پوسٹ تلاش کریں

We cannot get out of the current predicament without bringing the true face of Islam to the world! There were a lot of deaths in Afghanistan

اسلام کا حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے لائے بغیر ہم موجودہ دور کی مشکل سے نہیں نکل سکتے ہیں ! افغانستان میں ہلاکتوں کا ڈھیر لگا

پاکستان اور دنیا بھر میں بدامنی، بدانتظامی، اخلاق کی تباہی ،جھوٹ اورلوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے ۔شیطانی قوتیں اسلام کو سب سے زیادہ خطرہ قرار دیتی ہیں۔ حالانکہ اسلام اور مسلمانوں کا اس تباہی میں عشر عشیر کا بھی کردار نہیں ۔ دونوں جنگ عظیم میں لاکھوں افراد اور ایٹمی جنگ میں کافر قوتیں ایک دوسرے سے نبرد آزما تھیںاور تیسری جنگ عظیم بھی برپا ہو تو امریکہ وروس اور چین وکوریا اس میں مرکزی کردار ہوںگے لیکن برصغیر پاک وہند کی بہت بڑی بدقسمتی ہوگی کہ ہندو اور مسلمانوں کو عالمی قوتیں لڑائیں۔ اس میں شک نہیں کہ علامہ اقبال نے ”ابلیس کی مجلس شوریٰ ”میں شیطان کیلئے آئندہ اصل خطرہ اسلام سے قرار دیا لیکن وہ کونسا اسلام ہے؟۔ صوفی، ملا ، مجاہد، سیاستدان، ڈکٹیٹر کا اسلام ؟ یا پھر اللہ کا اسلام؟۔ سب سے پہلے ہم نے اللہ کے اسلام کو دنیا کے سامنے واضح کرنا ہوگا تاکہ شیطان کی آلۂ کار قوتیں اپنے مشن اور انسانیت دشمنی سے باز آجائیں۔
کیا اسلام میں جہاد اوردوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کا احترام ہے؟۔
اذن للذین یقٰتلون بانھم ظُلموا وان اللہ علی نصرھم لقدیرO الذین اُخرجوا من دیارھم بغیر حقٍ الا ان یقولواربنا اللہ ولولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعضٍ لھدمت صوامع وبیع وصلوٰت و مساجدیذکر فیھااسم اللہ کثیرًاو لینصرن اللہ من ینصرہ ان اللہ لقوی عزیزOالذین ان مکنٰھم فی الارض اقاموا الصلوٰة واٰتوا الزکوٰة وامروا بالمعروف ونھو عن المنکر وللہ عاقبة الامورOو ان یکذبوک فقد کذبت قبلھم قوم نوحٍ وعادو ثمودO وقوم ابرٰھیم وقوم لوطٍO واصحٰب مدین وکُذب موسٰی فاملیت للکٰفرین ثم اخذتُھم فکیف کان نکیرO
” اجازت دی گئی ہے ان لوگوں کو قتال کی اسلئے کہ ان کیساتھ ظلم کیا گیا اور اللہ ان کی نصرت کرنے پر قادر ہے۔وہ لوگ جو نکالے گئے اپنے علاقے سے بغیر حق کے الا کہ وہ یہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اللہ ہے۔اور اگر اللہ بعض لوگوں میں بعض کے ذریعے قوتِ مدافعت نہ ڈالتا تو مجوسیوں کی عبادتگاہیں، یہودیوں کی عبادتگاہیں اور عیسائیوں کی عبادتگاہیں اور مسلمانوں کی مساجد گرادی جاتیں جن میں اللہ کا ذکر کثرت سے کیا جاتا ہے۔ اور اس کی مدد ضرور کی جائے گی جو اللہ کی مدد کرتا ہے۔بیشک اللہ زبردست قوت والا ہے۔ وہ لوگ جن کو ہم زمین میں ٹھکانہ دیدیں تو نماز قائم کرینگے اور معروف کا حکم کرینگے اور منکر سے روکیں گے اور اللہ کیلئے تمام معاملات کا آخری انجام ہے۔ اور یہ قوم آپ کو جھٹلاتی ہے تو اس سے پہلے نوح کی قوم، عاد اور ثمود نے بھی جھٹلایا تھا اور قوم ابراہیم اور قوم لوط نے بھی۔اور اصحاب مدین نے بھی۔ اور موسیٰ کو بھی جھٹلایا گیا تو میںنے کافروں کو مہلت دی تو پھر کیسے آخر کار وہ عذاب کے انجام کو پہنچ گئے”۔( سورہ الحج)
جب تک کوئی ایسے حالات پیدا نہ کرے کہ وہ لوگ مظلوم بن جائیں تو ان کیلئے اللہ نے قتال کی اجازت نہیں دی ۔ مکی دور میں مسلمانوں کا قصور کیا تھا؟۔ کیا وہ دہشت گرد تھے؟۔غیر اخلاقی اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث تھے؟۔ قتل، اغواء برائے تاوان ، چوری اور ڈکیتی میں ملوث تھے؟۔ان کا صرف یہ کہنا تھا کہ ”ہمارا رب اللہ ہے ” ۔اور اسی وجہ سے ان کو اپنے علاقے سے نکال دیا گیا تھا۔ افغان طالبان سے اقلیتی برادری، دوسروں کی عبادتگاہیں اور زبردستی سے اپنی مرضی مسلط کرنے کے علاوہ یہ شکایت بھی تھی کہ انہوں نے دہشت گردوں کو پناہ دی۔ اسامہ نے اپنا ملک چھوڑ کر افغانستان میں پناہ لی اور امریکہ کے خلاف جہاد کا اعلان بھی کیا۔ آج افغان طالبان کہہ رہے ہیں کہ ہماری سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہوگی لیکن پاکستان کو خدشہ ہے کہ بھارت نے دشمن دہشت گردوں کو افغانستان سے سپورٹ کرنے کا کھلم کھلا اعلان بھی کررکھا ہے۔
جب انگریز نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو مسلمان مجاہدین اور ہندوؤں نے پہلے مسلح اور پھر عدمِ تشدد سے سیاسی جنگ لڑی تھی۔انگریزکے جانے کے بعدہی پاکستان کے مسلمانوں اور بھارت کے ہندوؤں نے انگریز کی باقیات اپنی اپنی فوج، عدلیہ، پولیس، سول انتظامیہ اور پورے ریاستی ڈھانچے کو تقدس کا درجہ بھی دیدیاتھا۔ متحدہ ہندوستان کے داعی مولانا ابوالکلام آزاد، مہاتماگاندھی، جمعیت علماء ہند کے شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ، سرحدی گاندھی باچا خان، بلوچستان کے گاندھی شہید عبدالصمد خان اچکزئی وطن پرست اور قوم پرست تھے جس پر علامہ اقبال نے مولانا حسین احمد مدنی کیلئے ابولہب کے نظرئیے پر اشعار بھی لکھ ڈالے تھے۔ جو تقسیم ہند اور پاکستان بنانے کے نظرئیے کی کھل کر مخالف اور مسلم لیگ آل انڈیا کو انگریز کا ایجنٹ ، کافراور وطن کا غدار کہتے تھے۔ پھر جب انگریز نے برصغیر پاک وہند کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا تومشرقی پاکستان بنگلہ دیش اور موجودہ پاکستان کی قیادت قائداعظم محمد علی جناح اور نوابزادہ لیاقت علی خان نے اقتدار کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں سنبھالنے کا فیصلہ کیا اور متحدہ ہندوستان کی قیادت نے اپنے ملک کا اقتدار انگریز کے ہاتھوں میںوقتی طور پر رہنے دیا تھا۔ مہاتماگاندھی قوم پرست ہندو کے ہاتھوں قتل ہوا تھا اور قائداعظم پہلے سے ٹی بی کے مریض تھے اور لیاقت علی خان کو گولی ماری گئی۔
بابائے قوم قائداعظم کی اکلوتی بیٹی بھارت میں اپنے پارسی کزن سے شادی کرکے باپ کے سایۂ عاطفت اور جانشینی کے منصب سے محروم تھی اسلئے آپ کی بہن فاطمہ جناح کو مادرملت قرار دیکر مسلم لیگیوں، جماعت اسلامی اور قوم پرست گاندھیوں نے اپنا قائد بنالیا۔ بیگم رعنا لیاقت علی خان سے بھی مادر ملت کا اختلاف تھا۔ جنرل ایوب خان نے میرجعفر کے پوتے سکندر مرزاکو لات مار کر اقتدار پر قبضہ کیاتو اسکندر مرزا کے ذریعے سیاست میں آنے والا ذوالفقار علیبھٹو بھی ایوب خان کیساتھ تھا۔ا سکندر مرزا کی بیگم اور بیگم بھٹو آپس میں کزن تھیں اور جو حشرجنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کا کیا تھا تو اس سے بدتر حشر جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کا کیا تھا۔ پاکستان میں سیاست میں بھٹو خاندان کا داخلہ بھی بیگم نصرت بھٹوکی وجہ سے تھا جو اصل میں بھٹو نہیں بلکہ ایرانی نژاد تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی اگر اپنی کزن بھٹوبیوی سے اولاد ہوتی تو اس کا سیاست میں کوئی عمل دخل بھی نہ ہوتا۔ کیونکہ بھٹوکی سیاست نصرت بھٹو کی مرہون منت تھی۔
بینظیر بھٹو نے اپنی ماں نصرت بھٹو سے سیاست سیکھ لی تھی اور( MRD)میں اپنے مخالفین کیساتھ مل بیٹھ کر جمہوریت کیلئے جدوجہد کرنا نصرت بھٹو کی سیاست تھی۔مولانا فضل الرحمن نے بھی مفتی محمود کی وفات کے بعد اپنے مخالفین کیساتھ مل کر (MRD)کے پلیٹ فارم سے جمہوری جدوجہد کا آغاز کیا تو اپنے باپ کے قریبی دوستوں سے ناراضگی اور کفر کے روایتی فتوؤں کا بھی سامنا کیا تھا۔ جب بینظیر بھٹو نے سیاست میں اپنا قائدانہ کردار ادا کیا تو اس پر سندھ کی روایتی کلچر اور سندھی خواتین کے کوئی آثار نظر نہیں آتے تھے۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو سے زیادہ بیگم نصرت بھٹوکی بیٹی تھیں۔ اس نے 1980ء میں وزیراعظم بننے کے بعد صدر مملکت کیلئے مسلم لیگ کیساتھ مل کر نوابزادہ نصراللہ خان کے مقابلے میں بنوں کے غلام اسحاق کو ووٹ دیا جو ریاست اور سیاست میں جنرل ضیاء الحق کا جانشین تھا تو یہ بیگم نصرت بھٹوکی سیاست تھی ۔جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست مرتضیٰ بھٹو کررہا تھا جس کا بیٹا ذوالفقار جونئیر اپنے باپ پر نہیں اپنی ڈانسر ماں پر گیا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کو اگر پیپلزپارٹی کے سیاسی اکابرین تاریخی حقائق بتائیں گے تو وہ اصل میں زرداری اور برائے نام بھٹو پر اسلئے شرمندہ نہیں ہوگا کہ نصرت بھٹو بھی اصل میں بھٹو نہیں تھی تو بلاول کو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا اور ذوالفقار علی بھٹو بھی اپنی بیگم بھٹوکی وجہ سے سیاست میں آئے تھے تو آصف زرداری کو بھی فرق نہیں پڑتا کہ اپنی بیگم بینظیر بھٹو کی وجہ سے اس کی سیاست میں انٹری ہوئی ہے۔ ممتاز بھٹو، جماعت اسلامی کے مولانا بھٹو اور دعا بھٹو بالکل اصلی بھٹو ہیں ۔ البتہ ”ہر گھر سے بھٹو نکلے گا تم کتنے بھٹو ماروگے” کا پسِ منظر بالکل مختلف ہے۔
بینظیر بھٹو کے بارے میں یہ نیا انکشاف سامنے آیا ہے کہ اس کو امریکہ کے بلیک واٹر نے شہید کیا۔ بینظیر بھٹو نے لکھا کہ” وہ خود اور مرتضی بھٹو سنی ہیں اور شاہنواز اور صنم بھٹو شیعہ ہیں”۔ ذوالفقار علی بھٹو سنی تھے لیکن اس کو پھانسی کے پھندے پر چڑھانے کے بعد اس کی شلوار اتارکر ختنے کی تصاویر لی گئیں تاکہ اگر اس کا ختنہ نہ ہو تو یہ ثابت کیا جائے کہ اس کی ماں بھی ہندو تھی اور وہ بھی مسلمان نہیں تھا لیکن ختنے کو دیکھ جنرل ضیاء الحق کو بھٹو کے اسلام پر یقین آگیا۔ بھٹو نے مسلم دنیا کو اکٹھا کرنا تھااور قادیانیوں کو کافر قرار دیا تھا اور جنرل ضیاء الحق نے اپنے بیٹے ڈاکٹر انوار الحق کی شادی مشہور قادیانی مبلغ جنرل رحیم الدین کی بیٹی سے کروائی تھی جس کے نکاح کیلئے شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی اپنے مرشد ڈاکٹر عبدالحی خلیفۂ مجاز مولانا اشرف علی تھانوی کو لیکر گئے تھے۔ ہمارے استاذ جمعیت علماء اسلام کراچی کے امیر مولانا شیرمحمد کاکڑ کو قادیانی رشتے کا پتہ نہیں تھا مگر پھر بھی ڈاکٹر عبدالحی کو شاہی دربار میں لے جانے پر بہت دکھی تھے۔ جب تحریک ختم نبوت ، جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور جمعیت علماء اسلام نے دباؤ ڈالا تو پھر جنرل ضیاء الحق نے امتناع قادیانیت آرڈنینس بھی جاری کردیا تھا۔
افغانستان اور خطے کے امن کے بغیر سکون کا سانس لینا ممکن نہیں۔ ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ قرآن وسنت میں جس طرح کی رہنمائی موجود ہے تو اس سے مذہبی طبقہ اپنے اہداف حاصل کرسکتا ہے۔ اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ دنیا کو مسلمانوں سے خطرات ہیں۔ جنہوں نے اپنے مسلمان بھائیوں کو بھی معاف نہیں کرناہو تو وہ کافروں سے کیا رعایت کرسکتے ہیں۔ قادیانی دنیا میں پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ ”ہم نے جہاد کو منسوخ کیا ہے۔ پرامن اسلام کے علمبردار قادیانی اور باقی مسلمان فسادی ہیں”۔ لیکن غیرمسلم طاقتوں کو مسلمانوں کی طرف سے اس کا کوئی مؤثر جواب نہیں دیا جارہا ہے۔
اگرامریکہ نے افغان طالبان کو اسامہ بن لادن کی وجہ سے ختم کیاتو عراق و لیبیا کو پھرکس جرم کی سزا دی؟۔رسول اللہۖ کو اہل مکہ نے نبوت کا دعویٰ اور بت پرستی کیخلاف آواز اٹھانے کی وجہ سے ہجرت پر مجبور کیا لیکن رسول اللہۖ نے نبوت کے دعویدار ابن صائد کو مدینہ کی گلیوں میں کھلا گھومنے کیلئے چھوڑ دیا۔ بریلوی، دیوبندی ، شیعہ اور اہلحدیث کا ایمان رسول اللہۖ اور صحابہ کرام سے زیادہ مضبوط نہیں۔ جب مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تو انکے اکابر بھارت میں تھے لیکن کسی نے ایمانی جوش وجذبے کا ثبوت دیتے ہوئے مرزے کو قتل نہیں کیا تھا۔ کیا تحریک لبیک، دیوبندی ،اہلحدیث اور شیعہ شدت پسند اپنے فرقوں کے بانیوں اور اکابرین سے زیادہ ایمانی جذبہ رکھتے ہیں؟۔
جب پشاور میں ایک قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا تو گیلے کا کیا گیلا ہونا تھا ؟ لیکن جمعیت علماء اسلام اور مذہبی طبقات ہی نہیں پیپلزپارٹی نے بھی پشاور سے دوبئی تک اپنے مذہبی جذبات کا اظہار کردیا۔ پورے افغانستان پر پچاس ہزار سے زیادہ حملے امریکہ نے پاکستانی ائیربیسوں سے کئے جس سے افغانستان مکمل کھنڈرات میں تبدیل ہوا مگر افغان عوام نے کوئی احتجاج تک بھی نہیں کیا۔ جب ایک افغانی کے عیسائی بننے کا شوشہ چھوڑ دیا گیا تو سارے افغانی سراپااحتجاج بن گئے۔ حالانکہ نبیۖ نے منافقین کونہ صرف مدینہ میں بسنے کا حق دیا تھابلکہ شہر چھوڑ کرمکہ میں مرتد بننے کی بھی صلح حدیبیہ میں کھلی چھٹی دے رکھی تھی۔
آج دنیا میں جومذہبی آزادی، رائے کی آزادی اور احترام انسانیت ہے یہ سب قرآن وسنت کا اس دنیا کو دیا ہوا تحفہ ہے۔ ہم نے بھی پہلے معروف ومنکرکا غلط تصور سمجھ کر اس کی تشہیر شروع کردی تھی اور پھر ہماری سمجھ کھل گئی اور اسی طرح طالبان میں بھی معروف ومنکر کا تصور بالکل ہماری طرح ہی غلط سمجھا جاتا تھا اور انہوں نے عملی طور پر اس کو نافذ بھی کردیا تھا، اگر ہم انکی جگہ ہوتے تو ہم بھی وہی کرتے جو انہوںنے کیا تھا اور انہی کی طرح آج اپنے اقدامات سے پیچھے بھی ہٹ جاتے۔ جن لوگوں نے امریکہ کے خلاف جہاد کیا وہ طالبان عظیم مجاہد ہیں اور جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف بے بنیاد دہشت گردی کی، وہ خوارج دجال کا لشکر ہیں۔امریکہ، پاکستان اور اللہ کی بارگاہ میں طالبان اپنے اپنے حساب سے گڈ اور بیڈ ہیں۔ البتہ دوسروں کے نظام کو ٹھیک کرنے سے پہلے اپنے آپ کو درست کرنا ضروری ہے، اگر اپنی چوتڑ پر گند کی پپڑیاں جمی ہوں، استنجاء اور وضو کئے بغیر زبردستی دوسروں کو نماز پڑھائی جائے تو یہ بالکل ہی غلط ہوگا۔
خلیفہ اول حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ” کاش میں انسان نہیں ایک چڑیا ہوتا اسلئے کہ جواب دہی کے بوجھ اور آخرت کی فکر سے آزاد اپنی زندگی گزارتا”۔یہ انسانی فطرت قرآن کا تقاضہ ہے کہ انسان زیادہ سے زیادہ اختیارات کی طلب رکھتا ہے مگر جب اس کو اختیارات مل جاتے ہیں تو پھر انسان کا ضمیر چیخ اُٹھتا ہے کہ اِنا عرضنا الامانتہ علی السمٰوتِ و الارضِ و الجِبالِ فابین ان یحمِلنہا و اشفقن مِنہا و حملہا الاِنسان اِنہ کان ظلومًا جہولًا ” بیشک جب ہم نے امانت کو آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا تو سب نے انکار کردیا اور اس بارامانت کا بوجھ انسان نے اٹھالیا اور بیشک وہ بڑا ہی ظالم اور انتہائی جاہل تھا”۔ (القرآن)
اللہ نے فرمایا کہ ” انسان شر کو ایسا مانگتا ہے جیسے وہ خیر مانگ رہا ہو”۔ یہ شر طاقت، اقتدار اور اختیار میں زیادہ سے زیادہ اضافے کی خواہش ہے۔ پہلے لوگ طاقت واختیار کیلئے قتل وقتال کا راستہ اختیار کرتے تھے اور اب جمہوریت کے نام پر اپنی دُم اُٹھائے اُٹھائے عوام سے ووٹ کی بھیک طلب کرتے ہیں۔ قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ لایکلف اللہ نفسًا الا وسعھا لہا ماکسبت و علیھا مااکستبت ربنا لاتؤاخذنا ان نسینا او اخطأنا ربنا ولا تحملناعلینا اصرًا کما حملتہ علی الذین من قبلنا ربنا ولاتحملنا مالا طاقة لنابہ ” اللہ کسی نفس کو نہیں پکڑتا مگر اس کی وسعت کے مطابق،جو اسکے فائدے کیلئے ہے جواس نے کمایا اور اس پر وبال ہے جو کچھ بھی اس نے حاصل کیا۔اے ہمارے رب ّ! ہمیں نہیں پکڑنا اگر ہم سے کوئی بھول یا غلطی ہوئی ہے۔ہمارے ربّ! ہم پر ایسا بوجھ نہیں لادنا جیسا کہ ہم سے پہلوں پر لاد دیا تھا ۔ اے ہمارے رب!ہمیں ایسا مت لدوادینا جس کی ہم طاقت نہیں رکھتے ہیں”۔ جس انسان پر بوجھ پڑتا ہے اور اپنی ذمہ داری پوری کرتا ہے تو وہ الگ بات ہوتی ہے اور جب انسان ذمہ داری لیتاہے تو اس کو پوری کرنا بھی اس کیلئے وبال بن جاتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ”جو عہدہ طلب کرتا ہے تو اللہ اس کی مدد نہیں کرتا اور جو خواہش نہیں رکھتا تو اللہ اس کی مدد کرتا ہے”۔مذہبی اور سیاسی طبقوں سے لیکر پوری دنیا کو حقائق سے آگاہ کیا جائے۔ بقیہ صفحہ 3نمبر2

بقیہ…اسلام کا حقیقی چہرہ اور افغانستان میں ہلاکتوں کا ڈھیر
جب دنیا کو پتہ چلے کہ اسلام مسلمانوں اور انسانوں کو زیادہ سے زیادہ شخصی طاقت اور اختیارات کا بھوکا نہیں بناتا تو جو لوگ اپنی طاقت و اختیار کو بڑھانے کیلئے دوسرے کٹھ پتلی قسم کے لوگوں کو استعمال کرتے ہیں ان کو نچلی سطح سے عالمی سطح تک کسی بھی گروہ اور فرد کا تعاون حاصل نہ ہوگا، لڑائی اور جھگڑوں کا اصل محور شخصیات کا اپنے لئے زیادہ سے زیادہ طاقت واختیار کا حاصل کرنا ہے۔ جب امریکہ میں ٹرمپ کو شکست ہوئی تو قریب تھا کہ امریکہ آپس کی خونریزی میں ہی دنیا کیلئے تماشہ بن جاتا۔ سعودی عرب سمیت دنیا کے تمام ممالک کو طاقت کے حصول کیلئے ایک دوسرے سے خطرات اور امن وامان کے مسائل کا سامنا ہے۔
حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس طاقت تھی تو ننانوے بیگمات کے ہوتے ہوئے بھی اپنے مجاہد اوریا کی بیگم پر نظر پڑگئی تو دل میں خواہش ابھرنے لگی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعے رہنمائی فرمائی۔ وہ حیران اور پریشان ہوگئے کہ سب دروازوں پر تالے لگنے کے باجود یہ اجنبی افراد کیسے اند ر داخل ہوئے۔ ایک نے کہا کہ یہ میرا بھائی ہے۔ میرے پاس ایک دنبی ہے اور اس کے پاس 99 دنبیاں ہیں۔ یہ چاہتا ہے کہ مجھ سے یہ ایک بھی چھین لے۔ حضرت داؤد نے فرمایا کہ اگر یہ سچ ہے تو پھر واقعی یہ بہت بڑی زیادتی ہے۔ پھر حضرت داؤد سمجھ گئے کہ اللہ نے مجھے تنبیہ کیلئے یہ افراد بھیجے ہیں اور اللہ سے معافی بھی مانگ لی اوراللہ نے معاف بھی کردیا۔ عفی اللہ اور عفی عنہ کے الفاظ مولوی اپنے کیساتھ قرآن کے ان الفاظ کی وجہ سے لکھتے ہیں جو حضرات داود کیلئے آئے تھے۔
حضرت داؤد ایک نبی اور بادشاہ تھے۔ نبوت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو کسی دوسرے پر ظلم کرنے سے روک دیا لیکن قرآن نے بتادیا کہ جب انسان کے پاس اختیارات زیادہ بڑھ جاتے ہیں تو اس کیلئے کمزوروں کیساتھ انصاف کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ جب ہد ہد حضرت سلیمان کے دربار سے غائب تھا تو حضرت سلیمان نے کسی معقول عذر پیش نہ کرنیکی صورت میں سخت سزا دینے کی بات فرمائی تھی۔ جب ملکہ سبا بلقیس کو پتہ چلا کہ حضرت سلیمان بہت طاقتور بادشاہ ہیں تو اس بات کا اظہار کیا تھا کہ جب بادشاہ کسی دوسرے کے ملک میں داخل ہوتے ہیں تو عزتدار لوگوں کی تذلیل کرتے ہیںجو قرآن میں واضح ہے۔
رسول اللہ ۖ رحمت للعالمین تھے۔ قریشِ مکہ نے دعوت دی تھی کہ اگر کسی خوبصورت لڑکی سے شادی کرنی ہے تو عرب کی حسین ترین لڑکی سے نکاح قبول فرمائیں، مال ودولت چاہیے تو ہم اتنی دولت دیںگے کہ اچھے خاصے مالدار بن جائیںگے اور اگر بادشاہی اور حکومت چاہیے تو اہل عرب کا سب سے بڑا بادشاہ بنادیتے ہیں لیکن اپنی اس دعوت سے دستبردار ہوجائیں۔ نبیۖ نے ان تمام چیزوں کو ٹھکراتے ہوئے فرمایا تھا کہ ” اگر میرے ایک ہاتھ پر چانداور دوسرے پر سورج بھی رکھ دیں تو اپنی دعوت سے دستبردار نہیں ہوں گا”۔ ایک چچا کی پشت پناہی حاصل تھی اور خطرہ تھا کہ چچا ابوطالب بھی ساتھ نہ چھوڑ جائیں لیکن حضرت محمد ۖ نے ثابت کردیا کہ آپۖ توحید کے سہارے ایک فرض کی ادائیگی کیلئے اس دنیا میں کام کررہے تھے۔ قریش مکہ نے قرابتداری کا لحاظ بھی چھوڑ دیا لیکن آپۖ کے پایۂ استقلال میں بالکل بھی ذرا سا فرق بھی نہیں آیا تھا۔
ہم سوچ بھی نہیں سکتے ہیں کہ ایک انسان کے اندر اس سے زیادہ استقامت کیا ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بھی تنبیہ کردی تھی کہ ” اگر آپ نے تھوڑا سا جھکاؤ بھی اختیار کیا تو اللہ کی طرف سے شدید عذاب ہوگا ”۔ اور پھر اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ ” اگر اللہ نے سہارا نہ دیا ہوتا تو آپ تھوڑے جھکاؤ کا شکار ہوجاتے”۔ یہ سند ہے کہ رسول ۖ نے جن مشکلات کا سامنا کیا ،اسکا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے ہیں۔اور اس سے بھی بڑی بات یہ تھی کہ اللہ نے بدرکے قیدیوں پر جمہور صحابہ کرام کی مشاورت اور نبیۖ کے فیصلے کو غیرمناسب قرار دیکر واضح کیا کہ کسی بہت بڑی شخصیت اور عظیم جماعت کی مشاورت کو بھی یہ حق نہیں پہنچتا ہے کہ اپنے آپ کو رسول اللہۖ اور صحابہ کرام کے جم غفیر سے بڑھ کر خیال کرے۔ پھر جب غزوہ اُحد کے بعد رسول اللہۖ نے فرمایا کہ ”اللہ کی قسم ! میں ان کے70 افراد کی لاشوں کیساتھ وحی سلوک کروں گا” اور صحابہ کرام انتقام کے جذبے میں اپنی آخری حد تک پہنچے ہوئے تھے تو اللہ نے فرمایا کہ ” کسی قوم کے انتقام کا جذبہ تم لوگوں کو یہاں تک نہ پہنچائے کہ اعتدال سے ہٹ جاؤ” ۔اور یہ بھی فرمایا تھا کہ ”جتنا ان لوگوں نے تمہارے ساتھ کیا تھا ، تم بھی اتنا کرو۔ اگر معاف کردو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور معاف ہی کردو اور یہ معاف کرنا بھی تمہارے لئے اللہ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں ہے”۔ قرآن نے رسول اللہۖ اور صحابہ کرام کی وہ تربیت کی تھی کہ جب مکہ فتح ہوا تو دشمن کے سردار ابوسفیان کے گھر کی تذلیل نہیں فرمائی بلکہ بھرپور عزت بخش دی۔ چچا کو شہید کرنے والے وحشی اور اس کے کلیجے کو چبانے والی ابوسفیان کی بیگم ہند معاف کردئیے گئے۔
اسلام نے دنیا کی تاریخ بدل ڈالی تھی۔ قیصر وکسریٰ کے حکمران کمزور نہ تھے لیکن اسلام کے عادلانہ نظام کی وجہ سے ان کے پیروں سے زمین نکل گئی تھی اور دنیا کی مظلوم عوام نے ہر جگہ مسلمانوں کا استقبال کیا تھا۔ اسلام وحشت و دہشت کے ذریعے نہیں بلکہ عدل وانصاف، انسانیت اور دین ربانی ہونے کی وجہ سے دنیا میں پھیل گیا ہے اور شیطان اور اس کی آلۂ کار قوتوں کو اسی اسلام سے بہت خطرہ ہے۔ داعش اور طالبان اپنی دہشت اور وحشت کے ذریعے اسلام کو بہت نقصان پہنچا رہے ہیں۔ امریکہ کی یہی چاہت تھی کہ داعش اور طالبان کو چھوڑ کر دنیا کو اسلام اور مسلمانوں کا وحشیانہ چہرہ دکھا دیں۔ امریکہ کے سامنے جذبہ جہاد سے ڈٹ جانا ہزار درجہ بہتر تھا اور بہترین جہاد تھا اور کسی کا امریکہ کے سامنا لیٹنا بہت بدترین درجے کی غلامی ہے لیکن اب جبکہ امریکہ افغانستان سے نکلاہے تو اقتدار کی خاطر مسلمانوں اور افغانوں کو قتل کرنا انتہائی درجے کی جہالت ہے۔
اگر لاشوں کو اسلام میں مثلہ کرنے کی اجازت نہیں ہے تو زندہ انسانوں کو بھی تشدد کرکے مارنے کی قطعی اجازت نہیں ہوسکتی ہے۔ اگر درختوں اور فصلوں کو اسلام میں نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں ہے تو گھر،دفاتر، سڑکوں اور کسی بھی منافع بخش انفراسٹرکچر کو تباہ کرنے کی اجازت نہیں ہوسکتی ہے۔ اسلام اپنے اختیارات کو درست استعمال کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ بدری قیدیوں کیساتھ کتنا اچھا سلوک روا رکھا گیاتھا؟۔ اگر پوری دنیا میں یہ ٹرینڈ چل گیا کہ دوسروں سے اختیارات اور طاقت چھیننے کے بجائے اپنے اختیارات اور طاقت کا بڑادرست استعمال کیا جائے تو دنیا کے سارے ممالک، ادارے ، پارٹیاں ، تنظیمیں اور لوگ اپنی اپنی جگہ پر بدل جائیں گے۔ رسول اللہۖ کو بھی مشاورت کا اللہ نے حکم دیا تھااور ایک اولی الامر اورمذہبی شخصیت اور آپ ۖ کے منصب کابڑا احترام ہونے کے باوجود آپۖ سے مذہبی معاملات اور اولی الامر کے معاملات میں صحابہ کرامنے بہت سارے مواقع پر زبردست اختلاف کیاتھا اور قرآن وسنت میں اس اختلاف کے حق کو ایک مثبت معاشرتی نظام کا اہم حصہ قرار دیا گیا۔
سورۂ مجادلہ میںخاتون کے اختلاف اور اس کی تائید ہے۔ بدری قیدیوں پر عمرو سعد کی رائے کو مناسب قرار دیا گیا اور اُحد پر انتقام میں زیادتی کا ماحول وحی نے بدل ڈالا اور صلح حدیبیہ کی شرائط اور عمرہ ادا کئے بغیر واپس جانا مشکل تھا۔ ذوالخویصرہ جیسے لوگوں کو نبیۖ نے قتل کی اجازت نہیں دی۔ فرمایا کہ یہ بیس مرتبہ سے زیادہ مختلف ادوار میں پیدا ہونگے حتیٰ کہ ان کا آخری گروہ دجال سے مل جائیگا، ان کی نماز ،روزوں کو دیکھ کر اپنی نماز، روزوں کو تم بھول جاؤگے،یہ قرآن پڑھیںگے لیکن قرآن انکے حلق سے نیچے نہ اتریگا۔ یہودونصاریٰ اور منافقین کا کردار مخفی نہیں لیکن قرآن نے انسان کے قتل کوبغیر کسی قتل یا فساد کے انسانیت کا قتل قرار دیا تھا۔ یتیم کے احترام کا درس دیا کسی کو یتیم بنانے کاحکم نہیں!

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

If he had taken advantage of Dr. Abdul Razzaq Sikandar, he would have changed his Arabic. When Maulana Yusuf Banuri was alive, the pots for drinking the water of the Shia procession were cleaned and filled.

ڈاکٹر عبد الرزاق سکندر سے فائدہ اٹھایا جاتا تو اپنی عربی بدل جاتی!
جب مولانا یوسف بنوری حیات تھے تو اہل تشیع کے ماتمی جلوس کے پانی پینے کیلئے مٹکے صاف کرکے بھر دئیے جاتے تھے۔

سوادِ اعظم اہلسنت کے مولانا سلیم اللہ خان، مولانا مفتی احمد الرحمن پرنسپل جامعہ بنوری ٹان،شیخ الحدیث مولانا اسفند یار خان، ایڈوکیٹ عبدالعزیز خلجی اور کئی مدارس سے آئے ہوئے علما و طلبہ اہل تشیع کا جلوس روکنے کیلئے جمع تھے۔ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر ناظم تعلیمات نے جامعہ بنوری ٹان میں تدریس کا سلسلہ جاری رکھاتھا ۔استاذ محترم نے فرمایا کہ ” مفسدین کی باتوں میں مت آ، جب مولانا بنوری حیات تھے تو ماتمی جلوس سے پہلے پانی کے مٹکے صاف کرکے بھر دئیے جاتے تھے۔ ان کے علما اور ذاکرین مدرسہ میں آتے تھے”۔ ختم نبوت کی تحریک بھی شیعہ سنی علما نے مولانا بنوری کی قیادت میں کامیاب بنائی تھی۔
ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کے قدموں میں سارے عہدے آئے مگر پیرانہ سالی میں بہت دیر ہوچکی تھی۔ اگر آپ کو بروقت ختم نبوت کا امیر بنایا جاتا تو مسلمانوں کے اتحاد میں رخنہ نہیں پڑسکتا تھا۔ اگر آپ بروقت جامعہ کے مفتی اور شیخ الحدیث ہوتے تو مفسدین جامعہ بنوری ٹان کی دارلافتا کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے کبھی استعمال نہیں کرسکتے تھے۔ اگر آپ بروقت وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر بنائے جاتے تو پاکستان کے مدارس میں جامعہ ازہر مصر اور مدینہ یونیورسٹی کے ہم پلہ نصاب سے بھی زیادہ اچھی عربی کتابیں پڑھائی جاتیں۔ اگر آپ صحیح وقت پر اقرا روض الاطفال کے سرپرست وصدر بنائے جاتے تو سکولوں کے نصاب پر عربی مدارس بھی رشک کرتے۔ ہمارے ہاں لالچی، مفسدین، فتنہ پرور اور بہت ہی غلیظ قسم کے شیاطین الانس اہم عہدوں پر ڈمی لوگوں کو فائز کرکے اپنا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اسلئے ہم نے استاذ محترم کی حیات میں تجویز پیش کی تھی کہ مولانا امداد اللہ یوسفزئی جیسے لوگوں کو وفاق المدارس پاکستان کا صدر بنانا چاہیے تاکہ مدارس کی تعلیم وتربیت میں ایک فعال کردار بھی ادا کرسکیں۔
ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے ہمیں صرف عربی کی خوشبو ہی سونگھائی تھی مگر پھر بھی جب اپنے سکول کبیر پبلک اکیڈمی میں تھوڑی بہت عربی بچوں کو پڑھائی تو جمعیت علما اسلام ف کے ضلعی امیر مولانا عبدالرف اور جمعیت علما اسلام کے ضلعی امیر مولاناشیخ محمد شفیع شہید نے جلسہ تقسیم انعامات میں اپنی طرف سے بھی طلبہ کو نقدی انعامات دئیے اور اپنی تقریروں میں کہا کہ” اتنی اچھی عربی ہمارے مدارس میں بھی نہیں ہے اور ایسی انگریزی سکول والوں میں بھی نہیں ہے”۔
ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کی جمعیت علما اسلام کے اجتماع میں عربی سن لیں اور شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کی بھی سن لیں۔ ڈاکٹر صاحب کی عربی ایسی تھی جیسے رائے بریلی یا لکھنو کا کوئی ادیب شائستہ اردو زبان میں گفتگو کررہا ہو۔ اور شیخ الاسلام کی عربی ایسی لگتی ہے جیسے کوئی ان پڑھ بنگالی ارود کی ریڑھ لگارہا ہو۔ جب ضرورت پڑی ہے تو ڈاکٹر صاحب نے ہر منصب کو شرف بخشا۔ایسا نہیں کہ خود ساختہ شیخ الاسلام یامفتی اعظم بن گئے۔ ایسا بھی نہیں کہ ناراض ہوکر عہدہ قبول کرنے سے انکار کیا ہو ؟۔ جامعہ بنوری ٹان کراچی کے پرنسپل کا منصب تو اپنی جان کو ہی ہتھیلی پر رکھنے والی بات تھی۔ ظالموں نے شیخ بنوری کے بیٹے مولانا سید محمد بنوری کا خون کردیااور پھر خود کشی کا بہتان لگایا۔ جامعہ کا دارالافتا اور مفتی اعظم پاکستان کا نام نہادعہدہ بھی غلط استعمال کیا گیا تھا اور روزنامہ جنگ ”آپ کے مسائل اور ان کا حل ” میں مولانا محمدیوسف لدھیانوی شہید کی طرف یہ منسوب کیا گیا کہ ” حضرت عیسی علیہ السلام کے چچا نہ تھے، البتہ دوپھوپھیاں تھیں”۔ اور کیا کچھ نہ ہوتا ہوگا؟ ۔ ڈاکٹر صاحب بہت بڑی شخصیت تھی اگر آپ سے بروقت عربی کی تجدید کا کام لیا جاتاتو قرآن اور صحیح بخاری کے ترجمہ میں بھی ایک انقلاب آجاتا۔ محدث العصر مولانا سلیم اللہ خان نے بخاری کی اپنی شرح ”کشف الباری” میں دنیابھر کی تشریحات کا خلاصہ لکھ کر کمال کردیا ہے لیکن یہ نہیں دیکھا ہے کہ ان تشریحات کے نتائج کتنے خراب نکلیں گے؟۔
احناف نے حرمت مصاہرت کے مسائل میں جس غلو سے کام لیا ہے وہ بھی قابل اصلاح ہے لیکن خود بخاری کی احادیث کی بھی درست وضاحتیں نہیں کی گئیں تو معاملات بہت گھمبیر ہیں۔ پھر فقہ ، اصولِ فقہ ، احادیث اور قرآن کے احکام میں بالکل بھی کوئی جوڑ اور ربط نہیں ہے۔ مولانا سلیم اللہ خان نے” کشف الباری
ایسی روایات بھی نقل کی ہیں کہ حضرت علی نے ایک شخص کی بیوی کے فوت ہونے کے بعد کہا کہ اگر اس کی کوئی ایسی لڑکی ہے جس نے اس کے گھر میں پرورش نہ پائی ہو تو اس سے نکاح کیا جائے۔ اور یہ بھی لکھا ہے کہ احناف وغیرہ کے نزدیک اگر بیوی کے سابقہ شوہر کے بیٹے سے لواطت کا عمل کیا جائے تو حرمت مصاہرت پیدا نہیں ہوگی۔ ڈاکٹر صاحب بہت خرافات نکال دیتے۔
عام عربی میں ”فرج” خوشحالی کو کہتے ہیں مگر علما کے ہاں صرف عضو مخصوصہ کاتصور بیٹھ گیا ۔اگرعلما نے عربی ادب کیساتھ اپنا شوق و ذوق وابستہ نہ کیا تو قرآن وسنت کی کئی لغات میں غلطیوں کا تصور نہیں ٹوٹے گا۔
ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے مولانا بنوری سے مناسک حج سیکھے۔ مفتی محمد تقی عثمانی کوئے کی طرح لنگڑا کر چلنے سے کسی کو ”رمل” سکھارہا تھا ۔ اللہ نے ممنوں کیساتھ ایسی جنت کا وعدہ کیا ہے کہ جسکا عرض زمین وآسمان کے برابر ہے لیکن مفتی تقی عثمانی نے قرآن کی غلط تفسیر کی کہ ” قریب ہے کہ آسمان ملائکہ کی عبادت میں زیادہ تعداد کے وزن کی وجہ سے پھٹ جائے”۔ ( آسان ترجمہ قرآن)
ڈاکٹر صاحب نے مفتی محمد تقی عثمانی کیخلاف سودی بینکاری پر مقف پیش کیا جو تحریری طور پر نیٹ پر موجود ہے۔ مشکل یہ ہے کہ مولانا محمد یوسف لدھیانوی کی کتاب ”عصر حاضر حدیث نبویۖ کے آئینہ میں” اور ڈاکٹر حبیب اللہ مختار کی کتاب” مسلمان نوجوان ” دستیاب نہیں۔ دونوں کو شہید اوریہ کتابیں غائب کردی گئیں۔ ہماری لڑائی ذاتیات کیلئے نہیں ۔تفصیل لکھ دی تو پتہ چلے کہ بڑے علما ومفتیان ہیںیا لنڈا بازار میں بکنے والے گھسے پھٹے جوتے ہیں؟۔
میں نے دارالعلوم کراچی میں نماز کے بعد چیلنج کیا تھااور وہ بھاگ کرگھروں میں گھس گئے۔ پھر جامعہ بنوری ٹان کراچی کی جامع مسجد میں اعلان کیا تو استاذ محترم ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ جنہوں نے فتوی لگایا ہے ، ان کو جاکر پکڑو؟ ۔ میں نے عرض کیا کہ ”فتوے پر یہاں کی مہریں لگی ہیں”۔ استاذ مفتی محمد ولی کو مولانا نجم الدین مردانی نے شلوار اتارنے کی دھمکی دی تھی اسلئے میرے اشعار گنگنا کر پڑھتااور کہتا تھا کہ اشعار سے امرا القیس کو بھی شرمندہ کردیا۔ مفتی محمد ولی نے کہا کہ یہ جرات تو شیعوں میں بھی نہیں کہ ہمیں یہاں چیلنج کریں، ہم ننگا کردیںگے تو میں نے کہا کہ” کسی کھدڑے میں جرات ہے تو سامنے آئے”۔ یہ وزیرستان کی مٹی کا کمال تھا۔ مولاناسیدمحمد بنوری شہید نے مولانا فضل الرحمن سے زندگی کی بھیک مانگی تھی مگرمولانا خود کشی کا جھوٹا الزام لگانے والوں کیساتھ کھڑے تھے۔ اگرڈاکٹر صاحب اپنے ذوق سے نصاب بناتے تو مدارس کی تقدیر بدل جاتی۔پھر مدینہ یونیورسٹی اور جامعہ ازہر مصر بھی نہ جانا پڑتا۔ دیسی علما کی عربی جدا ہے ۔مولانا ابولحسن علی ندویہندی مگر عربوں کے بھی استاذ تھے۔
ایا ایھاالجیش من النسا اہل المردان
ان کنتم رجالا فتعالوا الی المیدان
قد ماالتقیتم قط بااہل وزیرستان
کفی لکم واحد منہم موجود عتیق الرحمن

Can we accuse Ali Wazir or the enemy of the Pashtun nation is Pakistan? or its merely a clash among groups with different approaches and ideologies.

faqir of ipi, faqir api, akhter khan, maulana noor muhammad shaheed, usman kakar, ali wazir

وزیرستان تاریخی حقائق کی روشنی میں، فقیر ایپی سے علی وزیر تک : اختر خان

وزیرستان وانہ کا ایم این اے علی وزیر(ali wazir) پاکستانی ریاستی اداروں کو پشتونوں کا دشمن کہتا ہے۔وزیرستان سے تعلق رکھنے والا مشہور گوریلا جنگجو فقیر ایپی کہتا تھا کہ پاکستان کا نظام یہ وہی انگریز گدھا ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ اس کا پالان بدل دیاگیا ہے۔علی وزیر(ali wazir) کے دادا جلات خان اس فقیر ایپی کے قریبی ساتھی اور معاون تھے۔پاکستان بننے سے پہلے مسلسل دس سال وہ فقیر ایپی کے شانہ بشانہ انگریزوں سے لڑتے رہے۔جب پاکستان بن گیا تو علی وزیر کا دادا جلات خان دس سال تک افغانستان میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہا تھاجبکہ فقیر ایپی کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے پاکستان کیخلاف لڑے یا اسکو اپنا ملک تسلیم کر لے۔فقیر ایپی(FAQEER AP) کے پاس نہ تو اتنے وسائل تھے اور نہ ہی تنظیمی استعداد کہ وہ پاکستان کو ان انگریزوں سے وراثت میں ملے انتظامی ڈھانچے سے لڑتے۔فقیر ایپی نے ہر ممکن کوشش کی کہ چاہے افغانستان ہو یا کوئی اور ملک، پاکستان کیخلاف لڑنے کی مدد لی جائے لیکن نہ تو افغانستان نے فقیر ایپی کو مدد دی اور نہ ہی کسی اور ملک نے حتی کہ وزیرستان میں ایسے ملکانان سامنے آئے جنہوں نے فقیر ایپی سے کہا کہ انگریز سے لڑنا درست تھامگر پاکستان سے لڑنا درست نہیں۔فقیر ایپی نے (1956 )کے بعد سیاست سے تقریبا کنارہ کشی اختیار کر لی اور (1957 )میں علی وزیر کے دادا جلات خان(JALAT KHAN) نے فقیر ایپی کی پیروی میں پاکستان سے لڑنے کا فیصلہ ترک کر دیا۔جلات خان اور پاکستانی اداروں کے درمیان بھی صلح کرائی گئی جس کی بنیاد پر علی وزیر کے دادا جلاوطنی چھوڑ کر پاکستان میں اپنے گاؤں وانہ آگئے۔
دلچسپی سے علی وزیر کے دادا جلات خان کا یہ معاہدہ اور صلح ملک شہزاد توجئے خیل نے کرایا تھا۔ملک شہزاد توجئے خیل وانہ کے مشہور سیاسی بزرگ اور خدائی خدمتگار نثار لالا کے رشتہ دار تھے اور غالبا ملک جمیل کے دادا تھے۔یہ وہی ملک جمیل ہیں جنہوں نے چند دن پہلے وانہ میں ایک جرگہ میں پی ٹی ایم کے کارکنوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ علی وزیر کو جیل سے رہائی دلانے کیلئے میں اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہوںاور اس سلسلے میں کور کمانڈر کسی جرنیل کسی وزیر کے گھر یا دفتر جانے کو بھی تیار ہوں اب پی ٹی ایم والوں کو یہ یقین دہانی کرانی ہوگی
ِِِِِ کہ آئندہ پاکستان میں بیٹھ کر پاکستان کے دشمنوں جیسے افغانستان کے گیت وزیرستان میں نہیں گائیں گے۔
ستر کی دہائی میں جب وانہ وزیرستان میں مرحوم مولانا نور محمد(MOLANA NOOR MUHAMMAD) وزیرستان کی سیاست میں سرکردہ کردار بنا تو اسی علی وزیر کے دادا جلات خان کو اس کی پشت پناہی حاصل تھی جبکہ میر عسکر خوجل خیل جیسے مشران نے مولانا نور محمد کو وزیرستان کیلئے زہر ہلاہل قرار دیا تھا۔اسی کی دہائی میں افغانستان میں روس نواز پشتون قوم پرستوں کے خلاف جب امریکہ نواز جنرل ضیا الحق نے جہاد کا بیڑہ اٹھایا تو مولانا نور محمد ان کے فکری، نظریاتی اور عملی دوست بنے۔جنرل ضیا الحق(GENRAL ZIAULHAQ) اور مولانا نور محمد جیسی شخصیات کے درمیان جو گٹھ جوڑ بنی اسکے خمیر سے افغانستان میں طالبان کی حکومت معرض وجود میں آئی جبکہ وانہ میں نیک محمد، ملا نذیر، بیت اللہ محسود اور حکیم اللہ محسود جیسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے نہ صرف علی وزیر کے خاندان کی سرکردہ شخصیات کو قتل کیا بلکہ مولانا نور محمد بھی جنرل ضیا الحق کیساتھ جس آگ کو بھڑکا چکے تھے اسی میں جل گئے اور (2010) میں ایک خودکش حملے میں قتل کئے گئے۔علی وزیر نے (2013) کا الیکشن لڑا،تو مولانا نور محمد کے شاگرد مولویوں کے علاوہ وزیرستان وانہ کی جن سرکردہ شخصیات نے علی وزیر کو ہرانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی وہ نصراللہ وزیر اور علی وزیر کے دُور کے رشتہ دار سعید وزیر جیسے پاکستانی قوم پرست بیوروکریٹس تھے۔نہ تو علی وزیر وہ الیکشن جیت سکا اور نہ ہی یہ بیوروکریٹس اپنا امیدوار کامیاب کروا سکے (2018) کے الیکشن میں وانہ کے یہ بیوریوکریٹس قوم پرست پشتونوں کی طرح آپس کے اختلاف کا شکار ہوئے۔سعید وزیر نے سیاست سے کافی حد تک کنارہ کشی اختیار کی۔جبکہ بیوروکریٹ نصراللہ وزیر نے اپنے بیٹے کو علی وزیر کے خلاف تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے میدان میں اتارا۔علی وزیر کی مقبولیت کے باعث عمران خان نے علی وزیر کے خلاف اپنے امیدوار کو دستبردار ہونے کا کہا لیکن نصراللہ وزیر بدستور علی وزیر کے خلاف الیکشن لڑنے پر مصر رہا۔نصراللہ وزیر کے امیدوار کو علی وزیر کیخلاف بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔( 2019)میں صوبائی اسمبلی کیلئے جو الیکشنز ہوئے اس میں ریاست پاکستان نے علی وزیر کے امیدوار عارف وزیر کو بالکل اسی طرح دھاندلی کرکے ہروایا جس طرح پنجاب میں مسلم لیگ اور پشاور ویلی میں عوامی نیشنل پارٹی کو ہروایا گیا۔ان حقائق کی روشنی میں آپ فیصلہ کریں کہ علی وزیر یا پشتون قوم کا دشمن پاکستان ہے یا پشتون قوم کے اندر مختلف الخیال اور نظریات کے پیروکاروں کے درمیان رسہ کشی؟۔

Afghan government came into existence with mutual efforts and co-ordination of General Muhammad Zia-ul-Haq and Maulana Noor Muhammad Wazir.

پشتونوں کے مذہبی علماء اور قوم پرست قائدین کے احوالِ واقعی : اختر خان

عثمان کاکڑ(USMAN KAKAR) کے جنازے پر تقریر میں محمود خان اچکزئی(MEHMOOD KHAN ACHAKZAI) نے کہا کہ تین ماہ بعد بنوں میں تمام پشتون سیاسی جماعتوں جیسے عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علما اسلام ف، پی ٹی ایم اور فعال سماجی سیاسی ایکٹویسٹس شعرا وکلا وغیرہ کا جرگہ بلائیں گے جو مسلسل تین دن تک اس پر غور کرے گا کہ پشتون قوم کی خانہ جنگی کو روکنے کیلئے کیا اقدامات کئے جا سکتے ہیں۔تین دن غور و فکر کے بعد یہ جرگہ متفقہ موقف پاکستان کے سامنے رکھے گا۔اگر پاکستان کو وہ موقف منظور ہوا تو ٹھیک نہیں تو پشتونوں کا یہ جرگہ پشتون قوم کے مستقبل کے بارے میں آزادانہ موقف اختیار کرے گا جو شاید ریاست پاکستان سے ٹکرانے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔
زمینی حقائق کے تناظر میں محمود خان اچکزئی کی تقریر کے ان پہلووں کا جائزہ لیتے ہیں۔پشتون قوم کے اندر خانہ جنگی کی نوعیت کیا ہے؟ اس خانہ جنگی کے مرکزی کردار کون ہیں۔اس پہلو کو سمجھنے کیلئے میں آپ کو اپنے گائوں وانہ وزیرستان کی مثال دیتا ہوں،وانہ کا ایم این اے علی وزیر ان دنوں اس وجہ سے جیل میں ہے کہ ریاست پاکستان کے ادارے علی وزیر کو پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرہ تصور کرتے ہیں۔علی وزیر کو جتنے ووٹ2018 کے الیکشن میں ملے اتنے ووٹ وزیرستان کی تاریخ میں کسی کو نہیں ملے۔علی وزیر کے خلاف جمعیت علما اسلام مولانا فضل الرحمان کے جس بندے مولانا محمود عالم(MOLANA MEHMOOD ALAM) نے الیکشن لڑا وہ افغان طالبان کا مرکزی کردار تھاجو افغانستان میں علی وزیر کے فکری دوستوں جیسے کرزئی اور اشرف غنی کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔یہی مولانا محمودعالم وزیرستان میںگڈطالبان کابھی مرکزی کردار تھا۔اسی طرح(2013 )کے الیکشن میں وانہ کے چند مقامی سرکردہ بیوروکریٹس نے علی وزیر کو ہرانے کیلئے ہر ممکن کوشش کی، یہ بیوریوکریٹس اپنا امیدوار نصیراللہ کو پاس تو نہ کر سکے لیکن علی وزیر کو پاس نہ ہونے دینے میں کامیاب ہوئے(2019)کے صوبائی الیکشن میں علی وزیر کے چچا زاد عارف وزیر(ARIF WAZIR) کو الیکشن میں ناکام کرنے کیلئے بالکل یہی حربہ استعمال ہوا۔علی وزیر وزیرستان میں قوم پرستوں کاترجمان ہے۔مولانا محمودعالم مذہبی پشتونوں اور طالبان کا ترجمان ہے جبکہ بیوروکریٹ نصراللہ کا بیٹا ایم پی اے نصیر اللہ تحریک انصاف کا بندہ ہے۔تحریک انصاف ریاستی اداروں کا گماشتہ ہے۔ مولانامحمودعالم جیسے مولوی اوروزیرستانی بیوروکریٹس علی وزیر جیسے سیاستدان کو نہ صرف اپنا سیاسی حریف بلکہ حسب ضرورت انکے ساتھ جنگ کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں اور یہی وہ پہلو جسکا مظہر آج کل گڈ بیڈ طالبان ہیں۔جسکی وجہ سے پچھلے بیس سال سے وزیرستان میں خانہ جنگی ہے اور اسی وجہ سے پچھلے چالیس سالوں سے افغانستان میں خانہ جنگی ہو رہی ہے۔یہی رسہ کشی پچھلے ستر سال سے پاکستان اور باچاخان اور صمد خان کے پیروکاروں کے درمیان چل رہی ہے۔
باچاخان و صمد خان(BACHA KHAN SAMAD KHAN) جیسے قوم پرست اتنے منقسم اور نفاق کا شکار ہیں کہ الیکشن میں پیپلز پارٹی مذہبی جماعتوں اور مسلم لیگ کیساتھ تو اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر لیتے ہیں مگر ایکدوسرے کیساتھ نہیں کرتے، اسی طرح ووٹ تقسیم اور انکے مخالفین کامیاب ہو جاتے ہیں۔ان قوم پرستوں کے دشمن مذہبی جماعتیں جیسے مولانا فضل الرحمان والے سمیع الحق والے مولانا شیرانی والے سراج الحق والے طارق جمیل والے مفتی تقی عثمانی والے بھی اب اتنے نفاق کا شکار ہیں کہ شاید ہی آپس میں پھر کسی متحدہ مجلس عمل کی شکل میں اکھٹے ہوں۔فرض کریں کہ مذہبی طبقات میں اگر ایک دھڑا جیسے مولانا فضل الرحمان والے اور باچاخان اور صمد خان والے کسی ایک نقطے پر متفق بھی ہو ں تو باقی مذہبی جماعتیں جیسے سمیع الحق، سراج الحق، طارق جمیل مفتی تقی عثمانی اور مولانا شیرانی(samiulhaq,sirajulhaq,tariqjameel,Taqi Usmani,molana sheerani) والے انکے پیچھے پروپیگنڈہ شروع کر لیں گے کہ مولانا فضل الرحمان نے یہود و ہنود کے ایجنٹوں اسفندیار اور اچکزئی کیساتھ دوستی کر لی اور یہ مذہبی طبقے پاکستانی ریاستی اداروں کیساتھ مل کر مولانا فضل الرحمان اسفندیار اور اچکزئی کے خلاف ایسے ہی اتحاد کر لیں گے جیسے علی وزیر یا اسکے امیدوار کے خلاف وزیرستان میں اتحادی بن جاتے ہیں یا جس طرح افغانستان میں کرزئی اور اشرف غنی سے نمٹنے کیلئے افغان طالبان پاکستانی ریاستی اداروں کیساتھ اتحادی بن جاتے ہیں۔
اسفندیار، محمود خان اچکزئی ،علی وزیر جیسے قوم پرست ایک نقطے پر متفق نہیں ہوتے ،ایک متفقہ لائحہ عمل نہیں بنا سکتے۔مولانا فضل الرحمان سراج الحق سمیع الحق مولانا شیرانی طارق جمیل اور مفتی تقی عثمانی کے پیروکار آپس میں اتحاد نہیں کر سکتے تو ان پشتون پرستوں کیساتھ کیا اتحاد کر لیں گے۔جبکہ پاکستانی نوکر پیشہ پشتون تو ویسے ہی پشتون قوم پرستوں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور اس مقصد کیلئے مذہبی پشتون خواہ وہ آج مولانا شیرانی یا سمیع الحق والے ہوں تو پرسوں سراج الحق والے تھے ان پاکستانی نوکر پیشہ پشتونوں کے گماشتے بننے میں کوئی دیر نہیں لگاتے بس موقع کے انتظار میں ہوتے ہیںکہ کب ریاستی اداروں سے ان کو دعوت ملتی ہے۔ سیاسی طبقات اس قدر زوال کا شکار ہیں کہ ساری جماعتیں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوئے لیکن سیاست میں ریاستی اداروں کی مداخلت کیخلاف متفقہ لائحہ عمل بنانے سے قاصر ہیں۔محمود اچکزئی کیلئے قوم پرستوں کو اکھٹا کرنا، مذہبی پشتونوں کے کسی ایک آدھ گروپ جیسے مولانا فضل الرحمان والوں کو اس مقصد کیلئے قائل کرنا شاید تھوڑا آسان ہو لیکن متفقہ لائحہ عمل بنانے پر راضی کرنا آسان نہیںاور بات جب اس نہج تک پہنچے گی توپاکستانی نوکر پیشہ پشتون اور تحریک انصاف کی ذہنیت رکھنے والے پشتون اس گٹھ جوڑ کیخلاف ان سے منظم ردعمل کا منصوبہ بنا چکے ہوںگے۔بابڑہ سے لیکر آج تک کی تاریخ تو یہی کہہ رہی ہے۔
(Nawishta-e-Diwar-July-21-Page-04_syed atiq ur rehman gillani_zarbehaq.com_akhtar khan )

A dispute was raised and exploited by a group on the statement of Malala but why they keep silent on scandal of Aziz-ur-Rehman?

ملالہ کے بیان پر طوفان برپا کرنے والا طبقہ مفتی عزیز الرحمن کے اسکینڈل پر کیوں اپنی دُم گھسیڑکر بیٹھ گیا؟ جب تک علماء اپنے نصاب کو درست نہ کریں تو مدارس کی بدنامی کایہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا لیکن دنیا کے حریص خاموش ہیں!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

سیاسی، مذہبی، جماعتی ، تنظیمی اور مساجد ومدارس کے علماء ومفتیان نے اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر اسلام کے بہترین نظام کو قربانی کے کٹہرے میں بہت بری طرح کھڑا کیا۔
قرآن وسنت نے تمام مذاہب کے باطل عقائد ونظریات اور مسائل کی اصلاح کرکے انقلاب برپا کردیا تھا لیکن مدارس کے نصابِ تعلیم نے پھر سے باطل عقائد ومسائل پیدا کررکھے ہیں

اس اخبار میں علماء کے نصاب و کردار پر تیر چلائے جاتے ہیں لیکن ہمارا مقصد بغض وعناد اور دشمنی نہیں۔ کالج یونیورسٹی کے طلبہ و اساتذہ سے زیادہ مدارس کے علماء و طلبہ میں صلاحیت ہے۔ مفتی سید عدنان کا کا خیل نے مشاہد حسین سید اور عوام کے سامنے کس طرح پرویزمشرف کے سامنے اپنی صلاحیت کا اظہار کردیا تھا؟۔ مفتی محمود نے قومی اتحاد اور مولانا فضل الرحمن نےPDMکی قیادت کی؟۔ طالبان نے امریکہ کو شکست دی۔ ایٹمی پاکستان کے پرویزمشرف اور جنرل محمود مرغا بن کر دانے چگ رہے تھے۔ یہ میں نہیں کہتا بلکہ اوریا مقبول جان اور سوشل میڈیا کا وہ طبقہ کہتا ہے جو فوج پر دنیا میں نمبر1ہونیکا اتنا یقین رکھتاہے جتنااللہ کی واحدانیت پر وہ حقیقی یا مصنوعی ایمان کادعویٰ کرتا ہے۔اور یہ الگ بات ہے کہ اللہ نے عرب کے بدؤوںکا فرمایا تھا کہ ”اعرابی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔ ان سے کہہ دیں کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یہ کہو کہ تم اسلام لائے ہو اسلئے کہ ایمان ابھی تک تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے”۔ (القرآن)
جنرل حمیدگل سے لیکر چھوٹے موٹے بہت سے لوگ طالبان کا کہتے تھے کہ وہ اللہ پر ایمان لائے ہیں اور پاکستان کا اسلام اعرابیوں کی طرح ہے ، جن کے دلوں میں 70سالوں سے زیادہ عرصہ ہوا کہ ایمان داخل نہ ہوسکا ہے اور اس کے بعد ہم دولت کیلئے کتنی جنگیں لڑتے رہیں گے۔
ہماری سوچ کا زاویہ مختلف ہے۔ ایمان و عمل کیلئے بنیادی بات علم کی اصلاح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبیۖ کے ذریعے سے صحابہ کرام کی تعلیم وتربیت اور حکمت سکھانے کا اہتمام کیا اور اس شعور وآگہی کی بدولت انہوں نے دنیا میں عظیم انقلاب برپا کیا ۔ قرآن کے نزول سے پہلے بہت سی برائیاں مذہب کے نام سے تھیں جن کی اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے اصلاح فرمائی۔ ظہار کا حکم مذہب نے ہی بگاڑ دیا تو ایک عورت نے اپنے شوہر کے حق کیلئے رسول اللہ ۖ سے مجادلہ کیا ۔ جس پر سورۂ مجادلہ کی آیات نازل ہوئیں اور مذہبی فتویٰ غلط قراردیا گیا۔ دنیا میں عیسائی، ہندو سمیت کئی مذاہب میں طلاق کا کوئی جواز نہیں تھا یا پھر ایک ساتھ تین طلاق سمیت بہت ساری خرابیاں تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے اس کی اصلاح فرمائی۔ زنا اورقوم لوط کے عمل کی شکل اور سزاؤں میں بھی بہت بگاڑ آچکا تھا۔ سود کی حرمت بھی ختم کردی گئی تھی اور جاگیردانہ نظام اور جنگوں میں لونڈیاں بنانے کا بھی نظام جاری تھا۔
اللہ نے ایک ایک کرکے تمام برائیوں کا وحی کے ذریعے خاتمہ قرآن میں محفوظ کیا۔ توارة میں بوڑھے مرد عورت کے زنا پر رجم کا حکم تھا ۔قرآن نے زنا پر 100کوڑے اور جبری زنا پر قتل کا حکم دیا بخاری میں ہے کہ سورۂ نور نازل ہونے کے بعدنبی ۖ نے سنگساری کی سزا پر عمل نہیں کیا لیکن ابن ماجہ میں ہے کہ رسول اللہۖ کا وصال ہوا تو رجم کی آیات اور رضاعت کبیر یعنی بڑے آدمی کو عورت کے دودھ پلانے کی آیات کو بکری نے کھاکر ضائع کیا۔قرآنی آیت یہ بتائی جاتی ہے کہ الشیخ والشیخة اذا زنیا فارجموھما …. ”جب بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت زنا کریں تو دونوں کو سنگسار کردو”۔ اب مفتی عزیز الرحمن کو بوڑھا قرار دیکر کہا جارہاہے کہ یہ معذور ہے اس میں بدکاری کی صلاحیت بھی نہیں ہے۔
جعلی آیت میں شادی شدہ اور غیرشادی شدہ کی کوئی تفریق نہیں ہے اور اگر جوان شادی شدہ ہوں تو بھی اس کی زد میں نہیں آتے ہیں۔ البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ بوڑھوں میں100کوڑے سہنے کی صلاحیت بھی نہیں ہو اور تورات میںیہ حکم ہو کہ ” ان کو کوڑے مارنا سزائے موت کے مترداف ہے اسلئے ان پر لعنت بھیج کر چھوڑدو”۔ جب قوم لوط میں ہم جنس پرستی کا رحجان تھا تو اللہ نے اجتماعی عذاب نازل کرکے ان کو صفحہ ٔ ہستی سے مٹادیا لیکن اس پر قرآن میں سزائے موت یا بہت لمبی چوڑی سزا نہیں ہے بلکہ اذیت دی جائے اور پھر توبہ واصلاح کرلیں تو ان کے پیچھے نہ پڑنے کا حکم ہے۔
جب قرآنی آیات بناکر ابن ماجہ میں پیش کی جارہی ہوں تو صحیح مسلم کی یہ روایت بھی قابلِ غور ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا کہ ” اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ لوگ مجھے قرآن پر زیادتی کا مرتکب سمجھیںگے تو قرآن میں رجم کا حکم لکھ دیتا”۔ ایک طرف ابن ماجہ میں بکری کے کھا جانے سے آیات کا ضائع ہونا اور دوسری طرف مسلم میں حضرت عمر کی بات میں کتنا کھلا تضاد ہے؟۔ جب آیات کے مقابلے میں آیات ایجاد کی جائیں، احادیث اور صحابہ کبار کے اقوال ایجاد کئے جائیں تو اس کے نتائج کیا نکل سکتے ہیں؟۔ اہلحدیث حضرات کہتے ہیں کہ ” اگر آدمی کسی عورت کا دودھ بڑی عمر میں پی لے تو اس کا اس عورت سے پردہ نہیں رہے گا لیکن اگر وہ شادی کرنا چاہے تو ان کی آپس میں شادی ہوسکے گی”۔ اگر دیکھ لیا جائے کہ مسلک پرست عناصر نے کس طرح متعہ ، رجم اور بڑے کے دودھ کی آیات تک گڑھ دی ہیں۔ پھر متضاد احادیث گڑھ دی ہیں جس طرح بیوی کیساتھ پیچھے سے بھی جماع کرنے کے حوالہ سے حدیثیں تک بھی گڑھ دی گئیں ہیں۔
گورنربصرہ حضرت مغیرہ ابن شعبہ سے شیخ الحدیث مفتی عزیزالرحمن تک اسلام کے حوالے سے قانون سازی اور اس پر اختلافات وتضادات کا جائزہ لینے کی سخت ضرورت ہے تاکہ روز روز کوئی بیل یہ نہیں بول سکے کہ مینارِ پاکستان پر لٹکادو اور نہ یہ بول سکے کہ شرعی گواہوں کے تصورات کا کیا کیا معیار ہے؟۔ پنجاب کا ایک معروف خطیب دوسرے ہم مسلک خطیب کیلئے کہا کرتا تھا کہ” وہ فاعل بھی ہے اور مفعول بھی۔الحمدللہ میں نہ فاعل ہوں اور نہ مفعول ”۔ سبوخ سید نے بھی کسی مسلک کے مناظر اورہم مسلکوں کی پشت پناہی اور دوسری کہانیوں کا ذکر کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے امہات المؤمنین ازواج مطہرات کیلئے قرآن میںدُگنی سزا کا ذکر کیا ہے اور لونڈی وایگریمنٹ والوں سے نکاح کے بعد فحاشی میں مبتلاء ہونے پر آدھی سزا کا حکم دیا۔ سنگساری اور قتل کو دگنا اور آدھا نہیں کیا جاسکتا لیکن مولوی تقلید کی وجہ سے صلاحیتوں سے محروم ہیں۔
تقلید سے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو کر اس کی حفاظت کہ یہ گوہر ہے یگانہ
اگر اسلام کو ان علماء کے چنگل سے آزاد کیا جائے جو مزارعت سے سودتک کو اسلامی قراردینے کے معاملات میں ہردور میں ملوث رہے ہیں تو انقلاب سالوں، مہینوں نہیں چند ہفتوں اور دنوں کے فاصلے پر ہے۔
عورت کے حقوق سے لیکر بدنام زمانہ گناہگاروں کے حقوق تک جس طرح اسلام نے انسانیت کی عزت وتوقیر اور سزا وجزاء کا سلسلہ رکھا ہے تو اس پر مسلمان ، کافر، ملحدین اور دنیا کے تمام انسان اکھٹے ہوسکتے ہیں۔
پاکستان کے پاس مجھے لگتا ہے کہ وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے۔ اگر جلد اچھے فیصلے نہیں کئے تو پھر افغانستان، عراق، لیبیا، شام اور فلسطین سے بھی زیادہ خطرناک حالات کا سامنا ہم سب کو کرنا پڑسکتا ہے۔ ایکدوسرے پر کیچڑ اُچھالنے کا وقت نہیں ہے بلکہ اپنے کھلے گناہوں کا اعتراف کرکے اللہ تعالیٰ کے دربار میں دست بستہ معافی مانگنے کا وقت آگیا ہے۔
قوم پرستی، مسلک پرستی، سیاست پرستی ، ریاست پرستی اور مفادات پرستی کے سلسلے بعد میں بھی چل سکتے ہیں لیکن ایسے وقت میں اپنی جان اور اپنی قوم کیلئے امن وامان مانگنا ضروری ہے۔ بلوچوں، پشتونوں، مہاجروں اور سندھیوں نے پہلے جو مشکلات دیکھی ہیں وہ کچھ بھی نہیں تھیں۔ پنجاب کی عوام کیساتھ پہلے بھی وہی ناانصافی ہوئی ہے جو دوسروں نے دیکھ لی ہے لیکن پنجاب کے لوگوں نے مرچیں کھانے کے باوجود اتنی زیادہ تیزی کبھی نہیں دکھائی جتنی دوسری قوموں نے کئی مرتبہ دکھائی ہے۔
عورت کو اپنے شوہر اور ماں باپ کی طرف سے وہ تحفظ مل جائے جس کا اسلام نے حکم دیا ہے تو دنیا اسلامی نظام کی طرف آجائے۔ حضرت داود کی 99بیگمات تھیں اور سویں کی بھی خواہش کی جو ایک مجاہد اوریا کی بیگم تھی۔ خلافت عثمانیہ کے سلطان عبدالحمید کی ساڑھے 4ہزار لونڈیاں تھیں اور اسلام نے چار تک شادیوں کی اجازت دی اور اگر انصاف نہ کرسکنے کا خوف ہو تو پھر ایک یا جنکے مالک تمہارے معاہدے ہوں۔ برصغرپاک و ہند میں اسلام کی روح پھر بھی کسی نہ کسی حد تک زندہ ہے۔ مصر کے اسلامی اسکالر نے النساء میں عورتوں کیساتھ مردوں کو بھی شامل کرنے کا تصور پیش کردیا ہے۔ وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان نے لکھاکہ ”کسی عورت سے شادی ہوتو اسکے سابقہ شوہر کے بیٹے سے بدفعلی پراحناف کے نزدیک حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی ”۔(کشف الباری)
نکاح و حرمت مصاہرت کی تفصیلات عوام کے سامنے آجائیں تو مفتی عزیز الرحمن کو بھول کر پہلے نصاب تعلیم کو درست کرنا ہی ضروری سمجھیں گے۔ ہم مسلسل متوجہ کررہے ہیں لیکن انکے کانوں پربھی جوں نہیں رینگتی ہے۔
مولانا عبدالغفور حیدری کا یوٹیوب پر بیان آیا جس میں قاری حنیف جالندھری وغیرہ بھی موجود تھے کہ ”جب قادیانیوں کے حق میں سینٹ کے اندر بل پاس کیا جارہاتھا جو قومی اسمبلی سے منظور ہوا تھا تو مجھے خوف تھا کہ مجھے چیئرمین سینیٹ کی غیرموجودگی میں ڈپٹی کی حیثیت سے دستخط کرنے پڑیںگے مگر الحمدللہ بل پاس نہیں ہوا۔ پھر حکومت نے قومی اسمبلی و سینیٹ کے مشترکہ اجلاس میں بل پیش کیا۔ ہم اپنے فرائض سے غافل نہیں”۔
مولانا حیدری کے بیان سے مفتی عزیز الرحمن کی طرح اعتراف جرم ثابت ہورہاتھا۔ ممکن ہے کہ مولانا صاحبان سوچ سمجھ کر منصوبہ بندی سے اسلام بیچ کر اپنے اثاثے بیرون ملک بنارہے ہوں کیونکہ اتنے بھولے تو یہ حضرات نہیں ہیں۔ ان کو کٹہرے میں کھڑا کرکے پوچھنا ضروری ہے۔

Oh Grandmother your female peacock has been taken away by Peacock and thieves shifted water from Karachi.

Water Mafia, Khilafat, Mafia, Water Problem Karachi, Thieves Of Karachi, Water Problem Karachi, Water Problem Karachi, Water Problem Karachi, Water Problem Karachi, Water Problem Karachi, Water Problem Karachi, Water Problem Karachi, Thieves Of Karachi, Thieves Of Karachi, Thieves Of Karachi, Thieves Of Karachi, Thieves Of Karachi, Thieves Of Karachi, Thieves Of Karachi, Thieves Of Karachi, Thieves Of Karachi,

نانی تیری مورنی کو مور لے گیا…….کراچی تیرے پانی کو چور لے گیا

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
ڈاکٹر اسرار (doctor israr)نے ایک بیان میں کہا کہ سندھ (sindh)سے خلافت (khilafat)کا آغاز ہونا چاہیے اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ سندھ کی so غیورعوام نے انگریزکے. اقتدار کو کبھی بھی دل سے تسلیم نہیں کیا ۔ پنجاب(punjab) اور سرحد(khaibar pakhtoon khuwah) میں بہترین کالج(college) اور سکول (school)بنادئیے مگر انگریز نے ایک سکول سندھ میں نہیں بنایا اسلئے کہ انگریز یہ جانتا تھا کہ سندھی (sindhi)ہمارے .وفادار نہیں ہوسکتے۔ (نہری نظام سے پنجاب so. کو آباد اورسندھ کو برباد کیا گیا تھا) اب بحریہ ٹاؤن (baharia town)کے ذریعے .سندھیوں کی زمینوں پر ناجائز so قبضہ اور کراچی کی عوام کو پانی سے Water Mafia, Khilafatمحروم کیا جارہاہے۔

test

کراچی میں. پولیس اور رینجرز امن و امان کی بحالی اورپانی بیچنے کے مافیاso (mafia)میں شریک ہیں اورعوام بھی کربلا کی جانب جارہی ہے۔ کراچی(karachi) پاکستان(pakistan) و سندھ. کا دارالخلافہ تھاجو so منی پاکستان ہے۔ پختون(pashtoon)، بلوچ (baloch)، سندھی ، پنجابی اور ہندوستان س(hindustan)ے آنیوالے مہاجرکی بڑی تعداد. یہاں آباد ہے۔ سندھ so کے شہری و دیہی علاقوں میں سندھی مہاجر تعصبات بھڑکانے کی کوششیں بھی ہوئیں۔ (MQM)کے دور میں امن کمیٹی کے بانی وزیرداخلہ سندھ .ذوالفقار so مرزا نے قرآن سر پر رکھ کر (MQM)کو غدار قرار دیا تھا۔

Water Mafia, Khilafat

آج مرزا کی بیگم فہمیدہ مرزا اور( MQM)رہنماؤں کا تحریک انصاف. کی حکومت میں اتحاد قائم ہے۔ so الطاف حسین آئے روز فوج کو دعوت دیتا تھا کہ جمہوری حکومت ختم کرکے اقتدار so پر قبضہ کرلو۔ پھر فوج کو ننگی گالیاں دیکر. دوسری قوموں کو پنجاب(punjab) اور فوج(foj) کے خلاف بھی. للکارنے کا کام جاری رکھا اور اپنے ساتھیوں کو so بھی غلیظ گالیوں سے نوازتا رہاہے لیکن ہر انسان میں کچھ خوبیاں اور کچھ خامیاں ہوتی ہیں۔

Water Mafia, Khilafat

کراچی کی عوام کو اگر (MQM)کے کارکنوں کا تحفظ حاصل so نہ ہوتا تو دوسری قومیتں. اور طالبان (taliban)نے مہاجروں کا برا حشر کردینا تھا۔ پختونوں کی آبادی والے علاقوں میں طالبان نے so کھلم کھلا اپنے فیصلے اور لوگوں سے بھتے وصول کرنا شروع .کئے تھے۔ بڑے بڑے. لوگوں کو بھی کراچی میں ہماری ریاست تحفظ نہیں دے سکتی تھی۔

test


ڈاکٹر اسرار احمد کا بیان سندھیوں کی بڑی تعریف میں ہے جنہوں نے انگریزso (british)کے اقتدار کو کبھی دل سے قبول نہیں کیا، اسلئے خلافت کا آغاز بھی سندھ سے ہونا چاہیے۔پنجاب so اور سرحدکو انگریز نے اچھے سکولوں کے علاوہ نہری نظام کا تحفہ دیا جبکہ سندھ کو محروم رکھااور اب بحریہ ٹاؤن سندھیوں کی so زمینوں پر اور کراچی کی عوام کے پانی پر قبضہ کررہاہے، پانی مافیا سے عوام کربلا کی جانب جانے پر مجبورہورہی ہے

test


سندھ کی قوم پرست پارٹیوں کو کنٹرول کرنے so کیلئے پیپلزپارٹی کو استعمال کیا جاتا ہے اور پیپلزپارٹی. کو کنٹرول کرنے کیلئے (MQM)کو استعمال کیا جاتا ہے۔ کیاسرکار کے کرنے کاکام so یہی ہے؟۔ اردو ہماری قومی ، دنیا کی اہم زباں ہے جس. کو ہندوستان، افغانستان اور عرب امارات کے علاوہ دنیا میں اہمیت so حاصل ہے۔کراچی کی ڈھائی سے تین کروڑ آبادی کے علاوہ. بہت ٹی وی چینلوں کے. ذریعے مختلف زبانوں سے تعلق رکھنے والے اربوں لوگ اس کو سمجھتے ہیں۔

Water Mafia, Khilafat

اسلام(islam) کی نشاة ثانیہ میں اسکا بہت اہم کردار ہے۔ سندھ so اور پاکستان کے اکثر چھوٹے بڑے شہروں میں مہاجر ایک. بڑی تعداد میں رہتے ہیں جن کے آباواجداد نے اسلئے ہجرت کی تھی so کہ یہاں اسلام نافذ ہوگا۔ یہاں اسلام تو دور کی بات .ہے ایساانصاف بھی نہیں مل رہاہے جو کسی بھی ریاست کا بنیادی تقاضہ ہوتا ہے۔

test


شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی (mufti taqi usmani)نے اپنی so کتابوں فقہی .مقالات (fiqhi maqalat)اور تکملہ فتح المہلم سے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے جواز soکی عبارات نکال دینے کا اعلان کیا مگر پھر وزیراعظم. عمران خان کے نکاح خواں مفتی سعید خان(mufti saeed khan) نے اپنی کتاب” ریزہ الماس”(raza almas) میں سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا. جواز so لکھا۔اگر عوام کو مدارس(madaris) کے نصاب کی بیہودگی so اور حلالے کا پتہ چل گیا تو مفتی. عزیز کو بھول جائیں گے
جب ہم نے شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی soکی کتاب فقہی مقالات کی عبارت پیش کی جس میں. فقہ Water Mafia, Khilafatحنفی کا یہ مسلک لکھا. تھا کہ” اگر ناک سے نکسیر پھوٹ جائے تو اسکے خون سے سورة فاتحہ(soorah e fatiha) کو پیشانی پر لکھنا جائز ہے اوراگر پیشاب سے لکھا جائے اور یہ یقین ہو کہ علاج ہوجائیگا تو جائز ہے”۔

test

مفتی تقی عثمانی نے اپنی so کتاب میں صاحب ہدایہ. کی کتاب تجنیس Water Mafia, Khilafatکاحوالہ دیا۔ حالانکہ یہ فتاویٰ شامیہ(fatawa e shamia) اور فتاویٰ قاضی خان(fatawa e qazikhan) میں بھی ہے۔ (MQM)کے ڈاکٹر فاروق ستار سے. سیکٹر انچارج تک سب نے so اس مسئلے پر مفتی تقی so عثمانی. کی زبردست مخالف کردی۔ تحریک انصاف کے قائد عمران خان(imran khan) کو ہم نے آگاہ کیا۔ جماعت اسلامی (jamat e islami)سے نکل کر تحریک انصاف میں شامل ہونیوالے so رہنماؤں نے عمران خان کو اس پر ردِ عمل سے. روک Water Mafia, Khilafat دیاتھا۔

Water Mafia, Khilafat


جب مفتی تقی عثمانی پر عوام کا شدید دباؤ بڑھ گیا so تو اس نے روزنامہ اسلام میں ایک مضمون شائع. کیا جس میں اس مسئلے سے لاتعلقی کا اعلان کردیا اور اپنی دونوں کتابوں ”فقہی مقالات ” اورعربی soکتاب ” تکملہ فتح الملہم ” سے اس کو نکالنے. کا اعلان کردیا۔پھر ایک چھوٹا سا اشتہار طرح کا بیان شائع کردیا کہ مجھ پر soکچھ لوگ بہتان لگارہے ہیں وہ اللہ کا خوف کریں۔ اور ہفت Water Mafia, Khilafat روزہ ضرب مؤمن میں دونوں so تحریریں ایک ہی. شمارے میں شائع ہوگئیں۔ جب مفتی عبدالرحیم(mufti abdulrahim) نے کہا کہ مفتی تقی عثمانی کو برطانیہ کے وزیراعظم ٹونی بلیر(toni blear) نے اپنا مشیر مقرر کیا. اور علیمیاں ابوالحسن so علی ندوی (abulhasan nadvi)اکسفورڈ یونیورسٹی برطانیہ(oxford university) کے انتظامی بورڈ میں شامل تھے. تو مفتی تقی عثمانی نے so دونوں باتوں کے جھوٹ ہونے کی وضاحت کردی تھی۔

Water Mafia, Khilafat


حاجی محمد عثمان (haji muhammad usman)اللہ والے پر ناجائز فتویٰ لگانے. پرعلماء نے Water Mafia, Khilafatزوال کا سفر شروع کیااور so مفتی عزیز الرحمن کا اسکینڈل (mufti azizurrehman scandle)اس کی انتہاء نہیں بلکہ یہ تو ابتداء ِ ذلت ہے Water Mafia, Khilafatروتا ہے کیا۔ آگے آگے so دیکھئے ہوتا ہے کیا؟۔ حلالہ(halala) اور مدارس(madaris) کے نصاب کا پول کھلے. گا تولوگ اسلام کے نام پر عوام کا استحصال soدیکھ کر حیران ہونگے کہ جہالت ، مفادپرستی ،غیراخلاقی حرکتوں، بیہودگی اورناشائستہ ونازیبامعاملے کا یہ گرا ہوا معیارہے؟

Water Mafia, Khilafat


حاجی محمد عثمان معروف شیخ طریقت تھے جن سے کراچی so کے کئی بڑے مدارس کے بڑے علماء بیعت تھے۔ مفتی تقی. عثمانی کے استاذ مولانا عبدالحق(molana abdulhaq) اور so دارالعلوم کراچی(darululoom karachi) کے مولانا اشفاق احمد(molana ashfaq ahmed) قاسمی فاضل دیوبند بھی بیعت تھے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی so کے مہتمم مفتی احمدا لرحمن اور مفتی اعظم. پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی (mufti wali hassan tonki)وہاں آتے جاتے تھے ۔

test

مولانا فضل(molana fazal rehman) محمد استاذ. حدیث Water Mafia, Khilafatجامعہ بنوری ٹاؤن کراچی بھی حاجی so عثمان سے بیعت تھے اور جامعہ فاروقیہ شاہ(jamia faroqia) فیصل کالونی کے ایک استاذ so بھی بیعت تھے۔ کور کمانڈر. نصیر اختر(cor commander naseer akhtar)، جنرل خواجہ ضیاء الدین بٹ(genral ziauddin but) اور کئی Water Mafia, Khilafatبریگیڈئیر(bregadier) بھی بیعت تھے۔ الائنس موٹرز کا اسکینڈل آنے سے پہلے یہ پتہ چل گیا کہ حاجی عثمان کو حبسِ بے جا میں so رکھا گیا ہے۔ پھر ان پر بہت ہی ناممکن قسم کے. الزامات لگاکر فتویٰ لگایا گیا۔ جن میں مفتی عبدالرحیم سمیت بڑے علماء ومفتیان بری so طرح پھنس گئے۔ آج بھی حقائق سب کے سامنے. لائے جاسکتے ہیں۔ ہم نے اس وقت پہاڑوں سے زیادہ مضبوط مدارس کے قلعوں کو بدترین شکست دیدی تھی۔

Water Mafia, Khilafat


سندھ کی انفارمیشن سکریٹری(sind information sectry) مہتاب راشدی(mehtab rashidi) تک ہمارے اخبار کی شکایت پہنچی کہ مفتی تقی عثمانی کے خلاف سورة فاتحہ کو. پیشاب سے لکھنے کو جائز قرار دینے کی بات شہہ سرخی سے شائع کردی ۔ حقائق بتانے پر اس نے پیشکش کردی کہوزارت داخلہ سے .سکیورٹی کیلئے پولیس گارڈ کا لکھ دوں گی لیکن ہم نے منع کردیا۔ ہماری ذاتیات کا معاملہ نہیں۔ بہت بڑی تعداد میں لوگ مذہب کے. نام پر غلط استعمال ہورہے ہیں، جنکا غیرفطری استحصال ہورہا ہے اور جن کو اسلام کے نام پر جہالتوں کے اندھیرے میں دھکیلا جارہاہے۔

Water Mafia, Khilafat

جنگ اخبار میں آپ کے مسائل اور ان کا حل میں یہ بات شائع so ہوئی کہ اگرمیاں بیوی میں سے کسی. ایک کا انتقال ہوجائے تو دوسرے کیلئے so اس کا دیکھنا کیوں جائز نہیں ہے؟۔ مولانا سعیداحمد جلالپوری(molana saeed ahmed jalalpuri) رئیس دارالافتاء جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی نے جواب so دیا تھا کہ ایک کے فوت ہونے کے بعد دوسرا اجنبی بن جاتا ہے۔

Water Mafia, Khilafat


اردو زبان اور کراچی(karachi) میں so زیادہ تعداد کی وجہ سے انقلاب(inqilab) کا پہلا حق کراچی والوں کا بنتا ہے۔مولانا عبیداللہ سندھی (molana ubaidullah sindhi)کی ہدایت تھی کہ اگر ہوسکے تو کراچی کو مرکز بنائیں ، نہیں so تو پھر شکارپور سندھ(shikar pur) کو اسلام کی احیاء کیلئے اپنا مرکز بنالیں۔ہمارا کراچی کے بعد مرکز ملتان اور so شکارپور میں منتقل ہوا تھا۔ اگر حاجی عثمان پر فتوے نہ لگتے تو علماء کے خلوص پر شک نہ so رہتا لیکن ہمارا اصل ہدف صرف اسلام کی نشاة ثانیہ ہے!

test

میری ایک بیگم شکار پور کی. سندھی ،دوسری تربت کی بلوچ، دو بہو مہاجر اور ایک کشمیری ہے۔ سندھی، مہاجر اور بلوچ میں یہ بات ہے کہ میاں بیوی میں سے کوئی فوت ہو تو دوسرے کیلئے وہ اجنبی ہے اور اس پر عمل بھی ہورہاہے۔ مفتی طارق مسعود کہتا ہے کہ بیوی فوت ہو تو اس کا شوہر قبر میں اس کو نہ اتارے بلکہ اسکے محرم بھائی اور بیٹے اتاریں لیکن اللہ تعالیٰ قرآن میں کہتا ہے کہ قبرسے اٹھنے کے بعد بھی میاں بیوی کا رشتہ قائم رہتا ہے۔ یوم یفر المرء من اخیہ وامہ وابیہ وصاحبتہ وبنییہ ”اس دن بھاگے گا انسان اپنے بھائی، اپنی ماں، اپنے باپ، اپنی بیوی اور اپنے بچوں سے”۔

Water Mafia, Khilafat

جس طرح دیگر رشتے قائم ہونگے اسی طرح بیوی کا رشتہ قیامت تک قائم رہے so گا۔ اگر بیوی کا رشتہ قائم نہیں رہتا ہے تو پھر علماء کی بیگمات کیساتھ اجنبی مردوں کو کیوں جوڑا جاتا ہے کہ قبر کی تختی so پر زوجہ فلاں مفتی اعظم اور زوجہ فلاں مولانا؟۔حضرت عائشہ(hazrat ayesha) سے نبیۖ نے فرمایاکہ ” اگر آپ مجھ سے پہلے فوت so ہوگئیں تو میں غسل دوں گا”۔

Water Mafia, Khilafat

حضرت ابوبکر کی میت کو آپ کی زوجہ نے غسل دیا اور حضرت علی(hazrat ali) کی میت کو حضرت فاطمہ (hazrat fatma)نے غسل دیا۔ مولوی حضرات نے قرآن وسنت کا متبادل مذہب ایجاد کررکھا ہے۔ حضرت علی کی والدہ کو نبیۖ نے اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارکر فرمایا کہ میری ماں ہیں۔اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح فرمایا کہ وقال الرسول یارب ان قومی اتخذوا ہٰذالقرآن مھجورًا ” اور رسول کہیں گے کہ اے میرے رب! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔ (القرآن)

test


طلاق(talaq) اور عورت کے حقوق(aurat k huqooq) پر کتابیں لکھ کر علماء پر ہم نے حجت پوری کردی لیکن مدارس میں حلالہ(halala) کے نام پر عزتوں کو لوٹا جارہاہے۔ مفتی عزیز الرحمن نے جس ڈھٹاٹی ، صفائی اور بے شرمی سے وضاحتی بیان میں کہا کہ” چائے پلاکر مجھ سے یہ کام کروایا گیا اور ممکن ہے اور بھی ویڈیو ہوں”۔ اگر حلالہ اور مدارس کے نصاب سے عوام کو آگاہ کیا جائے تو مفتی عزیز (mufti azizur rehman)کو بھول جائیںاللہ نے قرآن میں بہت وضاحتوں کیساتھ طلاق اور اس سے رجوع کے احکام کو بیان کیا ہے۔

Water Mafia, Khilafat

سب سے بڑی اہم اور بنیادی بات بار بار یہ واضح کی ہے کہ طلاق کے بعد باہمی رضامندی سے رجوع کا دروازہ اللہ نے کھلا رکھا ہے اور باہمی رضامندی کے بغیر طلاق کے بعد رجوع کی اللہ نے گنجائش نہیں رکھی۔ قرآن وسنت ،حضرت عمر اورائمہ اربعہکے مسلک میں قدر مشترک یہی تھا لیکن بعد کے فقہاء ومحدثین نے جہالتوں کی وجہ سے معاملات بگاڑ دئیے ہیں۔

Water Mafia, Khilafat


قرآن میں اتنے بڑے بڑے تضادات کیسے ہوسکتے ہیں کہ سورہ ٔبقرہ وسورۂ طلاق میں بار بار اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہو کہ عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد باہمی رضامندی اور معروف طریقے سے رجوع ہوسکتا ہے لیکن درمیان میں یہ بات بھی ڈال دی ہو کہ تیسری طلاق کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا ہے یہاں تک وہ کسی دوسرے شوہر کیساتھ نکاح کرلے؟۔

Water Mafia, Khilafat

طلاق کے بعد رجوع کیلئے بنیادی شرط باہمی رضامندی ہے جو قرآن میں بار بار واضح ہے اور آیت(229)البقرہ میں یہ وضاحت ہے کہ جب دونوں آئندہ رابطہ نہ رکھنے پر متفق ہوں ۔ فیصلے والے بھی اس نتیجے پر پہنچ جائیںکہ آئندہ رابطے کی کوئی چیز انکے درمیاں نہ چھوڑی جائے تو اس میں سوال یہ پیدا نہیں ہوتا کہ رجوع ہوسکتا ہے یا نہیں بلکہ عورت کو کسی اور سے نکاح پر پابندی سے بچایاہے۔
اللہ تعالیٰ نے آیت(229)البقرہ میں پہلے یہ واضح کردیا کہ جب شوہر نے دو مرتبہ الگ الگ مراحل میں طلاق دینے کے بعد تیسرے مرحلے میں بھی رجوع نہیں کیا بلکہ طلاق دیدی تو شوہر کیلئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی اس کو دیا ہو کہ اس میں سے کچھ بھی واپس لے۔

test

مگر یہ کہ دونوں کو خوف ہو کہ اس چیز کے واپس کئے بغیر اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے اور اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیںگے تو اس چیز کو عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہی وہ صورت ہے کہ اللہ نے واضح کردیا ہے کہ دونوں کسی صورت میں بھی اب اکٹھے نہیں رہنا چاہتے ہیں اور فیصلہ کرنے والے بھی اس پر متفق ہیں تو کوئی رابطے کی چیز بھی باقی رکھنے میں اللہ کی حدود کو پامال کرنے کا خدشہ ہو توپھر حلال نہ ہونے کے باجود وہ دی ہوئی چیز واپس کی جائے تو دونوں پر حرج نہیں۔

Water Mafia, Khilafat


آیت(229)میں بھرپور وضاحت کے بعد کہ دونوں باہمی رضامندی سے نہ صرف جدا ہونا چاہتے ہیں بلکہ آئندہ کسی صورت بھی ملنا نہیں چاہتے ہیں تو اسکے بعد اللہ نے آیت(230)البقرہ میں واضح کردیا کہ ” پھر اگر اس نے طلاق دی تو وہ اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے”۔ اس آیت میں بنیادی طور باہمی رضامندی سے رجوع کا معاملہ ختم نہیں کیا گیا ہے بلکہ عورت کو شوہر کی دسترس سے باہر نکالنے کا آخری حربہ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ مردوں کی فطرت ہوتی ہے کہ اگر وہ اپنی بیوی سے رجوع نہ بھی کرنا چاہتے ہوں تب بھی کسی اور شوہر سے نکاح میں رکاوٹ بنتے ہیں۔

test

قرآن نے واضح کیا کہ عدت کے اندر بھی باہمی رضا کے بغیر ایک مرتبہ طلاق کے بعد بھی رجوع کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن فقہاء کی کھوپڑی میں قرآنی آیات نہیں آئیں۔ پھر یہ بھی آخر میں واضح کردیا کہ جب آئندہ نہ ملنے پر اتفاق رائے ہو تو پھر جب تک اس عورت کا اپنی مرضی سے کسی اور شوہر سے نکاح نہ ہوجائے تو پہلے کیلئے حلال بھی نہیں۔ اللہ نے وحی اتاری اور انسان کے ضمیر میں اتارنے کیلئے اس انداز میں واضح بیان کردی کہ کسی کند ذہن سے بھی یہ توقع نہیں رکھی جاسکتی ہے کہ اس کو سمجھ نہ سکے ۔ کراچی اور سندھ کی عوام نے توجہ دی تو اسلامی انقلاب سرپر کھڑا ہے۔

test


www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Syed Atiq ur Rehman GIlani

Statements mentioned of Shaikh Ul Islam Mufti Taqi Usmani and Mufti Rafi Usmani, Study the opinion on Three Times Divorce (Teen Talaq)opinion given by Molana Dr. Abdul Razaq Sikandar principal of Jamia Binori Town and Maulana Anwar Badakhshani.

Keywords: Mufti Taqi Usmani, Teen Talaq, Divorce, Jamia Binori Town, Mufti Rafi Usmani


پاکستان میں مذہبی سیاسی عسکری اور سماجی شخصیات کا فرض بنتا ہے کہ بہت مشکل حالات پیدا ہونے سے پہلے پہلے افہام و تفہیم کے ذریعے سے معاملات کو سلجھایا جائے ۔

قرآن میں بہت آسان انداز میں جن مسائل کا حل پیش کیا گیا ہے ان کی طرف مسلمانوں کو متوجہ کرنے کے بجائے لمبی چوڑی اور غیر فطری تفاسیر میں لوگوں کو الجھانے کا یہ نتیجہ ہے کہ آج امت مسلمہ قرآن کریم کی فطری تعلیمات سے بہت دور ہوگئی ہے۔
مفتی حسان عثمانی صاحب شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی (Mufti Taqi Usmani)کے صاحبزادے ہیں۔ ایک ہوشیار انسان سے کسی نے پوچھا کہ دنیا میں سب سے طاقتور آدمی کون ہے؟۔ اس نے بادشاہ کے صاحبزادے پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ یہ سب سے طاقتور شخصیت ہیں۔ سائل نے حیرانگی سے پوچھا کہ ایک بے اختیار آدمی کس طرح سب سے طاقتور انسان ہوسکتا ہے؟۔ یہ بادشاہ کا بیٹا ہے لیکن اس کے پاس کسی قسم کی کوئی ذمہ داری اور اختیار نہیں ہے۔ پھر یہ کیسے طاقتور ہوسکتا ہے؟۔ ہوشیار انسان نے بہت اعتماد کے ساتھ جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس بیٹے نے اپنی بات اپنی ماں سے منوانی ہے اور ملکہ بادشاہ سے اپنی بات منواسکتی ہے۔ اسلئے سب سے زیادہ طاقتور یہی شخص ہے۔ گھروں میں صاحبزادوں کے ماحول کا بہت زیادہ اثر ہوتا ہے۔
ہمارے ایک ساتھی ڈاکٹر احمد جمال نے پورے اعتماد کیساتھ یہ توقع ظاہر کی تھی کہ جامعہ بنوری ٹان کے پرنسپل ڈاکٹر عبد الرزاق سکندر تین طلاق کے مسئلے پر اور عورت کے حقوق پر اپنے تاثرات دیں گے۔ لیکن بدقسمتی سے جب وہ تاثرات لینے کیلئے ڈاکٹر صاحب کے گھر پر حاضر ہوا تو ڈاکٹر صاحب کے صاحبزادے سے سامنا ہوا۔ پھر صاحبزادے کے چہرے پر ناگواری کے اثرات دیکھ کر ڈاکٹر احمد جمال بجا طور پر مایوس ہوگئے۔ جامعہ بنوری ٹان کے استاذ مولانا انور بدخشانی نے بھی فرمایا تھا کہ طلاق پر علم کے سلسلے میںہم کوئی رائے اپنی طرف سے نہیں دے سکتے ۔ دار العلوم کراچی میں یہ جرات ہے۔ دار العلوم کراچی کے ذیلی ادارہ اور مفتی تقی عثمانی (Mufti Taqi Usmani) صاحب کے شاگردوں کی طرف سے متعدد مرتبہ ہم سے کہا گیا ہے کہ بڑوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے ہمیں مسئلہ سمجھ میں آگیا ہے لیکن جب تک بڑے کوئی قدم نہیں اٹھاتے تو ہم مجبور ہیں۔
ہماری طرف سے یہ استدعا ہے کہ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی (Mufti Taqi Usmani) اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی (Mufti Rafi Usmani)اپنے مایہ ناز شاگرد مولانا عصمت اللہ شاہ اور دیگر حضرات سے ہماری ملاقاتوں کا اہتمام کرائیں انشا اللہ ہم کسی اچھے نتیجے پر پہنچ کر پوری امت کو بہت بڑے بحران سے نکالنے میں جلد از جلد کامیاب ہوں گے۔
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv

وزیرستان میں غیرفعال و غیر حاضر اساتذہ پر”ماوا” خاموش کیوں؟

Waziristan, Corruption in Education, Education Policy in Pakistan, Mawa, Latest news about Education in Pakistan

وزیرستان میںغیرفعال و غیر حاضر اساتذہ پر”ماوا” خاموش کیوں؟
آزاد صحافت: تحریر شفقت علی محسود

نوٹ: کالم کے آخر میں نوشتہ دیوار کا تبصرہ ملاحظہ فرمائیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ وہ جنہوں نے تعلیم پر توجہ دی وقت نے انہیں کامیاب کر کے دکھایا۔

تعلیم انسان کو شعور مہیا کرتی ہے ”شور” اور ”شعور” میں ”ع” حرف کا فرق ”علم”ہے۔

وزیرستان میں تعلیم کے حوالے سے سرکاری حکام کو دردِ دل کے ساتھ توجہ دلائی گئی ہے۔

(1:) تعلیم۔کی اہمت اور ماحول کا اثر:
تعلیم کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔تاریخ گواہ ہے کہ وہ ممالک، شہر، قوم یا افراد جنہوں نے تعلیم پر توجہ دی وقت نے انہیں کامیاب کر کے دکھایا۔ تعلیم انسان کو شعور مہیا کرتی ہے اور ”شور” اور ”شعور” میں ”ع” حرف کا فرق ”علم”ہے۔اگر چہ تعلیم کے بعد انسان پر آسمان سے زر و دولت کی بوریا یا نوٹوں کے لفافے نہیں اترتے بلکہ علم سے حاصل شعور سے انسان دنیا کے خزانوں، مال و دولت، اور انسانی ذہن پر حکمرانی کا شرف حاصل کر لیتا ہے۔انسان پر ماحول کا بڑا اثر ہوتا ہے جو ماحول میسر ہوگا اسی رنگ میں رنگ جاتا ہے۔ ایک خانہ بدوش بچہ باقی دنیا سے کٹ کر صرف بھیڑ، بکریوں اور اپنے خیمے کی بات کریگا کیونکہ اسکے ماحول میں یہی چیزیں گردش کر تی ہیں ۔ اسی طرح اگر کسی تعلیم یافتہ اور کھاتے پیتے گھرانے کے بچے کو دیکھا جائے تو اسکے بول چال، عادات و اطوار گلی میں آوارہ بچے سے بالکل ہی مختلف ہونگی۔ یہ سب ماحول کی وجہ سے ہے۔نقل مکانی کے بعد وزیرستان کے لوگوں نے مختلف علاقوں میں رہائش کے دوران ماحول کا اثر لیتے ہوئے اپنے بچوں کو مختلف سکول اور مدرسوں میں داخل کرانا شروع کر دیا ہے۔
(2:)آپریشن کے بعد وزیرستان کا تعلیمی پس منظر اور رکاوٹیں:
میری تحریر کا مقصد وزیرستان کے موجودہ تعلیمی صورت حال پر روشنی ڈالنا ہے تو میں بات فوجی آپریشن کے بعد کے وزیرستان سے شروع کرنا چاہونگا۔فوجی آپریشن کے بعد اپنے آبائی علاقے میں واپسی شروع ہونے پر لوگ پاکستان کے دور دراز شہروں سے خاندان سمیت واپس وزیرستان میں آباد ہونا شروع ہوگئے ۔ جب دیکھا تو مکان، دکان، ہسپتال اور سکول مکمل طور پر منہدم ہو گئے تھے۔وزیرستان کا تعلیمی نظام مکمل طور پر غیر فعال تھا اب وزیرستان کو آباد کرنے کیلئے نئے سرے سے تعمیرات شروع کی گئیں ۔اکثر منہدم سکولوں کو دوبارہ تعمیر کر نے کا کام شروع کیا گیا اور جو سکول بچ چکے تھے وہ غیر فعال تھے۔پھر وقت کیساتھ ساتھ ان سکولوں کو فعال کرنا شروع کیا گیا۔پہلے سے موجود اساتذہ کی ڈیوٹیاں لگائی گئیں تعلیم کی بہتری کیلئے ایجوکیشن مانیٹرنگ یونٹ بنائے گئے، نئے اساتذہ کو بھی بھرتی کیا گیا۔ خواندہ وزیرستان کے مقصد کیلئے مختلف ویلفئر بنائی گئیں۔ موجودہ تعلیمی سفر میں دو بڑے مسائل ہیں ۔غیر فعال سکول اور غیر حاضر اساتذہ ۔تعلیم یافتہ وزیرستان کے خواب کی تکمیل کیلئے ضروری تھا کہ موجودہ اساتذہ پوری ذمہ داری کیساتھ اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتے لیکن ایسا نہیں ہو پا رہا ۔ اسکی سب سے بڑی وجہ شاید یہ ہے کہ فوجی آپریشن کے بعد اساتذہ کی تنخواہیں بدستور جاری رہیں اور (9) یا (10)سالوں تک بغیر ڈیوٹی انجام دئیے تنخواہیں وصول کرتے رہے تو شاید اس نے ان کو مفت خوری کا عادی بنا دیا ہو ۔ یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ آپریشن کے دوران اساتذہ مختلف کاروبار پراپرٹی، ڈسپنسری، دکان اور زمیندارہ وغیرہ شروع کر چکے تھے اب بھلا انکو چھوڑ کر تنخواہ پر گزارہ کرنا آسان نہ تھا۔ دوسرا بڑا مسئلہ غیر فعال سکول ہیں۔یہ سکول فوجی آپریشن سے پہلے فعال تھے لیکن آپریشن کے بعد ان میں سے بعض کی عمارت منہدم ہونے کے بعد آج تک بنی نہیں یا عمارت تو موجود ہے لیکن ابھی تک سکولوں میں تعلیمی سرگرمیاں شروع نہیں ہوئیں۔یا یہ وہ سکول ہو سکتے ہیں جنکو مالکان، مشران اور علاقے کے بااثر لوگوں نے ان کو بطور مہمان خانہ اور بیٹھک بنائے ہوئے ہیں ۔سکولوں کی دوبارہ بحالی اور اساتذہ کو سکولوں میں ڈیوٹی انجام دینے کیلئے مختلف علاقوں کے نوجوان اپنی جدو جہد کرتے رہے اور آئی ایم یو (IMU)تک اپنی فریاد پہنچاتے رہے مگر کچھ دنوں کی حاضری کے بعد پھر وہی غیر حاضری ۔یہ اساتذہ مختلف بہانے بنا کر ان نوجوانوں کو مطمئن کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہے کبھی علاقائی امن کا بہانہ بنا کر اپنے آپکو کو غیر محفوظ کہتے تو کبھی رہائش و سہولیات کی عدم دستیابی کا بہانہ کر کے خود کو بے قصور کہتے ۔لیکن ان اساتذہ کی غیر حاضری کسی بڑے سپورٹ کے بغیر ممکن نہیں۔
(3:) ماوا کی غیر فعال سکولوں اور غیر حاضر اساتذہ پر خاموشی کیوں؟؟
ماوا کا قیام وزیرستان میں تعلیم کے فروغ اور خواندہ وزیرستان کے نعرے سے ہوا اور لوگوں نے بھر پور انداز میں خیرمقدم کیا۔ماوا وزیرستان میں تعلیمی فروغ کیلئے ایجوکیشن سٹی کا قیام عمل میں لایا اور توقع کی جا رہی ہے کہ مستقبل میں اس سے کافی فوائد وابستہ ہیں،ماوا نے کچھ سکولوں کا سنگ بنیاد بھی رکھا جس میں بچوں کو تعلیم فراہم کی جا رہی ہے ۔ اسکے ساتھ مختلف علاقوں کے غریب بچوں کو پاکستان کے مختلف سکولوں میں فری تعلیم دلوانے اور پہلے سے داخل شدہ بچوں کے اخراجات بھی ماوا برداشت کر رہا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ ماوا خواندہ وزیرستان کے خواب کو پورا کرنے کیلئے نیا سیٹ اپ لانا چاہتا ہے ؟کیا ایجوکیشن سٹی اور دوسرے طرز کے سکول بنا کر پورے وزیرستان میں پھیلانا چاہتے ہیں؟ اگر ہاں تو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ اس سیٹ اپ کو پھیلانے میں وقت لگے گا، پانچ (5) سال کے بچے کو اگر آج ہی قلم کتاب نہ تھمائی گئی تو پانچ (5) سال کے بعد یہی بچہ کہیں پر مزدوری ، کلینڈری کرتا نظر آئیگا۔ ہماری وہاں مقیم ایک اور نسل جہالت کے اندھیرے میں ڈوب جائیگی۔چونکہ ہر علاقے میں سکول پہلے ہیں۔ ان سکولوں کا سٹاف بھی ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ریکارڈ میں ہے۔ ان سکولوں کو فعال کرنے اور ان میں معیاری تعلیم کی کوشش کرنا وقت کی ضرورت ہے۔اگر ماوا واقعی خواندہ وزیرستان دیکھنا چاہتا ہے تو پھر وزیرستان کے ہر علاقہ کے سکول کو فعال ، غیر حاضر اساتذہ کو ڈیوٹی انجام دینے کیلئے کوشش کرنی ہوگی ۔سرا روغہ گرلز مڈل سکول کے متعلق خبر چلی کہ سکول عرصہ سے بند ہے، آٹھ (8)فیمیل ٹیچرز کافی عرصہ سے غائب ہیں۔ کیا ضروری نہیں کہ اس طرف توجہ دی جائے۔ اکثر سکول غیر فعال ہیں یا اساتذہ غیر حاضر ہیں ۔کیا ماوا نے ان کی فعالی اور اساتذہ کی حاضری کیلئے آواز اٹھائی ہے اگر نہیں تو کیوں؟۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ متعدد سکول ماوا سے تعلق رکھنے والے عہدیداروں یا انکے جان پہچان والوں کے زیر کنٹرول ہیں اور ان پر ڈیوٹی دینے والے اساتذہ انکے رشتہ دار ہیں؟۔وادی بدر کے غیر حاضر اساتذہ اور بند سکولوں کی بحالی کیلئے آواز اٹھائی گئی تو پہلے مختلف طریقوں سے ان نوجوانوں کو چپ کرانے کی کوشش کی لیکن جب نوجوانوں نے ایک نہ مانی اور مختلف ویڈیو رپورٹ سوشل میڈیا کمپیئن کے ذریعے انکے خلاف ڈٹے رہے تو ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے افسران آئے اور علاقے کے مشران اور نوجوانوں کو دھمکیاں دیں کہ کیوں انہوں نے غیر حاضر اساتذہ کے خلاف ویڈیوز رپورٹ بنائیں۔اس واقعہ کی تفصیل مشران کی زبانی ایک ویڈیو میں موجود ہیں۔کیا ماوا اس سارے واقعہ سے با خبر ہے۔ اگر ہاں تو خاموشی کیسی؟ ۔اور اگر نہیں تو کیا خواندہ وزیرستان کا نعرہ صرف بروند اور مولے خان سرائے تک محدود ہے؟ ماوا کے ذمہ داروں کو لوگوں کے تحفظات دور کرنے ہونگے، اعتماد میں لینا ہوگا لیکن اگر ان کو نظر انداز کیا گیا تو مستقبل میں یہ تحفظات پوری جماعت کی ہونگی ،تب مطمئن کرنے میں کافی دیر ہو چکی ہوگی۔
جوابی تبصرہ : نور ولی محسود
محسود ویلفئیر ایسوسی ایشن اپنی بساط و دائرہ کار کے تحت مسئلے کو شروع دن سے ڈیل کررہی ہے۔ ماوا مشران نے ہر فورم پر اس مسئلے کو اٹھایا ہے۔ جب بھی متعلقہ محکموں کیساتھ بیٹھک ہوئی ہے، اس مسئلے کی جانب توجہ ضرور دلائی ہے۔ ابھی(5)مئی (2021) کو بھی ماوا کے مشران پر مشتمل ایک اعلی سطحی وفد نے سیکریٹری ایجوکیشن اور سیکریٹری ہیلتھ کے پی کے (KPK) کیساتھ خصوصی ملاقاتیں کیں۔ مقصد انہیں علاقے میں موجود غیر فعال تعلیمی اداروں اور صحت کے مراکز کی نشاندہی اور ان کو از سر نو فعال کرنے کی جانب توجہ دلانا تھا۔ اگلی نشستیں عید کے بعد ہونگی۔
تبصرہ : ماہنامہ نوشتۂ دیوار کراچی
وزیرستان کی محسود قوم میں دونوں افراد کے جذبات کا مختصر خلاصہ پیش کردیا ہے۔ وزیروں نے اپنی ایک فلاحی تنظیم کے ذریعے سے اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم وتربیت کا اہتمام کررکھا تھا اور یہ جذبات محسود قوم میں بھی جاگ اُٹھے ہیں۔ فوجی آپریشن سے پہلے بھی مسائل کا سامنا قبائل کے تعلیمی نظام کو تھا۔ البتہ فوجی آپریشن سے پہلے طالبان کی دہشت گردی اور پھر فوجی آپریشن کے بعد تعلیمی نظام کو بڑا نقصان پہنچا ہے۔ خوشی اس بات کی ہے کہ شفقت علی محسود نے بھی ایک تنظیم کو اپنے فرائض کی طرف توجہ دلائی ہے اور اچھی اپوزیشن کا کردار ادا کیا ہے۔ نور ولی محسود نے بھی معقول جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ بندوق اور بارود کی جگہ تعلیم اور شعور کی طرف متوجہ ہوں تو بہت بڑی تبدیلی آسکتی ہے۔
اسلام کی آفاقی تعلیم پر کامریڈ اور طالبان ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوسکتے ہیں۔ شعورکو اُجاگر نہ کیا گیا تو جاہلیت کا اندھیرا ماردے گا۔ علم کیساتھ نظام کا درست ہونا ضروری ہے ۔ یہ شعور کا خلاصہ ہے۔

The shameful role of smuggling coal from the heart of Waziristan, the forests of Badr Valley to Afghanistan continues with great shamelessness in Imran Khan’s government.

Plant for Pakistan, Plant for Pakistan Waziristan, Waziristan, Politics, Politics, Forests, Badr Valley, Badr Valley

وزیرستان کا دل وادیٔ بدر کے جنگلات(Forests) کوئلہ بناکر افغانستان because سمگلنگ کرنے کا شرمناک and کردار عمران خان کی حکومت میں بہت ہی بے شرمی و بے غیرتی کیساتھ جاری ہے۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

وزیراعظم عمران خان نے خیبر so پختونخواہ میں نئے درخت لگانے کا جوجھوٹا دعویٰ Badr Valley کیا تھا وہ تو اپنی جگہ لیکن وزیرستان کی بہار سرسبز وشاداب درختوں کے جنگل(Forest) بھی چوری کرکے کاٹ and دئیے گئے۔ وزیرستان میں گیس کا کوئی تصور نہیں ہے مگر لوگوں نے جنگلات(Forests) کی حفاظت پھر بھی کی ہے۔ وزیرستان کے دل and وادیٔ بدر کے درخت کاٹ کاٹ کر کوئلہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے جو افغانستان سمگل and ہورہے ہیں۔ یہ کتنی شرمناک بات ہے؟۔ متعلقہ حکام کو اطلاع دی گئی مگر نوٹس نہیں لیا ۔
صدر. مملکت Badr Valley عارف. علوی، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، ڈی جی. آئی ایس آئی and (ISI)، چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف جسٹس

zarbehaq

پشاور ہائیکورٹ اسکا فوری نوٹس لے اور وزیرستان کی آبادیوں کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے .and کے بعد کم ازکم جنگلات(Forests) . کو بچانے میں کردار ادا کریں۔ درخت اور جنگلات(Forests) توکوئی گناہگار نہیں ہیں؟۔ سوشل میڈیا پر اس کی مکمل ویڈیو اور تفصیلات موجود ہیں۔ ریاست کا کام عوام کو سہولت فراہم Badr Valley کرنا ہوتا ہے، معاشرتی برائیوں اور ماحولیاتی آلودگیوں سے ان کو بچانا ہوتا ہے لیکن ہماری because ریاست اپنی نااہلی اور مفادپرستی so کی وجہ سے اُلٹا. لٹکنے کو ہی so اپنا حق اور فرض but منصبی سمجھتی ہے۔ ایسے حکمرانوں پر بہت برا وقت جلد آسکتا ہے۔
پشاور کے میٹرو کوبرج Badr Valley کے ذریعے اٹھا کر. یونیورسٹی. روڈ پر رحم کیا جاسکتا. تھا مگر پرویز because خٹک اور عمران خان نے مہنگے ترین کاروباری مراکز کا بیڑہ غرق کردیا۔

عنقریب پاکستان بینک کرپٹ ہوجائے گا تو دنیا بدل جائے گی۔

عنقریب پاکستان بینک کرپٹ ہوجائیگا تو دنیا بدل جائیگی۔ ہم نے نوازشریف کے دور میں بھی لکھ دیا تھاکہ سود پر سود لینے کا سلسلہ جاری ہے۔دفاعی بجٹ سے گردشی سودی قرضہ زیادہ ہے ،پاکستان پر آئی ایم ایف قبضہ کرلے گا

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

عمران خان نے ٹھیک کہا تھا کہ آئی ایم ایف (IMF)میں جانے سے بہتر ہے کہ خود کشی کرلے لیکن نوازشریف کے سودی قرضوں کی وجہ سے آئی ایم ایف سے قرضہ لینا پڑگیا ، دلدل میں پھنس گئے !

مولانا فضل الرحمن اور مفتی محمد تقی عثمانی، تمام مذہبی طبقے اور سیاستدان ایکدوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی بجائے اسلام اور پاکستان کیلئے قربانی دیں،اللہ نے توبہ کا دروازہ تو کھلا رکھاہے !

ایک شیعہ مہمان نے کہاکہ حضرت علی نے فرمایا کہ ” جو انسان مسخ کردئیے گئے ان میں کچھ خشکی کے جانور میں بدل گئے بندر اورر خنزیر۔کچھ سمندری مخلوق میں بدل گئے۔ یہ مچھلیاں اصل میں انسان تھے جس کی شکل بدل گئی ہے۔ خرگوش بھی حرام ہے کیونکہ خرگوش واحد ایسا جانور ہے جس کو حیض بھی آتا ہے”۔ اس نے بتایا کہ امام جعفر صادق یا امام باقر سے کسی نے پوچھا کہ یزید توبہ کرسکتا ہے؟۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے توبہ کادروازہ بند نہیں کیا لیکن یزید کو توبہ کی توفیق نہ ملے گی۔ کیونکہ اس نے بے انتہاء مظالم اہل بیت پر ڈھائے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی کم بخت اپنی آخرت سنوارنے کیلئے توبہ نہیں بھی کرتا ہے تو وہ اپنی دنیا سنوارنے کیلئے ضرور توبہ کرے۔ بہت مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ ہم نے افغانستان، عراق، لیبیا اور شام کے حالات دیکھنے کے علاوہ طالبان اور فوج کی طرف سے پٹھانوں پر بھی مظالم کے پہاڑ ٹوٹنے کے مظاہرے دیکھے ہیں۔ لوگوں کو گھر بار چھوڑ کر جس طرح سے اپنے علاقے خالی کرنے کیلئے خالی ہاتھوں بھاگنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔فوج نے اس وقت پاکستان بھر میں خوب ترقیاتی کام بھی کئے اور اپنے ہاتھ بھی صاف کردئیے تھے۔ ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان کے روڈ پر لاوارث محسودوں کا بہت بڑ اقبرستان بن گیا ہے۔ بہت خود دار لوگ مشکلات کا شکار ہوکر مرگئے ہیں۔ لاپتہ افراد میں پتہ نہیں کتنے لوگ اس قبرستان میں بھی دفن کئے گئے ہوں گے۔ محسود بہت بہادر، خود دار اور زبردست صفات رکھنے والی بہترین قوم ہے۔ کوئی دوسری قوم ہوتی تو اپنے پیاروں کیلئے ماتمی جلوس نکالتے ہوئے نظر آتی ۔ بادشاہی خان محسود نے مولانا فضل الرحمن، محمود خان اچکزئی اور آفتاب شیرپاؤ وغیرہ سے اسلام آباد کی ایک کانفرنس میں گلہ کیا تھا کہ کراچی سے مہاجر نے آکر ہمارے لئے امدادی سامان کے کیمپ لگائے مگر پختون لیڈر نظر نہیں آئے۔
منظور احمد پشتین نے فوج کے خلاف بہت نعرے لگائے، اگر کوئی دوسرا یہ کام کرتا تو اس کے پرخچے اُڑادئیے جاتے لیکن پاک فوج نے سمجھداری کے علاوہ سنجیدگی کا بھی مظاہرہ کیا کہ اس قوم کیساتھ جتنی زیادتیاں ہوگئیں ہیں،اب چیخنے کا حق بھی ان سے چھین لیا جائے تو یہ بہت ناانصافی ہوگی۔ گلہ من پشتین کے انتہائی دردِ دل والے اور بہت مزاحیہ اشعاربھی فضاؤں میں گونجتے ہیں۔ بنی اسرائیل سے بھی کسی دور میں قربانی لی گئی تھی اوریہ ان کی اپنی شامت اعمال کا بھی نتیجہ تھا لیکن بہت بے گناہ لوگ امرود کے تول میں بھی آگئے تھے۔ یہ پشتو کا محاورہ ہے کہ جب گناہگاروں کیساتھ بے گناہ بھی مصیبت کا شکار ہوجاتے ہیں تو وہ اپنے لئے امرود کے تول میں آنے کی بات کرتے ہیں۔پختون قوم کو جن آزمائش کا سامنا کرنا پڑا لیکن مزے دوسرے لوگوں نے اس پر اٹھائے تھے۔
اگرڈی این اے (DNA)ٹیسٹ کیا جائے تو جس مچھلی کو شیعہ انسان سمجھ کر نہیں کھاتے وہ شاید ایسی نکلے کہ شیعہ بھی کھالیں۔ جو لوگ سادات کا دعویٰ کرکے خمس کھارہے ہیں اگر انکا ڈی این اے (DNA) کیا جائے تو شاید ہندوؤں میں بھی اچھوت نسل کے نکل جائیں۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ خمس کھانے کیلئے اچھوت سے سید بننے والے امت میں انتشار پیدا کرنا چاہتے ہوں اور اپنے مفادات کی حفاظت بھی اسی میں ان لوگوں کو لگتی ہو۔ ٹیسٹ کرنے ہونگے۔ اللہ نے قرآن میں انسانوں کو کتوں اور گدھوں سے بھی تشبیہ دی اور جانوروں سے بدتر بھی قرار دیا ہے۔ جن انسان نما جانوروں میں جانوروں سے بدتر صفات ہوں تو پھر وہ مساجد کے ائمہ بن کر بھی بدترین ہوسکتے ہیں جنکے پیچھے بندروں کی طرح نقل و حرکت کرنے والے نمازی نہ صرف گمراہی کا شکار ہوں بلکہ انسانیت سے بھی بالکل عاری ہوں اور قرآنی آیات اور حدیث صحیحہ کی تعلیمات کو دیکھا جائے تو دل ودماغ کھل سکتا ہے۔
ہم نے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کا فتویٰ شائع کیا جس میں سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کو بے دینی قرار دیا گیا۔ مفتی تقی عثمانی کی کتاب سے سورہ ٔ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے جواز کی سرخی شائع کردی۔ بریلوی مکتبۂ فکر نے پہلے تو اس کو خوب پھیلادیا مگر جب اگلے شمارے میں انکے اپنے کرتوت اورفتاویٰ کا پول کھل گیا تو پھرخاموش ہوگئے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ جب مفتی تقی عثمانی نے اپنی کتابوں سے ان عبارات کو نکالنے کا اعلان کردیا اور علامہ غلام رسول سعیدی نے بھی فتاویٰ شامیہ کی مخالفت کی تھی تو مدارس کے علماء اکھٹے ہوکر فتاویٰ شامیہ اور فتاویٰ قاضی خان وغیرہ سے یہ خرافات نکالنے کا اعلان کردیتے۔ لیکن اس کارِ خیر کیلئے بھی علماء ومفتیان نے اتفاق واتحاد کی جرأت نہیں کی تھی۔
مدارس کے نصاب میں قرآن کی تعریف میں قرآن کی تحریف کی گئی ہے لیکن علماء کی طرف سے ڈھیٹ پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے نصاب کو تبدیل کرنے کا اعلان نہیں کیا جاتا ہے۔ شیعہ سنی ایکدوسرے پر قرآن کی تحریف کے الزامات لگاتے ہیں لیکن اپنی کتابوں سے یہ بکواسات نکالنے کیلئے آمادہ نہیں ہورہے ہیں۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس نے حضرت علی سے نقل کیا ہے کہ ”رسول اللہ ۖ نے دو جلدکے درمیان قرآن کے علاوہ کچھ نہیں چھوڑا تھا”۔ یہ واحد ایسی حدیث ہے جس میں قرآن کی حفاظت کا پتہ چلتا ہے۔ حالانکہ قرآن نے اپنی حفاظت کی خود گواہی دی ہے ،اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کو تحفظ دینے کیلئے احادیث کا محتاج نہیں کیا۔ وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان نے لکھا ہے کہ امام بخاری نے اہل تشیع کو جواب دینے کیلئے لکھا ہے کہ تمہارا عقیدہ غلط ہے کہ قرآن میں تحریف ہوئی ہے جس کی دلیل حضرت ابن عباس سے حضرت علی کا قول ہے لیکن امام بخاری کا یہ جواب صرف شیعوں کو جواب دینے کیلئے ہے۔ باقی امام بخاری کے نزدیک ایسا نہیں تھا کہ واقعی رسول اللہۖ نے امت کیلئے جمع شدہ قرآن چھوڑا تھا۔ بلکہ یہ قرآن تو حضرت عثمان نے جمع ومرتب کیا ہے۔ جس میں حضرت عبداللہ بن مسعود شامل نہیں کئے گئے تو ابن مسعود حضرت عثمان سے اس وجہ سے ناراض تھے ۔ کشف الباری میں مولانا سلیم اللہ خان کی طرف سے قرآن کے خلاف نظریہ دیکھا جاسکتا ہے۔
قرآن نے اپنی جمع وترتیب کی وضاحت آیت میں کردی۔ شیعہ سنی اپنی اپنی کتابوں سے خرافات نکالنے پر اتر آئیں تو ڈر یہ لگتا ہے کہ خرافات کو چھوڑ کر بہت اچھی اچھی چیزوں کو نکالنے پر متفق نہ ہوجائیں۔ اسلام مضبوط دین ہے مگر اسکا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا گیا۔ کتاب الطہارت کی ابتداء سے فقہی مسائل کی انتہاء تک ایک ایک مسئلہ پر بات کی جائے تو بہت سا خود ساختہ بوجھ علماء وطلبہ اور عوام کے ذہنوں سے اترجائیگا۔ نکاح وطلاق کے مسائل قرآن وسنت میں جس طرح سے حل کئے گئے ہیں وہ مسلمانوں کیلئے نہیں بلکہ دنیا کے تمام انسانوں کیلئے قابلِ قبول ہی نہیں بلکہ فطرت کے عین مطابق ہیں لیکن ابھی تک جانتے بوجھتے حلالہ کی لعنت کو جاری رکھا ہوا ہے۔ اسلامی بینکاری کے نام پر ہمارے ائرپورٹس اور موٹروے کو گروی رکھ دیا گیا ہے اور جب ادائیگی کیلئے ہمارے پاس کچھ نہیں ہوگا تو غیرملکی یہودی بینک اس کو قبضہ میں لے لیںگے۔
جب عالمی قوتوں کا پاکستان کے ائرپورٹس اور موٹروے وغیرہ پر قبضہ ہوجائے گا تو وہ ہماری پولیس اور فوج کو اپنی حفاظت پر لگادیں گے۔ دہشت گردوں میں اکثریت ان کے اپنے لوگ ہیں۔ مشکل وقت آنے سے پہلے ہوشیار ہونے کی سخت ضرورت ہے۔ مولوی اور سیاستدان بدلنے میں دیر نہیں لگاتے ہیں۔ سیکولر اور کمیونسٹ بھی آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں اسلئے قربانی نہیں دے سکتے ہیں۔ مذہبی لوگوں کوہواؤں کے دوش پر کھڑا کرنے کے بجائے بہت مضبوط اور بہترین دلائل کیساتھ میدان میںا تارنا ہوگا ورنہ تو یہ سب کیلئے دردِ سر بن جائیں گے۔پنجاب کی کیفیت مذہبی اعتبار سے بہت خطرناک ہے۔
اللہ نے قرآن میں فرمایا: اے ایمان والو! کھاؤ جو زمین میں حلال پاک چیزیں ہیں اور شیطان کے نقش قدم پر مت چلو، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ وہ تمہیں برائی اور فحاشی کا حکم دیتا ہے۔ اور یہ کہ تم اللہ پر ایسی بات کرو جو تم نہیں جانتے ہو۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اتباع کرو اس کی جو اللہ نے نازل کیا ہے، کہتے ہیں کہ بلکہ ہم تو اس کی اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ہے اور اگرچہ ان کے آباء کسی چیز کو سمجھتے نہ ہوں اور نہ ہدایت یافتہ ہوں۔ ان لوگوں کی مثال جنہوں نے انکار کیا ہے بالکل ایسی ہے کہ جیسے چرواہا جانوروں کو پکارتا ہے ۔ جس کو وہ نہیں سنتے مگرہانک پکار کی صدا ۔ بہرے ہیں، اندھے ہیں اورگونگے ہیں اور وہ سمجھ نہیں رکھتے ہیں۔(البقرہ آیت 168سے172)
نمازوں میں اللہ اکبر کی تکبیریں نمازیوں کیلئے تبدیلی کا ذریعہ نہیں ۔ اگر امام سری نماز پڑھارہاہے تو اسکے پیچھے سورہ ٔ فاتحہ پڑھنا ممکن نہیں ہوتا۔ تیزی کیساتھ نماز کی عادت پوری کرنے کی بجائے عبادت ہوتی تو زندگیاں بدل جاتیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا” بیشک جو لوگ چھپاتے ہیں جو اللہ نے کتاب میںسے نازل کیا ہے اور اس پر تھوڑا سا مول لیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہیں کھاتے اپنے پیٹ میںمگر آگ۔ اور ان سے اللہ قیامت کے دن بات بھی نہیں کریگا اور نہ انہیں پاکیزہ ٹھہرائے گا اور ان کیلئے دردناک عذاب ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے گمراہی کو ہدایت کے بدلے میں خرید لیا اور عذاب کو مغفرت کے بدلے میں مول لیا۔پس کس چیز نے ان کو آگ کیلئے صبر پر مجبور کررکھا ہے؟۔ یہ اس لئے کہ اللہ نے کتاب کو حق کیساتھ نازل کیا اور جنہوں نے اختلاف کیا کتاب میں وہ بہت دور کی کم بختی میں نکل گئے۔ نیکی یہ نہیں ہے کہ اپنے چہروں کا رُخ مشرق یا مغرب کی طرف کردو۔ لیکن نیکی یہ ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور آخرت کے دن پر اور ملائکہ پراور کتاب پر اور انبیاء پر ۔ اور اس نے اپنا مال دیا اور اپنا مال اپنی محبت سے دیا اپنے قرابتداروں کو اور یتیموں کو اور مسافروں کو۔ اور مانگنے والوں کو اور گردنیں چھڑانے میںاور نماز قائم کی اور زکوٰة دی۔اور اللہ سے وعدوں کو پورا کرنے والے جب وہ عہد کریں۔ اور صبر کرنے والے مشکلات میں اور مصائب میں اورلڑائی کے وقت میں۔ یہی لوگ ہیں جو سچے ہیں اور یہی لوگ پرہیزگار ہیں۔ (البقرہ آیت 174سے 177)
اللہ نے جس طرح روزے کے وقت میں کھانے کو حرام کیا ہے ،اسی طرح سے کسی کا مال باطل طریقے سے کھانے اور حکومت کی طرف معاملہ گھسیٹ کر کھانے کو بھی حرام قرار دیا ہے لیکن مذہبی لوگ روزے میں اپنا مال کھانا حرام سمجھتے ہیں لیکن ویسے حرام مال سے وہ نہیں رُکتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اپنا مال روزے میں حرام اور دوسروں کا حلال ہے۔
اللہ نے فرمایا کہ ” اگر تم صدقات کو ظاہر کردو تو یہ بھی ٹھیک ہے اور اگر تم اس کو چھپاؤ اور فقرآء کو دو تو یہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے۔ اور اس طرح تمہاری برائیوں میں سے کچھ کا کفارہ ہوجاتا ہے۔ اور جو تم کرتے ہو اللہ اسکی خبر رکھتا ہے۔ آپ پر انکو ہدایت دینا نہیں ہے مگر جس کو اللہ چاہے ہدایت دے۔ اور جو تم خیرات خرچ کرتے ہو تو یہ تمہارے اپنے نفسوںکیلئے بہتر ہے۔ اور تم خرچ نہیں کرتے مگر اللہ کی رضا حاصل کرنے کیلئے ۔ اور جو تم خرچ کرتے ہو ،اللہ اسکا پورا بدلہ دیتا ہے اور تمہارے ساتھ ظلم نہیں ہوتا ہے۔اور جو لوگ اللہ کی راہ میں ایسے قید ہوگئے ہیں کہ وہ زمین میں بھاگ دوڑ کی استطاعت نہیں رکھتے ۔ جاہل گمان کرتے ہیں کہ وہ دولتمند ہیں ان کی خود داری کی وجہ سے۔ آپ ان کو چہروں سے پہچان لوگے۔وہ لوگوں سے لپٹ کر نہیں مانگتے ہیں۔ اور جو تم اچھا خرچ کروگے تو اللہ اس کو جانتا ہے۔ جو لوگ اپنے اموال رات اور دن کو خرچ کرتے ہیںچھپا کر اور اعلانیہ تو ان کیلئے ان کے رب کے پاس اجر ہے۔ اور ان پر کوئی خوف نہیں ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ نہیں اٹھیں گے مگر جس طرح جنات نے اسکے حواس باختہ کردئیے ہوں چھونے سے ۔یہ اسلئے کہ وہ کہتے تھے کہ تجارت سود کی طرح ہے۔ حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اورسود کو حرام کردیا ہے۔ پس جس کے پاس اسکے رب کی طرف سے نصیحت پہنچی اور وہ سود کو چھوڑدے۔ پس جو پہلے ہوچکا اور اس کا امر اللہ کے سپردہے۔ اور جو پھر لوٹا تو یہ لوگ جہنم والے ہیں۔ اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے”۔ (البقرہ آیت271سے275) ۔ علامہ پیر شکیل احمدمردان نے سورہ ٔ بقرہ کی طرف توجہ دلادی لیکن حقائق سننے کیلئے پتہ نہیں کیوں نہیں آمادہ ہوتے ہیں؟۔

NAWISHTA E DIWAR March Special Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

اسلامی بینکاری ایسٹ انڈیا کمپنی سے بہت زیادہ خطرناک ہے : عتیق گیلانی

کراچی،لاہور، اسلام آبادائیرپورٹس اور موٹروے گروی رکھ دئیے پھر کیاوزیراعظم ، گورنر اور وزیراعلیٰ ہاؤسز، قومی اور صوبائی پارلیمنٹ، سینیٹ ،GHQاورایٹمی پروگرام اسلامی بینکنگ کے تحت عالمی اداروں کے سپرد ہونگے؟
ہمارا پورا نظام ناکام ہے۔ PDMکی روحِ رواں مریم نواز سے حکومت وریاست کو ڈر نہیں مگر کریمہ بلوچ کی لاش سے ڈر لگاتھا اسلئے بہت شرمناک جبری طور پر خفیہ دفن کرنا پڑگیا؟
نوازشریف کے لندن فلیٹ ،رائیونڈ محل اور مفتی تقی عثمانی کے دارالعلوم کراچی سمیت تمام اثاثے ضبط کرکے قومی اداروں کو بازیاب کیا جائے۔ وزیراعظم بنی گالہ گھرکو گروی رکھوا دیں

 

جس طرح برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے مغل کی عظیم سلطنت کو شکست دیکر برصغیر پاک وہند کو فتح کرنے میں اپنا کردار ادا کیا تھا ،اس سے زیادہ خطرناک اپنے پاکستان میں نام نہاداسلامی بینکاری ہے۔ براڈ شیٹ کے دھوکہ بازوں سے حکمران شکست کھارہے ہیںتو عالمی مالیاتی اداروں کی گرفت سے کیسے بچ سکیںگے؟ ۔

نوازشریف نے پاکستان کے ائیرپورٹس اور موٹروے کو بھاری سودی قرضوں کے تحت گروی رکھوادیا ہے اور اب وزیراعظم عمران F9پارک اسلام آباد یا کلب کو نام نہاد اسلامی بینکاری کے نام سے گروی رکھنا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا یہ کہنا کہ پبلک پارک کے بجائے اسلام آباد کلب کو گروی رکھوانا چاہیے، سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ لگتا ہے۔ اب عوام تالیاں بجائیں گے کہ اسلام آباد کلب افسروں کی تفریح گاہ ہے ،اچھا ہوا کہ پبلک پارک کو بچالیا گیا۔ پھر جس پارلیمنٹ پر لعنت کی گئی تھی اور جس وزیراعظم ہاؤس اور گورنر ہاؤس کو گرانے کی بات کی گئی تھی اس کیلئے اعلان کیا جائیگا اور لوگ اس کا خیرمقدم کریں گے۔ پھر فضاء ایسی بنائی جائے گی کہ جب پارلیمنٹ اور سول لیڈر شپ ہاؤسز گروی ہیں تو GHQکو بھی گروی رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بہت بڑا کمال سمجھا جائیگا کہ فوج سے بھرپور بدلہ لے لیا گیا۔

پھر ہمارے تمام دفاعی مراکز بشمول ایٹمی ٹیکنالوجی کو بھی آخر کا ر ملک چلانے کیلئے گروی رکھ دیا جائیگا اور جب دینے کیلئے کچھ نہیں بچے گا تو امریکہ کی فوج ہمارے سرکاری مراکز پر قابو پالے گی۔ لوگ کہیں گے کہ انگریز نے ہمارا یہ سول وملٹری پورا اسٹرکچر بنایا تھا ،وہی ان کالی چمڑی والے بلیک انڈین سے بدرجہا بہتر ہیں۔ جب اپنے حریف ہندوستان کے سامنے جنرل نیازی کا ہتھیار ڈالنا مجبوری تھا تو انگریزی سرکار کے قدموں میں اپنی ناک کی نکیل ڈالنے میں کیا حرج ہوسکتا ہے؟۔

مفتی محمد تقی عثمانی کو عام معمولات کے مطابق درست فتویٰ لکھنا نہیں آتا ہے تو اس کو شیخ الاسلام کس قاعدے ،کلیے کے تحت کس اُلو کے پٹھے نے بنایا ہے؟۔کراچی کے تمام بڑے مدارس سمیت ملک بھر کے علماء ومفتیان نے نام نہاد اسلامی بینکاری کے غیر اسلامی اور سودی ہونے پر اتفاق کیا تھا لیکن عالمی قوتیں مفتی تقی عثمانی کو سپورٹ کررہی تھیں۔ دنیا کے چند طاقتور ترین انسانوں کی لسٹ میں اس کا نام ڈالا جاتا تھا۔ جب علماء ومفتیان نے دیکھ لیا کہ ہماری مخالفت کا اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے تو مایوس ہوکر بیٹھ گئے۔ عالمی مالیاتی اداروں نے مفتی تقی عثمانی کو جتنا معاوضہ دیا ہے اور اس پر اسلامی بینکاری کے نام سے جو کچھ کمایا ہے وہ سب بحقِ سرکار ضبط کیا جائے اور اس رقم سے پاکستان کے قیمتی اثاثوں کی عالمی مالیاتی اداروں سے جلدجان چھڑائی جائے۔ نوازشریف کے پاکستان اور لندن سمیت دنیا بھر کے تمام اثاثوں کو ضبط کیا جائے اور ان سے بھی پاکستان کے قومی اداروں کو بازیاب کیا جائے۔

جب پرویزمشرف نے پاکستان کے ایک بینک کو اونے پونے فروخت کیا تو عبدالوہاب بلوچ کے بیان کو ہم نے شہہ سرخی بنادیا تھا۔ پھر اسٹیل مل کو بیچا جارہاتھا تو اس کے خلاف شہہ سرخی لگائی تھی جس کے بعد افتخار محمد چوہدری چیف جسٹس آف پاکستان نے ازخود نوٹس لیکر معاملہ رکوادیا تھا۔ عمران خان نے ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن اسٹیل مل کے ہزاروں ملازمین اور اسلام آباد میں زندگی کھپانے والی خواتین ٹیچرز سمیت کتنے لوگوں کا روز گار چھین لیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو احساس اسلئے نہیں ہے کہ دودھ پینے اور سکول جانے والے بچے سمیت اس کے سرپر کوئی بوجھ نہیں ہے اور وہ پھر بھی کہتا ہے کہ میں اپنی تنخواہ سے گزارہ کررہاہوں۔ سوچ لیں کہ جنکے پاس اپنا گھر نہیں ، کرایہ پر رہتے ہیں اور دودھ پینے والے بچے اور ڈلیوری والی بیگمات اور سکول جانے والے بچے بھی ہیں تو انکا چند ہزار میں گزارہ کیسے ہوگا جبکہ وزیراعظم کاتنہا بیگم کیساتھ مشکل سے گزارہ ہوتا ہے؟۔

پوری دنیا کی نظریں پاکستان پر ہیں کہ جہاں کی فوج اور خفیہ ایجنسی عالم اسلام میں نمبر1ہے۔ واحد ایٹمی طاقت ہے۔ بہت کم تنخواہوں پر فوج، پولیس، ڈاکٹر، ٹیچر، ملا ، مجاہد، سیاسی ورکر اور کاشتکار وغیرہ کیلئے ملازم مل جاتے ہیں۔ مفت میں مذہبی گروہ پلتے ہیں، حلالہ بھی کرواتے ہیں ،پیسے بھی دیتے ہیں اور بلیک میل بھی ہوجاتے ہیں۔ اگر اس ملکِ خداداد کا کنٹرول سنبھالا جائے تو عائشہ صدیقی کی کتاب نے دنیا کو یہ بتادیا ہے کہ سب سے منافع بخش ادارہ فوج ہے جو 7یا 10کروڑ روپے پر بھی روڈ کا ٹھیکہ لے لے تو ڈیڑھ کروڑ میں ٹھیکہ دار سے بنوالیتی ہے۔ بلڈنگ اینڈ روڈ کا ٹھیکہ بھی برا نہیں کہ 3کروڑ میں بمشکل فی کلومیٹر اسٹیمیٹ لگاتے ہیںاور ڈیڑھ کروڑ بھی نہیں لگتے ہیں۔ پولیس کے کرائم والے تھانے بھی بھاری قیمت پربکتے ہیں۔

محکمہ ہیلتھ ہو یا جنگلات ، تعلیم ہو یا عدالت بس لوگوں سے پیسہ ہی پیسہ بٹورنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ہر محکمہ میں نوکری کیلئے رشوت، پولیو میں اربوں کا اسکینڈل اور ہر ادارہ عوام کا خون نچوڑ کر وصولی کرنے میں دمادم مست قلندر ہے۔سیاستدان کا تو کوئی مقابلہ بھی نہیں کرسکتا ہے۔ فوجی جرنیل ، عدلیہ کے جج اور اعلیٰ بیوروکریسی کے افسران بھی ملک وقوم کو چونا لگانے میں ماہر پیسہ خوری ہوتے ہیں۔ جعلی ادویات سے بھی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے نام پر بہت کمائی ہے۔ یہ وہ قوم ہے جو کرونا سے بھی مرنے سے بچ جاتی ہے اسلئے کہ آلودہ پانی، جعلی ادویات اورزہریلی غذائی اشیاء نے ان کے معدے کا نظام لکڑ پتھر ہضم والا بنادیا ہے۔ ان کی آنتیں لوہے کی بھی نہیں جو زنگ کھا جائیں بلکہ اسٹیل اور پلاسٹک کی ہیں۔ اس قوم کے جاہلوں کو ہی نہیں پڑھے لکھوں کو بھی پیر ٹھگ لیتے ہیں۔ بینظیر بھٹو اور نوازشریف بھی تنکے والے ننگے بابا سے ڈنڈیاں کھا کھا کر حکومت لینے کی توقع پر پہنچتے تھے ۔ ایاک نعبد وایاک نستعین والا طالبان خان بھی پاک پتن کے مزار پر چوپائے کی طرح کھڑا ہوا، بس ایک دُم نہیں تھی جس کو ہلانا شروع کردیتا۔ پاکستان جیسی قوم پوری دنیا میں کوئی نہیں اللہ پاک کی قسم!

بس جن لوگوں کے ہاتھ میں اقتدار کی باگ ڈور ہے یہ بہت کم عقل ہیں ۔ ان کو عقل ہوتی تو نوازشریف، بلاول بھٹو، عمران خان ، زرداری ، شہبازشریف، پرویز خٹک، امیر مقام، جام کمال……… رہنما ہوتے؟۔ ان زندوں سے کریمہ بلوچ کی لاش بھی زیادہ قابلِ رشک تھی جس سے مضبوط پاکستان نے خطرہ محسوس کیا اور لوگوں کو دکھائے بغیر دفن کردیا۔ حبیب جالب نے کہا کہ ”ڈرتے ہیں بندوق والے اک نہتی لڑکی سے”۔ مگر جب بینظیر اقتدار میں آئی تو جالب کا شعر پسند نہیںآیا کہ” ہربچہ ہے ہزاروں کا مقروض پاؤں ننگے ہیں بینظیروں کے”۔ اگرجالب زندہ ہوتے تو کریمہ بلوچ پراپنے اشعار سے بلوچوں کی نفرت کو پنجاب کی محبت میں بدل ڈالتے۔