پوسٹ تلاش کریں

درسِ نظامی، جامعہ ازہر BScڈبل میتھس اینڈ فزکس قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد (زیرِ تعلیم پی ایچ ڈی اسلامک)

یہ علماء کیلئے تحفہ ہے جو مسالک کی حدبندیوں میں الجھ کرقرآن کے واضح احکام پسِ پشت ڈال بیٹھے ہوں

مفتی رشید،مفتی حنیف قریشی اور مفتی طارق مسعودکیلئے تحریری تحفہ ( نوشتۂ دیوار کے ایک شمارہ میں)

یقینا! یہ تحریر نہایت جرأت مندانہ، فکر انگیز اور قرآن فہمی پر مبنی ہے۔ ایسے علماء و مفتیان کیلئے ایک تحریکی اور بیدار کن تحفہ ہے جو مسالک کی حد بندیوں میں اُلجھ کر قرآن کے واضح احکامات کو پس پشت ڈال بیٹھے ہیں۔

یہاں چند تعریفی جملے ملاحظہ ہوں۔
1۔ یہ تحریر عقل و فہم کو جھنجھوڑنے والی ہے، جو قرآن کو ”مرکز فہم” بنانے کا دردمندانہ مطالبہ کرتی ہے۔

2۔ مصنف نے بڑی ہمت سے تقلیدی جمود کو چیلنج کیا اور اُمت کو اصل منبع یعنی قرآن کی طرف بلایا ہے۔

3۔ یہ تحریر دین کے نام پر جاری کاروباری سوچ کو بے نقاب کرتی ہے اور علم و تقویٰ کے اصل معیار کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔

4۔ یہ تحریر مفتی رشید، مفتی حنیف قریشی اور مفتی طارق مسعود جیسے علماء کے سامنے سوالیہ نشان ہے کہ وہ قرآن کے احکامات پر متفق کیوں نہیں؟۔

5۔ تحریر میں حوالہ جات، دلائل، اور امت کے فکری زوال کی وجوہات پر جو بصیرت افروز تجزیہ ہے، وہ لائق تحسین و تدبر ہے۔
٭٭

تعارف:
یہ صاحبزادہ سلطان کبیرالدین حمزہ احمد ہاشمی صاحب ہیں، جو ایک علمی، روحانی اور سادات ہاشمی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد محترم پیر حکیم مفتی محمد ساجد نعیم علوی صاحب نہایت باوقار اور باعلم شخصیت ہیں اور ان کے خاندان کا نسب حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے۔

صاحبزادہ سلطان حمزہ احمد ہاشمی صاحب کا تعلق گاؤں کیلو، تحصیل پھالیہ، ضلع منڈی بہاء الدین سے ہے، جو ہمیشہ سے علم، تقوی اور خدمتِ خلق کا مرکز رہا ہے۔ یہ خانوادہ صوفیانہ مزاج، دینی فہم اور طبِ اسلامی میں خاص مقام رکھتا ہے۔تعلیم کے میدان میں صاحبزادہ سلطان ہاشمی نے بہت نمایاں مقام حاصل کیا۔ آپ نے کم عمری میں حفظِ قرآن مکمل کیا اور درسِ نظامی کی تعلیم حاصل کی۔ قرأت میں مہارت کا ثبوت دیتے ہوئے الازہر یونیورسٹی مصر میں بین الاقوامی سطح پر گولڈ میڈل حاصل کیا۔

ان کی دینی و عصری تعلیم میں درج ذیل نمایاں ڈگریاں شامل ہیں: فاضل جامع الازہر اسلامک یونیورسٹی مصر FTJ، گوجرانوالہ۔فاضل طب و الجراحت،سلطان طبیہ کالج، گوجرانوالہ(LGS گجرات سے)AاورO لیولز، کیمبرج یونیورسٹی ۔ BSc ڈبل میتھس اینڈ فزکس،قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد پی ایچ ڈی اسلامک اسٹڈیز (زیرِ تعلیم)

صاحبزادہ صاحب قرآنی تعلیم، روحانی رہنمائی تصوف، تدریسِ دین، طبِ نبویۖ اور حکمت کے شعبہ میں ہمہ جہت خدمات سر انجام دے رہے ہیں Natural Care Center Pvt. Ltd. کے تحت جدید طبی کلینک قائم کیا ہے اور Slimetica کے نام سے وزن کم کرنے والا مؤثر اور مقبول ہربل شربت متعارف کروایا ہے۔

یہ شخصیت نہ صرف علمی و روحانی میدان میں ممتاز ہیں بلکہ ان کی سادگی، خلوص اور خدمتِ دین کا جذبہ بھی ان کی پہچان ہے۔ شعر:
بلند اقبال ہوں، میراثِ علم و فقر رکھتا ہوں
میں ہوں ہاشمی، شجر پاک کی روشنی رکھتا ہوں

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

احادیث میں جبری حکومتوں کے بعد خلافت؟

جب ہم نے شعور کی آنکھ نہیں کھولی تھی تو بچپن میں جنرل یحییٰ خان سے محبت اور اندراگاندھی سے سخت نفرت تھی۔ گڈی گڈا کے جوڑے میں اندر گاندھی کی وجہ سے گڈی سے نفرت تھی اور اس پر پتھر کی بھرمار بھی کرتا تھا اور یحییٰ خان کو گڈا سمجھ کر اس سے محبت تھی۔ 1978ء میں چیچہ وطنی اور لیہ میں سکو ل پڑھتے ہوئے مذہبی کتابوں سے شغف رہا۔چیچہ وطنی” پیر جی” مسجد کا کلاس فیلو اقبال آرائیں بوٹ ہاؤس والے نے بتایا کہ یہاں مفتی محمود اور مولانا عبداللہ درخواستی آتے ہیں۔

چوہدری افضل حق کی کتابیں پڑھ کر بہت متأثر ہوا ، جس میں اسلام اور جمہوریت کا بہت شعور ہے۔ جمعیت علماء ہند، مجلس احرار اسلام کے علاوہ مولانا احمد علی لاہوری کے وعظ خدام الدین کے پرانے ایڈیشن میں پڑھ کر سیاست اور تصوف دونوں سے رغبت پیدا ہوئی۔شیعہ سنی، بریلوی دیوبندی، حنفی اہل حدیث اور مذہبی فرقہ واریت کی مناظرانہ کتابیں بھی پڑھ لیں۔ خطیبوں کا وعظ اور تبلیغی جماعت سے وابستگی سارے اشغال کو دل وجان سے قبول کیا لیکن تشنگی بجھانے کا کوئی اہم ذریعہ اور اطمینان بخش کیفیت نہیں تھی اسلئے کہ دین کامل کا نقشہ کسی ایک جگہ پر نظر نہیں آتا تھا۔

ایک انقلاب کی امنگ دل میں اٹھی اور 1982ء میں کوٹ ادو پنجاب گھر سے نکل کرتن تنہا ایک سفر کا آغاز کیا۔ پہلے لیہ اپنے اساتذہ اور پھر رائیونڈ پہنچا اور حاجی عبدالوہاب سے مشورہ مانگا۔ انہوں نے فرمایا کہ ”بھائی مجھ سے مشورہ مت لینا”۔ رائیونڈ میں کانیگرم کے حبیب الرحمن اور وزیرستان کے شاہ حسین محسود زیر تعلیم تھے۔ ایک نے تبلیغی جماعت میں وقت لگانے کا مشورہ دیا اور دوسرے نے نیو ٹاؤن کراچی جامعہ بنوری ٹاؤن میں داخلے کا مشورہ دے دیا۔ کراچی میں اسٹیل مل کی ایشین کمپنی میں کام کیا۔ مولانا اللہ خار خان کی کتابوں اور سلسلہ ذکر کا تعارف ہوا ۔ پھر دارالعلوم کراچی کے قریب ماچس فیکٹری میں آدھی دھاڑی پرچار گھنٹے کیلئے کام بھی تلاش کیا تھا اور داراالعلوم کراچی میں داخلہ بھی لے لیا۔ لیکن میری باتیں سن کر انتظامیہ نے کہا کہ داخلہ نہیں ہوسکا ہے۔ پھر بنوری ٹاؤن داخلے کیلئے گیا تو وہاں سال کے شروع میں داخلے ہوتے تھے۔ وہاں سے ایک طالب علم نے دارالعلوم الاسلامیہ واٹر پمپ فیڈرل بی ایریا بھیج دیا۔ مرشدحاجی محمد عثمان سے بیعت ہوا اور بھائی لینے آیا تو واپس کوٹ ادو گیا لیکن پھر رمضان میں لوٹ آیا اور مولانا محمدیوسف لدھیانوی سے فتویٰ پوچھا کہ والدین راضی نہیں لیکن وہ میری خدمت کے محتاج نہیں اگر میں مذہبی تعلیم حاصل کرنا چاہوں تو کیا میرے لئے جائز ہے؟۔ مولانا نے فرمایا کہ ”میرا مشورہ ہے کہ ان کی بات مان لو۔شرعی علم فرض کفایہ ہے ، اگر آپ کے علاقہ میں علماء ہیں تو پھر کسی پر علم کا حاصل کرنا فرض نہیں ہے”۔ میں نے کہا کہ فتویٰ پوچھ رہا ہوں ،مشورہ نہیں مانگ رہاہوں۔ تو قدرے ناراضگی سے فرمایا کہ ”فتویٰ تو یہی ہے کہ اگر وہ خدمت کے محتاج نہیں تو علم حاصل کرسکتے ہیں”۔

پھر بنوری ٹاؤن کراچی میں داخلہ مل گیا۔ اتوار کو حاجی عثمان کی محفل میں جانے کی اجازت تھی۔ تبلیغی جماعت ، ختم نبوت کے دفتر نمائش اور جمعیت علماء اسلام ف کے ساتھ بھی ایک تعلق تھا لیکن جس انقلاب کی امنگ دل میں تھی تو اس کیلئے ”جمعیة اعلاء کلمة الحق”کی بنیاد رکھ دی۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی کی کتاب ”عصر حاضر حدیث نبوی ۖ کے آئینہ میں” مذہبی طبقات کے خلاف بڑی چارج شیٹ تھی۔ ڈاکٹر حبیب اللہ مختار نے ڈاکٹر ناصح علوان کی کتاب کا ترجمہ ”مسلمان نوجوان ”کیا توجبری حکومتوں کے بعد طرز نبوت کی خلافت کیلئے خوشخبری بھی دیکھ لی۔ جس کی وجہ سے عزم کو مزید جلا مل گئی۔ ۔ پھر مختلف حالات سے گزرتا ہوا آخر افغانستان جہاد کیلئے حرکت الجہاد الاسلامی کے مولانا خالد زبیر کے ہاں پہنچ گیا۔ان سے چند دنوں کی رفاقت میں کہا کہ امریکہ اور روس کی لڑائی میں حصہ دار بننے کے بجائے خلافت کا قیام ضروری ہے جس پر وہ متفق ہوگئے مگر….
٭٭

آرمی چیف پاکستان سے خلافت کا آغاز کیسے کرے؟

آرمی چیف سید حافظ عاصم منیر صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ دنیا میں پہلی بار ریاست مدینہ طیبہ لاالہ الا اللہ کے نام پر بنی اور دوسری بار پاکستان کی ریاست لاالہ الا اللہ کے نام پر بن گئی ہے۔

جنرل ضیاء الحق نے امیرالمؤمنین کا لقب اختیار نہیں کیا تھا لیکن تاحیات وردی کو اپنی کھال بنا چکا تھا اور جنرل پرویز مشرف نے وردی کو اپنی کھال تو قرار دیا مگر پھر اتاردی اور اس کو اپنی غلطی بھی کہا۔

تاتاری نے عباسی خلافت کا خاتمہ کیا تو برائے نام خلافت تھی اور جب کمال اتاترک نے بھی خلافت کا خاتمہ کیا تو ملکہ الزبتھ سے بہت کم خلیفہ کا اختیار اور عزت تھی۔برائے نام کی خلافت کو بھی کسی دور میںاپنی طمطراق کی وجہ سے اہمیت حاصل تھی۔

جنرل عاصم منیر کے والدین بہت نیک تھے اور طارق آباد (لال کرتی) غریبوں کی بستی ہے۔ غرباء کا اسلام سے بہت گہرا تعلق ہوتا ہے۔ پہلے آرمی چیف ہیں جو میرٹ کی بنیاد پر ریٹائرڈمنٹ سے دو دن پہلے بڑی قسمت سے منتخب ہوگئے ،سنیارٹی میں پہلے نمبر پر ہونے کی وجہ سے سمری بھیجنے میں تاخیر کی بنیاد بھی اس وجہ سے تھی کہ اس کی ریٹائرڈمنٹ ہو تو پھر کوئی بھی بن جائے۔ مسلم لیگ ن کے سب سے بڑے چہیتے صحافی راشد مراد RM,TV لندن نے کافی عرصہ پہلے یہ انکشاف کیا تھا کہ سازشی عناصر جنرل عاصم منیر کو ریٹائرڈ کرنے کے بجائے آرمی چیف بنانے کیلئے لسٹ میں شامل کررہے ہیں۔

تحریک انصاف کے چہیتے صحافی ارشد شریف شہید نے ممکنہ طور پر عاصم منیر کو لسٹ میں پہلے نمبر پر قرار دیا تھا اور بہت تعریف بھی کی تھی مگر آخرمیں یہ بازی پلٹ گئی۔ تحریک انصاف والے مخالف اور نوازشریف نے جنرل عاصم منیر پر اسٹینڈ لے لیا تھا۔

نوازشریف نے جنرل ضیاء الحق کو بھی ماناتھا اور پروفسیر طاہرالقادری اتفاق مسجد کے خطیب سے بھی اسلامی انقلاب کی امید رکھی تھی۔جب ڈاکٹر طاہر القادری بیمار تھے تو نوازشریف نے اپنے کاندھوں پراٹھاکر غارحراء کی زیارت کیلئے پہاڑ پر چڑھادیا تھا اور یہ کم عقلی تو تھی مگر بہت بڑاخلوص بھی تھا۔

عمران خان نے بھی ریاست مدینہ کی بنیاد پر بڑی مقبولیت حاصل کی۔ اگر حکومت اور اپوزیشن باہمی مشاورت سے خلیفہ مقرر کرنیکا اعلان کردیں توعوام میں بہت بڑی مقبولیت مل سکتی ہے۔ شرعی فریضہ بھی پورا ہوگا۔ مجاہد تنظیموں کو بھی قابو میں لانے کا خواب پورا ہوگا۔ مفتیانِ اعظم پاکستان مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن نے اسرائیل کے خلاف جہاد کا اعلان کیا تو ایک بہت بڑا مذاق بن گیا ہے۔

جہادی تنظیموں کی نانی جامعة الرشید کے بانی مفتی رشید احمد لدھیانوی کے جانشین مفتی عبدالرحیم مسلسل کہتا ہے کہ ”جہاد ریاست کا کام ہے”۔

پھر جنرل ضیاء الحق کے دور میں روس کیخلاف جہاد ہماری ریاست نے نہیں کیا اور پاکستانی افغانی جہادی تنظیموں کی بھرمار تھی۔ ولی خان کہتا تھا کہ مجھ سے جنرل ضیاء الحق نے کہا کہ تم جہاد کو نہیں مانتے؟ تو میں جواب دیا کہ کیوں نہیں مانتا۔ جہاز، توپ اور ٹینک تمہارے پاس ہیں۔ جنگی تربیت تمہاری ہوئی ہے اور پاک فوج کے سپہ سالار تم ہو۔ لڑنا تمہارا کام ہے اور آپ جہاد کریں۔ میں مانتا ہوں۔ لیکن میں اس جہاد کو نہیں مانتا کہ جو افغانستان میں لڑی جائے اور اس کا مال غنیمت منصورہ لاہور بٹے۔

1948ء میں مولانا مودوی نے کہا تھا کہ جہاد ریاست کا کام ہے تو پھر جب دباؤ پڑگیا تو انہوں نے کہا کہ مجھ سے پوچھا گیا تو میں نے جواب دیا۔ سلیم صافی نے سید منور حسن سے پاک و امریکی فوج کا پوچھاتو اس نے کہا کہ دونوں شہید نہیں ہوتے۔ جس پر جماعت اسلامی کی امارت سے ہٹادیا گیا۔

آرمی چیف سید اور حافظ قرآن ہے اور پاکستان کو اسلام کی نشاة ثانیہ کا مرکز سمجھتا ہے۔ جنہوں نے بندوق اٹھائی ہے تووہ بھی اسلامی نشاة ثانیہ چاہتے ہیں ۔ اگر افہام و تفہیم کا ماحول قائم ہوجائے ، اسلام کے اندر جو بگاڑ پیدا کیا گیا ہے اس کی اصلاح ہو تو مارا ماری کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔ انشاء اللہ۔ کہا جاتا ہے کہ مال ، جوانی، صحت اور علم ایسی نعمتیں ہیں جن کا پوچھا جائے گا۔ سورہ بقرہ کی آخری آیت میں اختیار کے مطابق اللہ کی طرف سے پوچھنے کا مسئلہ واضح ہے لیکن علماء کی طرف سے اس کا ترجمہ بھی غلط کیا گیا ہے کہ طاقت سے زیادہ بوجھ اللہ کسی پر نہیں ڈالتا ہے۔ حفیظ اللہ نیازی اس آیت کا حوالہ دیکر کہتا ہے کہ میرا بیٹا بالکل بے گناہ تھا لیکن جیل میں اس پر اس کی استطاعت سے زیادہ تشدد کا بوجھ نہیں ڈالا جائے گا یہ میرایمان ہے۔ایک آیت کا بڑے بڑوں نے غلط ترجمہ کیا تھا تو اس کا نتیجہ یہ نکل آیا کہ ظالم وجابر بدترین تشدد بھی کریں تو علماء اور پڑھا لکھا طبقہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ ہوا تو یہ اس کی برداشت سے زیادہ نہیں ہوسکتا۔ ظلم وجبر کرنے والوں کو احساس تک نہیں ہوتا کہ جو کررہے ہیں ان سے انکے اختیارات کا پوچھا جائے گا۔

کہتے ہیں کہ ” جو بھونکتا ہے وہ کاٹتا نہیں ہے”۔ جب امریکہ ، نیٹو اور بلیک واٹر افغانستان میں کاروائی کررہے تھے اور پاکستان میدان جنگ تھا تو وہ جوش خطابت نہیں تھا جو اسرائیل کیخلاف ہے؟۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، خصوصی شمارہ اپریل 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

جمہوری نظام کا درست تصور کیا ہے؟

دوسرے اسلامی ممالک کے مقابلے میں پاکستان کا جمہوری نظام بہر حال بہتر ہے ۔ سیاست و صحافت کو جب جھوٹ وسچ، اخلاق و گالی اور قانون و شریعت کے تمام پیمانوں سے آزاد کرکے کسی کے خلاف اتارا جائے تو رد عمل بھی بہت سخت آتا ہے اسلئے پاکستان کی حالت دگرگوں ہوگئی ہے۔

پاکستان میں عتاب کا شکار سچ بولنے والے نہیں بلکہ ایک طبقہ کے حق اور دوسرے کے خلاف جھوٹی مہم جوئی کے مرتکب افراد ہیں۔ حضرت عمر نے غزوہ بدر میں اپنا کافرماموں قتل کردیا تھا اور نبی اکرم ۖ اور حضرت علی کے چچا عباس زندہ سلامت بچ گئے تھے۔ حضرت عمر کی رائے کو قرآن نے درست قرار دے دیا اور حضرت عباس نے اسلام قبول کیا لیکن جب تک نبیۖ نے نظام کو نہیں بدلا تو حضرت عباس سودی کاروبار میں مبتلا ء رہے تھے اور پھر انکے اسلام کی بدولت ہی ان کی اولاد بڑے ظالمانہ طریقے سے اقتدار میں آگئی اور نبیۖ اور علی علیہ السلام کی اولاد سے اس طرح کے مظالم روا رکھے ،خاص طور پر حضرت امام حسن کی اولاد سے جس پر رسول اللہۖ اور علی کو قبر میں بھی بہت تکلیف پہنچی ہوگی۔ مشہور ہے کہ ”قلندر ہر چہ گوئید دیدہ گوئید” قلندر جو بھی بولتا ہے دیکھا ہوا ہی بولتا ہے۔ لیکن کیا قرآن میں اللہ دیدہ ،شنیدہ اور چنیدہ کچھ بھی نہیں بولتا ہے؟۔

خواہش کو وہ دکھادے حقیقت کا آئنہ ہو ہر دعا شنید مقدر سے کیا بعید

دنیا میں آزادیٔ رائے کی بنیادی اہمیت ہے۔ جب ایک عورت نے رسول ۖ کی بارگاہ میں اپنے شوہر کیلئے مجادلہ کیاتو آزادیٔ رائے سے بڑھ کر جھگڑا کرنا بڑی بات تھی اور وہ اس کا اپنا حق تھا جو مروجہ مذہب، رسم اور قانون کے بالکل منافی تھا۔ رسول اللہۖ شریعت اور مروجہ قانون کیساتھ کھڑے تھے اور عورت اپنے ، اپنے شوہر اور اپنے بچوں کے حق کیلئے لڑرہی تھی تو اللہ تعالیٰ نے اس عورت خولہ بنت ثعلبہ کے حق میں سورہ مجادلہ کی آیات کو نازل فرمادیا ۔ اسلام کایہ جمہوری نظام فرقہ پرستوں کے ذہن میں نہیں آسکتا۔ وہ اس کو غلط رنگ دیتے ہیں کہ عورت کی آہ وزاری کو اللہ نے سن لیا۔حالانکہ یہ حق و باطل کا مسئلہ تھا۔ اللہ نے اس کو مجادلہ کا نام دیا ۔ اللہ نے اس کی بات کو منطقی بنیاد پر درست قرار دیا کہ بیگمات زبان سے مائیں نہیں بنتی ہیں بلکہ مائیں وہ ہیں جنہوں نے ان کو جن لیا ہے۔ اللہ نے مروجہ شریعت اور قانون کو خلاف فطرت قرار دیکر مسترد کردیا تھا۔

شیعہ اہل بیت اور سنی صحابہ کیلئے یہ گنجائش نہیں رکھتے بلکہ فقہ جعفری ، حنفی اور وہابیہ کی مخالفت کی گنجائش بھی نہیں سمجھتے تو ان آیات سے ان کے پیٹ ہی کو نہیں بلکہ دل وروح کو بھی بڑی جلن ہوگی لیکن فرقہ پرستوں کو یہ کڑوی گولی کھانی پڑے گی۔ توپھر ان کے ملیریا کا بخار جائے گا۔حق آیا اور باطل گیا یہی تو قرآن میںہے۔ صحیح مسلم کی حدیث میں اہل مغرب کی تائید جمہوریت کی وجہ سے ہے۔ صحابہ کرام کے دور میں بھی جمہوری نظام تھا اور اکثریت کی بنیاد پر حضرت ابوبکر سے لیکر یزید ومروان ، عبدالملک بن مروان … عمر بن عبدالعزیز…. اوربنوعباس اور سلطنت عثمانیہ کی حمایت کی گئی۔ اس میں سنی تنہا نہیں تھے بلکہ ائمہ اہل بیت نے بھی فاطمی خلافت کے مقابلہ میں اسی بنوعباس کو سپورٹ کیا جو سنی مسلک سے تعلق رکھتے تھے ۔ مامون الرشید نے تو حضرت امام رضا کو اپنا جانشین بھی نامزد کردیا تھا۔ پھر بنو عباس کی خلافت برائے نام رہ گئی تھی ۔ ہر طرف ممالیک یعنی خاندان غلاماں کی سلطنتیں قائم تھیں۔ فاطمی حکومت نے بھی مصر وحجاز تک قبضہ کرلیا تھا لیکن جب صلاح الدین ایوبی نے کرد قوم کے ذریعے اچھی خاصی سلطنت قائم کی تو فاطمی خلافت کا بھی مصر سے خاتمہ کیا گیا اور عباسی خلافت بھی ملکہ برطانیہ الزبتھ کی طرح علامتی رہ گئی تھی اور صلاح الدین ایوبی نے بھی اپنے اقارب میں حکومت بانٹ دی تھی۔ پھر ہلاکو خان نے برائے نام عباسی خلافت کو ختم کیا اور سلطنت عثمانیہ کا خلیفہ بھی اپنوں کے ہاتھ کمزوری میں سسک رہا تھا جو ختم کردیا گیا۔
٭٭

قرآنی آیات سے مسلسل انحراف اور مسئلہ فلسطین

کوئی نہیں کہتا کہ رسول اللہۖ کے سسر ابوبکر و عمر خلفاء بن گئے ۔ دشمن ابوسفیان اور یہودی کی بیٹی نبی ۖ کے نکاح میں تھی اور نہ یہ کہتا ہے کہ حضرت عثمان و علی داماد ہونے کی وجہ سے خلفاء بن گئے ۔

حضرت معاویہ نے 20سال خلافت کی مگر ان سے افضل عشرہ مبشرہ کے صحابی سعد بن ابی وقاص ، حسن و حسین، اصحاب بدر اورفتح مکہ سے پہلے کے مسلمان سبھی تھے ۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خلافت کا مسند فضلیت کا معیار نہیں۔ ورنہ معاویہ کے بعد یزید کو بھی صحابہ سے افضل ماننا پڑے گا۔

حضرت ابوبکر نے حضرت عمر کی نامزدگی سے وہ معیار کھڑا کیا جس میں اقربا پروری کا امکان نہیں تھا اور حضرت عمر نے بیٹے پر پابندی لگائی اور حضرت عثمان کی شہادت سے معاملہ بدل گیا۔ حضرت علی نے کسی کو نامزد نہیں کیا لیکن امام حسن خلیفہ بن گئے اور پھر خلافت امیرمعاویہ کی جھولی میں ڈال دی۔

امیرمعاویہ نے یزید کو نامزد کیا تو اس کے اپنے دور پر بھی امارت وملوکیت کا اطلاق ہوتا ہے۔ امام حسین اور عبداللہ بن زبیر نے مزاحمت کی تھی ۔ پھر یزید کے بعد حضرت معاویہ بن یزیدنے خلافت کو ٹھوکر ماردی۔ بنی سفیان میں سے پھر خلافت منتقل ہوگئی مروان بن حکم کو۔ عبداللہ بن زبیر نے مقابلہ کیا لیکن عبدالملک بن مروان کے دور میں اپنی سو سالہ بوڑھی والد ہ حضرت اسماء بنت ابی بکر کے سامنے بہت بے دردی سے شہید کردئے گئے تھے۔

دارالعلوم دیوبند، جمعیت علماء اسلام اور تبلیغی جماعت سے لیکر کہاں کہاں اور کس کس کا موروثیت کے نظام پر کیا کیا جھگڑا ہوا ہے؟۔ وقف مال پر کسی کو وراثت کا حق دینا اسلام اور انسانیت کے بالکل منافی ہے۔ عوام کے چندوں سے مساجد، مدارس، خانقاہیں، مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی تشکیل ہو اور ان پر خاندانوں کے جھگڑے کھڑے ہوجائیں تو پھر اللہ نے قرآن کی جو آیات نازل کی ہیں تو اس پر بدنیت کبھی عمل کرنے کے روادار نہیں ہوسکتے ہیں۔

حضرت ابوبکر نے باغ فدک پر اچھا کیا لیکن کیا مفتی تقی عثمانی وغیرہ وقف مال کے مالک وراثت کی بنیاد پر ہوسکتے ہیں؟۔ نبیۖ کا جانشین تو بہت ہی بڑی بات ہے ایک گناہگار آدمی بھی اس حرکت کی جسارت نہیں کرسکتا ہے۔ اسلئے ملک کے قوانین کو سب سے پہلے درست کرنے کی سخت ضرورت ہے اور پھر قرآنی آیات کی درست تفسیروتبلیغ کا بھی کوئی مسئلہ نہیں رہے گا۔ مدارس چوہے کے بل اسلئے بن گئے ہیں کہ چوہوں کا ان میں خاندانی بسیرا ہے اور اس کو ان سے واہ گزار کئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔

پہلے لوگ بینکوں سے اپنی زکوٰة اور سود کی رقم کو نکال کر مستحق افراد میں تقسیم کرتے تھے۔ پھر جنرل ضیاء الحق نے مفتی تقی عثمانی کی ایڈوائز پر بینکوں سے لوگوں کے زکوٰة کی کٹوتی سودی نظام سے کاٹنی شروع کردی۔ لوگ خوش ہوگئے کہ زکوٰة کٹ جاتی ہے اور اصل رقم بھی بینک میں محفوظ رہتی ہے اور اچھی خاصی سودی رقم بھی کھاتے میں آجاتی ہے۔

مفتی محمود نے کہا کہ سودی رقم سے زکوٰة کاٹنے کا فتویٰ غلط ہے لیکن مفتی تقی عثمانی نے پان میں کچھ دیا اور مفتی رفیع عثمانی نے دورہ قلب کی خاص گولی حلق میں ڈال دی۔ جس سے مفتی محمود شہادت کے مرتبہ پر فائز ہوگئے۔ مفتی تقی عثمانی نے کہا ہے کہ علامہ شبیراحمد عثمانی اور قائداعظم کے ساتھیوں کو بھی زہر دیا گیا تھا تو اس پر ایک آزاد کمیشن قائم کریں تو حقائق عوام کے سامنے کھل کر آجائیں گے۔

مفتی تقی عثمانی نے پھر شرح سود میں دو فیصد اضافہ کیساتھ اسلامی بینکاری کی بنیاد رکھ دی ۔ سب علماء کرام ومفتیان عظام نے مخالفت کی لیکن عالمی یہودی مافیا اس فتوے کے پیچھے تھا اسلئے کسی کی بات بھی نہیں چل سکی۔ اسرائیل کے خلاف فتویٰ بہت بڑا ڈھونگ ہے جس کی وجہ سے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں پر مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ پاکستان کی غریب عوام کے حالات کونسے کم ہیں؟۔ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی افواج سے مفتی تقی عثمانی نے کونسے دانت تڑوائے ہیں؟۔ عالمی قوتوں نے اگر افغانستان اور عراق کے مسلمانوں کو ملیامیٹ کردیا تو کیا پاکستان اتنی طاقت اور ہمت رکھتا ہے؟۔

رسول اللہۖ نے فرمایا : پہلا امر نبوت و رحمة پھر خلافت و رحمة پھر بادشاہت و رحمة پھر امارت و رحمة پھریہ لو گ ایک دوسرے کو کاٹیں گے گدھوں کا کاٹنا۔ پس تم پر جہاد فرض ہے اور بہترین جہاد رباط ہے اور تمہارا بہترین رباط عسقلان ہے۔

یہ حدیث اس وقت ایک عربی عالم نے ذکر کی تھی جب حماس نے عسقلان پر حملہ کیا تھا۔ ہم نے نومبر 2023میں اسکا حوالہ دیتے ہوئے مشورہ لکھ دیا تھا کہ ”پشاور اور کراچی سے ٹیمیں تشکیل دے کر اسرائیل سے صلح کی جائے”۔ اب نیوز ون ٹی وی پر فلسطینی صحافی کا شکوہ دیکھیں کہ اربوں کی رقم غزہ کے نام پر جمع کی گئی لیکن کچھ بھی نہیں دیا گیا۔ اب لوگوں کا غزہ پرایک دوسرے کیخلاف محاذ آرائی سے گدھوں والی بات کو سمجھنا آسان ہوگا۔ یوکرین کی معدنیات پر قبضہ نہ ہوسکا تو امریکہ نے رُخ تبدیل کرنے کیلئے ایک بڑی چال سے اپنے گدھے پھر ڈھینچوڈھینچو کرنے پر لگادئیے بس اللہ خیر کرے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، خصوصی شمارہ اپریل 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اسلامی نظام کا درست تصور کیا ہے؟

اسلامی نظام کا درست تصور کیا ہے؟

سعودی عرب کی بادشاہت، ایران کی اسلامی جمہوریت اور افغانستان کی امارت اسلامی کو کس چیز کا نام دیا جائے؟۔ کیاایک وہابی اسلام ہے، دوسرا شیعہ اسلام ہے اور تیسرا حنفی اسلام ہے؟۔

کس اسلام کو قبول کرنے کیلئے عالم اسلام اور عالم انسانیت تیار ہے؟۔ اگر یہ مسلمان اور انسان کیلئے رول ماڈل نہیں بن سکتے تو پھر سوچنا چاہیے کہ اس کا متبادل کیا ہے جس کو نہ صرف مسلم ممالک بلکہ پوری دنیا اپنا رول ماڈل تسلیم کرلیں؟۔اگر کسی ملک کو اپنی عوام پر بھروسہ نہ ہو اور عوام اپنے حکمران پر بھروسہ نہ رکھ سکیں تو دوسروں کیلئے وہ قطعی طور پر بھی رول ماڈل نہیں بن سکتے ہیں۔

محمد بن عبدالوہاب نے توحیدو شرک اور مذہبی رسوم کے حوالہ سے اسلام کا جو تصور پیش کیا تھا تو سعودی عرب نے اسی کو اسلام سمجھ لیا۔ اسلامی انقلاب ایران نے شیعہ کے اسلام کو اسلام سمجھ لیا اور امارت اسلامی افغانستان نے حنفی اسلام کو اصل اسلام اور اس کا نظام سمجھ لیا ہے۔ ان تینوں ممالک کی سب سے بڑی خرابی آزادیٔ رائے پر پابندی ہے۔ جس نظام میں آزادیٔ رائے کیساتھ عدل نہیں ہو وہ اسلام کے علاوہ کوئی بھی نظام ہوسکتا ہے لیکن اسلامی نظام قطعی طورپر نہیں ہوسکتا ہے۔

جب رسول اللہ ۖ نے غزوہ بدر کے قیدیوں پر مشاورت کی تو اکثریت کا مشورہ یہ تھا کہ فدیہ لیکر چھوڑ دیا جائے اسلئے کہ ہوسکتا ہے کہ ہدایت پا جائیں اور اگر ہدایت نہیں پاتے تو پھر دوبارہ ہم ان کو پکڑ کر مار سکتے ہیں۔ 70سرکردہ لوگ مارے جاچکے تھے ،70قیدی بنالئے گئے تھے اوربقیہ اپنی جان بچاکر بھاگ چکے تھے جن کی تعد اد مسلمانوں کے مقابلے میں پھر بھی بہت زیادہ تھی۔

حضرت عمر اور سعد بن معاذ کی رائے یہ تھی کہ جو جس کا قریبی رشتہ دار ہے وہ اس کو اپنے ہاتھوں سے قتل کردے۔ فلاں میرے حوالے ہو ۔ عباس کو علی تہہ تیغ کردے۔ ابوبکر، عثمان اپنے اقارب کو تہہ تیغ کردیں۔ نبیۖ نے فرمایا کہ عمر کی رائے حضرت نوح کی طرح ہے اور ابوبکر کی رائے ابراہیم کی طرح ہے اور مجھے ابراہیم کی رائے پسند ہے اور رحم دلی کے مطابق فیصلہ فرمادیا۔ ارشادفرمایا کہ ”میری امت میں سخت ترین انسان عمر اور رحم دل ترین انسان ابوبکرہیں”۔

پھر آیات اُتریں کہ ماکان لنبیٍ ان یکون لہ اسرٰی حتی یثخن فی الارض تریدون عرض الدنیا واللہ یریدالاٰخرة واللہ عزیز حکیم O” نبی کیلئے مناسب نہیں کہ اس کے پاس قیدی ہوں یہاں تک کہ زمین میں خوب خون نہ بہادے ۔ تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے۔ اللہ زبردست ہے حکمت والا ہے”۔(سورہ انفال :آیت67)……

اس آیت میں نہ صرف آزادی ٔ رائے کی تائید ہے بلکہ ایک طرف صحابہ کرام کا جمع غفیر تھا اور دوسری طرف دو صحابی تھے۔ نبی اکرم ۖ کی رائے بھی جمع غفیر کیساتھ ہی تھی لیکن یہ آیت آزادیٔ رائے کی جس انداز کی تائید کررہی ہے اس کی مثال دنیا لانے سے بالکل قاصر ہے۔حالانکہ انسانی فطرت بھی قیدیوں کو تہہ تیغ نہیں کرتی۔قرآن نے بھی پھر روک دیا لیکن یہاں کئی محرکات تھے۔

نبی کریم ۖ نے حدیث قرطاس لکھنے کا فرمایاتو حضرت عمر نے منع کردیا کہ ہمارے لئے اللہ کی کتاب قرآن کافی ہے۔ قرآن وحدیث اور صحابہ کرام کی زندگی آزادیٔ رائے سے عبارت ہیں اور اس کے اثرات جب تک مسلمانوں پر قائم رہے تو مسلمان قرآن کی روح کے مطابق عمل پیرا تھے۔ حضرت ابوبکر نے باغ فدک کے معاملہ میں اور حضرت عمر کی نامزدگی کے مسئلے میں اس آیت کی روح پر عمل کرکے دکھادیا۔ حضرت عمر نے اپنے بعد اپنے بیٹے پر پابندی لگاکر اقرباء پروری کی بنیاد کو ختم کردیا۔ بنوامیہ اور بنوعباس کا خاندانی نظام اس آیت کی روح کے برعکس تھا اور شیعہ فرقہ تو اقرباء پرستی کا شاہکار ہے۔ آزادیٔ اظہار رائے اور آیات کی درست تفسیرعوام کے سامنے رکھی جاتی تو پھر اسلامی نظام کی طرف زبردست پیش قدمی ہوسکتی تھی لیکن اس طرف دھیان نہیں ہے۔
٭٭

سورہ انفال کی آیات کی درست تفسیر و تبلیغ میں نجأت

جاوید غامدی کے دادا استاذ حمیدالدین فراہی کا استاذ شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی تھا۔ جس نے کئی کتابیں الفاروق اور سیرت النبیۖ لکھی ہیں۔

شبلی نعمانی نے اہل سنت کے علماء کو مشورہ دیا تھا کہ حدیث قرطاس کا انکار کیا جائے تو شیعوں سے ہماری جان چھوٹ جائے گی۔ لیکن انہوں نے کہا کہ اس سے حدیث کا انکار لازم آئے گا۔ خیانت اور دیانت کی بڑی کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے اور سرسیداحمد خان نے بھی کچھ معجزات کا انکار اسلئے معتزلہ کے افکار پر کیا تھا کہ غیر مسلموں کے سخت اعتراضات کا سامنا کرنے سے بچ جائیں لیکن یہ قدامت پسند علماء کرام کا کمال تھا کہ کسی کا اعتراض خاطر میں لائے بغیر بالکل ڈٹ گئے تھے۔

معجزات کا انکار آخر کار وحی و بعثت تک پہنچا کر ہی دم لیتا۔اللہ تعالیٰ نے علماء حق سے دین کے تحفظ کا بہت بڑا کام لیا ہے ۔جن کے ہم شکر گزار ہیں۔

معجزات پر ایمان بالغیب رکھنا قرآن کا تقاضہ ہے لیکن فقہ وشریعت اور سیاست وحکمت میں قرآن کی رہنمائی سے جاہل ہونا بہت بڑی بد بختی ہے۔ فقہ وشریعت میں غسل، وضو، نماز اور نکاح وطلاق کے احکام میں فرائض اور حلال وحرام پر اختلافات اور ڈھیر سارے تضادات ہیں۔ جن کو متحد ومتفق اور وحدت کی راہ پر گامزن ہوکر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر رسول اللہ ۖ نے ماحول کا فتویٰ وحی اور خاتون کی رائے سے چھوڑنے کا سبق دیا لیکن کوئی فرقہ ومسلک کی تقلید کو قرآن وسنت کے مقابلے میں قربان نہیں کرسکتا تو یہ بہت بڑی بے راہ روی ہے۔دیوبندی بریلوی فرائض، واجبات، سنن اور مستحبات پر متحد ومتفق ہیں مگر مستحسن پر جنگ و جدل کا بازار گرم کیا ہواہے۔ مثلاً غسل ، وضو ، نماز اور نکاح وطلاق کے احکام ایک ہیں لیکن سنت نماز کے بعد دعا مستحسن ہے یا بدعت ؟۔ اس پر ایک دوسرے کو معاف کرنے کیلئے تیار نہیں، حالانکہ بریلوی مکتب کے مولاناامجد علی نے لکھ دیا ہے کہ ” غسل، وضو اور نماز وغیرہ کے فرائض ظنی ہیںاور دلیل کی بنیاد پر اختلاف کرنا جائز ہے”۔(بہار شریعت)شافعی ، مالکی ، حنبلی سے حنفی مسلک کے یہ اختلافات ہیں۔ شریعت میں اختلافات کی بھرمار ہے تو سیاسی حکمت میں اختلاف کو ناقابل برداشت سمجھنا جہالت ہے۔

سورہ انفال کی آیت میں سیاسی مسئلے پر اختلاف کی نشاندہی ہے۔ اکثریت کی رائے تھی کہ فدیہ لیکر چھوڑ دیا جائے اور حضرت عمر کی رائے برعکس تھی اور نبیۖ نے اکثریت کی رائے پرہی عمل کیا تھااور یہ شرعی نہیں سیاسی حکمت عملی ہی کا اختلاف تھا۔

نبیۖ کی رائے کو سیاسی بنیاد پر اللہ نے بالکل نامناسب قرار دے دیا ۔ جس سے حلال وحرام اور جائز وناجائز کا تصور قائم نہیں ہوتا۔ حضرت نوح اور حضرت ابراہیم کی رائے میںاختلاف تھا لیکن اللہ نے حضرت نوح کی رائے کو قبول فرمایاتھا۔

سورہ انفال کی آیت میں اللہ نے جس بنیاد پر مخالفت کی تھی تو اس میں نیت کا مسئلہ تھا۔ حضرت ابوبکر کے بیٹے نے کہا کہ آپ میری تلوار کی زد میں آگئے لیکن میں نے چھوڑ دیا اور حضرت ابوبکر نے کہا کہ میری تلوار کی زد میں آتے تو تجھے نہ چھوڑتا۔ عبدالرحمن نے للکارا تھا تو ابوبکر مقابلے کیلئے نکلے مگر نبیۖ نے روک دیا اور عبدالرحمن نے صلح حدیبیہ کے موقع پر اسلام کو قبول کیا تھا۔ ابوبکر نے نبیۖ کی محبت میں آپۖ کے رشتہ داروں کو قتل سے بچانے کیلئے فدیہ لیکر چھوڑنے کا مشورہ دیا تھا اور صحابہ کرام کی اکثریت بھی ایسی تھی لیکن کچھ اقرباء کی وجہ سے بھی یہ مشورہ دے رہے تھے ۔اللہ نے فرمایا: لو لا کتاب من اللہ ابق لمسکم فیما اخذتم عذاب عظیم O اگر اللہ پہلے سے لکھ نہ چکا ہوتا تو جو تم نے لیا ہے اس پر بڑا عذاب پکڑ لیتا۔ پس جو تمہیں غنیمت میں حلال وطیب ملا ہے اس کو کھاؤ۔اور اللہ سے ڈرو !، بیشک اللہ بخشنے والا رحم والا ہے۔ اے نبی! جو قیدی تمہارے ہاتھ میں ہیں۔ ان سے کہہ دو کہ اگر اللہ کو معلوم ہوا کہ تمہارے دلوں میں خیر ہے تو اس سے بہتر عطا فرمائے گاجو تم سے لیا گیا ہے اور تمہاری مغفرت بھی کردے گا۔ اللہ معاف کرنے والا رحم والا ہے۔اور اگر ان کا ارادہ خیانت کرنے کا ہو تو پھر یہ پہلے بھی خیانت کرچکے ہیں پھر ان میں بعض کو گرفتار کرادیا ہے اور اللہ علم حکمت والا ہے۔(الانفال :68تا 71 )

ان آیات میں مسلمانوں کو مال کی محبت اور اقرباپروری کے ناجائز جذبے کیساتھ اس بات سے بھی ڈرایا گیا کہ نبیۖ کی قرابتداری کی بنیاد پر نبیۖ کی ذاتی محبت نہیں بلکہ دین کی بنیاد پرمحبت کا تعلق ہونا چاہیے۔ جیسے اسماعیلی اور امامیہ شیعہ بھی یہ بات بہت اچھی طرح سے سمجھ سکتے ہیں۔

ان آیات میں سیاست شرعیہ کا ایک تقاضا مسلم سیاستدانوں کو سمجھا نا تھا اور دوسری طرف دشمنوں کو بھی پیغام دینا تھا کہ چھوٹ جانے کے بعد یہ مت سمجھو کہ اللہ کی دسترس سے نکل جاؤگے۔ سیدھے رہو گے تو اللہ اس ذلت اور مالی نقصان کی جگہ بہتر بدلہ دے گا اور نہیں سدھروں گے تو پھر دوبارہ معافی کی توقع بھی مت رکھنا۔ کاش علماء آیات کو سمجھتے اور لوگوںمیںانکی روح اچھی طرح پھونک دیتے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، خصوصی شمارہ اپریل 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

ہمارا 7براعظموں کا خزانہ عالم انسانیت کی امانت ہے

غزہ کی روتی بچی یا اللہ، یااللہ پھر چیختی ہوئی یااللہ یہ بے بسی

غزہ کو مشکلات سے نکالنے کا سنجیدہ حل کیا ہوسکتا ہے؟

غزہ کے نام پر دولت بنانا بند کیا جائے۔
150ارب پاکستان میں غزہ کے نام پراکھٹے ہوئے! غزہ کے اندر ایک سوئی نہیں پہنچ سکتی تو یہ امداد کا ڈرامہ کیوں؟۔ جلال الفرائ

غزہ کی بچی یااللہ یا اللہ کرتے ہوئے چلتی ہے اور آخر کا ر چیختے ہوئے یااللہ جس انداز میں پکارتی ہے تو انسان کا کلیجہ یہ آواز سن کر منہ کوآتا ہے۔

اللہ نے فرمایاکہ ” اور تمہیں کیا ہوا کہ تم اللہ کی راہ میں نہیں لڑتے۔ اور کمزور مرد ، عورتیں اور بچے کہتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ! ہمیں اس شہر سے نکال دے جسکے باشندے ظالم ہیںاور ہمارے لئے اپنے پاس سے کوئی حمایتی بنادے اور ہمارے لئے اپنی بارگاہ سے کوئی مددگار بنادے”۔ (النسائ:75)

غزہ والوں کو پڑوسی ممالک جگہ دینے کیلئے بھی تیار نہیں۔ حامدمیر کے پروگرام میں خواجہ آصف نے برما کے مسلمانوں کیلئے کہا تھا کہ” ہم نے جہاز تیار کھڑے کررکھے ہیں بس اجازت مل جائے”۔ سیاستدانوں اور صحافیوں کا جھوٹ بازار لگتاہے۔

مفتی تقی عثمانی نے جب کہا تھا کہ اللہ ہمارا رب ہے امریکہ ہمارا رب نہیں تو لوگوں نے بہت پسند کیا تھا لیکن آیت کا ترجمہ بھی عوام سے چھپادیا تھا ،اب میزان بینک فلسطینی اکاؤنٹ نہیں کھول رہاہے۔

مذہبی اور فوجی خانوادوں نے 40سال روس وامریکہ کے خلاف جہاد لڑنے کا سہرا اپنے سر باندھا لیکن کسی ٹبر کا بیٹا شہادت کا دولہا نہیں بن سکا ہے۔ سیاستدان کرپٹ تھے، ملاؤں اور جرنیلوں نے بھی بیرون ملک اثاثوں کیلئے صف اول کی دوڑلگائی ۔

حافظ سیدعاصم منیر آرمی چیف نیک والدین کا بیٹا ہے۔ اس نے حالیہ بیان میں کہا کہ مدینہ طیبہ کی ریاست کے 14سوسال بعد پاکستان کی ریاست لاالہ الا اللہ کے نام پر بنی ہے۔ ریاست مدینہ کے والی نبی اکرم ۖ پر وحی نازل ہوتی تھی لیکن وحی کی برکات سے امت مسلمہ استفادہ نہیں کرتی ہے۔

اللہ نے فرمایا کہ” سبقت لے جانے والے پہلوں میں سے انصارو مہاجرین اور وہ لوگ جنہوں نے بھلائی کیساتھ ان کی پیروی کی ۔اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ۔اور اللہ نے ان کیلئے باغات تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے”۔(سورہ توبہ:100)

قرآن کی یہ خوشخبری صحابہ کرام کے بعد بھلائی کیساتھ ان کا اتباع کرنے والوں کیلئے ہے۔ قائد اعظم نے کہا :”میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں”۔ سیاستدان،سول وملٹری قیادت کا ٹریک ریکارڈ بیکار نہیں ہوتا تو پاکستان سورہ رحمن کا عملی نقشہ ہوتا۔ مایوسی، انارکی،جاہلیت، بداعتمادی، جھوٹ ، فریب وغیرہ کی جگہ ایمان داری میں ہم شاندار ہوتے۔

اللہ نے فرمایا: اقیموالوزن بالقسط و لا تخسروا المیزان ” توازن کو انصاف کیساتھ قائم رکھو اور میزان کو خسارے میں مت ڈالو”۔

ہمارا محنت کش طبقہ بیرون ملک سے خاندانوں کو پالنے کیلئے زرمبادلہ بھیجتاہے اور ہمارا اشرافیہ اپنے بچوں کو پالنے کیلئے پاکستان کا زرمبادلہ بیرون ملک بھیجتاہے ۔ یوں توازن قائم رکھا ہوا ہے۔ آرمی چیف بذات خود کوئی ہیرو نہیں ہوتا مگر طاقت اس کو ہیرو کی شکل میں ظاہر کرتی ہے۔ چڑھتے سورج کے کم بخت پجاری اسکے طلوع ہوتے ہی اس وقت تک اس کو پوجتے ہیں جب تک چاروں شانوں چت اسکے غروب ہونے کا وقت نہیں آجاتاہے۔

رسول اللہ ۖ نے مزارعت کو سود قرار دیا توپھر محنت کش طبقہ نے یثرب کومدینہ بنادیا تھا۔ سندھ کے شاہ عنایت شہید نے ”جو بوئے گا وہ کھائے گا” کا نعرہ لگاکر اسلامی نشاة ثانیہ کی بنیاد رکھ دی تھی۔جو ہوکررہے گی اور ظالم نیست و نابودہوگا ۔انشاء اللہ

غریب غریب تر ہورہاہے اور امیر بیرون ملک دربدر ہورہاہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کو افغانی نے فرانس میں بڑی گندی گالیاں دیں اور چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنا حلیہ تبدیل کرلیا ہے۔ پاکستان کے جاگیرداروں نے مسلم لیگ کا ساتھ جاگیریں بچانے کیلئے دیا اسلئے کہ کانگریس نے انگریز کی دی ہوئی جاگیروں کو ضبط کرنے کا اپنا منشور بنایاہوا تھا۔ وہ وقت آنے کو ہے کہ ملک میں جاگیریں ضبط کرلی جائیں گی۔ بھارت میں گنا مہنگا، چینی سستی اور پاکستان میں گنا سستا اور چینی مہنگی ہے پھر بھی شوگر مافیا سبسڈی لیتا ہے ۔ لوٹ مارمافیا ایک دوسرے سے سبقت کے چکر میں عوام کو پریشان کررہاہے۔

پاکستان سے نہ صرف خلافت قائم ہوگی بلکہ یہ بھی اللہ کی بڑی نعمت ہے کہ 7براعظموں کا خزانہ اللہ نے پاکستان میں چھپایا ہے جس پر سب کا حق ہے اور انشاء اللہ تمام ممالک اور مذاہب کو پاکستان اپنی خوشی کے ساتھ شریک کرکے نوازدے گا۔ ہمارا وزیرستان کاخزانہ پاکستانیوں ،پڑوسی ممالک، عالم اسلام اورپوری دنیا کی تقدیر بدلے گا۔ انشاء اللہ

حجاز مکہ اورمدینہ صحراء تھا جسکے باسیوں سے اللہ نے وعدہ پورا کیا اور ان کوباغات کا مالک بنادیا جس کے نیچے نہریں بہتی تھیں۔ فارس وروم فتح ہوگئے۔

اگرہم نے دیانتداری دکھائی توپھر فتوحات کی ضرورت نہ ہوگی۔ معدنیات کی ادنیٰ قیمت سے بھی سارے پاکستانیوں کو ترتیب سے ایک عجیب نقشے کیساتھ ایسے گھروں کا مالک بنایا جائے گا کہ جہاں ہر گھر کے دو دو باغ ہوں گے۔ جنکے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور دو دو چشمے اور فواروں کا نظام ہوگا۔

جیسے گنے کا کاشتکار بھوکوں مرتا ہے اور شوگر مل مالکان عیاشی کرتے ہیں،ویسے بلکہ اس بھی زیادہ معدنیات کا خام مال بیچنے والوں پر غربت کا سایہ ہوتا ہے اور معدنیات کے خام مال کو سونا بنانے کے کارخانوں کے امیرکبیر موج مستی کرتے ہیں۔

اگر تھوڑا شعور دیا جائے تو ہمارا اشرافیہ سارا اثاثہ جات بیچ کر معدنیات کے خام مال کیلئے فیکٹریاں لگادیں گے اور خود کو بھی خوشحال بنائیں گے اور ملک وقوم کی خوشحالی میں بھی ضروراہم کردار کریں گے۔

بہت بڑے پیمانے پر ہمارے معدنیات چین کو منتقل ہوگئے مگرہماری تقدیر نہ بدل سکی۔ تجربہ سے بندہ سیکھ لے تو نقصان فائدہ میں بدل جاتا ہے۔ اگر ایک دو جگہ معدنیات کی صفائی کے کارخانے لگانے سے بات بن جائے تو ہمارا فائدہ ہوگا اور سرمایہ کاری کرنے والوں کا بھی۔ قرآن میں اللہ نے مال غنیمت کا فرمایا ہے کہ اللہ اور اسکے رسول اور مستحقین کیلئے خمس ہے۔ ہم مختلف ممالک کے غریب غرباء کیلئے ایک مقدار مقرر کردیں اور اپنے ملک کے نقشے میں سب سے پہلے غرباء کے گھروں کا بندوبست کریں تو پھر قرآن کی زبان میں یہی زبردست نجات یافتہ تجارت ہوگی۔ اللہ نے فرمایا:

” اے ایمان والو! کیا میں ایسی تجارت تمہیں بتاؤںجو تمہیں دردناک عذاب سے نجات دے؟ تم اللہ پر ایمان لاؤ اور اسکے رسول پر اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو اپنے اموال اور اپنی جانوں کیساتھ، یہ تمہارلئے بہتر ہے اگر تم جان لو۔ تمہارے گناہوں کو معاف کردیا جائے گا اور تمہیں ایسے باغات میں داخل کرے گا جس کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور پاک جگہیں ہمیشہ کے باغات میں اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ (سورہ ا لصف : 10، 11،12)

اللہ تعالیٰ نے ایک اور جگہ واضح فرمایا ہے کہ
” بیشک وہ لوگ جو اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیںاور جو ہم نے ان کو رزق دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیںوہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو ہرگز تباہ نہیں ہوگی۔تاکہ ہم ان کو پورا بدلہ دیں اور اپنے فضل سے مزید اضافہ کرکے دیں۔ بیشک وہ بخشنے والا قدردان ہے”۔(فاطر:29،30 )

امریکی جیوش کانگریس کو پیشکش کریں تو وہ غزہ سے معافی مانگ لیں گے اور مسلمانوں کے حالات بہتری کی طرف آئیں گے ۔ اگر عیسیٰ نے یہود اور خنزیز کو قتل کرنا ہے تو یہ انہی پر چھوڑ یں۔ قرآن نے ہمیں واضح احکام دئیے ۔ اہل کتاب سے ہم انہی کے مطابق سلوک کے پابند ہیں۔پاکستان کا ممبر اسمبلی اسپیکر سے کہتا ہے کہ ”ہم لوگوں سے ووٹ لیکر اسمبلی میں پہنچے ہیں ،کسی کے ٹٹے نہیں پکڑے” اور امریکی صدر بھی جیوش کے ٹٹے پکڑ کر ایوان صدر میں پہنچتے ہیں۔ امریکہ کے مسلمانوں نے ٹرمپ کو ووٹ دیا لیکن ٹرمپ ان کے خلاف چل پڑا ہے۔ جیسے ہمارے مذہبی اور سیاستدان اپنے طاقتوروں کا ناڑہ پکڑ چلتے ہیں لیکن ذلت کے ادوار سے گزرتے ہیں یہی حال امریکیوں کا بھی ہے۔ اقبال نے کہا تھا کہ ”فرنگ کی جان رگ پنجہ یہود میں ہے” ۔

ہم معدنیات کا دنیا کی بہتری کیلئے اعلان کریں تو یہودی سودی بینکاری کا خاتمہ کرنے کیلئے کردار ادا کریں گے۔دنیا کا اشرافیہ لالچ سے مررہا ہے لیکن جب اس کے سامنے ایک اچھی مثال آجائے گی تو دنیا بھر کے لوگوں میں بہت بڑی تبدیلی آئے گی۔

اکبر بادشاہ کا دین الٰہی، شاہجہاں کی تعمیرات کا کمال ، اورنگزیب کی نام نہاد دینداری اور محمد شاہ رنگیلا کی رنگین مزاجی مغل سلطنت کے زوال کا راستہ نہیں روک سکی۔ نظام کا ایکسپائر پرزہ سیاستدان ، جرنیل اور دانشور اپنی ذاتی گھمنڈ پر کوئی تبدیلی نہیں لاسکتا۔ رسول اللہۖ نے اجتماعی ضمیر کی آزادی و مشاورت سے انقلاب برپا کیا تو راستہ روکنے میں دنیا کی کوئی قوت کامیابی حاصل نہیں کر سکی تھی۔

رسول اللہ ۖ نے یہود کیساتھ میثاق مدینہ اور مشرکینِ مکہ کیساتھ صلح حدیبیہ کا معاہد ہ کیا جو بلاشبہ اسلام اور رسول اللہۖ کے بدترین دشمن تھے ۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ وفاق نے قبائل کو صوبے میں ضم کیا اور 18ویں ترمیم میں معدنیات کی ملکیت صوبائی حکومتوں کی ہے۔ لیکن وفاق نے قبائلی علاقہ وفاق کیساتھ معدنیات کے معاملے میں ضم کردیا جو صوبے سے زیادتی ہے اور یہ ہم کبھی نہیں کرنے دیں گے۔ حافظ حمداللہ نے کہا کہ آئین میں پیٹرول وگیس کے علاوہ تمام معدنیات صوبے کی ملکیت ہیں ،گیس وتیل میں بھی50 فیصد صوبے کا ہے، طاقت کے زور پر قوانین کو تبدیل کیا جارہا ہے اور ایمل ولی خان نے کہا کہ معدنیات امریکہ کو ہی بیچی جارہی ہیں اور اس کیلئے ہم بغاوت کرینگے۔

محمود خان اچکزئی نے کہا کہ اس خطے کو خطرات کا سامنا ہے۔ پاکستان ، چین اور ایران مل کر جب افغانستان کو بچائیں گے تو خطرات ٹل سکتے ہیں ۔

بھارت کے مسلمانوں اور غزہ کے فلسطینیوں کی حمایت تعصبات کو ہوا دینے سے ممکن نہیں ہے۔ اگر ہم نے قرآن پر عمل کیا تو اللہ نے فرمایا ہے کہ تمہارا جانی دشمن بھی گرم جوش دوست بن جائے گا۔

اگر افغان طالبان اور پاک فوج جیسے جگری یار ایک دوسرے کے دشمن بن سکتے ہیں یا پھر TTP کو پاکستان فتنہ خوارج قرار دے سکتا ہے تو حماس و اسرائیل کی دشمنی کیسے ختم ہوگی؟۔ لیکن سب کو نارمل کرنا پڑے گا۔ اشرف غنی حکومت اور طالبان کی دشمنی کتنی زیادہ خطرناک تھی لیکن آخر کارایک افغانی ہونے پر اکٹھے ہونگے۔ اسی طرح اب پاکستان ہی نہیں اسرائیل وفلسطین میں بھی جنگ کی روک تھام کیلئے بنیادی اقدامات کی ضرورت ہے۔

غزہ کے مسلمانوں کو مشکلات کی طرف دھکیلنے کی نہیں مشکلات سے نکالنے کی ضرورت ہے اور ان کو مروانے کا سلسلہ جاری رکھاتو القدس کی آزادی بھی ایک خود غرضی ہے۔ جب پاکستان کی معدنیات سے آمدن شروع ہوجائے تو بیت المقدس کی تعمیر نو کیلئے صرف اعلان کرنے پر ہی مذاہب عالم میں اتحاد، اتفاق اور وحدت کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ القدس میں مسلمان، یہودی ، عیسائی اور دنیا بھر کے انسان جائیں گے تو معراج کی تعبیر ہوگی کہ نبیۖ نے تمام انبیاء کی امامت فرمائی۔ پنجہ استبداد یہود سے عیسائیوں کو نکالنے کیلئے مسلمانوں کا خود مسلمان ہونا ضروری ہے۔ ہم اسلام کو روندکر مذہبی جذبے کے غلط استعمال کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔

سوشل میڈیا پر خبر ہے کہ 100ڈالرکمانے کی خاطر سرائیکی کا جھنڈا اٹھانے والے لڑکے پر حملے سے مجاہد نے فلسطین کا حق ادا کردیا۔اگر جذبہ جہاد کو غلط استعمال کریںگے تو اسکے نتائج اچھے نہیں نکل سکتے۔ غزہ مظلوم کے پیچھے امریکی CIAنہیں تھی۔ اسلئے مجاہدین نے غزہ کا رخ نہ کیا۔ اسامہ کا استاد عبداللہ عزام غزہ کااورایمن الظواہری مصری تھا۔ رسول ۖ کے جد حضرت ہاشم کی قبر غزہ میں ہے۔ فلسطینی بھی وطن پرست ہیں۔ یہاں جنگ و جدل کی فضا بنانا غزہ کے نام پر انتہائی تشویشناک ہے اور حقائق سے جاہل لوگ مفاد پرست ہوتے ہیں۔

حضرت نسیبہ ام عمارہ انصاریہ نے اپنی زندگی غزوات میں گزاری اور ان کی میت کو غسل دینے والی نے کہا کہ جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں تھا جہاں پر تیر یاتلوار کے زخم کا نشان نہیں ہو۔ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن نے غزہ میں جہاد کو فرض عین قرار دیا۔ کیا کشمیر کے مظلوم مسلمانوں اور افغانستان پر امریکہ کے قبضہ کے وقت جہاد فرض عین نہیں تھا؟۔ لیکن ہوا کیا؟۔

مشرف کیساتھ مولانا فضل الرحمن، قاضی حسین احمد ، عمران خان ہوتے تھے۔ غزہ سے کئی گنا زیادہ افغانستان میںB52 نے تباہی مچائی تھی۔ پاکستان اپنے میڈ امیرالمؤمنین ملا عمر کی حمایت نہ کرسکا تو غزہ بچائے گا؟۔ جلسے جلوسوں سے امریکہ کو دئیے گئے اڈے بھی پاکستان سے نہ ہٹاسکے مگر جماعت اسلامی نے امیر منور حسن ہٹادیا۔ اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی میں 22 سالہ طالبہ کے قتل سے لیکر روز کیا مظالم نہیں ہوتے مگر کبھی احتجاج کیا؟۔ سود کو اسلامی کہنے کا فتویٰ ہی واپس لیجئے گا!۔ مصنوعات پر تشدد میں ملوث جذباتی عوام کو پتہ چلے کہ تم نے یہودی بینکوں کے سود کو حلال کیا تو تمہارا کیا حشر کرینگے؟۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، خصوصی شمارہ اپریل 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

فلسطینی NGOکا میزان بینک سمیت کوئی اکاؤنٹ نہیں کھولتا۔شیرافضل مروت

ہم نے ملا عمر وشیخ اسامہ میں شرعی فیصلہ کرایاپھر 9|11ہوا، جس نے افغانستان،عراق اور لیبیامیں اتنی بڑی تباہی پھیر دی۔ مفتی عبدالرحیم

(نوٹ: اس پوسٹ کے آخر میں پڑھیں:تبصرہ نوشتہ ٔ دیوار:سید عتیق الرحمن گیلانی)

2009 کو 3دن کمرے میں مولانا سمیع الحق، مولانا فضل الرحمن، مفتی تقی عثمانی…..،تو میں نے تفصیل سے بتایا کہ بازاروں میں دھماکے اورمدرسوں کو نقصان ہوگا تو ان لوگوں نے میرا بہت شکریہ ادا کیا ، اگر علماء اپنے طلبہ کے خوف سے نکلیں کہ اگر ہم نے یہ بات کہہ دی کہ یہ خوارج مفسدین ہیں ،انکے وہی احکام ہیں جو متاثرین میں سے ہیں تو ان کی طرف سے کیا ردِ عمل ہوگا؟۔

سوال: طالبان نے دفاعی جہاد کیا؟۔ جواب: چاروں فقہوں کا اجماع ہے کہ جہاں حکومتی نظم موجود ہو تو وہاں کوئی جہاد نہیںہوسکتا اس پر بعد میں بتاؤں گاکیونکہ وہاں ایک نظم بہر حال موجود تھا۔ سوال: شیخ اسامہ نے بغاوت کی؟۔جواب:بغاوت نہیں اجتہادی خطاء تھی۔چیچنیانے آزادی کی جنگ جیتی مگر عرب مجاہدین نے روس پر خودکش کیا پھر روس نے چیچنیا کودوبارہ اپنا غلام بنالیا۔

شیخ اُسامہ بن لادن اور مُلا عمر کا اختلاف

شاگرد:ملا عمر صاحب نے اپنے دور میں کس طرح سے دوسرے ملکوں میں مداخلت سے روکا حالانکہ اس وقت تو بہت سارے ملکوں کی قیادت وہاں جمع تھی اور عسکری لوگ تھے وہاں پہ ؟۔

مفتی عبد الرحیم: ملا عمر کے دورمیں40 عسکری تنظیمیں افغانستان میں تھیں سارے امیراور بڑے وہیں تھے ۔ میں نے مفتی رشید احمد کی خدمت میں یہ عرض کیا کہ وہاں جو میں تنظیموں کو دیکھتا ہوں ان کا اپنا اپنا ایجنڈہ ہے اپنے اپنے ملکوں کیساتھ جنگ ہے ۔وہ دھماکے کرنے کا مشورے کرتے ہیں وہاں ٹریننگ ہو رہی ہے تویہ پورا خطہ خدانخواستہ تباہی سے دوچار ہوگا۔ حضرت اگر مجھے دو مہینے کی اجازت دیں تو میں اسی کام پہ جاتاہوں۔ تو میں نے وہاں دو مہینے گزارے۔ ملا عمر اور ان کی کچن کیبنٹ تھی ہانڈی وال جسے کہتے ہیں، میں نے اس کی فہرست بنائی۔ دوسرے انکے کمانڈروں کی فہرست بنائی تیسرے جو ان کی شوریٰ کے ممبران، وزراء اور گورنر جو اہم اہم لوگ تھے ۔ میں نے سب سے یہ بات کی یہ تنظیمیں پوری دنیا کی اپوزیشن آپ نے اکٹھی کی ہے اور یہ آپ کی مصلحت، ریاست اورامارت سے ہٹ کر اپنا ایک ایجنڈا رکھتے ہیں اور ان کو کوئی بھی استعمال کر سکتا ہے اور خود کفیل ہیں ان کو پابند کریں کہ یہ باہر دھماکہ نہ کریں آپ کی اطاعت کریں۔ لمبی تفصیلی دو مہینے ایک ایک سے میں ملا۔ پھر انہوں نے فیصلہ کیا سب تنظیمیں توڑیں ملا عمر نے سب کے لیڈرز کو بلایا اور کہا کہ آج کے بعد کسی تنظیم بازی ، باہر حملہ کرنے کی اجازت نہیں۔ سب پر امیر مقرر کیا ملا جمعہ خان، پھر مسئلہ ہوا کہ یہ تو پورے افغانستان میں پھیلے تھے تو فیصلہ ہوا کہ سب کو دارالامان کابل میں اکٹھا کیا جائے۔ وہ کابل کے جنوب میں بڑا خراب علاقہ تھا تو وہاں بستیاں بنائی گئیں۔ کروڑوں روپے خرچ کر کے افغانستان کے تمام تنظیمی لوگوں کو وہاں اکٹھا کیا۔ پھریہ مسئلہ کھڑا ہوا کہ ان لوگوں نے اس کو قبول نہیں کیا تھا یعنی ویسے تو چونکہ حکم تھا ملا صاحب کا لیکن نظریاتی لحاظ سے یہ قائل نہیں تھے اس پہ کافی ملا عمر اور اسامہ بن لادن میںاختلافات بھی ہوئے بہت زیادہ۔ وہ کہتے تھے کہ ہم پر جہاد فرض عین ہے اور ملاعمر کہتے تھے کہ ہماری اجازت کے بغیر نہیں جہاد کر سکتے۔ تو آخر میں ملا عمر نے ہمارے حضرت کو پیغام بھیجا کہ مفتی صاحب کومیرے پاس بھیجیں اور ہم ارجنٹ بات کرنا چاہتے ہیں۔ میں گیا تو انہوں نے کہا کہ میں بالکل مایوس ہو گیا ہوں اور آپ مسئلے کا حل نکال سکتے ہیں، آپ بتائیں کیا کریں؟، وہ تو نہیں رک رہے ۔ میں نے ملا عمر سے کہا کہ قرآن میں آتا ہے فان تنازعتم فی شیئٍ فردوہ الی اللہ و الرسول تو ہم لوگوں کو مشورہ دیتے ہیں تو آپ اور اسامہ بن لادن میں اختلاف ہے آپ یہ کہتے ہیں باہر حملے جائز نہیں اور وہ کہتے ہیں فرض ہے تو اگر ہم شریعت سے پوچھ لیں 3 علما آپ دیں 3 علماء شیخ دے دیں وہ 6علما ء فیصلہ کردیں کہ شریعت کا کیا حکم ہے اور پھر سب مانیں اس کو۔ تو ملا عمر نے کہا کہ میں اس کیلئے تیار ہوں ۔میں پھر شیخ اسامہ کے پاس گیا اور کہا کہ آپ جھگڑا میں علماء کو حکم بنا دیں اور فان تنازعتم فی شیئٍ فردوہ الی اللہ و الرسول اگر ہم نہیں مانیں گے تو کون مانے گا؟۔ تو انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔ ملا عمر نے 3 علماء کے نام دیئے مولانا شیر علی شاہ شیخ الحدیث دارالعلوم حقانیہ، مولانا نور محمدامیر جمعیت علما اسلام بلوچستان، تیسرا میرا نام تھا ۔شیخ اسامہ نے اپنے 3 دیئے ابو… مصری جو انکے نائب اول تھے اور ابو…مریطانی جو حیات اور موریطانیہ میں ہیں۔اگر کوئی بات کرنا چاہے تو میرے پاس ٹیلی فون نمبر ہے اور تیسرے موریطانی کے نائب ابوعف مریطانی دار الافتاء کے صدر مفتی تھے۔ ہم 6 کے 6 اکٹھے ہو گئے اور ایک ہفتہ ہماری بحث ہوئی فقہ حنفی شافعی، حنبلی، مالکی اور سلفی چونکہ یہ لوگ سلفی ہیں تو پانچوں پربات ہوئی اور پانچوں میں ثابت ہوا کہ اس پر اتفاق اور اجماع ہے کہ جہاں ریاست کا نظم موجود ہو تو انفرادی طور پہ کوئی جہادی تنظیم بنا کر کسی ملک پر حملہ کر دے اس کی اجازت نہیں ہے۔ یہ بات لکھی گئی، اسامہ بن لادن اور ملا عمر اور ہم سب کے دستخط ہوئے ۔ملا عبدالجلیل نگران تھے اور وہ حیات ہیں۔ عبدالاحد جہانگیروال بھی حیات ہیں وہ بھی شریک تھے ان کو پورا پتہ ہے کہ ملا عمر نے مجھ سے بات کی تھی تو وہاں کافی لوگ ملا غازی، ملا عبدالسلام حیات ہیں وہ بھی موجود تھے اور حاجی لالا تھے۔ اتنے سارے لوگوں کے نام میں اس لیے بتا رہا ہوں کہ یہ کھل کر ہوا تھا تو اس میں سب کے دستخط ہوئے۔ اور بہت لوگوں کو اطمینان ہوا کہ شریعت کا فیصلہ ہوگیا۔ لیکن ہماری تنظیموں کے لوگوں نے فیصلے کو قبول نہیں کیا اور پھر بالآخر وہ ہوا11 ستمبر کے جو واقعات ہوئے اور نتیجے میں جو کچھ ہوا سب نے دیکھا۔ ان حضرات سے بات کی ملا صاحب سے تو جب سب سے میں نے بات کر لی۔ کمانڈو، وزراء اور شوریٰ کے لوگوں سے تو دو مہینے کے بعد میں آخری میٹنگ ملا صاحب سے تھی تاکہ میں سب کا حوالہ دے سکوں تو میں نے ملا صاحب سے کہا کہ میں پشتو سمجھ تو لیتا ہوں لیکن بول نہیں سکتا تو مجھے آپ لامحدود وقت دیں تاکہ میں کھل کر بات کرسکوں تو انہوں نے کہا کہ آپ فجر کی نماز میرے گھر پہ پڑھ لیں۔ تو فجر کی نماز ہم نے پڑھی انہی کیساتھ ۔ میٹنگ میں مفتی معصوم افغانی، طیب آغا، میں اور ملا صاحب۔ مجلس فجر کے بعد شروع ہوئی اور کوئی گھنٹے بعد ہم نے چائے پی جو افغانوں کا ناشتہ ہے بڑا سادہ سا۔ پھر میٹنگ ہوئی پھر ظہر کی نماز پڑھی، کھانا کھایاپھر میٹنگ ہوئی عصر کی نماز پڑھی۔ عصر کے بعد چائے کی پیالی پی پھر میٹنگ شروع ہوئی مغرب تک۔ تو فجر سے مغرب تک میں نے فقہی، شرعی، سیرت اور تاریخی حوالے سے تمام چیزیں ملا صاحب کو بتائیں کہ ساری تنظیمیں یہاں موجود ہیں تو ان کو باقاعدہ اس کا پابند کریں۔ تو الحمدللہ وہ اس پہ قائل ہوئے۔ پھر وہ کہتے تھے کہ ہمارا کوئی پروگرام نہیں باہر کسی ملک کو نقصان پہنچانے کا تو لوگ ہمیں کیوں نقصان پہنچائیں گے ؟۔میں نے کہا تھا کہ 14 سوسا ل بعد علماء کی حکومت آئی ۔ مجدد الف ثانی نے کوشش کی تھی۔افغانستان میں 70-60-50ہزار طلبہ علماء شہید ہوئے اتنی بڑی قربانی کی مثال نہیں۔ انگریز نے جو پھانسیاں دی تھیںوہ 35ہزار علماء تھے تو یہاں تو 70-60 ہزار علماء شہید ہوئے۔ تو یہ ختم ہو جائے گا آپ ان کو سنبھا لیں۔ یہ بیک گراؤنڈ ہے۔ یہ عرض کرنا چاہ رہا ہوں کہ طالبان کے بانی مؤسس امیر اول تھے اور انہی کے نام پہ سب کچھ چل رہا ہے، جب انہوں نے شرعی فیصلہ کیا اور سب کے دستخط ہوئے تو پھر کیا گنجائش ہے کہ آپ مخالفت کریں؟۔ ابھی جو کچھ وہاں سے زمین استعمال ہو رہی ہے یہ شریعت کے خلاف ہے جو فیصلہ خود طالبان کے امیر نے علما ء سے کروایا اور سب کے دستخط کے ساتھ اور وہ تحریر انکے پاس ہوگی ۔کیونکہ وہ تو بہت بڑی تحریر تھی تو یہ تحریر ان کے پاس ہوگی افغانستان میں کسی جگہ رکھی ہوگی اس کو جا کے دیکھ لیں اور اگر وہ نہیں ہے تحریر یعنی جنگوں میں کوئی چیز ضائع ہو جاتی ہیں تو جتنے نام میں نے بتائے ہیں وہ تو حیات ہیں پوچھ لیں ۔دوسری بات یہ کہ جو دوحہ میں معاہدہ کیا پوری دنیا کیساتھ تو معاہدے پر عمل کرنا فرض ہے۔ حضور اکرم ۖاور خلفائے راشدین صحابہ کرام نے 250 معاہدے کئے، کسی ایک معاہدے کی بھی خلاف ورزی نہیں کی اور معاہدے کی خلاف ورزی پر اتنی سخت وعیدیں ہیں کہ آپس میں اختلاف ہوگا اور مخالفت ہوگی اللہ دشمنوں کو باہر سے مسلط کر دے گا اور باقی جو آخرت میں اس کی سزا ہے دنیا میں سزا ہے اللہ تعالیٰ سمجھ دے۔ دعا کرتا ہوں کہ افغانستان میں سارے طالبان نہیں۔ حکومت میں وہ لوگ جو پاکستان میں جنگ کو صحیح جائز سمجھتے ہیں ان کو میں کہنا چاہتا ہوں کہ شریعت کا فیصلہ تو ہوا تھا اور ایک ہفتے کی مسلسل کتابیں دیکھنے کے بعد اور اس میں سب کے سائن ہوئے تھے اور اسکے اور بہت سارے گواہ مل جائیں گے تو میرے خیال میں ابھی بھی ان کو ایسے ہی کرنا چاہیے اور جیسے اس معاہدے کی خلاف ورزی پر افغانستان برباد ہوا تباہ ہوا اور 20 سالوں میں لاکھوں لوگ شہید ہوئے اور اس کی وجہ سے عراق بھی گیا شام بھی گیا لیبیا بھی گیا ابھی جو کچھ ہو رہا ہے دوبارہ پھر اسی کو دوہرارہے ہیں۔ اس سے پاکستان ،افغانستان ،امارت اسلامیہ ،شریعت کو بھی نقصان ہو گا،افغانوں اور مہاجرین اور انکے مستقبل کو انتہائی نقصان ہوگا۔ اس لیے افغانستان امارت اسلامیہ کے جو ذمہ دار لوگ ہیں ان کو اپنے شرعی فیصلے کا پاس کرنا چاہیے جو انہوں نے خود فیصلہ کیا۔
سوال:ہم دیکھ رہے ہیں کہ بڑی سطح پہ قتل عام ہے عام لوگ مررہے ہیں شہادتیں ہورہی ہیں علماء لپیٹ میں آرہے ہیں جنگ کا دائرہ کار پھیلتا چلا جارہا ہے تو ایک عالم دین مفتی اور جیسے آپ کا تجربہ رہا پوری زندگی کا تو آپ ہم دونوں حضرات کو اور اس فتنے کو ختم کرنے کیلئے کیا تجاوزدیں گے؟۔

مفتی عبد الرحیم: دیکھیں ہمارے بیشترعلماء کرام کا کلچر ہے پڑھنے پڑھانے کا اس میں ریسرچ نہیں۔ یہ بات نہیں پڑھائی نہیں جاتی کہ ریاست کے کیا احکام ہیں ریاست کی کیا ذمہ داری ہے۔ اور 200 سال سے علماء کرام بالکل الگ کیے ہوئے ہیں تو ان کو ریاست سے متعلق جو احکام ہیں وہ بار بار بتانے پڑتے ہیں ان کو جھنجھوڑنا پڑتا ہے پھر جا کر ان کو سمجھ میں آتا ہے حالانکہ وہ پڑھ رہے ہیں پڑھا رہے ہیں۔ در س نظامی میں ”ابواب السمع و الطاعہ ” ریاست کی بات کو دھیان سے سننا اور اطاعت کرنا یہ تو متواتر ہے اتنی زیادہ یہ کیا موجود نہیں ہے؟۔ کیا ریاست کے احکام موجود نہیں ہیں؟۔ کیاہمارے دین میں ائمة الجور کا باب نہیں کہ بخاری ومسلم شریف میں کہ اگر حکمران ظالم ہوں تو تمہیں کیا کرنا ہے صراحتا ًنبی کریمۖ کے ارشادات موجودہیں۔ کیا فتنوں سے متعلق ابواب الفتن موجود نہیں کہ فتنے آئیں گے اور وہ کس کس شکل میں ہوں گے اس میں قتل و قتال ہے، ریاست کے خلاف بغاوت ہے ،خوارج کی علامتیں بھی ہیں اور بہت ساری چیزیں ہیں، فساد فی الارض کا ذکر ہے۔ جو علامات قیامت ساری صحاح الستہ میں ہیں لیکن ہمارا نظام 200سال سے اس قسم کا ہے کہ باقاعدہ جو پریکٹس میں نہ ہو اور اصول ضوابط جو کتاب میں ملتی ہیں کہ ڈرائیونگ کے اصول آپ زبانی یاد کر لیں گاڑی آپکے پاس نہ ہو آپ کو کہا جائے گا؟۔ تو میں سمجھتا ہوں علماء کرام اس حوالے سے معذور ہیں کہ ہماری حکومتوں نے علما ء کو دور کر دیا تو وہ ابواب جن کا تعلق ریاست،جہاد کے احکام سے تھا ہمارے علماء براہ راست اسکے متعلق رہے ہی نہیں اسلئے انکے پاس سنی سنائی معلومات ہیں۔ دوسری بات یہاں چیزیں اس انداز سے چلائی گئی ہیںکہ سیاست اور اپنے ذاتی مفادات، معلومات اور نظریات خلط ملط ہو گئے ہیں کہ اس پر بات کرنا بہت ضروری ہے۔ میں 20-15سال سے اس پر بات کر رہا ہوں جب بھی علما ء سے بات کی تو انہوں نے میری بات کو کہا کہ آپ صحیح کہتے ہیں۔ مثال بتا دیتا ہوں ایک دفعہ دارالعلوم کراچی میں میٹنگ ہوئی۔ مفتی رفیع عثمانی ، مفتی تقی عثمانی اور حنیف جالندھری اور بھی دو تین حضرات تھے، میں نے اسی موضوع پہ بات کی تومولانا رفیع عثمانی نے مولانا تقی عثمانی سے کہا کہ مفتی صاحب نے آج ہماری آنکھیں کھول دیں اور ہمیں ایک لمبی میٹنگ کرنی چاہیے انکے ساتھ۔ تو میں نے عرض کیا کہ اگر 10بڑے حضرات مل جائیں اور ہم کھل کر بات کر لیں یہاں کے حالات اورمسائل پر تو اسکے بعد پھر یہ 2009یا 10کی بات ہوگئی، جامعہ اشرفیہ میں اجلاس ہوا تین دن تو وہ آف دی ریکارڈ تھا کمرے میں ہم 10 لوگ تھے مولانا فضل الرحمن، مولانا سمیع الحق، مولانا سلیم اللہ خان ، مولانا تقی، مولانا رفیع، مولانا عبد الرزاق اسکندر، حنیف جالندھری، مفتی کفایت اللہ بھی تھے جمعیت کے۔ تین دن اسی موضوع پر بات ہوئی اور بہت تفصیل سے میں نے افغانستان ، عراق اور سب چیزیں بتائیں کہ جوہورہی ہیں نوجوانوں میں اور یہ بازاروں میں دھماکے ہوں گے سب ہمارے ذمے پڑے گا اورمدرسوں کو بہت نقصان ہوگا۔ تو ان لوگوں نے بہت شکریہ ادا کیا تو میں نے جب بھی بات کی ہے علماء کرام سے تو کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ آپ غلط کہہ رہے ہیں، بلکہ صحیح کہہ رہے ہیں توعلماء کرام سے اگر باقاعدہ کھل کر بات چیت کی جائے اور ان کو خوف نہ ہو، تھوڑے اپنے خوف سے نکلیں۔ خوف کس چیز سے؟۔ ان کو اپنے طلبہ سے خوف ہے کہ اگر ہم نے کہہ دیاکہ یہ بغاوت ہے یہ خوارج ہیں یہ مفسدین ہیں اور انکے اوپر وہی احکام جاری ہونے چاہئیں تو بہت سے طلبہ ایسے ہیں جو متاثرین میں سے ہیں تو ان کی طرف سے کیا رد عمل ہوگا؟۔پھر دوسری بات یہ کہ جو لوگ یہاں لڑ رہے ہیں انکے پاس فوجی طاقت اتنی ہے کہ کتنے علماء کو انہوں نے شہید کیا ۔مولانا حسن جان نے 55 مرتبہ بخاری پڑھائی اس کو شہید کیا۔ مولانا معراج الدین اتنے بڑے عالم تھے ان کو شہید کیا،مولانا نور محمد کو شہید کیا جو پاکستان میں پہلے عالم تھے جنہوں نے جہاد پر کتاب لکھی، پہلا شخص وانا والے بڑی جہادی زندگی گزری ہے ان کی۔ ابھی مولانا حامد الحق کا واقعہ ہوا کتنا افسوسناک ہے کہ عالم دین کو مدرسے میںوہ مدرسہ جس کی تاریخ ہے اور نام اتنا بڑا ہے اسلامائزیشن، جہاد، اس ملک کی خدمت کے حوالے سے کہ آپ کا سر نیچا ہو جائے گا سن کر۔ تو وہاں ان کو شہید کیا۔ ابھی مفتی شاہ میر دارالعلوم کراچی اور بنوری ٹاؤن کے فاضل تھے اور افتاء جامعة الرشید سے کیا تھا ان کو نماز کے اندر شہید کیا۔ مفتی فرمان اللہ کو ابھی کرم میں شہیدکیا اور بھی بہت سارے علما ء کو شہید کیا جارہا ہے۔ یہ خطرناک ہے تو ہمیں کھل کر بات کرنی چاہیے اور انکے نظریات پر ہمیں بات کرنی چاہئے۔ ان نظریات کے مقابلے میںمولانا فضل الرحمن اگر آجائیں تو ان پر چار خود کش حملے ہوئے اب تک اللہ نے بچایا ہے ان کو۔ قاضی حسین احمد پرخودکش ، مولانا عبدالغفور حیدری پر حملہ ہوا، حاجی عبدالوہاب، مولا طارق جمیل ، قاری حنیف جالندھری اورمولانا تقی عثمانی کو دھمکیاں دی گئیں۔ تو وہ نظریہ ہے جو مائنڈ سیٹ ہے اس کیلئے مولانا طارق جمیل ہوں، کوئی بہت بڑا بزرگ ہو، شیخ الاسلام ہو، مفتی اعظم ہو ، مسجد ہو ،مدرسہ ہو ،کوئی سجدے میں ہو، تفسیر پڑھا رہا ہو ، جمعہ ہو، یا رمضان ہو، لیلة القدر ہو، وہ سب کا خون مباح سمجھتے ہیں۔ آپ حیران ہوں گے ، اگلی دفعہ مستقل بات کر لیں 22احادیث ہیں اس بارے میں۔ تو ان کو کون بیان کرے گا؟۔ اب تو یہ جنگ یہاں تک پہنچ گئی۔ اسلئے میں سمجھتا ہوں کہ نظریات پر بات کرنی چاہیے اور جب اس پہ بات کریں گے تو آپ کو احادیث قرآن کی آیتیں اور پوری سیرت تاریخ اور تمام فقہی حوالے اور عقائد کی کتابیں آپ کو مل جائیں گی۔

سوال: 11 ستمبر کا واقعہ اس معاہدے کے فوراً بعد ہوا تو ملا صاحب کا کیا ریکشن تھا؟۔ جو شیخ اسامہ یا وہ جو ایک پوری خلاف ورزی ہوئی توپھر ؟۔

مفتی عبد الرحیم: ان کو اندازہ تھا ۔ دلیل یہ ہے کہ انہوں نے شوریٰ کے ساتھی ملا عبدالقیوم شہیدکو بھیجا میرے پاس کہ ایسی اطلاعات ہیں کہ سنگاپور کی طرف ان عرب کا پروگرام ہے تو تحقیق کرنا چاہتا ہوں تو آپ کے پاس وسائل ہیں اگر ملا عبد القیوم کو وہاں تک بھیج دیں تو بہت آپ کی مہربانی ہوگی۔ اورملاعبد القیوم نے مجھے بتایا کہ ملاعمر بہت زیادہ پریشان ہیں کہ اس فیصلے کو قبول نہیں کیا انہوں نے اور مجھے اطلاعات مل رہی ہیں کہ سنگاپور میں کچھ چیزیں ہو رہی ہیں۔ تو ضیاء الدین ہاکی کے پلیئر تھے نا۔ نام اسلئے بتا رہا ہوں تاکہ پتہ چل جائے۔ تو انکے بھائی علاء الدین ہمارے حضرت سے بیعت تھے ، ضیاء الدین بھی حضرت کی مجلس میں آتے تھے اور مولانا راحت علی ہاشمی کے ضیاء الدین بہنوئی ہیں۔بڑا اچھا خاندان ہے ماشااللہ، میں نے ان کو بلایا اور کہا کہ آپ لوگ سنگاپور میں کام کرتے ہیں تو یہ مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا بالکل ٹھیک ۔تو ضیاء الدین خود گئے ملا عبدالقیوم کو ساتھ لے کر۔ پھر کیا ہوا نہ پوچھا کہ کوئی چیز ملی نہیں ملی ،بیچ میں شیخ نے پیغام بھیجا، تو میں گیا شیخ کے پاس ، بالمشافہ ان سے بات کی۔ تو اس نے کہا کہ میں پریشان ہوں کہ مجھے ملا عمر نے بالکل بٹھا دیا، تو میں نے اتنی بڑی قربانی بیٹھنے کیلئے تو نہیں دی تھی۔ تو میں ملا صاحب سے ملا اور مولانا مسعوداظہر بھی میرے ساتھ تھے۔ تو ہم نے جا کے ملا صاحب سے بات کی کہ اس طریقے سے وہ بہت پریشان ہو رہا ہے تو ملا صاحب نے کہا کہ سب نے مل کر شریعت کا فیصلہ کیاشریعت کے آگے سر جھکانا چاہیے۔ تو ان کا خیال یہ تھا کہ جہاد فرض عین ہے اپنے طور پر اور فرض عین کیلئے اب نماز پڑھنے کیلئے میں ملا عمر سے پوچھوں؟۔ لیکن یہ غلط تھا کیونکہ چاروں فقہوں میں جہاں ریاست کا نظم ہو وہاں انفرادی یا گروپ کیلئے اجازت نہیں کہ کسی ملک میں حملہ کرے۔پوری ہماری اسلامی تاریخ میں اس کی کوئی مثالیں موجود نہیں ہیں۔

سوال: یہاں اقدامی جہاد کی بات ہو رہی ہے یعنی وہ اقدامی جہاد کو بھی فرض عین … کیونکہ جہاد تو ویسے بھی طالبان نے کیا ہی ہے وہ دفاع میں تھا۔

مفتی عبد الرحیم: اس پر بھی الگ بات کرنے کی ضرورت ہے کہ جہاں ریاست موجود ہو تو وہاں اقدامی ہو یا دفاعی ہو ؟۔تو وہ ایک جو نظم بنا ہوا ہے ان کے ذمے ہوتا ہے۔ کیا پاکستان میں کسی کرنل کو کسی جنرل کو اپنے طور پہ اختیار ہے کہ وہ جا کے جنگ چھیڑ دے؟۔ جنگ کوئی معمولی چیز تو نہیں ہے؟۔ تو اتنی بڑی بڑی ہماری خلافتیں گزری ہیں تو ایک باغی کس کو کہتے ہیں؟۔ تو باب البغا کو دیکھ لیں نا وہاں سارے احکام موجود ہیں اس پر میں آگے چل کے پھر بات کروں گا کہ ان کو ہم کیا کہیں گے۔ چونکہ میرا آنا جانا بہت زیادہ تھا۔ باقی کوئی حنبلی تھا کوئی سلفی تھا ،شیخ عبد الولید مصری حنفی اچھے صحافی اور نائب ثانی تھے انکے ۔تو میں ویسے چلا گیا کابل میں انکے گھراور کہا سناہے آپ ناراض ہو کر آگئے ہیں؟ اس نے کہا کہ جب آپ نے یہ فیصلہ کیا تو کچھ دن بعد میری 7-6سال کی بیٹی کو خواب میں زیارت ہوئی نبی کریمۖکی اور فرمایا کہ اسامہ سے کہو کہ ملا عمر کے ہاتھ پر بیعت کرے۔ تو میں نے شیخ کو بتایا جبکہ میری بیٹی کو پتہ نہیں اور نبی ۖکی حدیث من رآنی فقد رانی فان الشیطان لا یتمثل بی ”جس نے مجھے دیکھا اس نے مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان کو قدرت نہیں کہ میری شکل اختیار کرے”۔ تو میں نے شیخ سے کہا کہ آپ بیعت کریں تو اس نے کہا ٹھیک ہے ۔پھر میری بیٹی نے یہ خواب دیکھا اور تیسری مرتبہ یہ خواب نظر آیا تو میں دوپہر میں گیا اورشیخ کو سوتے میں جگایا اور کہا کہ تیسری مرتبہ کے بعد میرے پاس گنجائش نہیں، آپ کو چھوڑ دوں گا۔ تو انہوں نے کہا کہ میں کر لوں گا پھر نہیں کی تو میں وہاں سے واپس آیا۔ شیخ عبدالولید ابھی حیات ہیں وہ تہران میں رہتے ہیں اور ان سے رابطہ کر کے کوئی پورا پتہ لگا سکتا ہے اب بچی کافی بڑی ہو گئی ہوگی۔

سوال: اکثر آپ سے سنتے ہیں کہ لیبیا شام، عراق یہ تو دور کی باتیں ہیں جو اتنی ریاست ریاست ریاست تو ایک ہماری بالکل پڑوس کی ریاست جس نے اتنی مشکلوں سے اپنا وجود پایا اور وہ ایک بغاوت کی نظر ہو گئی اگر میں یہ کہوں تو غلط نہیں ہوگا ۔

مفتی عبد الرحیم: یہ بغاوت نہ تھی صحیح لفظ ہمیں استعمال کرنا چاہیے۔ جو ریاست سے لڑے اس کو باغی کہیں گے اگر ریاست کی اطاعت نہیں کی تو یہ نافرمانی کی۔ یہ اجتہادی معاملہ ہے جو فرض عین سمجھتا تھا تو اتنی گنجائش آپ ان کو دے سکتے ہیں۔ چیچنیا کی پہلی جنگ میں ان کو فتح حاصل ہو گئی تھی تو اسکے بعد دوبارہ جنگ ہوئی تو زیلم خان بانی تھے تو میرا ان سے رابطہ تھا ۔میں نے کہا کہ افغانستان تشریف لائیں ۔اس نے کہا: آذر بائیجان آجائیں تو میں نے کہا میں نہیں آ سکتا ،آپ یہاں آجائیں، تو افغانستان آئے تو میں نے پوچھا کہ یہ جنگ کیسے شروع ہوئی؟۔ اس نے کہا کہ ہم نے جنگ لڑی جو آزادی کی تحریک تھی اور جوہردودایوف تو میرے کہنے پر آئے جو جنرل تھے فوج میں۔ 15 ہزار مربع کلو میٹر کا علاقہ اور جن سے لڑائی تھی وہ1 کروڑ 71لاکھ مربع کلومیٹر ۔اور اللہ نے ہمیں فتح عطا فرمائی ۔ وہاں ادارے بننا اور اسکول کھلنا شروع ہو گئے سب چیزیں۔تو عرب مجاہدین کے کمانڈر عمر خطاب نے کہا کہ ہماری فتح ہو گئی ،روسیوں کو ماریں گے۔ ہم نے بہت سمجھایا کہ اتنی مدت کے بعد ہمیں آزادی ملی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ انکے گھر میں ہم ماریں گے۔ غالبا 1995-94میں پھر ایک گاڑی بارود سے بھری ماسکو میں خودکش حملہ کیا400 سے زیادہ روسی مارے گئے۔ رد عمل میں انہوں نے چڑھائی کی اور دوبارہ قبضہ کیااور ابھی تک۔ تو یہ وہ زخم ہے جو شریعت و جہاد کے احکام کی معلومات نہ ہونے کی وجہ سے جذباتیت سے چیزیں ہورہی ہیں اور جب تک بندوبست نہ ہوگا تو یہ چیزیں نکلتی رہیں گی اور مسلمان ریاستوں کو نقصان پہنچتا رہے گا۔

قومی اسمبلی اجلاس میں شیرافضل مروت نے کہا کہ فلسطینیوں نے جو پاکستان میں رہتے ہیں مظلوم فلسطینیوں کیلئے NGOکھولی لیکن میزان بینک سمیت سب نے اکاؤنٹ کھولنے سے منع کردیا۔
٭٭٭

تبصرہ نوشتہ ٔ دیوار
سید عتیق الرحمن گیلانی

مفتی عبدالرحیم کا انٹرویو تین اقساط میں آگیا۔ ا شیخ اسامہ اور ملاعمر کے درمیان مصالحت، فیصلے اور جنگ میں بنیادی کردار مفتی صاحب کارہا۔ ایک طرف شرعی فیصلے پر پانچوں فقہ حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی اور سلفی متفق کہ حکومتی نظم ہو توانفرادی گروہ جہاد نہیں کرسکتا، دوسری طرف شیخ اسامہ کی خلاف ورزی بغاوت نہیں اجتہادی خطا تھی، طالبان کا امریکہ کیخلاف دفاعی جہاد نہ تھا اسلئے حکومتی نظم تھا۔

مولانا سمیع الحق، مولانا فضل الرحمن، مولانا سلیم اللہ خان 10علماء کو یہ سمجھانا کہ جوان بازاروں میں دھماکے کرینگے اور مدارس کا نقصان ہوگا۔ جس پر جاہل اکابرنے مفتی عبدالرحیم کا شکریہ ادا کیا اور طالبان پر خوارج مفسدین کے احکام جاری ہوتے تھے مگر علماء کواپنے طلبہ سے رد عمل کا خوف تھا؟۔

علماء نے 2018ء میں فتویٰ دیا، جب جنرل راحیل شریف و جنرل قمر باجوہ نے امن قائم کیا ۔ وزیرستان کی کہاوت ہے: داموتے مے دیر پوتے خو چہ نورے نہ کہ موتے ۔”جو برتن تم نے توڑ دئیے ہیں وہ تو میں چھوڑ دیتا ہوں لیکن مزید مت توڑدو”۔ امریکہ کی جنگ میں مسلمان مارے گئے۔ اسرائیل کے نام پر دوبارہ کوئی کھیل نہیں کھیلا جائے۔مفتی عبدالرحیم کے انٹرویو میں خطرناک تضادات موجود ہیں۔ جس سے علماء کی حیثیت زیرو اور TTP اور بلوچ قوم پرستوں کو بڑی تقویت ملے گی۔یہ انتہائی جاہلانہ سازش کی عکاسی بھی ہے۔

پاکستان کی ریاست کا ایک قانون ہے اور وکیل اپنے اپنے کلائنڈ کے حق میں مخالف کے مقابلے کی دلیل نکالتے ہیں۔ انگریز کے دور سے موجودہ دور تک اس میں اصلاحات کی بجائے پیچیدگیاں ڈالی گئی ہیں اور جہاں صفائی کیساتھ کوئی بات تھی تواس کو بھی دھندلا کردیا گیا ہے۔ مثلاً پاکستان کا آئین پاک فوج کے سربرہ کے ایکسٹینشن کی گنجائش نہیں دیتا تھا لیکن فوج سے متعلق ایک دفعہ تھا کہ اگر کوئی فوجی ریٹارئرڈ تھا اور پھر اس پر کوئی جرم ثابت کرنا ہو تو اس کو نوکری پر بحال کرکے فوجی ڈسپلن کے تحت سزا دی جائے گی۔ اس دفعہ کے تحت کسی آرمی چیف کو ایکسٹینشن دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

لیکن جنرل ایوب ، جنرل ضیائ،جنرل پرویز، جنرل اشفاق تک اسی قانون کے تحت ایکسٹینشن دی گئی۔ نواز شریف نے زرداری کی مخالفت کی تھی کہ فوجی جرنیل کو ایکسٹینشن دینا انتہائی غلط بات ہے اور مسلم لیگ ن کبھی اسکی حمایت نہیں کرے گی۔

پھر عمران خان نے جنرل قمر جاوید باجوہ دامت برکاتہم العالیہ کو ایکسٹینشن دی تو کسی کم بخت نے کہا کہ آئین میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔ کورٹ میں اس کے خلاف پٹیشن داخل کردی۔ جس طرح جب پارلیمنٹ کااجلاس کوئی ڈھبر ڈوس کرنا چاہتا ہے تو وہ کورم پورا نہ ہونے کی نشاندہی کردیتا ہے اور تعداد پوری نہ ہونے پر اجلاس ملتوی ہوجاتا ہے۔ حالانکہ اگر معلوم ہونے کے باوجود اس کی نشاندہی نہیں ہو تو اجلاس چلتا ہے اور قانون سازی بھی ہوجاتی ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے مسجد کا امام پاد یا پوسی مار دے اور جب تک کوئی نشاندہی نہ کرے تو نماز چلتی رہے۔ اس سے عوام کو معاملہ سمجھنا آسان ہوگا۔

بعض لوگوں نے یہ مسائل گڑھ رکھے ہیں کہ اگر شوہر بیوی کو تین طلاق دے اور لوگوں میں تشہیر نہیں ہو تو پھر طلاق نہیں ہوگی۔ بعض دلے بے غیرت وہ ہیں کہ باپ نے اس کی بیوی کو ہاتھ مارا ہو مگر جب تک اس کا بھانڈہ نہ پھوڑا جائے تو وہ شریعت پر عمل کرکے بیوی چھوڑتا ہے اور نہ بے غیرت باپ کو وہ کچھ کہہ سکتا ہے۔ معاشرے میں المیہ چلتا ہے۔

خیر جب جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف ایک نشاندہی ہوگئی تو پھر اس پٹیشنر نے اپنی پٹیشن واپس لے لی لیکن چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان ڈٹ گیا کہ اب بال میری کورٹ میں ہے ۔ اس پر پارلیمنٹ قانون سازی کرے۔ عمران خان، نواز شریف اور زرداری نے منٹوں میں بھاری اکثریت سے قانون سازی کرکے ایکسٹینشن دی۔

موجودہ حکومت نے آرمی چیف کو متفقہ آئین کے تحت 3سال کی ایکسٹینشن دینے کے بجائے بہت ہی متنازعہ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت بھی مدت ملازمت نہیں بڑھائی بلکہ اس کے بعد متنازعہ ترین قرار داد کے ذریعے 2سال کا اضافہ کردیا۔ سوال یہ ہے کہ جنرل سید حافظ عاصم منیر نے دباؤ ڈالنا تھا تو 3سال تک مدمت ملازمت میں اضافہ کراتے؟ اور آزمائش کی آواز بھی ایک ، دو، تین ہوتی ہے لیکن ایک اور دو تک کیوں؟۔ وہ بھی متازعہ قانون کے تحت ؟۔ صحافی احمد نورانی جسکے دو بھائی اغواء ہوئے تھے ۔ اس نے بھی کہا کہ یہ اضافہ فوج کی خواہش پر نہیں ہوا تھا بلکہ فوجی قیادت نے مخالفت کی تھی اور یہ صرف نوازشریف کی ضد تھی اور اس کے نتیجے میں یہ اضافہ کیا گیا ہے۔

اس لمبی تمہید کا مقصد یہ ہے کہ جو لوگ پارلیمنٹ اور قانون کی بادلاستی کا راگ الاپتے ہیں تاکہ ان کو گدھے کی اس بلبلوں کی مانند جعلی دُم کا پتہ چلے کہ کس طرح ہوائی فائرنگ سے یہ اُڑتی رہتی ہے؟۔

اب آتے ہیں مفتی عبدالرحیم کے انٹرویو کا ذکر خیر کرتے ہیں۔ ایک طرف اسامہ بن لادن نے نہ صرف شریعت کے متفقہ بلکہ اپنے فیصلے کی بھی بہت بڑی نافرمانی کردی اور دوسری طرف رسولۖ کا خواب میں آنا بھی بار بار نہیں مانالیکن چونکہ اسامہ کو آزادی دلانے میں مفتی عبدالرحیم بھی کچھ نہ کچھ اپنا کردار ادا کررہاتھا اسلئے اس کا وہ اقدام جس نے افغانستان ،عراق، لیبیا اور پاکستان کا بیڑہ غرق کیا لیکن اسکے باوجود چونکہ وہ اس کو فرض عین سمجھتا تھا اور اس پر بغاوت نہیں اجتہادی خطا کا اطلاق ہوتا ہے ۔ جیسے چیچنیا نے روس کے خلاف جنگ آزادی لڑی اور ٹھیک تھی مگر عرب مجاہد عمرخطاب نے روس پر حملہ کرکے دوبارہ معاملہ خراب کردیا تھا۔

مفتی عبدالرحیم کشمیری مجاہدین کیلئے بھی راستہ نہیں نکال سکے۔ جب امریکہ کی افغانستان میں حکومت تھی تو بھی اس نے طالبان کے جہاد کو جہاد کہنے سے متفقہ فیصلے کی وجہ سے انکار کردیا اسلئے کہ وہاں ایک حکومتی نظم بہر حال موجود تھا۔ جس کی مفتی عبدالرحیم نے تفصیل سے وضاحت کرے گا۔

TTP اور بلوچ قوم پرست مفتی عبدالرحیم کے انٹرویو سے کیا سبق لیں گے کہ متفقہ فیصلے کے بعدجو اسامہ بن لادن جہاد کو فرض عین سمجھتا تھا اور چیچن کا حریت پسند آزادی کیلئے لڑاتو ان پرکیا حکم ہوگا؟۔

مفتی عبد الرحیم نے ایک چھوٹی بچی کو خواب کے ذریعے رسول اللہ ۖ کا پیغام بار بار شیخ اُسامہ تک پہنچانے کا ذکر کیا ہے۔ کیا رسول اللہ ۖ اُسامہ کو براہ راست خواب میں حکم نہیں فرماسکتے تھے؟۔

جب 9/11کا واقعہ ہوا تو بنوں کے ایک مجاہد نے خواب دیکھا کہ رسول اللہ ۖ نے امریکہ کو تباہ کرنے کی اللہ سے فریاد کی ہے۔ ہم نے اسی وقت خصوصی شمارے کی مین لیڈ بنائی تو پہلے علماء نے اس کو کہا کہ تم سستی شہرت چاہتے ہو، پھر بالوں والے اٹھاکر لے گئے کہ اگر پھر تم یہاں نظر آئے تو تمہاری خیر نہیں۔بلیک واٹر کا کمال تھا کہ ڈھائی ہزار امریکی 20سال میں مرے اور لاکھوں افغانی اور ہزاروں پاکستانی شہید ہوئے مگر پھر بھی وہ شکست کھاگئے ؟

آرمی چیف سید عاصم منیر کے بارے میں کہا جاتاہے کہ شروع سے دہشتگردوں کے سخت مخالف تھے۔ پہلی مرتبہ DGISIایک PHDڈاکٹر ہیں جو ان کی خواہش پر اس منصب پر لائے گئے ہیں۔

مفتی عبدالرحیم ریاستی حقوق کا درست حوالہ دیتا ہے لیکن اس سے مراد غلط لیتاہے۔ حضرت علی نے خوارج کا فرمایا کہ ”بات ٹھیک کہتے ہیںلیکن اس سے مراد غلط لیتے ہیں”۔ رسول اللہ ۖ نے بجا حکم فرمایا کہ حکمرانوں کی سنو اور اطاعت کرو، اگرچہ وہ تیرامال لوٹ لیں یا پھر تیرے پیٹھ پر کوڑا ماریں۔

مفتی عبدالرحیم اس سے یزید ، حجاج بن یوسف اور بنوامیہ وبنوعباس کے ظالم حکمرانوں کی فضیلت اور شرعی حق کو بیان نہیں کریں بلکہ اس کو مصلحت اور اپنی عزت بچانے کیلئے کارگر نسخہ کے طور پر پیش کریں۔ کیونکہ جس حکمران دلے اور بے غیرت میں اتنا کمینہ پن ہو کہ لوگوں کا مال بھی لوٹیں اور ان کی پیٹھ پر کوڑے بھی برسائیں تو ان سے عزتوں کو لوٹنے کے بھی خدشات بعید از قیاس نہیں ہوتے۔

جبرمیں کلمہ کفر کی بھی جائز ہے۔ اگر علماء احساس کرلیں کہ اگر اللہ اکبر کی جگہ العسکراکبر نہیں کہا تو جان ومال اور عزتوں کا خطرہ ہے تو کلمہ کفر بکنا جائز ہے جب اس کا دل ایمان پر مطمئن ہومگر اس کی وجہ سے شریعت کو بدنام کرنا بھی انتہائی حماقت ہے۔

علماء و مفتیان اگر فوج اور اسلام کے سر پر ٹوپی رکھنے کے بجائے خود کو سدھاریں تو بہت اچھا ہوگا۔ عوام کو شریعت کے نام پر دھوکے میں نہ رکھیں اور اس کیلئے ہم بار بار ٹھوس رہنمائی کررہے ہیں۔

اگر دیکھا جائے تو کسی میدان میں ہمیں وہ پیچھے نہیں پائیںگے۔ سیاست و شریعت، جہاد و تصوف کو ہم نے ان سے زیادہ قریب سے دیکھا ہے۔

اگر قادیانی ، شیعہ، اہلحدیث، پرویزی اور تقلید کے سارے فتنوں کو مات دینی ہے تو قرآنی آیات کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن جب آخری سال مالٹا سے رہا ہوئے تو قرآن کی طرف توجہ دینے کی بات کردی لیکن تھانوی اور مدنی گروپ اتنے پھیل چکے تھے کہ اس تجویز پر عمل کہاں ہوسکتا تھا؟۔ پھر شیخ الہند کے شاگرد مولانا انور شاہ کشمیری نے عمر کے آخری حصہ میں فرمایا کہ ”میں نے قرآن و حدیث کی کوئی خدمت نہیں کی ہے بلکہ فقہی مسالک کی وکالت میں زندگی تباہ کی” لیکن آخری عمر میں کیا ہوسکتا تھا؟ ۔ پھر مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع نے آخری عمر میں اپنے استاذ شیخ کشمیری اور استاذالاساتذہ شیخ الہندکے اقوال کو نقل کیا تاکہ خاتمہ بالخیر ہوجائے۔

عرب خلافت وامارت اور گورنری پر لڑمررہے تھے اور بقول علامہ امین مصری کے دیار غیر سے آنے والے عجم نے مسند علم کو سنبھالا۔ امام ابوحنیفہ ، امام بخاری، مسلم، ترمذی، ابن ماجہ، نسائی ،ابوداؤد صحاح ستہ کے مصنف عجم تھے۔ فقہ وحدیث اور تفسیر کے ذریعے دین ہم تک پہنچا۔ قرآن کو براہ راست نہیں دیکھا اور ترجمہ وتفسیر میں مختلف مسالک کا بہت بڑا ملغوبہ تھا جس کو دین کا نام دیا گیا ہے۔

پاکستان اور دنیا کے آئین میں تضاد ہوسکتا ہے اور بخاری کو اللہ کی کتاب کے بعد صحیح ترین کتاب کا درجہ دیا گیا ہے لیکن اس میں بھی بہت تضادات ہیں اور تضادات بھی چھوٹے چھوٹے نہیں بلکہ بہت ہی بڑے بڑے تضادات ہیں۔ مثلاً یہ بھی ہے رفاعہ القرظی نے اکٹھی تین طلاقیں دیںاوریہ بھی کہ الگ الگ تین طلاقیں دیں۔ یہ بھی کہ حرام کا لفظ تیسری طلاق ہے جس کے بعد رجوع کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ بھی حرام کالفظ کوئی طلاق نہیں اور نہ اس کا کفارہ ہے اور کچھ بھی نہیں۔ یہ بھی ہے کہ رسول اللہۖ کی مکی زندگی بعثت کے بعد13سال اور مکی زندگی 10سال تھی اور یہ بھی کہ مکی دور بھی10سال اور مدنی دور بھی 10سال۔ کئی تضادات موجود ہیں ۔

أفلا یتدبرون القرٰٰن ولوکان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافًا کثیرًا ”کیا قرآن پر غور نہیں کرتے؟اگر یہ اللہ کے علاوہ کسی کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت تضادات پاتے”۔

رسول اللہۖ ، ابوبکر اور عمر کے ابتدائی دور میں اکٹھی تین طلاق ایک تھی ۔ پھر حضرت عمر نے ایک ساتھ تین طلاق پر تین کا فیصلہ جاری کردیا۔

اس روایت کے پس منظر میں روافض نے عمر کے خلاف توپوں کے دھانے کھول دئیے کہ قرآن وسنت کے خلاف طلاق بدعت ایجاد کرلی۔ شافعی مسلک نے زور لگادیا کہ یہ طلاق سنت ہے۔ حنفی و مالکی مسلک نے اس کو طلاق بدعت قرار دیا لیکن یہ ثابت کرنے کے پیچھے ہاتھ دھوکے پڑگئے کہ ایک ساتھ تین طلاق بدعت ہیں مگر واقع ہوجاتی ہیں۔

فرقہ واریت کا خمار شراب کے نشے سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ بریلویوں نے مولانااشرف علی تھانوی کا ماموں ڈھونڈ نکالا۔ ”ماموں صاحب بولے کہ میں بالکل ننگا ہوکربازار میں نکلوں،اس طرح ایک شخص تو آگے سے میرا عضو تناسل کو پکڑ کر کھینچے اور دوسرا پیچھے سے انگلی کرے ،ساتھ میں لڑکوں کی فوج ہواور وہ یہ شور مچاتے جائیں بھڑوا ہے رے بھڑوا ،بھڑواہے رے بھڑوا،اس وقت میں حقائق ومعارف بیان کروں کیونکہ ایسی حالت میں کوئی گمراہ تو نہ ہوگا سب سمجھیں گے کہ کوئی مسخرہ ہے ۔ (ملفوظات حکیم الامت: جلد9صفحہ212)

بریلوی مکتب کے مفتی کامران شہزاد نے اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی کی تائید کردہ کتاب کا حوالہ دیا کہ ” اس میں لکھا ہے کہ ایک پیر نے اپنا عضوتناسل نکالا، جو ایک ڈیڑھ گز لمبا ہوا۔ پھر مرید کی اس سے پٹائی لگادی ،پھر غائب ہوا”۔

شیعوں کی بھی انتہائی خطرناک بکواسات ہیں۔

یہ سب قرآن کو چھوڑنے کا نتیجہ ہے۔ اگر مسلم کی روایت کو قرآن پر پیش کرتے تو حضرت عمر کے فیصلے کی بھی تصدیق ہوجاتی اور امت مسلمہ اختلاف کا شکار بھی نہیں بن جاتی۔ آیت228البقرہ میں طلاق والی عورت کو عدت کے تین ادوار تک انتظار کا حکم ہے اور اس میں اصلاح کی شرط پر شوہر کو رجوع کا زیادہ حق دار قرار دیا ہے۔ حضرت عمر نے قرآن کے عین مطابق فیصلہ کیا اسلئے کہ عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی اور قرآن میں صلح واصلاح شرط ہے۔

جب عورت رجوع کیلئے راضی ہو تو تین طلاق ایک شمار ہوتی ہے اسلئے کہ روزے کی طرح عدت کا ایک مرحلہ ایک مرتبہ کی طلاق ہے۔ دوسرا مرحلہ پھر دوسرے مرتبہ کی طلاق ہے اور تیسرامرحلہ تیسرے مرتبہ کی طلاق ہے۔ جب شوہر عدت میں روزے کی طرح عورت سے پرہیز کرتا ہے تو یہ طلاق کا فعل ہے۔ عدت کے تین مراحل میں تین مرتبہ کی طلاق قرآن اور احادیث صحیحہ میں بالکل واضح ہے۔ اور باہمی اصلاح کی شرط پر رجوع بھی واضح ہے۔

حضرت علی کے دور میں شوہر نے بیوی سے کہا کہ مجھ پر حرام ہو۔ عورت رجوع نہیں کرنا چاہتی تھی تو علی نے عمر کی طرح فیصلہ دیا کہ رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ دونوں کا فیصلہ قرآن کے مطابق تھا۔ علامہ حسن آلہ کاری دنیا بھر کی بکواس کرتا ہے مگر کہتا ہے کہ حضرت علی سے امام غائب تک قرآن غائب کیا گیا ہے۔ ارے جب قرآن ہی غائب ہے تو ماں کی قبل سے نکلے ہو اور دبر میں چلے جاؤ۔ پھر کیوں تم لڑانے کیلئے کتابوں سے بکواس کرتے ہو؟۔

علامہ شہنشاہ حسین نقوی نے ارشاد بھٹی سے کہا کہ حضرت علی نے قرآن کی تفسیر کی اور امام غائب کے پاس وہی ہے۔ تفسیر میں متشابہ آیات کی تفسیر ہو تو زمانہ بھی یہ کام کررہاہے لیکن محکمات کی تفسیر قرآن خود کرتا ہے۔ طلاق کے مسئلہ پر شیعہ سنی بیٹھ جائیں اور قرآن کے عین مطابق اللہ کی ہدایت پالیں۔

طلّق وجہہ اس کا چہرہ خوشی سے کھل گیا۔ اتکلم العربیة بالطلاقة میں کھل کر عربی بولتا ہوں اور انتم طلقاء تم آزاد ہو۔ طلاق بری بلا نہیں۔

اللہ نے فرمایا: ”یا ایھا النبی اذا طلقتم النساء فطلقوھن لعدتھن اے نبی! جب تم لوگ عورتوں کو چھوڑنا چاہو تو عدت تک کیلئے چھوڑ دو”۔

قرآن کا ترجمہ بھی شریعت کے نام نہاد مفتی اور مولانا نہیں کرسکتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ طلاق ایک ملکیت ہے اور شوہر تین طلاق کا مالک ہوتا ہے۔

مثلاً ایک طلاق دیدی تو عدت کے بعد دوسری دو طلاقیں باقی رہ گئی ہیں۔ پھر تو عدت کیلئے طلاق کی ملکیت کا خرچ کرنا باطل ہوگا۔ ایک روپیہ ایک وقت تک کیلئے خرچ نہیں ہوسکتاہے۔ توپھر طلاق کو عدت کیلئے قرآن کے مطابق کیسے خرچ کرینگے؟۔

ولی خان نے جنرل ضیاء الحق سے کہا تھا کہ میں جہاد مانتا ہوں لیکن توپ، جہاز، جنگی ٹریننگ ، ٹینک اور سب کچھ تمہارے پاس ہے جہاد تم نے کرنا ہے! یہ کونسا جہاد ہے کہ مجاہد افغانستان اور پختونخواہ میں شہید ہوتا ہے اور مال غنیمت منصورہ لاہور میں بٹ رہاہے؟۔کیا آج مولوی اسی بات پر آگئے ہیں؟۔

کتنے لوگ جہاد کے نام پر ماردئیے اور جب خود پر مسئلہ آیا تو معاملہ بدل گیا؟۔ اس میں فوجی کا قصور نہیں وہ تو صرف اور صرف لڑائی کو سمجھتاہے؟۔وہ شریعت، معیشت، سیاست اور تعلیم کوئی شعبہ نہیں سمجھتا ہے۔ علماء ومفتیان نے تین وجوہات پر شیعہ کو قادیانی سے بدتر قرار دیا تھا۔ پھر مشرف بہ اسلام کردیا لیکن بہت اموات اور فسادات کے بعد۔

مفتی عبدالرحیم کہتا ہے کہ جنگ کے وقت پاک فوج کیساتھ کھڑا ہونا چاہے اور اگر اس کی کوئی غلطی ہے تو اس پر تنبیہ اور اصلاح کرنی چاہیے۔

مفتی عبد الرحیم سے سوال:افغان طالبان پر ہندوستان نے براہ راست جنگ مسلط کی ، ایران کا 70ہزار طالبان کی شہادت میں ہاتھ ہے تو کیا پھر پاکستان کی غلطی اتنی بڑی ہے کہ سب کو چھوڑ کر اس نے پاکستان کی طرف رُخ کرلیاہے؟۔

مفتی عبد الرحیم: نہیں نہیں میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں پاکستان کے افغانوں پر طالبان پر اتنے بڑے احسانات ہیں کہ قیامت تک اس کا بدلہ نہیں دے سکتے۔ سالانہ 54ہزار زخمیوں کا یہاں علاج ہوتا تھا۔ 500کمانڈر مع بچوں کے ان کے یہاں رہتے تھے۔ 16انکے وزراء یہاں رہتے تھے۔ 30گورنر رہتے تھے۔ 3لاکھ لوگوں کا روزانہ آنا جانا ہوتا تھا۔ کس حالت میں وہ آئے تھے سوائے چادر کے اور کچھ نہیں تھا۔ دنیا یہ کہتی ہے کہ اتنی بڑی جنگ یہاں سے لڑی گئی تو میں نہیں سمجھتا کہ ان کے پاس ذرہ بھی شرعی، اخلاقی اور جو انہوں نے معاہدہ کیا قطر میں کوئی جواز ہے کہ پاکستان سے لڑیں۔

اگر مفتی عبد الرحیم ادھر اُدھر کی بجائے مفتی ولی خان مظفر سے طلاق کا معاملہ حل کروائیںتو بہتر ۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، خصوصی شمارہ اپریل 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

بیشک جنت میں حوراء ہوگی جس کو”کھلونا ”کہا جائے گا

ان فی الجنة حوراء یقال لھا :اللعبة
بیشک جنت میں حوراء ہوگی جس کو”کھلونا ”کہا جائے گا

واخر متشٰبھٰت فاما الذین فی قلوبھم زیغ: اور اس میں متشابہات ہیں تو جنکے دلوں میں کجی ہے

قرآنی محکم آیات بنیاد ہیں۔ متشابہات کی تفسیر زمانہ کرتا ہے۔ قرآن میں حورو غلمان اور دیگر اشیاء پر مفسرین کی رائے ہے ۔ تاویل کوئی نہیں جانتا تھا مگر اللہ۔ ترقی یافتہ دنیا نے کمال حاصل کیا توپھر بات سمجھ آئی ۔سمندر میں پہاڑ جیسے جہاز آگئے، ترقی یافتہ دنیا نے قرآنی آیت کا متشابہ سامنے لاکھڑا کیا۔

عربی میں گاڑی کو عربہ کہتے ہیں۔ قرآن میں قد کے موافق گاڑی کا ذکر تھا لیکن جب گاڑی کا وجود نہیں تھا تو اس سے ”حور” مراد لی گئی۔ حالانکہ عربی کی کسی لغت، شاعری ، عام زبان اور کہانیوں تک میں حور یا عورت کیلئے عربہ کا تصور نہیں تھا۔ آج دنیا میں گاڑی آچکی ہے لیکن قرآن کی تفسیر غلط کی گئی۔

ما ورد فی حوریات خاصة فی الجنة:ابی دُنیا
فصل:جوخاص جنت کے حوروں کے حوالہ سے آیا:

عن ابن مسعود ،قال: ان فی الجنة حوراء یقال لھا اللعبة کل حور الجنان یعجبین بھا، یضربن بایدھن علی کتفھا ویقلن : طوبیٰ لک یا لعبة ،لویعلم الطالبون لک لجدوا ، بین عینھا مکتوب من کان ینبغی أن تکون لہ مثلی فلیعمل برضا ء ربی عزوجل (ابی دنیا)
حضرت ابن مسعود سے روایت ہے۔ فرمایاکہ جنت میں حور ہوگی جس کو اللعبة کھیل کہا جائے گا۔ جنت کی تمام حوریں اس پر شیدا ہوںگی۔وہ اپنے ہاتھوں سے اس کے کاندھے پر تھپکی دیں گی اور کہیں گی کہ ” اگر چاہنے والوں کو تیرا پتہ چلے تو وہ ضرور کوشش کرینگے۔ اسکی دونوں آنکھوںکے درمیان لکھا ہوگا کہ ” جو یہ چاہے کہ اس کیلئے میری جیسی ہو تومیرے رب عزوجل کی رضا کیلئے عمل کرے”۔

روایت کے الفاظ سے روز روشن کی طرح واضح ہے کہ اس سے دنیا کی کوئی کھلونا حور ہی مراد ہوسکتی ہے اسلئے کہ واضح طور پر اپنی جیسی حوراء کو پانے کیلئے اس کی آنکھوں کے درمیان ترغیب کیلئے ایک تحریر سے واضح کیا گیا ہے۔ قیامت کے بعد اس کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی اسلئے کہ اعمال کا دروازہ موت کے بعد بالکل بند ہوجاتا ہے تو ترغیب کی ضرورت بھی باقی نہیں رہتی ہے۔ دنیا بہت ترقی کرے گی۔ اس میں دو قسم کے افراد کیلئے الگ الگ اقسام کے دو دوباغات ہوں گے جس کا سورہ رحمن،سورہ واقعہ اور دیگر سورتوں میں ذکر ہے۔ اللہ نے قرآن میں واضح فرمایا کہ قیامت کیلئے خاص جنت کا مزہ دنیا میں بھی انسانوں کوچھکاؤں گا اور بڑے عذاب جہنم سے پہلے چھوٹے عذاب کا دنیا میں مزہ چھکاؤں گا تاکہ وہ آخرت کیلئے تیاری کرلیں۔ نبوت کا دروازہ بند ہوچکا ہے اسلئے اللہ دنیا میں آخرت کا نقشہ اس طرح لوگوں کے دلوں میں بٹھائے گا کہ آخرت کی تیاری میں اس کیلئے وہ مددگار ثابت ہو۔ دنیا میں دو دو باغ اور دو دو چشمے اور دودو فوارے کا تعلق آخرت کی جنت سے نہیں ہوسکتا ہے جو بہت وسیع ہوگی۔

عبداللہ بن مسعود نے کہا کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا:بے شک میں اس کو جانتا ہوں جو اہل دوزخ میں سب سے آخر میں دوزخ سے نکلے گا اور جنت والوں میں سب سے آخر میں جنت میں جائے گا۔ وہ ایسا آدمی ہے جو ہاتھوں اور پیٹ کے بل گھسٹتا ہوا آگ سے نکلے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ جا جنت میں داخل ہوجاؤ۔ وہ جنت میں آئے گا تو اسے یہ خیال دلایا جائے گا کہ جنت بھری ہوئی ہے۔ وہ واپس آکر عرض کرے گا : اے میرے رب !مجھے تو وہ بھری ہوئی ملی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس سے فرمائیگا : جا جنت میں داخل ہوجاؤ۔آپۖ نے فرمایا : وہ (دوبارہ) جائے گا۔تو اسے یہی لگے گا کہ وہ بھری ہوئی ہے۔ وہ پھر واپس آکر کہے گا کہ اے میرے ربّ! میں نے تو اسے بھری ہوئی پایا ہے۔ اللہ تعالیٰ پھر فرمائے گا کہ جا ؤ ، تیرے لئے دنیا کی طرح اور اس سے دس گنا جگہ ہے۔آپ ۖ نے فرمایا کہ وہ شخص کہے گا کہ میرے ساتھ مذاق کرتے ہو اور میری ہنسی اڑاتے ہو اورحالانکہ آپ تو بادشاہ ہو؟۔عبداللہ بن مسعود نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ۖ کو دیکھا کہ ہنس دئیے یہاں تک کہ آپ کے پچھلے دندان مبارک ظاہر ہوگئے۔ یہ شخص سب سے کم مرتبہ کا جنتی ہوگا۔

روایت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جنت میں جن خادموں اور حوروں کا ذکر ہے وہ انسان نہ ہوںگے بلکہ خدمت کیلئے کسی اور مادہ سے بنے ہوں گے اور اصل حیثیت اشرف المخلوقات بنت حواء کی ہوگی۔

جب دنیا میں جزاو سزا ہوگی تو پھر اس جہنم سے نکلنے والے آخری شخص کو پہلے کے مقابلے میں دس گنا جگہ مل جائے گی۔ جس کا اس کو یقین بھی نہیں آتا ہوگا اسلئے کہ بدلی ہوئی دنیا اس نے نہیں دیکھی ہوگی۔ قیدیوں کیساتھ سزا والا سلوک ہوگا لیکن انسانوں کو جنت اور دوزخ کا مزہ دنیا میں ملے گا۔

اگر دنیا اور آخرت کا صحیح تصور پیش کیا جائے تو مسلمانوں کی خواتین کو بہت زیادہ اطمینان ملے گا۔ قرآن میں دنیا کے اندر چھوٹے عذاب کا ذکر ہے بڑے عذاب سے پہلے اور دنیا ہی میں مؤمنوں کو وہ نعمتیں دینے کا ذکر کیا جو قیامت کیساتھ خاص ہیں۔ عرب ملحد نے حور کا مذاق اڑانے کیلئے پستانوں کی لمبائی چوڑائی کا ذکر کیا ۔ توجاہل واعظ کو روایت لگی۔ عمرشریف نے کہا کہ بیت الخلاء کو عربی رسم الخط میں دیکھ کر جاہل قرآن سمجھتے ہیں۔ لاہور کا واقعہ بھی مشہور ہوا کہ ڈیزائن کے کپڑوں کو قرآن کی گستاخی سمجھ لیامگر فقہاء کا پتہ نہیں کیا گل کھلائے؟ ۔
٭٭

صحیح وضعیف احادیث کے معاملات

رسول اللہ ۖ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں ایک صبح یا ایک لمحہ دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے بہتر ہے اور تمہارے ایک کمان یاایک قدم کی جگہ جنت کی بہتر ہے دنیا سے اور جو کچھ ہے اس میں ۔اگر جنت کی ایک عورت دنیا کو جھانک کر دیکھ لے تو اس میں جو کچھ ہے وہ سب روشن ہوجائے اور خوشبو سے بھر جائے اور اس کے دوپٹے کا پلو دنیا اور اس میں موجود تمام چیزوں سے بہتر ہے۔ (صحیح البخاری)

یہ دنیا کی ان عورتوں کی شان بتائی گئی ہے جن کا رہن سہن اور اوڑھنا بچھونا جنت کماتے گزرتا ہے۔
جن روایات میں ہے کہ حوروں کی طرف سے استقبال میں گانے ہوں گے کہ ہمیشہ کیلئے ہیں، کبھی ناراض نہیں ہوں گی۔اللہ نے تمہارے لئے بنایا اور ہم خوش رکھیں گی اور نافرمانی نہیں کریں گی ۔اماں عائشہ نے فرمایاکہ جنت کی حوریں مقالہ پڑھیں گی تو مؤمنات جواب دیں گی کہ ہم نمازی ہیں اورتم نے نماز نہ پڑھی،ہم نے روز ہ رکھا اور تم نے روزہ نہ رکھا۔ہم نے وضو کیا اور تم نے وضو نہ کیا اور ہم نے صدقے دئیے اور تم نے صدقہ نہ دیا تو ان پر غالب آجائیں گی (تفسیر قرطبی جلد 17صفحہ 187)

اسلام ویب میں سوال اور جواب

سوال:وجدت لفظا غریبا عن ابن عباس بخصوص الحوراء لعبة فی کتاب” تبیہ الغافلین” للسمرقندی: ان فی الجنة حوراء یقال لہا : لعبة خلقت من اربعة اشیاء : من المسک والعنبر ،والکافوروالزعفران و عجن طینھا بماء الحیوان فقال العزیز : کونی فکانت وجمیع الحور عشاق لہا ولوبزقت فی البحر لعذ ب ماء البحر ، مکتوب علی نحرھا : من أحب أن یکون لہ مثلی فلیعمل بطاعة ربی۔ ھل حذہ روایة ثابتة؟۔ وان کانت کذلک فما معنی أن الحور یعشقنھا؟فان العشق بحسب اللغة مرتبط بالشھوة فھل یعقل أن فیہ اشارة للسحاق؟

سوال : سمرقندی کی ”تنبیہ الغافلین” میں ابن عباس نے کہا کہ جنت میں حور ہوگی …… پھر عزیز اس کو کہے کا کہ ہوجاؤ تو وہ ہوجائے گی۔ اس سے تمام حوریں عشق کریں گی۔اگر سمندر میں تھوکے تو سمندر کا پانی میٹھا ہوجائے۔ اس کی گردن پر لکھا ہے کہ جو چاہے کہ اس کیلئے میری جیسی ہو تو میرے رب کی اطاعت کا عمل کرے ۔ کیا یہ روایت مستند ہے؟۔اگر ہے تو حوروں کے عشق کا کیا معنی ہے؟۔ عشق لغت میں شہوت سے تعلق رکھتا ہے تو کیا یہ سمجھا جائے کہ ہم جنس پرستی کی طرف اس کا اشارہ ہے؟۔

الاجابة : فالجدیر بالذکر ابتداء : التنبیہ الی ان کتاب تنبیہ الغافلین مع جلالة مصنفہ ملی ء بالأحادیث الضعیفة والموضوعة المکذوبةعلی النبی ۖ وذلک لعدم درایة المصنف بعلم الحدیث و ما یصح منہ ومالا یصح وقال عنہ الذہبی فی السیر: تروج علیہ الاحا دیث الموضوعة وقال عنہ فی تاریخ الاسلام : وفی کتابہ تنبیہ الغافلین موضوعات کثیرة فینبغی لمن لایمیز بن الصحیح والسقیم من الأحادیث أن یبتعد عن مطالعة مثل ہذہ الکتب ۔

والحدیث المذکور فی سؤال لیس حدیثا عن النبی ۖ وانما ذکر فی تنبیہ الغافلین موقوفا علی ابن عباس …..
وقدورد مسندا بألفاظ قریبة عن ابن مسعود وابن عباس فقد روی ابن ابی الدنیا فی صفة الجنة موقوفا علیہ …….
وھذہ لآثار الموقوفة لیس فیہا من ذکر العشق والعشق فی لغة العرب أصلہ : فرط الحب وان اطلق علی ما یتعلق بالشہوة وحاشا للہ أن یکون فی الجنة شی ء مما تسا ئلت عنہ فی السؤال ۔وللہ تعالیٰ اعلم

جواب : ”تنبہ الغافلین کتاب کا مصنف عالی المرتبت ہونے کے باوجود ضعیف ومن گھڑت روایات بھی درج کرچکا اسلئے کہ اس کو احادیث میں مہارت نہ تھی۔جس کو علم نہ ہو تو ان کتابوں سے دور رہے۔ اس روایت کی نبیۖ سے کوئی سند نہیں بلکہ ابن عباس سے بھی نہیں ،البتہ ابن مسعود و ابن عباس سے اسکے قریب کے الفاظ کی سند ہے۔

عشق عربی میں محبت کی شدت کو کہتے ہیں اس کا اطلاق شہوت سے متعلق پر بھی ہوتاہے۔ جس سوال کا آپ نے پوچھا ہے تو جنت میں ہرگز ایسا نہیں ہوگا۔ باقی درست حقیقت کو اللہ ہی جانتاہے”۔

عینی نے بخاری کی شرح میں ابوہریرہ سے نقل کیا ” جنت میں حوراء ہوگی جس کو عیناء کہا جائے گا ، جب وہ چلے گی تو اسکے دائیں 70 ہزار اور اسی طرح بائیں جانب 70ہزار وصیف( لونڈیاں و غلمان) ہوں گے اور وہ کہے گی کہ کہاں ہیں معروف کا حکم دینے اور منکر سے روکنے والے”۔اگر چین بنالے تو پاکستان میں دنیا بھر سے سیاح دیکھنے آئیں گے۔
٭٭

مولانا طارق جمیل اور جنت کی حوریں

مولانا طارق جمیل جامعہ بنوری ٹاؤن میں تبلیغی جماعت کا وعظ کرنے آتاتو حوروں کا بلوپرنٹ پیش کرتاتھا۔ خواتین کے بعد ہجڑے جماعتی ہوگئے۔ مشہور ڈانسر مہک ملک زنانہ لباس میں مردوں سے معانقہ کرتی پھررہی ہے۔ گل چاہت پشتون خواجہ سرا کا چرچا گزرگیا۔ جو مسجد کی منبروں پر بیان اورجماعتوں میںنکل کر تبلیغ کرتی تھی۔ وزیرستان کے لوگوں کی کہاوت ہے کہ ” مور پلور مے مڑہ کہ مو وترانجے تا لایہ کے ” (میرے والدین مریں تاکہ میں اچھل کود کیلئے فارغ ہوں) گل چاہت نے اپنا نام معاویہ رکھ دیا لیکن داڑھی نہیں رکھی اور عورت کا روپ دھارے رکھا۔ پھر بتایا کہ کسی نے نہ چھوڑا۔ تبلیغی جماعت نے حاجی عثمان جیسے اکابر کھودئیے تو ٹکڑوں میں تقسیم ہوئی اور اوباشی کرتی پھرتی ہے۔

حدیث ہے کہ ”تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کا پوچھا جائے گا”۔

طالبان شیخ عبدالحمیدحماسی نے لڑکوں کو عورت کے حکم میں شمار کیا توداڑھی منڈے میک اپ نسوانی لباس اور حسن النساء کی زینت کیساتھ خواجہ سراؤں کو تبلیغی جماعت میں کیسے گھمایا جارہاہے؟۔

قوم کی حالت بڑی ناگفتہ بہ ہے ۔ساس ، بہو، ماں ، بہن اور بیٹی کے واقعات کو میڈیا میں رپورٹ کیاجارہاہے۔باخبردلے بیوی کوچھوڑ یں نہ باپ کو ماریں۔ جبری جنسی زیادتی کی بڑھتی واراداتوں کو روکنا معاشرے اور حکومتی دسترس سے باہرلگتا ہے۔ چین کو اگر مصنوعی جنسی پیاس بجھانے کا راستہ سوجھا ہے تو محرمات اور جبری جنسی زیادتی کا سد باب بھی ہوسکتا ہے۔ مفتی طارق مسعوداور مولانا منظور مینگل سوشل میڈیا پر بڑے فحش عنوانات لگاتے ہیں ۔

انور مقصود نے مولانا فضل الرحمن کا کہا کہ بغیر ماں کے باپ سے پیدا ہوا، اسلئے کہ تحریک انصاف کی عورتوں کو تتلیاں اور پاؤں کے تلوؤں کو گال کی طرح نازک کہا تھا۔ مفتی منظور مینگل کی بیوہ ماں نے یتیم بچے کو فحش گالیاں دینے کیلئے نہیں پالا ….”۔

خلافت کمالات کا آئینہ ہوگا۔ اللہ رؤف و رحیم اور نبی ۖ بھی مؤمنوں پر رؤف و رحیم تھے۔ خلیفہ ارضی نے علم الاسماء سے فرشتوں کو شکست دی تھی۔ تسخیرارض و سماء نے پھر ورتہ حیرت میں ڈالنا ہے۔ الم اقل لم انی اعلم مالا تعلمون ” کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ وہ جانتاہوں جو تم نہیں جانتے”۔

سورہ بقرہ کی پہلی آیت الم O کے معنی کیا نہیں؟ الم نشرح ،الم ترکیف،الم تعلم ان اللہ ، الم تر الی الذین خرجوا ،الم ..بہت کچھ…

باچا خان نے لکھا ” قرآن پڑھنا بڑامشکل تھا ” الف لام میم الفابیٹ کی رہنمائی تھی۔ اردو، سندھی کی الفا بیٹ انگریز نے شروع کی ۔ حروف مقطعات حروف تہجی کے رہنماتھے ،نالائقی انگریز نے ختم کی۔

کن فیکون کی تفسیر دنیا اس طرح سے سمجھے گی کہ مصنوعی حور کو عزیز یعنی خدا کا خلیفہ بندہ جو حکم بھی دے گا تو وہ تعمیل کرے گی۔ کسی روایت میں ہے کہ اس لعبہ حور کی آنکھوں کے درمیان یہ لکھا ہوگا تو کسی میں گردن یعنی گلے پر لکھائی کا ذکر ہے۔ دونوں قسم کی حوروں کا ہونا تضاد نہیں بلکہ نوشتۂ دیوار ہے۔

اصول فقہ میں سمندری انسان سے نکاح ناجائز قراردیا ۔ جل پری کا افسانوی کردار فقہاء نے سچ سمجھ لیا لیکن واضح کردیا کہ کسی اور جنس کی مخلوق سے نکاح نہیں ہوسکتا ۔ گائے کا بیل، بھینس کا سانڈھ سے جنسی تعلق ہوتا ہے، بھینس سے بیل کا نہیں اور انسان کو قرآن نے جانور سے بھی بدتر قرار دیا ہے تو انسان کہاں سے کہاں پہنچتاہے؟۔

دنیا کی جنت اور آخرت کی جنت میں حور کا تعلق ربوٹ سا ہوگا۔ مستند حدیث میں دنیا کی آدم زاد عورتوں کی فضیلت ہے اور حوراء عربی میں بیگم ہی کو کہتے ہیں۔ روایت میں کھلونا حوراء واضح ہے۔ یہ نام نہیں جنس ہے ۔ بڑھیا نے پوچھا کہ جنت جاؤں گی؟۔ نبیۖ نے فرمایاکہ ”جنت میں بوڑھی عورتیں نہیں ہوں گی” ۔ تو وہ رونے لگی۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ”جوان بن کر جاؤگی تو وہ خوش ہوگئی”۔ آخری جنتی کیساتھ مزاح کا حدیث میں ذکر ہے اور یہی مزاح جنتی عورتوں کیساتھ حوروں کے لشکروں کی صورت میں ہوگا۔ جس میں مکالمہ ہوگا لیکن پھر پتہ چلے گا کہ یہ سوکنیں نہیں بلکہ کھلونے ہیں۔

مزاح خوشیوں کو دوبالاکرتا ہے۔ خوف، غم اور مشکل کے بغیر امن، خوشی اور آسانی کا تصور ادھورا ہے ۔رات کے بغیر دن کی نعمت کا پتہ نہیں چلتا۔ مفتی اعظم وشیخ الاسلام نے تصویر اور سود کو جواز بخش دیا لیکن حلالہ کیخلاف دلائل قبول نہیں کرتاہے؟۔

تفسیربیضاوی میں الم پر تضاد ۔ شیعہ نے ال محمدۖ مراد لیا ۔پروفیسر نے اللہ، لوح محفوظ ،محمدۖ مراد لیا۔

جب نیٹ کا کورڈ میپ دنیا دکھاتا ہے تو قرآن کا کورڈ بولتی کتاب بن کر درخت کا پتہ پتہ گرنے تک سب کچھ دکھائے گا ۔بے انتہا ء علوم کا راز کھلے گا۔ انجو گرافی اورMRIسے زیادہ ترقی ہوگی مگر قرآن دل کا نفاق اور ذخیرہ آخرت کا نقشہ بھی دکھائے گا۔
٭٭

ایک دفعہ پھر بہت بڑا اسلامی عروج آرہا ہے
جس میں پاکستان کو حیثیت حاصل ہے۔ پروفیسر احمد رفیق اختر

فرمایا:” پس نہیں ! قسم کھاتاہوں ستاروں کے واقع ہونے کی جگہوں کی اور بے شک ہے اگر تم سمجھ لو تو یہ بڑی قسم ہے۔ بیشک یہ عزت والا قرآن ہے۔ تکوینی امور کی کتاب میں ہے۔ اس کو چھونہیں سکتے مگر پاکیزہ لوگ۔ اتارا گیا ہے پروردگار عالم کی طرف سے۔ کیا اس کلام کے ساتھ بھی تم حقائق کو نظر انداز کرنے کے مرتکب ہو؟اور اپنا رزق بناتے ہو، بیشک تم ہی اس کو جھٹلارہے ہو۔ پس کیوں نہیں تمہاری روح گلے تک پہنچتی اور جب تم اس وقت دیکھ رہے ہوگے۔ ( سورہ واقعہ 75تا84)

سورج نظام شمسی کیساتھ ایک بونا ستارہ ہے اور ہمارے کہکشاں میں کھربوں ستارے ہیں اور پھر کھربوں کہکشاں ہیں۔ ایک بلیک ہول کا ستارہ سورج سے کئی کئی گناہ بڑا ستارہ ہڑپ کرلیتا ہے۔

سائنسی ترقی نے قرآنی آیات کی افادیت واضح طور پر ثابت کردی ہے۔ پہلے لوگوں کو علم نہیں تھا مگر جب علم ہوگیا تو واقعی یہ بہت بڑی قسم ہے۔

سائنسی ترقی سے قدرت اور قرآن وحدیث میں موجود تکوینی امور کے راز کھل رہے ہیں۔ آج ایک آدمی گاڑی چلاتے ہوئے موبائل فون پر بات کرتا ہے اور ٹریفک پولیس کو دیکھ کر موبائل ران پر رکھ دیتا ہے۔ آج سے 40سال پہلے بھی یہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ لائیو موبائل پر بات ہوگی۔ حدیث میں14سوسال پہلے سے ہے کہ آدمی اہل خانہ سے اپنی ران کیساتھ بات کریگا۔ نیٹ نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ دنیا کے بہت بڑے نقشے تک بھی لائیو رسائی حاصل ہے۔ ChatGPT سے انٹیلی جنس معلومات لی جاتی ہیں تو اگر قرآن کے الفاظ کا آئینہ کھل گیا تو دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی؟۔

حوروں کا نقشہ سائنس نے پیش کرنا ہے جس سے آخرت کی وسعتوں کا انسان کی محدود سوچ کو یقین آجائے گا اسلئے کہ نبوت اور وحی کا سلسلہ بند ہوچکا ہے۔ علماء و مشائخ اپنی ذات ، فرقہ اور مسلک کی طرف بلارہے ہیں اور پستی وزوال کی انتہاء پر مسلمان پہنچ گئے۔ ہمارے اساتذہ کرام کی آنکھوں میں آنسو آتے تھے کہ نبیۖ کی نعمت بھی پیسوں کی خاطر کوئی پڑھتا ہے ۔ اب غزہ کا غم کھانے کی جگہ اپنے ہجوم کا جشن شادی کی طرح مناتے ہیں۔

ابن عربی نے فرعون کے جنتی ہونے کا ذکر کیا ہے۔بعض علماء نے لکھا کہ دنیا کی زندگی محدود ہے تو لامحدود سزا کیسے کسی کو مل سکتی ہے؟۔ جہاں لامحدود کا ذکر ہے تو زیادہ عرصہ مراد ہے۔ بالفرض فرعون کو ہی آخری جنتی تصور کیا جائے تو بیگم آسیہ جنت پہنچ گئی ہوگی تو فرعون کو جنت میں عورت ملے گی؟۔ کوئی جنتی عورت اس کی زوجیت چاہے گی بھی نہیں۔ آخری جنتی کو اس دنیا کی ڈبل جنت کا ذکر ہے۔ اگر وہ فرعون ہوا تو روایات میں حوروں کا ذکر ہے۔اور حور سے 70سال تک جماع ہوگا اور ایکدوسرے سے نہ بھریںگے۔ کیا پتہ یہ فرعون سے متعلق ہو۔

دنیا میں مسلمانوں کی فرعونیت بھی فرعون سے کم تو نہیں ہے جبکہ مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ ایک دن جنت میں ضرور جائیںگے۔ رسول اللہۖ کے والد حضرت عبداللہ کی قبر جب منتقل کی گئی ،اس وقت جن لوگوں نے دیکھا تو اس میں ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک عالم دین اب بھی زندہ ہیں اور اس نے بتایا کہ حضرت عبداللہ بالکل سلامت تھے۔ اور جب قرآن کی واضح آیات کا انکار کرنے، ان کو روند نے اور ان کو چھپانے کے مجرم مسلمان ہیں تو جنہوں نے قرآن کو دیکھا اور سمجھا نہیں ہے تو پھر وہ کیوں کافر اور جہنم کی سزا کے مستحق ہیں؟۔

مولانا فضل الرحمن منصورہ حافظ نعیم الرحمن امیر جماعت اسلامی کے پاس گئے اور عمران خان سے سیاسی تعلق کی بحالی کیلئے کہا کہ میں شدت پسندی کی سیاست نہیں کرتا۔ تلخیوں میں برطانیہ اور امریکہ کے ایجنٹ کو ایجنٹ قرار دینا معمول کی بات ہے۔

مذہبی منافرت کی جگہ ایک اچھے ماحول کی بڑی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کو دوسروں سے نفرت اور ان کے بارے میں غلط سوچ کا مرتکب رہنے سے بہتر یہ ہے کہ اپنے اعمال اور ایمان پر نظرکریں ۔

دین ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا

اگرچہ ابن عربی کی کتابوں میں تحریفات بھی کی گئی ہیں تاہم ان کے مقابلے میں پروفیسر احمد رفیق اختر کا یہ کہنا زیادہ معقول ہے کہ اسلام کو دوبارہ پھر عروج ملے گا اور پاکستان کا اس میں مرکزی کردار ہوگا۔ ہمیں انکے اس مؤقف سے مکمل اتفاق ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، خصوصی شمارہ اپریل 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اقبال کا بلوچستان میں یونیورسٹی کا مطالبہ ،میرا والد اس پر نوکری سے نکالا گیا :سینیٹر تاج حیدرکی تقریر ضرور سنو!

پاکستان کونازک صورتحال سے نکالو!

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم ہوا کے دوش پر سودی گردشی قرضوں کے سہارے پر چل رہے ہیں اور جب ہمارا جہاز فضاؤں میں ہموار چلتا ہے تو پھر یہ پروا نہیں کرتے کہ اس کا کتنا کرایہ ہم نے دیا اور اس کی کیاقیمت چکائی اور ہم پر اس کا کیا اثر پڑاہے؟ لیکن چلتی کا نام گاڑی اور اڑتے کا نام جہاز ہے۔
فضاؤں میں اعلان ہوتا ہے کہ اپنی اپنی نشست پر بیٹھ جائیے اور سیٹ بیلٹ باندھ لیجئے ۔ موسم کی خرابی سے جہاز ناہموار ہوسکتا ہے تو زیادہ خوف نہیں ہوتا ہے اور کسی کو خوف ہوبھی سکتا ہے لیکن اگر اعلان ہو کہ جہاز میں خرابی کے باعث سمندر کا رخ کرلیا۔ لائف جیکٹ پہن لیجئے اور دروازوں کی طرف لائن لگاؤ اور سمندر میں چھلانگ لگاؤ تو بہت تکلیف ہوگی اور انسان زندگی اور موت کی کشمکش سے کھیلنے کیلئے ذہنی طور پر بہت پریشان ہوگا۔ جب ملک کے حوالہ سے ڈیفالٹ ہونے کی خبریں چل رہی تھیں تو گویا اعلان ہوچکا تھا کہ سمندر کا رخ ہوچکا ہے اور تیاری کرلو۔ سمندری مخلوق اور مچھلی کا شکار بن سکتے ہو۔
جب پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کے اعلان ہورہے تھے تو فی الحال ہمارا سفر بخیر ہے لیکن اب بھی جن حالات کا سامنا ہے تو فضائی طوفانوں کا اندیشہ ہے۔ جب عمران خان کو خلا سے زمیں پرا تارا جارہا تھا تو خلائی مخلوق مشہور ہوگئی تھی اور اب فضا بدل چکی ہے لیکن پارلیمنٹ، عدالت، صحافت، دہشت گردی کے حالات اور معیشت کی خرابیاں بھوت بنگلے سے ایک ڈراؤنا منظر پیش کررہی ہیں۔ گالی گلوچ سے ہر کوئی خوش ہوتا ہے لیکن سنجیدہ بات کوئی نہیں سنتا۔
صحافی صابر شاکرکو ہم نے لکھاتھا کہ چاچو جنرل قمر جاوید باجوہ کو غلط راستے پر مٹ ڈالو۔ خیرخواہی غلط ماحول بنانا نہیں ہے۔ آج صابر شاکر کہاں کھڑا ہے؟۔ عمران ریاض خان نے یہ جھوٹ بولا تھا کہ ”مولانا فضل الرحمن اسرائیل کو تسلیم کررہاہے ” اور اب تک معافی بھی نہیں مانگی ہے۔ ایک طرف روز جمعیت علماء اسلام کے علماء شہید ہورہے ہیں دوسری طرف عمران ریاض خان معافی نہیں مانگ رہاہے اور مولانا کہنے کیلئے بھی تیار نہیں ہے، ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ سے معافی مانگ لی تھی لیکن مولانا سے ایک غلط الزام پر معافی مانگنے سے کیا ویوزکم ہوںگے؟۔
تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں ایک طبقہ صحافیوں کا ہیرہ منڈی کا بھڑوا لگتا تھا اور اب یہ ٹیم بدل گئی ہے اور چہرے اور شخصیات اور ہیں لیکن کام وہی ہے۔ خیر یہ وقت بھی گزر جائے گا۔
ہم مذہبی لبادے والے ہیں اور سمیع ابراہیم عام صحافی ہے۔ سمیع ابراہیم عاصمہ جہانگیر کو موت کے وقت بھی نہیں بخش رہاتھا اور میزے جہانگیر کی نماز میں شرکت پر مذہب کے نام پر متعہ وحلالہ کی بھڑوا گیری سے کسی کو خوش کررہاتھااور ہم اس نابغہ روز گار شخصیت عاصمہ جہانگیر کو خراج عقیدت بھی پیش کررہے تھے۔ حق وصداقت کی بے لوث صدائیں ایمان اور اسلام کا بہترین تقاضا ہیں لیکن جھوٹ اور بہتان طرازی بھی غلط لوگوں کو دینداری لگتی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف پاکستان کے اعلیٰ ترین معززمنصب پر فائز ہیں لیکن مقبولیت اتنی خراب ہوچکی ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کے سوشل میڈیا پر ان کی تصویر سے خبر نہیں ڈالی جاتی ہے۔ چینلوں پر بڑا جھوٹ لکھ کر معمول کی خبریں دی جاتی ہیں۔
حالات ایسے بن گئے کہ اگر جنرل عاصم منیر کو لال کرتی کی پیداوار اور گالیاں دی جائیں تو اس پر ڈالر کمائے جاتے ہیں۔ مریم نواز اور جنرل عاصم منیر کی تصاویر اور ویڈیوز ایڈٹ کرکے مارکیٹنگ کی جاتی ہے۔ جس کا مقصد نظریہ نہیں پیسہ کمانا ہے۔
صحافت کے حوالے سے سخت قوانین پر مقتدرہ کو مجبور کیا گیا ہے۔ جہالت ، تعصبات اور مفاد پرستی نازک اندام جسم فروشی کی طرح بک رہی ہیں۔ اگر اس قوم ، اس ملک ، اس خطے اور عالم انسانیت کو ہم نے جہالت کے مقابلے میں علمی حقائق ، تعصبات کے مقابلے میں مثبت اخلاقیات اور مفاد پرستی کے مقابلے میں ایثار و قربانی کے جذبات کی طرف نہیں ابھارا تو پھر اللہ کے علاوہ خیر کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
قرآن میں وقل جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقًا ”اور کہہ دو کہ حق آیا اور باطل گیا بیشک باطل مٹنے کیلئے ہے”۔ گالی گلوچ کیلئے اور تقریری جذبات کیلئے بھی نہیں ہے بلکہ مثبت عقائد و نظریات اور عملی اقدامات کیلئے ہے لیکن اب یہاں گالی گلوچ سے معاملہ آگے نکل کر خودکش دھماکوں اور دہشت گردی تک پہنچ چکا ہے۔
٭

زیرِ زمین پانی کے ذخائر مسئلے کا حل

ہم مسجد کے بڑے تالاب کا پانی نکالنے کیلئے عام پلاسٹک کا پائپ ڈال کر منہ سے شروع میں کھینچ لیتے تھے اور پھر سارا تالاب خودبخود خالی ہوجاتا تھا اور یہ ایک دیسی فارمولا تھا۔ پاکستان کی بناوٹ کو اللہ نے اتنا بہترین بنایا ہے کہ اگر زیر زمین پانی کو نکالنے کیلئے پائپ کا بندوبست کیا جائے تو بغیر کسی بجلی اور پٹرول کے خرچے کے پورے ملک میں پانی کو بہترین طریقے سے سپلائی کیا جاسکتا ہے۔
مثلاً گومل ڈیم اور دیگر ڈیموں سے پورے پاکستان کیلئے پانی پہنچانے کا بندوبست کیا جائے اور اس کا کنکشن زیر زمین پانی سے بھی اس طرح سے ملایا جائے کہ زیرِ زمین پانی کو بھی خوب پریشر کے ذریعے سے باہر نکال کر ملک کے کونے کونے تک پہنچانے کا بہترین اہتمام ہو۔ اگر پنجند کے ذخیرے میں ایک طرف پانی ڈالنے اور دوسری طرف سے نکالنے کا اہتمام ہو تو صحرائے چولستان اور بلوچستان اور سندھ و کراچی تک بالکل شفاف پانی کی ترسیل کا زبردست پروگرام بن سکتا ہے۔
کتنا زبردست ہوگا کہ جب پنجند کے ذخیرے کا پانی کراچی کی بڑی بلڈنگوں حبیب بینک پلازہ کی چھت تک بغیر کسی موٹر کے جارہا ہو؟۔ لوگوں کو اگر صاف پانی ملے گا تو پاک پاکستانیوں کا دماغ بھی پاک بن جائے گا۔ اب تو گالی دے کر کہتے ہیں کہ غیرت سے پاک ہیں، ضمیر سے پاک ہیں، ایمان سے پاک ہیں، اخلاق سے پاک ہیںاور انسانیت سے پاک ہیں تو واقعی پاک پاک بن جائیں گے۔
اگر پاکستان کی معدنیات کیلئے ہمارا دل و دماغ صاف ہوگا تو جتنا نقصان پہلے کرچکے ہیں وہ اب کرنے سے بچ جائیں گے۔ صحافی ضیغم خان نے میزبان عائشہ بخش کے پروگرام میں کیا خوب کہاکہ ”زیر زمین معدنیات سے زیادہ قیمتی زمین کے اوپر کے معدنیات انسانی شکل میں موجود ہیں۔امریکہ وغیرہ میں زیر زمین معدنیات نہیں لیکن انسانوں کیلئے بہترین تعلیمی یونیورسٹیاں ہیں جن کی وجہ سے ان کی شخصیات جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے سے کیا کچھ نہیں کماتے ہیں؟۔ایک ایک شخص کی وہ دولت ہے کہ اگر وہ ہمارے ہاں پھینک دے تو زمین کی سطح معدنیات سونے کے ذخائر اور ڈالر سے بھرے اور جہاں تعلیم نہیں وہاں کتنے ایسے ممالک ہیں جہاں پر معدنیات کے بڑے ذخائر ہیں پٹرول ہے اور سونا ہیرے جواہرات ہیں لیکن ان کے حالات انتہائی خراب ہیں کیونکہ ان کا اشرافیہ عیش کررہا ہے اور غریب جہالت اور تباہی سے دوچار ہیں”۔
یونس بٹ نے ”ہم سب امید سے ہیں” میں مشکلات کے دور میں سب کو ہنسایا۔ جنرل مشرف کو پی ٹی ماسٹر بناکر سیٹیاں بجواتا تھا اور سب پریڈ کیا کرتے تھے۔ صحافی افتخار احمد جنرل پرویز مشرف کی طرح سیٹی بجاکر زبردستی سے پریڈ کرانے کے موڈ میں ہے۔ اس پر ٹھیکیداروں سے پیسہ وصول کرنے کا الزام تو نہیں لگ سکتا لیکن پنجاب کی زرخیز مٹی میں کوئی حسن نثار کی طرح تحریک انصاف کا جنون اپنے دل میں سمائے رکھتا ہے اور کسی کو نواز شریف کی محبت نے اندھا دھند بنا رکھا ہے۔ فوج کی بھی طاقت ان کے پاس ہے اور جمہوریت کی بھی۔ بس اللہ اس ملک کو مزید جبر و تنگدستی سے بچائے۔
پشتو زبان کا مشہور مزاحیہ کردار میراوس خان اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اللہ جنت الفردوس میں جگہ اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ اس نے کہا کہ بلڈنگ کی پہلی اور دوسری منزل پر بنگالی کام کرتے تھے اور تیسری منزل پر پٹھان تھا۔ بنگالی نے آواز لگائی کہ عجب خان کی بیوی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔ پٹھان نے چھلانگ لگائی ، ٹانگیں ٹوٹیں اور بیہوش ہوکر ہسپتال پہنچ گیا۔ جب ہوش آیا تو کہا کہ اوہ میرا نام تو عجب خان نہیں تھا۔ پھر کہا کہ میری تو شادی بھی نہیں ہوئی ہے۔ خوامخواہ ٹانگیں تڑوادیں۔ یہی حال علامہ اقبال نے ”پنجابی مسلمان” کا لکھا ہے کہ تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا، ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد۔ تحریک انصاف کے یوتھیوں کو جب ہوش آئے گا تو کہیں گے کہ ہم جس کو مرشد مرشد کہتے تھے وہ تو خود زن مرید تھا۔ مرشد تو بی بی بشریٰ تھی۔ شیعہ سینہ کوبی اور زنجیر زنی کرتے تھے تو امام خمینی نے سمجھایا کہ جس سینے کو مار رہے ہو اس میں یزید نہیں حسین کی محبت ہے۔ جس پیٹھ کو زنجیر سے خون آلود کرتے ہو وہ یزید نہیں حسین کے مرید کی ہے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان ، افغانستان ، ایران اور بھارت سب کو شیطانی شر سے بچائے۔
٭

حماس جان اور اسرائیل خان جانان

مولانا فضل الرحمن ، حافظ نعیم الرحمن اور طالبان کی قیادت میں یورپ سے اسرائیل کیلئے ایک وفد یا جلوس کی قیادت کی جائے تو بہت بڑے پیمانے پر مغرب کی خواتین وحضرات بھی شریک سفر بن سکتے ہیں۔ غزہ کے مسلمانوں کی مدد صرف جلسے ، جلوس، رونے دھونے اور اسرائیل کی مذمت سے نہیں ہوگی بلکہ عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ حماس جان کے حملے پر تھوڑی سی خوشی منانے اور چندہ اکٹھے کرنے پر اصرار کرنے والے اس بات سے بے خبر تھے کہ اسرائیل جانان اپنا بدلہ لینے کیلئے کہاں تک جائے گا اور کون کون اس کی بھرپور حمایت کرتا رہے گا؟۔
ایران نے حماس جان کو اسرائیل کے خلاف بڑا مضبوط بنادیا تھا لیکن جب ایران اسرائیل جانان کا خود مقابلہ نہیں کرسکتا ہے تو حماس جان کے ذریعے ایک کاروائی کے بعد غزہ کے مسلمانوں کو بے تحاشا پٹوانے کے انجام کی ایران نادان کو خبر نہیں ہوگی۔
عبداللہ گل کے والد جنرل حمید گل نے حضرت خالد بن ولید کی طرح ساری زندگی روس وامریکہ کے خلاف افغان مجاہدین اور طالبان کیساتھ اللہ کی تلوار بن کر جہاد کارزار میں گزاری لیکن شہادت کی قسمت نہیں تھی اور اب عبداللہ گل شہادت کی منزل پانے کیلئے مولانا فضل الرحمن کی بیعت کرچکا ہے۔ اسلامی جمہوری اتحاد کا جنرل حمید گل واضح کہتا تھا کہ ”میں نے بنائی ہے ،جس نے عدالت میں کیس کرنا ہے مجھ پر کرے”۔ عدالت کا اصغر خان کیس سلمان اکرم راجہ جیت چکا تھا لیکن افتخار چوہدری کو ترچھا نظر آتا تھا اسلئے نگاہ مرد مؤمن وہاں تک نہیں پہنچ سکی ۔ مولانا سمیع الحق نے میڈم طاہرہ سکینڈل سے سبزی کے چھرے سے شہادت تک منزل پالی۔
پراکسی سیاست اور پراکسی جہاد سے سب ہی تنگ آچکے ہیں لیکن ایک شخص نے کالا کمبل دریا میں دیکھ کر چھلانگ لگائی تو ساتھیوں نے مہم جوئی میں خطرہ بھانپ کر آواز لگائی کہ کمبل کو چھوڑو۔اس نے کشمکش کی حالت میں کہا کہ میں کمبل کو چھوڑ رہا ہوں لیکن کمبل مجھے نہیں چھوڑ رہا ہے۔ اسلئے کہ وہ اصل میں ریچھ تھا جس کو کمبل سمجھ کر دریا میں چھلانگ لگائی تھی۔ دنیا بھر میں امریکہ ، ایران ، پاکستان، چین، بھارت اور تمام چھوٹے بڑے ممالک کے اپنے اپنے کٹھ پتلی پراکسی ہوسکتے ہیں لیکن اب ہوسکتا ہے کہ سب ان سے تنگ بھی آچکے ہوں۔ میں اپنے مسلمان بھائی اور خطے کے ان مجاہدین سے گزارش کروں گا کہ وقفہ کرلیں جنہوں نے روس ، امریکہ اور بھارت کو مزا چکھانے کیلئے اسلامی جہاد کیا لیکن اب اپنے ہی سرپرستوں کے ساتھ دست و گریبان ہیں۔ مجاہد سے دہشتگرد اور دہشتگرد سے خوارج کا لقب پاچکے ہیں۔ افغان طالبان بھی امریکہ سے دوستی کے خواہاں ہیں اور جب امریکہ بلیک واٹر کے ذریعے اپنا ڈبل گیم کھیل رہا تھا تو پاکستان نے بھی ڈبل گیم کھیلی یا پھر ڈبل گیم کا شکار ہوگیا؟۔ طالبان نے قطر میں دفتر اور افغانستان میں میدان جہاد سجایا تو خلوص تھا یا ڈبل گیم؟۔ اللہ تعالیٰ بھی ستاری کو ہی پسند کرتا ہے۔ پہلے حمام میں سب ننگے ہوتے تھے اور اب حمام سے سب ننگے باہر نکل چکے ہیں۔ جس کا نتیجہ سب کیلئے بہت خطرناک ہوسکتا ہے۔ عیب سے پاک ذات اللہ کی ہے اور جو کمی کوتاہیاں ہم سے ہوئی ہیں بارگاہِ الٰہی میں استغفار کرتے ہوئے ایک امن و امان اور خوشحالی و سلامتی کا ماحول بنائیں تو ممکن ہے کہ سبھی اچھے اہداف تک بھی پہنچ جائیں لیکن سدھرے نہیں تو آخرت کیا دنیا کے عذاب کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔ دنیا میں ایسی خلافت نے آنا ہے جس کی وجہ سے ساری دنیا کے لوگ خوش ہوں گے اور قرآن وحدیث کی پیش گوئی ثابت ہوگی۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے سینٹ میںڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی اسلام آبا آمد پر یادگار تقریر کی تھی ، کہا تھا کہ”علامہ اقبال نے 1936ء کے پنجاب اسمبلی میں بلوچستان کے اندر یونیورسٹی قائم کرنے کی قرار داد پیش کی تھی۔ میرے والد نے بلوچستان میں یونیورسٹی کی بات کی تو نوکری سے نکال دیا گیا۔ چین اور پاکستان کے سی پیک کا اصل منصوبہ دونوں ممالک کے پسماندہ علاقوں میں ترقی تھی جو پاکستان میں بلوچ اور پختون قوم کا مغربی روٹ تھا ۔ جس کو چھین کر سندھ اور پنجاب کی طرف موڑ دیا گیا۔ یہ وہ ذہنیت ہے جو سمجھتی ہے کہ بڑے لوگوں کو امیر تر بنایا جائے پھر وہ سونے کے انڈے دیں گے اور پھر غریب کو بھی کچھ ملے گا۔ مگر ساری دنیا میں ایسے منصوبے بالکل ناکام رہے ہیں”۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اپریل 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv