پوسٹ تلاش کریں

قرآن وحدیث سے انحراف کا نتیجہ

قرآن وحدیث سے انحراف کا نتیجہ

ےٰبنی اٰدم لایفتنکم الشیطٰن کما اخرج ابویکم من الجنة ینزع عنھما لباسھما لیریھما سواٰتھما انہ یرٰ کم ھو و قبیلہ من حیث لاترنھم انا جعلنا الشیٰطین اولیاء للذین لایؤمنون (الاعراف:27)
” اے آدم کی اولاد ! خبردار تمہیں شیطان فتنے میں نہ ڈالے جیسا کہ تمہارے والدین کو بہشت سے نکالا۔ ان دونوں کے کپڑے اتروادئیے تاکہ ان کی شرمگاہوں پر ان کی نظریں پڑجائیں۔بیشک وہ اور اس کا قبیلہ تمہیں وہاں سے دیکھتے ہیں کہ تم انہیں نہیں دیکھتے۔ بیشک ہم نے شیطانوں کو ان کا سرپرست بنایا ہے جو ایمان نہیں لاتے ہیں”۔
لڑکا اور لڑکی دنیا کی جنت میں رہتے ہیں۔ دلہن دلہا کی جگہ بھگوڑے بنتے ہیں تو تذلیل ہوتی ہے۔ حدیث میں واضح ہے کہ ایسا نکاح باطل ہے باطل ہے باطل ہے۔ مولوی دنیا بھر کے لوگوں پر منکرِ حدیث کا فتویٰ لگانے میں کوئی حرج محسوس نہ کرے لیکن خود اپنی تعلیمات میں اس کا بہت بڑا مرتکب ہوتا ہے۔ جس کا اسے اور اسکے ماحول کو احساس تک نہیں ہوتاہے۔
ایسے بیہودہ نکاح کیلئے شریف گواہ کہاں مل سکتے ہیں؟۔ حدیث ہے کہ ”نکاح میں دو صالح گواہ مقرر کرو” ۔لیکن حنفی مسلک میں ضرورت کیلئے دو فاسق کی گواہی کافی ہے۔ حدیث ہے کہ دف بجاکر نکاح کا اعلان کرو۔ حنفی کہتا ہے کہ دو فاسق گواہوں کی خفیہ گواہی بھی اعلان ہے۔ انکار حدیث کا فتنہ تو کوئی علماء ومفتیان سے سیکھے۔ انکار حدیث کے اس فتنے کی وجہ سے معاشرے میں بھی بہت بگاڑ پیدا ہوگیا ہے۔
لڑکی اور لڑکے کے بھاگنے کیلئے علماء نے مکمل راستہ ہموار کیا ہے اور یہ اتنا نالائق طبقہ ہے کہ اپنی نالائقی کا احساس تک نہیں رکھتا ہے۔ بلکہ اس کا سارا الزام معاشرے اور ماحول پر ڈالنے سے بھی نہیں شرماتا ہے۔اس بیچارے گدھے کویہ پتہ تک نہیں ہوتا ہے کہ اس کے اپنے غلط نصاب کا یہی نتیجہ نکلتا ہے۔
لڑکی اور لڑکے کو قتل کردیا جاتاہے اور اگر وہ بچ جائیں تو پھر ان کے خاندان کی عزت فالودہ بن جاتی ہے۔ جب لڑکا لڑکی کو اس طرح سے شادی کی اجازت مل جائے تو وہ ہوامیں ہی معلق ہوجاتے ہیں۔ نوکری اور کاروبار ہو تو بھی چھوٹ جاتا ہے اور اپنے اپنے خاندانوں سے بھی ہاتھ دھو لیتے ہیں۔ ان کی عزت بھی تذلیل میں بدل جاتی ہے۔
جب معمول کے مطابق شادی ہوتی ہے تو عزتوں کے ہار پہنائے جاتے ہیں۔ ایک طرف سے جہیز تودوسری طرف سے حق مہر ملتا ہے۔ دوست احباب تحفے تحائف دیتے ہیں۔ بہتر مستقبل کیلئے نوکری اور کاروبار کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ آل اور اولاد کیلئے دونوں طرف کے رشتہ آپس میں مل جل کرخوشیوں کے سامان مہیا کرتے ہیں۔ ان کی وجہ سے دو خاندانوں میں دوستی اور رشتہ داری کا تعلق قائم ہوجاتا ہے۔ اختلافات کی صورت میں دونوں طرف کے رشتہ دار سمجھانے بجھانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک طرف انتہائی خوشنما تصویر دکھائی دیتی ہے اور دوسری طرف انتہائی بدنما اور بھیانک تصوردکھائی دیتا ہے۔
اگرچہ دونوں صورتوں میں حق اور باطل کا فرق بہت واضح ہے لیکن ایک طرف ہمارے علماء ومفتیان نے احادیث کا انکار کرکے غلط راستہ ہموار کردیا ہے تو دوسری طرف عورت کے صحیح حقوق بھی ہمارے اسلامی معاشرے میں بالکل نہیں ملتے ہیں اور اگر عورت پر زبردستی سے والدین اپنے فیصلے مسلط نہ کرتے تو یہ حادثات بھی پیش نہ آتے۔ عورت بیوہ وطلاق شدہ ہو پاپھر کنواری اس پر والدین زبردستی اپنی مرضی مسلط نہیں کرسکتے ۔
مفتی محمد تقی عثمانی نے نابالغ لڑکیوں و دیگر معاملے پر شادی کے حوالہ سے جوظالمانہ فتوے لکھے،اگر خلفائ بالخصوص حضرت عمر کی حکومت ہوتی تو ان فتوؤں پر مفتی تقی عثمانی کو بالکل سرعام کوڑے مارے جاتے۔ اسلام کسی کے باپ کی جاگیر نہیں۔ اسلام کی درست تعلیم کو عام کرنا اہم فریضہ ہے۔ بنی ہاشم نے پہلے دور میںبھی اسلام کیلئے قربانی دی مگر ابولہب بھی ان میں تھا لیکن ہم ابوطالب وعلی کا کردار ااداکریںگے۔ انشاء اللہ تعالیٰ
ٔٔٔ٭٭٭
بھاگ کر شادی کرنے والی سلمہ شیخ کو معمولی بات پر اس کے شوہر نے گلا دبا کر قتل کیا۔ ہماری اکثرلڑکیاں لوفر قسم کے لڑکوں کی پیار بھری باتوں میں آکر گھر سے فرار ہوتی ہیں، جس میں قرآن وحدیث کیخلاف شرعی مسائل کا بہت بڑا عمل دخل ہے ذرا سوچئے سہی!
٭٭٭
16سال کی پٹھان لڑکی شادی کرنے کیلئے لاہور آگئی۔
3سال کا تعلق ہے اب کراچی سے بھاگ آئی۔
گھر والے نہیں مان رہے تھے تو ان کو چھوڑ دیا۔

السلام علیکم ناظرین! دیکھو ٹی وی کے ساتھ میں ہوں آپ کی ہوسٹ رابعہ مرزا خوش آمدید کہوں گی۔ لڑکی اسکے ساتھ لڑکا ہے ۔ ان کا آپس میں کیا ریلیشن ہے آئے ہیں یہ کراچی سے۔ ریسکیو کیا ہے ان کو پولیس تحفظ مرکز نے۔ میں لڑکا لڑکی سے پوچھتی ہوں کیا معاملہ ہے کیوں آئے ہیں ؟۔ لڑکی سے سوال:
نام؟۔ امبرین ۔ عمرکیا ؟16سال۔ کہاں سے آئی ہو؟۔ کراچی سے ۔ لڑکے کیساتھ؟۔ ہاں۔ کیا لگتا ہے ؟۔ محبت کرتی ہوں۔لڑکاپٹھان ہے ؟۔ ہاں۔ تو گھر والوں نے شادی نہیں کی؟۔ امی نہیں راضی ۔ وہ کہتی ہیں اسکے ساتھ نہیں کر نی۔کتنا عرصہ ہو ا محبت کا؟۔3سال!13سال کی عمر سے تم نے محبت کر لی تمہارا کیا لگتا ہے ،ماموں کا لڑکاہے؟۔ ج: پڑوسی ہے۔ س :کیا کرتا ہے لڑکا؟۔ ج:کباڑ کا کام کرتا ہے۔ س: پیسہ ویسہ کما لیتا ہے؟۔ ج: ہاں ۔ س: اسکے اور تمہارے کتنے بہن بھائی ہیں؟۔ ج: اسکے دو بہنیں تین بھائی اور میرے دو بھائی چھ بہنیں۔ س: ابو کیا کرتے ہیں؟۔ ج: ابو گاڑی چلاتے ہیں۔ س:اب کیسے شادی کر لو گے؟۔ ج: یہ کہہ رہے ہیں امی لوگ آ رہے ہیں۔ س: کب سے بھاگے ہو ؟۔ ج: پرسوں سے۔ س: پتہ تھا لاہورکا، جو بھاگ کر آتا ہے، لاہورمیں کیا ہے؟۔ ج: پتہ نہیں، س: امی سے بات ہوئی؟۔ج: پولیس والوں نے کی۔ س: صبح آئیں گے وہ؟۔ج: ہاں۔س: شادی کر لیں گے؟۔ ج: ہاں ۔ س:نہ کی تو سوچو آگے پھر کیا ہوگا؟۔ ج: میں تو کروں گی اس سے ہی کروں گی ۔ س: کرنی ہے تو اسی سے نہیں تو ؟۔ ج:اور کسی سے بھی نہیں کروں گی ۔ س: اس کی عمر کیا ہے اس کا شناختی کارڈ ہے تمہارا تو شناختی کارڈ نہیں بنا؟۔ ج: نہیں بنا۔ سوال: لڑکے کی کیا عمر ہے؟۔ ج:21سال ۔ سوال: باقی بہن بھائیوں کی شادی ہوئی ہے تمہاری ؟۔ ج: ہاں ۔ س: تمہاری نہیں ہوئی اور تم سے بڑی کی بھی؟۔ ج: ہاں۔ س: اب تم پھر کر لو گی جلدی شادی یا وہ کہیں گے کہ ہم یہی کریں گے تو پھر ویٹ کر لو گی؟۔ج: صحیح ہے۔ سوال: پڑھی ہوئی ہویا کچھ نہیں پڑھا قرآن پاک پڑھا؟۔ ج: نہیں۔ قرآن پاک ابھی پڑھنے جاتی ہوں ۔ س: تو کس طرح محبت ہوئی ہے موبائل رکھا ہوا تھا آپس میں؟۔ ج: پہلے نہیں تھا ابھی ہے۔
س: اس نے لے کے دیا؟۔ ج: نہیں ابو کا موبائل ہے ۔ امی لوگوں کو نہیں پتہ ہے۔ س: سب چوری چوری کام؟۔
(پھرلڑکے سے سوالات کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے)
سوال: ہاں جی کیا نام ہے ؟۔ ج: یاسین۔ س: کب سے محبت ہے؟،ج: تین سال سے۔ س: تو کیا کرتے ہو کماتے ہو، صرف عشق معشوقیاں کی ہیں؟۔ ج: کباڑ کا کام ہے چاچو کیساتھ اپنا کام ہے۔ س: کتنا کما لیتے ہو ؟۔ ج: مہینے کا28،30ہزار۔ س: خوش رکھو گے؟۔ج: انشااللہ۔ س:30ہزار سے کیا بنتا ہے ایک ہزار روپے کا تو برگر آجاتا ہے تو اس کو کیسے خوش رکھو گے ؟۔ ج: اللہ کو منظور جیسا ہوگا خوش رکھے گا اللہ۔ س: اسکے ماں باپ نے فیصلہ کیا تم ان کو پسند نہیں ہو تو پھر اس کو کیوں بھگایا ؟۔ ج: اس نے یہ بولا کہ مجھے بھگا کرلے جاؤ، میں نے بولا کہ صبر کروتھوڑا ،امی ابو مان جائیں گے ہم ان کو راضی کر لیں گے بس پھر اس نے بولا کہ نہیں امی ابو نہیں مانیں گے امی نے ضد پکڑی ہے اور وہ نہیں مانے گی۔ س: اس نے ضد کیا کہ بھاگ چلتے ہیں؟۔ ج: ہاں۔ س: تو کب اس نے ذہن میں ڈالا کہ بھاگنا ضروری ہے اب ہمارا شادی نہیں ہوگا ؟۔ ج: اس نے تو رمضانوں میں کہا تھا مگر میں نے بولا ابھی نہیں بڑی عید کے بعد تک گزارہ کرتے ہیں اسکے بعد دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔ میں اپنی امی والدہ کو بھی بھیج دوں گا بہنوں کو بھی ۔ س: تمہارے گھر والے راضی ہیں؟۔ ج: جی سب راضی ہیں مگر اس کی امی نہیں ۔ س: اب کیا کرو گے تمہارے گھر والوں سے رابطہ ہوا انکا ؟۔ ج: جی وہ راستے میںہیں۔ س: تمہارے آ رہے ہیں انکے بھی ؟۔ ج: دونوں آرہے ہیں ۔ س: پھر کیا تم یہیں پرشادی کر لو گے یا ان سے لکھوا کے جا ؤگے کہ شادی کریں گے تو ہم گھر جائیں گے ورنہ نہیں؟۔ ج: ہم شادی کریں گے پھر گھر پہ جائیں گے۔ یہاں پہ ہمیں پولیس والوں نے بھی بولا تھا کہ ہم انکے ساتھ بات کریں گے ان کو راضی کریں گے ،مولوی صاحب کو بلاکر آپ لوگوں کو نکاح کروا کے آپ لوگوں کو بھیج دیں گے۔
ناظرین! یہ جوڑا بھاگ کے آیا۔ باقی کیس ہسٹری کیا کہتی ہے ہم بابر صاحب سے پوچھتے ہیں کہ اصل میں معاملہ کیا ہے۔ چلئے میرے ساتھ السلام علیکم جی! وعلیکم السلام! کیسے ہیں بابر صاحب؟۔جی الحمدللہ میڈم جی۔سوال: بابر صاحب یہ جو ہے چھوٹی عمر کے ہیں بالکل جوان ہیں اور بچی کی بھی عمر نہیں شناختی کارڈ بھی نہیں بنا۔ ان کو کیسے ریسکیو کیا کہاں سے آئے ہیں ان کا معاملہ کیا ہے کیا کیس ہسٹری ہے کیا کہیں گے؟۔ جواب: ادھر مسافر خانے صبح7بجے کے قریب آکر بیٹھے ہیں تو ان کو شک کی بنیاد پہ ہم نے جو تحفظ مرکز بلایا ہے۔اس لڑکے کو شک کی بنیاد پہ بلایا ۔اس نے پہلے تو نمبر سارے غلط بتائے پھر بعد میں ان کا موبائل لیا تو اس میں سے نمبر وغیرہ نکالے۔ لڑکی کا بھی نمبر اس کے موبائل سے نکال کر اس کے گھر والوں سے رابطہ کیاتوپھر لڑکی کے والدین نے کہا کہ ہم اسے لے جائیں گے اور لڑکے کے والد نے کہا میں تو ادھر اپنے کام پر ہوںمیں تو نہیں آرہا۔ سوال: لڑکے کے پیرنٹس نے اس کے پیچھے آنے سے انکار کردیا؟۔ جواب: ہاں !ظاہر سی بات ہے انہوں نے جب بولا کہ ہم تو نہیں آسکتے ہمیں تو پتہ نہیں کہ وہ کدھر ہے؟۔ تو وہ پھر ہم نے انہیں کہا کہ ٹھیک ہے اگر آپ نہیں آئیں گے تو ہم کاروائی کر دیتے ہیں ۔ پھر جب کاروائی کا سنا تو کہتے ہیں نہیں جی ہم آجائیں گے آپ ان کو بٹھا کے رکھیں انہیں جانے مت دیں۔ رابطہ کر کے پھر انہیں بلوایا کہ آپ ضرور پہنچیں۔ انہوں نے کہا جی ابھی تو دوپہر کو ان کو ہینڈ اوور کر کے گئے ہیں جو ہماری فرسٹ ٹیم تھی انہوں نے بھی رابطہ کیا ۔بعد میں انہوں نے ان کو بتایا کہ ہمیں بس نہیں مل رہی تو انشااللہ شام چار بجے ٹرین ملے گی تو انشااللہ صبح تین چار بجے پہنچ جائینگے ۔سوال: تو اب ان کے پیرنٹس آرہے ہیں۔ تو پھر اس کے بعد کا کیا معاملہ ہے کیا راضی ہیں انکے گھر والے آپس میں ان کا نکاح کرنے کیلئے کیونکہ ان بچوں نے کہا ہے کہ پولیس والوں نے یہ یقین دلایا ہے کہ آپ کا نکاح کروائیں گے اس کے بعد آپ کو ان کے پیرنٹس کے حوالے کیا جائے گا؟۔ جواب: نہیں جی پولیس کا کام تو یہاں تک ہی تھا۔ پولیس نے تو ریسکیو کرنا ہوتا ہے اور ریسکیو کر کے ان کے والدین کے ہینڈ اوور کرنا ہوتا ہے اور یہ ان کی خاندانی باہمی رضامندی سے یہ اگر چاہیں تو ہماری طرف سے جاتے ہی نکاح کر لیں یہاں سے باہر جا کے نکاح کر لیں لیکن ہم اتنا کر سکتے ہیں کہ انہیں سمجھا ضرور سکتے ہیں کہ اگر آپ کے بچے بالغ ہیں اگر آپ کے بچے اچھے طریقے کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو آپ ان کی بات ضرور سنیں گھر جا کے۔ اب وہ سنیں یا نہ سنیں یہ تو ان کے اپنے گھر کا میٹر ہے ۔
جی ناظرین! آپ نے دیکھا اورسنا کہ اگر خدانخواستہ یہ پولیس تحفظ مرکز کی ٹیم ان کو ریسکیو نہ کرتی تو بچی بہت ینگ ہے16سال کی ان کو پتہ نہیں ہے کہ کس طرح یہ اس معاشرے میں کیا چل رہا ہے خدانخواستہ کسی کریمنل ایکٹیوٹی یا کسی کریمنل گینگ کے ہاتھ آ جاتے تو ان کو خدانخواستہ اس لڑکی کوسیل بھی کیا جا سکتا تھا اغواء بھی کیا جا سکتا تھا لڑکا بھی کوئی اتنا ہائی فائی نہیں ہے یا اتنا سٹرانگ اور مضبوط نہیں ہے نہ فائنینشلی ہے اور فزیکلی ہے۔ لڑکی کو کس طرح پروٹیکٹ کر سکتا ہے؟۔ سوال تو یہ بنتا ہے کہ یہ آئے کیوں ہیں ؟۔یا کس بیس پہ ہیں ؟۔ یا کیا سوچ کے آئے ہیں؟۔ پھر میں کہوں گی کہ اپنے گھر میں ارد گرد بچوں کو ضرور مانیٹر کریں ان کی ایکٹیوٹی کو ضرور چیک کریں ان کے حلقہ احباب کو چیک کریں کہ بچوں کی کیا ایکٹیوٹی ہے کہاں آرہے ہیں کہاں جا رہے ہیں کہاں اٹھ رہے ہیں؟۔ اپنے آپ مصروفیات زندگی میں اتنا ٹائم ہو تاکہ آپ کو اپنے بچوں کے اوپر تھوڑی سی مانیٹرنگ ہو ان کی ایکٹیوٹی کا پتہ ہو یہ نہ ہو کہ کل کو پچھتائیں اس سے پہلے آپ الرٹ ہو جائیں۔ باقی آئی جی صاحب کا یہ اقدام ہمارے سر آنکھوں پر۔ پولیس تحفظ مرکز کی ایک ٹیم نے ایک اور کیس کو حل کیا ہے ایک بچہ بچی کو انشااللہ صبح اپنے پیرنٹس کے ہینڈ اوور کیا جائے گا قیمتی رائے سے آگاہ کیجئے گا پھر کہوں گی کہ پولیس تحفظ مرکز کی ٹیم اور پولیس تحفظ مرکز جنہوں نے بنایاIGصاحب ان کے اقدام کو ہم سلیوٹ کرتے ہیں قیمتی رائے سے آگاہ کیجئے گا حاضر ہوں گے نئے پروگرام میں فی امان اللہ۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

ایک عظیم انسانی معاشرہ

ایک عظیم انسانی معاشرہ
قرآن کریم کی تعبیر وتشریح پر حنفی، شافعی، مالکی ، حنبلی، جعفری اور اہلحدیث وغیرہ کا اتفاق ہوجائے تو امت مسلمہ کے مسائل بھی حل ہوجائیں گے۔ کیا حنفی اور شافعی کا قرآن کی تفسیر پر کوئی اتفاق تھا؟۔ نہیں، ہرگز بھی نہیں!۔ لیکن اسکے باوجود حنفی و شافعی ایک دوسرے کیلئے قابل احترام ہیں؟۔ہاں جی بالکل بھی!۔
مفتی منیر شاکر نے عوام کو قرآن پہنچانے کی جس تحریک کا آغاز کیا، بہت لوگ ان کی سن رہے ہیں، سمجھ رہے ہیں اور اتفاق کررہے ہیں ۔ جب آدمی چلنا پھرنا سیکھتا ہے تو گرتا اور سنبھلتا ہے۔غلطی کرتا ہے اور ٹھیک طریقے سے سدھرتاہے۔
دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث مولاناانور شاہ کشمیری نے فرمایا کہ ”میں نے ساری زندگی ضائع کردی ۔ قرآن وحدیث کی خدمت نہیں کی بلکہ فقہی مسلک کی وکالت کی ہے”۔ اور یہ بھی لکھ دیا ہے کہ ” قرآن میں معنوی تحریف بہت ہوئی ہے”۔
قرآن کے ذریعے عالم اسلام اور عالم انسانیت کا ایک عظیم معاشرہ بن سکتا ہے۔ قرآن وسنت کی تعلیم کو علماء ومشائخ کے سامنے لائیں گے تو بات بن جائے گی۔ علماء دیوبند نے1857کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد معاشرے میں اسلامی تعلیم کو زندہ رکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔
برصغیر پاک وہند میں مدارس قرآن وسنت کی تبلیغ کا اہم ترین ذریعہ تھے۔ قرآن واحادیث کے الفاظ کی حد تک تو مدارس اہم ذریعہ ہیں کیونکہ عربی کے بغیر قرآن اور احادیث کے الفاظ بھی نہیں پڑھ سکتے۔ لیکن جس طرح سے کہا جاتا ہے کہ حج وعمرے کے مسائل اس وقت تک سمجھ میں نہیں آسکتے جب تک کوئی عملی طور پر حج وعمرے کی ادائیگی نہ کرے۔ اسی طرح قرآن و حدیث کے احکام کا تعلق اگر عبادات سے ہو تو جب تک عملی طور سے عبادات کو اپنا لائحہ عمل نہ بنالیا جائے تو عبادات سمجھ میں نہیں آسکتی ہیں۔ مثلاً نماز، روزہ، وضو اور غسل کے احکام کو سمجھنے کا تعلق عملی زندگی سے ہے۔ اسی طرح معاشرتی احکام کا تعلق بھی عملی زندگی سے ہے۔ جب تک نکاح وطلاق اور دوسرے معاشرتی معاملات سے کسی کا عملی واسطہ نہیں پڑتا ہے تو پڑھنے اور پڑھانے سے شرح صدر نہیں ہوتا ۔ اسی طرح معاشی واقتصادی مسائل ہیں اور اسی طرح وہ احکام ہیں جو حکومت کے نظام سے تعلق رکھتے ہیں۔ سعودی عرب اور ایران کے بعد افغانستان میں طالبان کو اس سے واسطہ پڑگیا ہے۔ امیر المؤمنین ملا عمر اور امیرالمؤمنین ہیبت اللہ کے اقتدار میں شریعت کے نفاذ کے حوالے سے بہت فرق ہے۔ داڑھی، تصویر اور نماز کے مسئلے پر پہلے جیسی شدت ابھی نہیں رہی ہے۔ یہ انحراف نہیں بلکہ سمجھ اور تجربات کا بہت واضح فرق ہے۔
سعودی عرب اور ایران بھی بدل رہے ہیں۔ خلافت کے قیام سے نئے نئے تجربات پہلے سامنے آئے۔ حضرت ابوبکر صدیق نے زبردستی سے زکوٰة کا نظام نافذ کیا اور اس کیلئے قتال بھی کیا۔ حضرت عمر نے بدری اور غیربدری صحابہ میں وظائف کے اندر فرق رکھا۔ حضرت عثمان نے حضرت ابوبکر وعمر کا نظام اپنایا۔ حضرت علی نے نبی ۖ کے نظام کو زندہ کرنے کی کوشش شروع کردی لیکن ان کو دسترس حاصل نہیں ہوسکی تھی۔ حضرت حسن نے امیرمعاویہ کے حق میںدستبرداری اختیار کی اور یزید کے دور میں حضرت حسین نے حکومت کا تختہ الٹنے کی بنیاد رکھ دی۔ عبداللہ بن زبیر نے مکہ میں اپنی خلافت قائم کی۔ یزید کے بعد مروان نے عبداللہ بن زبیر کے اقتدارکا خاتمہ کردیا۔شہید کی لاش کو کئی دنوں تک عبرت کیلئے ٹانگ دیا تھا۔
نبی کریم ۖ نے سود کی آیات نازل ہونے کے بعد مدینہ میں مزارعت کو سود قرار دیا، مزارعین میں قوت خرید پیدا ہوگئی۔ مزودر کی دیہاڑی دوگنی تگنی چگنی ہوگئی۔ تاجروں کے حالات بدل گئے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے فرمایا کہ” مٹی میں ہاتھ ڈالتا ہوں اور سونا بن جاتا ہے”۔ جاگیردارانہ نظام بنیادتھا غلام اور لونڈی پیدا کر نے کا۔ عربی میں غلام کو ”عبد” اورلونڈی کو ” امة” کہتے ہیں۔ قرآن نے غلام اور لونڈی کے نکاح کا حق دیا تھا بلکہ واضح کیا کہ ” مؤمن غلام آزاد مشرک سے بہتر ہے۔ اگرچہ تمہیں مشرک زیادہ اچھا لگے”اور مؤمنہ لونڈی آزاد مشرکہ سے بہتر ہے ۔ اگر مشرکہ تمہیں زیادہ اچھی لگتی ہو”۔
غلام اور لونڈی جانوروں کی طرح بازاروں میں بکتے تھے۔ ان کے کوئی انسانی حقوق نہیں تھے۔ اسلام نے فیصلہ کردیا کہ ”مزارعت سود اور حرام ہے ” تو اس حکم سے غلامی کی فیکٹریوں کے خاتمے کی بنیاد رکھ دی۔ جنگوں، بردہ فروشی اور جوئے اور سودی قرضوں کی وجہ سے بھی لوگوں کی اولاد ، بیگمات اور وہ خود غلامی کی زنجیروں میں جکڑجاتے تھے۔ غلامی کے تمام ذرائع کا خاتمہ کردیاتھا۔ جنگوں میں بچوں ، عورتوں اور پر امن لوگوں پر ہاتھ اٹھانے تک ممانعت کردی تھی۔ پہلے ادوار میں عزتدار لوگوں کی تذلیل کردی جاتی تھی اسلئے کہ معزز بچوں اور خواتین کو بھی غلام اور لونڈی بنادیا جاتا تھا۔ حضرت زید بردہ فروشی کے ذریعے غلام بنائے گئے تھے اور نبیۖ نے ان کو اپنا منہ بولا بیٹا بنالیا مگر پھر بھی غلامی کے دھبے کی وجہ سے اپنی بیگم کو طلاق دینی پڑگئی۔ حضرت بلال اصلی نسلی غلام تھے مگر آپ کی عزت مشرکینِ مکہ کے سرداروں سے بھی بڑھ گئی تھی۔
پھر وہ وقت آیا کہ حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت علی کی اولاد نے پھر ملوکیت کے دور میں مزارعت شروع کردی تھی اور صحیح بخاری ومسلم وغیرہ ان حضرات کی وجہ سے دورِ رسالتۖ کے مقابلے میں مزارعت کے سود کو جواز مل گیا۔ غلام بنانے کا ایک ہی معتبر طریقہ تھا وہ مزارعت کا جاگیردارانہ نظام تھا۔اس کو مسلمانوں نے دوبارہ رائج کردیا تھا تو جو اسلام انسانوں کی غلامی سے انسانوں کو نکالنے کیلئے آیا تھا وہ اپنی افادیت کھو گیا۔
معیشت کی وجہ سے پاکستان اسرائیل کے غلام امریکہ کا غلام بن گیا اوربتوں کا پجاری بھارت معیشت میں مستحکم ہونے کی وجہ سے آزاد اور عزت دار ہے ۔پاکستانی مقتدرہ اور حکمران کی عزت فالودہ بن گئی۔ عبادات میں اہم نماز اورنمازِ جمعہ ہے جس سے پہلے تجارت چھوڑنے اور بعد میں فضل تلاش کرنے کا حکم ہے۔ دنیا میں سودی نظام کی وجہ سے امریکہ ویورپ اب اسرائیل کے غلام بن چکے اور روس نے سوویت یونین کے ممالک کو خودہی آزاد کردیااسلئے کہ وہاں سودی ناسور نہیں تھا۔ ہم اسلام کے معاشی اور معاشرتی نظام سے بہت دُور ہوچکے۔
مولانا مناظر احسن گیلانی نے اپنی کتاب”سوانح قاسمی جلد2” میں لکھا کہ مسلمان نسل درنسل ہندؤوں کی رسم ”ستی” سے متأثر تھے۔ بیوہ شوہر کی وفات کے بعد خود کو جلادیتی تھی اور بیوہ دوسری شادی نہیں کرتی تھی۔ شاہ ولی اللہ نے لکھاکہ اگر اس رسم کے خلاف بول نہیں سکتے تو دل سے برا سمجھے۔ شاہ اسماعیل شہید نے اپنی بیوہ بہن کو مشکوٰة پڑھائی تو بیوہ کے نکاح کرانے کے باب کو اس سے چھپایا ۔ جب سیداحمد بریلوی کی صحبت کا فیض حاصل کیا تو کھلم کھلا تقریریں کرنے کی ہمت ہوئی۔ جس کی وجہ سے بیوہ کی شادیاں کرانے والے کے نام سے مشہور کیا گیا۔ پھر ایک دن کسی نے سوال کیا تو سمجھ گئے اور کہا کہ جواب بعد میں دوں گا۔ سیدھا اپنی بیمار بہن کے پاس پہنچ گئے اور منت کی کہ میرا وعظ بے اثر ہوگا اسلئے دوسرا نکاح کرو۔ وہ بیمار تھی مگر مجبور ہوکر نکاح کرلیا۔ یہی صورتحال مولانا قاسم نانوتوی کی بھی بیان کی ہے جن کو ”الامام الکبیر” کے لقب سے یاد کیا ہے۔
شاہ ولی اللہ ، شاہ اسماعیل شہید اور مولانا محمدقاسم نانوتوی کے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوانہ رسوم سے نکلے لیکن قرآن کا درست ترجمہ و تفسیر اس وقت سامنے نہیں آسکی تھی۔ اللہ نے سورہ نور آیت32میں بیوہ وطلاق شدہ کا نکاح کرانے کا حکم دیا اور صالح غلاموں اور لونڈیوں کے نکاح کا بھی۔ اور ساتھ یہ صورت بھی بتادی کہ اگر آزاد عورت کا نکاح کسی غلام سے کیا جائے تو اس میں مکاتبت یعنی لکھت کا معاہدہ ہوگا ۔ اگر اس میں خیر نظر آئے تو یہ معاہدہ ہونا چاہے اور اس پر وہ مال بھی خرچ کرو جو اللہ نے تمہیں دیا ہے۔ پھر کنواری لڑکیوں کا مسئلہ بھی حل کیا ہے لیکن ان آیات کا انتہائی غلط ترجمہ وتفسیر کیا ہے۔ علماء ومفتیان اور شیخ القرآن وشیخ الحدیث اور جدید دانشوروں کی ایک ٹیم بیٹھ جائے۔ انشاء اللہ بہت آسانی کیساتھ اُمت کو موجودہ دور کی مشکلات سے قرآن کی واضح ہدایت سے نکالیں گے۔ ہم قرآن وسنت کی طرف توجہ نہیں کرتے بلکہ مسلکانہ اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر مدارس ومساجد کو استعمال کررہے ہیں۔ اچھے اچھے علماء حضرات کی سرپرستی میں قرآن وسنت کی طرف توجہ سے ہدایت کے راستے کھل جائیں گے۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ” جولوگ ہمارے (احکام) میں جدوجہد کرتے ہیں ہم ان کو ضرور بضرور اپنے راستوں کی ہدایت دیں گے”۔ القرآن

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

قرآن کریم کی غلط تعبیر سے کس نے گمراہ کیا؟

قرآن کریم کی غلط تعبیر سے کس نے گمراہ کیا؟

ولا تکرھوا فتیٰتکم علی البغآء ان اردن تحصناً لتبتغوا عرض الحیٰوة الدنیا ومن یکرھھن فان اللہ من بعد اکراھھن غفور رحیم(33)
اور اپنی لڑکیوں کو بغاوت پر مجبور مت کرو اگر وہ نکاح کرنا چاہتی ہوں تاکہ تم دنیا کی سرخ روئی چاہو اور جس نے ان کو زبردستی سے مجبور کردیا تو بیشک اللہ ان کی مجبوری کے بعدمغفرت کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔سورہ النور

کنواری لڑکیوں کوانکے ولی (سرپرست) اپنی مرضی سے نکاح کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔جب لڑکی کسی سے عشق اور محبت کے ہاتھوں مجبور ہوکربغاوت کرنے پر آتی ہے تو خاندان کی عزت کو فالودہ بنادیتی ہے۔ عدالتوں میں بڑے پیمانے پر اس طرح کے کیس سامنے آرہے ہیں۔قرآن اورحدیث میں ان مسائل کا حل موجود ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عام طور پر لڑکی کا نکاح خاندان کی باہمی مشاورت سے طے کیا جاتا ہے۔ یہ بالکل معمول سے ہٹ کر معاملہ ہوتا ہے کہ لڑکی مرضی سے نکاح چاہے اور والدین کی رضامندی اس میں شامل نہ ہو لیکن کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ لڑکی اپنا دل کسی کو دے بیٹھتی ہے اور خاندان کیلئے وہ رشتہ قابل قبول نہیں ہوتا ہے۔
ایک طرف حنفی فقہاء نے صحیح حدیث کو قرآن کے خلاف قرار دیا اور دوسری طرف ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کی اس صورت میں اجازت دی ہے کہ جب لڑکی اور لڑکے دونوں کے خاندان میں برابری ہو۔ اگر لڑکی کا خاندان اُونچا ہو تو پھر اس کا نکاح کم حیثیت رکھنے والے لڑکے سے اس صورت میں جائز ہے کہ جب لڑکی کے خاندان والے اجازت دیں۔
فقہاء نے قرآن کو حدیث کے خلاف قرار دیکر رد کردیا تھا مگر پھر کفوء کا شرعی مسئلہ فقہی مسائل اور فتوے کا حصہ بنادیاہے اور کفوء کے مسائل میں بھی عجائبات ہیں لیکن اس طرف زیادہ تفصیلات میں جانے کا یہ موقع نہیں۔ زیادہ تر مسائل اسی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں کہ لڑکی کے خاندان لڑکے کو برابر نہیں سمجھتے ہیں۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو وضاحت کیساتھ بیان کردیا ہے۔ جب لڑکی والوں کو اپنی خاندانی وجاہت کا احساس ہو اور لڑکے کو اپنی خاندانی وجاہت کے قابل نہ سمجھتے ہوں تو پھر اللہ نے اس کی نشاندہی کرتے ہوئے آیت میں واضح کیاکہ:
” اور اپنی لڑکیوں کو بغاوت پر مجبور مت کرو اگر وہ نکاح کرنا چاہتی ہوں تاکہ تم دنیا کی سرخ روئی چاہو اور جس نے ان کو زبردستی سے مجبور کردیا تو بیشک اللہ ان کی مجبوری کے بعدمغفرت کرنے والا رحم کرنے والا ہے”۔(سورہ النور۔ آیت33)
اگر لڑکی کو مجبور کرکے اس کی دوسرے شخص سے زبردستی سے نکاح کرایا گیا تو پھر اگر چہ یہ جائز نہیں ۔ عورت کی مرضی سے اس کا نکاح کرانا ہی ضروری ہے لیکن ان کو زبردستی سے مجبور کرنے کے بعد لڑکی پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ اسلئے کہ مجبوری میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں ہے اور اللہ غفور رحیم ہے۔اور اگر لڑکی نے بغاوت کرکے باطل نکاح کرلیا تو بھی اگرچہ یہ حرام ہے مگر جب اس کے ولی اس کو اپنی مرضی کے خلاف مجبور کررہے تھے تو یہ بغاوت اور باطل نکاح بھی قابل معافی ہے اور اللہ غفور رحیم ہے۔ قرآن وسنت کی روح کو سمجھ کر آج اُمت کی ذہن سازی کی جائے تو ماحول پر بھی قابو پانے میں آسانی ہوگی اور قوم کی مردہ جان میںبھی زندگی کی روح دوڑ جائے گی اور مسلک کے نام پر اختلافات اور خرافات سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ علم سے جاہل ، عمل سے عاری ، عقل سے گدھے اور دنیاپرستی کے معاملے میں انتہائی عیارو چالا ک ہیں اور نئے نئے ریکارڈ بنارہے ہیں اور اسلاف کا نام لیتے ہیں۔
جامعہ دارالعلوم کراچی کے ایک فاضل نے بتایا کہ مفتی محمد تقی عثمانی کی لڑکی کو ایک لڑکا ٹیوشن پڑھا رہاتھا اور پھر اس نے اس لڑکے سے شادی کی ٹھان لی مگر پھر اپنی لڑکی کو مارپیٹ سے مجبور کرکے دوسرے لڑکے سے نکاح پر مجبور کیا گیا ۔
جن کے گھروں میں مسائل ہوں تو وہ قرآن و حدیث کے مسائل کو درست انداز میں اٹھانے سے بڑا گریز کرتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے نومنتخب امیر حافظ نعیم الرحمن صاحب یہ بات سمجھ لے کہ ”اگر قرآن کی اس آیت کا درست ترجمہ وتفسیر منی پاکستان کراچی کے لوگوں کو سمجھا دی گئی تو پورے پاکستان کے لوگوں میں یہ شعور عام ہوجائے گا۔ پھر کوئی باپ بھی اپنی بیٹی کو بغاوت پر مجبور کرنے کی حد تک لے جانے کے بجائے اس کا نکاح اس کی مرضی سے کردے گا اور ہمارا معاشرہ ایک بہت بڑے بحران سے بچ جائے گا۔
علماء نے اس آیت کا ترجمہ یوں کردیا ہے ۔(العیاذ باللہ)
” اور تم اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور مت کروجب ان کا ارادہ پاکدامن رہنے کا ہو،تاکہ اس کے ذریعے سے دنیاوی مفاد حاصل کرو۔ اور جس نے زبردستی سے ان کو مجبور کردیا تو پھر ان کی مجبوری کے بعد اللہ غفور رحیم ہے”۔ النور،آیت:33
اگر قرآن وسنت کی درست تعلیمات کو سیکھ اور سمجھ کر اپنے منبر ومحراب پر عوام کے سامنے بیان کیا جائے تو سوشل میڈیا پر بھی حقائق پھیل جائیں گے اور اسلام اور علماء کا نام روشن ہوگا۔
احادیث میں کنواری لڑکیوںاور طلاق شدہ وبیوہ خواتین کا نکاح ان کی مرضی اور اجازت سے بہت بڑی وضاحت ہے۔
ملا جیون بہت سادہ مگر مخلص انسان تھے۔ رائیونڈ تبلیغی مرکز میں ایک عالم نے بیان کیا کہ ” شاہجہان بادشاہ اور اسکے وزراء ریشمی کپڑے پہنتے تھے۔ ملاجیون سے کسی نے پوچھا کہ ریشمی کپڑے مرد کیلئے جائز ہیں ؟۔ تو اس نے جواب دیا کہ بالکل بھی جائز نہیں ہیں اور اگر کوئی اس کو حلال سمجھتا ہے تو وہ واجب القتل ہے”۔ مفتی تقی عثمانی نے سود کو بھی اب حلال قرار دیا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

انکار حدیث کے ذریعے فتنہ کس نے برپا کیا؟

انکار حدیث کے ذریعے فتنہ کس نے برپا کیا؟

جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے باطل ہے …

ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کا ہونا آیت حتیٰ تنکح زوجًا غیرہ سے ہرگز متصادم نہیں ہے

درسِ نظامی کی فقہ حنفی ہے کہ حتی تنکح زوجًا غیرہ ”حتی کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرے ”( البقرہ:230) اس آیت میں عورت اپنے نکاح کیلئے خود مختار ہے۔ جس میں حدیث خبر واحد کی وجہ سے اس کو اپنے ولی کی اجازت کا پابند نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ نبی ۖ نے فرمایا: ایما امرأة نکحت بغیر اذن ولیھا فنکاحھا باطل باطل باطل ” جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے باطل ہے باطل ہے”۔ یہ حدیث خبرواحد ہے اور قرآن کی آیت سے متصادم ہے اسلئے اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔
پاکستان کے آئین میں قرآن وسنت کے منافی قوانین کی گنجائش نہیں ۔ لڑکی گھر سے بھاگتی ہے پھر اغواء کا مقدمہ ہوتا ہے پھر عدالت سے رہائی ملتی ہے جب لڑکی کہتی ہے کہ وہ اپنی رضامندی سے گئی تھی اورمولوی کا نکاح نامہ پیش کیا جاتاہے ۔
اگر حنفی قرآنی آیت سے حدیث کو متصادم نہ قرار دیتے تو معاملہ مختلف ہوتا۔ یہ احادیث حد تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں کہ ولی کی اجازت کے بغیر عورت کا نکاح نہیں۔200احادیث عورت کے نکاح کو ولی کی اجازت کے بغیر باطل قرار دیتی ہیں لیکن حنفی مسلک و درسِ نظامی کی تعلیمات یہی ہیں کہ قرآن سے متصادم ان احادیث کو ناقابل عمل قرار دیتے ہیں۔ مفتی منیر شاکر کی بھی تعلیم وتربیت اسی درسِ نظامی اور حنفی مسلک میں ہوئی ہے۔
مالکی، شافعی، حنبلی، جعفری اور اہل حدیث کے جمہور فقہاء و محدثین ان احادیث کو مانتے ہیں۔ ولی کی اجازت کے بغیر وہ عورت کے نکاح کو باطل سمجھتے ہیں اسلئے پاکستان وہندوستان کے علاوہ دوسری جگہ لڑکی کے بھاگ کر نکاح کرنے کامعاملہ کم ہوتا ہے۔ جمہور فقہاء ومحدثین نے امام ابوحنیفہ اور مسلک حنفی کے علمبرداروں کو ”منکرین حدیث” قرار دینا شروع کیاتھا۔
علماء غلط تعلیم دیتے ہیں کہ ”یہ قرآن سے متصادم ہے”۔ اصل حنفی مسلک یہ ہے کہ جب قرآن و احادیث کی تطبیق ہوسکتی ہو تو تطبیق کردی جائے ،امام ابو حنیفہ نے فرمایا کہ ” جب حدیث صحیح ثابت ہوجائے تو وہی میرا مذہب ہے”۔ سارے ائمہ یہی کہتے تھے کہ قرآن کے خلاف حدیث کو وہ نہیں مانتے۔ حدیث کے مقابلے میں ہمارے مذہب کو دیوار پر دے مارا جائے۔
اگر ولی کی اجازت کے بغیر عورت کے نکاح کو باطل قرار دینے والی احادیث کو کنواری لڑکیوں سے خاص کردیا جائے اورقرآنی آیات کو طلاق شدہ اور بیوہ کیساتھ خاص کردیا جائے تو قرآن و احادیث میں تصادم نہیں تطبیق ہوجائے گی۔ مسلک حنفی کا یہی تقاضا ہے جس کی نشاندہی دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حکیم الاسلام قاری محمد طیب نے اپنی کتاب” اجتہاد وتقلید” میں بہت وضاحتوں کیساتھ کردی ہے۔ جو مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع اور مفتی حسام اللہ شریفی کے استاذ تھے۔
البقرہ آیت230میں طلاق شدہ سے زیادہ ١لبقرہ:234میں اللہ تعالیٰ نے بہت واضح الفاظ میں بیوہ عورت کو عدت کی تکمیل کے بعد خود مختار قرار دیا ہے۔ اگر حنفی مسلک والے ان دونوں آیات کو اپنی تعلیمات میں پیش کرتے اور احادیث صحیحہ کو کنواری لڑکیوں سے خاص کردیتے تو جمہور فقہاء ومحدثین بھی ان آیات کے انکار یا تأویل کے مرتکب نہ ہوتے۔
علماء کرام کو چاہیے کہ قرآن و احادیث پر متفق ہوجائیں اور ایک دوسرے پر منکرین قرآن وحدیث کا فتویٰ لگانے سے پرہیز کریں۔ جمہور فقہاء ومحدثین کی مصیبت یہ ہے کہ احادیث صحیحہ کی وجہ سے آیت230،234البقرہ کے خلاف بھی عورت کی خود مختاری و آزادی کو نہیں مانتے۔ آج سوشل میڈیا کے ذریعے مسائل کو علماء تک محدود نہیں رکھا جاسکتا ۔اسلئے عوام مذہبی طبقے سے بہت تیزی کیساتھ مسلسل متنفر ہورہی ہے۔
برصغیرپاک وہند کے مایہ ناز حنفی عالم علامہ تمناعمادی نے پاکستان کی تشکیل کے بعد مشرقی پاکستان کے ریڈیو سے قرآن کا درس دینا شروع کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ قرآنی آیات بھی سمجھانے کیلئے تمرین (مشق) کرائی جائے۔ جس طرح حنفی اصول فقہ میں آیت حتی تنکح زوجًا غیرہ کے مقابلے میں حدیث کی تردید ہے ،اسی طرح آیت وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحًا ” اور انکے شوہر اس عدت میں ان عورتوں کو لوٹانے کا زیادہ رکھتے ہیں اگروہ صلح چاہتے ہوں”۔ کے مقابلے میں پہلے تو کوئی خبر واحد کی حدیث نہیں ہے کہ جس میں نبیۖ نے عدت میں رجوع سے روک دیا ہو۔ لیکن اگر کوئی صحیح حدیث ہوتی تب بھی قرآن کی آیت سے متصادم ہونے کی بنیاد پر اس کو رد کردیا جاتا۔
علماء کی بڑی کم بختی یہ ہے کہ قرآن کی آیات کو بھی آپس میں متصادم کر دیا جو کام قرآن کے دشمن نہ کرسکے وہ نادان دوستوں اور احمق گدھوں نے کردیا۔ اللہ نے عدت میں باہمی اصلاح سے شوہر کو رجوع کا زیادہ حقدار قرار دیا تو حلالہ کی لت والے مفتیان کس طرح فتویٰ دیتے ہیں کہ رجوع نہیں ہوسکتا ہے؟۔
عورت کی عزت کو قرآن وسنت نے تحفظ دیا لیکن علماء نے اسلام اور حلالہ کے نام پر عورتوں کی عزتوں کو پامال کردیا ہے۔ حنفی مسلک فطرت کے عین مطابق تھا لیکن احمق گدھوں نے مسلک حنفی کی غلط ترجمانی سے حقائق کو بالکل مسخ کردیا ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

3:جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام اور جمعیت علماء پاکستان

اسلام اللہ کا دین ہے اور مسالک ، مذاہب اور فرقے لوگوں نے بنائے جن سے نکل سکتے ہیں

3:جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام اور جمعیت علماء پاکستان

مذہبی سیاسی جماعتوں کو پاکستان میںبڑی سطح پر پذیرائی اسلئے نہیں ملتی ہے کہ انہوں نے مذہب کا لبادہ اوڑھ لیا ہے لیکن اسلام کی کماحقہ خدمت نہیں کرتی ہیں۔ جماعت اسلامی کے نئے امیر حافظ نعیم الرحمن نے نئے عزم کا اظہار کرتے ہوئے خواتین کے اسلامی حقوق بحال کرکے سیاسی میدان میں اتارنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جماعت اسلامی ایک گروہ ، فرقہ اور مسلک نہیں ہے بلکہ امت مسلمہ کے اجتماعی اقامت دین کا فریضہ ادا کرنے کیلئے بنی ہے۔ پروفیسر غفور احمد کا تعلق بریلوی اور قاضی حسین احمد کا تعلق دیوبندی گھرانے سے تھا۔ اسلامی جمہوری اتحاد میں قاضی حسین احمد نے جماعت اسلامی کوISIکیلئے استعمال کیا لیکن پروفیسر غفور کو پتہ بھی نہیں تھا۔ جماعت کے صدر اور جنرل سیکرٹری میں کتنا فرق تھا؟۔ پرویزمشرف کے ریفرینڈم کی عمران خان تائید اور جنرل سیکرٹری معراج محمد خان مخالفت کررہاتھا۔ سیاست کی بساط تلپٹ ہوتی رہتی ہے لیکن اسلام کیلئے بنیادی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ملی یکجہتی کونسل کے قاضی حسین احمد صدر تھے لیکن جب نمائندہ ضرب حق امین اللہ نے کوئٹہ میں سوال کیا کہ شیعہ مسلمان ہیں یا کافر؟۔ تو قاضی حسین احمد ناراض ہوگئے۔ پھر سید منور حسن نے سلیم صافی کو پاک فوج کے خلاف ایک بیان دیا تو جماعت اسلامی نے سراج الحق کو امیر بنادیا۔ اب حافظ نعیم الرحمن نے اقامت دین کے پرانے راستے پر چلنے کا عہد کیا ہے تو عورت کا حق سلب کرنے والے حنفی و جمہور فقہاء کے مسالک کو چھوڑ کر قرآن کے مطابق عورت کو حق دینے کا فارمولہ عام کریں تو جماعت اسلامی اقامت دین کیلئے کھڑی ہوگی۔ صدراتحاد العماء سندھ کے مولانا عبدالرؤف ، جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر مولانا عبدالحق بلوچ اور دیگر نے ہماری حمایت کی۔ جمعیت علماء اسلام اور جمعیت علماء پاکستان کے اہم قائدین نے بھی ہماری حمایت کی ہے لیکن اصل معاملہ قرآن کے واضح احکام کی طرف رجوع ہے۔ عورت کو حلالہ اور دیگر مظالم سے نکالنا پڑے گا۔

نوٹ: مندرجہ بالا آرٹیکل مکمل پڑھنے کیلئے ترتیب وار پڑھیں۔
1:قرآن کو بوٹیاں بنانیوالے مجرموں کا کام اور ان کی نشاندہی؟
2:عدت کے بعد بیوہ کی خودمختاری اور علماء و مفتیان کی جہالتیں
3:جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام اور جمعیت علماء پاکستان

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

2:عدت کے بعد بیوہ کی خودمختاری اور علماء و مفتیان کی جہالتیں

اسلام اللہ کا دین ہے اور مسالک ، مذاہب اور فرقے لوگوں نے بنائے جن سے نکل سکتے ہیں

2:عدت کے بعد بیوہ کی خودمختاری اور علماء و مفتیان کی جہالتیں

والذین یتوفون منکم و یدرون ازواجًا یتربصن بانفسھن اربعة اشھر وعشرًافاذبلغن اجلھن فلا جناح علیکم فیما فعلن فی انفسھن بالمعروف واللہ بما تعملون خبیرO(سورہ البقرہ:234) ترجمہ: ”اور تم میں سے جو فوت ہوجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ4ماہ10دن تک اپنے آپ کو روکے رہیں اور جب وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو تمہارے اوپر کوئی حرج نہیں کہ وہ عورتیں اپنے معاملے میں جو فیصلہ کرلیں ”۔
نشان حیدر پانے والے فوجی یا دیگر سرکاری ملازمین کی وفات کے بعد ان کی بیگمات پر عدت4ماہ10دن ہیں۔ اگر وہ عدت کی تکمیل کے بعد کسی اور سے نکاح کرنا چاہتی ہوں تو بھی ان کی مرضی اور اگر اسی شوہر کے ساتھ نکاح کو قائم رکھنا چاہتی ہوں تو بھی ان کا نکاح قائم رہے گا۔ اگر وہ کسی اور سے نکاح کریں تو پھر سرکاری ملازم شوہر کی مراعات ختم ہوجائیں گی۔ بیوہ عورت عدت کے بعد بالکل آزاد ومختار ہے۔ آیت کا مفہوم بالکل واضح ہے۔ اختیار عورت کا اپنا ہے۔ اگر مردہ شوہر کیساتھ نکاح باقی رکھنا چاہتی ہیں تو جنت کے اندر بھی اپنے شوہر اور اپنی اولاد کیساتھ ہوں گی۔ نکاح ٹوٹے گا نہیں۔ مفتی اعظم کی وفات کے بعد20سال بعد بھی اس کی بیگم کی قبر پر زوجہ مفتی اعظم کی تختی لگتی ہے۔ لیکن انتہائی کم عقل گدھا مذہبی طبقہ جو یہ سمجھتا ہے کہ میاں بیوی میں کسی ایک کی وفات سے نکاح فوراً ختم ہوجاتا ہے ۔ حالانکہ نبیۖ نے حضرت عائشہ سے کہا: لومتِ قبلی فغسلتک ” اگر آپ مجھ سے پہلے فوت ہوگئی تو میں تجھے غسل دوں گا”۔( ابن ماجہ حدیث نمبر1465)۔ (مسند احمد6/228) شیخ البانی نے اس حدیث کو ” حسن” قرار دیا ہے۔ حضرت ابوبکر کی میت کو اس کی بیوی نے غسل دیا اور حضرت فاطمہ کی میت کو حضرت علی نے غسل دیا۔ جب مذہب کو پیشہ بنایا گیا تو ”میت کا غسل” بھی ایک پیشہ بن گیا۔ بڑے آدمی کی میت کو غسل دینے پر بڑے علماء میں جھگڑے ریکارڈ پر ہیں۔ ڈاکٹر عبدالحی پیر مفتی تقی عثمانی نے ”احکام میت” پر ضخیم کتاب لکھی۔ کتابیں بھی ایک بڑا کاروبار ہیں۔

نوٹ: مندرجہ بالا آرٹیکل مکمل پڑھنے کیلئے ترتیب وار پڑھیں۔
1:قرآن کو بوٹیاں بنانیوالے مجرموں کا کام اور ان کی نشاندہی؟
2:عدت کے بعد بیوہ کی خودمختاری اور علماء و مفتیان کی جہالتیں
3:جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام اور جمعیت علماء پاکستان

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

1:قرآن کو بوٹیاں بنانیوالے مجرموں کا کام اور ان کی نشاندہی؟

اسلام اللہ کا دین ہے اور مسالک ، مذاہب اور فرقے لوگوں نے بنائے جن سے نکل سکتے ہیں

1:قرآن کو بوٹیاں بنانیوالے مجرموں کا کام اور ان کی نشاندہی؟

للذین یؤلون من نسائھم تربص اربعة اشھر فان فاء وا فان اللہ غفور رحیمOان عزموا الطلاق فان اللہ سمیع علیم (سورہ البقرہ آیت226،227)
ترجمہ: ”ان لوگ کیلئے جو اپنی بیگمات سے لاتعلقی اختیارکرلیں،4ماہ ہیںپس اگر وہ آپس میں مل گئے تو اللہ غفور رحیم ہے ۔اور اگر ان کا عزم طلاق کا ہوا توپھر بیشک اللہ سننے والا جاننے والا ہے ”۔
دورِ جاہلیت میں ایک رسم یہ تھی کہ شوہر بیوی کو طلاق نہیں دیتا تھا لیکن مدتوں ناراض رہتا تھا جس کی وجہ سے اس کی بیوی زندگی بھر انتظار کرتے کرتے گزر جاتی تھی اور وہ اس کے نکاح میں رہتی تھی۔ دوسری جگہ وہ شادی نہیں کرسکتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے عدت وطلاق کے مسائل میں سب سے پہلے یہ خطرناک مسئلہ حل کردیا۔ طلاق میں 3ماہ انتظار کی مدت ہوتی ہے اور اس میں ایک ماہ کا اضافہ کرکے4ماہ انتظار کی مدت رکھ دی۔پھر اس کے ساتھ یہ بھی واضح کردیا کہ اگر طلاق کا عزم تھا تو یہ دل کا گناہ ہے اور اس پر اللہ تمہیں پکڑے گا اسلئے کہ ایک ماہ کے انتظار کی مدت بڑھانا عورت کیساتھ زیادتی ہے جس کو آیت225میں بھی واضح کیا ہے۔
جمہورفقہاء ومحدثین ، ابن تیمیہ وابن قیم کے نزدیک4ماہ بعد بھی زندگی بھر کیلئے نکاح قائم ہے جب تک کہ شوہر طلاق کااظہار نہ کرے۔اسلئے کہ شوہر نے اپنے حق کا استعمال نہیں کیا ۔حنفی فقہاء کے نزدیک شوہر کا4ماہ تک نہیں جانا اپنے حق کا استعمال ہے اسلئے 4ماہ گزرتے ہی طلاق ہوگئی اور انکا نکاح قائم نہیں رہاہے۔
اللہ تعالیٰ نے طلاق نہ دینے کی صورت میں عورت کامسئلہ حل کردیا ہے۔ ناراضگی میں4ماہ کی عدت کے بعد عورت چاہے تو دوسری جگہ نکاح کرے اور چاہے تو پہلے شوہر کے ساتھ اس کی رضامندی سے رہے۔ لیکن مسالک نے عورت کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ اگر عورت دوسری جگہ نکاح چاہتی ہے تو ایک طبقہ کہتا ہے کہ تمہارا یہ نکاح قائم ہے ۔ اگر وہ اپنے شوہر سے تعلق چاہتی ہے تو دوسرا طبقہ کہتا ہے کہ تمہارا نکاح ٹوٹ چکا ہے۔ اب عورت کس کی مانے اورکس کی نہیں مانے؟۔ یا دونوں پر لخ لعنت کرکے اپنے رب کی حقیقی نعمت کو مانے؟۔

نوٹ: مندرجہ بالا آرٹیکل مکمل پڑھنے کیلئے ترتیب وار پڑھیں۔
1:قرآن کو بوٹیاں بنانیوالے مجرموں کا کام اور ان کی نشاندہی؟
2:عدت کے بعد بیوہ کی خودمختاری اور علماء و مفتیان کی جہالتیں
3:جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام اور جمعیت علماء پاکستان

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

قرآنی آیت پر عمل ہوتا تو کینیڈین شہری اور دیگر سانحات سے معاشرے کو کبھی نہ گزرنا پڑتا

قرآنی آیت پر عمل ہوتا تو کینیڈین شہری اور دیگر سانحات سے معاشرے کو کبھی نہ گزرنا پڑتا

وانکحوا الایامٰی منکم و الصٰلحین من عبادکم و امآئکم ان یکونوا فقرآء یغنھم اللہ من فضلہ و اللہ واسع علیم (32) ولیستعفف الذین لا یجدون نکاحاً حتیٰ یغنیھم اللہ من فضلہ و الذین یبتغون الکتٰب مما ملکت ایمانکم فکاتبوھم ان علمتم فیھم خیرا واٰتوھم من مال اللہ الذی اٰتٰکم ولا تکرھوا فتیٰتکم علی البغآء ان اردن تحصناً لتبتغوا عرض الحیٰوة الدنیا ومن یکرھھن فان اللہ من بعد اکراھھن غفور رحیم(33)

اورنکاح کراؤ جو تم میں سے بیوہ و طلاق شدہ ہیں اور جو تمہارے صالح غلام ہیںاور لونڈیاں ہیں اگر وہ فقیر ہیں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کردے گااور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔ اور جو نکاح تک نہ پہنچیں تو وہ لوگ خود کو پاکدامن رکھیں یہاں تک کہ اللہ ان کو اپنے فضل سے مستغنی کردے۔ اور جو کتابت چاہتے ہوں تمہارے ساتھ معاہدہ کرنے والوں میں سے تو ان کے ساتھ کتابت کرو اگرتم ان میں خیر جانواور ان کو مال دو جو اللہ نے تمہیں دیا ہے اور مجبور مت کرو اپنی جوان لڑکیوں کو بغاوت پر اگر وہ نکاح کرنا چاہتی ہوں تاکہ تم چاہو دنیا کی زندگی کا مقام اور جو ان لڑکیوں کو مجبور کرے گا تو بیشک ان کی مجبوری کے بعد (ناجائز ہونے کے باوجود ان سے اللہ درگزر کرے گا) اللہ غفور رحیم ہے۔ (سورہ النور آیات33-32)قرآن کی ان آیات سے ایک بڑا اور متفقہ انقلاب بھی آسکتا ہے

مفتی منیر شاکر ایک نابغہ روز گار شخصیت ہیں لیکن ان سے اپنے اور پرائے سب ناخوش ہیں ۔ جس نے بھیک مانگنے کے بجائے اسلام آباد میں دیہاڑی اور مزدوری کی ہے اور برف بھی بیچنے کا کام کیا ہے اور دوسرے چھوٹے روزگار بھی کئے ۔
کرم ایجنسی میں شیعہ سنی منافرت مذہبی طبقات کو ورثے میں ملتی ہے اور اس کا مفتی منیر شاکر بھی کبھی شکار رہے ہیں اور یہ کوئی عیب کی بات نہیں ہے بلکہ ماحول اثر انداز ہوتا ہے۔
مفتی منیر شاکر کا تعلق ایک طرف دیوبندی حنفی مکتب سے رہاہے اور دوسری طرف وہ اشاعت التوحیدوالسنة کے بھی شیر رہے ہیں تو اس ماحول کا بھی ان پر بہت بڑا اثر رہاہے۔ اب تو جس طرح صوفیاء تصوف کی منزلیں طے کرکے لامکاں تک پہنچ جاتے ہیں اسی طرح مفتی صاحب نے بھی منزلیں طے کی ہیں۔
مفتی منیر شاکر پر سب سے بڑا اعتراض یہ وارد ہوتا ہے کہ وہ احادیث کے منکر ہیں اور عام روش کی مخالفت کرتے ہیں۔
جسٹس شوکت صدیقی نےISIکے خلاف تقریر کرکے جو شہرت حاصل کرلی ہے اور اب عدالت نے ان کو بے گناہ بھی قرار دیا ہے۔ وہ ایک مذہبی شخصیت بھی خود کو سمجھتے ہیں اور اس نے جماعت اسلامی کی بھی حال میں تعریف کی ہے ۔ جسٹس شوکت صدیقی صاحب نے ایک دن کہا کہ ” جو لڑکی بھاگ کر والدین کی اجازت کے بغیر شادی کرتی ہے تو یہ اسلام کے بھی خلاف ہے”۔ سندھ ہائی کورٹ میں بھی ایک دن ججوں نے یہ حرکت انتہائی شرمناک قرار دیتے ہوئے لڑکے سے پوچھاکہ ”اگر تمہاری بہن کسی کیساتھ بھاگ کر شادی کرلے تو اچھا لگے گا؟”۔ لڑکی کا گھر سے بھاگ کر شادی کرنا پاکستان و بھارت کے علاوہ شاید دنیا میں کہیں بھی نہیں ہوتا ہے۔
ایک طرف انگریز کی عدالت نے انسانی حقوق کا احترام کرتے ہوئے بالغ لڑکی کو اپنی مرضی کا مالک قرار دیا تودوسری طرف حنفی مسلک نے واضح حدیث اور مشرقی روایات واقدار کو پامال کرتے ہوئے بالغ لڑکی کو والدین سے بغاوت کی کھلی اجازت دی ہے اور حدیث کو قرآن سے متصادم قرار دیا ہے۔
پہلے لوگ امام ابوحنیفہ کے متعلق کہتے تھے کہ منکر حدیث ہے اور آج مفتی منیر شاکر کو منکر حدیث قرار دے رہے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ درس نظامی اور حنفی مسلک میں جو پڑھایا جاتا ہے تو کیا ایک قابل آدمی متاثر نہیں ہوسکتا ہے؟ اور جب کوئی بھی اپنے ماحول سے متأثر ہوسکتا ہے تو مفتی منیر شاکر پر سوشل میڈیا میں مذہبی طبقے کی طرف سے لعن طعن کرنا غلط نہیں ہے؟۔ مفتی منیر شاکر کے لہجے میں تلخی ہوسکتی ہے لیکن جب تک ان کو دلائل سے قائل نہیں کیا جائے تو اپنا لہجہ بھی کسی کی مخالفت سے کیوں بدلے گا؟۔ شیعہ نے صحابہ کرام پر اپنے لہجے کو مخالفین کی وجہ سے کبھی بدلا ہے؟۔ حنفی اہلحدیث نے اپنا لہجہ بدلا ہے؟۔ بریلوی دیوبندی نے ایک دوسرے کے خلاف اپنا لہجہ بدلنے کی طرف کبھی پیش قدمی کرنے کی کوشش کی ؟۔
لاہور کی شہری قنوت کا بچپن سے عمیر کیساتھ معاشقہ تھا۔ ہوسکتا ہے کہ عمیر سنی اور قنوت شیعہ ہو۔ بہرحال والدین نے اس کا نکاح علی رضا کیساتھ کردیا تھا جو کینیڈین شہری تھا۔ جب ان کے دو بچے بھی پیدا ہوگئے تو قنوت نے علی رضا کو پاکستان بھیج دیا اور عمیر سے قتل کرنے کی فرمائش کی تاکہ بچپن کی محبت کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جاسکے۔ علی رضا قتل ہوگیا اور سازش پکڑلی گئی۔ دعا زہرہ نے ایک سنی لڑکے سے محبت کی شادی کی تھی اور اس کیس کو پہلے میڈیا میں بہت غلط رنگ دینے کی بھی کوشش کی گئی لیکن آخر کار بہت مشکلوں سے معمہ سب کی سمجھ میں آگیا۔
بعض لوگوں نے200تک روایات کا کہا ہے کہ حد تواتر تک پہنچتی ہیں کہ” ولی کی اجازت کے بغیر نبی ۖ نے عورت کے نکاح کا منع فرمایا”۔ جب ایک لڑکی گھر سے بھاگ کر نکاح کرتی ہے تو بہت بڑا ہنگامہ کھڑا ہوتاہے۔ کورٹ میں مار کٹائی اور قتل وغارت تک بات پہنچ جاتی ہے لیکن ہمارے معاشرے میں اس کا کوئی سنجیدہ حل پیش نہیں کیا جاتا ہے۔ جب نبی ۖ نے فرمایاکہ ” جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے، باطل ہے ، باطل ہے”۔ پھر حنفی مسلک نے اس حدیث کو کیوں مسترد کردیا تھا؟۔ حالانکہ جمہور مالکی، شافعی،حنبلی،جعفری اور اہل حدیث کا یہی مسلک ہے۔ اسلئے پڑوسی ایران اور سعودی عرب اوردوبئی کی عدالتوں میں اس طرح کے کیس نہیں ہوتے ہیں۔ البتہ وہاں کی لڑکیاں بیرون ملک کسی کے ساتھ فرار ہوجاتی ہیں تو یہ الگ بات ہے۔
پاکستان وبھارت میں حنفی مسلک کی اکثریت ہے اسلئے عدالتوں میں لڑکی کی طرف سے والدین سے بغاوت کا معاملہ چلتا ہے۔ سعودی عرب اور دوبئی وغیرہ کے خلاف انسانی حقوق کا مسئلہ اقوام متحدہ میں اسلئے نہیں اٹھتا ہے کہ عرب ممالک میں حنفی مسلک کا ماحول نہیں ہے اور ان کے مذہبی طبقات بھی اپنا ماحول احادیث کے مطابق بناتے ہیں کہ والدین کی اجازت کے بغیر نکاح کا تصور باطل اور غلط ہے۔ جب قرآن کی بنیاد پر حدیث کو مسترد کیاگیا کہ اللہ نے فرمایا : حتی تنکح زوجًا غیرہ ” یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرے”۔ تو اس آیت سے عورت کی خود مختاری ثابت ہوتی ہے ۔ حدیث خبر واحد ہے اسلئے عورت کو ولی کی اجازت کا پابند نہیں بناسکتے۔ حنفی مسلک کی ٹریننگ ہے کہ قرآن کے مقابلے میں حدیث کی تطبیق نہ ہوسکے تو حدیث کو مسترد کیا جائے گا لیکن اگر قرآن کی مخالفت نہ ہو تو ضعیف حدیث بھی قابل عمل تصور کیا جائے گا۔
اس آیت میں طلاق شدہ عورت کا ذکر ہے ۔ حدیث سے کنواری لڑکی مراد لی جائے تو قرآن وحدیث میں تطبیق موجود ہے۔ مولانا بدیع الزمان جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں جب ہمیں پڑھارہے تھے تو میں نے ان کے سامنے یہ تطبیق رکھی تھی اور اس پر انہوں نے بڑی خوشی کا اظہار فرمایاتھا۔ اور امید ظاہر کی تھی کہ میں معاملے کے حل تک آئندہ پہنچ جاؤں گا۔
سورہ نور آیت32میں طلاق شدہ ،بیوہ ، غلام اور لونڈیوں کے نکاح کا حکم دیا اور آیت33میں کنواری لڑکیوں کا حکم دیا ہے کہ جب وہ نکاح کرنا چاہتی ہوں تو ان کو بغاوت یا بدکاری پر مجبور مت کرو۔ عربی میں بغاء کے دونوں معانی آتے ہیں۔ کنواری لڑکی کو اگر اس کی مرضی کے نکاح سے روک لیا جائے تو وہ چھپ کر بدکاری کرے یا کھل کر بغاوت کرے تو اس کی ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ تم دنیا میں ٹکر کا رشتہ چاہتے ہو اور اپنی توہین سمجھتے ہوکہ دنیاوی حیات میں اپنی لڑکیوں کا اس سے رشتہ کراؤ اور پھر مجبور کرتے ہو کہ اس کے ٹکر والے سے رشتہ کراؤ ۔ اگرچہ لڑکی کوزبردستی سے مجبور کرنا غلط ہے لیکن اگر ان کو مجبور کیا گیا تو پھر اس تعلق کو ناجائز نہیں قرار دیا جائے گا۔ سورہ نور کی اس آیت میں عورتوں پر بہت بڑا احسان کیا گیا ہے کہ ایک طرف اولیاء کو حکم دیا گیا ہے کہ جب وہ نکاح کرنا چاہتی ہوں تو پھر تمہیں ان کو بغاوت یا بدکاری پر مجبور کرنا غلط ہے۔ لڑکی کو کھل کر بغاوت یا چھپ کر نکاح کی اجازت بھی نہیں ہے اور زبردستی سے کسی اور سے نکاح پر مجبور کرنابھی غلط ہے لیکن عورت کو مجبورکرنے کے بعد اللہ نے خود کو غفور رحیم قرار دیاہے۔ قرآن کی طرف توجہ نہیں کی گئی ہے۔
دورِ جاہلیت کے مشہور شاعر امرء القیس نے جب چچا سے اس کی لڑکی لیلیٰ کا رشتہ طلب کیا ،جس کیساتھ بکریاں چراتے ہوئے اس کی محبت ہوگئی تھی تو یہ محبت بہت بڑا جرم بن گئی تھی۔ قیس مجنون بن گیا لیکن اس کو لیلیٰ نہیں مل سکی۔ پطرس بخاری کا ایک مضمون مچھر ہم نے سکول کے نصاب میں پڑھا تھا اس میں مچھر پربہت زبردست باتیں لکھی تھیں کہ نمرود کو بھی اس نے مار دیا تھا۔ ساری دنیا اس کے خلاف سازش کرتی ہے کہ اس کا وجود بھی دنیا میں نہیں رہا لیکن جہاں اور جس فیکٹری میں بھی اسکے نابود کرنے کے منصوبے بنتے ہیں وہیں پر منصوبہ سازوں کو مچھر ہاتھ پر کاٹ لیتے ہیں۔ آج کے دور میں پطرس بخاری مضمون لکھتا تو اس میں مزاح کے علاوہ دوسری طرح کا مصالحہ ڈال دیا جاتا کہ فرانس اور ترقی یافتہ دنیا نے ایسی ادویات ایجاد کی ہیں کہ اس میں بدبو بھی نہیں ہے اور6،6ماہ اور سال تک مچھر کمرے میں آنے کا رسک نہیں لے سکتا اور لے لیتا ہے تو اپنی موت آپ ہی مرجاتا ہے۔ لیکن ایک تو ترقی پذیر ممالک کو ترقی سے روکنے کیلئے وہ اچھے فارمولے نہیں بتاتے لیکن اگر وہ یہ مہربانی کر بھی لیں تو ہمارے مریضوں کو بھی جعلی ادویات سے چھٹکارا نہیں ملتا ہے تو مچھروں کے خاتمے کیلئے اصلی دوائی کون بنائے گا؟۔ خیر پطرس بخاری نے مچھر کے مضمون میں لکھاہے کہ ”ایک بزرگ کہتا تھا کہ میں دل سے مچھر کو پسند کرتا ہوں۔ سب سے پہلے وہ میرے ایک کان میں سائرن بجاتا ہے ۔ پھر دوسرے کان میں اور پھر پیر پر ہلکا کاٹتا ہے۔ پھر زور سے کاٹتا ہے اور پھر ہاتھوں کو بھی کاٹنا شروع کردیتا ہے اور منہ کو بھی پھر نہیں چھوڑتا ہے۔ جب تک تہجد کیلئے اٹھنے پر مجبور نہیں کرتا تو پیچھا نہیں چھوڑتا ہے۔ لیکن پھر مچھر تھوڑا سا شرمندہ ہوجاتا ہے کہ جب اس کو یاد آتا ہے کہ وہی بزرگ جب نماز پڑھ رہا ہوتا ہے تو سجدے کی حالت میں بھی اس کو پیر پر زور زور سے کاٹنا شروع کردیتا ہے”۔ مفتی منیر شاکر احادیث کا انکار کردیتا ہے تو شیعہ بھی خوش ہوتا ہے کہ ابوطالب پر بخاری میں کفر کا مسئلہ بھی غلط ثابت ہوسکتا ہے۔ پھر میں قرآن کا حوالہ دوں گا کہ بعثت کے وقت اہل کتاب بھی پہلے سے مسلمان تھے۔ جب نبی ۖ کی بعثت ہوئی تو بھی دو قسم کے لوگ تھے ۔ ایک وہ تھے جنہوں نے اس خوف سے بھی دعوت کو قبول نہیں کیا تھا کہ جاہل عرب ہمیں اپنی زمین سے اچک کر غائب کردیں گے۔ جیسے آج کل کلمہ حق بلند کرنے والوں کو بھی اٹھالیا جاتا ہے۔انور مقصود نے اپنے اچکنے کی تردید کرلی لیکن اس کی تردید پر بھی کوئی اعتبار نہیں کرتا ہے تو کیا کہا جاسکتا ہے؟۔ ایک بلوچ نے بلوچستان کی معروف کوچ سروس کی حیثیت سے بڑی شکایت کی تھی کہ ہمیں سمگلنگ پر مجبور کیا جارہاہے اور پھر اسنے تردید بھی کرلی ہے کہ میں نے فرط جذبات میں کرنل وغیرہ کے نام لے لئے ہیں۔
اب تو بشام میں چینیوں پر خود کش حملہ کرنے کا ذرائع سے بتایا جارہاہے کہ ” افغانستان سے چمن بارڈر پر بارود سے بھری ہوئی کار چمن کے بارڈر پر آئی ۔ پشین، کچلاک ، مسلم باغ اور بلوچستان کے طویل راستے کو طے کرکے درہ زندہ ڈیرہ اسماعیل خان پہنچ گئی۔ پھر پشاور، مردان سے ہوتے ہوئے کوہستان کی سرحد پر پہنچی اور بشام میں اپنا ٹارگٹ پورا کرلیا”۔ گویا یہ پورا پشتون بیلٹ اس میں ملوث ہے۔ عورت مارچ والی بہت ہی مزاح کے انداز میں فرماتی ہیں کہ ” ہم گنا ہگارعورتیں”۔ پشتون کو بھی چاہیے کہ وہ پلے کارڈ اٹھائیں اور اس پر جلی حروف کیساتھ یہ لکھ دیں کہ ” ہم گناہگار پشتون ”۔ اسلئے کہ جب ادلے بدلے کی جنگ لڑی جائیگی تو امریکن ڈرون ہونگے۔ جٹ طیارے ہونگے بمباریاں ہونگی۔ خود کش حملہ آور کے اہل وعیال کو تباہ وبرباد کیا جائیگا۔ جس طرح ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا تھاکہ ” ایران میں جو مارے گئے ،انکے لواحقین یہاں پر موجود ہیں”۔ پھر پشتون تحفظ موومنٹ کے عالم زیب محسود کے ساتھ کوئی تصدیق کرے گا کہ ہمارے والے مارے گئے۔
اب گوادر میں مارے جانے والے حملہ آوروں کو بھی اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے جو بلوچ مسنگ پرسن تھے۔ سرکار اور خرکار کی لڑائیوں میں عوام الناس کی خیر نہیں ہے۔ جہاں تکCTDپولیس کے اس الزام یا حقیقت کا تعلق ہے کہ بلوچستان سے سمگلنگ کی گاڑی30سے35تک ہر ماہ جاتی ہیں تو اس میں صداقت اسلئے ہے کہ مولانا خان محمد شیرانی صاحب کو جلوس کی شکل میں بلوچستان سے خیبر پختونخواہ لے جایا جاتا تھا تو اس میں کسٹم کے بغیر گاڑیوں کے سمگلر بھی اپنا کام دکھاتے تھے۔
کراچی کے لوگوں کو سوات میں گاڑیوں کا سامان سستا مل جاتا ہے۔ سوات میں کسٹم کے بغیر گاڑیاں حکومت کی اجازت سے نہیں بلکہ سمگلنگ سے ہی آتی ہیں اور سمگلنگ افغانستان کی سرحد لنڈی کوتل سے نہیں بلوچستان سے بھی ہوتی ہے۔
جب اللہ کا فضل میسر آتا ہے تو پڑھے لکھے اور ان پڑھ بھی برابر ہوجاتے ہیں۔ جب عذاب آتا ہے تو بروں کیساتھ اچھے بھی کشتی میں ڈوب جاتے ہیں اسلئے کہ جب کشتی میں سوراخ کرنے والوں کو نہیں روکا جاتا ہے تو ڈوبنے والی کشتی سب کیلئے جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔ ٹائی ٹینک جہاز میں سب کی جان کو خطرہ تھا تو آج ہمارے لئے پھر کہیں ٹائی ٹینک کا مسئلہ نہ ہو؟۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن میں جہاں نبی ۖ کی بعثت کے ذریعے بعض لوگوں کو ہدایت ملنے اور بعض لوگوں کو ہدایت نہ ملنے کی بات ہے اور اللہ نے فرمایا ہے کہ ” بیشک اس کو آپ ہدایت نہیں دے سکتے جس کو آپ چاہتے ہوں” تو اس سے ابوطالب مراد نہیں ہوسکتے ہیں اسلئے کہ قرآن میں پھر دو طبقات کا ذکر ہے ۔ ایک طبقہ وہ ہے جس میں خوف تھا کہ اگر انہوں نے حق کی دعوت قبول کرلی تو اچک لئے جائیں گے اور دوسرا طبقہ وہ تھا جن کو کسی سے کوئی خوف نہیں تھا۔ ابوطالب بڑا ڈٹ کر کھڑا تھا اسلئے ان پر خوف کا الزام نہیں لگایا جاسکتا ہے۔ البتہ جنہوں نے فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا تھا تو ان پر الزام لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ قرآن میں اللہ نے ان کا ذکر بھی کیا ہے اور فرمایا کہ ” اگر وہ پھر ایمان لائیں اور اچھے عمل بھی کریں تو ہوسکتا ہے کہ وہ فلاح پانے والوں میں سے ہوں”۔
دوسرے طبقے میں ابوسفیان ، اسکے دونوں بیٹے یزید اور معاویہ شامل تھے۔ایک طرف سنی ابوطالب کو غیرمسلم اور کافر قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف شیعہ ابوطالب کو پیدائشی مسلم قرار دیتے ہیں۔ اپنے اپنے مؤقف میں تھوڑا لچک لانے کی گنجائش اسلئے ہے کہ ماحول سے ہٹ کر بھی بعض اوقات کچھ حقائق ہوتے ہیں۔ حضرت حسن اور حسین نے ہی امیر معاویہ کو خلیفہ بنانے میں بنیادی اہم کردار ادا کیا تھا۔ ابوسفیان نے بھی حضرت ابوبکر کے مقابلے میں حضرت علی کیلئے اقتدار کی خواہش ظاہر کی تھی۔ اگر20سال تک امام حسین نے معاویہ کی خلافت برداشت کی تھی تو اب اس کا سارا ملبہ آج کے دور میں فرقہ بندی کا ذریعہ بنانے کی کیا ضرورت ہے؟۔
اہل تشیع کہتے ہیں کہ نبی ۖ کا نکاح حضرت خدیجہ سے ابوطالب نے پڑھایا تھا۔ بخاری میں خطبہ نکاح کیلئے کوئی ایک بھی قابل اعتماد حدیث نہیں ملی تو خطبہ نکاح کی جگہ پر یہ حدیث نقل کردی کہ ”نبی ۖ نے فرمایا: بعض بیان سحر ہوتے ہیں”۔ دو جاہلوں نے سحر انگیزی سے خطابت کی تھی تو نبی ۖ نے اس پر یہ ارشاد فرمایا تھا۔ جب صحابہ کیلئے خطبہ مروج نہیں تھا تو پھر قبل ازاسلام حضرت ابوطالب کی طرف نکاح کے خطبے کو کون سنی مان جائے گا؟۔ البتہ اگر ہم سرتسلیم خم کرکے مان بھی لیں تو پھر ابوطالب نے اپنی بیٹی ایک مشرک کو کیوں دیدی تھی؟۔
حالانکہ رسول اللہ ۖ نے خدیجہ سے پہلے رشتہ طلب کیا تھا لیکن ابوطالب نے نبی ۖ کو ام ہانی کا رشتہ نہیں دیا تھا۔ پھر جب مسلمانوں کو مدینہ ہجرت کرنے کا حکم ہوا تو حضرت ام ہانی نے اپنے مشرک شوہر کی وجہ سے ہجرت نہیں کی۔ فتح مکہ پر حضرت علی نے ام ہانی کے مشرک شوہر کو قتل کرنا چاہا تو اس نے نبی ۖ سے اپنے مشرک شوہر کیلئے پناہ لی۔ پھر اس کے شوہر نے نجران جاکر عیسائیت قبول کی۔ رسول اللہ ۖ نے پھر اس کو نکاح کا پیغام دیا لیکن اس نے قبول کرنے سے معذرت کی اور نبی ۖ نے اس پر ان کی خوب تعریف بھی کی تھی۔
پھر آیات نازل ہوگئیں کہ ” اے نبی ! ہم نے حلال کیا ہے تمہارے لئے ان چچا کی بیٹیوں کو، خالہ کی بیٹیوں، ماموں کی بیٹیوں جنہوں نے آپ کیساتھ ہجرت کی”۔ اسی طرح ان لونڈیوں کو بھی حلال قرار دیا جو مال غنیمت میں مل گئی تھیں۔ پھر اس کے بعد قرآن میں کسی بھی عورت سے نکاح کرنے سے منع فرمادیا ،اگرچہ ان کا حسن اچھا لگے اور کسی بیوی کے بدلے بھی کسی اور عورت سے نکاح کا منع کردیا۔ البتہ الا ماملکت یمنککی اجازت دیدی ۔قرآن کی ان آیات ، احادیث پر کوئی بات نہیں کی گئی ہے اسلئے علامہ بدرالدین عینی حنفی نے لکھ دیا ہے کہ ” اُم ہانی نبی ۖ کی28ازواج میں شامل تھیں”۔ حالانکہ اگر قرآن کی تفسیر کا خیال رکھا جاتا تو ان سے نکاح نہیں ہوسکتا تھا لیکن ایگریمنٹ کی قرآن نے اجازت دی ہے اور وہ مراد لیا جاسکتا تھا۔ لیکن ام ہانی پر جس طرح نکاح کا اطلاق نہیں ہوسکتا تھا اسلئے کہ ازواج مطہرات میں شامل نہیں تھیںتو اسی طرح لونڈی کا اطلاق بھی نہیں ہوسکتا۔ اگر ماملکت یمینک سے مراد ایگریمنٹ لیا جائے اور والمحصنٰت من النساء الا ماملکت ایمانکم ”اور عورتوں میں سے بیگمات مگر جن سے تمہارا معاہدہ ہوجائے ” سے بھی ام ہانی مراد لی جائے تو یہ اس کی تفسیر درست سمجھی جاسکتی ہے۔
امریکہ اور مغرب فلسطین ، افغانستان، عراق ، لبییا، شام اور پاکستان کی تباہی کے درپے اسلئے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر دنیا میں دوبارہ خلافت کے قیام کی خوشخبری پوری ہوگئی تو ہماری خواتین کو ہم سے چھین کر لونڈیاں بنادیں گے۔ وہ اسلام اور مسلمانوں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا نے جو حقوق بھی خواتین کے دئیے ہیں تو وہ مسلمانوں کے مقابلے میں کافی ہیں لیکن مسلمان اپنی خواتین کو حقوق نہیں دے سکے ہیں تو دوسری قوموں کی ہم سے کیا امیدیں ہوسکتی ہیں؟۔ پاکستان کا مقتدر طبقہ سیاستدان ، فوجی جرنیل اور مذہبی لیڈر شپ مسلمانوں سے دشمنی نہیں رکھتے لیکن ایک ماحولیاتی مجبوری ہے جس سے آج مسلمانوں کو نکالنے کی ضرورت ہے۔
اگر حقائق کی نظر سے دیکھا جائے تو آج جس چیز کو ہمارا مذہبی طبقہ نکاح کہتا ہے ،یہ نکاح نہیں بلکہ ایگریمنٹ ہے اسلئے کہ نکاح کے کچھ حقوق اور فرائض ہوتے ہیں لیکن اسلامی دنیا میں عورت کو نکاح کے وقت یہ حقوق نہیں ملتے ہیں۔ عرب اور پختون لڑکی کو اس کا باپ بہت مہنگے داموں اس کے شوہر پر بیچ دیتا ہے۔ جب ایک مزدور اپنی حیثیت سے بڑھ کر25لاکھ میں اپنے لئے بیوی خریدے گا تو اس کو خلع کا حق نہیں دے سکتا ہے اسلئے کہ وہ اس کی زر خرید لونڈی ہے۔ اگر اجازت دی گئی تو لڑکی بار بار خلع لیکر باپ کیلئے کمائی کا بہترین ذریعہ بنے گی۔
اللہ نے فرمایا : قدعلمناما فرضناعلیھم فی ازواجھم او ما ملکت ایمانھم لکیلا یکون علیک حرج وکان اللہ غفورًا رحیمًاO”ہم جانتے ہیں کہ جو ہم نے فرض کیا ہے ان پر انکی بیویوں کا یا جن سے انہوںنے ایگریمنٹ کیا ہے تاکہ آپ پر حرج نہ ہو۔اللہ غفور رحیم ہے”۔
عورت کی جس طرح کی حیثیت ہو باقاعدہ نکاح یا پھر ایگریمنٹ ۔ان کا حق مہر اور خرچہ شوہر پر اس کی مالی حیثیت کے مطابق فرض کیا گیا ہے۔ جس طرح ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں اللہ نے واضح کیا : لا جناح علیکم ان طلقتم النساء مالم تمسوھن او تفرضوا لھن فریضة و متعوھن علی موسع قدرہ و علی المقتر قدرہ متاعًا بالمعروف حقًا علی المحسنین (البقرہ236)
ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں کوئی حرج نہیں ہے اگر حق مہر مقرر نہ کیا ہو تو ان کو خرچہ دینا ہے۔ امیر اور غریب پر اس کی استطاعت کے مطابق ۔معروف طریقے سے خرچہ اور یہ نیکوں کاروں پر حق ہے۔ اسلئے کہ آدمی میں کتنی مالی استطاعت ہے ؟۔ وہ جھوٹ بول کر اپنی جان چھڑائے تو یہ معروف متاع نہیں ہوگا۔ عورت کو رشتہ قائم کرنے میں مرد سے اس کی اصلی اوقات اور استطاعت کے مطابق توقع بھی ہوتی ہے۔ جب ہاتھ لگانے سے پہلے استطاعت کے مطابق حق مہر اور معاوضہ فرض ہے تو ہاتھ لگانے کے بعد کا اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں ۔ اسلئے کہ ہاتھ لگانے سے پہلے مقرر کردہ نصف ہے توہاتھ لگایا گیا توپھر اس حساب اور اندازہ لگانا مشکل کام نہیں ہے۔
جب عورت اپنی عزت حوالہ کردیتی ہے تو اس کے حق مہر میں مرد کے مالی استعداد کے مطابق حصہ دار ہونے کی بات بالکل فطرت کے عین مطابق ہے۔ مغرب اور ترقی یافتہ دنیا میں یہ طے ہے کہ اگر شوہر عورت کو نکاح کے بعد طلاق دیتا ہے تو اس کی آدھی جائیداد ہی اس کو دینی پڑتی ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ عورت کو بھی آدھی جائیداد دینی پڑتی ہے۔ ان حقوق سے وہ اپنی جان چھڑانے کیلئے باقاعدہ نکاح کی جگہ گرل وبوائے فرینڈ کے طور پر تعلقات قائم کرلیتے ہیں۔ آج ٹیکس و کاغذات سے پتہ چلتا ہے کہ کون امیر اور کون غریب ہے ۔ جب قرآن کے مطابق عورت کو شوہر کے مال کا حصہ دار بنادیا جائے تو اس پر نکاح کا اطلاق ہوگا اور اگر شوہر اس کے نکاح کا حق دینے پر تیار نہیں ہے تو آپس کی رضامندی سے یہ ایگریمنٹ ہوگا۔ سورہ نور میں لونڈی اور غلام کا نکاح کرانے کا حکم ہے اور لونڈی کا بھی حق مہر ہے لیکن غلام کے پاس کچھ دینے کیلئے نہیں ہوتا ہے اسلئے اس کو کتابت اور معاہدے پر گزارہ کرنا ہوگا لیکن جب وہ کسی آزاد عورت سے نکاح کی کتابت کرے گا تو پھر اس میں جب خیر نظر آئے تو اللہ کا دیا ہوا مال خرچ کرنے کا بھی اللہ نے حکم دیا ہے۔ ہمارے مفسرین اور مترجمین اندھے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ غلام کی آزادی میں خیر نظر آئے تو پھر اس کے ساتھ معاہدہ کرلو۔ حالانکہ غلام کی آزادی تو بجائے خود خیر ہے اور پھر آیت میں اس سے مال طلب کرنے کی بات نہیں ہے بلکہ اللہ کا دیا ہوا اپنا مال خرچ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
دوسری آیات کنواری مراد لینے کے بجائے لونڈیاں مراد لی گئی ہیں اور یہ مطلب لیا گیا ہے کہ اگر وہ بدکاری پر راضی نہیں ہیں تو ان کو مجبور کرکے مال مت کماؤ اور اگر ان کو مجبور کیا تو اللہ غفور رحیم ہے؟۔ یہ یعنی ان لونڈیوں کا کوئی گناہ نہیں ہوگا۔
تمام مکاتب فکر کے علماء اور دانشوروں کو حکومت اور ریاست اکٹھا کرکے قرآنی آیات کا درست ترجمہ وتفسیر عوام کو سمجھادیں اور دنیا کے سامنے رکھ لیں تو ہماری مشکلات کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اب اپنے ڈر کے مارے ہم سے دشمنی والا سلوک روا رکھتے ہیںجس کی پھر قطعی طور پر کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔

لاہور میں کینیڈین نوجوان کے قتل کا معمہ پولیس نے حل کردیا
بیوی اور آشنا گرفتار۔ حیران کن وجوہات ، حقیقت سامنے آگئی۔

ویلکم ٹو کرائم سٹوریز ۔ میرا نام میرب ذیشان ہے۔ ایک سٹوری شیئر کی تھی۔ یہ3اور4مارچ کے درمیانی رات بظاہر یہ واقعہ ڈکیتی مزاحمت پر قتل کا لگ رہا تھا۔ کینیڈین نیشنل علی رضا کو قنوت جو کہ علی رضا کی بیوی ہے اسی نے اپنے شوہر کو قتل کروایا تھا اور اپنی بچپن کی محبت کو واپس پانے کیلئے اس نے اپنے شوہر کو راستے سے ہٹوایا۔ عمیر نام کا ایک کردار سامنے آیا ہے جس کا تعلق قنوت کیساتھ6کلاس سے تھا یعنی یہ دونوں بچپن سے کلاس فیلوز ہیں اور آگے تک ان کا جو تعلق ہے وہ اتنا مضبوط ہو چکا تھا کہ ایک دوسرے کے بغیر ان کا گزارا ممکن نہیں تھا لیکن اس کے باوجود علی رضا کے ساتھ قنوت کی شادی طے کی گئی اور علی رضا چونکہ کینیڈین نیشنلٹی ہولڈر تھا تو قنوت کے جو والدین ہیں وہ چونکہ اتنے کوئی ویل سیٹلڈ نہیں ہیں ۔ان کی دو بیٹیاں ہوئیں اور پھر اس کا دوبارہ سے رابطہ عمیر کے ساتھ بحال ہوا جو کہ اس کی بچپن کی محبت ہے۔ عمیر کے ساتھ اس نے یہ پلان کیا کہ میں تمہارے ساتھ شادی کروں گی ۔ اب اس میں یہ ہے کہ انہوں نے پورا پلان کیا اور قنوت نے علی رضا کو پہلے پاکستان بھیجا کسی بہانے سے اپنے والدین کے گھر اور وہاں پر عمیر سے کہا کہ اس کو قتل کر دے۔ عمیر نے دو دفعہ قتل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکا اس کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا پھر قنوت جو ہے وہ کینیڈا سے خود آئی پاکستان میں۔ پاکستان پہنچنے سے10دن کے بعد یا پھر وہ اپنے والدین کے گھر آئی۔ اب اس میں بڑی مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ وہ ڈائریکٹ پاکستان آ کر اپنے والدین کے گھر یا اپنے شوہر کے پاس نہیں گئی وہ ایک ہوٹل میں گئی جہاں پر عمیر نے پہلے سے بکنگ کروائی ہوئی تھی۔ اس ہوٹل میں کچھ دن یہ رکے رہے۔ ہوٹل کے کلوز سرکٹ فوٹیجز بھی ایک بہت بڑا ثبوت ہے اس کیس کی تفتیش میں کہ یہ خاتون ایئرپورٹ آئی اور وہ سیدھا اپنے گھر یا اپنے شوہر کے پاس نہیں گئی بلکہ ہوٹل میں رہی ۔ ہوٹل میں پلاننگ کے دوران کے کچھ شواہد پولیس کو ملے اہم فوٹیج بھی ملی ۔ ہم نہ ان کو ڈسکس کر سکتے ہیں نہ آن ایئر کر سکتے ہیں۔ ایگزیکیوٹ کرنے کا جب معاملہ آیا تو قنوت پھر اپنے گھر آگئی اور اپنے شوہر کو کسی بہانے سے باہر شاپنگ کرنے کیلئے بھیج دیا جب وہ شاپنگ کیلئے نکلا تو عمیر نے اپنے دوست مصطفی کے ساتھ بالکل کلوز جا کے اس کے سر پر ہتھیاررکھ کے فائر کیا اور اس کی جیب میں سے کچھ پیسے اور موبائل فون ساتھ لے کر چلے گئے تاکہ یہ ڈکیتی کا واقعہ لگے۔ لیکن اس کی جیب میں پڑے کینیڈین ڈالرز اور کچھ پاکستانی روپے جو ہے یہ بھول گئے جس سے یہ تاثر تو زائل ہو گیا کہ یہ ڈکیتی کے دوران مزاحمت میں قتل کیا گیا ہے۔ لیکن یہ تاثر اسٹیبلش ہو گیا کہ اس کے قتل کی وجہ کچھ اور ہے اس کے بعد پھر پولیس نے قنوت کو ریٹین کیا ۔ قنوت سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کینیڈا سے واپس پاکستان آ کر تم سب سے پہلے کہاں گئیں؟ تو اس نے کہا کہ جی میں تو اس جگہ پہ اپنے گھر آئی ہوں ڈائریکٹ لیکن اس کے موبائل کی لوکیشن کسی ہوٹل کی تھیں اور جس نام سے بکنگ تھی وہ ایک لوکل نمبر تھا اس لوکل نمبر کے نام سے قنوت کے لیے کمرہ بک تھا۔ اس لوکل نمبر کا جب پتہ کیا گیا تو وہ عمیر کا نمبر تھا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اپریل2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

شیعہ سنی بریلوی دیوبندی اہل حدیث اور تمام فرقوں میں ایک ایک گروہ کو میدان میں اتاریں

شیعہ سنی بریلوی دیوبندی اہل حدیث اور تمام فرقوں میں ایک ایک گروہ کو میدان میں اتاریں

وما کان المؤمنون لینفروا کافة فلولا نفر من کل فرقة منھم طائفة لیتفقھوا فی الدین ولینذروا قومھم اذا رجعوا الیھم لعلھم یحذرون (التوبہ : آیت122)

اور مؤمنوں کیلئے نہیں کہ سب نکلیں اگر ہر فرقے میں سے چند افراد نکلیں ان میں ایک گروہ تاکہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور اپنی قوم کو ڈرائیں جب وہ ان کی طرف لوٹیںہوسکتا ہے کہ وہ بچیں

شیعہ سنی میں جھگڑا بہت پرانا ہے۔ حنفی اور جمہور میں بھی بڑا پرانا جھگڑا ہے۔ شافعی، مالکی اور حنبلی کے مقابلے میں حنفی بالکل تنہا ہوتے تھے۔ محدثین اور حنفیوں میں بھی بہت پرانا جھگڑا تھا اور اہل حدیث و مقلدین کا بھی جھگڑا ہے۔ بریلوی دیوبندی کا بھی جھگڑا ہے اور دیوبندی اور جماعت اسلامی کا بھی جھگڑا چل رہاہے۔ دیوبندیوں اور پنج پیریوں کا بھی جھگڑا ہے۔ مفتی منیر شاکر اور دیوبندیوں میں بھی جھگڑے کا نیا سلسلہ شروع ہوا۔
انجینئرمحمد علی مرزا اور مفتی منیر شاکردونوں نے خطے میں بڑا کہرام برپا کیا ہے۔ ہم نے دونوں جگہ حاضری دی لیکن مرزا نے مایوس کیا اور مفتی منیر سے بات حوصلہ افزاء رہی۔ قرآن و سنت پر سب کا اتفاق ہے اسلئے کہ پنج وقتہ نماز سے خلافت تک کے سارے احکام میں قرآن بنیاد اور سنت تعمیر نو کا ذریعہ ہے۔
احادیث میں قرآن واہلبیت کا ذکر ملتا ہے لیکن امت اس بات پر متفق نہیں کہ اہل بیت سے کیا مراد ہے؟۔ قرآن میں یہ واضح ہے کہ اہل بیت کا ذکرنبی ۖ کی ازواج کیلئے کیا گیا مگر حدیث میں علی ، حسن، حسین اور فاطمہ کیلئے وضاحت ہے کہ نبی اکرم ۖ نے فرمایا کہ ” اے اللہ ! یہ میرے اہل بیت ہیں۔ ان سے رجس (گند) کو دور کردے”۔ قرآن وسنت میں اس گند سے کیا مراد ہے؟۔ انسان کے اندر دوطرح کی فطرتی کمزوری ہوتی ہے۔ ایک مرد اور عورت کا ایک دوسرے کی طرف جنسی میلان ہے ۔ جنسی میلان میں جائز اور ناجائز کے اندر بڑا فرق ہے۔ میاں بیوی کا ایکدوسرے کی طرف جنسی میلان جائز ہے لیکن جنس مخالف کی طرف جنسی میلان کے باوجود بھی ایک حد سے تجاوز کرنا جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:
الذین یجتنبون کبٰئر الاثم والفواحش الااللمم ان ربک واسع المغفرة ھو اعلم بکم اذا انشاکم من الارض واذا انتم اجنة فی بطون امھٰتکم فلا تزکوا انفسکم ھو اعلم بمن اتقٰی (النجم32)
ترجمہ:”اور جو بڑے گناہوں اور فحاشی سے بچتے ہیں مگر … (آگے خالی جگہ ڈیش ڈیش) بیشک تیرا رب مغفرت میں وسیع ہے۔ وہ تمہیں جانتا ہے کہ جب تمہیں زمین سے اگارہاتھا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں جنین تھے۔پس اپنی پاکی بیان مت کرو ، وہ زیادہ جانتا ہے کہ کون تقویٰ رکھتا ہے”۔
اللہ تعالیٰ اپنے لئے کہتا ہے کہ لم یلد ولم یولد ”اس نے کسی کو جنا ہے اور نہ کسی نے اس کو جنا ہے”۔ انسان مخالف جنس کی طرف رحجان رکھتا ہے۔ جب موسیٰ علیہ السلام نے قبطی کو مکا مارکر غلطی سے قتل کردیا تو اپنی جان بچانے کیلئے فرعون کا ملک چھوڑ دیا۔ جب آپ نے دیکھا کہ لوگ کنویں پر جانوروں کو پانی پلارہے ہیں اور دوعورتیں کھڑی ہیں تو ان سے پوچھ لیا کہ آپ کیوں کھڑی ہیں۔ انہوں نے اپنا اور اپنے بوڑھے والد کا حال بتایا۔ حضرت موسیٰ نے ان کی مدد کی اور جب وہاں سے وہ چلی گئیں تو موسیٰ نے دعا مانگی۔ رب لما انزلت الیّ من خیرفقیر” اے میرے رب! تو جو مجھے خیر عطا فرما تو میں اس کا محتاج ہوں”۔جوان لڑکیوں کو دیکھ کر ایک جوان کی کونسی خواہش ہوسکتی ہے؟۔ عفت وعصمت کا تقاضا یہ ہے کہ کسی گھر کی اچھی لڑکی دل کو بھا جائے تو ازخود اس کا اظہار نہ کیا جائے۔ اللہ پر اسکو چھوڑ دیا جائے۔ اللہ نے اس ایک لڑکی کے دل میں بھی ہمدردی اور محبت کا جذبہ ڈال دیا تھا، اپنے والد سے اسکی سفارش کردی کہ اپنے پاس ملازم رکھ لو۔ جب لڑکی کو باپ نے بلانے کیلئے بھیج دیا تو وہ حیاء کیساتھ گئی۔ حضرت موسیٰ سے اس کے پیغمبر باپ نے کہا کہ ”میں ان دونوں میں سے ایک لڑکی کا آپ سے بیاہ کرنا چاہتا ہوں اور اس کے بدلے8سالوں تک یہاں نوکری کرنی پڑے گی اور اگر10سال کرلو تو یہ آپ اپنی طرف سے احسان کروگے”۔ باپ نے دونوں میں سے ایک بیٹی کا نام اسلئے لیا تھا تاکہ جس کے دل میں محبت بیٹھی ہے اس کا راز فا ش نہ ہوجائے اور موسیٰ کی محبت کا بھی راز رہ جائے۔
جب موسیٰ کی بیگم کے ہاں بچہ پیدا ہورہاتھا تو آگ دیکھ کر آپ نے کہا کہ میں اسکی کوئی خبر یا روشن ٹکڑا لے کر آتا ہوں مگر وہاں سے آواز آئی کہ ” بیشک میں اللہ ہوں”۔ شیطان نے کہا کہ مجھے آگ سے پیدا کیا اور آدم کو مٹی سے۔ میں کیسے اس کو سجدہ کرسکتا ہوں۔ بعض لوگ آگ کی پرستش کرتے ہیں۔
بہر حال اللہ تعالیٰ نے انسانوں کیلئے آزمائش کا سامان دنیا میں رکھا ہے۔ ایران کا آتشکدہ کبھی نہیں بجھتا تھا اسلئے کہ اس کی پرستش کی جاتی تھی۔ پھر مسلمانوں نے ان کو شکست دیدی اور آج سعودی عرب اور ایران میں اسلام پر شدید اختلافات کے باوجود صلح واصلاح کی طرف میلانات موجود ہیں۔
قرآن میں ازواج النبی کیلئے اہل بیت کا لفظ استعمال ہوا ۔ جہاں رجس سے مراد جنسی میلان ہے۔ اللہ نے نبی ۖ کی ازواج مطہرات کیلئے امہات المؤمنین کا لقب اتارا ہے۔ اللہ نے منع فرمایا کہ نبی کی ازواج سے کوئی نکاح نہ کرے اسلئے کہ اس سے نبی کو اذیت ہوتی ہے۔ اللہ نے نبی ۖ کو وہ مقام دیا تھاکہ کوئی اس کے قریب تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اللہ نے اعراب کو بدتمیزی سے منع کرنے کیلئے آداب سکھائے کہ حجرات کے پیچھے سے مت پکاریں۔ ان بدتمیز لوگوں سے یہ بعید نہیں تھا کہ وہ نبی ۖ کی ازواج کو رشتہ بھیجنے کی حماقت کرسکتے تھے اسلئے کہ وہ مسلمان تھے لیکن قرآن نے واضح کیا کہ ابھی ایمان ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا تھا۔ اس وجہ سے اللہ نے نبی ۖ کی ازواج کو پردے کا خاص اہتمام کرنے کا بھی حکم دیا تھا اور ساتھ ساتھ ان کو جنسی میلان کے رحجانات سے بچانے کیلئے بھی ایسے حالات سے گزار دیا کہ وہ کندن بن گئیں۔ اللہ نے ان میں رجس کا مادہ بالکل پاک کرنے کا پروگرام بنایا تھا۔
دوسری طرف رجس کا معنی حکومت وخلافت کی امانت کیلئے اپنی انتہائی کوشش اور حماقت بھی ہے۔ جب انسان کا مادی جسم زمین سے نہیں اُگا تھا تب بھی عالم ارواح سے اس کا تعلق تھا اور جب اللہ نے آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر بارامانت کو پیش کیا تھا تو سب نے اس کو اٹھانے سے انکار کردیا تھا لیکن انسان نے اس بار امانت کو اٹھالیا اسلئے اللہ نے واضح کیا کہ ”پھر انسان نے اسکو اٹھایا اور وہ بہت ظالم اور جاہل تھا” جب امانت کے بار کو اٹھانے کیلئے اللہ نے انسان کی طرف ظلم وجہل کی نسبت کی ہے تو یہ بھی ایک قسم کا ”رجس” گند ہے۔ اسلئے نبی اکرم ۖ نے علی ، فاطمہ ، حسن و حسین کیلئے دعا فرمائی کہ یہ میرے اہل بیت ہیں ،ان سے رجس (گند) کو دور کردے۔
علی کے دل میں خلافت کے طلب کی حرص ولالچ ہوتی تو پھریہ بڑا گند ہوتا اور پہلے دن سے ہی انصار وقریش اور حضرت علی کے درمیان اس پر بہت بڑا جھگڑا کھڑا ہوجاتا۔ ابوسفیان نے علی کے سامنے حضرت ابوبکر کے ہٹانے کی تجویز رکھی تو اس کو حضرت علی نے مسترد کردیا۔ حضرت حسن کے دل میں بھی کوئی حرص ولالچ نہیں تھی اسلئے امیر معاویہ کے سپرد کردی ،پھر حسین کے دل میں بھی لالچ نہیں تھی لیکن یزید کی نامزدگی غلط لگی اسلئے کوفہ کا سفر کیا لیکن جب کوفہ والوں نے دھوکہ دیا تو پھر واپس مدینہ جانے یا سرحد پر جانے یا یزید سے براہ راست کوئی بات کرنے کا معاملہ رکھا۔ مدینہ سے کوفہ اور کوفہ سے شام جب کوئی جائے تو راستے میں کربلا آتا ہے اسلئے یزید کی طرف سفر کرنے کا معاملہ ثابت ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ یزید سے لڑنے کا ارادہ نہیں تھا بلکہ جس کی بادشاہت مستحکم ہوجائے تو اس سے کلمہ حق کہنا ہی اتمام حجت اور افضل جہاد ہوتا ہے۔ یزید ی لشکر کا سپاہ سالار ”حر” بھی حضرت حسین کی صف میں شامل ہوا۔
فرقہ امامیہ یا اثناعشریہ کے باقی ائمہ اہل بیت کیلئے معصوم کا جو عقیدہ رکھا جاتا ہے تو اس کا مطلب ”حکومت کی لالچ ” کے رجس (گند) سے پاک ہونے کی دعا کا ان کے حق میں قبول ہونا ہی مراد لیا جاسکتا ہے اسلئے کہ حسین کے ایک پوتے زید اور حسن کی اولاد نفسہ زکیہ عبداللہ اور ابراہیم وغیرہ نے خلافت کو حاصل کرنے کی بڑی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوسکے ۔ اور اہل تشیع کے ائمہ معصومین نے کوئی کوشش نہیں کی کہ حکومت کو اپنے ہاتھ میں لیں۔ جب مہدی غائب میں دجال اکبر سے لڑنے کی استعداد اور صلاحیت ہے تو بنوعباس، خلافت عثمانیہ اور موجودہ دور کے ایرانی و سعودی حکمرانوں سے بھی حکومت وہ چھین سکتے ہیں لیکن اس کے دل میں لالچ وطلب نہیں ہے۔
اہل تشیع کی مشہور کتابوں میں مہدی کے بعد گیارہ مہدیوں کو حکومت ملنے کا ذکر ہے اور ایک مشہور کتاب ” الصراط السوی فی احوال المھدی” میں درمیانہ زمانے کے مہدی سے مصنف نے مہدی عباسی مراد لیاہے۔ اگر کوئی اور مہدی بھی مراد لیں تو ان کے عقیدے پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔ علامہ طالب جوہری نے علامات ظہور مہدی میں قیام قائم سے پہلے کئی قیام کرنے والوں کا ذکر کیا ہے جن میں ایک مشرق کے دجال کے مقابلے میں حسن کی اولاد سے حسنی سید کا ذکر کیا ہے۔ سید گیلانی کو بھی ایک روایت کی تشریح ”دعوت حق ” دینے والا شخص قرار دیا۔
اگر تمام فرقوں اور مسالک سے بااعتماد لوگوں اور علماء کرام کو ایک مقام پر جمع کیا جائے ،جس میں قرآنی آیات کی تفسیر سب اتفاق رائے سے کریں پھر امت مسلمہ کے سامنے پیش کردیں تو بہت سارے مخمصے سے امت مسلمہ نکل جائے گی۔ ریاست کی تشکیل سے لیکر معاشرتی معاملات اور عبادات کے مسائل پر اتفاق تک بہت کچھ ہم مشترکہ کاوش سے حاصل کرسکتے ہیں۔
مفتی منیر شاکر کو ہم قائل کرسکتے ہیں کہ پیر سیف الرحمن کے خلفاء کے ہاتھ پر ذکر واذکار کیلئے بیعت کرلے اور پیر سیف الرحمن کے خلفاء کو قائل کرسکتے ہیں کہ مفتی منیر شاکر کی طرز پر وہ قرآن اور توحید کی طرف دعوت وتبلیغ کو عام کریں۔انشاء اللہ
شیطان نے اچھے لوگوں کے درمیان لڑائی جھگڑے ، دشمنی اور نفرت کی فضاء قائم کردی ہے لیکن اس کی حیثیت مکڑی کے جالوں سے بھی زیادہ کمزور ہے۔ سب نبی ۖ کے امتی ہیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اپریل2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عالمی اسلامی خلافت سے آسمان والے اور زمین والے دونوں کے دونوں کیسے خوش ہونگے؟

عالمی اسلامی خلافت سے آسمان والے اور زمین والے دونوں کے دونوں کیسے خوش ہونگے؟

علماء و مشائخ کا غلط مذہبی کردار اور ان پر قرآن میں کفر کا فتویٰ

و من لم یحکم بما انز ل اللہ فاؤلئک ھم الکٰفرون
اور جو اللہ کے حکم پر فیصلہ نہیں کرتے تو وہی لوگ کافر ہیں۔

اِنا انزلنا التورٰ ة فِیہا ہدی و نوریحکم بِہا النبِیون الذِین اسلموا لِلذِین ہادوا و الربنِیون و الاحبار بِما استحفِظوا مِن ِکتبِ اللہِ و کانوا علیہِ شہدآء فلا تخشوا الناس و اخشونِ و لا تشتروا بِایتِی ثمنا قلِیلا و من لم یحکم بِما انزل اللہ فاولئک ہم الکٰفِرون (44)
ترجمہ: ”بیشک ہم نے نازل کیا توراة ، اس میں ہدایت اور نور ہے ، فیصلہ کرتے ہیں اس کے ذریعے سے انبیاء جنہوں نے قبول کیا ان لوگوں کیلئے جو یہودی ہیں اور مشائخ ہیں اور علماء ہیں بسبب جن کو اللہ کی کتاب کا نگہبان ٹھہرایا گیا اور وہ اس پر گواہ ہیں ۔ پس تم لوگ لوگوں سے مت ڈرو اور مجھ سے ڈرو۔ اور مت خریدو میری آیات کے بدلے تھوڑی سی قیمت اور جو اللہ کے نازل کردہ پر فیصلہ نہیں کرتے تو وہی لوگ کافر ہیں”۔
ملت اسلامیہ کے تمام مذہبی طبقات علماء و مشائخ اور اسلامی اسکالروں کو غور کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان کو حکم دیا ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے نازل کردہ احکام پر فیصلے کریں اور تھوڑے سے معاوضے کی قیمت پر اللہ کی آیات کوفروخت نہ کریں۔اگر وہ ایسا کریں گے تو ان پر کفر کا سخت ترین فتویٰ لگتا ہے۔
سورہ مائدہ کی ان آیات میں یہود کے علماء و مشائخ پر بھی اللہ کے احکام پر فتویٰ نہ دینے کی وجہ سے اللہ نے کفر کا فتویٰ لگایا تھا۔ اس سخت ترین فتوے کی وجہ یہ ہے کہ مذہبی طبقات کے فیصلے بدلنے سے اللہ کے دین کو بدل دیا جاتا ہے۔ حکمران اور عوام مذہبی طبقات کے فتوؤں کو دین سمجھتے ہیں اور جب مذہبی طبقہ دین کو بدل دے تو اس سے بڑا گھناؤنا جرم روئے زمین پر اورکوئی نہیں ہوسکتا ہے۔

اور جو اللہ کے حکم پر فیصلہ نہیں کرتے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔

و من لم یحکم بما انز ل اللہ فاؤلئک ھم الظٰلمون
ریاستوں ، عدالتوں اور حکومتوں میں حکمرانوں پر ظالم کا فتویٰ

و کتبنا علیہِم فِیہا ان النفس بِالنفسِ و العین بِالعینِ و الانف بِالانفِ و الاذن بِالاذنِ و السِن بِالسِن و الجروح قِصاص فمن تصدق بِہ فہو کفار لہ و من لم یحکم بِما انزل اللہ فاولئک ہم الظلِمون(45)ترجمہ:”اور ہم نے ان پر فرض کیا تھا اس میں کہ جان کے بدلے جان ، آنکھ کے بدلے آنکھ ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت، اور زخموں کا بدلہ ہے اور جو خود کو خوشی کے ساتھ قصاص کیلئے پیش کردے تو یہ اس کیلئے کفارہ ہے اور جو اللہ کے نازل کردہ پر فیصلہ نہیں کرتے تو وہی لوگ ظالم ہیں”۔
اس آیت میں حکمران طبقے کی وضاحت ہے۔ حکمرانوں کا تعلق کسی خاص مذہب سے نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ عادل یا ظالم ہوتے ہیں۔ پاکستان ، افغانستان، ایران اور سعودی عرب کا حکمران طبقہ اگر لوگوں میں اللہ کے دئیے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے کریں کہ جان کے بدلے جان اور اعضا کے بدلے اعضا اور زخموں کے بدلے زخم کا فیصلہ کریں تو ان پر عادل حکمران کا اطلاق ہوگا۔ لیکن اگر وہ اللہ کے نازل کردہ حکموں کے مطابق فیصلے نہیں کریں گے تو ان پر ظالم کا اطلاق ہوگا۔ جب ہمارے مقتدر طبقات میں اپنے لئے کسی قسم کے عدل کی کسوٹی قائم نہیں ہوتی ہے تو ان کے سائے میں کچے کے ڈاکوؤں سے لیکر دہشت گردوں تک بہت کچھ کالا دھن پل رہا ہوتا ہے۔ پاکستان کی عدالتوں اور ریاستی مشینری میں اگر اللہ کے حکم کے مطابق عدل و انصاف کا نظام قائم ہوجائے تو ان پر نہ صرف عادل کا اطلاق ہوگا بلکہ دنیا بھر میں ظالمانہ نظام کا خاتمہ بھی ہوجائے گا۔

اور جو اللہ کے حکم پر فیصلہ نہیں کرتے تو وہی لوگ فاسق ہیں۔

و من لم یحکم بما انز ل اللہ فاؤلئک ھم الفٰسقون
مسلمان عوام الناس پر کفر کا فتویٰ نہ ظلم کا بلکہ ان پر فاسق کا فتویٰ

و قفینا علی اثارِہِم بِعِیسی ابنِ مریم مصدِقا لِما بین یدیہِ مِن التورٰة و اتینٰہ الاِنجِیل فِیہِ ہدی و نورو مصدِقا لِما بین یدیہِ مِن التورٰة و ہدی و موعِظة لِلمتقِینOو لیحکم اہل الاِنجِیلِ بِما انزل اللہ فِیہِ و من لم یحکم بِما انزل اللہ فاولئک ہم الفسِقون(46،47)
ترجمہ:”اور ہم نے ان کے پیچھے بھیجا ان کے نقش قدم پر عیسیٰ ابن مریم کو تصدیق کرنے والا جو ان کے ہاتھ میں توراة میں سے اور ان کو عطا کی انجیل جس میں ہدایت اور نور ہے اور جو تصدیق کرنے والا ہے ان کے ہاتھ میں توراةکی اور ہدایت ہے اور متقیوں کیلئے واعظ ہے۔ پس چاہیے کہ انجیل والے عوام الناس فیصلہ کریں اللہ کے نازل کردہ پر اور جو اللہ کے نازل کردہ پر فیصلہ نہیں کرتے تو وہی لوگ ظالم ہیں”۔
پاکستان میں مذہبی اور حکمران طبقے کے علاوہ عوام الناس میں جرگہ سسٹم کے ذریعے بھی فیصلے کئے جاتے ہیں۔ جب لوگ اپنے فیصلے اپنے سرداروں ، نوابوں ، خانوں اور قبائلی عمائدین کے ذریعے سے کرتے ہیں تو اس میں بھی اللہ کے احکام کے مطابق انصاف کے تقاضوں سے فیصلہ کرنا چاہیے۔ اور جو لوگ اللہ کے احکام پر فیصلہ نہیں کرتے ہیں تو ان کو فاسق قرار دیا گیا ہے۔ ریاست مدینہ میں رسول اللہ ۖ ان لوگوں کا فیصلہ اللہ کے حکم کے مطابق کرتے تھے جو قبائلی جرگہ کی طرح اپنا اختیار نبی ۖ کو سپرد کردیتے تھے۔ پاکستان میں بڑا طبقہ جرگہ سسٹم کے ذریعے سے انصاف کی فراہمی کو ممکن بناسکتا ہے۔ جس کے اثرات مذہبی اور حکمران طبقے پر بھی پڑیں گے۔ خلافت اسلامیہ کے قیام کیلئے ملت اسلامیہ کے سارے طبقات نے قربانی دینی ہوگی۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اپریل2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv