پوسٹ تلاش کریں

امریکی سی آئی اے پاکستانی مذہبی لیڈروں کو کیسے خریدتی رہی؟ سلمان گیلانی

امریکی سی آئی اے پاکستانی مذہبی لیڈروں کو کیسے خریدتی رہی؟۔ مولانا فضل الرحمن کے والد سی آئی اے کے ہاتھوں غلطی سے کیسے استعمال ہوئے؟۔ والد کو سی آئی اے نے خط لکھا والد پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے کہ یہ میں نے کیا کردیا!سلمان گیلانی

سوال: آپ PNA کے سٹیج پہ تقاریراور اشعار پڑھتے رہے ۔ اس تحریک کا جو ایجنڈا تھا وہ نفاذ اسلام ہی تھا نا؟۔
سلمان گیلانی: نہیں۔: مذہبی قوتیں اکٹھی ہو گئیں۔
سلمان: مذہبی نہیں، سبھی قوتیں اکٹھی تھیں۔ مفتی محمود اس کے سرخیل ،جماعت اسلامی بھی ،تمام مسلم لیگی ساتھ تھے ۔
سوال: بریگیڈئر سید احمد ارشاد ترمذی نے اپنی کتاب ”حساس ادارے” میں لکھا کہ امریکن سپورٹ کر تے تھے۔
سلمان گیلانی: بالکل! مجھ سے پوچھو۔ تحریک ختم ہو گئی تو جنرل تشریف (اقتدارمیں) لئے آئے۔ میرے والد (سید امین گیلانی) کے نام شیخوپورہ میںCIA امریکہ کا لیٹر آیا۔ (آہا آہا آہا، اچھا، اچھا اچھا: صحافی) پہلی دفعہ بتا رہا ہوں ۔ مجھے آواز دی سلمان ادھر آؤ۔ یہ انگریزی میں خط، میں نے دیکھا تو کہا کہ امریکن CIAسے آیا ہے۔ لکھا ہے کہ حالیہ تحریک میں آپ کے کردار نے ہمیں بڑا متاثر کیا ہم احسان فراموش نہیں ہیں۔ آپ مزید ہدایات کیلئے فلاں فلاں نمبر پر رابطہ کر سکتے ہیں۔ہم آپ کی ضروریات کا خیال رکھیں گے (صحافی: او ہو، اوہو، اوہو) والد صاحب چیخیں مار کے روئے۔(صحافی : اللہ اللہ اللہ) کہنے لگے ۔ جو بچے مروائے، جیلوں میںغریب رضاکارانہ آتے تھے ،یہ امریکہ کیلئے کررہے تھے؟۔ خط ریزہ ریزہ کرو جلادو، راکھ نالیوں میں بہادو، بھنک نہ پڑے کسی کو۔ جن کے بچے مروائے، یہ حادثات تو کم ہوئے مگر لاٹھیاں پڑیں سر پھٹے ، کسی کا بازو ، کندھا اور ریڑھ کی ہڈی ٹوٹی ہے۔ ممکن ہے اموات ہوئی ہوں ،گولیاں چلیں۔ لیاقت پارک میں کتنی گولیاں چلیں۔تین شہروں میں مارشل لاء لگائے۔

والد صاحب بہت ہی پریشان ہوگئے کئی دن کھانا نہیں کھایا زبردستی انہیں کھلاتے۔ پھر میں نے مفتی محمود سے خط کا ذکر کیا۔ معلوم ہوا کہ مولانا غلام غوث ہزاروی جمعیت علماء اسلام ناظم عمومی نے مخالفت کی تھی۔ بھٹو کے خلاف تحریک نہ چلائی جائے ،جمعیت علماء اسلام چھوڑ گئے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ جس اتحاد میں جماعت اسلامی ہو وہ امریکہ نے چلائی ہے۔ (صحافی: اوئے ہوئے اوئے ہوئے)۔

صحافی : بریگیڈئیر ترمذی نے لکھا۔ سراج الحق سے میں نے باقاعدہ انٹرویو کیاکہ آپ کے پاس فنڈز آتے تھے۔
سلمان گیلانی: ہم چونکہ بھٹو کے مخالف کیمپ میں تھے ۔ تاویلیںکرتے تھے، میں لاہور آجاتا، رات کو رفیق باجوہ کیساتھ اب لوگوں کو کیا پتہ ؟۔اس نے میری پہلی نظم سنی نا

آگیا پیر پگاڑا بچو بھاگ بھی جا
دیکھ وہ شیر دھاڑا بچو بھاگ بھی جا
مفتی اور نورانی ہیں مردان خدا
کرے نہ تیرا کباڑا بھٹو بھاگ بھی جا

تو رفیق باجوہ نے 300روپیہ 1977میں سوسو کے کڑک نوٹ جیب میں ڈالے کہ میری طرف سے انعام ۔
سوال: سنا ہے تقریر کرتے تھے تو سما باندھ دیتے تھے۔
سلمان گیلانی: رفیق باجوہ ،شورش کاشمیری کا انداز تھا۔

سوال: بھٹو نے اخبارات کورفیق باجوہ کی وزیراعظم ہاؤس آمد کی خبر جاری کی ،سیاسی بیانئے کیسے بدلتے ہیں؟۔
سلمان گیلانی: بھٹو طلسماتی جیسے خان کے لوگ دیوانے کھمبے کو ٹکٹ دوتو جیتے، تحریک بڑے زوروں پر تھی۔ بھٹو نے کہا: مفتی محمود موٹا پیٹ چھوٹا قد لمبی داڑھی انگلش نہیں جانتا ہماری عوام طالب علم سپورٹ کریں گے؟۔ یہ تو خیر رہ گئے مگر جو جنرل سیکرٹری PNA نے بنایا وجیہہ ،لمبا چھ فٹ قد، انگلش فر فر وکیل، JUP نورانی کا تھا تو یہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہاں مولوی ہو تاکہ عوام موازنہ کرے تو کالج یونیورسٹی کے طلبہ کہیں کہ ایک طرف بھٹو ، پیرزادہ صاحب سونا منڈا ایک طرف یہ لوگ ہیں اور ایک طرف مفتی محمود اس کو ووٹ…

 


فوج قبائل میں شرع نافذ کرے مفتی کفایت اللہ

مفتی کفایت اللہ نے 25اگست 2025کو شکئی وزیرستان میں تقریر میں کہا کہ منہ میں مرچ نہیں ڈالی قبائل کیلئے امن چاہتاہوں۔ میری رائے ہے کہ شریعت کیلئے کام کرنے والے طالبان کا مشن ٹھیک ہے لہٰذا اسکے مردے کو شہید، زندہ کو غازی کہا جائے ۔بعض مدارس کا اختلاف ہے۔ جمعیت علما اسلام پر ا من راستہ چاہتی ہے اور طالبان نے بندوق اٹھائی ۔ طالبان اور فوج کی لڑائی سے پاکستان اور اسلام کمزور ہوگا۔ اگر لڑائی بند نہیں ہوتی تو برائے مہربانی بستی ، عوام کے درمیان ، گنجان آبادی سے حملہ نہ کریں۔ حملہ کروتو پہاڑ پہ چڑھو!، پوری بستی کاگھیراؤ ، ڈرون پھینکتے ہیں ،بمباری کرتے ہیں تو بے گناہ مرتے ہیں۔ طالبان کا قوم پر احسان ہوگا ۔ اور قوم طالبان کا ساتھ نہیں دے سکتی تو نہ دے ، انکے خلاف استعمال نہ ہو۔ فوج کیلئے استعمال ہونا اور فوج سے لڑنا شر سے خالی نہیں۔ نہ ان سے لڑو ، نہ انکے کہنے پر لڑو! ۔

پشتون قوم سے کہتا ہوں کہ مولوی کا معنی یہ نہیں کہ حقوق کی بات نہ کریں۔ جمعیت علما میں ہوں مولانا فضل الرحمن نے حقوق کی بات سے نہیں روکا۔ اگر کوئی تنظیم یا پشتون جرگہ حقوق کی بات کرے تو علما ء ساتھ دینگے۔ حجرہ اور مسجد ساتھ نہیں تو ہدف کو نہیں پہنچ سکتے!طالبان کا ساتھ نہیں دے سکتے ،مجبور ہونگے لیکن مقابلے میں استعمال نہ ہوں۔ لشکر نہ بنائیں انکے کہنے پر۔ طالبان کی بات صحیح ہے کہ شریعت نافذہونی چاہیے لیکن لوگوں میں اپنے لئے محبت پیدا کرو۔ شریعت کی بات کرتے ہو تو بھتہ ، اغواء برائے تاوان نہیں ہونا چاہیے۔ طالبان اور فوج کی صلح کراسکتا ہوں۔ طالبان بندوق رکھ لیں گے، ملیشیاء کے نام پہ یہ کام کریں گے لیکن طالبان کیلئے کوئی عذر بنا ؤان کا بہت خون بہا ہے۔ ہزاروں شہید اور زخمی ہو گئے ۔ انضمام سے پہلے 70 سال 40FCR جیسا گندہ قانون برداشت کیا۔ اس کی جگہ شریعت نافذ کر دو اور اپنی قانون سازی کر دو ۔ طالبان کو ہم پابند کریں گے کہ وہ قبائل کی شریعت کی نگرانی کریں خیبر پختون خواہ ، پنجاب ،سندھ، بلوچستان اور کشمیر میں شریعت نہ مانگیں۔ اسلئے کہ ہمارے فوجی راضی نہیں پھر تو صلح نہیں لڑائی ہوگی۔

میں لڑائی سے بچانا چاہتا ہوں ایک فائر بھی نہ ہو۔ لہٰذا اس عظیم اجتماع میں طالبان کی طرف سے بندوق رکھنے کی بات کرتا ہوں بشرطیکہ ہمارے جرنیل قبائل میں شریعت کا اعلان کریں۔اعلان شریعت سے اطمینان اور پاکستان آگے بڑھے گا ۔فائر کے بغیر امن ہو گا۔ انشااللہ العزیز۔ میں اپنی تمام فوج کو مسلمان سمجھتا ہوں۔ چھوٹوں سے ہم ناراض بھی نہیں ہیں پالیسی ساز جرنیلوں سے ناراض ہیں۔ انہیں کہتا ہوں کہ قبائل کی شریعت میں رکاوٹ نہیں بنو۔

 


MINERAL WARS. PAKISTAN NEXT?
ملک جہانگیر اقبال

السلام علیکم میں ملک جہانگیر اقبال۔ سپر پاورز انسانیت کی سب سے بڑی دشمن ۔یہ جنگ زمین کے نیچے گزشتہ 30، 40سالوں سے لڑی جا رہی ہے۔ جو لگ بھگ 60سے 70 لاکھ انسانوں کی جان لے چکی اور کوئی اس پر بات نہیں کر رہا۔ اگر یہ جاری رہی تو 10سے 20سال میں مزید 50سے 60 لاکھ یا شاید ایک ، دو کروڑ کی جان نگل جائے ۔ پتہ بھی نہ چلے کہ اصل قاتل کون ہے اور افسوس یہ جنگ پاکستان میں آ چکی ہی ہے۔ یہ نایاب معدنیات کی جنگ ہے۔

کیمسٹری کے پیریاڈک ٹیبل میں 17 ایلیمنٹس کا گروپ جسے Lanthanoids کہا جاتا ہے کی یہ جنگ ہے۔
بلند و بانگ دعوے سنے ہونگے کہ KPK کے بارڈر گلگت بلوچستان میں منرلز کے بہت بڑے ذخائر دریافت ہوئے یہ پاکستانی قسمت بدلیں گے۔ نیشنل جیوگرافک ، ڈسکوری چینل پر ہرن کا شکار کرتے دیکھا ہوگا۔ جونہی چیتے کو شکار ملتا ہے ۔ لگڑ بگوں اور شیروں کے طاقتور جھنڈ شکار چھین لیتے ہیں بعض اوقات چیتا مارا جاتاہے۔ ذخائر ملتے ہیں تو یورپین جائنٹس کی بڑی مائننگ کمپنیز ملک کو کمزور یا خون بہا تی ہیں تاکہ اونے پونے کنٹریکٹ ہو صرف منرلز نکالنے کا ۔ منرل نکال لو گھوسٹ ٹاؤن بنا دو، علاقے کو چھوڑ دو تڑپتے رہیں زہر اور ایسڈ سے وہاں کی عوام۔ حکومت جنگ سول وار کا شکار ہوتو باہر کی کمپنی کنٹریکٹ پر خوش ہوتی ہے کہ پیسہ لارہی ہے ۔ یہ پیسہ اتنا زہر گھول دیتا ہے کہ لاکھوں کی جان جاتی ہے۔

90کی دہائی افریقہ میں کانگو علاقے میں کلٹن دریافت ہوا تھا، کانگوکی گورنمنٹ کو کمزور کیا گیا۔ بانٹ دیا گیا نسلوں، قبائل اور مذہب میں۔ ہر وار لاڈ کو لگا کہ زمین پہ اس کا حق ہے ساتھ والے قبیلے کو کچھ نہیں دینا۔ نتیجتاً انفرادی کانٹریکٹ کیا یورپین جائنٹس سے اور کمپنیوں نے بدلے میں دیا اسلحہ ۔ جتنا متنازعہ علاقہ گورنمنٹ کمزور ہوگی اتنے کمزور معاہدوں پہ منرل نکالی جا سکے نتیجہ کیا نکلا 1997سے لیکر2003 تک5 سے6 سال وہ جنگ چلی اور اس میں 50لاکھ افراد مارے گئے ۔ اسکے ساتھ تنزانیہ، موزمبیق، سوڈان میں یہی روش اختیار کی گئی ۔ تنزانیہ کے نکالیہ ریجن سے تو اتنی بے دردی سے اور بے ڈھنگے طریقے سے نایاب معدنیات نکالے گئے کہ پانی زہریلا کر دیا۔ 2023کی رپورٹ میں ہزاروں بچے، جانور زہریلا پانی پینے سے مارے جا چکے ۔

اسکے علاوہ مڈغاسکر بائیو ڈائیورسٹی ہاٹ سپاٹ میں مائننگ کی گئی نتیجہ یہ ہوا کہ زمین بنجر ڈی فارسٹریشن ہوئی۔ جانور کیڑے اور پرندے ہمیشہ کیلئے ختم ہو چکے اور آئندہ اسکے کیا نقصانات ہونگے ؟افریقہ کا ریجن دیکھ سکتے ہیں۔ سینٹرل افریقہ، سوڈان ، موزمبیق، تمام علاقوں میں خانہ جنگی تب سے چلی تھی۔ ہیرے دریافت ہوئے اس دور کو کہا جاتا ہے بلڈ ڈائمنڈ ایرا ۔ آج بلڈ ڈائمنڈ ایرا افریقہ میںہے جس کا مین سٹریم میڈیا یا انسانی حقوق کی تنظیموں پہ اثر نہیں پڑرہا۔ اسکے پیچھے ہیں Glencore اور Umicore جیسے بڑے بڑے مائننگ جائنٹس، پس پردہ دنیا کا نظام چلا تے ہیں۔

1: ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس اسلحہ ، جیٹ انجن میزائل بناتے ہیں۔
2: فارمیسیوٹیکل کمپنیز جو بیماریاں بناتی اسکا علاج بناتی ہیں۔
3َ: مائننگ کمپنیز جو پسماندہ علاقوں میں اسلحہ دیتے ہیں تاکہ جنگ و جدل میںانہیں ڈیلی ویجز پر رکھیں۔معدنی دولت جیب میں بھر سکیں۔

بارک اوباما کہتا تھا کہ میں آؤں گا اور افغانستان سے فوج واپس لیکر جاؤں گا لیکن جونہی معدنیات (Rare Earth Elements) دریافت ہوا تو جنگ کو پھر بڑھا دیا۔ 10سے 11سال بے دردی سے افغانستان کے منرلز کے خزانوں کو لوٹا گیا تو امریکہ وہاں سے تمام اسلحہ چھوڑ کر روانہ ہوا۔ آنے والے پانچ چھ سالوں میں جب دوبارہ سے افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہو جائے گا تو کوئی ایک فریق گرویدہ ہو گا جو ایک ٹریلین ڈالر کے ذخائر موجود ہیں انہیں حاصل کر لے گا ۔

بلوچستان میں دیکھ لیں KPK میں دیکھ لیں، تنظیموں کے سپوٹ سے قتل و غارت اور امن برباد ہوگا تو گورنمنٹ سستے داموں کانٹریکٹ کر سکے گی۔ یہ اپنی مرضی کے مطابق پرائیویٹ ملیشیا بنا کر گورنمنٹ کو بلیک میل کر سکیں گے۔ بلوچستان میں ریل کی پٹریوں، سوئی گیس کی لائنوں میں دھماکے ہو تے ہیں پر کبھی ریکوڈک میں دھماکہ ہوا؟ ریکوڈک پہ بیرک گولڈ کمپنی کا ابتک مزدور سائنسدان انجینئر کو نقصان ہوا ؟۔ کیونکہ کمپنیاں سپورٹ کرتی ہیں، اس علاقے میں کشت و خون جاری رہے اور نادان انجان لوگ جنہوں نے افریقہ کی ہسٹری نہیں پڑھی دنیا کے باقی علاقوں کی ہسٹری نہیں پڑھی محض چھوٹے سے فائدے کیلئے چھوٹے سے پیسے کیلئے پورے علاقے کو خون کی ندی سے رنگ دیتے ہیں۔نتیجہ کیا نکلتا ہے عوام کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں آتا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ ستمبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اقبال کا بلوچستان میں یونیورسٹی کا مطالبہ ،میرا والد اس پر نوکری سے نکالا گیا :سینیٹر تاج حیدرکی تقریر ضرور سنو!

پاکستان کونازک صورتحال سے نکالو!

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم ہوا کے دوش پر سودی گردشی قرضوں کے سہارے پر چل رہے ہیں اور جب ہمارا جہاز فضاؤں میں ہموار چلتا ہے تو پھر یہ پروا نہیں کرتے کہ اس کا کتنا کرایہ ہم نے دیا اور اس کی کیاقیمت چکائی اور ہم پر اس کا کیا اثر پڑاہے؟ لیکن چلتی کا نام گاڑی اور اڑتے کا نام جہاز ہے۔
فضاؤں میں اعلان ہوتا ہے کہ اپنی اپنی نشست پر بیٹھ جائیے اور سیٹ بیلٹ باندھ لیجئے ۔ موسم کی خرابی سے جہاز ناہموار ہوسکتا ہے تو زیادہ خوف نہیں ہوتا ہے اور کسی کو خوف ہوبھی سکتا ہے لیکن اگر اعلان ہو کہ جہاز میں خرابی کے باعث سمندر کا رخ کرلیا۔ لائف جیکٹ پہن لیجئے اور دروازوں کی طرف لائن لگاؤ اور سمندر میں چھلانگ لگاؤ تو بہت تکلیف ہوگی اور انسان زندگی اور موت کی کشمکش سے کھیلنے کیلئے ذہنی طور پر بہت پریشان ہوگا۔ جب ملک کے حوالہ سے ڈیفالٹ ہونے کی خبریں چل رہی تھیں تو گویا اعلان ہوچکا تھا کہ سمندر کا رخ ہوچکا ہے اور تیاری کرلو۔ سمندری مخلوق اور مچھلی کا شکار بن سکتے ہو۔
جب پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کے اعلان ہورہے تھے تو فی الحال ہمارا سفر بخیر ہے لیکن اب بھی جن حالات کا سامنا ہے تو فضائی طوفانوں کا اندیشہ ہے۔ جب عمران خان کو خلا سے زمیں پرا تارا جارہا تھا تو خلائی مخلوق مشہور ہوگئی تھی اور اب فضا بدل چکی ہے لیکن پارلیمنٹ، عدالت، صحافت، دہشت گردی کے حالات اور معیشت کی خرابیاں بھوت بنگلے سے ایک ڈراؤنا منظر پیش کررہی ہیں۔ گالی گلوچ سے ہر کوئی خوش ہوتا ہے لیکن سنجیدہ بات کوئی نہیں سنتا۔
صحافی صابر شاکرکو ہم نے لکھاتھا کہ چاچو جنرل قمر جاوید باجوہ کو غلط راستے پر مٹ ڈالو۔ خیرخواہی غلط ماحول بنانا نہیں ہے۔ آج صابر شاکر کہاں کھڑا ہے؟۔ عمران ریاض خان نے یہ جھوٹ بولا تھا کہ ”مولانا فضل الرحمن اسرائیل کو تسلیم کررہاہے ” اور اب تک معافی بھی نہیں مانگی ہے۔ ایک طرف روز جمعیت علماء اسلام کے علماء شہید ہورہے ہیں دوسری طرف عمران ریاض خان معافی نہیں مانگ رہاہے اور مولانا کہنے کیلئے بھی تیار نہیں ہے، ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ سے معافی مانگ لی تھی لیکن مولانا سے ایک غلط الزام پر معافی مانگنے سے کیا ویوزکم ہوںگے؟۔
تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں ایک طبقہ صحافیوں کا ہیرہ منڈی کا بھڑوا لگتا تھا اور اب یہ ٹیم بدل گئی ہے اور چہرے اور شخصیات اور ہیں لیکن کام وہی ہے۔ خیر یہ وقت بھی گزر جائے گا۔
ہم مذہبی لبادے والے ہیں اور سمیع ابراہیم عام صحافی ہے۔ سمیع ابراہیم عاصمہ جہانگیر کو موت کے وقت بھی نہیں بخش رہاتھا اور میزے جہانگیر کی نماز میں شرکت پر مذہب کے نام پر متعہ وحلالہ کی بھڑوا گیری سے کسی کو خوش کررہاتھااور ہم اس نابغہ روز گار شخصیت عاصمہ جہانگیر کو خراج عقیدت بھی پیش کررہے تھے۔ حق وصداقت کی بے لوث صدائیں ایمان اور اسلام کا بہترین تقاضا ہیں لیکن جھوٹ اور بہتان طرازی بھی غلط لوگوں کو دینداری لگتی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف پاکستان کے اعلیٰ ترین معززمنصب پر فائز ہیں لیکن مقبولیت اتنی خراب ہوچکی ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کے سوشل میڈیا پر ان کی تصویر سے خبر نہیں ڈالی جاتی ہے۔ چینلوں پر بڑا جھوٹ لکھ کر معمول کی خبریں دی جاتی ہیں۔
حالات ایسے بن گئے کہ اگر جنرل عاصم منیر کو لال کرتی کی پیداوار اور گالیاں دی جائیں تو اس پر ڈالر کمائے جاتے ہیں۔ مریم نواز اور جنرل عاصم منیر کی تصاویر اور ویڈیوز ایڈٹ کرکے مارکیٹنگ کی جاتی ہے۔ جس کا مقصد نظریہ نہیں پیسہ کمانا ہے۔
صحافت کے حوالے سے سخت قوانین پر مقتدرہ کو مجبور کیا گیا ہے۔ جہالت ، تعصبات اور مفاد پرستی نازک اندام جسم فروشی کی طرح بک رہی ہیں۔ اگر اس قوم ، اس ملک ، اس خطے اور عالم انسانیت کو ہم نے جہالت کے مقابلے میں علمی حقائق ، تعصبات کے مقابلے میں مثبت اخلاقیات اور مفاد پرستی کے مقابلے میں ایثار و قربانی کے جذبات کی طرف نہیں ابھارا تو پھر اللہ کے علاوہ خیر کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
قرآن میں وقل جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقًا ”اور کہہ دو کہ حق آیا اور باطل گیا بیشک باطل مٹنے کیلئے ہے”۔ گالی گلوچ کیلئے اور تقریری جذبات کیلئے بھی نہیں ہے بلکہ مثبت عقائد و نظریات اور عملی اقدامات کیلئے ہے لیکن اب یہاں گالی گلوچ سے معاملہ آگے نکل کر خودکش دھماکوں اور دہشت گردی تک پہنچ چکا ہے۔
٭

زیرِ زمین پانی کے ذخائر مسئلے کا حل

ہم مسجد کے بڑے تالاب کا پانی نکالنے کیلئے عام پلاسٹک کا پائپ ڈال کر منہ سے شروع میں کھینچ لیتے تھے اور پھر سارا تالاب خودبخود خالی ہوجاتا تھا اور یہ ایک دیسی فارمولا تھا۔ پاکستان کی بناوٹ کو اللہ نے اتنا بہترین بنایا ہے کہ اگر زیر زمین پانی کو نکالنے کیلئے پائپ کا بندوبست کیا جائے تو بغیر کسی بجلی اور پٹرول کے خرچے کے پورے ملک میں پانی کو بہترین طریقے سے سپلائی کیا جاسکتا ہے۔
مثلاً گومل ڈیم اور دیگر ڈیموں سے پورے پاکستان کیلئے پانی پہنچانے کا بندوبست کیا جائے اور اس کا کنکشن زیر زمین پانی سے بھی اس طرح سے ملایا جائے کہ زیرِ زمین پانی کو بھی خوب پریشر کے ذریعے سے باہر نکال کر ملک کے کونے کونے تک پہنچانے کا بہترین اہتمام ہو۔ اگر پنجند کے ذخیرے میں ایک طرف پانی ڈالنے اور دوسری طرف سے نکالنے کا اہتمام ہو تو صحرائے چولستان اور بلوچستان اور سندھ و کراچی تک بالکل شفاف پانی کی ترسیل کا زبردست پروگرام بن سکتا ہے۔
کتنا زبردست ہوگا کہ جب پنجند کے ذخیرے کا پانی کراچی کی بڑی بلڈنگوں حبیب بینک پلازہ کی چھت تک بغیر کسی موٹر کے جارہا ہو؟۔ لوگوں کو اگر صاف پانی ملے گا تو پاک پاکستانیوں کا دماغ بھی پاک بن جائے گا۔ اب تو گالی دے کر کہتے ہیں کہ غیرت سے پاک ہیں، ضمیر سے پاک ہیں، ایمان سے پاک ہیں، اخلاق سے پاک ہیںاور انسانیت سے پاک ہیں تو واقعی پاک پاک بن جائیں گے۔
اگر پاکستان کی معدنیات کیلئے ہمارا دل و دماغ صاف ہوگا تو جتنا نقصان پہلے کرچکے ہیں وہ اب کرنے سے بچ جائیں گے۔ صحافی ضیغم خان نے میزبان عائشہ بخش کے پروگرام میں کیا خوب کہاکہ ”زیر زمین معدنیات سے زیادہ قیمتی زمین کے اوپر کے معدنیات انسانی شکل میں موجود ہیں۔امریکہ وغیرہ میں زیر زمین معدنیات نہیں لیکن انسانوں کیلئے بہترین تعلیمی یونیورسٹیاں ہیں جن کی وجہ سے ان کی شخصیات جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے سے کیا کچھ نہیں کماتے ہیں؟۔ایک ایک شخص کی وہ دولت ہے کہ اگر وہ ہمارے ہاں پھینک دے تو زمین کی سطح معدنیات سونے کے ذخائر اور ڈالر سے بھرے اور جہاں تعلیم نہیں وہاں کتنے ایسے ممالک ہیں جہاں پر معدنیات کے بڑے ذخائر ہیں پٹرول ہے اور سونا ہیرے جواہرات ہیں لیکن ان کے حالات انتہائی خراب ہیں کیونکہ ان کا اشرافیہ عیش کررہا ہے اور غریب جہالت اور تباہی سے دوچار ہیں”۔
یونس بٹ نے ”ہم سب امید سے ہیں” میں مشکلات کے دور میں سب کو ہنسایا۔ جنرل مشرف کو پی ٹی ماسٹر بناکر سیٹیاں بجواتا تھا اور سب پریڈ کیا کرتے تھے۔ صحافی افتخار احمد جنرل پرویز مشرف کی طرح سیٹی بجاکر زبردستی سے پریڈ کرانے کے موڈ میں ہے۔ اس پر ٹھیکیداروں سے پیسہ وصول کرنے کا الزام تو نہیں لگ سکتا لیکن پنجاب کی زرخیز مٹی میں کوئی حسن نثار کی طرح تحریک انصاف کا جنون اپنے دل میں سمائے رکھتا ہے اور کسی کو نواز شریف کی محبت نے اندھا دھند بنا رکھا ہے۔ فوج کی بھی طاقت ان کے پاس ہے اور جمہوریت کی بھی۔ بس اللہ اس ملک کو مزید جبر و تنگدستی سے بچائے۔
پشتو زبان کا مشہور مزاحیہ کردار میراوس خان اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اللہ جنت الفردوس میں جگہ اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ اس نے کہا کہ بلڈنگ کی پہلی اور دوسری منزل پر بنگالی کام کرتے تھے اور تیسری منزل پر پٹھان تھا۔ بنگالی نے آواز لگائی کہ عجب خان کی بیوی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔ پٹھان نے چھلانگ لگائی ، ٹانگیں ٹوٹیں اور بیہوش ہوکر ہسپتال پہنچ گیا۔ جب ہوش آیا تو کہا کہ اوہ میرا نام تو عجب خان نہیں تھا۔ پھر کہا کہ میری تو شادی بھی نہیں ہوئی ہے۔ خوامخواہ ٹانگیں تڑوادیں۔ یہی حال علامہ اقبال نے ”پنجابی مسلمان” کا لکھا ہے کہ تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا، ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد۔ تحریک انصاف کے یوتھیوں کو جب ہوش آئے گا تو کہیں گے کہ ہم جس کو مرشد مرشد کہتے تھے وہ تو خود زن مرید تھا۔ مرشد تو بی بی بشریٰ تھی۔ شیعہ سینہ کوبی اور زنجیر زنی کرتے تھے تو امام خمینی نے سمجھایا کہ جس سینے کو مار رہے ہو اس میں یزید نہیں حسین کی محبت ہے۔ جس پیٹھ کو زنجیر سے خون آلود کرتے ہو وہ یزید نہیں حسین کے مرید کی ہے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان ، افغانستان ، ایران اور بھارت سب کو شیطانی شر سے بچائے۔
٭

حماس جان اور اسرائیل خان جانان

مولانا فضل الرحمن ، حافظ نعیم الرحمن اور طالبان کی قیادت میں یورپ سے اسرائیل کیلئے ایک وفد یا جلوس کی قیادت کی جائے تو بہت بڑے پیمانے پر مغرب کی خواتین وحضرات بھی شریک سفر بن سکتے ہیں۔ غزہ کے مسلمانوں کی مدد صرف جلسے ، جلوس، رونے دھونے اور اسرائیل کی مذمت سے نہیں ہوگی بلکہ عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ حماس جان کے حملے پر تھوڑی سی خوشی منانے اور چندہ اکٹھے کرنے پر اصرار کرنے والے اس بات سے بے خبر تھے کہ اسرائیل جانان اپنا بدلہ لینے کیلئے کہاں تک جائے گا اور کون کون اس کی بھرپور حمایت کرتا رہے گا؟۔
ایران نے حماس جان کو اسرائیل کے خلاف بڑا مضبوط بنادیا تھا لیکن جب ایران اسرائیل جانان کا خود مقابلہ نہیں کرسکتا ہے تو حماس جان کے ذریعے ایک کاروائی کے بعد غزہ کے مسلمانوں کو بے تحاشا پٹوانے کے انجام کی ایران نادان کو خبر نہیں ہوگی۔
عبداللہ گل کے والد جنرل حمید گل نے حضرت خالد بن ولید کی طرح ساری زندگی روس وامریکہ کے خلاف افغان مجاہدین اور طالبان کیساتھ اللہ کی تلوار بن کر جہاد کارزار میں گزاری لیکن شہادت کی قسمت نہیں تھی اور اب عبداللہ گل شہادت کی منزل پانے کیلئے مولانا فضل الرحمن کی بیعت کرچکا ہے۔ اسلامی جمہوری اتحاد کا جنرل حمید گل واضح کہتا تھا کہ ”میں نے بنائی ہے ،جس نے عدالت میں کیس کرنا ہے مجھ پر کرے”۔ عدالت کا اصغر خان کیس سلمان اکرم راجہ جیت چکا تھا لیکن افتخار چوہدری کو ترچھا نظر آتا تھا اسلئے نگاہ مرد مؤمن وہاں تک نہیں پہنچ سکی ۔ مولانا سمیع الحق نے میڈم طاہرہ سکینڈل سے سبزی کے چھرے سے شہادت تک منزل پالی۔
پراکسی سیاست اور پراکسی جہاد سے سب ہی تنگ آچکے ہیں لیکن ایک شخص نے کالا کمبل دریا میں دیکھ کر چھلانگ لگائی تو ساتھیوں نے مہم جوئی میں خطرہ بھانپ کر آواز لگائی کہ کمبل کو چھوڑو۔اس نے کشمکش کی حالت میں کہا کہ میں کمبل کو چھوڑ رہا ہوں لیکن کمبل مجھے نہیں چھوڑ رہا ہے۔ اسلئے کہ وہ اصل میں ریچھ تھا جس کو کمبل سمجھ کر دریا میں چھلانگ لگائی تھی۔ دنیا بھر میں امریکہ ، ایران ، پاکستان، چین، بھارت اور تمام چھوٹے بڑے ممالک کے اپنے اپنے کٹھ پتلی پراکسی ہوسکتے ہیں لیکن اب ہوسکتا ہے کہ سب ان سے تنگ بھی آچکے ہوں۔ میں اپنے مسلمان بھائی اور خطے کے ان مجاہدین سے گزارش کروں گا کہ وقفہ کرلیں جنہوں نے روس ، امریکہ اور بھارت کو مزا چکھانے کیلئے اسلامی جہاد کیا لیکن اب اپنے ہی سرپرستوں کے ساتھ دست و گریبان ہیں۔ مجاہد سے دہشتگرد اور دہشتگرد سے خوارج کا لقب پاچکے ہیں۔ افغان طالبان بھی امریکہ سے دوستی کے خواہاں ہیں اور جب امریکہ بلیک واٹر کے ذریعے اپنا ڈبل گیم کھیل رہا تھا تو پاکستان نے بھی ڈبل گیم کھیلی یا پھر ڈبل گیم کا شکار ہوگیا؟۔ طالبان نے قطر میں دفتر اور افغانستان میں میدان جہاد سجایا تو خلوص تھا یا ڈبل گیم؟۔ اللہ تعالیٰ بھی ستاری کو ہی پسند کرتا ہے۔ پہلے حمام میں سب ننگے ہوتے تھے اور اب حمام سے سب ننگے باہر نکل چکے ہیں۔ جس کا نتیجہ سب کیلئے بہت خطرناک ہوسکتا ہے۔ عیب سے پاک ذات اللہ کی ہے اور جو کمی کوتاہیاں ہم سے ہوئی ہیں بارگاہِ الٰہی میں استغفار کرتے ہوئے ایک امن و امان اور خوشحالی و سلامتی کا ماحول بنائیں تو ممکن ہے کہ سبھی اچھے اہداف تک بھی پہنچ جائیں لیکن سدھرے نہیں تو آخرت کیا دنیا کے عذاب کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔ دنیا میں ایسی خلافت نے آنا ہے جس کی وجہ سے ساری دنیا کے لوگ خوش ہوں گے اور قرآن وحدیث کی پیش گوئی ثابت ہوگی۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے سینٹ میںڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی اسلام آبا آمد پر یادگار تقریر کی تھی ، کہا تھا کہ”علامہ اقبال نے 1936ء کے پنجاب اسمبلی میں بلوچستان کے اندر یونیورسٹی قائم کرنے کی قرار داد پیش کی تھی۔ میرے والد نے بلوچستان میں یونیورسٹی کی بات کی تو نوکری سے نکال دیا گیا۔ چین اور پاکستان کے سی پیک کا اصل منصوبہ دونوں ممالک کے پسماندہ علاقوں میں ترقی تھی جو پاکستان میں بلوچ اور پختون قوم کا مغربی روٹ تھا ۔ جس کو چھین کر سندھ اور پنجاب کی طرف موڑ دیا گیا۔ یہ وہ ذہنیت ہے جو سمجھتی ہے کہ بڑے لوگوں کو امیر تر بنایا جائے پھر وہ سونے کے انڈے دیں گے اور پھر غریب کو بھی کچھ ملے گا۔ مگر ساری دنیا میں ایسے منصوبے بالکل ناکام رہے ہیں”۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اپریل 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

دریائے ستلج اور پنجند کے مقام پر منرل واٹر سے زیادہ صاف پانی کے بڑے ذخائر

کیا راجستھان کی ناکامی ،چولستانی نہر کا نقصان اور متبادل زیرزمین پانی سے آگاہ نہیںکیاگیا؟ جواب:11اپریل 2024ء کو ایکس، دو، تین، چار 14نکات پر مشتمل رپوٹ میں سب کچھ بتایا

گرین پاکستان نے اپنے الفاظ میں بھی سمجھایا لیکن یہاں کا ٹھیکیداری سسٹم بہت مضبوط ہے۔ مقصد صرف مافیاکا پیسہ کھانا ہے ،خمیازہ عوام بھگتتی ہے

ناظرین آداب علی وارثی ایک مرتبہ پھر نیا دور کے پلیٹ فارم سے آپ کے سامنے حاضر ہے ۔ سوال: پنجاب کہتا ہے کہ ہمارے حصے کا پانی ہے۔
ڈاکٹر حسن عباس: یہ پنجاب نہیں کہہ رہا یہ کنالز بنانے والے کہہ رہے ہیں کہ پنجاب کا پانی جائے گا اور سندھ کا نہیں ۔ سندھ کی سیاسی جماعتیں ، لوکل لیڈرز، عوام سمجھتے ہیں کہ جب دریاؤں کا رخ موڑا گیا تو سندھ کو نقصان ہوا اور وہ آرگنائز طریقے سے آواز بلند کر رہے ہیں۔ کچھ چیزیں سیاسی ہیں اور بہت سی چیزیں سائنٹیفک اور حقیقی ہیں تو یہ ملا جلا رجحان ہے جس میں ان کنالز کی مخالفت کی آواز آرہی ہے مگر ایسا نہیں کہ پنجاب کا کسان بڑا خوش ہے کہ چولستان میں پانی جا رہا ہے پنجابی کسان بھی پریشان ہے مگر بدقسمتی سے سندھی کسان کی طرح سیاسی ،ا نتظامی اور تہذبی منظم نہیں جس طرح سندھی کسان ہیں تو پنجابی کسان پریشان ہے کہ اگر میرے حصے کا پانی جائے گا تو مجھے پہلے پورا نہیں مل رہا تو پھر میرا کیا بنے گا؟اور حال میں پنجاب سے آواز اٹھی ہے۔ لوکل لوگوں نے مقدمات درج کروائے کہ یہ زیادتی ہے ۔ جہاں تک SIFC کے Green Pakistan Initiative کا معاملہ ہے تو بیان کردہ مقصد یہ ہے کہ فوڈ سیکیورٹی کو استحکام دیا جائے اور جو زرعی اجناس اُگا سکتے ہیں ان کو ایکسپورٹ کیا جائے جہاں وہ پیدا نہیں ہو سکتی مثلا مڈل ایسٹ سینٹرل ایشیا میں جائیں۔ تو آئیڈیا برا نہیں ہونا،ایسا ہونا چاہے لیکن جس طریقے سے وہ یہ مقصد حاصل کرنے جا رہے ہیں اس پر کافی سارے سوالات اُٹھ رہے ہیں۔
سوال: بریفنگ دی گئی تھی صحافیوں اور بہت سے سول سوسائٹی کے لوگوں کہ پنجاب کے لاہور، قصور اور غالباً اوکاڑہ تین اضلاع میں شہری آبادی بہت زیادہ ہو چکی ہے ۔ وہاں اتنے زیادہ پانی کی اب ضرورت نہیں ، اسلئے انکے حصے کا پانی لینا ہے ۔
ڈاکٹر حسن عباس: یہ ہر روز ایک نئی منطق سنتے ہیں کہ پنجاب میں شہری آبادی بن گئی تو وہ پانی بچ گیا ہے کبھی یہ منطق کہ سیلاب کا پانی آئے گا تو کینال چلا دیں گے کبھی کہتے ہیں دیامیر بھاشااور مہمند ڈیم بن جائیں گے تو ادھر کا پانی آجائے گا۔ کبھی کہتے ہیں سندھ کا ایک بوند نہیں جائے گا اور پنجاب کا پانی آئیگا۔ ابھی تک کوئی واضح وضاحت کینالز بنانے والی لابی کی طرف سے نہیں آئی وہ کبھی کوئی بہانہ کرتے ہیں کبھی کوئی بہانہ کرتے ہیں اور لگتا ہے کہ مقصد چولستان میں پانی لے جانا نہیں، مقصد گرین پاکستان کو سپورٹ کرنا نہیں بلکہ مقصد صرف اور صرف وہ بڑے بڑے ٹھیکے لینا ہے جس سے اگلے 6 سال تک ٹھیکے کرنے کے، مٹی کھودنے کے، سریہ باندھنے کے پیسے ملتے رہیں اور چیزیں چلتی رہیں اور جو ٹھیکدار ہیں ان کی بلا سے پانی ہے یا نہیں ، پانی آئے یا نہ آئے گرین پاکستان کامیاب ہو یا ناکام ہو ان کی بلا سے کچھ نہیں ہے ان کو صرف ٹھیکے چاہئیں۔ جس طرح نیلم جہلم میں انہوں نے کیا کہ اس قوم کے کوئی پانچ چھ بلین ڈالرز خرچ کر دیے اور نیلم جہلم کے ٹھیکے دار پیسے لیکر چلے گئے۔ لیکن نہ ہمیں بجلی ملی، نہ وہ پروجیکٹ کام کر رہا ہے۔ تو ٹھیکیداری کا نظام پاکستان میں بہت طاقتور ہو چکا ہے ان لوگوں کو آپ روک نہیں سکتے یہ بہت پاور فل ہیں یہ فیصلہ سازوں تک پہنچ جاتے ہیں اپنی لابنگ کر دیتے ہیں اپنی مرضی کے فیصلے کرا لیتے ہیں اور پھر اگر پراجیکٹ نہ بھی چلے تو یہ اتنے مضبوط ہیں کہ ان کو کوئی پوچھ نہیں سکتا۔ تو مجھے ایسی سٹوری نظر آرہی ہے کیونکہ جہاں تک نہروں کا تعلق ہے اور
Green Pakistan Initiative کا تعلق ہے تو ان مقاصد کا تو ان نہروں سے دور دور تک کوئی واسطہ بنتا ہوا نظر نہیں آرہاہے۔
انڈیا نے راجستھان کینال بنائی ۔راجستھان ڈیزرٹ نام رکھا۔ گوگل پر زوم کر کے دیکھیں ۔اُوپر ریت کے ٹیلوں نے اس کو مٹی سے بھر دیا ہے اور بلینزآف ڈالرز کا خرچہ انہوں نے کیا۔ تین دریا کا رُخ موڑ دیا60 سال لگا دیے، ابھی تک ڈیزرٹ ڈیزرٹ ہی ہے اور قابل عمل نہیں۔ ہائیڈروجیکل سسٹم ہے اس میں بڑے سے بڑا ڈیم بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ تین مہینے کا سٹیمنا نہیں ہے آپ اربوں ڈالر کا خرچہ کس کیلئے کر رہے ہیں؟۔ مجھے بتائیں نیلم جہلم کا قرضہ کون دے رہا ہے؟۔ میں اور آپ! ہم موبائل فون بیلنس، گاڑی اور موٹر سائیکل میں پٹرول ڈلواتے ہیں اس پرجو ہم ٹیکس دیتے ہیں وہ پیسہ جا رہاہے ٹھیکدارکو تو کسی نے پوچھا بھی؟ یہ ٹھیکدار اتنے پاور فل ہیں کہ آپ پوچھ تک نہیں سکتے کہ آپ ہیں کون ؟۔ ہمارے ارباب اختیار کو اسکے بارے میں کوئی نالج نہیں تھی پہلے سے؟۔
ان کو بتایا گیا تھا ستلج کے نیچے 34 ملین ایکڑفٹ پانی ہے اور پنجند ریور کے نیچے تقریبا 110 ملین ایکڑفٹ پانی ہے۔ مثلاً دیامیر بھاشا ڈیم بن رہا ہے یہ چھ سات ملین ایکڑ فٹ کا ہے، ادھر 500ہے یہ 100گنا زیادہ پانی ہے۔ ان کو پتہ ہے کہ آلٹرنیٹ سستا بنتا ہے جلدی بنتا ہے ماحول دوست، سماجی طور پر مستحکم ، ایکنامیکل ہے۔ یہ ڈیموں، بیراجوں اور نہروں پر مبنی روایتی کے مقابلے میں تعمیر اور چلانے کے لحاظ سے نمایاں طور پر زیادہ آسان ہے۔ گرین پاکستان کے اپنے الفاظ ہیں اس رپورٹ کے بارے میں۔
سوال: یہ غذائی مسائل کا قابل عمل حل ہے؟۔
ڈاکٹر حسن عباس: یہ بالکل قابل عمل نہیں ہے۔ اگر فوڈ سکیورٹی کرنا چاہتے ہیں تو ورٹیکل گروتھ پہ جانا ہوگا جس کا مطلب پر وہ سیراب شدہ علاقہ جہاں لوگوں کو الاٹمنٹس ملی ہوئی ہیں اور وہ ایریا جہاں پانی نہیں پہنچ رہا ادھر لوگ غربت کسمپرسی کا شکار ہیں ان علاقوں کو اگر آپ مضبوط کریں ادھر اگر کوئی آپ نے پانی کا پراجیکٹ کرنا ہے تو آپ وہاں لے کے جائیں اگر آپ نے ماڈرن ایریگیشن ٹیکنالوجیز لے کے آنی ہے تو وہاں لے کر جائیں اپنے لوگوں کو بااختیار بنائیں کہ وہ اس زمین سے زیادہ پروڈیوس کریں جس زمین سے اس وقت وہ مشکل سے پروڈیوس کر رہے ہیں تو آپ کا کام ہے کہ ان کو سپورٹ کریں ۔ یہاں صاف آپ کو یاد ہوگا کہ وزیراعظم اسٹیج پر آئے اور کہا کہ یہ میرا پراجیکٹ نہیں ہے یہ جنرل عاصم منیر صاحب کا پروجیکٹ ہے۔ ہمیں لگ رہا تھا کہ شاید کچھ زیادہ ہی شکر گزاری کہ عالم میں ہیں لیکن شاید وہ اس سے اپنے آپ کوبری الذمہ بھی کر رہے تھے۔
سوال : یہ بتائیے کہ جب یہ فیصلے ہو رہے ہوتے ہیں تو فیصلہ سازی کس طرح سے ہوتی ہے آخر آپ نے جیسے ابھی یہ مثال دی راجستھان کی ۔ کچھ سال پہلے بھاشا ڈیم پر ڈیم فنڈ بنایا تھا اس پر غالباً آپ نے کہا تھا کہ یہ مفاد فرست گروپس ڈیم کیلئے ہر وقت زور ڈالتے ہیں اور وہ رشوت دینے کیلئے بھی تیار ہو جاتے ہیں۔کیا ان کو یہ پتہ نہیں کہ ڈیموں کا فائدہ نہیں۔ ماحولیات پر اس کا برا اثر پڑتا ہے؟اور صوبوں کے درمیان بد اعتمادی پیدا ہوتی ہے؟۔
جواب :پہلے سے جی نہ صرف یہ کہ نالج تھی بلکہ ان کو رپورٹ لکھ کے دی گئی تھی زبانی کلامی بھی نہیں لکھ کے ایک رپورٹ ان کو دی گئی تھی جس میں ان کو بتایا گیا تھا کہ کنال راجستھاں کی طرح چولستان ڈیزرٹ میں کیوں نہیں چل سکتی؟۔ اس پہ پورے سارے ایک، دو، تین، چار اس کو 14 پوائنٹس لکھ کے دیے گئے تھے کہ یہ مسائل ہیں اگر آپ نے کنال بنائی اور وہ رپورٹ 11پریل 2024 میں ان کو جمع کرائی گئی تھی اور اس میں جو کنال کا سب سے پہلا منفی نکتہ دیا گیا وہ یہ تھا کہ جب کنال کیلئے دریاں میں پانی نکالیں گے تو صوبوں کے درمیان چپقلش اور بدمزگی پیدا ہوگی اور جو قومی ہم آہنگی شمال اور جنوب کی ہے اس کو دھچکا لگے گا یہ تو اپریل میں پچھلے سال ان کو بتایا گیا تھا۔ ایک سال کے بعد اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ سب کچھ ہو رہا ہے پھر ان کو یہ بھی بتایا گیا تھا کہ کنال کی جگہ آپ کے پاس متبادل چیز ہے۔ دیکھیں چولستان میں ایسا نہیں کہ فارمنگ نہیں ہو سکتی ، ہو سکتی ہے لیکن کنال سے نہیں ہو سکتی اسکے دوسرے طریقے ہیں پھر ان کو دوسرے طریقے بھی بتائے گئے تھے کہ آپ کے اس وقت دریاؤں میں پانی کوئی نہیں ہے جو پہلے سے کم اور ختم ہے۔ پنجاب میں بھی پانی کی کمی ہے سندھ میں بھی ۔اگر مزیدپانی لیں گے تو مسائل بنیں گے۔ ان کو بتایا گیا تھا کہ دریائے ستلج کے نیچے پانی کا ذخیرہ ہے اور پنجند کے مقام پر بھی ۔یہ دو جگہیں جو چولستان کے قریب100 سے200 اور50 سے 100 کلومیٹر کے فاصلے پر یہ علاقے ہیں جو آپ نے مختص کیے ہیں اور پھر فارمنگ کیلئے ان کو اگر آپ نے زرعی بنانا ہے تو اس کیلئے جو ذریعہ ہے وہ یہ دریاؤں کے نیچے سٹور پانی ہے جو کہ اس وقت کوئی استعمال نہیں کر رہاہے ۔اس کو استعمال کریں اور اس پانی پر ایک بہت مفصل تحقیق ، مطالعہ ، تجربہ ہواہے۔ جس میں قومی اور بین الاقوامی ماہرین نے شرکت کی اور اس کاقابل عمل معاملہ دیکھا گیا کہ کتنا پانی ہم نکال سکتے ہیں، کتنا پانی ٹوٹل ہے اور پانی کی کیا کوالٹی ہے؟۔ کدھر سے نکالنے سے نقصان نہیں ہوگا ؟۔کس طرف سے پائپ لائن آئے گی۔ کدھر کیا ہوگا ایک بہت تفصیلی رپورٹ بنا کے دی اور اس میں جو پانی کی کوالٹی تھی جو اس دریا کی ریت کے نیچے ہے وہ پینے کے قابل ہے یعنی وہ اتنا صاف پانی ہے کیونکہ وہ قدرتی فلٹر ہوا ہوا ہے وہ پینے کے قابل پانی ہے ہم نے ایک جگہ پہ اس کو بوتل پانی سے موازنہ کیا تو بوتل پانی سے بھی اچھا پانی تھا پھر جو اس کی تعداد ہے اس پانی کی جو مقدار ہے وہ بھی دریاؤں کے بڑے ڈیموں سے پانچ سو گنا زیادہ ہے۔ اگر دریاؤں کیساتھ قدرتی نظام سے جمع شدہ پانی کو استعمال کیا جائے تو دریائے ستلج اور پنجند کے علاوہ پورے ملک میں بڑے بڑے ذخائر دریافت ہوں گے۔ ہم ڈیموں کے ذریعے اتنا بھی پہلے جمع نہیں کرسکتے۔ ڈیموں میں بہت کم گنجائش ہے اور اس کے بہت زیادہ نقصانات بھی ہیں۔ ایران کے پاس ڈیموں کیلئے بین الاقوامی ٹیم 1950ء میں آئی تھی اور اس وقت دنیا نے اتنی ترقی نہیں کی تھی مگر مقامی ماہرین نے کہا کہ مصنوعی ڈیموں سے قدرتی نظام بہتر ، محفوظ اور بہت فائدہ مند ہے اور اس کے نقصانات اور مضر اثرات بھی نہیں ہیں۔
آج دنیا نے ترقی کرلی ہے اور نہری نظام کو ختم کردیا گیا ہے۔ زیر زمین پانی کے ذخائر قدرت کا بہت بڑا تحفہ ہے جس میں پانی بہت بڑی مقدار میں اسٹور بھی ہوتا ہے اور فلٹر بھی زبردست طریقے سے ہوجاتا ہے اور ماحولیاتی آلودگی سے محفوظ بھی ہوتا ہے ، اس کا موجودہ دور میں خرچہ بھی بہت کم ہے۔
ڈاکٹر حسن عباس کی تعلیم، مہارت اور خلوص قوم، سیاستدانوں اور صحافیوں میں عام ہورہا ہے اور مقتدر طبقات کا بند دماغ بھی انشاء اللہ جلد کھل جائے گا اور قومی مفاد کو مدنظر رکھ کر بہترین منصوبہ بندی سے پاکستان جنت نظیر بنادیا جائے گا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اپریل 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پاکستان کے ماہرین معیشت دلے سمجھتے نہیں یا جان بوجھ کر دلال بن گئے؟ شاہد علی

پاکستان کے ماہرین معیشت دلے سمجھتے نہیں یا جان بوجھ کر دلال بن گئے؟ شاہد علی

مہنگائی سے سودکی شرح بڑھتی ہے ۔ مہنگائی کم ہو تو عالمی مالیاتی نظام سودی شرح کم کرتاہے، پیٹرول و ملازمین کوٹیکس پرریلیف دیا توسود کم ہوکر 1ہزار ارب روپے کا مالی خسارہ بہت آسانی سے کم ہوگا۔

پاکستانی بجٹ سال2024-25کا کل خرچہ26315ارب لگایا گیا۔FBRکی آمدنی12970ارب اور غیرFBRکی آمدنی4845ارب ہے اور خرچہ پورا کرنے کیلئے8500ارب قرضہ لینا ہوگا۔ پاکستان کا یہ سالانہ خسارہ ہے۔
FBRکی آمدنی میں تنخواہ داروں پر ٹیکس بڑھا کر70ارب جمع ہوں گے ۔واضح ہے کہ اگر کوئی بھی خرچہ کم کردیتے تو کروڑوں لوگ تکلیف سے بچتے۔ اسلئے کہ26315 خرچہ میں70ارب بچانا کوئی مشکل کام نہیں۔ پھر پٹرولیم کی مد میں60روپے فی لیٹر سے سال2023-24میں کل900ارب جمع ہوئے لیکن اس کی وجہ سے جو مہنگائی ہوئی تو اسٹیٹ بینک نے شرح سود بڑھادی اگر پٹرولیم لیوی کو ختم کیا جائے تو900ارب کم آمدنی ہوگی لیکن بغیر پیٹرولیم لیوی کے مہنگائی میں کمی آئے گی اور سود کا ریٹ کم ہوجائیگا اور حکومت کو سود کی مد میں جو اس وقت9775ارب رکھے گئے ہیں اس میں بچت ہوگی اسلئے کہ صرف 1فیصد ریٹ کم کرنے سے440ارب سود کم ہوجاتا ہے۔ چونکہ ہمارا لوکل قرضہ44000ارب ہے اور ہر ایک پرسنٹ سے440ارب سود کی رقم کم ہوجاتی ہے۔ اگر مہنگائی میں کمی لائی جائے جیسے کہ پیٹرول اور ڈیزل کی لیوی ختم کردی جائے تو مہنگائی میں2سے ڈھائی فیصد کمی ہوگی۔ اس طرح تقریباً1000ارب سود کا خرچہ کم ہوجائے گا۔
دوسری طرف صوبوں کو رقمNFCایوارڈ کی مد میں دینے ہوں گے وہ12970کا58%ہے جو7440ارب بنتا ہے۔ پنجاب52.5%اور سندھ24.5%،خیبر پختونخواہ14%اور بلوچستان کو9%ملے گا۔ صوبوں کی اپنی آمدنی بھی ہے۔پنجاب کا2024-25بجٹ5500ارب ہے اور سندھ کا3000ارب ہے اور خیبر پختونخواہ کا بجٹ1700ارب اور بلوچستان کا بجٹ900ارب ہے۔ اس طرح اس سال پاکستان کا کل بجٹ31000ارب کے برابر ہے۔
صوبے اتنا پیسہ کہاں خرچ کرتے ہیں کوئی حساب نہیں دیا جاتا اور بہت سا پیسہ چوری ہوجاتا ہے۔ جس کی وجہ سے غریب مزید غریب ہورہے ہیں اور کرپٹ لوگوں کے مزے ہیں۔
پنجاب، سندھ ، پختونخواہ اور بلوچستان کی سیاسی جماعتیں مافیاز ہیں۔ ان کو یہ فکر نہیں ہے کہ ملک سودی قرضوں میں ڈوب جائے گا بلکہ جس کی اپنی دکان چل رہی ہو ،وہ فٹ پاتھ پر بھی جھاڑو دیتا ہے۔ جس کی دکان نہیں چلتی وہ جھاڑو اٹھاکریہ ٹھیک نہیں وہ ٹھیک نہیں شور کرتا رہتا ہے ۔بھوکی عوام تماشا ئی ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جولائی 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

ہندو سینیٹر نے سود سے متعلق اللہ کا حکم سناکر حکمران اور علماء کو پانی پانی کردیا؟

ہندو سینیٹر نے سود سے متعلق اللہ کا حکم سناکر حکمران اور علماء کو پانی پانی کردیا؟

سینیٹر رمیش کمار نے سینیٹ اجلاس میں کہا کہ سخت افسوس کہ حکومت سود پر سود لے رہی ہے۔ دنیا سے سود پر پیسے لے رہے ہیں ۔ وفاق سود پر صوبوں کو پیسے دے رہا ہے۔ میں آپ کو ترجمہ سناتا ہوں۔ سورہ بقرہ آیت278میں ہے ”اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو”۔ اسی طرح سے سورہ بقرہ279میں ہے ”پھر اگرآپ اس پر پھر بھی عمل نہیں کرو گے اور سود پر سود لیتے رہو گے اور دیتے رہو گے تو علی الاعلان سن لو کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جنگ اور اللہ کے رسول کے خلاف جنگ ہے۔ اور اگر تم توبہ کرلو گے تو تم کو تمہارے اصل اموال مل جائیں گے۔ نا ہی تم کسی پر ظلم کرپاؤ گے اور نا ہی کوئی تم پر ظلم کر پائے گا ”۔ سر ! جب قرآن شریف کہتا ہے جب اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ سود حرام ہے اللہ تعالیٰ سے جنگ ہے مگر یہاں پر سود لیا بھی جارہا ہے اور دیا بھی جارہا ہے۔ تو مجھے بتائیں ہمارا ملک خاک ترقی کرے گا؟۔ اور آپ کہتے ہیں کہ آپ کا قانون قرآن و سنت سے ہٹ کر نہیں ہے۔ بحیثیت غیر مسلم بھی مجھے شرم آتی ہے کہ آپ یہ منافقت کا کام کررہے ہیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جولائی 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

جب سُود کی حرمت پر آیات نازل ہوئیں تو نبی ۖ نے مزارعت کو بھی سُود قرار دے دیا تھا

جب سُود کی حرمت پر آیات نازل ہوئیں تو نبی ۖ نے مزارعت کو بھی سُود قرار دے دیا تھا

نبی ۖ نے اپنے چچا عباس کے سود کو معاف کرنے کا اعلان فتح مکہ کے بعد کیا لیکن مزارعت کو بہت پہلے سے سود قرار دیکر مدینہ میں ختم کرنے کا اعلان کیا تھا جس سے یثرب مدینہ بن گیا
اگر پاکستان کے میدانی اور پہاڑی علاقوں میں محنت کش عوام کو بنجر زمینیںمفت میں فصل ،باغات اور جنگل اُگانے کیلئے دی گئیں تو اناج ،پھل ،لکڑی سے غربت کا خاتمہ اور جنت کا منظر ہوگا

ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگایا تھاتو سندھ اور پنجاب میں مقبول ہوا، عوام کو پتہ نہ تھا کہ سوشلزم کیا ہے؟۔ آج تک پڑھے لکھے لوگوں کو ادراک نہیں۔جاہل لوگوں میں بھٹو کی مقبولیت اسلئے بڑھ گئی تھی کہ انڈسٹریوں کو سرکار کی تحویل میں لیا گیا تو مزدورطبقے کو یقین دہانی کرائی گئی کہ سرکار تمہاری ہے اور سرمایہ داروں سے انڈسڑیوں کو چھین لیا۔ پختونخواہ میں آج تک بہت سی زمینوں پر غریب مزارعین نے قبضہ کرلیا اور زمین مالکان ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ بینظیر بھٹو نے باپ کے برعکس سرکاری اداروں کو پرائیوٹ کردیا۔ عوام کو کچھ سمجھ نہیں کہ باپ اور بیٹی میں کیا تضادتھا؟۔ روس امریکہ کی سرد جنگ کا ایندھن افغانستان اور پاکستان بن گئے۔اسرائیل نے فلسطین میں بچوں،خواتین اور انسانیت کا بہت برا حال کیا ہے۔ ڈاکٹر عبداللہ عزام کا تعلق فلسطین سے تھا جس کو اپنی سرزمین کی فکر نہ تھی۔ سعودی عرب کے تنخواہ دار نے اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری کو افغان جنگ میں جھونک دیا۔ بینظیر بھٹو نوازشریف پر اسامہ اور اسرائیل کے ایجنٹ کا الزام لگاتی تھی ۔ نوازشریف بینظیر بھٹو کوامریکی ایجنٹ کہتا تھا۔ بینظیر بھٹو نے نصیراللہ بابر کے ذریعے امریکہ کیلئے طالبان حکومت قائم کی ۔نوازشریف نے مولانا لاہوری کے پوتے مولانا اجمل قادری کو اسرائیل بھیجا ۔25فیصد سود کو اسلامی بینکاری قرار دیا۔ بیت المقدس کو چھوڑ کر ابھی مکہ مدینہ پر یہودی قبضہ کی بات ہے۔ اگر مزارعت سے سودی نظام کے خاتمے کی ابتداء ہوگئی تو بینکاری کے سودی نظام سے بھی چھٹکارا مل جائیگا۔ اقتصادی تباہی سے ہمارا دینی، ہمارا دفاعی اور سیاسی نظام سب کچھ اغیار کے حوالے ہوجائیگا۔ آج اگر مزارعت سے ابتداء کرلی تو عالمی سودی نظام سے بھی جلد چھٹکارا مل جائے گا۔ اللہ ہمارے اہل اقتدار کو عقل دے۔ جاگیردار اور سرمایہ دار کیلئے بھی مہنگائی ہے۔ غریب و محنت کش کو ریلیف دینے سے نہ صرف سب کو ریلیف مل جائے گا بلکہ لینڈ مافیا اور ظالموں کو بھی لگام مل جائے گی۔ پاکستان زرعی ملک ہے اور اس کو اسلامی بنیاد پر جنت نظیر بننے میں دیر نہیں لگے گی۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اللہ نے اہل کتاب کے کھانوں اور خواتین کو حلال قرار دیا، جس نے ایمان کیساتھ کفر کیا تو اس کا عمل ضائع ہوگیا

اللہ نے اہل کتاب کے کھانوں اور خواتین کو حلال قرار دیا، جس نے ایمان کیساتھ کفر کیا تو اس کا عمل ضائع ہوگیا

الیوم احل لکم الطیبٰت وطعام الذین اوتواالکتٰب حل لکم وطعامکم حل لھم والمحصنٰت من المؤمنٰت والمحصنٰت من الذین اوتواالکتٰب من قبلکم اذا اٰ تیتموھن اجورھن محصنین غیر مسٰفحین و لامتخذی اخدانٍ ومن یکفربالایمان فقدحبط عملہ وھوفی الاٰخرة من الخٰسرین ” آج تمہارے لئے پاک چیزیں حلال ہیں اور ان لوگوں کا کھانا جن کو کتاب دی گئی تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کیلئے حلال ہے اورپاکیزہ عورتیں مؤمنات میں اور پاکیزہ عورتیں ان لوگوں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی جاچکی ہے۔جب تم ان کا حق مہر ادا کرو،ان کو اپنے حصار میں لئے نہ فحاشی سے اور نہ چھپی یاری سے اور جس نے ایمان کیساتھ کفر کیاتو اس کا سارا عمل ضائع ہوگیااور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہوگا”۔ ( المائدہ : آیت5)مذہبی طبقہ کتابیہ سے نکاح کو بے دینی سمجھے تویہ کفر ہے!۔

قل یااہل الکتٰب تعالوا الی کلمة سواء بیننا و بینکم ألا نعبد اِلااللہ ولانشرک بہ شیئًا ولایتخذ بعضنا بعضًا اربابًا من دون اللہ فان تولوافقولوااشھدوا بانا مسلمونO” کہہ دو! اے اہل کتاب آؤ،اس بات کی طرف جو ہمارے اور آپ کے درمیان برابر ہے کہ ہم عبادت نہیں کرتے مگر اللہ کی۔اور اسکے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کرتے اور نہ بناتے ہم اپنے بعض میں سے بعض کو اللہ کے علاوہ ارباب۔پس اگر یہ پھر جائیں تو کہو کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں ”۔(آل عمران:آیت64)

اللہ نے اہل کتاب کے کھانوں اور خواتین کو حلال قرار دیا، جس نے ایمان کیساتھ کفر کیا تو اس کا عمل ضائع ہوگیااور آخرت میں وہ خسار ہ پانے والوں میں سے ہوگا۔ بے دینی کا خاتمہ اہل فارس کرسکتے ہیں۔ بخاری و مسلم سورہ جمعہ آیت واٰخرین منھم لما یلحقوبھمکی تفسیر میں نبیۖ نے واضح فرمایا ہے۔
آل عمران آیت:64میںاہل کتاب کو مشترکات کی طرف بلانے کا حکم ہے۔ نمبر1:اللہ کی عبادت کریں ۔ نمبر2:اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ نمبر3:ہم اپنے بعض میں سے بعض کو اللہ کے علاوہ اپنے ارباب نہیں بنائیں۔ آج مسلمان یہودونصاریٰ کی طرح ہوگئے ۔نبیۖ نے پیشگوئی فرمائی تھی۔
نمبر1:یہود ونصاریٰ اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور ہندو بھی لیکن ہم ان کی عبادت کو عبادت نہیں سمجھتے ۔ یہ قرآن کی مخالفت اور انکے نقش قدم پر چلناہے۔
نمبر2:عیسائی عیسیٰ و مریم کو شریک ٹھہراتے ۔یہود عزیر کو خدا کا بیٹا کہتے۔ عیسائی گمراہ، یہود پر اللہ کا غضب تھا۔ یہود عیسائیوں کے بغض میں عزیر کو خدا کا بیٹا کہتے تھے حالانکہ موسیٰ، داؤد وسلیمان کو زیادہ مانتے تھے۔ جیسے بعض سنی طبقہ میلادالنبی ۖ کا دن منانا بدعت اور ناجائز سمجھتاہے لیکن شیعہ کے بغض میں یوم فاروق اعظم مناتا ہے۔ یہود اور سکھ توحید کے علمبردار بن گئے ۔ تعلیم یافتہ عیسائی و ہندو کی اکثریت مشرکانہ اعتقاد نہیں رکھتی مگر جاہل مسلمان کی حالت بدتر ہے۔
کریں غیر اگر بت کی پوجا تو کافر
جو ٹھہرائے بیٹا خدا کا تو کافر
جھکے آگ پر بحرسجدہ تو کافر
ستاروں میں مانے کرشمہ تو کافر
مگر مؤمنوں پر کشادہ ہیں راہیں
پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں
نبی کو چاہیں خدا کر دکھائیں
اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں
شہیدوں پہ جا جا کے مانگیں دعائیں
مزاروں پہ دن رات منتیں چڑھائیں
نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے
نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے
رسول اللہۖ نے غزوہ خیبرکے موقع پر یہودیہ حضرت صفیہ سے خلوت کی خوشی میں کھانا کھلایا تو ایک صحابی نے دوسرے سے پوچھا کہ نکاح ہے یا ملک یمین کا تعلق ہے؟۔ دوسرے نے جواب دیا کہ اگر پردہ کروایا تو نکاح ہے ورنہ تو ملک یمین کا تعلق ہوگا۔ پھر اسلام قبول کیا تھا لیکن رسول اللہ ۖ نے قرآن کے حلال کے مطابق خود عمل کیا تھا۔ ہمارا منافق مذہبی طبقہ سمجھتا ہے کہ اگر کسی بڑے عالم یا پیر نے قرآن کے حلال پر عمل کیا تو اسلام زمین بوس ہوجائیگا۔ اسلام نہیں وہ منافقانہ کردار زمین بوس ہو گا جو پیر و ملا کیلئے عوام الناس سے الگ معیاربنایا۔ نبیۖ نے6سالہ بچی سے نکاح اور9سالہ بچی سے شادی نہیں کی۔ تم اپنی بچی کی کرواکے دکھا دو۔ نابالغ بچیوں کے جو فتوے مفتی تقی عثمانی نے شائع کئے،ان کی وجہ سے حکومت پر حیرت کہ دارالعلوم کراچی پر پابندی کیوں نہیں لگائی؟۔ چھوٹا مولوی نکاح پڑھادیتا ہے تو پھرحکومت فوری طور پر ایکشن لے لیتی ہے۔
نمبر3:آل عمران کی آیت64میں تیسری بات یہ ہے کہ ” ہم ایکدوسرے میں بعض کو بعض اللہ کے علاوہ ارباب نہیں بنائیںگے”۔ یہودی نے اسلام قبول کیا تو نبی ۖ سے سوال کیا: اتخذوا احبارھم و رھبانھم اربا بًا من دون اللہ ہم اپنے علماء ومشائخ کورب نہیں بناتے تھے۔پوچھا کہ کیا تم انکے حلال کردہ کو حلال اور حرام کو حرام نہیں سمجھتے تھے؟”۔ نومسلم صحابی نے عرض کیا کہ” یہ تو ہم کرتے تھے”۔ نبی ۖنے فرمایا کہ” یہی تورب بنانا ہے”۔
دارالعلوم کراچی نے شادی بیاہ کی رسم میں لفافے کی لین دین کو سود قرار دیا مگرپھر اکلوتے مفتی تقی عثمانی نے سودی نظام کو حلال قرار دینے کی جسارت کی۔ آج پوری دنیا میں سب سے بڑا ظالمانہ نظام سودی بینکاری نظام ہے اور مزے کی بات ہے کہ آج کے یہودی علماء اور مذہبی طبقہ اپنے مذہب میں سود کو ناجائز اور حرام قرار دیتا ہے۔ عیسائی پادری اور مذہبی طبقہ بھی حرمت اور ناجائز ہونے کا فتویٰ دیتا ہے اسلئے کہ تورات اور انجیل میں سود کی حرمت بالکل واضح ہے۔ مسلمان علماء اور مذہبی طبقے کی اکثریت سودی بینکاری کو حرام و ناجائز کہتی ہے لیکن مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن نے اس کوحیلے سے حلال قرار دیا ۔ جس کی وجہ سے آج ہمارامذہبی طبقہ یہود کے مذہبی طبقہ سے بہت آگے نکل چکا۔ حافظ سید عاصم منیر آرمی چیف علماء و مفتیان کو اس مسئلے پر بھیGHQمیں طلب کریں اور حقائق معلوم کریں۔کیا اپنوں نے یہ ارباب کا درجہ نہیں دیا ہے؟۔
دھوکہ باز ، دین فروش، درباری علماء سوء تو مختلف ادوار میں موجود رہے ہیں اور ان کی وجہ سے اسلام اجنبیت کا شکار ہوتا چلا گیا اور انکے سامنے علماء حق نے مختلف ادوار میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ۔ ہم علماء سوء اور دین فروش طبقے کی بات نہیں کرتے بلکہ مجاہد ، سرفروشان اسلام اور علماء حق کی بات کرتے ہیں۔ جن میں اخلاص اور حق کیلئے جدوجہد کا بڑاجذبہ ہے لیکن وہ عین دین کو بے دینی اور بے دینی کو دین سمجھنے لگے ہیں۔ معروف انکے نزدیک منکر ، منکر معروف بن گیا۔ جو لاٹھی کو سانپ اور سانپ کو لاٹھی سمجھتے ہیں۔ ہمارے ساتھیوں نے زندگیاں وقف کرکے قربانیوں کی تاریخ رقم کردی۔شرافت علی ،عارف وارشاد بوجھانی، عبدالمالک،اصغر علی ونوشاد صدیقی،چاچا اسرار،عبدالقدوس بلوچ، غلام محمد ، کریم بخش و اشفاق صدیقی حنیف عباسی اور کئی سارے خلوص کے پروانے اور حوصلے کی چٹانیں دنیا سے چلے گئے اور کئی اس راہ میں منتظر بیٹھے ہیں۔
من المؤمنین رجال صدقوا ماعاھدوا اللہ علیہ فمنھم من قضی نحبہ ومنھم من ینتظر وما بدلوا تبدیلًا”مؤمنوں میں سے کچھ ایسے( ہمت والے ) مرد ہیں جنہوں نے اس عہد کو سچا کر دکھایا جو انہوں نے اللہ سے کیا پس ان میں سے بعض اپنی نذر پوری کرکے اللہ کے ہاں پہنچ چکے اور بعض انتظار میں ہیں اور انہوں نے عہد میں کوئی تبدیلی نہیں کی”۔ (الاحزاب:23)
کچھ ایسے علماء سوء ہیں جو عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائما خان کی کھلے عام رنگ رلیوں کو دین کا عین تقاضا قرار دیتے اور مخالف فضامیں مرتد اور واجب القتل کا فتویٰ جاری کرسکتے ہیں۔ ہمارا ہدف ایسے مفتی صاحبان نہیں بلکہ جب اللہ نے اہل کتاب کی عورت سے نکاح کی اجازت دی اور یہ دینداری کی وجہ سے انکار کرتے ہیں ایمان کے بعد اس کفر کا پردہ چاک کرنا ہمارا ہدف ہے۔ جس سے مسلمانوں میں مثالی اعتدال آسکتا ہے۔ اسلام سمجھ کر حلالہ کے مرتکب مفتیوں سے دنیا میں بڑی بے غیرتی نہیں ۔جس کا مسلسل ارتکاب ہورہاہے۔
اسلام کی درست تصویر کیلئے محمود اچکزئی، مولانا فضل الرحمن،لشکری رئیسانی شاہد خاقان عباسی، مصطفی نواز کھوکھر، آرمی چیف عاصم منیر ، عبدالمالک بلوچ، سراج الحق، بلاول بھٹو اور نوازشریف سب کو اپنی اپنی خدمات پیش کرنا ہوں گی ۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ دسمبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

یہ کون لوگ ہیں حق کا علم اٹھائے ہوئے

یہ کون لوگ ہیں حق کا علم اٹھائے ہوئے

شاعرہ : پروفیسر شبنم شکیل
یہ کون لوگ ہیں حق کا علم اٹھائے ہوئے
جو راہِ غم میں ہیں چپ چاپ سر جھکائے ہوئے
زمین شوق سے سو بار چومتی ہے جنہیں
سفید پوش ہیں جو خون میں نہائے ہوئے
وہ راز کیا ہے کہ جس کے امین ہیں یہ لوگ
کہ زخم کھاکے بھی زخموں کو ہیں چھپائے ہوئے
جو اِن کے ساتھ ہے ہرپل وہ روشنی کیا ہے
کہ موجِ خوںمیں بھی چہرے ہیں جگمگائے ہوئے
ملا ہے اِن کو یقینا کوئی مقام بلند
کہ گھر لٹاکے بھی چلتے ہیں سر اُٹھائے ہوئے
گِنو تو کم ہیں جو سمجھو تو انگنت ہیں یہ
کہ دو جہاں کی ہیں وسعتوں پے چھائے ہوئے
یہی تو لوگ ہیں مقبولِ بارگاہِ رسولۖ
یہی ہیں ربِ دو عالم کے آزمائے ہوئے

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ دسمبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

وسائل سے مالامال پختونخواہ کے حالات کیوں ٹھیک نہیں ہوتے؟۔ جو پاکستان کی تقدیرکو بدل سکتے ہیں۔ ڈاکٹر اسد محمود

وسائل سے مالامال پختونخواہ کے حالات کیوں ٹھیک نہیں ہوتے؟۔ جو پاکستان کی تقدیرکو بدل سکتے ہیں۔ ڈاکٹر اسد محمود

ڈاکٹر اسد محمود نے کہا کہ خیبر پختونخواہ کی کچھ معلومات شیئر کروں گا۔ کرک سے گذشتہ سال85لاکھ43ہزار بیرل تیل نکالا گیا۔ سوات میں بہترین زمرد کے70ہزار قیراط ہیں۔220قیراط کی قیمت4ہزار سے6ہزار ڈالر تک۔ امسال خیبر سے40ٹن فلورائیٹ برآمد ہوا ۔11ماہ میں کرک سے65ہزار ملینMCFگیس برآمد ۔ مہمند میںامسال1935ٹن نیفرائٹ برآمد ۔ مالا کنڈ میں200ملین ٹن، صوابی بلاک میں100ملین ٹن ماربل ۔ مہمند ایجنسی سے13لاکھ60ہزار ٹن برآمد ۔ چترال، جنوبی وزیرستان میں سالانہ6لاکھ40ہزار کلو چلغوزہ فی کلو قیمت چین میں18ہزار روپیہ۔ کوہاٹ ٹنل سے روزانہ30سے35ہزار گاڑیاں گزرتی ہیں اور ہر گاڑی کا ٹول ٹیکس80سے450روپے ہے جس کا کنٹرول فوجی کمپنیNLCکے پاس ہے۔ پختونخواہ ڈھاکا سے روزانہ5ہزار ٹن کوئلہ برآمد ۔ آدم خیل سے ہر سال3لاکھ50ہزار ٹن کوئلہ نکلتا ہے۔اس وقت پختوانخواہ میں33ہزار بارودی سرنگیں ہیں۔
بونیر اور مردان میں2ارب ٹن ماربل اور چترال میں1ارب ٹن ماربل ہے۔ صرف کورمہ میں20لاکھ ٹن کوئلہ ہے اور ساتھ گیس اور اچھا ماربل بھی ہے۔ بالائی وزیرستان کے پیرغر میں سونے اور تانبے کی بہت بڑی مقدار ہے۔ گومل کے پہاڑوں میں کوئلہ کا بڑا ذخیرہ ہے۔ باجوڑ میں ہر سال85ہزار ٹن ماربل اور15سو50ٹن کرومائیٹ برآمد ۔ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں7سو کروڑ کے جواہرات ہماری سوچ سے بھی زیادہ ہیں۔ عرب ممالک میں ہر10میں سے تیل کا1کنواں کامیاب ہوتا ہے اور وزیرستان میں ہر تیسرا کنواں کامیاب ہوتا ہے ۔ میرانشاہ میں اتنا زیادہ تیل ہے جو پاکستان کی40سال کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ شمالی وزیرستان میں36ہزار ملین ٹن تانبہ ہے اور ایک ٹن تانبہ کی قیمت7ہزار ڈالر ہے۔ تربیلا ڈیم سے4ہزار سے لیکر5ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی ہے جو250بڑی فیکٹریوں میں استعمال ہوتی ہے۔ تربیلا سے پختونخواہ اربوں ڈالر کما سکتا ہے۔ بیٹنی کی آئل فیلڈ سے ایک ہزار سے3ہزار بیرل تیل اور1سے5ملین مکعب فٹ گیس برآمد کی جاتی ہے۔ مالاکنڈ کے دریاؤں سے30ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے جس کی قیمت1سے2روپے بنتی ہے۔ وزیرستان میں شوہ سے ہر سال ڈیڑھ ارب ڈالر مالیت کی گیس نکالی جاتی ہے کنٹرول فوجی کمپنی کے پاس ہے۔ سیاحت کے جنگلات اور بہت ساری دوسری چیزیں ہونے کے باوجود مظلوم کون ہے؟، پختونخواہ اور بلوچستان۔ سوال یہ بنتا ہے کہ یہ نا انصافی کہاں تک جائے گی؟۔ آخر کون ہے جو اتنے ذخائر اور معدنی وسائل کو لوٹ رہا ہے؟ یا کیئر نہیں کی جاتی؟۔ اگر ہم صحیح طریقے سے استعمال کرسکتے تو ہم دنیا کو بھیک دینے والے ہوتے نہ کہ کشکول لیکر ہم دنیا سے…

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ دسمبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

سالانہ زکوٰة2.50%میں حیلہ؟ اور روپیہ میں4%فرق؟ ہمارا مشورہ مانو، ڈالر پھوٹی کوڑی کا ہوجائے گا انشاء اللہ تعالیٰ

سالانہ زکوٰة2.50%میں حیلہ؟ اور روپیہ میں4%فرق؟ ہمارا مشورہ مانو، ڈالر پھوٹی کوڑی کا ہوجائے گا انشاء اللہ تعالیٰ

مذہبی اور حکمران ٹولے کی چالاک یاںیا حماقتیں؟

مسئلہ نمبر1:” سال سے ایک دن پہلے مال بیوی کو ہبہ کر و، زکوٰة فرض نہ ہوگی”۔
مسئلہ نمبر2:” بادشاہ قتل، زنا اور چوری کرے تو سزا نہیں ہوگی”۔ فتاوی عالمگیری
سال میں2.5فیصد زکوٰة سے بچنے کا حیلہ مفتی کرتا تھا۔آج بھی مفتی زندہ ہے کل بھی مفتی زندہ تھا ۔ پھر روپیہ میں4فیصد کا فرق احمقوں نے کیسے رکھا تھا؟۔
اشرف میمن لوگ چونی اٹھنی کھلا کرکے چیز خریدتے۔ پیسہ دوپیسہ منافع بچاتے ۔
روپے کی قدر وقیمت اور تاریخ یکم جنوری سن1961سے قبل یوں تھی کہ
16آنے1روپیہ۔ روپیہ میں16آنے،32ٹکے،64پیسے،128دھیلے ،192پائیاں،264دمڑیاں،2640کوڑی،7920پھوٹی کوڑی تھے۔ پھوٹی کوڑی مغل دورکی کرنسی تھی۔ انگریز کی پالیسی خطرناک تھی۔وزیرستان کے تیل وگیس سے40سال پاکستان چلے گا۔ عوام کو مفت دینا شروع کردیا تو ڈالر پھوٹی کوڑی ہوگا ۔ مہنگے گیس ، پیٹرول ،بجلی نے ریاست، روپیہ ،عوام کو تباہ کردیا۔ نبیۖ نے مزارعت کیلئے مفت زمینیں دیں،تو خلفاء راشدیننے دنیا فتح کی۔ آنے والا دور جدید ٹیکنالوجی کا ہے جس میں پیٹرول وگیس اور بجلی کی ویسے کوئی قیمت نہیں ہوگی ۔انشاء اللہ۔ پاکستان نے آغاز کردیا تو دنیا کی امامت کرے گا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ دسمبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv