حکم ہے۔ میں نے عرض کیا کہ میں شریعت کے اس حکم پر عمل کروں گا لیکن پہلی بات تو یہ ہے کہ ملاعمرنے اپنی امارت کو افغانستان تک محدود کیا ہے اور اس کا اقوم متحدہ اور دنیا سے مطالبہ ہے کہ میری حکومت کو افغانستان میں تسلیم کیا جائے۔ جب وہ خود افغانستان سے باہر کے لوگوں کیلئے امیرالمؤمنین کی بات نہیں کرتا ہے تو ہم کیسے ان کو امیر المؤمنین تسلیم کریں؟۔ دوسرا یہ کہ جمعیت علماء اسلام اعلان کردے کہ ملا عمر امیر المؤمنین ہے تو بھی میں بیعت ہوجاؤں گا لیکن جب تم لوگ خود بھی اپنے لئے ان کو امیر المؤمنین نہیں مانتے تو مجھ سے یہ مطالبہ درست ہے کہ بیعت ہوجاؤں؟۔ پھر کچھ عرصہ بعد مولانا شیر محمد طالبان کو بہت برا بھلا کہنے لگے کہ” افغانستان میں ہیلی کاپٹروں کو رکشے کی طرح استعمال کررہے ہیں اور پاکستان میں افغانی بچے کچرے کنڈی کے ذریعے اپنا پیٹ پالتے ہیں۔ یہ اسلام نہیں بین الاقوامی سازش ہے”۔
جب افغانستان پر امریکہ نے حملہ کیا تو طالبان شوریٰ کے ایک رکن مولانا عبدالرحمن نے کہا تھا کہ اللہ کا طالبان پر عذاب ہے، یہ قوم لوط کے عمل میں مبتلاء تھے۔پھر طالبان نے چوتڑ تک لمبے بال رکھ کر جہاد شروع کیا یا فساد؟لیکن اس میں خطے کے اقدار کیساتھ اسلام کے چہرے کو بھی بڑا داغدار بنادیا۔ سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر(salman taseer son shehbaz taseer)کو لاہور اور سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے سید حیدر علی گیلانی(syed yousuf raza gellani son syed haider ali gillani) کو ملتان سے اغواء کرکے افغانستان پہنچایا گیا،جن کی داستانیں سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ ٹانک سے ایک لیڈی ڈاکٹر کو اغواء کرکے تاوان وصول کرکے چھوڑ دیا گیا تھا۔ امریکہ اور دنیا بھرکی ایجنسیوں نے روابط رکھے اور لڑائی بھی کی۔ طالبان اپنی جیت اور امریکہ اپنے اہداف کے پورا ہونے کا اعلان کررہا ہے۔
شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید(shah isaeel shaheed)نے اپنی کتاب ”منصب امامت” میں لکھا تھا کہ ”خراسان سے بھی مہدی کے نکلنے کی حدیث میں پیش گوئی ہے اور یہ مہدی آخرزماں کے علاوہ دوسرے مہدی ہیں کیونکہ مہدی آخر زماں مدینہ اور مکہ سے نکلیں گے اور یہ خراسان سے نکلنے والے مہدی کوئی اور ہیں”۔ حضرت مولانا یوسف بنوری کے ایک شاگرد نے ظہور مہدی (zahoor e mehdi)پر ایک کتاب لکھی ہے جس میں ملاعمر کو خراسان کا مہدی قرار دیا گیا ہے۔سید احمد شہید پر بھی مہدی کا گمان کیا گیاتھا لیکن اصل بات یہ ہے کہ کردار سے کوئی مہدی یا دجال() بن سکتا ہے۔ اگر افغانستان کے طالبان نے دنیا میں اسلام کے نفاذ اور مہدی کا کردار ادا کیا تو وہ آج بھی اپنے کسی امیر کو پوری دنیا کیلئے امام مہدی بناسکتے ہیں۔
حبیب جالب ، ولی خان ، محموداچکزئی اور جنرل ضیاء کے مخالفین فلسطین کے جہاد کو چھوڑ کر افغانستان میں تماشہ لگانے کے خلاف تھے مگر ان کی ایک نہ چلی۔
(navishta e dewar july shumara _ zarbehaq.com_afghanistan taliban _ khurrasan_dajjal_mehdi_syed atiq ur rehman gellani)

It would be beneficial if presidentship of Wifaq Ul Madaris Pakistan be assigned to both Ulmaa, namely Molana Imdadullah and Molana Asmat.

وفاق المدارس پاکستان کی صدارت مولانا امداد اللہ اور مولانا عصمت اللہ جیسے علماء کو دی جائے جو اپنی صلاحیتوں صحیح استعمال کرکے وفاق کے زیر انتظام مدارس میں کردار سازی کو یقینی بنائیں۔بدفعلی اور بدکرداری کو جڑ سے ختم کریں !

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

وفاق المدارس (wifaqulmadaris)پاکستان کی صدارت مولانا امداد اللہ اور مولانا عصمت اللہ (molana asmatullah)جیسے علماء کو دی جائے جو اپنی صلاحیتیں صحیح استعمال کرکے وفاق کے زیر انتظام مدارس میں کردار سازی کو یقینی بنائیں۔بدفعلی اور بدکرداری کو جڑ سے ختم کریں !
تحریر:سید عتیق الرحمان گیلانی
حکومت، اہل علاقہ اور طلبہ کے سرپرستوں کی ٹیمیں تشکیل دی جائیں جوآزادانہ طریقے سے ماحول کا جائزہ لیکر مدارس میں اگر کوئی خرابی ہو تو اسے ٹھیک کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں!
جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن(binori town) کراچی کردار سازی میں (A1)ہے۔ اچھے مدارس میں طلبہ اور ساتذہ کو غلط حرکت پر فوراًنکال دیتے ہیں۔قاری حنیف جالندھری (qari hanif jalandhri)کو برطرف کردیا جائے
شیخ الحدیث مفتی عزیز الرحمن (mufti azizurreman)نے ایک تو بدفعلی کا ارتکاب کیا اور پھر وضاحتی تحریری بیان ویڈیو میں پڑھ کرخودسنادیا تو اپنے آپ کو مزید پھنسابھی دیاہے۔ جب یہ ویڈیو سامنے آئی تھی اور مجھے پہلی بار ساتھی نے دکھائی تو مجھے یہ گمان ہوا کہ فاعل مفتی عزیرالرحمن اور مفعول صابر شاہ(sabir shah) نے بھاری پیسہ لیکر علماء و مفتیان کو بدنام کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ پھر جب مجھے اپنے بھتیجے نے بتایا کہ اس نے اپنا وضاحتی بیان بھی دیا ہے اور اس میں اقرارِ جرم کیا ہے تو بھی میں اپنے مؤقف پر ڈٹ گیا کہ اعترافِ جرم سازش کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ جب مجھے یہ بتایا گیا کہ وہ جمعیت علماء اسلام اور مجلس ختم نبوت (majlis khatme nabuwat)کے رہنمااور مدرسہ کے اہم عہدے پر فائز ہیں تو میں نے کہا کہ پیسہ کی خاطر جو باروداپنی پشت میں دباکر دھماکے کرتے ہیں،سود (sood)کو جائز قرار دیتے ہیں، اپنی بیگمات کو چلاتے ہیںتو کیا مذہبی طبقات کی بدنامی میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے پیسہ لیکر بدفعلی کی ویڈیو نہیں بناسکتے ؟۔
بعید نہیں کہ مفتی عزیز الرحمن نے بھاری معاوضہ لیکر ڈرامہ رچایا ہو۔ معاوضہ لیکر پشت میں بارود چھپاکر خود کش حملے کئے جائیںاور سودی نظام(soodi nizam) کو جائز قرار دیا جائے توبے شرم لوگ ایسی شرمناک ویڈیو بھی بناسکتے ہیں۔ فوجی افسران ملک کے راز بیچ سکتے ہیں اور سزائے موت کھاسکتے ہیں ۔ سیاسی لیڈر شپ کھلے عام جھوٹ بک سکتی ہے جس کا کام کردار کی بنیاد پر ووٹ لینا ہوتا ہے تو سب کچھ ہوسکتاہے!
ہمارا عدالتی نظام (court law)ویڈیو کو اعترافِ جرم نہیں سمجھتا۔ وزیراعظم نوازشریف (nawaz sharif)نے بہت ڈھٹائی کیساتھ پارلیمنٹ میں ایون فیلڈ (aeven field)لندن کے فلیٹ خریدنے کے اعداد وشمار بتائے کہ (2005ئ) میں سعودی(saudia) اور دوبئی (dubai)کی اراضی اور مل بیچ کر فلیٹ (2006ئ) میںخریدے۔ جوعدالت میں تمام ثبوتوں کیساتھ پیش کرسکتا ہوں۔ نوازشریف نے پارلیمنٹ میں سوالات کے جواب سے انکار کردیا۔پھر معاملہ عدالتوں میں چلا۔ پھر اپنے بیان سے مکرگیا اور قطری خط لکھنے کا ارتکاب کیا اور پھر قطری خط سے بھی آخر لاتعلقی کا اعلان کردیا۔ ہوسکتا ہے کہ آئندہ اس کے تمام کیسوں کو ختم کرکے وزیرا عظم کے عہدے پر بحالی کا اہل قرار دیا جائے اور اس کی یہ رٹ بڑی مقبول بن جائے کہ ”مجھے کیوں نکالا اور ووٹ کو عزت دو”۔
اگر شیخ الحدیث مفتی عزیز الرحمن عدالت سے بری ہوکر آئیگا تو رٹ لگائے گا کہ ”مجھے کیوں نکالا، داڑھی کو عزت دو”(darhi ko izzat do)؟۔ جامعہ منظور الاسلامیہ، جمعیت علماء اسلام اور وفاق المدارس پاکستان(pakistan) اس کو منصبِ دلبری پربحال کردیں گے؟۔ سیاست میں شرم وحیاء ، غیرت و حمیت اور اقدار وروایات کو طاقِ نسیاں میں رکھا گیا ہے لیکن مذہبی طبقے (religious)پر بھی اس کا اتنا بڑا اثر پڑا ہے کہ اس شرمناک ویڈیو کے بعد اتنی بے شرمی سے اپنے معمولات کا مفتی عزیز الرحمن نے اسطرح سے اظہارکردیا جیسے میاں بیوی کے آپس کا کوئی کھیل ہو۔ اپنی صفائی میں اس نے وفاق المدارس (wafaqulmadaris)کے جنرل سکریٹری قاری حنیف جالندھری(qari hanif jalandhri) اور جامعہ اشرفیہ لاہور کے فیصلے کو جس طرح سے پیش کیا اس سے پتہ چلتا ہے کہ ذمہ دار علماء ومفتیان بھی بے شرمی اور بے خبری کی چادر تان کر سوئے ہوئے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی(mufti taqqi usmani) اور دیگر علماء کو چاہیے تھا کہ قاری حنیف جالندھری کو بھی فوری طور پربرطرف کردیتے۔
اللہ نے فرمایا (:الذین یجتبون کبٰئرالاثم والفواحش الااللمم ان ربک واسع المغفرة ھو اعلم بکم اذا انشاَ کم من الارض واذ انتم اجنة فی بطون اُمھٰتکم فلا تزکوا انفسکم ھو اعلم بمن اتقٰی O ‘)’ جو لوگ بڑے گناہوں اور فحاشی(fahashi) سے اجتناب کرتے ہیں مگر کسی خاص دور یا اوقات میں تو اللہ وسیع مغفرت والا ہے۔وہ اس وقت سے تمہیں جانتا ہے جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں جنین تھے۔ پس اپنے نفسوں کی پاکی بیان نہ کرو، وہ جانتا ہے کہ کون کتنا پرہیز گار ہے”۔ (سورہ النجم آیت:32)
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پاکدامنی کے دعوے سے ویسے بھی منع کیا ہے لیکن رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد ایک ایسی سزا کا ذکر ہے کہ اگر دومرد جنس پرست بدفعلی کریں تو ان کو اذیت دینے کا حکم دیا ہے اور پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور اپنی اصلاح کرلیں تو ان کے پیچھے نہ پڑنے کا حکم دیا ہے۔ قانون کی بہترین کتاب قرآن(quran) ہے لیکن علماء نے فقہ کی چادر تان کر قرآن سے انحراف کیا ہواہے!
حضرت آدم و حواء سے لیکر دنیا میں آنے والے قیامت تک تمام انسانوں کا ظاہر اور باطن اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے۔ اللہ نے وارننگ دی ہے کہ اپنے نفسوں کی پاکی بیان مت کرو۔ اللہ نے یہ فرمایا ہے کہ اس کی مغفرت وسیع ہے۔ انسان کسی کی طرف ایک انگلی سے اشارہ کرتا ہے تو اس کی طرف چار انگلیاں لوٹتی ہیں۔
اس کا یہ مطلب ہر گز بھی نہیں کہ رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والوں کیلئے کوئی رورعایت کا برتاؤ کیا جائے۔ پاکستان میں ایسی بدفعلی کی سزا 10سال یا عمر قید ہے۔ فقہاء نے دیوارکے نیچے یا پہاڑ سے گراکرقتل کی سزا کا حکم دیا ، جس پر طالبان کے دور میں دیوار گراکر قتل کرنے پر عمل بھی ہوا ہے۔
قرآن میں دومردوں کایہ حکم ہے کہ والذٰن یأ تےٰنھا منکم فاٰ ذوا ھما فان تابا واصلحا فاعرضوا عنھما ان اللہ کان توابًارحیماًO”اور جو تم میں سے دو مرد بدفعلی کریں تو دونوں کو اذیت دیدو۔ پھر اگر وہ توبہ اور اپنی اصلاح کرلیں تو ان سے اعراض کرو۔اللہ تواب رحیم ہے”(۔ النسائ: آیت16 )
ویڈیو سے ظاہر ہے کہ مفتی عزیز الرحمن اور صابرشاہ دونوں رضامندی سے اس قبیح فعل کے مرتکب ہوئے ہیں اور دونوں کو ذلت آمیز اذیت دی جائے۔پھر اگر وہ توبہ کریں اور اپنی اصلاح کریں تو ان کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ جس اللہ نے اس کو حرام قرار دیا ہے ،اسی نے اذیت دینے اور توبہ و اصلاح کا موقع دینے اور پیچھے نہ پڑنے کی ہدایت بھی کردی ہے۔
محترمہ ہدیٰ(huda bhurgari) بھرگڑی نے مفتی عزیزالرحمن کے اسکنڈل (mufti aziz scandle)پر اپنا زبردست بیان ریکارڈ کروایا ہے جس میں بہت اچھی تجاویز بھی پیش کردی ہیں۔ دوپٹہ نہیں پہنے اور بہت بڑی سفیدداڑھی پر نہ جاؤ۔ رسول اللہۖ نے فرمایا کہ” یہود(yahood) کی طرح سفید داڑھیاں مت چمکاؤ”۔ جس سے مخصوص مذہبی لبادہ ہی مراد ہے۔ یہودونصاریٰ اور سکھ وہندو کے مذہبی پیشواؤں نے بھی لبادوں میں دین کو چھپایا ہوا تھا۔
ملحدوں کے ہاں انسان ایک جانور ہے تو پھر جانوروں میں اتنی زبردست سپرٹ بھی مذہبی طبقے نے رکھی ہے کہ اس جرم کو جرم سمجھا جاتا ہے اور ملحدیں (mulhid)بھی بغلیں بجا بجاکر کہتے ہیں کہ یہ کتنا بڑا جرم ہے؟۔ یہ اسلام(islam) اور مذہبی طبقے کی برکات ہیں کہ غیرت وحمیت ، شرم وحیاء اور ضمیر وروح بھی کوئی اوقات رکھتے ہیں۔ فیس بک پر ہدیٰ بھرگڑی نے اس پر بہت اچھی تجاویز پیش کی ہیں۔ بلاشبہ مذہب کے ٹھیکہ داروں کے کسی فرد کی طرف سے ایسی شرمناک ویڈیو کا آجانا بھی بہت افسوس کا مقام ہے۔ اگر بدفعلی میں جبر ثابت ہو تو مفتی عزیز الرحمن کو سنگسار کرنے کی عبرتناک سزا دی جائے۔طالبان(taliban) کو یہ عادت ڈالی جاتی ہے تو وہ اپنا ضمیر کھودیتے ہیںاور حوروں کی تلاش میں اپنی دنیا اور آخرت تباہ کرکے دہشت گردی کے مرتکب بن جاتے ہیں۔ مولانا منظور مینگل (molana manzoor mengle)کی خاموشی بنتی ہے یا نہیں؟ ،وہ بتائے کہ صابرشاہ کا جسم اس کی مرضی یا استاذشیخ الحدیث کی مرضی؟۔
جس طرح انسانوں کا لباس اہمیت رکھتاہے اس سے زیادہ مذہب اہمیت کا حامل ہے۔ آج ایک شیخ الحدیث مفتی عزیز الرحمن پر انسانیت کا سیخ پا ہونا اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ سفید اور صاف ستھرے کپڑوں پر سیاہ داغ بہت نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ زندہ دلانِ لاہور کی گلی کوچوں، بازاروں اور ہوٹلوں سے لیکر سکول ،کالج اور یونیورسٹیوں(college) تک کیا نہیں ہوتا ہے ؟۔ بلی کا بچہ اجتماعی ریپ کا چند دنوں مسلسل شکار رہا مگرزبانیں گنگ تھیںاور اسکی تشہیر معاشرے پر دھبہ لگنے کی وجہ سے جرم بن گیا تھا۔ یہ بات سوفیصد درست ہے کہ مدارس اسلام کے نام پر بنے ہیں مگر پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الاللہ بھی تو ہے۔ پاکستان میں سب سے بڑا مقدس اورمضبوط ادارہ پاک فوج ہے۔ جب کسی فوجی پرکوئی جرم ثابت ہوجاتا ہے تو پاک فوج کے اس اہلکار کو عدالتوں میں سزا نہیں دی جاتی بلکہ فوج کا اپنا قانون ہے تاکہ رازداری باقی رہے۔ جب کوئی فوجی ریٹائرڈ ہوجاتا ہے تو اس کو بحال کرکے سزا دی جاتی ہے اور جب جنرل قمر جاوید باجوہ (genral qamar javaid bajwa)کو ایکس ٹینشندی جارہی تھی تو اندھی ڈولفن عدالت کو پتہ چل گیا کہ جس قانون کے تحت فوج اقتدار پر قبضہ کرتی رہی ، عدالت نے اسی اندھے قانون کے تحت توسیع دی۔
اگر فوج کے اعلیٰ افسران جاسوسی کرتے ہوئے پکڑے جائیں اور ان کو سزا ہوجائے تو پوری فوج پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔اگر کوئی بڑامولوی بھی غلط کام کرتا ہوا پکڑا جائے تو پورے مذہبی طبقے کو بدنام نہیں کرنا چاہیے۔ فوج نے اپنی تنخواہیں اور دفاعی بجٹ لینا ہوتا ہے لیکن علماء کے مدارس عوام کے رحم وکرم پر چلتے ہیں۔اگر فوج بدنام ہوجائے تو اس کی تنخواہ بند نہیں ہوگی لیکن اگر علماء بدنام ہوگئے تو ان کے سارے فنڈز بند ہوجائیںگے اور مفت تعلیم، رہائش اور قرآن و سنت (quran o sunnat)کے تحفظ سے یہ امت محروم ہوجائے گی۔ اللہ تعالیٰ فاسقوں سے بھی اپنے دین کے تحفظ کا کام لیتا ہے۔ مفتی عزیز الرحمن نے صابرشاہ کو ورغلایا یا صابر شاہ نے مفتی عزیز الرحمن کو ورغلایا اور ممکن ہے کہ یہ دھندہ دوسری جگہوں پر بھی ہو مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ کردارسازی اور تعلیم وتربیت اور تزکیہ کے اس عظیم نظام کو بدنام کرکے مدارس ومساجد کو کھنڈرات میں تبدیل کیا جائے۔
نماز، ناظرہ قرآن، قرآنی تراجم وتفاسیر، احادیث اور عربی کے علاوہ تمام مذہبی معاملات ان مدارس کے مرہونِ منت ہیںاور یہ ہم پر بڑا احسان ہے۔
اس کے نصابِ تعلیم وتربیت اور نگرانی کے طریقۂ کار میں زبردست تبدیلی کی سخت ضرورت ہے۔ صدروفاق المدارس پاکستان ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کی بڑی بزرگی اوربڑی شخصیت اپنی جگہ پر لیکن وفاق المدارس پاکستان کی صدارت کی ذمہ داری مولانا امداداللہ ناظم تعلیمات جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی(jamia binori town karachi) جیسے علماء زیادہ احسن انداز میں پوری کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جن سے مدرسے کی ذمہ داری اسوقت تک واپس لی جائے جب تک وہ وفاق المدارس(wifaqul madaris) کی صدارت کررہے ہوںتاکہ وفاق کے زیر اہتمام مدارس کی نگرانی میں اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں، اسی طرح دارالعلوم کراچی میں مفتی عصمت اللہ شاہ (mufti asmatullah shah)ہیں اور دیگر مدارس میں باکردار وباصلاحیت افراد کو باری باری یہ ذمہ داریاں سونپ دی جائیں تو مدارس میں احتساب کا درست نظام قائم ہوسکتا ہے۔ورنہ پھر انکا حال بھی تبلیغی جماعت کی طرح ہوگا جورائیونڈ(raiwand) اور نظام الدین میں امیر پر متفق نہیں ہوسکتے۔
مفتی عزیز پر انسانیت کا سیخ پا ہونابہت کھلاثبوت ہے کہ سفید کپڑوں پرسیاہ داغ نمایاں نظر آتا ہے۔زندہ دلانِ لاہور کی گلی کوچوں، بازاروں اور ہوٹلوں سے لیکرسکول، کالج ، یونیورسٹیوں تک میں کیا کچھ نہیں ہوتا؟۔ بلی کا بچہ اجتماعی ریب کا مسلسل شکار رہا مگر زبانیں گنگ تھیںاور اسکی تشہیر جرم بن گیا ۔پاکستان کا مطلب لاالہ الااللہ تھا؟ فوج (army)کو سزا دینے کیلئے ریٹائرڈمنٹ کے بعد بحالی…….؟
(syed atiq ur rehman gilllani)(navishta e dewar)(zarbehaq)

خاص خاص ہیڈ لائن:

اگر دو مرد ہم جنس پرستی کا ارتکاب کریں تو قرآن میں ان کو اذیت دینے کا حکم دیا گیا ہے اور پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور اپنی اصلاح کرلیں تو ان کے پیچھے نہ پڑنے کا حکم ہے۔
. If two male members are involved in homo sexual practice than as per Quran decision, they should be punished tortured and if they avoid to let off this sin, it is ordered not to chase/follow them.

بعید نہیں کہ مفتی عزیز الرحمن نے بھاری معاوضہ لیکر ڈرامہ رچایا ہو۔ معاوضہ لیکر پشت میں بارود چھپاکر خود کش حملے کئے جائیںاور سودی نظام کو جائز قرار دیا جائے توبے شرم لوگ ایسی شرمناک ویڈیو بھی بناسکتے ہیں۔ فوجی افسران ملک کے راز بیچ سکتے ہیں اور سزائے موت کھاسکتے ہیں ۔ سیاسی لیڈر شپ کھلے عام جھوٹ بک سکتی ہے جس کا کام کردار کی بنیاد پر ووٹ لینا ہوتا ہے تو سب کچھ ہوسکتاہے!

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پاکدامنی کے دعوے سے ویسے بھی منع کیا ہے لیکن رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد ایک ایسی سزا کا ذکر ہے کہ اگر دومرد جنس پرست بدفعلی کریں تو ان کو اذیت دینے کا حکم دیا ہے اور پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور اپنی اصلاح کرلیں تو ان کے پیچھے نہ پڑنے کا حکم دیا ہے۔ قانون کی بہترین کتاب قرآن ہے لیکن علماء نے فقہ کی چادر تان کر قرآن سے انحراف کیا ہواہے!

محترمہ ہدیٰ بھرگڑی نے مفتی عزیزالرحمن کے اسکنڈل پر اپنا زبردست بیان ریکارڈ کروایا ہے جس میں بہت اچھی تجاویز بھی پیش کردی ہیں۔ دوپٹہ نہیں پہنے اور بہت بڑی سفیدداڑھی پر نہ جاؤ۔ رسول اللہۖ نے فرمایا کہ” یہود کی طرح سفید داڑھیاں مت چمکاؤ”۔ جس سے مخصوص مذہبی لبادہ ہی مراد ہے۔ یہودونصاریٰ اور سکھ وہندو کے مذہبی پیشواؤں نے بھی لبادوں میں دین کو چھپایا ہوا تھا۔

مفتی عزیز پر انسانیت کا سیخ پا ہونابہت کھلاثبوت ہے کہ سفید کپڑوں پرسیاہ داغ نمایاں نظر آتا ہے۔زندہ دلانِ لاہور کی گلی کوچوں، بازاروں اور ہوٹلوں سے لیکرسکول، کالج ، یونیورسٹیوں تک میں کیا کچھ نہیں ہوتا؟۔ بلی کا بچہ اجتماعی ریب کا مسلسل شکار رہا مگر زبانیں گنگ تھیںاور اسکی تشہیر جرم بن گیا ۔پاکستان کا مطلب لاالہ الااللہ تھا؟ فوج کو سزا دینے کیلئے ریٹائرڈمنٹ کے بعد بحالی…….؟

A dispute was raised and exploited by a group on the statement of Malala but why they keep silent on scandal of Aziz-ur-Rehman?

ملالہ کے بیان پر طوفان برپا کرنے والا طبقہ مفتی عزیز الرحمن کے اسکینڈل پر کیوں اپنی دُم گھسیڑکر بیٹھ گیا؟ جب تک علماء اپنے نصاب کو درست نہ کریں تو مدارس کی بدنامی کایہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا لیکن دنیا کے حریص خاموش ہیں!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

سیاسی، مذہبی، جماعتی ، تنظیمی اور مساجد ومدارس کے علماء ومفتیان نے اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر اسلام کے بہترین نظام کو قربانی کے کٹہرے میں بہت بری طرح کھڑا کیا۔
قرآن وسنت نے تمام مذاہب کے باطل عقائد ونظریات اور مسائل کی اصلاح کرکے انقلاب برپا کردیا تھا لیکن مدارس کے نصابِ تعلیم نے پھر سے باطل عقائد ومسائل پیدا کررکھے ہیں

اس اخبار میں علماء کے نصاب و کردار پر تیر چلائے جاتے ہیں لیکن ہمارا مقصد بغض وعناد اور دشمنی نہیں۔ کالج یونیورسٹی کے طلبہ و اساتذہ سے زیادہ مدارس کے علماء و طلبہ میں صلاحیت ہے۔ مفتی سید عدنان کا کا خیل نے مشاہد حسین سید اور عوام کے سامنے کس طرح پرویزمشرف کے سامنے اپنی صلاحیت کا اظہار کردیا تھا؟۔ مفتی محمود نے قومی اتحاد اور مولانا فضل الرحمن نےPDMکی قیادت کی؟۔ طالبان نے امریکہ کو شکست دی۔ ایٹمی پاکستان کے پرویزمشرف اور جنرل محمود مرغا بن کر دانے چگ رہے تھے۔ یہ میں نہیں کہتا بلکہ اوریا مقبول جان اور سوشل میڈیا کا وہ طبقہ کہتا ہے جو فوج پر دنیا میں نمبر1ہونیکا اتنا یقین رکھتاہے جتنااللہ کی واحدانیت پر وہ حقیقی یا مصنوعی ایمان کادعویٰ کرتا ہے۔اور یہ الگ بات ہے کہ اللہ نے عرب کے بدؤوںکا فرمایا تھا کہ ”اعرابی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔ ان سے کہہ دیں کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یہ کہو کہ تم اسلام لائے ہو اسلئے کہ ایمان ابھی تک تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے”۔ (القرآن)
جنرل حمیدگل سے لیکر چھوٹے موٹے بہت سے لوگ طالبان کا کہتے تھے کہ وہ اللہ پر ایمان لائے ہیں اور پاکستان کا اسلام اعرابیوں کی طرح ہے ، جن کے دلوں میں 70سالوں سے زیادہ عرصہ ہوا کہ ایمان داخل نہ ہوسکا ہے اور اس کے بعد ہم دولت کیلئے کتنی جنگیں لڑتے رہیں گے۔
ہماری سوچ کا زاویہ مختلف ہے۔ ایمان و عمل کیلئے بنیادی بات علم کی اصلاح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبیۖ کے ذریعے سے صحابہ کرام کی تعلیم وتربیت اور حکمت سکھانے کا اہتمام کیا اور اس شعور وآگہی کی بدولت انہوں نے دنیا میں عظیم انقلاب برپا کیا ۔ قرآن کے نزول سے پہلے بہت سی برائیاں مذہب کے نام سے تھیں جن کی اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے اصلاح فرمائی۔ ظہار کا حکم مذہب نے ہی بگاڑ دیا تو ایک عورت نے اپنے شوہر کے حق کیلئے رسول اللہ ۖ سے مجادلہ کیا ۔ جس پر سورۂ مجادلہ کی آیات نازل ہوئیں اور مذہبی فتویٰ غلط قراردیا گیا۔ دنیا میں عیسائی، ہندو سمیت کئی مذاہب میں طلاق کا کوئی جواز نہیں تھا یا پھر ایک ساتھ تین طلاق سمیت بہت ساری خرابیاں تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے اس کی اصلاح فرمائی۔ زنا اورقوم لوط کے عمل کی شکل اور سزاؤں میں بھی بہت بگاڑ آچکا تھا۔ سود کی حرمت بھی ختم کردی گئی تھی اور جاگیردانہ نظام اور جنگوں میں لونڈیاں بنانے کا بھی نظام جاری تھا۔
اللہ نے ایک ایک کرکے تمام برائیوں کا وحی کے ذریعے خاتمہ قرآن میں محفوظ کیا۔ توارة میں بوڑھے مرد عورت کے زنا پر رجم کا حکم تھا ۔قرآن نے زنا پر 100کوڑے اور جبری زنا پر قتل کا حکم دیا بخاری میں ہے کہ سورۂ نور نازل ہونے کے بعدنبی ۖ نے سنگساری کی سزا پر عمل نہیں کیا لیکن ابن ماجہ میں ہے کہ رسول اللہۖ کا وصال ہوا تو رجم کی آیات اور رضاعت کبیر یعنی بڑے آدمی کو عورت کے دودھ پلانے کی آیات کو بکری نے کھاکر ضائع کیا۔قرآنی آیت یہ بتائی جاتی ہے کہ الشیخ والشیخة اذا زنیا فارجموھما …. ”جب بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت زنا کریں تو دونوں کو سنگسار کردو”۔ اب مفتی عزیز الرحمن کو بوڑھا قرار دیکر کہا جارہاہے کہ یہ معذور ہے اس میں بدکاری کی صلاحیت بھی نہیں ہے۔
جعلی آیت میں شادی شدہ اور غیرشادی شدہ کی کوئی تفریق نہیں ہے اور اگر جوان شادی شدہ ہوں تو بھی اس کی زد میں نہیں آتے ہیں۔ البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ بوڑھوں میں100کوڑے سہنے کی صلاحیت بھی نہیں ہو اور تورات میںیہ حکم ہو کہ ” ان کو کوڑے مارنا سزائے موت کے مترداف ہے اسلئے ان پر لعنت بھیج کر چھوڑدو”۔ جب قوم لوط میں ہم جنس پرستی کا رحجان تھا تو اللہ نے اجتماعی عذاب نازل کرکے ان کو صفحہ ٔ ہستی سے مٹادیا لیکن اس پر قرآن میں سزائے موت یا بہت لمبی چوڑی سزا نہیں ہے بلکہ اذیت دی جائے اور پھر توبہ واصلاح کرلیں تو ان کے پیچھے نہ پڑنے کا حکم ہے۔
جب قرآنی آیات بناکر ابن ماجہ میں پیش کی جارہی ہوں تو صحیح مسلم کی یہ روایت بھی قابلِ غور ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا کہ ” اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ لوگ مجھے قرآن پر زیادتی کا مرتکب سمجھیںگے تو قرآن میں رجم کا حکم لکھ دیتا”۔ ایک طرف ابن ماجہ میں بکری کے کھا جانے سے آیات کا ضائع ہونا اور دوسری طرف مسلم میں حضرت عمر کی بات میں کتنا کھلا تضاد ہے؟۔ جب آیات کے مقابلے میں آیات ایجاد کی جائیں، احادیث اور صحابہ کبار کے اقوال ایجاد کئے جائیں تو اس کے نتائج کیا نکل سکتے ہیں؟۔ اہلحدیث حضرات کہتے ہیں کہ ” اگر آدمی کسی عورت کا دودھ بڑی عمر میں پی لے تو اس کا اس عورت سے پردہ نہیں رہے گا لیکن اگر وہ شادی کرنا چاہے تو ان کی آپس میں شادی ہوسکے گی”۔ اگر دیکھ لیا جائے کہ مسلک پرست عناصر نے کس طرح متعہ ، رجم اور بڑے کے دودھ کی آیات تک گڑھ دی ہیں۔ پھر متضاد احادیث گڑھ دی ہیں جس طرح بیوی کیساتھ پیچھے سے بھی جماع کرنے کے حوالہ سے حدیثیں تک بھی گڑھ دی گئیں ہیں۔
گورنربصرہ حضرت مغیرہ ابن شعبہ سے شیخ الحدیث مفتی عزیزالرحمن تک اسلام کے حوالے سے قانون سازی اور اس پر اختلافات وتضادات کا جائزہ لینے کی سخت ضرورت ہے تاکہ روز روز کوئی بیل یہ نہیں بول سکے کہ مینارِ پاکستان پر لٹکادو اور نہ یہ بول سکے کہ شرعی گواہوں کے تصورات کا کیا کیا معیار ہے؟۔ پنجاب کا ایک معروف خطیب دوسرے ہم مسلک خطیب کیلئے کہا کرتا تھا کہ” وہ فاعل بھی ہے اور مفعول بھی۔الحمدللہ میں نہ فاعل ہوں اور نہ مفعول ”۔ سبوخ سید نے بھی کسی مسلک کے مناظر اورہم مسلکوں کی پشت پناہی اور دوسری کہانیوں کا ذکر کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے امہات المؤمنین ازواج مطہرات کیلئے قرآن میںدُگنی سزا کا ذکر کیا ہے اور لونڈی وایگریمنٹ والوں سے نکاح کے بعد فحاشی میں مبتلاء ہونے پر آدھی سزا کا حکم دیا۔ سنگساری اور قتل کو دگنا اور آدھا نہیں کیا جاسکتا لیکن مولوی تقلید کی وجہ سے صلاحیتوں سے محروم ہیں۔
تقلید سے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو کر اس کی حفاظت کہ یہ گوہر ہے یگانہ
اگر اسلام کو ان علماء کے چنگل سے آزاد کیا جائے جو مزارعت سے سودتک کو اسلامی قراردینے کے معاملات میں ہردور میں ملوث رہے ہیں تو انقلاب سالوں، مہینوں نہیں چند ہفتوں اور دنوں کے فاصلے پر ہے۔
عورت کے حقوق سے لیکر بدنام زمانہ گناہگاروں کے حقوق تک جس طرح اسلام نے انسانیت کی عزت وتوقیر اور سزا وجزاء کا سلسلہ رکھا ہے تو اس پر مسلمان ، کافر، ملحدین اور دنیا کے تمام انسان اکھٹے ہوسکتے ہیں۔
پاکستان کے پاس مجھے لگتا ہے کہ وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے۔ اگر جلد اچھے فیصلے نہیں کئے تو پھر افغانستان، عراق، لیبیا، شام اور فلسطین سے بھی زیادہ خطرناک حالات کا سامنا ہم سب کو کرنا پڑسکتا ہے۔ ایکدوسرے پر کیچڑ اُچھالنے کا وقت نہیں ہے بلکہ اپنے کھلے گناہوں کا اعتراف کرکے اللہ تعالیٰ کے دربار میں دست بستہ معافی مانگنے کا وقت آگیا ہے۔
قوم پرستی، مسلک پرستی، سیاست پرستی ، ریاست پرستی اور مفادات پرستی کے سلسلے بعد میں بھی چل سکتے ہیں لیکن ایسے وقت میں اپنی جان اور اپنی قوم کیلئے امن وامان مانگنا ضروری ہے۔ بلوچوں، پشتونوں، مہاجروں اور سندھیوں نے پہلے جو مشکلات دیکھی ہیں وہ کچھ بھی نہیں تھیں۔ پنجاب کی عوام کیساتھ پہلے بھی وہی ناانصافی ہوئی ہے جو دوسروں نے دیکھ لی ہے لیکن پنجاب کے لوگوں نے مرچیں کھانے کے باوجود اتنی زیادہ تیزی کبھی نہیں دکھائی جتنی دوسری قوموں نے کئی مرتبہ دکھائی ہے۔
عورت کو اپنے شوہر اور ماں باپ کی طرف سے وہ تحفظ مل جائے جس کا اسلام نے حکم دیا ہے تو دنیا اسلامی نظام کی طرف آجائے۔ حضرت داود کی 99بیگمات تھیں اور سویں کی بھی خواہش کی جو ایک مجاہد اوریا کی بیگم تھی۔ خلافت عثمانیہ کے سلطان عبدالحمید کی ساڑھے 4ہزار لونڈیاں تھیں اور اسلام نے چار تک شادیوں کی اجازت دی اور اگر انصاف نہ کرسکنے کا خوف ہو تو پھر ایک یا جنکے مالک تمہارے معاہدے ہوں۔ برصغرپاک و ہند میں اسلام کی روح پھر بھی کسی نہ کسی حد تک زندہ ہے۔ مصر کے اسلامی اسکالر نے النساء میں عورتوں کیساتھ مردوں کو بھی شامل کرنے کا تصور پیش کردیا ہے۔ وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان نے لکھاکہ ”کسی عورت سے شادی ہوتو اسکے سابقہ شوہر کے بیٹے سے بدفعلی پراحناف کے نزدیک حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی ”۔(کشف الباری)
نکاح و حرمت مصاہرت کی تفصیلات عوام کے سامنے آجائیں تو مفتی عزیز الرحمن کو بھول کر پہلے نصاب تعلیم کو درست کرنا ہی ضروری سمجھیں گے۔ ہم مسلسل متوجہ کررہے ہیں لیکن انکے کانوں پربھی جوں نہیں رینگتی ہے۔
مولانا عبدالغفور حیدری کا یوٹیوب پر بیان آیا جس میں قاری حنیف جالندھری وغیرہ بھی موجود تھے کہ ”جب قادیانیوں کے حق میں سینٹ کے اندر بل پاس کیا جارہاتھا جو قومی اسمبلی سے منظور ہوا تھا تو مجھے خوف تھا کہ مجھے چیئرمین سینیٹ کی غیرموجودگی میں ڈپٹی کی حیثیت سے دستخط کرنے پڑیںگے مگر الحمدللہ بل پاس نہیں ہوا۔ پھر حکومت نے قومی اسمبلی و سینیٹ کے مشترکہ اجلاس میں بل پیش کیا۔ ہم اپنے فرائض سے غافل نہیں”۔
مولانا حیدری کے بیان سے مفتی عزیز الرحمن کی طرح اعتراف جرم ثابت ہورہاتھا۔ ممکن ہے کہ مولانا صاحبان سوچ سمجھ کر منصوبہ بندی سے اسلام بیچ کر اپنے اثاثے بیرون ملک بنارہے ہوں کیونکہ اتنے بھولے تو یہ حضرات نہیں ہیں۔ ان کو کٹہرے میں کھڑا کرکے پوچھنا ضروری ہے۔

Hafiz Hussain Ahmed of JUI states that Molana Fazal-ur-Rehman handed over JUI rented out to PML N.

چھوٹے سے دارالخلافہ کوئٹہ میں تبدیلی کے اثرات خطے پر پڑیں گے
جمعیت علماء اسلام کے رہنما حافظ حسین احمد کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن نے جمعیت علماء اسلام مسلم لیگ ن کو رینٹ پر دی ہوئی ہے۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
کوئٹہ(quetta) میںبلوچ(baloch)، پختون (pakhtoon)اور ایک چھوٹی آبادی ہزارہ برادری(hazarabradri) کی ہے۔ کوئٹہ میں سب سے زیادہ ہمارے اخبار کا کام ہوا ہے۔ بلوچستان (balochistan)کے دینداروں اور قوم پرستوں میں تقسیم کی بنیاد اس وقت پڑگئی جب اکثریت نے جمعیت علما اسلام کو جمہوری بنیادوں پر بڑے پیمانے پر ووٹ دیا ۔ مفتی محمود
(mufti mehmood) اور ولی خان(wali khan) نے دینداروں، جمہوریت پسندوں اور قوم پرستوں کو دھوکہ دیا۔ جہاں جمعیت علما اسلام کی اقلیت تھی وہاں صوبہ سرحد میں مفتی محمود نے وزیر اعلی کا منصب سنبھال لیا جہاں جمعیت علما اسلام کی اکثریت تھی وہاں بلوچستان میں سردار کا درجہ نیچے اور نواب کا اوپر ہوتا ہے۔ غوث بخش بزنجو (ghuos bakhsh bizanjo)بابائے جمہوریت کی موجودگی میں نواب خیر بخش مری (nawab khairbakhsh marri)کو بھی وزیرارعلی بنانا درست نہ تھا لیکن سردار عطا اللہ مینگل (attaullah mengle)کو نوازا گیا۔ بلوچ فطری طور پربہت اچھے لوگ ہیں اسلئے جمعیت علما اسلام کے حق پر نواب، سردار اور جمہوریت پسندوں کے درمیان وزیر اعلی کیلئے کوئی لڑائی نہیں ہوئی پھر ذوالفقار علی بھٹو(zulfaqar ali bhutto) نے شبِ خون مارکر بلوچستان میں گورنر راج قائم کرکے جمہوری حکومت کا خاتمہ کردیا۔ نواب اکبر بگٹی (nawab akbar bugti)گورنر بنادئیے گئے اور جعلی جمہوریت کا خاتمہ کردیا گیا۔آج بلوچستان اسلام اورجمہوریت سے محروم ہے اور قوم پرستی کے نام پر قسمت بھی خراب ہے۔ مفتی محمود(mufti mehmood) صوبہ سرحد کے وزیراعلی تھے تو خیبر پختونخواہ میں نیشنل عوامی پارٹی کی جمہوریت اقلیت میں تبدیل ہوگئی۔ علما اکثریت سے محروم ہونے کے باجود اقتدار کا خواب دیکھنے لگے تو دہشتگردی کی جڑیں پڑ گئیں ۔ پھر مولانا فضل الرحمن (fazal rehman)بندوق اٹھانے کی بات کرتے تھے۔ پختونخواہ میں اپنی سیٹ ایک دفعہ ہارتے اور دوسری مرتبہ جیتے مگر بلوچستان کی جمعیت علما اسلام ہمیشہ حکومتوں میں شریک اقتدار ہوتی تھی جہاں سے بڑی نفری اور کرپشن کے مزوں نے علما کی عادت بہت خراب کردی تھی۔
جے یو آئی کے قدآوررہنما حافظ حسین احمد کہتے ہیں کہ ”مولانا فضل الرحمن نے جمعیت علما اسلام مسلم لیگ ن کو رینٹ پر دی ہوئی ہے”۔ بلوچستان کی عوام میں نوابی اور سرداری نظام بھی بڑی حد تک مضبوط ہے۔ بدقسمت عوام نے اپنے دین کو علما ومفتیان کے سپرد کردیا ہے۔ مسلک حنفی میں تقلید کی کوئی گنجائش نہیں۔ فقہ حنفی (fiqqa e hanfi)میں اصولِ فقہ میں احادیث کے مقابلے میں قرآنی آیات پڑھائی جارہی ہیں جن سے احادیث صحیحہ کو رد کیا جاتا ہے ۔ اگرچہ اس کا بہت بڑا فائدہ بھی اس امت کو اسلئے پہنچا ہے کہ احادیث کے ذخائر میں قرآن کے خلاف سازش اور بڑا بیہودہ موادہے۔ قرآنی آیات کا بکری کے کھا نے سے ضائع ہونے کی احادیث اورحضرت عائشہ (hazrat ayesha)پر صحیح بخاری میں یہ تہمت کہ بڑے آدمیوں کو اپنا محرم بنانے کیلئے اپنی بہن کادودھ پلا دیتی تھیں۔ حالانکہ دودھ پلانے کا مخصوص وقت ہر وقت نہیں ہوتا کہ بچہ ہو یا نہ ہو مگر عورت میں دود ھ ہو۔ جب یہ تک لکھا گیا ہے کہ بڑے آدمی کو دودھ پلانے اور رجم کی آیات بکری کے کھا نے کی وجہ سے ضائع ہوگئیں تو حضرت عائشہ پر بہن کا دودھ پلانے کے حوالہ سے بہتان میں کوئی شک باقی رہ جاتا ہے؟۔ مسلک حنفی کی تقلید اسلئے بہت بہترین رہی ہے۔
اب جدید تعلیم کا سلسلہ بڑھ گیا ۔ علما کی بڑی تعداد بھی مدارس سے فضیلت کی دستاریں باندھ رہے ہیں۔ عربی کی سمجھ بوجھ میں بھی بڑا اضافہ ہوا ہے۔ قرآن واحادیث کے تراجم بھی موجود ہیں۔ ایسے میں علما کرام اور لکھی پڑھی عوام کیلئے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر اسلام کی بنیادی تعلیمات کے سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں رہی ہے۔ مولانا طارق مسعود، علامہ امین شہیدی اور مفتی شاہ حسین گردیزی دیوبندی،شیعہ اور بریلوی علما نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں گفتگو کی ہے۔ اہل تشیع بار بار چیلنج اور واضح کرچکے ہیں کہ ہماری کسی کتاب میں قرآن کے چالیس پارے اور بکری کے کھاجانے سے آیات ضائع ہونے کی کوئی روایت نہیں۔ مفتی طارق مسعود نے کہا کہ” علامہ امین شہیدی کے کہنے پر معلوم ہوا کہ شیعہ میں بھی ایسے لوگ ہیں جو قرآن کے پارے بکری کے کھانے کا عقیدہ نہیں رکھتے ”۔ سعودی عرب میں ہم نے ابن ماجہ کی روایت کتب خانے میں موجود علما کو دکھائی جو شیعہ پر قرآن نہ ماننے کا الزام لگارہے تھے تو وہ حیران ہوگئے کہ سنیوں کی یہ احادیث ہیں؟۔
کوئٹہ میں بڑے علما ، سرکاری افسران اور تعلیم یافتہ طبقات کی مدد سے فرقہ واریت اور شدت پسندی پر قابو پانے کیلئے مرکزی سطح سے علاقائی سطح تک ایسی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جس سے فرقہ واریت اور شدت پسندی کے ناسور کا خاتمہ ہوجائے تو اس کے اثرات افغانستان(afghanistan) اور ایران (iran)پر بھی پڑجائیں گے۔
مولانا فضل الرحمن،مولانا محمد خان شیرانی(molana sherani) اورحافظ حسین احمد(hafiz hussain ahmed)، سپاہ صحابہ (sipah e sahaba)اور شیعہ(shia) ، بریلوی(barailvi) اور اہلحدیث (ahlehadic)علما سے ایک مثبت گفتگو کیلئے وقت لیا جاسکتا ہے۔ حکومت اور ہماری ریاست بھی بھرپور تعاون کرے گی۔ مدارس کے نصاب(madaris ka nisab e taleem) تعلیم کے حوالے سے مولانا محمد خان شیرانی(molana khan sherani) نے مجھ پر( 2004) میں بھی اعتماد کا اظہار کیا تھا جس کو میں نے اپنی کتاب” آتش فشاں” (aatish fishan)کے سرورق پر اندر کی طرف سے جلی حروف میں واضح کردیا تھا۔ بڑے عرصہ سے فقہی لایعنی مسائل کا سلسلہ جاری ہے۔ اگر علما اور عوام کو حقیقت کا پتہ چل جائے تو انقلاب بھی آجائے گا۔ غسل کے تین فرائض بتائے جاتے ہیں ۔ منہ بھر کر کلی کرنا، ناک کی نرم ہڈی تک پانی پہنچانا اور پورے جسم پر ایک مرتبہ پانی بہانا۔ یہ فرائض مسلک حنفی کے ہیں۔ شافعی مسلک والے پہلے دوفرائض کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا فرض نہیں سنت سمجھتے ہیں۔ تین میں سے دو فرائض پر اتفاق نہیں ہے اور تیسرے فرض پورے جسم پر ایک مرتبہ پانی بہانے سے مالکی مسلک میں فرض ادا نہیں ہوگا جب تک کہ مل مل کر جسم کو نہ دھویا جائے۔ گویا کسی فرض پر بھی اتفاق نہیں اور جوفرائض رسول کریم ۖ اورخلفا راشدین کے ادوار میں نہیں تھے ان کو ایجاد کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ قرآن میں ہے کہ لا تقربوا الصلو وانتم سکری حتی تعلموا ما تقولون Oوالا جنبا الا عابری سبیل حتی تغتسلوا” اور نماز کے قریب مت جا، جب تم نشے کی حالت میںہو یہاں تک کہ تم سمجھو جو کچھ تم کہتے ہو اور نہ حالت جنابت میں مگر جب کوئی مسافر ہو، یہاں تک کہ نہالو”۔ قرآن میں یہ واضح ہے کہ مسافر پر غسل فرض ہو تو بھی اس کیلئے تیمم سے نماز کی گنجائش ہے۔ نماز پڑھنے کاحکم اوراجازت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ حضرت عمر (hazrat umer)نے گنجائش سے فائدہ اٹھایا اور نماز نہ پڑھی اور حضرت عمار(hazrat ammar) نے تیمم (tayammum)سے نماز پڑھ لی ۔ نبیۖ (nabi pak)نے دونوں کی تصدیق فرمائی جو قرآن کی تفسیر ہے۔ پھر بھی حضرت عبداللہ بن مسعود(abdullah bin masood) اور حضرت ابوموسی اشعری(hazrat abu mussa ashra) کے درمیان اس مسئلے پر صحیح بخاری(sahi bukhari) میں اختلاف وتضاد(ikhtilaf o tazad)اور مناظرہ(manazra) نقل کیا گیا۔
اللہ نے فرمایا کہ” جب تم نماز پڑھنے کیلئے اٹھو تودھو اپنے چہروں کو اور ہاتھوں کو کہنیوں تک اور اپنے سروں پر مسح کرو اور پیروں کو ٹخنوں تک اور اگر تم جنابت میں ہو تو خوب پاکی حاصل کرو”۔ فقہا نے اس پر اختلاف کیا کہ خوب پاکی سے کیا مراد ہے؟۔ حالانکہ وضو کے مقابلے میں نہانا ہی خوب پاکی ہے۔ حضرت عمر نے قرآن کے اوراق مانگے تو بہن نے کہا کہ پہلے غسل کرلو ۔ جس کا مطلب یہی ہے کہ نہانا سب کو آتا تھا، عربی میں غسل نہانے کو کہتے ہیں۔
بریلوی عالم علامہ شاہ تراب الحق قادری نے فقہی مسئلہ نکالا کہ” رمضان کے روزے میں جب پاخانہ کرو تو اپنے پاس کپڑا رکھو۔ استنجا کے بعد مقعد سے جو آنت نکلتی ہے جو پھول کی طرح ہوتی ہے ،اس کو اندر جانے سے روکو اور پہلے کپڑے سے سکھا، پھر اندر جانے دو۔ اگرایسا نہیں کیا تو روزہ ٹوٹ جائیگا”۔
ہم نے اپنے اخبار ضرب حق کراچی (zarbehaq)میں اس کو تنقید کا نشانہ بنایا تو بریلوی علما نے بھی ساتھ دیا لیکن دعوتِ سلامی والے کسی کی سنتے نہیں ہیں اسلئے ان کے مفتی صاحبان بعد میں بھی لگے ہوئے تھے کہ ” استنجا کرتے وقت سانس بھی نہیں لینا۔ اگر پانی کا قطرہ گیا تو آنت سے معدے تک پہنچ جائیگا اور روزہ ٹوٹ جائیگا”۔
پہلے فقہا نے جہالت پر مبنی مسائل بنانے کیلئے خرافات گھڑنے کی کوششوں میں اپنی عمریں ضائع کردی تھیں اور اب جاہل اس پر عمل کیلئے بھی آمادہ ہوگئے۔ کوئٹہ میں اگر بلوچ، پشتون اور ہزارہ برادری نے مل کر شعور بیدار کیا تو اس کے اثرات کابل وقندھار(qandahar)،تہران وقم ، اسلام آباد(islamabad) ولاہور (lahor)، ملتان(multan) وپشاور (peshawar)اور حیدر آباد(hedrabad) و کراچی (karachi)کے علاوہ دنیا بھر پر پڑجائیںگے۔
(syed atiq ur rehman gillani)(zarbehaq)(navishta e diwar)

Pakistan’s most courageous politician Usman Kakar and party leader of Pashtunkhwa Milli Awami Party passed away.

پاکستان کے بے پناہ جرأت کے مالک سیاستدان پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنما عثمان کاکڑ رحلت فرماگئے۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
پاکستان کے (pakistan)مایہ ناز ہردلعزیز ، بے پناہ جرأت کے مالک سیاستدان پختونخواہ ملی عوامی پارٹی(pmap) کے منفرد، اپنی ذات میں یکتا رہنما عثمان کاکڑ(usman kakar)اس دارِ فانی سے رحلت کرگئے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس اور اپنی جوارِ رحمت میں عظیم مقام عطا فرمائے۔ لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ پاکستان کے تمام سیاسی کارکنوں کیلئے عظیم رہنما کی وفات بڑا خلا ہے جو پورا نہ ہوسکے گا۔ انا للہ و انا الیہ راجعونO
محترم عثمان کاکڑ کی تصاویر چند دن پہلے فیس بک پر دیکھی تھیں ۔ معلومات کی کوشش بھی نہیں کی۔ مندرجہ بالا کلمات وفات کی خبر کے بعد لکھے ہیں۔ بتایا گیا تھا کہ گھر میں چوٹ لگی تھی ۔ پھر پتہ چلا کہ سوشل میڈیا(social media)پرافواہ پھیلائی جارہی ہے کہ ان کو سازش سے قتل کیا گیا ہے۔ اسلئے کوئٹہ(koita) میںاپنے ذرائع سے معلوم کیا تو اس نے بتایا کہ کل میری پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے اہم کارکن سے بات ہوئی تھی تو اس نے بتایا تھا کہ یہ گھر کا معاملہ ہے۔ محمود خان اچکزئی(mehmood khan achakzai) ایک بہادر شخصیت ہیں یہ نہیں ہوسکتا کہ اس کی پارٹی کا اہم ترین رہنما سازش کی بنیاد پر قتل کیا جائے اور وہ خاموش رہیں۔ اگر کوئی سازش تھی تو پہلے سے (FIR )درج ہونی چاہئے تھی۔ عثمان کاکڑ کھل کر بولتے تھے اور عاصمہ جہانگیر(aasma jhangir) بھی بہت کھل کر بولتی تھیں۔ خواہ مخواہ کسی معاملے کو سازش کا نام دینا ملک و قوم کے ساتھ کوئی بھلائی نہیں ہے۔ پاکستان کے ریاستی نظام پر تنقید اور اصلاح کی کوشش درست ہے لیکن غلط افواہوں کے ذریعے اپنی قوم میں بدظنی کی فضاء پیدا کرنا انتہائی گھناؤنا فعل ہے۔ محمود خان اچکزئی اس سلسلے میں کردار ادا کریں اور درست کو درست غلط کو غلط کہنے کی روایت سے انقلاب پیدا کریں۔
میری ایک مرتبہ محترم محمود خان اچکزئی اور عثمان کاکڑ سے اسلام آباد(islamabad) میں اس وقت ملاقات ہوئی تھی جب جمعیت علماء اسلام نے دھرنا دیا تھا۔ہمارا گروپ فوٹو بھی کسی کے پاس ہوسکتا ہے۔ اگر اچکزئی صاحب مولانا فضل الرحمن(molana fazalrehman) سے وہ باتیں کردیتے تو شاید انقلاب(inqilab) کیلئے (PDM)بنانے کی ضرورت بھی نہ پڑتی۔
(syed atiq ur rehman gillani)(zarbehaq)(navishta e diwar)