پوسٹ تلاش کریں

مسلمانوں کا نام نہاد اسلامی نظام اور مملکت خداداد پاکستان

مسلمانوں کا نام نہاد اسلامی نظام اور مملکت خداداد پاکستان

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

یورپ عورت کے حقوق کامطالبہ کرتا ہے لیکن ہمارا اشرافیہ عورت مارچ سے خوف زدہ ہے، پدر شاہی نظام کے خلاف باشعورعورت بھی آواز اٹھارہی ہے۔ افغان طالبان نے مؤقف پیش کیا ہے کہ عورت آزاد جنس اور انسان ہیں ان پر کوئی اپنی مرضی مسلط نہیں کرسکتا ۔ اقبال نے شیطان کی مجلس شوریٰ میں کہا کہ
الحذر آئینِ پیغمبر سے سو بار الحذر حافظِ ناموسِ زن ،مرد آزما ، مرد آفریں
پاکستان کا معاشرتی دارالخلافہ تختِ لاہور ہے ۔ جہاں ہیرہ منڈی ہے۔ مغرب میںعورت پرجبری جنسی تشددہوتا ہے اور وہ بھی حقوق سے محروم ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے عورت کو سورۂ النساء آیت19میں خلع کا حق دیا ہے اوراسکے بعد کی آیات20،21سورۂ النساء میں مردوں کو طلاق کا حق دیا ہے۔ اس سے زیادہ بڑی بے غیرتی کیا ہوسکتی ہے کہ جب عورت اپنے شوہر کے پاس رہنا نہیں چاہتی ہو اور بے غیرت مرد پھر بھی اپنی بیوی کو اپنے ساتھ رہنے پر مجبور کرتا ہو؟۔
عورت کواسکا شوہر اپنی جاگیر سمجھتا ہے ۔ اسکے نام پربینک بیلنسن، زمین، اپنا گھر کرتاہے۔ عورت خلع لے تو قرآن نے فرمایا : لاترثوالنساء کرھًا و لا تعضلوھن لتذھبوا ببعض ما اتیموھن شئےًا الا ان یأتین بفاحشة مبینة وعاشروھن بمعروف وان کرھتموھن فعسٰی ان تکرھوا شیئًا ویجعل اللہ فیہ خیرًا کثیرًاO(سورہ ٔ النساء آیت19)” عورتوں کے زبردستی مالک مت بن بیٹھواور نہ اسلئے ان کو روکو کہ جو تم نے ان کو مال دیا ہے کہ ان میں سے بعض واپس لے لو مگر یہ کہ وہ کھلی فحاشی کا ارتکاب کریںاور ان کیساتھ (خلع کے باوجود) اچھا برتاؤ کرو۔اگر وہ تمہیں بری لگتی ہوں تو ہوسکتا ہے کہ کسی چیز کو تم برا سمجھو اور اللہ تمہارے لئے اس میں خیر کثیر بنادے”۔
عورت اپنے شوہر کو اپنا مجازی خدا کہے تویہ بھی رسم ہے لیکن شوہر اپنی بیوی کا زبردستی سے مالک نہیں بن سکتا۔ اگر وہ خلع لینا چاہتی ہو اور شوہر کو چھوڑنا چاہتی ہو تو اللہ نے اجازت دی ہے اور مردوں کو تلقین کردی کہ ان کو اسلئے مت روکو کہ تم نے جو کچھ بھی ان کو دیا بعض چیزیں واپس لے لو۔ البتہ اگر وہ کھلی فحاشی کریں تو بعض چیزیں واپس لی جاسکتی ہیں لیکن کپڑے ، جوتے اور سب کچھ پھر بھی نہیں۔
عورت خلع لیکر جارہی ہو تو اسکے ساتھ بدسلوکی کے بڑے خدشہ کو ملحوظِ خاطر رکھ کر اچھے انداز کیساتھ پیش آنے کی تلقین قرآن کا بہت بڑا معجزہ ہے۔ اس وقت عورت بری لگ سکتی ہے لیکن اللہ نے فرمایا کہ ہوسکتا ہے کوئی چیز تمہیں بری لگے اور اس میں تمہارے لئے بہت ساراخیر بنادے۔ پہلا خیر یہ ہوسکتا ہے کہ عورت کچھ دنوں یا عرصہ کے بعد خودواپس آجائے اور اس میں زندگی گزارنے کا زیادہ اچھا سلیقہ آجائے۔ دوسرا خیر یہ کہ وہ بد دلی سے خود کو اور شوہر، بچوں اور گھروالوں سے انتقام لینے کی کاروائی نہ کر ڈالے۔ تیسرا خیر یہ کہ اس کی جگہ ایسی عورت ملے جس کیساتھ زیادہ بہتر انداز میں زندگی گزرے۔ چوتھا خیر یہ کہ اس کی وجہ سے عزت برباد ہونے سے بچ جائے۔ کئی خیر ہوسکتے ہیں اور ممکن ہے کہ بدلے میں بیکار عورت سے بھی واسطہ پڑسکتا ہے اسلئے اللہ نے امکان کا ذکر کیا تاکہ رشتہ جوڑنے کا کرداراداکرنے کی کوشش حتی الامکان ہوتی رہے۔
مولوی نے عورت سے خلع کا حق چھین لیا تو یہ کم علمی ،جہالت ، بدنیتی اور بد تہذیبی ہے۔ کرتوت خراب ہوں تو چہرے پر بدصورتی کے علاوہ نحوست ٹپکتی ہے پھر اس خیال میں گھر کی بھیدی عورت لنکا ڈھا سکتی ہے۔ ظاہر و باطن میں فرق ہوتووہ اپنی بیگمات سے خلع کا خوف رکھتے ہیں پھر وہ قرآنی آیات کی وضاحتوں کو بھی نہیں مانتے ۔ خلع میں عورت کو حق مہر کے علاوہ شوہر کی دی ہوئی منقولہ اشیاء ساتھ لیجانے کا حق حاصل ہو اور غیرمنقولہ دی ہوئی جائیداد سے وہ دستبردار ہوجائیں تو مسلم معاشرے میں نہیں مغرب میں بھی انقلاب برپا ہوجائیگا۔ خواتین وحضرات سب کیلئے یہ قانون قابلِ قبول ہوگا جو فطرت کا تقاضہ ہے۔ طلاق میں شوہر کو تمام دی ہوئی اشیاء منقولہ وغیر منقولہ جائیداد میں سے کچھ بھی واپس لینے کا حق نہیں۔ سورۂ النساء آیت20،21میں بھرپور وضاحت ہے۔
مغرب نے عورت اور مرد کی جائیدادوں کو برابر برابر تقسیم کرنے کا غلط اور غلیظ قانون دیا ہے ۔ جمائمانے عمران خان پر اعتماد کیا اور عمران خان نے بقول یوٹیوبر کے12ہزار کروڑ پاونڈ جمائما کی جائیداد سے لینے کو قبول نہ کیا کیونکہ یہ غیرفطری قانون ہے ۔اگر عمران خان ریحام خان کو طلاق کے بعد بنی گالا کاگھر حوالے کردیتا تو ریحام خان کبھی اسکے خلاف کتاب لکھ کر اس کا تیاپانچہ نہ کرتی۔ جس سے ساکھ کو نقصان پہنچا اور قادر پٹیل کی تقریر کا اسمبلی میں سامنا کرنا پڑا۔
عورت کو خلع کا حق اور مالی تحفظ حاصل ہوتا تو ن لیگ کی حکومت پنجاب کو ضرورت نہ پڑتی کہ خواتین کوگھریلو تشدد سے بچاؤ کیلئے کوئی ایسا بل منظور کرتی جو مولانا فضل الرحمن کے احتجاج کی وجہ سے واپس لینا پڑتی۔ خلع کا حق رکھنے والی خاتون پر شوہر اور اسکے گھر والے کوئی ستم نہیں ڈھاسکتے ہیں ۔علاوہ ازیں خلع کا حق نہ دینے کی وجہ سے جن مسائل کا سامنا علماء ومفتیان کو کرنا پڑتا ہے اور جن کا حل بھی انکے بس کی بات نہیں ۔ اگر ان کا مدلل حل نکل آئیگا تو سب سے زیادہ خوشی علماء ومفتیان اور مذہبی طبقے کو ہوگی۔ انشاء اللہ تعالیٰ العزیزالرحمن الرحیم
یہودی علماء کاکرداریہ تھا: یحرفون الکلم عن مواضعہ ” یہ لوگ جملوں کو اپنی جگہوں سے بدلتے ہیں”۔قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے لیا۔ علامہ انورشاہ کشمیرینے کہاکہ ”بہت معنوی تحریف ہمارے علماء نے کی ہے”۔ سورۂ النساء آیت19میںعورت کاخلع واضح ہے مگر علماء اور مذہبی اسکالروں نے جگہ بدل ڈالی ہے ۔الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف اوتسریح باحسان و لا یحل لکم ان تأخذوا مما اٰتیتموھن شیئًا الا ان یخافا الا یقیما حدود اللہ فان خفتم الا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ تلک حدود اللہ فلا تعتدوھاومن یتعد حدود اللہ فاؤلئک ھم الظٰلمونOفان طلقھا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ …(.البقرہ آیت229،230)
ترجمہ :” طلاق دومرتبہ ہے پھر معروف طریقے سے روکنا یا احسان کیساتھ چھوڑنا ہے اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے کہ اس میں کچھ واپس لو مگر جب دونوں کو خوف ہو کہ دونوں اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے اور اگر تمہیں خوف ہو کہ دونوں اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو دونوں پر حرج نہیں عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں ،یہ اللہ کے حدود ہیں پس ان سے تجاوز مت کرو اور جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔پس اگر پھر اس نے طلاق دیدی تو اسکے بعد اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے…..”۔ (البقرہ::229،230)
طلاق کے بعد عورت کے مالی حق کی حفاظت ہے کہ جو شوہر نے چیزیں دی ہیں ان میں سے کچھ واپس لینا حلال نہیں ۔ مگر جب دونوں اور تم خوف محسوس کرو کہ اگر وہ چیز واپس نہ کی گئی تو دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے۔ وہ کونسی صورت ہے کہ جس میں وہ دونوں اور فیصلہ کرنے والے خوف کھائیں کہ اگر وہ چیز واپس نہیں کی گئی تو دونوں اللہ کے حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے ؟۔ اگر یہ چیزواپس نہ کی گئی تو دونوں اللہ کے حدود کو پامال کریں۔ بدکاری کے مرتکب ہوجائیں ۔ قرآن کے الفاظ میں قطعی کوئی ابہام نہیں ہے۔بقیہ صفحہ 2نمبر1پر

بقیہ…… مسلمانوں کا نام نہاد اسلامی نظام اور مملکت خداداد پاکستان
مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اور جاوید احمد غامدی جیسے لوگوں کا اس آیت کے ترجمے میں معاوضہ دیکر خلع کی بات کرنا انتہائی افسوسناک ہے۔ مفتی محمد تقی عثمانی نے لکھا تھا کہ ”اس آیت کا ترجمہ ومفہوم انتہائی مشکل ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی کے ترجمے وتفسیر سے اسکا حل نکالنے میں تھوڑی بہت مدد ملی ہے”۔
حالانکہ قرآن میں جہاں عورت کامالی حق محفوظ ہو ،وہاں عورت کو خلع کے نام پر بلیک میل کرنا بھونڈی حرکت ہے جو یحرفون الکلم عن مواضعہ کی بڑی مثال ہے۔ اس آیت کے واضح ترجمہ میں ان مشکلات کا حل بھی ہے جن کی وجہ سے فقہاء و محدثین نے امت کوگمراہی کے دلدل میں ڈبودیا ہے۔
آیات229،230البقرہ سے پہلے اور بعد کی آیات میں عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد باہمی اصلاح ، رضامندی اور معروف طریقے سے رجوع کی گنجائش ہے اور تمام آگے پیچھے کی آیات میں واضح کیاگیا ہے کہ باہمی اصلاح کے بغیر شوہر کیلئے رجوع کرنا حلال نہیں ۔ایک طلاق یا اشارہ کنایہ کی طلاق اور حتی کہ ایلاء جہاں طلاق کے الفاظ کا اظہار بھی نہ ہو، تب بھی شوہر کیلئے عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع کی اجازت نہیں ۔ جب نبیۖ نے ایلاء کیا تھا تو اللہ نے واضح طور پراپنی ازواج کو اختیار دینے کا بھی حکم فرمایا تھا۔
مشکلات کا شکار علماء اسلئے ہیں کہ اگر خلع سے پیدا ہونے والے مسائل کا چرچا عوام میںہواتو ان کو داڑھیاں منڈواکر شناخت بھی تبدیل کرنی پڑے گی۔ دیوبندی بریلوی مدارس کا فتویٰ ہے کہ ”اگر شوہر نے بیوی سے کہا کہ تجھے تین طلاق اور پھر اپنی بات سے مکر گیا تو عورت پھر بھی اس پر حرام ہوجائے گی لیکن عورت کو اپنی جان چھڑانے کیلئے دو گواہ لانے پڑیں گے اور اگر اسکے پاس دو گواہ نہیں تھے تو ہر قیمت پر خلع لے گی۔ اگر شوہر کسی صورت اور قیمت پر بھی خلع دینے پر راضی نہ ہو تو عورت اسکے نکاح میں حرامکاری پر مجبور ہوگی۔ پھر جماع کے وقت عورت لذت نہیں اٹھائے ورنہ گنہگار ہوگی”۔توبہ العیاذ باللہ تعالیٰ
حکیم الامة مجدد ملت مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنی کتاب ” حیلۂ ناجزہ ” میں بھی یہ مسئلہ لکھ دیا۔ دیوبندی بریلوی مدارس کا یہ فتویٰ ہے۔ کیا یہود، نصاریٰ، ہندو، سکھ، پارسی، بدھ مت اور کسی کیلئے ایسے گھناؤنے مسائل قابلِ قبول ہیں؟۔ اگر پارلیمنٹ میں اس پر بحث ہو تو جان چھوٹ جائے گی ،جس طرح قادیانیت سے جان چھڑائی گئی۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے لکھ دیا کہ ”اگر شوہر بیوی سے کہے کہ طلاق طلاق طلاق تو تین طلاق واقع ہوجائیںگی اور بیوی اس پر حرام ہوجائے گی لیکن اگر اس کی نیت ایک طلاق کی ہو تو پھر ایک ہی طلاق واقع ہوگی لیکن بیوی پھر بھی اس کو تین طلاق ہی سمجھے”۔ (بہشتی زیور: مولانا تھانوی)
ایک طرف عورت شوہر کے نکاح میں ہو گی اور دوسری طرف عورت سمجھے گی کہ وہ اس پر حرام ہے۔ عورت دوسرے شوہر سے نکاح کرے توپھر نکاح پر نکاح ہوگا اور شرعی لحاظ سے حرام ہوگا اور مر د نے اس کو اپنے پاس رکھنا ہو تو اس کیلئے جائز ہوگی لیکن عورت اس کو حرام سمجھے گی۔ کیا یہ اللہ تعالیٰ اور اسکے قرآن اور اسکے رسول رحمت للعالمین ۖ کی شریعت ہوسکتی ہے؟۔ اگر یہی اسلام ہے تو اس سے کفر ، یہودیت، ہندومت، نصرانیت وغیرہ بہتر نہیں ؟۔ یہ اسلام نہیں بلکہ مولوی کے پیٹ کی ہوا ہے۔ جب حقائق کا سامنا کرنا پڑئے تو ٹیٹیں مارتا ہوا گدھے کی طرح بھاگے گا اور اعتراف کرے گا کہ واقعی نبی ۖ نے سچ فرمایا کہ” یہ امت بھی سابقہ امتوں کے نقش قدم پر چلے گی” اور جس طرح قرآن میں یہود کے علماء کی مثال گدھے کی ہے جن پر کتابیں لادی گئی ہوں۔ ہٹ دھرم اورہڈ حرام لوگوں کا وقت قریب لگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ علماء حق کی حفاظت فرمائے اور حق کی آواز بلند کرنے کی بھی جلد از جلد توفیق عطاء فرمائے۔
بریلوی دیوبندی درسِ نظامی کے نصاب میں فقہ حنفی کا یہ مسلک ہے کہ عربی میں ف تعقیب بلا مہلت کیلئے ہے اور آیت230میں جس طلاق کا ذکر ہے اس کا تعلق عورت کی طرف سے فدیہ دینے کی صورت سے ہے۔ یعنی ایک تو پہلے دومرتبہ طلاق دی ہو اور پھر تیسری طلاق سے پہلے فدیہ عورت نے دیا ہو۔ پھر اس سے مربوط طلاق دی جائے تو اسکے بعد عورت پہلے شوہر کیلئے حلال نہیں ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے۔ اس کی تائید علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد علامہ ابن قیم نے اپنی کتاب ”زاد المعاد” میں حضرت ابن عباس کے قول سے کی ہے ۔ معروف حنفی عالم علامہ تمنا عمادی نے اس پرکتاب ” الطلاق مرتان ” لکھی ہے۔جسکے لاجواب ہونے کی تعریف مدرسے کے اپنے ایک استاذ سے بھی سنی تھی۔ علامہ تمنا عمادی نے سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستان ہجرت کی۔
جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں ہمارے استاذ مولانا بدیع الزمان نے طلبہ کو تلقین فرمائی تھی کہ روزانہ بلاناغہ قرآن کا ایک ایک رکوع عربی متن و ترجمہ کے ساتھ غور وتدبر سے سمجھنے کی کوشش کریں۔ سورۂ بقرہ میں آیت229سے231تک ایک رکوع ہے۔ اس ایک رکوع کے غور وتدبر سے چودہ طبق روشن ہوسکتے ہیں۔ اپنے اساتذہ کرام اور علماء حق کا دل وروح سے بہت قدردان ہوں۔
قرآن میں رکوع کا رکوع سے ربط ہے۔ آیت228البقرہ میں یہ واضح ہے کہ ”طلاق کے تین ادوار ہیں،عدت کے آخر تک باہمی اصلاح کی شرط پر طلاق شدہ عورتوں کو انکے شوہروں کو لوٹانے کا حق ہے”۔ قرآن میںیہ تضاد نہیں ہے کہ پہلے اصلاح کی شرط پرعدت کے آخر تک رجوع کی گنجائش رکھے پھر اسکے برعکس دومرتبہ طلاق کے بعد غیرمشروط رجوع کی گنجائش رکھے اور تیسری طلاق کے بعد عدت کے اندر باہمی اصلاح کی شرط کے باوجود رجوع کا راستہ روکے۔ اتنا بڑا تضاد کسی عقلمندانسان کی کتاب میں بھی نہیں ہوسکتا۔چنانچہ اللہ نے فرمایا کہ ” طلاق دو مرتبہ ہے ، پھر معروف طریقے سے روکنا یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے”۔ (آیت229) معروف طریقے سے روکنے کا مطلب اصلاح کی شرط پر روکنا ہے لیکن معروف کی شرط کو حنفی وشافعی فقہاء نے منکر بنادیا ۔ حنفی کے نزدیک نیت کے بغیر شہوت کی نظرسے بھی رجوع ہوگا اور شافعی کے نزدیک نیت کے بغیر جماع سے بھی نہیں ہوگا۔ یہ مسائل اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد نے بھی کتاب ” طلاق ثلاثہ :مصنف حبیب الرحمن” میں شائع کردی ہیں۔
نبیۖ نے غضبناک ہوکر ابن عمر کے سامنے واضح فرمایا تھا کہ ” اپنی بیوی سے طلاق کے بعد رجوع کرلو۔ طہر میں اپنے پاس رکھو، یہاں تک کہ حیض آجائے، پھر طہر میں رکھو، یہاں تک کہ حیض آجائے اور پھر طہر آئے تواگر روکنا چاہتے ہو تو روک لو اور چھوڑنا چاہتے ہو توچھوڑ دو۔ یہ وہ عدت ہے جس میں اللہ نے اس طرح طلاق کا حکم دیا ہے”۔( بخاری کتاب التفیسرسورۂ طلاق)۔
عدت کے تین ادوار اور تین مرتبہ طلاق کا فعل ایکدوسرے سے جدانہیں۔ فقہاء نے قرآن اوراحادیث صحیحہ کے بالکل برعکس بہت سارے مسائل گھڑ لئے ہیں۔یہ بھی لکھاہے کہ ایک طلاق کے بعد عورت دوسرے شوہر سے نکاح کرلے تو پہلا پھر بھی دوطلاق کا مالک ہو گا۔یہ بھی لکھا کہ حرام کے لفظ سے تیسری طلاق واقع ہوجائے گی۔یہ بھی لکھاہے کہ پہلی اور تیسری طلاق واقع نہیں ہوگی ، دوسری طلاق واقع ہوجائے گی۔ یہ بھی لکھاہے کہ دوسری طلاق واقع ہوجائے گی تیسری طلاق واقع نہ ہوگی۔ علماء ومفتیان کی اکثریت مخلص ہے لیکن سمجھ نہیں رکھتے۔
نبیۖ سے صحابی نے پوچھا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے؟۔ فرمایا : ”الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف اوتسریح باحسان حسان کیساتھ چھوڑنا تیسری طلاق ہے”۔ حنفی اصول کے مطابق ف تعقیب بلامہلت کے حوالے سے بھی تیسری طلاق کا تعلق تسریح باحسان ہی سے بنتا ہے۔
آیت229کے بعد230البقرہ میں اس صورت کی وضاحت ہے کہ جب میاں بیوی اس طرح سے جدا ہونا چاہتے ہوں کہ آئندہ آپس میں رابطے کی بھی کوئی صورت نہ رکھیں ۔ ان آیات میں جو تحفظ عورتوں کو جن الفاظ میں دیا گیا ہے اگر لوگوں پر کھل جائے تو دنیا کے سامنے اسلام اور مسلمان سرخرو ہوجائیں۔ مرد اپنی معشوقہ اور منگیترکوغیرت کی وجہ سے مقدور بھر نہیں چھوڑتا کہ دوسرا شخص اس سے نکاح کرلے تو طلاق شدہ بیوی کوکہاں اجازت دے گا کہ وہ اپنی مرضی سے جہاں اور جس سے چاہے نکاح کرلے؟۔ برطانوی شہزادہ چارلس پر پیرس فرانس میں لیڈی ڈیانا کو طلاق کے بعد غیرت کے قتل کا مقدمہ ہوا۔ جس طلاق کے بعد بھی عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہو تو شوہر کیلئے قرآن کی تمام آیات میں رجوع کی گنجائش نہیں لیکن یہود کی توراة کی طرح قرآن کو ترک کرنے والوں نے آیات کے واضح الفاظ میں اصلاح، معروف طریقے، باہمی رضا مندی کے تمام واضح الفاظ کو نظر انداز کرتے ہوئے دومرتبہ طلاق رجعی کا تصور دیا۔ جس سے جاہلیت میں مسلمانوں کو دھکیل دیا گیا۔ اگر دومرتبہ غیرمشروط طلاق رجعی کا تصورہو تو شوہر کو عورت پر تین عدتیں گزارنے کا حق ہوگا۔ ایک طلاق کے بعد عدت کے آخر میں رجوع ، پھر طلاق کے بعد عدت کے آخر میں رجوع اور پھر تیسری مرتبہ طلاق کے بعد سے تیسری عدت گزارنے پر مجبور کرسکے گا۔
سورۂ طلاق کی پہلی دو آیات میں سورۂ بقرہ کی ان آیات کا خلاصہ ہے۔ جب ام رکانہ کے شوہر نے تین طلاقیں دی اور عدت کی تکمیل کے بعد بھی رجوع نہیں کیا اور ایک اور عورت سے نکاح کیا تواس نے کہا کہ وہ نامرد ہیں۔ نبیۖ نے اس کو چھوڑنے کا فرمایا اور ام رکانہ سے رجوع کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے عرض کیا کہ وہ تو تین طلاق دے چکا ۔ جس پر نبیۖ نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہے اور سورۂ طلاق کی آیات کوتلاوت فرمایا۔ یہ حدیث ابوداؤد شریف میں موجود ہے۔ جہاں تک صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ حضرت رفاعة نے جس عورت کو طلاق دیدی تھی اور نبیۖ نے اس کو دوسرے شوہر کی لذت اٹھانے کا حکم دیا تھا تو پہلی بات یہ ہے کہ عورت کو نبیۖ نے یہ حکم تو نہیں دیا کہ ایک دم تین طلاقیں واقع ہوگئیں ، رجوع نہیں ہوسکتا ۔ عدت گزارو۔ پھر دوسرے شوہر سے حلالہ کراؤ۔ پھر شوہر کے پاس آجاؤ۔ بلکہ وہ پہلے سے دوسرے شخص کے نکاح میں تھی۔ شکایت یہ تھی کہ وہ نامرد ہے اسلئے پہلے شوہر کے پاس جانا چاہتی ہے۔ کیا نبیۖ اس عورت کو نامرد کے پاس رہنے پر مجبور کرسکتے تھے؟۔جب نامرد میں حلالہ کی صلاحیت نہیں تھی تو نبیۖ اس کو کیسے یہ حکم دے سکتے تھے؟۔
اصل بات یہ تھی کہ بخاری شریف میں یہ وضاحت بھی ہے کہ رفاعة نے اس عورت کو مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق دی تھی اسلئے اس سے یکمشت تین طلاق کا حکم نکالنا بہت بڑی بددیانتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے قرآن میں عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد باہمی اصلاح اور معروف طریقے سے رجوع کی اجازت فرمائی ہے تو نبیۖ اس کی کیسے خلاف ورزی کا تصور بھی فرماسکتے تھے؟۔ تیسری بات یہ ہے کہ اس عورت کو اپنے شوہر نے بری طرح مارا پیٹا تھا اور بخاری کی دوسری روایت میں تفصیل کا ذکر ہے اور اس شخص نے اپنے نامرد ہونے کی بہت سخت الفاظ میں تردید کی تھی۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ نبیۖ نے ان میںصلح صفائی کروائی ہوگی۔ ضروری نہ تھا کہ جب رفاعة نے ایک مرتبہ اس کو چھوڑ دیا تو اس کو دوبارہ قبول بھی کرلیتا۔ چوتھی بات یہ ہے کہ مولانا سلیم اللہ خان صدر وفاق المدارس پاکستان نے اپنی کتاب ” کشف الباری شرح صحیح البخاری” میں لکھا ہے کہ ”یہ حدیث خبر واحد ہے اور اس میں اتنی جان نہیں کہ حنفی مسلک کے نزدیک قرآن کے الفاظ نکاح پر جماع کا اضافہ کیا جائے۔ ہم قرآن میں نکاح سے جماع مراد لیتے ہیں حدیث سے استدلال نہیں پکڑتے ”۔ یہ ساری باتیں حلالے کا شکار کھیلنے والوں کی تردید کرتی ہیں اور اسلام قرآن وسنت کا نام ہے اور فقہاء کے پیٹ کے مسائل کانام نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب تیسری طلاق کو حلالے کیلئے بنیاد قرار دیا جائے ،جب لونڈی اور غلام کی دو طلاقوں میں تیسری طلاق ممکن بھی نہیں ہے تو پھرلونڈی اور غلام کی طلاق کیلئے حلالے کاراستہ دو طلاقوں سے کیوں ہموار کیا گیا ہے؟۔ حلالہ کیلئے ہرقیمت پر راستے ہموار کرنے کا فتویٰ؟۔ جب کہا جائے کہ نبیۖ کی صحیح حدیث ہے کہ ”خلع کی عدت ایک حیض ہے”۔ تو اس پر کہا جائے کہ ”قرآن میں عدت تین حیض ہے ،حدیث سے قرآن پراضافہ نہیں جاسکتا ہے”۔ حالانکہ قرآن میں بیوہ کی عدت4 ماہ10دن ہے اور حمل میں بچے کی پیدائش سے یہ مدت کم کی گئی ۔ جب ہاتھ لگائے بغیر طلاق دی جائے تو عورت پر شوہر کی عدت کاکوئی حق نہیں جس کو شمار کیا جائے تو پھر خلع میں بھی حدیث صحیحہ کے مطابق ایک حیض کی عدت کافی ہے۔ جس پر سعودیہ کی حکومت عمل بھی کررہی ہے۔
محمود بن لبید کی روایت میں کسی شخص کی تین طلاق پر نبیۖ کے غضبناک ہونے کا ذکر ہے جس پر کسی شخص نے عرض کیا کہ کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟۔ یہ نامعلوم اکٹھی تین طلاق دینے والے ابن عمرتھے اور قتل کرنے کی پیشکش والے حضرت عمر تھے۔ صحیح مسلم میں حسن بصری کی روایت ہے کہ بڑے مستند شخص نے کہا کہ ”عبداللہ بن عمر نے بیوی کو تین طلاقیں دی تھیں۔پھرزیادہ معتبر شخص نے20سال بعد بتایا کہ ایک طلاق دی تھی”۔ صحیح حدیث کے مقابلے میں ضعیف اور من گھڑت احادیث نے قرآن وسنت کا رخ تبدیل کردیا ۔ حضرت ابوبکر و عمر نے احادیث پر پابندی لگادی تھی۔ حضرت عمر نے تین طلاق پر رجوع کا حکم ٹھیک جاری کیااسلئے کہ عورت صلح پر آمادہ نہ تھی۔اگر ایک طلاق کے بعد عورت صلح پر آمادہ نہ ہو توقرآن میں رجوع نہیں ہوسکتاہے۔ طلاق اور خلع کے حقوق میں فرق ہے اسلئے اگر بیوی دعویٰ کرے کہ اس کو طلاق دی گئی اور شوہر حلفیہ انکار کردے تو پھر اس کو طلاق نہیں خلع تصور کیا جائے گا اور عورت کو طلاق نہیں خلع کے مالی حقوق ملیںگے۔ اسلام کو کم عقلوں نے بگاڑ دیاہے۔
جب ایک شخص حاضرہو اور دوسرا غائب ہوتو حاضر کے عیب کی اصلاح کرنا شریعت، فطرت اور انسانیت کا تقاضہ ہے اور غائب کے عیب کا تذکرہ کرنا غلط ہے۔ قرآن نے اس کو اپنے مردے بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دی ہے اور حدیث میںغیبت کو زنا بھی زیادہ سخت قرار دیا گیا۔ عورت کے حقوق کی علمبردار ہدی بھرگھڑی نے اپنی ایک تقریر میں کیا خوب نکتہ اٹھایا ہے کہ نبیۖ کے دور میں مساجد کے اندر عورت بھی موجود ہوتی تھی اور آج بھی حرم مکہ میں عورت مرد کیساتھ نماز، طواف، صفا ومروہ کے سعی اور منی ومزدلفہ کے قیام میں ساتھ ہوتی ہے۔ لیکن جب عام مساجد کے اندرجمعہ کے اجتماعات میں خطیبوں کے سامعین صرف مرد ہوںگے تو خطیب حضرات مردوں کے حقوق بیان کریںگے۔
اگر فیملی پارک، شاپنگ مال، سکول،کالج اور یونیورسٹی میں مخلوط ہوسکتا ہے تو مساجد میں بھی مخلوط ماحول سے صالح معاشرے کا قیام عمل میں لایا جائے۔ فیملی مساجد کا قیام یا چھڑوں پر مساجد کے اندر خاص اوقات میں پابندی سے یہ مسئلہ حل ہوسکتاہے۔ مغربی تہذیب کا مقابلہ ،فحاشی وعریانی کا خاتمہ اپنی عورتوں کو گھروں میں بٹھانے اوردوسری خواتین کا تماشہ دیکھنے سے نہیں ہوتا۔ مسجد کے امام پراپنی فیملی مسجد میںلانے کی پابندی لگے اور امام کو گھر کی بھی سہولت ملے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ شمارہ اپریل 2022
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اسلام میں نہ صرف جمہوریت کی گنجائش ہے بلکہ دنیا میں جمہوریت کا حقیقی سہرا قرآن وسنت اور اسلام کے سرپر ہے!

اسلام میں نہ صرف جمہوریت کی گنجائش ہے بلکہ دنیا میں جمہوریت کا حقیقی سہرا قرآن وسنت اور اسلام کے سرپر ہے!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

جب جنرل ضیاء نے مارشل لاء لگایا اور پھر کچھ عرصہ بعد جنرل ضیاء الحق کے مخالفین نے تحریک شروع کردی تو لاہور میں دیوبندی مکتبۂ فکر کے بہت بڑے عالم دین مولانا محمد مالک کاندھلوی نے کہا تھا کہ ” پہلا مارشل لاء حضرت ابوبکر صدیق نے لگایا تھا”۔ موصوف کے والد مولانا ادریس کاندھلوی بڑے درجے کے عالم تھے لیکن اتنے سادہ لوح تھے کہ بیٹا محمد مالک اپنے باپ مولانا ادریس سے سائیکل چلانے کیلئے پیٹرول کے نام پر پیسے لیتا تھا۔ ملاجیون سے لیکر بہت بڑے بڑے علماء کی سادہ لوحی کے قصے زبان زد عام ہیں، اسلئے ملادوپیازہ کے نام سے بھی لطیفوں کی کتابیں مارکیٹ کی زینت بنتی رہی ہیں۔
اسلام کا بنیادی کردار یہی تھا کہ اولی الامر سے قرآن نے اختلاف کی گنجائش رکھی ہے جس سے جمہوری ذہن کا راستہ ہموار ہواہے۔ قرآن میں حضرت موسیٰ کا بہت زیادہ ذکر ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر سے اختلاف کیا تھا۔ حضرت موسیٰ نے حضرت ہارون کی داڑھی اور سر کے بال پکڑے تھے اور فرشتوں نے آدم کو زمین کا خلیفہ بنانے پر اعتراض اٹھایا کہ زمین میںخون بہائے گا اور فساد پھیلائے گا۔ جب اسلام نے اختلاف کے تقدس کا دنیا میں ڈنکا بجادیا تو اختلاف کو جمہوریت کا حسن قرار دیا جانے لگا۔ رسول اللہ ۖ کی سیرت طیبہ اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ جب نبی ۖ نے بدر کے قیدیوں پر مشاورت فرمائی تو اکثریت کی رائے فدیہ لیکر چھوڑ دینے کی تھی اور حضرت عمر اور حضرت سعد نے مشورہ دیا کہ ان کو قتل کردیا جائے۔ نبیۖ نے اکثریت کا مشورہ مان کر فدیہ لیکر چھوڑ دینے کا فیصلہ فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے اس فیصلے کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کی تدبیر فرمائی تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ قرآن میں اقلیت کے مشورے کی زبردست الفاظ میں تائید بھی فرمادی تھی، جس کی درست تفسیر کرنے سے ہمارے علماء بالکل قاصر نظر آتے ہیں اور اول فول باتیں بکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ایک طرف ان آیات کے ذریعے سے اکثریت کی رائے کو صائب اختلاف کے باوجود بھی قابلِ عمل ٹھہرا دیا تھا تاکہ قیامت تک ایک طرف کثرت رائے اور جمہوریت کی بنیاد پڑ جائے اور دوسری طرف افراد کے اختلاف کو اقلیت کے باوجود بھی بالکل کم اہمیت کا حامل نہ سمجھا جائے۔ بلکہ اس بات کا سوفیصد امکان رہے کہ اقلیت کی بات درست اور اکثریت کی بات غلط بھی ہوسکتی ہے۔ قرآن میں سیرت النبیۖ کے ذریعے بہترین جمہوریت کا نقشہ پیش کیا گیا ہے۔ شیعوں کے اسلام اور نظریۂ امامت میں جمہورکی گنجائش نہیں ہے اسلئے اپنے بارہ اماموں کے مثبت کردار کو بھی منفی پروپیگنڈے سے بڑا بدنام کیا جاتا ہے۔ حالانکہ ائمہ اہل بیت کے مثبت اور صائب کردار نے اُمت کو جمہوری مزاج پرقائم رکھنے کا کردار اداکیا۔ اگر حضرت علی چاہتے تو ابوسفیان کی پیشکش قبول کرکے حضرت ابوبکر کی خلافت کو ناکام بناتے۔ پھر حضرت عمر کی نامزدگی اور حضرت عثمان کی مختصر شوریٰ میں کثرت رائے کے ذریعے انتخاب بھی ممکن نہیں ہوسکتا تھا۔ حضرت علی کے کردار پر ماتم کرکے سینہ کوبی اور زنجیر زنی کی جگہ فخر کرنے کی ضرورت ہے۔ علامہ سیدجوادحسین نقوی ایک کٹر شیعہ ہیں اور اس طرح کے دیگر بہت سارے شیعہ علماء بھی ہیں جو ائمہ اہل بیت کے درست تشخص کو اجاگر کرکے ان اہل تشیع کی اصلاح کررہے ہیں جن کو جہالتوں نے بگاڑ دیا ہے۔ تاریخ کی کتابوں سے شیعہ اور خوارج کا ایک دوسرے کے خلاف استدلال پکڑنے میں کوئی فائدہ نہیں بلکہ الٹا ایک دوسرے کے خلاف نقصان ہے۔ ہمارے ایک دوست کے دوست فرمان ایک کٹر شیعہ ہیں۔ ایک طرف وہ کہتا ہے کہ حضرت خدیجہ بالکل کنواری اور جوان تھیں جب نبیۖ نے شادی کی تھی اورچاروں بیٹیاں حضرت خدیجہ سے تھیں،کیونکہ یہ نبیۖ کی شان کے خلاف ہے کہ خود کنوارے ہوں اور کسی بیوہ سے شادی کریں۔ دوسری طرف اس کو جب بتایا کہ شیعوں کا یہ مؤقف ہے کہ حضرت فاطمہ کے علاوہ نبیۖ کی اور کوئی حقیقی صاحبزادی نہیں تھی تواس نے کہا کہ یہ شیعوں کا مؤقف نہیں ہے۔
اہل سنت اور اہل تشیع دونوں اپنے بادام اور اخروٹ کے مغز کو چھوڑ کرچھلکوں کیساتھ کھیل رہے ہیں۔ صحابہ کرام اور اہل بیت عظام دین کے مغز پر قائم تھے اور لوگ فرقہ فرقہ اور چھلکا چھلکا کھیل رہے ہیں اور فرقہ واریت کی آگ کوانہی چھلکوں سے بھڑکارہے ہیں۔ میں جاہل خطیبوں کی جہالت بھری خطابت پر اپنا وقت ضائع نہیں کرتا لیکن ساہیوال کے ایک گاؤں میں گیا تھا اور وہاں میرے ساتھ مولانا منظور احمد نے بھی خطاب کیا تھا۔ان کا یوٹیوب پر نام دیکھ کر سمجھنے کی کوشش کی کہ یہ وہی صاحب ہیں یا کوئی اور ہیں؟۔ اس نے تقریر میں صحابہ کرام کے متعلق قرآنی آیات سے زبردست استدلال پیش کیا اور پھر ان کے اتباع پر اپنے لئے بھی خوشخبری کی بات قرآن سے سنائی اور ساتھ میں قرآن کے الفاظ کو بھی بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا کہ ” اے اللہ ! جو ہم سے پہلے ایمان کے ساتھ گزر چکے ہیں۔ ان کیلئے ہمارے دل میں کھوٹ پیدا نہ فرما”۔ پھر آخر میں عبادت گزار لوگوں کی تعریف کرتے ہوئے چوہدریوں کی بھی تعریف کی جن کی مدد سے مساجد اور مدارس میں علماء وطلبہ کی روزی روٹی چل رہی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ ”ان چوہدری کی مخالفت کرکے نمک حرام مت بنو”۔
پھر علامہ جعفر حسین قریشی پر نظر پڑی تو اس کی تقریر بھی سن لی جو بہت زیادہ پیاری لگی۔ جب میں نے اوکاڑہ میں تقریر کی تھی تو نعت خوانوں کی نعتوں میں اہل سنت کا رنگ نظر نہیں آرہا تھا۔ علامہ جعفر حسین قریشی نے اپنوں کا یہ رنگ دیکھ کر فرمایا ہے کہ یہ ہماری کمزوری ہے۔ جس کی تقریر کے ایک حصے کو سنیوںاور دوسرے حصے کو شیعوں نے کاٹ پیٹ کر لگایا ہے۔ میری تقریر کے بعد سامعین میں سے کسی نے پوچھا تھا کہ یہ شیعہ تو نہیں؟۔ جبکہ مجھے ان میں سنیت کا احساس اجاگر ہونے پر خوشی ہوئی۔ کسی محلہ دار اہل تشیع نے میری تقریر سن کر کہا تھا کہ پہلی مرتبہ کسی اچھے علمی شعور والے بندے کو لائے ہو۔ اقبال نے پنجابی مسلمان کے نام سے خوب لکھا ہے کہ ”تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا” ۔
مولانا منظور احمد نے میری تقریر کے بعد جلسہ عام سے خطاب میں کہا تھا کہ ”میں نے آج تک ایسے علمی نکات نہیں سنے ہیں لیکن عوام کو یہ باتیں سمجھ میں مشکل سے آتی ہیںاسلئے کہ وہ خطیبوں کی سریلی آوازوں کی زبان سمجھتے ہیں”۔
علامہ عابد رضاعابدی کینیڈا سے سوشل میڈیا پر اہل سنت کی کتابوں سے بڑا مواد پیش کررہے ہیں اور اگر وہ ایک مہربانی کریں کہ حضرت علی کی بہن حضرت ام ہانی کی پوری کہانی بھی اہل تشیع کی کتب سے پیش کردیں ۔ جس نے ہجرت نہیں کی تھی اور حضرت علی فتح مکہ کے بعد اس کے شوہر کو قتل کرنا چاہتے تھے ۔ پھر اس نے نبیۖ سے اپنے شوہر کیلئے پناہ لی تھی۔ جو اولین مسلمانوں میں سے تھیں۔ جب نبیۖ نے ان کے شوہر کے جانے کے بعد نکاح کی دعوت دی تو اس نے اپنے مشرک شوہر سے محبت اور اپنے بچوں کی خاطر انکار کردیا۔ نبیۖ نے اس پر ان کی تعریف کی۔حضرت ام ہانی کا رشتہ حضرت ابوطالب سے پہلے بھی نبیۖ نے مانگا تھا لیکن حضرت ابوطالب نے اپنی لڑکی کا رشتہ نہیں دیا ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ ” اے نبی! ہم نے آپ کیلئے حلال کیا ہے ان چچا اور خالہ کی بیٹیوں کو جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے”۔ حضرت ام ہانی کا نام علامہ بدرالدین عینی نے نبیۖ کی ازواج میں داخل کیا ہے۔ حالانکہ اللہ نے قرآن میں نبیۖ کو ام ہانی سے رشتے کو منع کرنے کے بعد دوسری بھی تمام خواتین سے رشتہ کرنے کو منع کردیا اور پھر ایگریمنٹ کی اجازت دیدی۔ قرآن کی ان آیات اور حضرت علی اور آپ کی بہن حضرت ام ہانی کے واقعہ سے اہل تشیع کی کتابیں ساقط نہیں ہوں گی اور اس سے اہل تشیع کے لوگوں میں بہت شعوروآگہی اور علم وفہم پھیلے گا۔ ان کے آپس کے جھگڑے بھی اس سے ختم ہوجائیں گے۔ اماموں نے اپنی ساری زندگی جمہوری طرز پر گزاردی لیکن کاروباری چالاک لوگوں نے مذہب کو دھندہ بناکر اپنا اُلو بھی سیدھا کرنا تھا۔
جمہوریت کی اس سے بڑھ کر کیا مثال ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کو منع کردیا کہ مشرکات سے نکاح نہ کریں ،ان سے مؤمنہ لونڈیاں اچھی ہیں اگرچہ وہ مشرکات تمہیں بھلی لگیں اور مؤمنات کا مشرکوں سے نکاح نہ کریں،ان سے غلام مؤمن اچھے ہیں اگرچہ وہ مشرک تمہیں بھلے لگیں۔ پھر اللہ نے ہجرت کا حکم دیا۔ حضرت ام ہانی نے اپنے مشرک شوہر سے اپنا نکاح برقرار رکھا اور دین کے حکم پر ہجرت بھی نہیں کی لیکن اس کے باوجود ان کی عزت وتوقیر کرنا ایک فرض ہے اور قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ کی درست توجیہات کو توہین و بے توقیری سے مشہور کرنا انتہائی غلط اور بددیانتی ہے۔ ایک شیعہ شاید یہ تصور بھی نہیں کرسکتا ہے کہ حضرت علی نے اپنے مشرک بہنونی کو قتل کرنے کا کوئی پروگرام بنایا ہو اور پھر نبیۖ نے حضرت ام ہانی کی سفارش پر منع کیا ہو۔ یہ ان کو امام کی عصمت کے خلاف لگتا ہے۔ وہ اپنے مؤقف کو اپنی کتابوں سے پیش کریں تو ہم وہ شائع کر دیں گے۔ قرآن میں اولی الامر کیساتھ اختلاف کی گنجائش ہے۔ نبیۖ کی سیرت اور قرآن کا یہ معجزہ تھا کہ اولی الامر کی حیثیت سے نبیۖ سے صحابہ کرام نے اختلاف کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔ سورۂ مجادلہ، بدر کے قیدیوں پر فدیہ لینے اور دیگر مسائل پر قرآنی سورتوں میں واضح آیات ہیں۔ جب نبیۖ سے بھی قرآن میں اختلاف کی گنجائش کا واضح ذکر ہے تو کوئی اولی الامر کیسے ایسا ہوسکتا ہے کہ جس سے اختلاف کی گنجائش نہیں ہو؟۔ حالانکہ قرآنی آیت میں اولی الامر کیساتھ اختلاف کی گنجائش بالکل زبردست طریقے سے واضح کی گئی ہے۔
نبیۖ سے حدیث قرطاس کے معاملے پر حضرت عمر کے اختلاف کا واقعہ قرآن اور سیرت النبی میں کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ قرآن وسنت نے قیامت تک جمہوریت کی روح عالم انسانیت کو سکھادی ہے۔ جمہوریت میں سب سے بڑا فائدہ رائے کی آزادی اور ووٹ کے حق کا آزادانہ استعمال یقینی بنانا ہے۔
آج نام نہاد اور بے روح کاروباری جمہوریت کا یہ حال بن چکاہے کہ قوم ، حکومت، ریاست اور سیاسی پارٹیوں کے درمیان بدترین تصادم کا خطرہ موجود ہے۔ ایک حدیث ہے کہ اتبعوا السواد الاعظم ” اعظم جماعت کا اتباع کرو” جس سے اکثریت کے پیچھے چلنے کیلئے سمجھا جاتا ہے۔ اچھے علماء نے لکھا ہے کہ ”اس سے مراد اکثریت نہیں کیونکہ عربی میں اقل کے مقابل اکثر کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اس سے مراد زیادہ عظمت والی جماعت ہے”۔ وزیروں کی اکثریت ہوتی ہے لیکن وزیراعظم ایک ہی ہوتا ہے اور ایک ہی کی بات مانی جاتی ہے۔
جب مختلف پارٹیوں اور جماعتوں میں ہر ایک کو اپنے اپنے ذہن کے مطابق عظمت والی جماعت کو ووٹ دینے اور اس کے پیچھے چلنے کی آزادی ہو تو یہی اس جمہوری نظام کو کہتے ہیں جو موجودہ دور میں رائج ہے۔ اسلام میں جمہوریت نہیں ہوتی تو مختلف فرقے بھی نہیں بن سکتے تھے اور فرقوں پر پابندی لگائی جاتی تو اس کو مذہبی آزادی اور جمہوریت کی روح کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کاروبار ی شکل نہ اختیار کرتی اور مذہب وسیاست کے نام پر کاروبار نہ ہوتا تو پاکستان سے انسانیت کیلئے عالمی انقلاب کا آغاز ہونے میں دیر نہ لگتی۔
شیعہ سنی افکار اور سیاسی جماعتوں پر پابندی لگانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن جب تک ایک مضبوط بیانیہ حکومت، اپوزیشن، ریاست اور عوام کے سامنے نہیں آتا ہے تو یہ ملک وقوم تباہی کی طرف بہت تیزی سے جارہے ہیں۔ تحریک انصاف کے اندر کا بیانیہ شروع سے یہ تھا کہ ہماری35سیٹیں اسٹیبلشمنٹ نے ہمیں ہروائی ہیں اسلئے کہ اگر ہم اتحادی بیساکھیوں کے بغیرحکومت بناتے تو پھر اسٹیبلشمنٹ سے ہماری محتاجی ختم ہوجاتی۔ جن میں ایک سیٹ وہ فیصل جاوید کے مقابلے میں خواجہ آصف کی بتاتے ہیں۔35پنچر سے بڑا معاملہ یہی ہے۔ دنیا دیکھ رہی تھی کہ اتحادیوں کے سہارے کھڑی تحریک انصاف کی حکومت ایک اشارے سے گر سکتی ہے اور PDMنے اسٹیبلشمنٹ میں آرمی چیف اورDG آئی ایس آئی کا نام لے لے کر عوام میں تقریریں کیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے کہا کہ ہم غیرجانبدار ہیں۔ پھرDGISIپر حکومت اور فوج میں ناراضگی کا معاملہ آیا تھا۔ مسلم لیگ ن کے اندورنی اختلافات کی وجہ سے مرکز اور پنجاب میں تبدیلی ممکن نہیں ہوسکی تھی اور الزام پیپلزپارٹی پر لگایا گیا کہ استعفے ، لانگ مارچ کے بعد اس کا دھرنے دینے پر اتفاق نہیں ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی قابل اعتبار نہیں ہیں۔ پیپلزپارٹی کا فارمولہ تھا کہ پہلے تحریک عدم ِ اعتماد کا آئینی فارمولہ آزماتے ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی کو پنجاب اور شہبازشریف کو مرکز سپرد کریں گے۔ پھرجب PDMنے ایک لمبی مدت 23مارچ کی دیدی لیکن اسٹیبلشمنٹ کے خوف سے لانگ مارچ کرسکتے تھے اور نہ اپنی بات سے پھر سکتے تھے اسلئے تحریک عدم اعتماد کا شوشہ چھوڑ کر جھوٹے دعوے شروع کردئیے۔ خرید وفروخت کے ذریعے یہ ممکن بھی تھا اور مشکل بھی تھا لیکن PDMکی قیادت سنجیدہ نہیں لگ رہی تھی۔ اسلئے کہ پیپلز پارٹی نے پی ٹی آئی کے ارکان کو بغاوت پر اکسانے اور یقین دلانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ جبکہ ن لیگ پنجاب میں وزارت اعلیٰ پرویز الٰہی کو دینے میں گومگو کا شکار تھی۔ اب سندھ ہاؤس اسلام آباد سے بھانڈہ پھوٹ چکا ہے۔
عمران خان نے 10لاکھ کا اجتماع D چوک پر کرنے کا اعلان کیا تو PDM نے بھی23مارچ کو اسلام آباد پہنچنے کا اعلان کیا۔ جس پرکور کمانڈر کانفرنس میں تلخ پیغام دیا گیا اور شیخ رشید نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن ماؤزے تنگ نہیں ایک عالم دین ہیں ، مولا جٹ بننے کی کوشش کاسودا مہنگا پڑسکتا ہے۔ مریم نواز اور شہباز کی قیادت میں لاہور سے نکلنے والے جلوس اورPDMنے23مارچ کی جگہ25 مارچ کا اعلان کردیا کہ غیرملکی مہمانوں کا ہمیں بھی احترام ہے لیکن اصل خوف ریاست کے میزبانوں سے ہے۔ دیکھئے سیاسی دنگل کا آخری نتیجہ کچھ تو نکلے گا۔
ہڑتال و احتجاج کی کال سے عوام کو باخبر رکھا جائے تو عوام اپنے مفاد میں اس کو کامیاب بناتے ہیں۔ سیاسی حکمت اور غیرت کا بھی یہی تقاضہ ہے۔ عوام کو ان کی مرضی کے بغیر مشکلات میں ڈالنا انتہائی درجے کی بے غیرتی ہے۔ سیاسی جماعتوں نے جب سے پیشگی کال کے بغیر کارکنوں کے ذریعے عوام کو تکلیف دینا شروع کی ہے توعوام کو ان جماعتوں اور قائدین سے نفرت ہونے لگی ۔ اچانک روڈ اور تجارتی مراکز بند کرانے سے بچے اور خواتین بھی پھنستے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جب ریاست عوام کے حقوق کی حفاظت نہ کرسکتی ہو تو تنگ آمد بجنگ آمد لوگ اپنی مدد آپ کے تحت سڑکوں کو بند کرنیوالے سیاسی کارکنوںکو مارنے کیلئے اپنی گاڑیوں میں سرئیے ، ڈنڈے اور اسلحے رکھنے شروع کردیں۔ ایک مرتبہ نوشہرہ اور دوسری مرتبہ کراچی میں لوگوں کو جمعیت علماء اسلام کے احتجاج پر بہت گندی گندی گالیاں دیتے ہوئے سنا ۔ عاقل کو اشارہ کافی ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

مسلمانوں کی مصیبت یہ ہے کہ تیتر بھی ہیں اور بٹیر بھی!

مسلمانوں کی مصیبت یہ ہے کہ تیتر بھی ہیں اور بٹیر بھی!

کالاتیتر بہت خوبصورت ہوتا ہے اور اس کی آواز کو ”سبحان تیری قدرت“ کہا جاتا ہے۔ اردو بہت بعد کی ایجاد ہے۔ عربی، انگریزی، پشتو، بلوچی، سرائیکی، پنجابی اور سندھی وغیرہ کسی پرندے کی قدرتی آواز کو اللہ کے ذکر سے تعبیر کیا جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں اسلئے کہ جانوروں اور پرندوں کے علاوہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ درخت، پہاڑ اور پتھر بھی اللہ کا ذکر اور عبادت کرتے ہیں۔ النجم والشجر یسجدان فبای آلاء ربکما تکذبان ”بیل اور درخت دونوں سجدہ کرتے ہیں تو تم دونوں اللہ کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤگے“۔ نجم تارے اور بیل کو کہتے ہیں۔ درخت کا جوڑی دار بیل ہے، اسلام کے درخت کو مولوی کا آکاس بیل کھاگیا۔
آدھے تیتر اور آدھے بٹیر کی کہاوت مشہور ہے۔ مسلمانوں کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ تیتروں کی طرح اپنا ذکر کرتے ہیں لیکن دوسروں کے ہاتھ میں بٹیروں کی طرح اپنی قوم سے بھی لڑتے ہیں۔ ایک طرف مساجد و مدارس، خانقاہوں، امام بارگاہوں اور مذہبی طبقات کی وجہ سے اسلام اور اللہ کا نام لیتے ہیں تو دوسری طرف عالمی قوتوں کے اقتصادی غلام بن گئے ہیں اور ان کے اشاروں پر اپنوں سے لڑنے مرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ افغانستان، عراق، لیبیا، شام اور یمن تباہ ہوگئے اور ہم نیٹو اور ظالموں کے فرنٹ لائن اتحادی تھے اور اب روس نے یوکرین پر حملہ کرنا تھا تو وزیراعظم عمران خان روس پہنچ گئے۔ جب امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے ہڈی پھینکنا چھوڑ دی تو ہماری حالت دھوبی کے کتے کی بن گئی جو گھر کا ہوتا ہے اور نہ گھاٹ کا۔
ہماری سیاست کا محور جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ یہی لوگ اسمبلیوں میں آکر قانون سازی بھی اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے کرتے ہیں۔ عدالت کا نظام انصاف بھی غریب اور کمزور طبقے کے بجائے زیادہ تر امیروں اور طاقتوروں کے تحفظ کیلئے ہی استعمال ہوتا ہے۔ چھوٹے سے بڑے تک تمام اداروں میں قانون کی حکمرانی کی جگہ طاقتور وں کے دسترس میں سب کچھ ہے۔ جس کی وجہ سے انقلاب انقلاب کی آواز ہر جگہ سے اُٹھ رہی ہے۔ معروف قانون دان اور پیپلزپارٹی کے رہنماچوہدری اعتزاز احسن نے بھی انقلاب ہی تمام مسائل کا نہ صرف حل قرار دیا ہے بلکہ اپنا تجزیہ پیش کردیا ہے کہ انقلاب کے دھانے پر کھڑے ہیں۔
جب عورت کے حقوق کا معاملہ سمجھ میں آئے گا تو پھر گھر گھر، گلی کوچوں، قریہ قریہ، شہر شہر اور ملک ملک صدائے انقلاب کو خوش آئند قرار دیا جائے گا۔ عورت غلام تو سماج غلام اور عورت آزاد تو پھر سماج آزاد ہے۔ مفت کی مزارعت اور سودی نظام سے پاک معیشت سے غریب اور محنت کش طبقات کا استحصال ختم ہوجائیگا۔
آؤمری دنیا کے غریبوں کو جگادو
کاخِ امرا کے در ودیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم تراھم رکعًا سجدًا.

محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم تراھم رکعًا سجدًا.

محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو آپ کے صحابہ ہیں کافروں پر سخت اور آپس میں رحم دل ہیں۔آپ دیکھوگے رکوع
اور سجدہ میں ان کوڈھونڈتے ہیں اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی۔نشانی ہے انکے چہروں پر سجدوں کے اثر سے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

اللہ نے قرآن میں صحابہ کرام کی جو تعریف فرمائی۔ اس سے روگردانی بڑی بدبختی ہے۔احادیث و تاریخ میں صحابہ کے ادوار ہیں۔ نبیۖ کیساتھ کا دور، خلافت راشدہ کادور، امارت کادور ۔حضرت حذیفہ نے نبی ۖ سے پوچھاکہ اس خیر (اسلام )کے بعدشر ہوگا؟۔ فرمایا کہ ہاں!۔پوچھا:اس شر کے بعد خیر ہوگی؟۔ فرمایا: ہاں مگر اس میں دھواں ہوگا۔ اچھے لوگ ہونگے اور برے بھی۔ پوچھا :اس خیر کے بعد شر ہوگا؟۔ فرمایا: داعی ہونگے ،ہمارے لبادہ وزبان میں جہنم کے دروازوں پر،جو ان کی دعوت قبول کریگا وہ اس کو جہنم میں جھونک دیں گے۔ اس وقت مسلمانوں کی جماعت اور انکے امام سے مل جاؤ، اگر مسلمانوں کی جماعت اور امام نہ ہو توان سب فرقوں سے الگ ہوجاؤ۔ (بخاری)
احادیث وتاریخ کی کتابوں میں نبوت ورحمت اور خلافت راشدہ وزحمت کے دورمیں فرق ہے۔ بدر واحد میں اتنے کفار مارے گئے اور نہ اتنے مسلمان شہید، جتنے جنگ جمل وصفین میں مسلمان ایکدوسرے نے ماردئیے۔ نبیۖ کو زکوٰة دینے والے خلافت کو زکوٰة دینے سے انکاری تھے۔ہنگامی صورت میں انصار و مہاجریننے ابوبکر کو خلیفہ نامزد کیاتھاتوابوسفیان نے علی سے کہا کہ اگر آپ چاہو تو میں پیادہ اور سواروں سے مدینہ کو بھردوں؟۔ ابوسفیان کے تعصب اور حرص کوعلینے مسترد کردیا۔شیعہ اگر علی کے پیروکار ہیں تو حرص وتعصب اور فرض کی ذمہ داری کا فرق سمجھیں۔ خالدبن ولید نے مالک بن نویرہ کو قتل کیا اور اس کی بیگم سے عدت میں شادی کی تو عمر نے کہا کہ اس کو سنگسار کرنا چاہیے۔ ابوبکر نے تنبیہ کرکے درگزر کیا۔ خطبۂ جمعہ کی حدیث :ارحم امتی بامتی ابوبکر واشدھم فی امراللہ عمر”ابوبکر میری امت میں میری اُمت پر سب سے زیادہ رحم والے اور عمر ان میں اللہ کے احکام میں سب سے زیادہ سخت ہیں”۔
نبیۖ نے فرمایا کہ ”خبردار ! میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایکدوسرے کی گردنیں مارنے لگو”۔ نبیۖ نے ازواج مطہرات سے فرمایا کہ آئندہ میرے بعد حج نہیں کرنا۔ اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا کہ جب حواب کے کتے آپ پر بھونکیں گے اور وہ قوم کامیاب نہیں ہوسکتی جس کی قیادت عورت کررہی ہو۔ بخاری کی احادیث میں آئندہ کے واقعات کا نبیۖ نے واضح نقشہ بتایاتھا۔
حضرت علی ودیگر صحابہ کے دل میں اقتدار کی حرص نہیں فرائض کی ذمہ داری پوری کرنے کا احساس تھا۔ مشکل میں ضرورت پڑی تو علی نے لیت لعل سے کام نہ لیا اور حسن نے محسوس کیا تو معاویہ کیلئے اقتدار چھوڑدیا۔ شیعہ کہتے ہیں کہ حسین نے کربلا میں قربانی دی ،ائمہ ومہدی آپ کی اولاد سے ہیں۔ سنی کہتے ہیں کہ حسن نے اقتدار کیلئے حرص نہیں کی اسلئے مہدی کا تعلق حسن کی اولاد سے ہوگا۔روایات میں اہل بیت اور سفیانیوں کا ذکر ہے ۔ اقتدار کی حرص اور فر ض کی ادائیگی میں فرق ہے۔ مذہبی طبقہ، سول وملٹری اسٹیبلشمنٹ ، صحافی، سیاستدان اور ملک وقوم کے تمام طبقات نظریاتی ہیں یا مفاد پرست تجارتی ؟۔ حق کی آواز بلند کرنے اور پوری قوم کی اصلاح کے عوض کچھ نہیں چاہیے مگر پاکستانی ، انسان اور مسلمان ہونے میں مودة فی القربیٰ چاہیے۔ قاری محمدطیب نے بیٹا جانشین بنایا اور شوریٰ نے بات نہ مانی تو زبردست فریاد کر ڈالی۔ نبی ۖ نے حدیث قرطاس پرکوئی شکوہ نہ فرمایا ۔ اگر حضرت عمر حدیث قرطاس کیلئے رکاوٹ نہ بنتے تو مذہبی جماعتوں ، مدارس اور خانقاہوں میں وصیتوں کو شرعی درجہ حاصل ہوجاتا۔
جوفقر ہوا تلخیٔ دوراں کا گلہ مند اس فقر میں باقی ہے ابھی بوئے گدائی

دارالعلوم دیوبند کے قاری طیب کی یہ فریادی نعت
قاری محمد طیب نے اپنے بیٹے کودار العلوم دیوبند کا مہتمم بنانا چاہا اور شوریٰ نے نہیں بننے دیاتویہ نعت پڑھی

نبی اکرم شفیع اعظم ۖدُکھے دِلوں کا پیام لے لو!
تمام دنیا کے ہم ستائے کھڑے ہوئے ہیں سلام لے لو!
شکستہ کشتی ہے تیز دھارا، نظر سے روپوش ہے کنارہ
نہیں کوئی نا خدا ہمارا ، خبر تو عالی مقامۖ لے لو!
یہ کیسی منزل پہ آگئے ہیں نہ کوئی اپنا نہ ہم کسی کے
تم اپنے دامن میں آج آقا ۖ تمام اپنے غلام لے لو!
عجب مشکل میں کارواں ہے نہ کوئی جأ نہ پاسباں ہے
بہ شکل رہبر چھپے ہیں رہزن ، اٹھو ذرا انتقام لے لو!
کبھی تقاضہ وفا کا ہم سے کبھی مذاق جفا ہے ہم سے
تمام دنیا خفا ہے ہم سے تمہی محبت سے کام لے لو!
قدم قدم پہ ہے خوف رہزن زمیں بھی دشمن فلک بھی دشمن
زمانہ ہم سے ہوا ہے بدظن خبر تو خیرالانام لے لو!
یہ دل میں ارماں ہے اپنے طیب مزار اقدس پہ جاکے اک دن
سناؤں ان کو میں حال دل کا کہوں میں ان سے سلام لے لو!

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

میں تم سے قرآن کا بدلہ نہیں مانگنا چاہتا لیکن رشتہ دار ہونے کے ناطے اس کی فطری محبت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر غور کرو۔

قل لا اسئلکم علیہ اجرًا الا مودة فی القربٰی (القرآن الکریم)
یہ مکی ہے اور اس کے اولین مخاطب قریشِ مکہ ہیں اور نبی ۖ سے ارشاد ہے کہ ان سے فرمائیے
کہ مجھے قرآن پر تم سے کوئی بدلا نہیں مانگنا ہے لیکن جوقرابتداری ہے اسکی فطری محبت کا لحاظ کیجئے

احادیث صحیحہ میں ہے کہ نبیۖ نے فرمایا کہ میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک قرآن اور
دوسرے میرے اہلبیت۔اور قرآن میں مودة فی القربیٰ سے مسلمانوں کیلئے اہلبیت نبیۖ مراد ہیں!
اگرمودة فی القربیٰ کے فطری تقاضوں پر عمل ہوجائے توعالم اسلام اور انسانیت کے تمام مسائل کا حل نکلے!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

ہندوستان کی آزادی کے عظیم سپوت مولانا ابوالکلام آزاد نے لکھا ” یہ آیت مکی ہے اور اس سے مراد اہل بیت نہیں ہوسکتے، حدیث میں اہل بیت مراد ہیں ۔ یہ آیت مکی دور میں نازل ہوئی تھی۔ علی و فاطمہ، حسن و حسین خاندان اہل بیت کا وجودمدنی دور کے آخر میں آیا تھا۔ آیت کے مخاطب تو صحابہ نہ تھے ۔ اللہ نے مشرکینِ مکہ کو مخاطب کرنے کا حکم دیا: ” ان مشرکینِ مکہ سے کہہ دیجئے کہ میں تم سے قرآن پر بدلہ نہیں مانگتا مگر قرابتداری کی فطری مودة کا لحاظ رکھیں ”۔اگر نبیۖ کی مودة کا لحاظ رکھا جاتا تو آپۖ اور آپ کے صحابہ ہجرت بھی نہ کرتے۔
مولانا آزاد نے انگریز کے مقابلے میں ہندوؤں سے مودة فی القربیٰ کے تقاضے پر عمل کیا۔ ہندو اورمسلمان یہی مطالبہ رکھیں کہ ہم وطن اور ہم زبان ہونے کی فطری مؤدت کا لحاظ کیجئے۔احادیث میں اہل بیت سے مودة فی ا لقربیٰ کی تلقین ہے ۔ مسلم لیگ کا مسلم قومیت کی بنیاد پر مودة فی القربیٰ کا نعرہ ہندو کے مقابلے میں تھا ۔ مشرکین کے مقابلے میں اہل کتاب اور یہود کے مقابلے میں عیسائی مسلمانوں کے قریب تھے۔قرآن کے مخاطب تمام بنی آدم بھی ہیں۔
اس بات پر اتفاق ہے کہ نبیۖ نے کسی سے قرآن کے بدلے کچھ نہ مانگا لیکن علماء ومفتیان، خطباء وذاکرین ، مساجد ومدارس اور مذہبی خدمات پر سب معاوضے کی طلب رکھتے ہیں۔ آیت مودة کے پہلے حصے پر عمل ہوتو بقیہ حصہ پر عمل کرنے میں مشکل پیش نہیں آئے گی۔ امارت و اختیار کا طلب کرنا بہت بڑا عوض ہے اور آج دین کے بدلے سیاسی اور مذہبی دکانیں چمکائی جارہی ہیں۔
جب حضرت ابوبکر پہلے خلیفہ بنائے گئے تو ابوسفیان نے سفر سے واپسی پر کہا کہ کیا بنی ہاشم مرگئے تھے کہ بنی تمیم کمزور قبیلے سے خلیفہ بنایا گیاہے؟۔ اس القائے شیطانی نے تعصب اور خود غرضی کا بیج بودیا۔ علی نے جواب دیا کہ کیا اسلام قبول کرنے سے پہلے کم اسلام دشمنی کا مظاہرہ کیا کہ اب بھی مسلمانوں میں دشمنی کا بیج بورہے ہو؟۔ نبیۖ نے فرمایا :”کسی بات کو لوگ ہلکا سمجھتے ہیں لیکن وہ اتنا بھاری گناہ ہوتا ہے کہ مشرق ومغرب اس سے بھر جاتے ہیں”۔ ابوسفیان کی صدائے بازگشت سے جو فضاء بنی، اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ حسن نے حضرت ابوبکر سے کہا کہ” آپ میرے باپ کے منبر سے اُترجاؤ”۔حضرت ابوبکر نے روتے ہوئے حضرت حسن کو اپنی گود میں اٹھایااورفرمایا کہ ” خدا کی قسم ! یہ تیرے باپ کا منبر ہے ، میرے باپ کا نہیں ”۔ پھر حسین نے حضرت عمر سے کہا کہ ” تم نے میرے باپ کے منبر پر قبضہ کیا ہے”۔ حضرت عمر نے پیار کیا اور پوچھا کہ ”آپ کو کس نے یہ بات سمجھائی ؟”۔ حسین نے کہا کہ ” میں خود کہہ رہاہوں ۔کسی نے بھی نہیں سمجھایا”۔ حضرت عمر نے کہا ” آپ نے سچ کہا ہے۔ یہ تیرے ہی باپ کا منبر ہے”۔ یہ باتیں تبلیغی جماعت کے نصاب ”فضائل اعمال ” میں ایک کتابچہ” موجودہ پستی کا واحد علاج ”کے مصنف مولانا احتشام الحسن کاندھلوی نے اپنی ایک تصنیف میں درج کیں،جو کافی عرصہ پہلے نظرسے گزری تھی۔
اللہ نے قرآن میں فرمایا:وماارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی الا اذا تمنی القا الشیطان فی امنیتہ…”اور ہم نے کسی نبی کو نہیں بھیجا اور نہ رسول کو مگر جب وہ تمنا کرتا ہے تو شیطان اس کی تمنا میں القا کرتا ہے۔ پھر اللہ مٹا دیتا ہے جو شیطان نے القا کیا ہوتا ہے اورپھر اپنی آیات کو استحکام بخش دیتا ہے”۔
نبیۖ نے بنی آدم میں سب سے زیادہ اپنے دور میں قریش اور بنی ہاشم کو افضل قرار دیا جس سے اللہ نے رحمة للعالمینۖ کا انتخاب کیا۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں تھا کہ حضرت ابوبکر وحضرت بلال سے ابولہب وابوجہل بہتر تھے اور اس شیطانی القا کو حضرت ابوسفیان نے اپنے رنگ میں پیش کردیا۔ حضرت علی نے حضرت ابوبکر کے مقابلے میںاس کو مسترد کردیا۔حضرت عمر سے حضرت علی نے کہا کہ آپ خود جنگ پر تشریف نہ لے جائیں اور حضرت عثمان کی مدد کیلئے حضرت علی کے صاحبزادوں حضرت حسن و حضرت حسین نے پہرہ دیا تھا اور جب مسندِ خلافت اس لائق نہیںتھی کہ کوئی اس کو قبول کرتا تو حضرت علی نے اپنی ذمہ داری پوری کی۔ پھر حسن نے مسند کو مفاد عامہ کیلئے قربان کردیا اور حسین نے مفاد عامہ کیلئے کربلا میں قربانی دی۔ زین العابدین اور ائمہ اہلبیت کا احساس ہمیشہ ذمہ دارانہ رہا۔ شیعہ ذاکرین نے ابوسفیان کے نعرے سے متأثر ہوکر ائمہ اہل بیت اور اسلام کا چہرہ اجنبی بنادیا لیکن کافی علماء کی سوچ بہت مثبت بھی ہے۔
علماء کرام کو جمعہ کے خطبات میں فضائل صحابہ اور فضائل اہل بیت کی ساری احادیث کو باری باری پیش کرنا چاہیے۔ حضرت آدم کی نافرمانی اور شیطان نے جو نافرمانی کی تھی ،ان دونوں میں عبادت ، تجربہ ، نیکوکاری کے لحاظ سے ابلیس کو عزازیل اور فرشتوں کے استاذ کا درجہ حاصل تھا۔ فرشتے بھی عزازیل کی مکاری سے معصومانہ سوال کر بیٹھے تھے لیکن عزازیل کو قوم پرستی اور گھمنڈ نے خوار کردیا تھا اور حضرت آدم نے غلطی کی معافی مانگ کرخلافت کا استحقاق حاصل کرلیا تھا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

آدم نے بلایا اور مجھ سے پوچھا کہ میں کیا چاہتا ہوں۔ جس کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا تھا کہ ’’میں امن چاہتا ہوں‘‘۔

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُوْنَ (النور:55)

اللہ نے وعدہ کیا ہے تم میں ان لوگوں سے جو ایمان والے ہیں اور عمل صالح کرنے والے ہیں کہ وہ ان کو ضرور زمین میں ایسی خلافت دے دے گاکہ جیسے ان سے پہلے لوگوں کو خلافت دی گئی تھی اور ان کیلئے ضرورانکے دین کو ٹھکانا بخشے گا جو دین ان کیلئے اللہ نے پسند کیا ہے اور ضرور بدل دے گاان کیلئے خوف کے بعد امن۔جو میری عبادت کرتے ہیں اورکسی چیزکو میرے ساتھ شریک نہیں کرتے اور جس نے اس سے کفر کیا تووہی لوگ فاسق ہیں۔( سورۂ النور:آیت55)

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

جب اللہ نے زمین میں اپنا خلیفہ بنانے کا فیصلہ کیا تو فرشتوں نے اعتراض اٹھادیا کہ ایسی مخلوق کو کیوں پیدا کررہے ہو جو زمین میں فساد پھیلائے اور خون بہائے لیکن اللہ نے فرمایا کہ میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ پھر آدم علیہ السلام کی فضیلت کو علم کے ذریعے سے منوایا تھااور فرشتوں سے سجدہ بھی کروایا مگر ابلیس کو سجدے کی توفیق نہیں ہوئی۔ اس نے کہا کہ مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے بنایا ہے تو میں اس خاک سے بنے ہوئے انسان کو کیوں سجدہ کروں؟۔
مولانا فضل الرحمن نے کچھ عرصہ پہلے ایک خواب بیان کیا تھا کہ حضرت آدم نے فون کیا ہے اور مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ آپ کیا چاہتے ہو۔ جس کا جواب دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ ” مجھے امن چاہیے”۔ حدیث میں خوابوں کو نبوت کا وہ حصہ قرار دیا گیا ہے جس کا کچھ حصہ مبشرات کی صورت میں رہ گیا ہے اور مبشرات سے مراد صحیح سلامت خواب ہیں جو الائش سے پاک ہوں اور نبوت سے مراد اصطلاحی نبوت نہیں ہے کیونکہ نبیۖ اس نبوت کی آخری اینٹ ہیں اور آپ ۖ کے بعد نبوت کے کچھ حصے کے باقی رہنے کا عقیدہ ختم نبوت کے خلاف ہے۔ نبوت سے مراد غیب کی خبریں ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کا خواب بھی غیبانی خبر ہے لیکن بشرط یہ کہ اس میں کوئی حقیقت ہو اور حقیقت اس وقت ہوگی کہ جب اس کا کوئی نتیجہ بھی نکل کے سامنے آجائے۔
خوابوں کی دنیا میں عرب وعجم کے اندر خلافت علی منہاج النبوت دوبارہ قائم ہورہی ہے اور اس کے نتیجے میں انشاء اللہ عنقریب خلافت بھی ضرور قائم ہوگی۔ مولانا فضل الرحمن نے امن مانگنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا تو اس کا بھی پتہ چلے گا کہ واقعی ان کو امن چاہیے یا پھر اس کی منزل اقتدار میں حصہ بقدر جثہ ہے؟۔PDMکے پلیٹ فارم سے سیاسی جماعتوں کیساتھ چل سکتا ہے تو اسلامی احکام کیلئے کوئی ایک پلیٹ فارم پر تیار کیوں نہیں ہوسکتا ہے جس سے جمہوری انداز کی بنیاد پر خلافت اسلامیہ کی بنیاد رکھ دی جائے۔ ہمارا اللہ، ہمارے رسولۖ اور ہمارادین کسی ایک ملک اور خطے کیلئے نہیں بلکہ بین الاقوامی اور تمام جہانوں کیلئے ہے اسلئے مقامی سطح پر نمائندگی کیلئے کوئی مخلص اور ایکسپرٹ سامنے آجائے تو اس کو آگے لانے میں ہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ دیوبندی ، بریلوی، شیعہ ،اہلحدیث اور پختون، پنجابی، سندھی ، بلوچ ، مہاجر اور کشمیری ہمارے حامی ہیں۔ الیکشن اور سلیکشن میں بہت فرق ہوتا ہے۔ جب حضرت عمر کے سامنے یہ تجویز رکھی گئی کہ اپنے بیٹے کو اپنے بعد خلیفہ نامزد کردیں تو حضرت عمر نے اپنے بیٹے کو اسلئے نااہل قرار دیا کہ وہ طلاق کے مسئلے کو بھی نہیں سمجھ رہاتھا۔ قرآن وسنت میں طلاق اور اس سے رجوع کے مسائل بہت واضح ہیں لیکن علماء ومفتیان نے اتنا الجھاؤ پیدا کردیا تھا کہ سبھی اس مسئلے میں خلافت کی مسند کیلئے نااہل تھے۔ جب علماء کی بڑی تعداد منتخب ہوئی تھی تو مولانا فضل الرحمن نے اکرم خان درانی کو وزیراعلیٰ بنوایا تھا اور باقی سارے علماء اس منصب کیلئے بالکل ہی نااہل تھے۔ پشاور کے حاجی غلام علی اور حاجی غلام احمد بلور میں کیا فرق ہے؟۔ اگر نواب اسلم رئیسانی نے جمعیت علماء اسلام میں شمولیت اختیار کرلی تو کسی عالم دین کے مقابلے میں وہ بھی اکرم خان درانی کی طرح بلوچستان کے وزیراعلیٰ بن سکتے ہیں۔ اگر پارٹیوں میں یہی فرق ہو تو پھر قوم کا بٹوارہ کرنے کیلئے مختلف طرح کی سنسنی خیزی پھیلا کر امن اور امان کے مسائل پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟۔ جس سے دہشتگردوں کو پھرمزید خوف وہراس پھیلانے کے مواقع مل جائیں؟۔
صدر اور وزیر میں فرق ہے۔ صدر اور ناظم اعلیٰ میں بھی فرق ہے۔ جمعیت علماء اسلام کے ناظم اعلیٰ پر مولانا فضل الرحمن اور مولانا عبیداللہ انور میں اختلاف ہوا تھا۔ پھر مولانا سمیع الحق اور مولانا فضل الرحمن میں اسی عہدے پر اختلاف تھا اور آخر میں مولانا فضل الرحمن نے امیر کے عہدے کو اپنے لئے پسند کیا تھا اسلئے کہ جماعت میں جنرل سیکرٹری کی جگہ احادیث میں امارت کی اہمیت ہم نے ہی اس کے سامنے اجاگر کی تھی لیکن جنرل سیکرٹری کے عہدے پر حافظ حسین احمد اور مولانا عبدالغفور حیدری کے درمیان مولانا فضل الرحمن نے اپنا وزن حیدری کے حق میں ڈال دیا تھا جس کی وجہ سے حافظ صاحب ہارگئے تھے۔ جنرل سیکرٹری کا متبادل ملک میں وزیراعظم ہوتا ہے۔ پہلے جمعیت میں امیر کی حیثیت کٹھ پتلی کی ہوتی تھی جس طرح اب ملک میں صدر کی حیثیت ہے لیکن پھر جمعیت علماء اسلام میں امیر کی حیثیت اصل کی اور جنرل سیکرٹری کی حیثیت کٹھ پتلی کی بن گئی ہے۔
اسلامی جمہوری آئین کا تقاضہ یہی ہے کہ حکومت و ریاست میں صدر وامیر کی حیثیت کٹھ پتلی کی نہ ہو۔ وزیراعظم دوسرے وزیروں کی نسبت بڑا ہوتا ہے مگر پھر بھی بہرحال وہ ایک وزیر ہی ہوتا ہے۔ جب سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار نے اپنا اجلاس رکھا تھا تو مہاجرین کے بعض افراد بھی وہاں پہنچ گئے تھے۔ انصار نے انہیں کہا کہ ایک امیر ہم سے ہو اور ایک تم میں سے لیکن مہاجرین نے کہا کہ ہم امیر بنیں گے اور آپ لوگ وزیرومشیر بن جائیں۔ جب حضرت عمر نے خلافت کیلئے ایک شوریٰ تشکیل دی تھی تو اس میں کوئی بھی انصار ی صحابی نہ تھا۔ اگرانصار بھی مشاورت میں شریک ہوتے تو مدینہ میں شاید حضرت عثمان کی شہادت میں بیرونی باغی اتنے جریح نہ ہوتے اور نہ حضرت علی کو کوفہ اپنا مرکز بنانا پڑتا۔
پاکستان کے ابتدائی سالوں میںگورنر قائداعظم ،وزیراعظم لیاقت علی خان، پہلے دو انگریزآرمی چیف اور بعد میں آنے والے محمد علی بوگرہ سے لیکر شوکت عزیز تک اور ذوالفقار علی بھٹو سے عمران خان تک جتنے حکمران آئے ہیں وہ سب کے سب بیرون ممالک سے بلائے گئے نام نہاد پاکستانی تھے یا پھر کٹھ پتلی کی طرح بنائے گئے ۔ پاکستان پہلے بھی دولخت ہوا تھا اور اس میں سب کا مشترکہ کردار تھا اور اب بھی بیرونی اور اندرونی خطرات میں گھراہواہے جس میں سب نے اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے۔ قرآن کی تعلیمات سے ہم اپنی معاشرتی اور معاشی تقدیر بدل سکتے ہیں لیکن مفادات کی سیاست سے ہمارے کرتے دھرتوں کو وقت نہیں ملتا ہے۔ امریکہ میں صدارتی جمہوریت ہے ، برطانیہ میں پارلیمانی جمہوریت ہے اور پاکستان میں کبھی صدر طاقت کا محور بنا اور کبھی وزیراعظم طاقت کا منبع بنا ہے۔ اگر صدر کے وسیع اختیارات ہوں اور لوٹوں کی سیاست ختم ہوجائے تو یہ تجربہ بھی برا نہیں ہوگا۔ عوام بھی براہِ راست صدر کو ووٹ دیں گے تو لوٹوں کی سیاست ختم ہوجائے گی۔ خلافت راشدہ میں خاندانی سیاست نہیں تھی لیکن جب بنوامیہ اور بنوعباس کی طرح خلافت عثمانیہ اور مغل بادشاہت قائم ہوتی رہی اور عرب میں بادشاہت کا تصور قائم ہوگیا تو اسلام اجنبی بنتاگیا ،مسلمانوں پر زوال آگیا اور اغیار نے ترقی وعروج کی منزل طے کی۔
جب عمران خان دھڑلے سے کہتا تھا کہ ” ہمارے بے غیرت حکمران بھیک مانگتے ہیں۔ میں ڈوب کرمرجاؤں گا لیکن بھیک نہیں مانگوں گا ”توہمارے فوجی بھائی تو ہوتے ہی فوجی سری والے ہیں۔ پنجاب میں بغیر مغز کی سری کو فوجی سری کہا جاتا ہے لیکن بڑے بڑے سیاستدانوں اور دانشوروں نے بھی حماقت کا ثبوت دیدیا اسلئے کہ عمران خان کے پلے میں شوکت خانم ہسپتال کو بھیک سے بنانے کے سوا کیا تھا؟۔ سمجھ دار لوگوں نے سوچا تھا کہ یہودکا دامادعالمی مالیاتی اداروں سے فنڈز لاکر شوکت خانم ہسپتال کی طرح پاکستان کو بھی چلائے گا لیکن جب یہ ساری چیزیں ٹھس ہوگئیں تو اب یہ رونا رویا جاتا ہے کہ عمران خان کی گالیاں اپنی جگہ تھیں لیکن ہرچیز میں الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے۔
نوازشریف اور مریم نوازکو عدالت نے عمران خان کو اقتدار میں آنے سے پہلے قید کرلیا تھا ،ایک کو بیماری کے بہانے چھوڑ دیا اور دوسری کو تیمار داری کا بہانہ بناکر چھوڑ دیا۔ اب بیماری ہے اور نہ تیمارداری مگرپھر بھی ” میں نہیں چھوڑوں گا” کی رٹ جاری ہے۔ یہ مدینہ کی ریاست ہے یا یہود کی خباثت ہے؟۔ اگر مریم نواز کیلئے قانون الگ ہے اور دوسری سزا یافتہ عوام کیلئے الگ ہے تو پہلی قوموں کی تباہی کا باعث امیر غریب اور باحیثیت اور بے حیثیت کیلئے یہی فرق تھا جس کا عمران خان اپنی رٹی رٹائی تقریروں میں تذکرے کرتا رہتا ہے۔
ایوب خان کی ڈکٹیٹر شپ نے مشرقی پاکستان میں مولانا بھاشانی کو خرید ا تھا جس کا خمیازہ سقوطِ ڈھاکہ میں بھگتنا پڑا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کی ڈکٹیٹر شپ میں امریکہ اور روس کی جنگ میں ہم نے اپنا وزن امریکہ کے کھاتے میں ڈال دیا تھا جس کی وجہ سے امریکہ سپر طاقت بن گیا۔ پرویزمشرف کی ڈکٹیٹر شپ میں ہمارا کردار امریکہ کیلئے تھا جس کی وجہ سے پاکستان ، افغانستان، عراق، لیبیا اور شام عدمِ استحکام اور فتنہ وفساد اور قتل وغارت گری کے شکار ہوگئے ۔ اب طالبان نے ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ چھیڑا تو پھر بڑے پیمانے پر قتل وغارتگری کے مسائل کھڑے ہوسکتے ہیں۔ ہندوستان بھی کسی موقع کی تلاش میں ہے۔ سیاسی قیادت سے بھی عوام کا اعتماد اُٹھ گیا۔BBC،وائس آف امریکہ ،DWجرمنی، سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر تسلسل کیساتھ پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈہ چل رہاہے ۔
پاکستان کا فی الحال یہ واحد ادارہ ہے جو ملک کو استحکام بخشنے میں بنیادی کردار ادا کررہاہے مگر ہر محاذ پر اس کے قبضے کی خواہش نے اس کو کمزور سے کمزور تربھی بنادیاہے۔ نقیب اللہ محسود کیلئے اسلام آباد میں دھرنا تھا تو وزیراعظم شاہد خاقان نے قبائلی عمائدین اورمنظور پشتین سے کہا تھا کہ ” اس ملک میں فوج کے سوا کسی کی طاقت نہیں ہے۔ ہماری حکومت کو ختم کرکے نوازشریف اور شہبازشریف کو پکڑ کر بکریوں کی طرح باندھ دیا گیا اور پھر سعودی عرب جلاوطن کردیا گیا”۔ کیا نوازشریف نے ماڈل ٹاؤن میں پولیس کے ذریعے فوج کے کہنے پر قتل وغارت کی تھی؟۔ کیا پارلیمنٹ میں تحریری بیان بھی فوج کے کہنے پر پڑھ کر سنایا تھا اور کیا قطری خط بھی کسی کرنل یا میجر نے لکھ کر دیا اور پھر لاتعلقی کا اعلان بھی فوج کے حکم سے کیا تھا؟۔ ہم فریق نہیں لیکن انصاف چاہتے ہیں۔ جب شاہدخاقان عباسی کے کہنے پر قبائل کی اکثریت نے دھرنا ختم کیا تھا تو دھرنے ختم کرنے میں بنیادی کردار شیرپاؤ محسود ایڈوکیٹ کا تھا۔ منظور پشتین اور شیرپاؤ محسود متضاد تھے لیکن آج شیرپاؤ محسود نے بھی اپنی پٹڑی تبدیل کرکے اپنا لہجہ بدل دیا ہے۔
امریکہ کے خلاف طالبان کی حمایت میں جب وزیرستان میں فضاء بن گئی تو اس میں تحصیلدار مطیع اللہ برکی، گلشاہ عالم برکی ، خاندان ملک کوٹکئی کی پوری فیملی اور علی وزیر کی پوری فیملی کے علاوہ مولانا حسن جان پشاور، مولانا معراج الدین، مولانا نور محمد اور سردار امان الدین کے علاوہ سینکڑوں بے گناہ لوگ شہید ہوئے اور ایک لیڈی ڈاکٹر کو اغواء کرکے اس سے تاوان وصول کیا گیا جو مرد ہوکر چوتڑ تک بال رکھ سکتے تھے ان سے ہر قسم کی واردات اور بدکرداری کی توقع ہوسکتی تھی لیکن محسود قوم نے ان کو اس وقت اپنے گھروں میں تحفظ فراہم کیا ۔ یہ شوق سے تھا یا خوف سے تھا لیکن اس جرم کی سزا ان کو یہی ملی جو شیرپاؤ ایڈوکیٹ محسود کہتا ہے کہ افغان طالبان جیت گئے،GHQجیت گیا ، تحریک طالبان پاکستان جیت گئی لیکن ہماری عورتیں پھلادی گئی ہیں۔ کیا پنجابی مجاہدین ایسا کرنے کی بھی ہدایت اور ٹریننگ دیتے تھے جو اپنے لوگوں کیساتھ کیا گیا؟۔ اگر محسود اتنے زیادہ بیوقوف تھے تو بھی اپنے انجام تک ان کو پہنچانا بہت ضروری تھا۔
سوشل میڈیا پرہے کہ فوج نے اپنا ایک ریٹائرڈ افسر پکڑلیا ہے جس کے ساتھ ایک خٹک کو بھی گرفتار کیا جو امریکہ کو اطلاع دیکر دہشتگردوں کی جگہ عوام ، بچوں اور خواتین کو مرواتا تھا۔ امریکہ خود بھی دہشت گردوں کی جگہ عوام کو مارتاتھا اور دہشت گرد بھی امریکہ کے بجائے عوام کو مارتے تھے۔جبکہ ایک فوجی افسر نے اپنا مقدمہ سپریم کورٹ میں لڑا ہے جس میں اس نے انکشاف کیا ہے کہ اس کے خلاف سارے الزام غلط ہیں۔ سب اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف اور توبہ کرکے ایک نئی منزل کی طرف چلیں، جس میں امن وامان اور سکون ہو اور ملک وقوم اپنی ترقی کی منزل پر گامزن ہوجائے ورنہ خیر کسی کی بھی نہیں ہوگی۔ ہم سب اپنی اپنی جگہ اور اپنی اپنی حیثیت سے بہت گناہگار اور ناشکرے ضرور بن گئے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اُم المؤمنین حضرت عائشہ کے خلاف رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی اور اس کی چال میں آنے والے مخلص مسلمانوں کی قرآن کریم نے خوب سرزنش کی ہے

اُم المؤمنین حضرت عائشہ کے خلاف رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی اور اس کی چال میں آنے والے مخلص مسلمانوں کی قرآن کریم نے خوب سرزنش کی ہے

اِنَّ الّذِیْنَ جَآئُوْا بِالْاِفْکِ عُصْبَة مِّنْکُمْ لَا تَحْسَبُوْہُ شَرًّا لَّکُمْ بَلْ ہُوَ خَیْر لَّکُمْ لِکُلِّ امْرِئٍ مِّنْہُمْ مَّا اکْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہ مِنْہُمْ لَہ عَذَاب عَظِیْم (النور)

بیشک جو لوگ بہتان کے ساتھ آئے وہ تمہارے اندر سے ایک گروہ ہے، آپ لوگ اس کو اپنے لئے شر نہ سمجھو بلکہ وہ تمہارے لئے خیر ہے۔ان میں سے ہر ایک نے اپنے حصے کا گناہ کمایا ہے۔اور ان میں سے جس ایک بڑے نے ان کی سرپرستی کی ہے،اس کیلئے بہت بڑا عذاب ہے۔(سورۂ النور:آیت11)

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

سورة نور کی اس آیت میں اس گروہ کی نشاندہی ہے جس نے حضرت اماں عائشہ پر بہتان لگایا تھا۔ اس گروہ میں جس جس فرد کا جس جس قدر حصہ تھا،اتنا اتنا اس نے گناہ کمایا تھا۔ رئیس المنافقین نے اس بہتان کی سرپرستی کی تھی۔جس کا نام عبداللہ ابن ابی تھا۔اس کے بیٹے مخلص صحابہ کرام تھے۔ نبیۖ نے ان کی دلجوئی اور رحمت للعالمینۖ کے تقاضے سے اس کو اپنا کرتہ کفن کیلئے عطاء فرمایا تھا اور اس کی نمازِ جنازہ بھی پڑھائی تھی اور اسکی قبر پر کھڑے ہوکراس کیلئے مغفرت کی دعا بھی فرمائی تھی۔ حضرت عمرفاروق اعظم نے عرض کیا تھا کہ اس کی نماز جنازہ نہ پڑھائی جائے ،اگر اس کی دوسری شرارتوں اور فتنہ انگیزی کونظر انداز بھی کردیا جائے تو حضرت عائشہ پر بہتان عظیم کی شرارت کو کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے؟۔ لیکن نبیۖ نے پھر بھی رحمت للعالمین ہونے کا ثبوت دیا تھا اور یاد رہے کہ اللہ نے فرمایا :ان المنافقین فی در ک اسفل من النار ”بیشک منا فقین جہنم کے نچلے ترین حصے میں رہیں گے”۔ عبداللہ ابن ابی ان کا سردار تھا۔اللہ تعالیٰ نے نبیۖ کو ایسے کردار کیلئے یہاں تک فرمایا کہ ” اگر70مرتبہ بھی آپ اس کیلئے استغفار کریں گے تو اللہ اس کو معاف نہیں کرے گا”۔ یہ کثرت کیلئے تھا۔ اگر نبیۖ کو یقین ہوتا کہ100مرتبہ استغفار کرنے پر اللہ معاف کردے گا تو ایک تسبیح ضرور عبداللہ ابن ابی رئیس المنافقین کیلئے پھر بھی پڑھ لیتے۔لیکن اللہ نے کسی صورت اس کو معاف نہ کرنے کی وضاحت کی تھی۔
جب کوئی شرارت کا سرغنہ ایک راستہ دیکھ لیتا ہے تو ایسی منصوبہ بندی کرتا ہے کہ سیدھے سادے لوگ اس کے جال کا بری طرح شکار ہوجاتے ہیں۔ جب ابن ابی کو پتہ چل گیا کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ سفر کے موقع پر کاروان سے پیچھے رہ گئیں تھیں اور ایک گھر کے خادم نے دیکھ لیا تو وہ ساتھ لے کر آگئے۔ اس واقعہ کا سن کر رئیس المنافقین نے منصوبہ بندی کرلی اورایک گروہ تیار کرلیا جس کا ذکر قرآن کی اس آیت میں ہے۔ اس گروہ میں ہر فرد کا اپنا اپنا کردار تھا۔
یہاں سمجھانے کیلئے ایک واقعہ پیش کرتا ہوں کہ شیطانی منصوبہ ساز گروہ کاسرغنہ کیسے اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ حضرت حاجی محمد عثمان کے خلاف اپنے مرید و خلفاء نے پہلے ایک سازش تیار کی اور اس میں اندر اور باہر کے لوگوں کو ساتھ ملا کرالاستفتاء تیار کیا اور حاجی محمد عثمان پرفتویٰ بھی منصوبہ بندی سے لگادیا۔ اس کی تفصیلات دیکھ کر عوام کی عقل دنگ رہ جائے گی کہ معززین کہلانے والوں کا اتنا گھناؤنا کردار بھی ہوسکتا ہے ؟۔ اور سادہ لوح مفتی اعظم مفتی ولی حسن ٹونکی کس طرح سے اس سازش کا شکار ہوگئے؟۔ پھر ایک دوسرا دور آیا کہ حضرت حاجی محمد عثمان کے انتقال کے بعد کس طرح سے ان کو زہر کھلانے کی جھوٹی داستان گھڑی گئی اور بہت مخلص لوگ بھی اس کا زبردست طریقے سے شکار ہوگئے تھے۔
چشم دید معاملات کو دیکھنے کے بعد اچھی طرح سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ رئیس المنافقین نے کس طرح سے منصوبہ بندی کی سرپرستی کی ہوگی؟۔قرآن کی آیات میں سازشوں اور فتنہ انگیزیوں کی جتنی تفصیلات ہیں وہ قیامت تک کی رہنمائی کیلئے کافی ہیں۔ سورة محمد میں اللہ تعالیٰ نے بعض لوگوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ ” وہ کھاتے ہیں اور جنسی خواہشات پوری کرتے ہیں جیسے جانور کھاتے ہیں اور جنسی خواہشات پوری کرتے ہیں”۔ انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت اور خلافت کیلئے پیدا کیا ہے۔ جب انسان اپنے مقصد کیلئے کام کرتا ہے تو پھر وہ قرآن سے بھرپور طریقے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
واقعہ افک بہتان عظیم میں کس کا کیا کردار تھا؟۔ حضرت ابوبکر کے رشتہ دار حضرت مسطح ،معروف نعت خوان حضرت حسان ، نبیۖ کی سالی حمنا بنت جحش نے بہتان لگایا تھا اور ان کو80،80کوڑوں کی سزا بھی ملی تھی۔ سورۂ نور کی تمام آیات میں بہت بڑا انقلاب موجود ہے لیکن یہ مختصر اخبار اسکا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس آیت میں اللہ نے فرمایا کہ ” اس واقعہ میں اپنے لئے شر نہ سمجھو بلکہ تمہارے لئے اس میں خیر ہے”۔ آج جو مسلمانوں کے اندر ایک بہت بڑا حساس معاملہ بنا ہے کہ توہین رسالت اور اذیت رسول کے نام پر لوگوں کومحض تہمت لگاکر بھی قتل کیا جاتا ہے تو اس میں خیر کا یہ پہلو ہے کہ اس سے بڑھ کر اذیت رسول کی مثال کوئی نہیں ہوسکتی ہے مگر بہتان لگانے والوں کو قتل نہیں کیا بلکہ کوڑے مارے گئے تو کیا قرآن نے ان جذباتی لوگوں کی درست ترجمانی نہیں کی ہے یا اس سے کسی کی حوصلہ افزائی ہوسکتی ہے؟۔ علماء اس کی نشاندہی عوام کے سامنے کریں۔
خیر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ آئینِ پاکستان میں لکھا ہے کہ قرآن اورسنت کے مطابق قانون سازی ہوگی لیکن ہماری عدالتوں میں حرام خوری کا مال کمانے کی مقدار پر ہتک عزت کے دعوے ہوتے ہیں۔ جو اپنے لئے جتنے پیسے خرچ کرکے بڑا کیس لڑسکتا ہے وہ اپنی ہتک عزت میں اتنے پیسوں کا دعویٰ دائر کرسکتا ہے۔ مریم نواز کی ہتک عزت کروڑوں ،اربوں اور کھربوں میں ہوسکتی ہے لیکن ایک غریب خاتون کی عدالت میں عزت اتنی بھی نہیں جتنی رقم سے وہ اپنا کیس لڑسکے اور اگر معروضی حقائق کو دیکھا جائے تو اس غریب عورت کو اپنی عزت اتنی پیاری ہوگی کہ اس کا باپ پچاس مرتبہ بھی وزیراعظم کی کرسی تک پہنچے لیکن وہ اجنبی افراد کے ہجوم میں اس طرح سرِ عام اسٹیج پر ایک مرتبہ بھی گھل مل نہیں سکتی ہے۔
نبیۖ کی سیرت طیبہ اعلیٰ ترین نمونہ اسلئے نہیں ہے کہ لوگوں کیلئے قطعی طور پر قابلِ قبول نہ ہو بلکہ اعلیٰ ترین نمونہ کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے بدترین دشمن بھی اسکو قبول کرنے سے نہیں ہچکچاسکتے ہیں آج پاکستان میں قرآن وسنت کا یہی قانون نافذ کیا جائے کہ غریب وامیر کی عزت برابر ہے۔ جس پر بھی بہتان لگے تو اس کی پاداش میں روپے کا کھیل نہیں کھیلا جائے گا بلکہ اسی اسی کوڑے مارے جائیں گے۔80کوڑوں کی سزا سب امیر وغریب کیلئے برابر ہے لیکن امیر کیلئے زیادہ رقم کا جرمانہ بھی بڑی سزا نہیں ہے اور غریب کیلئے کم رقم کا جرمانہ بھی بڑی سزا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ عزت انمول چیز ہے ۔ انسان کی غیرت بھی گوارا نہیں کرتی ہے کہ اس کی عزت کی کوئی قیمت لگائی جائے اور جس عزت کی قیمت لگے تو وہ عزت نہیں بلکہ قابلِ فروخت دھندہ ہے۔ اسلام کوئی نایاب چیزوں پر عمل کا نام نہیں بلکہ انسانی خمیر کی اس فطرت کے مطابق رہنمائی کرنے والا ایسا دین ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی اشرف المخلوقات کیلئے نازل فرمایا ہے۔
اُم المؤمنین حضرت عائشہ کے خلاف رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی اور اس کی چال میں آنے والے مخلص مسلمانوں کی قرآن کریم نے خوب سرزنش کی ہے اوریہ سلسلہ روایات اور اپنوں پرایوں کے درمیان انتہائی تشویش کا باعث ہے۔ اہل تشیع کے ائمہ ومجتہدین نے ان کی توہین واہانت کو ناجائز قرار دیا ہے لیکن کچھ لوگ قرآن سے بھی مطمئن نہیں تو حضرت عائشہ کے خلاف توہین آمیز روش کے مظاہرے سے باز نہیں آتے ہیں۔مسلمانوں کو قرآن سے رہنمائی لینی چاہیے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اصل قرآن کے دو نسخے ملے جو ائمہ اہل بیت نے لکھے تھے۔ برطانیہ سے تصدیق ہوئی تو منظرعام پر لائیں گے، علامہ شبیر میثمی

شیعہ معروف عالم دین کے بیان سے نیا فتنہ کھڑا ہوگا ، اہل بیت کے مخالفین کو اہل بیت پر طعن وتشنیع کا موقع ملے گا کہ وہ قرآن کی تحریف کے قائل تھے۔

اَللّہُ نُوْرُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ مَثَلُ نُوْرِہ کَمِشْکَاةٍ فِیْہَا مِصْبَاح اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَةٍ اَلزُّجَاجَةُ کَاَنّہَا کَوْکَب دُرِّیّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبَارَکَةٍ زَیْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِیَّةٍ وَّّلَا غَرْبِیَّةٍ یَکَادُ زَیْتُہَا یُضِیئُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَار نُّوْر عَلٰی نُوْرٍ یَہْدِی اللّٰہُ لِنُوْرِہ مَنْ یَّشَآئُ وَیَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْم (النور:35)

اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے،اسکے نور کی مثال طاق کی طرح ہے جس میں چراغ ہو، چراغ شیشے میں ہو ، وہ شیشہ چکمدار ستارے کی طرح ہو،جو جل رہاہو زیتون کے مبارک درخت سے،جونہ مشرقی ہو اورنہ مغربی۔قریب ہے کہ اس کا تیل روشن ہوجائے ،اگرچہ اس کوآگ نہ چھوئے۔یہ روشنی پر روشنی ہے۔اللہ اپنے نور کی ہدایت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور اللہ لوگوں کو مثالیں دیتا ہے اور اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

سورۂ نور کی اس آیت میں اللہ نے اپنے نور کو جس انداز سے بتایا اور جو مثال دی، وہ بالکل واضح ہے۔ اللہ کے نور پر مشرقی اور مغربی ہواؤں اور تہذیب کے کچھ اثرات مرتب نہیں ہوتے اور قریب ہے کہ اس کی روشنی آگ چھوئے بغیر بھی دنیا میں بھڑک اٹھے۔ اسلام کے فطری دین کو مولوی اور پیروں کو پھونکیں مارنے کی بھی ضرورت نہیں بلکہ اس کی انقلابی روشنی مذہبی طبقات کی تحریکات کے بغیر بھی جل اُٹھ سکتی ہے جو پوری دنیا میں اسلامی انقلاب کا باعث بن جائے۔ علامہ اقبال اورقائداعظم محمد علی جناح کی علماء ومفتیان نے مخالفت کی یا پھر ان کی قیادت کے پیچھے آخری صفوں میں کھڑے ہوگئے ۔ افغانستان میں طالبان نے الیکشن کمیشن کا محکمہ ختم کردیاہے اسلئے کہ ان کو خوف ہے کہ اگر انتخابات کروائے تو کوئی اوراقتدار میں آسکتا ہے۔ ڈکٹیٹر شپ اور آپس کے کچھ یا زیادہ اختلافات کے باوجود افغانستان میں ایکدوسرے کے خلاف بدتمیزی کا وہ طوفان برپا نہیں ہے جو پاکستانی جمہوری انتخابات میں ہے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ” اہل غرب قیامت تک ہمیشہ حق پر رہیں گے” اور اس سے جمہوری نظام مراد ہے اسلئے کہ حضرت ابوبکر کی ہنگامی ، حضرت عمرکی نامزد گی، حضرت عثمان کی مختصر شوریٰ اور حضرت علی و حضرت حسن کی خلافت اچانک منعقد کرنے کے بجائے جمہوری طرزکے انتخابات رائے عامہ سے ہوتی تو امت میں اختلاف کی بنیاد نہ پڑتی۔ حضرت عمر، حضرت عثمان ، حضرت علی کی شہادت اوربنوامیہ وبنو عباس کاخاندانی قبضہ بھی نہ ہوتا۔ شیعہ سنی کے اپنے اپنے دلائل ہیں لیکن بحث کا ابھی فائدہ نہیں۔ حضرت حسن کے بیٹوں کے نام ابوبکرو عمر تھے ، حضرت حسین کے بیٹوں کے نام بھی ابوبکر و عمر تھے اورمیرے بیٹوں کے نام بھی ابوبکر وعمر ہیں۔
ہندوستان میں ایک شیعہ وسیم نے سپریم کورٹ میں قرآن کے خلاف مقدمہ کیا کہ اس میں دہشتگردی کی جہادی آیات ہیں، ہمارا مسلمانوں سے تعلق نہیں ۔ جس کے خلاف شیعہ سنی دونوںنے زبردست احتجاج کیا۔ پھر پاکستان میں شیعہ عالم دین نے انکشاف کیا کہ” اوریجنل قرآن کے دو نسخے مل گئے جو اہل بیت کے ائمہ نے لکھے تھے۔ برطانیہ سے اس کی تصدیق ہوتو منظر پر لائیں گے، شیعہ سنی میںاختلافات کا معاملہ بڑھ سکتا ہے اسلئے اس پر بات نہیں کروں گا”۔ علامہ سید جواد حسین نقوی نے سخت الفاظ میں تردید اور بھرپور وضاحت کی کہ شیعہ میں روایت پر ست اہلحدیث کی طرح کچھ عناصر گزرے ہیں جنہوں نے ضعیف روایات کا سہارا لیکر قرآن میں بھی تحریف کی بات لکھی، جس میں ایک معروف عالم کی کتاب ”فصل الخطاب” ہے لیکن اس نے پھر دوسری کتاب اس کی تردید میں لکھی ہے جو معروف نہیں ہوئی۔ شیعہ معروف عالم دین کے بیان سے نیا فتنہ کھڑا ہوگا ، اہل بیت کے مخالفین کو اہل بیت پر طعن وتشنیع کا موقع ملے گا کہ وہ قرآن کی تحریف کے قائل تھے۔ یزیدکے کارناموں کو پیش کیا جائیگا اور جن میں حضرت علی کا بغض ہے وہ اپنے بغض کا شیعانِ علی کے خلاف نیامحاذ کھڑا کرینگے۔
کالعدم سپاہ صحابہ کے مولانا رب نواز حنفی اور علامہ اورنگزیب فاروقی نے اپنی تقاریر میں کہا کہ وقت نے ثابت کردیا کہ مولانا حق نواز جھنگوی کا مؤقف بالکل درست تھا ۔ شیعہ کو جب بھی موقع ملے گا وہ اپنے قرآن کی تصدیق برطانیہ سے کروائیں گے کیونکہ موجودہ قرآن پر ان کا ایمان نہیں۔ علامہ شبیر میسمی نے اپنے بیان کی واضح تردید کردی کہ میرا مقصد یہ تھا کہ اہل بیت کے قرآنی نسخوں سے موجودہ قرآن کی تصدیق ہورہی ہے۔ حالانکہ پھر اختلاف بڑھنے کا اندیشہ کیونکر ہوسکتا تھا؟۔ علامہ شہر یارعابدی نے اپنے یوٹیوب چینل پر علامہ میسمی سے تردید کروادی ،جو متعصبانہ رویہ ہمیشہ نمایاں کرتا ہے ۔ ہماری چاہت ہے کہ دین میں کسی پر زبردستی نہ ہو اور ہرکوئی اپنے دفاع کا بھرپور حق اور دوسرے کی مخالفت کا حق رکھتا ہے۔ اسلام کے دامن میں ستر سے زیادہ متضاد فرقوں نے پناہ لی اور کچھ اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ خلافت پر شروع سے اختلاف رہاہے۔
قرآن کے حوالے سے شیعہ سنی تنازع کی نشاندہی ہوتی رہتی ہے اور امت مسلمہ کو اتفاق رائے سے قرآن کے مسئلہ پر واضح ہونا چاہیے کیونکہ دونوں طرف سے خراب معاملات موجود ہیںجن کی ہم نے اپنی کتابوں اور اخبار کے مختلف شماروں میں وضاحت کردی ہے۔اگر جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن میدان میں آگئے ، قرآن کے تحفظ اور آیات کی درست تشریح میں بھرپور کردار ادا کیا تو پھر بعید نہیں کہ اسلامی انقلاب آئے ۔ مولانا فضل الرحمن کو اپنے پرائے امام انقلاب مان لیں گے۔ سپاہ صحابہ بھی پھر ان کی ہم آغوش ہو گی۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے استاذ مولانا مفتی عبدالمنان ناصراور نمائندہ نوشتہ دیوار امین اللہ بھائی

جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے استاذ مولانا مفتی عبدالمنان ناصراور نمائندہ نوشتہ دیوار امین اللہ بھائی

لورالائی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن نیوٹاؤن کراچی کے سابق استاذ حضرت مولانا مفتی عبد المنان ناصر مدظلہ العالی جو بانگی مسجد رنچھوڑلائن کراچی کے امام و خطیب بھی رہے اور پھر بلوچستان حکومت میں قاضی کے عہدے پر فائز ہوئے۔ تربت اور دیگر شہروں میں فرائض انجام دئیے، اللہ تعالی انکی عمر میں برکت عطا فرمائے۔ نوشتۂ دیوار کے نمائند گان عبدالعزیز اور امین اللہ ان کی خدمت میں حاضری دیتے ہیں۔ اس مرتبہ آپ نے رات کومہمان ٹھہرایا۔اللہ تعالی علماء حق کی شوکت میں اضافہ فرمائے۔ جب سید عتیق الرحمان گیلانی نے تحریک شروع کی تھی تو استاد مفتی عبدالمنان ناصر سے کسی نے کہا کہ اس نے مہدی کا دعویٰ کیا ہے۔ استاذ نے کہا کہ اگر یہ وہی عتیق ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں اور ثابت بھی کردیگا۔البتہ کوئی اور ہے تو میںکچھ نہیں کہہ سکتا ۔ عتیق گیلانی کی کتاب تحریر1991ء کانیگرم”خلافت علی منہاج النبوت کے وجود مسعود کا اعلان عام”میں اس کا ذکربھی ہے۔ جب عتیق گیلانی نے جامعہ بنوری ٹاؤن میں داخلہ لیا تو علم الصرف کے استاذمفتی عبدالمنان ناصر اور مولانا عبدالقیوم چترالی تھے جبکہ درجہ اولیٰ کے دیگر فریقوں کو مفتی عبد السمیع شہید پڑھاتے تھے ۔مولانا عبدالمنان ناصر نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ میں نے طالب علمی کے اٹھارہ سالوں اور تدریس کے دوران اتنا قابل انسان طلبہ اور اساتذہ میں نہیں دیکھا ۔ ایک مرتبہ سرِراہ مولانا عبدالسمیع نے عتیق گیلانی سے صیغہ پوچھا اور اسکا پس منظر یہ تھا کہ ہر جمعرات کو مفتی عبدالسمیع سارے سیکشنوں کے طلبہ کو بلا کر مناظرہ کرواتے لیکن عتیق گیلانی اس میں شرکت سے انکار کرتے تھے۔عتیق گیلانی کے سیکشن کو یہ شکایت پیدا ہوگئی تھی کہ ہمیں استاذ اچھا نہیں پڑھاتے لیکن عتیق کہتے تھے کہ ہمیں بہت اچھا پڑھایا جارہاہے۔ عتیق گیلانی کے سیکشن میں مفتی اعظم امریکہ مفتی منیر احمد اخون بھی تھے ۔عتیق گیلانی نے بلاسوچے سمجھے مولانا عبدالسمیع کو جواب دیاکہ مجھے اس صیغے کا پتہ نہیں اور ایک چھوٹا سوال بھی کر دیا کہ ماضی کے صیغوں میں ضربتما دو مرتبہ کیوں لکھا ہے جبکہ صیغہ ایک ہے۔ مفتی عبد السمیع سے اسکا جواب نہیں بن رہا تھا اور آخر کار تقریباً گھنٹوںبحث میں بات یہاں تک پہنچی کہ مفتی عبد السمیع نے قرآن کا مصحف منگوا کر کہا کہ یہ اللہ کی کتاب ہے؟۔ عتیق گیلانی نے کہا کہ نہیں یہ نقش کلام ہے۔ مفتی عبدالسمیع نے کہا کہ آپ کافر ہو گئے اسلئے کہ اللہ کی کتاب کا انکار کر دیا۔ عتیق گیلانی نے کہا کہ مولانا یوسف لدھیانوی کے پاس چلتے ہیں وہ بھی کافر ہو گئے اسلئے کہ یہ مسئلہ انہوں نے بتایا ۔اسوقت طلبہ کا بڑا ہجوم اکھٹا ہو گیا تھا، مولانا عبدالسمیع نے عتیق گیلانی سے غصے میں کہا کہ” تم افغانی ساری کتابیں پڑھ کر آتے ہو، تمہارا مقصد پڑھنا نہیں ہمیں ذلیل کرنا ہے”۔ ایک طالب علم نے عتیق گیلانی کا بازو پکڑا اور مسجد کے سائیڈ میں لے جاکر کہا کہ صوفی صاحب بیٹھ کر اپنا ذکر کرو۔ دوسرے دن پورے مدرسے میں یہ چرچاتھا کہ صوفی صاحب تو علامہ تفتا زانی ہیں۔ مفتی عبدالسمیع کے بھی چھکے چھڑادئیے۔ عتیق گیلانی کو پتہ چلا تو انہوں نے کہا کہ میں قابل نہیں، مفتی عبد السمیع نالائق ہیں۔ استاذ مفتی عبدالمنان سے یہی سوال پوچھتا ہوں۔ مفتی عبدالمنان نے جواب دیا کہ مبتدی طالب علم کو سمجھانے کیلئے یہ صیغہ الگ الگ لکھ دیا تا کہ مذکر اور مونث کیلئے الگ الگ پہچان ہو۔ آگے کی کتاب ”فصول اکبری” میں یہ صیغہ ایک دفعہ لکھا ہے۔ جب عتیق گیلانی نے مولانا بدیع الزمان سے اصول فقہ کی کتابوں میں یہ تعلیم حاصل کی کہ کتابت کی شکل میں قرآن کے مصاحف اللہ کا کلام نہیں تو تعجب نہیں ہوا لیکن جب مفتی محمد تقی عثمانی کی کتاب ”فقہی مقالات” میں یہ دیکھا کہ سورہ فاتحہ کو علاج کیلئے پیشاب سے لکھنا جائز ہے تو پھر اصول فقہ کی کتابوں میں قرآن کی غلط تعریف کا معاملہ بھی کھل گیا اور اپنے استاذ مفتی محمد نعیم بانی جامعہ بنوریہ سائٹ ایریا سے بھی اس پر بات کی اور انہوں نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کر لیا اسی طرح مولانا محمد خان شیرانی مولانا عطاء الرحمان اور قاری عثمان سے بھی اس پر بات کی تھی۔ علاوہ ازیں انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر منظور احمد سے بھی قرآن کی اس تعریف کی غلطی منوائی تھی جو امریکہ اور کراچی یونیورسٹی میں فلسفے کے پروفیسر رہے ہیں اور اصول فقہ میں یہ غلط تعریف علم کلام کی وجہ سے آئی تھی جس سے امام ابوحنیفہ نے توبہ کی تھی۔
مولانا سید محمد یوسف بنوری کے ایک شاگرد نے سقوطِ طالبان حکومت کے بعد ظہورمہدی پر ایک کتاب میں پاکستان سے ڈنڈے والی سرکار کا بھی ذکر کیا اور ملاعمر کے حوالے سے لکھا کہ وہ بھی ایک مہدی تھے لیکن اس میں حماقت یہ کی ہے کہ ملاعمر سے پہلے بھی ایک مہدی کا ذکر کیا ہے۔ جب ملاعمر سے پہلے مہدی آیا نہ ہو تو پھر دوسرے نمبر کے مہدی کا تصور کیسے ہوسکتا تھا؟۔ عربی یوٹیوب چینل اسلامHDمیں یہ انکشاف ہے کہ فتنہ الدُھیما کا حدیث میں ذکر ہے جس میں99فیصد لوگ قتل ہوں گے۔ یہ فتنہ مہدی کے40سالہ، منصور کے20سالہ اور سلام اور امیرالعصب کے ادوار کے بعد ہوگا۔ پھر آخر میں دجال اور آخری مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ظہور ہوگا۔ اس میں نبیۖ کے بعد مختلف فتنوں اور صدیوں کے سرے پر مجددوں کے ادوار لکھے ہیں اور2022ء کو بھی ایک مجدد کا دور قرار دیا ہے اور اس میں پہلے مہدی کی خلافت کے آغاز کی بھی بات کی ہے۔ اس چینل میں ایک شخص نے مہدی امیر اول کا نام بھی جابر بتایا ہے۔جب مولانا شیرانی اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین تھے اور گیلانی نے طلاق کے حوالے سے سمجھایا تو شیرانی نے کہا کہ ”آپ ہم پر زبردستی سے اپنی بات مسلط مت کرو”۔
یوٹیوب پر عربی میں گھنٹوں کے حساب سے مہدی کے ظہور کے حوالے سے کئی کئی خواب ایک ایک چینل میں اپ لوڈ ہورہے ہیں۔ علامہ اقبال نے کہاکہ
ہوئی جس کی خودی پہلے نمودار وہی مہدی وہی آخرزمانی
قرآن کی واضح آیات اور سنت کی طرف توجہ کئے بغیر اصلاح نہیں ہوسکتی اور یہی بات ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے ہماری تحریک کیلئے لکھ دی تھی۔محمد فاروق شیخ

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اللہ اور اسکے رسول ۖ اُمت سے سخت ناراض ہیں ،چار راتوں سے سو نہ سکا ۔ طالبان وزیراعظم ملامحمد حسن

اللہ اور اسکے رسول ۖ اُمت سے سخت ناراض ہیں ،چار راتوں سے سو نہ سکا ۔ طالبان وزیراعظم ملامحمد حسن

افغانستان کے طالبان نے نہ صرف ڈیورنڈ لائن کی باڑ اکھاڑ پھینکی ہے بلکہ اٹک تک پیچھا کرنے کی بات بھی ویڈیو میں موجود ہے۔ افغان طالبان کے وزیراعظم ملامحمدحسن اخون نے روتے ہوئے ایک خواب بتایا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ۖ اس امت سے سخت ناراض ہیں جس کی وجہ سے چار راتوں سے سو نہیں سکا ہوں۔ ظاہر شاہ کے وقت سے مختلف آزمائشوں کے ہم شکار ہیں اور امتحانات سے گزر رہے ہیں۔ پہلے بھی آزمائش سے نکلے تھے اور اب بھی نکل گئے ہیں لیکن ہمیں اپنی اصلاح کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ میں تمام ولایتوں (صوبوں) کے حکمرانوں کو اپنی شخصی اصلاح اور تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کر تا ہوں۔ ملاعبدالغنی برادر اور کسی سے میں کوئی عناد نہیں رکھتا ہوں۔
قرآن وسنت کا نفاذ ہمارے لئے ضروری ہے۔ دشمن ہمیں قرآن وسنت سے دور رکھنا چاہتا ہے۔

تبصرہ نوشتہ دیوار
پچھلے مہینے افغان طالبان کی حکومت نے خواتین کی آزادی اور حقوق کی بھی بحالی کا اعلان کیا تھا جو خوش آئند ہے۔ ایک بات پوری امت مسلمہ کے تمام افراد، شخصیات، قائدین، جماعتوں، ملکوں اور اداروں کو یاد رکھنی چاہیے کہ سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ نہ صرف اپنی اصلاح بلکہ اپنی ذمہ داری کا احساس بھی کرنا چاہیے۔ یہ اتنا اہم نہیں ہے کہ دوسرے کی اصلاح کی جائے اور گلہ کیا جائے کہ ہمارے ساتھ یہ ہورہاہے اور وہ ہورہاہے بلکہ اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری کیسے پوری کررہے ہیں اور ہمارے اندر کتنی تخریب ہے جس کی ہم پر اصلاح کرنا ضروری ہے؟۔ جب وزیرستان میں دہشت گرد ظلم کررہے تھے تو ہمارے خاندان نے ان کو سپورٹ کیا تھا۔ جب ہم پر حملہ ہوا تو میں نے اپنی غلطی کو اجاگر کیا تھا۔ جب اسلام آباد میں طالبان کے حامیوں نے اپنا نعرہ تبدیل کیا تھا تو ہم نے طعنہ نہیں دیا کہ اب تمہاری سمجھ کھل گئی ہے؟۔ بلکہ ان کی آواز سے اپنی آواز ملائی کہ واقعی تم مظلوم ہو! یہ نہیں کہا کہ جب طالبان کیساتھ حملے کے بعد محسود قوم کے تمام مشیران آگئے اور پھر کانیگرم میں تاریخ رکھ دی تو اپنے لونڈے باز طالبان نے تمہیں بزدل بناکر آنے نہیں دیا ۔
کانیگرم کے ایک برکی دوست نے کہا کہ ”ایک محسوددوست نے مجھ سے کہا کہ تم لوگ شیعہ کی طرح قوم پرست ہو۔جب سے کانیگرم کے پیروں کیساتھ واقعہ پیش آیا تو کانیگرم کے لوگ طالبان سے کنارہ کش ہوگئے ۔ جسکے جواب میں میں نے کہا کہ ہم تو ہیں شیعہ۔ ہم طالبان کیساتھ کیسے ہمدردی رکھ سکتے ہیں”۔
حالانکہ کانیگرم کے بہت سے برکی بھی طالبان کیساتھ اپنے جذبے اور خوف کی وجہ سے طالبان کیساتھ اُچھل کود رہے تھے اور ہمارے خاندان کے بعض لوگ طالبان سے اپنے بہتر تعلقات کے خواہاں تھے۔ محسود اور وزیر خاندانوں نے اپنے بڑوں کی مارا ماری دیکھ لی تو بھی زبان سے کوئی جنبش نکالنے کی ہمت نہیں دکھائی اور آج جب کوئی محسود مارا جاتا ہے تو اسکے خاندان والے کہتے ہیں کہ اس نے اپنے بچوں کو پاک فوج میں اپنی خدمات اور فرائض انجام دینے کیلئے بھیجنے کی خواہش پال رکھی تھی۔ ہمیں کسی کو کم تر اور نفرت کی نگاہ سے دیکھنے کی بھی ضرورت نہیں ہے اور خود کو بھی برتر اور کم تر سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ چھت پر بیٹھا ہوا فرد فرش پر بیٹھے ہوئے فرد کو ایسے انداز سے دیکھے کہ وہ اونچا ہے یا فرش والا سمجھے کہ وہ نیچا ہے تو اس سے برتری اور کم تری کا احساس پیدا ہونا آنکھوں کا ہی نہیں بلکہ دل کا بھی نابینا پن ہے۔ ہم یہ سوچتے اور دل سے سمجھتے ہیں کہ اگر ہماری جگہ طالبان ہوتے اور ہم طالبان کی جگہ پر ہوتے تو ہوسکتا ہے کہ زیادہ مظالم کرتے لیکن بس اطمینان کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبیۖ کو فتح نصیب کردی تو ابوسفیان اور اس کی بیوی ہند کیساتھ حسنِ سلوک رکھا اور جب کربلا میں یزید کے لشکر کو موقع ملا تو حضرت حسین ، آپ کے خاندان اور ساتھیوں کو شہید کردیا گیا۔
ہمارے لئے اطمینان اور اعزاز کی بات صرف یہی ہے کہ اللہ نے ہمیں ظلم کا موقع فراہم نہیں کیا تھا۔ جب ہمیں اللہ تعالیٰ موقع دے تو ظلم کرنے سے بھی پناہ دے ۔یہ اس کا احسان ہوگا لیکن اس کو احساس برتری نہیں بلکہ ایک خود اعتمادی کے درجے میں سمجھنا چاہیے۔ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ نے دنیا کیلئے نہیں بلکہ اپنی اس آخرت کیلئے بھی رکھی ہیں جس کے جزا وسزا کا بار بار اللہ نے قرآن میں ذکر کیا ہے اور جب تک آخرت کے میدان میں سرخروئی نہ ملے تو بنوامیہ ، بنو عباس اور خلافت عثمانیہ کی طرح خاندانی خلافتوں کے ملنے سے بھی کچھ حاصل نہ ہوگا۔
لوگوں کو بہت بڑا اعتراض ہے کہ چند مسائل کا بار بار ذکر ہوتا ہے لیکن جب تک یہ حل نہ ہوجائیں تو اگر پوری دنیا میں انقلاب آنا ہے تو ان مسائل کے حل سے ہی آئے گا۔ کیا مدارس اور مساجد میں تین طلاق اور حلالے کے مسائل اب حل ہوگئے ہیں؟۔ اگر نہیں ہوئے ہیں تو پھر جن لوگوں کی عورتوں کو حلالے کے پراسیس سے گزارا جائے تو وہ اس لعنت اور بے غیرتی کے عمل سے گزرنے کے بعد ہمارے انقلاب پر لعنت نہیں بھیجیں گے؟۔ تبلیغی جماعت ہمارے سروں کی تاج اور ہماری محسن ہے اسلئے کہ دین کی طرف دعوت دینے کا اہم فریضہ یہ لوگ ادا کررہے ہیںلیکن جن چھ باتوں کو دہرایا جارہاہے ،اس سے کسی کو ذاتی فائدہ یا نقصان ملتا ہے۔ کیا تین طلاق کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا تو پھر رجوع نہ کرنے میں یا پھر حلالہ کروانے میں کامیابی ہے؟۔ظاہر ہے کسی میں بھی کامیابی نہیں۔
اگر لاالہ الااللہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین دلوں میں آجائے اور غیروں کے حکموں میں ناکامی کا یقین ہمارے دل میں آجائے تو پھر تبلیغی جماعت کے مخلص کارکن جب غصے میں بیوی کو تین طلاق دیتے ہیں اور کسی مفتی اور عالم سے حلالہ کروالیتے ہیں تو غیرت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
کیا کسی صحابی کا ایسا واقعہ ہے کہ اس نے ایک ساتھ تین طلاق دیدئیے ہوں اور نبیۖ نے کسی سے حلالہ کروانے کا حکم دیا ہو؟۔ تبلیغی جماعت والے کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ ۖ کا مطلب اللہ کے رسول کے طریقوں میں کامیابی اور غیروں کے طریقوں میں ناکامی کا یقین ہمارے دلوں میں آجائے۔
اللہ کے احکام قرآن میں ہیں اور اللہ کے احکام پر عمل کا طریقہ سنت ہے۔غسل ، وضو اور نمازکا حکم قرآن میں ہے اور عملی طور پر غسل کرنا، وضو کرنا اور نماز پڑھنا سنت ہے۔ حضرت مولانا محمد الیاس نے اسی مقصد کیلئے جماعت بنائی تھی۔ نماز،غسل اور وضو کے فرائض قرآن وسنت میں نہیں ہیں۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی نے دیوبندی اکابر سے قرآن وسنت کی طرف رجوع کرنے کا راستہ روک لیا تھا۔ فقہی مسائل میں فرائض اور واجبات کا تعلق قرآن وسنت سے نہیں تقلیدی مسائل سے ہے۔ مولانا الیاس کی چاہت تھی کہ مسائل علماء کیلئے چھوڑ دئیے جائیں اور فضائل سے قرآن کے احکام اور نبیۖ کی سنتوں کو زندہ کردیا جائے۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ، حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن، مولانا انور شاہ کشمیری، مولانا عبیداللہ سندھی سب اکابر کا اصلی مؤقف یہی تھا۔ بریلوی مکتبۂ فکر کے لوگ بھی غیرمتنازع تبلیغی جماعت کیساتھ عقیدت ومحبت رکھتے تھے۔ تبلیغی نصاب میں شامل ”فضائل درود” کی وجہ سے ان کی یہ غلط فہمی دور ہوجاتی تھی کہ یہ وہابی لوگ نبیۖ کے دشمن ہیں۔ بعد میں تبلیغی جماعت نے سعودی عرب کی وجہ سے تبلیغی نصاب کا نام” فضائل اعمال” رکھ دیا۔ اور یہ صرف دیوبندی فرقے کی طرف منسوب ہوگئی ۔ حالانکہ اس میں زیادہ تر لوگ بریلوی مکتب سے تبلیغی جماعت کا حصہ بن گئے تھے۔
مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب” بہشتی زیور” کے مقابلے میں بریلوی مکتبہ فکر نے ” بہار شریعت ” کتاب لکھی ہے۔ اس کی ابتداء میں عقیدے کے حوالے سے یہ وضاحت ہے کہ ” نبیۖ اور سارے انبیاء بشر ہیں”۔ اگر اس کتاب پر اتفاق کرلیا جاتا تو دیوبندی بریلوی اختلافات کو اتنی زیادہ ہوا نہیں مل سکتی تھی۔ بہارِ شریعت میں ایک دوسری اہم بات یہ ہے کہ فرائض کی دوقسمیں ہیں ۔ ایک فرائض عینی ہیں۔جیسے نماز، روزہ ، زکوٰة اور حج ۔اس کامنکر کافر ہے ۔ دوسرے فرائض ظنی ہیں جیسے غسل ، وضو اور نماز کے فرائض۔ دلیل کی بنیاد پر ان فرائض سے اختلاف کرنا اور ان کو فرائض نہ ماننا جائز ہے لیکن دلیل کے بغیر ان کا انکار کرنا گمراہی ہے۔ بہارشریعت بریلوی مکتب نے فقہ حنفی کی بنیاد پر لکھی ہے۔
بریلوی مکتب نے دیوبندی اکابر پر اسلئے گمراہی کے فتوے لگائے تھے کہ کسی دلیل کے بغیر فقہی تقلید اور فرائض ظنی کو بدعت قرار دے رہے تھے۔ شاہ اسماعیل شہید نے اپنی کتاب ” بدعت کی حقیقت ” میں تقلیدکو چوتھی صدی کی بدعت قرار دیاتھا۔ اس کتاب پر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری نے تقریظ بھی لکھ دی ہے۔ جبکہ علامہ سید محمد یوسف بنوری کے والد محترم حضرت مولانا محمدزکریا بنورینے فرمایا تھا کہ ” ہندوستان میں فقہ حنفی کی حفاظت مولانا احمد رضا خان بریلوی کی وجہ سے ہوئی ہے”۔ اور مولانا سید محمد یوسف بنوری کے استاذ مولانا انور شاہ کشمیری نے فرمایا تھا کہ ”میں نے قرآن وسنت کی کوئی خدمت نہیں کی ، فقہ کی وکالت میں اپنی ساری زندگی ضائع کردی”۔ اب وقت آگیا ہے کہ مولانا عبدالحق اکوڑہ خٹک، مولانا سید محمدیوسف بنوری ، مفتی محمد شفیع کراچی، مولانا ادریس کاندھلوی، مولانا سید محمد میاں لاہوری اور دیگر پاکستان کے دیوبندی اکابر کے استاذ مولانا محمدانور شاہ کشمیری کی آخری خواہش کو عملی جامہ پہنادیں۔جس کو بہارشریعت کا مکتب بھی دل وجان سے ضرورتسلیم کرلے گا۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن ، مولانا الیاساور مولانا عبیداللہ سندھی نے اسی انقلاب کیلئے جدو جہد فرمائی تھی۔
نبیۖ اور خلافت راشدہ کے دور میں غسل کے فرائض اور اس پر اختلاف کا تصور نہیں تھا۔ حضرت شاہ اسماعیل شہید نے لکھا ہے کہ پہلی تین صدیوں میں جو فقہی مسائل پیدا ہوئے ہیں وہ خیرالقرون میں شامل ہیں۔جس کا حدیث میں ذکر ہے کہ نبیۖ نے فرمایا کہ خیرالقرون قرنی ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم ”بہترین دور میرا ہے اور پھر جو اس کے ساتھ ملے ہوئے لوگ ہیں اور پھر جو اس کے ساتھ ملے ہوئے لوگ ہیں”۔ عام طور پر اس حدیث سے صحابہ کرام ، تابعین اور تبع تابعین مراد لئے جاتے ہیں۔
شاہ ولی اللہ نے لکھا کہ ” اس حدیث میں پہلا دور نبیۖ کا دور تھا۔ دوسرا دور حضرت ابوبکر و حضرت عمر کا تھا اور تیسرا دور حضرت عثمان کا تھا۔ جبکہ حضرت علی کے دور میں خلافت منتظمہ نہیں تھی اسلئے خیرالقرون کے تین ادوار میں آپ کی خلافت کادور شامل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کیساتھ خلافت کا وعدہ کیا تھا اور عربی میں جمع کا اطلاق کم ازکم تین افراد پر ہوتا ہے، پہلے تین خلفاء کیساتھ یہ خلافت کا وعدہ پورا ہوگیا تھا۔ اس سے خوارج خوش ہونگے کہ حضرت علی کے دور کو خلافت سے نکال دیا تو آپ کا دور خلافت راشدہ میں شامل تھا اور قیامت تک کیلئے حضرت علی ایک امام انقلاب کی حیثیت سے قابل اتباع ہیں”۔
مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھا ہے کہ” حضرت شاہ ولی اللہ سے مجھے تھوڑا سا اختلاف ہے۔ میرے نزدیک حضرت ابوبکر کا دور نبیۖ کے دور میں شامل تھا اسلئے کہ نظام میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ دوسرا دور حضرت عمر کا تھا جہاں کچھ تبدیلیاں ہوئی تھیں۔ حفظ مراتب کے اعتبار سے مختلف لوگوں میں مال کی تقسیم کی گئی تھی اور اگرچہ سرمایہ دارانہ نظام نے پورا تسلط قائم نہیں کیا تھا لیکن اس کا پھر بھی آغاز ہوچکا تھا جبکہ حضرت ابوبکر کے دور میں بقدر ضرورت وظائف ملتے تھے۔ سوشلسٹ اور کمیونسٹ نظام میں بھی ایک یہ ہے کہ محنت اور صلاحیت کے مطابق تنخواہ دی جائے اور دوسرا یہ کہ افراد اپنی محنت اپنی صلاحیت کے مطابق ہی کریں لیکن تنخواہ ضرورت کے مطابق لیں۔ گویا حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے نظام حکومت کو مولانا عبیداللہ سندھی نے روس کے دورے کے بعد اپنی بدلی ہوئی نگاہ سے تھوڑا مختلف محسوس کیا تھا اور دیانتداری سے بیان بھی کردیا تھا۔
حدیث میں نبی ورحمت کے دور کا ذکر ہے۔ پھر خلافت راشدہ کا ذکر ہے اور پھر امارت کا ذکر ہے اور پھر بادشاہت کا ذکر ہے اور پھر جبری حکومتوں کا ذکر ہے اور اس اعتبار سے نبوت ورحمت کا دور سب سے اچھا ہے۔ پھر خلافت راشدہ کا دوسرا نمبر ہے اور پھر امارت کاتیسرا نمبر ہے جس میں اگرچہ یزید جیسے لوگ تھے تو پھر امیرمعاویہ، معاویہ بن یزید اورہند زوجہ یزید اور حضرت عمر بن عبدالعزیز جیسے لوگ بھی تھے ،اسی طرح عباسی دور میں بھی اچھے برے لوگ تھے۔ خلافت عثمانی میں بھی اچھے اور برے دونوں قسم کے لوگ تھے اسلئے لوگ خلافت عثمانیہ کھونے پر روتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے عرب وعجم مسلمانوں کیساتھ خلافت کا وعدہ پورا کیا تھا اوراب جمہوری اور جبری دور کے بعد پھر خلافت علی منہاج النبوہ کا دور ہے۔
جب حضرت ابوبکر نے زبردستی زکوٰة کی وصولی کا فیصلہ کیا تو بعض واقعات کی وجہ سے نبوت ورحمت کے دور اور خلافت راشدہ کے دور میں فرق واضح ہوا۔ حضرت عمر کے دور اور حضرت عثمان کے دور میں معاملات مزید آگے بڑھ گئے۔ حضرت علی اور حضرت حسن کے دور میں خلافت راشدہ کا نظام بہت زیادہ فتنوں کا شکار تھا۔ حضرت علی کے حق میںاسلئے بہت ساری احادیث ہیں ،حضرت حسن کی صلح کی توثیق ہے۔ اگر بنو اُمیہ ، بنو عباس، خلافت عثمانیہ و مغل سلطنت اور خاندان غلاماں نے خاندانی بنیاد پر حکومتیں کی ہیں تو بنی فاطمہ نے بھی اقتدار کی منزل حاصل کی ہے۔ حضرت علی، حضرت حسن اور حضرت حسین کے بعد امامیہ کے باقی ائمہ نے بنو اُمیہ اور بنو عباس کے ادوار میں بہت امن و سکون کے ساتھ زندگی گزاری ہے۔ جبکہ امام حسن کی اولاد پر عباسیوں نے مظالم ڈھائے تھے۔
بار امانت میں خود اعتمادی کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ جدوجہد کرنے کے بعد منزل ملے یا نہ ملے لیکن انسان احساس محرومی کا شکار نہ ہو۔ ائمہ اہل بیت کے برعکس ان کے نام لیوا سب سے زیادہ احساس محرومی کا شکار نظر آتے ہیں۔
خلفاء راشدین کے دور میں زبردستی سے زکوٰة کی وصولی کے مسئلے سے بڑا معاملہ نماز کیلئے زبردستی اور سزاؤں کا تصور تھا۔ جس نے اسلام کو اجنبیت میں لوٹادیا۔ جن ظنی فرائض کے تصورات قرآن و سنت اور خلفاء راشدین کے ہاں نہیں تھے ان کا وجود اور ان کی تقلید اسلام کو اجنبیت کی طرف دھکیلنے کی زبردست انتہاء تھی۔ بہار شریعت میں دلیل کے ساتھ غسل ، وضو اور نماز وغیرہ کے فرائض کی مخالفت کا جواز دیا گیا ہے۔ احناف کے نزدیک غسل کے تین فرائض ہیں۔ (1)منہ بھر کر کلی کرنا۔ (2)ناک کی نرم ہڈی تک پانی پہنچانا۔ (3)پورے جسم پر ایک مرتبہ پانی بہانا۔ شوافع کے نزدیک غسل میں پہلے دو فرائض نہیں بلکہ سنت ہیں۔ مالکیہ کے نزدیک جب تک پورے جسم کو مل مل کر نہ دھویا جائے تو فرض پورا نہ ہوگا۔ غرض کسی ایک فرض پر بھی اتفاق نہیں ہے۔ اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ وضو کی آیت کے بعد اللہ نے فرمایا وان کنتم جنبًا فاطھروا ”اگر تم جنبی ہو تو خوب پاکی حاصل کرو” ۔ شوافع کے نزدیک پہلے دو فرائض وضو میں سنت تو غسل میں بھی سنت ہیں۔ احناف کے نزدیک غسل طہارت میں مبالغہ ہے اس وجہ سے پہلے دو فرائض ہیں۔ مالکیہ کے نزدیک جب تک مل مل کر پورا جسم نہیں دھویا جائے تو طہارت میں مبالغے پر عمل نہیں ہوگا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ولا جنبًا الا عابری السبیل حتیٰ تغتسلوا ”اور نہ نماز کے نزدیک جنبی حالت میں جاؤ مگر یہ کہ کوئی مسافر ہو یہاں تک کہ نہالو”۔ اس آیت سے نہانے کو فرض قرار دیا گیا ہے اور وضو کے مقابلے میں نہانا طہارت میں مبالغہ ہے ۔
رسول اللہ ۖ ، خلفاء راشدین ، صحابہ کرام اور مدینہ کے سات فقہاء تابعین نے اس طرح کے ظنی فرائض بنانے اور اس میں اختلافات ڈالنے کی حماقت نہیں کی ہے۔ اگر بریلوی مکتبہ فکر کو دلیل کی بنیاد پر سمجھایا جائے تو وہ ماننے کو بھی تیار ہوجائیں گے۔ افغانستان میں دیوبندی مکتبہ فکر کے طالبان کی حکومت قائم ہوگئی ہے اور اب وہ دلیل کے ساتھ نہ صرف قرآن و سنت کی طرف متوجہ ہوسکتے ہیں بلکہ پوری دنیا میں ایک زبردست انقلاب لاسکتے ہیں اسلئے کہ مولوی بیچارہ ایک کمزور حیثیت رکھنے والا شخص ہوتا ہے جس کو نماز پڑھانے کیلئے محلے والے تنخواہ پر رکھتے ہیں۔ اور جب اس سے کوئی اختلاف ہوجاتا ہے تو اس کو مسجد سے بھگادیتے ہیں۔ طالبان کے پاس اقتدار ہے اور اس اقتدار کا درست استعمال بہت ضروری ہے۔ تین طلاق سے رجوع اور حلالہ کے بغیر باہمی اصلاح کیلئے ہم نے بفضل تعالیٰ بہت تفصیل سے دلائل دئیے ہیں۔ اگر طالبان اس کو سمجھ کر حلالہ کے خاتمے کا اعلان کریں گے تو ہندوستان اور پاکستان کی حکومتیں اور عوام ان کے اس اقدام کو بہت زبردست خراج تحسین پیش کریں گی۔
جب لوگوں کو معلوم نہیں تھا تو عورتوں کو حلالہ کے ذریعے سے زندہ دفن کرنا اور میاں بیوی کے درمیان جدائی پیدا کرنا ایک جاہلانہ مجبوری تھی۔ اب جب یہ ثابت ہوگیا ہے کہ قرآن و سنت میںمروجہ حلالے کا کوئی تصور نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے عدت کے اندر ، عدت کی تکمیل پر اور عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعد بھی بار بار معروف طریقے سے باہمی رضامندی کی بنیاد پر رجوع کی اجازت دی ہے تو اللہ اور اس کے رسول ۖ کی ناراضگی کا طالبان وزیر اعظم کا خواب میں دیکھنا ایک تنبیہ ہے جس کو سُود کو جواز فراہم کرنے والے نہیں سمجھ سکتے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv