Month: 2025 جون
غیرت ، حیاء اور سورہ بلد
الغیرة و الحیاء لاحدود لہ
ھٰذا برہان و شہود لہ
من بیت دنی ء لاشرف لہ
لاضمیر لہ ولا سدودلہ
”غیرت اور حیاء کی کوئی حدود نہیں ، یہ دلیل اوراسکے شواہد ہیں۔دنیا پرست خاندانی بے غیرت ہے جس کاکوئی ضمیر ہے اور نہ اس پر روک ٹوک”۔سورہ بلد کا عملی مظاہرہ نبیۖ نے ہند ابوسفیان کوپناہ دی تویزید پلیدنکلا۔ حسن شاہ بابو نے صنوبر شاہ کے یتیموں کو تحفظ دیاتویہ بلیلا نکلا۔ نبیۖ نے عبداللہ بن ابی سرح مرتد کا فرمایا : ” غلافِ کعبہ سے لپٹے تو بھی قتل کردو”۔ عثمان کی سفارش پر معافی قتل عثمان بن گئی !۔
(سورة البد ) بسم اللہ الرحمن الرحیم
لا قسم بھذا البد Oوانت حل بھذا البدO ووالداوما والدOلقد خلقنا الانسان فی کبد O ایحسب ان لن یقدر علیہ احدO یقول اھلکت مالًا لبدًاOایحسب ان لم یرہ احدO الم نجعل لہ عینینOولسانًا و شفتین Oوھدیناہ النجدینO فلا اقتحم العقبةOوما اداراک ما العقبةO فک رقبةOاو اطعام فی یوم ذی مسغبةO یتمیمًا ذا مقربةO اومسکینًا ذا متربةO ثم کان من الذین اٰمنوا وتواصوا بالصبرواالتواصوا بالمرحمة O اولئک اصحاب المیمنةO والذین کفروا باٰیٰتنا ھم اصحاب المشامةOعلیھم نار موصدةO
سورہ البد کا ترجمہ :اللہ نے فرمایا” نہیں! اس شہر کی قسم۔اور آپ اس شہر میں بستے ہیںاور باپ کی قسم اور جو بیٹا ہے۔بیشک ہم نے انسان کو مصیبت میں پیداکیا۔کیااسکا خیال ہے کہ اس کو کوئی قابو نہیں کرے گا؟۔ پکار اٹھے گا کہ مجھے مال نے تباہ کردیا۔ کیا خیال کرتا ہے کہ اس کو کوئی نہیں دیکھتا۔ کیا ہم نے اسکے دو آنکھیں، زبان اور دو ہونٹ نہیں بنائے۔اس کی دوپستانوں سے رہنمائی نہ کی؟۔ابھی وہ گھاٹی میں گھسیڑا نہ گیا اورتجھے کیا پتہ گھاٹی کیا؟،گردن چھڑانا۔ یافاقہ کے دن کھلانا ہے۔یتیم قرابت دارکو۔یا مسکین خاک نشین کو۔پھر وہ ان میں سے ہو جن لوگوں نے ایمان لایا اور انہوں نے ایکدوسرے کو صبر کی وصیت کی اور ایکدوسرے کو رحم کی وصیت کی اور یہی ہیں دائیں جانب والے۔جنہوں نے کفر کیاہماری آیات کا تویہی بائیں جانب والے۔ان کو آگ نے لپیٹ میں لیا ہے”۔
٭٭
یتخلص یوسف من الحزن والکیدین
ما خان وما سرق علیہ الشططین
فاعتبروا یا قارئین! احسن القصص
ھجمت رھط ابالیس علی الملکین
فتنة رجال اکثر بکثیر من نسائ
التوأمان الخبیثان جعلت لھماقبرین
انتظرت سبعة عشر سنةً و لکن
الالم والحریق والعاصفة بعدین
لاثریب الیوم علی المخلص ولکن
ذنبہ علی رأسہ دون خاصرتین
رأسہ بلا عقل ام کان دبرہ بلاغیرةٍ؟
من لاضمیر لہ فکشفتُ ذو وجہین
اقدار القبائل یؤخذ من افواھم
ادسہم فی التراب سیترفرف الاسمین
لایشم الحیاء ولایدرک الشرف
انتخرتم اوتجلبوا با صفقین
ھل ترٰی من الرجولة اوالحیائ؟
ایاکم والنفاق والنمیم ورقص علی طبلین
غل جاہت و مہر ملک خیرمن ذاکما
ان ثبت اجرامہا فعیلیہما حدین
وان فزت فرب الکعبة لافرح ولافخور
کتب اللہ غلبة الاسلام فی الکونین
جاھدالکفاروالمنافقین واغلظ علیھم
امرأت نوح وابنھا علی الکفر مغرقین
دنیء عائلی لا شرف فی اہلہ
ھل تعرف مقطوع الانف والاُذنَین
اذا کنت ضربت فادغمہ بلا شبة
فھذہ لطمة ساخنة علی الخدین
یرٰی غیر ضارلکن مثل الخنسیٰ
انھا تدق صاحبة الثدین
کمن کان لہ فی طفولتہ تذکرة
علی المقتر مئة علی الموسع مئتین
ابن درھم ابن الوقت ابن البطن
یبیع غیرتہ بخمس مئة او الفین
ان کان ھو اب او عم او خال
فضربة علی الرقاب و القدمین
لا جرم ان کنت فی ذاتک انت البطل
کان سیدنا بلال من ابوین عبدین
اتثق بین ابناء عموة شریف وخسیس
ابو لہب وامرأتہ کلاھما دسیسین
ما تلک الشجرة ذاقا آدم وحوائ؟
فقابیل من التقاء الختانین
ان کان ابوہ صالحا فماذا ترٰی؟
فنطفة الامشاج تیمم الخبیث لقمتین
من یُستعمل فلینظر الی دبرہ
شر متعة بالدبر دع قُبلتین
فئة قویةفاعلة ضیعفة مفعولة
فقرء وا فی کتاب اللہ فئتین
فقال الضعفاء للذین استکبروا
اناکنا لکم تبعًا:کلا اثنتین
فلذکر ان لایشتعل دبرہ قط
الافلیتبدل الجنس مع الخصیتین
من کان لا ضمیرلہ فشراجیرلہ
البائع والمشتری جائعین لشیئین
احدھما الفتنة وثانیتھما الفساد
الخنس یرقصن یعلون ویھبطن النہدین
لا للعلم و الایمان لا حاجة لھن
یبحثن االمالاوالنفاقا فی الصدرین
قد کنت سدت الحلالة فسخربی
بین الرِجلیھم ولحیھم بحرین
لا یجتنبن کبارمن الاثم والفواحش
طُحِنا ظلمةً بطاحونة الحجرین
بای ذنب قتلوناھذا نسئلوھم
الفحاشی والنفاق فیھم علتین
لقد اجداد ھم مجرمین قبل ھذا
ماھذان الحقبان ببعید فی القرنین
وامتازوا الیوم ایھا المجرمون
بُشری جدی ابن الحسن والحسین
تعالوا الی اطاعة اللہ ورسولۖ
قالۖ انی تارکم فیکم الثقلین
ترجمہ:
حضرت یوسف نے غم اور سازش کے دوچالوں سے خلاصی پالی۔
نہ اس نے خیانت کی اور نہ چوری کی ان پر دو جھوٹ بولے گئے۔
اے قارئین حضرات! بہترین قصے سے عبرت پکڑ لو۔
ابلیس کے لشکر نے حملہ کیا دو فرشتوں(یوسف وبنیامین )پر۔
مردوں کا فتنہ عورتوں کے مقابلہ میں بہت ہی زیادہ ہے۔
جڑواں دو خبیث بھائی جن کیلئے میں نے دو قبریں بنادی ہیں۔
میں نے سترہ سالوں تک انتظار کیا لیکن اس کے
باوجود بعد میں پھر بھی درد، جلنے اور طوفان (کا سامنا )ہے۔
آج کے دن مخلص پر کوئی ملامت نہیں ہے لیکن
اس کی دم اس کے سر پر ہے دونوں چوتڑوں پر نہیں ۔
اس کے سر میں عقل نہیں ہے یا پھر پچھاڑی میں غیرت نہیں؟۔
جس کا کوئی ضمیر نہیں تو میں نے دو چہروں والے کو واضح کردیا۔
قبائل کے اقدار ان کی زبانوں سے ہی لئے جاتے ہیں۔
میں نے ان کو مٹی میں دھنسا دیا عنقریب دو نام لہرائیں گے۔
وہ حیا کی بو نہیں سونگھتا ہے اور نہ غیرت کا ادراک رکھتاہے۔
تم خود کشی کرلو یا پھر دو تالیوں سے مال کماؤ۔
کیا تمہیں ان میں کوئی مردانگی اور حیادکھائی دیتی ہے؟۔
پس باز آجاؤ منافقت اور چغلی سے اور ڈھولوں پرناچنے سے۔
گل چاہت اور مہر لک بھی ان سے بہتر ہیں۔
اگر ان کا جرم ثابت ہوگیا تو ان کی دو سزائیں بنتی ہیں۔
اگر میں کامیاب ہوا تو رب کعبہ کی قسم کوئی اترانااور فخر نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اسلام کا غلبہ لکھ دیا ہے دونوں کائنات میں۔
کفار اور منافقوں کیساتھ جہاد کرو اور ان پر شدت کی سختی کرو۔
حضرت نوح کی بیوی اور اس کا بیٹا کفرپر دونوںغرق ہوگئے۔
خاندانی بے غیرت ہے اس کے گھر میں کوئی وقار نہیں ہے۔
کیا آپ جانتے ہو جس کی ناک اور دونوں کان کٹے ہیں؟۔
جب میں ضرب لگاتا ہوں توبلاشبہ اس کا بھیجا نکال کر رکھ دیتا ہوں۔
یہ اس کے دونوں گالوں پر زناٹے دار تھپڑ ہے۔
وہ بے ضرر نظر آتا ہے لیکن اس کی مثال ہیجڑے کی ہے
بیشک وہ خوب ٹھمکے لگاتی ہے دو چھاتیوں والی ۔
یہ اس طرح کاہے جس کیلئے اس کے بچپن میں کوئی ٹکٹ تھا
غریب کیلئے 100(روپے)اور امیر کیلئے 200(روپے)۔
بیٹا ہے پیسوں کا۔بیٹا ہے وقت کا ، بیٹا ہے پیٹ کا
وہ اپنی غیرت بیچتا ہے پانچ سو یا دو ہزار میں۔
اگروہ باپ ہو یا چچا ہو یا ماموں ہو
توکاری ضرب کے لائق ہے اس کی گردن اور دونوں پاؤں پر۔
اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ آپ اپنی حیثیت میں ہیرو ہیں۔
حضرت سیدنا بلال تھے غلام اورلونڈی والدین سے ۔
یقین کرو!چچازاد وں میں شریف اور رذیل ہوتے ہیں۔
ابولہب اور اس کی بیوی دونوں مکار سازشی جاسوس تھے ۔
وہ کونسا درخت جوحضرت آدم وحضرت حواء نے چکھا؟
پس قابیل دونوں ختنوں کے (اس) ملاپ سے پیدا ہواتھا۔
اگر اس کا باپ نیکو کار ہو تو اسکے بارے میں کیانقطہ نظرہے؟
تو والدین کا ملا جلا نطفہ حرام مال کے دو لقموں سے بنتا ہے۔
جس کو استعمال کیا جاتا ہو تو اپنی پچھاڑی کی طرف دیکھے
بدترین لذت پچھاڑی کی ہے دونوں اگاڑیوں کو چھوڑدو۔
طاقتور گروہ بطورفاعل اور کمزور بطورمفعول استعمال ہوتا ہے
اللہ کی کتاب میں دونوں گروہوں کو پس پڑھ لو۔
پس کمزوروں نے تکبر کرنے والوں سے کہا کہ
بیشک ہم تمہارے لئے تابع تھے۔ یہ دونوں ہیں۔
پس مرد کو چاہیے کہ وہ اپنی پچھاڑی کو قطعی طور پر نہ سلگائے۔
مگر یہ کہ پھر اپنے جنس کو تبدیل کرلے دونوںخصیوں سمیت۔
جس کا کوئی ضمیر نہیں ہوتا تو اس کیلئے شر بدلہ ہوتا ہے
فروخت کرنے والا اور خریداردونوں بھوکے دو چیزوں کے
ان میںسے ایک فتنہ ہے اور دوسری ان میں سے فساد ہے
ہیجڑے رقص کرتی ہیں، چھاتیاں اوپراور نیچے کرتی ہیں۔
علم اور ایمان کیلئے ان کو کوئی ضرورت نہیں ہے۔
مال اور نفاق کی تلاش میں لگے رہتے ہیں دونوں سینوں میں۔
بیشک میں نے حلالے کا راستہ روکا تو میرا تمسخر اُڑایاگیا۔
انکی دو ٹانگوں اوردو جبڑوں (زبان)کے بیچ دوسمندر ہیں۔
وہ اجتناب نہیں کرتے ہیں بڑے گناہوں اور فحاشی سے۔
ہمیں پیس دیا اندھیرے میں چکی کے دو پتھروں کے درمیان۔
کس جرم میں ہمیں قتل کیا، یہ ہم ان سے پوچھتے ہیں؟۔
فحاشی اور منافقت یہ دو علتیں ان کے اندر ہیں۔
بیشک ان کے اجداد بھی اس سے پہلے مجرم تھے۔
اور یہ دوحقب(80+80سال)دُور نہیں دوصدیوں میں۔
اورآج کے دن تم الگ ہوجاؤ ، اے مجرمو!۔
خوشخبری دی گئی ہے میرے دادا حسن اورحسین کے بیٹے کو۔
آجاؤ ،اللہ جل جلالہ اور رسول ۖ کی اطاعت کی طرف۔
نبی ۖ نے فرمایا:میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑرہا ہوں۔
٭٭
خاندانی بے غیرتی…سحر ہونے تک…تحریر:
ڈاکٹر عبدالقدیرخان
ڈاکٹر عبدالقدیر خان روزنامہ جنگ 8اکتوبر2012ء میں خاندانی بے غیرتی…..سحر ہونے تک” کے عنوان پرلکھتے ہیں: ” 7اکتوبر 2009 کو میں نے ایک کالم اسی روزنامہ میں بعنوان ”اے غیرت تو کہاں ہے” اور دوسرا بعنوان ” بے غیرتی” 2 دسمبر 2009ء کو لکھا تھا ۔ ان دونوں کالموں میں نے آپ کو غیرت اور بے غیرتی کے بارے میںکچھ تفصیلات بتائی تھیںاور افسوس کے ساتھ یہ بھی بتایا تھا کہ پہلی خصوصیت اس قوم میں عنقا ہے ، دوسری خصوصیت کی افراط ہے۔ میں نے غیرت کا بتایا تھا کہ یہ لفظ عربی زبان کا ہے جس کا مترادف دنیا کے کسی اور زبان میں نہیں۔اردو میں یہ ایک محدود مفہوم میں استعمال کیا جاتا ہے جبکہ عربی زبان میں اس کا مفہوم وسیع ہے۔ اس میں عزت نفس، وقار،بہادری اور اعلیٰ اقدار نسلاً بعد نسل منتقل ہوتا ہے۔ تعلیم وتربیت اور اعلیٰ مثالوں کے ذریعے بزرگ یہ جذبات اگلی نسلوں کو منتقل کرتے ہیں۔لیکن اگر کسی کے خاندان میں بے غیرتی، دروغ گوئی اور کم ظرفی کا خون رواں ہو وہ عقلی دلائل سے کچھ نہیں سیکھ سکتا ۔ یا تو کوئی فرد غیرت مند ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ اگر حکمرانوں اور ممتاز شخصیات میں غیرت کا جذبہ ہو اور وہ باغیرت ہوں تو یہ جذبہ اجتماعی صورت اختیار کرلیتا ہے اور پوری قوم ، مملکت دنیا میں عزت وعروج حاصل کرلیتے ہیں۔
انسان کے اخلاق وکردار کے دو پہلو ایسے ہیں جن کا بے غیرتی سے چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ منافقت اور بے حیائی۔ منافقت یعنی قول وعمل میں تضاد ، کھلے عام دیدہ دلیری سے جھوٹ بولنا، جھوٹے وعدے کرنا، بھروسہ کرنے والوں کو دھوکہ دینا۔ یہ سب بے حیائی اور منافقت ہے۔ حیا غیرت سے بھی اعلیٰ ایک شریفانہ جذبہ ہے جو انسانی شرافت کی روح ہے جب حیا رخصت ہوجائے توپھر انسان ہر بے شرمی اور بے غیرتی کا کام بلا جھجک کرنے لگتا ہے ۔ بس ایک جملوں میں بیان کردوں کہ غیرت مند اور بے غیرت میں وہی فرق ہوتا ہے جو ایک پاکدامن خاتون اور طوائف میں ہوتا ہے ۔ ایک اپنی عصمت کی خاطر جان دیتی ہے اور دوسری چند ٹکوں کی خاطر عصمت فروشی کرتی ہے۔میں آہستہ آہستہ اپنے موضوع کی طرف آرہا ہوں ، کچھ لوگ بے غیرتی کا دل کھول کر مظاہرہ کررہے ہیں۔قبل اسکے انکے میرکارواں کا تذکرہ کروں۔……….”۔
نوٹ… اس آرٹیکل کے ساتھ بعنوان ” شہداء 31مئی2007ء کو18 برس ہوگئے ۔بفضل تعالیٰ بہت بڑابریک تھرو ہوگیا ۔ عبدالواحد نے آخرکارایک بہت بڑا”راز ” بتایا جس سے سراغ مل سکتا ہے! ” آرٹیکل پڑھیں۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
مہدی منتظر: ایک نوجوان سے جو نہ اپنا کوئی ماضی جانتا ہے ، نہ اس کے پاس کوئی ظاہری دلیل ہے نہ کوئی شیخ ہے نہ اُستاذ، ایک ایسے مرد تک جو دنیا کو بدل دیتا ہے (عنوان کا ترجمہ)
یوٹیوب چینل :عنقاء مغرب
ضروری نوٹ:عربی میں بہت سارے چینل امام مہدی کی حقیقت کتابوں کی روشنی میں اور خوابوں سے بتاتے ہیں۔اب چیٹ GPT وغیرہ سے عربی کا ترجمہ بھی آسان ہے۔شیعہ سمجھ رہا ہے کہ مہدی غائب کا ظہور ہوگا اور سنی سمجھتا ہے کہ گھوڑا سوار نکلے گا۔ اس شخص کی یہ گیارویں ویڈیو ہے۔ اس سے پہلے کی ویڈیوز میں بھی بہت سارے حقائق ہیں۔ اس ویڈیو سے 4دن پہلے کا عنوان ہے ” مہدی منتظر کے وہ کیا گنا ہ ہیں جس کی وجہ سے اصلاح کی رات یعنی انقلاب میں تأخیر ہورہی ہے؟۔ اور اس پر تہمت کیوں لگائی جاتی ہے؟۔اور مہدی نے شیاطین کو کس طرح سے دھوکہ دیا”۔ اس کے کچھ اقتباسات ملاحظہ فرمائیں۔
شیخ محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں: اس کے کئی نام ہیں۔ معروف بھی اور غیر معروف بھی۔ محققین کے درمیان وہ خود محقق ہے لیکن اس کو چوروں کے درمیان تلاش کیا جاتا ہے۔ اس سے نجباء بیعت کرتے ہیں ابدال اس کی نصرت کرتے ہیںاور ایک جماعت اس کی مددگار ہے…
اس کا معاملہ روشن سورج سے بھی زیادہ واضح ہوتاہے۔وہ اپنے مقام شمشیری سے ظاہر ہوتا ہے مگر روحانی مقام سے مخفی رہتا ہے۔کبھی تم پسند کروگے اور کبھی نفرت کروگے۔کبھی تم اس کی تعظیم کروگے اور کبھی اس سے لاتعلقی ظاہر کروگے۔کبھی تم اس کا اشتیاق کروگے اور کبھی چاہوگے کہ پاس نہ ہو۔ اسلئے اس کی سیرت اور احوال نے اصلاح سے پہلے اولیاء اور علماء کو حیران کررکھا ہے۔ پس اے عزیزو! امام مہدی کی احوال میں عجیب کیفیت ہے۔ وہ خواہش،گناہ اور جذب کی حالتوں میں الٹ پھیرسے گزرتا ہے۔تو مہدی کے گہرے ابتلاء کا راز کیا ہے؟۔
لوگ ایسا مہدی چاہتے ہیں جو ابتداء سے پاک ہو، انبیاء کی طرح معصوم ، خواہش، گناہ، شک اور کمزوری سے خالی ہو لیکن اللہ کی سنت ایسی نہیں ، مہدی ابتلاء کے مقام سے بالاتر نہیں بلکہ ابتلاء کا مرکزہے۔
جس نے یہ نہیں جانا کہ مہدی گمراہی ، ضیاع اور خواہش سے گزرتا ہے اس نے اللہ کے چناؤ کی پہلی شرط کا انکار کیا۔اور شرط یہ ہے کہ انسان کو ٹکڑے ٹکڑے کیا جاتا ہے۔یہاں تک اس میں کوئی چیز بھی اصلاح کے قابل نہیں رہتی۔ پھر اس کو اللہ کی نگاہ میں نئے سرے سے پیدا کیا جاتا ہے۔مہدی ہر انسان کی طرح پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے دل میں ایک اضطراب ہوتا ہے۔جو کسی اور سے مشابہت نہیں رکھتا۔ اس پر ایک ایسی قوت مسلط کی جاتی ہے جو اس میں شہوت کو بیدار کرتی ہے، نہ صرف جسمانی بلکہ وجودی معنی میں بھی۔تجربے کی محبت،احساسات کی خواہش،زندگی میں موجود ہر خطرناک ذائقے کا شدید ذوق۔
وہ خواہش میں مبتلا ہوجاتا ہے یہاں تک کہ وہ اس میں داخل ہوتا ہے ، چکھتا ہے۔ گرتا ہے اور بار بار گرتا ہے۔پھر وہ دوبارہ گرتا ہے اور محسوس کرتا ہے کہ وہ بائیں جانب والوں اور خواہش پرستوں میں سے ہے اور سمجھتا ہے کہ اس میں کچھ بھی اللہ کو راضی کرنے والا نہیں ہے۔اس کی زبان اس کو دھوکہ دیتی ہے ، نظریں فاش ہوجاتی ہیںاور مٹی (دنیا) کی طرف اس کا میلان بالکل واضح ہوتا ہے ، تأویل کی ضرورت نہیں۔
لیکن ان سب کے باوجود اسکے اندر کچھ بجھتا نہیں ۔اسکے دل میں ایک روشن نقطہ ہوتا ہے جو کبھی نہیں مرتا، خواہ خواہش غالب آجائے۔گویا خواہش اس کو جلاتی نہیں پاک کرتی ہے۔گویا جو آگ اسے کھاتی ہے وہ اسے فنا نہیں کرتی بلکہ دوبارہ ڈھالتی ہے۔وہ جذب کی حالت میں ہوتا ہے بغیر جانے کیونکہ خواہش انجام نہیں بلکہ ابتداء ہوتی ہے امتحان کی۔
اس کی کچھ خاص نشانیاں ہیں جو بصیرت والے سے پوشیدہ نہیں ۔ جن میں یہ ہے کہ وہ مکہ مکرمہ سے نکلے گا اور مدینہ منورہ جائے گا ، جہاں اہل مدینہ اس کی بیعت کریں گے۔ اسکے پاس ہر دور دراز سے مخلص اور امین لوگ ہوں گے جو دین کی حمایت اور عدل کو قائم کرنے کیلئے اس کے ساتھ چلیں گے۔ وہ ظالموں اور فساد پھیلانے والوں سے لڑے گا۔ ظالموں کی بالادستی ختم کرے گا۔ زمین پر عدل اور امن قائم کرے گا۔ غربت اور جہالت کا خاتمہ اور مسلمانوں میں اتحاد کا پرچم بلند کرے گا۔ اسکے دور میں علم وثقافت میں ترقی ہوگی ۔ہر حقدار کو ا سکا حق دیا جائیگا۔ انسانی حقوق اور عزت کا احترام ۔ دین محبت، اخوت، برداشت،رحمت اور عدل پر قائم ہوگا۔ جس میں تعصب اور نفرت کی کوئی جگہ نہیں ہوگی۔
اللہ اس کو وسیع موقع عطا کرے گا کہ وہ حکمت اور اچھی نصیحت سے لوگوں کو دین کی دعوت دے، اسکا اثر لوگوں کے دلوں پر گہرا ہوگا۔ وہ صالح علمائ، اولیاء اور مخلص لوگوں کی حمایت حاصل کرے گا جو اس کی عظیم ذمہ داری میں مدد کریں گے۔ لوگوں کے دلوں میں جگہ ہوگی اور دنیا میں اس کی بڑی اہمیت ہوگی۔ وہ ہر آزمائش اور رکاوٹ کے باوجود اپنی راہ پر گامزن رہے گا۔اللہ پر توکل کرے گا صبر و شکر کیساتھ۔نماز و ذکر سے مدد لے گا۔ وہ لوگوں کو ایمان کا اصل معنی سکھائے گا۔سنت نبوی کو زندہ کرے گا۔اللہ کے بندوں کیساتھ عہد کو تازہ کرے گا۔ اللہ کے نزدیک اس کا اجر عظیم ہوگا اور اس کا ذکر زمین وآسمان میں بلند ہوگا۔ وہ لوگوں کو اللہ کی یکتائی پر بلائے گا اور شرک وبدعت سے دور رہنے کی دعوت دے گا۔تاکہ دین صرف اللہ کیلئے خالص ہو۔ وہ غلو اور انتہا پسندی کے نقصانات سے آگاہ کرے گا۔اور دین و دنیا میں اعتدال اور وسطیت کی تلقین کرے گا۔ وہ بکھرے ہوئے دلوں کو جوڑے گا مختلف گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا۔ نزاعات کو ختم کرے گا جو امت کی کمزوری کا باعث بنے۔ اس کی دنیا کے بادشاہوں کے سامنے بڑی عزت ہوگی۔ کوئی بھی اس کی مخالفت یا کام کو روکنے کی جرأت نہیں کرے گا۔ اس کی بات نافذ العمل ہوگی کہ اس کا حکم لازمی ہوگا۔ لوگ اس کی سچائی اور اثر کی وجہ سے خوش دلی سے پیروی کریں گے۔وہ عدل اور انصاف کی حکومت قائم کرے گا۔ جہاں الٰہی قانون اور رحمت حکرانی کرینگے۔اللہ تعالیٰ اس کیلئے رزق و خیر کے دورازے کھولے گا جس سے ملکوں میں امن و خوشحالی ہوگی۔زراعت، صنعت اور تجارت ترقی کریں گی۔ …
وہ لوگوں کے درمیان دیواریں ختم کرے گا تاکہ سب امن و آشتی کیساتھ رہیں۔ کمزوروں، مظلوموں کو عزت دے گا۔انکے چھینے ہوئے حقوق واپس دلائے گا۔ وہ سخاوت وایثار کو فروغ دے گا۔ تاکہ لوگ مضبوط بندھن کی طرح بندھ جائیں۔ وہ دشمنوں کے درمیان صلح کرائے گا، دلوں کو محبت کی طرف لوٹائے گا۔لوگوں کو نفسیاتی اور روحانی قیدوں سے آزاد کرے گا۔جو ان کی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔ وہ خیر اور رزق کے دروازے کھولے گا جس سے خوشحالی اور برکت عام ہوجائے گی۔ وہ لوگوں کے دلوں میں امید جگائے گا اور زندگی کو سب کیلئے بہتر بنائے گا۔ وہ روحانی ، علمی اور سماجی ترقی کا نیا دور شروع کرے گا۔ وہ خدا کی حکمت کو کائنات کے انتظام اور انسانیت میں واضح کرے گا۔ …..
وہ اعلیٰ اقدار کو زندہ کرے گا اور معاشرہ اخلاقی نمونہ بن جائے گا۔ محبت ، برداشت اور تعاون کی روح کو مضبوط کرے گا ۔ وہ حق کو باطل پر فتح دے گا اور ہرجگہ امن پھیل جائے گا ۔ وہ صبر اور ثابت قدمی سکھائے گا تاکہ مشکلات اور آزمائشوں کا سامنا کرتے ہوئے ان کی طاقت اور حوصلہ بڑھ جائے۔ وہ امت مسلمہ کی وحدت کو ممکن بنائے گا جس سے مسلمان ایک دوسرے کیساتھ صلح اور ہاتھوں ہاتھ کام کریںگے۔ وہ اسلامی عظمت کو دوبارہ زندہ اور امت کو بلندیوں کی طرف لے جائے گا وہ ہرریاست اور معاشرے میں عدل اور رحم کے اصول قائم کرے گا۔وہ ماحول اور قدرتی وسائل کا تحفظ کرے گا تاکہ پوری انسانیت کی خدمت ہو ،وہ مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں کے درمیان مکالمے کی حوصلہ افزائی ہو وہ خاندان اور معاشرے میں اخلاقی اقدار کو مضبوط کرے گا۔
(ایک اور عربی چینل ”غراب الغرابة ”کا عنوان( 3جون) ہے کہ ”یہ کیسے ممکن ہے کہ مہدی ایک عمر لوگوں میں گزارے اور اس کو خبر نہیں ہو کہ وہ مہدی حقیقی ہے؟۔ ابن عربی اس پر مہدی کی آنکھ کھولتا ہے”۔ کہ کس طرح تقدیر الٰہی نے ایک عرصہ تک مہدی پر یہ راز نہیں کھولا تاکہ اس میں اور لوگوں میںظرف پیدا ہو ۔قرآن میں اللہ نے فرمایاکہ ” کسی بشر کیلئے یہ ممکن نہیں کہ اس سے اللہ بات کرے مگروحی سے یا پردے کے پیچھے….(الشوریٰ:51)اس حجاب کے الفاظ کے پیچھے مہدی کا راز ہے اور اللہ احادیث کی پیش گوئی کو ایک شخص کے ذریعے پورا کرے گا۔ کچھ اقوال میں واضح ہے کہ بڑی عمر میں جوان نظر آئے گا۔ اختلافی نقطہ نظر ہے ۔ابن عربی صوفی مہدی کی حقیقت کو کشف سے واضح کرتا ہے ۔
عنقا مغرب چینل
آج کی ہماری قسط کا عنوان ہے: مہدی منتظر، ایسا نوجوان جس کانہ ماضی معلوم ۔نہ تاریخی پس منظر ، نہ نشانیاں، نہ استاد، نہ رہنما، پھر بھی وہ شخص جو دنیا کو بدل دے گاحالانکہ وہ خود نہیں جانتا کہ وہ کون ہے کیونکہ وہ اس سے کہیں بڑا ہے جتنا انسانی زبان میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ انسان کو کیسے پیدا کیا جا سکتاہے کہ وہ دنیا کا میزان ہواور پھر بھی نہ جانتا ہو کہ وہ کون ہے؟وہ دائرے کا مرکز ہو، مگر خود کو کسی لکیر میں نہ پاتا ہو۔ اسکے وجود میں ساری کتابوں کا راز ہو، لیکن اپنی زندگی کا سب سے سادہ صفحہ بھی سمجھ نہ پاتا ہو۔ عارفین نے اس راز کی طرف اشارہ کیا الفاظ سے نہیں، بلکہ خاموشی سے۔کچھ نے کہا: مہدی وہ ہے جو بظاہر جاہل ہے، مگر دراصل عالم ہے۔ وہ جانتا ہے اسے علم نہیں کہ وہ جانتا ہے۔ وہ اسلئے جاہل ہے کیونکہ وہ خود کو اتنا محدود نہیں کر سکتا جو اس کی حقیقت سے کم ہو! یہ کیسے ممکن ہے؟ وہ ایسا نہیں کہ پہلے سیکھے پھر جانے اور نہ ایسا کہ پہلے جاہل پھر تلاش کرے۔ وہ تو وہ ہے جس میں علم لمحے میں انڈیلا گیا اور پھر بھلا دیا گیاکیونکہ وقت ابھی نہیں آیا تھا۔ مہدی جاہل نہ تھا اسلئے کہ وہ غافل تھا، بلکہ اسلئے کہ خود کو دیکھنے کی سکت نہیں رکھتا تھا۔
جب وہ غور کرتا کہ وہ کون ہے، عجیب خاموشی میں ڈوب جاتا۔ وہ اپنے اندر کی بات کو بیان کرنا چاہتا زبان ساتھ چھوڑ دیتی۔ وہ کچھ سمجھنے کی کوشش کرتا، اسے یہ معلوم ہو جاتا کہ وہ سمجھ نہیں سکتا۔ وہ خود اپنی ذات سے چھپا ہوا تھا، یہاں تک کہ جب اس نے خود کو پہچاننا چاہاتو اس پر وہ انکشاف ہوا جو عام طور پر نہیں ہوتا۔ وہ اپنی ذات پر اسی طرح حیران رہ گیا جیسے مخلوق اس پر حیران رہ جاتی ہے۔ یہ نوجوان،جس نے گمان کیا کہ وہ گم ہو چکا ، درحقیقت گم نہیں تھا ۔وہ تو ایسے سمندر میں غرق تھا جسے وہ جانتا نہیں تھا۔ وہ اپنے اندر ایسی چیز محسوس کرتا تھاجو زمینی حقائق سے بڑی تھی اور وہ اس سے بھاگتا تھا کیونکہ اس کا کوئی نام نہ تھا۔ وہ یہ کہنے کی ہمت نہیں کرتا تھا کہ میں ہوں۔وہ خودکو ہر چیز سے بھرا ہوا محسوس کرتا تھا، لیکن بیک وقت ہر چیز سے خالی بھی۔
انسان کیسے تضاد کو برداشت کرے؟ وہ اکیلا بیٹھا رہتا خاموش لیکن اس کا دل آوازوں، نظاروں اور عجیب چمک سے بھرا ہوا ہوتا تھا۔وہ تجربات سے اسلئے گزرتا تھا کہ اسے مہم جوئی کا شوق تھابلکہ اسلئے کہ وہ ایک ایسا آئینہ تلاش کر رہا تھا جس میں وہ خود کو دیکھے لیکن اسے وہ آئینہ نہ کتابوں میں ملا، نہ عشاق میں، نہ فلسفیوں میں، نہ عارفوں میں، نہ راستوں میں، نہ شادی میں، نہ اولاد میں، نہ کسی انسان یا زندگی میں۔ مہدی کیلئے کوئی مثالی شخصیت نہیں، اس دنیا میں کوئی ایسا نہیں جس جیسا وہ بننا چاہے۔یہ اس کا غرور نہیںبلکہ وہ سچ ہے جسے وہ محسوس کرتا ہے۔ اپنا جیسا نظر نہیں آتا، نہ کوئی مثال۔
اس کی تنہائی اور اجنبیت گہری ہے، اس کا ظاہری سبب نہیں۔ جو کچھ اس نے پایا، وہ اپنی ذات تھی لیکن اس کی ذات سب کچھ دیکھنے کے باوجود، خود کو نہیں دیکھ پاتی۔ یہ سارا عذاب اسلئے کہ وہ خود علم ہے، بلکہ اس کی روح تو تمام علوم کا سرچشمہ ہے، مگر وہ خود کو پہچانتا نہیں۔ جو ذات سرچشمہ ہو، وہ خود سے سیراب نہیں ہو سکتی۔جو ذات آئینہ اعظم ہو، اسے آئینے کچھ دکھا نہیں سکتے۔ جو مہدی بننے کیلئے پیدا کیا گیا ، وہ وقت سے پہلے خود کو پہچان نہیں سکتا۔اگر وہ وقت سے پہلے خود کو پہچان لیتا تو دنیا اس پر تنگ ہو جاتی، کیونکہ جو کچھ اسکے اندر ہے وہ صرف اللہ کی حکمت سے ہی برداشت ہو سکتا ہے۔یہی راز ہے اصلاحِ الٰہی کا راز۔ یہ کسی تعلیم کا لمحہ نہیں بلکہ انکشاف کا لمحہ ہے، وہ لمحہ جب معلوم و نامعلوم کے درمیان دیوار گر جاتی ہے اور مہدی خود کو دیکھتا مکمل طور پر، دیکھتا ہے کہ ہر راستے سے گزر چکاہر تجربہ چکھ چکا ہے۔
وہ دیکھتا ہے کہ تنہا بالغ ہو چکا بغیر استاد کے، استاد تو اسکے اندر ہی تھا اور حکمت سکھائی نہیں گئی بلکہ وہ اسکے ساتھ ساتھ پروان چڑھی تھی۔جیسے ہڈی گوشت کے نیچے بڑھتی ہے۔ تبھی وہ جانتا ہے کہ وہ بھٹکا ہوا نہ تھا، بلکہ تیار ہو رہا تھا۔وہ جاہل نہ تھا بلکہ اس کا دل نور سے لبریز تھا جو جلوہ گر ہونے کا منتظر تھا۔ وہ بیتاریخ نہ تھا، بلکہ اس کا ماضی غیب کے خزانوں میں محفوظ راز تھا، جب وہ جان لیتا ہے تو بولتا نہیں کیونکہ جو جانتا، وہ وضاحت نہیں کرتا۔ جو دیکھتا ہے، وہ تشریح نہیں کرتا۔ جو پہنچتا ہے، وہ داد کا طلبگار نہیں ہوتا۔یہی مہدی ہے، اپنی آدھی زندگی جانے بغیر گزاری کہ وہ کون ہے۔پھر معلوم ہوا کہ وہی ہے جسے لوگ ہمیشہ تلاش کرتے آئے۔
وہ کسی کا شاگرد نہیں تھا، کیونکہ وہ معلم بننے کیلئے پیدا ہوا۔وہ شناخت کا طالب نہیں، جب اس نے خود کو پہچانا تو اسے لوگوں کی شناخت کی ضرورت نہ رہی۔یوں اصلاح مکمل ہوئی، اور وہ باہر آیا بغیر اعلان، بغیر شور و غوغا کے۔وہ اس طرح ظاہر ہوا کہ کوئی پہچان نہ سکا، نہ کسی کی پیروی کرتا، نہ کسی پیمانے پر پورا اترتا، نہ کسی لفظ میں سمایا جا سکتا ، نہ کسی وصف میں۔یہ بچہ جسے کسی نے راستہ نہیں دکھایا، مہدی کا سب سے عجیب پہلو یہ ہے کہ کسی نے رہنمائی نہ دی، وہ بغیر رہبر کے تھا۔نہ کوئی شیخ تھا جو کہتا ”یہ ہے حقیقت”، نہ کوئی معلم تھا جو کہتا ”ایسے چلو”۔وہ ایسے گھر میں پیدا ہوا جہاں اعلی جہانوں کی کوئی بازگشت نہ تھی نہ کتابیں، نہ آسمانی نقشے، نہ اشارے، نہ نام، نہ روحانی سلسلے ایک مٹیالی خاموشی کی فضا میں، جو بیابان اور شہر کے درمیان پھیلی ہوئی تھی، ایسی جگہ جو نہ نبی تیار کرتی ہے نہ عارف، مگر یہی مقام سب سے بڑے راز کے حامل کی جائے پیدائش بنے گا۔ وہ بچہ تھا جو دیکھتا تھا مگر بولتا نہیں تھا، سنتا مگر اسے سمجھ نہ پاتا تھا۔ ایسے احساسات رکھتا تھا جو کسی بچے کے دل سے برداشت نہیں ہو سکتے تھے۔
کوئی اسے سمجھ نہ پاتا تھا، وہ خود بھی نہیں جانتا تھا کہ اپنے اندر کی باتوں کو کیسے بیان کرے۔ اس کا اندر سب سے زیادہ زندہ تھا۔اس کی سانسوں میں آنے والی ہوا کا ذائقہ تھا، اس کی آنکھوں کی روشنی میں گونج تھی، وہ دوسروں کا درد محسوس کرتا تھا۔اور یہی ہے عذاب محسوس کرنا جو برداشت نہ ہو، اور کوئی محسوس نہ کرے۔تمام بچے کہانیوں، جھگڑوں، دوڑنے اور ہنسنے میں مشغول تھے، مگر وہ کچھ اور تھا۔ اسے سمجھ نہیں آتا تھا کہ ان جیسا کیسے بنے۔وہ متکبر نہیں تھا، لیکن ان جیسا نہیں تھا۔ اسکے اندر دور کا اجنبی تھا۔ روشنی تھی جو کسی اور جیسی نہیں تھی۔ اس کی تنہائی وہاں شروع ہوتی جہاں کوئی نہ سمجھتااور ختم وہاں ہوتی جہاں وہ خود کو بیان نہ کر پاتا۔اسکے اندر ایک سوال تھا جس کا نام نہ تھا میں کون ہوں؟ کیوں ایسا ہوں؟ اور کیوں اتنا گہرائی سے محسوس کرتا ہوں جبکہ اسی سادہ زمین کا بیٹا ہوں؟میں ایسی باتیں کیسے جانتا ہوں جو میں نے سیکھیں نہیں؟ میرے دل میں یہ نور کس نے رکھا جو مجھے جلا دیتا ہے جب میں نظر انداز کرنے کی کوشش کرتا ہوں؟یوں غمگین، عظمت بھرا، مگر درد سے لبریز بچہ پروان چڑھا۔وہ بچہ جسے وہ حقائق معلوم تھے جو اس نے نہیں سیکھے…جس کے دل میں وہ روشنی رکھی گئی جو جب بھی وہ اسے نظر انداز کرنے کی کوشش کرتا تو وہ جلنے لگتی۔ جو غموں کا پیکر تھا، جو وہ خواب دیکھتا تھا جو کسی نے نہیں دیکھے، اور نیند میں ایسی آوازیں سنتا تھا جن کا کوئی ماخذ معلوم نہ ہوتا۔وہ انسانوں میں چہرے بدلتے دیکھتا، محسوس کرتا کہ اس دنیا کے پیچھے کچھ ہے، مگر اس تک پہنچ نہیں پاتا۔دنیا کا سب کچھ معمولی لگتا، سوائے اسکے دل کے اور کوئی اسے نہیں سکھاتا تھا، نہ اسلئے کہ لوگ علم میں بخیل تھے بلکہ اسلئے کہ کسی کے پاس وہ علم نہ تھا جو وہ تلاش کرتا تھا۔اگر وہ ان سے حکمت پوچھتا، تو وہ اسے مردہ احکام دیدیتے۔ اگر روح کے بارے میں پوچھتا تو خرافات سناتے۔ اگر کہتا کہ وہ وہ کچھ دیکھتا ہے جو دوسروں کو نظر نہیں آتا، تو وہ ہنستے یا ڈرتے یا اس پر الزام لگاتے۔اسلئے اس کا کوئی شیخ نہ تھا۔
ابن عربی نے کہا: ”اسے ایک ایسا علم دیا گیا جسے وہ نہ جانتا ہے اور اسی سے وہ پہچانا نہیں جاتا”۔عارفوں نے کہا: مہدی کا شیخ نہیںکیونکہ وہ خود سب سے بڑا شیخ ہے لیکن وہ خود اس سے بے خبر ہے اور یہی ہے وہ زلزلہ خیز راز کہ انسان روشنی کا منبع ہو اور خود نہ جانے کہ روشنی اسی کے اندر ہے۔وہ چراغ ہو اور روشنی ڈھونڈتا پھرے۔ اگر شیخ مل جاتا تو وہ اسی سے وابستہ ہو جاتا۔ اگر کوئی رہبر ملتا تو وہ اس کی پیروی کرتا۔مگر کوئی بھی اسے راہ دکھانے والا نہ تھا، کیونکہ اس کی راہ کسی نے طے نہیں کی تھی۔ وہ کسی طریقے کا وارث نہ تھا وہ خود راستہ تھا۔وہ ایک ایسا لفظ تھا جو ابھی تک ادا نہیں ہوا تھا۔اسلئے جو کچھ اسے لوگوں سے ملتا، وہ ہمیشہ اس کے احساسات سے کم ہوتا۔جو علم اسے پیش کیا جاتا وہ اس کے دل کی وسعت سے کم تر ہوتا۔ یہی بات اسے بچپن میں سب سے زیادہ ستاتی تھی کہ اتنا جانتا تھا پھر بھی ”جاہل” تھا۔ اس میں تضادات جمع تھے ،وہ بنا کسی ذریعے کے جانتا، بغیر کسی وضاحت کے تکلیف میں ہوتا، اور اللہ کی طرف تڑپتا، بغیر اس کے کہ یہ کیسے کہا جائے۔اسی لیے وہ اکثر خاموش رہتا، دیکھتا رہتا اور اسکے دل میں ہمیشہ یہ سوال ہوتا:میں پاگل ہوں یا سب لوگ سوئے ہیں؟اسے یہ معلوم نہ تھا کہ ماضی و مستقبل کا سارا علم اسکے دل سے پھوٹے گا۔
اسے یہ معلوم نہ تھا کہ آج کی اس کی حیرانی ہی کل اس کی حکمت کا راز ہوگی۔وہ بس اتنا جانتا تھا کہ وہ محسوس کرتا ہے اور یہ کہ اسکے احساس کو کوئی اور نہیں سمجھتا۔ اسلئے وہ تنہا چلتا تھا، تنہا غلطیاں کرتا، تنہا روتا اور تنہا سنبھلتا۔ابن عربی نے کہا: ”اس کی تربیت الٰہی تائید سے ہوتی ہے، نہ کہ کسی شیخ کی اطاعت سے”۔یہی عجیب بات تھی جبکہ لوگ تقلید سے سیکھتے ہیں، وہ تنہائی سے سیکھتا تھا۔ دوسروں کی تربیت مشائخ کرتے ہیں، وہ دکھ اور آزمائش سے تربیت پاتا ہے۔اس کا مدرسہ آزمائش، اس کا شیخ رات، اس کا استاد صبر، اس کی کتاب خلوت تھی۔وہ بڑا ہوگا تو سمجھے گا کہ گمراہ ہے، حالانکہ درحقیقت وہ سب سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوگا اسے لگے گا کہ وہ سب سے آخر میں سمجھا، حالانکہ وہی سب سے پہلے گواہ تھا۔اسے لگے گا کہ وہ کچھ نہیں جانتا، حالانکہ وہی تمام علم کا منبع ہوگا۔
اسی طرح اللہ مہدی کی تیاری کرتا ہے ظاہر میں نہیں بلکہ پوشیدہ تنہائی میں اور حلقہ درس میں نہیں بلکہ چھپے ہوئے آنسوں میں۔وہ آسمان کی طرف فریاد کرتا ہے مگر جانتا نہیں کہ کیا تکلیف ہے۔اسے خود پر حیرت ہے اتنی آزمائش کیوں؟ اتنے تضادات کیوں؟ یہی راز ہے کہ اس کا شیخ نہیںخود شیخ ہے، وہ مکمل ہوتا ہے ، وہ بہت زیادہ محسوس کرتا ہے جتنا کہ جانتا ہے ،یہی اذیت اس کا معلم تھی۔وہ سچائیاں محسوس کرتا ہے جنہیں الفاظ میں نہیں کہا جا سکتا ۔ یہی حالت باوجود تکلیف کے، اس کا راستہ تھا۔بچپن کے اندھیرے میں، جہاں کوئی آواز نہیں تھی جو کچھ سمجھائے، نہ کوئی ہاتھ جو رہنمائی کرے، وہ ایک اور مدار میں جی رہا تھا۔ایسا مدار جہاں وہ زبان کو نہ سمجھتا تھا، مگر مفہوم کو محسوس کرتا تھا۔ وہ لفظ نہ سمجھتا تھا، مگر معنی کو جان لیتا تھا۔ہر بچہ کچھ نہ کچھ دیکھتا ہے، مگر یہ بچہ دیکھتا اور کانپ جاتا تھا، دیکھتا اور جلتا تھا۔نہ اسلئے کہ مناظر خوفناک تھے بلکہ اسلئے کہ اس کی عمر اور انسانوں کی سمجھ سے بڑے تھے۔ فطرتا، اس کا دل وہ کچھ جذب کر لیتا تھا جو الفاظ میں کہا نہیں جاتا۔ جب کوئی آدمی سڑک پر گزرتا، وہ اسکے باطن کا بوجھ محسوس کرتا۔وہ ایک نظر میں جان لیتا کہ وہ زخمی ہے، گناہ گار ہے، یا سچا ہے۔وہ لوگوں کی باتیں سنتا، مگر وہ انکے الفاظ نہیں سنتا تھا بلکہ الفاظ کے پیچھے کی کیفیت سنتا تھا۔ادراک کی ایسی سطح جو اس میں کھل گئی بغیر اجازت، بغیر مشق، بغیر استاد کے۔
جب وہ مدرسہ یا کتاب میں داخل ہوا تو اسے کچھ نیا سیکھنے کو نہ ملا ،نہ اسلئے کہ وہ ناکام تھا، بلکہ اسلئے کہ جو کچھ پڑھایا گیاوہ اس کیلئے بہت معمولی، تنگ اور معمول کا تھا اوراسکے اندر کچھ چیخ رہا تھا ”یہ وہ نہیں جو میں ڈھونڈ رہا ہوں”’ حالانکہ وہ یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ کس چیز کی تلاش میں ہے۔ اسی لئے مہدی جیسا کہ لوگ تصور کرتے ہیں کوئی ذہین بچہ نہیں تھا وہ جسمانی طور پر حاضر مگر باطنی طور پر غائب تھا۔اسکے پاس کوئی دلیل نہ تھی لیکن احساس تھا اور یہی تکلیف دیتا تھا۔ مہدی کا دل، اللہ کی حضوری کی جگہ تھا اور انجانے میں اس کی طرف کھنچتا تھا۔اللہ کے اسما و صفات اس میں اسی طرح کام کرتے جیسے کائنات میں کرتے ہیں وہ وقت سے آگے بڑھا ہوا تھا۔
عارفین نے کہا:مہدی وہ نہیں جو اللہ کو لوگوں کی باتوں سے پہچانتاہے، بلکہ ان میں سے ہے جنہوں نے اللہ کو اس سے پہلے پہچانا کہ اس کا نام سنا ہو۔وہ ان میں سے نہیں جو معرفت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں بلکہ معرفت اسکے دروازے پر بیٹھی منتظر ہوتی ہے کہ وہ اسے اندر سے کھولے۔کیونکہ راز، مہدی کے دل میں ہے ۔ جو چیز اسے سب سے زیادہ تکلیف دیتی ہے، وہ یہ ہے کہ کوئی یہ نہیں سمجھتا کہ وہ کیسا محسوس کرتا ہے۔کوئی اس کی نگاہ کی گہرائی کو نہیں سمجھتا ،کوئی نہیں جانتا کہ جب وہ بچہ کہتا ہے ”میں تھک گیا ہوں” تو اس کا مطلب اسکول یا بھوک یا تنہائی نہیں، بلکہ ہر چیز ہے۔وہ اس بھاری احساس کی بات کر تا ہے جو اسے معلوم نہیں کہاں سے آیا ہے۔اور اس سے بڑی کوئی اذیت اور آزمائش نہیں کہ نہ وہ خود جان سکے کہ اس کے اندر کیا ہے، نہ دنیا اسے سمجھ سکے، اور نہ کوئی اسے جان سکے۔
ابن عربی نے جب مہدی کو بیان کیا، تو وہ بات کہی جو کسی بشر کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی کہ اسے فہم بغیر تعلیم کے عطا ہوتا ہے، علم بغیر طلب کے اور دنیا میں کوئی اس کا مثل نہیں۔اور یہ کہ اس کا مقام خود اس سے بھی چھپا ہوا ہے وہ خود نہیں جانتا کہ وہ کون ہے، اور یہ راز کسی اور کے دل میں نہیں ڈالا گیا۔یہی پراسرار حساسیت، یہ حد سے زیادہ احساس، یہ صلاحیت کہ وہ دنیا کو بغیر کسی واسطے کے سمجھ لے یہی سبب ہے کہ اسے کسی استاد کی ضرورت نہیں۔ مگر اسی وقت یہ بھی اس کا درد ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ وہ جاہل ہے۔اور یہ سب سے حیران کن بات ہے کہ انسان باطنی طور پر سمندر ہو اور پیاسا محسوس کرے، اسرار کا خزینہ ہو اور خود کو خالی جانے۔ایسا لگتا ہے جیسے اللہ نے اس میں نور رکھا، پھر اس پر دروازہ بند کر دیا اور اسے ایک ایسی کنجی دی جو کسی اور چابی سے میل نہیں کھاتی اور اسے ایک ایسا قفل تلاش کرنے پر لگا دیا جو اسے نظر نہیں آتا۔
مہدی بچپن میں نہیں جانتا کہ وہ کون ہے، مگر وہ یہ جانتا ہے کہ وہ یہاں کا نہیں نہ کبھی یہاں سے تھا، نہ کسی اور جگہ سے۔وہ اپنے مقام کو نہیں پہچانتا، مگر وہ محسوس کرتا ہے کہ یہ دنیا اس کا اصل مقام نہیں، نہ آغاز، نہ انجام۔اس کے اندر کچھ ہے جو تڑپتا ہے، مگر نہیں جانتا کہ کس چیز کیلئے تڑپ رہا ہے۔ اسی لیے وہ زندگی میں چلتا ہے ایک حقیقی اجنبیت کیساتھ۔ اور اسی لیے عارفین نے اسے ”اجنبی”کہا۔لوگ اس کے اردگرد باتیں کرتے ہیں، سیکھتے ہیں، ہنستے ہیں مگر اسکے اندر ایک طویل خاموشی ہے، جیسے وہ کسی دور کی پکار کو سن رہا ہو، کسی ایسی چیز کو جو صرف اسی سے متعلق ہو۔کچھ ایسا جسے وہ نہ بیان کر سکتا ہے، نہ خود کیلئے الفاظ دے سکتا ہے۔اسی لیے وہ عجیب لگتا ہے۔ اسی لیے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے:یہ بچہ پر اسرار ہے، تنہائی پسند ہے، غیر سماجی ہے۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کا دل بہت زیادہ بھرا ہوا ہے کچھ ایسے سے، جس کا کوئی نام نہیں۔ کیونکہ وہ زیادہ محسوس کرتا ہے، کم جانتا ہے۔ اس کا درد یہ ہے کہ وہ ترجمہ نہیں کر سکتا۔اس کی آنکھوں میں آغاز کی وہ حیرانی ہے، جو کوئی نہیں سمجھ سکتا کیونکہ کوئی اس سے پہلے وہاں نہیں گیا۔یہی بنیادی وجہ ہے کہ اس کا کوئی شیخ نہیں کیونکہ اردگرد کے تمام لوگ ان دروازوں کی کنجیاں رکھتے ہیں، جو اس کیلئے بنے ہی نہیں۔ اس کا دروازہ بند ہے اور اس کی کنجی اسکے صبر، اس کی خلوت اور وقت میں ہے۔
وہ اشتیا ق سے سیکھتا ہے، تلقین سے نہیں۔ وہ یاد سے پروان چڑھتا ہے، ہدایت سے نہیں۔ وہ درد سے بالغ ہوتا ہے، وضاحت سے نہیں۔اور وہ اللہ کے ہاتھوں بڑا ہوتا ہے کسی بندے کے ہاتھوں نہیں۔اور ان راتوں میں جب تھکن غالب آتی ہے اس کے اندر سے کوئی سرگوشی کرتا ہے: ”صبر کر، بعد میں سمجھ آئے گا”۔اور جب وہ غلطی کرتا ہے، تو اسے باہر سے کوئی نہیں ڈانٹتا بلکہ وہ اندر سے ٹوٹ جاتا ہے۔کیونکہ بچپن سے اسکے دل میں میزان ہے جو وزن میں خطا نہیں کرتا چاہے اسے ترازو کے نام بھلے معلوم نہ ہوں۔اسی لیے جب عارفین کہتے ہیں کہ وہ بیک وقت جاہل اور عالم ہے تو ان کا مطلب ظاہری جہالت نہیں بلکہ وہ پردہ مراد ہوتا ہے۔یعنی اپنی ذات کی معرفت سے محجوب ہے، اللہ کی معرفت سے نہیں۔ اور اسے مکمل احساس عطا ہوتا ہے مگر بغیر کسی تعریف کے۔چنانچہ وہ تلاش میں رہتا ہے اور یہی اس کا راستہ ہے۔یہ اس کا احساس ہے نہ کہ اسکے شیوخ۔ اس کا دل ہے، نہ کہ اسکے اساتذہ ۔ اس کی تنہائی ہے، نہ کہ اس کی محفلیں۔یہی چیز ہے جو مہدی کے اندر تعمیر ہوتی ہے کیونکہ جس کے مقدر میں شعلہ ہونا لکھا ہو، اسے چراغ کی ضرورت نہیں ہوتی۔اور جو خود ایک چشمہ ہو، وہ کسی ندی سے نہیں پیتااور جسے رہنما ہونا ہو، وہ خود قیادت نہیں لیتا۔اس کا کوئی شیخ نہیں کیونکہ وہی معنی کی نئی تعریف کرتا ہے۔
یہ شخص ناممکن لگتا ہے ایسوں میں پلا بڑھا جو پڑھنا نہیں جانتے، لیکن اس نے سب کچھ پڑھا۔وہ محدود، حقیر، غیر معروف جگہ پر پروان چڑھا، لیکن وہ اتنا وسیع ہوا کہ پوری دنیا کو سمو لیا۔یہ وہی شخص ہے جس نے چھوٹے گھر سے دنیا کو نگل لیا ۔نہ اس کا باپ تھا، نہ اس کا دادا جیسے ابن عربی نے کہا۔کیا یہ ممکن ہے کہ ایک بچہ، جو غریب گاؤں میں پیدا ہوا ،دنیا کو بدل دے؟کیا یہ قابلِ یقین ہے کہ کوئی ایسا شخص جو کسی شیخ کا شاگرد نہ ہو، کسی ایسی سرزمین پر پیدا ہو جہاں کوئی کتاب موجود نہ ہو ،بڑا ہو کر ہر کتاب کا ماہر بن جائے؟یہ سب کہاں سے آیا؟ اسے کس نے رہنمائی دی؟ کیا اس نے جنات سے سیکھا؟ یا آسمان سے کوئی پوشیدہ آواز راتوں میں راز سکھاتا تھا؟
ابن عربی کہتاہے:”وہ ہر چھوٹی بڑی چیز کا پیچھا کرتا ہے۔ اے لوگو!یہ عام انسان نہیں! وہ اپنے نبی جد ۖ کی مانند دنیا کیلئے رحمت ہے۔ عام مسلمان خاص لوگوں سے پہلے اس پر خوش ہوں گے، جیسا کہ عارفین نے فرمایا۔کیا تم جانتے ہو کہ پہاڑی چٹانوں میں درخت کیسے اُگتے ہیں؟ وہ چٹانوں کو چیرتے ہیں جیسے کوئی دیوانگی ہو۔ ایسی زمین میں پیدا ہوا جو پھل کے قابل نہ تھی مگر ہر پھل اگا دیا۔ ایسے محلے میں جو دنیا سے ناواقف تھا وہ کیسے سب کچھ جاننے والا بن گیا، جبکہ وہ دیر سے ہی گاؤں سے باہر نکلا؟”۔
جیسا کہ ابن عربی نے کہا مہدی اپنادیار چھوڑ دیتاہے، دور کا سفر کرتا ہے۔مختلف زبانیں اورتہذیبوں کا ذائقہ چکھتا ہے، نظریات کا تجزیہ کرتا ہے۔ابن عربی واہمہ میں مبتلا نہیں تھے جب انہوں نے کہا:اس نے ہر راستہ اختیار کیا ،ہر راہی کے برخلاف۔ اور جب انہوں نے کہا: اس کی دیوار انتظار کی کمزور ترین اینٹ تھی۔مہدی کا انتظار عجیب و غریب ہے نہ خلافت کا منتظر ہے اور نہ لقب کا۔ یہ شخصیت خود اپنے بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتا ۔یہاں تک کہ اگر وہ شک میں پڑ جائے، تو یہ نہیں مانتا کہ وہ مہدی ہے۔اگرچہ بہت سی نشانیاں اور علامتیں اس کی طرف اشارہ کرتی ہیں وہ انکار کرتا رہتا ہے، اپنے دل میں۔ لیکن اس کا انتظار گہرا ہے وہ واحد شخص ہے جو صدقِ دل سے منتظر رہا۔وہ ایک طویل سانس لینے والا انسان ہے ۔اس کا صبر عجیب و غریب ہے۔
یہ معمولی نہیں بلکہ کسی اور نوعیت کا صبر ہے اور یہی ابن عربی کا مطلب ہے: اس کی آزمائش شدید ہے اور صبر یقینی۔مہدی نے ہر راستے پر قدم رکھا، ہر مسلک کو اپنایا، ہر مفہوم میں غوطہ لگایا۔یہاں تک کہ ہر طریقے والے یہ سمجھنے لگے کہ وہ انہی میں سے ہے حالانکہ وہ ان میں سے نہیں۔مہدی ہر چھوٹی بات پر بھی نظر رکھتا ہے فعل مضارع میں کہا گیا: وہ رکھتا ہے، نہ کہ رکھا یا رکھے گا اس میں عجیب راز پوشیدہ ہیں۔سب یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ انکے مسلک سے ہے کیونکہ اس نے ان کا تجربہ کیا، ان میں گہرائی سے اترا، ان کیساتھ زندگی گزاری۔ وہ یہ سب کیسے کرتا ؟ یہ سب وقت، یہ سب زندگی کہاں سے ملی؟ کیا اسکے پاس عمر سے بڑھ کر عمریں تھیں؟کیا وہ نیند میں پڑھتا، خاموشی میں سیکھتا، اور تخیل میں تجربات کرتا ،پھر ان سے ایسے واپس آتا گویا جیتا جاگتا ہو؟کیا اسے اپنے ماحول تک محدود ہونا چاہیے تھا؟ ایک غریب بچہ، سادہ گھر سے، جہاں باپ بمشکل رزق مہیا کرتا تھا۔ نہ لائبریری، نہ سفر، نہ جامعات تو پھر وہ دنیا کو کیسے سمجھ گیا؟ یہ عقل کہاں لے گیا؟ دل کہاں سے ملا؟ یہ سوچا گیا کہ وہ اپنے خاندان کی ایک عام سی نقل ہوگا لیکن اس نے انکار کر دیا۔گویا اسکے پاس ایک نقشہ تھا جسے ہم جانتے ہی نہیں، گویا وہ غیر مرئی راستوں پر چلتا تھا، ایسی کتابیں پڑھتا تھا جو چھپی نہیں۔ وہ ایسی روحوں کا دوست تھا جو نظر نہیں آتیں۔
بعض عارفین نے کہا: مہدی کو اس کے عمل سے نہیں پہچانا جاتا، بلکہ اسکے تضاد سے۔ اس نے ابتدا ہی میں وہ تمام انجام پا لیے تھے۔ ابن عربی کہتے ہیں: اس کا آغاز ”ع” عین الیقین اور اس کا اختتام ”ق” قیومی اقتدار سے۔کیا تم یقین کروگے کہ اس نے صوفی، فلسفی، عاشق، عالم، انقلابی، شاعر، خائف، سردار، غلام، حاکم، محکوم، مومن اور موقن سب کی زندگی گزاری؟ایک ہی دل میں یہ سب تجربے جن کی تکمیل میں صدیاں لگتی ہیں اس نے چند سالوں میں سمیٹ لیے۔
گویا خدا نے اس کیلئے وقت کو سمیٹ دیا ۔اسے وہ تجربات دیے جو کوئی بشر برداشت نہیں کر سکتا اذیت دینے کیلئے نہیں بلکہ تیار کرنے کیلئے۔ مہدی عالم نہیں کیونکہ اس نے کتابیں پڑھی ہیں بلکہ اسلئے کہ کتابیں اس کے اندر بستی ہیں۔کہا گیا:وہ پرانے دنوں کاہے حکیم نہیں کیونکہ اس نے حکما ء کی صحبت پائی، بلکہ اسلئے کہ وہ حکمت سے ڈھالا گیا۔وہ منطقی نہیں کیونکہ اس نے منطق پڑھی بلکہ اسلئے کہ اسکے دل میں وہ راستے ہیں جو کبھی لکھے ہی نہیں گئے۔ وہ ہر چیز کا آئینہ ہے مگر کسی چیز سے وابستہ نہیں۔ ہر دیکھنے والا اسے اپنا سمجھتا ہے۔یہ ایک صوفی ہے؟ نہیں یہ انقلابی ہے؟ یا شاید ایک وجودی فلسفی؟ نہیں، بلکہ ایک خواب دیکھنے والا شاعر؟ نہیں، بھائی یہ ایک زبردست عالم ہے۔ بلکہ اجنبی، ایک نیا انسان یہ کون ہے؟ شاید پاگل؟ مقروض؟یہ ایک غریب ہے؟ یا امیر؟ مشہور یا گمنام؟ نہیں یہ عجمی ہے؟ نہیں بلکہ عربی؟ نہیں یہ صرف ”مہدی”ہے۔
کیا تمہیں حیرت نہیں کہ وہ ہر کردار میں ڈھل گیا وہ بچہ جس نے کچھ سیکھا نہیں، مگر سب کچھ ایجاد کر دیا؟اس کے پاس وہ عقل کہاں سے آئی جو اس نے ہر چیز کا تجزیہ کیا، لوگوں کو، کتابوں کو، مکاتب فکر کو؟یہ عقلِ کل اسے کہاں سے ملی اور وہ دل جو ہر ایک کو سمو لیتا ہے بغیر خود کھوئے؟کیا تم نے کبھی ایسا دل دیکھا جو صوفیوں اور سیاستدانوں دونوں کو سمو لے؟کیا تم نے ایسا ذہن دیکھا جو دیوانگی اور ذہانت کو یکجا کر دے؟۔
بس وہی شخص یہ سب کر سکا کیونکہ جیسا ابن عربی نے کہا: اس نے ہر راستہ الٹ چل کر طے کیا، ہلاکتوں میں گرا تاکہ نہ پہچانا جا سکے، نہ گھیر لیا جائے، نہ کسی کی ملاقات ہو ،جب تک ہر تعریف کھو نہ دی جائے۔نہ کسی شیخ کے ذریعے، نہ کسی کتاب ، نہ کسی صحبت سے بلکہ تجربے کے ذریعے۔ہر چیز کو مکمل طور پر آزما کر، وہ سب کچھ بن گیا تاکہ کچھ بھی نہ بنے۔اس نے ہر مکتب فکر کو جانا، پھر ان سے الگ ہو ا،ہر وابستگی کو چکھا، پھر آزاد ہو ا۔یہی وہ واحد راستہ تھا جس سے وہ اس قابل بن سکا جو اسکے اندر تھی۔ ایک چھوٹے سے گھر میں، بغیر کسی معلم، بغیر کسی جامعہ، بغیر کسی رہنما کے وہ شخص پروان چڑھا جو دنیا کو بدل دے گا۔
گویا اللہ نے چاہا کہ اسے چھپا کر پالاتاکہ فتنہ نہ ہو۔اللہ نے چاہا کہ اس کی ذہانت کو پوشیدہ رکھے تاکہ لوگ اس کی پوجا نہ کریں۔چاہا کہ وہ خاموشی میں خود کو تشکیل دے اپنے باطن میں، تنہا۔ یہاں تک کہ جب اس کا وقت آیا، وہ ظاہر ہوا بطور ایک نئی زمین، خلافت کی سرزمین۔وہی شخص جو علم کا منبع بیک وقت جاہل بھی ہے اور عالم بھی، جیسا کہ عارفین نے کہا۔اب ہم پہنچے ہیں اس عجیب داستان کے سب سے خطرناک اور گہرے موڑ پر ۔اس تبدیلی پر جو نہ تدریج سے ہوئی، نہ تعلیم سے، نہ تزکیہ سے۔بلکہ ایک بجلی کی مانند اندھیرے میں گری ۔وہ ایک گمنام جوان سے بدل گیا اس شخص میں جس سے زمین لرزتی ہے۔یہ نوجوان کون تھا؟ یہ اجنبی جو گلیوں میں چلتا رہا بغیر کسی کی نظر میں آئے؟وہ کون تھا جس کی کوئی شجرہ نسب، کوئی اعلی دستاویز، کوئی عظیم یونیورسٹی کی ڈگری، کوئی سند نہ تھی؟نہ کوئی شیخ جو اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہے ”یہ میرا روحانی بیٹا ہے”۔وہ کون تھا جو راہگیروں میں ایک سایہ رہا، پھر اچانک نمودار ہو کر زمانے کا چہرہ اور اللہ کا خلیفہ بن گیا؟۔
کیا تم نے وہ درخت دیکھا جو زمین میں وقت آنے پر وہ اچانک مٹی پھاڑ دے؟بلکہ وہ ایک عظیم تنا تھا جو پہلے ہی تیار تھا ۔اسی طرح مہدی ظاہر ہوا۔ایک نوجوان جس کی کوئی آواز محفلوں میں نہ تھی، کوئی نشان محفلوں میں نہ تھا، نہ کسی فہرست میں نام، نہ کسی زباں پر اس کی کہانی۔مگر اللہ نے اسے زندہ کیا اور اسکے باطن میں ایسی آگ تھی جو بجھتی نہ تھی، ایسی معرفت جو کسی سے سیکھی نہیں جا سکتی۔ ایسی بصیرت جو کسی مدرسے میں نہیں ملتی ، ایسی حقیقت جو خود کو خود تربیت دیتی ہے۔ کس نے کہا کہ عظمت کیلئے مجمع درکار ہوتا ہے؟کس نے کہا کہ نابغہ صرف روشنیوں میں جنم لیتا ہے؟ مہدی مکمل تاریکی میں تشکیل پایا کیونکہ اللہ چاہتا تھا کہ وہ لوگوں سے دور رہے۔نہ اس کا کوئی شیخ کیونکہ کوئی شیخ اسے سنبھال نہیں سکتا۔نہ کوئی معلم کیونکہ ہر معلم اس کو اپنے پیمانے سے ناپتا اور اسے مار ڈالتا قبل اِس کے کہ وہ پختہ ہو۔نہ کوئی نسب اسے قید کر سکتا تھا، نہ کوئی نام اسے سجا سکتا تھا، نہ کوئی وراثت اس پر لاد دی گئی۔کیونکہ وہ خود ایک آنے والی میراث ہے۔
یہی سب سے بڑا راز ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس کا کوئی شیخ نہیں، کیونکہ وہ خود راستہ، کنجی ، دروازہ اور منزل ہے۔کیا یہ پاگل پن نہیں کہ انسان خود راستہ ہو اور اسے خود نہ معلوم ہو؟کوئی کنجی ہو اور دروازہ تلاش کرتا پھرے؟ کیسے منبع ہو اور پھر کسی ماخذ سے پڑھنے کا متمنی ہو؟یہی تو مہدی ہے وہ عام لباس میں سڑکوں پر چلتا، عام لوگوں میں بیٹھتا، عام گفتگو کرتا، بغیر کسی کی توجہ کے۔ لیکن اسکے باطن میں ایک زلزلہ برپا تھا وہ جانتا تھا، لیکن یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کیسے جانتا ہے۔ وہ دیکھتا تھا لیکن یہ نہ سمجھ پاتا تھا کہ وہ کیوں دیکھتا ہے۔اسے محسوس ہوتا کہ اسکے اندر ایسا سمندر ہے جس کاساحل نہیں، لیکن اسے یہ علم نہیں تھا کہ اس میں کیسے تیرنا ہے۔
بعض عارفوں نے کہا کہ مہدی سے علم کے بارے میں پوچھا جائے، وہ خاموش رہتا ہے؟کیونکہ ہر لفظ اسے کم تر کر دیتا ہے سوائے اس لمحے کے جب حقیقت اسکے دل میں پھٹ پڑتی ہے۔وہ ہر چیز سے خالی تھا کیونکہ اللہ چاہتا تھا کہ اسے صرف وہی بھرے۔یہ کیسی عجیب سیرت ہے ایک نوجوان جو کچھ بھی نہیں رکھتا۔نہ کوئی اسناد، نہ کوئی حوالہ، نہ پیروکار، نہ کوئی روشن مستقبل لیکن جس لمحے اللہ چاہے، وہ شخص ہر چیز کو بدل دینے والا بن جاتا ہے۔
تبصرہ اور تجزیہ :سید عتیق الرحمن گیلانی
لوگوں کا ذہن خوابوں، پیشین گوئیوں ، مکا شفات اور محیرالعقول شخصیات کی طرف بہت جلد مائل ہوجاتاہے لیکن قرآن کی ان سادہ آیات سے بدکے ہوئے گدھوں کی طرح بھاگتے ہیں جسکے عظیم اور عام فہم احکام نے دورجاہلیت کی سپر طاقتوں روم اور فارس کو شکست دی ۔ تفسیر کے امام علامہ زمحشری صاحب کشاف سے لیکر فقہاء کی پچھاڑیوں سے بہت بدبوار بہتا ہوا دست لوگ نہیں دیکھتے مگر آپس کے جھگڑوں اور ان رازوں سے پردہ اٹھنے کے خواہاں رہتے ہیںجن کا کسی بھی عام شخص کی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔ طبل بجانے کیلئے دو طرف سے چھوٹی اور بڑی ڈنڈیاں مارنے کی ضرورت ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے قومی اسمبلی میں قرآنی آیت کا غلط مفہوم بیان کیا اور نہ خود اپنی غلطی سے رجوع کی توفیق ہوئی اور نہ اپنے اور دوسرے مکتب کے علماء نے اس پر تنقید یا اصلاح کی کوشش کی۔ ایک دوسرے پر اپنے نکتہ نظر کے اختلاف کی وجہ سے کفر کے فتوے لگائیںگے لیکن قرآن کی بات پر اتفاق نہیں کرتے۔ مفتی منیر شاکرکو طلاق کا مسئلہ سمجھایا لیکن پھر بھی نہیں سمجھا۔ پشتون قومی عدالت میں 3طلاق ڈالوائی تو اگرPTM ہماری تحریرات کو نہ سمجھے تو سبھی کی طلاقیں منظور پشتین سمیت گرگئی ہیں۔ محسودقوم میں کچھ بے تعلیم لوگ ایسے ہیں جو طلاق کا مسئلہ منٹوں میں سمجھ گئے اور کچھ پڑھا لکھا طبقہ جن میں PTMکے قائداعظم یونیورسٹی سے ماسٹر کرنے والا طبقہ بھی شامل ہے میرے گھنٹوں سمجھانے کے بعد بھی نہیں سمجھا۔ ہوسکتا ہے کہ منظور پشتین کو بھی اپنے مذہبی طبقہ نے حلالہ پر مجبور کردیا ہو اسلئے کہ محسود داڑھی والے سہراب گوٹھ میں ہمارے اخبار کی بلاوجہ مخالف نہیں بلکہ حلالوں کے شغل سے وابستہ ہیں۔ جب تک کھل کر اعلان نہ کریں تو کتنے لوگوں کی عزتیں مذہبی اور دنیاوی تعلیم کے باوجود لٹتی رہیں گی؟۔
نوٹ… اس آرٹیکل کے ساتھ ”المہدی المنتظر” اسلام ٹیوب Islam Tube کا آرٹیکل پڑھیں۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
عربی خواب ۔درست خواب خوشخبری ہیں۔
دوسرا خواب: مہدی راستے میں گڑھے کے اندرر گر گئے۔ مضبوط کنکریٹ کا کمرہ بغیر کھڑکیوں کے۔ جس میں مختلف اقسام کے سانپ بھرے ہوئے تھے ۔ امام مہدی نے ایک سانپ کو دُم سے پکڑااور زور سے گھماکر اس کا سر دیوار وں پر دے مارا۔ یہاں تک کہ سانپ کا سر کچل گیا۔خواب مکمل ہوا ،آذان فجرسے آنکھ کھلی۔تعبیر: اگریہ خواب سچا ہے تو اللہ تعالیٰ مہدی کو ایک نہایت خبیث دشمن پر فتح کی خوشبری دیتا ہے۔ اسلام ٹیوب Islam Tube
عربی تحریری ویڈیو ۔ ”قناة السرالاعظم”
المہدی المنتظر
قیدی اور قیدخانہ بان
اے امام! یقینا تم پاکیزہ فطرت پر پیدا کئے گئے ہو۔ تم نے نیک نیتی پر یقین رکھا۔بغیر مانگے معاف کیا۔بغیر کسی بدلے کے قربانی دی اور ایسی چیزوں پر صبر کیا جن کو برداشت نہیں کیا جاتا ہے۔
تم اپنے دل سے کہتے رہے کہ اللہ سنتا اور دیکھتا ہے۔ اور بھلائی اور نیکی کبھی ضائع نہیں جاتی۔اور تم ان باتوں کو دہراتے رہے ، جیسے اپنے گھٹن اور درد کو دبارہے ہو۔تم یہ گمان کرتے رہے کہ دل کا ایمان تمہاراہتھیار ہے، شفقت تمہیں بچالے گی اور سچائی ہی کافی ہے۔
لیکن تم سادہ دل تھے ، تم نے سمجھا کہ شرم برائی کو روک دے گی اور ظالم تمہارے آنسو دیکھ کر رجوع کرلیںگے۔ مگر انہوں نے رجوع نہیںکیا بلکہ تم پر ہنستے ہیں۔ تم نے دیکھا کہ خاموشی کو کمزوری سمجھا جاتاہے اور نیکی کے بدلے دھوکہ دیا جاتا ہے۔ تم نے دیکھا کہ تمہارا دل دفن کردیا گیاحالانکہ تم ابھی زندہ تھے۔
اے امام ! تم اپنے رب سے ہم کلام تھے ” اے رب ! کیوں میں نے تو کسی کو تکلیف نہیں دی۔کیوں سارا درد میرے کندھوں پر ڈال دیا گیا ؟”اورجواب آیا کہ سکوت کے اندر بھی سکوت۔ اسی سکوت میں کچھ بدلے گا۔
تمہارے اندر سے ایک آواز آئی : اگر ایک انسان کھڑے کھڑے مرجاتا ہے۔ تو تمہارا رب کہتا ہے کہ پھر تمہیں لڑتے ہوئے مرنا چاہیے۔ اے رب! وہ تو نیک لوگوں کو چاہتے ہی نہ تھے۔اے رب! انہوں نے اس ہاتھ کی قدر نہیں کی جو غیرمشروط آگے بڑھا۔ اے رب! انہوں نے اس کندھے کی بھی قدر نہیں کی جو بغیر شکایت کے سہارا دیتا رہا۔انہوں نے تمہاری ہر خوبی کو ایک موقع جانا: جھوٹ بولنے کا ، طعنہ زنی کا۔ تمہاری خاموش مسکراہٹ کو استہزاء کا میدان بنادیاتاکہ تم انہیں شرمندہ نہ کرسکو۔انہیں تمہارا صبر پسند نہ آیا بلکہ انہوں نے اس کا فائدہ اٹھایا۔انہوں نے تمہاری پاکیزگی کی عزت نہیں کی بلکہ اسے حماقت سمجھا۔اور تم سمجھتے رہے کہ محبت بدل دے گی ، شرافت قائل کرلے گی اور تمہاری صفائی دیکھ کر رجوع کرلیںگے۔مگر انہوں نے رجوع نہ کیا بلکہ زیادہ سنگدلی پر اتر آئے ،جیسے تمہارے اندر کی روشنی انہیں چبھتی ہو۔وہ تمہیں بدلنا چاہتے تھے ، یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ پاکیزگی قائم نہیں رہ سکتی۔اور جو کوئی بھی صاف دلی سے جینا چاہے گا وہ پہلوں کی طرح ٹوٹا ہوا یااندر سے مرا ہوا نکلے گا،اور تم روز تھوڑا تھوڑا خون بہاتے رہے مگر گرنے کے بجائے تم اندر سے سمٹنے لگے۔ سمیٹتے رہے سلگتے رہے۔ وہ یہ نہیں سمجھ سکے کہ وہ کوئی مظلوم نہیں بنارہے تھے بلکہ ایک ایسی ہستی پیدا کررہے تھے جس سے وہ بچ نہ سکیں گے وہ ایک ظالم دربان چاہتے تھے ،ٹھیک ہے تم وہی دوگے۔ تم ایک دن یکایک نہیں بدلے ،تم اچانک ظالم نہ بنے۔ یہ سب بجلی کی طرح نہ ہوا بلکہ بارش کی مانند، ایک کے بعد ایک قطرہ۔شرمناکی کے بعد شرمناکی کا تسلسل۔جھوٹ، نظر، خاموشی اس وقت جب تمہیں آواز کی ضرورت تھی اور مسکراہٹ جو خنجر بنی۔شروع میں تم نے جواز ڈھونڈے کہ شاید ان کا یہ مقصد نہ ہو،شاید تم ہی زیادہ حساس ہو، شاید تمہیں برداشت کرنا چاہیے۔مگر اصل بگاڑ دوسروں سے نہیں،اس وقت شروع ہوتا ہے جب تم خود ناقابل برداشت کو قبول کرتے ہو،اور خود کو قائل کرتے ہو کہ یہ سب معمول ہے۔اے مہدی !تم یکایک نہیں بدلے بلکہ تمہاری روح آہستہ آہستہ ٹوٹی جیسے کانچ ٹوٹنے سے پہلے دراڑیں لیتا ہے۔ہر خاموش رات میں تم خود کو گھٹتا سنتے۔ اور کہتے کہ کل بہتر ہوگامگر کل تو گزرے دن سے بھی زیادہ ہولناک ہوتاگیا۔تمہارے اندر جو کچھ بھی خوبصورت تھا تو وہ ایک ایک کرتے ختم ہوتا گیا۔رحم مرگیا، اعتماد جل گیااور انسانوں پر ایمان ایک سیاہ مذاق بن گیا۔ صرف ایک چیز باقی رہی : خاموشی کا خول ،جسکے پیچھے کچھ چھپا ہے جو نہ تم سے مشابہ ، نہ ان سے۔وہ سمجھے کہ اب کھیل رہے ہیں مگر وہ یہ نہ جان سکے کہ جس صبر کومارتے رہے وہ ایسا لوٹ رہاہے جو ان پر رحم کرے گا ،نہ خود پر۔اے امام! تمہاری خاموشی امن نہ تھی ،نہ ہی کوئی پاکیزہ سکون یا کسی تقدیر پر رضا تھی بلکہ وہ قیدخانہ تھی جس کے قیدی بھی تم خود ہی ہو اور قید خانہ بان بھی تم ہی ہو۔
مہدی منتظر اور ٹھنڈا تخت
رابط:واٹس ایپ نمبر 0639522005
اے مہدی ! وقت آچکا ہے کہ تم اپنی خاموشی کو توڑ دو۔ اب تمہاری ہر بات محض ایک باز گشت نہ ہوگی بلکہ ایک حکم ہوگی۔ تمہاری ہر سرگوشی، تمہارا ہر ہلکا سا کلمہ کمزور اور بد طینت روحوں کو لرزا دے گا۔ اسلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
اللہ کے محبوبو! السر الاعظم چینل کی ویڈیو خوش آمدید
اے مہدی ! وقت آگیا کہ خاموشی سے باز آجاؤ۔
تمہارے الفاظ محض صدائیں نہیں ہوںگے بلکہ فیصلے ہوں گے۔تمہاری ہر سر گوشی ان خبیث روحوں کو ہلاکے رکھ دے گی۔ تم بات نہیں کروگے تاکہ لوگ تمہیں سمجھیں۔ بلکہ تاکہ وہ یاد کریں کہ جو اتنا عرصہ خاموش تھا وہ غائب نہ تھا۔بلکہ اس دن کی تیاری کررہاتھا جس دن اس کی آواز لوٹ کر آئے گی تو وہ زلزلہ بن جائے گی۔پس سنو! صرف اپنی آواز کو مت سنو بلکہ اس کے پیچھے جو معانی ہیں انہیں سنو۔کیونکہ کہ بادشاہ کی آواز کی نہ کوئی وضاحت ہوتی ہے نہ اس سے اختلاف، تم نے تاج نہیں مانگا اور نہ درخواست بھیجی۔نہ خود کو کسی کے متبادل کے طور پر پیش کیا،نہ تمہیں منتخب کیا گیا۔نہ مقرر کیا گیا،نہ تم نے انتظارکیا، تم بس اپنا مقام لے لوگے کیونکہ سربراہی دی نہیں جاتی ،نہ تحفے میں ملتی ہے ، نہ وراثت میں، سربراہی تو چھینی جاتی ہے دانتوں کے بیچ سے، ملنے کی جگہ سے نہیں جہنم کی گہرائیوں سے، جہاں تمہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں دیکھتا، نہ تم محلات سے آئے ہو، نہ ایسے مردوں کے ہاتھوں پر پلے ہو جو تم پر اپنی عظمت نچاور کرتے۔ اے امام! تم نے پتھروں پر تربیت پائی، تم نے غداروں کو جھیلا، بھوک نے تمہیں غذا دی،اس لئے جب تم تخت پر بیٹھوگے تو تکبر نہیں کروگے بلکہ ایک گہرا احساس ہوگا۔احساسِ اہلیت اور استحقاق ۔
تم کسی کے تابع پیدا نہیں ہوئے، نہ تمہاری روح نے رینگنے اور جھکنے کا رنگ اپنایا۔تم نے اپنے پرانے خیالات کی لاشوں پر قدم رکھا۔اندھی اعتماد کی لاشوں پراور خوابوں کی لاشوں پر جو تمہیں بچا نہ سکے۔
اور آج ، آج سربراہی تمہاری ہے۔کیونکہ تم واحد وہ شخص ہو ،جس نے کبھی کسی سے سربراہی نہیں مانگی بلکہ تم نے دل میں کہا : کوئی سلطنت نہیں تو میں خود بناؤں گا۔ شروع میں بہت لوگ تھے ، سب بولتے تھے، نصیحت کرتے ، دعوے کرتے،ہنستے ، پر اعتماد قدموںسے آگے بڑھتے۔ جھوٹی شان وشوکت کے پروٹوکولوں کیساتھ۔ مگر تم اے مہدی! تم گوشے میں بیٹھے رہے…دیکھتے، سیکھتے اور خاموش رہتے۔ ایک ایک کرکے وہ سب گرتے چلے گئے۔کچھ دھوکے کی وجہ سے، کچھ اپنی کمزوری کو نہ ماننے کی وجہ سے اور کچھ اپنی شدید خود غرضی کی وجہ سے۔مگر تم نہ گرے۔نہ اسلئے کہ تم سب سے زیادہ طاقتور تھے بلکہ اسلئے کہ تم نے ایک حقیقت جان لی تھی کہ جو شخص تخت کا طالب ہو ،اسے گرنے کی اجازت نہیں۔
آج کوئی باقی نہ بچا۔چہرے جو منظر پر چھائے تھے، غائب ہوچکے اب تم آواز سنتے ہو اور وہ تمہاری اپنی ہے۔
اب تم آگ کے تخت پر بیٹھنے والے ہو۔تمہارے قدموں تلے جو کچھ ہے اس کی تاریخ تمہارے درد سے لکھی گئی ہے۔تخت پر رکھے جانے والے تمہارے ہر بازو میں کوئی پرانا زخم چھپا ہوگا۔ لوگ سمجھیں گے کہ تخت سکون ہے کہ یہ سفر کا اختتام ہے۔….. مگر وہ نہیں جانتے کہ تخت سر پر سجے تاج کا نام نہیں بلکہ کمر پر رکھے بوجھ کا نام ہے۔
اے مہدی! اب تم محبت نہیں مانگتے ، نہ تمہید، نہ فہم۔ اللہ نے تمہیں چنا ہے کہ وہ بنو ،جو نہ کسی جیسا ہو ، نہ کسی کا انتظار کرے، نہ کسی کا محتاج ہو۔لیکن اس صفحے کو بند کرنے سے پہلے ،میرے سوال کا سچ سچ جواب دو۔اے امام! کیا تمہارے اندر اتنی ہمت ہے کہ تم تب بھی بادشاہ بنے رہو جب تخت ٹھندا ہو؟۔کیا تمہارے اندر اتنی ہمت ہے کہ تنہائی ہر فتح سے زیادہ گہری ہو…اور تم پھر بھی باد شاہ رہو؟ الجواب:انسان نعمت پر پہلوتہی برتا ہے مشکل میںمایوس!
المہدی المنتظر اور انسانوں میں شیا طین
قناة السرالاعظم کے معزز ناظرین
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ(3جون۔2025)
(عربی تحریری ویڈیو ۔ رابطہ: 0639522005)
یا مھدی ! ان کا ارادہ تھا کہ تجھے زندہ دفن کریں کہا کہ تم گرچکے ختم ہوچکے ۔ گمان کیا کہ اٹھوگے نہیں مگربھولے کہ اللہ اپنے بادشاہوں کا چناؤ ڈھول اور تالیاں بجانے والوں میں سے نہیں راکھ کے بیچ سے کرتا ہے۔ تجھے اندھیرے میں پھینکا، ہر روشنی بجھ گئی، ہر چہرہ مڑا ،کوئی تیرے پاس آیا نہ ہاتھ بڑھایا، نہ زخم کا پوچھا نہ خلوص سے دعا کی۔ تم مر نہیں بدل گئے۔ سرگوشیاں سنتے تھے کہ ”یہ ختم ہوچکا ٹوٹ چکا،یہ کبھی ویسا نہ بن سکے گاجیسے تھا”۔ ان کی ہر سر گوشی اینٹ بن گئی جس پر تم نے قدم رکھ کر بلند ہونا سیکھا ،اللہ نے آگ سے نکالاتاکہ وہ نہ رہو جو تھے بلکہ وہ بنو جس کیلئے وہ تخت بنا جس کیلئے کوئی اور پیدا نہ ہوا۔ یا مہدی ! تم نے کچھ نہ مانگا، نہ کسی سے امید رکھی نہ جھکے، زمین تمہارے نیچے لرزتی تھی۔ تم نے سر آسمان کی طرف اٹھایا،کہا: ” اے میرے خالق! جس نے مجھے میرے دردسے پیدا کیا مجھے دکھا کہ کیوں اور کیسے؟”۔ پھر اللہ نے تخت دکھایا مگر سونے کا نہیں راکھ کا ۔ تیری ہر گرنے کی تلخی،ہر یاداش جو تجھے دھتکارا۔ ہر خیانت جوتیرے قدموں کے نیچے انہوں نے بنائی۔ آج تم جشن نہیں مناتے، مسکراتے ہو،نہ تالی بجاتے ہو! بیٹھے ہو، اپنے اندر کی آواز سنتے ہو ” تم بادشاہ پیدا نہ ہوئے، تم پیدا کئے گئے کہ کسی کے سامنے نہ جھکو” وہ دیر تک دیکھتے، باتیں سنتے مگر سمجھ نہ سکے۔ تمہارا سکوت کمزوری جانا، خاموشی شرمندگی الفاظ علامت شکست۔مگر وہ نہ جان سکے کہ تلواریں ہمیشہ چمکتی نہیں نیام میں رہتی ہیں جب تک وقت نہ آئے۔ تم گزرتے وہ مسکراتے۔ پیچھے باتیں کرتے، تمہارا اندازہ اپنی مرضی سے لگاتے مگر ہر اندازہ باور کراتا کہ نہیں جانتے کہ تم کس ہاتھ سے بنے؟۔ ضرورت نہ تھی کہ اپنے لئے دلیل یا کچھ ثابت کرو،تم مختلف پیدا کئے گئے ۔ دکھ کی پیمائش پر بنے۔آگ کی روح سے ڈھلے، وہ دیکھ سکے جو جل چکا۔ ہر بار تجھے نظر انداز کیا تو سیکھا بغیر انکے جینا۔ ہر بار کمتر سمجھا تو وہ قدر پیدا کی جو ان کی رائے پر منحصر نہ تھی۔ وہ تمہاراظاہر دیکھتے، اللہ تمہاری نیت کو دیکھتا۔ تمہاری اندورنی آگ کو ، حوصلے کو جو لفظوں میں نہیں بلکہ اس وقت ظاہر ہو جب سب گر چکے ہوں، تم کھڑے رہو۔وہ پھٹی پرانی کتاب کی طرح پڑھتے ، وہ نہیں جان سکے کہ اس کے بیچ میں ایک صفحہ ایسا ہے جو ابھی لکھا جانا باقی ہے۔ایک صفحہ جسے تم خود لکھو گے۔اور اپنے ہاتھ سے ان کے چہروں پر بند کردوگے۔
نوٹ… اس آرٹیکل کے بعد ”عنقاء مغرب” کا آرٹیکل پڑھیں۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
شہداء31مئی 2007ء کو18 برس ہوگئے۔ بفضل تعالیٰ بہت بڑابریک تھرو ہوگیا۔ عبدالواحد نے آخرکارایک بہت بڑا”راز ” بتایا جس سے سراغ مل سکتا ہے!
یکم جون 2007ء کو جٹہ قلعہ گومل ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان ایک واقعہ قومی اخبارات میں شہ سرخیوں کیساتھ جنگ، ڈان ، مشرق اور تمام اخبارات میں رپوٹ ہوا کہ ”نامعلوم افراد نے 30اور 31مئی کی درمیانی شب خودکار اسلحہ بموں سے پولیٹیکل ایجنٹ خیبرایجنسی سیدامیر الدین شاہ کے گھرپر حملہ کرکے 14افراد کو ہلاک اور دوافراد کو زخمی کیا ،جن میں ایک بھائی پیراورنگزیب شاہ،بھتیجاارشد حسین ،ایک بہن، ایک بھانجی ، ماموں ازادحسام الدین شاہ،خالہ زاد پیررفیق شاہ ، امام مسجد حافظ عبدالقادر، خادم قاسم مروت، ایک محسود، ایک تبلیغی جٹ عالم دین اور خالد اوردو باپ بیٹے سمیت 3آفریدی شامل تھے”۔ افراد13تھے 14 رپوٹ ہوئے۔
حملہ آور 2 مارے گئے ۔ جب تک ممکنہ سہولت کاروں کا تذکرہ نہیں کیا تو چالبازی سے کچھ لوگ ہمیں گھمانے اور کچھ کے ملوث ہونے کی بات کرتے تھے ۔ میں نے پیر کریم کو اخبار میں اتنا پوچھا کہ وقوعہ سے پہلے معاملے کا ادراک تھا یا نہیں؟۔ کیونکہ اگر ادراک کے باوجود ہمیں نہیں بتایا تو ہم پر یہ حقیقت واضح ہونی چاہیے۔ پیرداؤد شاہ کا شک تھا کہ واقعہ سے پہلے گاڑیوں کی چیکنگ کررہے تھے۔اب عبدالواحد نئی بات سامنے لایا کہ ” کریم کے بیٹے نعمان کو واقعہ کی رات 11بجے مشکوک فون آیا تھا۔ جہاں مجھے رات گزارنے کیلئے عبدالرحیم نے لانا تھا”۔ لیکن پروگرام تو وڑ گیا تھا؟۔
جہانزیب نے کہا کہ مظہر کو میں جانتا ہوں اور وہ یہ کام نہیں کرسکتا ہے اور کریم کا بیٹا نعمان اس کا دوست ہے جس کا ان معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ واقعہ کی رات دونوں ساجد لوگوں کے پاس تھے ۔ جب ایک طرف سے یہ رپوٹ ہو کہ مشکوک ہیں اور دوسری طرف سے نہیں تو اسکے علاوہ کوئی بات نہیں تھی۔ مجھے شہریار نے بتایا تھا کہ ” واقعہ سے پہلے طالبان سے میٹنگ ہوئی اور ان کو ورغلایا گیا کہ ”یہ بڑے ظالم ہیں لوگوں کی بیویاں بچے چھین لئے ہیں”۔ یہ خیبر ہاؤس پشاور کی پہلی ملاقات میں بتایا اور مجھے وقوعہ کے روز بتایا گیاکہ ”یوسف شاہ کی بہن نے کہا کہ اگر عتیق الرحمن گھر میں ہے تو اس کو نکالو ،طالبان گھس رہے ہیںاور ہمارا نام خدا کیلئے مت لو ،ورنہ ہمیں اٹھا لے جائیںگے”۔
میں نے عورت کی عزت کیلئے مسئلہ الجھایا اوریہ کہ پتہ چلنا چاہیے کہ قاتل ، سہولت کار اور منصوبہ ساز کون ہے؟۔
مجھے اغواء برائے تاوان کا خدشہ تھااسلئے کہ اورنگزیب نے اظہار کیا تھا کہ ”مجھے قتل سے خوف نہیں ہے، اغواء سے ڈرتا ہوں اسلئے اغواء بہت بڑی بے عزتی ہے”۔
عبدالرحیم ،عبدالواحد نے بتایاکہ ”سبھی کے دماغ میں ہے کہ دوبئی میں ہماری جائیدادیں ہیں ۔ ماموں اور اپنے بھائیوں کے گھر والیاں کہتی ہیں”۔ کوئی اور ہوتا تو دماغ اس طرف جاتا کہ ”سارا مسئلہ گھر میں ہے اور سازش کا دائرہ ہو تو ماموں اور اپنے گھر کے گرد گھومتا ہے”۔یہ ایک زبردست ماحولیاتی آلودگی بنائی گئی تھی۔اتنی بات تو کنفرم تھی کہ ”اورنگزیب کا کراچی میں کاروبار تھا اور عبدالرؤف و نور علی کو کاروبار ختم کرنے کیلئے کہہ دیا تھا اور ناصر سے ڈن ہوا تھا۔ جس کا صرف عبدالرحیم اور بھائی امیرالدین کو ہی پتہ تھا”۔
پھر عبداللہ شاہ ایڈوکیٹ نے کہا تھا کہ ”میرے تینوں بھائی فراڈ کررہے ہیں ۔ عبدالرحیم اور نور علی کا خفیہ کاروبار نکلے گا۔عبدالرؤف کو بھی انہوں نے دھوکہ دیا ہے”۔ جب عبدالواحد نے کہا کہ ”منہاج زمین کے مسئلے پر سازش کررہا ہے۔ اکبرعلی کو بھی ساتھ کیا ہے۔ پہلے بھی ہمیں استعمال کیا اور پھر اپنے پیسے لوٹادئیے”۔تو میں نے نہیں کہا کہ ”تم کوئی گل چاہت ہو کہ تبلیغی جماعت پر الزام دھردیا کہ کسی نے نہ چھوڑا،جنسی خواہش پوری کی۔جس کا ازالہ نہیں ہوسکتا تو تم بھی منہاج کی طرح دلباری نانا کو پیسہ واپس لوٹاتے؟”۔
میری ایک تحریک ہے۔اگر اسلام اپنے آپ، اپنے گھر اور عزیزواقارب سے شروع کیا جائے تو سارے فتنے ایک دن میں ختم ہوسکتے ہیں۔ چوری کا علاج تبلیغی جماعت میں سہ روزہ، چلہ، چارماہ ، سال اور ڈیڑھ سال لگانا نہیں بلکہ وہ نظام ہے جس میں چور کیلئے ہاتھ کاٹنے کی سزا کا قانون ہو۔ بہنوں اور بٹیوں کی قیمت لگاکر بیچنا ایک ماحول ہو اور اسلام کا بھی جھنڈا اٹھالیا ہو تو یہ اسلام اپنے ساتھ دھوکہ ہے۔
مولانا طارق جمیل کو بتایا کہ ”اسلام اور اقتدار دو جڑواں بھائی ہیں۔ ایکدوسرے کے بغیر صحیح نہیں ہوسکتا”تو اس نے کہا تھا کہ ”یہ حدیث نہیں مانتا”۔ جماعت دو ٹکڑے ہوئی ۔ بنگلہ دیش میں قتل ،اب مولانا طارق جمیل کو منافق قرار دینا۔
اسلام کا اقتصادی اور معاشرتی نظام رائج کئے بغیر حکومتی نظام آئے بھی تو خاطر خواہ فائدہ نہیں ۔ جماعت اسلامی نے ریاستی قوت کیلئے ساکھ ختم کردی ۔ قابل لوگ نذر ہوگئے اور اسلام اور عوام کو فائدے کی جگہ نقصان پہنچا۔ لوگ مذہبی، مسلکی ، فرقہ وارانہ اور جماعت پرستانہ تعصبات کو ہوا دیتے ہیں میں اس کا کبھی قائل نہیں رہا ہوں۔ سیدایوب شاہ کی وجہ سے1970ء میں پہلا جھنڈا جماعت اسلامی کا تھاما تھا۔
مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا محمد الیاس ، مولانا انور شاہ کشمیری، مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ اور مولانا عبیداللہ سندھی سے میرے اپنے دادا سیدمحمد امیر شاہ بڑے عالم تھے اور مولانا قاسم نانوتوی ومولانا رشیداحمد گنگوہیاور انکے پیر حاجی امداداللہ مہاجر مکی اور ا نکے شاگرد شیخ الہند اور انکے استاذ مولانا مملوک علی سے میرے پردادا سید حسن شاہ بابو بڑے عالم دین اورزیادہ قدآور شخصیت تھے۔ شاہ اسماعیل شہید، شاہ عبدالعزیز،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور شیخ احمد سرہندی مجددالف ثانی سے زیادہ میرے اجدادسیدمحمود حسن دیداری سیدمحمدابوبکر ذاکر اور سید شاہ محمد کبیرالاولیائ کانیگرم جنوبی وزیرستان اپنے علم وعمل میں دیندار اور بڑے لوگ تھے۔
مولانا اشرف خان فاضل دارالعلوم دیوبند، مولانا شادا جان فاضل پنج پیراور مولانا محمد زمان کانیگرم کے علماء سے میرے والد پیرمقیم شاہ عام انسان صرف انسانیت کے حوالہ سے نہیں بلکہ قرآن وسنت اور اسلام کی سمجھ کے حوالہ سے اچھا فہم رکھتے تھے بلکہ چچاسید محمدانور شاہ بھی علم اور سیدمحمد صدیق شاہ ان سے زیادہ عمل کے بہت عمدہ نمونے تھے۔
مولانا محمد زمان وزیرستان کے500علماء کے امیرتھے اور مفتی عبدالغنی برکی محسودی پشتو میں قرآن کا ترجمہ کررہا ہے لیکن ان کے دین کی سمجھ ہماری پھوپھی ریاض شاہ کی والدہ سے بہت کم درجہ کی تھی۔ میں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ”شاہ ولی اللہ نے اپنی کتاب ”ازالة الخفاعن الخفاء ” میں لکھا ہے کہ اللہ اپنے رسول ۖ کے ساتھ پوری دنیامیں اسلام کے غلبے کا وعدہ کیا ہے لیظہرہ علی الدین کلہ ”تاکہ اس کو تمام ادیان پر غالب کردے”۔نبیۖ کے بعد قیصر وکسریٰ کی سپر طاقتوں کو شکست خلفاء راشدین کے ہاتھوں ہوئی اور آئندہ پوری دنیا میں اسلام کے غلبے کا وعدہ پورا ہونا ہے”۔(ازالة الخفا عن الخفاء ۔ شاہ ولی اللہ )
یہ کفر ہوتاتو فتویٰ مجھ پر نہیں شاہ ولی اللہ پر لگتا۔ میری پھوپھی پڑھی لکھی سمجھ دار تھیں۔ میں جیل میں تھا تو بتایا گیا کہ والدہ کو پتہ نہ تھا۔پھوپھی خالد کی شادی میں خوشیاں منانے پرافسردہ تھیں۔خوددار لوگ مفاد پرست نہیں ہوتے مگر دودھ پینے والے مجنون مفاد کی خاطر کٹورہ لئے پھرتے ہیں۔
مولانا اشرف خان نے اس عبارت کی وجہ سے بتایا کہ علماء نے کفر کا فتویٰ لگایا ۔ میں نے کہا کہ اگر آپ 5 منٹ میں نہ مانے کہ یہ اسلام ہے تو میں مرتد کی سزا میں خود کشی ہی کرلوں گا لیکن اگر آپ مان گئے کہ تو جس نے فتویٰ لگایا ہے اس پر توت کا ایک ڈنڈا مار مار کر توڑوں گا۔ اس نے کہا کہ دین تو اللہ نے مکمل کیا ہے تو پھر اس کا کیا مطلب ہے؟۔ میں نے بتایا کہ دین کے نزول کی تکمیل ہوگئی ہے اور اس کا غلبہ ابھی باقی ہے۔ جس پر اس نے کہا کہ اب بات سمجھ گیا۔ مفتی عبدالغنی برکی نے بات سمجھ لی تو کہا کہ ”میں نے کتاب لکھی تھی ۔یہ اللہ کاشکر ہے کہ وہ چھاپی نہیں ہے”۔
سیدابولاعلیٰ مودودی ایک داڑھی منڈے صحافی الطاف بھائی (قائدایم کیوایم) کی طرح تھے۔ نامی گرامی علماء کرام ان کی قیادت میں اکٹھے ہوگئے۔ جن میں مولانا ابوالحسن علی ندوی ، مولانا محمد منظور نعمانی اور مولانا مسعود عالم ندوی جیسے لوگ شامل تھے۔ مولانا موددی نے لکھا ہے کہ ”مجھے پتہ ہے کہ جس آون دستے میں میں نے اپنا سر دیا ہے کہ دور سے اس کی دھمک کی آواز سن کر یہ بکھشو بھاگ جائیں گے”۔
مولانا راحت گل نے پشاور یونیورسٹی کے نزد اپنے مرکز مدرسہ راحت آباد میں میری تحریک کی وجہ سے تمام جماعتوں کے قائدین مولانا فضل الرحمن، قاضی حسین احمد،مولانا سمیع الحق ، مولانا اکرم اعوان،صوفی محمداور ڈاکٹر اسرار احمدوغیرہ کواخبارات کے اشتہارات میں میرے نام کیساتھ بلایا تھا تو قائد خود نہیں آئے مگر ان کے نمائندوں نے شرکت کی تھی۔
ضلع ٹانک ، پختونخواہ اورپاکستان بھر کے تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء نے بڑی تائیدات کی تھیں۔
لیفٹنٹ جنرل ریٹائرڈ ظہیر الاسلام عباسی نے میرے پاس چند دن قیام کیا۔ ٹانک سفید مسجد مولانا فتح خان اورگل امام مولانا عبدالرؤف کے ہاں ان کی تقاریر بھی کرائی تھیں۔ واقعہ پر بیت اللہ محسود نے قصاص کا فیصلہ کیا اور محسود قوم کو ساتھ لیکر تگڑی معافی مانگ لی۔ مولانا فضل الرحمن نے حملہ آوروں کیخلاف ابن ماجہ کی حدیث خطاب جمعہ میں پیش کی کہ یہ خراسان کے دجال کا لشکر ہے۔ عبداللہ محسود اس واقعہ کے غم میں افغانستان سے آگیا۔ وزیر طالبان کے امیر مولوی نذیر نے اسی دن بیان دیا تھا کہ یہ کاروائی کرنے والے امریکہ کے ایجنٹ ہیں۔ قاری حسین نے بیت اللہ محسود سے اس بنیاد پر جان چھڑائی کہ تمہارے حکم پر ہم نے شریف انسان ملک خاندان کو گھر کی خواتین سمیت 7افراد کو شہید کیا تھا۔ ملک خاندان اور علی وزیر کے والد کو ایک ہی دن میں شہید کیا گیا۔ علی وزیر نے اسمبلی کے فلور پر کہا تھا کہ ”ہمارے خاندان نے ریاست پاکستان اور پاک فوج ہی کیلئے قربانیاں دی ہیں”۔ ان کے17افراد شہید ہوئے۔
دہشتگردی میں بہت لوگ مارے گئے تو ہمارا مسئلہ کسی شمار وقطارمیں بھی نہیں جبکہ ہماری بہت مرہم پٹی، عزت اور ساکھ کا بھی خیال رکھاگیا۔ پاک فوج نے بھی اس کے بعد بھرپور طریقے سے آپریشن کئے اور طالبان نے بھی معافی مانگ لی۔ ایسی عزت دہشت گردی کی پوری جنگ میں کسی کو بھی نہیں ملی ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ اصل مجرموں کے چہروں سے نقاب کھل جائیں اور اس میں پاک فوج اور طالبان دونوں کابہت ہی بڑا فائدہ ہے۔
محسن داوڑ جیسے لوگوں کا خیال ہے کہ پاک آرمی اور افغان طالبان حکومت اور TTPسمیت سارا گیم امریکہ کے ایماء پر چل رہاہے۔ مولانا فضل الرحمن افغان طالبان کے بارے میں اچھی سوچ رکھتے ہیں لیکن پاکستان میں وہ دہشتگردی کے فروغ اور افغان طالبان سے معاملات کو بگاڑنے میں امریکہ کے ایماء پرسخت غلطی قرار دیتے ہیں۔
میڈیا کے بیانات میں یہ چیزیں بالکل روز روشن کی طرح واضح ہیں۔حیات پریغال نے اپنے فیس بک کے اکاؤنٹ پر لکھا ہے کہ ” گڈ طالبان اور بیڈ طالبان ایک دوسرے کے رشتہ داروں کو اغواء کررہے ہیں جس سے عوام کو نقصان پہنچ رہاہے اور دہشت گرد ایک دوسرے کے رشتہ داروں کے بدلے میں قتل بھی کرتے ہیں اور چھوڑتے بھی ہیں ۔اس پالیسی سے دہشتگردی کو فروغ مل رہاہے۔
اگر ہمارا واقعہ اور دوسرے واقعات کے اصل مجرم کوئی اور نکل آئے توپھر پاک فوج اور طالبان دونوں بری الذمہ ہوں گے ان گناہوں سے جن میں ان کا کوئی عمل نہیں ہے اور عبدالواحد نے پتہ نہیں کس کا کہا کہ ”وہ لوگ کہتے ہیں کہ ISIسے مل کر عتیق الرحمن نے خود حملہ کروادیا ہے”۔
عبدالرحیم نے پیر زاہد کو طعنہ دیا کہ دل بند کو مروایا اور نوکری پر قبضہ کیا۔ اس سے خسیس ذہنیت کا اندازہ لگ سکتا ہے۔انگریز نے دل بند شاہ کو پٹھان کوٹ اور ان کو جٹہ قلعہ میں آباد کیا؟۔ خالد اور عبدالخالق کو ایک آنکھ کی وجہ سے نہیں عمل کی وجہ سے دجال کہا جاتا تھا۔ اکبر علی سے عبدالخالق کی مسجد میں لڑائی ہوئی عبدالرحیم نے میرا کہا” 10سال پہلے پہچاناتھا”۔اکبر علی کو نور علی کی بنیادپر جہانزیب سے لڑا دینا اور جہانزیب سے نثار کے قتل کی بات کا فلسفہ میں سمجھتا تھا۔
سبحان شاہ کے بیٹے سیداکبر کو سمجھنے کیلئے عبدالخالق شاہ کی علت کو سمجھنا ضروری ہے۔ ہم چھوٹے چھوٹے تھے اور ماموں کی اپنے شریف ترین پڑوسی سے لڑائی کو بڑھاوا دیا جارہاتھا تو پیر نور علی شاہ کہتا تھا کہ ”غیاث الدین دیگ ہے اور عبدالخالق اس کا چمچہ ہے”۔ عبدالخالق بڈھی بڈھی بکریاں مہمانوں کو کھلانے کیلئے سستے دام گاڑی بھر کر لاتا تھا جس سے خرچہ تو کم ہوتا تھا لیکن ناک کٹ رہی تھی۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ واذ زین لھم الشیطان أعمالھم و قال لا غالب لکم الیوم من الناس وانی جار لکم ”اور جب کہ شیطان نے انکے کاموں کو اچھادکھایا اور کہا کہ آج کے دن تم پر کوئی غالب نہیں آئے گا، میں تمہارا پڑوسی ہوں۔جب اس نے دیکھا کہ دونوں لشکر مقابل ہونے والے ہیں تو اپنی پچھاڑیوں کے بل اپنا رُخ تبدیل کردیااور کہا کہ میں جو دیکھتا ہوں وہ تم نہیں دیکھتے۔ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔اور اللہ بہت سخت عذاب والا ہے”۔ (سورہ انفال آیت48)
ایک روایت ہے کہ شیطان سراقہ ابن مالک کی شکل میں آیا پھر رفو چکر ہوا۔مگر یہ بات نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ قرآن نے انسانی شیطان کا ذکر کیا۔ ابولہب اور اس کی بیوی کیخلاف سورة نازل ہوئی لیکن وہ اور اسکے بچے غزوہ بدر میں نہیں گئے۔عباس اور ابوطالب کا بیٹا طالب گئے۔
جب ریاض شاہ کیساتھ جھگڑا تھا تو غیاث الدین نے کہا تھا کہ ”پہلے اس کے باپ کو مجھ سے خراب کروایا ،اب اس کو کھڑا کردیا”۔ نور علی پر منافقت کی تہمت لگائی گئی تھی تو اشرف علی نے کہا کہ ”بھائیوں میں سب سے اچھا عزیزوں کیلئے نور علی ہے لیکن پتہ نہیں کیوں شک کیا جاتا ہے؟”۔
ریاض کے والد کیساتھ نور علی نہیں چمچہ عبدالخالق لڑا سکتا تھا۔ ریاض عبدالخالق کے ہاں جوتے چھوڑ کر ترکش مرغی کی ٹانگ سے بھاگا ؟ ریاض نے کہاکہ غیاث الدین نے زمین کاشت کیلئے لی پھر بدمعاشی سے قابض ہوا۔ عبد الخالق نے ریاض اور ڈاکٹر آفتاب کو غیرت کی بنیاد پر خون ریزی کرنی تھی لیکن اللہ نے مجھے وسیلہ بنادیا۔مینک برکی کی زمین کے مسئلے میں بھی ممتاز بھائی کے گھر پر لشکر کی طرح چڑھائی میں عبدالخالق کے علاوہ کسی اور کا بنیادی کردار نہیں ہوسکتا۔
عبدالرؤف ، حاجی سریر اور ڈاکٹر عبدالحمید میں شیطانی چالوں کا کوئی تصور نہیں ہے البتہ بہت بڑا مغالطہ کھا سکتے ہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ ”مؤمن دھوکہ کھانے والا اور معاف کرنے والا ہوتاہے”۔ یعنی دھوکہ دیتا نہیں ہے۔
ریاض نے کہا کہ ”مینک کی زمین کے پیسے دو بار دئیے اور میری بہن عبدالخالق کی بیوی کا 2ہزار حق مہر بھی یاد کیا ” میں نے سوچا کہ سہیل کی والدہ کا حق مہر2ہزار تھا وہ تو پرانی بات تھی؟۔پھر ہماری بہن کا حق مہر الٹا ہمارے خلاف کیسے حساب کیا؟۔عبدالوہاب سے کہا کہ ریاض سے لکھواؤ۔ مگر اس نے لکھ کر دینے سے انکار کیا جو عبدالخالق کی کہانی تھی۔
مجھے لگتا ہے کہ غیاث الدین کو پیر ملنگ کے خلاف بھی سراقہ بن مالک کی طرح عبدالخالق نے ہی اکسایا ہوگا مگر جب معاملہ جانچ لیا تو کہا کہ ہم تمہارے ساتھ نہیں ہیں۔ ارشد حسین شہید کو ڈنڈوں کی بوچھاڑ میں اکیلا چھوڑنے میں بھی شرم محسوس نہیں کی بلکہ پولیس کی طاقت پر فخر تھا۔
عبدالرحیم مجھے مجھ پر فائرنگ کے بعد پشاور چھوڑ نے جارہاتھا تو کسی کی طرف سے پیچھا کرنے کا احساس ہوا اور عبدالرحیم نے کہا کہ ہنگو چلتے ہیں۔ میں نے کہا کہ سب کو پتہ ہے کہ بھائی DCOہے اور ہم گنڈیالی فضل کریم کے گھر گئے۔پہلے پنڈی کی طرف گئے تو آگے نکل گئے۔ واپسی پر ہم گنڈیالی کی طرف گئے تو پیچھا کرنے والی گاڑی پنڈی کی طرف نکل گئی۔ اسکے باوجود عبدالرحیم نے بھائی کو فون کرکے بلایا جو موت کے منہ میں دھکیلنے والی بات تھی۔
واقعہ سے پہلے بھائی اور عبدالرحیم کراچی آئے ۔ بھائی نے کہا کہ کوئی بااعتماد دوست ہو کاروبار کیلئے تو میں نے ناصر کے ساتھ بات ڈن کردی۔ عبدالرحیم نے کہا کہ حاجی اورنگزیب کو عبدالرؤف اور نور علی پر شک ہے کہ عمرے کس کے پیسے پر کئے ہیں؟۔ہوسکتا ہے کہ حاجی اورنگزیب کو اتنا منافع نہیں دیا ہو کہ وہ بھی عمرے کرتا۔ عبدالرحیم نے کہا کہ کاروبار نورعلی کو آتا ہے عبدالرؤف کو نہیں تھا۔ میں نے نہیں کہا کہ بی جمالو! یہ اس کا کام ہے کہ کس پر اعتماد کرے یا نہیں کرے۔ عبدالرحیم نے کہا کہ کاروبار بہت کامیاب جا رہاہے۔ ایک فلیٹ بک کرایا ہے ،لوگ16لاکھ میں ابھی ادھورا مانگ رہے ہیں۔مجھے اس سے کیا غرض تھی؟۔ میں سمجھتا تھا کہ جب اعتماد کا فقدان ہو تو پھر اصرار کرنا غیرت کے منافی ہے اور ناصر نے دھوکے کھائے، دئیے نہیں۔
جب واقعہ ہوگیا تو عبدالرحیم نے کہا کہ میرامشورہ ہے کہ اب کاروبار چالو رکھتے ہیں میں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ میرے لئے کاروبار میں 30لاکھ رکھے۔میں نے مانگے تو بہت تھکادیا۔ نور علی سے کہا کہ میں تو کتے کے گاؤں سے گزر چکا۔ اس نے کہا کہ میں گدھے کے گاؤں سے بھی گزر چکا۔ میں نے کہا کہ تم اپنی وجہ سے اور میں تمہاری وجہ خوار ہورہاہوں۔ پھر عبدالرحیم کو فلیٹ کا کہا ۔پہلے ادھر ادھر کی کررہاتھا۔ آخر میں کہا کہ اس ٹائم پر اس طرح ساتھی کو کہو کہ پہنچ جائے۔ میں نے کہا کہ جس کی بات کررہے ہو ! یہ کاغذات ہیں یا گیدڑ ہے جو بھاگ جائے گا۔ اس نے کہا کہ میں میراثی بن کر پیغام رسانی کرکے ذلیل ہوتا ہوں۔ میرا کیا کام اور مفاد ہے؟۔ میں نے کہا کہ بات ایسی ہوتو سوال اٹھے گا۔ اس نے کہا کہ میرا کام پیغام کو ویسے پہنچانا ہے۔ اور فون بند کردیا۔ پوچھا تو فلیٹ ڈیڑھ لاکھ کا تھا۔ میں نے بھی اچھے وقت کیلئے بطور نشانی ویسے ہی چھوڑ دیا۔
خالد نے بتایا کہ کرش پلانٹ پر اس کا35لاکھ قرضہ ہے۔ اعجاز نے بتایا کہ تین، ساڑھے تین اور بہت ہی زیادہ ہو تو5لاکھ ہوگا۔میں نے بھائی سے کہا کہ حساب ان کے ساتھ صاف رکھو۔ اس نے غصہ میں کہا کہ پھر تجھے بلالوں گا اور یاسر کو شکایت تھی۔عبدالرحیم نے کہا کہ کاروبار کے بعد ہم نے ایک ایک روپے کا صاف شفاف حساب رکھا ہے۔ فلاں فلاں موقع پر 10،10لاکھ بھائی جان کو ویسے بھی دیتے رہے ہیں اور اپنی ماں کو بھی کہا کہ تیرے بھائی کا ہاتھ تنگ ہے تو وہ بھی خوش ہوگئی۔ میں نے دل میں سوچا کہ میرے گارڈن ڈیکور کے5لاکھ کا سامان 3لاکھ میں خریدا اور پھر صرف ڈیڑھ لاکھ دئیے اور ساتھ میں شیڈ کے ڈیڑھ لاکھ کے پائپ بھی لیکر گئے تو کیا بات کروں؟۔
میری بھتیجی ایک دن رورہی تھی تو پوچھنے پر بتایا کہ بھابھی خالد کی بھانجی نے کہا کہ تمہاراوالد خالد پالتا ہے۔
پہلے مجھے اسلام آباد میں پلاٹ دیا گیا۔ پھر عبدالرحیم نے بتایا کہ وہ یاسر کو دے دیا ۔ آپ کو پشاور میں دیا۔ خالد کو جنریٹر کیلئے پیسہ چاہیے تھا۔ پشاور کا ایک پلاٹ بیچا اور بعد میں کہا کہ جنریٹر تو میں نے قسطوں پر لیا ہے۔ یعنی پلاٹ کو ہی غائب کردیا۔ عامر نے بتایا کہ کرش پلانٹ کیلئے پیسہ تو بہت پہلے لیا تھا مگر کام بہت دیر سے اس پر شروع کیا تھا۔
رات کو چاروں بھائی اور دوسرے لوگ بیٹھے ہوئے تھے ۔میں نے کہا کہ ڈائری لاؤ۔ خالد نے کہا کہ کرش پر 35 لاکھ ایک قرضہ ہے اور کچھ اور بھی ہے۔ میں نے کہا کہ ڈائری لاؤ۔ وہ ڈائری لانے کے بجائے بکتا جارہاتھا۔ اس نے کہا کہ میرے قرضے کی وجہ سے جو مجھے نقصان ہوا ہے وہ بھی حساب کروں گا اور جو فائدہ نہیں کماسکا تو وہ بھی لوں گا۔ میں نے کہا کہ ”اچھا مجھے یہ لکھوادو”۔ اس نے جب اپنا بیانیہ لکھوادیا اور میں نے پڑھ کر سنادیا اور اس نے OK کیا تو میں نے کہا کہ کاروباری لوگوں کو بلالیںگے۔ آپ حساب کتاب کلیئر کرکے بتاؤگے۔پھر ان سے پوچھ لیں کہ کیا حساب بنتا ہے۔ اس نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ میں نے کہا کہ یاسر کے پلاٹ پر کروڑوں روپے بینک سے لئے ہیں ،اس کا بھی فیصلہ کرنے والوں کے سامنے حساب رکھ لیںگے۔ تو مجھے کہا کہ کاغذ دکھاؤ اور ہاتھ میں لیکر پھاڑدیا۔
عبداللہ نے کہا کہ اس بھائی (خالد ) کیلئے لیٹرین بھی سر پررکھ کر اٹھالوں گا۔ میں نے کہا کہ میں نے اگر بھائی کاتھوڑا بھی غلط ساتھ دیا تو اس کے دل سے اتر جاؤں گا۔ آخر عبدالرحیم کے حکم پر ڈائری لائی تو نئی سیاہی اور قلم سے موٹی موٹی رقم لکھی تھی۔ خالد نے کہا تھا کہ کرش پلانٹ میں مفت شامل کیا تھا اور جب بیچ میں کام رک گیا تو کچھ پیسے دئیے اور کام شروع ہونے سے پہلے لوٹادئیے۔ میں نے کہا کہ ڈائری میں تاریخ کا پتہ نہیں چلتا تو کسی رجسٹرڈ پر لکھا ہو تو وہ لانا ۔ آخرمیں سب چلے گئے۔واحد، خالد اور میں رہ گئے۔ رجسٹرڈ پر ایک قلم سے لکھائی تھی۔ کئی دفعہ اپنی یاداشت سے مزید رقم مختلف جگہ پر بڑھائی اور پھر بھی پوری نہیں ہورہی تھی تو میں نے کہا کہ قلم بھی تیرا ہے اور زیرو ڈال رہے ہو تو بس چھوڑ دو ۔مجھے نہیں دیکھنا۔ کرش پلانٹ چلنے تک کی رقم غالباً 60لاکھ تھی اور جب میں فجر کی نماز کیلئے وضو کرنے گیا اور پھر اصرار کیا تو میں نے کہا کہ چھوڑ دو۔ پھر کہا کہ بس دیکھ لو تو رقم ایک کروڑ 20لاکھ تک پہنچادی تھی جو اس تاریخ کے بعد دی تھی وہ بھی اس تاریخ تک پوری کردی۔ میں نے کہا کہ بس چھوڑدو۔ واحد نے کہا کہ تیرا مقصد تو ہماری صفائی ہے؟۔ میں نے کہا کہ اگر یہ ڈائری اس طرح وہ مان جائیں تو بڑا احسان ہوگا۔
خالد نے کہا کہ جمرود کے ٹھیکے میں ایک روپیہ نہیں دیا تھا اور میں نے 14لاکھ کی گاڑی لیکر دی۔ میں نے کہا کہ یہ پیغام پہنچادوں گا۔ اس نے یونس آفریدی کیلئے بالکل ہی متضاد کہانیاں شروع کردیں۔ پھر جب عامر سے پوچھا تو اس نے کہا کہ 23لاکھ اس نے دئیے اور یونس آفریدی آیا تو اس نے کہا کہ 43لاکھ اس کے تھے اور خالد کا ایک بھی روپیہ نہیں تھا۔ دوسرے دن خالد کی ماں نے پشاور میں کہا کہ خالد نے بتایا کہ عتیق الرحمن کو ایسا کردیا کہ اسکے ہاتھ لکھے ہوئے اپنے کاغذ اس نے پھاڑ دئیے۔ جب اس کو بتایا تو شرمندہ تو شاید نہیں ہوئی ہوگی اسلئے کہ شوہر کی ایک گاڑی ٹھیکے میں کھو دی تھی اور قحط زدہ بچے لینڈ لارڈ بن گئے تو اور کیا چاہیے؟۔ منہاج کی ماں کا توجوان بیٹا شہید ہوا تھا اور یہ میرا کہتی تھی کہ حوالے کردیتے تو اچھا تھا۔ اورنگزیب کو بھی خدا بخشے ،اپنی عمر گزار چکا تھا اسلئے سب اچھا ہے۔
ابولہب کو ابوسفیان کی بہن ام جمیل نے بنادیا اور اس کو اپنے شوہر نے بنادیا۔بھائی نثار سے عبدالخالق نے کہا کہ ”تمہاری بھتیجی سے شادی کیلئے عبدالرحیم راضی نہیں ” تو نثار حیران ہوا ؟۔مگر عبدالخالق تو بھانجی کو آزاد کرنے کیلئے نثار کو ساتھ رکھنا چاہتا تھا اور غیرت کی اس میں بو تک نہیں تھی۔
جب عبدالرحیم میرے پاس آیا اور گالیاں دے رہاتھا کہ ان کو اعلانیہ کہتا ہوں۔ میں فساد اور بے عزتی سے بہتر سمجھا کہ میں بھی ساتھ دوں اور خفیہ لیکر آئیں۔ فساد ٹل جائے گا اور زیادہ سے زیادہ مجھے قتل کیا جائے گا تو فساد، بے عزتی اور ایک لڑکی کے حق کیلئے میری جان کا سودا سستا ہے۔ عبدالرحیم نے کہا کہ ایک منہاج کو نہیں کہنا۔ میں نے کہا کہ منہاج نہیں کسی کو بھی نہیں کہوں گا۔ اس کا مقصد تھا کہ باقی ڈھنڈورا پٹ جائے۔ میں نے منہاج سے کہا کہ اگر دلہن لانی پڑی تو اس نے کہا کہ پھر چلے جائیں گے۔ میں نے عبدالرحیم کو کہا کہ وہ جانے کیلئے تیار ہے مگر مجھے بولنا نہ تھا۔آپ کا ذہن صاف کرنا تھا۔ جب وہاں پہنچے تو خالد نور علی ، ضیاء الدین اور فیاض کو لایا تھا۔اور کہہ رہاتھا کہ ان کو بھی پھنسادیا۔ یہی سازشی ذہیت ہوتی ہے۔
میں نے سمجھا کہ قاری احمد حسن شہید نے فیصلہ کیا تھا تو جب پتہ چلے گا کہ رشتہ ہوگیا تو بہت خوش ہوگالیکن جب بتایا تو قاری صاحب سخت پریشان ہوگئے ۔کہا کہ عبدالخالق نے بہت غلط کیا ہے ، اس سے وعدہ لیا تو اس نے کہا کہ ہم دو بہنیں پہلے لے چکے ہیں اس پر بھی نادم ہیں،پھر اس نے چھوڑدیا ہے۔ یہ تو معاملہ خراب ہوگیا۔ عبدالرحیم کو بتایا تووہ قاری کو گالیاں دینے لگا۔ میں نے کہا کہ وہ اچھا آدمی ہے، اس نے جو فیصلہ کیا ہے تو وہی بولنا ہے۔عبدالرحیم اس پر بھی ناراض تھا کہ ”ہم بکرا کیوں لے گئے ،اسی طرح ہم ہی پر معاملہ پڑے گا”۔ یہ بے غیرتی کا انتہائی خمیر تھا مگر…
عبدالواحد نے کہا کہ ” عثمان فیک اکاؤنٹ میں نہیں ہے۔ میں نے اس کو کہا کہ مظہر لوگوں کے خلاف تیرے بھائی نے گواہی دی تھی ۔ نعمان کے پاس مشکو ک فون آیا تھا اور عمرشاہ گواہ ہے کہ اسفندیار نے والد سے کہا کہ تمہیں کتنے پیسے دئیے؟۔ اس نے کہا کہ ایک کروڑ90لاکھ۔ اور شہریار غصہ ہوا کہ کیوں یہ سوال تم نے پوچھا ہے”۔
واحد اس سے حاصل کیا کرنا چاہتا ہے؟۔ مظہر لوگوں کے ساتھ کرکٹ کے مسئلے پر بھی اور سرکاری سروے پر بھی جہانزیب کو واحد سعود شاہ کیخلاف کیوں استعمال کرنا چاہتا تھا؟۔ ساجد، ابراہیم اور جعفر نے سعود شاہ کے قتل پرنعمان کو آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ انکے شر سے بھتیجوں کوبچانا فرض سمجھتا ہوں۔ باقی واحد نے قاتل کا تو نہیں بتایا مگر یہ کہا کہ گالیاں بھی مزید دوں اور ماروں بھی تو خیر ہے۔ لیکن میرا پتہ لگانے کیلئے اس نے بیٹی کا رشتہ توڑنے کا ڈرامہ رچایا۔ اگر میں قتل ہوتا اور میرا فون دینے والوں کو ٹریس کرکے اسرار کو اٹھایا جاتا جس کے نمبر سے مجھے گالیاں دی گئی تھیں اور گل شیر اور واحد کی بیوی کو اٹھالیا جاتا تو واحد کا مقصد ہی پورا ہوجاتا کہ دوسری بیوی ہے تو اس جان چھوٹے۔ بے عزتی تو گل چاہت کو کچھ لگتی نہیں۔ عبدالرؤف کو یہی لوگ جان بوجھ کر ذلیل کررہے ہیں اور نام منہاج کا لیتے ہیں۔ میں نے یہ روائیداد اسلئے بتائی کہ عبدالرحیم کے علاوہ میرا کسی کو معلوم نہیں تھا تو کوڑ تک بات کس نے پہنچائی؟۔ یہ جھوٹ کیوں بولا کہ حاجی قریب برکی نے نثار کے سینے پر ہاتھ مار کر کہا کہ ”عبدالرزاق پیر کے بیٹے شامل ہیں؟”۔ حالانکہ نثار سے میں نے پوچھا تھا تو اس نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں کی ہے اس نے۔ پھر پہلے حاجی لطیف لوگوں کی طرف معاملہ موڑ دیا لیکن جب میں نے سختی سے انکار کیا تو دوسری طرف مظہر لوگوں پر کہانی ڈال دی۔ میں نے تو اب بھی ڈاکٹر ظفر علی کے گھر کی سخت پریشانی کو ختم کرنے کیلئے معاملہ اٹھایا جو عابد پیر لوگوں کے گھر کی طرف سے آئی تھی۔ عبدالواحد نے پہلے کہا تھا کہ” عبداللہ کی عثمان کیساتھ فیس بک پر تصویر دیکھ کر عبدالرحیم نے کہا تھا کہ پھاڑ دوں گا۔ تو اس نے کہاکہ کہیں اتفاقی ملاقات میں سلفی لی پاگل ہوں کہ اس سے تعلق رکھوں؟”۔ پھرعبداللہ پر عثمان نے گولی چلائی تو داؤد نے عثمان کو گالیاں دیں ۔ مگر عبدالواحد نے شاہجان سے کہاکہ ”داؤد بڑااچھا ہے عثمان کو ایسی گالیاں دیں”۔ داؤدواقعی اچھا لیکن تمہاری بہن جو ادھر ادھر ہنکاہتی ہے تو وہ اچھا نہیں کرتی ہے۔ میں لوگوں کی فطرت کو سمجھتا ہوں۔
عبد الرحیم نے یوسف شاہ کی ڈاکٹر بیٹی مانگی جس سے بچوں کی امید نہ تھی ۔پیٹ اور رزق کیلئے بھی معاملہ ہوسکتا ہے لیکن یوسف شاہ نے گاڑی بیچ دی۔ پیسہ کہاں گیا اور عبدالرحیم یوسف شاہ اور عبدالواحد سے پوچھ سکتا ہے کہ کہاں کہاں لنک مل سکتے ہیں؟۔ ویسے تو بڑی خوش آئند بات ہے کہ یوسف شاہ کی قیادت میں عورت پر غیرت کی جنگ لڑرہے تھے اور سعود شاہ اور عثمان شاہ کی قیادت میں بہادری کے جوہر دکھارہے تھے۔ اگر 13افراد کے بدلے 13لاکھ بھی قتل کرتا تو دل کو اتنی ٹھنڈک نہیں مل سکتی تھی جتنی اس وجہ سے ملی کہ جن کے آباء کو دھوکہ دیکر قتل کروایا۔ نوکری بھی دھوکے سے چھین لی۔ پھر اپنے مقتولین کو شریک بھی نہیں کیا۔زمین کی تقسیم میں بھی واضح دوپنجہ کی بنیاد پر دنیا کے سارے قوانین اور اخلاقیات کی دھجیاں بکھیر دیں اور پھر بھی دل ٹھنڈا نہیں ہوا اور زبردستی ذلیل کرکے ان کی زمین پر قبضہ کیا۔ آج ان کی قیادت پر میرا دل خوشی سے کھل گیا ہے۔ میں تو ایسا بدلہ نہیں دے سکتا تھا لیکن خدا نے تم سے خود ہی ان کا بدلہ لیکر سرور شاہ ، کرم حیدر شاہ ، مظفرشاہ اور فیروز شاہ کے ساتھ اور ان کی اولاد کے ساتھ جو ظلم کیا تھا تو اس طرح قدرت پرقربان جاؤں کہ کمال کا انتقام لیا۔
گل چاہت اور مہر ملک کے اوقات بدل گئے۔لیکن ان کا فن اور کمانے کا طرز بھی عبدالرحیم اور عبدالواحد سے بہت اچھا ہے۔ اسلئے عبدالواحد کو گل چاہت اور عبدالرحیم کو مہرملک قرار دینا ان کے ساتھ زیادتی ہے۔ خوب شرارت بھی کرلی اور اپنی فطرت بھی دکھادی لیکن جس کمال مہارت سے خدا عزوجل نے بے نقاب کردیا تو پتہ نہیں کہ کس کس شرات کا بدلہ خدا نے اتارا ہوگا؟۔ میں اتنا پاگل نہیں تھا کہ مظفرشاہ وغیرہ کی بے گناہ موت کے بعد ان کی اولادوں پر بھی ہاتھ ڈالتا۔ مجھے اصل مجرموں کو ان کا چہرہ دکھانا تھا۔
میری والد ہ نے میرے دادا سے پوچھا تھاتو لیلة القدر کی شب مجرموں کو الگ کرنے کی بشارت بتائی۔ پاکستان بھی اسی رات کو بنا تھا۔ حاجی عثمانکی خلافت کا تعلق بھی لیلة القدر سے تھا اور مولانا عبید اللہ سندھی نے بھی سورة القدر کی تفسیر میں اس خطے سے انقلاب کی خوشخبری دی تھی۔ زیرو سے لینڈلارڈ نے چچا عبدالرؤف کو بھی زیروکیا اور اب بھی اسلام آباد کا مکان خالی کرنے کیلئے جس طرح کی بے شرمی سے جترالن کو آگے کیاتھا۔الحفیظ و الامان۔
جہانزیب نے منہاج سے کہا کہ تم ہماری تذلیل کرنا چاہتے ہو لیکن اصل میں عبدالخالق سے لیکر عبدالواحد تک کا مسئلہ ہے ، یہ اپنے مفاد کیلئے جس انداز کی منافقت کرتے ہیں ان کی حقیقت واضح کرنے سے دنیا کی اصلاح ممکن بن سکتی ہے۔مجرموں کا چہرہ کھل کر سامنے آئیگا۔ انشاء اللہ
ان بھائیوں میں عزت، غیرت اور ضمیر نام کی چیز نہیں تو سبھی انکے مفاد پر قربان ہوں؟ ۔ جہانزیب کو کرکٹ کیلئے استعمال کیا۔ دو نوںطرف ایک ایک چوتڑ رکھنے کی کوشش کو میں نے سید حسن شاہ بابو کے جھنڈے پر چڑھادیا۔ہاہاہا…
عبدالرحیم نے بتایا کہ”واحد اکساتا تو مارتا اور پھر پیسہ دیتا کہ والد کو مت بتاؤ۔ پھر سمجھ گیا کہ یہ جان بوجھ کرتا ہے تو میں نے خوب مارا اور پھر یہ ہمت نہیںکی”۔ جون کا مہینہ قریب تھا، عبدالواحد گل شیر کے مقابلے میں ولید کیلئے چکر میں تھا۔ کرش پلانٹ کا خزانہ واحد کی بہن کاخواب کانیگرم کی زمین کیلئے میری بھتیجی کا خواب تھا ۔ واحد نے کہا تھا کہ یہ خواب گھڑدیتے ہیں۔ خالد ایک طرف طالبان کی مدد کرتا تھا اور دوسری طرف کہتا تھا کہ امریکن ڈرون سے مارے جاتے ہیں تو دل ٹھنڈا ہوتا ہے۔ یہ منافقوں کا ٹولہ ہے۔
نوٹ… اس آرٹیکل کے بعد مزید تفصیلات جاننے کیلئے درج ذیل عنوان کے تحت آرٹیکل پڑھیں۔
(1)…”خاندانی بے غیرتی…. سحر ہونے تک ……تحریر: ڈاکٹر عبدالقدیرخان
(2)…”غیرت اور حیاء کی کوئی حدود نہیں ، یہ دلیل اوراسکے شواہد ہیں۔دنیا پرست خاندانی بے غیرت ہے جس کاکوئی ضمیر ہے اور نہ اس پر روک ٹوک”۔سورہ بلدکا عملی مظاہرہ نبیۖ نے ہند ابوسفیان کوپناہ دی تویزید پلیدنکلا۔ حسن شاہ بابو نے صنوبر شاہ کے یتیموں کو تحفظ دیاتویہ بلیلا نکلا۔ نبیۖ نے عبداللہ بن ابی سرح مرتد کا فرمایا : ” غلافِ کعبہ سے لپٹے تو بھی قتل کردو”۔ عثمان کی سفارش پر معافی قتل عثمان بن گئی !۔
اگلا آرٹیکل: غیرت ، حیاء اور سورہ بلد
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
اللہ ورسول ۖ کی اطاعت کمزور ترجماعت کوفاتح عالم بناسکتی ہے
متعصب ہندو محبت کے قابل اسلئے ہے کہ مسلمان نے 8 سو سال ان پر حکمرانی کی۔ عوام اور ملک کو تقسیم کیا،گاؤ ماتا کو کھایا، انکے خداؤں کا پنج وقتہ آذان میں علی الاعلان انکار کیا۔ مذہبی تعصبات پھیل گئے تو خمیازہ مسلمان بھگتے گا۔ مگر پاکستان کا پہلا وزیر قانون جوگیندرا ناتھ منڈل ہندو تھا جس کو بھارت نے بھی وزیرقانون کی پیشکش کی تھی مگر پاکستان کو ترجیح دی اور ہندوؤں نے مرضی سے اسلام قبول کیا ، مسلم حکمرانوں نے زبردستی سے ان کا مذہب تبدیل نہیں کیا ۔ اگر انہوں نے تعصبات کو ہوادی تو ہم سے زیادہ ان کو مشکلات ہوںگی۔ چند ہزار مجاہدین کو نیٹو نے نہیں سنبھالا تو کیا کروڑوں مسلمانوں کو بھارت قابو کرسکے گا؟۔ اسلئے سب کو مثبت سوچ کی طرف آنا پڑے گا۔ صلح حدیبیہ میں مسلمانوں کو مشرک بننے کی اجازت تھی اور مشرکوں کے اسلام قبول کرنے پر دوبارہ حوالہ کرنے کا معاہدہ تھا۔ جب ہم جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں پڑھتے تھے تو ایک مشہور شخص نے اپنا قصہ سنایا تھا کہ اسلام قبول کرنے کے بعد انگریز،ہندو اور سکھ جج نے ہندو والدین کے حوالے نہیں کیا مگر مسلمان جج نے پیسے کھاکر اپنے والدین کے حوالے کیا۔
متعصب ظالم یہودی سے نفرت نہیں اسلئے کہ بدترین مظالم والے ماحول سے مجبور ہونگے۔ وہ بیت المقدس کو اپنا قبلہ سمجھتے ہیں ۔ مدینہ و جزیرة العرب سے ان کو نکالا اور اگر بس چلاتو پرامن یہود کو قتل اور عورتیں لونڈیاں بنا ڈالیں لیکن پتھر کے پیچھے اگر پرامن یہودی کو حضرت عیسیٰ نے قتل کرنا ہو تو یہ ان کو گالیاں دینے کانتیجہ ہوگا۔ صلح ہوگئی تو مسلمان شادی سے اسرائیل کو عورتوں سے خالی کردیں گے اسلئے کہ اللہ نے تثلیث کا عقیدہ رکھنے والے عیسائی اور گستاخ یہودی عورتوں سے نکاح کو جائز قرار دیا۔جب ہم سے مساجد کے نمازی بھی محفوظ نہیں اور میاں بیوی میں صلح سے پہلے حلالہ کی لعنت سے عزتوں کو تارتار کرتے ہیں تو دنیا ہماری دشمن نہ ہو گی؟ اور اللہ ہمارا ساتھ کبھی نہیں دے گا۔
رسول اللہۖ نے فرمایا : پہلا اس امر کا نبوت و رحمت ہے پھر خلافت و رحمت پھر بادشاہت و رحمت پھر امارت و رحمت ہے پھریہ لو گ ایکدوسرے کو کاٹیں گے گدھوں کا کاٹنا۔پس تم پر جہاد فرض ہے اور بہترین جہاد الرباط ہے اور تمہارا بہترین رباط عسقلان ہے۔اس حدیث سے اس بات کا بخوبی پتہ چلتا ہے کہ غزہ پر جو مظالم ہورہے ہیں اس پر بڑے گدھوں کا کردار ادا کررہے ہیں۔ اگر عسقلان اور غزہ کا دو بھائیوں کی طرح رابطہ کرایا تو انقلاب آئے گا۔
رسول اللہۖ اور علی کاحیران کن واقعہ ہے۔ شاہ مصر و اسکندریہ عیسائی بادشاہ مقوقس کو اسلام کی دعوت کا خط ملااور دعوت قبول نہیں کی مگر دوقبطی بہنوں حضرت ماریہ و سیرین لونڈیوں کا تحفہ ساتھ میں فسٹ کزن کو بھیجاجو عظیم عیسائی قبطی خاندان تھا۔ احرام مصر قبطی کی عظمت کا پتہ دیتی ہیں۔ موسٰی کے وقت کا فرعون نسلی و خاندانی نہیں تھا بلکہ وہ خراسانی یا سوڈانی تھا۔ تلاش رزق کیلئے گیا ۔پھر سازش سے اقتدارتک پہنچ گیا۔ اس نے دیکھا کہ باہر ایک درہم کے 10 خربوزے اور شہر میں ایک خربوزہ 10درہم کا ہے تو یہ منافع بخش کاروبار غنیمت جانا۔10 خربوزے لئے مگر بازار تک پہنچتے پہنچتے اتنے غنڈہ ٹیکس دینے پڑگئے کہ ایک خربوزہ 15درہم کا پڑگیا ۔یہ سمجھ گیا کہ غنڈہ ٹیکس والا بدمعاشیہ ہی کاروبار کرسکتا ہے جو زیادہ ٹیکس نہ دے۔
آئیڈیا بنایا اور قبرستان میں مردوںکی لاشوں کو دفنانے کیلئے غنڈہ ٹیکس مقرر کیا۔ پہلے کوئی دیتا اور کوئی نہیں دیتا تھا مگرپھر معاشی استحکام ملا اور زبردستی غنڈہ ٹیکس لینے لگا۔ بادشاہ کا بندہ مرگیا تو اس سے بھی زبردستی ٹیکس وصول کیا ۔ شکایت پر بادشاہ نے طلب کیا تو اپنا کمایا ہوا پیسہ پیش کردیا اور کہا کہ اشرافیہ کا ٹیکس ناکافی ہے۔ بادشاہ بہت خوش ہوا۔ اس کو مقربین میں شامل کیا پھر عوامی مقبولیت حاصل کی اور بادشاہ کے پیر کاٹتا رہا۔ آخر کار قبطی قوم پراقتدار حاصل کیا اور پیش گوئی کے سبب بد بخت نے ہزاروں بنی اسرائیلی بچے قتل کردئیے تھے۔ اللہ نے فرمایا کہ ” اللہ کی طرف سے تم پر یہ سب سے بڑی آزمائش تھی کہ آل فرعون تمہارے بیٹوں کو قتل کرتے تھے اور عورتوں کی عزتیں لوٹتے تھے”۔
آزاد عورت اور لونڈی میں فرق حقوق کا تھا اور لونڈی کے حقوق کا تصور نہیں ہوتا۔ اسلام نے لونڈی کو حقوق دیکر انقلاب برپا کیا مگر پھر اندھیر چھا گیا۔ عیسائی مذہب میں فسٹ کزن سے نکاح جائز نہیں۔ رسول ۖ نے محرم سے بدکاری پر قتل کا حکم دیا ۔ نبیۖ کو غلط خبرملی کہ ماریہ قبطیہ کیساتھ اسکے کزن نے جنسی تعلق رکھا تو علی کو قتل کا حکم دیا۔ علی نے تحقیق کا تقاضہ پورا کیا تو اس کا آلۂ تناسل کٹا ہوا تھا۔ پہلے یہ دستور تھا کہ جانورکی طرح انسان کو بھی خصی کیا جاتا تھا اورصحابہ کرام نے بھی نبیۖ سے عرض کیا کہ کیاہم خود کو خصی بنالیں؟(صحیح بخاری)۔نبی ۖ نے علی کوسب سے زیادہ اچھا قاضی قرار دیا اور فرمایا کہ ”غائب شخص کا معاملہ حاضر جیسا نہیں ہو سکتا”۔ مولوی سمجھتا ہے کہ افغانستان کو ننگی پتنگی لونڈیوں سے بھرنا شریعت ہے؟۔
لارڈمیکالے نے ہندوستان کے گورنر جنرل کی کونسل کے پہلے رکن برائے قانون برطانیہ کے پارلیمنٹ سے 2 فروری 1835ء میں خطاب کیا:ایک اقتباس:”میں نے ہندوستان کے طول وعرض میں سفر کیا، مجھے کوئی بھی شخص بھکاری یا چور نظر نہیں آیا۔ اس ملک میں میں نے بہت دولت دیکھی ۔ لوگوں کی اخلاقی اقدار بلند ہیں۔سمجھ بوجھ اتنی اچھی کہ میرے خیال میں ہم اس وقت تک یہ ملک فتح نہیں کرسکتے جب تک ہم ان کی دینی و ثقافتی اقدار توڑ نہ دیں جو ان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسلئے میں یہ تجویز پیش کرتا ہوں کہ ہم ان کا قدیم نظام تعلیم و تہذیب تبدیل کریں کیونکہ اگر ہندوستانی لوگ یہ سمجھیں کہ ہر انگریزی اور غیرملکی چیز انکی اپنی چیزوںسے بہتر ہے تو وہ اپنا قومی وقار اور تہذیب کھو دیںگے اور حقیقتاً ویسے ہی مغلوب بن جائیں گے جیسا ہم انہیں بنانا چاہتے ہیں”۔
19ویں صدی (1800ء سے 1900ء ) تاریخی مثال راجستھان اور آس پاس کی ریاستوں میں راجپوت قوم کے پولیس سپاہیوں کو اگر وہ مونچھ رکھتے تھے تو انہیں اضافی الاؤنس دیا جاتا تھا۔ ٹانک اوروزیرستان میں ایک مثال پولیس اہلکار میرا پر نانا صنوبر شاہ تھاجو مونچھ کی وجہ سے بریت لالا (یعنی مونچھ ) مشہور ہوا تھا۔
قحط کے باعث مروت قوم کانیگرم وزیرستان چھوڑ کر گئے تھے۔ کانیگرم میں پانی سوکھ گیا تو مروت کاوہاں رہنا محال ہوگیا۔ہم سے متصل مروت قوم کا بڑاقبرستان تھا۔ چٹانوں سے زیادہ مضبوط وزیرستان کی تہذیب و تمدن کو انگریز کے کرایہ کے ملکان نے توڑ دیا اسلئے کہ غربت تھی۔
مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے
بشر کو بشر کی اوقات بھلا دیتی ہے
آؤ ! اس ماں کی بھی کچھ زبانی سنیں
بچوں کو جو روز بھوکا سلا دیتی ہے
اپنی عزت کے بھروسے جو تھی مجبور کھڑی
آخر اک روز وہ اپنا سر جھکا دیتی ہے
اس کے دامن پہ لگے داغ یہی کہتے ہیں
بھوک تہذیب کے آداب مٹا دیتی ہے
قحط سالی میں وزیرستان کے اندر انگریز تنخواہ داروں کو کرائے کے قاتل ملنے لگنے تھے ۔ 1900ء میں چھپنے والی کتاب میں جس طرح کی منظر کشی کی گئی ہے کہ سبحان شاہ کے بیٹے سیداکبر اور صنوبر پولیس والوں نے چند بندوقوں سے انقلابی وزیروں کو ناکام بنادیا۔ 2خاص شخصیات سمیت 7 افراد کو شہید کردیا اور پھر سیداکبر و ملا علیزئی کی قیادت میں لوگوں سے جوتے اترواکر قرآن پر تقریب حلف برداری کی عجیب وغریب منظر کشی کی ہے۔
کرم ایجنسی کے دوست محمد حنیف پارہ چنار جس نے 72 دن بھوک ہڑتال ڈیرہ اسماعیل خان جیل میںکی تھی جس کا بیٹا کرنل یوسف ہے۔ جیل سپرڈنٹ نے جوتے اتارنے کا کہا تھا تو اس نے کہا کہ ”کیا یہ مسجد ہے نہیں اتاروں گا”۔ انگریز کے جانے کے بعد بھی اسکے اثرات باقی ہیں ۔ جب مولانا نورمحمد وزیرMNAنے 1970ء میں شریعت کے نفاذ کی کوشش کی تھی تو وانا کے بازار اور وزیروں کے گھروں کو بلڈوزروں سے ہموار کیا گیا جس پر لوکل شاعری کی گئی۔
دا سپین سپین کوٹینہ دا دے شیشے وول دیکونینہ
گرارہے ہیں سفید سفید کوٹ(قلعہ نما گھر) اور شیشے والی دکانیں۔ شیشوں کی بنی دکان ترقی کی علامات تھیں۔
دہشتگردی کی آگ خوش آئندہے ۔ قبائلی اقدار انگریز نے تباہ کرکے نیا معاشرہ تشکیل دیا، نسل در نسل آبیاری کے بعد آگ کے الاؤ سے نئے لوگ نکل رہے ہیں جو خاندانی شرافت سے خاندانی بے غیرت تک کے سفر میں صرف اور صرف کردار کی تشکیل میں مصروف ہیں۔ پہلے بڑا آدمی وہ تھا جو خاندانی شرافت رکھتا ہو۔ پھر انگریز نے معیار کو بدلا تو بڑا آدمی وہ بن گیا جو طاقت سے چمٹ کر ذلت و ظلم سے اپنا منہ کالا کرسکے۔ سردار امان الدین شہید نے سرکاری ملکوں کے گھرمسمار کئے تو رونامہ مشرق میں ”مریم گیلانی” نے اسلامی انقلاب کا پیش خیمہ قراردیا۔ کانیگرم میں کمزور طبقے کے گھروں کو سرکاری لشکر نے مسمار کیا تو انہوں نے چوروں کے خلاف کمال جوہر دکھایا پھر فضا چلی تو طالبان بن گئے لیکن طالبان کو بھی مس گائیڈ کرکے بدنام کرکے رکھ دیا۔ چھلنی سے چھن کر اچھے لوگ آئیں گے۔ 1990ء میں اپنے کراچی، پنجاب، سوات، بونیر، سندھ اور بلوچستان کے ساتھیوں کیساتھ کانیگرم جنوبی وزیرستان گیا تو راستے میں ہماری گاڑی کے پچھلے دو ٹائیر کے درمیان پتھر پھنس گیا اورمحسود قوم کے جوانوں نے آواز دی اور بتایا تو ہم نے پتھر نکالا۔ انہوں نے کہا کہ تم لوگ بڑے خوش قسمت ہو کہ ہم نے بتایا،ورنہ تو ہم کسی سے بھی نہیں کہتے اور چاہتے ہیں کہ گاڑی خراب ہو اور ہم تماشہ دیکھ لیں۔ پھر انہوں نے آپس میں کہا کہ یہ مسافر ہیں۔ایسا نہ ہو کہ بیچاروں کو ڈاکو لوٹ لیں تو میں نے وزیرستان کی محسود پشتو میں کہا کہ ”ان کی بیویاں نہیں اٹھاکے لے جاؤں،جو یہ جرأت کرے؟”۔ جس پر وہ بہت خوش ہوگئے اور کہا کہ ہم سمجھ رہے تھے کہ شاید سب مسافر ہیں۔ اب ہم بے فکر ہیں۔ میں نے ساتھیوں کو بتایا کہ میں نے تگڑی گالی اسلئے دی کہ ”یہ لوگ ہمدردی میں اظہار کریں گے اور ایک آسان ہدف سمجھ کر جو چور نہیں ہوں گے وہ بھی چور بن جائیںگے ؟”۔
پھر جب 1991ء میں نے کچھ ساتھیوں کیساتھ وہاں رہائش اختیار کرلی تو سبھی علماء پہلے بہت خوش ہوگئے لیکن جب میں نے کہا کہ شریعت کا نفاذ گھر سے شروع کرنا ہوگا تو ان کو چورکا ہاتھ کاٹنا، کوڑے لگانا اور سنگسار کرنا آسان لگا مگر بہن بیٹی کا حق مہر اسی کو دینا بھی مشکل لگا اور وراثت میں حصہ دینا تو بہت بڑی بات تھی۔
کانیگرم میں دو پڑوسیوں کی لڑائی ہوئی اور ایک کے دانت پر پتھر لگا تو لوگوں نے ایک دوسرے کو مذاق میں کہنا شروع کیا کہ ”دانت توڑ وں گا”۔ آخر میں دوسرے فریق نے ایک کو پکڑ کر ہتھوڑی سے حساب برابر کیا تو پھر مذاق تبدیل ہوا اور ہتھوڑے سے دانت توڑنے پر بات ہوئی اوریہ جھگڑا آخر میں اس حد کو پہنچا کہ مورچوں اور گھروں سے گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔ مساجد کے لاؤڈ اسپیکروں سے آوازیں دینے لگے کہ کوئی اور تمہاری گولیوں کا نشانہ بن جائے گا۔ مگر انہوں نے ایک نہیں سنی۔اور قصور تو اصل لوگوں کا ہی تھا کہ طعنے دیکر لڑائیوں پر مجبور کرتے رہے۔
بڑی تعداد میں علماء اور شہر کے بزرگ شہری پہاڑ کی اوٹ میں آواز دے رہے تھے کہ رُک جاؤ ، بس ہم آرہے ہیں۔ میں نے مشیران کے بڑے ہجوم کو دیکھا تو بھاگتا ہوا پہنچ گیا۔ آگے بڑھا تو سب نے رکنے کا کہا کہ گولی لگ جائے گی لیکن میں سیدھا ایک مورچے میں پہنچاجہاں پر گولیاں لگنے سے مٹی کا غبار بھی اُٹھ رہاتھا اور گولیاں بھی چل رہی تھیں۔ میں نے مورچے میں موجود افراد پر لاتوں اور مکوں کی بوچھاڑ کردی اور بندوقیں چھین لیں تو فائرنگ بند ہوگئی اور سب نکل کر آگئے۔
شہر میں سبزی بھنڈی 28 روپے کلو تھی۔ وہ بھی بالکل بے کار تھی۔ وانا میں 4روپے اور تھوک میں روپیہ سے بھی کم پڑتی تھی، ہم نے جب سستی اور تازہ سبزی اور فروٹ لانا شروع کئے تو تبلیغی دکانداروں کو برا لگ گیا۔ حالانکہ اس میں تاجر بھی کماسکتے تھے اور لوگوں کو بھی تازہ و سستی چیزیں مل جاتی تھیں۔ ہم نے صرف خیرخواہی کی بنیاد پر داغ بیل ڈالنی تھی اوریہی ہم نے علاقہ گومل میں سکول کھول کر کیا۔جس کی وجہ سے بچے پڑھنے لگے اور پڑھانے والوں اور سکول بنانیوالوں کو روزگا ر مل گیا۔
اگر پاکستان کی قوم تعلیم سے لیکر تجارت کی مختلف اشیاء تک معقول منافع کمانے کی بنیاد پر کام شروع کریں تو چوری، ڈکیتی اور جہالت کے خاتمے میں بھی اہم کردار ادا ہوگا اور قوم بھی واقعی اچھی قوم بنے گی۔
بلوچستان اورخیبر پختونخواہ کے حالات بہت ابتر ہیں لیکن پنجاب میں اور سندھ میں جو حالات ہیں وہ اندوہناک واقعات کی وجہ سے ابتر ہیں۔سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر جو معاملات رپور ٹ نہیں ہورہے ہیں اور جو رپورٹ ہورہے ہیں وہ بہت خطرناک ہیں۔ حافظ آباد پنجاب میں ڈیڑھ ماہ قبل ایک خاتون کو برہنہ کرکے چار ڈاکو نے جبری جنسی زیادتی کی اور پھر شوہر کو بھی برہنہ تعلق پر مجبور کرکے ویڈیو بنائی اور دھمکی دی کہ کسی کو بتایا تو قتل کردیںگے۔ ڈھائی ہزار روپے اور موبائل بھی چھین لئے اور پٹائی لگاکر چھوڑ دیا۔ پھر میاں بیوی کی برہنہ وڈیو بھی سوشل میڈیا پر ڈال دی۔ جس کی وجہ سے انہوں نے پولیس کو رپورٹ کی اور پولیس نے کچھ مقابلے میں ماردئیے اور کچھ باقی ہیں۔
ایک بڑے پیمانے پر معاشرے میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ اب قبائل کے عوام بہت بدل گئے ہیں۔میں نے اپنے بھانجے اشرف علی سے طوطا چند دن کیلئے لیا۔اس نے کہا کہ اپنے پاس رکھ لو۔میں نے کہا کہ رکھنا تو کسی صورت نہیں۔ پھر چھوٹے بیٹے محمد نے کہا کہ طوطا خرید لو۔ میں نے کہا کہ وہ بیچتا نہیں ہے تو اس نے بھانجے کیساتھ لڑائی کا بہانہ بنایا اورلڑنے کے بعد کہا کہ اب تو لڑائی ہوگئی ہے طوطا دینا نہیںہے۔ جب ماموں سعدالدین لالا کو پتہ چلا تو بہت خوش ہوئے کہ محسودکی رگ موجود ہے۔ ہماری نانی محسود تھی۔ پھر جب اس نے امریکہ کے افغانستان اور عراق پر مظالم کا ماحول دیکھا تو پوچھتا کہ امریکی مارے گئے یا مسلمان ؟ جب امریکوں کا کہا جاتا تو خوشی سے اچھلتا تھا اور جب مسلمانوں کا بتایا جاتا تو بہت غصہ آتا۔ میرے کزن ڈاکٹر آفتاب نے اقبال شاہ کی شادی کے موقع پر کسی بچے کا کہا کہ بڑا اچھا ناچتا ہے۔ اس نے میرے بیٹے کو پوچھا کہ ناچ سکتے ہو؟۔ تو اس نے غصہ سے کہا کہ نہیں۔ پھر پو چھا کہ تم کیا بنوگے؟۔اس نے کہا کہ پائلٹ۔ پوچھا پائلٹ بن کر کیا کروگے؟ تو اس نے کہ امریکہ پر خود کش کروں گا۔ 2004ء میں جیوچینل پروگرام ”الف” میں مجھے شرکت کی دعوت ملی۔میزبان انیق احمد تھے جو عبوری حکومت میں مذہبی وزیر رہے ہیں۔ میں فیملی کیساتھ کراچی کیلئے جہاز پر جارہاتھا تو محسوس ہوا کہ محمد کو اونچائی سے ڈر لگ رہاہے تو میں نے اس کا خوف ختم کرنے کیلئے چھیڑدیا۔ اس نے مارنا شروع کیا۔ بعد میں اس کی ماں کو میں نے کہا کہ مجھے خوفزدہ لگ رہاتھا اسلئے میں نے چھیڑاتو اس نے بتایا کہ وہ کہہ رہاتھا کہ امریکہ کم بخت میزائل نہیں مارے۔
پھر اردو پڑھنے کے قابل ہوا تو میں خود ”موت کا منظر” کتاب سے بہت متاثر ہوا تھا تو اس کو بھی اس قسم کی کتابیں پڑھنے کیلئے ترغیب دی۔ اس نے ایک قصہ پڑھا جو مفتی عبدالرؤف سکھروی داماد مفتی اعظم مفتی محمد شفیع جامعہ دارالعلوم کراچی گورنگی Kایریا شرافی گوٹھ نے اپنے واعظ میں بھی سنایا ہے اور کتاب میں چھاپ بھی دیا ہے۔ لکھا ہے کہ ایک لڑکی ٹی وی دیکھنے کی شوقین تھی تو جب مرگئی تو ٹی وی کیساتھ ریموٹ کنٹرول کی طرح چپک گئی۔غسل سے لیکر جنازے تک ٹی وی ساتھ لیکر گئے اور آخر میں جب دفن کیا تو پھر ٹی وی کے پیچھے نکل آئی۔ دو تین دفعہ کے بعد آخر ٹی وی بھی ساتھ دفن کردیا۔ تو محمد نے کہا کہ ابو یہ سچ ہے؟۔ جھوٹ بولتا کہ سچ ہے تو مذہبی کتابوں سے اعتماد اٹھتا اور سچ بولتا تو مجھے جھوٹ ہی لگ رہاتھا اسلئے جھوٹ کی تائید غلط تھی۔ میں نے پوچھا :آپ کو کیا لگتا ہے؟۔ تو اس نے کہ مجھے تو جھوٹ لگ رہاہے۔ میں نے کہا کہ صحیح بول رہے ہو۔ جھوٹ ہے۔ متعدد بار قبر سے نکلنے کے بجائے ایک دفعہ بھی کافی تھا کہ وہ قبر سے نکلتی تو اپنی جان اور اس کی عزت کا خیال رکھتے۔
پھر جب محمد نے اسٹیل کیڈٹ کالج کراچی میں پڑھنا شروع کیا تو مجھے بعد میں پتہ چلا کہ سینئر جو جونیئر پر نہ صرف حکم چلاتے تھے بلکہ مختلف طرح کے مظالم بھی ڈھائے تھے اسلئے کہ ڈسپلن کے نام پر انتقام ماحول بن چکا ہوتا ہے اور ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں مگرمحمد نے مزاحمت کرنی شروع کی اور پھر دوستوں کے ساتھ مل کر آخر کالج کو اپنا قانون بدلنا پڑا۔
جب محمد دریا خان میں میرے بھائی کے گھر گیا تو دور کے پڑوسی کو پتہ چلا کہ میرا بیٹا ہے اور میرے بارے میں معلوم تھا کہ مذہبی آدمی ہے تو اس نے دم کیلئے بہت کوشش کی لیکن محمد نے دم کرنے سے انکار کردیا۔ بھائی نے کہا کہ دم کردیتے تو اس میں کیا تھا؟۔ محمد نے کہا کہ ”پھر لوگ یہاں مجھے دموبابا کہنے لگتے۔ ہم چھوٹے تھے اور والد صاحب نے کسی کو دم کیا تھا اور وہ صحیح ہوگیا تھا۔ جس کے بعد گاڑی بھر کر لوگ بچوں اور عورتوں کیساتھ آئے تھے۔جب بتایا کہ دم کیلئے آئے ہیں تو غصہ کیا کہ ان عورتوں کی رگیں پھڑک رہی ہیں،جس پر سب شرمندہ ہوگئے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک سے مروت لڑکی نے سوال کیا کہ مذہبی لوگ نماز، روزہ، حج اور مدارس کی تعلیم کیساتھ بچوں اور بچیوں کیساتھ جنسی زیادتیاں کرتے ہیں تو اس کا بعض افراد کی طرف سے سخت رد عمل آیا۔ سبوخ سید نے کلاچی ڈیرہ اسماعیل خان کی ایک تبلیغی جماعت کی پڑھی لکھی شخصیت کو پوچھا تو اس نے بتایا کہ ”یہ بیماری ہے۔ جس کا نفسیاتی علاج ضروری ہے۔ چرچل برطانوی وزیراعظم بنوں سے ایک بچے کو اپنے ساتھ اس کام کیلئے لے گیا تھا”۔ کوٹ حکیم میں ہمارا سکول تھا اور وہاں مسجد کے امام کا مروت سے لایا ہوا بچہ پڑھتا تھا۔ جٹہ قلعہ کے پیر فاروق شاہ نے بھی بچہ بازی کے عروج میں ایک لڑکا رکھا تھا۔ جب علاقہ کے مشیران نے اتفاق کیا کہ نوابزادہ قیذار خان کو الیکشن میں جتوائیںگے تو انہوں نے سب سے پہلے آغاز میرے والد سے کیا ۔ میرے والد سے نواب صاحب کا احترام کا رشتہ تھا وہ خالی جیپ میں کسی اور نہیں میرے والد کو بٹھادیتے تھے لیکن جب ووٹ کی بات آئی تو میرے والد نے کہا کہ یہ بتاؤ کہ نواب نے بچے گھمانے اور کتے لڑانے کے سوا کیا کام کیا ہے؟۔ جس پر سب ایک دوسرے کو منہ دکھاتے ہوئے شرمانے لگے۔
ہم نے 1990ء میں صرف بالمعروف اور نہی عن المنکر کیلئے ایک بس پر بڑے لاؤڈ اسپیکر پر ملک بھر کے شہروں میںاعلانات شروع کئے تو ناصر بیگ کے ویڈیو سے ابھی پتہ چلا کہ لاہور کی ہیرا منڈی کا زوال اس وقت شروع ہوا کہ جب 1990ء میں پولیس نے مجروں پر لاٹی چارج شروع کیا۔ روالپنڈی کا بازار حسن اور کراچی کے بازار حسن بھی اسکے بعد ویران ہوگئے۔ جنرل ضیاء الحق کے اقدامات نے بھی 1980کے بعد سے اثر ڈالا تھا لیکن اصل چیز عوام کی طرف سے ماحول ہوتا ہے۔ جب سیدعبدالقادر جیلانی، سیدعطاء اللہ شاہ بخاری، مفتی محمود اور علماء اور بزرگان دین کی تصاویر کو مذہبی طبقہ استعمال کرتا تھا تو عوام پر ان کا کوئی عمل اثر انداز نہیں ہوسکتا تھا ۔جب ہم نے آواز اٹھائی تو اسکے بعد جب افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو داڑھی، تصویر اور خواتین کے پردے کو حکومتی سطح پر نافذ کردیا گیا۔ پھر جب میں نے جاندار کی تصویر کے جواز پرکتاب ”جوھری دھماکہ ” لکھی تو علماء ومشائخ اور مذہبی جماعتیں تبلیغی جماعت و دعوت اسلامی والے بھی ویڈ بنانا شروع ہوگئے ۔
ہم نے بہت کم مدت میں حالات بدلتے دیکھے ہیں۔ آج اگر امیر المؤمنین افغانستان ملا عمر زندہ ہوتے تو اس کی بھی ویڈیوزبن رہی ہوتیں اور ماحول کے ساتھ بہت بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ پشتونوں کو اپنا ماحول بدلنے کی سخت ضرورت ہے۔ رحمان بونیری اچھا انسان اور اچھا صحافی ہے۔ اس نے بتایا کہ جب اس کا والد سعودی عرب سے خط لکھتا تھا تو کسی سکول ٹیچر کو گھر میں لانا پڑتا تھا اور میری ماں پردے میں بیٹھ جاتی اورگھر والے خبرنامے کی طرح خط سننے۔ جب میں نے ایک بار دیکھا تو خط پڑھنا شروع کیا اور سمجھ میں آیا تو ٹیچر کو بلانے کے بجائے گھر میں بتایا کہ میں خود پڑھ سکتا ہوں۔ خط سنایا تو سب خوش ہوگئے اور ماموں نے خوشی میںمٹھائی تقسیم کی لیکن گاؤں کے بچوں نے بہت مارا۔ اور کہا کہ ہمیں گھر میں ڈانٹ پڑی کہ تمہیں پڑھنا نہیں آتا۔ اگر تم نے پھر خط پڑھا تو ہڈیاں توڑ دیں گے۔ پھررحمان بونیری کے گھروالوںکو گھر سے نکال کر طالبان نے اس کا گھر بموں سے اڑایا۔ اس پر بھی وہ خوش تھا کہ گھر والے تو محفوظ تھے۔ پشتون قوم کو اپنے اجتماعی کلچر کو تبدیل کرنا ہوگا اور دہشت گردی کے بعد ایک تازہ جھونکا عوام میں آگیا ہے۔
حیات پریغال نے لکھا ہے کہ ” کچھ سال پہلے میرے والد اور چچا حضرات میں زمین کی تقسیم چل رہی تھی تو میں نے والد اور چچا دونوں کو بٹھایا۔میرے چچازاد، کزن اور دوسرے رشتہ دار بھی موجود ہیں ،فیس بک پر تصدیق بھی ان سے کرسکتے ہیں اور دونوں سے کہا کہ ہم باہر کے لوگوں کی جہالت پر ہنستے ہیں۔دوسرے زمین کے معاملات پر جرگے کرتے ہیں، ہمیں گھر کے معاملہ پر جرگہ نہیں چاہیے پرامن طریقے سے زمین کی تقسیم کریں۔والد صاحب سے کہا کہ چچا سے کہو کہ جو اچھی چیز چاہیے وہ لو اور دوسری ہم لیںگے۔والد اور بھائیوں نے میری بات مان لی۔جنگل میدان گھر کے قریب کھیت پہلے چچالوگوں نے پسند کئے جو ان سے رہ گئے وہ ہمارے ہوگئے۔میں نے اپنا حصہ آج میرے بھائی شاہد ہیں کہ درجنوں بار بہنوں کے نام کیا ہے اور بھائیوں کا حصہ ان کے پاس ہے۔میرے سگے چچا کا حصہ ان کی بیٹیوں کے نام ہے۔ چاہے وہ پشاور کے بنگلے ہوں یا وزیرستان میں دوسرے سگے چچا کی زمین یا حصہ ہو اور ہم سب خوش ہیں۔کوئی معتری یا بدمعاشی نہیں دکھاتا کہ زور زبردستی کچھ لیا یا دیااور یہی رشتوں کی بقاء کیلئے ضروری ہے کہ ہر انسان خود کردار ادا کرے اور ہر بات کی مثال اور شروعات انسان خود سے کرے۔خود سے دے”۔ پریغال (یہ اسی مہینے جون کی تحریر ہے)۔
حیات پریغال میں اتنی بڑی تبدیلی بہت ہی خوش آئند ہے۔ جب وزیرستان میں کوئی بیرون ملک سے پیسہ لیکر آتا تو گھر کی اپنی زمین میں تعمیر پر اتنا تنگ کیا جاتا کہ اس کو وزیرستان چھوڑ کر واپس بیرون ملک جانا پڑتا۔ وزیرستان کی بیماری پاکستان کے ریاستی اداروں میں بھی پھیل گئی ہے جس کی وجہ سے لوگ اپناسرمایہ بیرون ملک منتقل کرنے لگے۔
پروفیسر احمد رفیق اختر کے دوست اور رومیٹ جہانگیر ایڈوکیٹ نے مجھ سے کہا کہ عورت کے حقوق کیلئے آپ پہلے شخص ہیں جس نے بہت زبردست طریقے سے اجاگر کیا ہے۔ ان کی یہ بات میرے لئے واقعی بہت بڑا کریڈٹ اسلئے ہے کہ وہ بہت زیادہ پڑھے لکھے اور سمجھدار ہیں۔ جب ادارہ منہاج القرآن کے سابق جنرل سیکرٹری ڈاکٹر دلدار قادری کے سامنے میں نے یہ بات کی کہ ” قانون کمزور کو تحفظ دینے کیلئے ہوتا ہے اور عورت کمزور ہے۔ قرآن نے اس کے تحفظ کیلئے قوانین بنائے ہیں اور حکمران اپنے تحفظ کیلئے طاقتور ہونے کے باوجود کمزور کے خلاف قوانین بناتے ہیں ”تو ڈاکٹر دلدار قادری بہت خوش ہوئے گویا آنکھوں میں چمک آگئی اور وہ ڈاکٹر طاہرالقادری سے زیادہ ذہین شخص ہیں۔
جب میں نے مدارس میں نصاب پر طالب علمی کے دوران سوالات اٹھانا شروع کئے تو مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی سمیت سارے لاجواب ہوتے ۔ شاہ ولی اللہ کے بیٹے شاہ عبدالعزیز کی تفسیر عزیز ی میں عذاب قبر کا انکار نظرآیا تو سوال پوچھا مگر جواب یہ تھا کہ” تم پنج پیری ہو”۔ میں نے کہا کہ ”آپکے دوست حاجی محمد عثمانکا مرید” ہوں تو کہنے لگا کہ ”پھر ایسے سوالات مت کرو”۔ وراثت میں عورت کا حصہ بہت اہم مسئلہ ہے لیکن اس کیلئے کچھ بنیادی چیزوں کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔
قرآن میں باپ، ماں، چچا، ماموں وغیرہ کے الگ الگ گھروں کا ذکر ہے۔ مثلاً ایک شخص کی ایک سگی اور تین سوتیلی مائیں ہیں تو پھر سب ماؤں کے الگ الگ گھر ہوں گے۔ مثلاً امہات المؤمنین کے حجرے بھی الگ الگ تھے۔حضرت عائشہ کے حجرے میں چار قبروں کی گنجائش تھی۔ نبیۖ کے بعد حضرت ابوبکر وعمر کی قبریں انکی اجازت سے بنی ہیں اور امام حسن کیلئے بھی اماں عائشہ نے اجازت دی تھی مگر وقت کے حکمران نے امام حسن کی تدفین میں رکاوٹ پیدا کرکے دفن نہیں ہونے دیا اور حکمرانوں کی مداخلت نے اسلامی احکام کا بھی بیڑہ غرق کیا ہے۔ باغ فدک پر حضرت فاطمہنے مقدمہ لڑا مگر امہات المؤمنین کے حجروں میں اپنا حق نہیں سمجھا۔ کراچی میں کچھ لوگ بہت مشکل سے اپنے 120گز کا مکان بناتے ہیں۔ مثلاً ایک شخص کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ مکان میں بیٹے اپنے بچوں سمیت رہتے ہیں۔ جب باپ فوت ہوتا ہے تو اس کی بیٹی کیس کردیتی ہے کہ مکان بیچ دو اور ہمیں اپنا حصہ دو۔ جب زندگی میں داماد کا حصہ نہیں تھا تو باپ کے مرنے کے بعد بیٹوں کو بیوی بچوں کے ساتھ کیسے اپنے اپنے کمروں سے نکال باہر کیا جاتا ہے؟۔ شریعت اور اخلاقیات کا معاشرے میں بہت زیادہ قفدان ہے۔
اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر ایک عورت اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ خوش حال زندگی بسر کرتی ہے تووہی اس کا گھر ہے لیکن جب وہ بیوہ یا طلاق ہوجاتی ہے تو اسکے باپ اور بھائیوں پر اس کی ذمہ داری بھی پڑتی ہے۔ جب ہمارے پردادا سید حسن شاہ بابو کی تین بیٹیاں بیوہ بن گئی تھیں تو ان کو پہلے دو بیٹوں کے برابر کانیگرم میں رہائشی گھر دئیے اور پھر ایک بیٹی کا اکلوتا بیٹا تھا تو اس کو الگ گھر دیا تھا۔ دوسری دو بیٹیوں میں ایک کے تین بیٹے اور ایک کے چار بیٹے تھے تو پہلے دونوں کو مشترکہ بڑا گھر دیا تھا جو دو بیٹوں کے گھر سے بھی بڑا تھا مگر پھر چار بیٹوں والی کیلئے الگ گھر بناکر دیا جو چار کے برابر تھا۔ سید حسن شاہ بابو کی اور بھی بیٹیاں تھیں لیکن ان کو بسانے اور جائیداد میں شریک کرنے کی ضرورت نہیں تھی اور جن کو ضرورت تھی تو ان کے بچوں کو اپنے بیٹوں کے برابر حصہ دیا تھا ۔ قومی جائیداد میں بھی ان کیلئے 8حصے اور اپنے 5پوتوں کیلئے 5حصے رکھے اور غریب کرار خیل قوم کیلئے بھی اچھا حصہ رکھ دیا تھا۔
پھر میرے والد پیرمقیم شاہ نے قوم سے آٹھواں حصہ الگ کیا اور اپنے دو بھائی محمد انور شاہ اور محمد صدیق شاہ سے کہا کہ تم دونوں کیلئے ایک مشترکہ حصہ کافی ہے۔ اپنا حصہ اپنے بہنوئی گل امین کے نام کردو۔ جس کے بعد ہمارے 4حصے بن گئے اور ان کے9ہوگئے۔ اس فطری تقسیم کا یہ نتیجہ تھا کہ عزیز واقارب سب ایک ہی گھر کی طرح خوش وخرم تھے مگر جب ہم بدل گئے۔ بھانجے عامراور بھتیجا جہانزیب کی جگہ میرے بھائی نے عبدالرحیم کو لے پالک بنادیا تو اس کے نتائج ہمیں بھی بھگتنے پڑگئے۔ عبدالرحیم کی اتنی اوقات تھی کہ ہمارے درمیان تقسیم کا فیصلہ کیا مگرڈر لگتا تھا کہ کہیں بھائی کو سجدہ نہ کردے۔ میں سمجھ رہاتھا کہ اس کا اپنا ایجنڈہ ہے اور جہانزیب بے بس کہتا تھا کہ ”جب تک میں پینشن نہیں لوں گا تو چچازاد بھائی سہیل سے الگ نہیں ہوں گا”۔مگر پھر بہت بدمزگی سے تقسیم کی گئی۔ میرا مدعا یہ تھا کہ جو بہنیں گھر میں موجود ہیں تو ان کا نہ صرف موروثی جائیداد میں حصہ ہے بلکہ ہر بھائی کیساتھ بھی ان کا حق ہے۔ البتہ بھائیوں نے جو کچھ بھی کمایا ہے تو وہ ان کا اپنا ہے۔ کسی بھائی کو دینا چاہتے ہوں تو یہ ان کا احسان بھی نہیں ہوگا کہ بھائی کا بھائی پر احسان نہیں لیکن نہیں دے گا تو حق بھی نہیں ہوگا۔ لیکن میری بات کو نہیں مانا گیا اور عبدالرحیم کی چل گئی اور پھر ہمارا بھی کباڑہ ہوگیا تھا۔
سبحان شاہ کی اولادکا تعلق وزیرستان نہیں ٹانک سے تھا۔ ٹانک میں بھی آباد کار تھے اور سید یوسف رضاگیلانی کے خاندان سے ان کی رشتہ داری ہوسکتی ہے لیکن شاید یہ حسینی سادات تھے۔ ہر طرف سے انکار کے باوجودمجھے گمان تھا کہ ہمارا شجرہ ایک ہے اور شجرے کے پیچھے کچھ مربھی رہے ہیں۔صرف نظر بعض معاملات میں اچھی ہوتی ہے لیکن ان کی وجہ سے آخر میں ہمیں بھی نقصان پہنچ رہاتھا اور ان کی عادات بھی بگڑرہی تھیں تو انکو پھینکا بلکہ اس طرح سے پٹخ دیا کہ تاریخ کے سارے گم شدہ اوراق بھی سامنے آگئے۔ میں نے حقائق لکھے کہ صنوبر شاہ کی اولاد نے مظفرشاہ کی اولاد پر ظلم کیا ۔پھر عبدالرحیم کا رشتہ ہوا تو اکٹھی تین طلاق اور حلالے کا مسئلہ آگیا ۔ حلالہ کا میں قائل نہیں تھا اور ایسی پوزیشن بھی نہیں تھی کہ رشتہ ختم کیا جاتا تو ان کی وجہ سے قرآن کی طرف رجوع کیا اور جب مسئلہ سمجھ میں آیا تو نہ صرف وہ عزت بچائی بلکہ اخباراور کتابوں میں واضح کیا۔ اللہ فرماتا ہے کہ” ہوسکتا ہے کہ تمہیں کوئی چیز بری لگے اور وہ تمہارے لئے خیر ہو”۔ پاکستان نے بہادری دکھائی تو افغانستان نے پہلی بارعید ساتھ منائی۔ میں نے تصوف میںپیر کے ہاتھ مردہ بدست زندہ کا کردار ادا نہیں کیا۔ البتہ ضرورت پڑی تو کراچی کے دنیا پرست اکابرکو تاریخی شکست دی تھی۔ شکرالحمد للہ۔ صحافی طاہر خان نے ملا ہیبت اللہ امیر المؤمنین کی نماز عید کے موقع پر امریکہ پر تنقیدکو تبدیلی قرار دیا۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
شادی کیلئے 18سالہ کی شرط اور17 سالہ کاقتل
22سالہ عمر حیات سے 17سالہ ثناء یوسف شادی کرتی تو اسلام آباد کی عدالت سے سزا ملتی؟ یا فیصل آباد اور چترال میں شادی کرتے؟۔ مرد غیرت میں گرل فرینڈ کو قتل کرتا ہے اور بے غیرتی میں دیوث بیوی کو چلاتا ہے۔
اسلام آباد میں دنیا کے سفیر ہیں۔ اگر کسی کی 16سالہ لڑکی سے نکاح ہوا توسعودی عرب سمیت دنیا کے اکثر ممالک میں لڑکی کیلئے 18 سال عمر ہے۔ جناح 16سالہ لڑکی سے نکاح کرتا مگراسکا والد راضی نہیں تھا۔ولی کی اجازت کا مسئلہ نہ ہوتا تو حکومت برطانیہ ہند میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی کے مطابق کوئی مداخلت بھی نہ کرتی۔ 18 سال تک پہنچنے کیلئے قائداعظم منتظر رہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ اگر غیر ملکی سفیر کی جواں سال بیٹی سے معاشقہ ہوا اور 16سال کی عمر میں نکاح رجسٹرڈ ہو تو پھر وہ اور اسکے بچے قانونی حق رکھیں گے اور اگر عمران خان کی طرح بعد میں طلاق ہوجائے تو ہر شخص تو عمران خان نہیں کہ بچوں کو ٹیرن وائٹ سمیت گولڈ سمتھ خاندان کے حوالہ کردے اورپھر جائیداد کے قانونی حق سے دستبردار ہو۔
پنجاب میں16سالہ لڑکی کو قانونی حق ہے اور اسلام آباد کارقبہ پنجاب کی سرزمین میں زیادہ نہیں۔ جڑوان شہر روالپنڈی میں فیلڈ مارشل حافظ سید عاصم منیر کے مدرسے کا مہتمم شیخ الہند مولانا محمود الحسن کے دوست مولانا عزیر گل کا پوتا جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کا فاضل MScمیتھ مولانا سید عدنان کا کا خیل نکاح پڑھادے گا۔اسرائیل کا ظالمانہ وجود بھی عرب ممالک اور امت مسلمہ کیلئے قابل قبول ہے تو دودھ میں مکھی دیکھتے ہو اور مینگنیوں کی خیرہے؟ ۔
آبادی واہمیت میں دوسرا بڑا صوبہ سندھ ہے جہاں پہلے سے لڑکی کیلئے 18سال عمر کی شرط ہے۔ اس کی بنیادی وجہ غیر مسلم لڑکیوں کو تحفظ دینا تھا۔ 200کے قریب بالکل احادیث ہیں کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوسکتا۔ اگر سندھ میں یہ قانون ہوتا کہ لڑکی اسلام ولی کی اجازت کے بغیر قبول کرسکتی ہے لیکن نکاح نہیں ہوسکتا تو ہندو لوگ نہ صرف پاکستان اور اسلام کے شکر گزار ہوتے بلکہ حسینی ہندو کی طرح محمد ی ہندو بھی بڑی تعداد میں بنتے۔ اگر ہندولڑکی کو اغواء کرکے اس کو حاملہ بنادیا جائے تو پھر وہ خاندان کی شکل دیکھنے اور اپنی شکل دکھانے کے قابل نہیں ہوتی ۔
9جون لاہور کی خبر ہے کہ 4موٹر سائیکل سواروں نے باپ بیٹا سعید اور شمیر کو قتل کیا اور وجہ قتل دوسرے بیٹے حسن کی پسند کی شادی تھی۔ پولیس مقابلے میں مارے گئے۔
مولانا فضل الرحمن اور مفتی تقی عثمانی بتائیں کہ اسلام میں16سال یا بلوغت شرط ہے؟۔ تو کیوں رائج ہے؟۔ مفتی تقی عثمانی کا فتاویٰ عثمانی 2007پھر 2022 میں شائع ہوا، اس میں عورت پر نکاح کے حوالے سے جو مظالم ہیں اگر قومی اسمبلی یا سینیٹ یا صوبائی اسمبلیوں میں پیش کردئیے گئے تو عام لوگوں کی بات چھوڑ دو، علماء ومفتیان کا مذہبی طبقہ بھی لاٹھی لیکر مفتی تقی عثمانی کے پیچھے پڑے گا۔
مفتی تقی عثمانی نے فتاوی عثمانی جلد سوم میں بچیوں کے نکاح اور زبردستی کے نکاح پر جو فتوے دئیے ہیں وہ انتہائی شرمناک ہیں۔ اگر غیر عجم کی نسل سے لڑکے کا تعلق ہو تو زبردستی سے نکاح کے بعد عدالتی خلع بھی معتبر نہیں ہوگا۔ بچپن میں باپ نے نکاح کرایا ، جب لڑکی کی عمر گزرنے لگی تو رخصتی پر زور دیا۔ 5سال سے زیادہ عرصہ تک لڑکا غائب رہا تو عدالت میں خلع کا کیس کیا اور طلاق کے بعد دوسرے سے نکاح کیا اور کچھ عرصہ گزارنے کے بعد پہلا آیا تو فتویٰ دیا کہ پہلے کا نکاح برقرار ہے ، دوسرا الگ ہوجائے۔ قرآن وحدیث کی وضاحتیں ہیں کہ لڑکی پر زبردستی نہیں ہوسکتی لیکن مولوی جاہل نہ قرآن سمجھتا ہے اور نہ احادیث۔
اگر یقین ہوتا ہے کہ رسول اللہ ۖ نے حضرت عائشہ سے 6سال کی عمر میں نکاح کیا اور9سال کی عمر میں رخصتی تو یہ سنت سمجھتا لیکن واضح قرائن ہیں کہ اس میں سچ کا کوئی امکان نہیں۔ کیا بعثت نبویۖ کے 5 ویں سال عائشہ کی پیدائش ہوئی پھر نبیۖ کا رشتہ آیا تو اس مشکل ترین دور میں ابوبکر نے چھوٹی بچی اسلام کے دشمن کو نکاح میں دی ؟ پھر ابوبکر نے پوچھا تو اس نے کہا کہ ”تم لوگوں نے اپنا دین بدل دیا ہے اسلئے اب یہ رشتہ ختم ہے”۔ جبکہ دین بدلنے کے ہی بعد یہ رشتہ لیا گیا تھا؟۔جب اس وقت حضرت عائشہ کی بڑی بہن حضرت اسمائکی عمر16سال تھی۔
16سالہ بیٹی کو چھوڑ کر 6سالہ بچی جس کا رشتہ طے تھا تو وہ مانگ لی؟۔رسول اللہۖ نے نہیں فرمایا کہ مجھ سے عائشہ کا نکاح 6سال میں ہوا اورکسی صحابی سے منقول نہیں۔ کسی تابعی نے بھی نہیں کہا۔ ہشام تیسری پشت میں حضرت ابوبکر کے پڑ نواسہ تھے۔بنی امیہ کے خاتمے اوربنی عباس کے دورمیں تھے۔جیسے سوشل میڈیا کا عنوان بکتاہے تو اسی طرح نوادرات احادیث کی تجارت شروع ہوگئی تھی۔
دنیا میںنکاح کیلئے18سال کی شرط بیوی کے حقوق کیلئے ہے اوراسلام نے زیادہ حقوق دئیے ہیں لیکن جب عورت کے سارے حقوق معطل کردئیے گئے تو پھر کیا فرق پڑتا ہے کہ 16سال کی عمر میں نکاح ہویا18سال میں؟۔
قرآن نے جاہلیت کی رسم کو ختم کرکے طلاق کے بعد صلح کی شرط پر عدت میں رجوع کو واضح کیا ہے لیکن مولوی چاہتا ہے تو حلالہ کے بغیر صلح کے باوجودرجوع نہیں کرنے دیتا اور جب چاہتا ہے اگر عورت صلح پر راضی بھی نہ ہوتو مولوی رجوع کا حق دے دیتا ہے بھلے عورت کویہ فتویٰ بھی مل جائے کہ اسکے ساتھ بدکاری ہورہی ہے۔ مریم نواز اور شہباز شریف عورت کے مسائل حل کرنے کیلئے کچھ کریں۔ اگر نوازشریف طاہرالقادری کو کاندھے پر غارِ حراء تک چڑھا سکتا ہے تو قرآن کی آفاقی اور فطری تعلیمات کو عام کریں۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
چین نے پاکستان و افغانستان کی صلح کرادی: پاکستان نے چین و بھارت کی صلح کرادی تو امام بن جائیگا
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے غیر ملکی چینل کو انٹرویو دیا کہ 30سال ہم نے مغرب کیلئے شدت پسند مذہبی اور جہادی تنظیموں کو پالا اور مفتی نظام الدین شامزئی شہید کے حوالہ سے حامد میر نے روزنامہ اوصاف اسلام آباد کے ادریہ میں لکھا تھا: ”واشنگٹن سے براستہ رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ جہادی تنظیم کو پیسہ آرہاہے ،اگر یہ باز نہ آئے تو ان کا بھانڈہ چوراہے کے بیچ پھوڑ دوں گا”۔
پاکستان نے نہ صرف بھارت کو شکست دی بلکہ سارا دفاعی نظام جام کرکے سب سے اچھا کام یہ کیا کہ بغیرکسی مفاد اور دباؤ کے جنگ بھی بند کردی۔ پاکستان چاہتاتوگڈ وبیڈ طالبان شریک ہوتے۔ TTPنے جنگ بندی کا اعلان کیا۔ سکھ، مسلمان، اقلیتی برادری اور مودی کی غلط پالسیوں سے تنگ کانگریس اور دوسری جماعتیں بھی خوش ہوتیں لیکن ایک پڑوسی ملک کو تباہ کرنے کا کوئی فائدہ پاکستان کو نہیں تھا۔ عالمی قوتیں بھارت میں گھس جاتیں۔ چین نے طالبان و پاکستان کی صلح کرائی تو پاکستان کو چاہیے کہ بغیر کسی دیر کے بھارت اور چین میں صلح کرائے۔ لڑتے ہم ہیں اور عرب پر اسلحہ امریکہ بیچتا ہے؟۔ چین، بھارت اور پاکستان یوکرین و روس کی بھی صلح کرادیں۔شرقی روایات کی پاسدار قومیں ہی دنیا کو امن وامان کا گہوارہ اور تیسری جنگ سے بچاسکتی ہیں۔ پاکستان دنیا کا پرامن مستقبل ہے۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
اخبار کی وجہ سے قرآ ن وسنت کے مطابق طلاق کا مسئلہ حل کیا ثواب آپ کو ملے گا ۔مولانا عنایت الرحمن
(شاہ وزیر) حضرت مولانا عنایت الرحمن خطیب اور امام اکبر پورہ گاؤں چار غلئی تحصیل و ضلع مردان نے کہا کہ مجھے اس اخبار کا نہیں معلوم لیکن طلاق کا مسئلہ قرآن وسنت کے مطابق حل کیا اور میں اپنی مسجد میں لوگوں کواس سے آگاہ کرتا ہوں ۔ حلالہ کی لعنت سے لوگوں کو بچایا اور آپ اخبار لائے اور اس کا ثواب اور اجر آپ کو بھی ملے گا۔ امام صاحب نے گلے لگایا اور مجھے پیٹھ پر تھپکی دی۔کراچی سے کوئٹہ، سوات،لاہورتک اور پوری دنیا سے عوام حلالہ کیخلاف قرآن وسنت کو سمجھ رہے ہیں۔
حجاز یا وزیرستان کا معاشرہ قرآن سمجھنے کیلئے بنیاد ہے۔ بانی اسلام360 زاہد حسین چھیپا بالمشافہہ نہیںسمجھا۔ مولانا طاہر محسود شین مینار مسجد ٹانک نے سمجھ لیاتھااور 2018ء نقیب محسود شہید کے دھرنے میں شاباتی ملک نے کہا کہ لوگ اخبار سے سمجھ گئے کہ طلاق کا مسئلہ ویسا نہیں ۔ پڑوسی سیداللہ جان کے عزیز کو جنجال گوٹھ میںمنٹوں میں قرآن سمجھ آیا۔
البتہ قائداعظم یونیوروسٹی کے ماسٹر کے تبلیغی زدہ بھائی کو حلالہ سے بچانے کی دارالعلوم الاسلامیہ واٹر پمپ میں میری گھنٹوں کوشش بھی ناکام ہوگئی ۔
مولانا بدیع الزمان ( مفتی تقی عثمانی وسینیٹر مولانا عطاء الرحمن کے استاذ )سے 40 سال پہلے عرض کیا حتی نکح زوجًا غیرہ کی ٹکرحدیث سے نہیںتو استاذ مان گئے۔اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا شیرانی اور قبلہ ایاز مان گئے مگر ہمت نہ کی اگر اسلامی نظریاتی کونسل میں لے جاتے تو عزت ملتی۔
اللہ نے فرمایا کہ ” طلاق شدہ عورت کی عدت ہے اور عدت میں باہمی اصلاح کی شرط پر انکا شوہر لوٹانے کا زیادہ حق رکھتاہے”۔ عمر و علی میں طلاق کے مسئلے پر کوئی اختلاف نہیں تھا۔عورت صلح پر راضی نہیں تو عمر نے تین طلاق پر رجوع کا حق نہیں دیا۔ شوہر نے حرام کہا عورت صلح پر راضی نہ تھی تو علی نے رجوع کا حق نہیں دیا۔ انسان پر شہوت غالب ہوتو شیخ الحدیث مفتی عزیز الرحمن باریش صابر شاہ کو شکار کرتا ہے۔آدم سے اللہ نے کہا کہ ”قریب نہ جاؤ” مگر عصی اٰدم ربہ فغوی” آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی تو بہک گیا”۔ (سورہ طہ:121)
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہ صحرائی(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) یا مردِ کوہستانی
اکٹھی3 طلاق پر بخاری نے بے بنیاد حدیث درج کی اور قرآن کا غلط حوالہ دیا۔ بنوری ٹاؤن کراچی کی ویب پر حرمت مصاہرت کے مسائل دیکھ لو کہ ”بہو یا ساس کو ہاتھ لگ گیا اور شہوت آگئی تو اگر انزال کرکے نہیں چھوڑا تو بیوی حرام ہوگی۔ انزال ہوا تو بیوی حرام نہیں ہوگی”۔ قرآن و حدیث میں حلالہ کی لعنت ختم کی گئی لیکن علماء نے اپنے مفاد میں زندہ رکھا ہوا ہے، اسکے علاوہ حرمت مصاہرت پر جو بے غیرتی کا درس دیا جارہا ہے تو حکومت کو ان پر ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ جیسے چور بدمعاش سزا کے بغیر سیدھے نہیں ہوتے ویسے یہ نہ ہونگے۔
9جون کو SPلبنیٰ ٹوانہ نے کہا کہ بہو سسر کی جنسی زیادتی سے خودکشی کررہی تھی جو سپرہائی وے سے لائی گئی تھی سچل تھانہ میں ،ریڑھی گوٹھ کی تھی۔ نچلے طبقے میں سسر یہ غلاظت قابل فخر بھی سمجھتا ہے۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv