پوسٹ تلاش کریں

ریاست والدین کی طرح ہے مردانہ اولاد قبائل نے اُف تک نہیں کی: عتیق گیلانی کا اسلام آباد دھرنے سے خطاب

naqeebullah-mehsud-all-pakhtoon-jirga-islamabad-sham-e-ghariban-pir-roshan-south-waziristan-raja-ranjit-singh-asp-police-tank-dera-ismail-khan

(عبدالواحد : اسلام آباد) سید عتیق گیلانی نے آل پختون جرگہ کی شامِ غریباں سے کہا:
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یابندہ صحرائی یا مردِ کوہستانی
میں یہ پیغام دینا چاہتا ہوں(پیچھے سے پشتوکاکہاگیا،اکثر سلیمان خیل تھے جواردو نہیں سمجھتے) دھرنے کے لوگ میں شعور دیکھ رہا ہوں۔ان پر جو ظلم ہوا ، جو جبر ہواہے، ان میں درد بھی ہے اور تعصب نہیں۔ تم لوگ آج یہ کہتے ہو کہ ’’ یہ جو دہشتگردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے‘‘، یہ تمہارا نیا جنم ہے لیکن میں شروع سے یہی کہتا ہوں ۔ اٹھو! نعرہ لگاؤ یہ جو دہشت گردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے۔ مجھ پر جب فائرنگ ہوئی تھی تو ایس پی پولیس ٹانک بدمعاش نہیں عتیق اللہ وزیر شریف آدمی تھا، میں نے اسے کہاتھا کہ تمہارے بس کی بات نہیں، ریاست نے اسلحہ برداروں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے،میں ریاست کے تھانے میں ریاست کے خلاف کوئی ایف آئی آر کیوں درج کروں؟،تو ایس پی نے کہا کہ ’’میں ذاتی طور پر کیا خدمت کرسکتا ہوں‘‘۔( پیچھے سے کسی بزدل محسود کی پشتو میں آواز آئی کہ ’’ یہ قوم کی بدنامی کررہا ہے‘‘۔ بعد میں پتہ چلا کہ الیکشن میں حصہ لینے کے خواہشمند یہ آواز میناباغ کے بھتیجے بادشاہی کی تھی۔ عتیق گیلانی کا وجود اس دھرنے میں احتجاج کرنیوالوں کیخلاف ایک ایٹم بم تھا اسلئے کہ اپنا واقعہ ہی بیان کردیتا تو لوگ فوج و ریاست کے کردار پر شیم شیم کے بجائے اُلٹا ہی دھرنا دینے والوں کی ملامت کرتے ۔ پھر تقریر پشتو میں بدل گئی ،ایک طرف دھرنے کے انتطامیہ کی خوف سے ہوا خارج ہونے لگی تو دوسری طرف بہت جلدی میں کچھ اہم نکات پیش کردئیے گئے جس سے دھرنے کے انقلابی ترانے میں زنانہ مرثیہ پڑھنے کو دھچکا پہنچا)
میں قوم کی بدنامی نہیں کررہا ،قوم کی پگڑی اونچی کر رہا ہوں۔ لوگوں میں دوقسم کے افراد ہوتے ہیں۔ میں پہلے قبائل کی تاریخ بتاتا ہوں۔جب مغل اعظم اکبر بادشاہ کا ہندوستان میں اقتدار تھا ،تب جنوبی وزیرستان کے پیرروشان نے اکبر کی حکومت اور اس کا دین تسلیم کرنے سے انکار کیاتھا۔ قبائل اور پٹھانوں میں بغاوت برپا کی تھی۔ پھر راجہ رنجیت سنگھ آیا تو بھی آزاد قبائل کی یہی حیثیت تھی، پھر انگریز آیا تب قبائل اسی پوزیشن میں تھے جو آج ہیں۔ انگریز کے جانے کے بھی آزادی فوج و ریاست کوملی تھی ،ہم پہلے سے آزاد تھے۔ جب انگریز کے جانے کے بعد پاکستان اور بھارت آزاد ممالک بن گئے تو قبائل نے بھارت سے آئی ہوئی سیاسی قیادت قائداعظم کو حکمران تسلیم کرلیا، جب کشمیر کیلئے پاک فوج کے انگریزسربراہ میں لڑنے کی جرأت نہ تھی تو قائداعظم نے قبائل سے کشمیر کے جہاد کیلئے کہہ دیا، قبائل گئے کہ نہیں گئے؟۔ (حاضرین نے کہاکہ گئے) جب لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا تو پاکستان میں حکمرانی کیلئے کوئی شخص نہ تھا۔ محمد علی بوگرا کو امریکہ سے اقتدار سنبھالنے کیلئے لایا گیا،ریاست والدین کی طرح ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایاہے کہ والدین کے سامنے اُف تک نہ کرو۔ قبائل نے بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کیا لیکن آج تک اُف بھی نہ کی۔ آج بھی یہ یہاں اُف کرنے کیلئے نہیں آئے ہیں۔ اولاد کی دوقسمیں ہوتی ہیں، ایک مردانہ اور دوسری زنانہ۔ بیٹے پر کتنی سختی کی جائے اور سزا دیجائے ، ذلیل ورسوا کیا جائے لیکن وہ اُف اسلئے نہیں کرتا کہ ان مشکلات کو برداشت کرنے کی وجہ سے اس میں اہلیت و صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ پھر وہ اپنے باپ کی جگہ گھر کا کاروبار سنبھالنے کے قابل بن جاتا ہے اور اپنے باپ کا منصب لے لیتا ہے۔ قبائل ریاست کے مرد بچے ہیں یہ وہ نہیں ہیں جو کہتے کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘۔ (حاضرین نے بڑی داد دیدی) ، بیٹی کو جب لاڈ پیار سے پالا جائے تو وہ بھاگ کر کورٹ میرج کرلیتی ہے۔ ریاست نے جن لاڈلی بیٹیوں کو پالا تھا، بھٹو، نواز شریف اور عمران خان یہ کورٹ میرج والی ہیں۔ معاملہ صرف نقیب اللہ اور راؤ انوار کا نہیں بلکہ پورے نظام کا ہے ۔ میڈیا نے کتنے اور مظالم سے پردہ اٹھایا ہے۔ حاضرین تم مجھ سے وعدہ کرو کہ اب اس وقت تک تحریک جارہی رہے گی جب تک عوام کو ریاست کا فائدہ نہیں پہنچتا اور ظلم وجبر کے نظام کا خاتمہ نہیں ہوتا ہے۔

زینب قتل کے مجرم عمران علی کو علماء کی گھڑی ہوئی شریعت کےمطابق کوئی سزا نہیں ہوسکتی

zainab-murderer-imran-ali-ulama-islam-dna-punjab-police-supreme-court-of-pakistan

نوشتۂ دیوار کے ڈائریکٹر فنانس فیروز چھیپا نے کہا: اگر عمران علی غریب نہیں کسی امیر کا بیٹا ہوتا تو وکیل پیسہ کمانے کیلئے برسوں کیس کو اعلیٰ عدالتوں میں لٹکائے رکھتا اور بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتا۔ علماء بھی شریعت کے تحفظ میں نکلتے کہ شریعت کیخلاف زینب اور دیگر بچیوں کے قاتل عمران علی کو سزا دینا شریعت کو بدلنے کا بڑاجرم ہے۔ پاکستان میں روز روز کسی بچی کیساتھ زیادتی کے بعد قتل کی خبر آتی ہے۔ پہلے لوگوں میں اتنی ہمت ہوتی تھی کہ ایسے گھناؤنے جرائم پر خود بھی سزا دینے سے نہیں کتراتے تھے اور معاشرے کی سطح پر کسی میں اتنے گھناؤنے جرائم کی ہمت بھی نہیں ہوتی تھی۔ اب جرائم پیشہ افراد سیاستدان اور اکابر علماء بن گئے ہیں۔ ضمیر نام کی کوئی چیز ان میں نظر نہیں آتی ہے۔ بڑے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں اور غریبوں کو قانون کے شکنجے میں ناجائز سزا بھی دلوائی جاتی ہے۔ معاشرہ تباہی کے کنارے پہنچ گیاہے۔

hussain-nawaz-panama-leaks-qatari-khat-zainab-murderer-imran-ali-nawaz-sharif-isi
سید عتیق الرحمن گیلانی علماء کرام، سیاستدانوں ، صحافیوں اور عوام کے علاوہ اداروں میں بیداری کی روح پھونکنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔کوئی ذاتی مخاصمت نہیں ہے۔ ذاتیات سے بالاتر ہوکر ملک وقوم ، عالمِ اسلام اور عالمِ انسانیت کی سوچ رکھتے ہیں۔ تمام لسانی اکائیوں اور مسلکی تعصبات سے پاکیزہ سوچ کو پروان چڑھارہے ہیں اور سب کیلئے قابلِ قبول ہیں۔ اس سے پہلے کہ ملک کی سطح پر کوئی عذاب نازل ہو، افغانستان ، عراق، لیبیا اور شام کے بعد خدانخواستہ پاکستان کی باری آئے اور سب کے سب راؤ انوار کی طرح بلکہ ان سے بدتر زندگی کی اس نگر میں پہنچ جائیں کہ مشکلات سے نکل نہ سکیں، احوال کی اصلاح کیلئے کمربستہ ہوجائیں اور پاکستان میں پُر امن اور پرسکون ماحول کا فائدہ اٹھاکر ایک حقیقی انقلاب لائیں۔ غریب اور ناداروں کا غم کھانیوالے لیڈران میں غیرت ہوتی تو تین تین شادی کرنیوالا عمران خان کوئی ایک شادی کسی غریب لڑکی سے کرلیتا جو اپنی پسماندگی دور کرناچاہتے ہیں ۔

ماکنے تو بلتکار شماکنے تو چمتکار، واہ بھئی واہ، عبد القدوس بلوچ

baloch-tahira-syed-madam-tahira-maulana-sami-ul-haq-nawaz-sharif-quddus-bizenjo-asma-jahangir-ptv-maryam-nawaz

نوشتۂ دیوار کے تجزیہ کار عبدالقدس بلوچ نے مریم نواز اور نوازشریف کا عدلیہ پر مسلسل توپخانہ کھولنے پر اطمینان کا اظہار کیاہے کہ یہ نظام اپنے لاڈلوں کے ہاتھوں انجام تک پہنچ رہاہے۔ ایگزٹ کورعایت دینے والے جج کو پچاس لاکھ رشوت کے الزام میں پکڑا گیا تو حدیبیہ پیپرز میں کروڑوں کی رشوت کا معاملہ بعیدازقیاس نہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری سے لیکر مولانا سمیع الحق اور مولانا فضل الرحمن تک علماء کی صحبت اور ڈکٹیٹرشپ کی سرپرستی نے نواز شریف ، مریم نواز اور شہبازشریف کے دل و دماغ میں دونوں قسم کی صفات پیدا کردی ہیں ایک ملائیت اور دوسری فسطائیت۔ بلوچی میں کہا جاتا ہے کہ ملاکنا تو سنت ماکنے تو کنت۔ ملاکرے تو سنت اور ہم کریں تو چڑ ہے۔ یہی روش شریف برادری نے بھی اختیار کررکھی ہے۔مولوی نے دوسرے سے کہا کہ قبلہ روہوکر تم پیشاب کررہے ہو تمہارا نکاح ٹوٹ گیاہے، اب حلالہ کروانے کی ضرورت ہے، جب ملا خود قبلہ رو پیشاب کرتے ہوئے پکڑا گیا توکہنے لگا کہ ’’ میں نے اپنے عضوء کا سر گھمادیاہے‘‘۔ علماء کی صحبت سے اور کچھ سیکھا یا نہیں سیکھا مگر اپنے لئے الگ راستہ تلاش کرنے میں مہارت حاصل کررکھی ہے۔ درباری علماء نے بھی ہمیشہ بادشاہوں کیلئے راہ ہموار کی ہے۔ میڈیم طاہرہ نے مولانا سمیع الحق کو بدنام کیا لیکن نوازشریف کے حلقہ بگوش علماء نے نعیم بخاری کی بیگم طاہرسید سے نوازشریف کی دوستی کو جواز بخشا ہوگا کہ ’’یہ ایگریمنٹ ہے‘‘۔ پانچویں پارے میں شادی شدہ خواتین سے ایگریمنٹ کا جواز ہے اسلئے کہ المحصنات من النساء الاماملکت ایمانکم وہ خواتین آتی ہیں جو کسی کی بیگمات بھی ہوں تب بھی وہ ایگریمنٹ کرسکتی ہیں۔ امام غزالیؒ نے لکھ دیا ہے کہ ’’ ابویوسف نے بادشاہ کیلئے اسکے باپ کی لونڈی کو جائز قرار دینے کا رستہ نکالا تھا‘‘۔ نوازشریف اور شہبازشریف کوئی شریف نہیں بلکہ ان کا باپ شریف تھا، وہ بھی صرف نام کا۔ یہ لوگ ڈکٹیٹر شپ کی پیداور ہیں۔ ڈکٹیٹر شپ کے شہزادے خود کو جمہوری صاحبزادے کہیں گے تو یہ جمہوری حرامزادے کہلائیں گے۔ اسٹیبلشمنٹ کو عقل آگئی ہے تو واضح اعلان کردے کہ اب ہم نے انکو عاق کردیا اور ہماراکسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں
نوازشریف ، شہباز شریف اور مریم نواز ڈکٹیٹر کی پیداوار ہیں اور وہ عدلیہ سے بھی ڈکٹیٹر شپ کی طرح رویہ رکھنا چاہتے ہیں، اگر یہ لوگ ملک پر مسلط ہوگئے تو فوج، پولیس، عدلیہ اورپنجابی بدمعاش گلو بٹوں کے ذریعے سے مخالف عوام کا جینا دوبھر کریں گے اور جس طرح ڈاکٹر طاہر القادری کو ڈرانے کیلئے بندوں کو ماردیا۔ سپریم کورٹ کی بلڈنگ پر چیف جسٹس سجاد علی شاہ پر بھی چڑھ دوڑے تھے اس طرح یہ فوج کو بھی بٹ مین بناکر رکھ دیں گے۔ انکے خمیر ڈکٹیٹر شپ، کرپشن، ملائیت کے باطل طرزِ عمل کو نکالنا ایک بڑے انقلاب کے بغیر ممکن نہیں ۔ اس بے شرم کو اتنی شرم بھی نہیں آتی کہ جب امریکہ کے پاگل صدرٹرمپ نے پاک فوج پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی تو اس نمک حرام ،احمق، جاہل اور بے غیرت نے انتہائی حماقت کرتے ہوئے کہا کہ’’ یہ جمہوری حکومت ہے، یہ بزدل فوج نہیں کہ ایک کال پر پرویز مشرف کی طرح ڈھیر ہوجائے ۔ ہمارے ساتھ فوج نے بڑی زیادتیاں کی ہیں، ڈان لیکس کی زیادتی ہمارے ساتھ ہوئی ہے اور ہم سب بتادیں گے‘‘۔ نوازشریف کا بیانیہ بڑی حماقت والا تھا۔ پورے مجلس میں ایک بھی رجل رشید اور حر نہیں تھا جو کہتا کہ الوکے پٹھے ! یہ کیا بک رہے ہو؟۔ ڈان لیکس فوج کی سازش تھی تو تم نے پرویزرشید اور طارق فاطمی کو کیوں قربانی کا دنبہ بنا لیاتھا؟۔ جس فوج کو بزدلی کا طعنہ دے رہے ہو تم تو اس سے زیادہ بزدل ثابت ہوئے ہو کہ خوف وبزدلی میں اپنے لوگوں کو ناجائز سزا دیدی ۔ یہ اتفاق فاونڈری کے کم اصل نواز اور شہباز کا قصور نہیں ہے بلکہ یہ ہماری فوج، عدلیہ اور علماء ومشائخ نے قصور کیا ہے کہ لوہے کی بٹی میں پیسوں کی چمک دیکھ کر پورے ملک کو ان کمینوں کے سپرد کردیا تھا۔ نبیﷺ نے فرمایاتھا کہ دجال سے زیادہ خطرناک لیڈر اور حکمران ہونگے۔ یہ وقت وہ ہے جس کی پیش گوئیاں احادیث اور شاہ نعمت اللہ ولیؒ کے شعر میں موجود ہے۔ عوام تماشہ دیکھنے کے بجائے اٹھ جائیں ورنہ!

آپ کی بچی خود اسکے پیچھے بھاگ رہی تھی: رانا ثناء اللہ

aap-ki-bachi-khud-us-ke-peeche-bhag-rahi-thi-Rana-Sanaullah

yeh-maluoon-hein-jahan-paye-jayen-pakar-kr-qatal-krdia-jaye-surah-ahzab-Rabia-Anam-Program-Geo-Tv

نوشتۂ دیوار کے چیف ایڈیٹرمحمد اجمل ملک نے کہاہے کہ میڈیا پر دکھایا جانے والے منظر بڑا ہی افسوسناک تھا جس میں رانا ثناء اللہ نے ننھی معصوم مظلوم شہیدبچی زینب کے والدہی کو غصہ میں ڈکٹیشن دی کہ ’’ تیری بچی ویڈیومیں خود ہی اسکے پیچے بھاگ رہی تھی‘‘۔کوئی جواں لڑکی ہوتی اور معاملہ قتل کا نہ ہوتا تو راناثناء اللہ کا حق بنتاتھاکہ تیری بچی شریک مجرم تھی ،ہونا تویہ چاہیے تھاکہ زینب کا والد راناثناء اللہ کے منہ پر زور دار طمانچہ مارتا کہ یہ بکواس کرنے کی ضرورت کیاہے؟، ثابت کرناچاہ رہے ہو؟۔ لیکن شاید شہباز شریف نے زینب کے والد کو کچھ زیادہ ہی رقم تھما ئی ہوگی۔ مظلوم کیلئے پہلے تو کوئی آواز اُٹھتی ہی نہیں اور جہاں لوگ کچھ غیرت کا مظاہرہ کرتے ہیں تومظلوم چند ٹکے لیکرخاموش ہوجاتا ہے ، شاہ زیب قتل کیس پر جو کچھ ہوا قوم نے دیکھ لیا۔ زینب کی معصومیت پردو افراد شہید ہوئے ہیں۔
قصور کی ایک زینب کا مسئلہ نہیں ، قرآن کہتاہے کہ جو ایک انسان کوبے گناہ قتل کرتاہے جیسے وہ تمام انسانوں کو قتل کردے۔ پاکستان کے تمام بچے اور بچیوں کی عزتوں کا مسئلہ ہے۔ غریب اور بے بس کے پاس آواز اٹھانے کی ہمت بھی نہیں ہوتی ہے۔ زینب کا قاتل پکڑا گیااور قصور کی دہرتی میں رہنے والے بہت سے بے قصوروں کیساتھ جبری زیادتیوں کی داستانیں میڈیا کی زینت بن گئیں۔ جنسی روحجانات میں اضافہ ہوا؟ یا میڈیا نے یہ واقعات اٹھانے شروع کردئیے؟۔ بہرحال مردان، مظفر گڑھ اور اٹک وغیرہ میں بھی واقعات ہوئے۔ کوئی بااثر شخص اپنی بیٹی کو جیل کی قیمت پر جنسی زیادتی کا نشانہ بننے دے گا؟۔
رانا ثناء اللہ نے ڈاکٹر شاہد مسعود سے بالکل ٹھیک لہجہ سے کہا کہ اگر الزام ثابت نہ کرسکو تو یہ تمہارا آخری الزام ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر شاہد مسعود نے بینظیر بھٹو پر کارساز میں حملے کو پیپلزپارٹی کی اپنی سازش قرار دینے کی کوشش کی تھی، اور بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اس کی ذمہ داری زرداری ہی پر ڈال رہاتھا مگر پی ٹی وی کا چیئرمین بننے کے بعد خود زرداری کا خادم اور پیپلزپارٹی کا پرانا جیالا بتانا شروع کردیا۔ گندی اور بلیک میلنگ کی صحافت کرنیوالوں کو کھلے عام قرار واقعی سزا دی جائے تو زرد صحافت کا خاتمہ ہوگا۔ روزنامہ جنگ کراچی میں یہ شہہ سرخی لگی کہ ’’وزیرمذہبی امور حامد سعید کاظمی نے خود کرپشن کا اعتراف کرلیاہے‘‘۔ حامد سعید کاظمی اسی دن کی ٹاک شوز میں یہ حلفیہ بیان دے رہاتھا کہ اس نے پائی کی کرپشن بھی نہیں کی مگر حامد سعید کاظمی نے کئی برس جیل بھی کاٹی اور جرم بھی ثابت نہیں ہوا۔ اسکے برعکس نوازشریف نے پارلیمنٹ کے اندردستاویزی ثبوت لہرا کر دکھائے اور پڑھ کر سنائے مگر عدالت میں قطری خط آگیا، جیو اور جنگ نے نوازشریف کی صفائی میں سب نظر انداز کرکے یہ تأثر قائم کرنے کی کوشش کی کہ فوج اور عدلیہ ہی نواز شریف کے خلاف سازش کررہے ہیں۔ ریاست کے پاس اگر واقعی عدل کا پیمانہ ہوتا تو زرد صحافت اور حکومت سے اشتہارات کا حساب بھی لیا جاتا، قوم کا پیسہ اسلئے نہیں کہ حکمران اپنی کرپشن چھپانے کیلئے صحافیوں اور میڈیا چینلوں کو بھی خریدیں۔
چیف جسٹسوں کو چاہیے کہ قوم کو گمراہ کرنے والے صحافی و میڈیا چینلوں کا بھی ازخود نوٹس لیں۔ شاہ زیب خانزادہ نے جو صلاحیت نوزشریف و شہبازشریف کی حمایت میں لگائی، اس کی بنیاد پر وہ گدھے سے بھی کئی بالٹی دودھ نچوڑ لیتا۔ وہ نوازشریف اور شہباز شریف سے اتنا پوچھ لیتا کہ پارلیمنٹ میں بیان سیاسی تھایا قطری خط کیلئے معقول مقدمہ تھا تو مجھے کیوں نکالا کا جواب بھی مل جاتا۔ ن لیگ کے رہنماؤں کی طرف سے لندن فلیٹ کی ساری کلپوں کو چلا کر ایک صحافتی عدالت لگادیتے تب بھی یہ پتہ چل جاتا کہ نوازشریف کو کیوں نکالا گیا۔ جب میڈیا چینل کی طرف سے صحافت نہیں وکالت شروع کردی جائے تو یہ صحافت کے بنیادی اصولوں کے علاوہ قانون کی بھی خلاف ورزی ہے۔ ایسا صحافتی کاروبار بھی قانون کے اندر جائز نہیں بنتاہے اور قوم کی اخلاقی حالت ایسی زرد صحافت سے بالکل تباہ ہوجاتی ہے۔ سنسنی پھیلانے والے شاہد مسعود، جھوٹی مہم جوئی جیو کرنے والا جیو چینل ، پارلیمنٹ میں دروغ گوئی کرنے والا نوازشریف اور سفاکانہ انداز میں جبری جنسی زیادتی اور قتل کے مرتکب افراد کو قرارِ واقعی و کھلے عام سزا دی جائے تو قوم کی تقدیر بدل جائے۔

قتل کی سزا قتل اور جبری زنا کی سزا بھی قتل ہے۔ سورۂ احزاب کی آیت:61میں یہ سزا بالکل واضح ہے۔ فیروز چھیپا

yeh-maluoon-hein-jahan-paye-jayen-pakar-kr-qatal-krdia-jaye-surah-ahzab

نوشتۂ دیوار کے ڈائریکٹرمالیات محمد فیروز چھیپا نے کہا: پاکستان اسلام کے نام پر بنامگر خوفناک حد تک جبری زیادتی کے چونکا دینے والے نمایاں واقعات کا تناسب بڑھ رہاہے۔ اس کا حل قرآن و حدیث میں موجود ہے۔ قتل کی سزا قتل اور جبری زنا کی سزا بھی قتل ہے۔ سورۂ احزاب کی آیت:61میں یہ سزا بالکل واضح ہے۔ یہ انسانی فطرت اور غیرت کا بھی تقاضہ ہے۔ بدفطرت و بے غیرت مذہبی طبقہ نے قرآن کی اس آیت سے واضح روگردانی کی۔ جماعتِ اسلامی کے ڈاکٹر فرید پراچہ نے اس آیت کو توہین رسالتؐ پر فٹ کردیا حالانکہ اس آیت سے آگے پیچھے کی آیات میں خواتین کی بے حرمتی ہے،اگر مدارس ومساجد کے علماء ومفتیان اُٹھ کھڑے ہوں، زنابالجبر کے حوالہ سے قرآن و سنت کے مطابق قتل اور سرِعام سنگساری کاحکومت سے مطالبہ کریں تو عوام کے دلوں پر راج کرنا شروع کردینگے۔ پھر مدارس ومساجد سے بھی اس برائی کا خاتمہ ہوگا اور مسلمانوں کی عبادتگاہیں پھر اخلاق، کرداراور بھروسے کے مراکز بن جائیں گی۔ کالی بھیڑیں ہر جگہ ہیں مگرکردار سازی کیلئے سزا کا قانون ضروری ہے۔منصورہ لاہوربھی فرید پراچہ کی تردیدکردے۔
دنیا کی کوئی ریاست بھی سزا کے قانون کے بغیر نہیں چلتی ہے۔قرآن و حدیث میں سزا کا قانون موجود ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مذہبی طبقے نے اس قانون کا حلیہ بگاڑ دیا۔ پرویزمشرف کے دور میں زنا بالجبر کے نام نہاداسلامی قانون سے جان چھڑانے کیلئے اس کو تعزیرات میں شامل کرنے کا کہا گیا تو مفتی تقی عثمانی اور جماعتِ اسلامی نے طوفان کھڑا کردیا کہ قرآن میں تحریف کا ارتکاب ہورہاہے۔ صحافی منیزے نے ٹی وی چینل پر بتایا کہ ’’ کوٹ لکپت جیل میں وہ کئی ایسی خواتین سے ملی ہیں جن کیساتھ جبری زیادتی کی گئی تھی لیکن شکایت کی تو تھانہ میں بند کرکے جیل بھیج دیا گیا کہ اچھا تمہارے ساتھ کچھ ہوا ہے تو اس شکایت کا نتیجہ بھی بھگت لو۔ پھر پیپلزپارٹی کے دور میں یہ قانون ختم کیا گیا اور اب شکایت کرنے پر سزا نہیں ملتی‘‘۔
یہ کتنی شرمناک بات ہے کہ ایک خاتون سے جبری زیادتی ہوجائے اور شکایت کرنے پر سزا بھی اسی کو دی جائے؟۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے خواتین کو اس طرح نکلنے کا حکم دیا ہے کہ’’ چادر کا حصہ اپنے اوپر ڈالیں تاکہ پہچانی جائیں کہ شریف ہیں۔ اور ان کو اذیت نہ دی جائے۔ مدینہ میں منافق اور جنکے دلوں میں مرض ہے نہیں رہیں گے مگر کم عرصہ۔ پھر آپ ان سے نمٹ لوگے۔ یہ ملعون ہیں جہاں بھی پکڑے جائیں ان کو پکڑ کر قتل کیا جائے گا۔ یہ اللہ کی پہلی قوموں میں بھی سنت رہی ہے‘‘۔ سورۂ احزاب آیت61میں اللہ تعالیٰ نے جبری زنا کی سزا واضح کی ہے اور نبیﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں اس پر عمل بھی کیا ہے۔ ایک خاتون نے رسول اللہ ﷺ سے کسی شخص کی شکایت کردی کی اس نے راستے میں پکڑ کر چادر میں لپیٹ لیا اور جبری زنا کیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کو پکڑ کر لانے کا حکم دیا اور پھر سنگسار کرادیا۔ قرآن میں قتل کا حکم زنا بالجبر اور حدیث میں سنگساری کا حکم بھی زنا بالجبر ہی کیلئے ہے۔ جب مسلمانوں نے اس سزا کے نفاذکو ترک کردیا تو قرآن وسنت کے احکام مختلف فقہی مسالک میں اختلاف در اختلاف کا شکار ہوگئے۔ پاکستان نہیں امریکہ و اسرائیل اور دنیا بھر کے انسانوں کے سامنے زنا بالجبر کی یہی سزا تجویز کی جائے تو عالم انسانیت کے تمام لوگ جمہوری بنیادوں پر متفقہ طور پر اس کو نافذ کردیں گے۔مفتی محمد تقی عثمانی نے لکھ دیا تھا کہ’’ سورۂ نور کی آیت میں زنابالجبر اور زنا بالرضا کی سزا میں کوئی فرق نہیں ۔ دونوں کیلئے حد کا ذکر ہے‘‘۔ حالانکہ سورۂ نور کی آیت میں زنا بالرضا ہی کا حکم واضح ہے اسلئے کہ مرد وعورت کو ایک ہی سزا صرف اسی صورت میں دی جاسکتی ہے کہ جب وہ دونوں راضی ہوں۔ عورت پر جبر ہو تو اس کو سزا نہیں دی جاسکتی ہے۔ البتہ سورۂ نور کی آیت میں شادی شدہ و غیر شادی شدہ کی کوئی تخصیص نہیں ۔ شادی شدہ لونڈی کا قرآن میں نصف سزا کا حکم ہے جو50کوڑے بنتے ہیں تو اس سے شادی شدہ آزاد کیلئے بھی100کوڑے سزا متعین ہوجاتی ہے۔ سورۂ نور کی آیت کے بعد بخاری شریف کی روایت کے مطابق کسی کو بھی سنگسار نہیں کیا گیا ۔ قرآن نے واضح کردیا کہ قتل کا حکم صرف زنا بالجبر کیلئے ہی ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے اپنی تفسیر ’’ آسان ترجمہ قرآن‘‘ میں سورۂ احزاب کی اس آیت کی غلط تفسیر لکھ ڈالی ہے کہ ’’ جب مسلمانوں کی ریاست مستحکم ہوجائے تو منافقوں سے بھی کافروں جیسا سلوک روارکھا جائیگا ‘‘۔ حالانکہ قتل کا تعلق اس بنیاد پر بیان کیا گیاہے کہ جو عورتوں کو ستائیں، یہی منافق ہیں۔

قائد اعظم نے ٹیکنوکریٹ کی حکومت بنائی تھی، ہندو وزیر قانون اور قادیانی وزیر خارجہ تھا. عبد القدوس بلوچ

quaid-e-azam-ne-technocrats-ki-hukumat-banai-thi-Abdul_Quddus-Baloch

نوشتہ دیوار کے کالم نگار عبدالقدوس بلوچ نے کہاہے کہ اسٹیبلیشمنٹ نے کوئی دوسرا قصور نہیں کیا ، سول و ملٹری بیوروکریسی نے جنگ کی تو جنرل ایوب خان نے سول بیوروکریسی سے اقتدار چھین لیا۔ پھر پیپلزپارٹی کے ذوالفقار علی بھٹو کو جنم دیا۔بھٹو کو ختم کرنے کیلئے محمد خان جونیجو اور نوازشریف کو جنرل ضیاء الحق نے جنم دیا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے کانگریس سے اپنی سیاست کا آغاز کیا تھا، اپنی کابینہ میں ہندو وزیرقانون و قادیانی سر ظفر اللہ کو وزیرخارجہ بنا دیا تھا۔یہ لوگ فوجی قیادت کی پیدوار نہ تھے۔ نوازشریف و شہباز شریف جنرل ضیاء الحق کی پیدوار ہیں۔ اب جمہوریت و ڈکٹیٹرشپ کے درمیان میں ہیں۔ مرد اور عورت کے درمیان میں ہجڑہ ہوتاہے، ہجڑے کو تالی بجانے کے علاوہ کچھ نہ آتا ہو تو حج میں ٹھوکر لگنے پر بھی وہ تالی بجاتاہے۔ منافقوں کیلئے فرمایاکہ وہ ادھر کے ہیں نہ ادھر کے، درمیان میں متذبذب رہتے ہیں۔زینب کے قاتل پرBetven شہباز شریف کا تالی بجانا عادت سے مجبوری تھی،محترم غوث بخش بزنجو بابائے جمہوریت کہلاتے تھے، فوج کا گودی بچہ بننے اور ناجائز رقم بٹورنے کے بعد سیاسی کھدڑا لیڈر بنے تو یہ قوم کی بہت بڑی بدقسمتی ہے۔
بلوچستان میں نواب ثناء اللہ زہری کی ناکامی تھی، جمہوری نظام چلانا سیاسی کارکنوں کا کام ہے نوابوں کا نہیں۔ عبدالمالک بلوچ ایک سیاسی کارکن تھے اسلئے کامیابی سے حکومت کی۔ محمد خان اچکزئی کے پیچھے بھی محمود خان اچکزئی کا ہاتھ ہے، ان کے والد عبدالصمد خان شہید بلوچستان کے گاندھی اور سیاسی کارکن و رہنما اور قائدتھے۔ اب یہ سیاسی خانوادہ خانزادہ بن چکاہے مگر سیاسی کارکن نہیں رہاہے۔ ایم پی اے عبدالمجید اچکزئی نے کس طرح رمضان کی شام کو کھلے عام پولیس اہلکار کو شراب میں ٹن مار دیا اور پھر فرار ہوگیا۔ کیمرے کی آنکھ نہ پکڑتی تو پولیس کے ہاتھ بھی نہ آتا۔ غلطی پر انسان کا شرمندہ ہونا ایک فطری بات تھی لیکن عبدالمجید اچکزئی پر ضمانت ملنے کے بعد جس بے شرمی اور بے غیرتی کیساتھ پھولوں کی بارش برسائی گئی کوئی سیاسی کارکن تو بہت دور کی بات ہے کسی انسان کا غیرتمند بچہ یہ نہیں کرسکتاتھا محمود خان اچکزئی سے قومی اسمبلی میں پوچھ لیا جائے کہ پٹھانوں کی یہ روایت ہوسکتی ہے؟۔ ڈیوٹی پر شہید اہلکار کی بیوہ اور بچوں پر پھول نچاور کرنے سے کیا گزری ہوگی؟۔ اس نے کیا فتح کیا تھا جس کی خوشی میں اس پر پھول برسائے جارہے تھے؟۔ اگر خورشید شاہ اپوزیشن لیڈر ایک سید کا خون ہے تو جس طرح سے شہبازشریف کی طرف سے تالی بجانے کے عمل پر اسمبلی میں وہ مذمت کررہا تھا،یہی مذمت پھول نچاور کرنے کے عمل پر بھی وہ ضرور کرکے دکھائے۔ محمود خان اچکزئی سے معافی منگوائے۔
سیاسی خانوادے اور پارٹیاں بدل بدل کر سیاسی لوٹے تو بہت بدنام ہوچکے ہیں۔ نگران سیٹ اپ کیلئے پنجاب میں خیبر پختونخواہ سے کوئی شخصیات گورنر اور وزیراعلیٰ کے عہدوں پر فائز کی جائیں ، اس طرح بلوچستان، سندھ اور پختوخواہ میں دیگر صوبوں سے ماہر ، باضمیر اور باغیرت افراد کے ہاتھوں میں کچھ دنوں کیلئے حکومتوں کو سپرد کیا جائے تاکہ عوام کو دکھایا جائے کہ حکومت کس طرح سے ہوتی ہے۔ رعایت اور انتقام نہیں بھرپور عدل وانصاف سے عوام کی عزت نفس کو بحال کیا جائے۔ جہاں جہاں بدمعاش و بدکار طبقات خواتین کیساتھ زیادتی کے مرتکب ہوں ، ظلم وزیادتی مسلط کی گئی ہو اورشریف لوگوں کا جینا دوبھر ہو وہاں قانون کے شکنجے سے ان کو ایسا سبق سکھایا جائے کہ عوام کو احساس ہوجائے کہ حکمران مسیحا ہوتا ہے طاقتور قوتوں کا دلال نہیں ہوتا۔ جب سب سے بڑی سیاسی جماعت اور برسر اقتدار ن لیگ کا یہ حال ہو کہ ٹی وی کے ٹاک شوز سے لیکر پارلیمنٹ اور قطری خط تک جھوٹ ہی جھوٹ بولتے ہوں ، سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے فیصلے کو بھی اپنے خلاف سازش قرار دیتے ہوں تو یہ جمہوریت اور قانون کی بالادستی نہیں بلکہ بدترین قسم کی انارکی کا ماحول ہے۔ جمہوریت ایک آزاد ماحول میں آزادی سے رائے دہی کا نام ہے، یہاں تو گدھے کو بھی کھڑا کردیا جائے تو بھوکے بھوک مٹانے کیلئے پیسوں اور مفادات کیلئے بک جاتے ہیں۔
میڈیا ہاوس اور صحافی بھی کرایہ پر دستیاب ہیں۔سیاست خدمت نہیں ایک منافع بخش کاروبار ہے۔عوام بڑے عذاب میں مبتلا ء ہیں، لوگوں کی جان، مال اور عزتیں محفوظ نہیں ہیں اور سیاستدانوں کو اپنے کاروبار کی پڑی ہوئی ہے۔ جمہوریت سے عوام کو غلامی سے نکالا جاتاہے اور یہاں جمہوریت کے نام پر مافیا کا کردار ادا کرنے اور عوام کو غلام بنانیوالے جمہوریت کے چمپئین بنے ہوئے ہیں ۔ اب قوم کو بچانے کا وقت آگیا ہے۔

پولیس پر اعتماد کریں ریاست مارتی نہیں: چیف جسٹس ثاقب نثار

police-per-aitemad-karen-riasat-marti-nahi-chief-justice-saqib-nisar

نوشتہ دیوار کے خصوصی ایڈیٹر سید ارشاد علی نقوی نے کہا ہے کہ عوام کو تمام ریاستی اداروں پر تہہ دل کیساتھ اعتماد کرنے کی ضرورت ہے ۔ پاک فوج ، عدلیہ ، پولیس ، سول انتظامیہ کے علاوہ پارلیمنٹ سب ہی قابل احترام ہیں لیکن ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات۔ عوام ہی کی جان، مال اور عزت و آبرو ٹکے کی نہیں اور جب تک مخصوص مقاصد کی خاطر انکے حال پر رحم نہ کیا جائے تو ان کی فریاد عرش الٰہی کو سنائی دیتی ہے اور بس۔ محترم چیف جسٹس صاحب ! آپ ٹھیک فرماتے ہیں کہ راؤ انوار کو چھپانے والے بہت ہیں لیکن اگر ماڈل ٹاؤن پولیس کو استعمال کرنے والوں کی خبر لی جاتی تو ان چھپے ہوئے پھنے خانوں کو نکالنا بھی مشکل نہ ہوتا۔ لواحقین کو طفل تسلیاں مبارک ہوں۔ معروف صحافی مظہر عباس نے ایک پروگرام میں بتایا کہ ’’جنرل نصیر اللہ بابر کی قیادت میں ایک اجلاس ہوا جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایم کیو ایم کے دہشت گرد عدالتوں سے چھوٹ جاتے ہیں ، ان کو پولیس مقابلے میں ماردیا جائے۔ اس اجلاس میں سول اور ملٹری کے تمام اداروں نے اتفاق رائے سے فیصلہ کیا لیکن آئی جی پولیس افضل شگری واحد انسان تھا جس نے اس سے اختلاف کیا جس کی وجہ سے ان کا تبادلہ بھی کردیا گیا۔ پھر راؤ انوار ، چوہدری اسلم اور دیگر دہشت والے تھانیداروں کی خدمات لی گئیں اور ماورائے عدالت خوب قتل و غارت گری ہوئی ۔ اس قتل و غارت میں ایک فوجی افسرکا نام آیا اور اسے پھر فوجی عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی اور پھانسی دے بھی دی‘‘۔
راؤ انوار نے ایم کیو ایم کے بعد طالبان دہشتگردوں کا صفایا کرنے میں بھی زبردست اور اہم کردار ادا کیا۔ راؤ انوار جیسے بہادر پولیس افسر نہ ہوتے تو امن کی فضاء ہوتی ،نہ طالبان سے کراچی چھٹکارا پاتا۔ طالبان کیوجہ سے محسود قوم کیساتھ جو سلوک فوج نے روا رکھا اس پر محسود قوم بجا طور سے کوئی شکوہ نہیں کرتی ہے۔ پولیس نے دہشت گردوں کے علاوہ شریف لوگوں کو بھی بہت ستایا اور اللہ کرے کہ اب محسودوں کا گناہ معاف ہو ، آئندہ کسی اور طوفان سے گزرنا نہ پڑے۔ پٹھانوں نے طالبان اور بلوچوں نے قوم پرستوں ، مہاجروں نے ایم کیو ایم کی وجہ سے جو دکھ درد سہے ہیں اللہ نہ کرے کہ ہمارے پنجابی بھائی ان سے گزریں۔ قصور کے بے قصور بچوں اور بچیوں کیساتھ جو کچھ ہوا ، اس طرح توبلوچ قوم پرستوں ، ایم کیو ایم کے دہشتگردوں اور طالبان دہشتگردوں کے خواب و خیال میں بھی نہ گزرا ہوگا۔ یہ ریاست کا بہت بڑا احسان ہوگا کہ قرآن و سنت کیمطابق جبری جنسی تشدد کیخلاف پارلیمنٹ کھلے عام سنگساری کے احکام نافذ کردے۔ پارلیمنٹ قانون پاس کرے عدالت چند دنوں میں ان کیسوں کو نمٹائے اور حکومت اس پر عمل درآمد کرائے۔
عدالت عالیہ نے چاہا تو وقت گزرنے کے باوجود میاں نواز شریف ان کیسوں میں بری کردیا جن میں عدالت نے سزا دی تھی۔ عدالت عالیہ نے چاہا تو حدیبیہ پیپر ملز کے تمام دستاویزی ثبوت موجود ہونے اور باقاعدہ فیصلہ نہ ہونے کے باوجود کیس کو دفن کردیا۔ عدالت عالیہ نے چاہا توپارلیمنٹ میں اثاثہ جات کے اقرار کے تحریری بیان اور قطری خط میں کھلا تضاد تھا تو بھی اپنا فیصلہ اقامہ پر سنایا۔ جس سے چیف جسٹس کے سابق مؤکل محترم نااہل نواز شریف کوسپریم کورٹ کے لارجر بنچ کو خوب تر صلواتیں سنانے کا موقع فراہم کیا۔ نقیب اللہ محسود بے گناہ تھا تو قرآن میں ایک بیگناہ کے قتل کو انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے۔ لیکن یہاں تو بڑے بڑے شہروں میں چھوٹی چھوٹی باتوں کی کئی داستانیں ہیں جو کسی شمار و قطار میں نہیں۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر کی نیت پر انسانی حقوق کے حوالے سے کوئی شک نہیں مگر نصیر اللہ بابر ہی نے جمہوری دور میں طالبان پیدا کئے اور پولیس مقابلوں میں ماورائے عدالت عام شہریوں کو قتل کی اجازت دی۔ ہمارا مقصد تنقید برائے تنقید اور مخصوص لوگوں کی طرفداری نہیں لیکن قرآن و سنت کے احکامات سے ہمارے مردہ معاشرے میں نئی روح پھونکی جاسکتی ہے۔ قتل کے بدلے قتل اور زنا بالجبر پر سر عام سنگساری کی سزا جمہوری بنیادوں پربھی عالم انسانیت کیلئے قابل قبول ہوگی اور دنیا کے تمام کمزور لوگ اس کو سپورٹ کرینگے۔

police-per-aitemad-karen-riasat-marti-nahi-chief-justice-saqib-nisar-2

police-per-aitemad-karen-riasat-marti-nahi-chief-justice-saqib-nisar-3

قرآنی آیت میں جاہلوں کو بھی مخاطب کے لفظ سے سلام کرنے کا ذکر ہے، جاہل سے مراد کھلے کافر ہیں۔ عتیق گیلانی

Quran-mein-jahil-(Kafir)-ko-mukhatib-kr-ke-Salam-karne-ka-Zikr-hei-Atiq-Gilani

فقہاء نے کہا تھا کہ داڑھی منڈھے فاسق ہیں، ان کو سلام کرناجائز نہیں۔ شروع میں فقہی مسئلہ کو شریعت سمجھتے ہوئے اس پر عمل کیا ، اسوقت غالباً ہمارے خاندان میں کم ہی لوگوں کی داڑھی تھی،کسی دن میرے کزن ڈاکٹر آفتاب نے پوچھ لیا کہ میں نے محسوس کیا ہے یہ غلط ہے یا درست کہ آپ سلام کرتے ہو اور نہ جواب دیتے ہو؟۔ میں نے بتایا کہ فقہی مسئلہ ہے کہ داڑھی منڈھے کو سلام نہیں کرسکتے، وہ کہنے لگے کہ شرعی مسئلہ ہے تو ٹھیک ہے۔ کافی عرصہ بعد میں نے سوچا کہ سلام عام کرنے کا حکم ہے، جب فقہاء کی طرف سے یہ مسئلہ آیا ہوگا تو اسوقت کم ہی لوگ داڑھی نہیں رکھتے ہونگے ، اب تو سلام کا رواج بھی ختم ہوجائیگا۔ اسلئے سلام کرنا شروع کیا تو ڈاکٹر افتاب کو وجہ بھی بتادی۔ اب مندرجہ بالا قرآنی آیت میں جاہلوں کو بھی مخاطب کے لفظ سے سلام کرنے کا ذکر ہے، جاہل سے مراد کھلے کافر ہیں۔ نبی ﷺ نے حضرت عائشہؓ کو سلام نہیں سام کا جواب دینے سے روکا تھا۔ قرآن کی مندرجہ بالا آیت میں بھی برائی کے جواب کو اچھائی سے ترغیب ہے۔ اگر یہودی سلام کرتا تو نبیﷺ سلام کا جواب دینے سے نہ روکتے۔ مولوی زدہ مذہبی طبقہ کا مسئلہ قرآن نے حل کیا ہے اور ایکدوسرے کو سلام میں مسلک وعقیدہ کا خیال ہرگز نہ رکھنا۔ عتیق گیلانی

1400 سو سال پہلے سورہ حج میں اللہ نے مشینی ذبیحہ کو روز روشن کی طرح‌ واضح کیا: عتیق گیلانی

1400-saal-pehle-Allah-ne-surah-hajj-mein-machini-zibah-roz-e-roshan-ki-tarah-wazeh-kia

شیخ العرب و العجم حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ نے لکھا ہے کہ’’ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ومن یشتری لھو الحدیث (جو لغو باتوں کو خریدتے ہیں)جس وقت قرآن نازل ہوا تھا تو اس دور میں لغو باتیں خریدنے کے حوالے سے کوئی آثار بھی نہیں تھے۔ آڈیو ریکارڈ بہت بعد کی پیداوار ہے۔ موجودہ دور میں فحش گانے ، فلمیں و دیگر اشیاء پر اس آیت کا اطلاق ہوتا ہے۔ یہ قرآن کی صداقت اور کلام الٰہی ہونے کی دلیل ہے کہ 14سو سال پہلے جس چیز کا کوئی وجود نہیں تھا اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس کا ذکر کردیا‘‘۔ قرآن میں کتاب ینطق بولنے والی کتاب کا بھی ذکر ہے۔ نظریہ اضافیت کا بھی قرآن میں ذکر ہے۔ یہاں کے ایک دن اور چڑھنے کے 50ہزار سال کی مقدار کے برابری سے واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال پہلے نظریہ اضافیت نہ صرف واضح کردیا تھا بلکہ معراج کے اندر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو مشاہدہ بھی کروایا تھا۔ البرٹ آئین اسٹائن نے بہت بعد میں نظریہ اضافیت کو ریاضی اور سائنسی بنیاد پر دریافت کیا۔ حج کے دوران مشینی ذبح پر علماء و مفتیان اجتہادات کی رٹ لگاتے رہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے 14سو سال پہلے سورہ حج میں مشینی ذبح کو روز روشن کی طرح واضح کیا۔
اس آیت کی تفسیر میں فقہاء کے اختلافات دیکھ کر ہنس ہنس کر پیٹ میں بل پڑ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے مذہبی قربانی پر اللہ کا نام لینے کا ذکر کیا ہے کیونکہ مشرکین اپنے بتوں کا نام لیتے تھے۔ قرآن میں ان ذبیحوں کو جن پر بت کا نام لیا جائے حرام قرار دیا گیا ہے۔ شکاری کتے اور باز جن کو شکار کی تعلیم دی جائے ان کے شکار کردہ جانوروں یا پرندوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے۔ اہل کتاب کے طعام کو بھی حلال قرار دیا ہے۔ اہل کتاب میں مشرکوں کی طرح غیروں کے نذرانے اور بتوں کے آستانے پر ذبح کرنے کا رواج نہیں تھا۔قرآن کو سمجھنے کی کوشش کیجئے

عمران خان وزیر اعظم کا خواب پورا نہ کرسکا تو پنجاب کا صوفی بن سکتا ہے. محمد حنیف عباسی

imran-khan-wazir-e-azam-ka-khuwab-pura-na-kar-saka-to-panjab-ka-sufi-ban-sakta-hei-Haneef-Abbasi

پنجابی مسلمان : علامہ اقبال

مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبیعت
کرلے کوئی منزل تو گزرتا ہے بہت جلد
تحقیق کی بازی ہو توشرکت نہیں کرتا
ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد
تاویل کا پھندا کوئی صیاد لگادے
یہ شاخِ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد
زیرو پوائنٹ کے کالم نگار معروف صحافی جاوید چوہدری نے اپنے کالم میں عمران خان، بشریٰ مانیکا،اسکے سابق شوہر خاور مانیکاکے بارے میں کچھ حقائق لکھ دئیے ہیں۔ خاور مانیکا ایک بُری شہرت کا افسر لیکن روحانی شخصیت کا مالک بھی تھا،ماڈرن بشریٰ مانیکا پابند صوم وصلوٰۃ،روحانیت اور علم نجوم کی ماہر ہے۔1988ء میں بینظیربھٹو وزیراعظم بن گئیں،پھر تحریک عدمِ اعتماد میں چانگا مانگا کے اندر ن لیگ کی منڈی لگائی، پیپلزپارٹی کی بچت ہوئی اور خاور مانیکا کے والد غلام محمد مانیکا نے تحریکِ عدم اعتماد کے دوران مسلم لیگ کو چھوڑکر پیپلزپارٹی کا ساتھ دیا۔ جاویدچوہدری نے لکھ دیاہے کہ غلام محمد مانیکا خاندان بہت عرصہ سے سیاست میں ہے اور پاکپتن کے شاہ فریدشکر گنج ؒ کے یہ مرید بھی ہیں۔ عمران خان انکا مرید ہے۔ اب عرصہ ہوایہ خاندان پی ٹی آئی میں ہے۔ عائشہ گلالئی کی آفت آئی تو بشریٰ مانیکا عمران خان بابا فریدؒ کے مزار پر لے گئی۔ بشریٰ نے خواب میں رسول اللہﷺ کے حکم پر سرور مانیکا سے خلع لے لیاجو اب بشریٰ وٹو بن چکی ہیں۔ شادی ہوچکی ہے یا ہونے والی ہے اس کا اعلان کسی ایسی گھڑی میں کیاجائیگا کہ جو علوم نجوم کے حوالہ سے مناسب بھی ہو۔
جاوید چوہدری نے لکھ دیا ہے کہ ’’پاکستان کیلئے جس خوشخبری کا ذکر ہے اس کا آغاز بھی آئندہ بشریٰ اور عمران خان کی شادی اور وزیراعظم بن جانے کے بعد ہوجائیگا‘‘۔پنجاب کی مٹی میں خاص طور سے پیری مریدی کا کھیل کامیاب رہتاہے ۔ ڈبل شاہ کی کامیابی بھی اس وجہ سے ممکن ہوسکی تھی۔ قائداعظم اور فاطمہ جناح پیری کی شکل میں آتے توپنجاب ان کی عقیدتوں، کرامات اور بڑی روحانی قوت کا معترف رہتا۔ جنرل ایوب خان کی طاقت بھی نہ ہوتی کہ وہ فاطمہ جناح کو پنجاب میں شکست دیتے۔ تحریک طالبان پوری قوم کیلئے امریکہ کیخلاف بہت بڑا سرمایہ تھا،امریکہ آج تک نیٹو کیساتھ مل کر بھی شدت پسندقوتوں کو شکست نہیں دے سکا لیکن پاک فوج نے دہشت گردوں پر قابو پالیاہے۔ مسلم لیگ ن کی مقبولیت کا گراف فوج کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے مگر ن لیگ کو لگادم دینے کیلئے پی ٹی آئی سے کام لیا جارہاہے۔ اگر بشریٰ کی روحانی قیادت میں تحریک انصاف کی حکومت آئی تو پاک فوج کی سیاسی مداخلت کا رستہ بھی مکمل طور سے رُک جائیگا۔ جس طرح عمران خان روحانی بنیادوں پر اپنے مسائل کے حل کیلئے بشریٰ کے دروازے پر پہنچ گئے اسی طرح سے پنجاب ہی نہیں پاکستان بھر میں مسائل کے شکار عوام اس آستانے پر سجدہ تعظیمی بجا لاسکتے ہیں۔
تحریک انصاف کے قائد عمران خان کو جس کی روحانی قوت ، مشوروں اور سعادت کی گھڑیوں میں کامیابی کے راز بتانے سے وزیراعظم کے منصب پر فائز کیا ہو یا پھرسیاست سے کنارہ کشی کرکے صوفیت کی گدی پر بٹھادیا ہو تو اس کی کرامت پر کس کو یقین نہ آئیگا؟۔ اگر عمران خان شادی کرکے بھی وزیراعظم کے منصب پر نہ پہنچ سکے تو پھر آخری کھیل یہ ہوگا کہ سیاست کو حقارت کی ٹھوکر مار کر پنجاب میں آستانہ عالیہ سجادیں گے۔ جہاں لوگوں کے دینی ،روحانی،مالی،نفسانی اور ہر قسم کے مسائل حل کرنے کیلئے ٹھکانہ بن جائیگا۔بینظیر بھٹو اور وزیراعظم نوازشریف بھی تنکے والے ننگے بابا کے پاس عقیدت سے پہنچتے تھے اور جتنی تعداد میں ڈنڈیاں ماری جاتی تھیں اتنے اتنے سال حکومت کرنے کیلئے ملتے تھے۔جب ہندو اور مسلمان پنجاب کے پیروں کو قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے تو سکھ مذہب کے روحانی بانی بابا گرونانک نے ایک نیا مذہب ایجاد کیا۔ برصغیر پاک وہند راجہ رنجیت سنگھ کا اقتدار انگریز کے مقابلہ میں سب سے زیادہ مضبوط تھا۔ اورنگزیب عالمگیر بادشاہ کے پاس ایک بہروپیہ آیا اور شاہی دربار میں بھرتی ہونے کی خواہش ظاہر کی۔ بادشاہ نے کہا کہ پہلی شرط آزمائش ہے۔ بہروپیہ نے مختلف لبادے بدل بدل کر قسمت آزمائی کی لیکن بادشاہ ہر بار اس کو پہچان کر شرمندہ کردیتا تھا۔ آخر کار بادشاہ ایک مشکل مہم پر جارہاتھا،پتہ چلا کہ کوئی درویش عرصہ سے گوشہ نشین ہے، اورنگزیب بادشاہ نے بھی دعاکی غرض سے خدمت میں حاضری کا فیصلہ کیا، قریب جاکر پتہ چلا کہ درویش غنودگی کے عالم میں ہے جب تک ہوش میں نہ آئے بادشاہ بھی حاضری نہیں دے سکتا۔ اورنگزیب بادشاہ کی عقیدت میں اضافہ ہوا کہ واقعی کوئی بڑی بزرگ شخصیت ہے، اس ویرانے میں بادشاہ کی بھی پروا نہیں ہے۔ پھر جب پیرصاحب ہوش میں آگئے تو اورنگزیب بادشاہ نے اپنے ساتھ بڑا سرمایہ لیکر خدمت میں حاضر ہوا، درویش سے دست بستہ دعا کی درخواست کی اورنذرانہ بھی پیش کردیا، اس نے کہا کہ میں تمہاری دولت کو پائے حقارت سے ٹھوکر مارتا ہوں لیکن آپ نے مجھے پہچانا نہیں؟، میں وہی بہروپیہ ہوں۔ بادشاہ نے کہا کہ آپ نے اپنے فن کا کمال ثابت کیا ہے اور اس رقم کو بطور انعام لے لو، مگر درویش نے کہا کہ میں تمہاری نوکری پر لعنت بھیجتا ہوں، جب درویشی کی نقل میں اتنی عزت ہے کہ میری داڑھی سے دھوکہ کھاکر میرے پاؤں کو بھی چھو رہے ہو، عاجزی ونکساری بھی کررہے ہو تو اصلی درویشی کیوں اختیار نہ کرلوں؟۔
اگر پنجاب کی عوام کو ن لیگ کے رحم وکرم پر چھوڑدیا گیا تو عمران خان درویشی کی راہ پر چل سکتے ہیں اور عمران خان کو حکومت دیدی گئی تو طالبان سے زیادہ یہ رنگ وروپ خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔ دونوں صورتوں میں وہ انقلاب نہیں آسکتا جس کیلئے قوم کو اُمید ہے۔