پوسٹ تلاش کریں

پاکستان کی سر زمین سے اسلام کی نشاة ثانیہ کا آغاز، طلاق کے مسائل کا حتمی حل اور دنیا میں بہت بڑی تبدیلی کیلئے سنجیدہ اقدامات کا آئینہ

طلوع اسلام کے حوالہ سے اقبال نے کہا تھا:
دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
اُفق سے آفتاب ابھرا، گیا دورِ گراں خوابی
کتاب ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا کام تجھ سے دنیا کی امامت کا
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے

اُمت مسلمہ اس فضول بکواس میں لگی ہوئی ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق ایک طلاق ہوتی ہے یا تین طلاقیں ہوتی ہیں؟۔ قرآن وسنت اور صحابہ کے بعد اس مسئلے نے امت کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔

گمراہی کی اس بنیاد نے قرآن اور عربی دونوں سے علمائ، مجتہدین، فقہاء اور محدثین کی نظریں بالکل ہٹادی ہیں۔ اگر کسی کا چہرہ خوشی سے کھل جائے تو عرب کہتے ہیں طلّق وجہہ اس کا چہرہ کھل گیا۔ میں عربی کھل کر بول سکتا ہوں۔ اتکلم العربیة بالطلاقة میں عربی کھل کر بولتا ہوں۔ نبی اکرمۖ نے فتح مکہ کے دن فرمایا: انتم طلقاء تم آزاد ہو۔ یہ کوئی تذلیل نہیں عزت مراد تھی۔ لاثریب علیکم الیوم آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں ہے۔

جب فتح مکہ کے بعد مسلمان ہونے والوں کی اولادوں نے اسلامی اقتدار مسند خلافت پر موروثی قبضہ کیا توپھر یزید ، مروان اور عبدالملک بن مروان وغیرہ نے یہ سمجھ لیا کہ ہمارے دادوں اور دادیوں کو نبیۖ کی طرف سے ”طلاق” دیدی گئی تھی۔

آج بھی مفتی فضل ہمدرد اور علامہ جواد نقوی اور کچھ دیگر شیعہ ، بریلوی اور دیوبندی فتح مکہ کے بعد مسلمان ہونے والوں کو توہین کے طور پر ”طلقائ” یعنی ”طلاق شدہ ” کہتے ہیں۔ حالانکہ یہ توہین نہیں عربی ادب وتہذیب کے اعلیٰ ترین الفاظ ہیں ۔

اذا قال لھم النبی رحمة للعالمین ۖ یا اہل مکہ الیوم انتم طلقاء فطلّقوا وجوھھم جب نبی رحمت للعالمینۖ نے ان سے فرمایاکہ اے مکہ والو آج تم آزاد ہو تو انکے چہرے کھل گئے۔

زمانہ جاہلیت میں عورت کے چھوڑنے کیلئے لفظ طلاق کا مذہبی حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسلئے فرمایا کہ ”میری آیات کو مذاق نہ بناؤ” ۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ”اسلام اجنبیت میں شروع ہوا تھا اور یہ عنقریب پھر اجنبی بن جائیگا”۔

بنی امیہ کے دور میں یزیدی استبداد کے بعد ہی خلافت کی مسند کو بھی لونڈی بنادیا گیا اور عورت کی طلاق کا مسئلہ بھی جاہلیت کا دوبارہ پیش خیمہ بنادیا گیا۔ حضرت عمر نے بدبو دار ماحول سے حج کا عظیم اجتماع بچانے کیلئے حج وعمرہ کے اکٹھے احرام پر سختی کیساتھ پابندی لگائی ۔ حضرت عمران بن حصین نے اس کو بدعت سمجھ لیا اور کہا کہ اللہ نے قرآن میں اجازت نازل کی اور نبیۖ نے اس پر عمل کیا اور اس کے بعد کوئی ممانعت نہیں ہوئی اور جس نے اس پر پابندی لگائی تو اپنی رائے سے لگائی۔ پہلے ہم پر فرشتے نازل ہوتے تھے اور سنت پر عمل کی وجہ سے ہم سے راستوں میں مصافحہ کرتے تھے اور اب اس بدعت کے سبب برکات اٹھ گئے۔(صحیح مسلم)

جب بدمعاش اور ظالم گورنر ضحاک نے حضرت سعد بن ابی وقاص کے سامنے کہا کہ ” حج وعمرہ کے احرام کو ایک ساتھ جاہل باندھتے ہیں”۔ تو حضرت سعد بن ابی وقاص نے فرمایا کہ ” یہ بات مت کرو! میں نے خود رسول اللہ ۖ کو حج وعمرہ کا احرام ایک ساتھ باندھتے ہوئے دیکھا ہے”۔ (صحیح مسلم)

جب حضرت عثمان نے اعلان کیا کہ حج وعمرے کا احرام کوئی بھی ایک ساتھ نہیں باندھے گا تو اس پر حضرت علی نے اعلانیہ حج وعمرے کا احرام باندھااور کہا کہ اب میں دیکھتا ہوں کہ کون اس سنت سے مجھے روک سکتا ہے”۔(صحیح بخاری)

حضرت عمر نے تین طلاق کا فیصلہ قرآن کے حکم پر کیا تھا اسلئے کہ بیوی راضی نہیں ہو تو شوہر کو رجوع کا حق حاصل نہیں ہے لیکن بنی امیہ کے ظالم طبقات نے بعد میں حقائق کا بالکل حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا تھا۔

سفر میں یاد نہ آئے کوئی ٹھکانہ ہمیں
غم زمانہ لگا ایسا تازیانہ ہمیں
امیر شہر نے کاغذ کی کشتیاں دے کر
سمندروں کے سفر پر کیا روانہ ہمیں
جہاں سے ساتھ زمانے کو لے کے چلنا تھا
وہیں پہ چھوڑ گئی گردشِ زمانہ ہمیں
ملوک ہم نفساں دیکھ کر یہ دھیان آیا
کہ کاش پھر ملے دشمن وہی پرانا ہمیں
ہوائے صبح دل آزار اتنی تیز نہ چل
چراغ شام غریباں ہیں ہم بجھا نہ ہمیں
نگاہ پڑتی ہے پھر کیوں پرائی شمعوں پر
اگر عزیز ہے محسن چراغ خانہ ہمیں

قرآن کی آیت 227البقرہ میں پہلی بار طلاق کا ذکر ہے۔ ” اگر انہوں نے طلاق کا عزم کیا تو اللہ سننے والا جاننے والاہے”۔ عزم کو اللہ سنتا اور جانتا ہے تو یہ بہت بڑی دھمکی ہے کہ عزم تھا تو پھراظہار کیوں نہیں کیا؟۔ اسلئے کہ طلاق کا اظہار نہ کرنا دل کا گناہ ہے اور وہ کیوں؟۔ یہ سمجھنا ضروری ہے۔

اگر طلاق کا اظہار کی کیا توعورت کی عدت پھر تین ادوار یا تین ماہ ہے۔ (آیت:228البقرہ)

اگر طلاق کا اظہار نہیں کیا تو عورت کی عدت پھر چار ماہ ہے ۔ (آیت:226البقرہ)اظہار نہیں کیا تو عورت کی عدت ایک ماہ بڑھ گئی اور یہ دل کا گناہ ہے جس پر اللہ کی پکڑہے۔(آیت:225البقرہ)

اللہ کے نام پرصلح نہ کرنے کا فتویٰ دینے کی اللہ نے گنجائش نہیںچھوڑی ۔( آیت224البقرہ)

جاہلیت کے اندر جتنے غلط مذہبی رسوم تھے تو ان سب کا خاتمہ کردیا۔ جس کا تفصیل سے خاتمہ کیا۔

1: میاں بیوی کی صلح میں مذہب رکاوٹ بنتا تھا تو اللہ نے صلح میں رکاوٹ سے روک دیا۔

2:طلاق کا اظہار نہ کرنے پر لامحدود عدت کی جگہ چار مہینے مقرر کردی۔ اور اس میں بھی عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع کا راستہ روک دیا۔

3: اکٹھی تین طلاق پر حلالے کا خاتمہ اور ایک طلاق سے غیرمشروط رجوع کا رستہ روک دیا ہے۔

4: طلاق کا طریقہ بتایا کہ عدت کے تین ادوار میں تین مرتبہ طلاق ہوسکتی ہیں۔

5: جب رجوع کا پروگرام نہیں ہو تو عورت کیلئے دوسرے شوہر کی راہ میں رکاوٹ کا خاتمہ کردیا۔

6: عدت کی تکمیل کے بعد بھی معروف طریقے سے رجوع یا چھوڑنے کی وضاحت کردی۔

7: جب عورت ناراض ہوکرخلع لے چکی ہو اور بہت عرصہ گزر گیا ہو تو بھی رجوع کی گنجائش رکھی۔

ایک عربی سمجھنے والا یا قرآن کا اپنی زبان میں ترجمہ سمجھنے والا آیت 224البقرہ سے 232البقرہ تک دیکھ لے تو یہ ساری رہنمائی مل جائے گی ۔اور سورہ طلاق کی پہلی دو آیات میں خلاصہ بھی ہے۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ علماء کے اختلافات کو کیا رنگ دے سکتے ہیں؟۔ تو اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اسلام کو اجنبیت کا شکار بنایا گیا ہے اور کوئی ایک آیت بھی عوام کیلئے مصیبت نہیں بلکہ نعمت ہے اور احادیث میں ان کے خلاف کوئی تضاد نہیں ۔

پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس اختلاف کا اصل پس منظر کیا ہے؟۔کس وجہ سے یہ پیدا ہوا؟۔

اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عمر نے جب ایک ساتھ تین طلاق پر فیصلہ دیا تو بہت بعد میں حضرت عمر کے اس فیصلے کو خلاف مصلحت قرار دیا گیا اسلئے کہ اگر میاں بیوی کا اکٹھی تین طلاق پر تنازع تھا تو قرآن کے مطابق رجوع تنازع کی وجہ سے نہیں ہوسکتا تھا لیکن عدت تک انتظار کی گنجائش تھی اور اس میں صلح کا راستہ بھی نکل سکتا تھا۔ اسلئے ایک طبقہ نے اس کو طلاقِ بدعت کا نام دیا اور دوسرے طبقے نے اس کو طلاق سنت کا نام دیا۔ طلاق بدعت کی دلیل نبیۖ کی اکٹھی تین طلاق پر ناراضگی کا اظہار تھا۔ اور طلاق سنت کی دلیل لعان کے بعد تین طلاق پر نبیۖ کی طرف سے نکیر نہ کرنے کی دلیل تھی۔

مگر بعد والوں نے اس نزاع کو یہاں تک پہنچا دیا کہ قرآنی آیات کو دیکھنے کی بھی زحمت نہیں کی۔ پھر ایک طبقہ نے کہا کہ اس طرح طلاق ہوتی نہیں اور دوسرے طبقے نے کہا کہ ہوجاتی ہے۔ اگر نہیں ہوتی تو پھر عورت کی عدت بھی شروع نہیں ہوگی اور اس کا دوسرے سے نکاح بھی درست نہیں ہوگا ؟۔ یہ بہت زیادہ خطرناک تھا اسلئے ٹھیک بات یہی ہے کہ طلاق ہوجاتی ہے ۔ البتہ اس کا یہ نتیجہ نکالنا بھی انتہائی غلط ہے کہ رجوع نہیں ہوسکتا ۔جس کا نتیجہ پھر حلالہ کی شکل میں نکلتا ہے ۔ اسلئے قرآن نے اس کی مکمل پیش بندی کررکھی ہے لیکن قرآن کی طرف وہ توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے معاشرہ بچ جاتا۔

علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ
بدل کے بھیس پھرآتے ہیں ہر زمانے میں
اگرچہ پیر ہے آدم جواں ہیں لات ومنات
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات

قرآن نے حلالہ کی لعنت اور عورت کی حق تلفی کا مکمل خاتمہ کردیا تھا۔ شوہر اکٹھی 3 طلاق کے بعد باہمی اصلاح سے بھی رجوع نہیں کرسکتا تھا تو حلالہ کی لعنت سے عورت کی عزت تارتار کردی جاتی تھی لیکن رسول اللہ ۖ کے دل ودماغ میں بے انتہا غیرت تھی اسلئے حلالہ کے عمل کو لعنت، کرنے والے اور کرانے والے پر اللہ کی لعنت بھیج دی اور حلالہ کی لعنت میں ملوث دلے کو کرایہ کا سانڈ قرار دے دیا۔

رسول اللہ ۖ شریعت کے پابند تھے اسلئے اپنی طرف سے کوئی فتویٰ جاری نہیں کیا لیکن جاہلیت کا یہ عمل لعنت کے قابل قرار دیا اور عورت کیلئے اپنے شوہر اور بچوں تک پہنچنے کا یہی ایک راستہ تھا تو مجبوراً کئی خواتین کو پہاڑی کی یہ مشکل ترین چوٹی سر کرنی پڑتی تھی اورکئی ساری زندگی بھر بیٹھی رہتی تھیں۔ دورِ جاہلیت کاعورت سے یہ سلوک ہندو معاشرے میں گائے کا پیشاب پینے سے بھی بہت بدسے بدترین تھا لیکن مذہب کے روپ میں جاری رکھا گیا تھا۔

رسول اللہ ۖ نے ظہار کے مسئلے پر سورہ مجادلہ نازل ہونے کے بعد اپنا مذہبی مؤقف تبدیل کیا تھا لیکن حلالہ کی لعنت کے حوالے سے نبی پاک ۖ کے قلب اقدس میں یہ تمنا تھی کہ اللہ تعالیٰ اس قوم کو اس لعنت سے نجات عطا فرمائے۔ پھر اللہ نے اس حوالہ سے ایسی آیات نازل فرمائی کہ باہمی اصلاح اور معروف طریقے سے عدت کے اندر، عدت کی تکمیل پر اور عدت کی تکمیل کے عرصہ بعد حلالہ کے بغیر رجوع کا دروازہ کھول دیا۔ اتنی زیادہ آیات ہیں کہ آدمی یہ تصور بھی نہیں کرسکتا ہے کہ امت مسلمہ کو دوبارہ شیطان ورغلانے میں کامیاب ہوسکتا تھا؟۔

لیکن اللہ نے خبر دی تھی کہ یہ قوم بھی قرآن چھوڑ دے گی۔ کیونکہ پہلے ایسا کوئی رسول و نبی نہیں گزرا جس کی تمنا میں شیطان نے اپنی تمنا ڈال کر معاملہ نہیں بگاڑا ہو۔ یہود کیلئے تورات میں یہی احکام تھے اورتمام انبیاء کی کتابوں میں بگاڑ کی اصلاح کے بعد شیطان کی ملاوٹ کا سامنا کرناپڑا تھا۔

مشرکین مکہ اور یہود نہ صرف اسلام کے دشمن تھے بلکہ ان کی پوری کوشش تھی کہ اللہ کے احکام دنیا میں مغلوب ہوجائیں اور آج کچھ علماء سو کی طرف سے اس کا بھرپورمظاہرہ دیکھنے کو مل رہاہے۔

اللہ نے فرمایا:” اور جنہوں نے ہماری آیات کو شکست دینے کی کوشش کی تو وہی جہنم والے ہیں۔ اور ہم نے آپ سے پہلے نہیں بھیجا کسی رسول کو اور نہ کسی نبی کو مگر جب اس نے تمنا کی تو شیطان نے اس کی تمنا میں اپنی تمنا ملادی۔ پس اللہ مٹادیتا ہے جو شیطان کا ڈالا ہوا ہوتاہے اور پھر اپنی آیات کو مستحکم کر دیتا ہے اور جاننے والا حکمت والاہے۔ تاکہ بنادے شیطان کے ڈالے ہوئے کو آزمائش ان لوگوں کیلئے جن کے دلوں میں مرض ہے اور ان کے دل سخت ہیں اور بیشک ظالم بہت دور کی بدبختی میں پڑے ہوئے ہیں۔ اور تاکہ جان لیں جن کو علم دیا گیا کہ حق تیرے رب کی طرف سے ہے تو اس پر ایمان لائیں اور اس کیلئے ان کا دل جھک جائے اور اللہ ایمان والوں کو صراط مستقیم کی ہدایت دیتا ہے”۔

(سورہ حج آیات51،52،53،54)

آج شیطان نے رسول اللہ ۖ کی تمنا میں اپنی تمنا داخل کرکے حلالہ کو شریعت کا لبادہ پہنادیا ہے۔ ایک طرف حلالہ کے مریض اور سخت دل لوگوں کیلئے یہ ایک آزمائش ہے جس میں کئی گرفتار ہیں تو دوسری طرف اللہ نے اہل علم اور اہل ایمان کو صراط مستقیم پر ڈالنے کا پروگرام بنادیا ہے۔ جس دن حلالہ کی لعنت کے مرتکب مریض اور سخت دلوں کو شکست ہوگی اور اہل علم اور اہل ایمان حق کیلئے جھک جائیں گے تو یہ انقلاب کا دن ہوگا۔ اللہ نے فرمایا:” اور منکر قرآن کی طرف سے ہمیشہ شک میں رہیں گے یہاں تک کہ ان پر اچانک انقلاب آجائے یا ان پر بانجھ پن کا عذاب آجائے۔ اس دن بادشاہی اللہ کی ہوگی جو انکے درمیان فیصلہ کرے گا۔پس ایمان اورصالح والے نعمت والے باغات میں ہونگے اور جنہوں نے کفر کیا اور میری آیات کو جھٹلایا تو وہ لوگ ذلت والے عذاب میں ہونگے ”۔ ( الحج 55تا57)

اسلام کی نشاة ثانیہ کیلئے ضروری ہے کہ قرآن و احادیث صحیحہ کی درست تطبیق کی طرف علماء ومشائخ اور مذہبی طبقے کا رخ موڑ دیا جائے۔ ایک انسان کا بے گناہ قتل گویا تمام انسانیت کا قتل ہے اور ایک عورت کا حلالہ کے نام پر عزت کا لٹنا تمام عورتوں کی عزت لٹ جانے کے برابر ہے۔ قرآن وسنت میں طلاق سے بغیر حلالہ کے رجوع کا مسئلہ جس اچھے انداز میں سمجھایا گیا تو اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔

حضرت ابن عباس نے متشابہ آیات کی تأویل کو سمجھنے کی کوشش کی ۔پھر فرمایا کہ ”قرآن کی تفسیر زمانہ کرے گا”۔ سورہ حج میں ہرسابقہ رسول اور نبی کی نیت میںشیطانی مداخلت مشکل مسئلہ تھا اسلئے کہ مثال نہیں تھی کہ شیطان نے رسول ۖ کی نیت میں مداخلت کی ہو۔ ابن عباس کی پرورش کفار مکہ کے آغوش میں ہوئی۔جہاں جھوٹ تھا کہ نبیۖ نے سورہ نجم میںلات و منات اور عزیٰ کی تعریف کی تھی اسلئے کہ کفار نے بے ساختہ آیت سجدہ پر سجدہ کیا تو اپنی خفت مٹانے کیلئے کہا کہ ہم نے نبیۖ سے یہ سنا تو سجدہ کرلیا۔ اس جھوٹ سے حبشہ کے مہاجرین بھی واپس آگئے تھے جن میں سے کچھ پھر واپس گئے اور کچھ مکہ میں رُک گئے۔ ابن عباس نے سورہ حج کی آیت کو غلط فہمی کی بنیاد پر سورہ نجم سے ہی جوڑ دیا تھا جس سے مفسرین نے ٹھوکر کھائی ہے۔

سید مودودی نے تفہیم القرآن میں اس پر طویل بحث اور تفاسیر کا ذکر کیا مگر مسئلے کا حل نہ نکال سکے۔ حلالہ کی شیطانی مداخلت نے آیت کی تفسیر کردی ۔ قرآنی نور کے سامنے جہالت اور جاہلانہ شعلے کے ابا ”ابو جہل و ابولہب” کے بیٹے بھی سرنڈر ہوگئے۔ قرآن کا درست پیغام دنیا کے سامنے آئے تو نہ صرف فرقہ وارانہ تعصبات بلکہ عالم انسانیت کا پرچم بھی اسلامی خلافت کے آگے سرنگوں ہوگا۔ ہم اپنے نام سے کسی کو چندوں کی دکانیں کھولنے کی اجازت نہیں دیتے ورنہ تو آج مذہبی بہروپیوں کی ہمارے ہاں بہت بھیڑ ہوتی۔وہ وقت دور نہیں کہ لوگ اب قرآن وسنت اور فطرت کی طرف آئیں۔ انشاء اللہ

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عورتوں کیلئے قرآن میں اللہ ایسا فتویٰ دیتا ہے جس میں خطا کی کوئی گنجائش نہیں ہے

خلع وطلاق اور عورت کے مالی حقوق کامسئلہ

عورت کو خلع کا حق :

اللہ تعالی نے فرمایا : ” اے ایمان والو!تمہارے لئے حلال نہیں کہ تم زبردستی سے عورتوں کے مالک بن بیٹھو۔ اور نہ ان کو اسلئے روکو کہ ان سے اپنا دیا ہوا بعض مال واپس لے لو۔ مگر یہ کہ وہ کھلی فحاشی کریں اور ان سے اچھا سلوک کرو ،اگر تم انہیں برا سمجھ رہے ہو تو ہوسکتا ہے کہ کسی چیز کو تم برا سمجھو اور اس میں اللہ بہت سارا خیر رکھ دے” ۔ (النساء 19)

اس آیت میں نہ صرف عورت کو خلع کا حق دیا گیا ہے بلکہ اس کو مالی حقوق کا قانونی تحفظ بھی دیا گیا ہے۔ بنوامیہ ، بنوعباس اور خلافت عثمانیہ ، مغلیہ سلطنت ، خاندان غلاماں یا ممالیک نے حکومتوں کو بھی اپنی ذاتی وراثت اور لونڈی بنارکھا تھا تو عورت کو قرآن کے مطابق پھر کیا حقوق دینے تھے؟ اور زیادہ تر علماء سوء اور فقہاء رنگ وبو ان کاچربہ تھے۔

عورت کو اگر نہ صرف خلع کا حق قرآن کے عین مطابق مل جائے بلکہ شوہر کا دیا ہوا وہ مال بھی اس کی ملکیت رہے جس کو وہ اپنے ساتھ لے جاسکتی ہے تو ساری دنیا کے آدھے نہیں پورے مسائل حل ہوں گے۔ دکان، مکان اور جائیداد عورت کودئیے ہوں تو ان سے عورت کو دستبردار ہونا پڑے گا جو قرآن کی اس آیت سے بھی واضح ہے اور نبیۖ نے بھی یہ وضاحت فرمائی ہے کہ دیا ہوا باغ واپس کروادیا۔ اگر مفتی تقی عثمانی کی فتویٰ عثمانی میں نابالغ بچیوں پر نکاح کے مظالم دیکھ لئے تو فلسطین بھول جاؤ گے۔

طلاق میں عورت کے حقوق

اللہ نے فرمایاکہ ” اگر تم ایک عورت کے بدلے دوسری سے نکاح چاہتے ہو تو اور ان میں کسی ایک کو بہت سارا مال دیا ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہیں لے سکتے۔ کیاتم وہ مال بہتان کے ذریعے اور کھلے گناہ سے واپس لوگے”۔ (النساء آیت20)

اس میں طلاق کے اندر تمام منقولہ و غیر منقولہ جائیداد میں سے کچھ بھی واپس نہ لینے کا حکم ہے۔ بہتان کو ذریعہ بنانے سے روکا گیا ہے۔ خلع میں عورت جدائی چاہتی ہے اسلئے حقوق کم ہیں۔ طلاق مرد ہی دیتا ہے اسلئے پورے حقوق دئیے گئے ہیں۔

یہ بات اچھی ذہن نشیں بلکہ دل نشیں کرلیں کہ

عورت کا حق مہر اللہ نے مرد کی استطاعت کے مطابق رکھا ہے۔ البتہ مرد اپنی استطاعت کو چھپاتا ہے تو عورت کے اولیاء کو اپنے حق کی پاسداری کیلئے وکالت کرنے کا مکمل اختیار ہے۔ یہ سب فضول اور بے بنیاد بکواس ہے کہ شرعی حق کی مقدار کیا ہے؟۔

اللہ نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ہاتھ لگائے بغیر عورت کو طلاق دیدی تو بھی مقرر کردہ حق مہر کا آدھا اور متعین نہیں کیا ہو تو امیر اور غریب پر استطاعت کے مطابق متقی لوگوں پر فرض کیا گیا ہے۔

پھر سہولت دیتے ہوئے اللہ نے آدھے سے کمی و بیشی کی بھی گنجائش رکھی ہے۔ عورت بھی کچھ چھوڑ سکتی ہے اور مرد بھی زیادہ سے زیادہ دے سکتا ہے۔ البتہ چونکہ مسئلہ خلع کا نہیں طلاق کا ہے ۔مردچھوڑنا چاہتا ہے اسلئے اللہ نے فرمایا کہ ”جس کے ہاتھ میں نکاح کا عقدہ ہے تو اس کو چاہیے کہ زیادہ دیدے اور ایک دوسرے پرآپس میں فضل کومت بھولو”۔

احمق فقہاء نے اس آیت کی بنیاد پرعورت سے خلع کاحق چھین لیا ہے کہ عقد نکاح کی نسبت عورت کی طرف ہے حالانکہ سورہ النسائ21 میں نسبت عورت کی طرف ہے وقد اخذن منکم میثاقًا غلیظًا ”اور انہوں نے تم سے پکا عہدوپیمان لیا”۔

سورہ بقرہ آیت229البقرہ میں خلع مراد نہیں ہوسکتا ہے ۔ صدر وفاق المدارس شیخ الاسلام مفتی اعظم پاکستان مفتی تقی عثمانی نے اپنی تحریر میں اس کو بہت مشکل اور ناقابل فہم قرار دیا ہے مگر سیدمودوی اور جاوید غامدی جیسے جاہلوں نے سلیس انداز میں اس کا ترجمہ خلع کرکے نہ صرف جاہلیت کا بہت بڑا ثبوت دیا بلکہ قرآن کے ذریعے امت کو گمراہ کیا۔

ہم نے بفضل تعالیٰ اصول فقہ کی تعلیم حضرت مولانا بدیع الزمان جیسے اساتذہ سے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں نہ صرف رسمی طور پر حاصل کی ہے بلکہ نصاب کی غلطیوں کو آشکارا کرکے تائیدوحمایت اور زبردست حوصلہ افزائی کی ترغیب وتربیت اچھے انداز میں حاصل کی ہے۔ اگر علماء کرام نے حقائق کو قبول نہیں کیا تو جدید دانشور اسلام کی تفہیم پر ڈاکہ ڈالیںگے۔ جیسے مولوی جعلی پیر بن رہے ہیں ویسے دانشور جعلی علماء بن کر اسلام کا تختہ الٹ رہے ہیں۔
٭

ایک مجلس کی 3 طلاق 1یا 3؟، فیصلہ کن حل!

ایک مجلس کی تین طلاق ایک طلاق ہے یا پھر تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ حقیقت کیا ہے؟۔

جو اہل حدیث وغیرہ کہتے ہیں کہ ایک مجلس کی3 طلاقیں ایک طلاق رجعی ہے تو ان کا مقصد درست لیکن علم کا لیول غلط ہے۔ قرآن وسنت میں طلاق کامسئلہ واضح ہے۔ ایک طلاق کے بعد بھی باہمی صلح کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا۔ تین طلاق کے بعد بھی صلح کی شرط پر رجوع ہوسکتا ہے۔ اگر کہا جائے کہ ایک طلاق رجعی ہے اور صلح کے بغیر رجوع ہے تو یہ قرآن وسنت اور فطرت کے بالکل منافی ہے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ اکٹھی تین طلاق کے بعدصلح کے باوجود بھی رجوع نہیں ہوسکتا ہے تو یہ بھی قرآن کے خلاف ہے اور حدیث میں اس کی کوئی دلیل نہیں۔

ایک طلاق کے بعد عورت عدت سے نکلے اور دوسرے شوہر سے نکاح کرے ،تب بھی پہلے شوہر کے پاس دو طلاقوں کی ملکیت باقی رہتی ہے۔ جب دوسرا شوہر طلاق دے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہلا شوہر دوبارہ نکاح جدید سے تین طلاق کا مالک ہوگا یا پھر پہلے سے موجود انہی دو طلاق کا مالک ہوگا؟۔

امام ابوحنیفہ اور باقی ائمہ میں اس پراختلاف اور امام ابوحنیفہ اور امام محمد میں اس پر اختلاف ہے۔ اکابر و اصاغر صحابہ نے یہ اختلاف کیا کہ پہلا شوہر نکاح جدید سے3 طلاق کا مالک ہوگا یا2 طلاق کا؟ لیکن یہ اختلاف نہیںاسلام کی اجنبیت کا آئینہ تھا۔

قرآن وسنت اور فطرت کامسئلہ ہوتا تو اختلاف کیسے ہوسکتا تھا؟۔ قرآن میں طلاق شدہ عورتوں کو ایک عدت میں3 ادواریا 3 ماہ کا پابند بنایا گیا مگر طلاقِ رجعی سے عورت کئی عدتیں گزارنے کی پابند ہوجاتی ہے۔ مثلاً ایک شخص نے بیوی کو ایک طلاق دی اور پھر عدت کے آخر میں رجوع کرلیا، پھر طلاق دی اور عدت کے آخر میں رجوع کرلیا تو دو عدتیں گزارنے کے بعد شوہر تیسری طلاق دے گا تو عورت تیسری عدت گزارنے پر مجبور ہوگی۔ اور اگر اس سے زیادہ تکلیف دینے کا پروگرام ہو تو طلاق رجعی سے وہ مزید بہت کھیل سکتا ہے اسلئے کہ رجوع کے بعد پھر عدت میں طلاق دینے کے بجائے مدتوں تک عورت کو رلا سکتا ہے۔ اگر عورت کو 10 افراد نے ایک ایک کرکے ایک ایک طلاق دی تو عورت پر 10شوہر کے 20 طلاق کی ملکیت کے بوجھ تلے بے چاری ٹیٹیں ہی مارتی رہے گی۔

ایک طلاق کے بعد عورت راضی نہیں تو بھی اس کے شوہر کو رجوع کا حق نہیں۔ بلکہ اگر طلاق کا اظہار نہیں کیا بلکہ ایلاء یا ناراضگی اختیار کی ہے تو بھی اس کے بعد چار ماہ کی عدت میں باہمی رضامندی سے ہی رجوع کرسکتا ہے۔ جب نبیۖ نے ایلاء کے ایک مہینے بعد رجوع کیا تب بھی اللہ نے حکم دیا کہ رجوع نہیںہوسکتا ہے ، پہلے ان کو طلاق کا اختیار دو اور پھر وہ راضی ہوں تو رجوع ہوسکتا ہے۔ دو بار طلاق کے بعد بھی معروف طریقے سے رجوع کا یہ مقصد ہے کہ باہمی اصلاح سے رجوع ہوسکتاہے۔

اکٹھی تین طلاق کے بعد بھی اللہ نے رجوع کا تعلق طلاق کے عدد کیساتھ نہیں رکھا بلکہ

اللہ نے فرمایا کہ ” عدت کے تین ادوار ہیں اور عدت کے تین مراحل میں تین مرتبہ کی طلاق ہے” جو آیت228،229البقرہ اور سورہ طلاق کی پہلی آیت سے واضح ہے اوررجوع کی گنجائش اصلاح اور معروف طریقے سے ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ ”تم ان کو انکے گھروں مت نکالو اور نہ وہ خود نکلیں ،ہوسکتا ہے کہ اللہ صلح کی کوئی نئی صورت پیدا کردے ”۔

حلالہ کی بھوک کا مارا ہوا مفتی اکٹھی تین طلاق سے ساری آیات پر حکم تنسیخ پھیر دیتا ہے اور لعنت کے عمل سے پورا مسلم معاشرہ تباہ کردیتا ہے۔

جب قرآن نے رہنمائی فرمائی ہے کہ عورتوں کے حساس معاملات میں اللہ تعالیٰ بذات خود فتویٰ دیتا ہے جس کی کتاب سے عوام پر تلاوت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ جہاں شک وشبہ اور غلطی کا احتمال نہیں ہوتا ہے۔ جب معاملہ اس بات پر آجائے کہ فلاں کے نزدیک طلاق ہے اور فلاں کے نزدیک نہیں ہے اور فلاں کے نزدیک حلالہ ہے اور فلاں کے نزدیک حلالہ نہیں ہے۔ فلاں کے نزدیک پہلی طلاق واقع ہوگی اور فلاں کے نزدیک تیسری تو پھر یہ طلاق کی واضح آیات اور اللہ کے احکام کے ساتھ کھلا مذاق ہے اور یہ اتنا غیراہم مسئلہ نہیں تھا کہ اللہ آنے والی مخلوق کے ذمہ چھوڑتا اور نبیۖ سے کہتا کہ طلاق کا فتویٰ آپ نے نہیں اللہ نے دینا ہے۔ اگر اصول فقہ کو سمجھا جائے تو بھی معاملہ حل ہوگا۔
٭

قرآن ، سنت اور صحابہ کرامایک پیج پر ہی تھے

صحاح ستہ احادیث کی کتابیں 200سال بعد مرتب کی گئی ہیںجبکہ قرآن صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کی تین نسلوں میں صبح شام، دن رات اور سفر وحضر میں تلاوت کیا جارہاتھا۔ صحیح بخاری نہیں صحیح مسلم میں یہ روایت ہے کہ حضرت ابن عباس نے کہا کہ رسول اللہ ۖ ، ابوبکر کے دور اورعمر کے ابتدائی سالوں تک اکٹھی تین طلاق کو ایک سمجھا جاتا تھا، پھر حضرت عمر نے تین طلاق جاری کردئیے۔

حضرت عمر کے مخالفین نے اس فیصلے کو عمر کے خلاف چارٹ شیٹ میں شامل کردیا کہ اس کی وجہ سے قرآن وسنت اور اہل بیت کا مذہب ملیامیٹ کردیا گیا اور طلاقِ بدعت سے امت میں حلالہ کی لعنت کا دروازہ کھول دیا۔ اہل سنت نے حضرت عمر کے دفاع میں کہا کہ اکٹھی تین طلاق منعقد ہوجاتی ہیں۔ حنفی اور مالکی مسالک نے اکٹھی تین طلاق کو بدعت، ناجائز اور گناہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ واقع ہوجاتی ہیں۔ شافعی مسلک نے کہا کہ یہ سنت، جائز اور مباح ہیں۔ امام احمد بن حنبل والے متذبذب تھے اسلئے ایک قول سے اکٹھی تین طلاق کو بدعت، گناہ اور ناجائز قرار دیا اور دوسرے قول سے جائز، سنت اور مباح قرار دے دیا۔ لیک ٹینکی سے علامہ ابن تیمیہ، علامہ ابن قیم، داؤد ظاہری ، اہل حدیث ، حنفی علماء علامہ عبدالحی لکھنوی،علامہ تمنا عمادی اور ڈاکٹر ذاکر نائیک جیسے لوگ نکل کر آگئے اور پھدک پھدک کر کچھ نہ کچھ چھلانگیں لگانی شروع کردیں۔

اگر ایک طرف قرآن ، احادیث، صحابہ کرام اور ائمہ مجتہدین و محدثین کا اجماع ہو اور دوسری طرف حضرت ابن عباس کی اس ایک روایت کا سہارا ہو تو اہل حدیث کے حافظ زبیر علی زئی ، انجینئر محمد علی مرزا اور سعودی حکومت بھی ایک روایت کے سہارے پر چلنے کے بجائے اپنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ اکٹھی تین طلاق کے بعد رجوع نہیں۔

یہ حدیث نہیں ابن عباس کی طرف منسوب ایک تاریخی فیصلے کی بات ہے۔ اہل حدیث رفع الیدین کی روایات پر جتنا زور دیتے ہیں ،اتنا تین طلاق کی احادیث سے دوڑ لگاتے ہیں۔ مسلم میںابن عباس سے متعہ کے جاری رہنے کی بھی حضرت عمر تک اسی طرح کی روایت ہے مگر وہ اہلحدیث نہیں مانتے۔

سوال یہ ہے کہ حضرت عمر نے ٹھیک یا غلط فیصلہ کیا تھا؟۔ حضرت عمر سے فتویٰ نہیں پوچھا بلکہ عدالتی فیصلہ لیا گیا۔ ایک شخص نے بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں اور تنازعہ عمرفاروق اعظم کی عدالت میں پہنچ گیا تو پتہ یہ چلا کہ بیوی رجوع پر آمادہ نہیں ہے اور شوہر چھوڑنا نہیں چاہتا ہے۔ اگر حضرت عمر یہ فیصلہ شوہر کے حق میں دیتے تو قرآن وسنت اور انسانیت سبھی غرق ہوجاتے ۔نبی ۖ نے اس کا راستہ روکنے کیلئے فرمایا کہ مذاق میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے تو تین نہیں ایک طلاق پر بھی تنازعہ کے بعد یہی فیصلہ درست تھا۔ پاکستان کے شیعہ ایران اور دنیا بھر کے شیعہ کو توبہ کروائیں تو بڑااچھا ہوگا۔ لیکن اگر عورت بھی رجوع کیلئے راضی ہو اور مرد بھی رجوع کرنا چاہتا ہو اور پھر بھی سود خور مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن اپنی بے گناہ خواتین کو قرآن وسنت کے خلاف مجبور کریں کہ حلالہ کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا تو ہمارے ریاستی ادارے جو مجرم کو سزائیں دیتے ہیں وہ ان کو پکڑیں اور قرار واقعی سزا دیں۔

حضرت علی کے پاس بھی ایک کیس آیا تھا جب شوہر نے بیوی کو حرام قرار دیا تھا اور عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی تو علی نے رجوع نہ کرنے کاہی فیصلہ دیا تھا۔ جاہلوں نے اس کو نام دیا کہ حضرت علی کے نزدیک حرام کا لفظ تین یا تیسری طلاق ہے اور حضرت عمر کے نزدیک حرام کا لفظ ایک طلاق ہے۔ حالانکہ حضرت عمر نے دیکھا کہ عورت رجوع کیلئے راضی ہوگئی تو رجوع کا فیصلہ دے دیا۔ بے غیرتوں نے حرام کے لفظ پر مسالک کے انبار لگادئیے لیکن قرآن کی سورہ تحریم کو دیکھنے کی زحمت نہیں کی تھی۔

اسلئے رسول اللہ ۖ قیامت کے دن اُمت کی شکایت کریں گے۔ وقال الرسول یا رب ان قومی اتخذوا ھٰذاالقراٰن مھجورا ”اور رسول کہیں گے کہ اے میرے رب ! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔(الفرقان) افلا یتدبرون القراٰن ولو کان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافًا کثیرًا(النسائ:82

” کیا وہ قرآن پر غور نہیں کرتے۔اگر اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سارا اختلاف (تضادات) وہ پاتے”۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

علماء حق کی بڑی تعداد نے حلالہ کی لعنت کو ختم کرنے کا علمی مسئلہ قبول کیا۔ الحمدللہ

تمام فقہائے کرام امام ابو حنیفہ ، امام جعفر صادق اور امام مالک، امام شافعی،امام احمد بن حنبلاس پر متفق تھے کہ فقہ کا پہلا اصول قرآن ہے ۔ قرآن کی آیت سے متصادم کوئی حدیث قابل قبول نہیں ہے اور امام ابوحنیفہ ودیگر اہل سنت کے ائمہ اپنے اصول قرآن اور احادیث کو سمجھتے ہیں اور اہل تشیع قرآن و اہل بیت ہی کو شریعت کا بنیادی منبع سمجھتے ہیں۔

اگر اہل سنت کی کوئی غلطی ثابت ہوگئی تو قیامت نہیں آئے گی اسلئے کہ دوسری صدی ہجری میں بھی چار فقہی امام کے علاوہ بہت سارے ائمہ تھے جن کا ایک دوسرے سے بنیادی اختلاف تھا مگر شیعہ کے ائمہ اہل بیت حضرت علی سے مہدی غائب اور ان کے غیبت صغریٰ میں خلیفہ اول عثمان عمری اور خلیفہ دوم محمد بن عثمان عمری تک ڈھائی سے تین سو سال کا ایک طویل زمانہ ہے ۔اگر وہ اس میں بھی قرآن کی بنیادی تعلیمات کو اپنی شیعہ قوم کو نہیں سمجھا سکے توپھر یہ بہت بڑی قیامت برپا کردے گی۔ اہل سنت کی احادیث صحاح ستہ تیسری صدی ہجری کی ہیں اور اہل تشیع کی صحاح اربعہ چوتھی صدی ہجری کی ہیں۔

سیاسی اعتبار سے امیر معاویہ نے امام حسن اور امام حسین کے تعاون سے 20سالہ اقتدار کیاتھااور فاطمی خلفاء کے مقابلے میں اثناعشریہ کے ائمہ نے عباسی خلفاء کا ساتھ دیا اور مامون الرشید نے امام رضا کو اپنا جانشین اور داماد بھی بنایا ،ایک مزارہے۔

اصول فقہ کا سبق: حتی تنکح زوجًا غیرہ ” یہاں تک کہ عورت کسی اور سے نکاح کرے”۔

اس میں عورت کو آزادی کا پروانہ دیا گیا ہے۔ اپنی مرضی سے جس کیساتھ اور جہاں مفاد ہو تو نکاح کرسکتی ہے۔ ہم اس پر ابھی بڑے لیول کی بات کو نظرانداز کردیتے ہیں اسلئے کہ موٹی موٹی باتوں کا بھی احاطہ نہیں ہوسکے گا۔ کیا معاشرے میں طلاق کے بعد عورت کو آزادی دینے کا حق مل گیا؟۔ جب لیڈی ڈیانا کو طلاق دی گئی تو پیریس فرانس میں بھی اس کی حادثاتی موت کو طلاق دینے والے شہزادہ چارلس پر کیس کیا گیا کہ آزادی سے نکاح کو روکنے کیلئے غیرت سے یہ اقدام اٹھایا گیا ہے۔

آج بھی طلاق کے باوجود بہت ساری خواتین کو آزادی سے نکاح کرنے کا حق نہیں دیا جاتا ہے اور صحابہ کرام کے دور میں حضرت سعد بن عبادہ کے حوالہ سے بھی بخاری میں ایک حدیث ہے۔

ایک طرف قرآن آزادی کا پروانہ عورت کو دیتا ہے تو دوسری طرف اس کی روح پر عمل نہیں ہوتاہے اور اس کی سب سے بڑی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قرآن کی اس آیت کو متنازع بنادیا گیا ہے۔ فقہ حنفی نے شوہر سے آزادی کو فراموش کرتے ہوئے مقابلہ میں یہ حدیث مسترد کردی کہ نبیۖ نے فرمایا کہ ”جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلیا تو اس کا نکاح باطل ہے، باطل ہے اور باطل ہے”۔ اسی طرح کی تقریباً200احادیث ہیں کہ ولی کی اجازت کے بغیر عورت کا نکاح نہیں ہے اسلئے جمہور ائمہ اہل سنت ، محدثین اور فقہاء حضرت طلاق شدہ عورت کو نکاح کیلئے اپنے ولی کی اجازت کا پابند سمجھتے ہیںلیکن حنفی حدیث کو قرآن کی اس آیت سے متصاد م اور ناقابل عمل سمجھتے ہیں۔

جب میں جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں پڑھتا تھا تو ہمارے استاذ مولانا بدیع الزمان تھے جو مفتی تقی عثمانی اور مولانا فضل الرحمن کے بھائی مولانا عطاء الرحمن کے بھی استاذ تھے۔ میں نے عرض کیا کہ ”حنفی مسلک کی اصل یہ ہے کہ جب قرآن اور حدیث میں تطبیق ہوسکے تو تطبیق کی جائے بلکہ بڑی ضعیف حدیث کو بھی ممکن ہو تو اس کو رد کرنے کے بجائے تطبیق کردی جائے ۔ اس آیت میں طلاق شدہ کی بات ہے اور حدیث سے کنواری مراد لی جائے۔ اسلئے کہ کنواری اور طلاق شدہ کے شرعی احکام بھی مختلف ہیں”۔ استاذ کو میری بات میں بہت وزن لگا اور حوصلہ افزائی فرمائی کہ اس مسئلے کو اپنی تعلیم مکمل کرکے حل کرسکتے ہیں۔

طلاق شدہ کے مقابلے میں قرآن کے اندر بیوہ کو واضح الفاظ میں خود مختار بنادیا گیا ہے۔ جس سے جمہور ائمہ فقہ اور محدثین کو سمجھایا جاسکتا ہے کہ طلاق شدہ اور بیوہ پر حدیث میں کوئی پابندی نہیں ہے اور ولی کا تعلق کنواری لڑکی سے ہوتا ہے۔ نکاح کے بعد اس کا سرپرست اس کا شوہر بنتا ہے اور طلاق شدہ اور بیوہ خود مختار بن جاتی ہے۔

اس بحث سے قارئین اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ حنفی مسلک کا عورت کی آزادی و خود مختاری میں بڑا کردار ہے اور عدالتوں میں جتنی کورٹ میرج کا سلسلہ ہے یہ حنفی مسلک کا فیض ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے۔ لیکن کیا حنفی مسلک قرآن سے متعلق دیگر آیات پر بھی یہ کردار رکھتا ہے؟۔

مثلاً اللہ نے فرمایا: وبعولتھن احق بردھن فی ذلک ان ارادوا اصلاحًا ”اور ان کے شوہر اس عدت میں ان کو اصلاح کی شرط پر زیادہ لوٹانے کا حق رکھتے ہیں”۔ (البقرہ : آیت228)

اب اللہ اس آیت میں عدت کے اندر اصلاح کی شرط پر شوہر کو عورت کے لوٹانے کا زیادہ حقدار قرار دیتا ہے۔ کیا کوئی ایک بھی ایسی حدیث ہے جو اس آیت سے متصادم ہو کہ کسی شخص نے نبیۖ کو بتایا ہو کہ میں نے بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں اب ہم باہمی اصلاح سے رجوع کرنا چاہتے ہیں؟۔ اور پھر نبی ۖ نے فرمایا ہو کہ جس نے اکٹھی تین مرتبہ طلاق دی تو اب عدت میں صلح وا صلاح کی شرط پر بھی رجوع نہیں کرسکتا ہے، رجوع نہیں کرسکتا ہے ۔ رجوع نہیں کرسکتا ہے؟۔ اگر بالفرض کوئی حدیث ایسی ہوتی بھی تو حنفی مسلک کا تقاضہ تھا کہ قرآن پر عمل کیا جاتا اور حدیث کی تردید کردی جاتی ۔

حالانکہ تمام ذخیرہ احادیث میں ضعیف حدیث بھی ایسی نہیں ہے۔ بخاری نے اکٹھی تین طلاق پر جو رفاعہ القرظی کی بیوی کے حوالے سے روایت نقل کی ہے اس میں بھی یہ نہیں ہے کہ نبیۖ اس کو عدت میں رجوع سے منع کررہے تھے بلکہ وہ تو کسی اور کے نکاح میں تھی اور اس پر الزام لگاکر اپنی جان چھڑانا چاہتی ہے اور یہ بھی بخاری کی دوسری حدیث میں ہے کہ نبیۖ سے اس کے شوہر نے عرض کیا کہ میں اپنی مردانہ قوت سے اس کی چمڑی ادھیڑ کے رکھ دیتا ہوں۔ اس میں یہ بھی واضح نہیں ہے کہ رفاعہ نے اس کو دوبارہ لینے کا پروگرام بنایاتھا اور عدت کے اندر اندر اس حدیث سے حلالے کے فتوے انتہائی غلط بات ہے۔ امام شافعی اکٹھی تین طلاق کو سنت سمجھتے تھے اور وہ بھی اس حدیث کو اپنی دلیل نہیں مانتے۔ امام شافعی کے نزدیک صرف یہ روایت ایک دلیل ہے کہ عویر عجلانی نے لعان کے بعد بیوی کو تین طلاقیں دیں۔ لیکن کیا اس یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے آیت ناقابل عمل ہوگی؟۔ حالانکہ اس میں رجوع کا کوئی پروگرام نہیں تھا تو یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ قرآنی آیت اس سے منسوخ ہوگئی؟۔یہ حدیث سورہ طلاق کی تفسیر ہے کہ فحاشی کا ارتکاب بیوی کرے تو عدت کا انتظار کئے بغیر بھی فارغ کرسکتے ہیں۔ جبکہ ام رکانہ کو ابورکانہ نے تین طلاقیں دی تھیں اور سورہ طلاق کے مطابق مرحلہ وار تین مرتبہ دی تھیں۔ پھر بھی نبی ۖ نے سورہ طلاق کی تلاوت کرتے ہوئے حلالہ کے بغیر رجوع کے حوالہ سے وضاحت فرمائی۔ (ابوداؤد شریف)

امام شافعی اور دیگر ائمہ کا یہ کہنا کہ تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ رجوع کا دروازہ باہمی اصلاح کے باوجود بھی بند ہوجاتا ہے بلکہ جس کے نزدیک طلاق واقع نہیں ہوتی تو پھر عورت بدستور شوہر کے نکاح میں رہے گی۔ یہ بڑا کم مارجن عورت کو دیا گیا ہے جو درست ہے ۔ اس سے بڑھ کر اگر ایک طلاق بھی دی جائے تو واقع ہوجاتی ہے اور عدت کے بعد عورت دوسرے سے شادی کرسکتی ہے۔جنہوں نے تین طلاق کے بعد رجوع کا یک طرفہ اختیار دے دیا تو بہت بڑے ظلم کی بات ہے۔ ایک طلاق کیا ایلاء میں جہاں شوہر طلاق کا اظہار بھی نہ کرے تب بھی وہ رجوع نہیں کرسکتا۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اللہ نے بار بار صلح واصلاح اور معروف طریقے سے جو رجوع کی اجازت دی ہے تو اس پر پابندی لگ جاتی ہے۔ ایک ساتھ تین طلاق کو گناہ، ناجائز، بدعت قرار دینے والے حنفی مالکی مسلک کے نزدیک ایک حدیث ہے کہ محمود بن لبید نے کہا کہ ایک شخص نے نبی ۖ کو خبر دی کہ فلاں نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی ہے تو رسول اللہۖ غضبناک ہوکر کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ میں تمہارے درمیان میں ہوں اور تم اللہ کی کتاب کیساتھ کھیل رہے ہو؟۔جس پر ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟۔

اس روایت کو امام شافعی نہیں مانتے لیکن اس میں یہ بھی نہیں ہے کہ نبیۖ نے رجوع سے منع فرمایا ہو اور اگر منع فرمایا ہوتا تو تب بھی حنفی مسلک کو قرآن کے مقابلہ میں حدیث قبول نہیں ہوتی؟۔

ناراضگی کا مطلب یہی تھا کہ جب مرحلہ وار ہی طلاق دینی ہے تو اکٹھی تین طلاق دینے کی جرأت کیوں کی؟۔ جس کے نتائج معاشرے کیلئے تباہ کن ہیں؟۔ روایات میں واضح ہے کہ طلاق دینے والا عبداللہ بن عمر اور قتل کی پیشکش کرنے والے حضرت عمر تھے۔ صحیح مسلم کی روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے تین طلاقیں دی تھیں اور بخاری میں ہے کہ حیض کی حالت میں طلاق دی تو نبیۖ اس پر غضبناک ہوگئے اور پھر مراجعت کا حکم دیا اور اس طرح طلاق کا طریقہ سمجھایا کہ پہلے طہر یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر دوسرا طہر یہاں تک کہ حیض آجائے اور پھر تیسرے طہر میں رجوع اور چھوڑنا ہو تو ہاتھ لگائے بغیر چھوڑ دے۔ یہی وہ عدت ہے جس میں اللہ نے اس طرح طلاق کا امر فرمایا ہے۔

بڑے سیاسی قائدین کا مشہور ہے کہ لوگ حلالہ شوق سے کرواتے تھے اور مفتی اور شیخ الحدیث بھی نفسانی خواہشات رکھتے ہیں۔ بعض لوگوں نے اس کی وجہ سے مجرد زندگی گزاری اور شادی نہیں کی مگر جب حلالہ والی ہاتھ نہیں لگتی تھی تو اپنے ہاتھوں کے ساتھ بھی نکاح کو جائز قرار دے دیا۔ مسلمانوں کی زندگیاں حلالہ سے تباہ کردی ہیں لیکن الحمد للہ اب علماء اور عوام کو معاملہ بالکل سمجھ میں آرہا ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اداریہ نوشتہ دیوار شمارہ مئی 2025

بدر، اُحد ، صلح حدیبیہ کے رنگ:پاک وہند جنگ

بھارت نے بلا جواز پاکستان پر حملہ کرکے بے گناہ شہریوں کو شہید کردیا۔ اب پھر بھارت کی بدترین شکست کو پوری دنیا نے دیکھ لیا۔ نریندر مودی کی سوچ ہندو ازم کو پروان چڑھانا ہے اور پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے۔ قرآن نے غزوہ بدر کے موقع پر بھی مسلمانوں کو ڈانٹ پلائی تھی اور غزوہ احد کے موقع پر بھی جب مسلمانوں کو بہت بڑے زخم لگے اور بدلہ لینے کیلئے بے تاب تھے تو اللہ نے بدلہ لینے کے بجائے معاف کرنے کا حکم فرمایا۔ سندھی قوم نے جائز احتجاج سے مرکزی حکومت اور صوبائی حکومت کو ڈیموں کا فیصلہ بدلنے پر مجبور کیا جو سب کیلئے قابل تقلید ہے۔

آج کل مغربی ممالک میں کچھ افراد مصنوعی طریقے سے ٹیٹ مارکر لوگوں کو حیرت زدہ اور کچھ پریشان اور کچھ محظوظ کرتے ہیں ۔ اب میڈیا ، سیاسی قائدین اور علماء ومفتیان کے حالات بھی اس سے زیادہ دونوں طرف مختلف نظر نہیں آتے۔ یہ نہیں دیکھتے کہ بکری یا بکرا لیکن دودھ نکالنے بیٹھتے ہیں۔ رسول اللہ ۖ نے عظیم مقصد کیلئے مشرکین مکہ کیساتھ صلح حدیبیہ اور یہود کیساتھ میثاق مدینہ کا معاہدہ کرکے حجاز مقدس کی سر زمین کو متحد کردیا اور ناقابل تسخیر دنیا کی سپرطاقتوں کو چت کردیا۔

رسول اللہ ۖ نے خواب دیکھا کہ ”ابوجہل آپۖ کے ہاتھ پر بیعت ہورہاہے”۔جب خالد بن ولید نے اسلام قبول کیا تو کچھ لوگوں نے خواب کی یہ تعبیر کردی۔ نبی ۖ نے منع فرمایا۔ پھر عکرمہ بن ابی جہل نے اسلام قبول کیا تو نبی ۖ نے فرمایا کہ خواب کی یہی تعبیر ہے۔ ایک مرتبہ نبی ۖ نے خواب میں جنت کے اندر کھجور کا درخت دیکھا تو پوچھنے پر بتایا گیا کہ ابو جہل کا ہے تو نبیۖ پر گراں گزرا اور فرمایا کہ اس کیلئے نہیں ہوسکتا۔ پھر عکرمہ بن ابی جہل نے اسلام قبول کیا تو خواب کی تعبیر سامنے آگئی۔ دشمنان اسلام اہل طائف، ابوجہل، ابولہب اور ابوسفیان کیلئے کون سوچ سکتا تھاکہ جو مرے یا مارے گئے تو انکی نسلیں اور جو زندہ بچیںتووہ سرنڈر ہوں گے؟۔

پاکستان جس مقصد کیلئے بنا تھا تو اس میں مذہبی طبقہ، سیاستدان ، سول وملٹری بیوروکریسی، عوام اور عدالتی نظام سب قصور وار ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح نے مری ، سوات، پاڑہ چنار، وزیرستان، کاغان ہزارہ ، چترال اور گلگت بلتستان کو چھوڑ کر تن تنہا اپنی بہن مادر ملت فاطمہ جناح کیساتھ دور دراز کے پسماندہ علاقہ زیارت میں چھٹیاں گزارنے کا فیصلہ کیا لیکن قائد ملت لیاقت علی خان سے لیکر کس کس پر سازش کے الزامات نہیں لگائے جاتے؟۔ ایمل ولی خان سینیٹ میں فوج کیخلاف ضرور تقریر کرے لیکن بلوچستان کی سینیٹ کی سیٹ کیلئے پرانی نہیں نئی تنخواہ پر کام نہیں کرے۔ جب 1920ء میں برصغیر پاک وہند کی عوام کو اپنے گھر بار، کاروبار اور جائیداد بیچ کر افغانستان ہجرت کی ترغیب دی گئی تو اس جرم میں خان عبدالغفار خان برابر کا شریک تھا اور قائداعظم اور دوسرے سیاسی رہنماؤں نے اس ہجرت کی مخالفت کی تھی۔ پختون قوم انگریز کے دور سے پہلے سکھ دور میں تقسیم تھی۔ پختونخواہ پنجاب کا حصہ تھا، افغانستان الگ تھا اور بلوچستان الگ تھا۔ اصل تقسیم پنجابی مسلمانوں کی ہوئی ہے۔ تقسیم ہند کے وقت سب سے زیادہ قتل وغارت گری بھی پنجاب میں ہوئی اور سیدعطاء اللہ شاہ بخاری کی احرار، احمد خان کھر ل اور بھگت سنگھ جیسے ہیروتھے۔ سلمان گیلانی نے بتایا کہ انکے والدامین گیلانی کے ہاں فقیر اے پی رضا کار بھرتی کرنے مشرقی پنجاب آئے تھے۔
٭

مذہب کے بھنگ ،مجاہد کے سنگ، امت ہے تنگ

رسول اللہ ۖ کو اللہ تعالیٰ نے نرینہ اولاد سے بھی نواز دیا تھا لیکن پھر اللہ نے اٹھابھی لیا تھا۔

1511۔ حدّ ثنا عبدالقدو س بن محمد قال: حدّ ثنا داؤد بن شعیب الباھلی قال: حدّ ثنا ابراھیم بن عثمان قال: حدّ ثنا الحکم بن عتیبة ، عن مقسم، عن ابن عباس ،قال: لما مات ابراھیم ابن رسول اللہۖ صلّی رسول اللہ ۖ و قال : اِنّ لہ مر ضعًا فی الجنة ، ولو عاش لکان صدیقًا نبیًا ، ولو عاش لعتقت أخوالہ القبط ،وما استرق قبطی حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ جب رسول اللہۖ کے فرزند ابراہیم کی وفات ہوئی تو رسول اللہۖ نے ان کا جنازہ پڑھایااور فرمایا: ” اس کیلئے جنت میں ایک دودھ پلانے والی مقرر ہے اور وہ اگر زندہ ہوتا تو نبی اور صدیق ہوتا۔ اور اگر وہ زندہ رہتا تو اسکے ماموں قبطی آزاد ہوجاتے۔پھر کسی قبطی کو غلام نہیں بنایا جاتا”۔ مترجم :مولانا عطاء اللہ ساجد(دار السلام)

درس نظامی میں پڑھائی جانے والی ” ابن ماجہ ” کی یہ حدیث قادیانی کذاب کابڑا سرمایہ۔علماء کسی کو بتاتے نہیں ہیں اور قادیانی اس کی وجہ سے علماء اور عوام کو اپنا شکار بناتے رہتے ہیں۔ انجینئر محمد علی مرزا علمی کتابی دیوبندیوں اور بریلویوں پر ہی نہیں کشف والہام کی وجہ سے تمام اسلاف پر بھی ختم نبوت کے انکار کا کھلم کھلا فتویٰ لگارہاہے لیکن اہلحدیث پر اس حدیث کی وجہ سے نہیں لگاتا ہے۔ حنفی تو اس حدیث سے زیادہ مضبوط روایات کا قرآن سے ٹکراؤ کی وجہ سے انکار کرتے ہیں۔ لیکن مسلک کے نقاب میں قرآن کی کتنی آیات کا انکار کیا جاتا ہے ؟۔یہ معاملہ سمجھنا پڑے گا۔

مینار پاکستان منٹوپارک میں بڑے مذہبی اور سیاسی جلسے ہوتے ہیں ۔سعادت حسن منٹونے کہا:

”شیطان اتنا بڑا گستاخ تھا کہ اس نے سیدھا خدا کو کہہ دیا کہ میں نہیں کرتا سجدہ اور مردود ہوگیا اور خدا اتنا بڑا سیکولر ہے کہ اس نے اختلاف رائے پر شیطان کو مارا نہیں بلکہ مہلت دیدی کہ اپنے نظرئیے پر لوگوں کو قائل کرسکتا ہے تو کرلے۔ لیکن یہ خدا کے ماننے والے پتہ نہیں کسی مٹی کے بنے ہیں؟۔ جس نیت سے طوائف برقعہ پہن لیتی ہے تو اس نیت سے کچھ لوگ داڑھی رکھ لیتے ہیں”۔

تیمور لنگ نے ہندوستان میں اسلامی جذبہ سے سرشاہوکر ہندوؤں کو بے دریغ قتل کیا جس کا تعلق سمرقند سے تھا اور چنگیز خان اور تیمور کا شجرہ رسول اللہ ۖ اور ابوجہل کی طرح اوپر کی پشتوں میں ملتا تھا۔پھر اس کی نسل نے ہندوستان پر حکومت کی جس میں بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان شامل تھے۔ تیمور لنگ حافظ لیکن جاہل دیندار تھا ۔ جس کی تعلیم وتربیت اچھے ماحول میں نہیں ہوئی تھی۔ آج ہمارا یہ خطہ تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہاہے۔

ٹیکنالوجی کی مدد سے اسامہ بن لادن ایبٹ آباد،ایمن الظواہری کابل ، حماس کے اسماعیل ہنیہ تہران اور حسن نصراللہ لبنان میں نشانہ بن گئے۔ ہندوستان اور پاکستان بھی عوام کی جگہ حکمران طبقہ کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ مذہبی قیادت جب تک عالمی قوتوں کیساتھ سمجھوتہ نہیں کرتی تو ان کو اقتدار میں آنے سے روکا جاتا ہے۔ قتال اور دُم چھلے کی سیاست سے بہتر ہے کہ مذہبی لوگ اپنے جذبے کو اپنا شعور اور لوگوں کا شعور بڑھانے پر لگائیں تو اس کے خاطر خواہ نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔ اگر پانچ سال کے بارہ مہینے اور جمعہ کے سات دن اسلام کی بنیاد پر مسائل حل کئے تو ووٹ بھی ملے گا۔
٭

انقلابی ڈھنگ ،نبیۖ کی امنگ سے ہم آہنگ

رسول اللہ ۖ کو اللہ تعالیٰ نے مطلع فرمادیا تھا کہ”اسلام اجنبیت کی حالت میں شروع ہوا اور یہ عنقریب اسلام پھر اجنبی بن جائے گا”۔خلافت کو مورثی لونڈی بنایا جائے گا۔ نبیۖ کی عترت اہل بیت پر مظالم کے پہاڑ ڈھائے جائیں گے۔ صنف نازک عورت کے حقوق غصب ہونگے۔

چنانچہ خطبہ حجة الوداع میں قرآن کو مضبوطی کیساتھ پکڑنے، اہل بیت سے بدسلوکی نہ کرنے اور خواتین کے حقوق کی تلقین فرمائی لیکن تینوں باتوں میں امت مسلمہ نے رسول اللہ ۖ کی نافرمانی کرکے اسلام کو اجنبیت کی طرف دھکیل دیا تھا۔ آج قرآن کو پکڑیںاورعورت کو حقوق دیدیں۔

30سالہ خلافت کا دور بھی فتنوں کا شکار ہوا۔ بخاری کی روایت ہے کہ ”عمر فتنوں کو بند رکھنے کا دروازہ ہے”۔ حضرت عمر نے اپنے بیٹے کو نااہل قرار دیا۔ خلافت کا مسئلہ شوریٰ کے سپرد کیا اور شوریٰ کے چھ ارکان میں سے حضرت طلحہ نے حضرت علی اور حضرت زبیر نے حضرت عثمان کے حق میں اپنا ووٹ دیا۔ عبدالرحمن بن عوف اپنے حق سے دستبردارہوگئے ۔ سعد بن ابی وقاص نے عبدالرحمن بن عوف کو اپنا اختیار دیا۔توعبدالرحمن کے پاس خلیفہ منتخب کرنے کا مکمل اختیار آگیا۔ زعمائے قوم اور عوام الناس سے حتی الامکان مشاورت کے بعد حضرت عثمان و حضرت علی سے انٹرویو لینے کے بعد حضرت عثمان کے حق میں فیصلہ کردیا۔ دنیا میں آزادی رائے اور جمہوریت کی یہ بہت بڑی بنیاد تھی۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہتا تو اسلام اجنبیت کا شکار نہ بنتا اور خلافت کو خاندان کی لونڈی بنانے کیلئے اسلام نازل نہیں ہوا تھا۔ یزیدو مروان اور عبدالملک بن مروان سے موجودہ دور تک کے عوامی قربانیوں اور چندوں کو خاندانوں کی نذر کرنا اسلام کے منافی ہے۔ جب باغ فدک نبیۖ کی وراثت نہیں ہوسکتی تھی تو پھر ہمارا مذہبی طبقہ چندوں کی بنیاد پر وقف مال کے خاندانی مالک کیسے بن سکتے ہیں؟۔ حضرت عثمان نے 12سال حکومت کی اور جب باغیوں نے گھیر لیا تو آج کم بخت طبقہ کہتاہے کہ علی اسکے ذمہ دار تھے۔ ظھرالفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس” فساد ظاہر ہوا جو لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے کمایا تھا”۔ علی حضرت عثمان سے کہتے تھے کہ” ابوبکر وعمر سے تم کسی طرح قرابتداری اور قربانیوں میں کم نہیں ہو لوگوں کو شکایت کا موقع مت دو، اگر مسند پر قتل کردئیے گئے تو یہ خون رکے گا نہیں”۔ مفتی منظور مینگل اور مفتی طارق مسعود کی یہ لڑائی ہے کہ فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا ہے یا نہیں؟۔ پہلے دیوبندی سنت نماز کے بعد اجتماعی دعا پر تقسیم ہوگئے اور کفر وبدعتی کے فتوے لگائے۔ حالانکہ دیوبند کی تحریک قرآن وسنت کی احیاء کیلئے تھی۔ غسل ، وضو اور نماز کے فرائض تبلیغی جماعت نے عوام کو ازبر کرادئیے۔ علماء مذاہب اربعہ کے اختلافات کو محض ذہنی آوارگی سمجھ کربھول جاتے تھے۔ پنج پیری نے کرامات کو شرک کہا ۔ ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی فاضل جامعہ بنوری وفاق ٹاؤن نے اسلاف پر فتوے لگاکر مولانا طاہر پنج پیری کی سٹی گم کردی۔ حاجی محمد عثمان نے علماء دیوبند کو معتزلہ بننے سے بچایا۔ مولانا سجاد نعمانی فاضل مدینہ یونیورسٹی نے اپنی تقریر میں بتایا کہ” سعودی سرکاری عالم نے علماء دیوبند کو قادیانیوں کی طرح کافر قرار دیا۔مجدد الف ثانی، سیداحمد بریلوی ،مولانارشیداحمد گنگوہی ، شیخ الحدیث مولانا زکریا پر بطور خاص کفر کا فتویٰ لگادیا ہے”۔ شیخ الہند اور حاجی مہاجرمکی کے جانشین حاجی عثمان تھے۔

گالی دی اور نہ کوئی گلوچ
یہ دلّا پکڑ اور وہ دلّا دبوچ
کام کرگئی سندھ کی ایک سوچ
مرا کوئی نہ آئی کسی کو موچ
تباہ برباد ناشاد اور نامراد بلوچ
چھبیسویں ترمیم مولانا تھا کوچ
کٹی دم اور ٹوٹ گئی چونچ
کسی کو مارو اور نہ خود کو نوچ

عورت کی ناموس سے شہد کشید کرے
نسل یزید تیری مٹی خوب پلید کرے
حق سے دور کرے باطل کی تقلید کرے
بدبخت سرعام قرآں کی تردید کرے
جہنم کا نعرہ ھل من مزید کرے
خلافت راشدہ کو تھپڑ رسید کرے
وقف مدرسہ میں اپنا گھر خرید کرے
سود کی تمہید کرے کفر کی تجدید کرے
نہ حق بات سنے اور نہ چشم دید کرے
فتویٰ کے گولے سے اپنے شہید کرے
عزتیں لوٹے اور حلالہ کی وعید کرے
مہدی کے لشکر سے ملنے کی اُمید کرے

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عورت کے بارے میں اللہ فتویٰ دیتا ہے

ویستفتونک فی النساء قل اللہ یفتیکم فیھن ومایتلٰی علیکم فی الکتاب النساء:127

فی یتٰمی النساء الٰتی لاتؤتؤنھن ما کتب لھن وترغبون ان تنکحوھن والمستضعفین من الولدان و ان تقومواللیتٰمٰی بالقسط وما تفعلوا من خیرٍ فان اللہ کان بہ علیمًا

اور آپ سے عورتوں کا فتویٰ پوچھتے ہیں کہہ دو کہ اللہ انکا فتویٰ دیتاہے اورجو تم پر قرآن پڑھاجاتا ہے

آیت نکتہ نمبر1: ویستفتونک فی النساء قل اللہ یفتیکم فیھن”یہ لوگ آپ سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں۔ کہہ دو کہ اللہ انکے بارے میں فتویٰ دیتا ہے”۔ (النساء:127)

سورہ مجادلہ میں نبیۖ سے عورت شوہر کے بارے میں جھگڑرہی تھی تو اللہ نے عورت کے حق میں مروجہ مذہبی فتویٰ کیخلاف وحی نازل فرمائی۔ اسلئے کہ عورت کے بارے میں اللہ فتویٰ دیتا ہے۔

سوال :اگر شوہر نے طلاق طلاق طلاق ایک مجلس میں یا صبح کو طلاق ، پھر دو پہر کو طلاق اور پھر شام کو طلاق کہا تو اللہ تعالیٰ کیا فتویٰ دیتا ہے؟۔

جواب: اللہ فرماتا ہے کہ اگر عدت میں دونوں صلح واصلاح اور معروف طریقے سے رجوع کیلئے راضی ہوں تو رجوع ہوسکتا ہے نہیں تو نہیں ہوسکتا۔ المطلقٰت یتربصن بانفسھن ثلاثة قرواء …وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحًا ”طلاق والیاں 3ادوار تک اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں……اور انکے شوہر اس عدت میں اصلاح کرناچاہیں تو ان کو لوٹانے کازیادہ حق رکھتے ہیں”۔(البقرہ: آیت:228)

دربارعمرکو3 طلاق کا فیصلہ پہنچاتو شوہر رجوع کا خود کو اصلاح کے بغیر بھی حقدار سمجھتا تھا اور عورت رجوع کیلئے راضی نہ تھی اسلئے حضرت عمر نے ٹھیک فیصلہ کیا تھا۔ جس پرصحابہ کرام نے اتفاق کیا تھا۔

جب ایک شخص نے بیوی کو حرام کہہ دیا لیکن پھر وہ میاں بیوی رجوع کیلئے راضی ہوگئے تو عمر نے ان کے درمیان رجوع کا فیصلہ کردیا تھا۔

علی کے دور میں کسی نے بیوی کو حرام کہہ دیا اور پھر عورت رجوع کیلئے راضی نہیں ہوئی تھی تو حضرت علی نے رجو ع نہ کرنے کا فیصلہ کردیا تھا۔

قرآن، سنت اور صحابہ کرام ایک ہی مؤقف پر متفق تھے۔ رسول اللہ ۖ نے ازواج مطہرات سے ایلاء کیا تو ایک ماہ بعد رجوع کرنے پر سب کی خوشی تھی لیکن اللہ نے حکم دیا کہ ازواج کو علیحدگی کا مکمل اختیار دیں ۔ تاکہ امت پر قیامت تک واضح ہوجائے کہ رجوع کیلئے عورت کی رضا شرط ہے۔

بخاری میں ہے کہ حرام سے رجوع ہوسکتا ہے اور یہ بھی ہے کہ نہیں ہوسکتا۔ مکی دور کو 13سال بھی قرار دیا اور10سال بھی۔ مولانا اشرف جلالی ، اہلحدیث علماء اور حنفی علماء علمی حقائق کو سمجھتے ہیں۔

”بخاری والی سرکار ” کے ہاتھوں صدیوں سے حلالہ کے نام پر شلواریں اترواکر شہد چٹوا چکے ہیں اسلئے بخاری رسول اللہ ۖ پر بہتان طراز ہے کہ باب” جس نے تین طلاق کو جائز قرار دیا” رفاعة القرظی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں۔ پھر اس عورت نے عبدالرحمن زبیر القرظی سے نکاح کیا اور نبیۖ سے اپنے دوپٹے کا پلو دکھا کر عرض کیا کہ اس کے پاس اس کی مثل ہے۔نبیۖ نے فرمایا کہ کیا آپ رفاعہ کے پاس لوٹنا چاہتی ہو؟ نہیں یہاں کہ وہ تیرا شہد چکھ لے جیسے پہلے شوہر نے چکھا اور تو اس کا شہد چکھ لے جیسے تونے پہلے کا چکھا”۔

اس روایت کی وجہ سے ”علمی کتابی جاہل مرزا ” جیسے نے کتنی عزتوں کو لٹوایا اور مزید کتنی لٹیں گی؟۔ جس کا کوئی قائل نہیں اور کسی نامرد کیساتھ لذت اٹھانے پر مجبور کرنا بابے تو کیا کوئی چیلہ بھی نہیں کرسکتا۔ بھلے علی مرزا ہیرونچی پکڑکرلائے ۔ عرب علماء نے حلالہ کو سزاکہا تو ممکن ہے کہ کچھ علماء نے یہ نئی سزا ”حلالہ والی سرکار” تجویز کی ہو؟۔

علماء کرام اور جہلاء بے لگام میںیہ فرق ہے کہ علماء کرام اپنے اندر بہت لچک رکھتے ہیں اور فتویٰ کے آخر میں لکھ دیتے ہیں کہ یہ میری معلومات ہیں اور ٹھیک بات اللہ جانتاہے۔ جاہل کی دستار اس کی دم ہوتی ہے جس کو اٹھاکر وہ کہتا ہے کہ اولی العلم قائم بالقسط میں ہوں۔مرزا جی کہتا ہے کہ اگر صحابہ کرام کے دور میں ہوتا تو خلافت کا اہل خود کو قرار دیتا۔ ایک عالم سمجھتا ہے کہ شکر ہے کہ اس دور میں ہم نہ تھے پتہ نہیں کہاں کھڑے ہوتے؟۔

آیت کا نکتہ نمبر2: وما یتلٰی علیکم فی الکتٰب ” عورتوں کے بارے میں اللہ کا فتویٰ وہی ہے جوتمہارے اُو پر کتاب میں تلاوت کیا جاتاہے”۔

نبی ۖنے فرمایا کہ ”اسلام اجنبیت کی حال میں شروع ہوا تھا اور یہ عنقریب پھر اجنبیت کی طرف لوٹ جائیگا۔ خوشخبری ہے اجنبیوں کیلئے” ۔

دورِ جاہلیت میں عورت کو اکٹھی تین طلاقیں دی جاتی تھیں توحلالہ کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا تھا اور ایک طلاق دی جاتی تھی تو بیوی کی رضامندی کے بغیر بھی رجوع ہوسکتا تھا۔ اللہ نے قرآن سے ان دونوں باطل رسموں کو اڑاکر واضح کر دیاکہ ”طلاق شدہ عورتوں کی عدت تین ادوار ہیں۔ اگر اللہ نے انکے پیٹ میں حمل پیدا کیا ہو تو ان کیلئے حلال نہیں کہ اس کو چھپائیں ،اگر وہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں۔ اور اس عدت میں ان کے شوہروں کو انکے لوٹانے کا زیادہ حق ہے اگر وہ اصلاح چاہتے ہوں۔ اور عورتوں کیلئے اتنا ہی حق ہے جتنا مردوں کا ان پر حق ہے معروف طریقے سے اور مردوں کیلئے ان پر ایک درجہ ہے۔اور اللہ زبردست حکمت والا ہے”۔ (البقرہ آیت228)

عورتوں کیلئے وہی حقوق ہیں جو ان پر مردوں کے ہیںمعروف ۔ البتہ مردوں کیلئے ان پر ایک درجہ ہے۔ اور ایک درجہ سے مراد ایک درجہ ہے 10یاپھر2درجات نہیںہیں۔اور وہ بالکل واضح ہے کہ عورتوں پر عدت ہے اور مردوں پر عدت نہیںہے اسکے علاوہ کوئی درجہ بالکل بھی نہیں۔

پروفیسر احمد رفیق اختر نے کہا ” عورت معاشی مستحکم ہوگی تو مرد کا یہ درجہ ختم ہوگا۔ رسول اللہ ۖ کی پہلی زوجہ خدیجة الکبریاور مریم نوازشریف کا معاشی استحکام عدت کو ختم نہیں کرتا۔

شوہرکو طلاق کے بعد اصلاح کے بغیر رجوع کا اختیار مل جائے یا پھر صلح کے باوجود حلالہ کرنے پر مجبور کیا جائے تو یہ جاہلیت دوبارہ رائج ہوگئی ہے۔ اسلئے اسلام دوبارہ اجنبیت کا قریب کے دور سے ہی شکار ہوگیا ، ہم اس کو نکال رہے ہیں۔ علماء کرام بڑے پیمانے پر ہمارا ساتھ دے رہے ہیں۔

جاہل دانشوروں نے دانش جدید سے اسلام کو تباہی کی طرف لیجانے میں بڑا کردار ادا کیا اور علماء جعل ساز صوفی ،نام نہاد دانشور علماء بنتے جارہے ہیں۔جو علم کی طاقت سے ہی ٹھیک ہوں گے۔

سورہ بقرہ آیت229میں228کی مزید تفسیر ہے کہ تین مرتبہ طلاق کا تعلق عدت کے تین مراحل سے ہے۔ طلاق دو مرتبہ ہے پھر معروف طریقے سے روکنا ہے یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے اور نبی ۖ نے فرمایا کہ احسان کیساتھ رخصت کرنا ہی قرآن میں تیسری طلاق ہے۔ فقہاء نے معروف کو منکر بنادیا۔ نیت نہ ہو تو جماع شافعی کا رجوع نہیں۔ نیت نہ ہوتو شہوت کی نظر حنفی کا رجوع ہے۔ بخاری نے جذبہ وکالت سے سرشار ہوکر کہ آیت229کی دو مرتبہ اور تیسری مرتبہ کی طلاق کو اکٹھی تین طلاق کے جواز کیلئے نقل کیا ہے۔ جس کے بعد کم ازکم خلع کی کوئی گنجائش نہیں ۔مگر جاہلوں نے آیت230البقرہ کی طلاق سے پہلے کی فدیہ کی صورت کو خلع بنادیا۔ حالانکہ مفتی تقی عثمانی نے اس کو مشکل قرار دیا لیکن سید مودودی اور جاویداحمد غامدی جیسے جاہلوں نے صریح اور سلیس الفاظ میں خلع کا ترجمہ کردیا۔ پہلے جاہلیت مخفی تھی اور جاہلوں نے تصریح کردی ہے۔ نام نہاد دانشوروں نے علماء اور مولوی نے جعلی صوفی کا لبادہ اوڑھ لیا۔ علماء حق کو میدان میں اُترنا پڑے گا۔مسئلہ بگاڑا ہے تو سدھار بھی سکتے ہیں۔

آیت کا نکتہ نمبر3: ” یتیم عورتوں کے بارے میں جن کو تم فرض حق مہر نہیں دیتے اور نکاح کی رغبت رکھتے ہو”۔ ( ترجمہ تک بھی غلط لکھا گیا ہے)

آج تک علماء ومفتیان نے حق مہر کا مسئلہ نہیں سمجھا کہ یہ کیا ہے؟۔مولاناعتیق الرحمن سنبھلی نے مفتی تقی عثمانی کو خط لکھا کہ حق مہر بنیادی کیا ہے؟ تو مفتی تقی عثمانی نے جواب دیا : ” یہ اعزازیہ ہے” ۔

حالانکہ قرآن میں اجر یعنی بدلے کا ذکر ہے اور حدیث میں ہے کہ روزے کا بدلہ بندے کیلئے اللہ کی ذات خود ہے۔ عورت بیاہ ہوکر اپنے خاندان کی کشتیاں جلاکر آتی ہے تو اسکا حق مہر شوہرپر اس کی حیثیت کے مطابق ہے۔ اللہ نے استطاعت کے مطابق امیر وغریب پر بھی حق مہر کی وضاحت کی اور یہ بھی فرمایا کہ ”ہم جانتے ہیں کہ جو ہم نے ان پر فرض کیا ہے”۔ اللہ تعالیٰ سے کون اپنا مالی اثاثہ چھپا سکتا ہے۔ لڑکی کا باپ زندہ ہوتا ہے تو وہ حق مہر کیلئے استطاعت کے مطابق مطالبہ کرتا ہے۔ اگر کوئی یتیم لڑکی لیتا ہے تو سمجھتا ہے کہ حق مہر کیا بس سہارا دینا ہی کافی ہے۔ امت کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ عرب اور پشتون قوم حق مہر کے نام پر اپنی لڑکیوں کو بیچ دیتے ہیں اور پنجابی قوم کا المیہ ہے کہ جہیز کی ڈیمانڈ بھی رکھتے ہیں۔ لڑکی جب مرضی سے کورٹ میرج کرتی ہے تو حق مہر اور جہیز کی پرواہ نہیں کرتی لیکن پھر بھی ماردی جاتی ہے۔

اگر قرآن کی آیات سے عورت کے حقوق کی واضح ہدایات عوام کے سامنے نہیں لائی جائیں تو عورت رسم ورواج اور مولوی کے جھوٹے فتوؤں کے نیچے رُلتی رہے گی۔ احادیث صحیحہ سے قرآن کی درست تشریح ہوتی ہے لیکن علماء ومفتیان نے الٹی گنگا بہاکرامت کو زوال وپستی کا شکار کیا۔

قدعلمنا مافرضناعلیھم فی ازواجھن آیت کا فقہاء نے مذاق اڑایا۔ چور کا ہاتھ کٹنے کیلئے جتنی رقم 10درہم یا درہم کا چوتھائی۔ اتنی رقم پر شوہر عورت کے ایک عضوکا مالک بنتا ہے اور چور بھی اتنی رقم میں ایک عضو سے محروم ہوجاتا ہے۔

آیت کا نکتہ نمبر4: ”اور کمزور بچوں کو تحفظ اور یتیموں سے انصاف کیلئے کھڑے ہوجاؤ اور اگر کوئی زیادہ اچھا کرے تو بیشک اللہ تمہاری خبر رکھتا ہے”۔

پاکستان کی حکومت کے فنڈز اور علماء و مفتیان کے چندے اور این جی اوز کے نام پر کام کرنے والے اور دیگر چندہ خور طبقات اگر صحیح معنوں میں بڑے پیمانے پر وصول ہونے والے پیسے کمزوروں اور یتیموں پر لگاتے تو آج پاکستان کے حالات بہت زیادہ مختلف ہوتے لیکن مایوسی نہیں ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پیراورنگزیب شاہ ،پیر رفیق شاہ، سیدارشد حسین ، حافظ عبدالقادر، خالد آفریدی سمیت13شہداء

31مئی 2007 ء خوشگوارتفتیش: ہاہاہا

شہید کا ترے شہرہ زمیں سے آسماں تک ہے
فلک سے بلکہ آگے بڑھ کے تیرے آستاں تک ہے
جمال جاں فزا کا ان کے دل کش دل ربا جلوہ
زمیں سے آسماں تک ہے مکان سے لا مکاں تک ہے
رہیں سب مطمئن گلشن میں اپنے آشیانوں سے
کہ جولاں گاہ بجلی کی ہمارے آشیاں تک ہے
نصیحت پر عمل خود بھی کرنا چاہیے واعظ
اثر کیا ہو کہ تیرا وعظ تو نوکِ زباں تک ہے
مسلمانی فقط تسبیح خوانی ہی نہیں ہمدم
مسلمانی کا لمبا ہاتھ شمشیر و سناں تک ہے
بڑھاپا فکر پر آئے تو نکبت ساتھ آتی ہے
ترقی اور عظمت قوم کی فکر جواں تک ہے
فقط دنیا ہی اس کی گونج کا حلقہ نہیں ہرگز
تری حمد و ثنا کی گونج گلزار جناں تک ہے
میں ہوں پیغام حق اسلام میرا نام نامی ہے
جہاں تک ہے یہ دنیا میرا حلقہ بھی وہاں تک ہے

یہ عشق کی ہے راہ نہ یوں ڈگمگا کے چل
ہمت کو اپنی تول قدم کو جماکے چل
راہِ وفا ہے اس میں نہ یوں منہ بناکے چل
کانٹوں کو روند روند کے تو مسکرا کے چل
شمع یقین کی لو کو ذرا اور تیز کر
ظلمت میں رہروؤں کو بھی رستہ دکھا کے چل
دشمن جو دوست کے ہیں وہ ناراض ہوں تو ہوں
سینے پہ زخم ان کے جفاؤں کے کھا کے چل
تیروں کی باڑھ آنے دے اپنے قدم نہ روک
ان کی خوشی یہی ہے تو خوں میں نہا کے چل
بہتا ہے خوں تو بہنے دے بہنے کی چیز ہے
قطروں سے خون سرخ کے گلشن کھلا کے چل
اے میر کارواں تری خدمت میں عرض ہے
جو گررہے ہیں راہ میں ان کو اٹھا کے چل
رستہ کٹھن ہے تو ہے بہت ناتواں عروج
سلطان کائنات کو حامی بنا کے چل

رات11بجے فون آیا۔(پوچھا بندہ آیا….)حسین شاہ نے قاتل والدصنوبر شاہ کے قاتل پرحملہ چاہا۔ سلطان اکبر ٹھنڈا تھا۔ ماموں کا اورنگزیب کی غیرت کو برا سمجھنا تاریخی تسلسل لگا لیکن:

بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں
کچھ باغباں ہیں برق و شرر سے ملے ہوئے

یقینا اب عوامی عدل کی زنجیر چھنکے گی
یہ بہتر ہے کہ مجرم خود ہی جرموں کی سزا چُن لیں

سیداکبر وصنوبرشاہ نے انگریز سے بھاڑہ لیکر انقلابیوں کو قتل کیاپھر مظفرشاہ ،منورشاہ اوردل بندکو بھیج کر شہید کرادیا۔دل بند کی خانی پر قبضہ کیا۔عبدالرحیم کو اجداد باکمال لگے۔ سید حسن شاہ بابو نے اپنے بیٹوں سیداحمد شاہ اور سید محمد امیر شاہ سے بھی زیادہ سبحان شاہ کے8 یتیم پوتوں کی پرورش کی۔ نیک اجدادا کی صحبت کا سبحان شاہ کے یتیم پوتوں پر یقینابہت اچھا اثر پڑاتھا۔

بیوہ صنوبرشاہ وبیوہ مظفرشاہ کے 7بیٹوں کو بڑا گھردیا اور بیوہ منور شاہ کے ایک بیٹے کو چھوٹا گھر دیا۔پھرمظفرشاہ کے 4 بیٹوں کو الگ گھر دیا ۔ایک زمین کیساتھ چار ٹکڑوں کوشامل کیا۔ صنوبر شاہ کے 3بیٹوں کیلئے بڑا گھر رہ گیاتو سلطان اکبر نے بیچ دیا اور مشترکہ شاملات پر گھر بنایا تو قبروں کی جگہ تھی۔ گل امین کی فوتگی سے قبل میرا بھائی دوبارنیند سے جگایا گیا تاکہ غیرتمند کی تدفین سیدامیر شاہ باباکی آغوش میں ہو اسلئے کہ احسان کے بدلے بڑا ستایاگیا۔ حسین شاہ ،محمدامین والد ،چچوںکی قبروں کی بنیادپردفن نہ کرتے۔گناہگارکو گرز لگتے تو چیخ وپکار اہل قبورکیلئے پریشانی سمجھی جاتی تھی۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے وصیت کی کہ مجھے انگریزکے ایجنٹوں کیساتھ دفن نہ کرنا۔ قلعہ قاسم باغ ملتان میں قبر کی پیشکش ہوئی تو آپ کے بیٹوں نے ٹھکرائی تھی۔

غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ ودو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سر دارا
حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہنر کر
کہتے ہیں کہ شیشے کو بناسکتے ہیں خارا

وزیرستان کی تاریخ میں کئی بے گناہ کو شہید کیاجاتا۔ باپ کی سزا بیٹے کواور گناہگار بھائی کی سزا بے گناہ بھائی کو ملتی تھی۔

نگاہ وہ نہیں جو سرخ و زرد پہنچانے
نگاہ وہ ہے کہ محتاج مہر و ماہ نہیں
فرنگ سے بہت آگے ہے منزل مؤمن
قدم اٹھا ! یہ مقام انتہائے راہ نہیں
کھلے ہیں سب کیلئے غربیوں کے میخانے
علوم تازہ کی سرمستیاں گناہ نہیں
اسی سرور میں پوشیدہ موت بھی ہے تیری
تیرے بدن میں اگر سوز ”لالٰہ” نہیں
سنیں گے میری صدا خانزادگان کبیر؟
گلیم پوش ہوں میں صاحب کلاہ نہیں

معروضی و تاریخی حقائق دکھائیں گے۔انشاء اللہ

سیدحسن شاہ بابوکا پوتا سید ایوب اور سبحان شاہ کا پڑپوتامحمود اسلامیہ کالج پشاور 1914ء میںاکٹھے داخل ہوئے اورBA کیا۔ امیر امان اللہ خان کی بحالی کیلئے شامی پیر کے میزبان سیدایوب نے افغانستان میں اخبار جاری کیا ۔ بغاوت کے الزام پر پہلے توپ سے اُڑانے کی سزا ہوئی پھر تاحیات افغانستان بدری میں بدل گئی۔

1877ء میں سید امیر شاہ اور محسود قبائل کا وفد انگریز کیخلاف باہمی تعاون کیلئے کابل امیر شیرعلی کے ہاں گیا۔ سیداحمد شاہ کیساتھ بیٹنی قبائل کا وفد گیا۔ 1878ء میں روسی وفد آیا تو انگریزنے شیر علی کو بھگا دیا۔ امیرامان اللہ خان کے دادا امیر عبدالرحمن نے اقتدارسے قبل کانیگرم ہمارے ہاں قیام کیا ۔ پہلی بار شامی پیر آیا تو لوگ انگریز میم سمجھے اسلئے کہ سبحان شاہ کے پوتوں کو بسایا جو انگریز ایجنٹ مشہور تھے۔ ریمنڈ ڈیوس جیسوں کو کانیگرم لایا گیا۔

واقعہ کے بعد ایک شہید کی بہن نے کہا تھا کہ سبھی کوڑ والوں کو پتہ تھا ۔ایک احسان کو پتہ نہیں تھا؟۔کوئی احسان اور کوئی رؤف کی بیوی کو جاسوس کہتا۔ مجھے یوسف شاہ کی بہن کا بتایا گیا اور کہا کہ اگر یہ پتہ چلا تو عورتوں کو اٹھاکر لیکر جائیںگے۔ میں نے بفضل تعالیٰ صبرکیا ۔مخبر، مجرم، کچھ غیرت ،کوئی حیا؟سوال اٹھتا ہے تو جواب آتاہے۔

واحد نے بتایاکہ ماموں کے بیٹے نے بائیکاٹ کا کہا تومیں کہا کہ تم پر 13افراد کے قتل کا دعویٰ ہے۔ واقعہ کے بعد عبدالرحیم نے کہا کہ کاروبار ختم کرنے کیلئے کہا تھا مگر جاری رکھیں۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ سمجھ نہیں آتی تھی کہ عبدالرؤف کے گھربیوی پرجاسوسی کا الزام کیوں؟۔

عبدالرحیم نے کہا کہ رات ساجد کے گھررہ کر اور صبح سویرے نکل جائیںگے۔ میں نے کہا کہ ماموں کے گھر جاتا ہوں۔ رات کو 11بجے کے بعد ایکٹیویٹیز شروع ہوئیں۔ پیر واحد نے اب بتایا کہ رات کو11 بجے ساجد کے گھر نعمان کو مشکوک فون آیا۔ سوال یہ ہے کہ وہاں یہ دعوت اتفاقی تھی یا منصوبہ بندی؟۔ مخالفت میں میٹنگ کا اعلان کرنے والاعبدالرؤف لالا پشاور کیسے پہنچ گیا؟۔

اگر مجھے عبد الرحیم ساجد کے گھر کوڑ میں پہنچادیتا اور وہاں پر یہ منصوبہ مجھے اٹھانے کا تھاتو کامیابی کا سہرا کس کے سر جاتا؟۔ واقعہ پرکچھ کو افسوس اسلئے تھا کہ میں بچا کیوں ؟۔ عورتیں نمایاں تھیں، کچھ مردبھی افسردہ تھے۔ واقعہ پر یا میرے بچنے پر؟۔ 3کروڑ روپے کا منصوبہ بتاگیاتھا؟۔ جو شاید کامیابی پر پھر نہیں ملے۔ واللہ اعلم مگر کاروبار کا خاتمہ بعض کیلئے محرومی تھی۔ مفاد کیلئے استعمال ہونے والوں کی درجہ بہ درجہ مختلف اقسام ہیں۔ہاہا ہا…..

ہماری خالہ کا انتقال 2000میں ہوا۔ جو محرومی اور تمام واقعات کی گواہ تھی۔ تاریخ 1870ء سے 1970 اور آج تک سامنے ہے۔ گل امین کو 1960ء کی دہائی میں مظفر شاہ کی اولاد کو 1970ء کے بعد مظالم کا نشانہ بنایا گیا۔مجرموں کو اللہ نے اس واقعہ سے بے نقاب کیا۔ اور آئندہ چھپے مجرم بھی کھل جائیں گے ۔ انشاء اللہ العزیز

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

امام مہدی کا بھائی

اخو الامام المھدی

السلام علیکم ۔میں ہوں تامر صبری ۔صاحب خواب امام مہدی کو2001ء سے خوابوں میں دیکھتاہے ۔ وہ کہتا ہے کہ یہ پہلی بار تھا کہ ” میں نے دیکھاکہ نبی ۖ اور مہدی دونوںہیں تو مجھے خوف محسوس ہوا یا پھرمجھے یوں لگا کہ کوئی بہت بڑا واقعہ ہونے والا ہے”۔ اس خواب میں مہدی کا بھائی شہید دکھایا گیا ۔ممکن کسی جنگ یا فوجی کاروائی میں ۔ اگر آپ کو خواب کی بہتر تعبیر معلوم ہو تو شیئرکریں ۔

النبی ۖ اور مہدی کے بارے ایک خواب
میں نے مہدی کو بیٹھے ہوئے دیکھا اورگویا وہ اندر سے تکلیف میں تھا،یہ کتنی عجیب بات ہے

بیشک میں نے پہلی بارمحسو س کیا کہ مہدی جس حال میں ہے کہ وہ خوف زدہ تھا یا پھر کوئی بہت بڑا واقعہ عنقریب رونما ہونے والا تھا۔یا پھر وہ کسی سے بھی بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اور یہ ہے کہ بیشک مہدی نور سے تھا اور اسکے گرد رات یا اندھیرا تھا۔ گویا وہ کوئی چیز اپنے اندر چھپا رہا ہو، جو اسے عمر بھر غمگین رکھتی ہو۔خدا کی عزت کی قسم! ظاہر ہوئی اسکے سرکے اُوپر نبی کریم ۖ کی موجود گی اور نور آپ ۖ سے پھیل رہا تھالیکن نبیۖ کی نظرمیں کوئی غصہ یا کوئی غم لگ رہا تھا۔اللہ بہتر جانتا ہے ،نبیۖ نے مہدی سے فرمایا :”کیا تم نے سمجھا کہ میں اس کا حق چھوڑ دوں؟” پس مقصد مہدی کا بھائی تھا جو مظلوم قتل ہوا تھا۔ پھر مہدی کے چہرے پر اسکے بھائی کی تصویر نمودار ہوئی ۔ایک جوانمرد نہایت خوبصورت،

عظیم جسم والا، سفید رنگت والااوراس کی پشت پر ختم نبوت ۖ کا فیض تھا۔ اللہ کی قسم!جو میں نے دیکھا۔پس اس وقت مہدی رونے والا تھااگر نبی ۖ کی موجودگی میںوہ خود کو نہ سنبھالتا۔ پھر مہدی نے نبی سے عرض کیا: ”آپ سب سے زیادہ رحم کرنے والے ہیں تمام جہانوں پر”! نبی ۖ نے فرمایا: ”اور تم اللہ کی نصرت اور فتح ہو”۔تو یہ خواب ختم ہوا۔ مگرابھی تک مہدی خاموش تھا۔ اور نہیں جانتا تھا کہ اللہ بہت زیادہ غضبناک ہے ، اس جوانمردکے قتل پر اہلِ بیت میں سے تھا، توپس مجھے یہ آیتِ کریمہ یاد آئی: بسم اللہ الرحمن الرحیم” اور مت قتل کرو اس نفس کوجس کی اللہ نے حرمت رکھی ہے مگر حق کیساتھ۔ اور جو مظلوم قتل کیاجائے تو ہم نے اسکے ولی کیلئے بدلہ لینے کا اختیار رکھا ہے۔ پس وہ قتل وغارتگری میں حد سے نہ بڑھے، یقینا اس کی مددہو گئی ہے”۔ (الاسرائ:33)

اللہ عظیم نے سچ فرمایا۔یہ خواب معراج کی رات کو دیکھا گیا تھا۔ مجھے یہ آیت بھی یاد آئی:” اور اپنے پاس سے اختیارمیرابنادے مددگار۔(سورہ الاسراء آیت:80)

اور اللہ تعالی کا یہ فرمان بھی:”وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے بجھا دیں،لیکن اللہ اپنے نور کو مکمل کئے بغیر نہیں رہے گااوراگرچہ کافروں کو ناپسند ہو۔(التوبہ:32)
وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کرے، چاہے مشرکوں کو ناگوار گزرے”۔(سور التوبہ، آیت:33)

النبیۖ والمہدی رؤیا
رأیت المہدی جالس وانہ یتلم من الداخل یاالعجیب!

انی شعرت لاول مرة ان فیہا المہدی بان خائف او ان ہنا شی ء عظیم سیحدث اوا نہ لا یرید ان یتحدث مع احد ان المہدی من نور وحولہ اللیل او الظلام،ا نہ یخفی شیء بداخلہ یحزنہ طوال عمرہ وعز اللہ ظہر من فوق رأسہ حضر النبی وان النور یشع منہ ولکن ان نظرتہ تدل عل الغضب او الحزن اللہ اعلم وقال للمہدی احسبت ان اترک حقہ فان یقصد اخو المہدی الذی قتل مظلوما فظہر فی وجہ المہدی صور اخیہ شاب فی غایة الجمال عظیم البنی ابیض جدا وفی ظہرہ ختم النبوة واللہ ہذا ما شاہدتہ،فاذا المہدی یبقی لولا ان تمال نفسہ فی حضر النبی فقال المہدی للنبی انت ارحم للعالمین فقال النبی للمہدی وانت نصر اللہ والفتح وانتہت الرؤیا وما زال المہدی صامت ولن یعلم ان اللہ قد غضب غضب شدید لقتل ہذا الشاب من اہل البیت فتذکرت ھذہ الآیة الکریمة بسم اللہ الرحمن الرحیم ولا تقتلوا النفس التِی حرم اللہ ِالا بِالحقِ ومن قتِل مظلوماً فقد جعلنا لِولِیِہِ سلطاناً فلا یسرِف فِی القتل انہ کان منصورًا( الاسراء :33 )

صدق اللہ العظیم الرویا فی لیلةالاسرائ۔وتذکرت ایضًا الآیة: واجعل لِی مِن لدنک سلطٰاناً نصِیرا(الاسراء الآیة80)

وقولہ تعالیٰ: یرِیدون ان یطفِئوا نور اللہِ باِفواہِہِم ویابی اللہ الا ان یتم نورہ ولوکرِہ الکٰفرون(سورة التوبہ:32)

ہو الذِی ارسل رسولہ بِالہدٰی ودِینِ الحقِ لِیظہِرہ علی الدِینِ کلِہِ ولو کرِہ المشرکِون (سورة التوبہ:33)

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

شاہ لطیف کون تھا؟… دنیا کا پہلا فیمینسٹ شاعر

آج اس نے… پوچھا
شاہ لطیف… کون تھا؟

میں نے کہا:دنیا کا پہلا فیمینسٹ شاعر!

اس نے پوچھا:کس طرح…؟
میں نے کہا…اس طرح کہ :

وہ جانتا تھا کہ عورت کیا چاہتی ہے؟

اس سوال کا جواب… ارسطو بھی… نہ …دے پایا
اس لیے… علامہ اقبال نے کہا تھا:

ہزار بار حکیموں نے اس کو سلجھایا
پھر بھی یہ مسئلہ زن رہا وہیں کا وہیں
دنیا کے سارے دانشور اور شاعر کہتے رہے کہ

عورت ایک مسئلہ ہے

اس حقیقت کا ادراک… صرف لطیف کو تھا کہ
عورت مسئلہ نہیں…عورت محبت ہے!
مگر وہ محبت نہیں …جو مرد کرتا ہے!

مرد کے لئے… محبت جسم ہے
عورت کے لئے …محبت جذبہ ہے

مرد کی محبت…جسم کا جال ہے
عورت کی محبت… روح کی آزادی ہے
مرد کی محبت مقابلہ ہے ،عورت کی محبت عاجزی ہے
مرد کی محبت پل بھر، عورت کی محبت پوری زندگی ہے
مرد کی محبت افسانہ …عورت کی محبت حقیقت ہے!

سارے شعرا ء شیکسپئر سے لیکر شیلے تک
اور ہومر سے… لیکر ہم تم تک

سب یہ سمجھتے رہے کہ عورت… معشوق ہے
صرف شاہ …کو معلوم تھا کہ عورت… عاشق ہے

اس لیے …شاہ لطیف نے لکھا:
عورت …عشق کی… استاد ہے

سب سوچتے رہے کہ آخر عورت کیا چاہتی ہے؟

تخت؛ بخت اور جسم سخت؟…شاہ عبدالطیف کو علم تھا کہ عورت کو محبت چاہیے …نرم و نازک …گرم و گداز …جسم سے ماورا…جنس سے آزاد

مرد …جسم کے… جنگل میں
بھٹکتا ہوا ایک… بھوکا درندہ ہے

عورت روح کے چمن میں
اڑتی ہوئی… تتلی ہے
جو پیار کی پیاسی ہے

مرد کے لیے… محبت بھوک
اور عورت کے لیے… پیار
ایک… پیاس ہے!

صرف لطیف جانتا تھا

عورت کے ہونٹ ساحل ہیں
اور اس کا وجود ایک سمندر ہے

آنکھوں سے بہتے ہوئے…
اشکوں جیسا سمندر …جو نمکین بھی ہے…
…اور حسین بھی ہے!!…جس میں تلاطم ہے…
.جس میں غم ہے …جس میں رنج نہیں…

صرف اور صرف الم ہے

بزم سخن …پرنس ارمان۔ اسٹوڈنٹ کراچی یونیورسٹی

نوٹ: عورت کے حقوق کے حوالے سے شمارہ مئی صفحہ 4میں درج ذیل عنوان کے تحت یہ آرٹیکل پڑھیں۔

”اور آپ سے عورتوں کا فتویٰ پوچھتے ہیں کہہ دو کہ اللہ انکا فتویٰ دیتاہے اورجو تم پر قرآن پڑھاجاتا ہے ”

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

ہندو مذہب کی کتب میں مہدی کا نام ”برہمن کلا”

آپ کو شرم نہیں آتی کہ مسلم ہندو کے بارے میں کاہے نیوز بنارہے ہو؟

بھارتی محمد کیف بہاری بچہ جس کی دھوم ہے

بولو:پاکستان زندہ باد۔
محمد کیف :زندہ باد۔
شرم نہیں آتی تمہیں۔
کیف کیوں شرم آئے گی۔
بھارتی صحافی: پاکستان کو ختم نہیں کرنا چاہئے؟
کیف: نہیں کرنا چاہیے۔
صحافی: بھارت دیش زندہ باد ہے نہیں ہے؟
محمد کیف: ہے۔
بھارتی صحافی : پاکستان زندہ باد ہے یا نہیں؟۔
محمد کیف: ہے۔
آپ کا نام کیا ہے؟۔
جواب: کیف۔
بھارتی صحافی : پورا نام؟
جواب: محمد کیف۔
کہاں سے ہیں آپ؟۔
میں بہار سے ہوں؟۔

صحافی: آپ کو تھوڑی سی بھی شرم نہیں آرہی کہ بھارت دیش میں رہنے کے باوجود آپ پاکستان کا سمرتن کررہے ہو کہ کیسے ختم ہوگا پاکستان؟۔

محمد کیف: اچھا آپ یہ نیوز بنارہے ہو تو آپ کو شرم نہیں آرہی کہ کاہے نیوز بنارہے ہو؟۔ آپ کو شرم نہیں آرہی کہ نیوز بناکر سب کو پھیلارہے ہو ہندو مسلم کے بارے میں؟۔ ہندوستان کا سمرتن کیوں کرنا ہے پہلے آپ مجھے جواب دیجئے۔ اس کے بعد ہم کچھ بولیں گے۔ تم جو بول رہے ہو وہاں بھی آدمی ہیں یہاں بھی آدمی ہیں۔ وہاں بھی مسلم ہیں وہاں بھی ہندو ہیں یہاں بھی ہندو ہیں اور یہاں بھی مسلم ہیں۔سب تو ہیں انسان تو کیوں سب کو ختم کررہے ہو؟۔ پہلے یہ بتاؤ؟۔ سب کو زندگی جینے کا حق ہے تو کیوں ختم کرنا ہے؟۔

بھارتی صحافی :آپ پاکستان کا سمرتن کرتے ہیں؟۔
محمد کیف: آپ پاکستان جاؤ گے کہیں آپ کو ختم کردیا توسوگئے کیا؟۔

بھارتی صحافی: آپ پاکستان کا سمرتن کرتے ہیں؟۔
محمد کیف بہاری: ہاں کرتے ہیں۔
٭٭

تبصرہ نوشتہ دیوار : جسٹس مارکنڈے نے کہا کہ
سرحد پر بہت تناؤ ہے کیا ذرا پتہ کرو کہیں چناؤ ہے کیا

رحمان بونیری :” مولانا بجلی گھر نے کہا کہ پہلے پختون عورتیں چادر نہیں پہنتی تھیں منہ پھیر تی یا مرد منہ پھیرتے۔ عورتوں نے منہ پھیرا، ایک نے ترچھی نظر سے دیکھ کر کہا کہ یہ تو مولانا بجلی گھر ہے ۔ مجھ سے پردہ کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔ دوسری بات مولانا بجلی گھر نے یہ کی ہے کہ 100دیوث کا ایک خڑوس بنتا ہے اور 100خڑوس کا ایک چڑوس۔ اب بھارتی عوام میں نریندرمودی چڑوس بن گیاہے”۔

رحمان بونیری نے بتایا کہ جب اس کو خط پڑھنا آیا تو پڑوسی لڑکوں نے پٹائی لگائی کہ آئندہ پڑھ لیا تو خیرنہیں اسلئے کہ ہمیں گھروں پر ڈانٹ پڑتی ہے۔
پاک فوج کو ہتھیار ڈالنے پر طعنہ دینا معمول تھا مگر حافظ سیدعاصم منیر آرمی چیف کا دنیا بھرمیں چرچا رہا۔ کسی نے کہا کہ چاند ہے …کسی نے کہا چہرہ تیرا۔ کسی انسان کی شکست پر اس حدتک خوشی کہ اسکے ہم شر سے بچ گئے ،ٹھیک ہے لیکن صلح ہونی چاہیے۔
٭٭

عربی چینل Islam Fsm2 نے تین سال قبل ہندو مذہب کے حوالے سے یہ خوشخبری دی تھی۔

بشارات الادیان و الکتب السماویة
بظھور المنجی
تمام ادیان اور آسمانی کتب کی بشارات
نجات دہندہ کے ظہور کے حوالہ سے

کتب الھندوس

ہندو مذہب کی کتب میں مہدی کا نام ”برہمن کلا”

کتاب ما للھند
١۔ص ٢٢١، البشارة بظھور المنجی،

”فی أواخر المرحلة الرابعة من اھل الارض یشیع فیھا الفساد، یساقون الی الکفر، یرتکبون المعاصی الجنسیة ویحکمھم الاراذل، ویکون الناس فی ذٰلک الزمان کالذئب یاکل بعضھم بعضاً، ویغیر بعضھم بعضاً، ویفسد الکھنة ورجال الدین، والسراق عندھم حق، واھل التقویٰ والزھاد محقرون۔۔۔ ففی ذٰلک الزمان یظھر برھمن کلا۔ أی الرجل الشجاع والمؤمن۔ ویطھر الارض بسیفہ من المفسدین والخبثاء ویحفظ الطیبین الطاھرین۔ (کتاب وشن جوک)

ترجمہ:”چوتھے مرحلے کے آخر میں فساد پھیلے گا ۔ لوگوں کو کفر کی طرف دھکیلا جائے گا ، جبری جنسی زنا کے مرتکب ہوں گے اور رذیل لوگ حکومت کرینگے اور لوگ اس دور میں بھیڑئے کی طرح ہونگے ایک دوسرے کو کھائیں گے اورایک دوسرے کو بدلیں گے کہانت اور مذہبی لوگ فساد کرینگے چور انکے ہاں حق اور تقویٰ دار زاہد حقیر ہونگے۔تو اس دور میں برہمن کلاں یعنی بہادر اور مؤمن شخص ظاہر ہوگا جو اپنی تلوار سے زمین کو مفسدوں اور خبیثوں سے پاک کریگا اور پاکیزہ و صاف ستھرے لوگوں کو تحفظ فراہم کریگا”۔ دیگر میں مذاہب کا بھی حوالہ ہے۔

رسول اللہ ۖ کے چچا امیر حمزہ کا کلیجہ ابوسفیان کی بیوی ہند نے چبایا تو رسولۖکو بڑا طیش آیا لیکن پھر ابوسفیان کو عزت دی۔ مسلمان اور ہندو اپنی اصل کی طرف لوٹیںگے اور ایک عظیم سلطنت قائم کرینگے جس سے آسمان زمین والے خوش ہونگے۔ یہی اصل جہاد ہند ہے۔ ہندومت نے چوتھے دور کا آخر اور اسلام نے بھی نبوت ورحمت، خلافت ، بادشاہت ، جبری اقتدار کا آخریہی قرار دیا۔ جس سے زمیں و آسمان والے دونوں خوش ہوں گے۔

جیسے جدید بنیادی تعلیم ہو تو مختلف شعبوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل ہوسکتی ہے ویسے دین قرآن وسنت اور اصول فقہ کی بنیادی تعلیم کے بغیر شریعت کی تفہیم ممکن نہیںہے ۔ایک مثال سیدمودودی کی ہے اور اس جیسے اب سینکڑوں لوگ ”بازار حسن” میںاپنا سودا بیچتے ہیں۔ ڈاکٹر اسرار احمد نے مجھے اپنی شوریٰ سے ملایا تو میں نے کچھ علمی نکات اٹھائے تاکہ وہ جو خود کو عقل کل اور نابغۂ روزگار عالم سمجھتا ہے دماغ درست ہوجائے۔ ڈاکٹر اسرار صاحب میری باتوں کو سن کر دھنگ رہ گئے اور پھٹی آنکھوں سے کہا کہ میرا مقصد یہ تھا کہ آپ کچھ وعظ ونصیحت کریں۔ ہم علماء نہیں اور نہ ہم اس معیار کا علم سمجھ سکتے ہیں۔
کچھ صحافی جاہل درست بات کو اُلٹا کردیتے ہیں۔ جنرل عاصم منیر پر BBCارود نے مضمون لکھا کہ یہ لڑائی چاہتا ہے۔ جب پہلگام حملے کا بھارت کو ثبوت نہیں ملا تو پھر بھی حملہ کردیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے واضح کیا کہ ہم جنگ نہیں چاہتے۔ پھر بھی پیچھا نہ چھوڑا تو مجبور ہوکر جواب دیا۔ جس سے مودی کا غرور خاک میں مل گیا۔ پاکستان کے کہنے پر جنگ روکنے کی کوشش کسی نے نہیں کی،مودی نے پکارا تو امریکہ فوراً میدان میں آیا اور نادان دوست کہتے ہیں کہ پاکستان ایٹمی حملہ کرنے والا تھا اسلئے جنگ بندکی گئی۔حالانکہ ایٹم بم بڑی دہشتگردی ہے شرافت پر بھی کیا پاگل اور جارح ہم ہی ٹھہرگئے؟۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv