پوسٹ تلاش کریں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں میلاد النبی کا کوئی وجود نہیں تھا۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اسلامی بینکاری موجود تھی؟

میلادالنبیۖ ہم اسلئے نہیں مناتے کہ یہ مذہبی تقریب ہے جس کا نبیۖ کے دور میں وجود نہیں تھااور14اگست جشن آزادی کی تقریب ہم اسلئے مناتے ہیں کہ دنیاوی تقریب ہے۔شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نومنتخب صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان۔پھرسوال بنتا ہے کہ رسول ۖ، خلفاء راشدین، ائمہ اربعہ ، مفتی تقی عثمانی کے والدمحترم مفتی محمد شفیع کے دور میں اسلامی بینکاری کا وجود تھا،وفاق المدارس کے سابقہ صدور بھی مخالف نہ تھے؟

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

الحمد للہ وزیراعظم کی زبان پر نقاب کا ذکر آیا۔ مہاجرات صحابیات بہت قابلِ احترام تھیں جب پردے کا حکم آگیا تو انہوں نے لنگ (ازار) پھاڑ کر اپنا سر اور سینہ ڈھانپا تھا۔ مولانا محمد انور جمعیت علماء اسلام کا قومی اسمبلی میں خطاب

میلاد النبی ۖ اورمفتی تقی عثمانی
ہندوستان اور پاکستان میں بریلوی دیوبندی اختلافات نئے نہیں ہیں لیکن ذمہ دار حلقوں نے اپنی سمجھداری سے کام لیکرہمیشہ فرقہ واریت میں ہوا بھرنے سے گریز کیا ہے۔ علماء دیوبند کے اکابر کے پیرومرشد حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے بھی اپنی کتاب ” فیصلہ ہفت مسئلہ” میں تمام متنازع امور کوبہت ہی خوبصورتی کیساتھ ختم کرنے کی زبردست کوشش فرمائی تھی۔ مولانا قاسم نانوتوی نے کہا تھا کہ میں علم کی وجہ سے حضرت امداد اللہ مہاجر سے بیعت ہوا ہوں۔لیکن مولانا رشیداحمد گنگوہی نے فرمایا تھا کہ میں ان کے علم سے نہیںتقویٰ کی وجہ سے بیعت ہوا ہوں۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے حاجی امداداللہ مہاجر مکی سے عرض کیا کہ مولانا رشیداحمد گنگوہی سے میری سفارش کرلیں کہ مجھے وہ بیعت کرلے۔ حضرت امداد اللہ مہاجر مکی نے فرمایا کہ ” میں تجھے خود بیعت کرتا ہوں ”۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے خانقاہی نظام کو سب سے زیادہ مولانا اشرف علی تھانوی ہی نے پھیلایا ہے۔ آپ کی کتاب ” فیصلہ ہفت مسئلہ ” کو بھی مولانا تھانوی نے ہی چھاپ دیا تھا ، ورنہ مولانا رشید احمد گنگوہی کے شاگردوں نے اس کو پھاڑ دیا تھا۔
مولانا رشید احمد گنگوہی کے ایک شاگرد مولانا حسین علی تھے جن کے شاگرد شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان اور شیخ القرآن مولانا محمد طاہر پنج پیری تھے۔ پھر ان کے بھی دو دھڑے بن گئے۔ مولانا غلام اللہ خان عام دیوبندی علماء سے مل گئے لیکن مولانا طاہر پنج پیری دوسرے دیوبندی علماء کو بدعتی قرار دیتے تھے۔ آج بھی اختلافات کا یہ سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ اب یہ ایک نیا موڑ اختیار کر گیا ہے۔ مفتی محمد تقی عثمانی میلاد النبیۖ کے منانے کو بدعت قرار دیتا ہے لیکن مفتی اعظم پاکستان مفتی محمود اور جمعیت علماء کے قائد مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں دیوبندی اکابر علماء بہت اہتمام کیساتھ میلاد کا جلوس ڈیر ہ ا سماعیل خان میں بھی نکالتے ہیں۔ کیا مفتی محموداور ڈیرہ کے اکابر علماء دیوبند اس وجہ سے بدعتی ہیں ؟۔

دیوبندی اور بریلوی اختلافات
بدعت اور سنت کے حوالے سے دیوبندی بریلوی اختلافات بہت عروج پر رہتے ہیں۔ مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ نے ایک بہت بڑی کتاب لکھ ڈالی کہ جس میں سنت نماز کے بعد اجتماعی دعا کو بدعت قرار دیا۔ ہندوستان، پنجاب اور کراچی میں علماء دیوبند کے اکابر اس پر عمل کرتے تھے اور سنتوں کے بعد اجتماعی دعا کو بدعت سمجھ کر چھوڑ دیتے تھے مگراندورنِ سندھ امروٹ شریف، بیر شریف اور ہالیجی شریف سنت نمازوں کے بعد بھی اجتماعی دعا ہوتی تھی۔ پختونخوا اور بلوچستان کے علاوہ افغانستان میں سنتوں کے بعد اجتماعی دعا مساجد میں ہوتی تھی۔اکوڑہ خٹک کے جامعہ حقانیہ اور پنج پیر کا اختلاف سنت کے بعد اجتماعی دعا اور حیلہ اسقاط وغیرہ سے زور وشور کیساتھ جاری رہتا تھا۔ جامعہ العلوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی میں بھی پنج پیری طلبہ کو اپنی شناخت چھپانی پڑتی تھی۔ اسلئے کہ مولانا سیدمحمدیوسف بنوری کا تعلق پختونخوا سے تھا۔ پنج پیری علماء اپنے مخالف دوسرے علماء کو حق چھپانے کا مرتکب قرار دیتے تھے اور دوسرے دیوبندی علماء پنج پیری علماء کو سب سے بڑا فتنہ قرار دیتے تھے۔ یہ جنگ ابھی جاری ہے۔
مولانا فضل غفور نے جب ایک عالمِ دین کا خواب اپنی جمعیت علماء اسلام کی تائید کیلئے بیان کیا تو پنج پیری علماء کی اکثریت نے اس پر رسول اللہۖ کی شان میں گستاخی کا فتویٰ لگادیا لیکن انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ مولانا حسین علی کی تفسیر” بلغة الحیران” میں لکھا کہ ” نبیۖ گر رہے تھے اور میں نے تھام لیا”۔ مولانا خضر حیات بھکروی اور دیگر پنج پیری علماء ان پر گستاخی کا فتویٰ کیوں نہیں لگاتے تھے؟۔ شمالی اتحاد کے احمد شاہ مسعود پنج پیری اور طالبان سنت کے بعد بھی اجتماعی دعا مانگنے والے بدعتی ہیں لیکن شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی طالبان سے نہیں کہتے ہیں کہ ” تم بدعتی ہو”۔ بریلوی دیوبندی اختلاف کی نوبت اس وقت آئے گی جب دیوبندی آپس میں کسی اچھے نتیجے پر نکل کر کبھی متفق بھی ہوجائیں گے۔

مفتی محمد تقی عثمانی اور سودی بینکاری؟
پاکستان میں پہلے سرکاری سطح پرربیع الاول کا اہتمام سیرت النبیۖ کے نام سے ہوتا تھا۔ دیوبندی علماء بھی ربیع الاول کا سیرت النبیۖ کے نام سے اہتمام کرتے تھے۔پہلی مرتبہ وزیراعظم عمران خان نے اپنے گھر بنی گالہ اور سرکاری سطح پر عیدمیلالنبیۖ کا اہتمام کیا ہے۔دوسری طرف سے شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے پہلی مرتبہ میلاد النبی ۖ منانے کو بدعت قرار دے دیا ہے۔
پاکستان میں پہلے دنیا پرستی کے نام پر سودی لین دین اور بینکاری کا اہتما م ہوتا تھا لیکن مفتی محمد تقی عثمانی نے مذہبی روپ میں سودی بینکاری کو اسلامی قرار دیا ہے؟۔ کیا یہ بدعت نہیں ہے؟۔ رسول اللہۖ اور خلفاء راشدین کے ادوار میں کوئی مذہبی پیشواء شیخ الاسلام نہیں ہوتا تھا لیکن پھر بنوامیہ کے بعد بنوعباس کے دورمیں شیخ الاسلام کا سرکاری عہدہ اور منصب بھی سامنے آگیا اور اب اس نے مذہب کا روپ ہی دھار لیا ہے کیا یہ بھی بدعت نہیں ہے؟۔کیا نبیۖ اور صحابہ کے دور میں غسل اور وضو کے فرائض اور ان پر اختلافات کا تصور تھا؟۔ یہ بدعت نہیںہیں؟۔ دیوبندی علماء مفتی تقی عثمانی اور اس کے آباء واجداد کو سرکاری مرغا قرار دیتے تھے۔ تھانوی گروپ کو آزادی کے علمبرداروں جمعیت علماء ہند کا دشمن سمجھا جاتا تھا۔ پھر جنرل ایوب خان کے پروردہ اس گروپ نے مشرقی اور مغربی پاکستان میں دیوبندی اکابر علماء پر1970ء میں کفر کا فتویٰ لگادیا۔ پھر تھانوی گروپ نے بھٹو کے برسر اقتدار آنے پر ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کے دور میں جنرل ضیاء کا ساتھ دیا۔ مفتی محمود نے جنرل ضیاء الحق کی سرکاری زکوٰة کو سود قرار دیا اور پھر مولانا فضل الرحمن اس کو شراب کی بوتل پرآب زم زم کا لیبل قرار دیتے رہے۔ آج سرکاری مرغے نے حکومت کے برعکس کوئی آذان دیدی ہے تو یہ بہت زریں موقع ہے کہ سرکاری سطح اور عوامی سطح پر دین اسلام کی حقیقت کو سیاست سے پاک کرکے پوری قوم کو فرقہ واریت کے چنگل سے نکالا جائے۔

مولاناانور کی قومی اسمبلی میں تقریر
لکی مروت سے جمعیت علماء اسلام کے منتخب رکن نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں کہا ہے کہ ” شکر ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی زبان پر بھی نقاب کا لفظ آگیا۔ جب قرآن کی آیت نازل ہوئی ولیضربن بخمرھن علی جیوبھن ولایبدین زنیتھن الا لبعولتھن او لآبائھن…… ”عورتیں اپنے دوپٹوںکو اپنے سینوں پرڈال لیا کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں کے سامنے یا اپنے باپوں کے سامنے…”۔تو اولین مہاجرات صحابیات نے جو بہت ہی قابلِ احترام تھیں ،لنگ (ازار ) پھاڑ کر اپنے سروں اور اپنے سینوں کو ڈھانپ لیا”۔ سوشل میڈیا پر خطاب دیکھ لیں۔
مروت قوم کا قومی لباس پہلے لنگ (ازار)ہوتا تھا جس کو تہبند، دھوتی،لنگی، لنگوٹ بھی کہا جاتا ہے۔ جب سے مولانا محمد امیر بجلی گھر نے لنگ دھوتی کو صرف پنجابی لباس قرار دینا شروع کیا ہے اور اس کو بے غیرتی سے تعبیر کیا ہے تو تہبند کا احترام بھی ختم ہوگیا،حالانکہ حج اور عمرے میں لنگوٹ (تہبند) پہنا جاتاہے۔
جے یو آئی کے رکن قومی اسمبلی مولانا محمدانورعالم ہیں۔ مولانا سید مودودی نے بھی اپنی تفسیر میں لکھا کہ ”عرب میں دوپٹے کا رواج نہیں تھا، قرآنی آیات کے بعد مسلمانوں نے دوپٹہ اوڑھنا لینا شروع کیا”۔ جب یہ بحث آتی ہے کہ عربوں میں دوپٹے کا رواج نہ تھا اور مشرکینِ مکہ تہبند پہنا کرتے تھے اسلئے بعض مہاجرصحابیات نے تہبندوںکو پھاڑ کر اپنادوپٹہ بناکر سر وں اور سینوں پر ڈالا۔ مگرقرآن سے یہ واضح ہے کہ پہلے سے دوپٹے کا رواج تھاکیونکہ آیت میں اپنے دوپٹوں کو اپنے سینوں پر ڈالنے کا حکم واضح ہے۔ البتہ دوپٹوں سے سینے ڈھانپ لینے کا رواج ختم ہوگیا ہوگا۔ پختون معاشرے میں برقعے اور نقاب کی روایت زیادہ عرصے کی بات نہیں۔ حج وعمرہ میں بھی خواتین دوپٹے سے سینوں کو ڈھانپ لیتی ہیں لیکن چہرے کا پردہ نہیں۔

_ سودی نظام سے پاکستان کی تباہی؟_
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں سودی نظام کو اللہ اور اس کے رسول کیساتھ اعلانِ جنگ قرار دیا ہے۔ جب1947ء میں پاکستان بن گیا تو اس میں اسلامی نظام کو قراردادِ مقاصد تک محدود کیا گیا۔ پھر اسلامی نظام کیلئے متفقہ22نکات پیش کئے گئے۔ پھر جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تو1973ء میں ایک اسلامی جمہوری آئین تشکیل دیا گیا لیکن آج تک اسلام پر عمل ہوااور نہ جمہوری نظام کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوسکا ہے۔ جو جمہوری پارٹیاں ڈکٹیٹروں کی پیداوار ہیں اور موروثی نظام کی حامل ہیں تو ان کے ذریعے جمہوریت کیسے آسکتی ہے؟۔
آج سول وملٹری بیوروکریسی ، سیاستدان اور عوام سب مل کربھی اتنا نہیں کھاتے ہیں جتنا سودی نظام کے تحت سودی قرضہ لیکر سودی رقم ادا کررہے ہیں۔ یہ اللہ کیساتھ اعلانِ جنگ کی سزا ہم بھگت رہے ہیں۔ نوازشریف نے جتنا قرضہ لیکر سودی نظام کو تقویت دی تھی تو اس کو پورا کرنے کیلئے عمران خان نے مزید اور زیادہ سودی قرضے لے لئے ہیں۔ یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا اور اس وجہ سے تمام ریاستی ادارے اور حکومتی شخصیات زیادہ سے زیادہ قرضے لیکر ملک وقوم کو ڈبونے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی لڑائی زیادہ سے زیادہ لوٹ مار اور اقتدار کیلئے ہے اسلئے آئی ایس آئی چیف کی تقرری کے حق میں یا مخالفت میں کوئی بھی نہیں نکل رہاہے۔ ملکی مفادات کا مسئلہ ہوتا تو بہت سارے لوگ نکل آتے۔ پھر یہ بھی ممکن ہے کہ کل نئے آرمی چیف کی تقرری میں اس سے بھی زیادہ وقت لگے اور پوری دنیا پاکستان کی حکومت اور ریاست کا تماشہ دیکھنے لگ جائے۔ عوام کی بد دعائیں سب کو لگ رہی ہیں اور کھاؤ پیو معاملہ انجام کو پہنچنے والا ہے۔
سیاسی اقتدار کیلئے سب مررہے ہیں اور بڑے عہدے والے منصبوں کیلئے مررہے ہیں لیکن عوام کی غربت اور غریبوں کے بھوکے مرنے کا خیال کسی اقتدار والے کے دل ودماغ کو اپیل نہیں کرتا ہے۔ جن کا نام پانامہ پنڈورا میں بھی آیا ہے تو وہ میڈیا پر بڑی بے شرمی سے کہہ رہے ہیں کہ ہماری اولاد غیرملکی باشندے ہیں اور ان پر پاکستان کے قوانین کا کوئی اطلاق نہیں ہوتا ہے۔ جج ، جرنیل اور سیاستدان اپنی بیوی اور اپنے بچوں سے لاتعلق اسلئے بنتے ہیں کہ کرپشن میں ان پر کوئی ادارہ گرفت بھی نہ کرسکے۔ جو اپنے والدین، بچوں اور بیویوں تک سے لاتعلقی کا اعلان کریں تو اپنے ملک اور قوم کے کیسے خیرخواہ ہوسکتے ہیں؟۔
سودی نظام کے نتائج ہم اللہ سے اعلانِ جنگ کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ جب اسلامی جمہوری اتحاد کے سینئر نائب صدر مولانا سمیع الحق شہید نے سودی نظام کے خاتمے پر زور دیا تو اس وقت کے رنگیلا وزیراعظم نوازشریف نے اس کے خلاف میڈم طاہرہ سکینڈل اخبارات کی زینت بنادیا۔ میڈم طاہرہ سے زیادہ طاہرہ سید کے معاملات میڈیا کے سامنے واضح تھے لیکن سودی نظام کے خلاف آواز اٹھانے کی مولانا سمیع الحق شہید کو سزا دی گئی تھی۔ اگر گیدڑ کی طرح چیخم دھاڑ کرکے اچانک خاموشی اختیار کرنے اور گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والا بھی ہماری قوم کا مقبول سیاسی قائد ہو تو پھر اس قوم کا اللہ ہی حافظ ہے۔
رسول اللہ ۖ نے آخری خطبے میں سودی نظام کے خاتمے کا اعلان کردیا۔ سب سے پہلے اپنے چچا حضرت عباس کے سود کو معاف کردیا۔ اور دوسرے چچا کے خون کو معاف کردیا۔ اللہ کرے کہ پاکستان کی بھی جان چھوٹ جائے۔

مزارعت سے سودی نظام کا خاتمہ؟
جب سود کی حرمت کے بارے میں آیات نازل ہوئیں تو نبیۖ نے مزارعت کو بھی سود قرار دیدیا۔مزارعت کی وجہ سے دنیا میں غلامی کا نظام رائج تھا اور خاندان کے خاندان غلام بنتے رہتے تھے۔ جاگیردار اپنے غلام بچوں، بچیوں کو تربیت دے کر مہنگے داموں منڈیوں میں فروخت کرتے تھے۔ غلام ولونڈی بنانے کے سب سے بڑا ادارہ جاگیردارانہ نظام تھا۔ بدر میں70افراد کو قیدی بنایا گیا اور ان میں کسی ایک کو بھی غلام نہیں بنایا گیا اور نہ غلام بنانا ممکن تھا اسلئے کہ دشمن سے گھر کی خدمت لینا مشکل نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔ بھارت کے کلبھوشن اور ابھی نندن کو کون اپنے گھر کا غلام بناسکتا تھا؟۔
جب نبیۖ نے مزارعت کو سود اور ناجائز قرار دے دیا تو جاگیرداروں کی اولاد بھی محنت کش بن گئی اور مزارعین کو مفت زمینیں مل گئیں تو وہ بھی خوشحالی سے زندگی بسر کرنے لگے اور جب محنت کشوں میں قوتِ خرید کی صلاحیت پیدا ہوگئی تو تاجر حضرات بھی خوشحال ہوگئے اور جب تاجروں نے زکوٰة اور زمینداروں نے عشر دینا شروع کردیا تو بہت سارے لوگوں نے خمس دینا بھی شروع کردیا تھا اور جن کی زمینیں بارانی تھیں تو ان سے بیسواں حصہ وصول کیا جانے لگا۔ غیرمسلم کو جزیہ کے نام سے اپنا ٹیکس دینا پڑتا تھا اور مسلمان اپنی مرضی سے اپنا فرض سمجھ کر زکوٰة ، خمس ، عشر اور بیسواں حصہ دیتے تھے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دور میں جب سالانہ بجٹ پیش کیا گیا تو بہت سارا مال بچ رہا تھا۔ انہوں نے رعایا کے تمام قرض داروں کا قرض ادا کرنے کا حکم دیا۔ عرض کیا گیا کہ وہ پہلے سے ادا کیا گیا ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ جن لوگوں نے اپنی بیگمات کے حق مہر ادا نہیں کئے ہیں ان کے حق مہر ادا کئے جائیں۔ وزیرخزانہ نے عرض کیا کہ پہلے سے اس پر عمل ہوچکا ہے، سب کے حق مہر بھی دیدئیے گئے ہیں۔ عمربن عبدالعزیز نے حکم دیا کہ جن جوانوں کی شادیاں نہیں ہوئی ہیں ،بیت المال سے ان کی شادیاں بھی کروادو۔ عرض کیا گیا کہ اس پر بھی عمل ہوچکا ہے۔ غرض بیت المال کے پاس اتنا پیسہ تھا کہ رعایا پر خرچ کرنے کیلئے کوئی بہانہ ڈھونڈنے سے نہیں ملتا تھا۔
مشرکینِ مکہ اور دشمنان اسلام کو یہ گمان تھا کہ مسلمانوں کا مختصر گروہ وقت کی تاب نہ لاکر ختم ہوجائیگا لیکن ان کواندازہ نہیں تھا کہ حجاز میں جہاں بہت مشکل سے پانی کے کنویں بھی نہیں ملتے تھے۔ آب زم زم تھا یا مدینہ کے کچھ چشمے تھے ۔ لیکن پھر وہ دور بھی آیا کہ مصروشام، عراق اور ایران اور برصغیرپاک وہند تک بھی مسلمانوں کا اقتدار پھیل گیا اور اسپین وروم بھی ان کے زیرتسلط آگئے تھے۔ جب ایران کو فتح کیا گیا تھا تو حضرت عمرفاروق اعظم کے دور میں کسریٰ ایران کے محل سے جو شہزادیاں ملی تھیں ان سے حضرت امام حسن ، امام حسین اور محمد بن ابی بکر کی شادیاں کرائی گئیں۔ لگتا ایسا ہے کہ جس طرح حضرت ابراہیم کی زوجہ حضرت سارہ کی خدمت میں ایک ظالم بادشاہ نے اپنی ایک لونڈی حضرت حاجرہ پیش کی تھی جو اصل میں شہزادی تھی۔ اسی طرح ایران کے بادشاہ کو شکست دینے کے بعد یہ شہزادیاں بھی بادشاہ کے دربار میں رہ گئی ہوں گی۔ اسلام میں آزاد عورتوں کو لونڈی بنانے کا کوئی تصور نہیں ہوسکتا تھا۔ قرآن میں مسلمانوں کیساتھ بہت سارے وعدے کئے گئے تھے جن میں اقتدار اور خلافت کا وعدہ بھی تھا۔ وقت کی سپر طاقتوں روم وایران کو شکست دی گئی اور نہروں اور باغات کے دنیا میں بھی مالک بن گئے تھے۔ غلمان اور لونڈیوں سے بھی دنیا میں نوازا گیا تھا۔ اسلام نے لونڈی بنانے کا نہیں لونڈی وغلام کو آزاد کرنے اور سہولت دینے کا تصور دیا تھا۔
قرآن میں ان غلمانوں کا ذکر ہے جو ایکدوسرے پر تحفہ میں پیش کرینگے اور وہ اللہ کا شکر ادا کرینگے جن کو سخت دھوپ اور گرم لُو سے نجات دیکر اچھے مالکوں تک پہنچایا۔ علی کے مالک اشتر سے غزنوی کے محمود تک زبردست تاریخ ہے۔

اسلام کا غیرسودی بڑامعاشی نظام؟
کارل مارکس نے جو کیمونزم کا نظریہ دیا تھا ،اس نے روس کو دنیا کی دوسری سپر طاقت بنادیا تھا۔ اگر چین اور اسلامی دنیا اس کا ساتھ دیتے تو اس کا مقابلہ امریکہ اور یورپ نہیںکرسکتے تھے۔ امریکہ نے پہلے پاکستان اور اسلامی دنیا کو روس کے خلاف استعمال کیا اور اب خدشہ ہے کہ بھارت اور افغانستان کو چین کے خلاف بھی استعمال کرسکتا ہے۔ایسی صورت میں پاکستان کا بھرتہ نکل جائے گا۔ پاکستان کا اپنا کوئی معاشی نظام نہیں ہے۔ سستی بجلی پیدا کرکے اپنی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا لیکن ہمارے بڑے لوگوں نے غیرملکی سودی قرضے لے لے کر بیرون ملک اپنے اثاثے بنالئے ہیں۔ اسلام کی معیشت میں کسانوں کو مزارعت کے بغیر زمینیں مفت میں دینا اور سود سے پاک نظام کی بنیادی اہمیت ہے۔ کیمونزم اور کیپٹل ازم کے درمیان اسلامی معیشت کا درمیانہ نظام دنیا کو تباہی کے کنارے پہنچانے سے بچانے میں اہم کردار بھی ادا کرسکتا ہے۔ دریائے سندھ سمیت تمام دریاؤں پر چھوٹے بڑے ڈیم تعمیر کرنے سے پاکستان کی زمینوں کو باغات اور کھیتی باڑی سے بھی سرسبزوشاداب کرسکتے ہیں اور اس پر بجلی بنانے کے آلات لگاکرسستی بجلی بھی پیدا کرسکتے ہیں۔
جب ہمارا محنت کش زمیندار خوشحال ہوگا تو وہ بجلی خریدنے اور ضروریات کی اشیاء اور اپنے بچوں کے اعلیٰ تعلیم وتربیت کے بھی قابل بن جائے گا۔ ان کی خوشحالی سے تاجر بھی اپنی صنعتیں لگاکر اپنے مزدوروں کو اچھی دیہاڑی دے سکیں گے اور نہ صرف ہمارا ملک خود کفیل بن جائے گا بلکہ ترقی وعروج میں پوری دنیا کو بھی پیچھے چھوڑ جائے گا۔ جب زمین کے محنت کش کھیتی باڑی اور باغات سے خوشحال بن جائیں گے تو معاشرے میں باصلاحیت طبقہ انجینئر، ڈاکٹر، پائلٹ، سیاستدان، پروفیسر اورجج بن سکے گا۔ ہمارے یہاں بھی مثالی انصاف دیکھنے کو ملے گا اور دنیا کی ترقی میں مسلمان بھی اپنا حصہ ڈال سکیں گے۔ اصل چیز محنت اور اس کی قدر ہے۔ عرب ممالک میں پیسہ ہے لیکن محنت سے عاری ہونے کی وجہ سے وہ دنیا میں ترقی کی دوڑ سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ جب ہمارے ہاں محنت کش طبقے کو مواقع مل جائیں گے تو دنیا بھر سے ہمارا محنت کش طبقہ اپنے وطن میں کمائی کی سہولت سے فائدہ بھی اٹھائے گا اور دنیا میں عزت بھی کمائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ ” مردوں کا وہی حصہ ہے جو انہوں نے کمایا ہے اور عورتوں کیلئے وہی حصہ ہے جو انہوں نے کمایا ہے”۔ حضرت خدیجہ ایک بہترین تاجر تھیں اور حضرت فاطمہ نے اپنے ہاتھوں کی دستکاری سے اپنا گھر چلانے کیلئے کمایا تھا اورآپ اپنی کمائی غریبوں میں بھی بانٹ دیتی تھیں۔ مزارعین خاندان مرد اور خواتین اپنی اپنی محنت کے مالک ہوں تو ان کا گھر آباد ہوگا لیکن جب ان کے ہاتھوں کی کمائی کے مالک جاگیردار ہوں تو پھر وہ ہمیشہ غریب سے غریب تر بنتے چلے جائیں گے۔ بلاول بھٹو زرداری، مریم نواز، شاہ محمود قریشی، عمران خان اور مولانا فضل الرحمن اسلامی معیشت کی طرف آجائیں اور مذہبی جماعتیں مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن اور شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کی طرف سے سود کے جواز کی بھرپور مذمت کریں تو انقلاب آجائے گا۔ ایک سید زادہ اکیلا کھڑے ہوکرانقلاب کی دھائی دے رہاہے اور لوگ اپنی ہی دھن میں مگن ہیں لیکن کوئی بات نہیں ،اللہ ایک اچھا وقت بھی لائیگا۔انشاء اللہ

_ چہر وں کونہیں نظام تبدیل کرناپڑیگا! _
سیاسی جماعتوں اور فوجی جرنیلوں کے پیٹ ابھی تک پاکستان کو کھانے سے نہیں بھرے ہیں اور نہ کبھی بھرسکتے ہیں جب تک کہ اللہ نہ بھر دے۔ اسلام کی ریاست عوام کو بیوقوف بنانے اور لوگوں سے ان کے وسائل چھین لینے کیلئے نہیں ہوتی ہے بلکہ ظالموں ،جابروں اور تیار خوروں سے مظلوم عوام کو نجات دلانے کیلئے ہوتی ہے۔ جب غریب مزارع اور محنت کش سے اس کی بیوی اور بچوں کی کمائی بھی ہمارا بااثر طبقہ کھانے میں کوئی تکلیف محسوس نہیں کرتا ہے تو پھروہ مفت کے اندورنی قرضے اور بیرونی قرضوں پر ہاتھ صاف کیوں نہیں کرے گا؟۔یہ سب کچھ وہ عوام کو ریلیف دلانے کے جھوٹے وعدوں اور دعوؤں پر کرتا ہے۔
آج اگر امریکہ ایک خفیہ فنڈ جاری کرے کہ افغان طالبان کو چین سے لڑانا ہے تو ہماری ریاست اور حکومت کے وارے نیارے ہوجائیںگے۔ مفاد پرستی اور دہشت گردی کا کوئی مذہب ، اصول اور قانون نہیں ہوتا ہے۔ اگر ڈیورنڈ لائن کے مسئلے پر پختونوں اور پنجابیوں کے درمیان امریکہ جنگ برپا کردے تو بہت سے لوگ اپنی اپنی دُم اٹھاکر بے غیرتی اور بے ضمیری کے چھتر کھانے کو بھی تیار ہوجائیںگے۔ سیاسی جماعتیں گیدڑوں کی طرح احتجاج کیلئے وقت اور موقع کی تلاش میں رہتی ہیں۔ عوام کو ان کی چیخوں کی آوازیں عجیب مسخرہ لگتی ہیں۔ قادر پٹیل نے قومی اسمبلی میں تقریر یںکی ہیں، وہی ہر جانب سے دہرائی جاتی ہیں۔
شیعہ سنی ، بریلوی دیوبندی ، حنفی اہل حدیث اور یہاں تک تبلیغی جماعت کی دھڑا بندیوں میں بستی نظام الدین بھارت اور رائیونڈ کے مرکز کے کارکنوں میں بھی تصادم اور نفرت بھڑکانے کا بازار گرم رہتا ہے۔ پنجابی، پختون، سندھی ، بلوچ اور مہاجر تعصبات کو ہوادی جاتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے رہنما، کارکن اور برسراقتدار طبقات بھی ہمیشہ زخموں پر نمک پاشی کیلئے سرگرم رہتے ہیں۔ کوئی مثبت سرگرمیاں کرنا بھی چاہے تو لوگ اس کو اہمیت نہیں دیتے ہیں۔
سرکاری اور غیرسرکاری زمینوں پر قبضے کا کاروبار جاری رہتا ہے۔ بلڈنگ بننے اور بیچنے کے بعد مکینوں کو لوٹ مار کی طرح بے گھر کردیا جاتا ہے۔ عدالت کو وقت نہیں ملتا ہے کہ عوام کو انصاف فراہم کرسکے۔ مجرموں کو سزا دلوانے کیلئے کوئی ٹھوس قوانین بھی نہیں ہیں کہ مخلص جج بھی کوئی اقدامات اٹھا سکیں۔ پارلیمنٹ کی کارکردگی طاقت اور دولت کے حصول کے علاوہ کوئی معنی نہیں رکھتی ہے۔ نفرت کسی ایک طبقے سے نہیں ہوسکتی ہے اسلئے کہ پورانظام بگڑا ہوا ہے اور اس بگاڑ کی ذمہ داری کوئی لینے کو تیار نہیں ہے لیکن طاقت کے حصول کی دوڑ میں ضرورت سے زیادہ شرکت کیلئے عوام کو ورغلانے میں سب لگے بندھے رہتے ہیں۔
دنیا مسلمانوں سے خوف کھا رہی ہے کہ ان کے اشرافیہ کا بس چلے تو دوسری قوموں کی خواتین کولونڈی بنانے سے بھی دریغ نہیں کریں گے اسلئے کہ قرآن کا حکم ان کو ایسا ہی لگتا ہے۔ حالانکہ قرآن نے دودو، تین تین، چار چار شادیوں کی اجازت دینے کے بعد فرمایا ہے کہ اگر تمہیں خوف ہو کہ انصاف نہیں کرسکوگے تو پھر ایک یا جن سے تمہارا ایگریمنٹ ہوجائے۔ متعہ ومسیار سے بھی زیادہ بڑی بھیانک چیز لونڈیوں کا تصور ہے لیکن مسلمانوں نے قرآنی آیات سے لونڈیاں مراد لی ہیں اور پھر یہ تصور قائم کیا ہے کہ جنگوں کے بعد دشمنوں کو غلام ولونڈیاں بنایا جاسکتا ہے۔ قرآن وسنت اور صحابہ کرام کی سیرت کے مطابق نکاح میں مرد کو تمام اخراجات اور گھر سب کچھ کا پابند کیا گیا ہے لیکن ایگریمنٹ میں باہمی رضامندی سے معاہدے کرنے کی بات ہے۔ آج مسلمان عورتوں کو نکاح کے بھی حقوق حاصل نہیں ہیں۔ ان پر حرامکاری کا اطلاق نہیں ہوتا ہے لیکن ان پر ایگریمنٹ کا اطلاق ضرور ہوتا ہے۔ اسلامی حق مہر اور جہیز کی جگہ معاشرے میں خود ساختہ رسوم کے ذریعے عورت کے تقریباًتمام حقوق سلب کئے گئے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

حضرت ابوبکر اور حضرت عمر پر شیعہ اعتراضات اور باغ فدک کا مسئلہ اور عتیق گیلانی کے تسلی بخش جوابات

Shia object to Hazrat Abu Bakar and Hazrat Umar and the issue of Bagh-e-Fadik and satisfactory answers from Atiq Gilani

منگوپیر ہسپتال کراچی کے شیعہ سٹاف نرس جنس مرد فرمان علی کے سوالات کے تسلی بخش جوابات کی ایک ادنیٰ کوشش۔

قرآنی آیات کے درست ترجمے اور
تفسیر اُمت مسلمہ کے سامنے لائی جائے تو سارے مسلمان مخمصے سے نکل کر دنیا میں ترقی وعروج کی سب سے بڑی منزل پاسکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ اتنا بھی
کمزور نہیں کہ امریکہ ونیٹو افواج کے ہوتے ہوئے طالبان سے قندھار ، کابل اور مزار شریف فتح نہیں کراسکتا تھا جونہی امریکہ گیا تو اللہ میدان میں کود گیا

محترم جناب سید عتیق الرحمن گیلانی صاحب! السلام علیکم
میرے مندرجہ ذیل سوالات کے تسلی بخش جوابات عنایت فرمادیجئے۔ جزاک اللہ خیر۔ از طرف ایک شیعہ فرمان علی
سوال نمبر1:_ ر سول اللہ ۖ کی تدفین میں حضرت ابوبکر، عمر اور عثمان شامل نہیں تھے ان لوگوں کو حکومت پر قبضہ کی فکر تھی۔ جواب
وعلیکم السلام ۔میرا پروگرام تھا کہ سنی بھائیوں کو یہ سمجھادوں گا کہ اہل تشیع کو کافر، مشرک ، گمراہ اور غلط کہنے کے بجائے ان کو ان کے عقائد اور نظرئیے سمیت اپنے سے زیادہ اچھا مسلمان سمجھنے کی کوشش کرو اور ہیں لیکن ان سوالات نے مجبور کردیا کہ پہلے اہل تشیع کی غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش بڑی ضروری ہے۔ افغانستان میں طالبان کی آمد کے بعد شیعہ کی آذان کو گستاخی قرار دیا گیا ہے اور کالعدم سپاہ صحابہ کے علامة الجہل اورنگ زیب فاروقی نے شیعوں سے کہا کہ تمہارے شناختی کارڈ پر بھی عمر لکھا ہوتا ہے، تمہارے باپ ، تمہاری ماں اور تمہاری بہن کے نام پر جب تک عمر نہ لکھا جائے تو شناختی کارڈ نہیں بن سکتا ہے۔
حضرت عمرفاروق اعظم سے مجھے محبت ہے ۔ میرے پہلے اور دوسرے بیٹے کا نام ابوبکر اور عمر ہیں۔ ہمارے قبرستان میں ہمارے بڑے شاہ محمد کبیر الاولیاء کے بیٹے کا نام بھی محمد ابوبکر ذاکرتھا۔ حضرت ابوبکرصدیق اور حضرت عمرفاروق اعظم نبی کریم ۖ کے دنیا ، قبر اور آخرت کے رفقاء اور صحابہ ہیں۔عراق اور سعودی عرب سے بھاڑہ لیکر ان کا دفاع کرنے والوں نے جس طرح صحابہ کے نام پر اپنا کاروبار شروع کردیا ہے ، اسی طرح سے شیعان علی نے حضرت علی اور اہل بیت کے ائمہ کو اپنے کاروبارکی وجہ سے بدنام کرکے رکھ دیا ہے۔
حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان سے کم محبت حضرت علی سے اسلئے نہیں کہ وہ ایک جلیل القدر صحابی کے علاوہ میرے جدامجد بھی ہیں اور ماحول سے متأثر ہونے کی ضرورت مجھے اسلئے نہیں کہ اورنگزیب بادشاہ نے اپنے باپ کو قید اور بھائیوں کو قتل کردیا اور تخت پر قبضہ کرلیا۔ 500علماء نے فتاویٰ عالمگیریہ مرتب کرکے یہ آئین لکھ دیا کہ ”بادشاہ قتل، زنا، چوری، ڈکیتی اور کوئی بھی مجرمانہ کردار ادا کرے تو اس پر کوئی حد اور سزا جاری نہیں ہوسکتی ہے”۔
فتاویٰ عالمگیریہ پر حضرت شاہ ولی اللہ کے والد شاہ عبدالرحیم کے بھی دستخط ہیں۔ شاہ ولی اللہ نے اپنے اور اپنے والد صاحب کے بارے میں جو مبشرات لکھی ہیں اور اسی طرح مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی کے مشاہدات ملاحظہ کئے جائیں تو لوگ شیعہ ذاکروں کے ائمہ اہل بیت کے حوالے سے سارے ہی مبالغوں کو بھول جائیں گے۔ اس میں شک نہیں کہ اگر حضرت شاہ ولی اللہ نے قرآن کا فارسی میں اور ان کے صاحبزادوں نے اردو میں ترجمہ نہیں کیا ہوتا تو ہم بھی قرآن کی طرف متوجہ ہونے کے بجائے اپنے اسلام کو عاشورہ محرم کے جلوس اور علامتی ماتم تک ہی محدود رکھتے۔ کیونکہ زنجیر زنی کا ماتم اہل تشیع کے اشرافیہ اور علامہ صاحبان نے بھی جاہل اور جٹوں تک ہی محدود رکھا ہے۔ جبکہ ہم جاہل اور گنوار نہیں ہیں۔ جس طرح اہل تشیع کے جٹ اور گنوار جذبات میں ماتم کرکے اپنا جسم چھلنی کردیتے ہیں لیکن اشرافیہ ذاکرین کو اپنے ساتھ ماتم اورخون بہاتے ہوئے نہیں دیکھتے بلکہ صرف ذاکرین پر پیسہ لٹانے اور معاوضہ دینے کی طرف توجہ دیتے ہوئے داد دیتے ہیں اور یہ بہت بڑی جہالت ہے۔ اسی طرح کالعدم سپاہ صحابہ کے کارکن یہ نہیں دیکھتے کہ علامہ اورنگزیب فاروقی جو بات کرتا ہے وہ درست ہے یا نہیں؟۔ بس داد ہی دئیے چلے جاتے ہیں۔ شناختی کارڈ میں عمر لکھا نہیں ہوتا بلکہ عمر لکھی ہوتی ہے۔ جب کراچی میں اردو والے اس کو نہیں ٹوکتے کہ الو کے پٹھے تم نے حضرت عمر مذکر بھی عمر مؤنث میں بدل دیا۔ اگر یہ بات شیعہ کرتا کہ عمر ہوتی ہے تو تم لوگ اس پر حضرت عمر کی توہین کا الزام لگادیتے۔ مفتی ڈاکٹر شیخ التفسیر، شیخ الحدیث مولانا منظور مینگل نے اورنگزیب فاروقی کی کتاب پر تقریظ لکھی جو مجھے کالعدم سپاہ صحابہ کے علامہ رب نواز حنفی کی طرف سے بطورِ تحفہ بھیجی گئی ہے۔ اس میں مولانا منظور مینگل نے لکھا ہے کہ اورنگزیب فاروقی کا نام تین لفظوں سے مل کر بناہے۔ اور، رنگ، زیب۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ زیب کا تو رنگ ہی اور ہے ۔ حالانکہ یہ جہالت کی انتہاء ہے۔ پھر تو ” اور، نگ ، زیب بنتا ہے”۔ یہ وہ گدھے ہیں جنہوں نے کتابیں لاد رکھی ہیں ۔ اُلٹی سیدھی حرکتوں سے علم کو بدنام کردیا۔
اگر حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے نبیۖ کی وفات کے بعد انصار سے خلافت کے مسئلے پر سیر حاصل بحث نہ کی ہوتی تو انصار ومہاجرین الجھ جاتے۔ قرآن وسنت نے صحابہ کرام کی ایسی تربیت نہیں کی تھی کہ مسلمانوں پر جو فرض کفایہ تھا کہ چند افراد بھی غسل اور تدفین کا فرض ادا کرسکیں لیکن پوری کی پوری امت اسی کام پر لگ جاتی۔ حضرت علی کی قبر کا بھی آج تک اسی لئے کوئی پتہ نہیں ہے کہ اس وقت قبروں کی اتنی اہمیت بھی نہیں تھی جتنی آج بنائی گئی ہے۔ اہل تشیع یہ نہیں سوچتے کہ رسول اللہۖ کے جن صحابہ کرام سے وہ اسلئے بہت زیادہ بغض رکھتے ہیں کہ نبیۖ کے غسل کو چھوڑ کر خلافت کے مسئلے میں لگ گئے تو شیعان علی نے تو حضرت علی کی قبر کا بھی خیال نہیں رکھا تھا؟۔ جنازے پر توخبریں مختلف ہوسکتی ہیں۔ شیعہ سنی کا نبیۖ کی وفات کے مہینے پر بھی اتفاق نہیں ہے۔ سنیوں کے نزدیک بارہ ربیع الاول ہے اورشیعوں کے نزدیک صفر ہے۔ اسی طرح نبی ۖ کی ولادت کے مہینے پر بھی دونوں کا اتفاق نہیں ہے۔
اگر قرآن وسنت میں قبروں اور ایام کی اتنی اہمیت ہوتی تو سب سے پہلے تو لاکھ سے زیادہ انبیاء کرام کی قبروں اور پیدائش ویوم وفات کو دریافت کیا جاتا ۔ پھر آج سب کی قبروں کی زیارات اور دن منانے کے علاوہ ہمارے پاس کچھ بھی نہ ہوتا۔ جس طرح ایک ہندو کیلئے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ اللہ نے قرآن میں گائے کو ذبح کرنے پر اصرار کیوں فرمایا؟۔ اور گائے ذبح کرنے میں حیل و حجت سے بنی اسرائیل نے اپنی مشکلات میں اضافہ کیوںکیا تھا؟۔ اسی طرح بہت معاملے اہل تشیع کو اپنے ماحول کے حساب سے سمجھانا بہت مشکل کام ہے۔
سوال نمبر2:__

حضرت علی علیہ السلام کو مقرر کردیا گیا تھا پھر حدیث قرطاس کی کوئی ضرورت نہ تھی اور حضرت عمر کی آواز ہمارے نبی ۖ سے بلند ہوگئی تھی۔

جواب_
اگر حضرت علی نامزد ہوچکے تھے تو پھر حدیث قرطاس کی ضرورت نہیں تھی؟۔ یہ تو اہل تشیع کے ہی خلاف بات جاتی ہے اسلئے کہ اگر حضرت علی کو نامزد کردیا ہوتا تو پھر حدیث قرطاس کی کیا ضرورت ہوتی؟۔ قرآن کے سورۂ حجرات میں جاہل لوگوں سے کہا گیا ہے کہ نبیۖ کوحجرات سے دور مت پکارو لیکن اس کا مطلب مطلق آواز بلند کرنا نہیں ورنہ تو پھر لاؤڈاسپیکر کے ذریعے تقریر اور آذان کی بھی اجازت نہیں ہونی چاہیے تھی۔ سورۂ مجادلہ میں ایک شرعی مسئلے پر نبیۖ سے ایک خاتون نے جھگڑا کیا اور اللہ نے عورت کے حق میں وحی نازل فرمائی ۔ اس سے اہل تشیع کا یہ عقیدہ باطل ثابت ہوتا ہے کہ نبیۖ سے کسی بات پر صحابہ نے اختلاف کیا تو وہ ناجائز تھا۔ قرآن میں متعدد امور کا ذکر ہے جن میں غزوۂ بدر کے قیدیوں پر فدیہ لینے کا بھی ذکر ہے۔ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ حضرت علی و دیگر صحابہ کرام نے دنیا کو ترجیح دیدی اور اللہ نے فرمایا کہ” تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے”۔ بس بنیۖ اور صحابہ کرام نے دنیا کو طلب کیا اور آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ؟۔ شیعہ جس منطق سے صحابہ کے خلاف نتائج نکالتے ہیں اگر وہی منطق استعمال کی جائے تو پھر سارا دین تباہ ہوگا۔ قرآن میں حضرت آدم ، حضرت یونس اور حضرت موسیٰ کی طرف ظلم کی نسبت ہے اور یہ بھی فرمایا کہ اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا ۔ شکر ہے کہ اہل تشیع انبیاء کے پیچھے نہیں پڑے ہیں ورنہ انبیاء کو بھی قرآنی آیات اور اپنی منطق سے ہدایت کے قابل نہ سمجھتے ۔
اہل سنت نے ایمان مجمل اور ایمان مفصل میں انبیاء کو شامل کیا مگر صحابہ کو شامل نہیں کیا ۔ جب وحی کا سلسلہ جاری تھا تب بھی انبیاء کرام کی رہنمائی کا سلسلہ اللہ نے جاری رکھا لیکن اہل تشیع کے نزدیک وحی کا سلسلہ بند ہونے کے بعد بھی ائمہ اہلبیت سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ۔ اگر اللہ ان کو اقتدار کے منصب پر فائز کردیتا تو مسلمان دنیا میں جمہوری روایات کی جگہ عجیب وغریب قسم کے نظام کا سامنا کرتے۔ جب نبیۖ نے امیر حمزہ کی شہادت کے بعد زیادہ انتقام کی بات فرمائی تو اللہ نے منع فرمایا۔ شیعہ کے ہاں خود ساختہ اقتدار کی صورت میں بدترین طرح کے انتقام لینے کی خواہش اسی لئے پائی جاتی ہے کہ وہ وحی پر زیادہ یقین کرنے کو بھی تیار نظر نہیں آتے ہیں۔ ایسے گنجوں کو کبھی اقتدار ملنا بھی نہیں۔ اولی الامر ایسا ہی ہونا چاہیے کہ جس پر تنقید کی گنجائش ہو اور اس سے اختلاف بھی کرنے میں کوئی دقت نہیں ہو اور یہی قرآن وسنت کا خلاصہ ہے اور آج ایران میں بھی اس پر عمل ہورہاہے۔ نبیۖ کے ذریعے اللہ نے قیامت تک یہی رہنمائی بھی کردی ہے۔ اب مسلمان اس پر عمل کریں یا نہ کریں۔

سوال نمبر3:_
جب ہمارے نبی ۖ علی کو جانشین بنائیں اور وہ قابل قبول نہ ہو تو ابوبکر نے عمر کو نامزد کردیا وہ کس طرح صحیح ہے؟

جواب_
یہ عوام کا کام ہے۔ عوام نے حضرت امام حسن ہی کو خلیفہ بنایا تھا لیکن جب امام حسن نے معاہدے کے تحت امیر معاویہ سے صلح کرلی اور یہ کہہ کر صلح کرلی تھی کہ میرے دشمن سے میرے شیعہ بدتر ہیں تو پھر عوام نے امیر معاویہ کی حکومت کو تسلیم کیا۔ اگر حضرت علی چاہتے تو ابوسفیان کی بات مان لیتے اور حضرت ابوبکر سے خلافت چھین لیتے۔ حضرت علی ، حسن اور اہلبیت سے زیادہ شیعہ ذاکرین اور علماء کو اپنی تقریروں کی فیسوں کی لت لگی ہو تو اس کا کیا علاج ہوسکتا ہے؟۔ مدعی سست گواہ چست اسی کو تو کہتے ہیں؟۔ حضرت علی نے ابوسفیان کی پیشکش کو نہ ٹھکرایا ہوتا تو حضرت ابوبکر سے خلافت حضرت علی کو منتقل ہوسکتی تھی اور امام حسن نے امیر معاویہ سے صلح نہ کی ہوتی تو بنوامیہ کا مسند پر قبضہ ناکام ہوسکتا تھا لیکن جب امام حسن اور آپ کے شیعہ بروقت کسی دوسرے فیصلے پر مجبور ہوں اور پھر چودہ سو سال بعد آپ پٹ کر کوئی اور بات کریں تو اس کا فائدہ کس کو پہنچے گا؟۔ اگر ائمہ اہلبیت اپنا بڑا بیٹا اپنا جانشین بنادے اور پھر وہ امام کی وفات سے پہلے فوت ہوجائے اور پھر امام اپنا دوسرا بیٹا امام مقرر کردے اور پہلے بیٹے کی اولاد اپنے حق کو برقرار ٍرکھ کر اپنا فرقہ بناسکتے تھے تو اقتدار ہاتھ میں ہوتا تو تلواریں بھی نکل سکتی تھیں اور مار کٹائی کا بازار بھی گرم ہوسکتا تھا۔ اللہ نے اہل بیت کوآزمائش میں ڈال کر اس گند سے محفوظ کردیا اور شیعہ غم کھاتے ہیں کہ اقتدار کی خاطر اورنگزیب کی طرح بھائیوں کو قتل کرنے والے ان میں پیدا کیوں نہیں ہوئے؟۔

سوال نمبر4:_
باغ فدک کیلئے حضرت فاطمہ علیہا السلام حضرت ابوبکر کے دربار میں جاتی ہیں تو ان سے گواہ مانگے گئے اور گواہوں کے طور پر اپنے شوہر حضرت علی اور حسنین کریمین کو پیش کیا مگر ابوبکر نے کہا کہ شوہر اور بیٹوں کی گواہیاں قابل قبول نہیں ہیں۔

جواب_
باغ فدک مال فئی تھا اور اس کے مصارف قرآن میں ہیں۔ زیب ِ داستان کیلئے بڑی کہانیاں بنائی گئی ہیں۔ کیا رسول اللہ ۖ قرآن کے منافی مال فئی اپنی بیٹی کو دے سکتے تھے؟۔ میں نے پہلی مرتبہ پڑھا کہ حضرت فاطمہ نے حضرت علی اور اپنے صاحبزادوں کو گواہی کیلئے پیش کیا تھا۔ ملکوک اور انبیاء میں یہ فرق ہوتا ہے کہ بادشاہ اپنے بیٹے ، بٹیوں اور دامادوں کو نوازتے ہیں جبکہ رسول ۖ نے اپنی بیٹی کو تسبیح فاطمہ عطاء کرکے امت مسلمہ کو قیامت تک اذکار سے نوازا تھا۔ یہ ایک حقیقت تھی کہ باغِ فدک کوئی موروثی جائیداد نہیں تھی ، اس مالِ فئی میں فقراء ومساکین ، عامة المسلمین مہاجرین وانصار کا بھی حصہ تھا۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ نبی ۖ نے اتنی بڑی جائیداد اپنی بیٹی کو تحفے میں عطاء کی ہو اور وہ بھی غریب اور مساکین کا مال؟۔ اگر بالفرض ایسا ہوجاتا تو کیا دنیا میں اس کو تحسین کی نظروں سے دیکھا جاتا؟ نبی ۖ نے صدقات کو بھی اپنے اقرباء پر حرام کردیا تھا۔ شیعہ حضرات صرف اور صرف اس بات کا بتنگڑ بنانے پر تل جاتے ہیں جس میں صحابہ کی طرف سے اہل بیت کی حق تلفی کا پہلو نظر آتا ہو اور اس میں تمام حقائق کو بالکل ہی بھول جاتے ہیں۔ اہل بیت کو اللہ نے دنیا نہیں آخرت کیلئے چن لیا تھا۔

سوال نمبر5:_
سورہ تحریم میں آیت نمبر 5میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ۖ سے فرمایا کہ ازواج مطہرات سے بہتر زوجہ دے سکتا ہوں اور سورہ تحریم آیت نمبر 10میں حضرت لوط اور حضرت نوح کی بیویوں کی مثال بھی دی ہے۔ آیت نمبر10اور 11حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ کے لئے آئی ہیں۔

جواب_
بطور تنبیہ بہت معاملات انبیاء اور نبیۖ کیلئے آئے ہیں۔سورہ ٔ عبس میں کیانبیۖ کیلئے تنبیہ کے منطقی نتائج یہ نکالے جائیں کہ نعوذ باللہ آپ ۖ نے یہ معمول بنایا تھا کہ سرداروں کی بے رغبتی کے باوجود انکی طرف توجہ فرماتے تھے اور غریب غرباء اور نابینا کی طرف سے دلچسپی رکھنے کے باوجود انکی طرف توجہ نہیں فرماتے تھے؟۔ کسی واقعہ سے سبق سیکھنے کے بجائے اپنے من چاہے مقاصد حاصل کرنا کوئی اخلاقی اور شرعی تقاضہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تنبیہ کرتے ہوئے توبہ کرنے کی تلقین فرمائی۔ اگربدر کے قیدیوں پر میدان جہاد سے فدیہ لینے تک کا سارا معاملہ واضح ہو اور اس پر گرفت نہ کی جائے تو سورۂ تحریم کے واقعہ پر کیوں کر گرفت کی جاسکتی ہے؟۔ بدر کے میدان میں مسلمان اسلئے نہیں اترے تھے کہ جہاد کریں بلکہ ابو سفیان کی قیادت میں قریش کا مال بردار قافلہ مقصد تھا۔ پھر اس قافلے کے تحفظ کیلئے آنے والوں سے اللہ نے سابقہ ڈال دیا۔ اللہ نے پورا پسِ منظر بیان کیا کہ کیسے اللہ نے دونوں لشکروں کو لڑادیا۔ پہلے دونوں کی نظروں میں ایک دوسرے کو کم کرکے دکھایا ۔ اگر اللہ ایسا نہ کرتا توبقیہ صفحہ نمبر3نمبر1پر

بقیہ شیعہ فرمان علی کے سوالات اور جواب
دونوں لڑنے سے گریز کرتے۔ پھر جب اللہ نے فرشتوں کے ذریعے مسلمانوں کو جیت عطاء کردی تو فدیہ لیکر اپنے اقارب کو چھوڑنے کا فیصلہ کیاگیا۔ جن کا مشورہ نبیۖ نے مان لیا۔ اسی پر وحی نازل ہوئی کہ ماکان للنبی ان یکون لہ اسرٰی حتی یثخن فی الارض تریدین عرض الدنیا واللہ یریدالاٰخرة ” نبی کیلئے مناسب نہیں تھا کہ آپ کے پاس قیدی ہوں یہاں تک خوب خون بہاتے۔ تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرة چاہتا ہے”۔ اگر یہ آیات نہ اترتیں تو مسلمان لوٹ مار اوراغواء برائے تاوان کو اسلامی احکام کا تقاضہ سمجھتے ۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ الزام لگادیا جائے کہ ان کا کام لوٹ مار اور اغواء برائے تاوان تھا۔ اسلام دشمن عناصرکے الزامات کا جواب ہم پرلازم ہے۔
جب مشرکینِ مکہ دشنمانِ اسلام نے مسلمانوںکے اموال اور جائیدادوں پر قبضہ کیاتھا ، خا نہ کعبہ کی زیارت حج وعمرے سے روکا تھا تو مسلمانوں کا یہ اقدام بھی معمول کے مطابق درست تھا۔ کئی گنا بڑے لشکر سے جنگ کے مقابلے میں مالدار قافلے کو لوٹنا یقینا زیادہ آسان ہدف اور ترجیح تھا۔اللہ تعالیٰ نے بجائے اس کے کہ قافلہ لوٹا جائے،ان کا سامنادشمن کے بڑے لشکر سے کرادیا۔ پھر جب فتح دیدی اورمسلمانوں نے مشاورت سے فدیہ لیکرچھوڑنے کا فیصلہ کیاتو اللہ تعالیٰ نے نبی ۖ کے فیصلے کونامناسب اورمسلمانوں کے مشورے کو دنیا چاہنے سے تعبیر کرکے واضح کردیاکہ اللہ تم سے آخرت چاہتاہے۔ اگراللہ پہلے سے لکھ نہیںچکا ہوتا توتمہیںدردناک عذاب کامزہ چکھا دیتا۔
نبی ۖ نے فرمایاکہ وہ عذاب اللہ نے مجھے دکھایا اور اگر یہ نازل ہوجاتا تو عمر اور سعد کے سواء سب کو لپیٹ میں لے لیتا۔حضرت عمرنے مشورہ دیا تھا کہ جوجس کا قریبی رشتہ دارہے وہ اپنے ہاتھوں سے اس کو قتل کردے۔حضرت سعد نے ان کی تائید کی تھی ۔ حضرت علیاپنے چچا عباس کو گرفتارکرنے کے بجائے قتل بھی کرسکتے تھے۔ اسی طرح دیگر صحابہ کے بھی اپنے قریبی رشتہ داران دشمنوں میں موجود تھے۔ اور یہ فطری بات ہے کہ قریبی رشتہ داروںکو قتل کردیناآسان کام نہیںہوسکتاہے۔مہاجرین نے اپنے وطن اور عزیز واقارب کوچھوڑ دیا تھا۔
حضرت علی کی ہمشیرہ حضرت ام ہانی اولین مسلمانوںمیںسے تھیں ۔ نبوت سے قبل نبیۖ نے آپکا رشتہ بھی حضرت ابوطالب سے مانگا تھا۔لیکن ان کا رشتہ ایک مشرک سے حضرت ابوطالب نے طے کیا تھا۔معراج کا واقعہ ام ہانی کے گھرمیں پیش آیا تھا۔حضرت ام ہانی نے مشورہ دیا تھا کہ اس کو لوگوں میں عام کرنے سے گریزکریں ورنہ ساتھیوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔حضرت ابوبکر نے زبردست انداز میںنہ صرف واقعہ معراج کی تصدیق کی تھی بلکہ تمام معاملات میںآگے آگے تھے۔ ابوطالب کواندیشہ تھا کہ نبیۖ کیلئے مشکلات کے پہاڑ کھڑے ہوسکتے ہیں اسلئے اپنی چہیتی بیٹی کا رشتہ نہیںدیا لیکن مشکلات کے پہاڑ کھڑے ہوگئے تو ابوبکرصدیق نے اپنی چہیتی بیٹی کا رشتہ دے دیا تھا۔ام ہانی نے اپنے شوہر اور بچوں کی خاطرہجرت کرنے کے حکم پربھی عمل نہیں کیااور ابوبکرنے اپنی بیوی بچوںکو چھوڑکر نبیۖ کیساتھ ہجرت کی تھی۔
دنیا کی چاہت صرف مال وولت نہیں ہے۔عزیز واقارب اور اپنے وطن کی بھی قربانی دینا بڑی بات ہوتی ہے۔ صحابہ کرام کے ان نفوس قدسیہ کا تزکیہ جس طرح کیا گیا تھاہم اپنے ماحول میں یہ سوچ صرف اس وقت رکھ سکتے ہیں جب فرقہ واریت کے ماحول سے دور ہم پرکچھ اس طرح کے مراحل سے گزریں۔اللہ نے وحی کے ذریعے انکا جس ماحول میںجس طرح کا تزکیہ فرمایا تھا وہ کمال کی بات تھی اور ہم اسکے غلط منطقی نتائج نکال کراپنی تباہی کے علاوہ کچھ اورنہیں کرسکتے ہیں اور ان سے حسن ظن رکھنا ہی ہمارے ایمان کی سلامتی کیلئے ضروری ہے۔
ہمارا گمان یہ ہے کہ صحابہ کرام نے اپنے رشتہ داروں سے زیادہ نبیۖ کے اقارب کاخیال رکھ کر معاف کرنے کا مشورہ دیا اور اللہ نے اسی کو دنیا کی طلب قرار دیا ۔ اگر اس وقت حضرت عباسقتل کردیے جاتے تو بنی امیہ کے بعد ان کی اولادکواسلئے اقتدار سپرد نہیں کیا جاتا کہ ابوطالب نے اسلام قبول نہیںکیا تھا اور عباسنے اسلام قبول کیا تھااسلئے علی کی اولاداہل بیت سادات سے زیادہ عباس کی اولاداقتدارکی مستحق ہے۔ ہجرت کے بعد حضرت علی نے اپنے مشرک بہنوئی کو قتل کرنا چاہا تھا لیکن نبیۖ نے روک دیا۔ حالانکہ اس میں بہنوئی کا کوئی بھی قصورنہیں تھا۔کیا اس واقعہ کی بنیاد پرحضرت علی کے خلاف مہم جوئی کیجائے؟۔
حضرت ابوبکر نے اپنے لئے کتنا وظیفہ مقرر کیا پھر اس میںبھی کٹوتی کی؟۔ حضرت عمرنے اپنے بیٹے کوزناکی حد میںکوڑوں سے مروادیااور مرنے کے بعد بھی کوڑے پورے کروادئیے۔اپنی وفات سے پہلے اپنے بیٹے کوخلافت کیلئے نااہل قرار دیا تھا۔ حضرت عثمان نے ہمیشہ اپنا مال اسلام اورمسلمانوں پر قربان کیا اسلئے بھونڈے الزامات اور بدظنی کی کوئی وجہ نہیں بنتی ہے۔ آیت میں حضرت عمر اورحضرت سعد کے علاوہ تمام صحابہشامل تھے اور نبیۖ کے فیصلے کو بھی نامناسب قرار دیا گیا ہے۔جس کی درست تفسیر کی ضرورت ہے۔
قرآن نے ایک طرف صحابہ کرام کا تزکیہ کرنا تھا، دوسری طرف جمہور کے فیصلے کی توثیق کرکے یہ واضح کرنا تھاکہ اقلیت کی رائے کی بھی تحقیر نہیں تعظیم ہونی چاہیے اور تیسری طرف یہ رہنمائی مقصودتھی کہ اولی الامر کی حیثیت سے نبیۖ باہمی مشاورت اور اکثریت سے فیصلہ کریں تو بھی اس پر مثبت تنقید کرنے کی بھی گنجائش ہے اور قیامت تک جب وحی کا سلسلہ بند رہے گا توکسی کو مطلق العنان ڈکٹیٹر اورمعصوم عن الخطا ء والاصلاح امام بنانے کی گنجائش ہر گز نہیں ہے۔
بدر کے قیدیوں سے فدیہ لینے کامعاملہ برقرار کھا گیا، تاکہ اولی الامرکے کسی بھی فیصلے کونامناسب سجھنے کے باوجوداس میں خلل ڈالنے کا راستہ بھی قطعی طور پر رُک جائے،ورنہ نظام مملکت نہیںچل سکے گا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میںجہاں تزکیہ کے راستے کھولے، وہاں حکمت ودانائی کاسبق بھی سکھادیا۔ مشرکینِ مکہ نبیۖ کی رحمت للعالمین ذات کو سمجھتے تھے اور اللہ نے ان کو یہ بتانا تھاکہ فدیہ سے حوصلہ پانے کا معاملہ غلط ہے۔ ان آیات کے بعد دوبارہ مسلمانوں سے لڑنے کی اس اُمید کیساتھ ہمت نہ کرناکہ پھر فدیہ سے جان چھوٹ جائے گی۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کومخاطب کرکے جاہل دشمن کے دماغ کوٹھیک کرناچاہتاتھا۔قرآن کی بہت ساری آیات اس پر واضح دلیل ہیں۔
اگر ان آیات سے نبیۖ اور اکابرصحابہ کرامکی تنقیص شروع کی جائے تو اس کے نتائج ناانصافی اورگمراہی کے سواء اورکیانکلیں گے؟۔جب اہل تشیع تھوڑا مثبت سوچنا شروع کریں گے تودنیا اور آخرت میں بہت اچھے نتائج پائیںگے۔ حضرت علیکی حیثیت کسی سے کم نہ تھی۔قرآن وسنت کے مطابق بہت سے معالات پر آپ کے درست تحفظات تھے لیکن آپ نے اہل اقتدارکا ساتھ دیا۔ منافقت اورمجبوری نہیںبلکہ دل وجان سے خلافت کا ساتھ دیا تھا لیکن کچھ یارلوگوں نے ایسی داستانیں گھڑ دیں کہ ائمہ اہلبیت کی شخصیتوں کو بھی مسخ کرکے رکھ دیا گیا ۔ حضرت علی کی سیرت مشعل راہ ہے جس نے اپنی جگہ بڑا اہم کردار اداکیا۔ کیاکوئی کہہ سکتا ہے کہ مغل دورمیںاونگزیب عالمگیر سے کوئی اچھا آدمی نہ تھا؟۔ ایران، پاکستان، افغانستان،سعودی عرب اوردنیا بھرکے ممالک میںکوئی حکمران اپنے تمام رعایاسے اچھا ہے؟۔حضرت یوسف علیہ السلام اپنے وقت کے بادشاہ سے افضل ، زیادہ باصلاحیت اور ہر اعتبار سے اچھے تھے لیکن خزانے کی وزارت سے اس ملک اور قوم کی تقدیر بدل دی۔ علامہ سید جواد نقوی ایک کٹر شیعہ عالمِ دین ہیں اور ان کی بہت زبردست مثبت سوچ سے انقلاب آسکتا ہے۔

سوال نمبر6:_
حضرت محمد ۖ کی ایک ہی بیٹی تھی حضرت فاطمہ علیہ السلام ورنہ مباہلہ میں باقی 3بیٹیوں کو بھی لاتے۔

جواب_
کیا حضرت علی اپنے باپ کے اکلوتے بیٹے تھے؟۔ عقیل اورجعفر پھرعلی کے بھائی نہیںتھے؟اسلئے کہ مباہلے میںان کو شامل نہیںکیا گیا۔ قرآن میں واضح ہے کہ قل لازواجک وبناتک ونساء المؤمنین لیکن آیت مباہلہ میں ابنائنا ونسائنا وانفسنا کا ذکر ہے ، بنتک ایک بیٹی کا ذکر نہیں۔ مباہلے میں قربانی کا چیلنج ہے اور ابراہیم کی اسماعیل کے علاوہ بھی اولاد تھی ۔بنواسرائیل کے مقابلے میں بنو اسماعیل کوآزمائش کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر ان کے علاوہ بھی کسی کو پیش کیا جاتا تو عیسائیوں ہی کی ہار ہوتی اور مسلمان بہر صورت جیت جاتے۔

سوال نمبر7:_
حضرت عثمان نے مروان کو چیف ایڈوائزر بنادیا تھا اور اس کو باغ فدک بھی دے دیا تھا۔ اور جتنی زکوٰة اور خمس جمع ہوتا تھا وہ بھی وہ لے جاتا تھا اور نبی ۖ نے اس کو اس کے باپ کو مکہ اور مدینہ سے باہر نکال دیا تھا۔

جواب_
ابوجہل کا بیٹا عکرمہ ایک سچا پکا صحابی بن گیاتھا تواس کا راستہ نبیۖ نے روکاتھا؟ ۔ وحشی نے امیرحمزہ کو شہید اورہندنے ان کاکلیجہ چباڈالاتھاتوان پر کوئی پابندی لگادی گئی تھی کہ اسلام قبول نہیں کرنا ؟۔اپنی سوچ ٹھیک کرلیتے۔ حضرت عمربن عبدالعزیزاسی مروان کے پوتے تھے جن کی اہل تشیع اوراہل سنت تعریف کرتے ہیں۔اگرموجودہ دورکے شیعہ ماتمی جلوس سے دست بردارنہیںہوسکتے ہیں جن میںعوام کیلئے زنجیر زنی اور ذاکرین کیلئے کمائی کے علاوہ کچھ نہیںہے تو وہ حضرت علی،حضرت حسن اور حضرت حسین کی موجودگی میں دین کی پامالی پرکیسے یقین کرلیتے ہیں؟۔حالانکہ حضرت عثمان نامعلوم افرادکے ہاتھوں یرغمال بناکر شہیدبھی کئے گئے؟۔کیا نعوذ باللہ اہل بیت صرف فتوحات کی مراعات کھانے کیلئے بیٹھے تھے؟۔ دشمنوں کے کھلے حملوں سے زیادہ دوستوں کے رقیق حملے خطرناک ہوتے ہیں۔اہل تشیع مسخ شدہ تاریخی روایات کا یقین کرکے اہل بیت کی کردار کشی کرنے والوں کو انکے دشمنوں سے بھی زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں۔

سوال نمبر8:_
قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ آپ ۖ اپنے کام مشورہ سے کیا کریں تو کیا نبی ۖ کیلئے ضروری ہے کہ وہ صحابہ کے مشورہ پر عمل بھی کریں۔

جواب_
نہیں بالکل بھی نہیں۔ صلح حدیبیہ میں صحابہ کے مشورے پر عمل نہیں کیا گیا اور اس میں حضرت علی کی طرف سے رسول اللہ کے لفظ کو کاٹنے کاانکار بھی شامل تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس معاہدے کو فتح مبین قراردے دیا۔ جب حضرت عائشہ پر بہتان لگا تو حضرت علی نے طلاق دینے کا مشورہ دیا لیکن اللہ تعالیٰ کی وحی اس کے برعکس نازل ہوئی۔اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح فرمایا کہ ”اگر تم اچھا گمان رکھتے اور کہتے کہ یہ بہتان عظیم ہے”۔اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ حضرت علی پر العیاذ باللہ بہتان لگانا شروع کردیں کہ اس مشکل وقت میں منشاء الٰہی کے خلاف مشورہ دیکر صحابیت سے خارج ہوگئے۔غلطیوں کی اصلاح بنی آدم کی کمزوری نہیں ان کی طاقت ہے۔ جس بات سے اللہ نے جنت میں منع کیا تھا تو اس کی خلاف ورزی ہوئی لیکن حضرت آدم کی عزت وشرف میں اضافہ ہوگیا۔ جب نبی کریمۖ نے صحابہ کی مشاورت پر بدری قیدیوں سے فدیہ لینے پر فیصلہ فرمایا تو اس کو نامناسب قرار دیکر اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو تقلیدکے دنگل سے نکالا تھا۔البتہ اس کا منطقی نتیجہ نکال کر رسولۖپرالزام تراشی بھی جائز نہیں ہے۔

سوال نمبر9:_
صحابہ جنگ اُحد میں نبی ۖ کو چھوڑ کر بھاگ گئے اور جگہ بھی چھوڑ دی اور اپنے سر منڈوانے سے بھی انکار کیا یہ کیسے صحابہ تھے۔

جواب_
اگر جنت سے نکالے جانے سے لیکر ہجرت کرنے تک ایک ایک چیز کو منفی انداز میں دیکھیں اور یہ کہنا شروع کریں کہ رسول اللہ ۖ اپنے نام سے رسول اللہ کے لفظ کوکاٹنے کا حکم دے رہے تھے اورعلی نے انکار پر اصرار کیا اور اس تضاد سے اسلام کو باطل کہنا شروع کریں تو کیا نتائج نکلیں گے؟۔ مثبت سوچیں۔

سوال نمبر10:_
حضرت عائشہ حضرت علی علیہ السلام کے مقابلے پر آگئیں۔

جواب_
حضرت عثمان کی شہادت پر قرآن میں بیعت رضوان بہت پہلے سے لی گئی تھی اور اس کی پاسداری کا حکم بھی دیا گیا تھا۔جب حضرت عائشہ پر بہتان لگا تھا تو اس میں بھی قرآن نے حضرت عائشہ کی برأت کا اعلان کیا تھا لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ حضرت علی پر بہتان طرازی کی جائے۔ جس طرح حالات کے گھمبیر ہونے کی وجہ سے حضرت عائشہ کے خلاف محاذ کھڑا کرنے پر منافقین اور مخلصین کے درمیان فرق وامتیاز ضروری ہے ، حالانکہ مخلص لوگ بھی بہت غلط استعمال ہوگئے تھے تو بعد کے ادوار کی لڑائی پر بھی اپنی حدود سے نکل کر سوچنے کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ اسلام ، قرآن وسنت کے مزاج کوسمجھنا چاہیے۔جبکہ قرآن نے آپس میں لڑائی پر صلح کاحکم فرمایا اور واقعہ افک کی مذمت کی۔

سوال نمبر11:_
حضرت حسین علیہ السلام کا ساتھ کسی صحابی نے کیوں نہیں دیا؟۔

جواب_
لڑائی کا میدان اس معیار کانہیں تھا۔اکابر صحابہ جانتے تھے کہ جن لوگوں نے کوفہ میں حضرت علی کا ساتھ نہیں دیا بلکہ شیعان علی خوارج بن گئے۔ جوصرف اور صرف اسلئے بگڑ گئے کہ حضرت علی نے ایک شخص کو اختیار کیوں دیا۔ حضرت حسن نے اختیار سے بڑھ کر اپنے شیعوں سے زیادہ خطرہ محسوس کرتے ہوئے حکومت بھی سپرد کردی تھی۔ پھرشیعان حسین پرکوفہ میں کیسے اعتماد کیا جاسکتا تھا؟۔ اکابر صحابہ نے حضرت حسین کو ٹھیک مشورہ دیا تھا اورجب حضرت حسین گھیرے میں آگئے تو پھر کوفہ کی طرف جانے کا خیال بھی دل سے نکال دیا تھا۔ یزید نے خوف سے مکہ اور مدینہ کے اندر صحابہ کیساتھ بھی کوئی رعایت نہیں رکھی تھی۔ اہل تشیع کے دل ودماغ میں یہ بات بیٹھ گئی کہ جب حضرت علی، حسن اور حضرت حسین کیساتھ کوفی شیعوں کا برتاؤ درست نہیں تھا تو نبیۖ کے صحابہ پر بھی بدگمانی کرنے لگے۔ آدمی جیسے خود ہوتا ہے وہ دوسروں پروہی گمان رکھتا ہے۔

سوال نمبر12:_
معاویہ کو آپ رضی اللہ کہتے ہیں اس نے مولا علی سے جنگ کی اور یزید کو مسلط کیا اور اہل بیت کو گالیاں دلوائیں۔

جواب_
ہم تو حضرت سعد بن عبادہ کو بھی ایک جلیل القدر صحابی مانتے ہیں جنہوں نے حضرت ابوبکر و حضرت عمر اور مہاجرین کے خلاف مہم جوئی کا سلسلہ جاری رکھا تھا اور وہ ان کے پیچھے نماز تک نہیں پڑھتے تھے۔ حضرت معاویہ کو حضرت حسن نے مسلط کیا تھا اور نبیۖ نے صلح حدیبیہ کیا تھا تو کہاں کہاں تک بات پہنچے گی؟۔

سوال نمبر13:_
حدیث میں آتا ہے کہ میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک قرآن اور دوسرے میرے اہل بیت۔ اب ہم 11اماموں سے ہدایت نہیں لیتے ان کے بغیر قرآن سمجھ نہیں آسکتا۔ ان کی تعلیمات ہی ہم کو قرآن سمجھا سکتی ہیں مگر اس پر بالکل عمل نہیں ہورہا۔

جواب_
بارہویں امام ہزار سال سے زیادہ عرصہ ہوا ہے کہ غائب ہیں؟ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیںپھر قرآن پر عمل نہ کرنیکی ذمہ داری کس کے سر ہے؟

سوال نمبر14:_
حضرت عمر نے حضرت فاطمہ علیہ السلام کے گھر کو آگ لگادی تھی حدیث میں ہے یہ حکم حضرت ابوبکر نے دیا تھا وہ کہتے ہیں کاش میں یہ کام نہ کرتا یہ سنی کتابوں میں موجود ہے۔

جواب_
کیا حضرت علی نے نبیۖ کی ایک بیٹی کو بھی تحفظ فراہم نہیں کیا تھا؟۔ میں ایسی بزدلی پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہوں۔ اگر ابوسفیان جیسے لوگ حضرت ابوبکر کی خلافت کے خلاف سازش کرنے کیلئے وہاں آتے جاتے ہوں اور حضرت عمر نے ان کو دھمکی دی ہو تو یہ الگ بات ہے۔آج کے دور میں ویڈیو کے بھی ہوتے ہوئے کتنے غلط پروپیگنڈے چلتے رہتے ہیں۔ شیعہ کے خلاف کیا نہیں ہے؟۔

سوال نمبر15:_
حضرت حسن علیہ السلام کو معاویہ نے زہر دے کر شہید کروادیا اور حضرت عائشہ نے حضرت حسن علیہ السلام کو نبی ۖ کے پہلو میں دفن ہونے نہ دیا اور حضرت عائشہ کے حکم سے مروان ابن حکم نے جنازے پر تیروں کی بارش کروادی۔ جس کی وجہ سے وہ وہاں دفن نہیں ہوسکے۔

جواب_
کہانیاں چھوڑدیں،آئیں انقلاب لائیںاورپھر مجھے وہاں دفن کردیں۔ یہ منفی سوچ ائمہ اہلبیت کے شیعوں نے رکھی تو آخری امام کو حضرت خضر کی طرح منظر عام سے غائب ہونا پڑا اور ایرانی انقلاب کے بعد بھی منظرِ عام پر نہ آئے۔ آنے والے بارہ اماموں کا تصور شیعہ سنی دونوں کی روایات میں موجود ہے جن کو اقتدار بھی ملے گا۔ یہ سلسلہ درمیانہ زمانے کے مہدی سے شروع ہونا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

Molana Modudi, Molana Fazal ur Rehman, Mufti Taqi Usmani, Molana Khan Muhammad Sherani, The issue of writing Surah Al-Fatiha with urine and Dr. Fiza akbar khan’s program on halala and muta on Bol Channel

Molana Modudi, Molana Fazal ur Rehman, Mufti Taqi Usmani, Molana Khan Muhammad Sherani, The issue of writing Surah Al-Fatiha with urine and Dr. Fiza akbar khan’s program on halala and muta on Bol Channel

بولTvپر ڈاکٹر فضانے حلالہ و متعہ کے موضوع پرشیعہ سنی علماء کا پروگرام کیا

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

سنی دیوبندی بریلوی علماء کے نزدیک حلالہ کا تصور ہے اور متعہ حرام ہے۔ شیعہ کے نزدیک متعہ کا تصور ہے اور حلالہ کامروجہ تصور نہیں ہے۔شیعہ عالمِ دین علامہ امین شہیدی نے کہا کہ حلالہ اور متعہ کو مکس نہیں کریں،یہ الگ الگ چیزیں ہیں۔ متعہ ایک وقتی نکاح ہے جس میں نکاح کے تمام شرائط ہیں ، بس یہ فرق ہے کہ مستقل نکاح عمر بھر کیلئے ہوتا ہے اور متعہ ایک مخصوص وقت کیلئے ہوتا ہے۔ یہ سعودی عرب میں مسیار کے نام سے جائز قرار دیا گیا ہے۔
مفتی ولی مظفر نے کہا کہ سعودی عرب میں مسیار اس نکاح کو کہتے ہیں جس میں عورت کو شوہر کے گھر میں جانا نہیں پڑتا ہے ، بعض عورتیں خود کفیل رہنا چاہتی ہیں اور وہ شوہر سے اپنے گھر میں تعلق قائم کرنا چاہتی ہیں، شوہر کے گھر نہیں جانا چاہتی ہیں،باقی وہ عام نکاح سے مختلف نہیں ہوتا ہے۔ متعہ ایک الگ چیز ہے۔
ایک دوسرے عالمِ دین نے کہا کہ ” اس پر زیادہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے بس ہمارے نزدیک متعہ پہلے جائز تھا، پھر فتح خیبر کے موقع پر اس کو حرام کردیا گیا۔ صحیح بخاری میں یہ روایت ہے ۔یہ ہماری دلیل ہے۔
حلالہ متعہ نہیں بلکہ مستقل نکاح ہے ، جب تک شوہر اپنی مرضی سے بیوی کو چھوڑ نہیں دیتا ہے یا وہ فوت نہیں ہوجاتا ہے تو یہ اس کی بیوی رہتی ہے۔
حلالہ اور متعہ دونوں ایسے موضوع ہیں جن پر اینکر پرسن کو مکمل تیاری کے ساتھ بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ نکاح، خلع،طلاق، رجوع، حلالہ اور متعہ کے الگ الگ تصورات کو پہلے سمجھنے کی ضرورت ہے اور پھر ان موضوعات پرٹی وی اینکر پرسن کو پروگرام کرنے کی ضرورت ہے۔ پروگرام سے پہلے علماء کرام کو بھی مکمل تیاری کیساتھ آنے کی ضرورت ہے اسلئے کہ اگر تیاری نہ ہو تو پھر جھوٹ اور حقائق کے منافی بات کرنے پر مجبور ہونگے اور تیاری کرنے کے بعد شاید وہ اپنا مؤقف بھی بدل ڈالیں اسلئے کہ جن گھمبیر مسائل کا ذکر کتابوں میں رائج ہے،اگر اسکے بھیانک نتائج سے آگاہ ہونگے تو کانوں کو ہاتھ لگاکر توبہ کرنے پر مجبور ہونگے۔
فقہ اور اصولِ فقہ کی کتابوں میں باہمی ربط موجود ہے لیکن بڑے علماء کرام اور مفتیان عظام بھی اس کے بھیانک نتائج سے قطعی طورپر آگاہ نہیں ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں داخلہ سے پہلے مجھے اتفاق سے دارالعلوم کراچی میں داخلہ ملا تھا۔میں نے اسٹیل مل کراچی ایشین کمپنی میں ایک ویلڈر مستقیم کیساتھ ہیلپری کا کام کیا۔ مستقیم نے مجھے دارالعلوم کراچی میں پڑھنے کا مشورہ دیا تھا جہاں نوکری اور دینی تعلیم دونوں ساتھ ساتھ ہوسکتے ہیں۔ مجھے دارالعلوم کراچی حفظِ قرآن کی کلاس میں داخلہ مل گیااور چار گھنٹے کی آدھی دیہاڑی پر ماچس فیکٹری میں کام بھی مل گیا۔ اسٹیل مل میں19روپے دیہاڑی تھی اور ماچس فیکٹری میں26روپے دیہاڑی تھی۔ چار گھنٹے میں13روپے پر مجھے بہت آسانی اور خوشی تھی۔ دارالعلوم کراچی کے طلبہ نے کہا کہ جب سب کچھ قیام وطعام مدرسے کی طرف سے ملتا ہے تو مشقت اُٹھانے کی کیا ضرورت ہے؟ تو میںنے عرض کیا کہ کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ بھی اپنی کمائی کرکے اپنی تعلیم حاصل کرتے ہیں تو میرا اپنا خرچہ اٹھانے میں کیا حرج ہے؟۔ انہوں نے کہا کہ یہاںمفت میں سب کچھ ملتا ہے اور وہاں نہیں ملتا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ میں سید ہوں ، میرے لئے زکوٰة جائز نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ مدارس میں اتنے سارے سادات گزرے ہیں انہوں نے تو کبھی زکوٰة کی وجہ سے مدرسے کا کھانا نہیں چھوڑا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ کیا ان کی وجہ سے میرے لئے زکوٰة جائز ہوجائے گی؟۔ انہوں نے کہا کہ نہیں ،زکوٰة تو آپ کیلئے جائز نہیں۔ پھران کے تعجب کومزید بڑھانے کیلئے میں نے حدیث دکھائی کہ نبیۖ نے ایک صحابی پر ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ قرآن سکھانے کے بعد اس کی طرف سے ڈھال کو کیوں قبول کیا ہے، یہ جہنم کی آگ کا طوق بنے گا۔ انبیاء کرام میں کسی نے بھی تبلیغ پر اجرت نہیں لی اور نہ یہ اسلام میں جائز ہے۔ میں قرآن اور نمازپڑھاؤں گا لیکن اس پر اجرت نہیں لوں گا۔ میری رپورٹ مدرسہ کے انتظامیہ کو پہنچادی گئی تومجھے بلاکر مدرسہ چھوڑنے کا حکم دیا گیا کہ آپ کا داخلہ نہیں ہوسکا ہے۔
پھر جامعہ بنوری نیوٹاؤن کراچی گیا لیکن وہاں معلوم ہوا کہ داخلے بندہیں۔ وہاں سے واٹرپمپ دارالعلوم الاسلامیہ فیڈرل بی ایریا بھیج دیا گیا۔ جہاں میں نے عبوری دور میں کچھ حفظ وناظرہ اور قرأت وتجوید کی تعلیم حاصل کی۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی سے رمضان میںدرسِ قرآن کے دوران یہ سنا تو بڑی حیرت ہوئی کہ ” قرآن کے مصحف پر حلف نہیں ہوتا ہے کیونکہ قرآن تحریری شکل میں اللہ کا کلام نہیں ہے، البتہ اگر زبان سے یہ کہہ دیا کہ قرآن یا اللہ کی کتاب کی قسم تو پھر اس حلف کا کفارہ دینا پڑے گا”۔ پھر شوال میں جامعہ بنوری نیوٹاؤن کراچی میں داخلہ مل گیا تو سرِ راہ ہمارے استاذ جو اس وقت میرے استاذ نہ تھے مفتی عبدالسمیع نے ایک صیغہ پوچھا، پہلا سال تھا، ہم علم الصرف پڑھتے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ ماضی کا ایک صیغہ ہے ضربتما،اس کو دومرتبہ کیوں لکھا گیا ہے؟۔ وہ جواب دیتا تھا اور میں اس کوغلط قرار دیتا۔ آخر کار اس نے قرآن کا مصحف منگواکر پوچھا کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ میں نے کہا کہ نہیں۔ یہ نقشِ کلام ہے۔ مفتی صاحب نے کہا کہ آپ کافر ہوگئے،اسلئے کہ قرآن کی قرآنیت کا انکار کردیا۔ میں نے کہا کہ پھر تو مولانا یوسف لدھیانوی بھی کافر ہوگئے اسلئے کہ ان سے میں نے سنا ہے کہ یہ اللہ کا کلام نہیں نقش کلام ہے اور اس پر حلف بھی نہیں ہوتا۔ پھر مفتی عبدالسمیع نے مجھے خوب برا بھلا بول دیا کہ تم افغانی سب کچھ پڑھ کرآتے ہو اور تمہارا مقصد ہی ہمیں ذلیل کرنا ہوتا ہے۔ مفتی صاحب دادو کے سندھی تھے۔ پھر جب میں نے مفتی محمد تقی عثمانی کی کتاب میں یہ دیکھا کہ سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے توجامعہ بنوری نیوٹاؤن سے اسکے خلاف فتویٰ لیکردونوں کو شائع کردیا تھا۔
اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ مفتی محمد تقی عثمانی نے دباؤ میں آکر وضاحت کرلی کہ میں نے اپنی کتابوں ”فقہی مقالات جلد چہارم اور تکملہ فتح الملہم” سے اس مسئلے کو نکال دیا ہے۔ روزنامہ اسلام میں پہلے پورا مضمون شائع کیا اور پھر اشتہار دیا کہ مجھ پر بہتان لگانے والے اللہ کا خوف کریں۔ پھر ضرب مؤمن کے ایک ہی شمارے میں دونوں باتیں وضاحتی بیان جس میں شکریہ بھی ادا کیا گیا تھا کہ مجھے اس طرف توجہ دلائی گئی۔ میں نے صرف نقل کیا ہے مگرمیرایہ مسلک و عقیدہ نہیں ہے۔ اور یہ بھی کہ مجھ پر بہتان لگانے والے اللہ کا خوف کریں۔
ان دنوں میں مفتی محمد تقی عثمانی نے قرآن وسنت کی تحقیقات رابطہ عالم اسلامی مکہ کی رکنیت سے بھی اس خوف کے مارے استعفیٰ دیدیا تھا کہ کہیں عرب علماء پوچھ گچھ نہ کرلیں۔ بریلوی مکتبۂ فکر والے ان کے پیچھے پڑگئے تھے لیکن پھر ہم نے بریلوی علماء کے فتوے بھی شائع کردئیے جس سے مفتی محمد تقی عثمانی نے اس عذاب سے چھٹکارا پالیا تھا۔ ضرب حق کے پبلشر اجمل ملک نے مفتی محمدتقی عثمانی کو اخبار کیلئے انٹرویو کا کہا تو مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ ” مجھے کم گالیاں کھلائی ہیں، جس پر تمہارا دل ٹھنڈا نہیں ہوا ہے؟”۔ ملک صاحب نے کہا کہ ہم نے تو تمہاری جان بریلوی مکتب سے چھڑائی ہے، جس پر اس نے سکوت اختیار کیا۔
فتاویٰ شامیہ، فتاویٰ قاضی خان اوروزیراعظم عمران کے نکاح خواں مفتی محمد سعید خان نے اپنی کتاب ”ریزہ الماس ” میں سورۂ فاتحہ کوپیشاب سے لکھنے کے مسئلے کو ٹھیک قرار دیا ہے اور مولانا الیاس گھمن کا ایک کلپ بھی موجود ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ علماء ومفتیان اپنی جہالت کو سمجھ بھی نہیں رہے ہیں کہ وہ کونسی جہالت ہے کہ جس کی وجہ سے بڑے بڑے فقہاء نے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز قرار دیا۔ جب اصولِ فقہ میں قرآن کی تعریف یہ ہے کہ” المکتوب فی المصاحف (جو مصاحف میں لکھا ہوا ہے) لیکن لکھے ہوئے سے لکھا ہوا مراد نہیں ہے کیونکہ لکھائی محض نقوش ہیں جو اللہ کا کلام نہیں ہے”۔ تو پھر جب لکھائی کی شکل میں قرآن کو اللہ کا کلام نہیں مانا جاتا ہے تو اس پر حلف بھی نہیں ہوگا اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب لکھائی کی شکل میں قرآن اللہ کا کلام نہیں ہے تو پھر سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
علماء ومفتیان کو اصول فقہ اور فقہ کے مسائل میں باہمی ربط کا بھی پتہ نہیں تھا اسلئے مفتی محمد تقی عثمانی نے پہلے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز قرار دیا اور پھر اپنی کتابوں سے اس کو نکال دیا ہے۔ مفتی محمد تقی عثمانی کا پہلا اختلاف مفتی رشید احمد لدھیانوی سے وقف شدہ مدرسہ میں ذاتی مکان خریدنے پر ہوا۔ پھر اس کا دوسرا اختلاف مفتی محمود سے جنرل ضیاء الحق کے دورمیں زکوٰة کی کٹوتی پر ہوا۔ پھر تیسرا اختلاف سود ی نظام کو اسلامی بینکاری قرار دینے پر مدارس بشمول مولانا سلیم اللہ خان اور ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر سے ہوا۔یہ بڑے زمینی حقائق ہیں۔
ڈاکٹر فضا نے بول ٹی وی چینل پر اپنے پروگرام ” ایسا نہیں چلے گا” میں جن علماء کرام اور مفتیانِ عظام کو دعوت دی تھی تو انہوں نے صفائی کیساتھ حقائق عوام کے سامنے لانے میں بڑے بخل سے کام لیا ۔جس طرح سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا اصل مسئلہ بڑے علماء ومفتیان کو اصولِ فقہ اور فقہ کی کتابوں میں باہمی ربط کیساتھ معلوم نہیں ہے اور نہ اس کے بھیانک نتائج سے آگاہ ہیں ،اسی طرح وہ نکاح، طلاق، خلع،رجوع، حلالہ اور متعہ کے موضوعات اور ان کے بھیانک نتائج سے بالکل آگاہ نہیں ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی نے مجھ سے کہا تھا کہ ” آپ مدارس کیلئے ایک نصابِ تعلیم تشکیل دیں تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ وہی نصاب ہم مدارس میں پڑھائیںگے ”۔ لیکن جب وہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین بن گئے تو طلاق سے رجوع اور حلالہ کے خاتمے پر بھی آمادہ نہیں ہوئے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے موجودہ چیئرمین قبلہ ایاز صاحب سے بھی دو ملاقاتیں ہوئی ہیں اور ان کی طرف سے تحریری خط کے باوجود بھی آخر کار معذرت خواہی کا نتیجہ نکل آیا اور چیئرمین اسلامی نظریانی کونسل قبلہ ایاز نے کہا کہ” آپ علمی صلاحیت رکھتے ہیں اور علماء شاہ دولہ کے چوہے ہیں یہ مجھے مشکل سے اس منصب پر برداشت کررہے ہیں”۔
حلالہ اور متعہ کے موضوع پر ڈاکٹر فضا کے پروگرام میں علمی حقائق کا حق ادا نہیں ہوا ہے۔ محمد مالک نے ہم نیوز میں حلالہ کے موضوع پر قبلہ ایاز، علامہ طاہر اشرفی ، علامہ راغب نعیمی ، علامہ امین شہیدی اور ڈاکٹر ظہیر کو بات کرنے کا موقع دیا تھا لیکن جب تک فقہ اور اصولِ فقہ کی کتابوں میں موجود فقہی مواد اور مسائل کے بھیانک نتائج عوام کے سامنے نہیں لائے جائیں گے اس وقت تک حقائق سے پردہ نہیں اُٹھ سکے گا۔ اس شمارے میں نکاح، طلاق، خلع، رجوع ، حلالہ اور متعہ کے حوالے سے بنیادی علمی حقائق اور اسکے نتائج ہمارے مدارس کے علماء اور طلباء کے سامنے بھی پیش کرنے کی جسارت کرتے ہیں اور ٹی وی چینل کے اینکر پرسنوں کو بھی یہ مواد پہنچاتے ہیں اور اپنے قارئین کو بھی آگاہ کرتے ہیں۔
افغان طالبان کے رہنماؤں کو ان حقائق کے سامنے آنے کے بعد اسلام پر چلنے میں اور اپنا نظام تشکیل دینے میں بہت آسانی ہوگی۔ انشاء اللہ العزیز۔
پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا لیکن اسلام کا حال مسالک اور فرقہ واریت کے نام پر علماء ومفتیان اور علامہ صاحبان نے اس سے بھی بدتر بنایا ہے کہ جو مسلم لیگ ن ، تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی نے اپنے بیانیہ کیلئے وکیلوں، صحافیوں اور سیاستدانوں کے ذریعے سے پوری ریاست، حکومت، عدالت، سیاست اور قوم کا بنار کھا ہے۔جب مذہبی جماعتیں اور تنظیمیں اپنا حال سدھار لیںگی تو الیکشن میں ان کو ووٹ بھی ملیںگے اور نوٹ بھی۔اسلام اور مسلمان جیتے گا۔ امریکہ کوان کے چھوڑے ہوئے خراب جہازوں سے شکست نہیں دی جاسکتی ہے۔

نکاح پر علماء کے عجب مسائل_
عقدِ نکاح کے بارے میں سادہ لوح عوام ، نام نہاددانشوراور علماء و مفتیان بہت کچھ جاننے کے باوجود بھی افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کچھ نہیں جانتے ہیں اور اس میںمدارس کے علماء سے لیکر جماعت اسلامی کے مولانا سید مودودی اور ان کی باقیات تنظیم اسلامی کے ڈاکٹر اسرار اور جاوید احمد غامدی سب شامل ہیں۔
جن علماء کا تعلق دارالافتاء سے فتوے دینے کا ہوتا ہے وہ فقہی کتب کی تفصیل پر نظر رکھتے ہیں مگر جن کا تعلق قرآن یا احادیث یا عربی ادب، یا صرف ونحو سے ہوتا ہے وہ فقہی مسائل کی تفصیلات کو نہیں جانتے اور نہ ان سے کام رکھتے ہیں۔
قائدجمعیت علماء اسلام مولانا فضل الرحمن نے ایک بار میری دعوت پر علماء کے اجلاس میں آنے سے اجتناب کرتے ہوئے کہا کہ” مجلس فقہی کے مولانا انور شاہ صاحب کے ذمے اس مسئلے کو رکھیںگے اور اگرانہوں نے ٹھیک قرار دیا تو پھر ہم سیاسی اعتبار سے اس پر غور کریںگے کہ مصلحت کس میں ہے؟”۔ پھر مولانافضل الرحمن نے میرے اصرار پر مولانا عطاء شاہ صاحب کو بھیجنے کا وعدہ کیا تھا لیکن ڈیرہ اسماعیل خان کے دیگر علماء کو بھی ٹانک سفید مسجد میں جمعیت علماء اسلام کے ضلعی سرپرست اعلیٰ مولانا فتح خان کے ہاں آنے سے روک دیا تھا۔ اگر اس وقت عالمی اسلامی خلافت کے مسئلے پر علماء کرام کے درمیان بحث ہوتی تو آج برصغیر پاک وہند ، عراق وشام اور افغانستان کو داعش کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور جذباتی نوجوان اتنی بڑی تعداد میں قربانیاں دینے اور اپنی ریاستوں کو مشکلات میں ڈالنے کے مراحل میں نہ ہوتے۔ داعش اور خلافت کیلئے کام کرنیوالے طبقات پہلے اسلام کے معاشرتی مسائل کی طرف توجہ دیں تو پھر دنیا کی کوئی بھی طاقت اسلام کی راہ میں رکاوٹ نہیں ڈالے گی ۔ انشاء اللہ العزیز الرحمن۔
جب عورت کا اپنے شوہر سے نکاح ہوجاتا ہے تو اپنے اپنے رسم ورواج اور مسالک کے مطابق حقوق، معاملات اور مسائل چلتے رہتے ہیں لیکن جب کچھ معاملات پیش آتے ہیں اور میاں بیوی مدارس کے فتوؤں کا رخ کرتے ہیں تو یہ مسئلہ بڑا گھمبیر ہوجاتا ہے۔ مثلاً ایک عورت کو اس کے شوہر نے کہا کہ3طلاق، اور پھر مکر گیا تو عورت اس پر حرام ہوگی اور حلالہ کے بغیر ان کا دوبارہ نکاح جائز نہیں ہوگا ۔ اگر شوہر نے انکار کیا تب بھی شرعی اعتبار سے عورت اس پر حرام ہوگی لیکن شوہر سے عورت کو اپنی جان چھڑانے کیلئے دو گواہ لانے پڑیںگے۔ اگر اس کے پاس دو مردگواہ نہیں ہوئے اور نہ ایک مرد اور دو خواتین گواہ ہوئے تو شوہر کو عدالت میں قسم اٹھانی پڑے گی۔ اگر اس نے جھوٹی قسم کھالی تو عورت بدستوراس کے نکاح میں رہے گی۔ عورت کو اس حرامکاری سے بچنے کیلئے ہرقیمت پر خلع لینا ہوگا اور اگر شوہر کسی صورت بھی خلع دینے پر آمادہ نہ ہو تو وہ عورت شوہر کے نکاح میں رہے گی اور عورت کو پوری کوشش کرنی ہوگی کہ س اسے حرامکاری نہ ہو لیکن اگر شوہر اس کے ساتھ حرامکاری کرے تو عورت اس سے لذت نہ اٹھائے ورنہ پھر گناہگار ہوگی۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے یہ مسئلہ اپنی کتاب ” حیلہ ناجزہ” میں لکھ دیا ہے اور دارالعلوم کراچی نے مزید حواشی وتزئین کیساتھ اس کو شائع کیا۔
اب بھی بریلوی دیوبندی مدارس میں اسی فقہی مسئلے پر میاں بیوی میں جھگڑا ہونے کی صورت میں یہی فتویٰ دیا جارہاہے۔ نکاح میں دوسرا گھمبیر مسئلہ حرمتِ مصاہرت کا ہے ، جس کی تفصیلات سے ہوش اُڑ جائیںگے، اصولِ فقہ کی کتب میں یہ بھی پڑھایا جاتا ہے کہ ساس کی شرمگاہ کے بیرونی حصے پر شہوت کی نگاہ میں عذر ہے لیکن اگراندرونی حصے پر نظر پڑگئی اور اس میں شہوت آگئی تو شوہرپر بیوی حرام ہوجائے گی۔ درسِ نظامی کے نصاب میں پڑھائے جانیوالے ان مسائل کا اسلام سے بالکل بھی کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ فقہاء کی اپنی ذاتی اختراعات ہیں۔

خلع پرعلماء کے عجیب مسائل_
ٹی وی کی اسکرینوں پر علماء و مفتیان اور نام نہاد جاہل دانشور جھوٹ بولتے ہیں کہ عورت کو اسلام نے خلع کا حق دیا ہے۔ وفاق المدارس کے ناظم اعلیٰ قاری محمد حنیف جالندھری نے ایک مرتبہ عدالتوں کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا تھا جہاں عورتوں کو خلع ملتا ہے اور کہا تھا کہ ”عورت اور عدالت کا اسلام میں کوئی حق نہیں ہے کہ عورت کو خلع دیا جائے۔ جب تک شوہر اپنی طرف سے راضی نہیں ہوتا ہے ،عورت کو اسلام میں خلع کا کوئی حق حاصل نہیں ہے”۔
سورۂ بقرہ کی آیت229میں تین مرتبہ طلاق کے بعد خلع کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ درسِ نظامی کے نصاب میں حد درجہ حماقت کی گئی ہے کہ دو مرتبہ اور تیسری مرتبہ طلاق کے درمیان خلع کا ذکر جملہ معترضہ ہے یا پھر تیسری طلاق سے متصل ہے؟۔ ایک مؤقف یہ ہے کہ دو مرتبہ طلاق کے بعد یہ جملہ معترضہ ہے اسلئے کہ خلع بھی ایک مستقل طلاق ہے اور پھر تیسری طلاق کی گنجائش نہیں رہے گی ۔اور دوسرا مؤقف یہ ہے کہ عربی قواعد کے لحاظ سے فدیہ کی صورت سے تیسری طلاق کو متصل ماننا ضروری ہے اسلئے خلع کوئی مستقل طلاق نہیں ہے بلکہ تیسری طلاق کیلئے ایک ضمنی چیز ہے۔ حنفی مؤقف کی وجہ سے علامہ تمنا عمادی نے ایک کتاب ”الطلاق مرتان” لکھ دی تھی ، جس میں حنفی مسلک ، قرآن اور عربی قواعد سے یہ ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی کہ طلاق صرف دو مرتبہ ہے اور حلالہ کا تعلق صرف خلع کیساتھ ہے۔ علامہ تمنا عمادی نے احادیث کا انکار بھی کردیا تھا۔ لیکن یہ بنیاد ان کو حنفی مؤقف کے اصولِ فقہ اور درسِ نظامی سے ہی فراہم ہوئی تھی۔
علماء و مفتیان کے نصابِ تعلیم میں بنیادی غلطی یہ ہے کہ سورۂ بقرہ کی آیت229کا خلع سے کوئی تعلق نہیں بن سکتا ہے۔ عدت کے تین مراحل میں تین بار طلاق کے بعد اگر عدت میں رجوع کا فیصلہ باہمی رضامندی، اصلاح و معروف طریقے سے کرنے کے بجائے عورت کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا جس کو قرآن نے او تسریح باحسان اور حدیث نے تیسری طلاق قرار دیا ہے تو پھر مسئلہ طلاق کی مزید وضاحت کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا ہے کہ ” پھر تمہارے لئے حلال نہیں ہے کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے کہ اس میں سے کچھ بھی واپس لے لو۔ مگر یہ کہ جب دونوں کو خوف ہو کہ پھر اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیںگے۔ پھر اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیںگے تو عورت کی طرف سے اس چیز کا فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے”۔ قرآن میں طلاق سے پہلے وضاحت ہے کہ دئیے ہوئے میں سے کچھ بھی واپس لینا جائز نہیں اور پھر حدود پر قائم نہیں رہ سکنے کے خوف پر اس چیز کو واپس فدیہ کرنے کی بات ہے۔
خلع کا ذکر سورۂ النساء کی آیت19میں ہے۔ جس کے ناجائز ٹکڑے بناکر علماء ومفتیان نے قرآن کی اس خبرکو سچ ثابت کیا ہے کہ ”ان سے پوچھا جائے گا کہ قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کیوں کیا تھا؟”۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” عورتوں کے زبردستی سے مالک مت بن بیٹھو اور نہ ان کو اسلئے جانے سے روکو، کہ جو کچھ بھی تم نے ان کو دیا ہے،اس میں بعض واپس لے لو مگر یہ جب کھلی فحاشی کی مرتکب ہوں اور ان سے اچھا سلوک کرو اسلئے کہ ہوسکتا ہے کہ وہ تمہیں بری لگتی ہوں اور اللہ اس میں تمہارے لئے خیر کثیر بنادے”۔ (سورہ النساء آیت19)
علماء ترجمے میں تحریف نہیں کرسکے لیکن تفاسیر میں لکھ ڈالا کہ پہلے جملے میں عورتوں کے زبردستی سے مالک نہ بن بیٹھنے کے حکم سے مراد فوت شدگان کی وراثت سے ملنے والی خواتین ہیں اور دوسرے جملے میں اپنی بیگمات مراد ہیں۔ حالانکہ یہ ترجمہ وتفسیر کسی صورت میں ممکن بھی نہیں ہے۔ اللہ نے اس میں خلع کا حکم بیان کیا ہے اور پھر اگلی آیات20،21النساء میں طلاق کے احکام واضح کئے ہیں۔

خلع وطلاق پر علماء چت ہیں _
قرآن وسنت میں خلع وطلاق کا بالکل الگ الگ تصور ہے لیکن علماء نے اس کو بالکل مسخ کرکے رکھ دیا ہے۔ قرآن وسنت میں سورۂ بقرہ آیت229کا تعلق صرف طلاق ہی کیساتھ ہے۔ رسول اللہ ۖ سے پوچھا گیا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے ؟۔ آپۖ نے فرمایا کہ آیت229میں الطلاق مرتٰن کے بعد تسریح باحسان (تیسری بار احسان کیساتھ چھوڑنا)تیسری طلاق ہے۔
مولانا سیدمودودی نے تفہیم القرآن میں آیت229کے ترجمے میں انتہائی غلطی کرکے عورت کی طرف سے فدیہ کو خلع میں معاوضہ قرار دیا ہے۔ جماعت اسلامی اپنے بانی کی غلطی کا کھل کر اعتراف کرکے خلوص کا ثبوت دیدے۔
علماء ومفتیان اپنے نصابِ تعلیم میںغلطی کا کھلے عام اعتراف کرکے قرآن کو ترجیح دیں اور امت مسلمہ کیلئے گمراہی کی جگہ ہدایت کا راستہ ہموار کریں۔ ناسمجھی اور جہالت کی وجہ سے اللہ نے غلطیوں کو معاف قرار دینے کا اعلان کیا ہے لیکن ہٹ دھرمی اور ہڈ حرامی کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جب مسئلہ یہاں تک پہنچے کہ عورت شوہر کیلئے حرام ہو لیکن شوہر خلع دینے کیلئے راضی نہ ہو تو پھر بھی عورت حرامکاری پر مجبور ہو۔ کیا یہ بے حیائی اور بے غیرتی اسلام کا حکم ہوسکتاہے ؟ اور دنیا اس کو کس نظر سے دیکھے گی؟۔ عورت کی اس میں کس قدر حق تلفی ہے؟۔ اللہ نے فرمایا کہ ” اور جب کوئی بے حیائی کا کام کرتے ہیںتو کہتے ہیںکہ ہم نے اپنے بزرگوں کو اس کو کرتے دیکھا ہے اور اللہ نے ہم کو یہی حکم دیا ہے۔ کہہ دو کہ اللہ بے حیائی کے کام کا ہرگز حکم نہیں دیتا۔بھلا تم اللہ کی نسبت ایسی بات کیوں کہتے ہو، جس کا تمہیں علم نہیں ہے۔ (سورة الاعراف آیت:28)
اللہ تعالیٰ نے طلاق کے احکام یہ بیان کئے ہیں کہ عدت میں بھی باہمی رضا مندی کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ہے اور باہمی رضامندی کیساتھ عدت کی تکمیل پر بھی رجوع ہوسکتا ہے لیکن علماء ومفتیان نے سارا معاملہ تلچھٹ کردیا ہے۔ اور حلالہ کی لعنت کیلئے قرآنی آیات اور احکام سے کھلم کھلا انحراف کا راستہ اپنایا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے عورت کو نہ صرف خلع کا حق دیا ہے بلکہ شوہر کی طرف سے تمام منقولہ دی ہوئی چیزیں ساتھ لے جانے کی اجازت بھی دیدی ہے۔ البتہ عورت کو دی ہوئی غیر منقولہ اشیاء گھر، پلاٹ اورباغ وغیرہ سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ کپڑے،زیورات، نقدی، گاڑی اور تمام دی ہوئی منقولہ اشیاء میں سے بعض کو خلع کی صورت میں واپس نہیں لے سکتا ہے لیکن اگر عورت کھلی فحاشی کی مرتکب ہو جائے تو پھر سب نہیں لیکن بعض چیزیں واپس لی جاسکتی ہیں۔ایک صحابیہ نے اپنے شوہر سے طلاق لینا چاہی تو نبیۖ نے فرمایا کہ ” اسکادیاباغ واپس کرسکتی ہو؟”۔ اس نے عرض کیا کہ ” اور بھی بہت کچھ واپس کرسکتی ہوں”۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ” اور کچھ نہیں”۔ وہ باغ واپس کیا گیا اور صحابی نے اس کو چھوڑ دیا تھا۔
قرآن میں اللہ نے واضح کیا ہے کہ ” خلع کی صورت میں زبردستی سے مالک بن بیٹھنا غلط ہے اور اس کو جانے سے اسلئے مت روکو کہ اپنی طرف سے دی ہوئی بعض چیزیں ان سے واپس لے لو مگر یہ کہ کھلی فحاشی کی مرتکب ہوجائیں”۔ قرآن کے قانون میں زبردست توازن ہے ۔ صحیح حدیث ہے کہ خلع کی عدت ایک حیض ہے۔ سعودی عرب میں اس پر عمل بھی ہوتا ہے ۔پاکستان کا آئین قرآن وسنت کے مطابق بنانے پر اتفاق ہے لیکن مدارس کے علماء کا قرآن وسنت پر اتفاق نہیں ہے۔ جاہل دانشور اسلام کے نام پر عوام کو مزید گمراہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
جب چھوڑرہی ہو تو پھر بھی اللہ نے حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے اور اگر وہ بری لگتی ہوں تو بھی اس میں خیرکثیر کی نوید سنادی ہے۔ عورت واپس بھی آسکتی ہے لیکن زبردستی سے ساتھ رکھنے کے نقصانات سے بچت میں بھی خیر کثیر ہی ہے۔

میڈیا کوخلع کا مسئلہ اٹھانا چاہیے تھا! _ ایک ایرانی نژاد امریکن خاتون نے ” اسلام میں عورت کے حقوق پر” ایک بڑی کتاب لکھی ہے۔ جس میں زمینی حقائق اور کتابی مسائل کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ” ایک شخص نے40ہزار میں ایک عورت سے نکاح کیا۔ اس شخص کو لواطت کی علت پڑی تھی۔ عورت کی خواہش پوری نہیں ہوتی تھی تو اس نے خلع کا مطالبہ کیا۔ اس نے خلع دینے سے انکار کردیا۔ پھر اس نے50ہزار میں خلع لینے کی بات رکھی تو اس شخص نے طلاق دیدی تھی”۔ اگر خلع کے اسلامی تصور کو ملیامیٹ کرکے علماء کے تصور کو اسلام قرار دیدیا جائے تو اس کو مرد حضرات اپنا کاروبار بھی بناسکتے ہیں اسلئے کہ عورت کی خواہش پوری نہیں ہوگی اور وہ حق مہر سے زیادہ رقم وصول کرنے کا مطالبہ کریںگے جس میں عورتیں مجبور ہوکر ان کے مطالبات خلع میں بھی پوری کریں گی۔ عورت مارچ والوں نے اگر اسلام کی درست تعلیمات کو سمجھ لیا تو پوری دنیا کی خواتین ہمارے دین کو اپنے لئے سب سے بڑا ہتھیار قرار دینے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائیں گی۔ این جی اوز کیلئے کام کرکے پیسے بٹورنے والی خواتین نہیں چاہتی ہیں کہ یہ استحصالی نظام ختم ہو اسلئے کہ ان کا دانہ پانی بھی پھر بالکل ختم ہوجائیگا۔ مخلص علماء کرام اور مفتیان عظام اپنے مدارس اور مساجد سے اسلام کی درست تبلیغ شروع کریں تو تمام مذہبی، ریاستی، سیاسی ، قومی، علاقی، لسانی اور عالمی استحصالی طبقات سے چھٹکارا ملنے میں بالکل بھی کوئی دیر نہیں لگے گی۔ یہ کوئی جیت نہیں ہے کہ نیٹو اور امریکہ مل کر افغانستان، عراق، لیبیا اور شام کو ملیامیٹ کرکے چلے جائیں اور پھر کہیں کہ ہم نے اپنے مقاصد حاصل کرلئے لیکن افغانیوں کو افغانیوں سے ہی لڑانے کی جو منصوبہ بندی کی تھی اس میں ہم ناکام ہوگئے ہیں اور افغانستان کے بہت سارے مالی اثاثے بھی منجمد کردیں کہ ہمارا حق ہے اور تم نااہل ہوگئے ہو۔ پاکستان کے مخلص علماء کرام ومفتیان عظام کو سب سے پہلے علمی بنیادوں پر ایک عالمگیر انقلاب کی بنیاد رکھنی پڑے گی اور پھر افغانستان میں اس کو عملی جامہ بھی پہنانا ہوگا۔ طالبان زبردستی سے دین کے نفاذ کی جگہ ان مسائل کو اجاگر کرنا شروع کردیں جن سے خواتین کو ان کے حقوق مل جائیں تو مغرب میں بھی آواز اٹھے گی کہ خواتین کو افغانستان کی طرح حقوق دینے ہوں گے۔ جب میاں بیوی اکٹھے رہتے ہیں تو ایک قالب دو جان ہوتے ہیں مگر جب جدائی کا مسئلہ آتا ہے تو بیشمار طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر عورت کو قرآن وسنت کے مطابق خلع کا حق مل جائے تو پھر شوہر بیگم پر مظالم کا تصور بھی چھوڑ دے گا۔ مغرب اور ترقی یافتہ دنیا میں شوہرو بیوی دونوں کو طلاق کا حق ہوتا ہے اور دونوں کی جائیداد بھی جدائی کے بعد برابر برابر تقسیم ہوتی ہے لیکن اسلام نے حق مہر صرف مرد پر فرض کیا ہے اور ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی جائے تو پھر آدھا حق مہر دینا فرض ہے۔ اور ہاتھ لگانے کے بعد پورا حق مہر فرض ہے اور جو کچھ بھی دیا ہے ،اس میں سے کچھ بھی واپس لینا حرام ہے، چاہے خزانے کیوں نہیں دئیے ہوں۔ طلاق کی صورت میں حق مہر کے علاوہ تمام منقولہ وغیر منقولہ دی ہوئی اشیاء عورت سے واپس لینا حرام ہیں۔ رہائشی گھر بھی عورت ہی کا حق ہے لیکن خلع کی صورت میں عورت کو گھر اور غیرمنقولہ جائیداد سے دستبردار ہونے کی قرآن وسنت میں وضاحت ہے۔ اگر مغرب کو پتہ چل گیا کہ علماء ومفتیان ہی نے اسلام کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے اور اصل اسلام اس کے سامنے آجائے تو پھر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے کہ وہ ہمارے معاشرتی نظام کی مخالفت کریں بلکہ مغرب بھی اسلام کے اصلی معاشرتی نظام اور خواتین کے حقوق پر افغانستان وپاکستان سے نہ صرف اتفاق کریگا بلکہ اس کو اپنائے گا بھی ۔ انشاء اللہ العزیز۔دیکھئے… بقیہ_
Page 2 and 3

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

سندھی، مہاجر، پختون، بلوچ، پنجابی، شیعہ سنی، متعہ، حلالہ، طلاق اور خلع کے اختلافات پر دلائل سے بھرپور سید عتیق گیلانی کی تحریر۔

Written by Syed Atiq Gilani, full of arguments on the differences between Sindhi, Muhajir, Pakhtun, Baloch, Panjabi, Shia Sunni, Muta, Halala, divorce and khula.

سندھی، مہاجر، پختون، بلوچ، پنجابی ، شیعہ سنی، متعہ، حلالہ، طلاق اور خلع کے اختلافات پر دلائل سے بھرپورسید عتیق گیلانی کی تحریر

بقیہ صفحہ 2 اور ___3

صفحہ نمبر1اور صفحہ نمبر4کے بہت سارے مسائل کا مختصر تشفی بخش جواب دینے کی کوشش صفحہ نمبر2 ،3پر کروں گا۔ ”جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی” علامہ اقبال نے سچ فرمایا تھا۔ پاکستان بننے کے73سال بعد بھی ہماری سیاست اور دین کے شعبے جدا جدا ہیں۔ بھارت میں نریندر مودی نے ہندوازم کی بنیاد پر مسلمانوں اور اقلیت کا بیڑہ غرق کرکے چنگیزیت کا آغاز کردیا ہے۔ افغانستان میں طالبان ایک ایسے سنگم پر کھڑے ہیں کہ ان کو پتہ نہیں چلتا ہے کہ دنیا کیساتھ چلیں یا دین پر چلیں؟۔پاکستان میں مذہبی اور سیاسی طبقات بھی اپنا اعتماد کھو بیٹھے ہیں۔عوام کو مایوسی سے نکالنے کا واحد راستہ اسلامی روح ہے اور اسلام کے جسم میں روح بیدار ہوسکتی ہے!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

خلع واقتدارمیںبہت بڑا اشتراک_
حضرت آدم و حواء سے لیکر قیامت تک آنے والے ہرانسانی جوڑے میں مرد عورت کا نگہبان اور محافظ ہے۔ جب کوئی مرد کسی عورت سے نکاح کرلیتا ہے تو پھر شوہر اپنی بیگم کو اپنے نکاح سے نکلنے کو اپنی بہت بڑی توہین سمجھتا ہے۔ جب مرد اپنی مرضی سے طلاق دیتا ہے تو عورت کو اپنی مرضی سے جہاں چاہے اس کے بھائی، بھتیجے،رشتہ دار، دوست، پڑوسی اور دشمن سے نکاح کا ناطہ جوڑنے پر بہت سیخ پا ہوتا ہے اور غیرت کھاتا ہے۔ ایسے میں قرآن کا یہ حکم اس کو کہاں ہضم ہوگا کہ عورت اپنی مرضی سے اپنے شوہر سے بخیر وعافیت خلع لیکر کسی اور سے نکاح کی جرأت کرسکتی ہو؟۔ پاکستان کی خاتونِ اول بشریٰ بی بی نے اپنے شوہر خاور مانیکا سے خلع لیکر وزیراعظم عمران خان سے نکاح کیا تو بشریٰ بی بی کی اولاد سے میڈیا کے اینکر پرسن تک پورا پاکستان ہل کر رہ گیا تھا۔ جیو نیوزکے تحقیقاتی صحافی نے دعویٰ کیا کہ ”یہ شادی عدت کے اندر ہوئی ہے”۔ حالانکہ طلاق اور خلع کی عدت میں بہت فرق ہے اور یہ فرق کیوں ہے؟۔ اس کا بھی موقع مل جائے توتفصیل سے بتادیتا ہوں۔ عمران خان نے اور کچھ کیا یا نہیں کیا لیکن بشریٰ مانیکا سے خلع کی بنیاد پر شادی کرکے مدینہ کی ریاست کا ایک حکم زندہ ضرور کردیا ہے۔
جس طرح کوئی ریاست اپنی کسی زمین کے ٹکڑے سے دستبردار نہیں ہوسکتی ہے اور کوئی حکمران اپنا اقتدار نہیں چھوڑ سکتا ہے، اسی طرح کسی شوہر کیلئے عورت کو خلع دینا بہت مشکل کام ہے۔ ریاست پاکستان نے بنگلہ دیش سے اس وقت ہی دستبرداری اختیار کی جب اس کے دشمن بھارت کے سامنے93ہزار پاک فوج نے جنرل نیازی کے کہنے پر ہتھیار ڈال دئیے۔ نیازی ایک غیرتمند قوم ہے مگر جنرل نیازی کی وجہ سے اتنی بدنام ہوگئی کہ عمران خان جیسا انسان بھی نیازی لکھ کرشرم محسوس کرتا ہے۔ بشریٰ مانیکا کی خلع کے بعد شاید مانیکا لکھنے پریہ خاندان شرم محسوس کرے۔ اگر بنگلہ دیش نے بشری مانیکا کی طرح آسانی کیساتھ آزادی حاصل کی ہوتی تو پاکستان اور بنگلہ دیش دوجڑواں بھائیوں کی طرح ہوتے۔
ہندوستان و پاکستان انگریز سے جمہوری انداز میں ایک ساتھ آزاد ہوئے، ان دونوں ریاستوں کو دوجڑواں بہنوں کی طرح محبت سے رہنا چاہیے تھامگر برطانیہ نے مسئلہ کشمیر سے دونوں میں سوکناہٹ پیدا کی۔ ”لڑاؤاور حکومت کرو” کی پالیسی آخری دَم تک انگریز نے نہیں چھوڑی۔ آج بھی امریکہ اور یورپ نے یہ پالیسی اختیار کرنی ہے کہ برصغیر پاک وہند میں جنگ وجدل کا ماحول پیدا کرکے ہماری سستی اناج اور دیگر وسائل پر قبضہ کرلے اور اپنے اسلحہ کے ذخائر ہم لوگوں کو فروخت کرکے اپنے منافع بخش کاروبار کو زیادہ سے زیادہ ترقی پر پہنچائے۔
اگر گھر میں بیوی خوش نہ ہو تو بھاگ کر جانے اور روکنے سے یہ اچھاہے کہ اس کو خوش اسلوبی کیساتھ ہی رخصت کردیا جائے۔ اگر وہ بری لگتی ہے تو ہنگامے مچانے اور دشمنی کی راہ اپنانے کے بجائے رخصتی میں ڈھیر سارے خیر ہیں۔

بانیانِ پاکستان کی اولاد سے عرضی!_
کراچی و حیدر آباد میں بانیانِ پاکستان کی اولادیں رہتی ہیں۔ انیس قائم خانی اور عامر خان کی ایکدوسرے کیخلاف سوشل میڈیا پرویڈیوز تشویشناک ہیں، پہلے بھی متحدہ اور حقیقی کے نام پر لڑائیاں ہوئی ہیں میں وزیرستان کا باشندہ ہوںلیکن اپنے گھر میں اپنے بچوں کیساتھ اپنے علاقے میں بھی اسلئے اردو بولتا تھا کہ اردو ہماری قومی زبان ہے۔ اگرچہ آج تک بدقسمتی سے اس کو سرکاری زبان کا درجہ نہیں مل سکا ہے، جب متحدہ مجلس عمل کی حکومت تھی تو پختونخواہ حکومت نے اردو کو سرکاری زبان دینے کا درجہ دیا تھالیکن اردو اسپیکنگ مہاجر پرویزمشرف نے اپنے نالائق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے اردو کو پختونخواہ کی سرکاری زبان نہیں بننے دیا۔ حالانکہ افتخار چوہدری خود بھی انگریزی نہیں بول سکتا تھا۔
قوم کی امامت کے مستحق وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو پہلے اپنے جسم سے نکلنے والے گند کی جگہ استنجاء کرکے صاف کرلیں۔ قائداعظم محمد علی جناح اور قائد ملت لیاقت علی خان نے پاکستان بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا لیکن اگر وہ پاکستان ہجرت کرکے آنے کی بجائے بھارت میں رہتے تو اصولی طور پر زیادہ اچھا ہوتا۔ ہجرت کے دوران جتنے لوگ اپنے علاقے، وطن، گھروں، خاندانوں ، جانوں، مالوں اور عزتوں سے محروم ہوئے ہیں ، ان سب کی ذمہ داری ان کے سر ہے۔ قائداعظم کی ایک بیٹی دینا جناح تھی جس نے اپنے کزن کیساتھ ہندوستان میں بھاگ کر شادی کی۔ نوابزادہ لیاقت علی خان کی بیگم راعنا لیاقت علی خان ہماری فوج میں اعزازی جنرل بن گئی تھی۔ لیاقت علی خان اور محمد علی جناح کے بعد بیگم راعنا لیاقت اور فاطمہ جناح ان کا کل اثاثہ اور باقیات تھیں۔ جنرل ایوب خان کے قبضے سے پہلے ہی پاکستان پر جن لوگوں کا قبضہ تھا وہ کونسے جمہوری تھے؟لاہور کی عدالت میں جج لاہور کے ڈپٹی کمشنر سے کہتا ہے کہ” عدالت میں شلوار قمیض پہن کر مت آیا کرو یہ عدالت کی بے حرمتی ہے”۔ ذوالفقار علی بھٹو، مفتی محمود، نواز شریف اور عمران خان تک مقتدر طبقات نے شلوار قمیض کو رائج کردیا ہے لیکن ہماری عدالت کے جج کو اب بھی شلوار قمیص محکوم اور جاہل قوم کی نشانی لگتی ہے۔
پختون، پنجابی، بلوچ ، سندھی اور سرائیکی اپنا اپنا کلچرل لباس رکھتے ہیں مگر ہمارے مہاجر بھائیوں کا مشترکہ کلچر پینٹ شرٹ تھا اور یہ ان کا اپنا کوئی دیسی کلچر نہیں تھا بلکہ انگریز کے جانے کے بعد جس طرح انہوں نے اپنے وطن کی قربانی دی ،اسی طرح سے اپنے کلچر کی بھی قربانی دی۔ البتہ انگریز کے بعد اقتدار انکے ہاتھ میں آیا تھا اور اپنے ساتھ ساتھ پوری قوم کے کلچر کو بھی اپنے ساتھ ڈبو دیا۔ ان کی اکثریت آج بھی اپنے گھروں اور خاندانوں میں مارواڑی، گجراتی، میمنی، بہاری، بندھانی،کچھی اور دیگر چھوٹی چھوٹی زبانیں بولتی ہیں اور اکثریت کواردو بھی ڈھنگ کی نہیں آتی ہے۔ اردو کو واحدقومی زبان کادرجہ دینے کے بعد بنگلہ دیش مشرقی پاکستان کی دراڑ وسیع ہوگئی۔ حالانکہ ہندوستان میں22زبانوں کو قومی زبان کا درجہ حاصل تھااور مزے کی بات یہ ہے کہ قائداعظم کو بھی اردو نہیں آتی تھی۔ دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث، قادیانی ، جماعت اسلامی ، شدت پسند شیعہ اور ہندو مسلم تعصبات سب مذہبی ہندوستان سے پاکستان میں منتقل ہوئے ہیں۔ پہلے سندھ کے وڈیروں، بلوچستان کے نوابوں، پنجاب کے چوہدریوں اور سرحد کے خانوں کے مظالم کی بات ہوتی تھی لیکن متحدہ قومی موومنٹ کے کان کٹوں نے تشدد وانتہاء پسندی میں نام پیدا کرکے سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ کراچی پاکستان اور حیدر آباد سندھ کا دارالخلافہ تھا اور ہندوستانی مہاجر کی طرح دوسرے پاکستانی پختون، پنجابی، بلوچ اور سندھی کا بھی اس پر پورا حق تھا لیکن مہاجر نے سمجھ لیا کہ کراچی وحیدر آباد کو کاندھے پر لاد کر ہندوستان سے لایاہے۔ جب اپنے وطن کی قربانی دیدی تو حب الوطنی کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے؟۔ ذرا سوچئے!

سندھی مانڑوں سے کچھ گزارشات!_
ذوالفقار علی بھٹو کے بعد سے آج تک لاڑکانہ مختلف ادوار میں اہل اقتدار کا شہر ہے لیکن اس کا حلیہ اتنا ہی بگڑا ہوا ہے جتنا سندھی وڈیروں نے غریب سندھی کا بگاڑ رکھاہے۔ ہندوستان کی مشہور ، ہردلعزیز، فطرت کی ترجمان شاعرہ لتا حیاء متعصب ہندوؤں سے کہتی ہے کہ مسلمان صبح اُٹھ کر وضو سے اللہ کی بارگاہ میں عبادت کرتا ہے ، تم بھی ذرا اپنا منہ دھو لو۔ حروں کے پیشواء سندھ میں تھے تو مجلس احرار کے قائدین پنجاب میں ۔ مولانا ظفر علی خان احرارکو چھوڑ کر مسلم لیگ میں شامل ہوا۔ پھر زمینداراخبار میں10ہزار روپے کے انعام کیساتھ لکھ دیا کہ ”زمانہ اپنی ہر کروٹ پہ ہزاروں رنگ بدلتا ہے” کہ اگر کسی نے اس شعر کا دوسرا موزوں مصرعہ لکھ دیا۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو بات پہنچی تو برجستہ کہہ دیا کہ ”مگر اس کو بھی حسرت ہے کہ گرگٹ ہو نہیں سکتا”۔
اگر ہندوستانی مہاجراور دیگر صوبوں سے بلوچ، پختون اور پنجابی نہ آتے تو سندھ کے دوسرے شہروں کی طرح کراچی وحیدر آباد میں بھی مچھروں اور مچھیروں کے ڈیرے لگتے۔ ترقی وعروج آنے والوں کا مرہون منت ہے۔ جب سندھی مہاجر فسادات ہوئے تھے تو ممتاز بھٹو نے انتہائی غلیظ گالی مہاجروں کو دی، جس کو اس وقت کے اخبار نے لسانی فسادات کی پرواہ کئے بغیر اپنی دکان چمکانے کیلئے شائع کیا تھا۔ بھوک سے زمانہ اپنے اقدار کے آداب بھلادیتا ہے لیکن جب ترقی ہوتی ہے تو اس سے زیادہ آداب کا پاس نہیں ہوتا۔ حلیم عادل شیخ نے کسی کو کانوں کان خبر نہ دی لیکن جب دعا بھٹو نے اپنے نومولود کو اس کی طرف منسوب کردیا تو سندھ کا کلچر بھی بدل گیا۔ چھپ کے شادی کرنے اور دوسروں پر تنقید کے نشتر برسانے کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ سوشل میڈیا پر مذاق اڑایا جارہاہے کہ بہن بھائی میں شادی ہوگئی۔ جب شہباز شریف نے تہمینہ درانی سے شادی رچائی تھی تو پنجاب کے صحافی اطہر عباس نے پرویزمشرف کے دور میں ایک ساتھ جہاز میں آنے پر غلام مصطفی کھر اور شہباز شریف کے باہمی رشتے کابڑا مذاق اُڑایا تھا۔ پھر وہ دن بھی پنجاب نے دیکھ لیا کہ خاور مانیکا اور عمران خان میں خوشگوار طریقے سے اس سے زیادہ بڑی خبر سامنے آگئی۔ زمانے کی کروٹ کیساتھ لوگوں میں بھی تبدیلوں کا آنا بہت ناگزیر ہے۔ یہ شکر ہے کہ ہندوستانی مہاجروں کی وجہ سے بہت تیزی کیساتھ پاکستان کے مقامی لوگوں نے تبدیلی دیکھ لی ،ورنہ تو دنیا کے اثرات ہم نے پھر بھی قبول کرنے تھے۔ لاؤڈ اسپیکر پر آذان اور نماز کو حرام قرار دینے والے مولانا اشرف علی تھانوی کے پیروکار دارالعلوم کراچی میں مریدوں کو کہتاتھا کہ ”شادی بیاہ میں لفافے کے لین دین سود ہے جسکا کم ازکم گناہ سگی ماں سے زنا کے برابرہے”۔ اس پر مفتی شفیع کے داماد اور شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کے بہنوئی مولانا عبدالرؤف سکھروی کی کتابیں ہیں۔ آج سالے ایسے بدل گئے کہ سندھی داماد تصویر تک نہیں کھینچواتا مگر سالوں نے عالمی سود کو جائز قرار دیا۔

پختون بھائی خوگر حمد سے گلہ سن لیں _
ہم نے مان لیا کہ پاکستان میں خرابی کی اصل جڑ راجہ رنجیت سنگھ سے پنجابی انگریزی فوج تک پنجاب کی قوم ہے۔ پختون، بلوچ، سندھی، مہاجر، سرائیکی، گلگت وبلتستانی اور کشمیری سب کے سب مظلوم ہیں۔ پنجابیوں نے پاکستان کے تمام صوبوں کو اپنا غلام بنایا ہوا ہے۔ انگریز سے آزادی کے بعد پوری قوم پنجاب کی غلامی میں آگئی ہے۔ سرائیکیوں کو وعدوں کے باجود اپنا صوبہ نہیں دیتے ہیں، مہاجروں کو پیپلزپارٹی کے خلاف اٹھاکر بدمعاشوں کو ان پر مسلط کردیا اور پھر ان کا بیڑہ بھی منتشر کرکے غرق کردیا۔ سندھ کو پانی سے محروم کرکے بنجر بنادیااور کوئی نہ کوئی کتا ان کے اقتدار کے پیچھے ہمیشہ لگائے رکھا۔ کراچی میں رینجرزکو مسلط کیا اور اپنے مفادات اٹھانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ سندھ پولیس کو اپنی مہمان مریم نواز کا دروازہ توڑنے پر احتجاجاً ڈیوٹی چھوڑ ہڑتال تک پہنچنا پڑگیا۔ بلوچوں کے وسائل پر قبضہ کرکے ان کی نسلوں کو تباہ کردیا۔ افغان جنگ اور امریکی جہاد سے پختونوں کا لر اور بر میں بیڑہ غرق کردیا۔ پنجاب اور فوج پر جتنی بھی لعنتیں بھیجنا چاہتے ہیں وہ اس کے مستحق ہیں۔ اب تو اسٹیبلشمنٹ کی پیدوار مسلم لیگ ن بھی حبیب جالب کی زبان میں پنجاب کو جگانے اور فوج کے خلاف بہت تندوتیزی کیساتھ اپنے پتے کھیل رہی ہے۔ صحافیوں کو بھی مواقع مل گئے ہیں کہ اپنے ان جذبات کا کھل کر اظہار کریں جن کو اپنے سینوں میں پالتے تھے۔ حبیب جالب کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو اس بات کی اللہ نے سزا دی ہے کہ اس نے شراب پر پابندی لگادی جو واحد وسیلہ تھا کہ جیل کی قیدوبند اور کوڑوں کی سزاسے بے نیاز ہوکر انسان جابر حکمرانوں کے سامنے حق کہہ سکتا تھا۔ حبیب جالب کو نبیۖ کی طرف سے مولانا عبدالستار خان نیازی نے سلام بھی پہنچایا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ حبیب جالب بھی میانی پٹھان تھا جسکا باپ فٹ پاتھ پر جوتے گانٹھتا تھا اور اس کا تعلق غفار خان اورولی خان کی پارٹی سے تھا جو حق کی آواز اٹھاتے تھے۔
لر اور بر کے پختون بھائیوں سے صرف اتنا عرض ہے کہ جس طرح پنجاب کی پاکستان میں حیثیت ہے وہی حیثیت افغانستان میں ازبک، تاجک، ہزارہ اور دیگر چھوٹی قومیتوں کے مقابلے میں پختونوں کو حاصل ہے۔ افغانستان کے بادشاہ امیر امان اللہ خان کیساتھ بچہ سقہ اور اپنے کزن نادر خان نے جو سلوک کیا تھا جو ظاہر شاہ کا باپ تھا۔نادر شاہ، ملاشور بازاراور شیر آغا سے پختونوں کی تاریخ شروع کریں، نجیب اللہ و ملاعمر سے ہوتے ہوئے اشرف غنی و ملا ہیبت اللہ تک یہ سب پختون ہیں۔ پنجابیوں نے پاکستان سے وہ سلوک کیا جو پختون وہاں پر دوسری قوموں کیساتھ کررہے ہیں۔ کبھی شیعہ ہزارہ قتل وغارت سے ہجرت پر مجبور ہوئے۔ کبھی اقتدار کی خاطر ایک دوسرے کو قتل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ کبھی بیرونی قوتوں کی مداخلت کے حق اور مخالفت میں افغانستان کا کباڑہ کردیا اور کبھی اسلام اور سوشلزم و کمیونزم کے جھنڈوں پر ایکدوسرے کیخلاف لڑے۔ بلوچ اگر اپنے وسائل کا رونا روتا ہے تو وہ کسی دوسرے کے علاقے میں بھی نہیں جاتا ہے ، سندھی بھی اپنے علاقے سے نہیں نکلتا ہے۔ پختونوں کے پاس اپنے وسائل ہوتے تو پاکستان کے کونے کونے میں ہر نکڑ پر پختون اپنا روزگار کرتے ہوئے کیوں دکھائی دیتے؟۔ پاکستان قرضے لے لے کر مرگیا لیکن پختون قوم کیلئے بڑے پیمانے پر فنڈز جاری ہوتے ہیں۔ ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان بھی سرائیکیوں کے شہر تھے لیکن پختونوں نے اس پر اپنا قبضہ جمالیا ہے۔ مضافات کی غریب سرائیکی بولنے والی آبادی اب بھی زندگی کی تمام سہولیات سے محروم ہے اور اگر قوم پرستی کے جذبات کو ابھارا جائے تو پورے پاکستان سے پختونوں کے دھکیلنے اور اپنے علاقوں تک سمیٹنے کے ذمہ دار یہی قوم پرست ہونگے۔ امریکہ کی چاہت ہے کہ اس خطے میں قوم پرستی کی بنیاد پر اسلحے کی خریداری کو فروغ ملے۔

بلوچستان کے بلوچوں سے گزارش!_
بلوچ ایک عزتدار، اپنے اقدار اور اپنی روایات میں منفرد قوم ہے۔ جب پاکستان کی دوسری قوموں میں ڈرامے، فلمیں اور اسٹیج ڈانس کی بہتات تھی توپھر واحد بلوچ قوم نے بلوچی فلم کی وجہ سے کراچی میں سینما کو آگ لگادی تھی حالانکہ اس میں سارے کردار دوسری قوم کے ایکٹروں نے ادا کئے تھے۔بلوچ قوم نے اپنی آزادی کیلئے جو تاریخ رقم کی ہے اس کی مثال مشکل سے ملے گی۔ یہ حقیقت ہے کہ بلوچ قوم کی اکثریت پارلیمنٹ، سرکار ی ملازمین اور حکومت سے لڑنے کا موڈ نہیں رکھتی ہے۔ ایسے میں جب قوم دو حصوں میں تقسیم ہو تو اپنا ہی نقصان ہوتا ہے۔جب سکول ٹیچرز،مزدور اور دیہاڑی دار طبقے کو نشانہ بنایا جائے تو ہمدردی رکھنے والوں کی ہمدردیاں بھی ختم ہوجاتی ہیں۔ ایک وقت ایسا تھا کہ قوم کی ہمدردیاں طالبان کیساتھ تھیں لیکن ان کی اُلٹی سیدھی حرکتوں کی وجہ سے عوام میں ان سے بہت نفرت کی فضاء بن گئی۔ بلوچ سرماچاروں سے بھی بلوچ عوام کو بڑی ہمدردیاں تھیں لیکن ان کی اپنی حرکتوں کی وجہ سے وہ اپنا اعتماد کھو بیٹھے ہیں۔
کسی ملک کی فوج اور عوام کے سامنے جب کسی کو دشمن نامزد کیا جائے تو پھر معاملہ بالکل مختلف بن جاتا ہے۔ بلوچ قوم پرست اورTTPنے جب پاک فوج کو اپنا دشمن قرار دے دیا تو پھر فوج نے بھی ان کے ساتھ دشمنوں والا سلوک روا رکھا اور جب دو دشمنوں میں لڑائی ہوتی ہے تو اکثر وبیشتر کمزور کو زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ پاکستان میں کوئی درست سیاسی قیادت نہیں ورنہ فوج کیساتھ کسی کی دشمنی تک بات پہنچنے کی نوبت ہی نہیں آسکتی تھی۔ کراچی پورٹ سے لاہور اور پورے پنجاب تک ریلوے لائن اور قومی شاہراہ موجود تھی۔چین سے بھی لاہور اور پنجاب موٹروے کے ذریعے جڑا ہوا تھا۔ گودار کوئٹہ اور پشاور کے ذریعے بھی لاہور اور پنجاب سے جڑا ہوا تھا۔ آصف علی زرداری نے مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مل کر کوئٹہ اورپشاور کے راستے گلگت سے گوادر تک موٹر وے افتتاح کیا، جو چین کیلئے بھی سب سے مختصر راستہ اور صراط مستقیم کی مانند سیدھا تھا۔ لاہور کیلئے بھی بھول بھلیوں کے مقابلہ میں یہی راستہ ہر لحاظ سے مختصر اور اچھا تھا لیکن نواز شریف نے گوادر سے آواران اور سکھر ، ملتان اور لاہور کی طرف موڑ دیا جو بالکل بھول بھلیاں ہیں۔ آواران میں ڈاکٹر اللہ نذر کی وجہ سے بلوچوں کے گاؤں بھی ایف سی والے پختونوں سے گرادئیے گئے۔ یہ وہ نوازشریف تھا جس نے لاہور کو نوازنے کیلئے گوادر سے کوئٹہ اور پشاور کو محروم کردیا اور چین کے سی پیک کو بھی نقصان پہنچایا۔ مغربی روٹ کا پہلا فائدہ یہ تھا کہ راستہ بہت مختصر تھا ، پیٹرول کی بچت، وقت، ماحولیاتی آلودگی اور دھند سے بچت تھی ۔ دوسرا فائدہ یہ تھا کہ کوئٹہ کو محروم کرکے لاہور کو نوازنے کی بات نہ آتی کیونکہ نوازشریف بلوچستان کی سوئی گیس سے پنجاب کو نوازنے کی بات کرکے بلوچوں کی ہمدردیاں لیتا تھا۔ تیسرا فائدہ یہ تھا کہ ایف سی اہلکاروں کو خونخوار بناکر بلوچوں کو مزید ناراض نہ کیا جاتا۔

پنجابی بھائیوں سے کچھ گزارشات! _
جب کراچی میں ایم کیوایم اور پختونوں کے جھگڑے چل رہے تھے تو علماء نے دونوں طرف کے نمائندوں کو بلایا تھا۔ پختون رہنماؤں نے علماء سے کہا تھا کہ جب ہمیں مارا جارہا تھا تو تم خاموش تھے اور اب جب ہم نے مارنا شروع کیا ہے تو تمہیں اسلامی بھائی چارہ یاد آگیا۔ ان دنوں لسانیت کی ہوائیں چل رہی تھیں۔ مفتی منیر احمد اخون(سوشل میڈیا پرمفتی اعظم امریکہ) مولانا محمد یوسف رحیم یار خان اور مولانا عبدالرؤف کشمیری ہماری جماعت میں پڑھتے تھے۔ طلبہ جمعرات کو اپنی کلاس کی انجمن بناکر تقاریر سیکھنے کی مشق کرتے تھے۔ عبدالرؤف کشمیری نے انجمن کا نام مولانا انورشاہ کشمیری کے نام پر رکھوایا۔ میں نے اس کی مخالفت کی اسلئے کہ لسانیت کی فضا میں ایک کشمیری کا دوسرے کشمیری سے رشتہ تو صرف لسانیت کو ہوا دینے والی بات تھی، میں نے مولانا اشرف علی تھانوی کے نام کی مہم چلائی۔ اساتذہ نے بزم قاسم نانوتوی رکھ دیا جو دونوں کے استاذ تھے۔ منیر احمد اخون کو جنرل سیکرٹری اور عبدالرؤف کشمیری کو بزم کا صدر بنادیا۔ میں نے بحالی جمہوریت کی تحریک چلائی اور ان کو سرکاری مسلم لیگ قرار دیکر مسترد کیا اور ہر کچھ عرصہ کے بعد کنوینر بدلتا رہا۔آخری وقت تک سرکاری مسلم لیگ درسگاہ میں نہ آسکی۔ جب کتابیں ختم ہونا شروع ہوئیں تو مفتی منیراحمد اخون وغیرہ نے طلبہ سے دس دس روپے لیکر مٹھایاں بانٹنا شروع کردیں۔ جس پر پختون طلبہ نے مولانا عبدالسلام ہزاروی وغیرہ کی سرکردگی میں اپنی ایکشن کمیٹی بنائی اور میرے علم میں لائے بغیر مجھے اس کا سربراہ بھی بنادیا۔ جب انجمن میں میرا نام پکارا گیا تو مجھے بڑی حیرت ہوئی کیونکہ اس سلسلے میں کچھ معلومات بھی نہیں تھی لیکن لسانی فضا سے متأثر ہونے پر بڑا دکھ ہوا۔ میں نے تقریر میں کہا کہ پاکستان میں صوبہ سرحد سے ہمارا تعلق ہے لیکن سرحد غیرملک اور اپنے ملک کی اس لکیرکو کہتے ہیں جو اپنی نہیں ہوتی ۔ صوبہ سرحد میں قبائلی پٹی کو علاقہ غیر کہتے ہیں۔ اس میں بھی اپنائیت نہیں ہے۔ قبائلی علاقہ میں وزیرستان سے ہمارا تعلق ہے اور وزیرستان میں وزیر اور محسود ہیں۔ وزیر ہمیں محسود سمجھتے ہیں۔ محسود ہمیں محسود نہیں برکی سمجھتے ہیں اور برکی ہمیں غیر برکی پیراور سید سمجھتے ہیں۔ میں تو اوپر سے نیچے تک ہر سطح پر سب کیلئے غیر ہی غیر ہوں۔ پھر لسانی بنیاد پر اشتعال کو ختم کردیا اور منیر احمد اخون وغیرہ سے بھی کہہ دیا کہ ان کے جذبات کی ترجمانی کیلئے کسی کو ساتھ رکھتے۔اس نے کہا کہ مجھے بالکل یہ احساس بھی نہیں تھا کہ ان کے جذبات مجروح ہونگے اور آئندہ خیال رکھوں گا۔ پنجاب کی اسٹیبلشمنٹ نے ذوالفقار علی بھٹو، نوازشریف اور اب عمران خان کو مسلط کیا ہے لیکن ملک کی دیگر قومیتوں کے علاوہ پنجابیوں کی جان، مال اور عزت کو بھی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ بدمعاش طبقہ کوٹ کچہری کے مسائل کیلئے سیاسی جماعتوں کی پناہ لیتے ہیں اور قبائلی علاقہ جات سے سیٹل ایریا کا حال ہرلحاظ سے بہت بدتر ہے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ جس طرح کوئی سیاسی پارٹی اپنے بدمعاش مافیا کے بغیر نہیں چل سکتی ہے ،اسی طرح اسٹیبلشمنٹ نے بھی مذہبی تنظیموں اور دہشتگردوں کو حالات کو کنٹرول کرنے کیلئے مجبوری میں پال رکھا تھا۔PTMکو جب اپنی قوم اور اس کے بڑے چھوڑ کر گئے تھے اور وہ حوصلہ ہار چکے تھے تو میں نے اسٹیج سے ”یہ جو دہشت گردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے” کے خوب نعرے لگوائے تھے۔اسلئے پھر منظور پشتین اور دیگر رہنماؤں نےGHQکی کال پر وہاں حاضری دی تھی۔ میں نے کہاتھا کہ ریاست نے بھٹو، نوازشریف اور عمران خان جن لاڈلوں کو پالا ، یہ کورٹ میرج والی بیٹیاں ہیں جو اپنے والدین کی تذلیل کرتی ہیں۔ قبائل پر اتنی مشکلات گزری ہیں ، انہوں نے آج تک اُف بھی نہیں کی۔ قائداعظم ،لیاقت علی خان، محمد علی بوگرہ جو بھی حکمران تھے، قبائل نے پاکستان کو قبول کیا جو مغل اور انگریز کے سخت مخالف رہے ہیں۔

رعایا اور عورتوں کے اسلامی حقوق_
اسلام نے دنیا میں فتوحات اسلئے حاصل نہیں کی تھیں کہ مسلمان حکمرانوں نے دوسری دنیا کے مقابلے میں کوئی جدید سے جدید ٹیکنالوجی میں کمال پیدا کیا تھا بلکہ رعایا اور عورتوں کے مثالی حقوق نے دنیا میں اسلام کو پھیلنے کا موقع دیا تھا لیکن افسوس کہ طلاق اور خلع میں جس طرح عورت کا گلہ گھونٹ دیاگیا، اس کے مقابلے میں مغرب اور دیگر دنیا مسلمانوں سے بہت بہتر ہے۔ اسی طرح رعایا کو اسلام نے جو حقوق دئیے تھے تو اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی تھی ۔ قرآن کا کمال یہ تھا کہ مذہبی معاملے میں ایک خاتون نے نبیۖ سے مجادلہ کیا جس کا ترجمہ قائداعظم کا نمازِ جنازہ پڑھانے والے شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانی اور ان کے استاذ شیخ الہند مولانا محمود حسن اور شاہ ولی اللہ اور انکے صاحبزادوں نے ”جھگڑا کرنے ” سے کیا ہے۔ جس میں رسول اللہ ۖ کی رائے کے برعکس وحی اس عورت کے حق میں اللہ نے نازل فرمائی تھی۔ نبیۖ مذہب اور اقتدار میں مسلمانوں کیلئے سب سے زیادہ قابلِ قبول حیثیت رکھتے تھے۔ یہی مطلب اس آیت کا ہے کہ النبی اَولیٰ بالمؤمنین من انفسھم ”نبی مؤمنوں کیلئے اپنی جانوں سے بھی زیادہ اولیت رکھتے ہیں”۔ اسلامی احکام میں فرض، واجب اور سنت کے علاوہ اَ ولی اور غیر اَولی بھی ہوتے ہیں جس کا مطلب مقدم اور غیرمقدم ہے۔ تقدیم کی حیثیت اللہ تعالیٰ نے نبیۖ کی اسلئے مؤمنوں سے منوائی تھی کہ جب ایک عورت نبیۖ سے مجادلہ کرتی ہے تو اگر وہ مناسب اور غلط ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی وحی اور قرآن کے ذریعے سے قیامت تک کے انسانوں کیلئے نمونہ کے طور پر انسانوں کی رہنمائی کیلئے بہترین مثال بناکر رکھ دیتے ہیں کیا کسی ملک اور قوم میں ایک عورت اور حکمران کے مقابلے میں اپنی رعایا کو یہ حق حاصل ہے کہ اس طرح ایک ادنیٰ درجے کی نامعلوم عورت کے حق میں اس طرح سے کوئی فیصلہ ہوجائے؟۔ اسلام کی یہ روح مردوں اور حکمرانوں میں ناپید ہوچکی ہے۔
غدیر خم کے موقع پر نبیۖ نے درجہ بالا آیت پڑھ کرعلی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں رکھ کر اعلان فرمایا کہ من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ ”جس کا میں مولا ہوں یہ علی اس کا مولا ہے”۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی نے اپنے باپ مفتی محمد شفیع کا بتایا تھا کہ ہمارے اساتذہ کے استاذ شیخ الہند کو مولوی کہا جاتا تھا لیکن جب مولانا اور بڑے بڑے القاب رکھنے والے میں علم نہیں ہے اور ان میں علم تھا۔ عربی میں ”نا ” جمع مذکر کی ضمیر ہے جس کا مطلب ”ہمارا” ہے۔ مولا کو مولانا کہنے کا مطلب ہمارا مولا ہے۔ حضرت علی وہ شخصیت تھے کہ جن کونبیۖ نے خود صحابہ کرام کیلئے اپنے دور میں ”مولا” کا خطاب ہی نہیں دیا بلکہ سب سے مقدم ہونے کی تلقین ہونے کی آیت کے حوالے سے اس کی تفسیر بھی بنادیا تھا۔
نبیۖ نے حدیث قرطاس میں چاہا کہ امت آپۖ کے بعد گمراہ نہ ہو جائے لیکن حضرت عمر نے کہہ دیا تھاکہ ”ہمارے لئے قرآن کافی ہے”۔

شیعہ سنی اختلاف اور اس کابڑا حل_
شیعہ اپنے وجود کو سنیوں کی احادیث کی کتب، قرآن کی تفاسیر اور تاریخ کی کتابوں کے حوالے سے نہ صرف زندہ رکھ سکتے ہیں بلکہ بہت سارے سنیوں کو بھی اپنے دل وجان اور عقل ودماغ سے اپنا ہمنوا بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ شیعہ ماحول کو دیکھ کر نرم یا گرم رویہ اختیار کریں لیکن ان کو پورا پورا اعتماد ہے کہ حق پر وہی ہیں۔ سنی اگر مقابلے میں یزید سے لیکر مغل بادشاہ اورنگزیب تک بادشاہی نظام کی حمایت کریںگے تو ہار جائیںگے۔ احادیث، تفسیر اور تاریخ کی بات کا بھی سنیوں کو اُلٹا نقصان ہی ہوگا۔ سوشل میڈیا کو ڈنڈے کے زور پر روکنا ناممکن ہے اور اب یہ معرکہ زور وزبردستی نہیں بلکہ علم وفہم اور اچھی خصلت سے حل ہوگا۔
جب بریلوی دیوبندی اکابر کے مطابق حضرت عمر نے غدیر خم کے موقع پر حضرت علی کرّم اللہ وجہہ کو ” مولا” قرار دئیے جانے پر آپ کو مبارکباد بھی دی تو شیعہ کو یہ حق پہنچتا ہے کہ حدیثِ قرطاس کی بنیاد پر حضرت عمر کی بھرپور مخالفت بھی کریں۔ پروفیسر حمیداللہ سنی اسلامی دنیا کے بہت بڑے اسکالر تھے جس نے ایک پوری کتاب لکھ کر ” حدیث قرطاس” کی صحت پر مقدور بھر جان چھڑانے کیلئے بہت سے سوالات بھی اٹھائے لیکن وہ اس میں بالکل ہی ناکام ہوگئے۔ جھوٹ اور وکالت کا غلط طریقہ اہل سنت کو مزید مشکلات میں پھنسادیتا ہے۔
بہت سارے معاملات میں حنفی مسلک کے اصولِ فقہ میں احادیث صحیحہ کی بھی مخالفت ہے اور حضرت ابوبکر و حضرت عمر کے اقدامات کی بھی مخالفت ہے۔ اے کہ نشناسی خفی را،از جلی ہشیار باش ، اے گرفتار ابوبکر و علی ہشیار باش۔اقبالکی شاعری بھی امت کے کام اسلئے نہیں آئی کہ شیعان علی اور شیعانِ عمرنے اپنا اپنا گروہ بنالیا۔ سپاہ صحابہ سے پہلے مولانا سید عبدالمجید ندیم نے سپاہ فاروق اعظم کی تشکیل کی تھی۔ شاہ بلیغ الدین اور ناصبی علماء شیعہ کے مقابلے میں سپورٹ کیا جانے لگا تھا۔ مولانا حق نواز جھنگوی شہید کی انجمن سپاہ صحابہ کا تعلق جمعیت علماء اسلام فضل الرحمن سے تھا لیکن ان کی شہادت کے بعد اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے آئی ایس آئی نے مولانا ایثارالحق قاسمی کو نوازشریف اور جھنگ سے بیگم عابدہ حسین شیعہ رہنما کے اتحاد سے جھنگ کی سیٹ سے جتوایا۔ وزیراعظم عمران خان کی ایک کلپ سوشل میڈیا پر ہے جس میں وہARYکے کاشف عباسی سے کہتا ہے کہ ”سپاہ صحابہ کے لوگ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ہماری شیعہ سے صلح کروادو۔ آئی ایس آئی نے ہمیں ان سے لڑواکر دشمنی کروائی ہے”۔
جب اسلامی جمہوری اتحاد آئی ایس آئی نے بنائی تھی تو جھنگ سے شیعہ اور سپاہ صحابہ اتحاد کے بانی کون ہوئے؟۔ اسلامی نظریاتی کونسل میں جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام مولانا سمیع الحق گروپ پیش پیش تھے جس نے اہل تشیع اور سپاہ صحابہ کے درمیان ایک دوسرے کی تکفیر نہ کرنے کا معاہدہ کروایا تھا۔ معروضی حالات اس قدر گھمبیر تھے کہ جب ضربِ حق کے نمائندے امین اللہ کو قاضی حسین احمد سے کوئٹہ میں ڈاکٹر عطاء الرحمن نے ملایا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم نے اپنے مضمون میں بہت تفصیل کیساتھ اپنا تجزیہ لکھاتھا کہ مولانا مسعو د اظہر کوا نڈیا کے تہاڑ جیل میں جو آزادی تھی تو وہ مجھے ڈیرہ اسماعیل خان جیل میں بھی حاصل نہیں تھی۔ ہر ہفتہ ضرب مؤمن میں پاکستان کے حالات حاضرہ پر بڑا مضمون چھپتا تھا ۔ جو اس بات کی علامت ہے کہ یہ بھارتی ایجنسی را اورISIکا کھیل نہیں ہوسکتا ہے بلکہ یہ امریکیCIAکا گیم ہے ۔مگر جب قاضی حسین احمد سے نمائندۂ ضرب حق نے سوال پوچھا کہ شیعہ کافر ہیں یا مسلمان ؟ ، تو وہ ناراض ہوگئے کہ مجھ سے یہ سوال کیوں پوچھا۔ یہ اسلامی نظریاتی کونسل کے صدر کا حال تھا۔ شدت پسند شیعہ اور سنی طبقے کو سنبھالنا بہت مشکل کام ہے لیکن خلوص ، ایمان اور اللہ کی مدد سے یہ بہت آسان بھی ہے۔ اس کا علاج بندوق نہیں دلیل ہے۔

شیعہ سنی اتحاد کیلئے لاجواب دلائل؟ _
اگر یہ ثابت ہوجائے اور اس پر اتفاق ہوجائے کہ حضرت علی کو اپنے بعد نبی ۖنے اپنا ولی بنالیاتھا اورحدیث قرطاس میں حضرت علی ہی کو نامزد کیا جانا تھا تو اگر حدیث قرطاس لکھ دی جاتی اور انصار ومہاجرین نبی ۖ کے وصال فرمانے کے بعد خلافت کے جھگڑے سے بچ جاتے۔ حضرت علی ایک متفقہ مولانا بن کر مسندِ خلافت پر بیٹھ جاتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ نبیۖ علم کے شہر اور حضرت علی اس کا دروازہ ہونے کیساتھ ساتھ اقتدار بھی حاصل کرتے۔ حضرت ابوبکرو عمرو عثمان سے انتظام حکومت بھی بہتر چلاتے۔ نبیۖ کو ایک شخص نے زکوٰة دینے سے انکار کیا تو نبیۖ نے اس کے خلاف قتال نہیں کیا۔ حضرت ابوبکر نے قتال کیا تو حضرت عمر کو شروع میں بھی اس پرتحفظات اور وفات ہونے سے پہلے بھی فرمایا کہ کاش ہم نبیۖ سے اس مسئلے میں رہنمائی حاصل کرتے۔ اہلسنت کے چاروں اماموں کا اس پر اتفاق ہے کہ زکوٰة نہ دینے پر حکمران کا رعایا کے خلاف قتال کرنا جائز نہیں لیکن نماز کیلئے بعض ائمہ نے قتل کا حکم نکال کر حضرت ابوبکر ہی کا حوالہ دیا ہے جس کا احناف نے یہ جواب دیا کہ اس سے تو آپ کو بھی اتفاق نہیں ہے تو پھر اس کی بنیاد پر بے نمازیوں کو قتل کرنے کا قیاس بھی غلط ہے۔
ا س بحث کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ جب نبیۖ سے ایک عورت نے مذہبی مسئلے پر اختلاف کیا تو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے عورت کی بات ہی کو اسلام کا حکم قرار دیا تھا۔ اگر بالفرض حضرت علی اور باقی گیارہ ائمہ اہلبیت نے کوئی حکم جاری کیا ہوتا اور وحی کا سلسلہ بھی بند تھا تو کسی امام سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہ ہوتی تو اس کا درجہ کیا نبی ۖسے بھی بڑا تھا؟۔ اور اگر اختلاف کرنا جائز ہوتا تو پھر وحی کے ذریعے رہنمائی بھی نہیں تھی۔ پھر ایک ایسی مذہبی ڈکٹیٹر شپ کا خطرہ ہوتا جس کے ہاتھ میں اقتدار بھی ہوتا۔ پھر مجھے لگتا ہے کہ اہل تشیع کا بارہواں امام غائب اپنے مخالفین سے نہیں حامیوں سے غائب ہوجاتا۔ آج بھی اہل تشیع کا عقیدہ اور مذہبی رویہ اسلام کے مطابق درست ہوجائے تو مہدی غائب ایران میں منظر عام پر آسکتے ہیں۔ اگر حضرت خضر حضرت موسیٰ کے دور سے زندہ ہیں اور حضرت عیسیٰ بھی اپنے وقت سے زندہ ہیں تو امت محمدیہ میں یہ شخصیت بھی زندہ ہو تو اس میں عقیدے پر کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے تھا۔
اگر مذہبی اور سیاسی کرسی الگ الگ نہ ہوتی تو عباسی دور میں امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل اور امام جعفر صادق بھی اپنے مسلکوں کے امام کیسے بن سکتے تھے؟۔ شیعہ مسلک بھی اپنے آگے پیچھے کے اماموں کو چھوڑ کر فقہ جعفریہ اسی لئے کہلاتا ہے۔ اہل سنت اورشیعہ کے امام حسن نے قربانی دیکر اپنے اقتدار کو امیرمعاویہ کے حوالے کردیا تو شیعہ کلمہ و آذان بھی انکے پہلے امام علی کی ولایت تک محدود ہوگئی ۔ حضرت حسین کی شہادت کے بعد باقی ائمہ اہل بیت نے کوئی ایسا راستہ اختیار نہیں کیا کہ اپنے آپکو یا اپنے شیعوں کو لوگوں کے جذبہ اشتعال سے مروادیا ہو تو آج کے شیعہ کیلئے بھی ایسا ماحول پیدا کرنا جائز نہیں کہ اپنے لوگوں کو مروانے کیلئے دوسروں کے مذہبی جذبات کو مجروح کریں۔ جب وہ اپنے اماموں کے خلاف ذرا سی بے توقیری اور توہین آمیزی کو برداشت کرنا گوارا نہیں کرسکتے ہیں تو دوسروں سے بھی یہ توقع رکھنا چھوڑ دیں کہ وہ کسی صحابی کی توہین کو برداشت کرلیںگے۔ جب شیعہ یزید سے حضرت ابوبکر وعمر تک بھی پہنچ جاتے ہیں اور ام المؤمنین حضرت عائشہ کی شان میں بھی گستاخی کرنا ٹھیک سمجھنے لگتے ہیں تو اس کے مقابلے میں سنیوں کا شدت پسند طبقہ بھی ان کو ٹھکانے لگانا اپنا فرض اور دینی غیرت سمجھتے ہیں۔ سعودیہ ، ایران اور افغانستان میں مذہبی جذبہ اور اقتدار اکٹھے ہوگئے تو اسلام نے نہیں فرقہ واریت نے زور پکڑ لیاہے۔

شیعہ کو برداشت کرنے کا منطقی نتیجہ_
جب اہل تشیع حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان سے اختلاف کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں توانصار کے سردار حضرات سعد بن عبادہنے حضرت خلفائ کے پیچھے کبھی نماز بھی نہیں پڑھی۔ جس طرح انصار ومہاجرین ، حضرت سعد بن عبادہ اور حضرت ابوبکر وعمر نے خلافت کو اپنا حق سمجھ لیا اور یہ کوئی کفر واسلام کا مسئلہ نہیں تھا تو حضرت علی اور اہل بیت کا اپنے آپ کو خلفاء راشدین، بنوامیہ اور بنوعباس سے خود کو خلافت کا زیادہ حقدار سمجھنے کا بھی بدرجہ اَولی جواز تھا۔ عربی میں اُولیٰ اور اَولیٰ میں فرق ہے۔ اول کی مؤنث اُولی ہے جبکہ اَولی اسم تفضیل کا صیغہ ہے اور اس کا مطلب مقدم اور غیرمقدم کے معنیٰ میں نکلتا ہے۔ اگر کوئی اسکے معنی سے یہ منطقی نتیجہ نکالتا ہے کہ سورۂ مجادلہ میں عورت کا مجادلہ غلط تھا تو وہ اسلام کی روح کو نہیں سمجھ سکا ہے۔ حضرت علی اور اہل بیت نے خلافت کے مسئلے میں مقدم اور غیرمقدم ہونے کے اعتبار سے ضرور اختلاف کیا تھا لیکن اس کو کفر ونفاق کا مسئلہ نہیں بنایا تھا۔ ورنہ حضرت عمر سے حضرت علی یہ نہیں کہتے کہ آپ جنگ میں خود تشریف نہ لے جائیں اسلئے کہ اگر اس جماعت کو شکست ہوگئی تو آپ مزید کمک بھیج سکیں گے اور اگر آپ خود شریک ہوئے اور شکست ہوگئی تو مشکل پڑے گی۔
اگر شیعہ نہ ہوتے تو اہل سنت کے ائمہ بھی حکمران کیلئے زکوٰة کیلئے قتال کو جائز سمجھتے اور آج سنیوں کا بھی مدرسہ زکوٰة پر نہ چلتا اسلئے کہ اہل اقتدار اس پر اپنا قبضہ کرکے ہڑپ کرنے سے بھی دریغ نہ کرتے۔ حضرت عمر کے کئی معاملات سے حنفی مسلک والے اختلاف کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے تھے۔ ایک آغا خانی شیعہ کو سنی اور شیعہ نے مل کر پاکستان کا بانی بنایا ہے۔ اگر کوئی شیعہ یا سنی مذہب پرست پاکستان کا بانی ہوتا تو آج ہمارے حالات اس سے بھی بدتر ہوتے۔
رسول اللہۖ نے حدیث قرطاس سے دستبرداری اختیار کرتے ہوئے ہمارے لئے مسئلہ آسان بنادیا۔ یہ خوش قسمتی تھی کہ حضرت ابوبکر کی خلافت پر بھی کوئی زیادہ مسئلے مسائل کھڑے نہیں ہوئے اور حضرت عمر کی نامزدگی بھی قبول کی گئی اور حضرت عثمان کی نامزدگی بھی قبول کی گئی لیکن ان سے اختلاف رکھنا کوئی خلافِ شرع بات نہیں تھی۔ یہی وہ رویہ تھا کہ قرآنی آیت کے مطابق اولی الامر سے اختلاف کرنے کی زبردست گنجائش کی امت میں صلاحیت پیدا ہوگئی تھی اور اس اختلاف کو اللہ تعالیٰ نے حضرت حسین کے ذریعے نمایاں کرکے قیامت تک یزیدیت اور حسینیت کے درمیان ایک بہت واضح فصیل کھڑی کردی ہے۔
مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنی کتاب ” تقلید کی شرعی حیثیت” میں قرآنی آیت اور احادیث صحیحہ کے ایسے بخئے ادھیڑ دئیے ہیں کہ فرشتے بھی الحفیظ والامان کی صدا آسمانوں سے بلند کرتے ہونگے۔ جب پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے اکثر علماء ومفتیان اور مدارس نے شیعہ کو متفقہ طور پر کافر قرار دیا تو مفتی تقی عثمانی نے سرکاری مرغے کی حیثیت سے اس پر دستخط نہیں کئے۔ جب اس نے اپنے اور اپنے بھائی کیلئے دارالعلوم کراچی میں ذاتی مکانات خریدے تو مفتی رشید احمد لدھیانوی نے فتویٰ دیا کہ” وقف مال خریدنے اور فروخت کرنے کی شرع میں اجازت نہیں ہے اور یہ بھی شریعت میں جائز نہیں کہ ایک ہی آدمی بیچنے وخریدنے والا ہو”۔ اس پر اپنے استاذ کی تاریخی پٹائی لگائی تھی۔ یہ شکرہے کہ خلافت پر کسی سید کا قبضہ نہیں تھا ورنہ وقف مال کی طرح بہت سارے معاملات پر پتہ نہیں ہے کہ سادات بھی کہاں سے کہاں تک پہنچتے، جیسے آغا خانی سادات پہنچے ہیں۔
اگر سنی اپنے خلفاء اور ائمہ سے اختلاف کرسکتے ہیں تو اس میں شیعہ لوگوں کو برداشت کرنے کا بڑا عمل دخل ہے۔ اب اگر فقہی مسائل میں سنیوں کی غلطی بھی ثابت ہوجائے تو مسئلہ نہیں لیکن شیعہ کی غلطی ثابت ہوگئی تو وہ مٹ جائیں گے۔

داعش اور کالعدم سپاہ صحابہ کیلئے راہ!_
داعش دنیا میں خلافت کا نفاذ اور لشکر جھنگوی والے اہل تشیع کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ دونوں اپنے اپنے مقاصد میں تشدد کے ذریعے کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ خلافت کا نفاذ اور اہل تشیع کو راہِ راست پر لانا تشدد نہیں دلائل کے ذریعے سے ہی ممکن ہے۔ طالبان، ایران اور پاکستان داعش اور لشکر جھنگوی کو ختم کرنے پر متفق نظر آتے ہیں۔ شدت پسندانہ نظریات کسی کے پیدا کرنے سے نہیں بلکہ یہ فرقہ وارانہ مزاج کے لوگوں میں اس کی آبیاری کرنے کی کوشش کا نتیجہ ہے۔
امریکیCIAنے9/11کا واقعہ اسلئے ہونے دیا کہ جس عراق کو1990ء میں بمباری سے مسخر نہیں کیا جاسکا تھا وہ افغانستان میں طالبان کے بعد یہاں تک پہنچادیا گیا کہ عراق کے سنی کردجج نے صدام حسین کو پھانسی پر چڑھانے کا حکم دیا تھا۔ پھر لیبیا میں قذافی کو بھی اپنوں کے ہاتھ شکست دیکر انجام تک پہنچایا امریکہ نے تیل کے ذخائز پر قبضہ کرکے پاکستان کے حکمرانوں کا ضمیر بھی ختم کیا تھا۔ پرویزمشرف کے ریفرنڈم کیلئے عمران خان بندر کی طرح اپنی دُم اٹھاکر جس امپائر کے ڈنڈے پر ناچتاتھا ،اس وقت تحریک انصاف کا جنرل سیکرٹری معراج محمد خان ریفرینڈم کی مخالفت کررہاتھا۔ ایسا لیڈر خاک کوئی جماعت یا ادارے بنانے کی صلاحیت رکھتا تھا لیکن ہماری عوام اور ادارے بھی بہت سیدھے ہیں۔
داعش اور لشکر جھنگوی کے کارکن اور رہنما اپنی جانیں ضائع کرنے اور ملک و قوم کی تباہی کا ذریعہ بننے کے بجائے تشدد کے روئیے سے کھل کر دستبرداری ہی کا اعلان کریں۔ اہل تشیع کے شدت پسند طبقات بھی اپنے دلائل شائستہ طریقے سے پیش کریں تاکہ اس خطے میں ہماری ریاست اور حکومت کو اپنی طرف سے مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے۔ طالبان کو اقتدار مل گیا ہے لیکن وہ اپنی اس فتح پر بھی پریشان ہیں۔ ملک وقوم کو چلانے کیلئے ان کے پاس وسائل نہیں ہیں۔
ہمارے پاکستان کے حکمرانوں اور مقتدر طبقے نے ابھی تک دنیا اور اپنی عوام کے سامنے یہ واضح نہیں کیا کہ انہوں نے دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے امریکہ اور نیٹو کا ساتھ دیکر قربانیاں دی ہیں یا پھر امریکہ کوبڑی شکست دلوائی ہے؟۔ یہ کنفیوژن طالبان رہنماؤں سے لیکر ہمارے مولانا فضل الرحمن تک سب میں پائی جاتی ہے ۔ امریکی فوج کا بہت کم نقصان ہوا اور مسلمانوں کو زیادہ نقصان اٹھانا پڑاہے۔کابل کی فتح پر ایگریمنٹ کے مطابق امریکہ اور طالبان نے عمل کیا تھا لیکن پنجشیر کو بہانہ بنایا جارہاہے۔ سارے افغانستان میں نیٹو کے ہوتے ہوئے طالبان کو فتح مل گئی تو پنجشیر کا فتح کرنا بھی بڑا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔
عمران خان نے فوج کی مخالفت کرنے کے بعد امپائر کی انگلی اٹھنے کا ذکر کیا اور پھر اس پر چڑھ گیا۔ نوازشریف اور پیپلزپارٹی بھی اسی امپائر کی انگلی ہی کے خمیر سے وجود میں آئے ہیں۔ رسول اللہ ۖ نے میثاق مدینہ کا معاہدہ یہود اور نصاریٰ سے کیا تھا اور مشرکینِ مکہ سے صلح حدیبیہ کا معاہدہ کیا تھا لیکن جس لشکر کی طرف سے قریشِ مکہ کے مشرکین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا وہ بھی تعریف کے قابل تھا۔ پھر جب مشرکینِ مکہ نے ان کے شر سے بچنے کیلئے نبیۖ سے گزارش کی کہ اپنے ان مسلمانوں کو اپنے پاس بلوائیں تو نبیۖ نے ان کو بلالیا تھا۔ میثاق مدینہ داخلی اور صلح حدیبیہ کا معاہدہ امورخارجہ کے حوالے سے تھا۔
داعش اور لشکر جھنگوی سمیت تمام شدت پسند طبقات کو چاہیے کہ قرآن اور سنت کے مطابق عالمی اسلامی خلافت کیلئے امور کی نشاندہی کریں کہ جن سے حکمرانوں کی طرف سے اپنی رعایا عوام اور خواتین کو بھرپور انصاف اور حقوق مل جائیں۔ پھر دنیا کی تمام اسلام اور مسلمان دشمن قوتیں گرم جوش دوست کی طرح حمایتی بن جائیں گی۔ اسلام نے بہت کم جانی نقصان پر انقلاب برپا کیا تھا۔

نکاح ومتعہ اور اسلام کاروح رواں_
جب ہماری صحیح بخاری میں ایک طرف یہ حدیث ہو کہ ” فتح خیبر کے موقع پر متعہ اور گھریلو گدھے کا گوشت حرام قرار دیا گیا تھا”۔ اور دوسری طرف یہ حدیث ہو کہ نبیۖ نے فرمایا کہ ”ایک دو چادر یا معمولی چیز کے بدلے بھی متعہ کرسکتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا ہے کہ ان چیزوں کو اپنے اوپر کیوں حرام کرتے ہو ، جس کو اللہ نے تمہارے لئے حلال کیا ہے”۔ تو دونوں روایات میں زیادہ جان کس میں ہے؟۔ جبکہ پہلی روایت حضرت علی کا قول اور دوسری روایت نبیۖ کی طرف منسوب ہے اور اس میں پھر قرآن کی آیت کا بھی نبیۖ نے حوالہ دے دیا ہے۔ پہلی روایت ہے کہ فتح خیبر تک نبیۖ اور صحابہ العیاذ باللہ گدھے کھایا کرتے تھے۔ حالانکہ قرآن میں گدھے، گھوڑے اور خچر کو سواری اور زینت کیلئے بنانے کی وضاحت ہے ، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عرب پہلے بھی ہماری ہی طرح ان کو کھانے کی چیزنہیں سمجھتے تھے بلکہ سواری کے کام میں لاتے تھے۔
دوسری بات یہ ہے کہ صحیح مسلم میں ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر نبیۖ نے متعہ کو جائز قرار دے دیا۔ تو کیا فتح خیبر کے موقع پر حرام قرار دینے کے بعد اس کی اجازت دی جاسکتی تھی ؟۔ تیسری بات یہ ہے کہ صحیح مسلم میں ہے کہ نبیۖ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے ابتدائی دور تک ہم عورتوں سے متعہ کرتے تھے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ اہل سنت کے نزدیک حضرت عبداللہ بن مسعود کے مصحف میں قرآنی آیت میں وقتی نکاح یعنی متعہ کی اجازت کا اضافہ بھی تھا جو احناف کے نزدیک قرآنی آیت کے حکم میں ہے۔ شیعہ سنی علماء اگر ڈاکٹر فضا کی موجودگی میں بول نیوز کے پروگرام میں ان باتوں کی وضاحت کردیتے تو عوام میں بہت زیادہ شعور پیدا ہوتا۔ قرآنی آیات میں نکاح کیساتھ ایگریمنٹ کا بھی ذکر ہے اور ان آیات کی درست تشریح سے شیعہ سنی میں ایک انقلاب آسکتا ہے۔
آدم کے جسم میں روح کی نسبت اللہ نے اپنی طرف کی۔ سورۂ اسراء میں فرمایاکہ ” آپ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں کہہ دیجئے کہ روح اللہ کے امور میں سے ہے اور اس کا علم تمہیں نہیں دیا گیا مگر بہت کم ”۔ روح اللہ کے عام امور میں سے ایک قدرتی امر ہے، انڈے کو مطلوبہ گرمائش جب فراہم ہو جائے تو چوزہ بننا شروع ہوجاتا ہے، اسی طرح گندم کا بیج جب مٹی میں رکھ کر اس کو پانی دیا جائے تو اس میں روح آجاتی ہے۔ فارمی جانور، پرندے اور پھل پودوں میں جو انقلاب آیا ہے یہ اللہ کی تخلیق کی ادنیٰ جھلک ہے۔ حضرت عیسیٰ و حضرت آدم کی پیدائش میں قدرت کے عام قاعدے سے ہٹ کر اللہ نے روح پھونک دی اسلئے ان کی نسبت اپنی طرف کردی ہے۔ انسان کائنات کا روح رواں ہے اور روز کی نت نئی ترقی سے اس کا مزید ثبوت مل رہاہے۔
اسلامی احکام کی اصل صورتحال سامنے آجائے تو شیعہ سنی ، بریلوی دیوبندی اور حنفی اور اہل حدیث اپنے اپنے فرقوں اور مسلکوں کو بھول کر اسلام کی طرف ہی متوجہ ہوںگے۔ اسلام کا اصل روح رواں قرآن ہے اور قرآنی احکام کو مسلمان چھوڑ کر فرقہ واریت کی دلدل میں پھنس گیا ہے۔
قرآن و سنت میں نکاح و طلاق ، حق مہر ، رجوع، خلع اور ایگریمنٹ کے جن تصورات کا ذکر ہے اگر آیات سے موٹے موٹے احکام نکال کر دنیا کو دکھائے جائیں تو پوری دنیا اسلام کے معاشرتی نظام کو قبول کرنے میں ذرا دیر نہیں لگائے گی۔ اہل سنت اپنے ائمہ کی اجتہادی غلطیوں کو درست کردیں گے اور اہل تشیع اپنے ائمہ معصومین کی طرف منسوب قرآن و سنت کے واضح احکام کے خلاف اپنا غلط مسلک دیکھ کر دم بخود رہ جائیں گے۔ مشکل یہ ہے کہ مذہبی طبقات نے اب اسلام کو اپنی تجارت اور تجوریاں بھرنے کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ اللہ ہدایت دے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مفتی تقی عثمانی، مولانا فضل الرحمان، مولانا فضل غفور، وفاق المدارس اور وزیرستان کے محسود قبائل

مفتی تقی عثمانی، مولانا فضل الرحمن، مولانا فضل غفور، وفاق المدارس اور وزیرستان کے محسود قبائل

ہر شاخ پر اُلو بیٹھا ہے انجامِ گلستان کیا ہوگا؟۔الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے اسکرینوں پر سیاستدان، صحافی، جرنیل، بیوروکریٹ، قوم پرست،علماء اور مذہبی طبقوں کے علاوہ ملحدین اپنی اپنی طوطی اور مینا کی زبانیں بولنے کی کوشش میں عجیب وغریب انجام کی طرف لے جانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ ضرورت نہ ہو توبولنے کی جگہ خاموشی کو ترجیح دیتے لیکن کوئی کسی سے بھاڑہ لیکر بولتا ہے اور کوئی خوامخواہ بکواس کی عادت سے سخت مجبور بھی ہے

جاگ اُٹھے ہیں شعور کے دیوانے دنیا کو جگاکر دَم لیںگے،یزیدیت کیخلاف حسینیت کی کامیابی تک راہِ وفا میں اپنی قسمت کے
ستم لیںگے،ڈرنے والے اپنی دُم دباکے سنبھالیں اورہمیںتکتے رہیں، چاہے ہاتھ ہوں ہمارے قلم ہم اپنے علم لیںگے!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

وفاق المدارس اور جامعة الرشید بورڈ
وفاق المدارس العربیہ پاکستان دیوبندی علماء کا سرکار سے منظور شدہ بورڈ ہے ۔ جن مدارس کا وفاق المدارس سے الحاق ہے وہ اپنے فضلاء کو اپنے مدارس کی سند بھی دیتے ہیں۔ پختونخواہ کی حکومت بنوں کے مدارس کی سند پر بھی اپنے سرکاری ٹیچر کو بھرتی کرتی ہے۔ اکوڑہ خٹک حقانیہ سے وفاق المدارس کے علاوہ اپنے نالائق فضلاء کو اپنی طرف سے بھی دستارفضلیت کی سندیں دی جاتی ہیں۔
جامعة الرشید کے مولانا مفتی عبدالرحیم ایک انتہائی مکار، چالاک اور بیکار انسان ہے۔ اس کی جعل سازی کے بڑے شواہد ہیں۔ مفتی رشیداحمدلدھیانوی کے دستخط کا بھی مفتی عبدالرحیم مجاز تھا جو استاذ اور شاگرد کی جعل سازی کا بہترین ثبوت ہے اور پھر اپنی اصلی تحریر اور دستخط سے مکر جانے کا بھی ریکارڈ قائم کیا تھا۔
مولانا سلیم اللہ خان کے علم اور کردار سے اختلاف ہوسکتا تھا لیکن ان میں وفاق المدارس کے صدر بننے کی اہلیت دوسروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ تھی۔ نام نہاد شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کو وفاق المدارس کا صدر بنانا زیادہ اہم بات نہیں ہے لیکن اصولی طور پر مفتی تقی عثمانی کو جامعة الرشید کے نئے بورڈ مجمع علوم اسلامی کا چیئرمین ہونا چاہیے تھا۔ معاوضہ لیکر سودی نظام کو اسلامی قراردینا جامعة الرشید اور دارالعلوم کراچی کا مشترکہ وطیرہ تھا۔ جامعہ بنوری ٹاؤن نیوٹاؤن کراچی،جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی، جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک پاکستان بھر کے تمام بڑے مدارس نے سودی نظام کی سخت مخالفت کی تھی۔ ایک انتہائی نالائق اور متنازع شخصیت کو اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے وفاق المدارس کا صدر بنانا قاری محمد حنیف جالندھری جیسے مفادپرست اور مولانا فضل الرحمن جیسے سیاستدان کے اپنے کام ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کہا کرتے تھے کہ جو نماز کی امامت کا اہل نہیں ہے وہ اقتدار کا بھی اہل نہیں لیکن جب موقع آیا تو علماء کی کثیر تعداد کے باوجود اکرم خان درانی کو داڑھی رکھواکر دنیا سمیٹنے کیلئے وزیراعلیٰ بنوادیاتھا۔

مولانا فضل غفور کاخواب اور علماء
جمعیت علماء اسلام کے مولانا فضل غفور نے کسی عالم کاایک خواب بیان کیا کہ ” خانہ کعبہ میں رسول اللہۖ کے دائیں جانب پاکستان کے علماء ہیں بائیں جانب عالم اسلام کے حکمران ہیں۔سعودی حکمران شاہ محمدبن سلمان نبیۖ کے بائیں پاؤں کی انگلیاں کاٹ رہاہے اور پاکستان کا وزیراعظم عمران خان بائیں ہاتھ کی انگلیاں کاٹ رہاہے۔ نبیۖ کا ستر کھلا ہوا ہے اور پاکستان کے علماء ستر کو چھپانے کی کوشش کررہے ہیں”۔ اس پر بعض دیوبندی علماء نے مولانا فضل غفور کو گستاخ اور واجب القتل قرار دیا اور بعض نے بھرپور دفاع کیا۔ پشتو زبان میں علماء کے ڈھیر سارے بیانات ہیں اور اردو میں بھی سوشل میڈیا پر ہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ دونوں طرف کے علماء کی صف بندی کرکے عوام کو ایک تماشہ دکھا دیں کہ ان میں کتنی غیرتِ ایمانی اور قربانی کا جذبہ ہے اور عوام سمجھ لیں کہ ان کو لڑانے والے خود کتنے لڑنے کی ہمت رکھتے ہیں؟۔مفتی تقی عثمانی کے ایک شاگرد نے درمیانی راستہ نکالتے ہوئے ایک طرف یہ واضح کیا کہ مولانا فضل غفور کا مقصد گستاخی نہیں تھا لیکن یہ بڑی سنگین گستاخی ہے ، کوئی کسی کی ماں بہن کیساتھ خواب میں جماع دیکھے گا تو اس کو بیان کریگا؟۔ مولانا فضل غفور معافی مانگ لیں اور جس شیخ الحدیث مولانا ادریس نے فضل غفور کا دفاع کرتے ہوئے امام بخاری کے خواب کا حوالہ دیا ہے اس نے مزید سنگین گستاخی کی ہے۔ فوجی کا مجھے فون آیا کہ تین دن سے سو نہیں سکا ہوں کہ میں اور مولانافضل غفور کس طرح زندہ ہیں؟۔ اس گستاخی پر اب تک مجھے اس کو قتل کردینا چاہیے تھا۔مولانا سحبان محمود نے امام بخاری کے الفاظ کا ادب سے ترجمہ کیا ہے۔ امام ابوحنیفہ سے کسی نے اپنا خواب بیان کیا کہ میں نے نبیۖ کو ننگا دیکھا تو امام صاحب نے کہا تھا کہ اس کی تعبیر یہ ہے کہ تم خود ننگے ہو۔ مفتی تقی عثمانی کے اس شاگرد کا بیان جس گستاخی پر شروع ہوتا ہے ،اسی پر ختم بھی ہوجاتا ہے اور یہ جہالت کی انتہاء ہے۔

مولانا فضل الرحمن کی سیاسی کامیابی
مولانا فضل الرحمن نے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے اسٹیبلشمنٹ کیخلاف جو بیانات دئیے ہیںوہ ایک طرف ڈھال کے طور پرمفتی تقی عثمانی کو وفاق المدارس کا سربراہ بناکر استعمال کررہے ہیںاور دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ن لیگ کو استعمال کررہے ہیں۔ بظاہر جمعیت علماء اسلام کی کشتی کیلئے دونوں چپو بڑے توانا معلوم ہوتے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی کے پشتون شاگرد عالم دین کو ایک طرف ایک رئٹائرڈ فوجی کا عشق رسول ۖکا جذبہ نظر آتا ہے اور اسی وجہ سے وہ مولانا فضل غفور کو توبہ کی دعوت دیتے ہیں اور اس کی حمایت کرنے پر دوسروں پر برستے ہیں لیکن دوسری طرف امام ابوحنیفہ کے اسی طرح کے خواب کی تعبیر کرنا مناسب خیال کرتے ہیں۔ یہ شعور وآگہی کی موت نہیں تو اور کیا ہے؟۔
مولانا فضل الرحمن نے ساری زندگی اسٹیبلشمنٹ اور سرکاری سیاستدانوں اور علماء کی مخالفت میں گزاردی ہے لیکن آخری عمر میں جدوجہد نہیں نیت کا شاید ان کو ثمرہ مل رہاہے۔ اعمال کا دارومدار نیتوں پرہوتا ہے۔ نیت دکھانے کیلئے اللہ انسان کو ہمیشہ موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ہمارا خود ساختہ مذہبی اور سیاسی نظام اب ناکامی کے کنارے لگ چکا ہے۔ عوام کے سامنے افغانستان کے طالبان کی بھی تصویر ہے اور پاکستان کی ریاست کی بھی تصویر ہے۔ سزا یافتہ نوازشریف ، مریم نواز بیرون ملک اور اندرونِ ملک آزاد ہیں اور تحریک انصاف کے وہ کارکن بھی زندہ ہیں جو ایک بین الاقوامی بھکاری عمران خان کی بات پر یقین رکھتے تھے کہ ”مرجاؤںگا مگر بھیک نہیں مانگوں گا”۔ تجزیہ نگار جنرل اعوان کہتا ہے کہ مزدورسچا نہیں کہ وہ بیروزگار ہے، بیلچہ بھیک کی علامت ہے اور وزیراعظم سچ کہتا ہے کہ ”ملک میں بیروزگاری نہیں ہے”۔ زرداری کھانے کیلئے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے کھڑا تھا، نوازشریف بیٹھا تھا اور عمران خان لیٹ گیا ہے۔ کھاؤ پیواور ملک مکاؤ پروگرام میں سب شریک ہیں۔ بھاری سودی قرضہ اور ٹیکس کا بوجھ لادا جاتا ہے۔

وزیرستان کی بہت بڑی کمزوری کیا ؟
وزیرستان کے محسود قبائل میں سب سے بڑی کمزوری مال کا لالچ تھی۔ اب انتہائی آزمائش سے گزرنے کے بعد یہ کمزوری اپنا دم توڑ رہی ہے۔ حادثہ پیش آتا ہے تو معاملے کا پتہ چلتا ہے۔ کانیگرم کے پیر خاندان کے ایک شخص نے محسود قبیلے کے ایک شخص کو کچل دیا۔ دونوں کا آپس میں کوئی تعارف اور تعلق نہیں تھا مگر ایک پیسہ لئے بغیر محسود خاندان نے معاف کردیا۔ یہ ایک بہت بڑا انقلاب ہے اور اس کی توقع صدیوں میں بھی نہیں ہوسکتی تھی لیکن محسود بہت بدل گئے ہیں۔
محسود ایک زبردست صفات رکھنے والی عظیم قوم ہے مگر ان کی تعلیم وتربیت کیلئے کسی استاذ نے کوئی محنت نہیں کی ہے۔ فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی یا بندۂ صحرائی یا مردِ کوہستانی۔ لاکھوں میں ایک بھی پیدا ہو تو قوم کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ ایک مشہور بدمعاش خاندان کے فرد نے طالبان کیساتھ مل کر ایک گھر سے بھتہ وصول کرنا چاہا، جس پر دونوجوان اور ناتواں لڑکوں نے کلاشنکوف اٹھاکر اپنا دفاع کیا اور اس ایک فرد کو موت کی گھاٹ اتار دیا اور باقی سب بھاگ کھڑے ہوگئے۔ پھر اس بدمعاش خاندان نے اپنے غنڈے طالب کی دیت بھی وصول کرلی۔ اگر یہ روایت ہو کہ طالبان جس کو ماردیں تو اس کی پرواہ نہ ہواور طالبان مارا جائے تو اس کی قیمت وصول کی جائے۔ یہ محسود قوم کی تاریخ پر سب سے بڑا بدنما داغ ہے۔ سول وملٹری اسٹیبلشمنٹ،قبائلی عمائدین اورپی ٹی ایم مل کر اس مصیبت سے اس قوم کی جان چھڑائیں۔ بنوںسے ڈیرہ اسماعیل خان تک بات مشہور ہے کہ ”بوڑھے بوڑھے لوگوں کو موٹر سائیکل خرید کر دئیے گئے ہیں کیونکہ کرونا سے ویسے بھی انہوں نے مرنا ہے تو بہتر ہے کہ کسی کی گاڑی کے نیچے آکر ورثاء کیلئے سات آٹھ لاکھ کی دیت کا ذریعہ بن جائیں”۔
رونے دھونے سے انقلاب نہیں آتے بلکہ جو استنجاء سے اپنا گند صاف کرتا ہے وہی اپنی اور پوری قوم کی امامت کے قابل ہوسکتا ہے۔دیکھئے…
بقیہ_
Page 2 and 3

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

افغان طالبان کے لیے اسلامی آئین میں خواتین کے حقوق کے لیے چند بنیادی نکات

افغان طالبان کیلئے اسلامی آئین میں حقوق خواتین کے چند بنیادی نکات

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

1:خواتین کا درست شرعی پردہ
ےٰا ایھا النبی قل لازواجک وبنٰتک و نسآء المؤمنین… O
ترجمہ” اے نبی! اپنی بیبیوں،اپنی بیٹیوں اور مؤمنوں کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی چادروں کا کچھ حصہ اپنے اوپر لٹکایا کریں تاکہ وہ پہچانی جائیں تو انہیں تکلیف نہ دی جائے۔بیشک اللہ بخشنے والا رحم والا ہے۔(الاحزاب:58، 59)
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمَْ …(سورہ نور:30، 31)
ترجمہ: ”مومنوں سے کہہ دیں کہ اپنی نظریں نیچی رکھیںاور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ۔ یہ ان کیلئے زیادہ پاکیزگی ہے اور اللہ جانتا ہے جو وہ اپنی طرف سے گھڑتے ہیں اور مومنات سے کہہ دیجئے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں ۔ اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کسی کے سامنے نہ دکھائیں مگر جو ان میں سے ظاہر ہوجائے۔ اور اپنی چادروں کو اپنے سینوں پر ڈالیں اور اپنی زینت کو نہیں دکھائیں مگر اپنے شوہروں کے سامنے یا اپنے باپ کے سامنے یا شوہروں کے باپ کے سامنے یا بیٹوں کے سامنے یا شوہروں کے بیٹوں کے سامنے یا بھائیوں کے سامنے یا بھتیجوں کے سامنے یا بھانجوں کے سامنے یا اپنی عورتوں کے سامنے یا جن کے مالک ان کے معاہدے ہوں یا ان تابع مردوں کے سامنے جن میںرغبت نہ ہو یا ان بچوں کے سامنے جو عورتوں کے پوشیدہ رازوں سے واقف نہیں اور اپنے پیر نہ پٹخیں تاکہ چھپی ہوئی زینت کا پتہ چلے اور اللہ کی طرف سب توبہ کرو اے مومنو! ہوسکتا ہے کامیاب ہوجاؤ”۔
جب طالبان کے روایتی پردے کا تصور اجاگر ہوتا ہے تو ان آیات پر عمل کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے۔ اسلئے کہ نظروں کی حفاظت کا ماحول نہیں ہوتا۔
اللہ نے مسلمان عورتوں کو اپنی زینت چھپانے کا حکم دیا ہے لیکن کافروں پر زبردستی پردہ کرانے کی بات تو بہت دور کی ہے مسلمانوں پر بھی زبردستی نہیں تھوپی ہے۔ سعودی عرب اور ایران نے جس بات کواسلامی حکم سمجھ کر عمل کرانا شروع کیا تھا تو اس کا قرآن وسنت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ طالبان ان کی تقلید نہیں کریں اور عورتوں کو آزادی اور تحفظ دیں تو ان کی ساری مشکلات ختم ہوجائیں گی۔
عورت کی زینت کو اردو میں ” حسن النسائ” کہتے ہیں۔ عورتوں کی اضافی چیز حسن النساء ہے۔ یہی ان کی زینت ہے۔ عورت اپنے شوہر اور اپنے محرموں کے سامنے دوپٹہ نہ لیں تو قرآن نے اجازت دی ہے۔ مسلمان عورتوں کی اکثریت اسلام کے فطری حکم پر عمل کرتی ہے۔ دوپٹہ لینا بھی خواتین کیلئے مشکل ہے۔ مخلوط معاشرے میں خواتین اہتمام کرتی ہیں۔ خاتون صحابیہ جب وہ گھر سے باہر نکلنے لگیں تو دوپٹہ لے لیا”۔ (بخاری)یعنی اپنے گھر میں دوپٹہ نہ تھا۔
دورنبویۖ میں عورتیںرفع حاجت، لکڑیاں لینے، پانی بھرنے، پنج وقتہ نماز، اقرباء کے ہاں جاتیں۔طواف، حج وعمرہ، مجاہدین کی خدمت کرتی تھیں۔ مدارس ،،دفاتر، کالج ویونیورسٹیوں کا وجود نہ تھا لیکن جس معاشرے کا زمانہ تھا تو مرد کے شانہ بشانہ عورت کی سرگرمیاں تھیں۔ غلام اور لونڈی کا وجود تھا۔ لونڈیوں کا لباس بہت مختصر ہوتا تھا۔ فقہ کی کتابوں میں ان کا فرض ستر بہت کم ہے۔ جب طالبان قرآن وسنت کی طرف دیکھ لیں تو کامیاب نظام بنانے میں دیر نہ لگے۔

2:خواتین کو تحفظ فراہم کرنا
لَّئِنْ لَّمْ یَنْتَہِ الْمُنَافِقُوْنَ وَالَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھم……
اگر باز نہیں آتے منافقین اور جن لوگوں کے دلوں میں مرض ہے اور افواہیں اُڑانے والے شہر میں تو ہم تجھے ان پر مسلط کردیں گے، پھر یہ آپ کے پڑوسی نہیں رہیں گے مگر تھوڑی مدت۔ملعون ہیں ،جہاں پائے گئے پکڑے جائیں قتل کئے جائیں بے دریغ قتل ۔یہ اللہ کی سنت رہی ہے پہلے لوگوں میں بھی اور آپ اللہ کی سنت کو بدلا ہوا نہیں پاؤ گے” (سورۂ احزاب ،آیات:61، 62)
اگر طالبان نے یہ تأثر قائم کردیا کہ انکے اقتدار میں جبر کا ماحول نہیں تو دنیا سے سارے افغانی واپس آجائیں گے۔ سورۂ احزاب کی آیات کے مطابق اگر کفار کی خواتین اپنے سینوں پر دوپٹے نہ بھی لیں تو یہ ان کی مرضی ہے اور اگر مسلمان خواتین اس حکم پر عمل نہ کریں تو بھی ان کو مجبور کرنے کا اللہ نے حکم نہیں دیا۔ اگر طالبان نے اس آیت کے حکم کو سمجھ کر اس پر عمل کرنا شروع کیا تو افغانستان گھٹن کے ماحول سے نکلے گا۔ طالبان کو مشورہ ہے کہ قرآنی آیات کو سمجھ کر اس کو فوراً عملی جامہ پہنائیں۔ خواتین کو لباس کی آزادی ہو تو پھر یہ مرحلہ آئیگا کہ عورت شکایت کرے گی کہ اس کو ستایا گیا تو عورت کو تحفظ دیا جائیگا۔ اللہ نے قرآن میں واضح فرمایا ہے کہ اگر منافقین عورتوں کے ستانے سے نہیں رُکے اور جن کے دلوں میں مرض ہے وہ نہیں رُکے عورتوں کو ستانے سے اور شہرمیں افواہیں پھیلانے والے باز نہیں آئے تو یہ بہت کم مدت تک آپ کے پڑوس میں رہ سکیں گے۔ یہ ملعون ہیں جہاں بھی پائے جائیں پکڑے جائیں اور ان کو بے دریغ قتل کیا جائے۔ یہ پہلے لوگوں میں بھی اللہ کی سنت رہی ہے اور اللہ کی سنت بدلتی نہیں ہے۔
جب خواتین کو ستانے والوں کو ملعون قرار دیکر قتل کا حکم تھا اور اس پر طالبان افغانستان میں عمل کرکے دکھائیں تو دنیا بھر میں عورت مارچ کرنے والی خواتین طالبان کے نظام کا مطالبہ کریںگی۔ امیر المؤمنین ہیبت اللہ اخونزادہ اعلان کردیں کہ اسلام آباد ، لاہور، کراچی اور پاکستان کے دیگر شہروں میں 8عورت مارچ منانے والے افغانستان کے کابل، قندھار، جلال آباد اور دوسرے شہروں میں اس دن کے منانے کا اہتمام کریں۔جس طرح شیعہ کے جلوسوں کو ہم نے تحفظ دیا تھا اسی طرح سے عورت مارچ والوں کو بھی تحفظ دیں گے۔
امریکہ و نیٹو کے جانے کے بعد افغانستان کو فتح کرنے کیلئے اپنے بھائیوں کو نیچا دکھانے سے بدنامی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔ البتہ پنجشیر سمیت پورے افغانستان کی تمام لسانی اور مذہبی اکائیوں کو متحد ومتفق ہوکر ایک نظام اور ایک پرچم تلے اکٹھا ہونے کی بہت سخت ضرورت ہے۔ رسول اللہۖ نے مکہ کو فتح کیا تو جنہوں نے صحابہ کرام کے گھروں پر قبضہ کررکھا تھا ان سے گھر واپس نہیںلئے۔ 3 دن سے زیادہ صحابہ کے مکہ میں رہنے پر پابندی لگائی۔ خانہ کعبہ کی چابیاں اسی کے پاس رہنے دیں جسکے پاس تھیں۔مکے کا ہی ایک مخالف شخص گورنر بنادیا گیا۔ زبردستی سے کسی کیساتھ زیادتی کا تصور ختم کردیا۔ ( ایک عالم ہے ثناء خوان آپ ۖکا)باہمی رضا سے تین دن تک متعہ کی اجازت دی ( صحیح مسلم) ،جس کا تصور بھی مغرب کی افواج نہیں کرسکتی ہیں جنگ کی حالت میں وہ انسانی حقوق اپنے سب سے بدترین اور جاہل دشمنوں کو دیدئیے گئے۔ طالبان قرآن اور نبیۖ کی سیرت پر چلنے کا اعلان کریں تو کامیابی قدم چومے گی۔
جب ایک عورت صبح کی نماز کیلئے نکلی اور اس کے ساتھ کسی نے جبری جنسی تشدد کیا تو نبیۖ نے اس کو سنگسار کرنے کا حکم دیا۔ اس کیلئے گواہ طلب نہ کئے بلکہ عورت کی شکایت پر اس کی داد رسی کرکے نشانِ عبرت بنادیا گیا۔

3:شرعی پردے کا مروجہ غلط تصور
لَّیْسَ عَلَی الْاَعْمٰی حَرَج وَّلَا عَلَی الْاَعْرَجِ حَرَج وَّلَا عَلَی الْمَرِیْضِ حَرَج وَّلَا عَلٰی اَنْفُسِکُمْ اَنْ تَاْکُلُوْا مِنْ بُیُوْتِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اٰبَآئِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اُمَّہَاتِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اِخْوَانِکُمْ…. (سورہ النور61)
ترجمہ: ”کسی نابینا پر حرج نہیں اور نہ دونوں پیر کے لنگڑے پر کوئی حرج ہے اور نہ مریض پر کوئی حرج ہے اور نہ تمہاری اپنی جانوں پر کوئی حرج ہے کہ کھاؤ اپنے گھروں میں یا اپنے باپوں کے گھروں میں یا اپنی ماؤں کے گھروں میںیا اپنے بھائیوں کے گھروں میں یا اپنی بہنوں کے گھروں میں یا اپنے چچوں کے گھروں میں یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں میںیا ماموں کے گھروں میں یا خالاؤں کے گھروں میں یا جن کی چابیوں کے تم مالک ہو۔ یا اپنے دوستوں کے ہاں ، کوئی گناہ نہیں کہ تم اکھٹے کھاؤ یا الگ الگ کھاؤ۔ پس جب تم گھروں میں داخل ہو تو اپنے نفسوں پر سلام کرو۔ یہ اللہ کی طرف سے مبارک پاک استقبالیہ ہے اس طرح سے اللہ تعالیٰ اپنی آیات کو بیان کرتا ہے تاکہ تم سمجھو”۔
ان آیات میں اجنبی افراد میں سے نابینا ، دونوں پاؤں سے لنگڑا اور مریض سے معاملہ شروع کیا گیا ہے اور پھر اپنے گھروں سے لیکر اپنے متعلقین کے تمام رشتوں اقارب اور احباب کے ساتھ کھانے کی اجازت دی گئی ہے۔ دنیا کی ہر قوم کی طرح مسلمانوں کو بھی عزیز و اقارب کے فطری رشتے سے بھرپور طریقے سے تعلقات نبھانے کی اجازت دی گئی ہے۔ چچا ، ماموں، پھوپھی اور خالہ کے گھروں میں مشترکہ کھانے کی اجازت سے غلط شرعی پردے کا بھانڈہ پھوٹتا ہے اور جن لوگوں نے تصنع کرکے من گھڑت مسائل بنائے ہیں ان کے غلط تصورات سے مسلمانوں کو کھلے الفاظ میں نجات دلائی گئی ہے۔
طالبان کے علماء ومفتیان کے نزدیک شرعی پردے کاتصور یہ ہے کہ بھائی ، چچا، ماموں اور قریبی اقارب نامحرموں سے اپنی بیگمات کا پردہ کروایا جائے لیکن علماء ومفتیان جانتے ہیں کہ ایک گھر میں کئی کئی بھائی رہتے ہیں۔ ماموں، چچا، ماموں زاد اور چچازاد سے شرعی پردے کا تصور نہیں۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھا ہے کہ ” ہمارے ہاں مروجہ پردہ اشرافیہ کا پردہ ہے، شریعت کا اس سے تعلق نہیں ہے۔ غریب پردہ کرنے کی اور اپنی خواتین کو پردہ کرانے کی اوقات نہیں رکھتا ہے”۔ قرآن میں تابع افراد سے سید مودودی نے مراد نوکر چاکر لئے ہیں۔ بخاری میں ہے کہ دلہن اور دلہا دونوں صحابہ کرام اور نبیۖ کی دعوت میں خدمت کررہے تھے۔ رسول اللہۖ نے چچی فاطمہ بن اسد والدہ محترمہ حضرت علی کی میت کو اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا اور فرمایا کہ ” یہ میری ماں ہے”۔ مفتی طارق مسعود کی ویڈیوز میں جہالتوں کو سن کر حیرانگی ہوگی۔
حدیث میں دیور کو موت کہا گیا تو مقصد یہ ہے کہ بھائی ایک گھر میں رہتے ہیں ،اختلاط رہتا ہے اور ان کو احتیاط برتنے کی اسی بنیاد پر تلقین کی گئی لیکن جب بھائی کیا چچا، ماموں، پھوپھی اور خالہ کے گھر میں مشترکہ کھانے کی اجازت ہے تو پھر پردے کا وہ تصور باقی نہیں رہتا جو مولوی نے سمجھا ہے اور جس پر مولوی عمل نہیں کرتا مگر جب موقع ملتا ہے تو دوسروں پر بھی زبردستی اپنا حکم مسلط کرتا ہے۔

4:نکاح وایگریمنٹ کا تصور
سعودیہ، مصر میں مسیار اور ایران میں متعہ ہے ، قرآن میں اوماملکت ایمانکم (جنکے مالک تمہارے معاہدے ہوں) ۔ مغرب میں یہ فرینڈشپ ہے اور قرآن وسنت میں نکاح و ایگریمنٹ کا الگ الگ تصورہے۔ حنفی مسلک میں قرآن کی خبر واحد آیت کے حکم میں ہے۔ عبداللہ بن مسعود کے مصحف میں والمحصنٰت من النساء الا ماملکت ایمانکم کتب اللہ علیکم واُحل لکم ماوراء ذٰلکم ان تبتغواباموالکم محصنین غیرمسٰفحین فمااستمتعتم بہ منھن (الی اجل مسمٰی) ……O
ترجمہ ”اوربیگمات عورتوں میں سے مگر جنکے مالک تمہارے معاہدہ ہوں، اللہ کا لکھاہے تمہارے اُوپر اور انکے علاوہ تمہارے لئے سب حلال ہیں تلاش کرواپنے اموال کے ذریعے نکاح کی قید میں لاکر نہ کہ خرمستیاں کرتے ہوئے۔ پس ان میں سے جن سے تم فائدہ اٹھاؤ( مقررہ مدت تک) تو ان کو ان کامعاوضہ دو ایک مقررہ۔اور تمہارے اوپر کوئی گناہ نہیں کہ مقرر کردہ میں باہمی رضا سے کچھ کمی بیشی کرلو اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ اور جو تم میں سے (بیوہ وطلاق شدہ) بیگمات سے بھی نکاح کی طاقت نہ رکھتے ہوں تو پھر تمہاری وہ لڑکیاں جو تمہارے معاہدے والی ہوں( لونڈیاں یا متعہ ومسیار والیاں) ۔اللہ تمہارے اِیمان کو جانتا ہے ، تم میںبعض بعض سے ہیں۔( آدم وحواء اور ابراہیم وحاجرہ کی اولاد ہو)اور ان سے نکاح کرو،انکے اہلخانہ کی اجازت سے اور ان کا معروف اجر دیدو، ان کو نکاح کی قید میں لاکر نہ کہ خرمستیاں نکالنے کیلئے اور نہ چھپی یاری کیلئے اور جب تم انہیں نکاح کی قید میں لاچکے اور پھر وہ کھلی فحاشی کا ارتکاب کریں توان پر آدھی سزا ہے ،عام شریف عورتوں کی نسبت اور یہ ان کیلئے ہے جو تم میں مشکل میں پڑ نے سے ڈرتے ہوں اور اگر تم صبر کرلو( سزا نہ دو) تو تمہارے لئے بہتر ہے اور اللہ غفور رحیم ہے۔ اللہ چاہتا ہے کہ تمہیں ہدایت دے اور تمہارے لئے واضح کرے طریقے ان لوگوں کے جو آپ سے پہلے تھے اوراللہ چاہتا ہے کہ تمہارے اوپر توجہ دے اور جاننے والا حکمت والا ہے۔ اور اللہ چاہتا ہے کہ تمہارے اوپر توجہ دے اور جولوگ اپنی خواہشات کے تابع بنے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم بڑے میلان کا شکار ہوجاؤ۔ اور اللہ چاہتا ہے کہ تمہارا بوجھ کم کردے اور انسان کو کمزور پیدا کیا گیا ”۔ النساء آیات
چوتھے پارہ کے آخر میںمحرمات کی فہرست اور پانچویں پارہ کے شروع میں بیگمات کا ذکر ہے مگر جن سے ایگریمنٹ ہوجائے۔ بیگمات سے کیا مراد ہے؟۔ اس پر صحابہ کے دور سے جمہور اور شخصیات میں اختلاف ہے۔ انگریزی اور اردو میں شادی شدہ پر بیگم کا اطلاق ہوتا ہے اور شوہر کیساتھ تعلق ہو یا بیوہ اور طلاق شدہ بن جائے تو وہ بیگم کہلاتی ہے۔ بیوہ یا طلاق شدہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرلے تو اسی شوہر سے منسوب ہوتی ہے۔ قیامت کے دن بھی بیوہ اپنے اسی شوہر کی بیوی ہوگی جس کی وفات کے بعد اس نے کسی اور سے شادی نہ کی ہو۔ یہ قرآن وسنت اور معروف مروجہ قوانین میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں ۔ قرآن کا حکم ہے کہ بیوہ کا نکاح کراؤ اور نشان حیدر والے کی بیوہ کے مراعات کا مسئلہ ہوگا تو ترجیح کا اختیار بیوہ کو ہوگا۔ اور ایگریمنٹ اس کیلئے زیادہ مفید ہوگا۔قرآن کی اس رہنمائی سے پاک فوج ، بیروکریٹ اور دنیا بھر کے لوگ فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔
جب نبیۖ کو کسی اور عورت سے قرآن میں نکاح سے منع کیا گیا تو پھر بھی ایگریمنٹ کی اجازت دی گئی۔ حضرت ام ہانی نے ہجرت نہیں کی تھی اسلئے اللہ نے فرمایا کہ وہ چچازاد بیٹیاں آپ کیلئے حلال ہیں جنہوں نے آپکے ساتھ ہجرت کی۔ ام ہانی کیساتھ ایگریمنٹ کی اجازت تھی لیکن ازواج میں غلط شمار کیا گیا۔

5:مرد اور عورت کایکساں حق
دنیا بھر میں بیوہ کو شوہر کی پینشن ملتی ہے لیکن اگر دوسرا نکاح کرلے تو پینشن کے حق سے محروم ہوگی۔ ایسی بیگمات کو محرمات کی قرآنی فہرست کے آخر میں رکھا ہے لیکن ان سے ایگریمنٹ جائز ہے تاکہ یہ بیگمات پینشن سے محروم نہ ہوں۔ اگر عورت کسی شخص کی نسبت سے محروم ہونے پر راضی نہ ہو تو بھی ایگریمنٹ کی اجازت ہے۔ اگر طلاق شدہ بیگم ہو۔جس طرح وزیراعظم عمران خان کی بیگم جمائما خان ہے اور یا بیوہ ہو جیسے ذوالفقار علی بھٹو کی شیعہ بیگم نصرت بھٹو تھیں۔
لونڈی و غلام پر ماملکت ایمانکمکا اطلاق ہوتا ہے مگر جیسے فانکحوا ماطاب لکم من النساء …..اوماملکت ایمانکم میں ملکت ایمانکم سے غلام مراد نہیں ہوسکتے ہیں، اسی طرح لونڈیوں سے زیادہ ایگریمنٹ والی عورتیں مراد ہوسکتی ہیں۔ اسلئے کہ لونڈیوں کے نکاح کرنے کا حکم ہے۔
والمحصنٰت من النسا ء الاما ملکت ایمانکم میںبھی لونڈی کی جگہ ایگریمنٹ لینا واضح ہے۔ اگر شادی شدہ لونڈی مراد لی جائے تو اختلاف ہوسکتا ہے اور جہاں جنگ میں کوئی لونڈی بن جائے تو شادی شدہ ہونے کے باوجود تعلق جائز ہو گا؟ یہ بھی محل نظر ہے۔ اللہ نے قیامت تک ہر دورکی بہترین رہنمائی کی ہے ۔
اللہ نے انسان کو ضعیف قرار دیا اور سب سے زیادہ انسان جنسی خواہشات کے حوالے سے کمزور ہے۔ حضرت آدم و حواء کو جنسی خواہش سے منع کیا گیا تو اپنی ضعیف فطرت سے مجبور ہوکر بچ نہیں سکے۔صحابہ کرام نے روزوں کی راتوں میں ناجائز سمجھ کر بھی اپنی بیگمات سے جماع کیا اور دن میں روزہ بھی بیگم سے جماع کی وجہ سے توڑا تھا۔ اللہ نے لونڈی یا متعہ والوں سے بہتر بیوہ یا طلاق شدہ کو قرار دیا۔ لیکن اگر متعہ والی یا لونڈی سے نکاح کیا تو اسکو کمتر سمجھنے سے منع کیا گیا ہے اسلئے کہ انسان خود بھی نطفۂ امشاج ماں باپ کے رلے ملے نطفے سے پیدا ہوا ہے۔تکبر اور پاک بازی کے دعوے اس کو بالکل بھی زیب نہیں دے سکتے ہیں۔
کچھ عورتیں اپنی صنفی کمزوری اور پرکشش جسم کے سبب ہر دور میںمشکل کا شکار رہی ہیں اور معاشی مجبوری اور معاشرتی رویوں سے اپنی پوزیشن کھو بیٹھی ہیں۔ امریکی ہوٹل میں کام کرنے والی خوبرو امریکی دوشیزہ نے ایک پاکستانی کونکاح کے مطالبے پر جواب دیا کہ ”10 ہزارڈالرمہینے کے عوض شادی کرسکتی ہوں”۔ اگر وہ مستقل شادی کی جگہ ایک مقررہ وقت تک ایگریمنٹ کرتی ہے تو اس کا راستہ نہیں روکا جاسکتا۔ قرآن نے دونوں صورت میں عورت کا لحاظ رکھا ہے۔ لڑکی لونڈی ہو، متعہ والی ہو،مسیار والی ہو ، گرل فرینڈ ہو اور داشتہ ہو لیکن ترجیحات میں ان عورتوں کو رکھا ہے جو بیوہ وطلاق شدہ ہونے کے باجود بھی عزت کی حفاظت کرنے والی ہو اور کسی کے پاس اتنی طاقت بھی نہ ہو تو پھر ایگریمنٹ والی سے بھی نہ صرف ان کے اہلخانہ کی اجازت سے نکاح کا حکم ہے بلکہ ان کو کم تر سمجھنے کو بھی روکا گیا اور ان سے یہ رویہ بھی روا رکھنے کا حکم دیا گیا ہے کہ اگر کسی طرح کھلی فحاشی کی مرتکب ہوں تو پھر عام شریف عورتوں کی بہ نسبت آدھی سزا ہے اوراس میں بھی ایسی لڑکیوں سے در گزر کرنے کو ترجیح دی گئی ہے۔

6:آدھی اور پوری سزا کاتصور
نکاح کے حق مہر اور ایگریمنٹ کے معاوضے میں بہت بنیادی فرق ہے اور ایک مستقل رشتے اور وقتی پلاؤ میں فرق فطرت کا بھی تقاضہ ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کے مصحف میں استمتاع کیساتھ ”ایک مقررہ وقت” کا اضافہ بھی ہے۔ حنفی مسلک کے نزدیک یہ آیت کے حکم میں ہے ۔ ابن مسعود کا کوئی الگ مصحف نہ تھا۔ متعہ کے مقررہ وقت تک ابن مسعودنے تفسیر لکھی ۔ بخاری و مسلم میں ابن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہۖ نے نہ صرف متعہ کی اجازت دی بلکہ اس کی یہ علت بھی واضح فرمادی کہ لاتحرموا ما احل اللہ لکم من الطیبٰت (حرام مت کرو ،جو اللہ نے تمہارے لئے حلال کیا ہے طیبات میں سے)۔ جس طرح جلالین کی تفسیر میں قرآنی آیات کیساتھ تفسیری نکات سطور میں لکھی گئی ہیں اسی طرح ابن مسعود نے بھی تفسیر لکھی ہے۔
علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد علامہ ابن قیم نے اپنی کتاب ” زاد المعاد” میں لکھا ہے کہ” حضرت عبداللہ بن زبیر نے کہا کہ متعہ زنا ہے تو حضرت علی نے فرمایا کہ آپ خود بھی اسی متعہ ہی کی پیداوار ہیں”۔اللہ تعالیٰ نے قرآن میں نبیۖ پر دوسری خواتین سے نکاح کی ممانعت کردی لیکن ایگریمنٹ کی اجازت دیدی۔ حضرت ام ہانی نے ہجرت نہیں کی تھی اور اس نے نبیۖ کی طرف سے نکاح کی دعوت کو بھی قبول نہیں کیا تھا، فتح مکہ کے بعد اس کا شوہر چھوڑ کر گیا تو نبیۖ نے نکاح کی دعوت دی تھی لیکن آپ نے عرض کیا کہ میرے بچے بڑے ہیں اور ان کی وجہ سے مجھے دوسرا نکاح گوارا نہیں ۔ پھر قرآن میں آیات نازل ہوئیں کہ ” اے نبی! ہم نے تیرے لئے ان چچااور خالہ کی بیٹیوں کو حلال کیا ہے جنہوں نے آپ کیساتھ ہجرت کی تھی اور جن کو تمہارے لئے غنیمت بنایا ہے”۔ اللہ تعالیٰ نے صلح حدیبیہ کے بعد مسلمانوں کو حکم دیا تھا کہ تم لوگ بھی کافر عورتوں سے چمٹنے کے بجائے ان کو چھوڑ دو۔ مسلم خواتین ہجرت کرکے شوہروں کو چھوڑ رہی تھیں تو اللہ نے حساب برابر کیا۔ قرآن کا صحیح ترجمہ وتفسیر ہو تو مسلمان نہیں کافر بھی مان جائیں۔ علماء ایک ٹیم تشکیل دیں جس کو حکومت کی سطح پر سرپرستی بھی حاصل ہو۔
علامہ بدرالدین عینی کے حوالے سے علامہ غلام رسول سعیدی نے نبیۖ کی 28ازواج اور 27کا نام نقل کیا ہے اور ان میں ام ہانی اورامیر حمزہ کی بیٹی کا بھی ذکر ہے جس کا نبیۖ نے فرمایا کہ یہ میری بھتیجی ہے۔ قرآن میں ہجرت نہ کرنے والیوں کیلئے حلال نہ ہونے کی منطق کے بعد جب نبیۖ نے ام ہانی سے ایگریمنٹ کا تعلق رکھا ہوگا تو پھر حضرت علی نے متعہ کی بنیاد پر اس پیشکش کو جائز سمجھا ہوگا۔ اسی طرح ام المؤمنین ام حبیبہ نے صحیح بخاری کے مطابق اپنی سابقہ بیٹیوں کو پیش کردیا تھا جس پر نبیۖ نے فرمایا کہ ”ان کو مجھ پر پیش نہ کرو ،یہ میرے لئے حلال نہیں ہیں”۔ مولانا سلیم اللہ خان نے بخاری کی اپنی شرح کشف الباری میں بہت سارے علمی انکشافات کئے ہیں اور ان کا حل کئے بغیر طالب علموں اور علماء ومفتیان کو تشویش میںچھوڑنا بہت خطرناک ہوگا۔
شادی شدہ ایگریمنٹ والی کیلئے آدھی سزا ہے اور سورۂ نور میں زانیہ اور زانی کیلئے 100، 100کوڑوں کی سزا ہے۔ سزائے موت آدھی نہیں ہوسکتی ہے لیکن100کے آدھے 50کوڑے ہیں۔ نبیۖ کی ازواج مطہرات کیلئے قرآن میں دوھری سزا کا ذکر ہے جو ڈبل سنگساری نہیں بلکہ 200 کوڑے ہوسکتے ہیں۔ شادی شدہ اور غیرشادی شدہ کیلئے بدکاری پر ایک ہی سزا ہے اور وہ 100کوڑے ہیں اور اس پر علامہ مناظر احسن گیلانی نے اپنی کتاب ” تدوین القرآن” میں بڑے زبردست دلائل دئیے ہیں جو بنوری ٹاؤن کراچی نے بھی شائع کردی ہے۔

7:مرد اور عورت کی یکساں سزا
سُوْرَة اَنْزَلْنَاہَا وَفَرَضْنَاہَا وَاَنْزَلْنَا…… O(سورہ النور: 1، 2، 3)
ترجمہ: ”یہ سورة ہم نے نازل کی ، فرض کی، اس میں کھلی آیات نازل کیں، شاید کہ تم نصیحت حاصل کرو۔ زانیہ اور زانی میںہر ایک کو سوَ سوَ کوڑے مارو۔ اور تمہیں ان پر اللہ کے دین کی وجہ سے نرمی نہیں برتنی چاہیے اگر تم اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو اور ان پر مؤمنوں کا ایک گروہ گواہ بھی بن جائے۔ بدکارمرد نکاح نہ کرے مگر بدکار عورت کیساتھ یا مشرکہ کیساتھ اور بدکار عورت کا نکاح نہ کرایا جائے مگر بدکار مرد یا مشرک سے۔ اور یہ مؤمنوں پر حرام کیا گیا ہے”۔
ان آیات میں بدکاری پر عورت اور مرد کی بالکل یکساں سزا رکھی گئی ہے اور معاشرتی بنیاد پر بھی عورت اور مرد کو یکساں طور پر مسترد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مرد جتنے بھی بدکردار ہوں تو ان کو عورت نیک چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اس روئیے کو بالکل مسترد کرکے فرمایا ہے کہ یہ مؤمنوں پر حرام کردیا گیا ہے۔ معاشرے میں اتنا عدم توازن ہے کہ عورت کنواری ہو یا شادی شدہ اس کو بدکاری کے شبے پر بھی موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ اور مرد بدکاری میں شادی شدہ ہونے کے باوجود مشہور ہو تو بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑا جاتا ہے۔
ان واضح آیات کے باوجود شادی شدہ مرد و عورت کیلئے سنگساری کی سزا کا تصور غلط ہے۔ جس طرح خانہ کعبہ کی طرف رُخ کرنے سے پہلے بیت المقدس کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھی جاتی تھی اسی طرح سورہ النور کی آیات نازل ہونے سے پہلے اہل کتاب کے مطابق توراة میں شادی شدہ کیلئے سنگسار کرنے پر عمل ہوا۔ ایک صحابی سے پوچھا گیا کہ سورہ نور کی آیات کے بعد بھی سنگساری پر عمل ہوا؟۔ تو انہوں نے جواب دیاکہ میرے علم میں نہیں۔ ( صحیح بخاری)
اگر مان لیا جائے کہ الشیخ و الشیخة اذا زنیا فارجموھما ”جب بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت بدکاری کریں تو ان کو سنگسار کردو”۔ غیر تحریف شدہ توراة کی آیت ہے تو بوڑھے شادی شدہ اور کنوارے زد میں آئیں گے اور جوان کنوارے یا شادی شدہ زد میں نہیں آئیں گے۔ جب اللہ نے واضح کیا ہے کہ توراة میں تحریف ہوئی ہے اور قرآن محفوظ ہے تو قرآن کے مقابلے میں توراة کو اپنے نصاب میں شامل کرنا کتنی غلط بات ہے؟۔ ابن ماجہ کی روایت ہے کہ جب رسول اللہ ۖ کا وصال ہوا تو آپۖ کی چارپائی کے نیچے رجم اور رضاعت کبیر کی دس آیات تھیں جو بکری کے کھاجانے سے ضائع ہوگئیں۔ صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا کہ اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ کہا جائیگا کہ عمر نے قرآن پر اضافہ کیا ہے تو رجم کی آیات اس میں لکھ دیتا۔ یہ کھلا تضاد ہے۔ اگر آیات بکری کے کھا جانے سے ضائع ہوتیں تو حضرت عمر نے قرآن میں لکھ دینی تھیں۔
طالبان سب سے پہلے ایک عظیم الشان یونیورسٹی کا اعلان کریں جس میں قرآن وسنت کی تعلیمات کا بالکل واضح تصور ہو۔تضادات کا معاملہ ختم ہوجائے اور متفقہ اور قابلِ عمل آیات اور احادیث دنیا کے سامنے آجائیں۔ فرقہ واریت اور مسلک پرستی کی جگہ قرآن وسنت کی تعلیمات عام ہوں۔دارالعلوم دیوبندکے شیخ الحدیث مولانا انور شاہ کشمیری نے کہا تھا کہ میں نے ساری عمر ضائع کردی۔

8:غیرت میں قتل کا ممنوع ہونا
وَالّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُہَدَآئَ فَاجْلِدُوْہُمْ ثَمَانِیْنَ جَلْدَةً وَّّلَا تَقْبَلُوْا لَہُمْ شَہَادَةً اَبَدًا وَاُولٰئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُوْنَ Oاِلَّا الّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ وَاَصْلَحُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْر رَّحِیْم Oوَالّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَہُمْ وَلَمْ یَکُنْ لّہُمْ شُہَدَآئُ اِلَّآ اَنْفُسُہُمْ فَشَہَادَةُ اَحَدِہِمْ اَرْبَعُ شَہَادَاتٍ بِاللّٰہِ اِنَّہ لَمِنَ الصَّادِقِیْنَ Oوَالْخَامِسَةُ اَنَّ لَعْنَتَ اللّٰہِ عَلَیْہِ اِنْ کَانَ مِنَ الْکَاذِبِیْنَ Oوَیَدْرَاُ عَنْہَا الْعَذَابَ اَنْ تَشْہَدَ اَرْبَعَ شَہَادَاتٍ بِاللّٰہِ اِنَّہ لَمِنَ الْکَاذِبِیْنَ Oوَالْخَامِسَةَ اَنَّ غَضَبَ اللّٰہِ عَلَیْہَآ اِنْ کَانَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ O
ترجمہ: ” اور جو لوگ بیگمات پر بہتان باندھتے ہیں اور پھر وہ چار گواہ لیکر نہیں آتے تو ان کو اسّی کوڑے لگائیں۔ اور ان کی گواہی کبھی قبول نہ کریں۔ اور یہی لوگ فاسق ہیں۔ مگر جن لوگوں نے اسکے بعد توبہ کی اور اپنی اصلاح کرلی تو بیشک اللہ غفور رحیم ہے۔ اور جو لوگ اپنی ازواج پر بات مارتے ہیں اور ان کے پاس کوئی گواہ نہیں ہیں مگر وہ خود تو پھر ان میں کسی ایک کی چار گواہیاں ہوں گی کہ بیشک وہ سچا ہے اور پانچویں یہ کہ اللہ کی لعنت ہو اس پر اگر وہ جھوٹا ہے۔اور اس عورت کو سزا نہ ہوگی اگر وہ چار گواہیاں دے کہ خدا کی قسم وہ جھوٹوں میں سے ہے۔ اور پانچویں یہ کہ اللہ کا غضب ہو اس پر اگر وہ سچا ہو۔ (النور: 4تا 9)
اکثر و بیشتر اوقات کسی مرد کی عزت پر حملہ کرنے کیلئے اس کی بیگم پر بہتان لگایا جاتا ہے یا عورت کو اپنے شوہر کے سامنے بے وقعت بنانے کیلئے بہتان لگایا جاتا ہے اسلئے بطور خاص دوسروںکی بیگمات پر بہتان لگانے کی سزا اسّی کوڑے ہے۔ جبکہ اپنی بیگم پر بہتان لگانے کی صورت میں عورت کیساتھ مرد کی عزت بھی ٹھکانے لگتی ہے۔ قرآن میں بہتان پر اسّی اور بدکاری پر سَو کوڑے کی سزا کا حکم ہے۔ اگر عورت اپنے شوہر کو جھٹلاتی ہے تو اس سے سز ا اُٹھادی جائے گی۔ یہاں عورت کی گواہی کو مرد کے مقابلے میں زیادہ اثر انداز قرار دیا گیا ہے۔ ان آیات میں عورت کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ اس پر بہتان لگانے کی بھی بڑی سزا ہے اور غیرت کے نام پر اس کو قتل بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔
اگر افغان طالبان نے ان آیات پر عمل کیلئے ساری دنیا کو آگاہ کیا تو دنیا بھر کی خواتین ان کا خیر مقدم کریں گی۔ جب برصغیر پاک و ہند پر برطانیہ نے قبضہ کیا تو تعزیرات ہند میں غیرت کی بنیاد پر شوہر کیلئے بیوی کو قتل کرنا جائز قرار دیا گیا تھا۔ ساڑھے چودہ سو سال پہلے قرآن نے عورتوں پر جو احسانات کئے ہیں اگر ان کو کھلے الفاظ میں دنیا کے سامنے لایا جائے تو یہ بہت بڑا انقلاب ہوگا۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ اپنے رسم و رواج میں قرآنی آیات کی طرف کبھی توجہ دینے کی زحمت بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ قرآن کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے فقہی مسالک میں مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں۔ قرآنی آیات پر سیدھے انداز میں عمل کرنے کے بجائے موشگافیوں میں لگ جاتے ہیں۔ پہلی اُمتیں بھی اس لئے گمراہی کا شکار ہوئی تھیں کہ اللہ کے واضح احکام کے مقابلے میں فرقہ واریت اور مسلکوں کے شکار ہوگئے اور آپس میں لڑ جھگڑ کر صراط مستقیم سے ہٹ گئے۔
نبیۖ کی زوجہ ام المؤمنین حضرت عائشہ پر بہتان لگانے کی سزا بھی اسّی کوڑے دی گئی اور ایک عام شخص کی بیگم پر بہتان کی سزا بھی اسّی کوڑے ہے تو اس سے اسلام میں اعلیٰ ترین مساوات کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ کوڑوں کی سزا غریب وامیر کیلئے یکساں ہے لیکن ہتک عزت میں پیسوں کا فرق یکساں نہیں اور غریب کیلئے دس لاکھ بھی بڑی سزا اور امیر کیلئے دس کروڑ بھی کچھ نہیں ہے۔ علماء نے کبھی قرآن کے مساوات کا نظام اپنا ووٹ حاصل کرنے کیلئے بھی پیش نہ کیا۔

9:اسلام کی بڑی روشن خیالی
سورۂ نور میں چشم دید گواہ ہونے کے باوجود بھی شوہر کو بیوی کے قتل سے روک کر لعان کا حکم دیا گیا ہے۔ اس سے بڑھ کر کیا روشن خیالی ہوسکتی ہے کہ جو قرآن ایک غیرتمند شوہر کو اپنی بیوی کی کھلی فحاشی پر بھی غیرت کے نام پر قتل سے روکتا ہے اور دوسری طرف کسی اجنبی خاتون کو بھی جبری جنسی زیادتی نہیں بلکہ محض تنگ کرنے اور اذیت پر بھی جہاں پایا جائے پکڑ کر قتل کیا جائے کا حکم دیتا ہے؟۔
جب علماء افغانستان میں قرآن کی آیات پڑھیں، کتاب کی تعلیم دیں اور ان کا تزکیہ کریں اور حکمت سکھادیں تو اسلام کی نشاة ثانیہ کا آغاز ہوجائے گا اور دنیا کیلئے اس مثبت انقلاب کو روکنا مشکل نہیں بلکہ نا ممکن ہوگا۔ عورت کے حقوق پر ایک مختصر کتابچے میں مدلل بات کی ہے جس کو سمندر کی طرح خاموش پذیرائی بھی ملی ہے۔ ابھی تو عام لوگ اس مختصر علمی مواد کو سمجھنے سے قاصر ہیں ورنہ یہ ایک اپنی جگہ پر بڑا انقلاب ہے۔ تصویر کے جواز پر میری کتاب ”جوہری دھماکہ” نے ایک انقلاب برپا کیا تھا۔پہلے ہم نے جاندار کی تصویر کی سخت مخالفت کرکے ایک لہر پیدا کی تھی جس کو طالبان نے عملی جامہ پہنایا تھا۔ لیکن انہوں نے اسامہ بن لادن کو رعایت دی تھی اور یہی بلا ان کیلئے وبال جان بن گئی۔ طالبان نے بھی ہماری طرح جاندار کی تصویر کی مخالفت اور داڑھی منڈانے کے خلاف تشدد کا معاملہ چھوڑ دیا ہے۔ نماز کیلئے بھی زبردستی کے معاملات بالکل بھی نہیں ہیں۔
افغانستان کا اسلامی آئین بنانے میں قتل کے بدلے قتل، دانت کے بدلے دانت، کان کے بدلے کان، ہاتھ کے بدلے ہاتھ ، آنکھ کے بدلے آنکھ اور زخموںکا قصاص (بدلہ) بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اسی طرح ڈکیتوں کو عبرتناک سزائیں دینے سے معاشرے میں سکون قائم ہوگا۔ اللہ نے فرمایا ہے کہ” جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو ، تو انصاف سے فیصلہ کرو”۔ریاستوں کا بھاری بھرکم بوجھ عوام کو اٹھانا پڑتا ہے۔ طالبان ایسا نظام تشکیل دیں جس میں حکمران آقا اور رعایاعوام غلام نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں عورتوں اور مردوں کو ناحق ستانے والوں پر لعنت بھیجی ہے۔ لیکن عورتوں پر بہتان لگانے کی سزا کا حکم 80 کوڑے بیان کیا ہے۔ جس سے عورت کی عزت کا اسلام میں اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اگر بدکاری پر قرآن کے مطابق 100کوڑے اور بہتان پر 80 کوڑے کا حکم معاشرے میں سرِ عام زندہ ہوجائے تو بڑا انقلاب آئے گا۔
قرآن میں لونڈی اور غلام کیلئے بھی ماملکت ایمانکم کے الفاظ استعمال ہوئے اور کاروباری شراکت داروں کیلئے بھی۔ قرآن میں غلام کیلئے عبد اور لونڈی کے امة کا لفظ استعمال ہواہے۔ اللہ نے بیوہ وطلاق شدہ، عبد اور امة کا نکاح کرانے کا حکم دیا ۔ مشرکوں کے مقابلے میں مسلمان لونڈی اور غلام کو ترجیح دینے کا حکم بھی ہے۔ لاتعداد لونڈیوں کے رکھنے کا تصوربھی بالکل غلط تھا۔البتہ جس طرح لونڈیوں سے ایگریمنٹ اور نکاح کا تصور تھا اسی طرح آزاد عورتوں سے بھی ایگریمنٹ اور نکاح کا تصور تھا اور آزاد عورتوں کا بھی غلاموں سے نکاح اور ایگریمنٹ کا تصور ہوسکتاتھا۔ قرآن کی تفسیر کو غلط مفہوم نہ پہنایا جاتا تو پھر لونڈی کو جبری حرام کاری پر مجبور نہ کرنے کے غلط ترجمے بھی نہ کئے جاتے۔
صدروفاق المدارس مولانا سلیم اللہ خان نے ”کشف الباری”میں جو فقہی مذاہب سے عورت کی بے حرمتی کا بھانڈہ پھوڑا ہے وہ بھی قابل دیدہے۔
لکھا ہے کہ عورت کا نکاح سے پہلے کتنا حصہ دیکھنا چاہیے؟جمہور کے نزدیک صرف ہتھیلی اور چہرہ دیکھنا جائز ہے۔ امام اوزاعی کے ہاں شرمگاہ کے سوا پورے جسم کو دیکھنا جائز ہے اور ابن حزم کے نزدیک پورے جسم کو دیکھنا جائز ہے۔ دیکھنے کیلئے عورت سے اجازت کی بھی ضرورت نہیں ۔ (کشف الباری)

10:عورت کے حقوق کا جنازہ
مولانا سلیم اللہ خان نے طالبان پر احسان کرکے لکھ دیا ہے کہ ”کسی امام کے نزدیک بچی، عورت، کنواری، طلاق شدہ اور بیوہ سب پر اپنی مرضی مسلط کرکے ولی اسکا جبری نکاح کراسکتا ہے اور کسی کے نزدیک بچی اور کنواری پر زبردستی مسلط کرنا جائز ہے اور کسی کے نزدیک بالغہ کنواری اور بیوہ وطلاق شدہ پر زبردستی کرنا جائز نہیں، بچی پر زبردستی جائز ہے” (کشف الباری شرح بخاری)
مسلکی کاروبارکی یہ مارکیٹنگ قرآن واحادیث سے متصادم ہے۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ ” کنواری سے پوچھ کر اس کی رضامندی سے اسکا نکاح کیا جائے لیکن زبان سے اس کااقرار خاموشی اور ہنسنا بھی ہے اور بیوہ وطلاق شدہ کا زبان سے اقرار اور اعتراف کے بعد اس کا نکاح کروایا جاسکتا ہے”۔( صحیح بخاری)
نکاح کیلئے قرآن میں نان نفقہ اور عدل وانصاف دینا شوہر کی ذمہ داری ہے اور ایسی صورت میں دودو،تین تین، چار چار عورتوں سے بھی نکاح کرسکتے ہیں مگر جب انصاف فراہم نہ کرسکنے کا خوف ہو تو پھر ایک سے نکاح کیا جائے یا پھر جن سے ایگریمنٹ ہو۔ ایگریمنٹ سے مراد لونڈی نہیں اسلئے کہ لونڈی سے نکاح کا حکم ہے اور اسکے بھی نان نفقہ اور انسانی حقوق اسلام نے محفوظ رکھے تھے اور اگرلونڈی یا آزاد عورت سے ایگریمنٹ کیا جائے تو ہی انصاف فراہم کرنے کی ذمہ داری اس پر عائد نہیں ہوگی بلکہ ایگریمنٹ ہی کے مطابق ایکدوسرے کیساتھ معاملات طے ہوسکتے ہیں اور دونوں اپنے اپنے طور پر مکمل آزاد اور خود مختار ہوںگے ،البتہ طے شدہ ایگریمنٹ کے پابند ہونگے۔
عثمانی خلیفہ عبدالحمید کی حرم سرا میںساڑھے چار ہزار لونڈیوں کا جواز قرآن وسنت اور اسلام نہیں بلکہ یہ اسلام کو اجنبیت میں دھکیلنے کے کرتوت تھے۔محمد شاہ رنگیلا کا ننگی لڑکیوں کی چھاتیاں پکڑ پکڑکر بالاخانے کی سیڑھیاں چڑھنا بھی بہت برا تھا مگر سودی نظام کو جواز بخشنے اور اس پر چپ رہنے کا گناہ زیادہ بڑا ہے۔ ایسٹ انڈین کمپنی نے تجارت کے بہانے برصغیرپاک وہند پر قبضہ کیا اور اسلامی بینکاری نے ہمارے موٹر وے اور ائیر پورٹوں کو بھاری بھرکم سودی نظام کے تحت قبضہ کرنے کی بنیادیں فراہم کی ہیں۔آج ہماری فوج، پولیس، عدلیہ اور سول بیوروکریسی اپنے ملک وقوم کے ملازم اور ان کے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں لیکن آنے والے کل کوIMF اور دیگر سودی مالیاتی اداروں کو یہی ملازم بھرپور تحفظ دینے پر مجبور ہوںگے۔ پہلے ہم نے غلامی کا نام آزادی رکھاتھااب پھر آزادی سے غلامی کے نرغے میں چلے جائیںگے۔ اسلئے ہوش کے ناخن لیں۔
طالبان جامعة الرشید کے نالائق مفتی عبدالرحیم اور نام نہاد شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کے نرغے کا شکار نہیں بنیں۔ رسول اللہۖ نے سود کو جواز نہیں بخشا بلکہ جب تک مکہ فتح اور آخری خطبہ ارشاد نہیں فرمایا تو سودی نظام کو برداشت کیا لیکن جونہی معاملات پر دسترس حاصل ہوئی تو سب سے پہلے چچا عباس کے سود کو معاف کرنے کا اعلان فرمادیا۔ دارالعلوم کراچی نے اپنی کتابوں میں شادی بیاہ کے اندر لفافے کے لین دین کو سود قرار دیا اور ساتھ میں حدیث کا بھی حوالہ دیا کہ سود کے ستر سے زیادہ گناہوں میں سے کم ازکم گناہ اپنی سگی ماں سے زنا کے برابر ہے۔ پھرمعاوضہ لیکر بینکنگ کے سودی نظام کو جواز بخش دیاہے۔ وزیراعظم عمران خان نوجوانوں کو بلاسود قرضہ دینے کی بات کرتا ہے یا پھراسلامی سود کا؟۔مفتی محمد تقی عثمانی کی طرف سے ایک شخص کو جواب دیا گیا کہ ”ہم نے ہندوؤں کے رسم کی مخالفت کی تھی اور لفافے کے لین دین کا معاملہ ہم خود بھی کرتے ہیںلیکن عتیق گیلانی کو یہ نہیں بتایا جائے اسلئے کہ وہ بات کو دوسری طرف لے جائے گا”۔جبکہ ہم طالبان کی عدالت میں بھی ان کیساتھ پیش ہوںگے۔

11:عورت کوخلع اور مالی تحفظ
یا ایھا الذین اٰمنوا لا یحل لکم ان ترثوا النسآء ..(النسائ:19)
”اے ایمان والو! تمہارے لئے حلال نہیں کہ زبردستی عورتوں کے مالک بن بیٹھو اور ان کو اسلئے مت روکو کہ ان سے بعض واپس لو جو تم نے ان کو دیا ہے مگر یہ کہ وہ کھلی فحاشی کی مرتکب ہوں اور انکے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تم انہیں ناپسند کرتے ہو توشایدکسی چیز کو تم ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت سارا خیر رکھ دے”۔
اس آیت سے ثابت ہے کہ عورت شوہر کو چھوڑ کر جاسکتی ہے اور شوہر کیلئے یہ جائز نہیں کہ اپنا دیا ہوا مال اس کو اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت نہ دے۔ مگر فحاشی کی صورت میں بعض دی ہوئی چیزوں سے اس کو محروم کیا جاسکتا ہے۔ خلع میں عورت کو غیر منقولہ دی ہوئی جائیداد سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔ جو حدیث سے ثابت ہے۔ اور خلع میں عورت کی عدت ایک حیض ہے۔ جبکہ طلاق کے بعد عورت دی ہوئی تمام منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کی مالک ہے۔ چاہے اس کو کافی سارا مال دیا ہو۔ جو آیت 21، 22 النساء میں واضح ہے۔ ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں مقرر کردہ نصف حق مہر اور اپنی وسعت کے مطابق مال فرض ہے۔
عورت کو اپنے بچوں ،حق مہر، جہیز ،مالی حقوق اور خرچے سے بھی محروم کردیا جاتا ہے۔ اسلام نے عورت کو جو معاشرتی انصاف دیا تھا اسکے مسلم معاشرے میں آثار بھی دوردور تک دکھائی نہیں دیتے ہیں۔ ماں باپ اور شوہر کی جائیداد میں عورت کا جو حصہ ہوتا ہے عورت اس میں بھی محروم کردی جاتی ہے۔
تجارت، تعلیم، روزگار اور معاشرے ہر معاملے میںعورت کو اس کا جائز حق دینا اسلام کا تقاضہ ہے۔کراچی بھر میں برتن دھونے کی مزدوری عورتیں کرتی ہیں مگر جہاں ائیرلائنوں میں برتن دھونے کا زیادہ معاوضہ ملتا ہے تو وہاں مردوں کو لگا دیا جاتا ہے۔ بے غیرتی کا یہ عالم ہے کہ عورتوں کے دھندوں کی بھڑواگیری بھی مرد ہی کرتے ہیں۔ طارق اسماعیل ساگر نے دوبئی کے ائیرپورٹ کا یہ واقعہ بیان کیا تھا کہ” لاہور کے اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے نے سرائیکی لڑکیوں کو دھندے کیلئے لائن میں کھڑا کیا تھا۔ مجھ سے ائیرپورٹ پر پوچھا کہ تم کیا کرنے جارہے ہو؟۔ تو میں نے کہا کہ ان سے کیوں نہیں پوچھتے ہو کہ تمہارا کیا دھندہ ہے”۔
طارق اسماعیل ساگرنے بڑائی کے انداز میں اپنے اس ویلاگ کو سوشل میڈیا میں ڈالا ہے ۔ یہ نہیں سوچا کہ قومی غیرت اس سے اتنی چھلنی نہیں ہوتی ہے کہ مرد سے پوچھ لے کہ کیا کرنے جارہے ہو؟۔ بلکہ لڑکیوں کو دھندے کیلئے لے جانے سے قومی غیرت کا جنازہ نکلتا ہے۔ طارق اسماعیل ساگر میں غیرت ہوتی تو اس بات پر ناراض ہونے کے بجائے کہ کیا کرنے جارہے ہو؟۔ اس بات پر ڈوب مرنے کی بات کرتا کہ میری تو خیر ہے لیکن سامنے جو لڑکیوں کو سپلائی کرنے جارہا ہے اس پر مجھے ایک پاکستانی کی حیثیت سے بہت زیادہ شرمندہ ہونا چاہیے تھا۔ ہمارے ہاں جمہوریت اور شریعت نام کی ہے۔
ریمنڈ ڈیوس کی کتاب نے چہروں سے نقاب اُٹھا دیا ۔امریکیوں کو کراچی اور اسلام آباد کے ہوٹل حوالہ کرنے کی کہانی چھپے گی تو پردہ نشینوں کے چہروں سے نقاب اُٹھے گا لیکن ہمیں سرِ دست اپنے ملک میں افراتفری کی فضائیں پھیلانے کی جگہ صبر وتحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ صلح حدیبیہ کے معاہدے سے یہ سبق ملتا ہے کہ اگر کسی بات سے اتفاق نہ ہو تو جہاں تک ممکن ہو ، حکمرانوں کیخلاف فضا کو گرمانے کی سیاست سے باز آنا چاہیے۔ جب عورت کو قرآن کے مطابق خلع کا حق نہیں۔ خلع و طلاق کے بعد کے اسکے مالی حقوق اور بچوں کا تحفظ معاشرے سے نہیں بن پڑتا ہے تو اغیار کی چوہدراہٹ اور اپنے نااہلوں کی مفادپرستی سے ہماری جان اللہ تعالیٰ کیوں چھڑائے گا۔ اپنے نامہ ٔ اعمال کو درست کرنا پڑے گا۔

12:مغرب اور جمہوریت
عن سعد بن ابی وقاص قال قال رسول اللہ ۖ لا یزال اہل الغرب ظاھرین علی الحق حتی تقوم الساعة (صحیح مسلم : 4958)
سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ اہل مغرب ہمیشہ حق پر رہیں گے یہاں تک کہ قیامت آجائے۔ (کتاب الامارة)
جب معاذبن جبل کو نبیۖ نے یمن کا حاکم بناکر بھیجا تو پوچھا کہ فیصلہ کیسے کروگے؟۔ معاذ نے عرض کیا کہ قرآن سے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ اگر قرآن میں نہ ملے تو؟۔ عرض کیا کہ آپ کی سنت سے۔نبیۖ نے فرمایا کہ اگر سنت میں نہ ملے تو؟۔ عرض کیا کہ خود قیاس کروں گا۔ نبیۖ نے فرمایا : شکر ہے کہ اللہ نے رسول کے رسول کو توفیق بخش دی جو اللہ اور اس کے رسول کو پسند ہے۔
جب ایک جج کسی کا فیصلہ کرتا ہے اور وہ بات قرآن و حدیث میں نہ ہو تو پھر اپنے قیاس سے اجتہاد کرتا ہے۔ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کا اجتہادقرآن و سنت میں موجود ہے۔ جب کسی قوم ، ملک اور بین الاقوامی قوانین کیلئے قانون سازی کرنی ہو تو جس طرح میثاق مدینہ اور صلح حدیبیہ کا معاہدہ مدینہ کے یہود اور مشرکین مکہ کے ساتھ مل جل کر ہوا ، اسی طرح کوئی ملک اپنے لئے اندرونی اور بیرونی قانون سازی کرسکتا ہے۔ موجودہ دور میں ویزا ، روڈ کے ٹول ٹیکس، گاڑی کے ٹیکس اور جہازوں کی لینڈنگ کے ٹیکس وغیرہ کیلئے قانون سازی پارلیمنٹ ہی کے ذریعے سے ہوسکتی ہے جس میں عوام کے منتخب نمائندے شامل ہوں۔
نبی ۖ کو حکم تھا کہ و شاورھم فی الامر ”اور ان سے خاص بات میں مشورہ کیا کریں”۔ صحابہ کی یہ صفت قرآن میں ہے وامرھم شوریٰ بینھم ”اور ان کی خاص بات آپس کے مشورے سے طے ہوتی ہے”۔ اولی الامر سے قرآن میں عوام کیلئے اختلاف کی گنجائش بھی ہے۔ نبی ۖ نے فرمایا اتبعوا السواد الاعظم ”عظمت والے گروہ کی اتباع کرو”۔ جس سے کئی جماعتوں کا وجود ثابت ہوتا ہے۔ انصار و قریش اور اہل بیت کے گروہوں کی حیثیت مختلف جماعتوں کی تھی۔ نبی ۖ نے فرمایا ”میری اُمت گمراہی پر کبھی اکھٹی نہ ہوگی”۔ اس حدیث میں اکثریت اور اقلیت دونوں کیلئے اہل حق ہونے کی گنجائش ہے۔ البتہ اگر قوم کیلئے قانون سازی کی بات ہو تو اقلیت کے مقابلے میں اکثریت ہی کا فیصلہ معتبر ہوگا۔ جسطرح حضرت علی کے مقابلے میں حضرت عثمان کے ووٹ زیادہ تھے اور انصاری سردار حضرت سعد بن عبادہ کے مقابلے میں حضرت ابوبکر کو جمہور اُمت کی تائید حاصل تھی۔ نبی ۖ نے اہل غرب کو اہل حق قرار دیا ہے تو مغرب نے بادشاہوں کے مقابلے میں جمہور عوام کی رائے کو اسلام کی وجہ سے زیادہ اہمیت دی ہے۔ فقہ کی قانون سازی کیلئے جمہور کا نام مسلمانوں نے دنیا کو متعارف کرایا ہے۔ البتہ قیاس سے مراد استنجے ، غسل، وضو، نکاح و طلاق اور دیگر معاملات کے شرعی احکام گھڑنا نہیں ہے بلکہ حکومتی سطح پر قانون سازی مراد ہے۔
بخاری و مسلم کی روایت میں نبی ۖ نے قریش کی عورتوں کو دنیا کی عورتوں پر اسلئے فضیلت دی ہے کہ وہ اونٹ پر سواریاں کرسکتی ہیں۔ اگر سعودیہ میں عوامی پارلیمنٹ ہوتی تو اس حدیث کی بنیاد پر قانون سازی ہوتی کہ موجودہ دور میں گاڑیوں کی ڈرائیونگ اونٹوں کے مقابلے میں زیادہ حیاء اور تحفظ کے قابل ہے اسلئے خواتین کو پورے ملک اور دنیا میں ڈرائیونگ کرنے کی اجازت دی جاتی۔ سعودیہ میں اجنبی ڈرائیوروں کے ہاتھوں خواتین کے ماحول کا اتنا ستیاناس ہوا کہ آخر کار مسیار کے نام پر وقتی شادی کی اجازت دینی پڑی۔ اگر اسلام کی اعلیٰ تعلیمات کی صحیح تصویر پیش کی جائے تو پاکستان اور افغانستان میں کیا مغرب میں بھی اسلام کی علمبردار جماعت حیثیت نہ رکھنے کے باوجود اکثریت سے جیتے گی۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

حلالہ کی لعنت کے تحت صحافی محمد مالک کا پروگرام "ہم نیوز” پر خوش آئند ہے۔ علامہ طاہر اشرفی، قبلہ ایاز اور ڈاکٹر راغب نعیمی نے صوفیانہ جاہلیت سے کام لیا

صحافی محمد مالک کا ”ہم نیوز” پر حلالہ کی لعنت میںپروگرام خوش آئند ہے، حلالہ سینٹرز سے زیادہ بڑا کردار دیوبندی بریلوی حنفی معروف مدارس کا ہے۔علامہ طاہر اشرفی ، قبلہ ایاز اور ڈاکٹرراغب نعیمی نے تجاہلِ عارفانہ سے کام لیکر لعنت کے اصل ذمہ دار کرداروں کے چہرے سے نقاب نہیں اُٹھایا ہے۔ آئیے، دیکھئے، سمجھئے! اسلام کے نام پر خواتین کی عزت کو تار تار کرنے والوںکا محاسبہ کیجئے،ورنہ کل اس کربِ عظیم کے شکار آپ بھی ہوسکتے ہیں

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

حنفی مسلک کے امام ابن ہمام اورعلامہ بدر الدین عینی نے اپنے نامعلوم مشائخ کی طرف یہ منسوب کیا ہے کہ” حلالہ میں نیت دوخاندانوں کے ملانے کی ہو تویہ کارِ ثواب بھی ہے”۔ کیا”حلالہ” سینٹروں کیلئے لعنت اوراپنے حنفی مدارس کیلئے کارِ ثواب ہے؟

_ ذہنی پسماندگی کی انتہاء ا ور پاکستان ؟_
آج سے 70سال پہلے پاکستان اور نیویارک کا کیا حال تھا؟۔ دنیا نے جو ترقی70 سالوں میں کی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ چین، جاپان،فرانس اور پاکستان کہاں سے کہاں پہنچے؟۔ گدھوں پر سفر کرنے والے قیمتی گاڑیوں تک پہنچ گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ قرآن نے تسخیرکائنات کا جو نظریہ دیا تھا اس میں پہلے دور میں مسلم سائنسدانوں کا بہت بڑا حصہ تھا لیکن مسلمان حکمرانوں نے جدید تعلیم کو عام کرنے کی جگہ اپنے محل سراؤں میں لونڈیوں اور تعمیرات میں تاج محل بنانے کو ترجیح دی اور سائنسی ترقی میں اپنا کوئی حصہ نہیں ڈالا۔ پاکستان نے پھر بھی اچھا کیا کہ ایٹم بم ، میزائل اور جدید ہتھیاروں میں اپنے سے کئی گنا بھارت کے مقابلے میں اپنی ایک حیثیت بنالی ہے۔ حالانکہ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں۔
پاکستان میں ترقی و خوشحالی کا راستہ پانی کے بہاؤ سے فائدہ اٹھاکر سستی بجلی اور زراعت کے شعبے میں ترقی تھی لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ صاف پانی کو بھی آلودہ کردیا ہے۔ دریاؤں کے صاف پانی میں گٹر اور کارخانوں کیمیکل چھوڑرہے ہیںاور زیرزمین پانی کے ذخائر بھی انتہائی آلودہ کرکے اپنے ظاہر اور باطن تباہ وبرباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ ہمارے پاس گرمی وسردی سے تحفظ کیلئے وافر مقدار میں سستی بجلی ہونی چاہیے تھی لیکن ائیرکنڈیشن تو دور کی بات ہے پنکھے اور لائٹ سے بھی پاکستان کے اکثر علاقے محروم ہیں۔اس کا ذمہ دار کوئی ایک طبقہ نہیں بلکہ سول وملٹری بیوروکریسی اور سیاستدان سارامقتدرطبقہ ہے۔
صاف پانی سے گٹر لائن کو جدا کرکے پاکستان کے صحراؤں اور بنجر علاقوں میںبڑے پیمانے پر جنگلات اور باغات اُگائے جاسکتے ہیں۔ سستی بجلی سے اپنی تقدیر بدل سکتی ہے لیکن ہمارا اشرافیہ بیرون ملک سے سودی قرضے لیکر اپنااثاثہ باہر ممالک میں منتقل کرکے اپنے ملک کو دیمک کی طرح چاٹ چکا ۔ درخت اُگانا تو بہت دور کی بات ہے ،ہم اپنے جنگلات سے بھی اپنے ہاتھ دھو رہے ہیں۔

مذہبی پسماندگی کی انتہاء اور علمائ؟
ایک لڑکی کو حال میں طلاق ہوئی۔ علماء نے حلالہ کی لعنت کا فتویٰ دیاتو اس نے حلالہ کے تصور پر خودکشی کرلی۔ محمد مالک نے اہم موضوع ترک کیا اور حلالہ پر پروگرام کیا۔ قبلہ ایاز چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل، مولانا طاہر اشرفی اور مفتی راغب نعیمی نے حلالہ سینٹروں کی مخالفت کی۔ علامہ امین شہیدی نے اہلبیت اور صحابہ کے مسلک میں فرق بتایاکہ ہمیں کبھی اس مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔ جبکہ اہل حدیث کے نزدیک بھی ایک مجلس کی تین طلاقیں واقع نہیں ہوتی ہیں
قرآن و سنت اور فقہ واصولِ فقہ کی رُو سے مسائل کا حل انتہائی آسان ہے لیکن جب مسائل کے حل کی جگہ پیچیدگی پیدا کرنے کی تقلید کی جائے تو اس مذہبی بیماری کا علاج کیا ہوسکتا ہے؟۔ مسلک حنفی کی فتاویٰ قاضی خان اور فتاویٰ شامیہ میں یہ مسئلہ لکھا ہے کہ ” اگر نکسیر پھوٹ جائے (ناک سے خون نکلے) تو اس خون سے پیشانی پر سورۂ فاتحہ لکھنا جائز ہے اور اگر پیشاب سے سورۂ فاتحہ لکھا جائے تو بھی جائز ہے”۔ آج کل مساجد میں بڑے علماء ومفتیان نے روحانی علاج کے نام پر خواتین کا علاج شروع کررکھا ہے۔ کسی خوبصورت دوشیزہ یا خاتون کو اپنے جال میں پھانسنے کیلئے کوئی علامہ صاحب یہ تجویز پیش کرے کہ خون یا پیشاب سے سورۂ فاتحہ کوپیشانی پر لکھا جائے تو اس کا علاج ہوجائے گا ؟۔ تو سیدھا سادا مسلمان اپنی مشکلات کے ہر حل کیلئے علماء کے ایمان واسلام پر اعتماد کرے گا۔
اکبر بادشاہ کی بیٹی کا واقعہ مشہور ہے کہ گال پر بچھو نے ڈنگ مارا تو اسکے ہندو بیربل نے چوسنا شروع کیا کہ میں نے زہر نکالا۔ ملادوپیازہ نے پیشاب پر چیخنا شروع کردیا کہ بچھو نے ڈنک مارا ۔ چنانچہ بیربل کو اس کو بھی چوسنا پڑگیا تھا۔ ادنیٰ ایمان والے کو بھی یہ یقین نہیں ہوسکتا کہ سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھ کر علاج ہوگا؟۔ اسی طرح غیرتمند عورت خود کشی تو کرسکتی ہے لیکن حلالہ کی سزا پانے کے بعد اپنے شوہر کیلئے حلال ہونے کا تصور نہیں کرسکتی ہے اور یہی واقعہ ہوگیا۔

قرآن کی بے حرمتی اور مفتی؟
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنی کتاب تکملہ فتح الملہم شرح مسلم اور فقہی مقالات میں صاحب ہدایہ کی کتاب کا حوالہ دیا کہ ” سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے” لیکن جب ہم نے عوام کو آگاہ کیا اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑاتو روزنامہ اسلام اور ہفت روزہ ضربِ مؤمن میں اپنی دونوں کتابوں سے یہ مسائل نکالنے کا اعلان کردیا۔ پھر وزیراعظم عمران خان کے نکاح خواں مفتی محمد سعید خان نے اپنی کتاب ”ریزہ الماس” میں سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا دفاع کیاہے۔
اصولِ فقہ میں قرآن کی تعریف: المکتوب فی المصاحف المنقول عنہ نقلًا متواترًا بلاشبة”(جو مصاحف میں لکھا ہوا ہے، آپۖ سے نقل ہے تواتر کیساتھ بلاشبہ )۔مصاحف میں لکھے سے مراد لکھا ہوا نہیں کیونکہ یہ محض نقوش ہیں۔متواتر کی قید سے غیر متواتر آیات نکل گئیں جیسے مشہور اور خبر احاد، بلاشبہ سے بسم اللہ نکل گئی اسلئے کہ بسم اللہ کی قرآنیت میں شک ہے”۔
قرآن کی تعریف میں جو کفریہ عقیدہ ہے یہ جہالت، ہٹ دھرمی اور گمراہی ہے۔اگر قرآن تحریری شکل میں اللہ کا کلام نہیں تو سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے میں کیا حرج ہوگا؟ یہی وجہ ہے کہ فقہی مسئلہ یہ ہے کہ قرآن کے مصحف پر حلف لیا جائے تو یہ حلف نہیں۔ حالانکہ الکتاب سے مراد لکھی ہوئی کتاب ہے۔والقلم و ما یسطرون قلم کی قسم اور جو سطروں میں لکھا ہوا قرآن ہے اس کی قسم۔ پہلی وحی میں قلم کے ذریعے انسان کو وہ سکھانے کا ذکر ہے جو وہ نہیں جانتا تھا۔
اگر قرآن میں متواتر اور غیرمتواتر ہو تو پھر قرآن کے محفوظ ہونے پر ایمان کیسے باقی رہ سکتا ہے؟۔ اگر بسم اللہ کو مشکوک قرار دیا جائے تو پھر قرآن کو ذٰلک الکتاب لاریب فیہ کیسے کہنا درست ہوگا؟۔ جب مولوی قرآن کی تعریف بھی غلط پڑھتا اور پڑھاتا ہے تو اس کی بنیاد پر مسائل کیسے نکالے گا؟۔عربی میں کتابت کی گردان اورقرآنی آیات میں کتاب کی تعریف بھی نہیں سمجھی ہے۔

طلاق کے بعد صلح اوررجوع!
صحابہ سے زیادہ اسلام کو کس نے سمجھا؟۔ حضرت عمر نے اکٹھی 3 طلاق پر 3 کا فیصلہ جاری کیا اور حضرت علی نے حرام کے لفظ پر3 طلاق کا فتویٰ جاری کیا تو یہ قرآن کے عین مطابق تھا۔ اگر شوہر حرام کا لفظ استعمال کر دے یا 3طلاق کہہ دے اور بیوی صلح کیلئے راضی نہ ہو تو قرآن کے واضح احکام کا یہی تقاضہ ہے کہ وہ عورت اس طلاق کے بعدپہلے شوہر کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہرسے نکاح کرلے۔ اگر ایک طلاق کے بعد بھی عورت صلح کیلئے راضی نہ ہو تو قرآن کا یہی حکم ہے۔ قرآن میں بھرپور وضاحت ہے مگر جب عورت اس طلاق کے بعد صلح کیلئے راضی ہو تو قرآن نے کسی بھی حلالہ کے بغیر ہی رجوع کی عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد باربار واضح الفاظ میں اجازت دی ہے۔ قرآن کی وضاحتوں کے باوجود حلالہ کی لعنت کا فتویٰ انتہائی غلط ہے۔
پاکستان کے علماء و مفتیان اور افغانستان کے طالبان اپنے مسلک حنفی کے مطابق سب سے پہلے اپنی خواتین کو حلالہ کی لعنت سے بچانے میں اپنا کردار ادا کریں تو اس سے اسلام کی نشاة ثانیہ اور عورت کے حقوق کا وہ آغاز ہوجائیگاکہ ہندوستان کے مسلمان ، ہندو اور سکھ بھی اس کا خیرمقدم کریں گے۔ حلالہ کے نام سے غلط فتوؤں اور حلالہ سینٹروں سے اسلام کی بدنامی اور مسلمانوں کا بدترین استحصال ہورہاہے۔ جس میں کسی قسم کا کوئی دنیاوی مفاد یا غیرت کا بھی مسئلہ نہیں ہے بلکہ مفادات کے خلاف اور انتہائی بے غیرتی کی بات ہے ۔ ہم نے ہر پہلو سے سیر حاصل بحث کرکے مسئلہ انتہائی آسان طریقے سے قابلِ قبول بنادیا جو ہمارا کمال قطعی طور پر نہیں بلکہ قرآن کی وضاحتوں کا کمال ہے۔ صرف توجہ ہو تو پھرشعور وآگہی کی ہوائیں چلیں گی۔ قرآن میں بار بار باہمی رضا سے رجوع کی وضاحت ہے اور باہمی رضا کے بغیر رجوع کی اجازت نہ ہونے کی وضاحت ہے۔رجوع کی علت 3طلاق نہیں ہے بلکہ باہمی رضامندی ہے۔ بقیہ صفحہ 2پر

اگر خواتین کو افغانستان میں اسلام کے مطابق آزادی اور تحفظ دیا گیا تو ان کی ویزوں کی مَد میں اچھی خاصی آمدن ہوسکتی ہے۔ طالبان ایران سے سستا تیل ، بھارت سے سستی دوائیاں اور پاکستان کے مزارعین سے سستی اناج لیں اور ان کے ساتھ تعاون ہو تو پھر اس خطے میں امن کی زنجیر اور خودمختاری کی تصویر بن سکتے ہیں۔ دوبئی ، سعودیہ اور مصر کا مولوی اپنی ریاستی پالیسی کا پابند ہوتا ہے۔ جو عورت سعودی عرب میں برقعہ کے بغیر نہیں گھوم سکتی وہ دبئی میں سمندر کے کنارے ننگی ہوسکتی ہے۔ جنوبی وزیرستان کانیگرم کی ندی اور شمالی وزیرستان درپہ خیل کی مسجد میں جوان بوڑھے ننگے نہاتے تھے۔ لیکن مولوی کو رسم و رواج اور ریاست کے خلاف بولنے کی کبھی ہمت نہیں ہوئی۔

طلاق کے مقدمے میںبھی غلطیاں
سورۂ بقرہ کے دو رکوع میں طلاق اور اس سے رجوع کا تفصیلی ذکرہے۔
ویسئلونک عن المحیض قل ھو اذًی فاعتزلوا النساء فی المحیض ولا تقربوھن حتی یطھرن فاذا تطھرن فأتوھن حیث امرکم اللہ ان اللہ یحب التوابین ویحب المتطھرینO البقرہ222
” اور تجھ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں کہہ یجئے کہ وہ ایک تکلیف ہے۔ پس عورتوں سے حیض میں علیحدگی اختیار کرو ،حتی ٰکہ وہ پاک ہوجائیں اور جب وہ پاک ہوجائیں تو ان کے پاس آؤ، جیسے اللہ نے حکم دیا ہے۔ بیشک اللہ توبہ کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے”۔
حیض میں عورت کو تکلیف ہوتی ہے اور ناپاکی بھی۔ آیت کے شروع و آخر میں دونوں باتیں واضح ہیں۔ تکلیف سے توبہ اور گند سے پاکیزگی والوں کو اللہ پسند فرماتا ہے۔ اللہ نے حیض کو قذر ( گند) نہیں اذًی قراردیا۔ جس سے طلاق و عدت کے مسئلے میں عورت کی تکلیف کو پہلے نمبر پر رکھ دیا ہے۔ آنے والی آیات میں طلاق کے حوالے سے خواتین کو جن اذیتوں کا سامنا ہے ،ان کا حل ہے۔
نسائکم حرث لکم ……….ترجمہ:” تمہاری عورتیں تمہارا اثاثہ ہیں ، پس تم اپنے اثاثے کے پاس جیسے چاہو ،آؤ۔اور اپنے لئے آگے بھیجو( دنیا و آخرت کے مستقبل کو سنوارو) اور اللہ سے ڈرو،اور جان لو! بیشک تم نے اس سے ملنا ہے اور ایمان والوں کو بشارت دو”۔ (آیت223، سورةالبقرہ)
عربی میں حرث کھیتی کو بھی کہتے ہیں اور اثاثہ کو بھی۔ عناصر کی جو صفات ہیں وہ بھی اثاثہ کہلاتی ہیں۔ میٹر اور پراپٹیزکا یہ تعلق ایکدوسرے کیساتھ لازم وملزوم ہوتا ہے۔ جب کوئی استاذ اپنے شاگرد یا باپ اپنے بیٹے کو اپنا اثاثہ یا ایسٹ قرار دیتا ہے تو یہ بہت زیادہ اعزاز کی بات ہوتی ہے۔اگر میرے مدارس کے اساتذہ کرام مجھے اپنا اثاثہ یا ایسٹ قرار دیںگے یا میرا ملک پاکستان یا میرا وزیرستان مجھے اپنا اثاثہ قرار دے گا تو یہ میرے لئے بہت بڑے اعزاز کی بات ہوگی لیکن اگر مجھے اپنی کھیتی ، گاجر اور مولی قرار دینگے تو میرے لئے اذیت کا باعث ہوگا۔ جب اپنی عورت کوکھیتی کے بجائے اپنا اثاثہ قرار دیا جائیگا تو عزت افزائی ہوگی۔
علماء نے نہ صرف عورت کو کھیتی قرار دیا بلکہ اس مسئلے پر دو متضاد قسم کی بہت ساری احادیث بھی درج کردیں کہ عورت کیساتھ لواطت جائز ہے یا نہیںہے؟ حضرت عبداللہ بن عمر اور امام مالک کی طرف یہ منسوب ہے کہ اس آیت سے وہ نہ صرف عورت کیساتھ لواطت کو جائز سمجھتے تھے بلکہ آیت کے شان نزول کو یہ سمجھتے تھے کہ عورت کیساتھ لواطت کے جواز کیلئے نازل ہوئی ہے۔جس کا ذکر بہت سی کتابوں میں صراحت کیساتھ ہے اور صحیح بخاری میں بھی اس کا حوالہ موجود ہے۔ دوسری طرف حضرت علی اور امام ابوحنیفہ کی طرف یہ منسوب ہے کہ وہ اس عمل کو حرام اور کفر سمجھتے تھے اور اس کیلئے احادیث کے ذخیرے میں مواد بھی ہے۔

مقدمہ ٔ طلاق کی غلطی اور اسکے نتائج
اگر آیت 222میں اذیت سے گند کے بجائے تکلیف مراد لیتے تو پھر تضادات اور اختلافات کی ضرورت نہ ہوتی۔ ایک ایرانی نژاد امریکن خاتون کی کتاب میں یہ واقعہ موجود ہے کہ ایران میں ایک شخص نے کسی خاتون سے شادی کرلی اور وہ لواطت کرتا تھا جس کی وجہ سے عورت کی خواہش پوری نہیں ہوتی تھی اور پھر عورت نے خلع کا مطالبہ کیالیکن شوہر خلع پر راضی نہیں تھا۔ آخر کار عورت کو حق مہر سے زیادہ رقم دیکر اپنے شوہر سے خلع کے نام پر جان چھڑانی پڑی تھی۔ کیا علماء ومفتیان کے نزدیک قرآن وسنت کے مطابق خلع کا یہ غلط تصور صحیح ہے؟۔
ولاتجعلوااللہ عرضة لایمانکم…….” اور اللہ کو مت بناؤ اپنی ڈھال اپنے عہدوپیمان کیلئے کہ تم نیکی کرو، پرہیزگاری اختیار کرو اور لوگوں کے درمیان صلح کراؤ۔اور اللہ سننے جاننے والا ہے”۔ آیت224: سورةالبقرہ)
ایمان یمین کی جمع ہے۔ یمین دائیں کو کہتے ہیں۔ دائیاں ہاتھ ملاکر عہد کیا جاتا ہے اور اس سے عہدوپیمان، قسم اور بیوی کو طلاق اور لونڈی کو آزاد کرنا وغیرہ سب مراد ہوسکتا ہے لیکن یہاں پر طلاق اور بیوی سے علیحدگی کے الفاظ مراد ہیں اور یہ آیت طلاق کیلئے بہت بڑا بنیادی مقدمہ ہے۔ میاں بیوی میں جدائی کے الفاظ کے بعد ان کو حلالہ کے بغیر ملانانیکی ، تقویٰ اور سب سے بڑھ کرصلح ہے۔ قدیم دور سے یہ روایت رہی ہے کہ محض الفاظ کی بنیاد پر مذہبی طبقات اللہ کو بنیاد بناکر میاں بیوی کے درمیان صلح کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرتے رہے ہیں اور اسی رسم ورواج اور مذہبی فتوے کو ختم کرنے کیلئے قرآن کی ان آیات میںیہ وضاحت کی گئی ہے کہ ” مذہبی طبقے اللہ تعالیٰ کو ڈھال بناکر کسی کے عہدوپیمان اور طلاق صریح وکنایہ کے الفاظ بناکر عوام خاص طور پرمیاں بیوی میں صلح کرانے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کریں”۔ جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی صورت نہیں رکھی ہے کہ میاں بیوی صلح کرنا چاہتے ہوں اور اللہ نے ان میں رکاوٹ پیدا کرنے کا کوئی لفظ ڈالا ہو۔ اگر یہ ثابت ہوجائے تو پھر قرآن میں یہ بہت بڑا تضاد ہوگا۔ قرآن میں مخالفین کی خبر تھی کہ” اگر یہ قرآن اللہ کے علاوہ کسی غیر کی طرف سے ہوتا تو پھر اس میں بہت سارا اختلاف (تضاد) وہ پاتے”۔
لایؤاخذکم اللہ باللغو فی ایمانکم ……….”اور اللہ تمہیں لغو عہدو پیمان سے نہیں پکڑتا ہے مگر تمہیں پکڑتا ہے جو تمہارے دلوں نے کمایا ہے”۔ سورۂ بقرہ کی اس آیت 225کو سیاق وسباق کیساتھ دیکھا جائے تو اس سے مراد یہی ہے کہ طلاق کے صریح وکنایہ کے تمام الفاظ میں لغو الفاظ پر اللہ نہیں پکڑتا ہے مگر وہ دلوں کے گناہ پر پکڑتا ہے۔ اس آیت سے طلاق کا موضوع نکال کر قسم پر بحث کی گئی ہے ۔جس میں فقہی تضادات ہیں۔ حالانکہ سورۂ مائدہ میں ہے کہ ذٰلک کفارة ایمانکم اذاحلفتم ”یہ تمہارے عہدوںکا کفارہ اس وقت ہے جب تم نے حلف اٹھایا ہو”۔ جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یمین عہدوپیمان کو بھی کہتے ہیں اور قسم کو بھی۔ جہاں یمین سے مراد حلف ہوگا تو وہاں پختہ قسم کھانے پر اس کا کفارہ بھی دینا ہوگا۔ سورۂ بقرہ کی ان آیات میں یمین سے مراد حلف نہیں ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ طلاق ، عتاق(لونڈی یا غلام کو آزاد کرنا) ، رجعت (طلاق سے رجوع) سنجیدگی میں بھی معتبر ہے اور مذاق میں بھی معتبر ہے۔ جب شوہر طلاق دے لیکن دل کا ارادہ نہ ہو تو پھر فیصلہ قرآن کے مطابق ہوگا یا حدیث کے مطابق؟۔ قرآنی آیت اور حدیث میں کوئی تضاد نہیں ۔ مذاق یاسنجیدگی سے شوہر نے لغو طلاق دی ،اگر عورت راضی ہے تو اللہ نہیں پکڑتا اور اگر عورت راضی نہیں ہے تو وہ طلاق کے لغو لفظ پر بھی پکڑ سکتی ہے۔ طلاق میں شوہر کو مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے اور خلع میں عورت کو طلاق کے مقابلے میں کچھ مالی حقوق سے بھی دستبردار ہونا پڑتا ہے۔ قرآن کی اس آیت اور حدیث میں کوئی تضاد نہیں ہے۔

طلاق کا اظہار نہ کیا تو بھی مسئلہ حل!
ایک بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ اگر شوہر طلاق نہیں دیتا ہے مگر اس کی بیوی سے ناراضگی رہتی ہے تو بیگم کو کتنی مدت تک اس انتظار کی مدت گزارنی پڑے گی؟۔ کیونکہ طلاق کے عزم کا اظہار شوہر نے نہیں کیا ہے؟۔ اللہ تعالیٰ نے اسی مسئلے کو سب سے پہلے ترجیحی بنیادوں پر حل کردیا ہے تاکہ عورت کو اذیت سے بچایا جاسکے۔ اگر علماء وفقہاء اس مسئلے کے حل کی طرف توجہ دیتے تو سرخروہوجاتے۔
للذین یؤلون من نساء ھم تربص………” جو لوگ اپنی بیگمات سے لا تعلقی اختیار کرلیں تو ان کیلئے انتظار ہے چار مہینے کا۔ پس اگر وہ آپس میں مل گئے تو اللہ غفور رحیم ہے” ۔ (سورۂ البقرہ آیت226) یہاں ایک بات یہ اچھی طرح واضح ہے کہ ناراضگی کی صورت میں عورت کی عدت 4ماہ ہے اور دوسرا یہ کہ ناراضگی کے بعد صرف مرد کا راضی ہونا ضروری نہیں بلکہ عورت کا راضی ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر عورت راضی نہیں تو چار ماہ کی عدت کے بعد وہ دوسرے شوہر سے شادی کرسکتی ہے۔ اگر شوہر کو ناراضگی اور پھر یکطرفہ طور سے چار ماہ میں راضی ہونے کا اختیار دیا جائے تو یہ عورت کیساتھ بہت بڑا ظلم اور اللہ تعالیٰ کا ظالمانہ قانون ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو اذیت دینے کیلئے یہ آیت نازل نہیں کی ہے بلکہ اذیت سے اس کی جان چھڑانے کیلئے یہ حکم نازل کیا ہے۔
امام ابوحنیفہ کے نزدیک جب چار ماہ تک رجوع نہیں ہوا تو پھر وہ عورت طلاق ہوگی لیکن جمہور فقہاء کے نزدیک طلاق کیلئے الفاظ ضروری ہیں، جب تک شوہر طلاق کا لفظ استعمال نہیں کرے گا تو وہ عورت زندگی بھر نکاح میں رہے گی۔ ایک عام آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ آیت ایک ہے مگر اس کا نتیجہ بالکل مختلف اور متضاد نکالا گیا ہے، تو کیوں؟۔اس کاجواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو اذیت سے بچانے کیلئے عورت کا حق اور اس کی عدت کوہی واضح کردیا تھا لیکن فقہاء نے عورت کو نظر انداز کرکے اختلاف وتضاد اسلئے پیدا کیا کہ حنفی کہتے ہیں کہ چار ماہ تک شوہر نہیں گیا تو اس نے اپنا حق استعمال کرلیا اور جمہور ائمہ کہتے ہیں کہ جب تک طلاق کا لفظ نہ کہے تو شوہر نے طلاق کا حق استعمال نہیں کیا۔ اگر عورت کی اذیت کا خیال رکھا جاتا تو پھر یہ تضادات نہ ہوتے۔ جب بیوہ عدت کی تکمیل کے بعدبھی اپنے شوہر سے اپنا تعلق برقرار رکھنا چاہتی ہے تو موت اور قیامت تک اسکا نکاح برقرار رہتا ہے۔ نشانِ حیدر اورستارہ جرأت پانے والے فوجی شہداء جوانوں کی جوان بیگمات اسوقت تک اپنے شوہروں کے نکاح میں ہوتی ہیں جب تک دوسرا نکاح نہ کرلیں اس طرح جس کا شوہر ناراض ہوجائے تو اگر چار ماہ کی عدت مکمل ہونے کے بعد بھی وہ اپنے شوہروں سے تعلق قائم کرنے پر راضی ہوں تو رجوع ہوسکتا ہے اور نکاح بھی قائم ہے لیکن اگر عورت اپنا ناطہ توڑ لے تو نکاح باقی نہیں رہتا ہے اور چار ماہ کی عدت کے بعد وہ دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے اور بہت سارے مسائل کا بہترین حل بھی ہے۔

قرآن سے گھمبیرمسائل کا حل مگر؟
وان عزموا الطلاق ……” اور اگر ان کا عزم طلاق کا تھا تو بیشک اللہ سنتا اور جانتا ہے”۔ ( آیت227، سورہ بقرہ)۔
اگر طلاق کا عزم تھا تو یہ دل کا گناہ ہے جو اللہ سنتا اور جانتا ہے اور اس پر پکڑبھی ہے لیکن اگر طلاق کا عزم نہیں تھا تو پھر یہ دل کے گناہ کی بات نہیں ،پھر عدت ایک ماہ بڑھنے پر مواخذہ نہیں ہوگا۔ آیات225،226اور227ایک دوسرے کی زبردست تفسیر ہیں اور ان میں خواتین کے مسائل حل ہوئے ہیں ۔
والمطلقٰت یتربصن بانفسھن ……….” اور طلاق والی اپنے نفسوں کو انتظار میں رکھیں تین ادوار تک اور ان کیلئے حلال نہیں کہ چھپائیںجو اللہ نے انکے رحموں میں پیدا کیا ،اگر وہ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتی ہیں اور انکے شوہر اس مدت میں ان کو لوٹانے کے حقدار ہیں بشرط یہ کہ اصلاح کرنا چاہیں اور ان کے حقوق ہیں جیسے ان پر حقوق ہیں معروف طریقے سے اور مردوں کا ان پر ایک درجہ ہے اور اللہ زبردست حکمت والا ہے ”۔ ( آیت228سورة البقرہ)
جاہلیت میں ایک یہ برائی تھی کہ اکٹھی تین طلاق کے بعد شوہر حلالہ کے بغیر رجوع نہیں کرسکتا تھا،دوسری برائی یہ تھی کہ عدت میں شوہر جتنی بار چاہتا تو ایک ایک مرتبہ طلاق کے بعد رجوع کرسکتا تھا۔ اس آیت کا کمال یہ ہے کہ جتنی بار اور جتنی تعداد میں طلاق دی جائے رجوع کا تعلق صلح اور عدت کیساتھ ہے۔ دس بار طلاق کے بعد بھی عدت میں اس آیت کی وضاحت سے رجوع ہوسکتا ہے ۔
اس آیت میں واضح کیا گیاہے کہ عورتوں کے بھی مردوں پر اسی طرح سے یکساں حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر ہیں البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ ہے اسلئے کہ مردوں کا طہر وحیض اور عدت کا مسئلہ نہیں۔ اس وجہ سے حق مہر اور دوسرے معاملات میں عورت کو بہت سی رعایتیں حاصل ہیں۔
رسول اللہۖ ، حضرت ابوبکر کے دور میں اور حضرت عمر کے ابتدائی تین سال تک تین طلاق کو ایک سمجھا جاتا تھا، پھر حضرت عمر نے اکٹھی تین طلاق کا فیصلہ جاری کردیا اور فرمایا کہ جس چیز کی اللہ نے رعایت دی تھی ۔ تم لوگوں نے اس کا غلط فائدہ اٹھایاہے”۔ (حضرت ابن عباس :صحیح مسلم)
حضرت عمر نے قرآن کے عین مطابق فیصلہ کیا تھا اسلئے کہ اگر عورت راضی ہوتی تو حضرت عمر کے پاس جانے کی ضرورت بھی نہ تھی۔ صحابہ اور تابعین کیلئے قرآن کو سمجھنا مسئلہ نہیں تھا۔ ایک طلاق کے بعد بھی باہمی صلح کے بغیر رجوع کی گنجائش نہیں تھی۔ جب شوہر نے تین طلاق کا لفظ کہہ دیا تو عورت ڈٹ گئی۔ جب حضرت عمر کے پاس مسئلہ پہنچا تو قرآن کے مطابق وہی فیصلہ کیا جو آیت میں واضح ہے کہ باہمی صلح واصلاح کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا۔
صحابہ کرام اور ائمہ اربعہ نے حضرت عمر کے فیصلے کی تائید کی۔ یہ تو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ ایسا وقت بھی آئے گا کہ جب قرآن کو چھوڑ کر فتویٰ دیا جائیگا کہ باہمی صلح کے باوجودبھی حلالہ کی لعنت کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا۔ حنفی مسلک اور تمام مسالک کے بنیادی اصول کا تقاضہ ہے کہ آیت کے مقابلے میں کوئی ایسی حدیث بھی ہوتی کہ عدت میں تین طلاق کے بعد بھی باہمی اصلاح کے بغیررجوع نہیںہوسکتاہے تو اس حدیث کو یکسر رد کردیا جاتا۔ حلالہ کی لذت نے بڑے بڑوں کو قرآن کی طرف متوجہ کرنے کی زحمت پر مجبور نہیں کیا ۔
یہ رکوع ختم ہوا۔ اللہ نے عورت کی اذیت کا لحاظ رکھتے ہوئے جاہلیت کی رسوم کو ختم کیا ۔ناراضگی میں طلاق کا اظہار نہ کرنے کی صورت میں چار ماہ کی عدت ہے اور طلاق کااظہار کرنے کے بعد تین ماہ تک انتظار ہے اور تین طلاق کے بعد بھی باہمی صلح سے رجوع ہوسکتا ہے اور طلاق کے بعد صلح کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ہے مگر علماء نے اس رکوع سے اہم ترین مسائل کااستنباط نہیں کیا۔

قرآن میں تضادات بالکل بھی نہیں
پھر دوسرا رکوع شروع ہوتا ہے۔ قرآن میں تضادات نہیں ۔ یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ قرآن عدت میں اصلاح کی شرط پر رجوع کی اجازت بھی دے اور پھر دوسری آیت میں دومرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ طلاق پر عدت ہی کے اندر اصلاح کی شرط پر رجوع کا دروازہ بند کردے۔ اور نہ ایسا ہوسکتا ہے کہ آیت 228 میں صلح کی شرط کے بغیر رجوع کا حق نہ دے اورآیت229 میں ایک مرتبہ نہیں دومرتبہ طلاق کے بعد بھی اصلاح کی شرط کے بغیر رجوع کا حق دے۔ قرآن میں یہ تضادات دشمن بھی نہیں نکال سکتے تھے لیکن اپنے نالائق مسلمانوں نے قرآن میں تضادات پیدا کرکے اسلام کوبالکل ا جنبی بنادیا ہے۔
الطلاق مرتٰن ………” طلاق دومرتبہ ہے پھر معروف طریقے سے روکنا ہے یا احسان کیساتھ چھوڑ دینا ہے۔ اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ تم نے جو کچھ بھی ان کو دیا ہے کہ اس میں سے کچھ واپس لو۔ مگر جب دونوں کو خوف ہو کہ اللہ کی حدود پر وہ قائم نہ رہ سکیں گے اور اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پرنہیں رہ سکیں گے تو دونوں پر کوئی حرج نہیں کہ عورت کی طرف سے اس کو فدیہ کیا جائے۔ یہ اللہ کی حدود ہیں۔ ان سے تجاوز مت کرو اور جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں”۔ ( آیت 229سورة البقرة)
اس آیت 229کے پہلے حصے کا آیت228 سے یہ ربط ہے کہ طلاق شدہ عورتوں کی عدت کو واضح کیا گیا تھا کہ تین ادوار ہیں۔ یعنی تین طہرو حیض ۔ اس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ تین مرتبہ طلاق کا تعلق عدت کے تین ادوار سے ہے۔ رسول اللہ ۖ سے صحابی نے پوچھا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے ؟، جس پر نبیۖ نے فرمایا کہ” آیت229میں دومرتبہ طلاق کے بعد تسریح باحسان تیسری مرتبہ احسان کیساتھ رخصت کرنا تیسری مرتبہ کی طلاق ہے”۔
بخاری کی کتاب الاحکام ، کتاب التفسیر، کتاب الطلاق اور کتاب العدت میں واضح ہے کہ تین مرتبہ طلاق کا تعلق عدت کے تین ادوار طہرو حیض سے ہے۔ سورة الطلاق کی پہلی آیت میں بھی بہت وضاحت کیساتھ یہ موجود ہے کہ طلاق کا تعلق عدت کے تین مراحل سے ہے اور جب عورت کو حمل ہو تو پھر عدت کے تین مراحل ہیں اور نہ ہی تین مرتبہ طلاق بلکہ وضع حمل تک ایک ہی عدت ہے۔ رجوع کا تعلق بھی بچے کے پیدائش سے متعلق ہوجاتا ہے۔ چاہے 8یا9ماہ ہوں یا3یا4ہفتے، دن ،گھنٹے، منٹ یا سکینڈ۔ عورت کی عدت ختم ہونے کے بعد اس کو دوسرے شوہر سے نکاح کرنے کا حق حاصل ہوجاتا ہے ۔ البتہ عدت کی تکمیل کے بعد اللہ تعالیٰ نے بار بار باہمی رضامندی سے رجوع کی وضاحت کی ہے۔
آیت229کے دوسرے حصے کا تعلق تین مرتبہ طلاق کے بعد کے مرحلہ سے ہے لیکن افسوس کہ اس سے بالکل باطل طورپر خلع مراد لیا گیا ہے اور یہ آیت 230 کیلئے مقدمہ ہے جس کو فقہ حنفی کی اصولِ فقہ میں بھی ثابت کیا گیاہے۔

_ معرکة الآراء مسئلے کا قرآن میں حل _
فان طلقہا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ ……. ”پس اگر پھر اس نے طلاق دی تواس کیلئے حلال نہیں ہے یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہرسے نکاح کرلے۔ پس اگر اس نے پھر طلاق دی تو پھر دونوں پر کوئی حرج نہیں کہ اگر وہ آپس میں رجوع کریں۔ اگر ان کو یہ گمان ہو کہ اللہ کی حدودپر وہ دونوں قائم رہ سکیں گے۔ یہ اللہ کی حدود ہیں جو اس قوم کیلئے بیان کئے جار ہے ہیں جو سمجھ رکھتے ہیں”۔ (آیت230 سورة البقرہ)
قرآن نے جاہلیت کی ایک ایک باطل رسم کو ملیامیٹ کرکے رکھ دیا ہے۔ شوہروں کی غیرت یہ کبھی گوارا نہیں کرتی ہے کہ اس کی بیگم سے طلاق یا خلع کے بعدکوئی اور شادی کرلے۔ تہمینہ درانی سے مصطفی کھر کی طلاق کے بعد شہباز شریف کی شادی ہوئی تھی تو جنرل مشرف دور میں دونوں کے اس قدیم اورجدید رشتے کو اس وقت پنجاب کے جیالے صحافیوں نے تنقید کا نشانہ بنایا تھا جب وہ ایک ساتھ جہاز میں تشریف لائے تھے۔ وزیراعظم عمران خان نے خلع لیکر خاور مانیکا کی بیگم سے شادی کرلی تو بشریٰ بی بی کی اولاد نے بھی اس کا انکار کیا تھا۔ اور کچھ نہیں ہے تو روایتی غیرت کے مقابلے میں عمران خان نے ایک شرعی مسئلے کو معاشرے میں زندہ کرکے مدینے کی ریاست کا آغاز ضرور کردیا۔ عمران خان کا یہ اقدام غیرمعمولی اسلئے نہیں تھاکہ جمائماخان کو بھی آزادی سے جینے کا حق دیا تھا البتہ ریحام خان کیساتھ یہ زیادتی ضرور ہوئی تھی کہ عمران خان سے طلاق کے بعد لندن سے پاکستان آتے وقت قتل کی سنگین دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔اور اس کی وجہ PTMوالے یہی بتاسکتے ہیں کہ آخر وہ ایک پٹھان تھی۔
آیت229کے پہلے حصے کا تعلق آیت228کی مزید وضاحت ہے اور آیت229کے آخری حصے کا تعلق آیت230سے ہے۔ بدقسمتی سے اس کو خلع قرار دیا گیا۔ حالانکہ دو،تین بار طلاق کے بعد خلع کا کوئی تصور نہیں ہوسکتا ہے۔ جب حدیث میں بھی واضح ہے کہ تیسری طلاق کا تعلق طلاق مرتان کے بعد او تسریح باحسان کیساتھ ہے اور آیت230میں فان طلقہا کا تعلق آیت 229کیساتھ کے آخری حصہ فدیہ دینے کیساتھ حنفی مسلک ہے اور علامہ ابن قیم نے حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ اس طلاق کا تعلق فدیہ کی صورت سے ہے تو پھر ان سارے حقائق کو کھاکر کس طرح ہضم کرکے ایک ساتھ تین طلاق پر حلالہ کو مسلط کیا جارہاہے ؟۔ حلالہ کی لذت آشناؤں اور اس کو ایک منافع بخش کاروبار بنانے والوں کو سزاؤں کے بغیر روکنا ممکن نہیں لگتا ہے۔
واذاطلقتم النساء فبلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف …….. ”اور جب تم نے عورتوں کو طلاق دی اور وہ اپنی مدت کو پہنچ گئیں تو ان کومعروف طریقے سے روک لو یا معروف طریقے سے چھوڑ دو۔ اور ان کو ضرر پہنچانے کیلئے مت روکو، تاکہ تم اپنی حد سے تجاوز کرواور جو ایسا کرے گا تو اس نے بیشک اپنے نفس پر ظلم کیا۔اور اللہ کی آیات کو مذاق مت بناؤ۔اور ملاحظہ کرو جو اللہ نے تم پر نعمت (بیوی)کی ہے اور جو اللہ نے کتاب میں سے (رجوع کے) احکام نازل کئے ہیں۔ اور (جو اللہ نے تمہیں) حکمت ( عقل وسوچ کی صلاحیت)دی ہے ، جس کے ذریعے تمہیں نصیحت کی جاتی ہے۔ اور ڈرو اللہ سے اور جان لو کہ وہ ہر چیز کو جانتا ہے۔ (البقرہ: آیت231)
یہ دوسرا رکوع ختم ہوا۔ باہمی اصلاح سے جس طرح عدت کے اندر رجوع کا حق ہے ،اسی طرح عدت کی تکمیل کے بعد باہمی اصلاح سے اللہ نے رجوع کا دروازہ کھول دیا ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اللہ نے 230البقرہ میں جس طلاق کے بعد حلال نہ ہونے کی وضاحت فرمائی ہے تو اس سے پہلے بھی اس صورت کا ذکر ہے کہ جس میں بہرصورت جدائی پر سب تلے ہوں۔

حلال نہ ہونے کا ذکر بار بار ہواہے
جب آیت226البقرہ میں واضح ہے کہ ناراضگی کے بعد جب عورت کی رضامندی نہ ہو تو رجوع نہیں ہوسکتا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ پھر شوہرکیلئے وہ حلال نہیں ہے۔ اسی طرح آیت228میں واضح ہے کہ ” اس عدت میں شوہروں کو اصلاح کی شرط پر انکے لوٹانے کا حق ہے”۔جس کا مطلب یہی ہے کہ اصلاح کی شرط کے بغیر شوہروں کیلئے ایک طلاق کے بعد بھی لوٹانا حلال نہیں ہے۔ اسی طرح آیت229میں ہے کہ ” طلاق دومرتبہ ہے۔ پھر معروف کے ساتھ روکنا ہے یا احسان کیساتھ چھوڑنا ہے”۔ اس آیت میں بھی یہ واضح ہے کہ دو مرتبہ طلاق کے بعد بھی معروف یعنی اصلاح کی شرط پر روکنا حلال ہے اور صلح و معروف کی شرط کے بغیر دو طلاق کے بعد بھی روکنا حلال نہیں ہے۔ ان آیات میں دماغ کے بند دریچے کھولنے کی ہرسطح پر زبردست وضاحتیں ہیں اور ایک ایک آیت میں ایک ایک طلاق کے بعد یہ واضح ہے کہ باہمی اصلاح کے بغیر شوہر کیلئے رجوع کرنا قطعی طور پر حلال نہیں ہے۔ آیت230سے پہلے اس صورت کی وضاحت ہے کہ تین مرتبہ طلاق کے بعد شوہر کا عورت کو دی ہوئی چیزوں میں سے کوئی چیز بھی واپس کرنا حلال نہ ہو لیکن جب دونوں اور فیصلہ کرنے والوں کو یہ خوف ہو کہ اس چیز کی وجہ سے آپس میں رابطہ ہوسکتا ہے اور اللہ کی حدود پامال ہوسکتے ہیں تو پھر اس چیز کا عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے بھی قرآن کے ترجمہ میں اتنی فاش غلطی کردی ہے لکھا ہے کہ ” عورت فدیہ دیکر خلع لے”۔ حالانکہ دو، تین بار طلاق کے فیصلے کے بعد خلع کا کوئی تُک نہیں بنتا ۔ علماء کرام کی یہ صفت بہت اچھی ہے کہ اپنے اکابر کی غلطی پر گرفت کو اچھا سمجھتے ہیں لیکن جاہل جماعت اسلامی والوں نے مولانا مودودی کو اپنے مال واسباب کمانے کا ذریعہ بنارکھا ہے۔ آیت229کے آخری حصے میں بھرپور طریقے سے یہ وضاحت ہے کہ دونوں میاں بیوی اور فیصلہ کرنے والے اس نتیجے پر پہنچے ہوں کہ نہ صرف یہ تعلق ختم ہو بلکہ آئندہ رابطے کا بھی کوئی ذریعہ باقی نہ رہے۔ اس صورت میں پھر یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ رجوع کرلیا جائے تو ہوجائے گا یا نہیں؟۔ بلکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عورت کو اس طلاق کے بعد بھی شوہر اپنی مرضی سے دوسرے شوہر کیساتھ نکاح کی اجازت دیتا ہے یانہیں؟۔ اس گھمبیر رسم کا خاتمہ بھی قرآن ہی نے کردیا ہے اور یہ عورت پر اتنا بڑا احسان ہے کہ اس سے زیادہ احسان کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ہے۔ جہاں تک حلالہ کے بغیر نکاح ناجائز ہونے کا تصور ہے تو آیت231اور پھر آیت232میں اللہ تعالیٰ نے عدت کی تکمیل کے بعد بھی باہمی رضامندی کیساتھ حلالہ کئے بغیر رجوع کی زبردست الفاظ میں اجازت کو واضح کیا ہے۔ قرآن میں ایک بھی تضاد نہیں ہے لیکن علماء کے غلط فہم نے قرآن کو بازیچۂ اطفال بنایا ہے۔ دنیا قرآن پر ایمان نہ رکھے لیکن مانے گی ضرور۔

قرآن حدیث میں کوئی تصادم نہیں
صحیح حدیث کو احناف نے رد کیا ”جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اسکا نکاح باطل ، باطل ، باطل ہے” ۔ کہ یہ آیت 230 سے متصادم ہے۔ حالانکہ جب شوہر طلاق دیتا ہے تو وہ عورت پر اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتا ہے کہ اس کا یہاں وہاں نکاح نہ ہو۔ لیڈی ڈیانا کو اسی لئے قتل کیا گیا کہ شہزادہ چارلس کیلئے یہ غیرت کا مسئلہ تھا اور نبیۖ کی ازواج سے ہمیشہ کیلئے نکاح کو اسلئے ناجائز قرار دیا گیا کہ اس سے نبیۖ کو اذیت کا سامنا ہوسکتا تھا۔ کنواری لڑکیوں کا بھاگنا حنفی مسلک کا نتیجہ ہے۔ عورت کی شادی کیلئے رضا کو نبیۖ نے ضروری قرار دیا تھا لیکن فقہی مسالک کے ارباب نے ولی کے جبری اختیار کے حوالے سے عجیب وغریب قسم کی متضاد فضولیات بکی ہیں۔
جن احادیث کی بنیاد پر اکٹھی تین طلاق کو جواز بخشا گیا ان میں یہ حقیقت نظر انداز کی گئی کہ ایک شوہر کا فعل ہے کہ اکٹھی تین طلاق دے اور دوسرا باہمی رضامندی سے رجوع کی بات ہے۔ قرآن نے رجوع کیلئے باہمی رضامندی کو بنیاد بنایا ہے۔ فحاشی کی صورت میں شوہر ایک ساتھ فارغ کرنے کیلئے تین طلاق دے یا غصہ کی صورت میں تین طلاق کے الفاظ نکل جائیں اور پھر عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہو تو انسانی فطرت اور دنیا کی ہر عدالت کا یہی فیصلہ ہوگا کہ عورت کو شوہر سے خلاصی پانے کا بھی حق ہے اور شوہر کا عورت سے خلاصی پانے کا بھی حق ہے۔ قرآن نے باہمی اصلاح کی شرط پر رجوع کا حق دیا ہے تو ٹھیک ہے۔
جس حدیث میں اس بات کا ذکر ہے کہ نبیۖ نے رفاعة القرظی کی طلاق کے بعد عورت کا زبیر القرظی سے شادی کے بعد فرمایا کہ ”جب تک اس کا ذائقہ نہ چکھ لو، رفاعہ کے پاس واپس نہیں جاسکتی ہے”۔ پہلی بات یہ ہے کہ حدیث خبر واحد ہے جو قرآن کی وضاحت سے متصادم ہونے کے بعد قابلِ عمل نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس حدیث میں ہے کہ دوسرا شوہر نامرد تھا اور حلالہ کی صلاحیت سے محروم تھا تو نبیۖ کس طرح حکم دیتے ؟۔ تیسری بات یہ ہے کہ رفاعہ نے مرحلہ وار تین طلاقیں دی تھیں اور وہ عورت دوسرے شوہر کی بیگم بن چکی تھی اسلئے محض رجوع کا نہیں بلکہ اس شوہر سے جان چھڑانے کا مسئلہ تھا۔ بخاری میں ہے کہ اس عورت کے جسم پر مار کے نشانات حضرت عائشہ نے بیان کئے اور اسکے شوہر نے اپنے بچوں کو ساتھ لاکر اپنے نامرد ہونے کی تردید کی۔
جہاں تک اکٹھی تین طلاق واقع اور اس پر نبیۖکے غضبناک ہونیکا تعلق تھا تو حضرت عبداللہ بن عمر پر غضبناک ہونے کے باوجود بھی رجوع کا حکم فرمایاتھا۔ ایک ساتھ تین طلاق واقع ہونے کا مفاد عورت کے حق میں اس وقت ہے کہ وہ رجوع کیلئے راضی نہ ہو اور ایک طلاق اور ناراضگی کی صورت میں بھی عورت کے اس حق کی قرآن میں وضاحت ہے۔سورۂ بقرہ آیت232میں اور سورۂ طلاق کی پہلی دوآیات میں بھی اسی مؤقف کی بھرپور وضاحت اللہ نے کردی ہے اور کوئی صحیح حدیث قرآن سے متصادم نہیںمگر فقہاء نے آیات کومتصادم بنادیا ہے۔
واذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فلا تعضلوھن ان ………
” جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت کو پہنچیں تو ان کو اپنے شوہر سے نکاح کرنے سے مت روکو۔ جب وہ آپس میں معروف طریقے سے راضی ہوں۔ یہ اس کو نصیحت ہے جو اللہ اوریوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو۔ یہ تمہارے لئے زیادہ پاکیزگی اور طہارت ہے ۔ اور اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے” ۔
یہ آیت232البقرہ اور تیسرا رکوع شروع ہے۔ یہ طلاق سے رجوع کیلئے قول فیصل ہے اور سورۂ طلاق کی پہلی دو آیات میں بھی ان آیات کا خلاصہ ہے جس میں عدت کے اندر ، عدت کی تکمیل پر اور طلاق کے فیصلے کے بعد کافی مدت گزرنے کے بعد بھی اللہ نے باہمی صلح سے رجوع کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

وائٹ کالر دہشت گرد سر امریکہ نے دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر افغانستان، عراق، لیبیا، شام، پاکستان میں لاکھوں افراد کو قتل کیا

وائٹ کالر دہشتگرد امریکہ سر نے افغانستان، عراق، لیبیا، شام ، پاکستان میں دہشتگردی کے خاتمے کے نام پر لاکھوں کو لقمۂ اجل بنانے کے بعد وزیراعظم نیازی سے نیاز لینا ہے اور آرمی چیف جنرل باجوہ سے باجا بجوانا ہے، علتِ غلامی سے سرشارمیاں مٹھو شاہ محمود قریشی نے بتاناہے کہ ”یہ ہماری خدمات کا اعتراف ہے اسلئے امریکہ سلامی لینے ایک ماہ شرپسندوں کو رکھنا چاہتا ہے تاکہ یہ ثابت ہوجائے کہ انگریزکے ٹرینڈ وفادار غلام کتوں کی دُم ہلتی رہے گی!”

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

قرآن کی دھمکی اور ہماری زبوں حالی
قل ھو القادر علیٰ ان یبعث علیکم عذابًا من فوقکم او من تحت ارجلکم او یلبسکم شیعًا و یذیق بعضکم بأس بعض…
ترجمہ: ”کہہ دیجئے کہ وہ قادر ہے کہ تم پر عذاب بھیجے اوپر سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا تمہیں بھڑادے مختلف گروہ کرکے اور چکھا دے لڑائی ایک دوسرے کی۔ دیکھ لو کہ ہم کیسے آیات کو پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں شاید کہ وہ سمجھ جائیں۔ اور تیری قوم نے جھٹلایا جس کو ، اور وہ حق ہے ، کہہ دو کہ میں تمہارا داروغہ نہیں ہوں ۔ ہر ایک غیبی خبر کا ایک وقت مقرر ہے اور عنقریب تم جان لو گے اور جب آپ دیکھیں ان لوگوں کو کہ ہماری آیات میں موشگافیاں کرتے ہیں تو ان سے کنارہ کش ہوجاؤ یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں لگ جائیں۔ اور اگر آپ کو شیطان بھلا دے تویاد آنے پر مت بیٹھو اس ظالم قوم کیساتھ۔ اور ان لوگوں پر ان کے حساب میں سے کچھ بھی نہیں جو تقویٰ رکھتے ہیں۔ لیکن ان کو یاد دہانی کرانی ہے تاکہ وہ پرہیز کریں۔ اور چھوڑ دو ان لوگوں کو جنہوں نے دین کو لہو ولعب بنایا ہوا ہے اور ان کو دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈالا ہے اور آپ نصیحت کریں قرآن کے ذریعے کہ کوئی اپنے کئے کی وجہ سے گرفتار نہ ہوجائے۔ نہ ہوگا ان کیلئے اللہ کے سوا کوئی حمایتی اور سفارش کرنے والا۔ اگر بدلے میں دیں سارا کچھ تو بھی ان سے قبول نہیں کیا جائے گا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو گرفتار ہوئے اپنے کئے کے سبب ۔ ان کیلئے گرم پانی ہے اور دردناک عذاب جو وہ کفر کرتے تھے”۔
سورہ انعام :65سے70تک میں اللہ تعالیٰ نے ہر دور کے لوگوں کیلئے بڑی سخت دھمکی لگائی ہے۔ خاص طور پر پیغمبروں اور نبی کریم ۖ کے دور والوں کیلئے۔ آج ہمیں بھی افغانستان ، عراق، شام، لیبیا اور دیگر ان ممالک کی طرح مشکلات کا سامنا نظر آرہا ہے کہ جب اپنے اندر استحکام سمجھنے والے مختلف طرح کے عذاب کا شکار ہوئے۔ تورا بورا پر خطرناک بم برسائے گئے اور عراق و لیبیا کا برا حال کیا گیا۔ آپس میں بھی گروہ در گروہ ایک دوسرے سے لڑتے رہے۔
ان آیات میں قرآن کے مقابلے میں جن موشگافیوں کا ذکر ہے ہمارے علماء و مفتیان ، مدارس و مسالک اور فرقے اسی مرض کے بدترین شکار نظر آتے ہیں۔ ان لوگوں نے دین کو کھیل تماشہ بنادیا ہے اور دنیاوی زندگی نے ان کو دھوکے میں مبتلا کیا ہے۔ اہل کتاب کی طرح اللہ کے واضح احکام کے مقابلے میں بہت ساری فضول کی موشگافیوں میں مبتلا ہیں۔
اس شمارے میں قرآن کی واضح آیات کی زبردست نشاندہی کرنے کی اپنی سی کوشش کی گئی ہے۔ امید ہے کہ خطرناک حالات پیدا ہونے سے پہلے پہلے ہم قرآنی آیات اور احکام کے بارے میں فضول کی موشگافیاں چھوڑدیں گے اور حقائق کو دیکھ کر صراط مستقیم پر گامزن ہوجائیں گے۔ قرآن و احادیث میں ایک بڑے انقلاب کی زبردست خبر ہے ۔ جب ہم قرآن کی واضح آیات پر عمل پیرا ہوں گے تو نہ صرف ہماری مشکلات حل ہوں گی بلکہ قرآن کے ذریعے ہم مردہ قوم میں زندگی کی نئی روح دوڑجائے گی۔انشاء اللہ العزیز

_ طالبان کی جیت کابہت خیرمقدم_
طالبان کی افغانستان میں حکومت تھی اور پھر امریکہ نے حملہ کرکے طالبان کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ امریکہ نے افغانستان، عراق، لیبیا اور شام میں بہت بڑا جانی نقصان دہشتگردی کے خاتمے کے نام پر کیا۔ تیل کے ذخائر قبضہ کئے اور اپنا مشن مکمل کرنے کیلئے افغان حکومت اور طالبان کو لڑنے کیلئے چھوڑ دیا تھامگر بقول امریکہ کے اس کو یہ توقع نہیں تھی کہ افغان حکومت خون خرابہ کئے بغیر اتنی جلدی افغانستان کو طالبان کے حوالے کردے گی۔ اشرف غنی کا لڑائی کے بغیر حکومت چھوڑنا اور طالبان کا افغان حکومت کیلئے معافی عام کا اعلان خوش آئند اور بہت زیادہ مبارک بادی کے لائق ہے۔ افغانوں کا اپنا ملک چھوڑ کر بھاگنا طالبان کیلئے تشویش کا باعث ہے۔ جو کچھ ہوچکاہے وہ ہوچکا ہے ،اب تعمیر نو کی فکر سب کو مل بیٹھ کر کرنے کی بہت سخت ضرورت ہے۔
طالبان نے پہلے کہا کہ جہاں حکومت کی فوج خود ہتھیار ڈال رہی ہے اس جگہ کا ہم کنٹرول حاصل کررہے ہیں۔ پھر صوبائی دارالحکومتوں کو چھوڑ کر علاقوں کا کنٹرول حاصل کرنا شروع کردیا تھا۔ پھر ایک دم سے صوبائی دارالحکومتوں کے قبضے سے گھبراکر اشرف غنی نے اقتدار چھوڑ دیا۔ قندھار ، مزارشریف پر مزاحمت کا بھی اشرف غنی نے حق ادا کیا تھا لیکن طالبان کے طوفان کے آگے افغانستان کی فوج ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ پرائی تنخواہ پر پلنے والی فوج اور نظریاتی لشکر میں جو فرق وامتیاز ہونا چاہیے وہی افغان فوج اور طالبان میں تھا۔
قیاس آرائیوں کا سب کو حق ہے لیکن افواہیں اُڑانے سے ملک وقوم کو بڑا نقصان پہنچتا ہے۔ امریکہ اپنی سرزمین پر ہمارے آرمی چیف، وزیراعظم ، صدر، وزیرخارجہ اور کسی بھی سیاسی رہنما کو ویزے کے بغیر داخلے کی اجازت نہیں دیتا ہے اور ہم نے مہربانی کرکے کراچی اور اسلام آباد کے ہوٹلوں کو انکے حوالے کیا ہے۔ البتہ اس بات میں بھی شک نہیں ہے کہ بڑی تعداد میں پاکستانی اور مسلمان امریکہ میں سچی اور جھوٹی سیاسی پناہ لئے ہوئے ہیں۔ ایف سولہ طیارے امریکہ سے خریدے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے بھارت کو زور آزمائی کا جواب دیا تھا۔
پہلے امریکہ 9/11کی وجہ سے پاگل ہوگیا تھا لیکن پھر بھی امریکہ میں بش کے بعد مسلمان حسین اوبامہ کا بیٹا بارک دومرتبہ امریکہ کا صدر بنا تھا۔ بڑابننے کیساتھ اللہ تعالیٰ دل بھی بڑا دیتا ہے۔ امریکہ نے انتہائی پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والے بارک حسین اوبامہ کو دومرتبہ صدر بنایا لیکن ہم یہ تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں کہ کسی پسماندہ علاقہ سے تعلق رکھنے والے مسلمان کے بیٹے کو قبول کرلیں۔ امریکہ نے بڑی بڑی وارداتیں کرکے دنیا میں اپنی امامت کا مقام کھو دیا ہے۔ پاکستان، ایران اور افغانستان کو بڑا مقام پانے کیلئے اپنا دل بھی بہت بڑا کرنا پڑے گا۔ قرآن میں عورتوں کو ستانے والوں اور افواہیں اڑانے والوں کو بہت بڑا مجرم قرار دیکر واضح کیا گیا ہے کہ پہلے بھی لوگوں کی سنت یہ رہی ہے کہ جہاں یہ پائے گئے بے دریغ قتل کئے گئے۔ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر جھوٹ کی مشینوں اور عورتوں کو ستانے کا سلسلہ مکمل طور پر بند ہونا چاہیے۔

طالبان بھی اپنی غلطیاں تسلیم کریں
جب وحی کی رہنمائی کا سلسلہ موجود تھا تو اللہ نے نبیۖ اور صحابہ کرام کی لمحہ بہ لمحہ رہنمائی فرمائی۔ تائید اور تنبیہ کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ ایک نابینا عبداللہ بن مکتوم کی آمد پر نبیۖ چیں بہ جبیں ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے سورۂ عبس وتولیٰ نازل فرمائی۔ نبی ۖ فرماتے تھے کہ اس صحابی کی وجہ سے اللہ نے مجھے ڈانٹا ہے ۔ حضرت خولہ بنت ثعلبہ نے نبیۖ سے ظہار( طلاق )کے مسئلے پر مجادلہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذیعے نبیۖ کے فتوے کے خلاف حضرت خولہ کی تائید فرمائی اور سورۂ مجادلہ میں مذہبی ذہنیت کے فتوے کی تردید فرمائی ۔ حضرت عمر حضرت خولہ کے احترام میں کھڑے ہوجاتے تھے۔ غزوہ ٔبدر کے قیدیوں سے فدیہ لینے کا مشورہ حضرت عمر اور حضرت سعد کے علاوہ باقی سب اکابر صحابہ نے دیا تھا لیکن وحی اقلیت والوں کے حق میں نازل ہوئی تھی۔ پھر غزوۂ بدر میں سب نے انتقام لینے کی بات کی تھی تو اللہ نے معاف کرنے کا حکم دیدیا تھا۔
جب صلح حدیبیہ کا معاہدہ کیا گیا تو صحابہ کرام اس معاہدے کے خلاف بھی برداشت کی حد سے نکل چکے تھے لیکن نبیۖ کے احترام میں مجبوراً قبول کیاتھا اور پھر اللہ نے اسی کو فتح مبین قرار دیدیا۔ پاکستان، افغانستان اور ایران کوئی بھی کسی گھمنڈ میں نہ رہے۔ قرآن کی تعلیمات کا تقاضہ یہ ہے کہ اپنے نامۂ اعمال پر غرور وتکبر کی جگہ اپنی غلطیوں اور محاسبے کا خیال رکھیں۔ اللہ سے بہت اچھے کی اُمیدبھی رکھیں اور شامتِ اعمال کا خمیازہ بھگتنے کا خوف بھی رکھیں۔ حالات بہت نزاکت خیز بھی ہوسکتے ہیں اور بہت زیادہ اچھے دن بھی آسکتے ہیں۔ اُمید و خوف کے بیچ میں مؤمن کا ایمان رہتا ہے۔ طالبان کیلئے مذہبی طبقات اور پوری دنیا کو مطمئن کرنے کا چیلنج جوئے شیر لانے سے بھی بہت زیادہ مشکل کام ہے۔
جب طالبان نے داڑھی، تصویر، پردہ، نماز، موسیقی اور بہت ساری چیزوں پر اپنا انتہائی سخت مؤقف رکھا تھا تو وہ اپنے جذبے میں مخلص تھے لیکن آج جس طرح فکروشعور کی منزل پر پہنچے ہیں تو یہ زیادہ خوش آئند ہے۔ جب مسلمانوں کا قبلہ بیت المقدس کی جگہ بیت اللہ حرم کعبہ بن گیا تو بہت لوگوں کو اعتراض تھا مگر اللہ نے واضح کردیا کہ ” نیکی یہ نہیں ہے کہ مشرق یا مغرب کی طرف منہ کیا جائے بلکہ نیکی یہ ہے کہ جو تقویٰ اختیار کرے”۔ جب طالبان نے پہلے شریعتِ اسلامی کو اس طرح سے سمجھا تھا تو ویسا عمل کیا اور آج جس طرح سے شریعت سمجھ میں آئی ہے تو اس پر عمل کررہے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ جس طرح سے صلح حدیبیہ کے معاہدے کو مسلمانوں نے بادلِ نخواستہ قبول کیا تھا تو طالبان بھی مجبوری میں ساری دنیا کے طاقتور ممالک کو خوش کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔
اگر اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر یہ کہا جائے کہ طالبان اپنے اندر جو گلٹی محسوس کررہے ہیں وہ بھی در حقیقت کوئی گلٹی نہیں ۔ صحابہ نے پہلے سمجھا تھا کہ روزوں کی رات میں اپنی بیگمات سے جماع کرنا درست نہیں مگر اللہ نے واضح کیا کہ ” اللہ جانتا ہے کہ تم اپنی جانوں سے خیانت کرتے ہو ۔روزوں کی رات کو اپنی عورتوں کیساتھ بے حجاب ہونا تمہارے لئے حلال ہے”۔

اپنا حکمران طبقہ راہِ راست پرآئے!
ہماری سیاست، ہمارا مذہب اور ہمارے کلچر کا معیار نااہلوں کے ہاتھوں میں ذلت ورسوائی کی آخری منزل تک پہنچ گیا ہے۔ اشرف غنی کی حکومت بھی امریکہ کے سہارے کھڑی تھی لیکن خان عبدالغفار خان کے پڑپوتے ایمل ولی کو لمحہ بھر کیلئے بھی امریکہ کی شرارت اس میں دکھائی نہیں دی لیکن جونہی طالبان کی جیت سامنے آئی اور پاکستان نے ایک ماہ کیلئے امریکہ کو سہولتکاری فراہم کردی تو ایمل ولی کے پیٹ میں درد اُٹھ گیا۔ بیس سال سے امریکہ کو پاکستان نے اڈے فراہم کئے تھے اور افغان حکومتیں امریکہ کے سہارے چل رہی تھیں اور طالبان قطر میں اپنے معاملات امریکیوں سے طے کررہے تھے تو یہ سب یکساں طور پر ایک ہی طرح کی بات تھی اور کسی کو بھی خراج عقیدت پیش نہیں کیا جاسکتا ہے۔
امریکہ ونیٹو نے اسلامی ممالک کا تیل چوری کرنے کیلئے افغانستان ، عراق، لیبیا اور شام کے لاکھوں لوگوں کو لقمۂ اجل بنایا۔ پاکستان نے سہولت کاری فراہم کی اور طالبان نے دہشت گردی، اغواء برائے تاوان اور جو ممکن ہوسکا وہ خراب دھندہ کیا جس کی وجہ سے مسلمان اور اسلام مزید بدنام ہوگئے۔ امریکہ و نیٹو کے اقدامات کو تقویت پہنچی اور مسلمانوں کو خود بھی بہت تکلیف کا سامناکرنا پڑگیا۔ جب روس نے افغانستان پر قبضہ کیا تھا تو پاکستان میں دہشت گردی کرنے والا طبقہ نظریاتی طور پر روس کا حامی ہوتا تھا۔ جو بھی اپنے استحکام کیلئے جس طرح کی پوزیشن لے سکتا ہے وہ اس سے دریغ نہیں کرتا ہے۔افغان حکومت اور بھارت ایک پیج پر تھے اسلئے پاکستان کا فطری جھکاؤ طالبان کی طرف تھا، پاکستان نے طالبان کیساتھ اپنی مجبوری میں زیادتی کی تھی ،طالبان سے حکومت چھن گئی تھی ، طالبان کی وجہ سے افغانستان میں خانہ جنگی کی فضاء ختم ہوسکتی تھی کیونکہ جب نیٹو کے ہوتے ہوئے طالبان کو ختم نہیں کیا جاسکا توافغان حکومت اکیلے صرف اور صرف بھارت کی مدد سے افغانستان امن کی جگہ بدامنی کی شرارت کرسکتا تھا۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ مذہبی طبقے کی حمایت اور مخالفت کی بنیاد پر سیاست کرتے ہیں۔ فوج کی مخالفت یا حمایت کی بنیاد پر اپنے پتے کھیلتے ہیں لیکن اپنے پلے کچھ بھی نہیں ہے۔ افغانستان میں کسی کی حمایت یا مخالفت کا تعلق محض طبقاتی بنیاد پر ہو تو اس سے افغانستان کے اپنے حالات کے علاوہ خطے کے دوسرے ممالک کی بھی درگت بنے گی۔ جب ہم اپنے حالات کو درست نہیں کرسکتے تو کسی اور کے بل بوتے پر آپس میں نظریات کی جنگ بھی نہ صرف اپنے لئے بلکہ دوسروں کیلئے بھی ننگ وشرم کا مقام ہوناچاہیے لیکن ہم یہ مقام پار کرچکے ہیں۔ PDMنے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جنگ چھیڑ دی مگر ن اورش لیگ نے کھلم کھلا دونوں طرف کھیلا ۔ ن فوج پر دباؤ اور ش مصالحت پر گامزن تھا۔ مرکزی اور پنجاب حکومت کو گرنے کا خطرہ تھا تو یہ ن لیگ نے اپنے مفاد میں پینترا بدل دیا۔ زرداری نے ٹھیک کہا کہ نوازشریف میدان میں آئے مگر ن لیگ نے بہت برا منالیا۔
پاکستان اسلام کے نام پر بنا اور افغانستان میں امارت اسلامیہ قائم ہوئی ہے تو ہمارا فرض بنتا ہے کہ دنیا کے سامنے اسلام کا اصل نظریہ اور عمل پیش کردیں۔

طالبان پر شک وشبہ کی بڑی گنجائش
” میں جانتا ہوں انجام اس کا جس معرکے میں ملا ہوں غازی ”۔ علامہ اقبال کے اس شعر کی طرح اگر بہت سارے لوگ طالبان کی فتح کو بڑی سازش سمجھتے ہوں تو ان کی اس ذہنیت کا مذہبی طبقے کو بالکل بھی برا نہیں منانا چاہیے۔
ملا اور طالبان نے حقیقی اسلام کی جگہ اپنے روایتی اسلام پر عمل کیا تھا۔ ہیروئن کی کاشت، بھتہ خوری ، اغواء برائے تاوان ، غیرملکی ایجنسیوں سے رابطہ،گٹھ جوڑ ، دہشت گردی ، فرقہ واریت ، نسل پرستی اور دنیا کی وہ کونسی برائی ہے جس کا فقدان طالبان میںدکھائی دیتا ہو؟۔ لیکن یہ تمام خرابیاں ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہی تھیں۔ اگر ان کو اچھا ماحول میسر آجائے تو پھر نہ صرف حقیقی اسلام کو نافذ کرینگے بلکہ عالمِ انسانیت بھی ان کو تہہ دل سے عقیدت وسلام پیش کرے گی۔
ایک تأثر یہ ہے کہ پہلے جو طالبان زبردستی سے نماز پڑھنے پر مجبور کرتے تھے تو اب اپنے مؤقف سے کیوں ہٹ گئے؟۔ کیا اسکے پیچھے امریکی ایجنڈا ہے؟۔
فقہاء نے لکھا، جس کا بریلوی مکتب کے مفتی اعظم مفتی منیب الرحمن نے پچھلے سال کرونا کے مسئلے پر ذکر کیا کہ” عین لڑائی میں بھی نماز باجماعت فرض ہے۔ آدھے لوگ نماز پڑھیں گے اور آدھے لوگ اسلحہ لیکر دفاع کریںگے ”۔ عشرہ فاروق وشہیدحسینمنانے والے تقریر کرتے ہیں کہ حضرت عمر باجماعت نماز کی امامت کرتے وقت شہید کئے گئے اور اپنا دوسرا نائب بناکر نماز مکمل کی گئی اور حضرت عمر بہت زخمی حالت میں تڑپتے رہے۔ شیعہ عالم ایس ایم حیدر نے کہا تھا کہ ” حسین نماز میں نہ ہوتے تو دشمن شہید نہیں کرسکتے تھے”۔ اقبال نے کہا کہ
آیاجب عین لڑائی میں وقت نماز ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمودو ایاز
جب طالبان نے امریکہ کے خلاف جنگ لڑی تو نماز باجماعت چھوڑ دی اور عین لڑائی میں نماز پڑھنا بھی ممکن نہ تھا ۔مولانا طارق جمیل ، فقہاء اور شعراء کے مطابق نماز کی بہت زیادہ اہمیت کے باجود اس سے طالبان بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ کسی نے اقبال کو پڑھا تو سمجھا کہ ٹھیک کہا تھاکہ” نہ تونمازی نہ میں نمازی”۔
طالبان نے جہاد میں نماز اور باجماعت نماز کو چھوڑ دیا تو ان کا دوسروں کے بارے میں رویہ نرم پڑگیا۔ ملاعمر کے نظام سے انحراف کرنے پر طالبان کو اپنوں کی طرف سے خود کش حملوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔ موسیقی کیخلاف ذبیح اللہ مجاہد کا بیان عکاسی کرتا ہے کہ طالبان کو اپنوںسے مزاحمت کا خطرہ ہے۔ اگر یہ آپس میں الجھ گئے تو اس کا بہت بڑا نقصان ہوگا۔اگر آنکھیں بند کرکے اسلام کے بعض احکام پر عمل کیا گیا اور بعض کو نظر انداز کیا گیا تو پھر قرآن کی اس آیت کے مصداق ہوںگے أفتکفرون ببعض الکتٰب وتکفرون ببعض الکتٰب ” کیا تم کتاب کے بعض احکام کو مانتے ہو اور بعض کا انکار کرتے ہو؟”۔
طالبان شوق سے تصاویر کھینچواتے ہیں اور اس کو اسلام کے خلاف بھی سمجھتے ہیں اور موسیقی نہیں سنتے ہیں اور پھر عوام پر بھی اس کی پابندی لگاتے ہیں؟۔ ان کا یہ رویہ قابلِ تعریف یا قابلِ تردید ہوگا؟۔ طالبان سے اتنی گزارش ہے کہ موسیقی پر صرف مغرب کی طرح پابندی لگائیں ۔ عوام کے گانے ہوں یا طالبان کے لیکن عوامی مقامات، پبلک ٹرانسپورٹ اور لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے سے دوسروں کو اذیت پہنچانے کے بجائے اپنے کانوں تک اس کو محدود رکھیں اور اس کو اسلام کا نام نہیں دیں بلکہ انسانیت کا دَم بھرنے کیلئے لوگوں کوایک پرسکون فضاء مہیا کریں۔

بہت بڑی غلط فہمی کا بہترین ازالہ
اللہ نے واضح فرمایا :وان خفتم فررجالًا او رکبانًا ”اور اگر تمہیں خوف ہو تو چلتے چلتے یا سوار ہوکر بھی نماز پڑھو”۔ ظاہر ہے کہ چلتے چلتے اور سوار ہوکر رکوع وسجود اور قیام پر عمل نہیں ہوسکتا۔پھر امن کی حالت آئے تو معمول کی نماز جس طرح سکھائی گئی ہے پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نمازِ خوف کی وضاحت کے بعد سفر کی نماز کا حکم یہ ہے کہ” سفر میں نماز کے قصر کا حکم نہیں بلکہ اجازت ہے”۔ یعنی اگر پوری نماز پڑھ لیں تو حرج نہیں۔ مثلاً امام مسافر اور مقتدی مقیم ہیں تو مسافر امام پوری نماز پڑھ لے تو بھی حرج نہیں لیکن جب مقتدی مسافر امام کے پیچھے اپنی آدھی نماز پڑھیں تو فقہی مشکلات کا شکار ہوںگے۔ ایک طبقہ کہے گا کہ فاتحہ نہیں پڑھی جائے گی اور دوسرا طبقہ کہے گا کہ فاتحہ پڑھی جائے گی۔ اللہ کے احکام کو موشگافیوں کا شکار کرنے والے مجرموں کی قطار میں شامل ہونگے۔
سفر میںنمازِ قصر کے بعد فرمایا کہ ” اگر تمہیں خوف ہو کہ دشمن تم پر کسی وقت بھی انجانے میں حملہ کرسکتا ہے اور نبی ۖ تمہارے اندر موجود ہوں اور وہ باجماعت نماز پڑھانا چاہیں تو پھر تمہیں چاہیے کہ ایک گروہ پہرہ دے اور دوسرا گروہ نماز پڑھتے ہوئے اپنے اسلحے کو تھامے رکھے اور اپناہوش ٹھکانے رکھے۔ پھرجب یہ گروہ سجدہ کرلے تو پیچھے ہٹ جائے اور دوسرا گروہ نماز میں شامل ہوجائے اور اپنا اسلحہ تھامے رکھے ۔ایسا نہ ہو کہ دشمن تمہیں غفلت میں پاکر ایک دم حملہ کردیں اورکام تمام کردیں۔ جب بارش یا بیماری کی حالت میں تم اپنا اسلحہ رکھ دو تو بھی کوئی حرج نہیں ہے اور ایسی حالت میں کھڑے ہونے، بیٹھنے اور لیٹنے کی صورت میں اللہ کا ذکر کرو اور جب اطمینان کی کیفیت میں آجاؤ تو پھر نماز کومعمول کے مطابق قائم کرو اور بیشک اللہ نے اوقات کے مطابق تم پر نماز فرض کی ہے”۔
اس نماز کا جنگ سے تعلق نہیں بلکہ یہ سفر میں خوف کے وقت رہنمائی ہے۔ یہ واضح ہے کہ اگر نبیۖ نماز باجماعت چاہیں تو یہ حکم ہے۔ ضروری نہیں کہ سفر میں باجماعت نماز ہو اور بارش و مرض میں بھی اسلحہ رکھنے کی گنجائش واضح ہے۔ اگر قرآن سمجھ لیا جاتا تو طالبان رہنماؤں کو خوف کی حالت میں نماز باجماعت نہ پڑھنے کی گنجائش نظر آتی اور جذبہ جہاد سے سرشار لوگ میدان جنگ میں نماز نہ پڑھتے تو اپنے آپ کو ملامت کے قابل نہ سمجھتے۔ جب ایک طرف وہ مجبوری میں نماز ترک کریں اور دوسری طرف مولانا طارق جمیل جیسے لوگوں کو اپنا پیشواء سمجھیں جنکے نزدیک قتل، زنا بالجبر، ڈکیتی، شرک اور ہرچیز سے نماز چھوڑنابرا ہو تو پھر اسکے مذہبی خمیر کے آٹے سے عجیب لوگوں کی پکی پکائی روٹی تیار ہوگی۔
اللہ تعالیٰ نے نشے کی حالت میں نماز کے قریب جانے سے روکا ہے یہاں تک جب وہ سمجھیں جو کہہ رہے ہیں اور حالت جنابت میں بھی مگرکوئی مسافر ہو، یہاں تک کہ تم نہالو۔ آیت میں نماز پڑھنے سے جنابت میں روکا گیا ہے اور مسافر کیلئے غسل کئے بغیر بھی اجازت ہے یعنی تیمم سے۔ حضرت عمر نے سفر میں جنابت کی وجہ سے نماز کو ترک کیا اور حضرت عمار نے مٹی میں لوٹ پوٹ ہوکر نمازیں پڑھ لیں۔ نبیۖ نے قرآن کے مطابق دونوں کی تائید فرمائی اسلئے کہ ایک نے گنجائش کی وجہ سے نماز نہیں پڑھی۔ دوسرے نے گنجائش کی وجہ سے نماز پڑھ لی۔قرآن وسنت میں دونوں کیلئے گنجائش تھی لیکن بعد میں اس پر مسالک کی بنیاد رکھی گئی کہ کس کا مؤقف درست اور کس کا غلط ہے؟۔

طالبان کامیاب کیسے ہوسکتے ہیں؟
حنفی مسلک کا بالخصوص اور باقی مسالک کا بالعموم پہلا اصل اصول ہے کہ ”قرآن میں مسئلے کا حل موجود ہو تو قرآن سے حل کیا جائے ۔اگر حدیث قرآن سے ٹکرائے تو حدیث کو ترک کرکے قرآن پر عمل کیا جائے ”۔ پھر دوسرے نمبر پر حدیث ہے ، تیسرے نمبر پر اجماع اور چوتھے نمبر پر قیاس ہے۔ قیاس شریعت کی مستقل دلیل نہیں بلکہ کسی معاملے کو قرآن، حدیث یا اجماع پرقیا س کیا جائے تو یہ قابلِ قبول ہے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ” میری اُمت کبھی گمراہی پر اکٹھی نہیں ہوگی”۔
یہ جہالت ہے کہ ”بنیادی دلیل اجماع ہے، قرآن پر حضرت عثمان کے دور میں اجماع ہوا لیکن حضرت ابن مسعود نے اختلاف کیا تھا۔ جب تک قرآن پر اجماع نہ تھا تو کسی آیت یا سورة کا انکار کرنا کفر نہ تھا لیکن جب اُمت کا اجماع ہوگیا تو اب کسی سورة یا آیت کا انکار کفر ہے”۔(علامہ غلام رسول سعیدی)
صحیح بخاری میں عبداللہ بن عباس نے حضرت علی سے روایت نقل کی ہے کہ ” رسول اللہۖ نے ہمارے پاس دوگتوں کے درمیان (قرآن) کے علاوہ کچھ نہ چھوڑا تھا”۔ وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان نے لکھا ہے کہ ”ابن عباس نے حضرت علی کا یہ قول محض شیعوں کو رد کرنے کیلئے نقل کیا تھا ،ورنہ اصل بات یہ تھی کہ قرآن کے نقل پر صحابہ کا اجماع نہیں تھا”۔(کشف الباری)
مسلک حنفی میں خبر واحد یا مشہور کی آیات قرآن ہیں جو اصولِ فقہ میں پڑھایا جاتا ہے تو پھراحادیث اور اجماع کی اپنی کونسی حیثیت باقی رہ جاتی ہے؟۔ حنفی خبرواحد کی آیت سے دلیل لیتے ہیں لیکن شافعی اس کو نہیں مانتے اور جمہور حدیث کو دلیل بناتے ہیں مگر حنفی اس کو قرآن سے متصادم قرار دیتے ہیں۔ اجماع کا اصولِ فقہ کی کتابوں میں لکھ دیا ہے کہ” اہل مدینہ، خلفاء راشدین اور ائمہ اہل بیت کا اپنا اپنا اجماع بھی حجت ہے”۔جس سے اجماع کی اپنی حیثیت بھی متنازع بنادی گئی ہے کیونکہ ان اجماعوں کا آپس میں بھی تصادم ہے۔
ہمارا بہت بڑا المیہ ہے کہ مسالک کی بنیاد پر پہلے نمبرپر قیاس کو رکھتے ہیں، دوسرے نمبر پر الٹے سیدھے اجماع کا تصور پیش کرتے ہیں ، تیسرے نمبر پر احادیث کو موضوع بحث بناتے ہیں اور قرآن کو آخری چوتھے نمبر پر رکھتے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود کے مصحف میں آیات کا اضافہ نہیں تھا بلکہ جلالین کی طرح تفسیرلکھی۔ جب عرصہ بعد ابن مسعود کے مصحف کو کسی نے دیکھا تو اس کا پہلا اور آخری صفحہ پھٹ چکا تھا اسلئے راوی نے کہا کہ میں نے ابن مسعود کے مصحف کی زیارت کی لیکن اس میں سورة فاتحہ اور آخری دو سورتیں موجود نہیں تھیں۔ راوی کی بات کا بتنگڑ بنانے والوں نے قیاس آرائیوں سے ملمع سازی کا بازار گرم کردیا اور ابن مسعود کو قرآن کی آخری دوسورتوں کا منکر بنادیا۔ علامہ غلام رسول سعیدی نے رحم کردیا اور واضح کیا کہ ابن مسعود کے وقت میں قرآن پر اجماع نہیں تھا اسلئے وہ کافر نہ تھے مگر اب اجماع ہوگیا ہے اسلئے کوئی اس کا انکار کردے تو کافر ہوگا۔مگریہ نہیں سوچا کہ اجماع کو قرآن اور صحابہ پر مقدم کردیا۔
جمہور اور اجماع میں فرق ہے۔ اجماع کا معنی یہ ہے کہ کوئی ایک فرد یا گروہ بھی اس کا مخالف نہ ہو۔ امت مسلمہ کا کمال یہی ہے کہ اختلافات ہی اختلافات ہیں لیکن گمراہی کی کسی بات پر بھی الحمدللہ آج تک کسی دورمیں اجماع نہیں ہوا۔

جاگیرداری وسودی نظام اصل مسئلہ
علماء ومفتیان اور مذہبی طبقات ہٹ دھرمی اور بے ایمانی کو چھوڑ کر مدارس کا نصاب درست کریں۔ پاکستان ، افغانستان ، سعودیہ، ایران اور دنیا بھر سے علماء و مفتیان کو دعوت دی جائے تاکہ ایک سلیس نصاب کیلئے دین کو اجنبیت سے ہم باہر نکالنے میں اپنا زبردست کردار ادا کریں۔ جب سود کی حرمت کی آیات نازل ہوئیں تو نبیۖ نے مزارعت کو بھی سود قرار دے دیا۔ کاشتکاروں کو کاشت کیلئے مفت میں زمین دینے کا حکم فرمایا۔ غلام ولونڈی کا نظام جاگیرداری کی وجہ سے ہی دنیا میں آیاتھا۔ جنگوں میں ابوسفیان اور اس کی بیگم ہند سے کلبھوشن یادیواور ابھی نندن تک کسی کو گھر کا غلام اور لونڈی بناکر خدمت لینا مشکل نہیں ناممکن بھی ہے۔ نبیۖ نے جاگیردارانہ نظام کو سود قرار دیا تو مزارعین کی غلامی کا دروازہ بند ہوگیا۔ فقہ کے چاروں امام نے احادیث کے مطابق مزارعت کو ناجائز قرار دیا تھا لیکن حیلہ سازوں نے پھر قرآن وسنت اور فقہ کے ائمہ کرام سے انحراف کیا اورجاگیرداری کو جواز بخش دیا۔ پہلے جاگیرداری نظام واحد وجہ تھی جس سے لوگ لونڈی اور غلام بنانے کے دھندے کو تقویت دیتے تھے اور آج بینکنگ کا نظام وہ ناسور ہے جس سے پورے کے پورے ملکوں کو عالمی طاقتیں اپنا غلام بنارہی ہیں اور اس کو بھی آج نہ صرف اسلامی قرار دیا گیا بلکہ پاکستان کے ائیرپورٹ اورموٹر وے کو بھی گروی رکھ دیا گیا ہے۔ جب ہمارے پاس سودی قرض اتارنے کیلئے کچھ نہیں ہوگا تو عالمی طاقتیں ائیرپورٹ اور موٹر وے پر قابض ہوجائیں گی اور جس طرح صدام حسین کو عراق کے ججوں نے پھانسی کے پھندے پر چڑھایا اور عراق کا ڈھانچہ امریکہ کیلئے استعمال ہوا ، اس سے بڑھ کر عالمی طاقتیں پاکستان کو ایٹمی قوت ہونے کے باجود اونٹ کی طرح ناک میں نکیل ڈال دیں گی۔ اور ہماری عدالتوں ، پولیس اور فوج کی طرف سے غلامی کو بصد خوشی قبول کیا جائیگا۔
طالبان افغانستان کو اپنی حکمت عملی سے امن وامان کا گہوارہ بنائیں اور سود کی لعنت سے حلالہ کی لعنت تک اپنی جان چھڑائیں۔ جب عورتوں کو اسلام کے مطابق آزادی اور تحفظ ملے گا تو دنیا بھر سے اتنے سیاح آئیں گے کہ ان کی اپنی معیشت بہت مضبوط ہوجائے گی۔ افغانستان اور وزیرستان میں غیرملکی سیاح اسلئے نہیں آتے تھے کہ خواتین اور فیملی والوں کے دلوں میں ایک خوف تھا جس کو اسلامی احکام کے ذریعے تحفظ دیکر دنیا بھر سے نکالا جاسکتا ہے۔
جس دن طالبان نے عورت کے اسلامی حقوق کا نمبر وار اعلان کرکے اپنے آئین کو دنیا کے سامنے پیش کردیا تو پاکستان کی خواتین بھی اپنا ووٹ اسلام کے حق میں استعمال کریں گی۔ بندوق اور بارود کی جگہ گھروں میں اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ شروع ہوجائے گا۔ اسلامی حدود کے اجراء کو دنیا بھر میں بہترین اور قابلِ عمل قرار دیا جائے گا ۔ افغانستان، پاکستان، عراق، شام ، لیبیا اور دنیا بھر کی عوام جنگ وجدل سے تنگ آچکے ہیں۔ دنیا کو امن وامان کا گہوارہ بنانے کیلئے افغانستان کے طالبان کا کردار سب سے اہم ہوسکتا ہے۔ حلالہ واحد سزا ہے جس کی لعنت کو علماء کرام نے زندہ کر رکھا ہے مگر یہ بھی قطعی طورپراسلام نہیں ہے۔
جب تک لعان کے حکم پر عمل، حلالہ کے بغیر رجوع کی آیات اور عورت کے جملہ حقوق کا معاملہ زندہ نہیں ہوتا تو اسلام کو اقتدار کی دہلیز تک پہنچانا ممکن نہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

جے یو آئی کے مولانا فضل غفور کا نبیۖ کے بارے میں مولانا ادریس کا خواب بیان کرنا اور اس پر گستاخی کے فتوے اور وضاحتوں پر وضاحتیں۔

جے یو آئی کے مولانا فضل غفور کا نبیۖ کے بارے میں مولانا ادریس کا خواب بیان کرنا اور اس پر گستاخی کے فتوے اور وضاحتوں پر وضاحتیں۔خواب میں نبیۖ کے ستر کا کھلا ہونا اور پاکستان کے. علماء کا ستر کو چھپانے کی کوشش اور شہزادہ محمد بن سلمان کا نبیۖ کے پاؤں کی انگلیوں اورعمران خان کا .ہاتھوں کیand انگلیوں کو کاٹنا اور نبیۖ کا رُخ مشرق کی طرف ہونا اور اس کی تعبیر کہ عرب سے حیاء نکل گئی اور پاکستانی علماء نے دین کی مدد کرنی ہے؟

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

امام ابن سیرین نے اپنی کتاب ”تعبیر الرویائ” میںand لکھا ہے کہ خواب میں برے شخص کے ستر کھلنے کی تعبیریہ ہے کہ اس کی برائی ظاہر ہوگی اور نیک شخص. کی تعبیر یہand ہے کہ اس کی اچھائی ظاہر ہوگی۔ یوم تبلیMaulana Fazal Ghafoor السرائر ” اس دن پوشیدہ راز ظاہر ہونگے”۔

_ مولانا فضل غفور پر گستاخی کے فتوے_

ایک دیوبندی عالم دین نے کہا. کہ جمعیت علماءand اسلام بونیر کے مولانا فضل غفور نے نبیۖ کی شان میں جو گستاخی کی ہے اس کا دوہرانا بھی مناسب نہیں ۔ اس کو گولی مار کر اس کی لاش کو چوک پر لٹکایا جائے۔
اگر کوئی جذباتی مسلمان اُٹھ کر. اس کو قتل کردے اور عوام میں ایسی فضاء بن جائے کہ مشعال خان کی طرح اس کی لاش کو بھی دفن کے بعد خطرہ ہو تو اپنے بھی مولانا فضل غفور کے فعل سے برأت کا اعلان کریں گے۔ جب جنید جمشیدپر ایک گستاخی کا الزام لگا تھا تو اس کے دیرینہ دلدادہ مولانا طارق جمیل نے بھی پھر جنید جمشید کی حمایت اور ہمدردی میں نہیں مخالفت میں بیان دیا تھا۔

جنید جمشید کی قسمت اسلئےso اچھی تھی کہ اس نے ” دل دل جان جان پاکستان” پڑھا تھا۔ ورنہ دوبارہ اس کے منظر عام پر آنے کا کوئی چانس نہیں بن سکتا تھا اور وہso کسی. حادثے کا بھی شکار ہوسکتا تھا۔ مذہبی جنونیوں کی طرف سے جو فضاء تیار کی جاتی ہے اس کو خاص سیاسی مقاصد کی خاطر زبردست طریقے سے پذیرائی ملتی ہے۔


مولانا فضل غفور کا تعلق ایک مضبوط سیاسیand جماعت جمعیت علماء اسلام سے ہے لیکن مذہبی جنون کے سامنے طاقتور سے طاقتور انسانوں کو بھی بڑے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ جب andذوالفقارMaulana Fazal Ghafoor علی بھٹو نے قادیانیتso کے کفر پر. دستخط کئے تو کہا کہ ” میں اپنی موت کے پروانے پر دستخط کررہا ہوں”۔

پھربھٹو نے .جس andکیس میں پھانسی کی سزا کھائی توso قاتل قادیانی تھا اور وہ وعدہ معاف گواہ بن کر چھوٹ گیا لیکن بھٹو کے خلاف عدالت نے پھانسیand کافیصلہ کیا۔پارلیمنٹ نے قادیانیت کے خلاف فیصلہ کیا۔ پھر قومی اتحاد بھٹو کے خلاف کافر کافر کے نعرے لگا رہا تھا۔


جنرل ضیاء الحق نے اپنے بیٹے ڈاکٹر انوارالحقand کا نکاح جنرل رحیم الدین کی. بیٹی سے کردیا لیکن جب عوامی جذبات کا خدشہ ہوا تو امتناع قادیانیت آرڈنینس جاری کردیا اور پھرجہاز کے حادثے میں شکار ہونے پر قوم نے مٹھائیاں بانٹیں۔

_ علماء کاایکدوسرے کیخلاف فتویٰ_


مولانا محمد یوسف لدھیانویso شہید کی کتاب ” عصر. حاضر حدیث نبویۖ کے آئینہ میں” اس دور میںایک زبردست رہنمائی کا ذریعہ ہے۔ عربی کی متعدد غلطیوںso اور کچھ احادیث .کا غلط ترجمہ اور تشریحMaulana Fazal Ghafoor بیان کرنے کے باوجود اس کتابچہ کی بہت زیادہ افادیت ہے۔

ایک حدیث یہ ہے کہ رسولso اللہۖ نے .فرمایاکہ ” گمان ہے. کہ ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا اور قرآن کے صرف الفاظ باقی رہ جائیںso گے ، ان. کی مساجد آباد ہوں گی مگر ہدایت سے خالی ہوں گی اور ان کے علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے۔ فتنہ انہی سے نکلے گا اور انہی میں لوٹ جائے گا”۔

test


مولانا فضل غفور نے اپنے وضاحتی بیان میں andدو احادیث بیان. کی ہیں ،ایک یہ کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایاکہ ” نبوت میں سے کچھ باقی نہیں بچا مگر مبشرات۔ اور مبشرات سے مراد رویائے andصالحہ ہیں”۔ دوسری حدیث یہso بیان کی. کہ ” نبوت کا 46واں حصہ رہ گیا ہے اور وہ رویائے صالحہ ہیں”۔

test

دونوں احادیث صحیح ہیں لیکنand اس کے ترجمے غلط کئے جاتے ہیں۔ عربی .میں نبوت غیب کی خبروں کو بھی کہتے ہیں۔ یہاں نبوت سے مراد غیب کی خبریں ہیں۔ اگرand نبوت کا چھیالیسواں حصہ رہ گیاso تو پھر. ختم نبوت پر ایمان کیسے ہوسکتا ہے؟۔ رویائے صالحہso سے مراد نیک .خواب نہیںso بلکہ وہ خواب ہیں جو شیطان کی دسترس سے محفوظ ہوں۔ ضروری نہیں ہے کہ کوئی نیک آدمی خواب دیکھے تو اس کا خواب شیطان کی دسترس سے محفوظ بھی ہو۔

test

علماء ایک دوسرے کے خلاف عوام کو اشتعالand دلانے میں مصروف. ہیں اورso اسلام کے ظاہری الفاظso .اور تعبیرات کو درست کرنے کیلئے کھلی آنکھوں سے تیار نہیں ہیںso تو خوابوں کی تعبیرso کو اپنے. مقاصد کیلئے استعمال کرنے. کا کیا جواز ہے؟۔ کہیں خواب کی تعبیر یہ تو نہیں ہے کہ حکمرانso اسلام کا بھلا کرنا. چاہتے ہیں مگر علماء اس میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں؟۔ خواب کی تعبیر ایک بالکل الگ علم ہے۔

علماء جب حکمرانوں سے مل جائیں


مولانا یوسف لدھیانویso کی کتاب ” عصر حاضر” .میں ایک حدیث یہ ہے کہ ” علماء دین کے محافظ اور نگران ہیں لیکن جب یہ اہل اقتدار سے مل جائیں اور دنیا میں گھس جائیں تو پھر ان سے الگ ہوجاؤ”۔
جمعیت علماء اسلام نے جبso تک اپوزیشن کی سیاست. کی تو وہ دین کی محافظ تھی لیکن جب باری باری اقتدار کے مزے اڑانے لگی تو اس نے دنیا میں گھس. کر دین کی حفاظت اور. نگرانی چھوڑ دی۔

جنرل ضیاء الحق ، بینظیر بھٹو کے پہلے دور اور اسلامی جمہور ی اتحاد کے دور 1981ء سے1992ء تکso مولانا فضل الرحمن .عوامی جلسوں میںMaulana Fazal Ghafoor بینک سے زکوٰة کے نام پر سود کی کٹوتی کو ”شراب کی بوتل پر آب زم زم کا لیبل ”قرارso دیتا تھا۔

پھر. جب. 1993ء میں بینظیر بھٹو دوسری بار اقتدار میں آئی اور مولانا فضل الرحمن کو اقتدار میں شریک کرلیا تو مفادات اٹھانےso کے نتیجے میں. اپنی جماعت کے لوگوں کو زکوٰة کمیٹی کا چیئرمین بنانا شروع کیا۔ پھر شریعت کا حکم سیاست، دنیا اور اپنے مفادات کی نذر کر کے غرقاب کردیا تھا۔

test


حکمران جب علماء کو اقتدار میں شریک کرتے. ہیں تو اپنےand تابع بنانے کیلئے ان کی soعزت افزائی نہیں. کرتے بلکہ تذلیل کرتے ہیں۔ وزیرستان کے MNA مولانا نور محمد نے اسلامی جمہوری اتحاد.. میں شمولیتand اختیار کی تھی تو اس کوso .فلموں کی سنسر شپ کا نوازشریف نے وفاقی وزیر بنایا تھا۔ جس پر روزنامہ اوصاف اخبار میں andزبردست کارٹون سے تصویر soکشی کی گئی تھی۔

بھٹو. کے دور میں ختم نبوت کے حق میں قرار داد پر بقول مفتی .منیب الرandحمن کے مولانا غلام غوث. ہزاروی اور مولانا عبد الحکیم نے جمعیت علماء اسلام کے MNAہونے کے باجوandد بھی اسلئے soدستخط نہیں. کئے کہ وہ پیپلزپارٹی کی Maulana Fazal Ghafoorصف میں شامل ہوگئے تھے۔
علماء کرام اور مفتیانِ عظام کو چاہیے کہ پاکستانand اور افغانستان میں درست اسلامیso احکام کا نقشہ پیش کرکے. اس کو نافذ کریں تاکہ دنیا میں انقلاب آجائے۔

قادیانی اور نوازشریف دور کا وہ بل


نوازشریف نے جنرل قمر جاوید باجوہ. کو آرمی چیف بنایا تو سوشل میڈیا پر یہ خبریں بھی گردش کرنے لگیں کہ آرمی چیف قادیانی ہے۔ شاید نوازشریف کی بھی ناک. میں بھنک. تھی تو اسلئے آرمی چیف بنایا تھا۔اوریا مقبول جان نے آکر آرمی چیف کے حق میں ایک خواب بھی بتادیا تھا۔ بہرحال نوازشریف. نے اپنے دور میں قادیانیوں پر ایک احسان کرنا چاہا تھا اور وہ جانتا تھا کہ بھٹو اور جنرل ضیاء نے بھی اس طاقتور گروپ سے آخر کارمار کھائی. تھی۔ پارلیمنٹ سے بل پاس ہواتھا تو جمعیت علماء اسلام ن لیگ کی اتحادی تھی۔ جب مولانا فضل الرحمن ق لیگ کےso قریب تھے تو چوہدری شجاعت حسین نے قادیانی امریکن ڈاکٹر مبشر سے مولانا کو دل کے وال لگوائے تھے۔

test

مولانا عبدالغفور حیدری نے وفاق المدارس کے ایک پروگرامand میں اپنی اہمیت جتاتے ہوئے soبتایا تھا کہ ” جب قومی اسمبلی سے بل پاس ہوگیا تو مجھے دل میں ڈر تھا کہ اگر. سینٹ سے یہ پاس ہوگیاand تو پھر مجھے چیئرمین کیso .غیر موجودگی میں ڈپٹی چیئرمین سینٹ کی حیثیت سے دستخط کرنے پڑیں گے لیکن. شکر ہے کہ بل سینٹ andمیں ناکام. ہوا۔ پھرMaulana Fazal Ghafoor جب بلso کو پاس کرانے کیلئے قومی اسمبلی اور سینٹ کا مشترکہ اجلاس ہوا تو شیخ رشید. نے جمعیت علماء اسلامand کی بھیگی. بلیوں کوso بھی سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور علماء دیوبند کے اکابرین کی قربانیاں یاد دلائیںتھیں مگرand اقتدار کے نشے میں soدھت علماء ومفتیان ٹس سے. مس نہیں ہورہے تھے۔

test


اگر علماء کرام نے بروقت ہوش کے ناخن. نہیں. لئے اور اقتدار کے چکر میں اسلام کے حق کو ادا کرنے کی ذمہ داری پوری نہیں کی تو پھر عوام کا جمِ غفیر اُٹھے گا۔ علامہ خادم. حسین. رضوی نے ختم نبوت کیلئے جو قربانی دی وہ ایک تحریک تھی جس پر اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد کا الزام بھی لگا۔ چلو اورand کچھ نہیں. تو جنرل باجوہ سے قادیانی ہونے کا داغ تو دھل. گیا لیکن جب عوام کا شعور اٹھے گا تو علماء ومفتیان کا کیا حال بنے گا؟۔ شریف اور اللہ والے اٹھیں اور اسلام کیلئے کھل کر آواز اٹھائیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

جنوبی وزیرستان محسود قوم کے صدر مقام مکین میں کے قائد مولانا فضل الرحمن اور کے کامیاب جلسے شعور کی بیداری کیلئے مبارکباد کے مستحق ہیں

جنوبی وزیرستان محسود قوم کے صدر مقام مکین میں کے قائد مولانا فضل الرحمن اور کے کامیاب جلسے شعور کی بیداری کیلئے مبارکباد کے مستحق ہیں،انسان میں شر کا مادہ کم اور خیر کا زیادہ ہے مگر شر کے ماحول سے نکلنے کیلئے خیر کی فضاء پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی اسلام ہے!کشمیر اور ڈیورنڈ لائن سے زیادہ اندرونی معاملات و مسائل سے خطرہ ہے

جنوبی وزیرستان کی محسود قوم بہادر، آزاد منش، انسانیت کے اعلیٰ اقدارکے علاوہ انتہائی درجے کی مالی لالچ بھی رکھتی ہے۔ نقیب شہید کو محسود، پختون ، آرمی چیف اور پاکستان کی جملہ سیاسی قائدین ، حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے جس طرح کا پروٹوکول مل گیا وہ قوموں کی تاریخ بدلنے کا انقلابی حصہ ہوتا ہے لیکن پھر بھی نقیب شہید کے والد نے مراعات کی لالچ سے سب کچھ پر پانی پھیر دیا تھا۔
امریکہ کی مخالفت میں تحریک طالبان پاکستان کو بیت اللہ محسود کی قیادت میں جس طرح کی مقبولیت مل گئی تو اس سے وزیرستان کے محسودپوری دنیا کے بڑے امام بھی بن سکتے تھے مگر لالچ اور بدکرداری نے نہ صرف ریاست کی نظر میں (TTP) کو گرادیا بلکہ اتفاقِ رائے سے قومی قیادت نے قومی ایکشن پلان کے ذریعے سے قبائل اور ملک بھر سے اس کو دہشت گرد قرار دیکر اس کے خاتمے کا لائحۂ عمل بھی تشکیل دیا تھا۔ پھر پختون نوجوانوں نے منظور پشتین کی قیادت میں (PTM) کی تحریک سے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کو بھی ہلا ڈالا تھا مگر اب رفتہ رفتہ( PTM) بھی اپنے منطقی انجام کی طرف پہنچ رہی ہے۔ کامیاب اجتماع اور جلسہ تحریکوں اور جماعتوں کی کامیابی کا معیار ہوتا تو تبلیغی جماعت ،دعوت اسلامی، جمعیت علماء اسلام، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم، پیپلزپارٹی، مسلم لیگ، عورت آزادی مارچ اورتماشوں میں ناچنے والی لڑکیوںکے گرد جمع ہونیوالے اجتماعات بھی کامیابی کا معیار قرار پاتے۔ سیاسی جلسوں میں پیسہ پھینک تماشہ دیکھ والی کہانی بھی ہوتی ہے۔ مریم نواز نے اپنی اداؤں سے کشمیریوں کو ورغلانے کی ناکام کوشش کی تھی مگر کشمیریوں نے پاکستان مردہ باد اور آزاد وخود مختار کشمیرکے نعرے بھی لگادئیے۔
ایک بڑے ذمہ دار فوجی افسر کو آزادکشمیر کا وزیراعظم بننے کیلئے ایک ارب دیا گیااور اس کو برطرف بھی کردیا گیا جس پر نوازشریف کے حامی سوشل میڈیاکے صحافی سید عمران شفقت نے جنرل قمر جاوید باجوہ کی نہ صرف تعریف کی بلکہ یہ بھی کہا کہ ”مجھ پر خوامخواہ کا الزام ہے کہ میں جنرل باجوہ اور فوج کی مخالفت کرتا ہوں، یہ لوگ ہمارے محسن ہیں اور جوانسانوں کا شکریہ ادا نہیں کرتاہے وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کرتاہے”۔قرآن میں منافق اعرابیوں کی یہ مثال دی گئی ہے کہ جب ان کو خیر پہنچتی ہے تو خوش ہوتے ہیں اور جب تکلیف پہنچتی ہے تو پھر دوسری زبان میں بات کرتے ہیں۔ یہی انسانی فطرت کا اصل مزاج بھی قرآن نے ہر جگہ بیان کیا ہے لیکن تعلیم وتربیت اور ایمان واسلام کی بدولت اس پر کنٹرول کرنا بھی اچھے انسانوں اور اچھے مسلمانوں کا زبردست فرض بنتا ہے۔
یہ دنیا دار الامتحان ہے جس میں انسان کی عزت بڑھ جاتی ہے یا اس کی بے عزتی ہوجاتی ہے۔ نوازشریف اور مریم نواز کو اپنے بیانیہ میں شہبازشریف اور حمزہ شہباز سے اختلاف ہو یا منصوبہ بندی کیساتھ سب کچھ ہورہاہو لیکن دونوں ہی اصل الاصل میںایک ہی ماں باپ کے روحانی اور جسمانی اولادیں ہیں۔ 3 بار وزیراعظم اور پنجاب کے وزیراعلیٰ کا منصب بار بار ملنے کے بعد کونسا انقلاب برپا کیا ہے جو اب ان سے بڑے انقلاب کی زبردست توقع رکھی جائے؟۔
وزیراعظم عمران خان کہا کرتا تھا کہ ”مجھے اللہ نے سب کچھ دیا ہے ۔ عوام کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے وزیراعظم بننے کی خواہش رکھتا ہوں”۔ پاکستان کا وزیراعظم بننا کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ معین قریشی،ظفر اللہ جمالی اور شوکت عزیز سے پہلے بھی بہت وزیراعظم بن گئے اور بعد میں بھی بنتے رہے ہیں اور شاید پھر بھی بنتے رہیںگے لیکن عمران خان سے کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ اب وزیراعظم کی دولاکھ روپے اور مراعات پر مشکل سے گزارا ہورہاہے تو پہلے کونسی دکان چل رہی تھی جو اب وزیراعظم بننے کے بعد بند ہوگئی ہے۔ جب بنی گالہ کا گھر تک بھی یہودن جمائما خان نے گفٹ کردیا تھا اور وہ متاع عزیز عورت بھی جب ہاتھوں سے نکل گئی ہے تو پھر جہانگیر ترین کے ٹکڑوں پر گزارا کیا اور اب اس متاع عزیز کو بھی کھو دیا ہے تو یہ کیوں نہیں کہتے کہ ” وہ جو کہتا تھا کہ اللہ نے سب کچھ دیا ہے وہ امپائر کی انگلی کی طرح اینویں سیاسی بکواس ہی کا معاملہ تھا؟”۔
پاکستان کی ایک سرحد پر کشمیر اور دوسری سرحد پر ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ ہے اور اس کو بیرونی خطرات سے زیادہ اپنے اندر کے ناکام سیاسی، ریاستی ، معاشی اور معاشرتی نظام سے خطرات لاحق ہیں۔ مولانا فضل الرحمن اور (PTM)کے منظور پشتین کے جنوبی وزیرستان میں ایکدوسرے سے تضادات اور خلفشار عوام کے سامنے کھل کر سامنے آئے لیکن دونوں نے بڑے مہذب انداز میں سیاسی شعور کا ثبوت دیکر عوام کے جذبات کو مشتعل نہیں کیابلکہ دلائل سے اپنا اپنا مؤقف پیش کردیا۔ محسود قوم بہت سیاسی اور فطری شعور سے مالامال ہے، اگر کوئی اشتعال انگیزی کی کوشش کرتا تو عوام کی نظروں میں اسی نے گرجانا تھا۔
محسود قوم کی تاریخ میں یہ پہلے قومی سیاست کے تاریخی جلسے تھے۔ عوام کے شعور میں خاطر خوا اضافہ بھی ہوا ہوگا۔جب پہلی مرتبہ ہمارے گاؤں جٹہ قلعہ گومل میں میرے بھائی پیرنثار نے جمعیت علماء کا جلسہ کروایا تھا تو مولانا فضل الرحمن نے پرتکلف دعوت کو دیکھ کر مجھ سے کہا تھا کہ” اس کو آپ ناشتہ کہتے ہیں؟”۔ ایک محسود حاجی نے میرے بھائی سے کہا تھا کہ ”پیر صاحب ! اس دعوت کے یہ لوگ مستحق نہیں ہیں، ان کیلئے ایسا شوربہ ایسے برتن میں رکھا جائے کہ کہنیوں تک اپنے ہاتھوں کو اس میں ڈبودیں”۔ میرے بھائی کو غصہ تو بہت آیا مگر گھر بلائے ہوئے مہمان کی عزت کا مسئلہ سمجھ کر بات رفع دفع کردی۔ میرے ایک مجذوب قسم کے بھتیجے نے اس وقت کہا تھا کہ جب بینظیر بھٹو کے دوسری مرتبہ دورِ حکومت میں پہلی مرتبہ مولانا فضل الرحمن نے شرکت اختیار کی تھی کہ ” اپنے چچا سے ڈر لگتا ہے ،ورنہ دل چاہتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے چوتڑ کے نیچے بم رکھ دوں جو اس کے چھیتڑے اُڑائے اور پھر اس کے جوتے، رومال اور واسکٹ بھی بینظیر بھٹو کو بھیج دوں کہ یہ سنبھالو اور اپنے پاس تبرک کیلئے اب رکھ لو”۔
اب مولانا فضل الرحمن نے اونچی اُڑان بھر لی اور وہ وقت گیا جب کوئی محسود حاجی اس طرح کی بات کرتا تھا لیکن گئے وقت کی یادوں سے شعور اور کسی بھی طبقے اور قوم میں شدت پسندی کے رحجانات کا پتہ چلتا ہے۔ جب روس کے دور میں افغانستان کے اندر لڑائی تھی تب بھی پختونخواہ میںعوام دھماکوں کا شکار بنتی تھی اور جب امریکہ آیا تب بھی عوام دھماکوں کا شکار بنتی تھی۔ پہلے قوم پرست اور بعد میں مذہب پرست دھماکوں کی نظریاتی حمایت کرتے تھے اور مجذوبوں کو ہی پیسے دیکر دھماکوں میں استعمال کیا جارہاتھا اوراصل غلطی ہماری اپنی ہی تھی۔
مولانا فضل الرحمن، منظور پشتین، محسن داوڑ اور دیگر اپنی بات کو بڑی شائستہ انداز میں پیش کرتے ہیں لیکن پھر مجذوب ، نیم پاگل اور جنونی قسم کے لوگ پیسہ لیکر دھماکوں کیلئے استعمال بھی ہوتے ہیں۔ دوسری قوموں کی عورتیں اور لڑکیاں ناچ گانوں کیلئے استعمال ہوتی ہیں اور پشتونوں میں لڑکوں کو ناچ گانے میں اسی طرح استعمال کرنے کا رواج تھا جس کو ناٹوائی کہاجاتا تھا۔ جس قوم میں ناٹوائی ملتے ہوں تو اس میں دوسرے کاموں کیلئے کیا کیا کس کس کام کیلئے لوگ نہیں ملتے ہونگے؟۔ دوسروں کو براکہنے سے پہلے اپنے گریبانوں بھی میں جھانکنے کی سخت ضرورت ہے۔جو قوم اپنا احتساب نہیں کرسکتی ہے وہ انقلاب نہیں لاسکتی ہے۔
جب شیعہ نے ایرانی انقلاب برپا کردیا تو سب سے پہلے احتساب کے عمل سے گزرنا پڑا۔ شیعہ مسجد کے امام کو پیش نماز کہتے تھے لیکن پھر پہلی مرتبہ آیت اللہ خمینی کو اپنا ” امام ” بنانے کا اعلان کردیا تھا۔ ورنہ شیعہ کسی کو بھی حضرت علی سے مہدی ٔ غائب تک بارہ اماموں کے علاوہ 13واںامام کہنا شرعاً غلط سمجھتے تھے۔
امارت اسلامیہ افغانستان کے طالبان اگر اپنی پوری پود ختم کرکے تاریخ کا ایک ورق بننے کی بجائے اپنے آپ کو تاریخ میں زندہ وتابندہ رکھنا چاہتے ہیں تو وہ حکومت کے حصول کیلئے لڑنے مرنے کے بجائے اپنی زبردست اصلاحات کا اعلان کردیں۔ مولانا فضل الرحمن نے خراسان کے دجال کی حدیث نکال کر ان پر فٹ کردی تھی لیکن وہ اب خراسان کے مہدی کا کردار بھی ادا کرسکتے ہیں۔ حدیث ہے کہ ” اسلام اور اقتدار دوجڑواں بھائی ہیں، جو ایکدوسرے کے بغیر صحیح نہیں ہوسکتے ہیں۔ اسلام بنیاد ہے اور اقتدار اس کا محافظ ہے”۔ اسلام وہ دین ہے جس میں زبردستی کا کوئی تصور نہیں ۔ زبردستی کا اقتدار اسلامی نہیں۔ اسلام دین ہے اور دین کا تعلق اللہ کی وحی اور رسول اللہۖ کی سنت سے ہے۔ اقتدار باہمی مشاورت اور انسانوں کی مرضی سے نظام ِ حکومت تشکیل دینے کا نام بھی ہے اور فرعونیت اور ظالمانہ نظام کو بھی اقتدار کہتے ہیں۔ مکی دور میں اقتدار نہیں تھا اور مدنی دور میں مسلمانوں کو عوام کی مرضی سے اقتدار ملا۔ اگر انصار ومہاجرین اور قریش و اہلبیت طاقت کے زور پراقتدار حاصل کرتے تو یہ خلافتِ راشدہ کا نظام نہیں ہوتا۔ بعد کے ادوار نے خاندانی بنیادوں پر زبردستی سے ایکدوسرے کو قتل کرکے اقتدار پر قبضے کئے تو وہ طرزِ نبوت کی خلافت کا منہاج نہیں کہلایا۔
اگر داڑھی، پردے ، نماز اور دوسری چیزوں میں زبردستی کے اسلام سے اب افغان طالبان ہٹ گئے ہیں تو زبردستی سے اقتدار پر قبضہ کرنے کا خواب دیکھنا بھی چھوڑ دیں۔ یہ ہماری طرف سے خیرخواہی کا مشورہ ہے۔ افغان حکومت سے جنگوں میں بہت سارا اپنا جانی نقصان کرنے کے بعد پھر وہ جمہوری بنیادوں پر جنگ جیتنے کے قابل نہیں رہیںگے۔ امریکہ کے نکل جانے کے بعد دنیا میں دربدر کی ٹھوکریں کھانے کے بجائے کابل میں ڈاکٹراشرف غنی جیسے دلیر افغان، پٹھان اورمسلمان کیساتھ مل بیٹھ کر مہذب اپوزیشن کا کردار بھی ادا کریں جو توپ اور میزائل کے گھن گرج میں جلسہ چھوڑ کر نہیں بھاگتا ہے اور نہ ہی نماز میں اس پر کوئی اثر پڑتا ہے۔ ڈاکٹر اشرف غنی کے صدارتی محل میں حملوں پر خوشی کا اظہار بھی غلط ہے اور فیصل مسجد میں صدر عارف علوی کا عید کی نماز میں غلطی سے امام سے پہلے اپنے ساتھیوں سمیت رکوع میں جانے پر مذاق اُڑانا بھی غلط ہے۔
مولانا فضل الرحمن اور منظور پشتین کا پشتو ن قوم، افغانستان وپاکستان اور دنیا کو مشکلات سے نکالنے کیلئے ذاتی نوک جھونک کی بجائے وہ نظریہ اور عقیدہ ضروری ہے جو نہ صرف اپنے علاقے، ملک اور خطے کو بلکہ پوری انسانیت کو نجات کے راستے پر ڈال دے اور یہ اصلی اسلام ہے۔ ہر گھر میں کوئی مذہبی ،کوئی سیکولر، کوئی سیاسی ، کوئی غیرسیاسی اور کوئی تحریکی ، کوئی سرد مہری والاہوتا ہے۔ پھولوں کے اختلاف رنگ وبو سے ہی گلشن کی زینت ہے۔ اگر طالبان معروف افغان کامیڈین کو قتل کرنے کے بجائے اپنے اسٹیج سے کامیڈی کرواتے تو عوام کو افغان طالبان کی فکر میں انقلابی اور خوشگوار تبدیلی دکھائی دیتی۔ ایک صحابی جو لوگوں کو ہنساتے تھے ، نبیۖ نے اس کا نام حمار رکھا تھا لیکن اس کو برا بھلا کہنے سے بھی نبیۖ نے روک دیا تھا کہ مسلمانوں سے اور نبیۖ سے محبت رکھتا تھا۔ منظور پشین کی ٹیم میں شامل طالبان کامیڈین کی فیک ویڈیوز شیئر کرتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن اور منظور پشتین ومحسن داوڑ کا اختلاف سنجیدہ بات نہیں۔ جب امریکہ آیا تو علماء وطلباء سے زیادہ عوام نے بھڑکیاں مار یں۔ علماء وطلباء نے چندے زیادہ کھائے اور جہاد کم کیا لیکن عوام نے بڑے پیمانے پر طالبان کا ایسا ساتھ دیا کہ ریاست سمیت پوری قوم اور سیاسی قیادت بھی ان کی حمایت پر مجبور تھی ،یہ حمایت بھی دل وجان ہی سے تھی اور پھر رفتہ رفتہ فضاء بدل گئی اور طالبان کو ISI کی سازش کا نتیجہ قرار دیا جانے لگا۔ اپنی پوٹی پر دوسرے کے بڑوں کو بچوں کی طرح پدو مارنے کیلئے نہیں بٹھایا جاسکتا۔ پختون طالبان ایکدوسرے سے انتقام لے رہے تھے۔ پھر سارا الزام فوج پر لگادیا کہ ”یہ جو دہشتگردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے”۔ آج مولانا فضل الرحمن اور منظور پشتین سرینڈر طالبان کے سامنے سرنڈر ہیں اور امریکہ کے نکل جانے کے بعد افغانی لڑرہے ہیں۔
جب خڑ کمر میں( PTM)کے کارکن یا عوام مارے گئے تو محسن داوڑ نے جہاد کا بھی اعلان کردیا مگر پھر رضا کارانہ طور پر اپنی گرفتاری دیدی۔ عبداللہ نگیال بیٹنی اور بنوں کے حاجی عبدالصمد خان کے بیانات سوشل میڈیا پر آگئے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ (PTM)کی مرکزی قیادت میں کتنا تناؤ ہے جو پوری پشتون قوم کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھاکرنے کا عزم لئے ہوئے ہیں؟۔ اگر محسن داوڑ نے واقعی دتہ خیل کے جلسے میں منظور پشتین کی تقریر سے پہلے کہا تھا کہ جلسہ ختم ہواہے اور نہ صرف خود چلے گئے بلکہ دوسروں کو بھی جانے کا کہا تھا اور پھر مکین کے جلسے میں بھی زبردستی سے بن بلائے مہمان بن کر نہ صرف شرکت کی بلکہ تقریر بھی کرلی ہے تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ آئندہ یہ پشتون قوم کو کس طرح متحد کریںگے؟۔
عبداللہ نگیال نے(PTM)پر آپس کی قوم پرستی کے شدید الزامات لگائے اور عبدالصمد خان نے کھلی بدمعاشی اور گالی گلوچ کے الزامات لگائے۔ منظور پشتین ایک شریف انسان ہیں لیکن انقلابی تحریکیں تبلیغی جماعت کی طرز پر نہیں چلائی جاسکتی ہیں۔ انقلاب کیلئے اپنی خامیوں کو اصول کی بنیاد پر رعایت نہیں دی جاتی ہے بلکہ اپنی خامیوں پر قابو پاکر ہی قوم کو ایک مثبت انقلاب کی راہ پر ڈالا جا سکتا ہے۔ پوری دنیا میں یہ ٹرینڈ چل گیا کہ اپنی وکالت اور مخالف کی اچھائیوں کو بھی برائیوں میں بدل دیں۔ اسلام نے سب سے پہلے عرب قوم کو جاہلیت سے نکالا تھا۔ آج اگر اصلاح کی جگہ پر مفادات کی بنیاد پر لڑائیاں شروع ہوں گی تو جس طرح طالبان اپنے وقت کی پیداوار تھے اور پھر وہ اپنے لئے بڑی مصیبت بن گئے ، اپنی قوم کیلئے مصیبت بن گئے اور جس امریکہ سے لڑائی تھی اس سے صلح ہوگئی۔ محسن داوڑ نے عوامی نیشنل پارٹی کے بعد (PTM)اور پھر اپنی نئی پارٹی میں پشتون اور پنجابی سب کو شامل کیا ہے۔ جو خوش آئند بھی ہے لیکن پھر وہ کم ازکم زبردستی (PTM)کے پلیٹ فارم کو استعمال کرنے سے تو دریغ کرتے مگر وہ پھر بھی ایک پختون ہے اور پشتونوں کی جنگ اس انداز سے لڑرہاہے؟۔
فرقہ واریت، جہاد،قبیلہ پرستی ، کمیونزم ، اسٹیبلیشمنٹ مخالف نظریاتی رہنما وکارکن اور پدر شاہی نظام کے خلاف آواز اُٹھانے والوں سے پنجاب اور سندھ بھرا پڑا ہے لیکن پختون اور بلوچ نہ صرف ہتھیار اُٹھالیتے ہیں بلکہ آپس کی دھڑے بندیوں میں تقسیم ہوکر ایکدوسرے کو مارنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ مولانا فضل الرحمن کچے پودوں کی طرح چبانے اور(PTM)آپس کی چپقلش میں مبتلاء ہو تو الزام کس کے سر آئے گا؟۔ کامریڈلعل خان اورعاصمہ جہانگیرکی طرح نظریاتی لوگوںاور اسلامی جمعیت طلبہ،لشکر طیبہ، جیش محمد، سپاہ صحابہ، سپاہ محمد جیسی تنظیموں سے پنجاب بھرا پڑا ہے لیکن کرائے کے قاتل اور جنونی ہم ہی کیوں؟۔
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv